

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
- آبشارِ کرم
- آبشارِ کرم کا ایک اجمالی جائزہ
- کچھ یادیں کچھ باتیں
- عبد الصمد نورؔ سہارن پوری کی نعتیہ شاعری
- شمعِ ضیاء بار
- حمدِ باری تعالیٰ
- حضور آپؐ سے اللہ کو محبت ہے
- اویسِ قرنؓ سے پوچھو محب جب دور ہوتا ہے
- شان و شوکت مدحت و عظمت رسول اللہﷺ کی
- قلم کاغذ اور اِن میں روشنائی سانس لیتی ہے
- وحی کے قطع کا گزرا ہے جو عرصہ دیکھو
- نہ ہو مر کر بھی ہرگز بس ہماری
- ہے کوئی اضافہ نہ کہیں کوئی کمی ہے
- جو نعت کارِ سعادت ہوئی خضرؑ کے لیے
- کثرتِ انوار سے ہستی مری معمور ہے
- جہاں کو رشک میرے ضو فگن اشعار پر ہوتا
- محشر میں بھی نبیﷺ کا ہے گلزار برقرار
- حضورﷺ آپ جو تشریف لائے دنیا میں
- شہِ مدینہﷺ کا جو شخص بھی غلام ہوا
- قبر میں صلِّ علیٰ کی روشنی کام آ گئی
- خدائے پاک کی ایسی کوئی کتاب نہیں
- چارہ گر نایاب تھے جن کے غمِ جاں کے لیے
- اوج پر کتنی میری قسمت ہے
- ہر اک آسماں میں یہ چرچا ہوا ہے
- سکھایا آپﷺ نے ہم کو محبتیں کرنا
- یہاں خدا کی ثناء میں ہیں مصطفیٰﷺ مصروف
- چارہ گری کے دل کو جوہر دکھا دیے ہیں
- فرشتے اُن کا بڑا احترام کرتے ہیں
- مسلسل رحمتیں نازل خدا فرما رہا ہو گا
- تعلّق کی ہے انتہا اور کیا ہے
- آپﷺ کے نقشِ قدم کی پیروی ہے زندگی
- جس پہ ہے انصاف نازاں آپﷺ کا دربار ہے
- امتحاں گاہِ بشر کے یہ علاوہ کیا ہے
- دور دنیا کے غم ہو گئے ہیں چین سے نیند آنے لگی ہے
- نبیﷺ کی نعت کے صدقے کہاں تک
- سنوں میں جا کے اذاں کی صدا مدینے میں
- لائے پیغام صبا کاش بلانے کے لیے
- ذاتِ نبیﷺ سے رحمتِ حق کا نزول ہے
- دھوپ غم کی گم ہوئی رحمت کے بادل چھا گئے
- ہر اک لمحہ وہ اپنی زندگی کو شاد کرتا ہے
- جو التفاتِ شاہِ اممﷺ جانتے نہیں
- ظلمت میں ہر قدم پر روشن دیا ملے گا
- ہوئی نصیب جو قربت ذرا مدینے سے
- جو خیرات سے مصطفیٰﷺ کی بھرا ہو
- انبیاؑ میں سب سے بڑھ کر ہے فضیلت آپﷺ کی
- تصور میں ہے روضہ، گنبدِ خضریٰ کا منظر ہے
- جس کے لبوں پہ مدحت سرکارﷺ کی نہیں ہے
- ہے عرشِ مُعلّیٰ پہ دعوت نبیﷺ کی
- زلف ہے شب اور سحر ہے چہرۂ خیر البشرﷺ
- مل گئی جس کو رضائے مصطفیٰﷺ
- پیروی سے آپﷺ کی ہوتا ہے جو حاصل سکوں
- ہے اپنی وجہِ عظمت سرکارﷺ کی غلامی
- اے نورؔ اور کیا ہے اِس کے سوا حقیقت
- عرش پہ جلوۂ رب دیکھ کے آنے والے
- جو چمکا ارضِ یثرب پر وہ اک مہتاب نورانی
- نبیﷺ سے دل کا رشتہ چاہتا ہوں
- یا رسولِ محترمﷺ لطف و کرم
- ہیں زمانے میں وہی باعثِ عظمت رشتے
- موسیٰؑ سے کوہِ طور پہ کرتا رہا کلام
- جیسے نجوم سے ہیں ہفت آسماں مزیّن
- ہے جیسا اپنی یہ وسعتوں میں کوئی ہے ایسا کہاں احاطہ
- آپﷺ کے درسِ اُخوت نے کیا شیر و شکر
- حق نے جیسا آپﷺ کو بخشا خلوص
- جائیں گے رایگاں نہ یہ افکار بالخصوص
- عشقِ نبیﷺ میں جس نے بھی خود کو مٹا دیا
- آپ ہی اسلام کی حجت محمد مصطفیٰﷺ
- ہیں سوا اس سے نہ کچھ کم رحمۃ اللعالمینﷺ
- سیدِ لولاک، شاہِ مرسلیں، خیر الوریٰﷺ
- میرے سخن کو یارب اتنی تو اب جِلا دے
- دعا
آبشارِ کرم
مجموعۂ نعتِ خاتم الانبیاء
حضرت محمد مصطفیٰﷺ
عبد الصمد نورؔ سہارنپوری
انتساب
آباء و اجداد بالخصوص والدِ محترم (مرحوم)
شاہ شمشاد احمد (رحمہ اللہ علیہ)،
والدہ محترمہ (اطال اللہ عمہا) اور
محترم بھائی ڈاکٹر پروفیسر محمد فراہیم پیرزادہ (اطال اللہ عمرہٗ)
کے نام
قطعۂ تاریخِ اشاعت
فضلِ رب سے، بہ تحریکِ نوکِ قلم
ہے ورق در ورق ذکرِ شاہِ امم
اے قمرؔ کیوں نہ دل پر اثر ہو کہ ہے
صیقل و دل نشیں ’’آبشارِ کرم‘‘
۱۴۴۴ھ
از: قمرؔ وارثی
صنعتِ توشیع برائے مجموعۂ نعت ’’آبشارِ کرم‘‘ از پروفیسر ڈاکٹر حافظ مفتی عبد الصمد نورؔ سہارنپوری حفظہ اللہ
آ۔ آمدِ نعتِ نبی اعزاز ہے
ب۔ باعثِ عزّ و شرف ہے ناز ہے
ش۔ شاہِ والا کی ثنا ہے اس لیے
ا۔ ارتفاعِ نعت اک اعجاز ہے
ر۔ رفعتیں مرسلؔ ہیں اس کی بے حدود
ک۔ کارہائے فخر ہے، اعزاز ہے
ر۔ راستہ ہے جو رضاؔ، حسّانؔ کا
م۔ ما حصل وہ نورؔ کا انداز ہے
از: پروفیسر محمد عتیق شاہ مرسلؔ
آبشارِ کرم
سب تعریفیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہیں جس کی محبت حاصل کرنا تخلیق کا مقصد ٹھہرا، بے شمار درود و سلام رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ و سلّم کے لیے جن کی کامل محبت ایمان کو کامل کر دیتی ہے۔
امّی جان بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میرے رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا، میرے پاس جبرائیل علیہ السّلام حاضر ہوئے اور عرض کی میں نے مشرق و مغرب سب الٹ پلٹ کر دیکھے کوئی شخص حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم سے افضل نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا، اے میرے حبیب صلّی اللہ علیہ و سلّم فرما دیجیے، اے لوگو! تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہاری کمائی کے مال اور وہ تجارت جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کیے ہوئے مکان تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو ٹھہرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب اتارے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ جو بھی اللہ اور اس کے پیارے رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم کی کی محبت اور جہاد پر اپنے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، تمام کنبہ، مال و تجارت اور اپنے مکان کو ترجیح دے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت کو واجب قرار دیا۔ اب اس محبت کو حاصل کرنے کے لیے جو بھی ذرائع استعمال کیے جائیں گے، اس کی فضیلت انتہا تک پہنچتی ہے۔
حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی نعت آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی نعت شریف ہے۔ اس لیے کہنا پڑے گا نعت گو در اصل اللہ کی سنت ادا کرتا ہے اور جو نعت شریف کو سن کر رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت کو حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتا ہے اور کیونکہ نعت گو اس عمل میں وسیلہ بنتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وہ بھی حصّہ دار بن جاتا ہے۔
پروفیسر عبد الصّمد دورِ حاضر اور دورِ جدید کے ایک بہترین شاعر ہیں۔ آپ کے کلام میں سوز و گداز کے ساتھ ساتھ بہترین علمی ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ آپ عالمِ دین اور با عمل کردار کے حامل شاعر ہیں۔ آپ کا کلام پڑھ کر دل پر اثر ہوتا ہے اور رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ پاک ذات ان کے علم، عمل، اخلاص اور رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت میں مزید اضافہ فرمائے اور اس مجموعۂ نعت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہوئے آخرت میں بخشش کا وسیلہ بنائے۔
حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مقصود الٰہی نقشبندی
بانی و سرپرستِ اعلیٰ اسلامی روحانی مشن
آبشارِ کرم کا ایک اجمالی جائزہ
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ شعر کہنے کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے اور اس خداداد صلاحیت کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ تعلیمی استعداد نہ ہونے کے باوجود بیشتر شعراء کو ممتاز شعراء کی صف میں پایا گیا ہے۔ ماضی قریب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ قمرؔ جلالوی ہر چند کہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انہیں نہ صرف فیض احمد فیضؔ کے ہم عصر ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ انہیں یہ کمال بھی حاصل ہے کہ انہوں نے خداداد صلاحیت بہ حسنِ فکر و فن بروئے کار لاکر وہ مقام پایا کہ ان کا شمار استاد شعراء میں ہوتا ہے۔
تاریخ اور ادب اس روشن حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ تمام اصنافِ سخن میں ’’صنفِ نعت‘‘ نہ صرف مقامِ احترام کی حامل ہے بلکہ نعت گو شعراء کو مقامِ احترام بھی عطا کرتی ہے۔ نعت گوئی تزکیۂ حیاتِ فکر کا ایک اہم حصہ ہے۔ شاعر جب سرورِ کائنات صلّی اللہ علیہ و سلّم کی تعریف میں فکرِ شعر کرتا ہے تو اُس کے اندر کی کائنات نورِ مبیں سے منوّر ہو جاتی ہے۔ تخلیقِ نعت کے دوران تصوراتی دنیا میں شاعر سراپائے خاتم الانبیﷺ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو جس قدر قریب سے دیکھتا ہے اور تمام تر تخیلاتی جمالیات کو جس مقدس جذبے سے اپنے اشعار میں سمو دیتا ہے وہ ایک عام انسان کے لیے نا ممکنات میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کا شاعر دنیائے فانی میں حیاتِ جاودانی حاصل کرتا ہے۔
حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسولِ مقبول صلّی اللہ علیہ و سلّم فرماتے ہیں ’’اے حسّانؓ جب تم میری مدح میں فکرِ شعر کرتے ہو تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ تمہارے دائیں جانب ایک فرشتہ تمہارے تخیلات میں تمہاری مدد کر رہا ہے‘‘ ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نعت کا شاعر کتنا بلند مقام رکھتا ہے۔
عبد الصمد نورؔ سہارن پوری بھی اُن خوش نصیب شعراء میں ہیں جنہیں بیک وقت علامہ، ڈاکٹر، پروفیسر اور مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کا شرف بھی حاصل ہے۔ موصوف کا اوّلین نعتیہ مجموعہ ’’آبشارِ کرم‘‘ کا مسوّدہ میرے سامنے ہے۔ ان کی نعتوں کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ان کی فکر، ان کے ذہن، ان کی سوچ، ان کی طبیعت اور ان کے مزاج میں لفظ ’’نعت‘‘ اس قدر رچا بسا ہے کہ ان کی نعتوں میں اس لفظ کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر کثرت سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل اشعار میری تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
مدّثّر و مزّمّل و یٰسین کہ طٰہٰ
ہر لفظ ہی قرآن ہے اور نعتِ نبیؐ ہے
سرکارؐ کی نعتوں کے لیے بزم سجانا
یہ رسم عبادت ہے، صحابہؓ سے چلی ہے
جو نعت کارِ سعادت ہوئی خضر کے لیے
چُنا ہے ہم نے اسے عمرِ مختصر کے لیے
جہاں کو رشک میرے ضو فگن اشعار پر ہوتا
اگر حاصل مجھے بھی نعت کہنے کا ہنر ہوتا
نبیؐ کی نعت مکمل خدا نے کہہ دی ہے
نبیؐ کی نعت کا قرآں میں اہتمام ہوا
بیاضِ نعتِ نبیؐ کھُل گئی سرِ محشر
ہمارے خلد میں جانے کا اہتمام ہوا
بسے ہیں اُن کے تخیّل میں روز و شب آقاؐ
جو نعت کہتے ہیں اُن کا بڑا مقام ہوا
قبر میں صلِّ علیٰ کی روشنی کامﷺ گئی
حشر کے میدان میں نعتِ نبیؐ کامﷺ گئی
ہم خطا کاروں کے پلّے میں نہیں ہے اور کچھ
نعت کا دیوان ہی لائے ہیں ایماں کے لیے
تمام رنگِ جہاں اُس کے تھے تصور میں
برائے نعت نویسی جو ہو گیا مصروف
لائے پیغام صبا کاش بلانے کے لیے
دل ہے بیتاب وہاں نعت سنانے کے لیے
میری بساط کیا ہے لکھوں نعت میں کہ جب
کہتا ہے نعت آپؐ کی اللہ کا کلام
یہ بام و در کی رونق، دیوار و در کی تابش
نعتوں سے ہو رہا ہے میرا مکاں مزیّن
قلم کاغذ اور اِن میں روشنائی سانس لیتی ہے
نبیؐ کی نعت ہو تو شاعری بھی سانس لیتی ہے
اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی جانب سے ایک نئے اندازِ فکر کی روشنی میں ردیفی نعتیہ مشاعروں کا جو سلسلہ گزشتہ پچیس چھبیس برس سے قائم ہے، اس سے دیگر شعراء کے ساتھ ساتھ عبد الصمد نورؔ سہارن پوری نے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آبشارِ کرم‘‘ میں شامل تمام نعتوں میں کم و بیش پندرہ سولہ نعتیں ایسی ہیں جو دبستانِ وارثیہ کی جانب سے دی جانے والی ردیفوں کے اہتمام کے ساتھ کہی گئی ہیں۔
یوں تو عبد الصمد نورؔ سہارن پوری دیگر اصنافِ سخن پر بھی دسترس رکھتے ہیں مگر میرے خیال میں ان کی تخلیق و فکر ’’صنفِ نعت‘‘ میں زیادہ بہتر نظر آتی ہے۔ ان کی نعت میں ایک خاص بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ ان کی نعت کا ہر شعر ان کے تقدیسِ جذبات کا آئینہ دار ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار ان روایتوں سے بالا تر ہیں جو سُر تال پر محض ایک معاشی اور سامع کی وقت گزاری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ان کی تمام نعتوں میں کسی قسم کی بدعت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نورؔ سہارن پوری کا ہر شعر ان کے جذبۂ صادق کا مظہر ہے اور ان کی نعت گوئی کی یہ خوبی کوئی معمولی خوبی نہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
میری خصوصی دعا ہے کہ اللہ ربّ العزّت ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہِ عالیہ میں قبول فرمائے اور بالخصوص اپنے پیارے حبیب صلّی اللہ علیہ و سلّم کے صدقے ان کے اس مجوعۂ نعت ’’آبشارِ کرم‘‘ کو مقبولِ خاص و عام فرمادے، آمین۔
فقیر الحاج صوفی شاہ محمد کمال میاں جمیلی سلطانی
سجادہ نشین دربارِ سلطانی مرکزِ روحانی
فیڈرل بی ایریا کراچی
کچھ یادیں کچھ باتیں
برادر صغیر پروفیسر ڈاکٹر عبد الصمد پیرزادہ جو شعراء کی دنیا میں نورؔ سہارن پوری کے نام سے معروف ہیں، نے کچھ عرصہ پہلے اپنی شاعری (غزل و نظم) کا پہلا مجموعۂ کلام ’’پیکرِ خیال‘‘ پیش کیا تو بہت خوشی ہوئی اور کلام پڑھنے کے بعد شاعری پر ان کی دسترس کا اندازہ ہوا۔
بقول نورؔ سہارن پوری
ہزار پردے اٹھائے مگر نہیں کھُلتے
یہ کس حجاب میں مخفی ہیں لامکاں کے راز
غرض یہ کہ جوں جوں کلام پڑھتا گیا کبھی عشقِ حقیقی کی لذّت کو پایا تو کبھی عشقِ مجازی کی دنیا میں گم ہوا، کبھی معاشرے کے طبقاتی عدم توازن کا گلہ ملا تو کبھی سوز و گداز کے ساتھ اپنے دل پر گزری ہوئی روداد کا تذکرہ کیا، کبھی رشتوں کے تقدّس کا احساس دلایا تو کبھی اختلافات کو ختم کر کے وطن کو درخشاں کرنے کا پیغام دیا۔
ابھی اس کلام ’’پیکرِ خیال‘‘ کی لذّت سے مکمل سیراب ہی نہیں ہوا تھا کہ نورؔ سہارن پوری نے اپنا دوسرا کلام مجموعۂ نعت ’’آبشارِ کرم‘‘ یہ کہتے ہوئے پیش کیا،
مدحت اے نورؔ انؐ کی مجھ سے کہاں تھی ممکن
اشعارِ نعت میں نے پھر بھی سنا دیے ہیں
اسی مجموعۂ نعت میں آپ مسلم معاشرے کی زبوں حالی کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں،
گھیرا ہے مشکلوں نے ہر زاویے سے اس کو
امّت نے حکم انؐ کے جب سے بھُلا دیے ہیں
پھر اس زبوں حالی سے نجات کا فارمولا بتاتے ہوئے نورؔ کہتے ہیں،
رہِ نجات ہے سیرت رسولِ اکرمؐ کی
چلو حضورؐ کی سیرت کو عام کرتے ہیں
مجموعی طور پر نورؔ سہارن پوری کا کلام اپنی سادگی اور بلند خیالات کی وجہ سے ہر دل عزیز اور پُر اثر ہے اور مجموعۂ نعت ’’آبشارِ کرم‘‘ میں آپ کے اشعار آپ کے بلند مرتبے کی خبر دیتے ہیں اور آپ حُبِ رسولؐ ہی کو دونوں جہاں کی اصل متاع سمجھتے ہیں۔
نورؔ سہارن پوری کی عادات و اخلاق، علمی و روحانی صلاحیتوں میں کسی حد تک اپنے خاندان کی موروثی جھلک بھی نظر آتی ہے، آپ کے والد گرامی شاہ شمشاد احمد صابری رحمۃ اللہ علیہ انتہائی قابل، اعلیٰ دینی و دنیاوی علوم کے حامل، بہادر، قوی الجسم اور زندہ دل انسان تھے، جنہوں نے ہمیشہ سادگی اور ذکر و اذکار اپنا شعار بنائے رکھا، تا حیات طب کے پیشے سے وابستہ رہے، آپ چشتیہ صابریہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ تھے، خلوت نشین تھے، جلوت سے پرہیز کرتے تھے حالانکہ جوانی کے ابتدائی سات سال اپنے محلّے کی مسجد کے امام و خطیب بھی رہے تھے، شاعری کبھی کبھی برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کرتے تھے، آپ کا تخلّص صابری تھا، آپ کے اشعار کے مجموعے سے کچھ کلام شجرۂ پیر زادگان میں شائع کیا گیا ہے۔
ہمارے والدِ محترم کے والد پیر جی شاہ اعجاز احمد رحمۃ اللہ علیہ (نورؔ سہارن پوری کے دادا) نینی تال کے جنگلات میں ڈپٹی رینجر کے عہدے پر بھی فائز رہے، اہل اللہ کی صحبت یافتہ یہ ہستی قرآن پاک کی تلاوت سے بڑی رغبت رکھتی تھی۔ آپ کے والد پیر جی خورشید احمد رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے خوش شکل، خوب سیرت اور خدا ترس با عمل عالمِ دین تھے اور ان کے والد مولوی احمد حسن رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے والد مولوی احمد علی رحمۃ اللہ علیہ دونوں عالم با عمل تھے، مولوی احمد علی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد حضرت شاہ قطب علی رحمۃ اللہ علیہ کے اکلوتے لڑکے تھے، حضرت شاہ قطب علی رحمۃ اللہ علیہ صاحبِ نسبت بزرگ اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے شیخ تھے اور آپ کی اہلیہ کی اوّل بیعت حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سے تھی، دونوں بڑے شاکر و ذاکر شب زندہ دار تھے۔
حضرت قطب علی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ پدری لحاظ سے میزبانِ رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم و قربت دارِ مصطفی صلّی اللہ علیہ و سلّم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے اور رحمی لحاظ سے حسینی سید تھے، یعنی آپ کی والدہ محترمہ سیدہ محفوظا بنتِ شاہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ، شاہ محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت شاہ ابو معالی چشتی صابری قدس سرّہ کی پوتی تھیں، جب سیدہ محفوظا کا نکاح حضرت شاہ غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ بن شرف الدین بن غلام محی الدین بن عبد الرشید شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا تو اس رشتے سے شاہ غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں صاحب زادے حضرت شاہ قطب علی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ظفر علی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تمام اولاد پیر زادے کہلائے۔
حضرت شاہ غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شاہ غلام محی الدین گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی والدہ شاہ غلام محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کے والد کے شہید ہو جانے پر گنگوہ سے انبہٹہ اپنے مائیکہ لے کر آئی تھیں، یہ قصبہ (انبہٹہ) ضلع سہارن پور سے جنوب کی جانب پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے، سہارن پور ہی میں ہردوار اور پیران کلیر شریف جہاں حضرت صابر شاہ کلیری رحمۃ اللہ علیہ کی آرام گاہ ہے جب کہ انبہٹہ کے جنوب کی سمت گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر قصبہ گنگوہ آباد ہے جو حضرت شاہ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ ہے۔
انبہٹہ شروع میں ایک ویران جنگل تھا، ۷۱۴ھ میں بادشاہ فیروز شاہ تغلق کے سپہ سالار اسداللہ بیگ نے فوجی نقل و حرکت کی وجہ سے یہاں پر ایک چھوٹی سی چھاؤنی بنا دی، شروع میں اس قصبہ کا نام تغلق آباد رکھا گیا پھر ہریالی اور سبزہ زار کی وجہ سے سے جنت آباد ہوا، پھر یہاں آم کثرت سے ہوتے تھے، آم کو انبہ کہتے ہیں، ہٹہ آڑت یعنی منڈی، یوں ان ہٹہ یا انبہ ہٹہ کے کثرتِ استعمال سے یہ انبہٹہ ہو گیا، جب ۱۱۰۰ھ میں حضرت شاہ ابو معالی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ آپ کو یتیمی حالت میں سات سال کی عمر میں قصبہ بہٹ سے اپنے مائیکہ انبہٹہ لائیں تو یہ علاقہ آپ کی برکت سے کچھ عرصے میں علمی و روحانی فیوض و برکات کے حصول کا مرکز بن گیا اور یہ علاقہ انبہٹہ پیرزادگان کے نام سے مشہور ہوا اور اس سرزمین کو عربی النسل خاندان یعنی علوی، فاطمی، صدیقی، فاروقی و ایوبی شیوخ کی بود و باش کا فخر حاصل ہوا۔
حضرت شاہ غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی اولادوں میں حضرت شاہ قطب علی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور بڑے اہلِ فضل و کمال اور ذی صلاحیت شخصیات نے جنم لیا جن میں چند افراد کا نام درج ذیل ہے،
۱۔ حضرت مولانا انصار علی رحمۃ اللہ علیہ (آپ مولانا مشتاق احمد انبہٹوی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے جو مکہ معظمہ میں تین سال تک مفتی اور مدرس رہے اور مولانا حسین المدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بھی استاد تھے)
۲۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ انبہٹوی رحمۃ اللہ علیہ (آپ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد اور علی گڑھ یونیورسٹی کے اوّل ناظمِ دینیات تھے)
۳۔ حضرت مولانا محمد میاں منصور انبہٹوی رحمۃ اللہ علیہ (تحریک ریشمی خطوط کے اہم رہنما تھے، برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے ترکی، افغانستان اور روس کا سفر کیا اور انگریز کے خلاف علمِ جہاد بلند رکھا)
۴۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری انبہٹوی رحمۃ اللہ علیہ (حضرت مولانا رشید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ، شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ اور تبلیغِ جماعت کے بانی مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد، مظاہر العلوم سہارن پور کے مدرس، ابو داؤد کے شارح، بذل المجہود کے مصنف تھے)
۵۔ شیخ الحدیث مولوی صدیق احمد انبہٹوی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ حضرت مولانا رشید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ)
۶۔ شیخ الحدیث مولوی شفیق احمد رحمۃ اللہ علیہ (ریاست مالیر کوٹلہ کے مفتی اعظم تھے)
۷۔ شیخ الحدیث مفتی فاروق احمد رحمۃ اللہ علیہ (ریاست بہاولپور میں مفتی کے عہدے پر فائض تھے)
۸۔ شیخ الحدیث مولانا محمد احمد بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ (اکابر علماءِ تبلیغِ جماعت میں سے اور خلیفہ حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ ہیں)
اگر حضرت غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے آباء و اجداد کا تذکرہ کریں تو ان میں ایک شخصیت شیخ الاسلام حضرت خواجہ عبد اللہ انصاری پیرھروی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جن کو اکابرِ امت میں شمار کیا جاتا ہے، آپ نقشبندیہ مجددیہ کے اکابر شیوخ حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور جانشین تھے، شیخ عبد اللہ پیرھروی رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت ابو منصور رحمۃ اللہ علیہ ابدال کے مقام پر فائز اور حمزہ عقیل بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔
نورؔ سہارن پوری کی والدہ محترمہ سیدہ مفیدہ صاحبہ بنتِ حکیم محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ قاضی و رئیس قصبہ چر تھاول ضلع مظفر نگر حکیم حافظ صدر الدین قریشی ہاشمی علوی محمدی رحمۃ اللہ علیہ کی پوتی ہیں، حکیم حافظ صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم پیرِ طریقت حضرت قاضی حکیم محمد عمر نوّر اللہ مرقدہ بن حکیم حلیم اللہ بن مولوی عظیم اللہ قریشی علوی محمدی رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب ارشاد شیخ محمد محدث تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے اور حضرت شیخ محمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے پیر بھائی اور حضرت نور محمد جھنجھانوی کے خلیفہ تھے۔
طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ والسلام
دعاؤں کا طلب گار
ڈاکٹر پروفیسر محمد فراہیم غفر لہ
گورنمنٹ ڈگری کالج نارتھ کراچی
عبد الصمد نورؔ سہارن پوری کی نعتیہ شاعری
’’آبشارِ کرم‘‘ پر ایک طائرانہ نظر
تبلیغِ دینِ متین یعنی اسلام کی ترویج اور اس کے عامّۃ النّاس میں فروغ و باعمل کیے جانے کے لیے جہاں ’’جہاد بالسیف‘‘ سے کام لیا گیا وہیں بہت سے علمائے حق نے ’’جہاد باللسان‘‘ کو بھی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے شاعروں اور شاعری کو بہت زیادہ ناپسندیدہ قرار نہیں دیا، اس کے باوجود ان لوگوں کے سوا جو حاملِ ایمان اور صالح اعمال پر قائم رہنے والے ہوں کا استثنیٰ بھی رکھا۔ حمدیہ شاعری اگر خالقِ کائنات کی صفات کو بیان کرنے کا اظہار ہے تو نعتیہ شاعری وجہِ تخلیقِ کائنات احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و سلّم کی ذات و صفات کی تمجید و بزرگی کے اظہار، اوصافِ حسنہ کے بیان اور آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی حمد و ثناء کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ جہاد باللسان حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے منبرِ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کو محاذ بنانے سے آغاز ہوا جب کہ مشرکین و کفار حضور خاتم الانبیﷺ صلّی اللہ علیہ و سلّم پر تہمت و الزام تراشی پر کمر بستہ تھے اور جنابِ حسّان رضی اللہ عنہ نے کفار کی ہجو کہہ کر مسلمانوں کو شفا دی اور خود بھی شفا پائی۔ بحوالہ: باب: بیان والشعر، مشکوٰۃ المصابیح، جلد ثانی۔۔ اُن کا کلام کافروں اور مشرکوں کے سینوں میں آگ بھڑکاتا رہا ہر عہد اور خود دورِ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ و سلّم میں بھی عرب و عجم میں نامی گرامی شعراء نے حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی مدحت کی ہے اور عربی، فارسی و اردو ادب میں بیش بہا اضافے کر کے مقام حاصل کیا ہے اور یہ سلسلہ چودہ سو برس سے جاری و ساری ہے بلکہ انشاء اللہ تا قیامت یونہی جاری رہے گا۔
عبد الصمد نورؔ سہارن پوری نے اپنے استادِ محترم نصیراللہ خاں نصیرؔ کوٹی کا نعتیہ مجموعہ ’’صفاتِ سرورِ عالم صلّی اللہ علیہ و سلّم‘‘ جب مرتب کر کے شائع کروایا تو اس کے بعد ان کے شاگردوں نے بھی نعتیہ کلام کو کتابی صورت میں پیش کرنے کا قصد کیا، ان کے تلمیذِ رشید کا پہلا شعری مجموعہ ’’پیکرِ خیال‘‘ جب شایع ہوا تو اس وقت ان کے پاس غالباً اتنی نعتیں نہیں ہوں گی کہ مجموعۂ نعت مرتب کیا جا سکتا، تسلسل سے طرحی ردیفی حمدیہ نعتیہ مشاعروں کے لیے حمد اور نعتیں کہتے رہنے اور مشاعروں میں شریک ہو کر سنانے سے ان کا حوصلہ بلند ہوا، دلی آرزو بر آئی کہ میرا بھی ایک نعتیہ مجموعہ شایع ہو جو عاقبت سنوارنے کے کام آئے یوں یہ مجموعۂ نعت بہ حسن و خوبی مرتب کر لیا گیا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ کچھ ماہ قبل عبد الصمد نورؔ سہارن پوری کے مرتبہ ایک مجموعے ’’ عریضہ‘‘ کے لیے تعارفی سطور لکھنے کا اعزاز راقم کو حاصل ہوا تھا اور ’’آبشارِ کرم‘‘ پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی سعادت ہمیں ملی ہے۔ ان نعتوں میں سے چند ایک کو قمرؔ وارثی صاحب نے مرتبہ انتخاب کلام کے مجموعوں میں شاملِ اشاعت بھی کیا ہے اور طرحی ردیفی مشاعروں میں ماجد خلیل و عارفؔ منصور صاحبان (اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین کی مغفرتِ کاملہ فرمائے، آمین) نیز مدیر کتابی سلسلہ ’’شاعری‘‘ کراچی محترم سہیل غازی پوری نے بھی بہ نظرِ استحسان دیکھتے ہوئے سراہا۔
ترویجِ دینِ حق کی بات ہم نے کی؛ یہی بات نورؔ سہارن پوری اپنی دعائیہ مناجات میں کر رہے ہیں:
ضرورت ہے ترے دیں کو کچھ ایسے جاں نثاروں کی
ہر اک جن کا عمل ترویجِ دینِ حق کی دعوت دے
ماہِ ربیع الاوّل میں جشنِ آمدِ رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم جس ذوق و شوق اور لگن سے جانثارانِ مصطفی صلّی اللہ علیہ و سلّم مناتے ہیں اس کا ذکر نورؔ سہارن پوری اس طرح کرتے ہیں:
جس طرف دیکھو چراغاں، جس طرف دیکھو بہار
آپؐ کی آمد سے عالم اس قدر مسرور ہے
اپنے شہر سے وابستگی کا اظہار بھی عبد الصمد نورؔ سہارن پوری نے کیا ہے:
پکارا میں نے کراچی سے المدد آقاؐ
ہوا کے دوش پہ پہنچی صدا مدینے میں
اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں:
نہ جانے نورؔ کتنی بار اب تک جا چکے ہوتے
اگر آساں کراچی سے مدینے کا سفر ہوتا
ان کے ہاں حاضری اور دیدار کی تڑپ بھی ملتی ہے:
ہے دل میں کب سے حسرت دیدارِ مصطفیؐ کی
جس خواب کی طلب ہے وہ خواب اب دکھا دے
مناجات: شاہِ امم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دیدار کی تڑپ ہر مسلمان کے دل میں رہتی ہے:
شرف دیدار کا انؐ کے مجھے بھی ہو عطا یارب
کہ ہو جائے میسر زندگی میں خواب نورانی
مگر یہ شرف اتنی آسانی سے کہاں حاصل ہوتا ہے:
اپنی آنکھوں کی طہارت کا کوئی ساماں کر
دل میں دیدار کی خواہش کو بسانے والے
اکثر ہم لوگ یہ بات کہتے اور سنتے ہیں کہ غلامیِ رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم میں جان کی قربانی بھی دے سکتے ہیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ:
شاہوں سے بڑھ کے رتبہ حضرت بلالؓ کا ہے
دیتی ہے کتنی رفعت سرکارؐ کی غلامی
کسی بھی نوع کے کلام کی بابت سے معتبر اور مثبت رائے اس کے سامع یا قاری کی ہوا کرتی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
ہمیں امید ہے کہ عبد الصمد نورؔ سہارن پوری کا یہ نعتیہ مجموعہ دنیا و آخرت دونوں جگہ ان کے لیے اکرام و انعام کا سبب و باعث بنے گا:
رشک آتا ہے بہت مجھ کو تیری قسمت پر
اُنؐ کے دربار میں اے نعت سنانے والے
دعا گو
سیّد انورؔ جاوید ہاشمی
سابق معاون مجلسِ ادارت، اردو لغت بورڈ کراچی
سابق رکن عملۂ ادارت: روزنامہ جنگ، کراچی
شمعِ ضیاء بار
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجموعۂ سخن ’’پیکرِ خیال‘‘ کے بعد مجموعۂ نعتِ رسولِ مقبول صلّی اللہ علیہ و سلّم ’’آبشارِ کرم‘‘ کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر حافظ و قاری پیرزادہ مفتی عبد الصمد نورؔ سہارن پوری نقشبندی مقصودی اپنے بخت پر شاداں ہوئے، اور کیوں نہ ہوتے؟ قرآن کریم میں باضابطہ ’’سورۃ الشعراء میں‘‘ شعراء کی حیثیت، مقام و مرتبہ اور حدودِ شاعری کے بیان کے ساتھ شاعری کے ناپسندیدگی کے محرکات کے علاوہ اچھے اشعار کو سراہتے ہوئے ان کی خوبیوں کی پذیرائی بھی کی گئی ہے اور صالح شعراء کو نصیحت آمیز، مثبت، با غرض اور محرک شاعری کرنے پر عملِ صالح کے اعزاز سے نوازا گیا ہے، مشہور و معروف محاورہ ہے ؛ ’’والشعراء تلامیذ الرحمٰن‘‘ اگر شیطان کے تلامذہ شیطانی ناری جبلّت کے ساتھ تخریب و تنقیص میں مصروف ہیں تو رحمٰن کے تلامذہ اپنی نوری جبلت کے ساتھ محبت امن و سلامتی اور تعمیر میں مصروف ہیں، انہی خوشا نصیب شمعِ ضیاء بار میں نورؔ سہارن پوری بھی ہیں جو ہمارے عہدِ رواں کے ایک منفرد، ممتاز، ہمہ جہت، جامع الکمالات اور جامع الاوصاف شخصیت ہیں۔
نورؔ صاحب کا تقرر 2012ء میں پبلک سروس کمیشن سے کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہو کر بہ حیثیت لیکچرار اسلامیات سیون ڈی ٹو کالج نارتھ کراچی میں ہوا، محرر 2008ء سے شہید ذوالفقار علی بھٹو اورنگی ڈگری کالج گلشنِ بہار میں رضاکارانہ اسی شعبے میں تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا، چنانچہ ایک شعبے سے وابستگی ہماری پہلی ملاقات کا ذریعہ بنی۔
نورؔ صاحب کی زندگی کی سب سے متأثر کن وہ ساعت ہے کہ جب انہیں درسِ نظامی کی تعلیم کے حصول کے لیے اسلامک سینٹر میں داخلہ کروایا گیا تو انہیں قرآن کریم سے اس قدر لگاؤ اور محبت تھی کہ انہوں نے اپنے لیے قرآن پاک کا حفظ کرنا سب سے زیادہ مقدم اور پسندیدہ رکھا، چنانچہ انہوں نے ایک پاکٹ سائز قرآن پاک ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا شروع کر دیا، اس طرح صبح اُن کا سفر شروع ہوتا تو وہ سفر کے دوران بس میں بیٹھے قرآن پاک حفظ کرتے رہتے، اس طرح پورے دن میں وہ پہلے حصولِ تعلیم کے لیے مدرسے کی طرف سفر کرتے پھر تدریس کے لیے اسکول کی طرف سفر کرتے پھر مشترکہ مطالعہ کے لیے دوستوں کی طرف سفر کرتے پھر گھر کی طرف سفر کرتے تو اس سارے سفر میں قرآن پاک حفظ کرتے رہتے اور قرآن پاک ہر وقت ساتھ رکھنے کے لیے ہر وقت باوضو بھی رہتے، اس طرح نورؔ صاحب نے آٹھ ماہ کے مختصر ترین دورانیے میں پورے قرآن پاک کو حفظ فرما لیا، مجھے ان کی اس صلاحیت اور اعزاز پر بڑا رشک آتا ہے سو میں تذکرے کے طور پر جامعات میں، طلباء کو لیکچر دیتے ہوئے اور دیگر نشستوں میں بھی ان کے اس نمایاں کارنامے کو شاملِ گفتگو رکھتا ہوں، کیونکہ محرر بھی بچپن ہی سے قرآن کریم سے بے حد محبت کرتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ جل جلالہ مسلم امہ کا اخیر بھی اس پر ہی فرمائے۔ آمین۔ المختصر نورؔ صاحب نے قرآن پاک مکمل حفظ فرما کر پھر باقاعدہ اساتذہ کو سنا کر سند حاصل بھی فرمائی اور تسلسل کے ساتھ رمضان المبارک میں تراویح کی جماعت بھی فرماتے ہیں۔
نورؔ صاحب نے حفظِ قرآن پاک کی سعادت کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی تعلیم ’’الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیہ‘‘ بورڈ آفس کرچی جو اسلامک سینٹر کے نام سے معروف ہے سے حاصل کی، اس کے علاوہ ادیب عالم اور فاضل عربی کی اسناد کراچی بورڈ سے حاصل کی، انہوں نے ’’الجامعۃ المقصودیہ للعلوم الاسلامیہ والعصریہ‘‘ کے شعبہ دارالافتاء سے باقاعدہ تخصص فی الفقہ کی سند حاصل کی اور اسی شعبے میں عرصۂ دراز تک فتوے جاری کرتے کرتے آج دارالافتاء کے نائب رئیس کی مسند پر فائز ہیں۔ نورؔ صاحب عربی اور انگریزی زبانوں میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں جب کہ فارسی میں بھی حسبِ ضرورت ملکہ حاصل ہے۔ 2013ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک لرننگ میں ایم۔ فل، پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے داخلہ اور کورس ورک میں خوش نصیبی سے نورؔ صاحب اور محرر ساتھ ساتھ رہے اور الحمد للہ ہم نے ایک ہی شعبے سے ایم۔ فل، پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
نورؔ صاحب کی شخصیت کی بات کی جائے تو ان کی شخصیت کمال ہے، ان کی مجلس میں کبھی فحش، غیبت، مسلکی تنافر، تنقیصِ شخصی اور تحقیرِ مقام و مرتبہ جیسے کسی عیب کی جھلک بھی نظر نہیں آئی۔ آپ خلقِ خدا کی مختلف طرح سے خدمت میں اکثر مشغول نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ اسٹیمپ اور قلم بھی اکثر اپنی جیب میں رکھتے ہیں، بعض مواقع پر تصدیق کے لیے آنے والوں کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تصدیق فرما دیتے ہیں، یہ بھی ان کے اوصاف میں سے ایک صفت ہے، یقیناً عہدہ اور منصب ایک عارضی اور مجازی شے ہے، ہر عہدے اور منصب والے کو ایک دن اپنے منصب سے رخصت ہونا ہے۔
نورؔ صاحب کی شاعری کی بات کی جائے تو ان کی شاعری بناوٹ، تصنع اور بے جا مبالغہ سے محفوظ نظر آتی ہے، یقیناً کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، ان کی شاعری ان کے عمل اور صالح کردار شخصیت کی آئینہ دار اور ترجمان ہے۔ چند منتخب اور پسندیدہ اشعار، دل کی دھڑکنوں نے جن سے قوت پائی نذرِ قارئین ہیں؛
ہر اک وجود کا خالق ہے وہ خدا یکتا
وہ کہہ رہا ہے وفا میرے دوستوں میں ہے
مشہور ضرب المثل اور اصطلاح ہے ’’المعروف کالمشروط‘‘
اللہ کی محبت اللہ سے محبت کرنے والوں، اس کی یاد میں شب و روز رہنے والوں اور رونے والوں سے ہی مل سکتی ہے، جیسے کہ بقّال سے سودا سلف اور عطّار سے خوشبو اور لطافت ملتی ہے، چونکہ نورؔ سہارن پوری ایک پی ایچ ڈی فلاسفر بھی ہیں، اس شعر میں انہوں نے اسی فلسفے کو پیش کیا ہے کہ اللہ کی محبت اللہ اللہ کرنے والوں ہی سے مل سکتی ہے۔
جس کو حضورؐ سن کر مجھ کو بلائیں طیبہ
میرے سخن میں اتنی تاثیر بھی عطا کر
اس شعر میں وہ کیفیت ہے کہ جب ایک امتی اپنے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم پر درود پیش کرتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم میری جانب متوجہ ہیں، کیونکہ درود کا صیغہ ’’اللھم صلِّ علیٰ‘‘ سے شروع ہوتا ہے، اے اللہ میرا درود میرے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کو پہنچادے۔ ایک یہ بھی نظریہ ہے کہ ایک صدا دینے والا دور سے اپنے احساسات، خوشی اور غم سے لبریز کیفیات اپنے پیارے کو متوجہ کرنے کے لیے صدا دیتا ہے، اگرچہ وہ زماں اور مکاں کے فاصلے کو جانتا ہے، مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میری صدا ایک روحانی نسبت اور قدرت کے ذریعے پہنچ رہی ہے، جدید سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ ماں باپ جسمانی طور پر جتنے بوڑھے اور ضعیف ہو جائیں، اولاد کے لیے ان کی شفقت پیار اور دعا کی حس میں اتنا ہی اضافہ ہو جاتا ہے، ان کی توجہ بڑھ جاتی ہے، جس طرح ہم غم یا بیماری میں گڑ گڑاتے اور کہرتے ہوئے اپنے پیاروں کو پکارتے اور صدا دے رہے ہوتے ہیں، نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کا تعلق اور رشتہ تو اس سے کہیں بہت بلند ترین ہے، جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہم روز نماز میں اسی یقین کے ساتھ التحیات اور درودِ ابراہیمی پڑھتے ہیں کہ میرے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم تک میری یہ صدا پہنچ رہی ہے اور اللہ پہنچا رہا ہے، پہچانے اور دینے والا اللہ ہے، مگر جب نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کا واسطہ ہو تو وہ زیادہ خوش ہو کر سنتا اور دیتا ہے کہ کائنات کے ایک نظم کے ساتھ جو خود میرا وضع کیا ہوا ہے، میرے بندے نے پکارا اور طلب کیا اور مجھ تک پہنچا ہے، کلمۂ طیبہ کا فلسفہ بھی یہی ہے۔
نورؔ کعبہ کے نظاروں سے طہارت پا کر
پاک آنکھوں سے مدینے کا نظارہ دیکھو
محبت میں ادب کی لگام نہ ہو تو ایسی محبت اپنی وقعت اور پائیداری نہیں رکھتی، جیسا کہ مولا علی علیہ السلام ورضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول ہے کہ محبت اور عزت میں عزت کو ترجیح دو۔ لہٰذا کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بعد ذاتِ مصطفی صلّی اللہ علیہ و سلّم سے زیادہ اور کون سا مقام ہو گا کہ ادب تعظیم اور عزت کی انتہا سے گزر نہ جائے، اس شعر میں اس عزت، تعظیم، ادب کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ دربارِ مصطفی صلّی اللہ علیہ و سلّم میں حاضری ہی نہیں پیشی بھی ہے، لہٰذا اس منزل میں خوب سنبھل کر رہنا ہے، قدم احتیاط سے اٹھانے ہیں اور آقاصلّی اللہ علیہ و سلّم کے حضور صاف ستھرے ہو کر پیش ہونا ہے جب کہ اس کے مقابل دیگر نظریات بھی بہت قوی، مدلّل اور مستند ہیں لیکن نورؔ سہارن پوری نے اپنی کیفیت کی عمدہ ترجمانی فرمائی ہے۔
وہ جس کے بعد کبھی تیرگی نہیں ہوتی
حضورؐ بھیجے گئے ہیں اسی سحر کے لیے
قد جآء کم من اللہ نور (سورۂ مائدہ، آیت 15)ترجمہ: ’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا‘‘
یقیناً سورۂ احزاب کی آیت 46 کی رُو سے حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم سراجِ منیر چمکا دینے والا آفتاب ہیں اور حضور کائنات صلّی اللہ علیہ و سلّم ہر ظلمتِ شب کے لیے اوّلین نویدِ صبح ہیں اور کائنات کے ہر دیے اور چراغِ چرخ و ماہی کو چمکا دینے والے ہیں اور حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم ہر ظلمت کے لیے نورِ طلعت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
سیرتِ سرکارؐ کا چرچا ہر اک جانب کریں
اس جہاں میں کامرانی کا یہی دستور ہے
جیسے پاکستان میں کسی اور ملک کا سکّہ نہیں چل سکتا اسی طرح رب العالمین کے بنائے ہوئے جہان میں رحمۃ اللعالمین صلّی اللہ علیہ و سلّم کا ہی سکّہ چلتا ہے، لہٰذا سکّہ حکمران ہی کا چلتا ہے، اس جہان کی شان و شوکت، فلاح و کامیابی اور کامرانی کی کنجی حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس ہے جس کا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے حدیث میں ذکر بھی فرمایا ہے،
اوتیت مفاتیح کل شیء ترجمہ: اللہ نے ہر شے کی کامیابی کی کنجی مجھے عطا کر دی
لہٰذا حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کی ذات کا چرچا کر کے اور حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کی سیرت پر عمل کر کے کامیابی اور فلاح کے خزائن تک رسائی ہو سکتی ہے کیونکہ ہر بادشاہ اپنے خزائن تک اپنے مطیع و فرمانبردار اور دوست ہی کو رسائی دیتا ہے۔
جسے نبیؐ کی محبت نے کر لیا ہے اسیر
اسے فلاح ملی ہے اسے دوام ہوا
اتباعِ کامل اور استقامت کے بغیر دوام اور بقا نا ممکن ہے، جس طرح گائے کے بچھڑے کی جب پیدائش ہوتی ہے تو وہ اس قدر ناتواں اور ناپائیدار ہوتا ہے کہ اپنے وجود کے حجم کو فانی ہونے سے بچانے کے لیے اپنی ماں کے قدم یعنی کھر کے نشان کا سہارا لینا شروع کرتا ہے اور اسی پر اپنا کھر رکھتا اور آگے بڑھتا ہے، رفتہ رفتہ بچھڑا اپنے پورے وجود کے دم حجم اور قدم کے ساتھ اس زمین پر اپنا دوام پاتا ہے۔ اسی طرح جب تک امت اپنے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کی اطاعت اسی طرح نہ کرے تب تک استحکام، بقا اور دوام نہیں پا سکتی اور اپنے نفس کی غلامی سے آزادی اور رہائی نہیں پا سکتی۔
بندۂ و معبود کا بھی فرق ہو پیشِ نظر
یہ حقیقت نورؔ لازم ہے ثناء خواں کے لیے
حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا
ترجمہ: میں عرب و عجم میں سب سے زیادہ فصیح ہوں لیکن اللہ کی حمد و ثناء کے لیے عاجز ہوں۔
ہر ادیب و فصیح و بلیغ و سخنور اور سخن خوانوں کے لیے اس میں ترغیب و ترتیب ہے، محرر آسی جہانگیری اپنا ایک شعر اس کیفیت کے لیے پیش کر رہا ہے،
دیوانگیِ عشق میں آسیؔ رہے خیال
اللہ اور رسولؐ میں کچھ فاصلہ بھی ہے
نورؔ صاحب کہتے ہیں ؛
آپؐ ہی ایمان کی قامت محمد مصطفیؐ
آپؐ ہی ہیں دین کی طاقت محمد مصطفیؐ
ہر شے اپنا مخصوص وجود، خدوخال، قدو قامت اور شناخت رکھتی ہے اور اس کے لیے اس کے اصل سے متصل اور جڑے رہنا صرف اہم ہی نہیں بلکہ اس کے حیات و ممات اور فنا اور بقا کا معاملہ بھی ہے، لہٰذا امت کا پوری توانائی، قد و قامت کے ساتھ کوتاہ، بھدا، کانا، لولہا، لنگڑا، ٹنڈمنڈ ہوئے بغیر تمام تر محاسنِ حیات کے ساتھ پرورش پا کر مقامِ احسنِ تقویم تک عروج پانا اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک دلی یقین اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کی پیروی نہ کی جائے، جیسا کہ حدیثِ نبوی صلّی اللہ علیہ و سلّم ہے:
لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ
ترجمہ: تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک تمہاری خواہش اس کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں۔
دعائے نورؔ ہے یارب ہر اک مسلم سے ہو راضی
سلیقہ بندگی کا دے محمدؐ سے محبت دے
آبشارِ کرم یقیناً نورؔ سہارن پوری کے قلب پر وارد اور ذہن پر طاری ہونے والی ان گراں کیفیات و احساسات کا مجموعہ ہے جو آپ گاہے گاہے خلوت اور جلوت میں مثلِ گہرِ صدف اپنے سینے میں پنہاں رکھتے رہے ہیں، اسے آبشارِ کرم کے عنوان سے اہلِ محبت پر والہانہ نچھاور فرمادیا، اہلِ محبت ان کی اس ضیاء بار کوشش کو ہمیشہ سراہتے ہوئے سپاس گزار اور ممنون رہیں گے۔
دعا گو
ڈاکٹر پروفیسر محمود عالم آسی خرم جہانگیری
متولّی خانقاہِ گلشنِ جہانگیری
استاد پوسٹ گریجویٹ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی
حمدِ باری تعالیٰ
کوئی خیال ہے جو تیرتا رگوں میں ہے
اُسی کا ذکر ہے جو میری دھڑکنوں میں ہے
جواب اُس کی رضا کا ہے منتظر ہر سُو
سوال چرچ میں مندر میں مسجدوں میں ہے
یہ کائنات ہے اُس کے وجود کی آیت
وہ بولتا ہوا قرآں کی آیتوں میں ہے
جہاں میں پھیلا ہوا ہے جو ایک ہنگامہ
بہت سے روپ میں احساس مشغلوں میں ہے
جو ڈھونڈیے تو خدا ہے قریب شہ رگ کے
نشاں خدائے محمدﷺ کا عالموں میں ہے
ہر اک وجود کا خالق ہے وہ خدا یکتا
وہ کہہ رہا ہے وفا میرے دوستوں میں ہے
یہ اُس کا فضل ہے رحمت مدام ہے مجھ پر
زمانہ سوچتا ہے نورؔ عاشقوں میں ہے
حضور آپؐ سے اللہ کو محبت ہے
حضور میرے مجھے آپؐ کی ضرورت ہے
زباں ضعیف بہت ہے غلام کی آقاﷺ
مگر سہارا اسے آپﷺ کی سماعت ہے
پڑی ہیں پاؤں میں کب سے سفر کی زنجیریں
حضور میرے مری قید با مشقت ہے
غلام آپؐ کا پھرتا ہے در بہ در آقاﷺ
اگر چہ سارا جہاں آپؐ کی عنایت ہے
سنا بہت ہے برستا ہے نور طیبہ میں
حضور آج بھی بیدار بس سماعت ہے
حضور میں بھی تڑپتا ہوں ہجرِ طیبہ میں
حضور آپ ہی کہہ دیں کہ ہاں اجازت ہے
بجز مدینہ کہاں جاؤں کیا کروں آقاﷺ
بجز مدینہ جہاں دیکھوں اک قیامت ہے
حضور آپ کا دیدار ہے عطا جس کو
خدا کے نور کی اس کو عطا زیارت ہے
حضور میری بصارت بھی ہے بہت بے تاب
مساوی آپؐ کی سب کے لیے سخاوت ہے
حضور میں بھی سوالی ہوں آپ ہیں فیاض
حضور آپ ہیں قاسم، سوالِ رحمت ہے
حضور نعمتِ عشقِ حقیقی مل جائے
حضور آپ کے اک نورؔ کی یہ چاہت ہے
اویسِ قرنؓ سے پوچھو محب جب دور ہوتا ہے
تو عاشق کا کلیجہ جیسے کوہِ طور ہوتا ہے
تڑپتا ہے ترستا ہے بہت رنجور ہوتا ہے
اگر کانٹوں پہ چلنا ہو اسے منظور ہوتا ہے
شرف ایسا کہ جو معراج سے تنویر لے آئے
مقام ایسا کہ سارا راستہ پُر نور ہوتا ہے
امیری اس قدر ہے، مالکِ ارض و فلک ٹھہرے
اور ایسی عاجزی ہے، فقر ہی منظور ہوتا ہے
اور ایسی سادگی ہے، بوریا ان کا بچھونا تھا
اور ایسا نام جو بعد از خدا مذکور ہوتا ہے
خدا تھا میزباں مہماں نبیﷺ تھے کیا سماں ہو گا
وہی جو محفلِ احباب کا دستور ہوتا ہے
کوئیﷺ جائے سینے سے لگاتے ہیں مرے آقاﷺ
اور اُس پر سایۂ رحم و کرم بھرپور ہوتا ہے
تڑپ ایسی کہ بچھنے جا رہا ہو دل مدینے میں
سفر ایسا کہ عالم رشک پر مجبور ہوتا ہے
خوشی ایسی کہ جیسے سامنے سرکارﷺﷺ جائیں
مدینے جانے والا کس قدر مسرور ہوتا ہے
خدارا ختم کر دیجے غمِ ہجراں کی بے چینی
زمیں پہ آپؐ کی آقاﷺ کہیں اک نورؔ ہوتا ہے
شان و شوکت مدحت و عظمت رسول اللہﷺ کی
رب کے ہر فرمان میں نکہت رسول اللہﷺ کی
خُلق اعلیٰ اور عبدیّت رسول اللہﷺ کی
لکّھی ہے محبوب ہر نسبت رسول اللہﷺ کی
لکّھی ہے یٰسین میں طٰہٰ میں الفت آپﷺ سے
لکّھی مُدّثّر میں ہے طلعت رسول اللہﷺ کی
رب نے اپنا لکّھا ہے رحمان ہونا اور لکھی
سارے عالم کے لیے رحمت رسول اللہﷺ کی
واقعہ معراج کا بھی رب نے واضح لکھ دیا
رب نے لکھ دی رفعت و قربت رسول اللہﷺ کی
والضّحیٰ سے بھی اٹھائی ہے قسم اللہ نے
اور لکّھی دائمی راحت رسول اللہﷺ کی
انشراحِ صدر لکّھا اور بشارت یُسر کی
اور لکّھی ذکر میں رفعت رسول اللہﷺ کی
سورۂ کوثر میں ابتر ہر عدو کو لکھ دیا
اور لکھ دی نعمتِ کثرت رسول اللہﷺ کی
لکھ دیا قرآن میں ختمِ نبوت کا ثبوت
فرض لکھ دی حشر تک طاعت رسول اللہﷺ کی
وصف سارے آپ پر کامل خدا نے لکھ دیے
جمعِ وصفِ انبیاء سیرت رسول اللہﷺ کی
واسطہ تجھ کو ترے محبوب کا لکھ دے خدا
نورؔ کی قسمت میں بھی قربت رسول اللہﷺ کی
قلم کاغذ اور اِن میں روشنائی سانس لیتی ہے
نبیﷺ کی نعت ہو تو شاعری بھی سانس لیتی ہے
سنہری جالیاں، محراب و منبر گنبدِ خضریٰ
درِ سرکارﷺ کی ہر ایک شے ہی سانس لیتی ہے
سراپا رحمۃ اللعالمیںﷺ تشریف لائے ہیں
سکوں کا آج سے مخلوق ساری سانس لیتی ہے
نبیﷺ کے جسمِ اطہر کے عرق کا ہے انہیں صدقہ
گلوں کی اِس لیے ہر اک کیاری سانس لیتی ہے
زمیں پہ سانس لیتی ہیں صدائیں ذکرِ سرورﷺ کی
فضا میں ان صداؤں کی منادی سانس لیتی ہے
نبیﷺ کے عاشقوں کی زندگی فانی نہیں ہوتی
لحد میں عاشقوں کی جاں نثاری سانس لیتی ہے
خدا وہ دن بھی دکھلائے کہ اُس دہلیز تک پہنچوں
جہاں ساری تھکی ہاری خدائی سانس لیتی ہے
قرار اس کو مدینے کی زمیں میں نورؔ آئے گا
ہماری روح میں جو بے قراری سانس لیتی ہے
وحی کے قطع کا گزرا ہے جو عرصہ دیکھو
ہجرِ محبوب میں عاشقﷺ کا تڑپنا دیکھو
تجھ کو چھوڑا تو نہیں تیری رضا چاہی ہے
اپنے محبوبﷺ کو اللہ کا دلاسہ دیکھو
شب کی آغوش میں مد ہوش ہے خلقت ساری
لیکن اک وہ کہ جسے رب نے بلایا دیکھو
ایک معراج نہیں اور بھی معراجیں ہیں
کتنا محبوب ہے محبوبﷺ کا ملنا دیکھو
جسمِ اطہر کا کوئی سایہ نہیں ہے پھر بھی
انﷺ کی رحمت کا ہر اک شے پہ ہے سایہ دیکھو
چاند روشن ہے ستاروں نے ضیا پائی ہے
زلفِ احمدﷺ کی سیاہی سے اجالا دیکھو
پیش کرتا ہوں تمہیں زائرِ شہرِ طیبہ
میری آنکھوں سے بھی سرکارﷺ کا روضہ دیکھو
نورؔ کعبہ کے نظاروں سے طہارت پا کر
پاک آنکھوں سے مدینے کا نظارہ دیکھو
نہ ہو مر کر بھی ہرگز بس ہماری
پکارے یا نبیﷺ نس نس ہماری
شفیع المذنبیں اکے امتی ہیں
یہی ہے حشر میں ڈھارس ہماری
رہی غافل جو یادِ مصطفیٰﷺ سے
وہ ساعت کاش ہو واپس ہماری
غلامِ سیّدِ لولاکﷺ ہیں ہم
ہے نسبت کس قدر اقدس ہماری
بدن محتاج ہے طیبہ سفر کا
نہیں ہے روح تو بے بس ہماری
درِ آقاﷺ کو چومیں آنسوؤں سے
ہوں پلکیں جالیوں سے مس ہماری
ابھی دیدار کی خواہش ہے باقی
ابھی بینائی ہے ناکس ہماری
خوشی سے نورؔ دل بھی جھومتا ہے
مدینے جا رہی ہے بس ہماری
ہے کوئی اضافہ نہ کہیں کوئی کمی ہے
رب نے جو کہی بات محمدﷺ نے کہی ہے
آدمؑ سے نبوّت کی عمارت جو کھڑی ہے
سرکارﷺ کی آمد سے مکمل وہ ہوئی ہے
محمودﷺ کہیں حامدﷺ و احمدﷺ کہ محمدﷺ
توصیفِ نبیﷺ حمد سے منسوب رہی ہے
اخلاق ہو کردار ہو اطوار کہ گفتار
ہر وصف کی تکمیل محمدﷺ پہ ہوئی ہے
مدّثّرﷺ و مزّمّلﷺ و یٰسینﷺ کہ طٰہﷺ
ہر لفظ ہی قرآن ہے اور نعتِ نبیﷺ ہے
جنت کے طلب گار مدینے کی طرف دیکھ
جنت بھی تو سرکارﷺ کے روضے پہ جھکی ہے
آتی ہے نظر نقشۂ عالم میں نمایاں
طیبہ کی زمیں ایسے قرینے سے سجی ہے
سرکارﷺ کی مدحت کے لیے بزم سجانا
یہ رسم مودّت ہے صحابہؓ سے چلی ہے
ہو خواب میں دیدار کہ آنکھوں سے زیارت
ہر عاشقِ صادق کی حضوری تو ہوئی ہے
اے نورؔ کوئی چارہ نہیں تھا سرِ محشر
آقاﷺ نے بنائی تو مری بات بنی ہے
جو نعت کارِ سعادت ہوئی خضرؑ کے لیے
چنا ہے ہم نے اسے عمرِ مختصر کے لیے
زیادہ فاصلہ قوسین میں نظر آیا
خدا ہے اتنا قریں افضل البشرﷺ کے لیے
وہ جس کے بعد کبھی تیرگی نہیں ہوتی
حضورﷺ بھیجے گئے ہیں اُسی سحر کے لیے
درود پڑھنا نبیﷺ پر خدا کی سنت ہے
سو اب یہ فرض ہے دنیا کے ہر بشر کے لیے
مجھے بھی عشقِ نبیﷺ کی اسیری مل جائے
مرا وجود رہے قید عمر بھر کے لیے
یہ خاک خاکِ مدینہ تلاش کرتی ہے
خدا سنوار دے مجھ کو نبیﷺ کے گھر کے لیے
یہ چشم آپﷺ کے دیدار ہی کی پیاسی ہے
قرار اور نہیں نورؔ چشمِ تر کے لیے
کثرتِ انوار سے ہستی مری معمور ہے
اِس لیے کہ مدحتِ آقاﷺ مرا دستور ہے
خواب میں آئے نظر مجھ کو سراپا آپﷺ کا
بعدِ تکمیلِ طلب مرنا مجھے منظور ہے
سیرتِ سرکارﷺ کا چرچا بہر سُو کیجیے
دو جہاں میں کامرانی کا یہی دستور ہے
یوں عذاب و قہر کا اندیشہ بھی ہوتا نہیں
عاصیوں پر آپﷺ کی چشمِ کرم بھرپور ہے
جس طرف دیکھو چراغاں جس طرف دیکھو بہار
آپﷺ کی آمد سے عالم کس قدر مسرور ہے
آپﷺ سے نسبت کی عظمت کس قدر ہے دیکھیے
قصرِ شاہی سے بھی افضل خانۂ مزدور ہے
کوئی مانے یا نہ مانے یادِ آقاﷺ کے سبب
شدّتِ آلام میں بھی زندگی مسرور ہے
ہے کمی کوئی یقیناً اب بھی میری چاہ میں
نورؔ کب میری رسائی سے مدینہ دور ہے
جہاں کو رشک میرے ضو فگن اشعار پر ہوتا
اگر حاصل مجھے بھی نعت کہنے کا ہنر ہوتا
رُخِ تاباں کا نظّارہ مقدر میں اگر ہوتا
اُجالا ہی اُجالا مجھ میں تا حدِّ نظر ہوتا
درودِ پاک لب پر اور دل میں عشق سرورﷺ کا
کچھ اس انداز سے اے کاش طیبہ کا سفر ہوتا
مدینے جا کے آنے کا ارادہ اپنے اس دل میں
نہ وقتِ شام ہوتا اور نہ ہنگامِ سحر ہوتا
خوشی سے چوم لیتا میں ہر اِک نقشِ قدم انﷺ کا
جہاں سے بھی مرے پُر نور آقاﷺ کا گزر ہوتا
نہ ہوتا خوف دوزخ کا نہ خواہش باغِ جنت کی
سنہری جالیوں کے سامنے میں بھی اگر ہوتا
نہ جانے نورؔ کتنی بار اب تک جا چکے ہوتے
اگر آساں کراچی سے مدینے کا سفر ہوتا
محشر میں بھی نبیﷺ کا ہے گلزار برقرار
اُس کے ہر ایک پھول کی مہکار برقرار
رب نے بنایا آپ ہی کو احسن البشرﷺ
رب نے ہی رکھا نعت کا معیار برقرار
سدرہ سے آگے انﷺ کا سفر اور تیز تھا
جبریلؑ رکھ نہ سکتے تھے رفتار برقرار
نسبت ہو جن کی اُن سے وہ مٹتے نہیں کبھی
ہیں پانچ برقرار کہیں چار برقرار
کوئی کمی نہیں ہے مدینے میں فیض کی
چودہ سو سال سے ہیں سب انوار برقرار
دنیا کو دین حشر کو جنت بنا دیا
دونوں طرف کرم کی ہے مقدار برقرار
ناموسِ مصطفیٰﷺ پہ لٹا دیں گے جان و مال
رکھیں گے ہم صحابہؓ کی اقدار برقرار
گو دیکھ کر توﷺ گیا طیبہ کی رونقیں
پھر بھی ہے دل میں خواہشِ دیدار برقرار
حضورﷺ آپ جو تشریف لائے دنیا میں
فلک نے پھر کہیں دیکھی بہار صحرا میں
اجالا مثلِ سحر شب میں پھیلتے دیکھا
میں لکھ رہا تھا مبارک مدینے کی شامیں
طلب ہے ایک جھلک، آپ کی مرے آقاﷺ
اندھیرا پھر سے بہت ہو گیا ہے دنیا میں
میں کیسے مانگ سکوں اذنِ حاضری انﷺ سے
کہاں مجھ ایسا خطاکار شہرِ طیبہ میں
کریم بعد خدا آپﷺ سا نہیں کوئی
خدائی ڈوبی ہے ساری کرم کے دریا میں
نبیﷺ کے ذکر کی عادت بنائی ہے جب سے
سکوں کا راج ہوا ہے دلِ فسردہ میں
میں نورؔ کیوں نہ کروں ناز اپنی قسمت پر
زبان میری بھی گویا ہے مدحِ آقاﷺ میں
شہِ مدینہﷺ کا جو شخص بھی غلام ہوا
جہاں کے سارے سلاطین کا امام ہوا
لکھا خدا نے محمدﷺ سخن تمام ہوا
نبیﷺ کی نعت میں پہلا یہی کلام ہوا
نبیﷺ کی نعت مکمل خدا نے کہہ دی ہے
نبیﷺ کی نعت کا قرآں میں اہتمام ہوا
خدا نے نور سے اپنے بنایا نورِ نبیﷺ
نبیﷺ کے نور سے ہر شے کا انتظام ہوا
سحر تا شام خدائی کو روشنی بخشی
تمام رات خدا کے قریں قیام ہوا
جسے نبیﷺ کی محبت نے کر لیا ہے اسیر
اسے فلاح ملی ہے اسے دوام ہوا
جسے حضورﷺ کی نعلین سے ہوئی نسبت
وہ ایک ذرّہ بھی معیارِ احترام ہوا
ہمیں بلا لیا سرکارﷺ نے مدینے میں
ہمارے پینے پلانے کا انتظام ہوا
بیاضِ نعتِ نبیﷺ کھل گئی ہے محشر میں
ہمارے خلد میں جانے کا اہتمام ہوا
بسے ہیں اُن کے تخیّل میں روز و شب آقاﷺ
جو نعت کہتے ہیں اُن کا بڑا مقام ہوا
میں نورؔ عاجز و محدود اور قلم خستہ
عطا ہوئی ہے انہیں سے تو یہ کلام ہوا
قبر میں صلِّ علیٰ کی روشنی کام آ گئی
حشر کے میدان میں نعتِ نبیﷺ کام آ گئی
مدحتِ سرکارﷺ لکھی اور سنائی بھی انہیںﷺ
دل کی آنکھوں سے بھی اپنی حاضری کام آ گئی
ہو گئی بے سود دنیاوی ریاضت قبر میں
جو حدیثِ مصطفیٰﷺ ہم نے سنی کام آ گئی
مدح کر کے کبریا اور سیّدِ کونین آ کی
بات میں نے جو کہی میرے وہی کام آ گئی
اپنی بے نوری پہ افسردہ ستارے تھے بہت
نقشِ پائے مصطفیٰﷺ کی روشنی کام آ گئی
آب و دانہ ہی نہیں ہم سے مریضوں کے لیے
کوچۂ سرکارﷺ کی تو خاک بھی کام آ گئی
بن کے چارہ ساز آئے شافعِﷺ روزِ جزا
حشر میں یوں نورؔ کی بے چارگی کام آ گئی
خدائے پاک کی ایسی کوئی کتاب نہیں
ہوئی جو اسمِ محمدﷺ سے فیض یاب نہیں
ازل سے تا بہ قیامت حجاب میں ہے خدا
مگر حبیبﷺ سے اپنے کوئی حجاب نہیں
مِرے لیے ہے مدینہ بھی غیب پر ایمان
عطا جو غیب سے ہے اس کا کچھ حساب نہیں
ابھی وہ نعت ہے باقی جو اشک لکھیں گے
ابھی کتابِ محبت میں انتساب نہیں
دلوں میں روشنی عشقِ نبیﷺ سے ہوتی ہے
کہ جس کے سامنے کچھ بھی یہ ماہتاب نہیں
وہ اور ہوں گے پکڑ جن کی ہو گی محشر میں
مِرے رسولﷺ کے عاشق کا احتساب نہیں
رسولِ پاکﷺ کی جس خواب میں زیارت ہو
زیادہ اس سے کوئی اور سچا خواب نہیں
بِنا حجاب کے حسنِ رسولﷺ دیکھے کوئی
کسی بھی آنکھ میں دیدار کی وہ تاب نہیں
حبیب رب کے ہیں، ختم الرسلﷺ ہیں شاہِ اممﷺ
یہ نورؔ قولِ خدا ہے، یہ اکتساب نہیں
چارہ گر نایاب تھے جن کے غمِ جاں کے لیے
آپﷺ رحمت بن کے آئے ایسے انساں کے لیے
ایسا منصفﷺ اور عدالت مرحبا صد مرحبا
ایک ہی قانون ہے نادار و سلطاں کے لیے
ہر برائی کو مٹا کر آپﷺ نے ثابت کیا
بے اثر ہوتی ہے ظلمت مہرِ تاباں کے لیے
یہ طوافِ بیکراں یہ عظمتِ ختمِ رُسُلﷺ
کتنے پروانے ہیں اک شمعِ فروزاں کے لیے
ہم خطا کاروں کے پلّے میں نہیں ہے اور کچھ
نعت کا دیوان ہی لائے ہیں رضواں کے لیے
جمع ہیں سارے نبیؑ سارے ملک اسریٰ کی شب
سج رہی ہے خاص محفل خاص مہماں کے لیے
بندہ و معبود کا بھی فرق ہو پیشِ نظر
یہ حقیقت نورؔ لازم ہے ثنا خواں کے لیے
اوج پر کتنی میری قسمت ہے
میرے لب پر نبیﷺ کی مدحت ہے
عمر ہے مختصر اِسی باعث
شوقِ دیدار کی یہ عجلت ہے
انﷺ کی توصیف کیا کروں جن کا
نام لینا بھی خود عبادت ہے
جس پہ چل کر مٹی ہے تاریکی
میرے سرکارﷺ کی وہ سیرت ہے
کیوں صحابہؓ نہ ہوں سراجِ زماں
منبعِ نور سے جو نسبت ہے
کس کو معلوم ہے خدا کے سوا
سرورِ دیں اکی جو فضیلت ہے
ذکرِ سرکارﷺ کیوں نہیں کرتے
روشنی کی اگر ضرورت ہے
حق و باطل میں فرق ہے جو عیاں
نورؔ آقاﷺ کی یہ بدولت ہے
ہر اک آسماں میں یہ چرچا ہوا ہے
حبیبِ خداﷺ عرش پر آ رہا ہے
تخیّل فسردہ فسردہ تھا میرا
سکوں ڈھونڈنے وہ مدینے گیا ہے
وہ روضہ وہ جالی وہ گنبد وہ منبر
دلِ مضطرب خواب میں دیکھتا ہے
حیاتِ محمدﷺ کی تاریخ دیکھی
ورق در ورق درسِ الفت ملا ہے
سماں جیسا جنت کا ہوتا ہے یارو
سنا ہے مدینے کی ایسی فضا ہے
رضائے خدا کی نہیں راہ دیگر
حبیبِ نبیﷺ ہی حبیبِ خدا ہے
اندھیرے وہاں سے ہوئے نورؔ رخصت
جہاں ذکر خیر الوریٰﷺ کا ہوا ہے
سکھایا آپﷺ نے ہم کو محبتیں کرنا
عداوتوں کے عوض بھی عنایتیں کرنا
یہ لازمی ہے ادا انﷺ کی سنتیں کرنا
کہ رب کے سامنے آساں ہو صورتیں کرنا
دو عالموں کے شہنشاہﷺ کی یہ خوبی ہے
خود آپ بھوک میں رہ کر ضیافتیں کرنا
ہمیں ہے یاد وہ طائف کا سانحہ اب بھی
حضورﷺ آپ کا اُن پر عنایتیں کرنا
لہو لہو ہے بدن آپﷺ کا پئے اُمّت
رہِ نجات کی پھر بھی ہدایتیں کرنا
رسولِ پاکﷺ کو مقصد سے دور کر نہ سکا
عدوئے دین کا اتنی عداوتیں کرنا
حضورﷺ آپ کی رحمت ہے سارے عالم پر
حضورﷺ آپ کا منصب شفاعتیں کرنا
یہ التجا ہے سرِ حشر نورؔ کی آقاﷺ
گناہ گار پہ اپنے نوازشیں کرنا
یہاں خدا کی ثناء میں ہیں مصطفیٰﷺ مصروف
وہاں ثنائے محمدﷺ میں خود خدا مصروف
تمام رنگِ جہاں اُس کے ہیں تصور میں
برائے نعت نویسی جو ہو گیا مصروف
نبیﷺ کا نام جہاں میں کہاں نہیں پہنچا
نبیﷺ کے ذکر میں ہر شے ہے جا بہ جا مصروف
جو بغض دین سے رکھتے تھے، آپ نے آقاﷺ
خدا کی یاد میں اُن کو بھی کر دیا مصروف
دھڑکنے لگتا ہے سینے میں اعتدال کے ساتھ
جو دل کو حُبِّ محمدﷺ میں کر دیا مصروف
ہوئے ہیں پھر تو خیالات عرش سے نازل
ہوا جو نعتِ نبیﷺ میں قلم مرا مصروف
نزولِ رحمتِ باری نہ اُس پہ ہو کیونکر
نبیﷺ کے ذکر میں اے نورؔ جو ہوا مصروف
چارہ گری کے دل کو جوہر دکھا دیے ہیں
حُبِّ نبیﷺ نے میرے سب غم مٹا دیے ہیں
وہ روشنی عطا کی دل ہو گئے منّور
جو بُت خدا بنے تھے وہ سب گرا دیے ہیں
حوریں، بہشت و کوثر ہیں آپ کے لیے سب
انعام حق نے کتنے، خیر الوریٰا دیے ہیں
گھیرا ہے مشکلوں نے ہر زاویے سے اُس کو
امت نے حکم انﷺ کے جب سے بھلا دیے ہیں
تفریق ناروا تھی سرکارﷺ کی نظر میں
شاہ و گدا زمیں پر یکجا بٹھا دیے ہیں
میرا یقیں ہے مولیٰ اُس سے رہے گا راضی
ہجرِ نبیﷺ میں جس نے آنسو بہا دیے ہیں
اے نورؔ مدح انﷺ کی مجھ سے کہاں تھی ممکن
اشعارِ نعت میں نے پھر بھی سُنا دیے ہیں
فرشتے اُن کا بڑا احترام کرتے ہیں
جو انﷺ کے در پہ بسر صبح و شام کرتے ہیں
رہِ نجات ہے سیرت رسولِ اکرمﷺ کی
چلو رسولﷺ کی سیرت کو عام کرتے ہیں
برائے عزّ و شرف انﷺ کے در پہ شام و سحر
فلک سےﷺ کے فرشتے سلام کرتے ہیں
یہ احترامِ رسالت نہیں تو پھر کیا ہے
شجر حجر بھی ادب سے سلام کرتے ہیں
سکونِ دل کا خزانہ وہاں سے لے آئے
جو در پہ آپﷺ کے جا کر قیام کرتے ہیں
درود بھیج کے ہم بھی ہوں سرخرو لوگو
خدا اور اُس کے فرشتے یہ کام کرتے ہیں
انھیں ہو نورؔ میسّر نہ کیوں خدا کی رضا
نبیﷺ کے ذکر کا جو اہتمام کرتے ہیں
مسلسل رحمتیں نازل خدا فرما رہا ہو گا
ذرا سوچو! تریسٹھ سال میں کیا کیا ہوا ہو گا
جہاں ذکرِ نبیﷺ ہو وجد ہو جاتا ہے خود طاری
جہاں وہا ہیں وہاں کے کیف کا انداز کیا ہو گا
جسے دیدار ہو انﷺ کا بڑا خوش بخت مومن ہے
اُسے اِس زندگی میں اِس سے بڑھ کر کیا ملا ہو گا
وہ دنیا ہو کہ محشر ہو نبیﷺ کا چاہنے والا
خدائے پاک کی رحمت کے سائے میں سدا ہو گا
اذاں ہو یا نمازیں ہوں کہ ہو قرآن کا پڑھنا
وہاں ذکرِ نبیﷺ ہو گا جہاں ذکرِ خدا ہو گا
بلاوا آئے گا سرکارﷺ کے در سے ہمیں جب بھی
ہمارے واسطے آسان ہر اک راستا ہو گا
خدائے پاک کی جنت میں ہوں گے جس جگہ آقاﷺ
وہاں کا ایک اِک گوشہ قرینے سے سجا ہو گا
نبیِ پاکﷺ کی قربت میں ہو گا روزِ محشر وہ
نبیِ پاکﷺ کی سیرت پہ جو انساں چلا ہو گا
بروزِ حشر اُمت کا ہر انساں نورؔ شدّت سے
بہت بے چین ہو کر راہ انﷺ کی تک رہا ہو گا
تعلّق کی ہے انتہا اور کیا ہے
یہ معراج کا واقعہ اور کیا ہے
دمِ رخصت امّت سرِ حشر امّت
بجز خیرِ امّت دعا اور کیا ہے
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
دلِ مضطرب چاہتا اور کیا ہے
جو فرمائیں آقاﷺ عمل اُس پہ کرنا
خدائے نبیﷺ کی رضا اور کیا ہے
ہے قرآن یا پھر ہے سنت نبیﷺ کی
بھلا خلد کا راستہ اور کیا ہے
یہی میری بخشش کا ہے آسرا بس
بجز مدحِ آقاﷺ کیا اور کیا ہے
یہ ہے نورؔ پَرتَو شہِ مرسلیںﷺ کا
وگرنہ جہاں کی ضیا اور کیا ہے
آپﷺ کے نقشِ قدم کی پیروی ہے زندگی
ذکرِ آقاﷺ میں جو گزرے زندگی ہے زندگی
دل میں ہو عشقِ محمدﷺ اور لب مدحت سرا
کوئی سمجھے یا نہ سمجھے بس یہی ہے زندگی
اِس لیے اذنِ درِ سرکارﷺ میں بے چین ہے
کامرانی کا پتہ یہ جانتی ہے زندگی
ہے یہ پیغامِ نبیﷺ اللہ کو راضی رکھو
ہے یہی مہلت عمل کی جو ابھی ہے زندگی
آپﷺ کی بعثت سے پہلے کس قدر بے نور تھی
آپﷺ کی آمد سے ہر سُو روشنی ہے زندگی
آپﷺ کے دشمن کو جو اللہ کا دشمن کہے
در حقیقت اُس بشر نے جان لی ہے زندگی
جب سے انﷺ کے ذکر کی محفل میں آیا شوق سے
مجھ کو بھی اے نورؔ حاصل ہو گئی ہے زندگی
جس پہ ہے انصاف نازاں آپﷺ کا دربار ہے
کیوں نہ ہو جب ذاتِ اقدسﷺ مرکزِ انوار ہے
خوف طوفاں کا اُسے ہوتا نہیں اے نا خدا
جو کرے ذکرِ محمدﷺ اُس کا بیڑا پار ہے
صرف مسلم ہی نہیں دشمن بھی انﷺ کے کہہ اٹھے
سب سے اعلیٰ آپﷺ کا اخلاق ہے کردار ہے
آپﷺ کو یٰسین و طٰہٰ سے بلاتا ہے خدا
اِس قدر حُسنِ تکلّم پیار کا اظہار ہے
منتظر موسیٰؑ خدا کی دید کے ہیں اور خدا
کس کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہے
اپنی چاہت کا کرے اعلان خود اُس سے خدا
جو بشر سرکارﷺ کی سنت کا تابع دار ہے
یا شفیعَ المذنبیںﷺ اِس نورؔ پر بھی ہو کرم
اِس کے سر پر بھی گناہوں کا بڑا انبار ہے
امتحاں گاہِ بشر کے یہ علاوہ کیا ہے
آپﷺ نے ہم کو بتایا ہے کہ دنیا کیا ہے
عرش سے لوٹ کے آئے تو کئی راز کھُلے
ہم کو سب کچھ ہی بتایا ہے کہ دیکھا کیا ہے
یہ بتایا کہ گناہوں سے وہ توبہ کر لیں
جو بُرے لوگ ہیں اُن کے لیے اچھا کیا ہے
یہ بتاتے ہیں کہ قدرت کے مظاہر دیکھو
رات کہتے ہیں کسے اور سویرا کیا ہے
یہ بھی سوچا ہے کبھی خود کو گنوانے والے
صرف دنیا سے محبت کا نتیجہ کیا ہے
جن کو معلوم نہیں رفعت و عظمت انﷺ کی
ایسے اندھوں سے نہ پوچھو کہ اجالا کیا ہے
کاش ہر وقت ہمارے یہ رہے پیشِ نظر
حکم اللہ کا فرمان نبیﷺ کا کیا ہے
ہر روش رحمتِ باری سے مزیّن دیکھی
ایک فردوس کا گوشہ ہے مدینہ کیا ہے
جو ہیں عشاق محمدﷺ کے انھیں کیا معلوم
غمِ امروز ہے کیا خدشۂ فردا کیا ہے
وہ مٹائیں گے تو یہ اور درخشاں ہو گا
نورؔ اسلام کو کفار نے سمجھا کیا ہے
دور دنیا کے غم ہو گئے ہیں چین سے نیند آنے لگی ہے
ذکرِ آقاﷺ کی تاثیر سے یہ زندگی مسکرانے لگی ہے
منتظر جس کی آمد کے تھے ہم وہ خوشی بن کے چھانے لگی ہے
مرحبا اے ہوائے مدینہ شمعِ غم جھلملانے لگی ہے
آئے ہیں مصطفیٰﷺ بن کے رحمت ہو گیا ہے یہ عالم مزیّن
روشنی چھا گئی ہے جہاں پر تیرگی اب ٹھکانے لگی ہے
مجھ کو مل جائے اذنِ حضوری بس یہی ہے مری اک تمنا
حاضری کی تڑپ اب تو آقاﷺ مجھ کو بے حد ستانے لگی ہے
گونج اٹھی صدائے محبت سب مسلماں ہوئے بھائی بھائی
درس الفت کا پھیلا کچھ ایسا دشمنی منہ چھپانے لگی ہے
آج سے چودہ سو سال پہلے جو بھی آقاﷺ نے فرمایا پڑھ لو
اُن حقائق کو سائنس بھی سچا آج سب کو بتانے لگی ہے
ایک الہام سا دل میں آیا بخت روشن ہوا ہے مرا بھی
ملنے والا ہے اذنِ حضوری یہ صدا دل سے آنے لگی ہے
روز و شب مال و زر کی طلب میں دور ہے اتّباعِ نبیﷺ سے
کامرانی کا تھا راستہ جو اس کو امّت بھلانے لگی ہے
نبیﷺ کی نعت کے صدقے کہاں تک
بلندی پا گئے کتنے کہاں تک
عیاں کرنی تھی رفعت مصطفیٰﷺ کی
سو لکھا رب نے وہ پہنچے کہاں تک
یہیں جلنے لگے جبریلؑ کے پر
اگر جاتے بھی تو جاتے کہاں تک
گلاب انﷺ کے پسینے سے ہیں مہکے
پھر ان سے گلستاں مہکے کہاں تک
نہ کرتیں گر حدیثیں رہنمائی
تو ہم قرآں سمجھ پاتے کہاں تک
مِری منزل مدینہ ہی ہے آخر
مجھے بھٹکائیں گے رستے کہاں تک
سجی سرکارﷺ کے قدموں میں جوں ہی
ہوئے نعلین کے چرچے کہاں تک
فلک بھی سر اٹھا کر دیکھتا ہے
کہ رستہ ہے مدینے سے کہاں تک
تمہاری زندگی ہے نورؔ کتنی
لکھو گے نعت تم کیسے کہاں تک
سنوں میں جا کے اذاں کی صدا مدینے میں
یہ آرزو ہے کہ مانگوں دعا مدینے میں
پکارا میں نے کراچی سے المدد آقاﷺ
ہوا کے دوش پہ پہنچی صدا مدینے میں
خدائے پاک کے محبوبﷺﷺ رہے ہیں یہاں
یہ سن کے جشن سا ہونے لگا مدینے میں
کوئی خزاں بھی نہ تاراج کر سکی اس کو
اِس اہتمام سے گلشن سجا مدینے میں
خدا نے اِس لیے کھائی قسم مدینے کی
کہ ہیں مقیم رسولِ خداﷺ مدینے میں
سوال یہ تھا کہ دنیا میں ہے کہاں جنت
تو میرے قلب نے فوراً کہا مدینے میں
اسی سے نورؔ منّور ہوا جہاں سارا
چراغِ دین جو روشن ہوا مدینے میں
لائے پیغام صبا کاش بلانے کے لیے
دل ہے بے تاب وہاں نعت سنانے کے لیے
کوئی جائے گا نہ تشنہ درِ آقاﷺ سے کبھی
ہیں وہ دریائے کرم پیاس بجھانے کے لیے
پڑھ کے دیکھیں تو ذرا ذاتِ مقدسﷺ پہ درود
ورد مقبول ہے یہ رب کو منانے کے لیے
کوئی آتا ہی نہیںﷺ کے مدینے سے کبھی
کون جاتا ہے وہاں لوٹ کے آنے کے لیے
جس تجلّی کی جھلک سہہ نہ سکی ذاتِ کلیم
حق نے آقاﷺ کو بلایا تھا دکھانے کے لیے
اوج پر روزِ جزا ہو گا الٰہی کا عتاب
آپﷺ آئیں گے وہاں ہم کو بچانے کے لیے
نورؔ اک اشک جو فرقت میں نبیﷺ کی نکلے
ہے بہت قبر کی ظلمت کو مٹانے کے لیے
ذاتِ نبیﷺ سے رحمتِ حق کا نزول ہے
عالم تمام محوِ ثنائے رسولﷺ ہے
دونوں جہاں کے لعل و گہر سے وہ کم نہیں
سرکارﷺ دوجہاں کے جو قدموں کی دھول ہے
آؤ برائے سیر چلیں ہم بھی دوستو
باغِ ارم کی طرح دیارِ رسولﷺ ہے
آمد جہاں میں جب سے ہوئی ہے حضورﷺ کی
بارانیِ کرم کا مسلسل نزول ہے
سجدے ہزار ہوں کہ عبادت ہو عمر کی
دل میں نہ ہو جو حُبِ نبیﷺ سب فضول ہے
اپنائیے حضورﷺ کی سیرت کو رات دن
مقصد اگر خدا کی رضا کا حصول ہے
عاشق کی ہے مراد تو دیدارِ مصطفیٰﷺ
انعام کی طلب نہ کوئی شے قبول ہے
میں نورؔ اس کو سمجھوں گا معراجِ شاعری
اک شعر پر بھی کہہ دیں اگر وہ قبول ہے
دھوپ غم کی گم ہوئی رحمت کے بادل چھا گئے
بن کے رحمت آپﷺ دنیا کو سجانے آ گئے
تیرگی تقدیر میں جن کے تھی وہ اُس میں رہے
روشنی جن کی طلب تھی روشنی وہ پا گئے
زندگی کے اصل مقصد سے تھی دنیا بے خبر
کیا ہے مقصد زندگی کا آپﷺ یہ سمجھا گئے
تا قیامت آپﷺ کی خوشبو سے مہکے گا جہاں
گلشنِ عالم کو آقاﷺ کس قدر مہکا گئے
بے سر و ساماں خدا کے حکم کی تعمیل میں
دین کی خاطر وہﷺ تنہا، فوج سے ٹکرا گئے
آپﷺ کی کوشش سے اتنا دین پھیلا ہر طرف
برسرِ پیکار دشمن دیکھ کر گھبرا گئے
رفعتِ عرشِ عُلیٰ تک دسترس مشکل نہ تھی
کوئی کب پہنچا وہاں تک جس جگہ آقاﷺ گئے
فاصلہ قوسین کی قربت سے بھی کچھ کم رہا
اِس قدر قربت خدا کی آپ آقاﷺ پا گئے
آپﷺ نے جو کچھ کہا حکمِ خدا سے ہی کہا
نورؔ یوں کہیے کہ رب کی بات وہﷺ دہرا گئے
ہر اک لمحہ وہ اپنی زندگی کو شاد کرتا ہے
جو دل میں اپنے ذکرِ مصطفیٰﷺ آباد کرتا ہے
حضورِ پاکﷺ کی محبوب سنت کا ہے وہ عامل
غریبوں مفلسوں کی جو بشر امداد کرتا ہے
عمل سرکارﷺ کی سنت پہ جو کرتا نہیں لوگو
سمجھ لیجے وہ اپنی عاقبت برباد کرتا ہے
خلوصِ قلب سے جو روز پڑھتا ہے درود انﷺ پر
فلک کی محفلوں سے روز حاصل داد کرتا ہے
بساتا ہے غمِ ہجرِ نبیﷺ جو قلب میں اپنے
غمِ دنیا سے اپنی زندگی آزاد کرتا ہے
نبیﷺ کے خُلق و عظمت، رفعت و سیرت کے بارے میں
خدا خود جا بہ جا قرآن میں ارشاد کرتا ہے
عطا ہو جائے مجھ کو اے خدا دیدار آقاﷺ کا
بہت بے تاب ہو کر نورؔ انﷺ کو یاد کرتا ہے
جو التفاتِ شاہِ اممﷺ جانتے نہیں
ٹلتے ہیں کیسے رنج و الم جانتے نہیں
اُس رہبرِ عظیمﷺ کی تلقین بھول کر
کتنے کیے ہیں خود پہ ستم جانتے نہیں
پڑھتے نہیں درود جو سرکارﷺ پر کبھی
کھُلتا ہے کیسے بابِ کرم جانتے نہیں
ہم یہ تو جانتے ہیں وہ عالی مقام ہیں
پھر بھی مقامِ فخرِ امم جانتے نہیں
دیکھا نہیں جنھوں نے درِ مصطفیٰﷺ کبھی
کہتے ہیں کس کو باغِ ارم جانتے نہیں
ہے کتنی احتیاط طلب نعت کی روش
یہ بات چند اہلِ قلم جانتے نہیں
ہوتا نہیں ہے ذکرِ رسولِ خداﷺ جہاں
اے نورؔ اُس مقام کو ہم جانتے نہیں
ظلمت میں ہر قدم پر روشن دیا ملے گا
یہ مدحتِ نبیﷺ کا مجھ کو صلہ ملے گا
محشر میں بس اُسی کو ہر مدعا ملے گا
جس کو نبیﷺ ملیں گے اُس کو خدا ملے گا
محبوبِ کبریاﷺ کے نقشِ قدم پہ چل کر
جنت کو جانے والا خود راستہ ملے گا
ذکرِ نبیﷺ کا ہو گا چرچا ہر اُس جگہ پر
تم کو جہاں بھی ذکرِ ربُّ العُلیٰ ملے گا
بے خوف ہو کے جو بھی رہتا ہے اِس جہاں میں
ذاتِ نبیﷺ سے اُس کا رشتہ جُڑا ملے گا
ذکرِ نبیﷺ کی محفل میں حاضری کے باعث
خلدِ بریں میں تم کو سب کچھ سجا ملے گا
جب ہو گی لب پہ مدحت اور سامنے مدینہ
اِس نورؔ کو یہ موقع کب اے خدا ملے گا
ہوئی نصیب جو قربت ذرا مدینے سے
ملے گی روشنی پتھر کو بھی نگینے سے
ہے ناخدا سے تعلق نہ کچھ سفینے سے
مجھے بلائیں گے سرکارﷺ خود مدینے سے
زمانہ چھان لیا پھر بھی مل نہیں پایا
درود جیسا خزانہ کسی دفینے سے
کہیں لبوں سے درخشاں ہے کائنات کا رنگ
ہے مشک و عود کو نسبت کہیں پسینے سے
اے خاکِ پاک تجھے سر پہ اوڑھ کر رکھوں
مجھے کراچی سے نسبت تجھے مدینے سے
مدینے پاک کی دھرتی سمیٹ لے مجھ کو
پناہ مانگ رہا ہوں بکھر کے جینے سے
بقیعِ پاک پہ جائیں تو ایسا لگتا ہے
ستارے رکھے ہوئے ہیں عجب قرینے سے
عروج پاتا ہوا بخت نورؔ ہو جیسے
ورود کرتی ہوئی نعت دل کے زینے سے
جو خیرات سے مصطفیٰﷺ کی بھرا ہو
مجھے ایسا کشکول یارب عطا ہو
ہے دیدِ مدینہ کی مجھ کو بھی خواہش
شرف حاضری کا مجھے بھی عطا ہو
بڑا تاج داروں سے ہے اُس کا رتبہ
ہے خوش بخت کتنا جو انﷺ کا گدا ہو
رضائے الٰہی ہے اُس کا مقدر
جسے سرورِ دیں اکی حاصل رضا ہو
ہیں محبوب وہ بھی الٰہی کے بے شک
جنھیں میرے آقاﷺ نے اپنا کہا ہو
نہ لوٹے گا خالی کوئی انﷺ کے در سے
وہ سلطان ہو یا کوئی بے نوا ہو
نثار اُس کی آنکھوں پہ خلقت کی آنکھیں
شرف دید کا جس کو حاصل ہوا ہو
زمانہ کرے جب ستائش کسی کی
لبوں پر مرے ذکرِ خیر الوریٰﷺ ہو
تمنّا ہے یارب دلِ نورؔ کی یہ
عقیدت سے اُن کی مکمل بھرا ہو
انبیاؑ میں سب سے بڑھ کر ہے فضیلت آپﷺ کی
کیوں نہ پھر مدحت سرا ہو ساری خلقت آپﷺ کی
جب بھی زُلفِ عنبریں کا ذکر محفل میں ہوا
بزم میں محسوس کی جاتی ہے نکہت آپﷺ کی
تاجِ شاہی اُس کی ٹھوکر میں پڑے دیکھے گئے
جس گدا پر ہو گئی چشمِ عنایت آپﷺ کی
قبر میں پوچھیں فرشتے جب، ہے کس کا اُمتی
اُس گھڑی لب پر مرے آقاﷺ ہو مدحت آپﷺ کی
نامۂ اعمال میں حُسنِ عمل کوئی نہیں
کام آئے گی فقط آقاﷺ شفاعت آپﷺ کی
جنّ و انسان و ملک ہوں یا حجر ہوں یا طیور
ساری خلقت کے لیے ہر دم ہے رحمت آپﷺ کی
نورؔ مل جائے گی اُس کو دونوں عالم میں فلاح
یاد رکھی ایک بھی جس نے نصیحت آپﷺ کی
تصور میں ہے روضہ، گنبدِ خضریٰ کا منظر ہے
سفر میں ہمسفر اپنے یہ اشکوں کا سمندر ہے
ولادت کا مہینہ ہے یہ افضل سب مہینوں سے
لکھوں گا نعت میں توفیق جو مجھ کو میسر ہے
وہ صادق ہیں، امیں ہیں، دلنشیں ہے انﷺ کا ہر پہلو
ملک، انساں، جن و حیواں فِدا ہر ایک انﷺ پر ہے
کبھی خائف نہیں ہوتا کسی فوجِ مخالف سے
نبیﷺ کے چاہنے والوں کا دیکھو ایسا لشکر ہے
مرض کیسا بھی لاحق ہو درودِ پاک ہے درماں
اگر تجھ کو یقیں ہو تو دوا یہ سب سے بہتر ہے
مرے خوابوں میں اچھا خواب وہ ہے جس میں یہ دیکھوں
مدینے میں میسر مجھ کو بھی اِک چھوٹا سا گھر ہے
کسی دلچسپ نظّارے پہ دل مائل نہیں ہوتا
نگاہوں میں بسا جب سے مری طیبہ کا منظر ہے
نبیﷺ کی خاکِ پا اے نورؔ دے گی اِس کو تابانی
اِسی اِک آرزو میں مبتلا کب سے مرا سر ہے
جس کے لبوں پہ مدحت سرکارﷺ کی نہیں ہے
دونوں جہاں میں اُس کی بگڑی بنی نہیں ہے
غافل رہے ہمیشہ جو انﷺ کی پیروی سے
وہ زندگی نہیں ہے وہ زندگی نہیں ہے
یہ جان و مال سب کچھ سرکارﷺ پر ہیں قرباں
یہ جذبۂ عقیدت دیوانگی نہیں ہے
مہمان مصطفیٰﷺ ہیں اور میزبان ہے رب
عظمت کسی نبی کو اتنی ملی نہیں ہے
ذکرِ نبیﷺ سے مجھ کو ہر چیز ہے میسّر
گھر مجھ سے کہہ رہا ہے کوئی کمی نہیں ہے
گزرے ہیں یوں تو اکثر حُسنِ عمل کے حامل
کوئی مثال لیکن سرکارﷺ کی نہیں ہے
بے کار اُس کے روزے، بے کار ہیں نمازیں
جس آدمی کے دل میں عشقِ نبیﷺ نہیں ہے
اب تک نبیﷺ کا روضہ دیکھا نہیں ہے میں نے
کیسے کہوں میں کوئی حسرت رہی نہیں ہے
نعتِ رسولِ اکرمﷺ کہنا نہیں ہے آساں
ہے اک اٹل حقیقت یہ عاجزی نہیں ہے
اے نورؔ ہیں نظر میں نقشِ قدم نبیﷺ کے
مشکوک اب ہماری منزل رسی نہیں ہے
ہے عرشِ مُعلّیٰ پہ دعوت نبیﷺ کی
فلک سے بھی بالا ہے رفعت نبیﷺ کی
یہ عظمت یہ حشمت یہ عزت نبیﷺ کی
کہ جبریلؑ کرتے ہیں خدمت نبیﷺ کی
ترے کام آئے گی دولت نہ شہرت
ہے جنت کی کنجی اطاعت نبیﷺ کی
شرف انبیاؑ کی امامت کا دے کر
خدا نے عیاں کی ہے عظمت نبیﷺ کی
نہ کیوں سرخرو دونوں عالم میں ہوتے
ملی جب صحابہؓ کو قربت نبیﷺ کی
نہیں قبر و محشر کا مجھ کو کوئی ڈر
تمام عالموں پہ ہے رحمت نبیﷺ کی
مرے جیسا عاصی جو کہتا ہے نعتیں
یہ ہے نورؔ مجھ پر عنایت نبیﷺ کی
زلف ہے شب اور سحر ہے چہرۂ خیر البشرﷺ
کالی کملی خَلق پر ہے سایۂ خیر البشرﷺ
ہو وہ صحرائے عرب یا کوہ میں ثور و حرا
گلستانِ خلد ہے ہر قریۂ خیر البشرﷺ
ساری خلقت کے سبھی اوصاف ہوں یکجا اگر
تب کہیں ہو پَرتوِ آئینۂ خیر البشرﷺ
انﷺ کے در سے لوٹنے والوں کی حالت کیا کہوں
آہ بھر کر دیکھتے ہیں روضۂ خیر البشرﷺ
اِس جہانِ تیرگی کے سب مکینوں کے لیے
روشنی ہے تا بہ محشر اُسوۂ خیر البشرﷺ
جوڑ لے سنت سے رشتہ جو بشر اُس کے لیے
جنت الفردوس ہی ہے وعدۂ خیر البشرﷺ
نورؔ ہم کو بخشنے کو حشر میں رحمٰن ہے
اور پھر رحمت صفت پیمانۂ خیر البشرﷺ
مل گئی جس کو رضائے مصطفیٰﷺ
ہو گیا اُس کا خدائے مصطفیٰﷺ
دونوں عالم میں ہیں عالی مرتبت
بن گئے ہیں جو گدائے مصطفیٰﷺ
حشر میں پوچھی گئی خواہش اگر
کچھ نہ مانگوں گا سوائے مصطفیٰﷺ
طور جس کی اک تجلی سے جلا
اُس کا جلوہ دیکھ آئے مصطفی ﷺ
ذکر میرا ہو رہا ہے عرش پر
میرے لب پر ہے ثنائے مصطفیٰﷺ
راہِ حق میں کیسے بھٹکیں گے قدم
رہنما ہیں نقشِ پائے مصطفیٰﷺ
وہ نظر آتے ہیں اوروں سے الگ
اِس جہاں میں آشنائے مصطفیٰﷺ
کیوں نہ پھر یہ عرش کے سائے میں ہو
نورؔ بھی تو ہے فدائے مصطفیٰﷺ
پیروی سے آپﷺ کی ہوتا ہے جو حاصل سکوں
در حقیقت ہے وہی اے ہمنشیں کامل سکوں
اضطرابِ دل کا درماں غیر ممکن تھا مگر
جب لیا اسمِ محمدﷺ ہو گیا حاصل سکوں
ہر پریشاں حال کے لب سے یہی نکلی صدا
مجھ کو دے گی مصطفیٰﷺ کے ذکر کی محفل سکوں
بھول کر تلقینِ آقاﷺ غیر کی تقلید سے
کر لیا امت نے خود اپنے لیے مشکل سکوں
اضطرابِ دل مٹا ایسا دیارِ پاک میں
جس طرح موجوں کو ملتا ہے سرِ ساحل سکوں
کب کسی کوتاہ بیں کو آج تک آیا نظر
سرورِ دیں اکی ہدایت میں نہاں کامل سکوں
آپﷺ کا اسمِ گرامی چارہ گر ثابت ہوا
بے قراری مٹ گئی دل کو ہوا حاصل سکوں
بخش دیں ہم رہ نوردوں کو خدارا بخش دیں
رہبرِمنزلﷺ سکوں اے رہبرِﷺ منزل سکوں
نورؔ پھیلی تھی جہاں میں بے قراری ہر طرف
آمدِ آقاﷺ سے سب کو ہو گیا حاصل سکوں
ہے اپنی وجہِ عظمت سرکارﷺ کی غلامی
جنت کی ہے ضمانت سرکارﷺ کی غلامی
شاہوں سے بڑھ کے رتبہ حضرت بلالؓ کا ہے
دیتی ہے کتنی رفعت سرکارﷺ کی غلامی
بیگانۂ الم ہے اور بے نیازِ عالم
ہے باعثِ مسرت سرکارﷺ کی غلامی
ہم کو سکھا رہی ہے انداز بندگی کے
اللہ کی اطاعت سرکارﷺ کی غلامی
دنیائے بے اماں سے بیزار ہونے والو
بخشے گی دل کو راحت سرکارﷺ کی غلامی
خدمت گزار کو تم کم تر کبھی نہ سمجھو
کرتی ہے یہ نصیحت سرکارﷺ کی غلامی
ہو نورؔ بعد اِس کے کیا مال و زر کی وقعت
ہے سب سے بڑھ کے دولت سرکارﷺ کی غلامی
اے نورؔ اور کیا ہے اِس کے سوا حقیقت
سنّت کا راستہ ہے بس راستہ حقیقت
عُشّاقِ مصطفیٰﷺ کی نظروں میں ہیچ ہیں یہ
دولت کی کیا ہے وقعت دنیا کی کیا حقیقت
ظلم و ستم سے بچنا دشوار ہو گیا تھا
آئے جو مصطفیٰﷺ تو یہ بن گیا حقیقت
سنّت کے راستے پر چلنے کا کیا ثمر ہے
ہر اِک پہ ہو گی ظاہر روزِ جزا حقیقت
رحمت مرے نبیﷺ کی ہے سارے عالموں پر
اہلِ نظر نے دیکھی یہ جا بہ جا حقیقت
شیطان و نفس کے تم پھندے میں پھنس نہ جانا
یہ آپﷺ نے بتائی ہے رہنما حقیقت
اصحابِؓ مصطفیٰﷺ کیا دشمن بھی جانتے ہیں
آقاﷺ نے جو کہا ہے سب کچھ کہا حقیقت
عرشِ بریں میں کیا ہے خلد بریں میں کیا ہے
خلقت میں کون جانے جُز مصطفیٰﷺ حقیقت
چودہ سو سال پہلے آقاﷺ نے جو کہا تھا
اے نورؔ اِس جہاں میں وہ بن گیا حقیقت
عرش پہ جلوۂ رب دیکھ کے آنے والے
میرے سرکارﷺ ہیں اعزاز یہ پانے والے
راہ جنت کی محمدﷺ ہیں دکھانے والے
کیا ہے دنیا کی حقیقت یہ بتانے والے
رشک آتا ہے بہت مجھ کو تری قسمت پر
انﷺ کے دربار میں اے نعت سنانے والے
یہ بھی سوچا ہے کبھی ربط ہے تیرا کس سے
بوجھ کاندھوں پہ گناہوں کا اٹھانے والے
درسِ آقاﷺ کو فراموش کیا ہے تو نے
ہو کے مسلم کسی مسلم کو ستانے والے
اپنی آنکھوں کی طہارت کا کوئی ساماں کر
دل میں دیدار کی خواہش کو بسانے والے
رحمتِ آقاﷺ رہی قہرِ خدا میں حائل
ورنہ ہم تھے کسی افتاد میں آنے والے
ان سا کوئی ہے کہاں رہبرِ کامل اے نورؔ
میرے آقاﷺ ہیں رہِ نور دکھانے والے
جو چمکا ارضِ یثرب پر وہ اک مہتاب نورانی
نبیﷺ کی اک تجلی سے ہوئے احباب نورانی
مرے آقاﷺ کی آمد سے اُجالا ہو گیا ہر سُو
کھُلا تاریخِ دنیا میں نیا اِک باب، نورانی
شرف دیدار کا انﷺ کے مجھے بھی ہو عطا یارب
مجھے بھی ہو میسر زندگی میں خواب نورانی
مرا ایماں ہے جنت کا وہ موتی بن گیا ہو گا
وضو سے آپﷺ کے وہ گرنے والا آب نورانی
رہی جو چیز بھی میرے نبیﷺ کے زیبِ تن یارو
جہاں میں ہو گیا ملبوس وہ نایاب نورانی
جسے دیکھو وہ مثلِ ماہِ تاباں جگمگاتا ہے
محمد مصطفیٰﷺ کے ہیں سبھی اصحابؓ نورانی
خزاں ہو یا بہاراں قید موسم کی نہیں کوئی
مرے محبوبﷺ کا گلشن سدا شاداب، نورانی
نبیﷺ کے نام کی تسبیح سے روشن دل و جاں ہیں
نبیﷺ کا نام نورانی، ہیں سب القاب نورانی
جہاں کی یہ چمک اے نورؔ ہے پَر تو شہِ دیںﷺکا
ستارے اور سورج نیز یہ مہتاب نورانی
نبیﷺ سے دل کا رشتہ چاہتا ہوں
میں اپنی ذات زندہ چاہتا ہوں
یہ جنت کی مہک سے بھی ہے بڑھ کر
میں آقاﷺ کا پسینہ چاہتا ہوں
قضا رک جا، تصوّر میں ہے طیبہ
ابھی میں اور جینا چاہتا ہوں
جو میری زندگی کا آخری ہو
مدینے میں وہ سجدہ چاہتا ہوں
تمنّا خلد کی تو ثانوی ہے
میں پہلے انﷺ کا جلوہ چاہتا ہوں
محمدﷺ ہیں تری رحمت خدایا
تری رحمت کا سایہ چاہتا ہوں
میسّر ہو محمدﷺ کی غلامی
بڑا شاہوں سے رتبہ چاہتا ہوں
جو ہو مقبول ان کی بارگہ میں
وہ مدحت کا سلیقہ چاہتا ہوں
پیا جو نورؔ عشّاقِ نبیﷺ نے
وہ جام الفت کا پینا چاہتا ہوں
یا رسولِ محترمﷺ لطف و کرم
آپﷺ کا ہر اک قدم لطف و کرم
آپﷺ کے شایان ممکن ہی نہیں
لکھ سکے میرا قلم لطف و کرم
بن گیا ایماں کی وسعت کا سبب
آپﷺ کا شاہِ امم لطف و کرم
ہے یقیں فرمائیں گے خیر الوریٰﷺ
حشر میں بہرِ ارم لطف و کرم
دشمنِ جاں کے لیے بھی آپﷺ کا
دوستوں سے تھا نہ کم لطف و کرم
بعثتِ سرکارﷺ سے پہلے بھی یاں
ڈھونڈتی تھیں چشمِ نم لطف و کرم
عاصیوں کو کاش یہ حاصل رہے
زندگی سے تا عدم لطف و کرم
بیٹھ کر کچھ دیر بزمِ نعت میں
نورؔ لُوٹیں آؤ ہم لطف و کرم
ہیں زمانے میں وہی باعثِ عظمت رشتے
جو بنے ہیں مرے آقاﷺ کی بدولت رشتے
ہم نے جو ذاتِ محمدﷺ سے یہاں جوڑے ہیں
روزِ محشر وہ کرائیں گے شفاعت رشتے
شاہِ طیبہﷺ کی صفت اُن سے عیاں ہوتی ہے
جب دکھاتے ہیں زمانے کو اخوت رشتے
ہم نے دیکھا جو کیے آپﷺ نے قائم باہم
ہیں حقیقت میں وہی لائقِ مدحت رشتے
دیکھنا چاہے زمانے میں اگر اپنا عروج
جوڑ لے سنّتِ سرکارﷺ سے امّت رشتے
جن کے رشتے ہیں ثنا خوانِ محمدﷺ سے یہاں
لے کے جائیں گے انھیں جانبِ جنّت رشتے
ہم خطا کار و گنہ گار ہیں پھر بھی اے نورؔ
توڑتی ہم سے نہیں آقاﷺ کی رحمت رشتے
موسیٰؑ سے کوہِ طور پہ کرتا رہا کلام
میرے نبیﷺ کے سامنے رب نے کیا کلام
معمور ہو گیا ہے تجلی سے اُس کا جسم
جس نے حضورﷺ آپ کا دل سے سنا کلام
پتھر، شجر، چرند، پرند، جنّ و انس کیا
بے نطق و اہلِ نطق ہر اِک سے ہوا کلام
میری بساط کیا ہے لکھوں نعت میں کہ جب
کہتا ہے نعت آپﷺ کی اللہ کا کلام
کفار نے بھی آپ کو صادق سخن کہا
جب بھی کیا ہے آپﷺ نے سچا کیا کلام
ایمان لائے جن میں تھی ایمان کی طلب
نا فہم کی سمجھ سے رہا ماروا کلام
حسبِ بساط پیش عقیدت ہر اِک نے کی
شایانِ شان کون یہاں لکھ سکا کلام
اے نورؔ بخش دے گا خطائیں یقین ہے
محشر میں جب سنے گا یہ ربُ العلیٰ کلام
جیسے نجوم سے ہیں ہفت آسماں مزیّن
انوارِ مصطفیٰﷺ سے ہے یہ جہاں مزیّن
یہ بام و در کی رونق، دیوار و در کی تابش
نعتوں سے ہو رہا ہے میرا مکاں مزیّن
اللہ ہم کو رکھے سائے میں اُس کے دائم
ہے رحمتِ نبیﷺ سے جو سائباں مزیّن
کہتا ہے مرحبا وہ، سنتا ہے اِس کو جو بھی
توصیف سے ہے انﷺ کی میرا بیاں مزیّن
پائیں گے آپ اُس کو محوِ درود اکثر
ذکرِ نبیﷺ سے ہو گی جس کی زباں مزیّن
اللہ کی صفت ہے پڑھنا درود انﷺ پر
وردِ درود سے ہیں کرُّوبیاں مزیّن
انﷺ کی تجلیوں سے یثرب بنا مدینہ
آتے نہ مصطفیٰﷺ تو ہوتا کہاں مزیّن
صدیوں کے بعد بھی ہے یہ اک نشان باقی
نقشِ قدم سے انﷺ کے، ہے کہکشاں مزیّن
ہر وقت جگمگائے عشقِ نبیﷺ کی ضو سے
اے نورؔ اِس طرح ہو دل کا جہاں مزیّن
ہے جیسا اپنی یہ وسعتوں میں کوئی ہے ایسا کہاں احاطہ
صفاتِ سرکارﷺ کا ہے دیکھو زمیں سے تا آسماں احاطہ
ملا جنھیں اذن حاضری کا گئے وہ خوش بخت دیکھ آئے
وہ سبز گنبد کی جلوہ ریزی مزار کا ضوفشاں احاطہ
تھا اِس سے پہلے ہر ایک جانب شکار ظلم و ستم کا انساں
جہاں میں اسلام نے بنایا برائے امن و اماں احاطہ
ہر اک برائی سے پاک ہے جو ہر ایک شر سے ہے جو مبرا
تمام عالم میں ہے عرب کی زمیں کا وہ خوش گماں احاطہ
احاطۂ دینِ حق ہے ایسا جو کُل کا کُل عافیت کا ضامن
بنا سکی آج تک نہ ایسا نگاہِ اہلِ جہاں احاطہ
پہنچ کے چرخِ کہن پہ رفتار تھی سُبک فخرِ انبیاﷺ کی
تمام نقشِ قدم کا پھر بھی نہ کر سکی کہکشاں احاطہ
نہ جانے کیا حال نورؔ ہوتا اگر نہ سرکارﷺ یہ بناتے
بچا رہا ہے ہر اک بلا سے ہمارا یہ پاسباں احاطہ
آپﷺ کے درسِ اُخوت نے کیا شیر و شکر
ہو گئے سب آشنا نا آشنا شیر و شکر
جس کے بانی آپﷺ ہیں اور جس کے تابع اُمّتی
ہے وہ مذہب ابتدا تا انتہا شیر و شکر
خون کے پیاسے جو تھے اک دوسرے کے ہر گھڑی
آپﷺ کی تبلیغ نے اُن کو کیا شیر و شکر
کوئی رنجش تھی نہ شکوہ اور نہ کوئی اونچ نیچ
فیصلہ اصحابؓ کا باہم رہا شیر و شکر
پیار سے جس کو حلیمہ گود میں لیتی رہیں
ذات سے وہ بھی حلیمہ کے رہا شیر و شکر
غایتِ تخلیقِ انساں کچھ نہیں اِس کے سوا
آرزوئے مصطفیٰﷺ حق کی رضا شیر و شکر
غور جب میں نے کیا سرکارﷺ کی تلقین پر
زندگی کا نورؔ مقصد بن گیا شیر و شکر
حق نے جیسا آپﷺ کو بخشا خلوص
کس کو حاصل ہو سکا ایسا خلوص
ہے نمایاں آج بھی تاریخ میں
ذاتِ احمدﷺ کے غلاموں کا خلوص
جب عبادت کی خدا آیا نظر
ایسا پایا آپ نے آقاﷺ خلوص
جان کا دشمن ہو یا کوئی رفیق
ہر کسی سے ایک سا برتا خلوص
مستجب کر دی خدا نے پیروی
دیکھ کر اصحابِؓ آقاﷺ کا خلوص
زخم کھا کر بھی لبوں پر ہے دعا
اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا خلوص
ہر ریاکاری کو دی اس نے شکست
ہر قدم پر آپﷺ کا جیتا خلوص
زندگی بھر یاد رکھنا ہے اسے
نورؔ جو آقاﷺ نے سکھلایا خلوص
جائیں گے رایگاں نہ یہ افکار بالخصوص
ہوں گے قبول نعت کے اشعار بالخصوص
حسرت ہے جن کے دل میں مدینے کی بیکراں
اُن پر کرم ہو یا شہہِ ابرارا بالخصوص
طیبہ کو میں نے خواب میں دیکھا ہے بارہا
اِک بار تو بلائیے سرکارﷺ بالخصوص
جس انجمن میں ذکر ہو سرکارﷺ کا وہاں
نازل ہوئی ہے رحمتِ غفّار بالخصوص
ملنے خدا سے عرش پہ پہنچا نہ کوئی اور
یہ مرتبہ ہے آپ کا سرکارﷺ بالخصوص
کلمے میں رب کے ساتھ ہے اسمِ حضورﷺ بھی
ہوتا ہے جس سے عشق کا اظہار بالخصوص
ڈھونڈے گی روزِ حشر تجھے نورؔ مغفرت
کہتا رہا جو نعت کے اشعار بالخصوص
عشقِ نبیﷺ میں جس نے بھی خود کو مٹا دیا
خُلدِ بریں نے بڑھ کے اُسے راستہ دیا
صحرائی سرزمین کو جنت بنا دیا
یہ معجزہ نبیﷺ کے قدم نے دکھا دیا
عرشِ عُلیٰ کی سرحدیں بھی پار کر گئے
اللہ نے حضورﷺ کو وہ مرتبہ دیا
راہِ خدا میں جن کا سرکنا بھی تھا محال
اُن کو مرے رسولﷺ نے چلنا سکھا دیا
جو لین دین کی ہے مطابق حدیث کے
محشر میں کام آئے گا بس وہ لیا دیا
دکھلا کے ایسی راہ جسے کہیے مستقیم
بندوں کو مصطفیٰﷺ نے خدا سے ملا دیا
مشکل میں اُن کو یاد کیا نورؔ جس گھڑی
رحمت نے مصطفیٰﷺ کی وہیں حوصلہ دیا
آپ ہی اسلام کی حجت محمد مصطفیٰﷺ
آپ ہی اللہ کی آیت محمد مصطفیٰﷺ
آپ ہی ایمان کی قامت محمد مصطفیٰﷺ
آپ ہی ہیں دین کی طاقت محمد مصطفیٰﷺ
ہر کسی کے واسطے رحمت محمد مصطفیٰﷺ
نیز امّت کے لیے شفقت محمد مصطفیٰﷺ
آپﷺ ہی ہیں بالیقیں مظہر خدا کے نور کا
آپ ہی ہیں نور کی صورت محمد مصطفیٰﷺ
آپﷺ نبیوںؑ میں ہیں افضل، آپ ہیں خیر البشر
ہر عمل میں آپ کو سبقت محمد مصطفیٰﷺ
عادت و اخلاق میں اور سیرت و کردار میں
آپ عالی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰﷺ
آپﷺ ہی مزّمّل و یٰسین ہیں، طٰہٰ ہیں آپ
آپ ہی مدّثّر و رحمت محمد مصطفیٰﷺ
آپﷺ ہی سے نیکیوں کے نور کی تخلیق ہے
آپ ہی سے خلد کی عظمت محمد مصطفیٰﷺ
ماورائے عقل ہیں سب انبیاؑ کی رفعتیں
رفعتوں کے واسطے رفعت محمد مصطفیٰﷺ
آپﷺ کے اوصاف لکھتا ہے خدا قرآن میں
آپ کی کرتا ہے رب مدحت محمد مصطفیٰﷺ
انبیاؑ ہیں جمع سارے اور فرشتے صف بہ صف
آج مہماں رب کے ہیں حضرت محمد مصطفیٰﷺ
ہیں قریں قوسین سے بھی آج محبوب و محب
رب سے اتنی آپ کی قربت محمد مصطفیٰﷺ
یہ شرف بس آپﷺ کو ہے خالقِ کُن کے حضور
آپ عرشِ نور کی زینت محمد مصطفیٰﷺ
صرف انگلی کا اشارہ اور قمر دو نیم شُد
کس قدر ہیں حاملِ قدرت محمد مصطفیٰﷺ
ایک پہلو ہجرتِ سرکارﷺ کا یہ بھی تو ہے
شہرِ یثرِب کو کریں جنت محمد مصطفیٰﷺ
حشر میں غفّار بھی ہے، شافعِ محشرا بھی ہیں
ہے خدا رحمٰن اور رحمت محمد مصطفیٰﷺ
چھوڑ سکتی ہی نہیں رحمت کسی کو رنج میں
بخشوائیں گے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰﷺ
نعت کہنا سنتِ پروردگارِ دو جہاں
حمدِ رب ہے آپ کی سنت محمد مصطفیٰﷺ
مانگتا ہوں میں بھی توفیقِ نمازِ نعتِ پاک
باندھ لی ہے نعت کی نیّت محمد مصطفیٰﷺ
نورؔ کو بھی چاہیے اذنِ حضوری کی سند
نورؔ بھی ہے سائلِ قربت محمد مصطفیٰﷺ
ہیں سوا اس سے نہ کچھ کم رحمۃ اللعالمینﷺ
بعدِ رب ہیں سب سے ارحم رحمۃ اللعالمینﷺ
بات ہو محبوبﷺ کی تو نعت کہتا ہے خدا
نور، احمد، عبد، خاتم، رحمۃ اللعالمینﷺ
انبیاؑ ہیں سارے رحمت اپنی اپنی قوم پر
اور سرکارِ دو عالم رحمۃ اللعالمینﷺ
حشر میں رب سے سفارش کو کہیں گے آپﷺ سے
بو البشر تا ابنِ مریم رحمۃ اللعالمینﷺ
سرخرو اپنی دعا میں ہو گئے رب کے حضور
آپ کے صدقے سے آدمؑ رحمۃ اللعالمینﷺ
زخم ہے دل پر مرے بھی ہجرِ طیبہ کا تو کیا
اذن کا کرتے ہیں مرہم رحمۃ اللعالمینﷺ
رب اگر برہم ہوا اس کو منا لیں گے حضورﷺ
یہ دعا کر ہوں نہ برہم رحمۃ اللعالمینﷺ
امتِ سرکارﷺ پر ہے نورؔ رحمت کا نزول
رحم فرماتے ہیں ہر دم رحمۃ اللعالمینﷺ
سیدِ لولاک، شاہِ مرسلیں، خیر الوریٰﷺ
یا محمدﷺ رحمۃ اللعالمیں خیر الوریٰﷺ
آپﷺ مشفق مہرباں ہیں، آپ مخلص اور کریم
آپ منصف، آپ صادق اور امیں خیر الوریٰﷺ
آپﷺ پر سب انبیاؑ کے وصف کامل ہو گئے
مسندِ ختمِ نبوت پر نشیں خیر الوریٰﷺ
آج ہے اسریٰ کی شب اور آپﷺ ہیں مہمانِ رب
کس قدر ہیں آج اللہ کے قریں خیر الوریٰﷺ
حُسن سے انﷺ کے سحر ہے روشنی جنت کی ہے
پوچھ قرآں سے کہ کتنے ہیں حسیں خیر الوریٰﷺ
منبعِ انوار بھی ہے، خیر کا مرکز بھی ہے
آپ کی نسبت سے طیبہ کی زمیں خیر الوریٰﷺ
ہاتھ رحمت کے دعائے خیر کو اٹّھے مدام
بد دعا دشمن کو بھی دیتے نہیں خیر الوریٰﷺ
آپﷺ سے ہے خیر و عافیّت ہمارے واسطے
آپ نے ہم کو دکھائی راہِ دیں خیر الوریٰﷺ
رب تعالیٰ کے لیے جھکتی ہے سجدے میں مدام
شکر کرتی آپ کا میری جبیں خیر الوریٰﷺ
دوریِ طیبہ میں بھی ہو سامنے طیبہ مرے
میری بینائی بنے وہ دور بیں خیر الوریٰﷺ
آپﷺ کو اس کی خبر ہو گی بلا لیجے شہا
نورؔ بھی ہے آپ کا کوئی کہیں خیر الوریٰﷺ
میرے سخن کو یارب اتنی تو اب جِلا دے
ہر لفظ شمع بن کر، ہستی کو جگمگا دے
ذکرِ نبیﷺ میں یارب مشغول جب زباں ہو
لے جائے جو یہ چرچا ایسی ہوا چلا دے
جس کو حضورﷺ سن کر مجھ کو بلائیں طیبہ
میرے سخن میں اتنی تاثیر بھی ملا دے
یارب یہ التجا ہے یہ آرزو ہے میری
تو اپنے مصطفیٰﷺ کا مجھ کو گدا بنا دے
راہِ طلب میں جس سے تنویر ہو خدایا
عشقِ نبیﷺ کا دل میں ایسا دیا جَلا دے
نعتِ نبیﷺ میں کہہ کر جس راستے سے گزروں
اُس راستے سے ساری تاریکیاں مٹا دے
ہے دل میں کب سے خواہش دیدارِ مصطفیٰﷺ کی
جس خواب کی طلب ہے وہ خواب اب دکھا دے
دعا
ہمارے مالک و مولیٰ ہمیں راہِ ہدایت دے
کرے جو تجھ کو راضی ایسی توفیقِ اطاعت دے
ضرورت ہے ترے دیں کو کچھ ایسے جاں نثاروں کی
کہ جن کا ہر عمل ترویجِ دینِ حق کی دعوت دے
وہ حافظ ہوں وہ عالم ہوں وہ عابد ہوں کہ طاہر ہوں
تو اُن کی زندگانی کو ہمیشہ خیر و برکت دے
ہیں بندے ہم ترے مولیٰ تری رحمت کے ہیں طالب
ہمیں دستِ سخاوت دے ہمیں قولِ صداقت دے
بنا دے با عمل عالم بڑا ذاکر بہت شاکر
ہمیں سجدوں کی دے توفیق اور شوقِ شہادت دے
کرم تیرا ہوا یارب، وطن ہم کو دیا تُو نے
ہم اس کو کر سکیں گلشن ہمیں کچھ ایسی طاقت دے
دعائے نورؔ ہے یارب ہر اِک مسلم سے ہو راضی
سلیقہ بندگی کا دے محمدﷺ سے محبت دے
٭٭٭
تشکر: سید انور جاوید ہاشمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں