FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تانیثیت

(FEMINISM)

پروفیسر غلام شبیر رانا

                   عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں  ہو جاتی  ہے کہ ہر عہد میں  مفکرین نے وجود زن کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔  رنگ، خوشبو اور  حسن و خوبی سے تمام استعارے وجود زن سے منسوب چلے آ رہے ہیں۔  اس طرح اسے عالمی تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔  علامہ اقبال نے خواتین کے کر دار کے حوالے سے لکھا ہے     ؎

   وجود زن سے ہے  تصویر کائنات میں  رنگ

اسی کے ساز سے ہے  زندگی کا سوز دروں

 شرف میں  بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے ا سی درج کا در مکنوں

 مکالمات فلاطوں  نہ لکھ سکی لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں     (1)

        خواتین کے لب و لہجے میں  تخلیق ادب کی روایت خاصی قدیم ہے۔ ہر زبان کے ادب میں  اس کی مثالیں  موجود ہیں۔  نوخیز  بچے کی پہلی تربیت اور  اخلاقیات کا گہوارہ آغوش مادر ہی ہوتی ہے۔  اچھی مائیں  قوم کو معیار اور  وقار کی رفعت میں  ہمدوش ثریا کر دیتی ہیں۔  انہی کے دم سے امیدوں  کی فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے۔ یہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے پر قادر ہیں  تاکہ آنے والی نسلیں فروغ گلشن اور  صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔ صبر و رضا، قناعت اور  استغنا ان کا امتیازی وصف ہے۔   لوئیس بوگان نے کہا ہے

Women have no wilderness in them

They are provident instead

Content in the  tight hot cell of their hearts

To eat dusty bread    (2)

        فنون لطیفہ اور  ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں  جہاں  خواتین نے اپنی کامرانیوں  کا پرچم بلند نہ کیا ہو۔  آج تو زندگی کے ہر شعبے میں  خواتین نے اپنی بے پناہ استعداد کار کا لوہا منوایا ہے۔  یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خواتین نے فنون لطیفہ اور  معاشرے میں  ارتباط کے حوالے سے ایک پل کا کر دار ادا کیا۔  فرد کی بے چہرگی اور  عدم شناخت نے آج گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔  ان اعصاب شکن حالات میں  بھی خواتین نے اس جانب متوجہ کیا کہ فرد کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے۔  مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم طبقہ محرومیوں  کی بھٹنی چڑھا دیا گیا ہے۔  ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں  کے باعث رتیں  بے ثمر،کلیاں  شرر، زندگیاں  پرخطر اور  آہیں  بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں۔  خواتین نے ہر عہد میں  جبر کی مزاحمت کی،ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا اور  انتہائی نا مساعد حالات  میں  بھی حریت ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں  کہ ہمارا معاشرہ  بالعموم مردوں  کی بالا دستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے۔ اس قسم کے ماحول میں  جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات اور  مسابقت کے لیے انتھک جدو جہد کرنا پڑے ،خواتین کے لیے ترقی کے یکساں  مواقع تخیل کی شادابی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ خواتین کی فکری کاوشیں  سفاک ظلمتوں  میں  ستارۂ سحر کے مانند ہیں۔ انھوں  نے کٹھن حالات میں بھی حوصلے اور  امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں  دواں  رہنے کا جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار بھی قرار دیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں  کہ ہر شعبۂ  زندگی میں  خواتین بھرپور اور  اہم کر دار ادا کر رہی ہیں۔ عالمی ادبیات مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی زندگی کے جملہ موضوعات پر خواتین کے اشہب قلم نے جو بے مثال جولانیاں  دکھائی ہیں   ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں  کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

       تانیثیت ایک ایسی مثبت سوچ،مدبرانہ تجزیہ اور  دانشورانہ اسلوب کی جانب متوجہ کرتی ہے جس کے اہداف میں  خواتین کے لیے معاشرے میں  ترقی کے منصفانہ اور  یکساں  مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں  کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروان ہستی کے تیز گام قافلے میں  مردوں  کے شانہ بشانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ روشنی کے اس سفر میں  انھیں  استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں  سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے۔ ایک فلاحی معاشرے میں  اس بات کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی،حریت فکر،آزادی ء اظہار اور  معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا۔ اکثر یہ دیکھنے میں  آیا ہے کہ فکری کجی کے باعث تانیثیت اور  جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اور  جنسیت میں  ایک واضح حد فاصل ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔  تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں  کہ اس میں  زندگی کی سماجی، ثقافتی، معاشرتی،سیاسی،عمرانی اور  ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور  انھیں مثبت  انداز میں  بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ اس میں  خواتین کی صلاحیتوں  کو نکھارنے کے فراواں  مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔

           یورپ میں  تانیثیت کا غلغلہ پندرہویں  صدی عیسوی میں  اٹھا۔ اس میں  مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی۔ یہ ٹھہرے پانی میں  ایک پتھر کے مانند تھی اس کی دوسری لہر 1960میں  اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں  دیکھے گئے۔ ان تمام حالات اور  لہروں  کا یہ موہوم مد و جزر اور  جوار بھاٹا جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑ گیا اس کا لب لباب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں  میں  حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے۔ تاریخی تناظر میں  دیکھا جائے اور  ہر قسم کی عصبیت  سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تو یہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کو جس عزت،تکریم اور  بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں  ملتی۔ تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر  خلافت راشدہ کے زمانے تک  اسلامی معاشرے میں  خواتین کے مقام اور  کر دار کا حقیقی

 انداز میں  تعین کیا جا چکا تھا۔ اس عہد میں  مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں  فعال کر دار ادا کر رہی تھیں۔ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں  میں  خواتین کو یکساں  مواقع اور  منصفانہ ماحول میں  زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی۔ آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں  پیدا کر سکتی ہے۔

     جدید دور میں  تانیثیت کے حوالے سے تنقیدی مباحث روز افزوں  ہیں۔  آج خواتین تیشہ ء حرف سے فصیل جبر منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کر تی نظر آتی ہیں۔ ایسے تمام تار عنکبوت جو کہ خواتین کی خوشحالی اور  ترقی کے افق کو گہنا رہے ہیں  انھیں  نیست و نابود کرنے کا عزم لیے خواتین اپنے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں  پر لرزہ طاری کر دینے کی صلاحیت سے متمتع ہیں۔ ان کا نصب العین یہ ہے کہ انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک اور  بے توقیری کرنے والے اجلاف و ارزال اور   سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھائی جائے اور  ایسے ننگ انسانیت وحشیوں  کے قبیح کردار سے اہل درد کو آگاہ کیا جائے۔ تانیثیت نے تمام خفاش منش عناصر کو آئینہ دکھا یا ہے اور  زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ تانیثیت کا دائرہ کار تاریخ،علم بشریات، عمرانیات،معاشیات،ادب،فلسفہ،جغرافیہ اور  نفسیات  جیسے اہم شعبوں  تک پھیلا ہوا ہے۔ تانیثیت میں  تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تانیثیت کے مطابق معاشرے میں  مرد اور  عورت کو برابری کی سطح پر مسائل زیست کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ یہ اپنے وجود کا خود اثبات کرتی ہے۔ تانیثیت نے معاشرے میں  بڑھتے ہوئے جنسی جنون اور  ہیجان کی مسموم فضا کا قلع قمع کرنے اور  اخلاقی بے راہ روی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں  جو کر دار ادا کیا اسے نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا۔ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ اور  درخشاں  روایات کے قصر عالی شاِن کی بقا کی خاطر تانیثیت نے ایک قابل عمل معیار وضع کیا جو کہ خواتین کو حوصلے ا ور اعتماد سے آگے بڑھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ اخلاقی اوصاف کے بیان میں  بھی تانیثیت نے گہری دلچسپی لی۔  قدرت کا ملہ نے اِن اوصاف حمیدہ سے خواتین کو نہایت فیاضی سے متمتع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی عنایات کا دل نشیں انداز میں  بیان بھی اس کا امتیازی وصف ہے۔ ان فنی تجربات کے ذریعے جدید اور  متنوع موضوعات سامنے آئے اور  نئے امکانات تک رسائی کو یقینی بنانے کی مساعی کا سلسلہ چل نکلا۔

        قدرت کے اس وسیع نظام میں  جمود اور  سکون  بہت محال ہے۔ زندگی حرکت اور   حرارت سے عبارت ہے۔ کسی بھی عہد میں  یکسانیت کو پسند نہیں  کیا گیا اس کا سبب یہ ہے کہ یکسانیت  سے ایک مشینی سی صورت حال کا گمان گزرتا ہے۔ اس عالم آب و گل میں  سلسلہ ء  روز و شب ہی کچھ ایسا ہے کہ مرد اور  عورت کی مساوی حیثیت کے بارے میں  بالعموم تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے تانیثیت نے اس اہم موضوع  پر توجہ مرکوز کر کے بلا شبہ اہم خدمت انجام دی۔ تانیثیت پر مبنی نظریے (Feminist Theory)نے خواتین کو مژدۂ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور  بند غم سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی تو  جوئے شیر،تیشہ اور  سنگ گراں  کا نام ہے۔ عزت اور  وقار کے ساتھ زندہ رہنا،زندگی کی حیات آفریں  اقدار کو پروان چڑھانا،خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا،ارتقا کی جانب گامزن رہنا،کامرانی اور  مسرت کی جستجو کرنا،اپنی صلاحیتوں  کا لوہا منوانا،حریت فکر اور  آزادیِ اظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا،فن کار کی انا کا بھرم بر قرار رکھنا اور  اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ان کا اہم ترین منصب ہے۔ تانیثیت نے افراد،معاشرے ،علوم اور  جنس کے حوالے سے ایک موزوں  ارتباط کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton)نے لکھا ہے :

                "Feminist theory provided that precious link between academia and society as well as between problems of identity and those of political organization ,which was in general harder and harder to come by in an increasingly conservative age.”(3)

        تانیثیت کو ادبی حلقوں  میں  ایک نوعیت کی تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں  معاشرے میں  ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں  کو نکھارا جائے اور  انھیں  تخلیقی اظہار کے فراواں  مواقع  فراہم کیے جائیں۔ مغرب میں  اسے 1970میں  پذیرائی ملی۔  یورپی دانشوروں  نے اس کی ترویج و اشاعت میں  گہری دلچسپی لی۔ اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور  ادبیات میں  تانیثیت کو ایک غالب اور  عصری آگہی  کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور  ادبی حلقوں  نے بہت سراہا۔ 1980کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں  دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش کی گئی جس میں  خواتین  کے لیے سازگار فضا میں  کام کرنے کے بہترین مواقع دستیاب ہوں۔ تانیثیت کی علم بردار خواتین نے ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں  اور  توانائیوں  میں  اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔ ان کا نصب العین یہ تھا کہ جذبات،تخیلات اور  احساسات  کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی  اور  اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور  اس طرح انسانیت کے وقار اور  سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے۔ اس عرصے میں  تانیثیت کی باز گشت پوری دنیا میں  سنائی دینے لگی۔ خاص طور پر فرانس،برطانیہ،شمالی امریکہ ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور  کینیڈا میں  اس پر قابل قدر کام ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں  بولنے اور  سننے والوں  کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصہ ء شہود پر آیا جس نے خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا۔

       اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں  انانیت نمایاں  رہتی ہے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں  کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں  خلوص، ایثار،مروت،محبت اور  شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ تانیثیت نے انسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور  عنبر فشانی کا سراغ لگایا جو کہ عطیہ ء خداوندی ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں  تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں  مصروف عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔ خواتنک نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں  زندگی کی حیات آفریں  اقدار کو نمو ملی ہے۔ موضوعات،مواد،اسلوب،لہجہ اور  پیرایۂ اظہار کی ندرت اور  انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں  کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی۔ تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ جذبات،احساسات اور  خیالات کا  اظہار اس خلوص اور  دردمندی سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل،فی الفور اور بلا واسطہ انداز میں  پیش کر دی جائے۔ اس نوعیت کی لفظی مرقع نگاری کے نمونے سامنے آتے ہیں  کہ قاری چشم تصورسے تمام حالات کا مشاہدہ کر لات  ہے۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ،غریب اور  وسائل سے محروم ممالک جہاں  اب بد قسمتی سے جہالت نے بھی ایک مسلک کی صورت اختیار کر رہی ہے ،وہاں  نہ صرف خواتین  بلکہ پوری انسانیت پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ راجہ اندر قماش کے مسخرے خواتین کے در پئے آزار رہتے ہیں۔ ان ہراساں  شب و روز میں  بھی خواتین نے اگر حوصلے اور  امید کی شمع فروزاں  رکھی ہے تو یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ خواتین نے ادب،فنون لطیفہ اور  زندگی کے تمام شعبوں  میں  مردوں  کی ہاں  میں  ہاں  ملانے اور  ان کی کورانہ تقلید کی مہلک روش کو اپنانے کے بجائے اپنے لیے جو طرز فغاں  ایجاد کی بالآخر وہی ان کی طرز ادا  ٹھہری۔ جولیا کرسٹیوا  ( Julia Kristeva)نے اس کے بارے میں  لکھا ہے :

"Truly feminist innovation in all fields requires an understanding of the relation between maternity and feminine creation”(4)

    خواتین نے مردوں  کی بالا دستی اور  غلبے کے ماحول میں  بھی حریت فکر کی شمع فروزاں  رکھی ا اور  جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے  آزادیِ اظہار کو اپنا نصب العین ٹھہرایا۔ ان کی ذہانت،نفاست،شائستگی،بے لوث محبت  اور  نرم و گداز لہجہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھیں  اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں  میں  چھپانے کا قرینہ آتا ہے۔ ان کی سدا بہا رشگفتگی کا راز اس تلخ حقیقت میں  پوشیدہ ہے کہ معاشرتی زندگی کو ہجوم یاس کی مسموم فضا سے نجات دلائی جائے اور  ہر طرف خوشیوں  کی فراوانی ہو۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خواتین کی تحریروں  میں  پائی جانے والی زیر لب مسکراہٹ ان کے ضبط کے آنسوؤں کی ایک صورت ہے ان کا زندگی کے تضادات اور  بے اعتدالیوں  پر ہنسنا اس مقصد کی خاطر ہے کہ کہیں  عام لوگ  حالات سے دل برداشتہ ہو کر تیر ستم سہتے سہتے رونے نہ لگ جائیں۔ تانیثیت نے خواتین کے مزاج،مستحکم،شخصیت اور  قدرتی حسن و خوبی کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ دی۔ قدرت کاملہ نے خواتین کو  جن اوصاف حمیدہ،حسن و خوبی اور  دلکشی سے نوازا ہے اس کا بر ملا اظہار ان کی تحریروں  میں  ہونا چاہیے۔ ان کی تحریریں  ایسی دلکش ہوں  کی ان کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچے۔ جمالیاتی احساس اور  نزاکت بیان کے ساتھ جذبوں  کی تمازت،خلوص کی شدت،بے لوث محبت،پیمان وفا کی حقیقت اور  اصلیت اور  لہجے کی ندرت سے یہ صاف معلوم ہو کہ اس تحریر  کے سوتے حسن فطرت سے پھوٹتے ہیں۔ ہیلن سکسوس(   Helen Cixous)نے خواتین کے جسمانی حسن،جنس،جذبات اور  احساسات  کے اظہار کے حوالے سے لکھا ہے :

"Write yourself ,your body must be heard   ”       (5)

        اردو شاعری میں  تاریخ اسلام کے عہد زریں  کو خواتین نے ہر عہد میں  لائق تقلید قرار دیا۔ تانیثیت کا مطالعہ کرتے وقت موضوعات کا یہ درخشاں  پہلو اور  عظیم شخصیات کی ابد آشنا سیرت کا بیان اسلوب کو زر نگار بنا دیتا ہے۔ تاریخ اسلام کی متعدد اہم خواتین کا تبلیغ اسلام میں  ایثار پر مبنی تاریخی کر دار مسلمہ ہے۔ خواتین تخلیق کاروں  نے اس جانب بھر پور توجہ دی ہے۔  حمید ہ معین رضوی نے اپنی نظم ’’ام ایمن‘‘ میں  حضور ختم المرسلینﷺ کی والدہ کی دیرینہ خادمہ کو نہایت عقیدت سے یاد کیا ہے۔ یہی وہ عظیم خاتون ہے جس نے حضرت آمنہ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کو اپنی گود میں  لیا۔ اس موضوع پر یہ عمدہ نظم ہر اعتبار سے تانیثیت کا ایک مؤقر اور  معتبر حوالہ ہے۔

         امِ ایمن

کہا ہے رب،ِ حکیم نے یہ

میں  خود  ہی کرتا ہوں  منتخب۔ ۔ ۔ ۔  اپنی پیاری محبوب ہستیوں  کو

کسی بھی مذہب کی ہوں  وہ حامل۔  پھر  ان  کو خود بخشتا  وسیلہ ہوں   نور اماں  کا

   وہ  سب ہی   کیسے۔  نصیب  والے  ہیں  لوگ  ایسے

ازل  سے لے کر ابد  کی حد تک

ہزاروں  محبوب ہستیاں  تھیں   گزر  گئیں   جو،

نہیں   کوئی امّ   ایمن ایسا۔ کہ رنگ  جس کا تھا  رنگ  اسود  ّمگر تھی روح اِن کی  نور پر  نور۔

وہ فردِ واحد  وہ  ہستی واحد۔ کہ جس نے  سلطانِ دوجہاں

کو  اٹھایا بانہوں  میں۔  سب سے پہلے۔ ۔ ۔ کسی بشر  کو۔ کسی ملک کو، نہیں  یہ عزت عطا ہوئی ہے

نہیں  تھا رشتہ کوئی بھی  خون کا،مگر دیا پیار اس نے ماں  کا،

انھیں  نے  آغوش  میں  رسولِ  خدا کو پالا

وہ  شاہِ کونیں   پہ تھی قرباں

تھی  سابقون الاولین دین میں

 ہو دشت  و صحرا،سفر حضر ہو معاشرت  ہو معاونت  ہو

ہو کار زاروں  کی لالہ زاری

شہادتوں  کی ہو  آہ و زاری

خدا کے محبوب کی وہ شیدا۔

کہ جس کی الفت ہوئی ہویدا۔

رسولِ اقدس ْﷺ  نے  دی بشارت ،لکھی ہے قسمت میں  اس کی جنت۔

وہی تھیں  موجود وقتِ  آخر بھی،  جب  شہنشاہ نے  آخرت کا   سفر تھا  باندھا

انھیں نے  ماں  جیسا  احترام آخرش ہے پایا،رسول   اکرم ﷺ  یہ کہتے اکثر

 ,,  مجھے جنم دینے والی ماں  اگرچہ تھی رنگِ ابیض، مگر مجھے پالنے میں  محبت لٹانے والی۔ ۔ ۔  برنگِ اسود ہے ماں یہ   میری

مجھے جو جی جان   سے ہے پیاری، قریب اس  سے  نہیں  ہے کوئی،۔ عزیز اس سے نہیں  ہے کوئی ،،۔

 د رود   اس  پر  سلام اس پر وہ جس کی ماں  تھی۔ جو رکھتی تھی نفسِ مطمئنہ۔  وہ  امِ  ایمن  نبی کی پیاری۔ وہ راضی اﷲ سے۔ ۔

   ہے  ا ﷲ اس سے راضی

        تانیثیت کے حوالے سے یہ بات ذہن میں  آتی ہے کہ نسائی لب و لہجہ ہمیشہ سے انفرادیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خواتین بولیں  تو باتوں  سے پھول جھڑتے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں ،وابستگیاں  اور  رعنائیاں  ان کی تحریر کو ندرت اور  تنوع عطا کرتی ہیں۔ عالیہ تقوی کی نظم ’’  تاج  محل ‘‘  جہاں  نسائی جذبوں  کا بر ملا اظہار ہے وہاں  اس میں  عصری آگہی کا عنصر بھی قابل توجہ ہے۔ نئے دور میں  دو پیار کرنے والے کس انداز میں  سوچتے ہیں  اور  ان کے عہد و پیمان اور  تحفظات کیا ہیں  ملاحظہ فرمائیں  :

      تاج محل

اپنی بیگم کی یاد میں  جسا

اک شہنشاہ نے بنایا تھا

میرے مرنے کے بعد میرے لیے

کیا بناؤ گے ایسا تاج محل

سنتے ہیں  پورے بیس سال لگے

تب کہیں  جا کے تاج بن پایا

میں  تو تیرے بغیر دنیا میں

ایک لمحہ بھی جی نہیں  سکتا

یہ بتا تیرے بعد تیرے لیے

پھر بناؤں  گا کیسے تاج محل

       آخری عہد مغلیہ میں  جب پورا معاشرتی ڈھانچہ لرزہ بر اندام تھا تو ان لرزہ خیز حالات میں  اخلاقی اقدار کو شدید ضعف پہنچا بد نیتی،بد دیانتی،بے غیرتی اور  بے ضمیری  کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا تھا۔ اس عہد میں  ریختی کا وجود  میں  آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پورا معاشرہ بے حسی کا شکار ہو گیا تھا۔ مرد شعرا نے نسائی لب و لہجے میں  شاعری کی اور  اس سے تلذذ کی صورتیں  تلاش کیں۔ ریختی اور  تانیثیت میں  بعد المشرقین ہے۔ تانیثیت کا مقصد حسن کو الفاظ کے قالب میں  ڈھالنا تھا۔ اس کے بر عکس ریختی  ابتذال کی ایک بھونڈی شکل ہے۔ ریختی تخلیق کار کے ذہنی انتشار کی عکاسی کرتی ہے جب کہ تانیثیت حسن کے اعجاز سے جہان معانی کی تخلیق کے ذریعے جذبات کے مد و جزر کو حقیقی انداز میں  پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے امکانات سامنے لاتی ہے۔ تانیثیت کا انداز دل ربائی در اصل حسن کی  ایسی کرشمہ سازی ہے جو قاری کو ورطۂ حیرت میں  ڈال کر اس کے استحسان پر مائل کرتی ہے اور  خون بن کر رگ سنگ میں  اترنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ تانیثیت نے تنہائی اور  اجنبیت کی مسموم فضا سے نکلنے کی مقدور بھر سعی کی۔ مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم اور  دکھی انسانیت کی آواز ایک نیم بسمل کے کرا ہتے ہوئے درد انگیز نالے کے روپ میں  سنائی دیتی ہے۔ تانیثیت نے فرد کو ذہنی اور  روحانی تنہائی کے عقوبت خانے سے باہر نکال کر گلزار ہست و بود کو بار بار دیکھنے پر آمادہ کیا۔ اس طرح یہ ایک مانوس لہجہ ثابت ہوا جس کی تاثیر سے خزاں  میں  بھی بہار کے خنک جھونکے دلوں  کو راحت عطا کرتے ہیں۔ تانیثیت میں  پنہاں  جمالیاتی کیفیات کا نظارہ  دیدۂ بینا کے لیے حوصلے ،امید اور  ولولہ ء  تازہ کا نقیب ثابت ہوتا ہے۔ صوفیہ تاج کی ایک نظم  ملاحظہ فرمائیں  :

 بات بن آئے

  وہ اڑنا چاہتی ہے

 اور  فضا کی بے کراں  وسعت میں

نیلے آسماں  کی چھت کے نیچے

فاصلوں  کو اپنی نگاہ میں  سمیٹے

خود کو اپنے پنکھ سے آگے نکل جانے پہ آمادہ کیے

تیار رہنا چاہتی ہے

مگر موسم نے اپنے روپ بدلے ہیں

کہ اب جن حوصلوں  کی آزمائش ہے

وہی ہر لمحہ اس پر ضرب کاری سے

مسلسل

نارسائی کا کھلا پیغام دیتے ہیں

کہیں  اے کاش ایسا معجزہ ہو جائے

کوئی تند جھونکا

اس کے زخموں  کی مسیحائی کرے

 اور از سر نو

خواب سے وہ اپنا رشتہ جوڑ ڈالے

بات بن آئے

        تانیثیت کے علم برداروں  نے اپنی خداداد صلاحیتوں  کو منصۂ شہود پر لانے کے لیے اپنے ذاتی تجربات،مشاہدات اور  احساسات کو اساس بنایا۔ ان کے خیالات عصری آگہی کا بلند ترین معیار پیش کرتے ہیں۔ یہ کوئی ہوا میں  گرہ لگانے والی صورت ہر گز نہ تھی بلکہ اس اسلوب سے افکار تازہ کے ایک غیر مختتم سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس کی باز گشت دنیا بھر میں  سنائی دی۔ تانیثیت کے حوالے سے خواتین میں  تخیقیک فعالیت کا جو شعور پیدا ہوا اس کی بدولت زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم میں  مدد ملی۔ آج ہم دیکھتے ہیں  کہ تہذیبی اور  ثقافتی سطح پر یہ ادعا سامنے آتا ہے کہ اقوام عالم اکملیت کی سمت رواں  دواں  ہیں  مگر سچ یہ ہے کہ ہوس زر نے نوع انساں  کو ایک ایسے انتشار اور  پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس نے زندگی کی درخشاں  اقدار و روایات کو گہنا دیا ہے۔ حساس تخلیق کار خود کو جزیرۂ جہلا میں  محبوس پاتے ہیں۔ چاروں  جانب مہیب  بحر ذخار ہے جس کی ہر موج میں  حلقۂ صد کام نہنگ ہے۔ ایسے میں  نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور  نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔

       آج کا اردو ادب جدید عصری تقاضوں  سے ہم آہنگ ہو نے کی مقدور بھر کوشش کر رہا ہے۔  خواتین کی کثیر تعداد پرورش لوح قلم میں  مصروف ہے۔  خواتین نے حیاتیاتی امور پر بھرپور توجہ دی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عالمی ادبیات کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات پر خواتین کی گہری نظر ہے۔ آلام روزگار کے مہیب بگولوں  کی زد میں  رہنے کے باوجود خواتین نے اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔  ہوائے جور و ستم میں  بھی انھوں  نے رخ وفا کو بجھنے نہیں  دیا۔  تاریخ کا مسلسل عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ خواتین نے سعی پیہم کے ذریعے اپنے کام کی اہمیت اور  افادیت کو ثابت کیا ہے اور  پتھروں سے بھی اپنی فعالیت کی تاثیر کا لوہا منوایا ہے۔  موضوعاتی تنوع ان کی تحریروں  کا امتیازی وصف ہے۔  تاریخ، معیشت، جغرافیہ، مذہب، تہذیب اور  معاشرت کا کوئی بھی شعبہ ان کی دسترس سے باہر نہیں۔  بعض اوقات مواد اور  خیالات کی فراہمی کے لیے وہ کلاسیکیت سے استفادہ کرتی ہیں تو بعض اوقات انھیں  رومانویت میں  دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔  جدیدیت،مابعد جدیدیت،ساختیات اور  پس ساختیات کے مباحث کا پرتو بھی ان کی تحریرو ں  میں  ملتا ہے۔ کہیں  تو یہ مارکسزم سے خیالات اخذ کرتی ہیں اور  کہیں جدید نفسیات کا معتبر حوالہ بن کر سامنے آتی ہیں۔ غر ض ایک دھنک رنگ منظر نامہ ان کی تخلیقی فعالیت میں  اپنی پوری ضیا پاشیوں  سمیت نگاہوں  کو خیرہ کر رہا ہے۔  تانیثیت کی اس صد رنگی،ہمہ گیری،دل کشی اور  موضوعاتی تنوع کے متعلق گائتری چکر اور تی سپی واک (  Gyatri  Chakaravorty Spivak   )  نے لکھا ہے :

         Feminism lives in the master -text as well as in the pores. It is not determinant of the last instance. I think less  easily of changing the world, than in the past.”    (6)

        خواتین کے اسلوب میں  حق گوئی،بے باکی اور  حریت فکر کی جو منفرد اور  دلکش صورت موجود ہے وہ تخلیقی عمل کو ایک شان استغنا سے متعارف کراتی ہے۔  متعدد تخلیق کاروں  نے تانیثیت کے زیر اثر نہایت زور سے اپنی آواز اٹھائی ہے مثال کے طور پر عصمت چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔  ان کے افسانے لحاف میں  ایک کر دار بیگم جان کی حرکت اس کے ناآسودہ جذبات اور  ابنارملٹی کا پتا دیتی ہے بلکہ ان تمام حسرتوں  کا اندازہ بھی ہوتا ہے جو بیگم جان کے شوہر کے ابنارمل ہونے کے باعث دل میں  خون ہو گئیں۔

        تانیثیت کا ڈسکورس ہمیشہ سے متنوع رہا ہے۔  ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے اجلاف و ارزال اور  سفہا نے مجبوروں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔  علاقائی، لسانی اور  نسلی امتیازات نے انسانیت کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔  فرائڈ نے عورت کے جذبات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ عورت کو محض جنس تک محدود سمجھنا صحیح انداز فکر نہیں  ہے۔

        خواتین نے انسانیت کی فلاح اور  انسانی حقوق کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے ، انسانیت پر کوہ غم توڑنے والوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، ان کا پیغام دکھی انسانیت سے خلوص اور  دردمندی پر مبنی بے لوث محبت ہے۔  ان کا خیال ہے کہ محروم طبقے سے عہد وفا استوار رکھنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔  ہر فرعون، نمرود، ہلاکو خان اور  شمر کے خلاف انھوں  نے نوک قلم سے جہاد کیا ہے۔  آئین اور  ملک کو پامال کرنے والے جنرل ضیا الحق نے کہا تھا :

’’سیاست دانوں کا کیا ہے ، جب بھی بلاؤں وہ دم ہلاتے میری طرف دوڑتے آئیں  گے۔  رہا دستور تویہ محض بارہ صفحات کا کتابچہ ہے۔ جب چاہوں اسے چاک کر کے پھینک سکتا ہوں۔ ‘‘        (7)

        ’’اسی  جر نیل نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور  ملا ازم کو فروغ دیا۔ ‘‘    (8)

        محترمہ عذرا اصغر نے اسی آمر اور  مطلق العنان حکمران کے مظالم کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے :

        ’’علم کی روشنی سے منور دماغ انسان آج بھی صدیوں پہلے کے مظالم اور  جاہلانہ رویہ کا حامل انسان ہے وہی بربریت، ویسی ہی سفاکی، ایک طرف وہ کائنات فتح کر رہا ہے ، چاند ستاروں پر بستیاں  بسانے کے جتن کر رہا ہے اور  دوسری طرف یہی انسان مذہبی منافرت، نظریاتی مناقشہ اور  ظلم و جور کے مظاہر کرتا ہے۔ انسان پر ظلم کا یہ حق اسے کس نے دیا اور  پاکستان کا وہ حکمران جو پنج و قتی نمازی تھا اور  ہر لمحہ اسلام کا نام لیتا تھا مگر جس نے دسکر دو کے ایک مخصوص عقائد رکھنے والے لوگو ں  میں  پھوٹ ڈالنے اور  ان کے مسلک میں  انتشار پیدا کرنے کی غرض سے ان کو طالبان سے بھڑایا تھا۔ ‘‘(9)

        پروین شاکر نے اسی عہد ستم کے لرزہ خیز مظالم کے حوالے سے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

چھاؤں   بیچ آئے اگر نفس سے مجبور ہوئے

وہ جو تقسیم ثمر پر یہاں  مامور ہوئے

شعبۂ رزق خدا نے جو رکھا اپنے پاس

نائب اللہ بہت بد دل و رنجور ہوئے

وہی شداد، وہی جنت خاشاک نہاد

ویسے ہی عظمت یک لحظہ پہ مغرور ہوئے

وہ رعونت ہے کہ لگتا ہے ازل سے یوں  ہی

نشۂ مسند شاہانہ سے مخمور ہوئے      (10)

        تانیثیت کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کی تحریروں  میں  ظلم و جبر کی ہر صورت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے پر توجہ رہی ہے۔  ظالم کہیں  بھی ہو اور  کسی بھی مقام پر ہو اس پر لعنت بھیجنا خواتین کا مطمح نظر رہا ہے۔  ظلم سہنا اور  اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے۔  سچی بات تو یہ کہ جو ظلم و استبداد پر لعنت نہیں  کرتا وہ بجائے خود لعین ہے۔  پروین شاکر نے کہا تھا۔   ؎

مقتل وقت میں  خاموش گواہی کی طرح

دل بھی کام آیا ہے گم نام سپاہی کی طرح

ظلم سہنا بھی ہو ا ظلم ہی اک حد کے بعد

خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

کلہم ایک دیا اور  ہوا کی اقلیم

پھیلتی جائے مقدر کی سیاہی کی طرح(11)

        جہاں  تک فرائڈ اور  مارکس کے انداز فکر کا تعلق ہے ان دونوں  کے مابین کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ ان دانشوروں  نے تانیثیت کو محض جنس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین نے ہمیشہ اپنی عزت و ناموس کو اپنی متاع بے بہا سمجھا ہے۔ فسطائی جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے تانیثیت کی علم بردار خواتین نے غیر منصفانہ اور  استحصالی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں  اپنی تمام صلاحیتیں  بروئے کار لاتے ہوئے دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک واضح لائحہ عمل متعین کر دیا۔ خواتین تخلیق کاروں  نے پرورش لوح و قلم کرتے ہوئے  اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھا کہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں  کوئی کوتاہی سر زد نہ ہو۔ تانیثیت کے جواز اور  اثبات کے بارے میں  دو رائیں  نہیں  ہو سکتیں۔ ممتاز نقاد جولیٹ مچل (   Juliet  Michel )نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے :

     "I do not think that we can live as human subjects without in some sense taking on a history, for us it is mainly the history of being men or women under bourgeois capitalism.  In deconstructing that history  we can only construct other histories ,what are we in process of becoming.(12)

ماضی میں  معاشرتی ڈھانچہ جو بھی رہا ہو اور  اس کے تجربات نے جو بھی گل کھلایا ہو اب اس کی تکرار بے سود ہے۔ اس نظام کہنہ کی حیثیت گرتی ہوئی عمارت کی ہے۔ اس کے سائے میں  عافیت سے بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے اپنے موہوم تخیل کی شادابی سے خود فریبی کا شکار ہیں۔ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے جس کے بارے میں  آگہی ضروری ہے۔ اردو ادب میں  تانیثیت کے موضوع پر متعدد تخلیق کاروں  نے طوفان حوادث میں  بھی اپنے افکار کی شمع فروزاں  رکھی۔ قرۃ العین حیدر کے اسلوب میں  تانیثیت ایک منفرد انداز میں  ضو فشاں  ہے۔ ان کی تحریروں  کا ڈسکورس انسانیت سے قلبی لگاؤ،غریب،بے سہارا،مظلوم اور  بے بس انسانوں  کے دکھ درد میں  شرکت اور  ظلم سے شدید نفرت کا عنصر قابل قدر ہے۔ وہ اس جانب متوجہ کرتی ہیں  کہ وقت کی مثال ایک سیل رواں  کی ہے جس کی مہیب متلاطم موجیں  سرعت سے گزر کر سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ کوئی بھی شخص کتنی شدید تمنا کرے گزرے ہوئے وقت کے اس سیل رواں  کے لمس سے دوبارہ فیض یاب نہیں  ہو سکتا۔ کائناتی وسعت اور  سیل زماں  کے متعلق ان کی تحریروں  میں جو انداز فکر جلوہ گر ہے وہ حرف صداقت کی عمدہ مثال ہے۔ دریا کی موجیں ،ندی کا بہاؤ یہ سب وقت کی اصلیت کی علامت ہیں۔ یہ تمام علامتیں  ایک ایسے نفسیاتی کل کی نشان دہی کرتی ہیں  جس سے لا شعور کی توانائی  متشکل ہو کر فکر و نظر پر انمٹ نقوش مرتب کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کاروان ہستی بھی رواں  دواں  ہے۔ وقت کی اس برق رفتاری میں  کئی رشتے ناتے ،شناخت اور  یادیں  تاریخ کے طوماروں  میں  دب جاتی ہیں۔ اس کائنات کے تمام مظاہر بتان وہم و گماں  ہیں۔ قرۃ العین حیدر کو اس بات کا دکھ ہے کہ سلسلہ ء روز و شب جو کہ نقش گر حادثات ہے اس کی اصلیت کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور  ہوس کی وجہ سے انسان اپنے ہی ابنائے جنس کے خون کا پیاسا ہے۔ اپنے ناول  ’’ آخر شب کے ہم سفر ‘‘جو کہ1986میں  شائع ہو اس میں  انھوں  نے بے لاگ انداز میں  تانیثیت پر مبنی اپنے اسلوب پر روشنی ڈالی ہے۔

ان کی تحریر قاری کو جھنجھوڑتی ہے اور  ایک خونچکاں  استغاثہ کرتی ہے :

                ’’ جانتی ہو ناصرہ آپا ایمرسن نے کہا ہے کہ جنگ میں  دلچسپی  کچے اور  Immature ذہن کی علامت ہے۔ ایک آدمی کے قتل کی سزا پھانسی ہے ،مگر ہزاروں ،لاکھوں قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ ان کے قاتل قومی ہیرو،جانباز سپاہی اور  مادر وطن کے سپوت کہلاتے ہیں۔ پھر ایک اجتماعی قتل کو جائز قرار دینے کے لیے ایک اور  اجتماعی قتل   کیا جاتا ہے۔ ‘‘

       تانیثیت سے متاثر ہو کر لکھنے والی تخلیق کار خواتین نے تخلیق ادب کو وسیع تر تناظر میں  پیش کیا۔ ان کا مقصد محض تخلیق ادب تک  محدود نہ تھا بلکہ ان کی شدید خواہش یہ رہی کہ تخلیق ادب کے وسیلے سے خرد کی گتھیاں  اس طرح سلجھائی جائیں  کہ نئے حقائق کی گرہ کشا ئی ہو سکے۔ اس طرح تخلیق فن کے اعجاز سے جہان تازہ تک رسائی کو یقینی بنایا گیا۔ تانیثیت نے اس جانب متوجہ کیا کہ انسان کو یہ جان لینا چاہیئے کہ رخش عمر پیہم رو میں  ہے اور  نہ تو  اس کا ہاتھ باگ پر ہے اور  نہ ہی پاؤں  رکاب میں  ہے۔ وقت تیزی سے گزر جاتا ہے کسی کا انتظار کرنا وقت کی سرشت نہیں۔ سیل زماں  کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے صفحۂ ہستی سے حرف غلط کے مانند مٹ جائیں  گے۔ وقت کی یہ بوالعجبی کوٍن سمجھ سکا ہے کہ وہ سلاطین جن کی ہیبت کا ڈنکا بجتا تھا اب ان کا نام و نشاں  تک باقی نہیں۔ بہتات کی حرص انسان کو غفلت میں رکھتی ہے یہاں  تک کہ وہ منوں  مٹی کے نیچے حشر تک کے لیے دفن ہو جاتا ہے اور  اس کا بدن ملخ و مور کے جبڑوں  کی نذر ہو جاتا ہے۔ تانیثیت نے وقت کی حقیقی قدرو قیمت کے تعین میں  منفرد انداز اپنایا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ زندگی اور  اس کی مقتضیات کی مثبت انداز میں  تفہیم ہو سکے۔ قر ۃ العین حیدر نے وقت ا ور اس کے تیزی سے بدلتے ہوئے تقاضوں  کا اس طرح ذکر کیا ہے :

         ’’ وقت کا سب سے بڑا کمینہ پن یہ ہے کہ ہم ابھی اس چیز کے لیے تیار نہیں  ہو پاتے کہ ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا زمانہ نکل چکا‘‘

       تانیثیت کے زیر اثر خواتین نے اپنی تخلیقی تحریروں  کو اس مہارت سے پیش کیا کہ ان کی شخصیت ان کے اسلوب کے ذریعے نکھر کر سامنے آ گئی۔ خواتین کی تخلیقی تحریروں  کے موضوعات ان کی انفرادیت کو دلکش انداز میں  سامنے لاتے ہیں۔  انھوں  نے ادب اور  زندگی کے مابین ایک واضح تعلق کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ اپنی اصلیت کے لحاظ سے زندگی کو حادث طاقتوں  کے باہمی عمل اور  رد عمل کی ایک انوکھی  اور   ناقابل فہم صورت  خیال کیا جاتا ہے۔ خواتین نے ایک ایسے تہذیبی رویے کو پروان چڑھانے  کے لیے انتھک جدوجہد کی جس کا تعلق نسل انسانیت کی بقا،استحکام اور  دوام سے ہے یہ تحریریں   صداقت نگاری،حقیقت نگاری اور  فطرت نگاری کا دلکش نمونہ ہیں۔ ان میں  تہذیبی اور  ثقافتی رویے پوری آب و تاب کے ساتھ سمٹ آئے ہیں۔ تاریخ،تہذیب اور  ارضی و ثقافتی حوالوں  کا یہ وقیع  اور  حقیقی شعور ان تخلیقات کا نمایاں  ترین وصف ہے۔ تانیثیت کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت تخلیق کار خواتین کے جان دار اسلوب کی تاثیر مسلمہ ہے۔ ان کی ذات اور  مزاج کے تمام تر پہلو قاری کو اپنی جانب متوجہ کر تے ہیں۔ ورجینیا  وولف    (   Virginia Woolf  )کا خیال ہے :

"A woman’s writing  is always feminine ,it can not help being feminine ; at its best it is most famine  the only difficulty lies in defining what we mean by feminine”(13)

        تانیثیت کے اثرات کی حامل وہ تمام تخلیقی تحریریں  حرف صداقت سے مزین ہو کر ابلاغ کو یقینی بناتی ہیں۔ اس طرح خواتین نے ایک ایسی ذہنی فضا تیار کی جس میں  حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنے کی منفرد صورت سامنے آئی اور  ایک ایسی دلکش تبدیلی رونما ہوئی جس کے اعجاز سے سر اٹھا کر چلنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مستحکم شخصیت کے سوتے انسانی کر دار سے پھوٹتے ہیں۔ خواتین نے ہر دور میں  تعمیر سیرت و کر دار کو اپنا نصب العین بنایا۔ اپنے مافی اضمیر کے اظہار میں  انھوں  نے تذبذب اور  گو مگو کی کیفیت سے نجات حاصل کر لی اور  ایک والہانہ پن سے تخلیق فن کی طرف مائل ہوئیں۔ اگرچہ خواتین کا تخلیقی اسلوب تنوع اور  دلکشی کی وجہ سے قاری کو متوجہ کرتا ہے لیکن بعض اوقات اسے مردوں  کی تخلیقات سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ مرد حضرات بعض نفسیاتی وجوہات کے باعث عورتوں  کے نام سے خود کو ادبی حلقوں  میں  متعارف کراتے ہیں۔ کواکب جیسے نظر آتے ہیں  اس طرح نہیں  ہوتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بازی گر کھلا دھوکا دے کر صحیح نتائج تک رسائی کے راستے میں  حائل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تخلیقی تحریروں  کا گڈ مڈ ہو جانا کئی مغالطوں  کا باعث بن جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ذاتی نمود و نمائش اور  نصب العینیت  کے تصورات کا حقیقی ادراک اب عنقا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک تخلیق کار پس منظر میں  رہتے ہوئے بھی اپنی تخلیقی فعالیت سے قلب و نظر کو مسخر کر کے اپنی صلاحیتوں  کو منوا سکتا ہے۔ تانیثیت پر مبنی انداز فکر کی حقیقی تفہیم پر توجہ وقت کا اہم ترین  تقاضا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تانیثیت کے متعلق متعدد  امور میں ابہام پایا جا تا ہے۔ اس موضوع پر ہیلن سکسوس(    Helen Cixous  ) کی تجزیاتی رائے قابل غور ہے :

   It is impossible to define a feminine practice of writing and this is an impossibility that will remain for this practice will never be theorized, enclosed, encoded—– which does not mean that it does not exist.  (14)

        مردوں  کی اکثریت اور  غلبے والی معاشرت میں  بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تانیثیت پر مبنی سوچ اور  خواتین کا کلچر اپیپ نوعیت کے لحاظ سے ایک ذیلی کلچر (    Sub Culture) کے سوا کچھ نہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک منفی سوچ ہے اس کے مسموم اثرات سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اپنے جائز حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔ ماہرین عمرانیات اس امر پر متفق ہیں  کہ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت خواتین کی منفرد اور  علاحدہ حیثیت معاشرتی زندگی میں  نکھار کے لیے ناگزیر ہے۔ خواتین کا طرز حیات اور  اسلوب بیان اردو ادب میں  ابتدا ہی سے منفرد رہا ہے۔ ان نازک معاملات تک رسائی مردو ں  کے لیے نا ممکن ہے۔  اس ڈسکورس میں  صرف خواتین کو خلاقانہ دسترس حاصل رہی ہے۔ اردو شاعری میں  اس کی متعدد مثالیں  موجود ہیں۔

ماہ لقا بائی چندا

بوسہ بھی کوئی مانگے تو دے جان کی خیرات

خاطر کو نہ رنجیدہ کر اے ماہ  کسی کی

کب تک رہوں  حجاب میں  محروم وصل سے

جی میں  ہے کیجے پیار سے بوس و کنار خوب

  کٹی ہے ہجر کی شب،اب ہے وصال یار کا دن

خدا نے ہم کو دکھایا ہے پھر بہار کا دن

اٹھا بغل سے تو اے ماہ رو مرے تب سے

نہ پوچھ کیوں  کر کٹا تیرے بے قرار کا دن

شب کو ہماری ان کی ملاقات ہو گئی

شکر خدا کہ ہم پہ عنایات ہو گئی

آتے ہی میں  نے اس کے کیا نذر نقد دل

مہماں  کی ہر طرح سے مدارات ہو گئی

    وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ خواتیں  پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ زمانے میں  محبت کے سوا اور  بھی متعدد دکھ ہیں، اسی طرح اگر راحتوں  کا حصول محض وصل کی راحت تک ہی محدود نہیں۔ معاشرتی زندگی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور  نئی احساساتی کیفیات نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی اس طرح تخلیق فن کے لمحوں  میں  خواتین نے زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھتے ہوئے متنوع موضوعات،نئے شعری تجربات اور  آفاقی  حالات پر خامہ فرسائی کو شعار بنایا۔ امروز کی شورش میں  اندیشۂ فردا کا یہ خیال اپنے جلو میں شائستہ انداز فکر،دل کشی،رنگینی،خلوص و مروت اور  صد آفرینی کے ایسے گل ہائے رنگ رنگ لایا جس کے اعجاز سے حقیقت اور  فریب حقیقت کے متعلق تمام صداقتیں  معلوم ہوئیں  اور  زندگی کی اقدار عالیہ کو تحفظ ملا۔ چند مثالیں  پیش خدمت ہیں  :

فہمیدہ ریاض

پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں  آدمیوں  سے کٹ گئی ہوں

شاید پاؤں  سراغ الفت

مٹھی میں  خاک بھر رہی ہوں

گلنار آفریں

حق بات بھی کہنے کی کی اجازت نہیں  ملتی

پھر بھی مرے لہجے میں  بغاوت نہیں  ملتی

تم جبر کیے جاؤ مگر دھیان میں  رکھنا

وقت آنے پہ لمحے کی بھی مہلت نہیں  ملتی

جذبوں  کی ہے توہین تو احساس کی تذللی

نفرت بھرے لہجے میں  شرافت نہیں  ملتی

فرخ زہرا گیلانی

خیال و  خواب کی دنیا سنوارنے والا

کہاں  گیا ہے میرا غم سہارنے والا

پھر اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں  آیا

وفا کے رنگ نظر  میں  اتارنے والا

رضیہ کاظمی

آگہی کے کھیل میں یہ زیاں  ہونے کو ہے

برق رفتاری میں  سب کچھ لا مکاں  ہونے کو ہے

اک تزلزل ساز میں  تا آسماں  ہو نے کو ہے

بس پلک جھپکی کہ نہیں  سب دھواں  ہونے کو ہے

فرزانہ اعجاز

نکالے جا چکے خلد بریں  سے

کہاں  جائیں  نکل کر اس زمیں  سے

تیری مٹھی میں  ہے تقدیر عالم

صحیفہ اب نہ اترے گا کہیں  سے

خمیر اٹھا ہے میرا جس زمیں  سے

تمھارا بھی تعلق ہے وہیں  سے

نوشی گیلانی

عجیب خواہش ہے شہر والوں  سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں

تمھارے نام اپنی زندگی کی کتاب کا انتساب لکھوں

میں  تنہا لڑکی دیار شب میں  جلاؤں  سچ کے دئیے کہاں  تک

سیاہ تاروں  کی سلطنت میں  میں  کس طرح آفتاب لکھوں

زہرا نگاہ

سنا ہے جنگلوں  کا بھی کوئی دستور ہو تا ہے

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں  کرتا

درختوں  کی گھنی چھاؤں  میں  جا کر لیٹ جاتا ہے

سنا ہے ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں  کو ہلاتے ہیں

تو مینا اپنے گھر کو بھول کر  کوے کے انڈوں  کو پروں  میں  تھام لیتی ہے

سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو

سارا جنگل جاگ جاتا ہے

سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں

بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے

ندی کی روپہلی مچھلیاں  اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں

ندی میں  باڑ آ جائے ،کوئی پل ٹوٹ جائے تو اسی لکڑی کے تختے پر

گلہری،سانپ،چیتا اور  بکری ساتھ ہوتے ہیں

خداوندا جلیل و معتبر دانا و بینا منصف اکبر

میرے اس شہر میں  جنگلوں  ہی کا کوئی قانون نافذ کر

         اردو ادب میں  تانیثیت کا وجود ہر صنف ادب میں  ملتا ہے۔ کئی با صلاحیت خواتین نے فروغ علم و ادب میں  گراں  قدر خدمات انجام دیں۔ صحافت میں  محترمہ رضیہ مشکور نے اپنے مجلہ’’ دیدہ ور ‘‘کو گزشتہ چار برس سے امریکہ سے انٹر نیٹ پر پیش کر کے ایک مستحسن کام کیا ہے۔ علی گڑھ کلب کی صورت میں  ان کے ساتھ ممتاز اہل علم خواتین کی بڑی تعداد مصروف عمل ہے۔ ان میں  محترمہ ڈاکٹر طیبہ قدوائی صاحبہ،شہناز خانم عابدی صاحبہ ،فرزانہ اعجاز، شہناز کنول، عثمانہ اختر جمال ا  ور بہت سی دیگر قابل اور  مستعد خواتین نے اپنے تخلیقی کام سے یہ محفل سجا رکھی ہے اور  خوب سے خوب تر کی جستجو کا سلسلہ جاری ہے۔ محترمہ صدیقہ بیگم تاریخی ادبی مجلہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور سے شائع کر رہی ہیں ،یہ رجحان ساز مجلہ گزشتہ پچھتر سال سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔  مارچ 2011 میں  ادب لطیف کا پچھتر سالہ نمبر بڑے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ محترمہ عذرا اصغر صاحبہ کا ادبی مجلہ  ’’سہ ماہی تجدید نو ‘‘ لاہور سے شائع ہو تا ہے۔ ان کی ہو نہار ادیبہ بیٹی شبہ طراز ان کی معاون ہیں  جو فن مصوری میں  ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ محترمہ ڈاکٹر شفیقہ قادری صاحبہ اردو تنقید کا ایک اہم نام ہے۔ پروفیسر مسز شمیم علیم نے اردو خاکہ نگاری کی ترویج و اشاعت میں  اپنی صلاحیتوں  کا لوہا منوایا ہے۔ حال ہی میں  عالمی شہرت کے حامل ادیب اور  دانش ور ’’حسن چشتی ‘‘ پر ان کا ایک خاکہ ٹائمز میگزین ٹورنٹو (کینیڈا) میں   10مارچ 2011 کو شائع ہو ا ہے۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت قابل توجہ ہے۔ اس خاکے میں  محترم حسن چشتی کی شخصیت کے تمام خد و خال اس طرح لفظی مرقع نگاری میں  نہایت خوش اسلوبی سے سمو دئیے گئے ہیں کہ قاری چشم تصور سے محترم حسن چشتی کو خدمت خلق کے کاموں  میں  مصروف دیکھ کر مسرت کے احساس سے سرشار ہو جاتا ہے۔

         ’’عموماً خدمت خلق کا جذبہ آدمی میں  ایک عمر کو پہنچنے کے بعد غالب آتا ہے ،جب اس کے بال سفید ہونے لگتے ہیں  اور  سے زاد راہ کی فکر ستانے لگتی ہے۔ نماز روزے کے علاوہ خدمت خلق بھی ثواب کمانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن نوجوان عموماً  ایسی حرکتیں  نہیں  کرتے لیکن لگتا ہے حسن چشتی صاحب تو پیدا ہی بوڑھے ہوئے تھے صرف اس معاملے میں  ورنہ ان کا دل تو ابھی جوان ہے ‘‘

      خواتین میں  اس وقت بیداری کی جو لہر پیدا ہوئی ہے وہ تاریخ کے مسلسل عمل کا ثمر ہے۔  جذبات و احساسات کی تونگری، تخیل اور  شعور کی بے پناہ وسعت اس عہد ناپرساں  میں  ذاتی محنت اور  علمی ثروت کے اعجاز سے خواتین نے اپنی تحریروں  کو ذہن و ذکاوت کی بیداری کے لےا استعمال کیا اور  بے پنا ہ اثر آفرینی سے مزین کیا۔  زندگی کی بوالعجبی کے ادراک کا جو معیار خواتین کے ہاں  موجود ہے وہ قابل توجہ ہے۔  ممتاز شیریں  نے ایک مضمون میں  لکھا ہے :

        ’’مجھ میں  فن کا رکی انا سہی لیکن اتنا انکسار تو ضرور ہے کہ یہ محسوس کر سکوں  کہ بڑے ادیبوں  کے سامنے ہم کتنے چھوٹے ہیں  اور   فن کے ارتقا اور  تکمیل تک پہنچنے میں  ہمیں  ا  بھی کتنے ا ور مرحلے طے کرنے ہیں۔  میں   اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں  کہ پہلے درجے سے گزر کر میں  نے دوسرے میں  قدم رکھا ہے اور  اپنی ذات میں  نارسیسی انہماک پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔ ‘‘

       محترمہ رضیہ مشکور اپنی ذات میں  ایک انجمن ہیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کا مجلہ ’’ دیدہ ور ‘‘پور ی دنیا میں  مقبول ہے اور  دنیا کی ممتاز جامعات کے کتب خانوں  میں  اسے شامل کیا گیا ہے۔ تنقید اور  تحقیق کا جو ارفع معیار اس رجحان ساز ادبی مجلے میں  پیش کیا جاتا ہے وہ اسے منفرد اور  ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔  بحیثیت مدیر ہ،ادیبہ اور  دانشور دنیا بھر کے علمی اور  ادبی حلقوں  میں  ان کو بے پناہ عزت و تکریم حاصل ہے۔ ان کے لکھے ہوئے اداریے ،افسانے ،تجزیاتی مضامین اور  مکاتیب میں  اسلوبیاتی تنوع منفرد شان کے ساتھ اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔

         محترمہ بانو قدسیہ نے اردو زبان و ادب کی ثروت میں  بے پناہ اضافہ کیا۔ ان کی تحریروں  میں  تخلیقی بصیرت،کمال فن،لفظی مرقع نگاری،سراپا نگاری عروج پر ہے۔ انسانی نفسیات  کا وسیع مطالعہ ان کا خاص موضوع ہے۔ ’’راجہ گدھ‘‘ جیسا شاہ کار  ناول لکھ کر انھوں  نے شہرت عام اور  بقائے دوام  حاصل کی۔ قیوم نامی نو جوان یونیورسٹی میں  اپنی ہم جماعت سیمی شاہ کو کس انداز میں  دیکھتا ہے ،اس کا احوال پڑھ کر قاری  تخلیق کار کے عمیق مشاہدے اور  مرد کی نفسیات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے :

          ’’وہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی اس وقت اس نے موری بند جینز کے اوپر وائل کا سفید کرتا پہن رکھا تھا۔  گلے میں  حمائل نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے کینوس کے تھیلے میں  غالباً نقدی، لپ سٹک ٹشو پیپر تھے۔  ایک ایسی ڈائری تھی جس میں  کئی فون نمبر اور  برتھ ڈے کے دن درج تھے۔  ایک دو ایسے قیمتی پن بھی  شاید موجود ہوں  گے جن میں  سیاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ  بال پوائنٹ مانگ کر لکھا کرتی تھی اس کے سیاہ بالوں  پر سر خ رنگ غالب تھا۔  اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں  اس کے بال آگ پکڑ نے ہی والے تھے وہ  بالکل میر ے سامنے تھی اور  اگر میں  چاہتا تو اس کے کندھوں  پر سلیقے سے جمے ہوئے بالوں  کو چھو سکتا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس کے کرتے کے نیچے اس کی باڈس کا الاسٹک،ہک اوپر جانے والی طنابوں  کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا۔ بھری پستول سے کبھی میں  اس قدر خائف نہںا  ہوا۔ ‘‘

اسلوب کے تجزیاتی مطالعہ سے تخلیق کار کی بالغ نظری،وسیع مشاہدہ، اور لا شعوری محرکات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ زندگی کے خاص لمحات کو گرفت میں  لینا اور  محسوسات،مشاہدات اور  تجربات کو الفاظ کے پیکر میں  ڈھالنا بانو قدسیہ کا امتیازی وصف ہے۔ انھوں  نے جنس کے بڑھتے ہوئے بے لگام رجحان پر گرفت کی ہے۔

        اردو نثر میں  تانیثیت کے رجحانات رفتہ رفتہ ایک مستقل روایت کی صورت اختیار کرتے چلے گئے۔ انسانی جذبات کے بیان میں  خواتین تخلیق کارو ں  کو بہت کامیابی ملی ہے۔ تہذیبی طرز عمل ان تحریروں  میں  اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہو تا ہے۔ اس کی ایک مثال محترمہ رضیہ فصیح احمد کی ہے۔ انھوں  نے اردو میں  آٹھ ناول،دو ناولٹ،پانچ افسانوی مجموعے ، دو سفر نامے ،مزاحیہ مضامین پر مشتمل دو کتب  اور  ڈراموں  کی ایک کتاب لکھ کر اردو ادب میں  تانیثیت کو ایک معتبر مقام پر فائز کیا۔ اس کے علاوہ انھوں  نے انگریزی زبان میں  بھی افسانے لکھے ہیں  جو  زیور طباعت سے آراستہ ہو کر قارئین سے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین نے جس انداز میں  ادبی قدروں  کو پروان چڑھایا ہے  وہ ان کی عظمت کر دار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ اقدار زندگی کی بو قلمونی کی مظہر ہیں۔ صداقت اور  حق گوئی کا ا یک کا ارفع ترین معیار  خواتین کے اسلوب میں  اپنا الگ اثر دکھاتا ہے۔ تانیثیت پر مبنی ادب معاشرتی زندگی کے اہم ترین پہلوؤں  کو تخلیقی عمل کی اساس بناتا ہے اور  اس طرح ہماری تمام پسندیدہ اقدار کو نئی معنویت ملتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ طربیہ ہو یا المیہ سب کے سوتے ان کے مزاج کی شائستگی سے پھوٹتے ہیں۔

      اس ظالم معاشرے میں  صیاد اور  جلاد سر عام دندناتے پھرتے ہیں  صر صر وقت کے ہاتھوں  مشعل دل جب بجھنے کو ہو تو تانیثیت کی علم بردار خواتین عزم صمیم سے کام لیتے ہوئے دلوں  کو ایک  ولولہ تازہ عطا کرنے کی کوشش میں  مصروف نظر آتی ہیں۔  سیلاب حیات کا بلا خیز طوفان نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔  اس کے مہیب گرداب میں  مظلوم اور  قسمت سے محروم انسان خس و خاشاک کے مانند غلطاں  و پیچاں  ہیں۔ اس آشوب میں  کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں۔ بیاباں  میں  کھلنے اور  بکھرنے والے گل ہائے رنگ رنگ کا قدر شناس کون ہو گا؟ہوس نے جہاں  نوع انسان کو انتشار اور  پراگندگی کی جانب دھکیلا وہاں اس کے تباہ کن اثرات سے نئی نسل بے حسی کا شکار ہو گئی اور  روح بالکل مر دہ ہو چکی ہے۔  خواتین کے اسلوب میں  متعدد آفاقی صداقتوں  کا پرتو ملتا ہے۔  زندگی میں نئے مفاہیم کی جستجو اس سلسلے میں  قابل ذکر ہے۔   ؎

جو بیتی ہے وہ دہرانے میں  کچھ وقت لگے گا

اس غم کو اک یاد بنانے میں  کچھ وقت لگے گا

یہ مت سمجھو دنیا والو تھک کر بیٹھ گئے ہم

پچھلی چوٹو ں  کو سہلانے میں  کچھ وقت لگے گا    (شبنم شکیل)

        تانیثیت پر مبنی تنقیدی انداز فکر نے 1990کے بعد اپنی اہمیت، افادیت اور  مقبولیت کا لوہا منوایا ہے آج خواتین نے ادب اور  فنون لطیفہ میں  اپنی صلاحیتوں  کی دھاک بٹھا دی ہے۔  فطرت اور  ماحول سے خواتین کی یگانگت اور  گہرا ارتباط ان کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے۔  ان کے معجز نما اثر سے جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں خواتین کی تحریریں خود اپنا اثبات کرتی ہیں۔  نیا  تی حوالے سے عورت، جنس اور  جذبات کو اہم حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔  ان کی تحریریں  خلوص اور  درد مندی کی مظہر ہیں۔  خواتین کے ریشے ریشے میں  بے لوث محبت کے جذبات سرایت کر چکے ہیں  وہ ان کی تحریروں  میں صاف سنائی دیتے ہیں۔ تانیثیت پر مبنی تنقید میں  جہاں  حاکیتاتی تناظر میں  بات کی جاتی ہے وہاں  خدوخال کی دلکشی پر بھی توجہ مرکوز رہتی ہے اور  بعض  ناقدین حسن صورت کو تخیل کا منبع قرار دیتے ہیں۔  یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایثار، وفا، محبت اور  ہجر و فراق کے موضوعات پر خواتین کا انداز دل کی دھڑکنوں  سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے یہ بات مردوں  کی تحریروں  میں  عنقا ہے۔  اس حقیقت کو فراموش نہیں  کرنا چاہیے کہ تانیثیت ایک واضح صداقت کا نام ہے۔   اسے ایک خاص طبقے یا صنف کی تخلیقات کا مخزن قرار دینا درست نہ ہو گا۔ نہ ہی اسے حیاتیاتی عوامل کی بنا پر الگ حیثیت ملنی چاہیے۔  بلکہ یہ ادب ہے جو ایک خاص بود باش رکھنے والی اور  منفرد طرز معاشرت کی حامل خواتین سے منسوب ہے ، جہاں  کی ہر ادا جہان دیگر کی مظہر ہے ،۔  فہمیدہ ریاض نے اپنی آزاد نظم ’’ زاد راہ ‘‘ میں  جو سوال کیا ہے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے  ؎

        طویل رات نے آنکھوں  کو کر دیا بے نور

        کبھی جو عکس سحر تھا، سراب نکلا ہے

        سمجھتے  آئے تھے جس کو نشان منزل کا

        فریب خوردہ نگاہوں  کا خواب نکلا ہے

                                تھکن سے چور ہیں ،  آگے  بڑھیں  کہ لوٹ آئیں

        با  شعور خواتین نے ہمیشہ حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور  حریت ضمیر کے لیے اسوۂ شبیر کو اپنایا ہے محترمہ بلقیس قمر سبز واری کا خیال ہے :

        ’’ ادب میں  سب سے زیادہ نقصان دہ  بات یہ ہے کہ ہماری سوچ معطل اور  ارادے تحلیل ہو جائیں  شعری اور  ادبی پذیرائی کم ہو جائے اور  ہمارے دانش ور نقاد اپنے شخصی وجود کو منوانے پر زور دینے لگیں۔ ‘‘         (16)

        نسائی لب لہجے کو اپناتے ہوئے نسل نو کو تعلیم و تربیت کے ذریعے تہذیبی و ثقافتی میراث کی منتقلی تانیثیت کا معجز نما اثر ہے۔ اس سلسلے میں  خواتین نے بہت جگر کاوی کا مظاہرہ کیا ہے۔  انھیں  اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ تہذیبی و ثقافتی اقدار وا روایات کی نمو وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔  اس میں  کسی کوتاہی کا ارتکاب ایک مہلک غلطی ہے جو انسان کو وحشت و بربریت کا شکار بنا سکتی ہے۔  محترمہ زاہدہ حنا نے نہایت دردمندی سے اس جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

        ’’ ہمارے ہاں  احتجاج کی جمہوری جدوجہد کی چھوٹی اور  بڑی لہریں  اٹھ رہی ہیں  لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں  وکٹر ہیوگو کی طرح ایسے ادیب موجود نہیں۔  ہمیں  ایسے ادیبوں  کی ضرورت ہے جو وکٹر ہیوگو کی طرح یہ کہہ سکیں  کہ جبر کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈلنے والی آنکھ بن جاؤ جو عظیم کل پر جمی ہوئی ہے۔  ادیب اپنی تحریروں  سے سینے میں  جمہوریت اور  آزادی کی قندیل ہی روشن نہ کریں  بلکہ اپنے ادب سے جمہوریت پسند لوگ بھی پیدا کریں  کہ یہی لوگ انقلاب کا ہراول دستہ بنتے ہیں۔ ‘‘    (17)

        خواتین نے ہر دور میں  تاریخی آگہی(Historical Awareness) اور  عصری آگہی پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔  ان ہاں  معروضیت (Objectivity) کا عنصر نمایا ں  رہا ہے۔ مابعد جدیدیت کی ایک پیچیدہ  (Complex) صورت حال واضح دکھائی دیتی ہے۔  پاکستان میں  جب13 جون2007کو عدالتی بحران پیدا ہوا تو حساس تخلیق کار اس سے بہت متاثر ہوئے۔  یہاں  تک کہ 13جون2007 کو اس بحران کے حل کے لیے قانون دان طبقے کی اپیل پر لانگ مارچ ہوا۔  محترمہ کشور ناہید نے حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا ہے۔  ان کی تحریر میں  مادر وطن سے محبت صاف جھلک رہی ہے جو کہ تانیثیت کا اہم ترین وصف ہے اور  یہی ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ اس تحریر میں  انھوں  نے عدلیہ پر شب خون مارنے اور  انصاف کی پامالی کے مرتکب آمروں  کے اقدامات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انھیں  ہدف تنقید بنایا ہے۔ عوامی شعور و آگہی کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں  یہ انداز تحریر بانگ درا کی حیثیت رکھتا ہے۔

        ’’پش اور سے ملیر کراچی تک ہر شہر کے لوگوں  کے چہرے کہہ رہے تھے فیضؔ صاحب آپ نے تو کہا تھا، ’’بول کہ لب آزاد ہیں  تیرے ‘‘ آپ نے تو کہا تھا،’’ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں  گے ‘‘ اب آپ بتائیں ، ہم نے تو حوصلہ کیا۔  اعلان کیا، مظاہرہ کیا، تو اب فیضؔ صاحب بتائیں  منافق کون ہے ؟‘‘(18)؂

        خواتین نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا کہ ان اقدار و روایات کو پروان چڑھانا چاہیے جن کے اعجاز سے معاشرتی زندگی میں  خیر و فلاح  کے امکانات  کو  یقینی بنایا جا سکے۔ جبر کا ہر انداز مسترد کر کے اخلاقیات کے ارفع معیار تک رسائی پر توجہ دی جائے۔  انفرادی ا اور  اجتماعی لاشعور کی جو کیت   خواتین کی تخلیقات میں  جلوہ گر ہے اس کا تعلق دروں  بینی سے ہے محترمہ بلقیس قمر سبز واری کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں  جو ایک تخلیق کا رکی فکر، عصری عوامل اور  گہرے احساسات کو  اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔    ؎

خواہش ہے مجھ کو دیکھ کے کہہ جائیں  اہل دل

اپنے لہو میں  ڈوب کے بکھرا ہے کو ئی رنگ

خار و گل کے اس تصادم سے بھلا ملتا ہے کیا

اپنا داماں  چاک ہو جاتا ہے بس احساس سے

سمندروں سے گزر کر ملے ہیں جو طوفاں

انھی کو چھو کے ہمیں آفتاب ملتے ہیں

وقت بھی کیا ہے کہ طوفان سفر میں  اب تک

ایک گزرے ہوئے منظر کی طرح لگتا ہے

آئینے ٹوٹ کے رہ جائیں  اگر قدموں  میں

ہم تو بکھر ے ہوئے شیشوں  سے بنا لیں  دنیا

نہ جانے کس کا سفر تھا کہاں  پہ ختم ہوا

ستارے ٹوٹے ہیں  کتنے سحر کے ہونے تک

رہتے ہیں  ہم زمین پر کیوں  خود سے شرم سار

ہم نے تو بار بار بنائے ہیں  آسمان

        اردو ادب میں  خواتین  نے ہر صنف ادب میں  اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔  مر دکی بالا دستی اور  غلبے والے معاشرے میں  انھوں  نے ہوائے جور و ستم میں  بھی شمع وفا کو فروزاں  رکھا ہے۔ انھوں  نے مظلوم، محروم اور  مجبور عوام سے جو عہد وفا کیا اسے پوری عمر استوار رکھا۔  بانو قدسیہ، قرۃالعین حیدر، خالدہ حسین، زاہدہ حنا، پروین ملک، پروین شاکر، ادا جعفری، بلقیس قمر سبز واری، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح احمد، شکیلہ رفیق، ہاجرہ مسرور، عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی،صبیحہ صبا اور  ممتاز شیریں  اس کی درخشاں  مثالیں ہیں۔ ہر عہد کے ادب میں  ان نابغۂ  روزگار شخصیات کے اثرات موجود ہیں  گے ، تاریخ ہر دور میں  ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔  ادا جعفری کی یہ نظم ’’ شہر آشوب ‘‘تانیثیت کا اعلیٰ  نمونہ ہے۔

شہر آشوب

        ابھی تک یاد ہے مجھ کو

        مرے آنگن میں  خیمے تھے دعاؤں  کے

        یقیں  آئے نہ آئے میرے بچوں  کو

        گئے وقتوں کا قصہ ہے

        کہ بر گ گل کبھی قدموں  تلے روندا نہ جاتا تھا

        ہوا برگشتہ گام آتی نہ تھی پہلے

        یقیں  اغوا نہ ہوتا تھا

        مرے  آنگن میں  نقش پا سجے تھے

        خون کے دھبے نہ ہوتے تھے

        دھوئیں  کے ناگ کا پہرا نہ ہوتا تھا

        گئے وقتوں  کی باتیں  ہیں

        مرے بچوں  کو شاید ہی یقیں  آئے

        در و دیوار کے اوپر

        کسی آسیب کا سایا نہ ہوتا تھا

        سبھی تنہا تھے لیکن یوں  کوئی تنہا نہ ہوتا تھا

        ابھی تک یاد ہے مجھ کو

     خواتین  تخلیق کار اس وقت ہر صنف ادب میں اپنی تخلیقی فعالیتوں  اور  خداداد صلاحیتوں  کی دھاک بٹھا چکی ہیں۔ ان کے تخیل کی جولانیاں  اور  بلند پروازی  ظاہر کرتی ہے کہ علوم کی ترکیب (  Synthesis)پربھی انھوں  نے بھر پور توجہ دی ہے۔  زندگی کے تمام تقاضوں  اور  جزئیات کو خواتین نے نہایت سنجیدگی اور  متانت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ تجربات،احساسات اور  مشاہدات کو ذاتی بلکہ نجی حوالے کے ساتھ پرکھنے کے بعد انھیں  تمام جزئیات کے سا  تھ احاطۂ تحریر میں  لانا فنی مہارت کی دلیل ہے۔ محترمہ شہلا احمد سہ ماہی الاقربا اسلام آباد کی مدیر مسؤل ہیں۔ ان کی تحریروں  میں  تانیثیت کا ایک منفرد آہنگ قاری کو اپنی گرفت میں  لے لیتا ہے۔ روزمرہ زندگی کی معمولی باتوں   اور  ضروریات کو غیر معمولی انداز میں  الفاظ کے قالب میں  ڈھالنا ان کے اسلوب کا اہم وصف ہے۔ تخلیق ادب میں  وہ چھوٹی چھوٹی باتوں  کو بھی نظر انداز نہیں  کرتیں  بلکہ انھیں  ادب کے مواد کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا مستقل سلسلہ ء مضامین  ’’  گھریلو ٹوٹکے ‘‘    جو سہ ماہی الاقربا  اسلام آباد میں  شائع ہو رہا ہے  نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات میں  بھی بے حد مقبول ہے۔ جہاں  تک موضوعات،مواد،اسلوب اور  ابلاغ کا تعلق ہے اسے معاشرت،تہذیب اور  ثقافت ترجمان سمجھنا  مناسب ہو گا۔ ایک ٹوٹکا ملاحظہ فرمائیں

’’ السر اور  معدے کا درد‘‘

      شہد اور  دار چینی کا سفوف ملا کر استعمال کرنے سے السر اور  معدہ کے درد کو فائدہ ہوتا ہے ‘‘

یہ ٹوٹکے ایک تہذیبی اور  ثقافتی تسلسل کی علامت ہیں۔ ادب کو زندگی سے مربوط کرنے میں  سماجی اور  عمرانی پہلو کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ خواتین اس پر پوری توجہ دے رہی ہیں۔ خاص طور پرالاقربا،دیدہ ور،ادب لطیف،تجدید نو،فکر نو،لوح ادب،روشنائی،لمس کی خوشبو،فنون اور  مونتاج جیسے رجحان ساز ادبی  مجلے اس رجحان کو ایک مستحکم روایت کے طور پر سامنے لانے میں  تاریخی کر دار ادا کر رہے ہیں۔

        آج ہمیں  ہوا کی دستک کو سن لینا چاہیے۔ آنے والی رت بہت کڑی ہے۔  حصار جبر کی اندھی فصیل کو منہدم کرنے کے لیے کو بہ کو بیداری کا پیغام پہنچانا ہو گا۔  بے چہرہ لوگوں  اور  بے در گھروں  میں  حوصلے اور  امید کی شمع فروزاں  کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔  خواتین میں  احساس ذمہ داری اور  بیداری کی جو لہر پیدا ہو گئی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے۔

٭٭٭

مآخذ

۱۔  علامہ  محمد اقبال ڈاکٹر: ضرب کلیم، کلید کلیات اقبال، اردو، مرتب احمد رضا، 2005   ،   صفحہ  106

2. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004, Page 308

ّ3. Terry Eagleton: Literary Theory , Minnesota, 1998, Page. 194 London

4. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literary terms Bedford books. Bostan, 1998, Page 123

5. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literary terms Bedford books.Bostan, 1998, Page 123

6David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004,  Page 491

۷۔  اظہر سہیل : ایجنسیوں  کی حکومت، وین گارڈ بکس،  , لاہور 1993صفحہ 16

۸۔  آفتاب حسین شیخ (جسٹس ریٹائر ڈ ): انٹرویو، جنگ لاہور، جمعہ میگزین، 24 جولائی، 1992  صفحہ 3

۹۔  عذرا اصغر: مسافتوں  کی تھکن، عزیز پبلشرز، لاہور، طبع اول، 2007، صفحہ 219

۱۰۔  پروین شاکر : غزل ماہنامہ فنون، لاہور ، شمارہ  25، نومبر، دسمبر 1986، صفحہ 219

۱۱۔ پروین شاکر : غزل ماہنامہ فنون، لاہور ، شمارہ  25، نومبر، دسمبر 1986، صفحہ 219

12. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004  Page 192

13  David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004   Page 311

14 David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004    Page311

۱۵۔  بحوالہ آغا بابر: حرف سوگوار مشمولہ سیپ کراچی، شمارہ 55جنوری، 1990

۱۶۔ بلقیس قمر سبز واری : اداریہ، سہ ماہی فکر نو، لاہور، جون، 2008صفحہ 9

۱۷۔  زاہد ہ حنا: انصاف کا نڈر محافظ، مضمون مشمولہ روز نامہ ایکسپریس، فیصل آباد 18 جون، 2008، صفحہ 12

۱۸۔  کشور ناہید : ’’عوام اور  وکلا سرخرو ہیں  ‘‘  مشمولہ روز نامہ جنگ،لاہور 15جون 2008 صفحہ 9

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ا بک کی تشکیل: اعجاز عبید