FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آئینۂ فلکیات

               انجینئر محمد فرقان سنبھلی

 

انتساب

مرحوم والد محترم جناب محمد غفران صاحب
اور والدہ محترمہ عبیدہ خاتون
کے نام
جنہوں نے میری فلاح کے لئے
اپنی ہستی فنا کی

 

 (خاکہ)

۱۔نام                            :           محمد فرقان

۲۔قلمی نام                     :           محمد فرقان سنبھلی

۳۔ ولدیت                    :           محمد غفران مرحوم

۴۔ تاریخ پیدائش           :           ۲۰/جون ۱۹۷۳ء

۵۔ پتہ                           :آفس روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو

                                    معرفت کیپٹن عرفان

                                    دیپا سرائے چوک، سنبھل، ضلع مرادآباد  (یوپی)

                        M.9411808585, 9760191625

                        email: f.sambhli@gmail.com

            Website: http:// f-sambhli.webly.com

            Blog : www.f-sambhli.blogspot.com

۶۔تعلیمی لیاقت              : (۱) ڈپلومہ سول انجینیرنگ  (یو پی ٹیکنیکل بورڈ)

                                     (۲) ادیب کامل  (جامعہ اردو علی گڑھ)

                                     (۳) عالم  (عربی فارسی بورڈ یو پی)

                                     (۴) بی اے۔|||  ( بھیم راؤ امبیڈکر یو نیورسٹی آگرہ)

                                     (۵) معلم اردو۔ جامعہ اردو علی گڑھ

                                     (۶) ایم اے  (اردو)  (بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی آگرہ)

۶۔ زبان            :           اردو، ہندی، انگریزی

۷۔ صحافت        : (۱)روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو  ( تقریباً ۸ سالوں سے)

 (۲) ایڈیٹوریل صفحہ پر مضامین:۔  (ا) روز نامہ شاہ ٹائمس  (ہندی)مظفر نگر،

                                     (۲) ہمارا سماج اردو دہلی

                                     (۳) جگت کلیان  (ہندی) سرائے ترین، مرادآباد

 (۴) نئے سماج کا درپن سرائے ترین، سنبھل وغیرہ

۸۔اشاعت شدہ مضامین: مختلف جرائد اور اخبارات میں تقریباً (۲۰۰) سے زائد مضامین کی اشاعت ہو چکی ہے۔

            جن اخبارات میں مضامین شائع ہوئے :۔  (۱) روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو دہلی  (۲) خبردار جدید اردو ہفتہ روزہ دہلی (۳) کاروان اردو ، دہلی  (۴) خیر و خبر ، مرادآباد (۵) کھلی خبریں  (ہندی)، بریلی  (۶) نقوش اردو سنبھل  (۷) دینک آج  ( ہندی) بریلی (۸) سائنس اور کائنات  (اردو) علیگڑھ  (۹) روشن چراغ (اردو) امروہہ وغیرہ

جن جرائد میں مضامین شائع ہوئے :۔ (۱) تہذیب الاخلاق  (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) (۲)مشرقی آنچل دہلی  (۳) معرکہ  ( دہلی)  (۴) ترجمان اہل سنت  ( سنبھل)  (۵) ہاسیہ اٹیک (دہلی)  (۶)ریئل ٹارگیٹ  (ہندی) مرادآباد (۷) رہنمائے تعلیم  (۸) نور  (۹)صوت القرآن وغیرہ

            ۹۔ نوٹ۔ انٹر نیٹ میگزین میں بھی مضامین شائع ہوئے ہیں

 پہلی کتاب۔مصر قدیم  (اشاعت۲۰۰۳ء):۔ عالمی شہرت یافتہ اور پر اسرار مصری تہذیب کی قدیم تاریخ پر مضامین شامل کئے گئے ہیں جس میں قدیم راج شاہی، فراعنہ مصر ،اہرام ،ممی ،حضرت موسیٰؑ اور قاہرہ کا عجائب گھر وغیرہ پر جامع معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ملک بھر میں اور پاکستان میں بھی کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ حکومت ہند کے ایچ آر ڈی وزارت کے تحت کام کرنے والے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے ملک بھر کی لائبریریوں میں بھیجنے کے لئے کتاب کی  (۱۰۰) کاپیاں بلک پرچیز اسکیم کے تحت خریدی ہیں۔ رضا لائبریری را مپور نے بھی کتاب خریدی ہے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عنقریب ہونے کی امید ہے۔کئی معیاری اخبارات اور رسائل جن میں عالمی سہارا، باجی، رہنمائے تعلیم، آج کل وغیرہ نے کتاب پر تبصرے شائع کئے ہیں۔

 (۱۰) اردو صحافت اور ضلع مرادآباد (۲۰۰۸):۔ ضلع مرادآباد میں اردو صحافت کے آغاز و ارتقا پر روشنی ڈالنے کی کوشش اس کتاب میں کی گئی ہے۔ ساتھ ہی مولانا آزاد محمد علی جوہر وغیرہ کی صحافت پر بھی نگاہ ڈالی گئی ہے نیز مرادآباد کے صحافیوں کا بھی مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔

نوٹ:۔ ’’اردو صحافت اور ضلع مرادآباد‘‘ اور ’’آئینہ فلکیات‘‘ کتابیں عنقریب انٹر نیٹ پر شائع ہونے والی ہیں۔ سنبھل کے شعرا اور ادباء کا تذکرہ اور تاریخ سنبھل کے موضوعات پر کتب زیر ترتیب ہیں۔

انعامات اور اعزازات: (۱) نہرو یوا کیندرپرتبھا اکادمی سنبھل نے صحافتی خدمات کے لئے ایوارڈ سے نوازا

             (۲)قومی سطح کا یو پی اردو اکادمی ایوارڈ برائے ۲۰۰۴ ’’آئینہ فلکیات‘‘ کتاب پر حاصل ہوا۔

             (۳) یو پی جنرل نالج کمپٹیشن کمیٹی سنبھل کے ذریعہ صحافتی اور قلمی خدمات کے اعتراف میں ’’سرسوتی النکرن ‘‘ ایوارڈ۲۰۰۵  (صوبائی سطح)سے نوازا گیا۔

             (۴) مرادآباد میں منعقدہ ضلع سطح کے اجلاس میں نہرو یوا  کیندر  سنگٹھن مراد آباد کے ذریعہ ’’یوا لیکھک ایوارڈ ‘‘ ۲۰۰۷ء سے نوازا گیا۔

             (۵) یو۔پی۔ حکومت کے ذریعہ صوبہ کے سب سے بڑے اعزاز ’’یش بھارتی‘‘ ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔

             (۶)مانوادھیکار جن نگرانی سمیتی نے اردو زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا ہے

              (۷) بہار اردو اکادمی سے ’’آئینہ فلکیات ‘‘کو ایوارڈ سے نوازا ہے  (۲۰۰۸)۔

 عہدے و دیگر مصروفیات            : (۱) جنرل سکریٹری۔ مصور سبزواری ادبی سوسائٹی۔سنبھل

             (۲) انچارج شعبہ ادب۔یوپی سامانیہ گیان پرتیوگیتا سمیتی رجسٹرڈ سرائے ترین، سنبھل

             (۳) صدر۔ پیراڈائز لسنرس کلب، سنبھل

             (۴)خزانچی۔ عاشق پبلک لائبریری ، سنبھل

             (۵) رکن۔ریڈیو وائس آف رشین فرینڈس کلب و ایجوکیشنل سوسائٹی سہارنپور ( رجسٹرڈ)

             (۶) سینرٗ نائب صدر۔ پترکار سنگھ سنبھل

                                                                         (محمد فرقان سنبھلی)

 

حرف آغاز

            عصر قدیم سے ہی انسانی فطرت کا مرکز پوشیدہ باتوں کو جاننا رہا ہے جتنا کچھ اسے پتہ چلتا گیا انسان نے محض اسی پر قناعت نہیں کی بلکہ مزید معلومات حاصل کرنے کی طرف گامزن رہا ہے۔ انسانی شعور جب سے بیدار ہوا ہے۔ تب سے عصر جدید تک انسانی دماغ کائنات اور اس کے اسرار و رموز کو پانے کی سعی میں مصروف ہے۔ عقل انسانی نے جس حد تک بھی ان اسرار کو پانے کی سعی کی ہے اس سے اسے احساس ہوا ہے کہ کائنات کی تخلیق کسی بالاتر ہستی کے منصوبے کے تحت وجود میں آئی ہے۔ انسانی فطرت کے مد نظر کائنات کے اسرار رموز کو جاننے اور سمجھنے کی طرف یہ کتاب ایک چھوٹا سا قدم ہے۔

            علم فلکیات  (Astronomy) کے موضوع پر مبنی اس کتاب کا آغاز علم الافلاک کے آغاز سے اب تک کی تحقیقات کا تاریخی سفر، کاپرنیکس اور رابرٹ ہک وغیرہ مشہور ماہرین فلکیات کے علمی سرقے کے بیان سے ہوتا ہے ایک باب میں آسمانی صحیفوں میں فلکیات سے متعلق جو معلومات موصول ہوتی ہیں ان سے جدید فلکیاتی نظریوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

            ۲ھ سے آج تک فلکیات کے شعبے میں مسلمانوں نے جو تحقیقات کی ہیں ان کا تذکرہ ’’مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات‘‘ کے عنوان سے ایک دیگر باب میں کیا گیا ہے۔ سنسکرت پہلوی، سریانی اور یونانی زبانوں سے عربی میں کئے گئے تراجم کا ذکر’’ جن کی روشنی میں عربوں نے فلکیاتی تحقیقات میں اہم کار نامے انجام دیئے ‘‘ ’’ کتب فلکیات کے ترجمے ‘‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ کچھ مشہور رصد گاہوں کے بارے میں مختصر لیکن جامع معلومات فراہم کرانے کی سعی بھی کی گئی ہے جو یقیناً قارئین کے لئے مفید ثابت ہو گی۔ کائنات کے نظریوں ، اور نظام شمسی کے اجرام فلکیوں کی ساخت اور دیگر تحقیقاتی اور تجرباتی معلومات کا مکمل جائزہ اگلے بابوں میں موجود ہے۔

            ایک وقت تھا جب دوسرے سیاروں سے آنے والی اڑن طشتریوں کے قصے خاصی دلچسپی سے سنے اور پڑھے جاتے تھے۔مختلف چینلوں پر بھی ان پر خصوصی پروگرام نشر کرنے اور کئی جگہ حال ہی میں طشتری نما آسمانی چیزیں دکھائی دینے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ ان اڑن طشتریوں کی حقیقت، اہمیت اور عجیب و غریب مخلوقوں کے زمین پر آنے کی کہانیوں کی کھوج بین اور حیرت انگیز معلومات پر بھی ایک باب مشتمل ہے۔ خلائی سفر کے آغاز و ارتقاء کے ساتھ ساتھ خلا نوردوں کی زندگی پر مبنی ایک مضمون میں ان کی بہت سی مشکلات کا احاطہ بھی شامل ہے۔ جو خلا نوروں کو پرواز کے دوران پیش آتی ہیں۔

            ’’عظیم ماہرین فلکیات‘‘ کے عنوان سے آخری باب میں عرب کے مسلم مشہور و معروف ماہرین فلکیات کے سوانحی خاکے اور ان کے کارنامے اس لحاظ سے شامل کئے گئے ہیں کہ ان کی زندگی اور کارناموں سے قارئین واقفیت حاصل کر سکیں۔

            میں اپنے ان تمام کرم فرما حضرات کی خدمت میں نذرانہ تشکر پیش کرنا چاہوں گا جن کے مخلصانہ مشورے ہمدردانہ عنایتیں اور مشفقانہ ہدایتیں اس کتاب کی تیاری میں میرا مضبوط سہارا رہی ہیں۔ اس ضمن میں خلوص و عنایت کے پیکر جناب مرحوم سید محمود علی صاحب سابق لائبریرین عاشق پبلک لائبریری سنبھل کی خدمات میں اپنا پر خلوص شکریہ پیش کرنا چاہتا ہوں جن کے بیش بہا و گراں قدر مشورے مفید کار آمد نصائح اور نفع بخش ہدایتیں میرے لئے مشعل راہ رہی ہیں۔

            ان کے علاوہ میں ان تمام بہی خواہ حضرات جن میں جناب معوان الحق ، جناب فخر ملک اعزاز یافتہ حماد احمد ایڈوکیٹ، محمد سعود صاحب سابق لیکچرر ایم جی ایم ڈگری کالج سنبھل، خواجہ عبد المغنی لیکچرر  گرونانک خالصہ انٹر کالج بریلی، جناب محمد فرحان، جناب یحیٰ رسول، جناب محمد فیضان، جناب شمیم اذکار صاحب،جناب شمشیر احمد،جناب نفیس احمد، والدہ محترم عبیدہ خاتون، بہن صبوحی ناز اور روحی ناز وغیرہ کے ساتھ اپنی بیوی شمیم فاطمہ ایڈوکیٹ اور دونوں بیٹوں کا  متشکر ہوں کہ جن کے پر خلوص تعاون اور کلمات خیر کی برکتوں سے یہ کتاب سرفراز ہے۔

            اس کتاب کو تیار کرنے میں فلکیات کے تعلق سے بہتر سے بہتر معلومات فراہم کرنے کا موقف تھا اس میں کہاں تک کامیابی ملی یہ قارئین حضرات کی رائے اور مشورے پر منحصر ہے۔ اس لئے اپنی قیمتی رائے میرے میل اڈرس پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

                                                            شکریہ

                                                            انجینئر محمد فرقان سنبھلی

                                                            دیپا سرائے چوک، سنبھل

                        Email id:- f.sambhli@gmail.com

 

۱۔علم الافلاک یا فلکیات ۔ آغاز و ارتقاء

 (Astronomy)

تعریف:۔         علم کی وہ شاخ ہے جس میں کائنات کی ہندسی ساخت سے بحث کی جاتی ہے اور جس کے تحت اجرام فلکی کی حرکات کے قواعد و ضوابط منضبط کئے جاتے ہیں۔ ان حرکات کی توضیح کے لئے متحرک نمونے اختراع کئے جاتے ہیں۔ جنہیں جد اول میں منتقل کر لیا جاتا ہے۔ تاکہ کوئی شمارندہ سطح زمین پر کسی جگہ حتی الامکان سہولت اور صحت کے ساتھ اجرام فلکی کا مشاہدہ کر کے ان کے مقام کو متعین کر سکے۔ نیز اس کی مدد سے ایسے آلات کو ایجاد کیا جاتا ہے۔ جو ہمارے مشاہدے کی زیادہ سے زیادہ صحت کی ضمانت دے سکیں۔ علم الافلاک، علم الھئیت، علم الاشکال کے علاوہ عربی میں کئی اور نام بھی فلکیات کے لئے معروف ہیں۔

ارتقاء:۔            انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر اس چیز کو جان لینا چاہتا ہے جو اس کی نظر کے سامنے موجود ہے۔ اسی قدرتی جذبہ کے سبب جب ’’تھیلس‘‘ نے 580ق م میں ستاروں کے بارے میں اپنا نظریہ ایک کتاب کی شکل میں دنیا کے سامنے رکھا تھا تو اسے شاید یہ یقین نہ ہو گا کہ اس کی یہ کاوش موجودہ دور کے لوگوں کے لئے خلاء میں بستیاں قائم کرنے کے عزم کا آغاز ثابت ہو گی۔ تھیلس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا اس میں ’’انیگز یمینڈر‘‘ اور ’’پلنی‘‘ نے اپنے اپنے اصول کی وضاحت سے آسمان اور زمین کے ساتھ ساتھ تاروں کی سحر انگیز داستانوں میں ایک نیا موڑ پیدا کیا۔

            ارسطو نے کہا کہ زمین ساکن ہے۔ لیکن یونانی سائنسداں اس سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ زمین حقیقت میں ویسی نہیں ہے جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد اریٹوستھینز نے تو بنا کسی آلہ کے زمین کی محیط  (Perimeter) ناپ لی تھی۔ جو کہ موجودہ مسلمہ کے قریب تر ہے۔

            قدیم یونان کے لوگوں کا خیال تھا کہ زمین اس کائنات کا مرکز اور سورج چاند ستارے اس کے اطراف گردش کرتے ہیں وہ یہ بھی مانتے تھے کہ سبھی سیارے دوسرے ستاروں کے گرد ایک ہی چال سے اپنی مدار میں گردش کرتے ہیں۔ اسی نظریہ کو اسکندریہ میں ٹالمی  (Ptolemy) نے دوسری صدی میں سدھارا اس کی اس کاوش کو عربوں نے المجسطی  (Almegast) کے نام سے اپنے یہاں مروج کیا۔

            کائنات کی کھوج صحیح طور پر ٹالمی  (بطلیموس) نے ۱۴۰ء میں شروع کی اور اس کے بعد جیسے تمام انسانی قوتیں فلکیات کو بلندی پر پہنچانے میں صرف ہونے لگیں اس کے بعد تیسری صدی عیسوی میں ایریس ٹار کس نے اپنا نظریہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ وہ اپنے محور پر گردش کرتے ہوئے سورج کے اطراف بھی چکر لگاتی ہے۔ ایریس ٹارکس ایک بہترین ماہر فلکیات تھا لیکن ان کے فلسفہ کو یونان میں شہرت نہ مل سکی اور تقریباً  دو ہزار سال تک ان کا نظریہ دفن رہا۔

            عالم اسلام میں حضرت علیؓ کا جو مقام ہے اس میں ان کی علمی فضیلت کا بھی اہم رول ہے۔ حضرت علیؓ علماء عالم میں پہلے عرب تسلیم کئے جاتے ہیں جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے سیاروں کی کشش کا نظریہ پیش کیا۔

            حضرت علیؓ نے زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی طویل ترین فضا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک وہ حصہ جس میں نظام الشمس کے سیارے گردش کر رہے ہیں اور جہاں ہوا موجود نہیں ہے دوسرا حصہ جس کا تعلق ہماری زمین کے دائرے گردش سے ہے جہاں ہوا  (Air)موجود ہے اس حصے میں نظام شمسی کے سیارے داخل نہیں ہو سکتے اور جہاں وہ گردش کر رہے ہیں وہ صرف خلاء ہے۔

            گیارہویں صدی میں ابن یونس (Ibne Yunus) نے ٹالمی کی کمیوں کی طرف اشارہ کیا اورLongitude, Latitude پتہ لگانے کی ترکیب بتائی۔ ابو ریحان محمد بن احمد البرونی کی شخصیت دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے دانشوروں کے درمیان نمایاں نظر آتی ہے۔ اس نے اپنی ذہانت سے فلکیات کو بہت فروغ دیا اس نے اپنی تصنیفات ’’ التحدید القانون المسعودی‘‘ و ’’کتاب الہند‘‘ وغیرہ میں فلکی اجسام کی ہیئتی ساخت اور گردش کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ ستاروں اور سیاروں کے علاوہ شہابوں کے وجود کو بھی اس نے کائنات کا ایک جز ہی مانا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ زمین کا مقام مرکزی ہے اور دوسرے مقام پر فلکی اجسام اس کے چاروں طرف گردش کرتے ہیں اس نے Longitudeکو سمجھانے والی ایک تکونیہ ترکیب ایجاد کی اور اس نے زمین کی شکل قطعاً کروی  (Spherical) مانی۔

            گریگورین جنتری کے بننے سے پہلے ایک مجلس کا انعقاد ہوا اس میں پولینڈ  (Poland) کے پادری نکولس کا پرنکس  (Nicolas Copernicus) کو بھی بلایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے پاس سورج، زمین اور چاند کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اس جانکاری کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے پرانی کتابوں کے خزانے کا مطالعہ شروع کیا۔ یہاں ان کے ہاتھ آرکمڈیج (Archimedes) کی لکھی چھوٹی سی کتاب ’’دسنیڈرینکر‘‘  ( The Sandranker) لگی۔ جس میں ارسٹار کس کے تجربے پر بحث کی گئی تھی۔ کاپرنکس کے تومن کی مراد بر آئی۔ اب انہوں نے اعلان کر دیا کہ سبھی سیارے سورج کے اطراف گھومتے ہیں۔ لیکن اس وقت مذہبی خیالات ان کے موافق نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے نظریہ کو تب بیان کیا جب کہ وہ بستر مرگ پر پہنچ چکے تھے۔ ۱۵۴۳ء میں کاپرنکس کے شاگردوں نے ان کی کتاب "Of the revolution of the celestial bodies” شائع کرائی چونکہ یہ لیٹن زبان میں لکھی تھی اس لئے زیادہ لوگ اسے نہ پڑھ سکے اور کوئی تنازع پیدا نہ ہوا۔ ۱۹۴۶ء میں ٹائیکوڈی بریہی  (Tico. D. Brehi) ڈین مارک میں پیدا ہوا اور اس نے ایک رصد گاہ تعمیر کرائی جس میں تجربہ کرتے ہوئے اس نے پایا کہ سورج اور چاند زمین کے اطراف گردش کرتے ہیں بعد میں ان کی جگہ جو ہانس کیپلر  (Jahnas Keppler) نے لی۔ چونکہ کیپلر کی نظریں تھوڑی کمزور تھیں اس لئے انہیں تاروں کی صحیح چال جاننے کے لئے دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا انہوں نے موقع پا کر بریہی کا مقالہ چرا لیا۔ کئی سال انہوں نے اس کا تجزیہ کیا اور اپنا مشاہدہ جاری رکھا۔ بعد میں انہوں نے اپنے نظریہ میں بتایا کہ زمین گرد ش کرتی ہے۔ سبھی سیارے بھی الگ الگ مدار میں گھومتے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب (The harmony of the world)لکھی اور تین قانون بھی بنائے۔ جدید علم فلکیات کا آغاز کرنے کا شرف اطالوی عالم فلکیات گیلیلیو کو حاصل ہے۔ جس نے ۱۶۰۹ء میں لپرشے کی دوربین میں اصلاح کر کے ایک نئی دوربین ایجاد کی اس نے چاند کی سطح کے نشیب و فراز کو دیکھا اور بیان کیا۔ چاند پر پہاڑ دیکھے۔ زحل کے گرد چکر لگاتے کئی سیارچے بھی دیکھے اور پایا کہ زہرا سورج کا چکر لگاتا ہے نہ کہ زمین کا۔ ان تمام باتوں کو انہوں نے اپنی کتاب ’’ستاروں سے آئی ایک خبر‘‘ میں بیان کیا ہے۔ گیلیلیو نے کئی دوسری باتوں کو منطقی اور سائنسی انداز میں جانچنے کی کوشش کی اگر زمین گھومتی ہے تو ہمیں اس کا پتہ کیوں نہیں چلتا۔ اس کا جواب حاصل کرنے کی دھن میں انہوں نے جمود کا نظریہ کھوج لیا۔ حالانکہ گیلیلیو کے مشاہد ے بہت صحیح نہیں تھے ان میں کئی کمیاں بھی تھیں کیپلر نے مد و جزر  (Tide) کی وجہ چاند کے کھچاؤ کو بتایا لیکن گیلیلیو کا خیال تھا کہ یہ زمین کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ گیلیلیو سوچتے تھے کہ وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں اس لئے انہوں نے "Dialogue”نام سے ایک کتاب لکھی۔ ان دنوں پوپ آرون 8 کا زمانہ تھا جو ان کے دوست بھی تھے انہوں نے گیلیلیو کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی کتاب میں کہی گئی باتوں کو مفروضے کے طور پر پیش کریں مگر انہوں نے یہ بات نہ مانی جب پوپ نے یہ کتاب پڑھی تو انہیں بہت غصہ آیا انہیں محسوس ہوا کہ گیلیلیو نے چرچ کو بیوقوف ثابت کیا ہے اس کے بعد پوپ نے گیلیلیو کو نظر بند کرا دیا۔ ۱۶۶۸ء میں نیوٹن نے ایک دور بین کی ایجاد کی۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ اس کے عدد  (Lens)پر روشنی کو جمع کیا جا سکتا تھا۔ نیوٹن اس وقت کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ۱۶۸۴ء میں انگریز نوجوان ایڈمنڈ ہیلی نے نیوٹن سے ملاقات کر کے ان سے خلاف مربع قانون  (Reverse Square Law)کو ثابت کرنے کی درخواست کی۔

            نیوٹن نے کیپلر کے تینوں اصولوں کا تجزیہ کر کے ہیلی کو بھیج دیا۔ ہیلی کے اصرار پر نیوٹن نے ۱۶۸۷ء میں ایک کتاب”Principia”لکھی اس میں کاپرنکس اور کیپلر کے کام کا ریاضی کے ذریعے تجزیہ کیا گیا تھا انہوں نے سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے اجرام فلکی کی چال پر بھی اپنا نظریہ اس کتاب میں بیان کیا تھا۔ نیوٹن اب بہت مشہور ہو چکے تھے۔ رابٹ ہک (Robert Hook)جو اس وقت کے بڑے سائنسداں مانے جاتے تھے اور ہیلی کے ساتھی تھے۔ انہوں نے نیوٹن پر الزام لگایا کہ نیوٹن نے ان کے مقالے کو چرا کر اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔ اس سے نیوٹن اور ہک کے بیچ کشیدگی پیدا ہو گئی بعد میں ہیلی نے حالانکہ ان کے بیچ صلح کرا دی لیکن نیوٹن کے دل سے میل کبھی نہ نکل سکا، جب بھی کبھی رابرٹ ہک کا ذکر ان کے سامنے آتا تو وہ اپنے اندر ایک عجیب سی تلخی محسوس کرتے تھے۔ آئنسائن نے ۱۹۰۵ء میں کشش ثقل کو بھی ایک حلقہ مانا انہوں نے اضافیت کا قانون (ساپیکشتا کا سدھانت ، Theory of relativity) قائم کیا۔ جس سے فلکیات میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ ۱۹۳۱ء میں ایک ریڈیو انجینئر کال جینسکی نے خلاء سے آتی ایک چمک دیکھی جب وہ ویل ٹیلیفون تجربہ گاہ میں کام کر رہے تھے۔ ایک اور امریکی گرون ریور نے بھی ایسا ہی محسوس کیا ریور نے ہی دس سال کی مشقت کے بعد اس چمک کا تجزیہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۳۷ء میں ریور نے ایک ریڈیو دوربین بنائی جس کی وجہ سے پہلی بار خلاء کا نقشہ وجود میں آیا۔

            ۱۹۴۰ء میں اگر جالٹن نے راڈار  (Radar)کی کھوج کی تو دوسری طرف مصنوعی سیاروں کی ایجاد نے عالم فلکیات کو مشاہدے کے لئے دو مواقع فراہم کر دیئے۔ ایک زمین سے دوربین وغیرہ کی مدد سے مشاہدہ اور دوسرے خلاء میں مصنوعی سیارے بھیج کر ان کے ذریعہ مشاہدہ ا تب سے اب تک فلکیات کے بارے میں بہت سی پوشیدہ باتیں ہمیں پتہ لگی ہیں۔ ساتھ ہی اب جبکہ انسان فلکیات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کی جستجو میں خلاء کا سفر بھی کامیابی سے طے کر رہا ہے اور خلائی اسٹیشن بنانے کے علاوہ خلاء میں کالونیاں بنانے کا خیال من میں لا رہا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ فلکیات اپنے عروجی زمانے میں قدم رکھ چکا ہے آج کل ایک ایسی 390انچ والی دوربین بنانے کا کام جیری ولسن کی قیادت میں چل رہا ہے۔ جس کے ذریعہ خلاء میں موجود چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی آسانی سے دیکھا و اس کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ اس کو مونانامی کوہ آتش فشاں کی چوٹی پر لگایا جائیگا۔ کمپیوٹر  (Computer)کی آمد نے تو فلکیات کے حلقے میں اور زیادہ سرگرمیاں پیدا کر دی ہیں اب تو قریب کے سیاروں پر پہنچنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔

            اب سوال یہ ہے کہ ہم ہندوستانی اس میدان میں کہاں ٹھہرتے ہیں ہمارے ملک نے اس میدان میں کافی نام پیدا کیا ہے ہمارے یہاں علم فلکیات قدیم زمانے سے ہی رائج ہے۔ جے پور کے راجا جے سنگھ نے دلی میں جنتر منتر کے نام سے ایک رصد گاہ تعمیر کرائی۔ اس کے علاوہ اس نے جے پور متھرا اور کاشی میں بھی رصد گاہوں کی تعمیر کرائی۔ ہندوستان کے پہلے ماہر فلکیات آریہ بھٹ مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مشاہدے کے بعد کہا کہ زمین گول ہے اور اس کا محیط 24835میل دریافت کیا۔ جو کہ آج کے مسلمہ محیط کے کافی قریب ہے۔ آریہ بھٹ کے بعد و اراہ مہر سب سے مشہور ماہر فلکیات تھا۔ جس نے اپنی کتاب میں زمین کے گول ہونے اور اس کی قوت کشش یعنی ثقل کی وجہ سے سب چیزوں کو اپنی طرف کھنچنے کی جانکاری دی لیکن سمجھ نہیں آتا کہ ان کی دریافتوں کو کیوں کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جب انکی دریافتوں کو دوسرے لوگوں نے دنیا کے سامنے رکھا تو انہیں تمام دنیا نے سر آنکھوں پر بیٹھا لیا۔ چاند اور سورج گہن پر تحقیقی کام ہندوستان میں کئی سال قبل مسیح سے ہوتا رہا ہے یہاں کے ماہرین فلکیات نے اس بارے میں اپنے نظرئیے لوگوں کے سامنے بہت پہلے سے رکھنے شروع کر دیئے تھے۔

            بیسویں صدی میں اعلیٰ حضرت کے لقب سے مشہور امام احمد رضا فاضل بریلوی نے بھی فلکیات کے موضوع پر ایک کتاب ’’فوزالمبین در رد حرکت زمین‘‘ کے عنوان سے لکھی جس میں انہوں نے قدیم فلسفہ یونان کے مساوی فلسفہ پیش کرتے ہوئے اپنی دلیلوں سے زمین کے ساکن ہونے کی بات ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اسی کتاب میں انہوں نے مشہور و معروف سائنسدانوں کے اصولوں کو اپنی دلیلوں سے رد کر دیا مثلاً گیلیلیو کے گرنے والے اجسام کے اصول  (Law of falling bodies)کا پرنکس اور کیپلر کے گردش سیارگان کے نظریات اور آئزک نیوٹن کے کلیہ جمود  (Law of inertia)اور کشش ثقل کے اصولوں کی بھی تردید کی ساتھ ہی البرٹ آئینسٹائن کے نظریۂ اضافت (Theory of relativity)پر بھی گفتگو کی ہے۔

            حالانکہ جدید فلکیات میں بھی ہندوستان نے کافی ترقی کی ہے اور اب ہندوستان کو امریکہ، روس، چین، جیسے بڑے ملکوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان نے کئی کامیاب مصنوعی سیارستان نے کئی کامیاب مصنوعی سیارہ  گیز معلومات پر بھی ایک باب مشتعچے خلاء میں بھیجے ہیں۔ راکیش شرما ملک کا پہلا خلاء نورد ہونے کا شرف حاصل کر چکے ہیں تو ہندوستانی  نژاد کلپنا چاولا اور سنیتا ولیم نے خلاء پہنچ کر ہندوستان کا نام روشن کیا ہے اور اب چاند پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔

            مختصر یہ کہ آج خلاء نوردی اور ٹکنالوجی کی ترقی سے تمام نئے طرح کے تجربے ہو رہے ہیں نئے نئے آلات بن رہے ہیں جس سے کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جانا جا سکے۔ تمام ملکوں کے بیچ یہ ہوڑ چل رہی ہے کہ کون پہلے بہتر سے بہتر جانکاری فراہم کر سکتا ہے۔ روز نئے راز فاش ہو رہے ہیں لیکن اب بھی جاننے کو اتنا کچھ باقی ہے کہ ایک عمر درکار ہو گی اس کے مشاہدے کے لئے آج انسان چاند پر پہنچ چکا ہے۔ مریخ (Mars)پر زندگی کے آثار ڈھونڈے جا رہے ہیں اور وہاں قدم رکھنے کی تیاریاں تیزی سے چل رہی ہیں۔ خلاء میں سیر کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے کہ شوقیہ خلاء نوردی کرنے والے پہلے خلاء نو رد ٹیٹو اپنے کئی روز ہ تفریحی مشن سے واپس آ چکے ہیں اور انہوں نے اس معاملے میں لوگوں کے سامنے یہ مثال پیش کی ہے کہ ہر کوئی یہ حیرت اور سحر انگیز سفر کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس بے شمار دولت ہو۔ ساتھ ہی اچھی صحت بھی۔بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں کائنات سے متعلق بہت سے رازوں کو سامنے لایا جا سکے گا۔اور زندگی اور کائنات کے درمیان کے رشتے کو سمجھا جا سکے گا۔

***

۲۔آسمانی صحیفوں میں علم فلکیات

            خالق ارض و سماوات نے کائنات کو خلق کیا اور انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا انسان نے اپنے خالق کے زیر سایہ خود کو متمدن تو کر دیا لیکن کائنات کے اسرارو رموز کی صدیوں سے تشریح کرنے کے باوجود وہ کائنات کے پوشیدہ رازوں کو پانے سے قاصر ہی رہا۔ ان اسرار و ر موز کو جاننے کے لئے انسان نے بہت سے طریقے ایجاد کئے۔ جب اللہ نے مختلف قوموں کو مختلف آسمانی صحیفے عطا فرمائے تو ان قوموں نے ان کے ذریعہ کائنات کے اسرار و رموز کو پانے کی سعی کی۔

            رموز کائنات کو جاننے کے لئے انسان نے قدیم صحیفوں سے لے کر جدید ترین آسمانی صحیفے قرآن پاک تک سے مدد طلب کی۔ انسان نے زمین اور کائنات کی تخلیق کے متعلق پہلے زبور سے مدد لی۔

            زمین کی تخلیق کے بارے میں زبور میں اس طرح ارشاد ہوا ہے۔

             (زبور 24آیات 1 اور 2)

            ’’زمین خداوند کی ہے اور اس کی معموری بھی جہاں اور اس کے سارے باشندے اس کے ہیں اس لئے کہ اس کی بنیاد پانیوں پر رکھی اور اسے سیلابوں پر قائم کیا گیا ہے ‘‘۔

             (ترجمہ ’’نگار‘‘  (خدا نمبر) از علامہ نیاز فتح پوری ۱۹۵۶)

            مندرجہ بالا آیات میں زمین کے پانی سے پیدا ہونے اور پانی پر ہی قائم رہنے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ زبور میں ایک جگہ اور ارشا ہوا ہے۔

            ’’خداوند کے کلام سے آسمان بنے اور ان کے سارے لشکر اس کے منھ کے دم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا۔ اور وہ ہو گیا، اس نے فرمایا اور وہ برپا ہو گیا۔

             (زبور ۳۳ آیات۶۔۹ ترجمہ ’’نگار‘‘  (خدا نمبر) از نیاز فتح پوری)

            ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی جب انسان کو بائبل عطا ہوئی تو اس نے بائبل سے بھی کائنات کے اسرار رموز کو جاننے کی کوشش کی۔

            اور خدا نے کہا’’ اجالا ہو اور اجالا ہو گیا‘‘

            اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہو اور پانیوں کو پانیوں سے جدا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہوں کہ خشکی نظر آئے اور ایسا ہی ہو گیا۔

             (بائبل پیدائش باب ۱ ترجمہ نگار (خدا نمبر) ص ۸۷۔۹۸)

            اس باب سے بھی پانی سے زمین کی پیدائش کا پتہ چلتا ہے۔

            بائبل باب ۱ میں ہی ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ

            ’’ ابتداء میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا زمین ویران اور سنسان تھی، اور گہرایوں کے اوپر اندھیرا تھا۔ خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی۔

             (ترجمہ ’’نگار‘‘  (خدا نمبر) ص ۹۷۔۹۸)

            اس قول سے پتہ لگتا ہے کہ سب سے پہلے آسمان خلق ہوا پھر زمین۔ نیز یہ کہ ابتدا میں زمین آباد نہیں تھی اور ہر طرف گہرا اندھیرا تھا یہاں خدا کی روح کے پانی پر جنبش کرنے کا کیا مفہوم ہے سمجھ نہیں آتا۔ حالانکہ اہل ہنود میں بھی خدا کا ایک نام نارائن لیا جاتا ہے۔ اس کے معنی بھی پانی پر چلنے والے کے ہوتے ہیں۔

            ’’داستان دانش‘‘ میں ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے تالیس  (ز مانہ ۶۰۰ ق۔م) کا قول نقل کیا ہے۔

            ’’پانی تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے زمین ایک نا پیدا کنارے سمندر پر تیرتی ہے اصل عنصر پانی ہے باقی تمام عناصر اور اجسام پانی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں ‘‘

             (ترجمہ  (خدا نمبر)’’نگار‘‘ ص ۱۱۷)

            یہ قول جدید تحقیق کے مطابق معلوم ہوتا ہے لیکن قرآن مجید نے جدید تحقیق کے متعلق زیادہ واضح اشارے دیئے ہیں۔ آسمانی صحیفوں میں جدید ترین صحیفہ اور متعدد علوم کا گنجینہ قرآن پاک ہی ہے جس کے بعد اب کوئی آسمانی صحیفہ نازل نہیں ہو گا جتنی واضح جدید اور بلند معیار فلکیاتی معلومات قرآن پاک سے موصول ہوتی ہیں اتنی بلند معیار اور جدید تحقیقات کو واضح کرنے والی معلومات کسی اور صحیفہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ قرآن مجید نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے اور نہ وہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ تجرباتی طریقے سے سائنس مرتب کرے بلکہ وہ پوری زندگی کے لئے ایک نظام پیش کرتا ہے۔

            اس کے باوجود قرآن بعض کائناتی حقائق کی طرف اشارے بھی کرتا ہے جس کو اپنی عقل و دانائی کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن کے بیان کی تصدیق فلکیات کے ذریعہ کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ قرآن تو کلام الٰہی ہے۔ یہاں ہمارا مقصد فلکیات کو قرآن کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرنا بھر ہے۔ ایک موٹے انداز ے کے مطابق قرآن میں تقریباً 40-50ایسی آیات ہیں جن سے علم فلکیات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ یہاں ہم کچھ آیات کے ذریعے علم فلکیات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

             (۱) آسمان سے متعلق آیات:۔

            سورۃ50آیت6، سورۃ 31آیت2، سورۃ45آیت13، سورۃ14آیت 33، سورۃ16آیت12، سورۃ 16آیت16وغیرہ کے علاوہ چند مندرجہ ذیل آیات کے ذریعہ بھی علم فلکیات کی آسمان کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوتی ہے۔

            اللہ الذی رفع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الشمس و القمر  (سورۃ13آیت2)

 (وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوا اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند کیا)

            ویمسک السماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازیہ،  (سورۃ 22آیت65)

              (اور وہی  (اللہ) آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر گر نہیں سکتا۔)

            ہوالذی جعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لقوم یعلمون،  (سورۃ10آیت۵)

             (وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھنٹے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تا کہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بر حق ہی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں)

            قرآن کی مندرجہ بالا آیات سے ہمیں آسمان سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان معلومات کوا نجیل اور عہد نامہ قدیم میں اتنی گہرائی کے ساتھ پیش نہیں کیا جتنی گہرائی کے ساتھ قرآن نے پیش کیا ہے۔

            ستارے :۔         لفظ ستارہ قرآن مجید میں ۱۳ مرتبہ استعمال ہوا ہے اس کا مادہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا مفہوم ہے ظاہر ہونا یا دکھائی دینا۔ اس بات کو مندرجہ ذیل آیت نے اور واضح کیا ہے۔

            والسماء و الطارق۔۔۔۔۔۔۔۔النجم الثاقب  (سورۃ 86آیت1-3)

             (قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی اور تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے ، چمکتا ہوا تارہ)

            سیارے :۔         ایسا مانا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں سیاروں کو کواکب سے  (جو کوکب کی جمع ہے) تعبیر کیا گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں لفظ کوکب کے معنوں کی اچھی توضیح ایک بہت مشہور آیت میں کی گئی ہے۔ اس کے گہرے مفہوم کی امتیازی دینی نوعیت اپنی جگہ برحق ہے علاوہ ازیں یہ ماہر مفسرین کے مابین کافی بحث و تمحیص کا موضوع ہے۔ زیر بحث آیت یہ ہے۔

            اللہ نور السموٰت۔۔۔۔۔۔۔۔کوکب دری  (سورۃ 24آیت 35)

             (اللہ آسمان و زمین کا نور ہے  (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہوا چراغ ایک ایسے فانوس میں ہو فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا تارا)

            یہاں موضوع کسی ایسے جسم پر روشنی کا ایک ظل ہے جو اسے منعکس کرتا ہے اور اس کو ایک موتی کی چمک دیتا ہے مثل ایک سیارے کے جو سورج کی وجہ سے منور ہوتا ہے ان کے علاوہ سورۃ 37آیت6میں بھی اسی طرح کا اشارہ ملتا ہے۔

            انارنیاالسماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الکواکب

             (ہم نے آسمان دنیا کو کواکب سے زینت دی ہے۔)

            ان آیات کے علاوہ بھی کئی دوسری جگہ ارشاد الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کواکب وہی اجرام فلکی ہیں جن کو جدید سائنس سیاروں کے نام سے جانتی ہے۔

            نظام سماوی:۔      اس موضوع پر قرآن مجید میں جو معلومات ملتی ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر نظام شمسی سے ہے تاہم بذات خود نظام شمسی سے ماوراء جو حادثات رونما ہوئے ان کے حوالے بھی اس میں موجود ہیں۔

            وھو الذی۔۔۔۔کل فی فلک یسجون (سورۃ21آیت33)

             (اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب اپنے اپنے مداروں پر چل رہے ہیں۔)

            لا الشمس۔۔۔۔وکلوفی فلک یسبحون  (سورۃ 36آیت40)

             (نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار پر تیر  رہا ہے)

            اس جگہ ایک اہم حقیقت کا واضح طور پر اظہار کیا گیا ہے وہ ہے سورج اور چاند کے مداروں کا وجود عربی کے لفظ فلک کا ترجمہ مدار بھی کیا گیا ہے۔ قرآن کے کئی فرانسیسی مترجم اس کا مفہوم کرہ بیان کرتے ہیں لیکن جدید سائنس سے مطابقت رکھتے ہوئے اس لفظ کا مفہوم مدار ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

            دن اور رات:۔

            الم تران۔۔۔۔۔فی الیل  (سورۃ31آیت29)

             (کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں پرو تا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ضم کر دیتا ہے۔)

            یکور الیل۔۔۔۔۔۔۔علی الیل  (سورۃ29آیت5)

             (وہی  (اللہ تعالیٰ) رات کو دن پر لپٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔)

            مندرجہ بالا آیات کے علاوہ سورۃ 7آیت54اور سورۃ36آیت37میں بھی دن اور رات کے دور کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

            کائنات کا پھیلاؤ:۔            قرآن کی مندرجہ ذیل آیت47سورۃ51میں کلام باری تعالیٰ ہے۔

            والسماء بن ینھا۔۔۔۔۔۔واناالموسعون

            آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس میں توسیع کر رہے ہیں) یہاں لفظ سما کا ترجمہ آسمان ہے اور اوسع کی مطابقت ہے موسعون سے جس کے معنی ہیں کشادہ پھیلا ہوا یا وسیع کرنا۔

            اس آیت سے کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں معلومات موصول ہوتی ہے۔

            نظریہ کشش ثقل:۔

            یفشی الیل النھار۔۔۔۔۔۔۔ حتیثا  (سورۃ  (اعراف)آیت54)

             (وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے جو کوشش کرتی ہے کہ اسے تیزی سے جا پکڑے)

            یعنی رات کو تیزی سے پکڑنے یا اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہے گویا زمین سورج کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور سورج زمین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ حضرت علیؓ  (جنہیں قرآن حکیم کی معرفت کے اسرار رموز سمجھنے اور بیان میں کمال حاصل تھا) نے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا۔

            ’’واللہ اطور بہ ماسمر سمبر وما ام نجم والسماء نجما‘‘

             (نہج البلاغہ  (صفحہ380-381)مطبوعہ تہران)

             (خدا گواہ ہے کہ میں ہر گز ایسا نہ کروں گا جب تک زمانے کی کہانی جاری ہے آسمان میں ایک ستارہ دوسرے ستارے کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔)

            یہی وہ کشش ثقل کا نظریہ ہے جو کہ آج نیوٹن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

            زمین:۔

                        زمین کی ساخت کو مندرجہ ذیل آیات میں واضح کیا گیا ہے۔

            واللہ جعل لکم الارض۔۔۔۔۔حجاجا  (سورۃ 71آیت19-20)

             (اور اللہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش کی طرح بچھایا ہے کہ تم اس کے اندر کھلے راستوں پر چلو)

            الم نجعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوتاداً  (سورۃ78آیت6-7)

             (کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا)

            والقی فی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمید بکم  (سورۃ81آیت10)

             ( اس نے  (خدا نے) زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔)

            تمام آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کی ساخت اس کی حرکت نشیب و فراز گردش اور کشش ثقل کے بارے میں قرآن مجید نے متعدد معلومات فراہم کی ہیں جس سے جدید فلکیات کے نظریے کی مطابقت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

            اس طرح عالم فلکیات کی بنیادی معلومات مثلاً زمین و پہاڑ کی پیدائش چاند اور سورج کا متحرک ہونا اور سیارگان کا اپنے اپنے مدار میں گردش کرنا وغیرہ قرآن مجید میں پہلے ہی سے موجود ہے۔ جسے آج علماء طبقات الارض صدیوں کی تحقیق کے بعد معلوم کر سکے ہیں۔ اس سے مذہب اسلام کے علمی معیار کی بلند ی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے باعث افتخار ہے کہ ان کے مذہب کا مضبوط ثبوت قرآن کریم ہے۔

 

۳۔ مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات

            کہا جاتا ہے کہ یورپ نے فلکیات کی مشعل مسلمانوں سے حاصل کی اور مغربی دنیا کو منور کر دیا لیکن یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیا کہ علم کی یہ روشنی کہا ں سے آئی۔ اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے مشہور دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر کیا ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے ہی مشاہدی تجربات اور تحقیقات کی بنیاد ڈالی۔ ہٹی  (Hitti)نے اپنی کتاب”A short story of Arab” میں لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ میں کسی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ مسلمانوں نے۔ ہینری پرمنے  (Henri Pirmne) نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام نے کرہ ارض کی شکل ہی بدل دی۔

            اب سوال یہ ہے کہ پھر تمام فلکیاتی ترقیاں یورپ سے منسوب کیوں کر ہیں۔ یورپ میں اسلامی فلکیاتی ذخیرہ در اصل بغداد کی بیت الحکمہ نام کی انجمن کے ذریعہ پہنچا اس انجمن کو ۱۸۳۲ء میں بغداد کی حکومت نے قائم کیا تھا اور اس میں عربوں کی تصنیف شدہ کتابیں لاطینی (Latin)یونانی (Greek) وغیرہ زبانوں میں منتقل کی جاتی تھیں شاید اس کام کا مقصد یورپ میں بھی اپنا نام روشن کرنا تھا لیکن ہوا یہ کہ سب گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے اور اہل یورپ نے اس سے استفادہ کر کے تمام دنیا کو منور کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

            جب مسلمان ماہرین فلکیات کی کتابیں یورپ پہنچی تو انہوں نے یہ خطرناک کام انجام دیا کہ ان کے مصنف کے ناموں میں تبدیلی کر کے انہیں یوروپی انداز میں ڈھال کر پیش کیا۔مثلاً

            ابن رشد                        (Averroes)

            بو علی سینا                       (Avicenna)

            اور موسی بن میمون کو       (Memunides)

لکھا گیا۔ اسی طرح کئی اور ناموں میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس سے لوگوں میں یہ تبدیل ہوئے نام مشہور ہوئے۔ درحقیقت اہل یوروپ کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہی تھی۔ کہ دنیائے سائنس سے مسلمانوں کی خدمات کے علاوہ ان کے ناموں سے بھی دور رکھا جائے۔ ان کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن ایسے سیکڑوں تاریخی حوالے دستیاب ہوئے ہیں جو یہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلاشبہ عرب مسلمانوں کے ذریعہ ہی سائنس اور فلکیات کا سیلاب آیا اور ساری دنیا میں پھیل گیا آج کا جدید فلکیات بھی در اصل مسلمانوں کی تعمیر کردہ بنیاد پر منحصر ہے۔

            مسلمان فلکیاتی ماہرین کی خدمات کا تعارف اس طرح ہے۔

            ۷۷۶ء میں ابراہیم بن جندب نے سب سے پہلے عجائب الفلک کے مشاہدے کے لئے دوربین ایجاد کی تھی۔ دنیا کا پہلا ماہر فلکیات تھا احمد بن سجستانی جس نے گردش زمین کا نظر یہ پیش کیا تھا۔

            جابر بنانی  (وفات ۸۱۷ء) نے سورج کی گزرگاہ کا جھکاؤ ساڑھے تئیس درجہ کی جگہ تئیس درجہ35منٹ دریافت کیا تھا۔ احمد کثیر الفرغانی  (وفات۹۰۳ء) نے اپنے طریقہ سے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی جو مسلمہ محیط سے بہت قریب ہے۔ ابن یونس صوفی  (وفات ۱۰۳۷ء) نے اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں حرکت کا قانون بیان کیا ہے اس قانون کو یوروپ نے بوعلی سینا کے پانچ سال بعد نیوٹن کی ایجاد کے طور پر ساری دنیا میں مشہور کرا دیا۔

            ماہر علم فلکیات ابو الوفابوز جانی  (وفات ۱۰۱۱ء) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہوتی ہے اور سورج کی کشش سے اس کی گردش کرتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ چاند کی گردش زمین کے گرد ہوتی ہے اور سورج کی کشش سے اس کی گردش میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اسی کو چاند کا گھٹنا اور بڑھنا  کہا جاتا ہے۔ اس کو سولہویں صدی کے سائنسداں ٹائکو براہی (Tycobrahi)سے منسوب کرا دیا گیا۔

            علم فلکیات کا ماہر اور جغرافیہ داں ابو ریحان البرونی نے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی، البیرونی نے سورج کے مشاہدے کے بعد ارض البلد اور طول البلد معلوم کرنے کا طریقہ ایجا د کیا تھا جس میں سورج کے فاضل راسی اور میلا کے ذریعہ عرض البلاد نکالنے کے عام طریقوں کا بیان ہے۔ البرونی نے زمین کی محوری گردش کو بھی بیان کیا ہے۔

            عمر خیام کو لوگ فلسفی اور شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن علم ہیئت میں اس کے ماہر ہونے کو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اس نے شمسی سال کی جو تعداد معلوم کی وہ دور جدید کے علماء کی تحقیق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ صرف ۴۸ سیکنڈ کا فرق ملتا ہے۔ خیام نے شمسی سال ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۹ منٹ کا حساب کیا۔ اور جدید تحقیق سے ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۹ منٹ اور ۴۸ سکنڈ کا ہوتا ہے۔

            محمد بن محمد ادریس دنیا کا سب سے پہلا عظیم جغرافیہ داں ہے جس نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’نذھت المشتاق فی احتراق الافاق‘‘ میں پہلی بار دنیا کے گول ہونے کی بات لکھی تھی۔

            عبد الرحمن خازن نے انکشاف کیا کہ کسی چیز کا وزن سطح زمین پر جتنا ہوتا ہے وہ ہوا میں اس سے کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا وزن پانی میں کم ہو جاتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ زمین کے چاروں طرف ہوا کا غلاف اس لئے ہے کہ زمین اس کو اپنی طرف کھنچتی ہے چنانچہ زمین سے جتنا اوپر ہوتے جاتے ہیں ہوا کم ہوتی جاتی ہے۔

            قزدینی  (وفات۱۲۸۳ء) نے زمین کے اپنے محور پر سورج کے اطراف گھومنے اور اس کی وجہ سے موسم بدلنے کا انکشاف کیا۔ قزدینی نے یہ بھی کہا کہ چاند زمین اور سورج کے ارد گرد گھوم رہا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ سورج از خود بھی حرکت میں ہے۔

            ان کے علاوہ کچھ ایسی بھی دریافتیں ہوئی ہیں جن کا تاریخی پس منظر ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن وہ یوروپی ماہرین فلکیات کے ناموں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی کھوج کی جائے۔ اور ان کو مع ثبوت دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ تاکہ ان عظیم ماہرین کو ان کا واجب حق حاصل ہو سکے۔ اور عالم اسلام کا سر بھی فخر سے اونچا ہو جائے۔

            مختصر میں مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے۔

             (۱) اجرام سمادی کی حرکات کی زیجوں کا مرتب کرنا۔

             (۲) سب سے پہلے سال کی درست مدت کا تعین کرنا۔

             (۳)چاند کے زیادہ سے زیادہ ارتفاع کا اختلاف دریافت کرنا۔

             (۴) چاند کے اس تیسرے اختلاف کا معلوم کرنا جو آفتاب کے فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور اس جیسے اختلاف حرکت قمر کہتے ہیں اس کا اکثاف ۱۶۰۱ء میں ٹیکو براہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔

             (۵) استقبال معدل النہار کا ٹھیک معلوم کرنا۔

۴۔ کتب فلکیات کے ترجمے

            اچھی کتابوں سے استفادہ کرنے پر علم میں پختگی اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے کئی دوسری زبانوں سے فلکیات سے متعلق مشہور کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا اور ان کا فائدہ اٹھا کر کئی ماہرین فلکیات نے نئی کھوجوں کو انجام دیا۔

             (۱)سنسکرت سے ترجمہ:۔

                        فلکیات پر سنسکرت سے قدیم ترین ترجمہ ’’زیج الارکند‘‘ ہے۔ ارکند سنسکرت لفظ ’’اھر گنڈ‘‘ کی تحریف ہے۔ یہ ۷۳۵ء میں سندھ میں ترجمہ کیا گیا۔ زیج الارکند کے زیادہ تر مندرجات ’’کھنڈ کھاڈیکہ‘‘ سے ماخوذ تھے۔ کھنڈ کھاڈیکہ کو برھمگپت نے ۶۶۵ ء میں لکھا تھا۔ اس میں یزد جرد سوم  (۶۳۲ء تا ۶۵۲ء)کی ’’زیج الشاہ‘‘ کے اثرات پائے جاتے تھے۔ جس کا تعلق کھنڈکھاڈیکہ ہی کی طرح آریہ بھٹ کے دبستاں ’’آردھ راتیریکہ‘‘ یعنی آدھی رات سے تھا۔

            ایک اور زیج کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ۷۴۲ء میں ہوا۔ اس کا نام ’’زیج الھرقن‘‘ رکھا گیا۔ ہندوستانی کتابوں میں یہ ایک بہترین کتاب تھی۔ یہ زیج آریہ بھٹ کے دبستاں ’’اودیکہ ‘‘  (طلوع آفتاب) پر مبنی تھی۔ جو اس نے ۴۴۹ء میں لکھی تھی۔

            سنسکرت سے عربی میں ہونے والے ترجمہ میں سب سے اہم ترجمہ ’’مہا سدھانت‘‘ کا تھا۔ جس کا تعلق ’’براھم پگستہ‘‘ سے ہے۔ اس پر بھی آریہ بھٹ کا اثر ثابت ہے۔ یہ ترجمہ بھی تب ہوا جب ایک سفارت سندھ سے بغداد ۷۷۳ء میں ’’المنصور‘‘ کے دربار پہنچی۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اس کا ترجمہ العزاری نے کیا تھا۔ اس میں ہندی و ایرانی نظریات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ الاہوازی نے ایک ’’زیج اعلیٰ سنی العرب‘‘ بھی مرتب کی تھی۔ یہ ۷۹۰ء کے آس پاس تالیف ہوئی۔ عربی تقویم میں کام آنے والی اس زیج کو اولین فلکیاتی جد اول قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک اور عالم یعقوب بن طارق بھی سدھانت سے مستفید ہوا۔ اس نے ’’ترکیب الافلاک‘‘ اور ’’زیج نیز کتاب ا للعل‘‘ تصنیف کی۔ ان میں ایرانی اور ہندی نظریات کا امتزاج ملتا ہے۔ العزاری اور یعقوب ابن طارق کی یہ تصانیف سند ہند روایت کے لئے بنیاد ثابت ہوئیں۔ ۸۰۰ء کے قریب ابو الحسن الاھوازی آریہ بھٹ کے ایک اور ترجمہ کو سمجھنے میں کامیاب ہوا جس کو ’’ریج الازجبہر‘‘ کے نام سے شہرت ملی لیکن یہ موجودہ وقت تک محفوظ نہیں رہ پایا۔ ایسا بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ ’’ابو معشر‘‘  (۸۸۶ء) کی بھی اس سے واقفیت تھی۔

             (۲) پہلوی سے ترجمے :۔

                        فلکیات پر ساسانیوں کی تصانیف یونانی اور ہندی نظریات پر مبنی تھیں۔ ساسانیوں کی فلکیات عربی تراجم اور اقتباسات کے ذریعہ ایران پہنچی۔ پہلوی میں المجسطیٰ کا ایک ترجمہ تیسری صدی عیسوی میں موجود تھا۔ آریہ بھٹ کے دبستان ’’آرد راتریکہ‘‘ سے متعلق ایک اور کتاب 554ھ میں دستیاب تھی۔ اس سے پہلے 450ئ میں براہمیکثہ سے متعلق ایک اور کتاب بھی دستیاب تھی۔ ’’زیج الشاہ‘‘ سے ماشاء اللہ نے بھی استفادہ کیا لیکن اس کے ترجمہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس کا ایک نظر ثانی شدہ نسخہ یزدجرد سوم کے عہد میں ضرور شائع ہوا جس کا عربی میں ترجمہ ’’زیج الشاہ‘‘ کے عنوان سے ’’التمیمی‘‘ نے کیا۔ العرزاری اور ابو معشر نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ ابو ریحان البیرونی کے زمانے میں بھی اس کے نسخے مروج و مستعمل تھے۔

 (۳) یونانی اور سریانی سے ترجمے :۔

            المجسطی (Almajastie) وہ سب سے اہم تصنیف ہے جس کا یونانی سے ترجمہ کیا گیا۔ اس کی اصل کتاب اور سریانی ترجمہ دونوں عربی میں منتقل کی گئیں۔ اس کا نام نویں صدی عیسوی ’’الحجاج‘‘ نے انجام دیا۔ جن ماہرین فلکیات کو مامون الرشید نے اپنے دربار میں جمع کیا تھا انہوں نے اس سے بہت استفادہ کیا۔ اس کا سب سے مستند ترجمہ ’’اسحاق بن حنین‘‘ نے کیا تھا اور اس کی تصحیح اور اصلاح کا کام۔۔ثابت بن قرۃ‘‘ نے انجا م دیا تھا۔ نویں صدی عیسوی میں ہی بطلیموس کے مفروضہ  (Hypotheses)اور تیون (Theon)کے سہل جد اول کے علاوہ ’’الھدیۃ الصغریٰ‘‘ نامی مشہور و معروف مجموعے بھی عربی میں منتقل کئے جا چکے تھے۔ ان کے علاوہ یونانی اور سریانی ماخذ پر مبنی متعدد رسائل بھی شائع ہوئے۔

            اس طرح حاصل شدہ علم سنسکرت اور پہلوی سے بے طرح متاثر تھا۔ نویں صدی کے بعد مسلمانوں کا مرکز تصور بھی اس پر موقوف تھا۔

۵۔ مشہور رصد گاہیں

            علم الافلاک کی بنیاد انسانی زندگی کے آغاز پر منحصر ہے انسانی عقل کے ارتقاء نے اجرام فلکی اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا تجسس پیدا کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے انسان نے رصد گاہوں کی ایجاد کی دور حاضر میں علم الافلاک کو فروغ دینے میں رصد گاہوں کا اہم مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا ارتقاء رصد گاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کے الگ الگ خطوں میں تعمیر کردہ صدر گاہوں میں آج بھی مشاہد ے اور تجربے کئے جا رہے ہیں۔

            ہندوستان میں رصد گاہ بنانے کا کام راجا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی تعمیر کردہ رصد گاہ کو جنتر منتر کہتے ہیں جے سنگھ اپنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے رصد گاہ کی عمارت میں چند الواح تیار کی تھیں۔ جن کا استعمال اہل ہند آج بھی جنتریاں تیار کرنے میں کرتے ہیں اس رصد گاہ میں ایک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہوا ہے۔ یہ درجہ وار سنگ مرمر کی محرابوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ دار نصف دائرے کی شکل کی ہے یہ ان اجرام فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت الراس کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف النہار میں سے ہو کر گزرتا ہے۔ دوا ور عمارتیں بھی قریب ہی واقع ہیں اور ایک ہی مقصد کے تحت بنوائی گئی ہیں۔ تاکہ بیک وقت دو آدمی مشاہدے کر سکیں۔ علاوہ ازیں ایک نصف دائرہ بھی بنا ہوا ہے جس میں نظام شمسی کے بعض معمولی اجرام کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس رصد گاہ کو ۱۷۲۴ء میں مغل بادشاہ محمد شاہ کے کہنے پر تعمیر کروایا گیا تھا۔ راجا جے سنگھ نے ایسی کئی رصد گاہیں اجین  (Ujjain)بنارس (Bnaras)متھرا (Mathura)جے پور(Jaipur) میں بھی بنوائی تھیں۔

            خلیفہ مامون عباسی وہ پہلا شخص تھا جس نے عرب میں رصد گاہ کی تعمیر کرائی مامون نے بمقام شماسیہ  (شام) میں ۲۱۴ھ میں ایک عظیم الشان رصد گاہ قائم کی اس رصد گاہ میں یحیٰ بن ابی المنصور، خالد بن عبد الملک مروزی، سنہ بن علی عباس بن سعید جو ہری وغیرہ ماہرین فلکیات نے سیارات، حالات، آفتاب کے میل مقدار اور دیگر مشاہدات انجام دیئے اسی رصد گاہ میں زیج جدید بھی تیار ہوئی اس کے علاوہ خلیفہ مامون نے ایک رصد گاہ بغداد میں بھی بنوائی۔ رصد گاہ میں ثابت بن قرہ حرانی نے  (۸۳۶ تا ۹۰۱ء) حرکت آفتاب کا مطالعہ کیا۔

            باب الطاق میں ایک رصد گاہ تعمیر ہوئی جس میں ۸۵۰ء تا ۸۷۰ء تک موسیٰ بن شا کر کے بیٹوں محمد، احمد اور حسین نے فلکیاتی مطالعہ کیا اسی صدی میں شیراز نیشاپور اور سمر قند وغیرہ میں بھی رصد گاہوں کا قیام عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ باقاعدہ رصد گاہوں کے استعمال کی ابتداء ایران کے جنوب مغرب میں واقع ایک مقام جنید شاہ پور میں ہوئی تھی۔

            فاتمی خلیفہ العزیز نے قاہرہ میں ایک رصد گاہ قائم کی اسی رصد گاہ نے مصر میں فلکیاتی مطالعے کی بنیاد ڈالی ماہر فلکیات ابن یونس نے اپنی الزیج الحا کمی اسی رصد گاہ میں تیار کی تھی۔ نیشا پور میں ایک رصد گاہ جلال الدین ملک شاہ سلجونی نے بھی قائم کی تھی اس میں الخزائنی نے اپنی زیج سنجری تیار کی۔

            الجیلی  (۹۷۱ء تا ۱۰۲۹ء) نے شرف الدولہ کی قائم کردہ رصد گاہ میں ایک ہزار عیسوی میں ایک کتاب اصطرلاب پر تحریر کی اسی رصد گاہ میں الصغانی اور رستم الکوہی آلات فلکیات بنانے میں کافی مشہور ہوئے۔

            الحاکم اور العزیز نے مقتم کی رصد گاہ کو آلات رصد یہ سے آراستہ کیا اس میں ابوالحسن علی نے ۹۷۷ء تا ۱۰۰۷ء تک تجربات کئے۔ ابو الحسن کو شیار ابن کنان الجیلی نے بھی ایک رصد گاہ قائم کی جس میں اس نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج الجامع‘‘ والسامع تصنیف کی۔

            ۹۸۸ء میں شرف الدولہ نے شاہی باغ میں ایک رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ جس میں ابوسہل ریحان بن رستم الکوہی اور ابوالوفا نے عرصہ دراز تک حرکات کواکب سے متعلق مشاہدات کیے۔

            البرونی نے ایک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کروائی تھی اور یہاں وہ مشاہدات اور تجربات میں مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ ۴۱۰ھ تک ہی غزنی میں رہا اس لئے اس کی تعمیر اس سنہ سے پہلے ہی ہوئی ہو گی۔ حالانکہ رصد گاہ کے مقام کے بارے میں ڈاکٹر عبد الحق اور برنی کے بیچ اختلاف ہے ڈاکٹر عبد الحق نے مقام غزنہ اور برنی نے جرجانیہ بتایا ہے۔ لیکن البرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رصد گاہ غزنی میں واقع تھی۔

            ۱۲۵۹ء میں یورپ کی پہلی رصد گاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مراغہ میں ۱۲۵۹ء میں بے بہا آلات رصدیہ سے آراستہ ایک رصد گاہ تعمیر کروائی اس کے اندر ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جس میں چار لاکھ سے زائد نادر کتابیں بھی موجود تھیں اس رصد گاہ سے فائدہ اٹھا کر ہی خواجہ ناصر الدین طوسی نے ایک ’’زیج ایلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگرد قطب الدین محمد شیرازی نے بھی اس رصد گاہ میں مشاہدات اور تجربات کیئے۔

            ۸۲۳ء میں سمر قند میں تیموری خاندان کے سلطان الغیبگ نے ایک عظیم الشان رصد گاہ تعمیر کرائی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ اس نے کئی سال تک رصد گاہ مذکورہ میں تجربات اور مشاہدات میں حصہ لیا۔

            ان کے علاوہ بھی تمام دنیا میں ہزاروں رصد گاہوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے جن کے ذریعہ قدرت اور کائنات کے رازوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انسان نے فلکیات میں جو ترقی کی ہے ان میں رصد گاہوں کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے آنے والے وقت میں رصد گاہوں کے ذریعہ بہت سے نئے انکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے رصد گاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا انہوں نے رصد گاہوں سے متعلق ایک تقریر میں کہا تھا ’’ہماری رصد گاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلوؤں کی طرف کھنچنے کے وسیلہ ہیں میں ان رصد گاہوں کو اس نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں بلکہ ان کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو انسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان رصد گاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو ایک حد تک حل بھی کیا ہے۔ تمام رصد گاہوں میں تحقیقی کام آج تک ہو رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔

 

۶۔ نظام شمسی  (Solar System)

            نظام شمسی کے وجود میں آنے کے بارے میں دو نظریے بیان کئے جاتے ہیں۔ پہلے نظریہ کے مطابق اربوں سال پہلے کوئی تارہ سورج کے قریب ہو کر گزرا اور اس سے ٹکرا گیا جس کے سبب سورج کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا جو کہ کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد سور ج کے اطراف گردش کر نے لگا۔ یہی ٹکڑے سیارے کہلائے۔

            ایک دوسرے نظریہ کے مطابق نظام شمسی گیس و دھول کے ایک بڑے بادل سے وجود میں آئی ہے۔ اربوں سال پہلے نظام شمسی گیس و دھول کے بادلوں کے روپ میں تھا۔ کشش ثقل کی وجہ سے گیس و دھول کے جو ہر (Atom)لاکھوں سالوں میں قریب آنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبے کی شکل میں جمع ہوتے گئے۔ پھر تبا اپنے محور کے گرد گردش کرنے لگا۔ بعد میں اس کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ کل مادے کا نوے پرسینٹ حصہ مرکز پر جمع ہو گیا۔ بقیہ دس فی صد حصہ کئی جرموں میں ٹوٹ گیا اور یہ اجرام مرکز کے اطراف گردش کرنے لگے بیچ کے حصے کو سورج اور اس کے گرد گھومنے والے اجرام کو سیارے کہا گیا۔

            کشش ثقل کی وجہ سے سورج سکڑنے لگا اور پھر چھوٹا اور گرم ہونے لگا۔ اسی وجہ سے اس میں نیوکلیر فیوژن ہونے لگا جس کے نتیجے میں سورج میں حدت و روشنی پیدا ہونے لگی۔ دھیرے دھیرے اس نے سارے نظام شمسی کو منور کر دیا یہ نظریہ ۱۷۹۶ء میں فرانس کے ریاضی داں پیرے سائمن لیپلاس (Piere Simon Leplas)نے دیا تھا۔ اسی نظریہ کو کچھ ترمیم کے بعد تسلیم کر لیا گیا ہے۔

            نظام شمسی کے رکن اس طرح ہیں۔

             (۱) سورج

             (۲) سیارے       (A)عطار                     Mercury

                                     (B)زہرا                     Venus

                                     (C)زمین                    Earth

                                     (D)مریخ                    Mars

                                     (E)مشتری                 Jupiter

                                     (F)زحل                    Saturn

                                     (G)یورینس                Uranus

                                     (H)نیپ چیون             Neptune

                                     (I)پلوٹو                                    Pluto

                                     (J)دسواں سیارہ یا دوسرا سورج

                                     (K)ذیلی سیارہ قمر                      moon

                                     (L)مجمعہ ستارگاں

                                     (M)شہاب ثاقب

                                     (N)دمدار تارے                      Comets

                                     (O)شدرگرہ

رکن کا نام

کمیت  (زمین)

رکن کا قطر  (کلومیٹر)

اوسط کثافت  (زمین)

سورج سے اوسط فاصلہ  (کلومیٹر)

سطح پر اوسط تیش  (ºC)

سورج کے گرد  مداری حرکت کا عرصہ

محوری گردش عرصہ

ذیلی سیارے

 (۱) عطارد

0.025

4881.6

0.36

58‎ کروڑ

-183

87.97دن

59گھنٹے

——

 (۲) زہرا

0.815

12236

0.89

10.82کروڑ

460

224.70دن

243گھنٹے

——

 (۳) زمین

1.0

12756

1.0

14.96کروڑ

10

365.25دن

23.56گھنٹے

1

 (۴) مریخ

0.107

6763

0.70

22.8کروڑ

-58.5

686.98دن

24.37گھنٹے

2

 (۵) مشتری

317.88

433200

0.24

77.83کروڑ

-140

11.86سال

9.55گھنٹے

16

 (۶) زحل

95.17

120000

0.13

142.7کروڑ

-180

29.46سال

10.40گھنٹے

22

 (۷) یورینس

14.60

51800

0.23

287.11 کروڑ

-220

84.01سال

17.14گھنٹے

15

 (۸) نیچون

17.25

49500

0.29

449.2کروڑ

-230

164.79سال

18.30گھنٹے

8

 (۹) پلوٹو

0.10

3000

—–

590.98کروڑ

-240

248.43سال

6دن9.18گھنٹے

1

۷۔ اڑن طشتری  (U.F.O.)

            منگل ۲۴ /جون ۱۹۴۷ء ! ایک امریکی کینیتھ آرنالڈ (Kenneth Arnold)نے اپنے ہوائی جہاز میں ’’راکی‘‘ پہاڑ کے اوپر سے اڑان بھری۔ اچانک اس نے آسمان میں طشتریوں جیسی ۹ چیزیں دیکھیں۔ ان میں تیز چمک اور تیز رفتار تھی۔ اسی وقت ایک دوسرے امریکی فریڈ جانسن  (Fred Johnson)نے بھی چھ چمکتی طشتریاں آسمان میں تیز رفتار سے بھاگتی دیکھیں۔ اسی طرح بہت سی خبریں ہر روز سنائی دینے لگیں۔ ہزاروں لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اڑن طشتری کو دیکھ چکے ہیں۔ سیکڑوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اڑن طشتریوں میں موجود دوسرے کسی سیارے کی مخلوق کو دیکھا ہے۔ اور کچھ کا تو یہاں تک دعویٰ تھا کہ انہوں نے لوگوں سے ملاقات بھی کی ہے۔

            ان خبروں نے دنیا میں سن سنی پھیلا دی۔ تمام دنیا کے سائنسداں اور اخبار نویس فوراً حرکت میں آ گئے۔ سائنسدانوں کا گروہ ان کی کھوج میں روانہ ہوا تو اخبار نویسوں نے چٹپٹی خبروں سے اخبار رنگ ڈالے۔ بہت سے مصنف حضرات نے انوکھی مخلوق کی خیالی کہانیاں لکھ ڈالیں۔ اتنا سب ہونے کے بعد امریکی گورنمنٹ کا حرکت میں آنا لازمی تھا۔ گورنمنٹ نے اس کی جانچ فضائیہ افواج سے کرانے کا فیصلہ کیا۔ جب جانچ کی گئی تو حیرت انگیز نتیجے سامنے آئے۔ کل 12687معاملوں کی تحقیقات کی گئی۔ان میں 701 معاملوں میں آدھی ادھوری جانکاری ملنے کے سبب کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر معاملے جھوٹے اور بے بنیاد پائے گئے۔ مجبوراً  ً۱۹۷۰ء میں یہ جانچ بند کر دی گئی۔

            اب یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب اڑن طشتری دیکھے جانے کے پختہ ثبوت نہیں پائے گئے تو پھر آخر یہ سب تھا کیا؟ محض آنکھوں کا دھوکا یا پھر کوئی خطرناک سازش؟ جب دنیا کے کئی حصوں میں اڑن طشتریاں دیکھنے کی رپورٹیں ملی ہیں تو پھر کوئی ثبوت کیوں نہ پایا جا سکا۔ کیا واقعی اڑن طشتریاں کسی دوسرے سیارے سے آئے خلائی طیارے ہی تھے۔ یا کچھ اور؟

            وقت کے ساتھ یہ بات مان لی گئی کہ دکھائی دینے والی چیزیں حقیقت میں اڑن طشتریاں نہیں تھیں۔ جانچ کے دوران صحیح پائے گئے ۱۰ فیصدی معاملوں کو سائنسدانوں نے شہاب ثاقب اور مصنوعی سیاروں کا زمین کی فضا میں آ کر جل اٹھنا، بادل اور راکیٹ یا خلائی طیاروں کے چھوڑے جانے سے بنے حالات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اڑن طشتریوں کا نکارا جانا اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ ان ماہرین فلکیات نے ان کو دیکھنے کی تصدیق نہیں کی جو رات دن خلاء کے رازوں کو جاننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نہ ہی کسی خلاء نورد نے ان کے دیکھنے کی بات قبول کی ہے۔ تب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں اخبار اور رسائل میں چھپی کہانیوں کو کیا سمجھا جائے۔ جھوٹ کا پلندہ۔ یا پھر حقیقت! ان اخبار نویس اور مصنفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں اس کا سبب تھیں۔

            ۱۹۳۱ء میں چارلس فورڈ نے حیرت انگیز واقعات کو جوڑ کر ایک کتاب شائع کی۔ جس میں راکھ کی بارش، آسمان سے مچھلیوں اور پتھروں کی بارش خوفناک اور پوشیدہ آوازوں اور آسمان میں جلتی چمکتی چیزوں کے بارے میں مفروضہ پیش کیا گیا تھا۔ ان واقعات کے پیچھے کسی دوسرے سیارے سے آئے خلا نوردوں کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی لوگوں نے اس کے اندر کی باتوں کو اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔ دھیرے دھیرے اڑن طشتریوں کی کہانیوں نے لوگوں کے دماغ میں ایسا اثر ڈالا کہ وہ ان واقعات کے رونما ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب انسان کے خلاء میں پرواز کرنے کی خبریں آنے لگیں تو فوراً ایک خیال مصنفین کے دماغ میں آیا کہ جب زمین سے خلاء میں انسان جا سکتا ہے تو دوسری دنیا  (یعنی کسی اور سیارے) کے لوگ یہاں کیوں نہیں آ سکتے بس اسی خیال نے مصنفین کو الٹی خلا نوردی کا پلاٹ تیار کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ چونکہ قدرت کی ان سلجھی باتوں پر مبنی کہانیاں کافی کشش رکھتی ہیں۔ اس لئے اڑن طشتری پر لکھی گئی تمام کتابوں اور کہانیوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ ایک جرمن مصنف ڈینکن (Denkin)نے قدیم زمانے میں دوسرے سیارے سے آئے لوگوں کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مصر کے اہرام، کشمیر کا ’’مارتنڈ‘‘ مندر قطب مینار کے پاس کے لو ہے کا کھمبا وغیرہ انہیں لوگوں نے بنائے ہیں۔ کچھ مصنف لکھتے ہیں کہ تقریباً 4600سال قبل چین میں ایک خلائی طیارہ آیا تھا اور اس میں کئی دوسرے سیارے کے افراد بھی تھے ان کا کہنا ہے کہ جاپان میں نبی ’’مدر میری‘‘ کا مجسمہ بھی در حقیقت انھیں میں سے کسی فرد کا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’پیرو (Peru)‘‘ میں ملی کچھ جگہیں خلائی اسٹیشن کے طور پر استعمال ہو چکی ہیں۔ جو کہ اب سیون ونڈرس میں شامل ہے۔

            امریکی فضائیہ نے جن یو ایف او (U.F.O.)یعنی ان آئڈ ینٹی فائیڈ فلائنگ آبجیکٹس (Unidentified Flying Objects)کا مشاہدہ شروع کیا تھا وہ بھلے ہی حقیقت ثابت نہیں ہوئیں۔ لیکنU.F.O.کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ اڑن طشتریاں خلاء میں موجود اجرام فلکی سے آئی ہوئی کوئی چیز نہیں بلکہ نظروں کا دھوکہ تھیں۔ اپنی رپورٹ میں فضائیہ نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ خلاء میں کئے جا رہے تجربوں کے دوران نکلنے والے گیس دھول کے بادل ہوں پھر بھی انکے صحیح ہونے کا امکان ابھی بھی موجود ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب انسان خلاء میں جا سکتا ہے چاند پر پہنچ سکتا ہے مریخ پر بھی جلد پہنچنا چاہتا ہے تو کیوں۔۔۔۔کسی باہری سیارے سے مخلوق زمین پر نہیں آ سکتی۔ اگر حقیقت میں کسی سیارے پر زندگی ہے اور وہ ارتقائی تہذیب یافتہ ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ ہماری زمین پر آ کر اس بارے میں جاننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قدیم زمانے سے کبھی کبھی یہاں اڑن طشتریوں کا آنا رہا ہی ہوا ور وہ بہت چالاکی سے اپنے نشانات مٹا کر واپس لوٹ جاتے ہوں کہ ان کی تصدیق ہی نہ کی جا سکے۔ کچھ لوگوں نے جو واقعات اس سے متعلق بیان کئیے ہیں وہ صحیح ہو بھی سکتے ہیں۔

            میرے U.F.O.کے بارے میں اس طرح کے خیالات کی ایک اور وجہ بھی ہے جسے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، شام کے وقت اپنے شہر سنبھل کے ایک اونچے ڈھلان پر چڑھ رہا تھا جو کہ محلہ کوٹ میں موجود ہے۔ سورج غروب ہونے کی تیاری میں تھا۔ میری نظر جب آسمان کی طرف اٹھی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک فٹ لمبی اور تقریباً ً 4-5 انچ چوڑی دودھیا چمک والی پٹی آگے کو تو کبھی اوپر کو کبھی دائیں اور کبھی بائیں چلتی ہوئی نظر  آ رہی تھی۔ اس کی رفتار زیادہ نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی اس نے کافی فاصلہ15-20منٹ میں طے کر لیا تھا اس کے بعد اچانک وہ سمٹنی شروع ہوئی اور چوکور حالت اختیار کر کے غائب ہو گئی۔ اس واقعہ کا گواہ میرا ایک دوست محمد فیضان بھی ہے جو کہ اس وقت میرے ساتھ تھا۔ میں نے اس بات کی خبر اپنے خط میں کلکتہ نینی تال کی رصد گاہوں کے علاوہ دہلی یونیورسٹی میں U.F.O.کلب کو بھی دی تھی۔ انھوں نے اس بارے میں حالانکہ کوئی جواب نہیں دیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ یقیناً اڑن طشتری کی طرح کی چیز رہی ہو گی۔

            اڑن طشتریوں کے قصوں میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن روز بروز مل رہی جانکاریوں کی مدد سے یہ مانا جانے لگا ہے کہ کسی نہ کسی اجرام فلکی میں زندگی ضرور موجود ہے۔ مریخ پر زندگی کے آثار مل رہے ہیں سائنسداں اس بات کو ماننے لگے ہیں کہ اپنی فضا میں رہ سکنے والی مخلوق دوسرے سیاروں میں بھی موجود ہے جو زمین تک پہنچنے کی کوشش یا تو کرتی رہی ہے یا آنے والے وقت میں ہمارا اس سے سامنا ہونا طے ہے۔ بھلے ہی اڑن طشتریاں  (U.F.O.)آج ہماری فضا کی قدرتی مناظر نگاری کا سبب مانی جا رہی ہوں لیکن آنے والے وقت میں یہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئیں تو اس میں کچھ بھی حیران کن نہیں ہو گا۔

 

۸۔ خلاء کا سفر آغاز و ارتقاء

            زمین کی فضا جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے خلاء کی پر اسرار سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں اور یہ ہر سمت میں نامعلوم فاصلے تک موجود ہیں۔ خلائی سفر کا آغاز تقریباً 45سال قبل روس کے اسپوتنک (Sputnik) نامی خلائی طیارہ (Space Craft) کے ذریعہ ہوا تھا۔

            آغاز فلکیات میں خلاء کا مشاہدہ رصد گاہوں کے ذریعہ ہی ہوتا رہا۔ جو کہ زمین پر بنائی گئیں تھیں۔ لیکن یہاں سے مشاہدے میں بہت سی دقتوں کا سامنا تھا۔ اسی نے انسان کو احساس کرایا کہ بہتر کام کے لئے خلاء میں پرواز اشد ضروری ہے۔ پھر ۱۴/اکتوبر ۱۹۵۷ء میں روس نے اسپوتنک (Sputnik-1)کو خلاء میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی یہیں سے خلاء میں کھوج بین کا سفر شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد ہی لائیکا (Lica)نامی کتیا کے ساتھ اسپوتنک۔ ۲ کو خلاء میں بھیجا گیا۔لائیکا کے صحیح سلامت واپس لوٹنے نے انسان کے خلاء میں جانے کے راستے کو کھول دیا۔

            اس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۹ء میں روسی لونا۔ ۳ (Luna-lll) سے جو فوٹو حاصل ہوئے اس کے ذریعہ چاند  (قمر) کے دور رہنے والے حصے کو پہلی بار دیکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ۱۹۶۲ء میں امریکی میرینز  (Mariner-ll)نے زہرہ  (Venus ( کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے درجہ حرارت اور گھومنے کی الٹی سمت کا پتہ لگایا۔ ۱۹۶۵ء میں میری نیئر۔ (Mariner lV)۴ نے مریخ  (Mars)پر بنے گڈھوں کے بہت سے فوٹو گراف بھیجے۔

            اب خلاء میں کھوج کا کام اپنے عروج کی طرف چل نکلا تھا۔ اپنی سابقہ کوششوں  (Missions) میں بہت سی تبدیلیوں کے بعد ریموٹ سے کنٹرول ہونے والے مصنوعی سیارے بنا کر انہیں چاند، مریخ اور زہرہ وغیرہ پر بھیجا گیا۔ اس نے سب سے زیادہ کامیاب مشن وائجر ایک اور دو (Voiger-l&ll)کا رہا جس نے بہت سے مفروضوں میں تبدیلی پیدا کر کے ان کو اصل حقیقت میں سامنے لا دیا۔

            خلاء کا  شروعاتی زمانہ تقریباً ۲۳ سال کا رہا جس میں انسان کی خلاء میں پرواز صرف ۳ فیصدی ہی ہو سکی۔ اس بیچ تقریباً 2400خلائی طیاروں کی پرواز مکمل ہوئی۔ ۱۲/اپریل ۱۹۶۱ءکو روسی خلاء نوردیوری گگرن (Yourigagrin) نے پہلی بار کسی انسان کے طور پر خلاء میں پرواز کی اس کے بعد ۱۶/جون ۱۹۶۳ء میں روسی خلاء نوردوں نے پانچ دن تک خلاء میں پرواز کی اس مشن میں ویلن تین تیرشکوب (Velentee Tershkov)نامی خاتون بھی شامل تھیں۔ ۱۹۵۵ء میں دو آدمیوں کے بیٹھ سکنے والے جمینی (Gemini)خلائی طیاروں کی کامیابی سے امریکہ نے روس کے ہاتھ سے فلکیاتی قیادت چھین لی۔

            مندرجہ بالا مشنوں  (Missions)کی کامیابی نے انسان کو ایک ایسی کامیابی کی طرف متوجہ کیا جس نے قدیم زمانے سے چلی آ رہی کہانیوں اور روایتوں کو بدل ڈالا۔ یہ کامیابی تھی۱۲/جون ۱۹۶۹ء کو چاند پر انسان کا پہلا قدم۔ یہ قدم تھا نیل آرم اسٹرونگ (Neil Arm Strong)کا جو اپولو (Apollo)کے ذریعہ یہاں پہونچا تھا۔ اس مشن میں ان کے ساتھ ایڈون ایلڈرن (Edwin Eldrin)اور کولنس بھی تھے۔ چاند پر پہونچ کر انہوں نے جو تجربات کئے اور وہاں سے لائی گئیں چیزوں سے زمین پر جو نتیجے اخذ کئے گئے انہوں نے ہمارے پڑوسی سیاروں اور خلاء کے پوشیدہ رازوں کے ساتھ ساتھ چاند کے بارے میں بھی بہت سی اہم معلومات فراہم کیں۔ اب تک ۱۲ امریکی چاند پر فتح حاصل کر چکے ہیں۔

            چاند پر فتح کے بعد اب انسان کا اگلا ٹارگیٹ مریخ ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں جو دشواریاں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ موجودہ حالت میں اگر مریخ کا سفر کیا جائے تو اس تک پہنچنے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

            امریکن اسکائی لیب اور روسی میر (Mir)خلائی اسٹیشنوں نے زمین اور دوسرے سیاروں کے ساتھ ساتھ خلاء کے بارے میں نئی مسلمہ معلومات فراہم کی ہیں۔ ان اسٹیشنوں میں سائنسدانوں نے بہت سے تجربے کئے ہیں۔ ان تجربوں کی روشنی میں خلاء نوردی کو آرام دہ بنانے کا کام جاری ہے۔ ساتھ ہی خلاء میں کئے گئے سفر اور تجربوں سے دنیا کو روبرو کرنے کے لئے اب ٹی وی  (T.V.)پر بھی نشر کیا جانے لگا ہے۔ سب سے پہلے ۱۳/مارچ ۱۹۸۶ء کو سویوزٹی15-کی پرواز کو سیدھے ٹی وہ پر نشر کرنے کی کوشش کامیاب رہی۔

            امریکی خلائی ایجینسی (Nasa)’’ناسا ‘‘ نے بار بار استعمال ہو سکنے والا ایک ایسا خلائی طیارہ تیار کیا ہے جو زیادہ لوگوں کو لے جا سکنے کے علاوہ عام طیاروں کی طرح ہی اڑان بھر سکتا ہے۔اور سطح پر اتر سکتا ہے۔ واضح رہے ابھی تک خلائی طیارہ ایک مشن پر ہی کام آ سکتا تھا۔ اب مشن پر نئے خلائی طیارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔

            روس نے ۲۰ /فروری ۱۹۸۶ء کو میر  (Mir)نامی جس خلائی تجربہ گاہ کو خلاء میں بھیجا تھا وہ حال ہی میں واپس بلایا جا چکا ہے۔ اس بیچ اس نے اپنے کام کو بہت اچھی طرح انجام دیا۔ حالانکہ یہ اب بھی کافی کام آ سکتا تھا۔ لیکن روس کی معاشی حالت خراب ہو جانے کے سبب اور اس میں بار بار تکنیکی خرابیوں کا ابھرنا اس کے خاتمے کی وجہ بن گیا۔ ۲۹/جنوری ۱۹۸۶ء کو امریکہ کو ایک بڑا جھٹکا لگا جب ان کا ایک شٹل یان چیلنجر  (Challenger)خلاء میں ہی پھٹ گیا اس حادثے میں چھ خلاء نوردوں اور ایک اسکول ٹیچر کی موت ہو گئی۔ لیکن اس حادثے کے باوجود روس سے امریکہ کی خلائی جنگ بند نہیں ہوئی۔ اس نے ایک کے بعد ایک کئی خلائی مشنوں  (Missions) میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۸۹ء میں نیپچون (Neptune)کی کھوج خبر کے لئے ڈسکوری (Discovery)سورج کی کھوج میں ۱۹۹۰ء میں یولیسس  (Youlisis)کو روانہ کیا گیا تھا۔ اس کی کامیابی کے بعد اب ۱۹۹۲ء سے مریخ کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔

 

۹۔ خلاء نوردوں کی زندگی

            یہ سوال دماغ میں ضرور الجھن پیدا کر سکتا ہے کہ خلاء نورد اپنی پرواز کے دوران کیسا محسوس کرتے ہیں ؟ خلاء نوردوں کی زندگی زمین کی زندگی سے بالکل الگ ہے۔ پرواز سے پہلے ان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ ان پر کئی طرح کے تجربے بھی کئے جاتے ہیں۔

            زمین کے مرکز اور زمین سے خلاء میں نامعلوم فاصلے پر جانے سے چیزوں کا وزن صفر ہو جاتا ہے۔ اور وہ چیز تیرنے جیسی حالت میں محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح جب خلاء نورد خلاء میں پرواز پر ہوتے ہیں تو ان کا وزن صفر ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ تیرنے جیسی حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی وہ خلائی طیارے کے فرش یا دیواروں سے ٹکرا جاتے ہیں تو کبھی چھت سے۔ اس طرح وہ خلاء میں جا کر بڑی مصیبتوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

            خلاء نورد پانی کو گلاس سے نہیں پی سکتے۔ کیونکہ پانی بھی اپنے وزن کو کھو چکا ہوتا ہے۔ پانی پینے کے لئے ایک خاص ترکیب استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ایک سلینڈر میں پانی بھر کر اسے نلیوں کے ذریعہ منھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ نلی میں لگے پمپ  (Pump)اور ٹونٹی کے ذریعہ یہ کام کیا جاتا ہے۔ اس پانی کو زیادہ دن تک استعمال کرنے کے لئے بھی خاص ترکیب سے پانی کی حفاظت کی جاتی ہے۔

            خلاء میں گھومنے کے لئے خاص طرح کا سوٹ (Suit)پہننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ خلاء میں کسی سمت آگے بڑھنے کے لئے پسٹل نما مشین کو الٹی سمت میں داغا جاتا ہے۔ خلاء نورد خود کو رسی سے باندھ کر طیارے سے جڑے رہتے ہیں۔

            خلاء نوردوں کو کھانے کی پریشانی سے بچانے کے لئے بھی کئی ترکیبوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کھانے کو ٹیوبوں میں پیسٹ (Pest)کی طرح بھر لیا جاتا ہے۔ اور جب ضرورت ہوتی ہے ٹیوب کا منھ اپنے منھ میں لے کر ٹیوب کے سرے کو دبایا جاتا ہے۔ جس سے کھانا منھ میں پہنچ جاتا ہے۔ الگ الگ کئی طرح کے کھانے ٹیوب میں بھر کر لے جائے جاتے ہیں تاکہ مزہ کی یکسانیت سے بوریت نہ ہو۔

            خلاء میں رات دن اور موسم کا کوئی پتہ نہیں چلتا ہے۔ چونکہ خلاء میں روشنی کا پرکیرن نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے سورج چمکنے کے باوجود وہاں گھنا اندھیرا نظر آتا ہے۔ خلاء نوردوں کو گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لئے خلائی طیارے کا درجہ حرارت کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔

            خلاء نوردوں کو موشن سکنیس (Motion Sickness)نیند، دل اور ہڈی وغیرہ کے امراض کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسطرح یہ اندازہ مشکل نہیں کہ خلائی سفر جتنا پر کشش اور خوبصورت نظر آتا ہے حقیقت میں اتنا ہی خطرناک اور دشوار بھی ہے۔

۱۰۔ عرب کے چند مشہور ماہرین فلکیات

 (۱) احمد کثیر الفرغانی

            مامون رشید کا دور اسلامی تاریخ میں علوم و فنون کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اسی دور میں ابو عباس احمد بن محمد کثیر ترکستان کے شہر فرغانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی بعد میں بغداد کا رخ کیا۔ یہاں انہوں نے بہت سے اساتذہ سے رابطہ قائم کیا اور کئی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔ اسی جگہ وہ اپنی صلاحیتوں کے باعث مشہور سائنسداں کہلانے لگے۔

            مامون رشید علم و فن سے بڑا شغف رکھتا تھا اور اہل علم کو معاشی فکروں سے آزاد رہ کر تحقیق و مشاہدہ کرنے کی آزادی دیتا تھا اس نے فرغانی کو بھی اپنے علماء کے حلقہ میں شامل کر لیا۔ اور ان کے حوالے زمین کے محیط کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کرنے کا کام کیا احمد کثیر الفرغانی نے زمین کی محیط 25009میل بتائی جو کہ مسلمہ محیط24858میل سے کچھ ہی زائد ہے۔ الفرغانی نے سب سے بڑا کام زمین کی محیط کی پیمائش کا کیا جو اس وقت کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس وقت آج کے سے آلات موجود نہیں تھے۔ اس نے ایک دھوپ گھڑی بھی ایجاد کی تھی۔

            اس عظیم ماہر فلکیات جغرافیہ داں کا انتقال ۹۰۳ء میں مانا جاتا ہے۔

 (۲) ابو الوفا بوزجانی

            ابو الوفابوز جانی ۹۴۰ء میں ہرات اور نیشا پور کے قریب ایک گاؤں بوزجان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور انہیں پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ ابتدائی تعلم اپنے ماموں سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے وہ بغداد چلے گئے یہاں آ کر وہ ابو یحیٰ ماوردی اور ابو اعلیٰ ابن کرب کے شاگرد بن گئے۔ دونوں ہی اساتذہ مشہور ماہرین فلکیات میں سے تھے۔ اس نے ان کی زیر نگرانی اعلیٰ تعلیم کا نصاب مکمل کیا۔ اور پھر مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہو گئے۔

            ریاضی اور فلکیات میں بوزجانی نے اپنی ذہانت و محنت کی بنا پر بہت جلد مہارت حاصل کر لی اور ماہر فلکیات کے طور پر مشہور ہو گئے انہیں اس وقت کے حکمران نے فکر معاش سے آزاد کر کے وظیفہ مقرر کر دیا ساتھ ہی ان کو بغداد کی شاہی رصد گاہ کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

            ابو الوفابوز جانی نے چاند کی مختلف حرکات کا مشاہدہ کیا اور ایک حرکت دریافت کی انہوں نے چاند کی گردش اور سورج کی گردش اور سورج کی کشش کو ثابت کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سورج کی کشش سے چاند کی گردش میں خلل پڑتا ہے۔ اس کو چاند کا گھٹنا اور بڑھنا بھی کہا جاتا ہے۔

            بوز جانی نے ریاضی اور ہیئت کے علاوہ بھی دوسرے کئی موضوعات پر کتابیں لکھیں انہوں نے کئی یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ’’کتاب ہندسہ‘‘ ، ’’علم الحساب‘‘ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔

            کئی علوم وفنون کے ماہر ابو الوفابوز جانی کا انتقال ۱۰۱۱ء میں ہوا تھا۔ ایسے عظیم سائنسداں کو بھلا کون اور کیونکر بھلا سکتا ہے۔

 (۳) محمد ادریسی

            ۱۰۹۹ء میں ادریسی عندلس کے مشہور شہر سبتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ شہر چارسو سال پہلے ایک فوجی قلعہ تھا۔ مشہور سپہ سالار موسیٰ ابن نصیر نے اسے اسپینیوں سے چھین کر اسلامی حدود میں داخل کیا تھا اور تبھی سے اس شہر کی بڑی اہمیت تھی۔ ادریسی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور ۱۶ سال کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے قرطبہ کا رخ کیا۔ قرطبہ پہنچ کر ادریسی نے ماہرین سے مختلف علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی فلسفہ ریاضی، جغرافیہ اور علم فلکیات میں اسے دسترس حاصل ہوئی۔

            ادریسی بادشاہ راجرس (Rajaras-2)دوم کے دور میں صقلیہ  (Saqliah)پہنچا۔ جہا ں اس کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ بادشاہ نے اس کا وظیفہ طے کر دیا اور اسے تجربات و مشاہدات میں لگے رہنے کی اجازت دے دی۔ اس نے علم جغرافیہ کی نہایت جامع اور مفید کتاب تیار کی۔ اس کا نام ادریسی نے ’’نزہت المشتاق فی احتراق الآفاق‘‘ رکھا۔ اس نے ’’رؤض الانس ونزہت النفس‘‘ نامی ایک کتاب فلکیات اور جغرافیہ کے موضوع پر لکھی۔ ادریسی نے طب اور جغرافیہ کو با قاعدہ مدون کیا۔ اس نے سب سے پہلے دنیا کے گول ہونے کی بات دنیا کے سامنے رکھی۔ دنیا کا ایک گول مٹول ماڈل تیار کیا جو چاندی کا بنا تھا جس میں دنیا کے ممالک کو صحیح جگہ پر دکھایا گیا تھا۔

            ۱۱۶۵ء میں جغرافیہ فلکیات اور طب وغیرہ پر اہم خدمات اور کارنامے انجام دیتے ہوئے محمد ادریسی نے اس دار فانی سے رخصت پائی۔ ادریسی سریانی، یونانی، فارسی، لاطینی ، عربی اور بربری کے ساتھ کئی دوسری زبانوں میں بھی مہارت رکھتا تھا۔

 (۴) ابو ریحان محمد ابن احمد البیرونی

            ابو ریحان محمد ابن احمد البیرونی نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کی ممتاز شخصیتوں میں سے ایک تھا بلکہ در حقیقت دنیا کے ان چند ذہین انسانوں میں سے ایک تھا۔ جنھوں نے علم کے مختلف شعبوں میں اپنی ذہانت سے تاریخ میں ایک مقام بنا لیا۔ اسلامی تاریخ میں ۹۰۰ء سے ۱۱۰۰ء تک کا زمانہ روشن خیالی اور سائنسی ترقی کے لئے مشہور ہے۔ البیرونی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس دور میں پیدا ہوا جبکہ عرب میں ترقی اپنے عروج پر تھی۔ عرب دانشوروں نے جو کچھ کارنامے انجام دیئے البیرونی نے اس زمانے کے کثیر تعداد میں بکھرے ہوئے ان خیالات کو اکھٹا کر کے سائنسی زبان اور لہجہ عطا کیا۔ اور ان کو ایک سائنٹفک قطعیت دی۔ البیرونی نے اپنے تجرباتی ذہن کا استعمال کیا اور رائج خیالات اور نظریات کی انبار سے سچائی کو ڈھونڈ نکالا۔

            البیرونی ۴/ستمبر ۹۷۳ء بروز جمعرات کو کاث  ( خوارزم) میں پیدا ہوا تھا۔ کاش اس وقت خوارزم کا دارالخلافہ تھا اور اب خیوا کے نام سے ازبکستان میں واقع ہے۔اس کے والد کا نام احمد تھا۔ البیرونی کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا۔ اس سانحہ نے البیرونی کی زندگی کو نئی راہ دکھائی اور اس کو خود کفیل اور خود مختار بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ البیرونی کا کہنا تھا کہ ہر گروہ اور ہر مذہبی فرقہ اس وقت تک اسے عزیز ہے جب تک کہ وہ علم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ البیرونی شیعہ مسلمان تھا۔ یہ تو پتہ نہیں لگتا کہ مذہبی رسوم کا وہ کہاں تک پابند تھا لیکن وہ کسی مذہب کے خلاف نہ تھا۔

            علم کے حصول کے لئے اس نے شادی نہیں کی اور حصول علم کے لیے وہ جگہ جگہ بھٹکا کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی ان دیکھی راہوں سے بھی گزرا جو اس دائرہ النظر سے پرے تھیں مگر ایک بار قدم اٹھا لینے کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کتابوں کا سرمایہ جہاں کہیں سے بھی دستیاب ہوا اس نے حاصل کرنے کی سعی کی۔

            البیرونی نے اپنی کتاب ’’آثار الباقیہ‘‘ میں اپنے استادوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام ہیں ابوالنصر منصوری بن علی اور محمود بن اسحاق۔ البیرونی کے تیسرے استاد کا نام عبد الصمد اول بن عبد الصمد تھا۔ ’’کتاب الہند‘‘ میں البیرونی نے اپنے ایک اور استاد کا تعارف کرایا ہے جن کا نام ابو سہل عبد المنعم ابن علی ابن نوح الطفلی تھا۔ کئی دیگر استاد بھی البیرونی کے گذرے ہیں جن کے بارے میں معلومات زیادہ تفصیلی نہیں ملتی ہے۔ البیرونی کا زیادہ تر علم اس کی خود کی کاوشوں اور تجربوں کا نتیجہ تھا۔

            البیرونی ہفت زبان تھا۔ اسے فارسی، عربی، ترکی، خوارزمی اور سنسکرت میں عبور حاصل تھا لیکن عبرانی، سریانی وغیرہ سے بھی اس کی واقفیت تھی نیز یہ کہ ماہرین کا قیاس ہے کہ وہ یونانی زبان بھی اچھی طرح لکھ پڑھ سکتا تھا۔

            البیرونی ایک پر نویس قلم کار تھا۔ لکھنا ہی اس کی زندگی کا سب سے عظیم مقصد تھا۔ ایک انداز ے کے مطابق اس کی تحریروں کا مجموعی وزن ایک اونٹ بھر تھا۔ یا قوت کا بیان ہے کہ اس نے البیرونی کے کام کی تفصیلی فہرست خود بہت گھنی عبارت میں ساٹھ صفحوں پر مشتمل دیکھی ہے قیاس کیا جا تا ہے کہ البیرونی کی تمام تخلیقات جمع کر لی جائیں تو یہ18ہزار اوراق پر پھیل جائیں گی۔ ان183تخلیقات میں 70ایسی کتابیں اور رسائل ہیں جو تقریباً 6987صفحوں پر مشتمل ہونگے۔اس طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر کتاب 100صفحوں پر مشتمل ہو گی۔ سب سے چھوٹا رسالہ ’’مقالہ فی طبیعی رائے بطلیموس فی السلخدا‘‘ صرف سات اوراق پر مشتمل ہے جبکہ سب سے ضخیم کتاب ’’المسائل المفیدۃ والجواباۃ السدیدۃ‘‘ 1250 اوراق پر مشتمل ہے جبکہ یہ بھی اہم بات ہے کہ ان 70تخلیقات میں بہت سی دیگر اور ضخیم کتابیں شامل نہیں ہیں جیسے ’’القانون المسودی‘‘، ’’آثار الباقیہ‘‘ کتاب الجماہر‘‘ اور اس کی آخر نامکمل تخلیق ’’کتاب السیدنا‘‘۔

            البیرونی نے خود اپنی تخلیقات کی ایک فہرست کتابی شکل میں پیش کی تھی جس کا عنوان ’’رسالۃ فی فہرست محمد بن زکریا الراضی‘‘ تھا۔ اس میں 114تصنیفات کو ۱۳ حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ تقریباً پانچ باب پر مشتمل38کتابوں میں علم فلکیات سے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ نئی دریافتوں نے اس فہرست کے بعد تخلیق کی گئی البیرونی کی کتب کو شامل کر کے اس کی کل کتب ۱۸۳ شمار کی ہیں۔ ان ۱۸۳ کتب میں سے ۴۱ کے قلمی نسخے دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے ۲۳ کتابیں مکمل طور پر اور پانچ جزوی طور پر تدوین کی گئی ہیں۔ ان میں ’’کتاب السیدنا‘‘، ’’کتاب التفہیم‘‘‘ لی اول صنعت التبجیم۔ کتاب الہند، القانون المسودی، الآثار الباقیہ، عن القرون الخالیہ رسالہ تجریت الشعات، کتاب التحدید، لوازم ال حرکتیں  (قرآنی اقتباسات پر مشتمل یہ کتاب اب موجود نہیں ہے۔) کتاب المجاہر فی معارفات ال جواہر، کتاب الاستور، تذکرہ فی المسافات فی المسافر المقوی وغیرہم ہیں۔

            البیرونی کے کام کا طریقہ تقابلی طریقہ تھا وہ نہ تو فلسفیانہ استنحراحیت کو پسند کرتا تھا اور نہ ہی منطق استفرائیت کو۔ ایک اطمینان بخش نتیجہ پر پہنچنے کے لئے وہ ایک با اصول طریقہ استعمال کرتا تھا۔ البیرونی لوگوں کے خیالات جاننے کے لئے ان سے طرح طرح کے سوالات کرتا تھا جس سے بعض مسائل کے سمجھنے اور ان کے احاطہ کرنے میں مدد ملتی تھی۔ اس کی کتابوں میں طویل اقتباسات ملنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں اور اپنے خبر ر سانوں کی باتوں کو غور سے سنتا تھا او ر انھیں نقل بھی کر لیتا تھا۔

            مختصر یہ کہ البیرونی نے علم کے ہر شعبے میں طبع آزمائی کی۔ اس نے بہت سے علوم پر اپنی قلم کا جادو بکھیرا۔ علم فلکیات، ریاضی، جغرافیہ، آثار قدیمہ علم الارض، نجوم، الکیمیا وغیرہ پر اس نے کافی کچھ لکھا۔ البیرونی نے ایک طویل عمر پائی اور وہ ایک صدی کا تین چوتھائی حصہ صحت مند زندگی کے ساتھ حیات رہا ۱۳/دسمبر ۱۰۴۸ء بروز اتوار کو غزنہ میں انتقال ہو گیا۔

 (۵) زکریا ابن محمد  قزدینی

            ہارون رشید کے بسائے شہروں میں سے ایک قزدین بھی ہے۔ اسی شہر میں ۱۲۰۳ء میں ذکریا بن محمد قزدینی پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد یہاں کی ایک مسجد کے امام تھے۔ زکریا بن محمد قزدینی نے بچپن میں ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ کائنات کے اسرار معلوم کرنے کی کوشش کرے گا اس نے قرآن حفظ کیا تفسیر، فقہ صرف، النحو، اور عروض میں مہارت حاصل کی اور اس کے بعد اس نے تمام دینی علوم بھی حاصل کئے۔ اب اس نے فلکیات کی طرف رخ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ زمین کے اندر اور اوپر کے تمام پوشیدہ رازوں سے وہ پردہ ہٹا دے۔ قزدینی نے دس سال سیر و سیاحت میں گزارے ایران کے متعدد علاقے افغانستان، ترلی خوارزم وغیرہ کی سیر کی۔ جب وہ واپس گھر لوٹا تو اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔

            قزدینی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں عجائب البلدان، صورۃالارض، آثار البلاد و اخبار العباد اور عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات بہت اہم ہیں۔ الموجودات جب مکمل ہوئی تو طلبہ اور اساتذہ اس کتاب پر ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ کتاب اس قدر آسان اور عام فہم زبان میں لکھی گئی تھی کہ عوام بھی اس کو پڑھتے تھے۔ بلکہ ناخواندہ لوگ بھی دوسروں سے پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔

            قزدینی نے زمین کی صورت کے گول ہونے اور اس کے گردش کرنے کا انکشاف کیا انہوں نے بتایا کہ زمین محوری گردش کرتے ہوئے سورج کے اطراف بھی گھوم رہی ہے۔ اور اسی سے موسم بدلتے ہیں۔ قزدینی کا کہنا تھا کہ چاند زمین کے اطراف چکر لگاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ سورج بھی ساکت نہیں ہے۔ اس نے یہ بھی نظریہ پیش کیا کہ آسمان اپنے ستاروں کے ساتھ شمالی حصے میں جیسا نظر آتا ہے جنوبی حصے میں ویسا نہیں ہے۔

            اس عظیم سائنسداں کا انتقال ۱۲۸۳ء میں ہوا تھا۔

                (۶) عبد الرحمن خازنی

            بارہویں صدی عیسوی میں منصور نامی شخص کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد الرحمن رکھا گیا۔ بچپن میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ باپ کے چند د ن کے بعد اس کی ماں بھی چل بسی تب اس کی پرورش علی مردزی خان نے کی۔ عبد الرحمن نے عربی، یونانی، فارسی زبانوں میں مہارت حاصل کی اور اپنے دور میں رائج کئی دوسرے علوم بھی سیکھے۔

            ایک پہاڑ کی چوٹی پر اس نے ایک رصد گاہ  (Observatory)قائم کی تاکہ فلکیات کے سلسلے میں اہم معلومات حاصل کی جا سکیں وہ اپنے مشاہد ات و تجربات تحریر کرتا جاتا تھا اس طرح اس نے ’’ سنجر کی معتبر جنتری ‘‘ تیار کی۔ قدیم علم فلکیات میں اس سے بڑی مدد لی گئی۔ اٹلی کے ایک مشہور سائنسداں فلکینو نے تو اس کے ذریعہ تاریخ فلکیات پر ایک کتاب لکھ دی۔

            عبد الرحمن نے انکشاف کیا کہ کسی چیز کا وزن سطح زمیں پر جتنا ہوتا ہے وہ ہوا میں اس سے کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہر چیز کا وزن پانی میں کم ہو جاتا ہے۔ اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ زمین کے چاروں طرف ہوا کا غلاف اس لئے ہے کیونکہ زمین اس کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔ چنانچہ زمین سے جتنا اوپر ہوتے جاتے ہیں ہوا بھی کم ہوتی جاتی ہے۔

            چونکہ عبد الرحمن کی کتابیں دستیاب نہیں صرف تاریخی حوالے ملتے ہیں۔ اس لئے ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کی تاریخوں کا صحیح تعین کرنا مشکل ہے۔

 

کتابیات

 (۱) انسائیکلوپیڈیا آف اسلام جلد نمبر14/1پنجاب یونیورسٹی لاہور (1980)

 (۲) اردو انسائکلو پیڈیا جلد lllقومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی (1997)

 (۳) المامون از شبلی نعمانی دار المصنفین اعظم گڑھ  (1992)

 (۴) قرآن کا نظریہ کائنات از عبد المغنی، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی (1993)

 (۵)علم جغرافیہ میں عربوں کا حصہ از سید اظہر عابدی  (ناشر مصنف1985)

 (۶) البیرونی کے جغرافیائی نظریات از ڈاکٹر حسن عسکری کاظمی  (ترقی اردو بیورو دہلی2000)

 (۷) قرآن سائنس اور نجوم از ڈاکٹر محمد ایوب تاجی  (محمد شکیل و نفیس احمد بک سیلر2000)

 (۸) اچھا ساتھی ماہنامہ سرکڑھ بجنور  (سائنس نمبر)

 (۹) قرآن اور علم الافلاک از پروفیسر کمال الدین حسین ہمدانی  (رنگ محل پبلی کیشن مظفر نگر 1987)

 (۱۰) قرآن اور سائنس از پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی

 (۱۱) ہمارے سائنسداں از  اندر جیت لال  (ناشر مصنف 1983)

 (۱۲) ماہنامہ ’’امنگ‘  (مختلف شمارے) اردو اکادمی دہلی

 (۱۳) بائبل قرآن اور سائنس از مورس بوکایئے مترجم ثناء الحق صدیقی  (کریسنٹ پبلشنگ کمپنی دہلی1983)

 (۱۴) قرآن آیات اور سائنسی حقائق از ڈاکٹر ہلوک نور باقی مترجم سید محمد فیروز شاہ گیلانی عہد انٹر پرائزز دہلی (1997)

 (۱۵) اردو سائنس، ماہنامہ  (مختلف شمارے) نئی دہلی

 (۱۶) البیرونی کا ہندوستان مرتبہ قیام الدین احمد، نیشنل بک ٹرسٹ دہلی  (1993)

 (۱۷) فوز مبین در رد حرکت زمین از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی  (رضا اکیڈمی بمبئی1997)

18. विज्ञान प्रगति (वैज्ञानिक और औद्योगिक अनुसंधान, नई देहली), पत्रिका, विभिन्न अंक

٭٭٭

مصنف کا شکریہ جنہوں نے فائل کی فراہمی کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید