FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور عیسائی

               سید صباح الدین عبدالرحمن

مسلمانوں پر ظلم

            عیسائیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں او ر ان کے حکمرانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر بھی ایک سر سری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے،ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے یہاں جس مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی اس کی تاریخ ہم تین جلدوں میں لکھ چکے ہیں ،ان تفصیلات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ،مگر انگریزوں نے ان کی نرمی، لینت اور فراخ دلی سے جس طرح فائدہ اُٹھایا،اور پھر یہاں اقتدار پانے کے بعد مسلمانوں پرجو مظالم کیے ان کے کچھ موٹے موٹے واقعات سرسری طور پر یہاں پر قلم بند کیے جاتے ہیں ، ان عیسائی حکمرانوں نے جو یہاں پورے ہندوستان پر ستم ڈھائے اور جو اقتصادی لو ٹ کھسوٹ کی،اس کی پوری تفصیلات تو کے،ڈی باسو کی رائز آف دی کرسچین پاور ان انڈیا کی پانچ جلدوں اور رمیش چناردت کی ہندوستان کی اقتصادی تاریخ میں ملے گی،ہم یہاں صرف ان واقعات کی طرف اشارہ کریں گے جن کا تعلق یہاں کے مسلمانوں سے رہا۔

            اکبر نے اپنے دربار میں عیسائیوں کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور اس کے عبادت خانہ میں جو مباحث ہوتے تھے ان میں عیسائی پادری بھی شریک ہوتے،وہ دربار میں انجیل بھی لاتے ا کبر نے ا س کا ترجمہ فارسی میں بھی کرایا،یہ پادری عقیدہ ٔ تثلیث کے حق ہونے پر دلیلیں پیش کرتے اور نصرانیت کو سچا مذہب قرار دینے کی کوشش کرتے،بعض اوقات اپنی حد سے بڑھ کر نعوذ باللہ دجال ملعون اور حضرت خیرالنبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں مشابہت بھی دکھاتے،اکبر ان کو خاموشی سے سن لیتا،ان پادریوں نے دربار میں کھلم کھلاعیسائیت کی ترویج بھی کرنی شروع کر دی۔ شہزادہ مراد نے ان سے کچھ سبق بھی پڑھے،شیخ ابو ا لفضل کو جب انجیل کے ترجمہ کا حکم دیا گیا تو اس نے بسم اللہ کے بجائے یہ لکھا  :

            ”اے نامی وے ژژ وکرستو”

            یعنی اے وہ ذات کہ تو بڑا مہربان اور بہت کچھ بخشنے والا ہے

            شیخ فیضی نے اس کا دوسرا مصرع یہ کہا  :

            ”سبحانک لا سواک یا ہو”

            ان پادریوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی تھی کہ اکبر نے عیسائی مذہب قبول کر لیا،لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے مرا تو ان کوبڑا دکھ ہوا۔

            جہانگیر کے زمانہ میں انگلستان کے بادشاہ جیمس ا ول کی طرف سے ١٦١٥ ء میں طاس سفیر بن کر آیا تو شاہی دربار میں اس کا بڑا اعزاز کیا گیا،اور رفتہ رفتہ وہ جہانگیر سے اتنا قریب ہوا کہ وہ اپنے خلوت کے جلسوں میں بھی اس کو بلایا کرتا تھا۔جس کے بعد اس نے بادشاہ سے یہ رعایت حاصل کی کہ انگریزی مال پر کوئی محصول عائد نہ کیا جائے۔ جہانگیر نے اپنی شرافت اخلاق سے یہ مراعات تو دے دیں مگر کیا معلوم تھا کہ یہ ہندوستان کی غلامی اور مغلیہ سلطنت کے سقوط کا ذریعہ بن جائے گی۔

            ١٦٥٠ء میں بنگالہ کے صوبیدار نے انھیں وہاں تجارت کرنے اور ہگلی اور قاسم بازار میں کوٹھیاں بنانے کی بھی اجازت دی جس سے ان کے حوصلے اور بڑھے،پھر اورنگ زیب کے زمانہ تک آتے آتے انھوں نے سورت میں بھی اپنی فیکٹریاں بنا لیں ،اس وقت تک ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بہت با اثر ہوتی گئی، اور اب یہ کمپنی اپنی تجارت کو محفوظ کرنے کی خاطر پختہ حصار بھی بنانے لگی اور خاموش تجارت کرنے کے بجائے قلعہ بند تجارت کرنے کی طرف مائل ہو گئی،ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھ کر بنگال کے صوبہ دار نواب شایستہ خان نے اپنے علاقہ میں ان کے مال پر محصول لگا دیاتو وہ جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے او ردس جہازوں میں فوج کے دستے انگلستان سے منگوائے۔اسی زمانہ میں منتخب اللباب کے مصنف خافی خان کا بیان ہے کہ گنج سوائی نام کے بادشاہی جہاز کو انگریزوں نے لوٹ لیا اور اس کے مسافروں کو برہنہ کر کے تلاشی لی، اس پرجو عورتیں تھیں وہ اپنی بے حرمتی سے بچنے کے لیے سمندر میں کو د پڑیں یا خنجر مار کر اپنے کو ہلاک کرایا اورنگ زیب کو جب اس کی خبر ملی توا س نے سورت کے متصدی اعتماد خان کو حکم دیا کہ انگریز گماشتے قید میں ڈال دیے جائیں اور بمبئی کے جزیرے سے انھیں دربدر کر دیا جائے (منتخب اللباب ج٢ ص ٤٢٨۔ ٤٢١ )۔ہگلی اور قاسم بازار کے انگریزوں کو کوٹھیاں چھوڑنی پڑ یں وہ سورت اور مچھلی پٹم سے نکال دیے گئے مگر انھوں نے مغلوں کے حکام کی رواداری او ر نرمی سے فائدہ اُٹھایا، انھوں نے ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ ادا کرنا قبول کیا تو پھر ان کو تجارت کرنے کی اجازت مل گئی،انھوں نے بنگال کے صوبہ دارسے تین گاؤں خرید لیے،جہاں اپنے تجارتی مال کی حفاظت کے بہانے سے چار دیواری تعمیر کرائی جو بعد میں فورٹ ولیم کہلانے لگی اور یہ انگریزوں کی سامراجی سازشوں کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔

            فرانسیسی بھی ہندوستان کی فضا میں منڈلا رہے تھے،انھوں نے نواب ارکاٹ سے ہر قسم کے فوائد حاصل کیے، لیکن جب ان کی قوت بڑھنے لگی تو انگریز خوف زدہ ہوئے،فرانس کا فرماں روا نپولین اعظم تو اپنی فتوحات کے غرور میں یہ بھی ارادہ رکھتا تھا کہ مصر کو فتح کرتا ہوا وہ مشرق پہنچے اور وہ (ایسا مشرقی امپائر  قائم کرے جس میں ہندوستان بھی شامل ہو اس خطرہ کو محسوس کر کے انگریزاس سے بھی بر سر پیکار ہوئے اور واٹر لو کی جنگ میں اس سے لڑ کر اس کو قیدی بنایا اور سینٹ ہلنا بھیج کر اس کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پرمجبو ر کیا وہ فرانسیسوں سے برابر لڑتے رہے،دکن میں نواب نظام الملک آصف جاہ،نواب ناصر جنگ،مظفر جنگ،چندا  صاحب،نواب صلابت جنگ پہلے فرانسیسیوں کی ریشہ دوانیوں کے شکار رہے۔ ١٧٥١ء میں کلائیو نے الکاٹ پر حملہ کیا،اور اس پر قابض ہو گیا،اس کے بعد وہ فرانسیسوں سے برابر لڑتے رہے۔

            کلائیو کو بنگالہ میں بھی اس کی چالبازیوں سے کامیابی حاصل ہوئی،١٧٥٢ء میں نواب علی دردی خان کے بعد اس کا نواسہ سراج الدولہ جانشین ہوا،مغلیہ سلطنت کی کمزوری کی وجہ سے نواب علی دردی خان نے بنگالہ میں خود مختار ریاست قائم کر لی تھی،نواب سراج الدولہ کے مخالفوں کی حمایت انگریز کرنے لگے تو سراج الدولہ نے ان کے خلاف لشکر کشی کی مگر یہ انسانی تاریخ کا بہت ہی شرمناک واقعہ ہے۔انگریزوں نے سراج الدولہ کے درباریوں میں سے امی چند اور میر جعفر کو غداری کرنے پر آمادہ کیا۔امی چند سے ایک فرضی اور جھوٹا وعدہ کیا کہ وہ اس کو تیس لاکھ روپے دیں گے اور میر جعفر کو بنگال کا حاکم بنانے کا وعدہ کیا،سراج الدولہ اور انگریزوں سے لڑائی ہوئی،آخر میں میر جعفر کی غداری سے وہ ہارا اور مارا گیا، میر جعفر کو بنگال کا حاکم بنایا مگر اس کو بیس لاکھ روپے تو صرف کلائیو کو نذرانہ دینے پڑے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اور عہدیداروں کو بھی بے شمار روپے دیے،کشتیوں میں بھر بھر کے روپے او ر زر و جواہرات کلکتہ بھیجے گئے چوبیس پر گنہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالہ کر دیا گیا۔

میر جعفر بنگال کا حاکم تو بن گیا مگر جب انگریزوں کو دکن میں کامیابی حاصل ہوئی اور ولندیزیوں کو بنگال سے نکال دیا تو انھوں نے میر جعفر کو تنگ کرنا شروع کیا،جو انھیں روپے دیتے دیتے تھک چکا تھا ا س نے بردوان،مدنا پور اور چاٹ گام کے علاقے بھی اپنی نوابی کی خاطر دے دیے تھے مگر پھر بھی انگریز اس سے مطمئن نہ تھے اور اس کو علیحدہ کر کے اس کے داماد میر قاسم کو بنگال کا حاکم بنایا مگر کچھ دنوں کے بعد انگریزاس کے بھی خلاف ہو گئے اور جب وہ پٹنہ کے مقام پر ان سے لڑا تو شکست کھا گیا کیونکہ انگریزوں نے اس کے حامیوں کو بھی اس سے غداری کرنے پر آمادہ کر لیا، پھرمیرقاسم نے ادھر اُدھر پناہ لے کر دہلی کے پاس اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی،انگریزوں کی قوت بڑھ رہی تھی تو انھون نے دہلی کے حکمراں شاہ عالم سے ٹکر لی او ر ١٧٦٤ء میں بکسر کی لڑائی میں اس کو شکست دی اور جب صلح ہوئی تو انگریزوں نے بنگال،اڑیسہ اور بہار لے کر چھبیس لاکھ روپے سالانہ کی مالگزاری ادا کرنے کا وعدہ کیا اس کے بعد ان کی آویزش مرہٹوں سے ہوئی او ر وہ ان کو بھی شکست دیتے رہے،٨١ ١٧ء تک آتے آتے انگریزوں کا قبضہ احمد آباد،گوالیار بیسن اور پونا پر ہو گیا،گو آگے چل کر مرہٹوں نے یہ علاقے ان سے واپس لے لیے،ان لڑائیوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اخراجات کافی ہو رہے تھے۔سرمایہ کی کمی ہوئی تو انگریزوں نے راجہ بنارس کا استحصال شروع کیا۔ اس راجہ سے بائیس لاکھ روپے سالانہ لے کر انگریزوں نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا، اس رقم کو بڑھانے پر اصرار کیا تو اختلاف ہو گیا انگریزوں نے ا س کو معزول کر دیا،اور اس کے خاندان کے ایک دوسرے فرد کو بٹھا کر سالانہ خراج کی رقم بڑھا دی،پھر بھی ان کے اخراجات پورے نہیں ہوئے تو انھوں نے نواب اودھ کی طرف نظر اُٹھائی،ان کی ایک امدادی فو ج اودھ میں متعین تھی،اس  کے مصارف نواب کے ذمہ تھے جو نواب سے باقاعدہ ادا نہیں ہوئے تو انگریزوں نے ان کی بیگمات کے زیورات، جواہرات،مال و متاع اور جاگیر یں چھین لیں ۔

            ارکاٹ پر بھی انگریز اپنی چالبازیوں سے مسلط ہو گئے تھے،وہاں کے نو اب محمد علی کو اپنا باج گزار بنا لیا تھا اور وہاں جو اپنی فوج رکھ چھوڑ ی تھی اس کے مصارف نواب محمد علی کمپنی ہی کے ملازمین سے سودی روپے قرض لے ادا کر رہا تھا اور اس سودی قرض کے عوض کوئی پرگنہ یا علاقہ رہن رکھ دیتا تھا،بالآخر انگریزوں نے اس کو بھی مجبور کر کے ارکاٹ کی ریاست کی مال گزاری کو وصول کرنے کا اختیار اپنے ذمہ لے لیا اور اس کو اس کے خانگی مصارف کے لیے کچھ رقمیں دینے لگے۔

            اب وہ میسور کی طرف متوجہ ہوئے اس کے فرماں روا سلطان حیدر علی کو تو وہ اپنی لڑائیوں میں زیر نہ کر سکے،لیکن ١٧٩٩ء میں انگریزوں نے سرنگا پٹم میں سلطان ٹیپو سے لڑ کر اس کو بے دردی سے شہید کیا،سلطان بھی بڑ ی جانبازی سے ہاتھ میں تلوار لیے جان بحق ہوا۔یہ لڑائی لارڈ ویلز لی کے زمانہ میں ہوئی،جس کے بعد وہ فخر سے کہا کرتا تھا کہ ہندوستان اپنے امن و امان کی خاطر پورا ملک انگریزوں کے حوالے کر دے،اسی میں یہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ اسی بہانے انگریزوں نے دکن کے نظام الملک سے ١٨٠٠ء میں معاہدہ کیا کہ ریاست حیدر آباد میں انگریزوں کی جو فوج وہاں کی حفاظت کے لیے متعین ہے اس کی تعداد بڑھا دی جائے،اور اس کے مصارف کے لیے وہ تمام علاقے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیے جائیں جو سلطنت میسو ر کی تقسیم کے وقت نظام الملک کو دیے گئے تھے۔

 پھر ارکاٹ یعنی کرناٹک کے نواب محمد علی کی وفات ہوئی تو پہلے اس کا بیٹا ١٧٩٥ء میں نواب عمدۃ الامراء اس کا جانشین ہوا۔ ١٨٠١ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بیٹے علی حسین کو اپنا وظیفہ خوار بنا کر رکھنا چاہا،اس نے انکار کیا تو اس کے ایک رشتہ دار عظیم الدولہ کو وہاں کا نواب اس شرط پر بنایا کہ وہ اپنا سارا اختیار کمپنی کے حوالہ کر د ے۔اس کے بعد لارڈ ولزلی نواب اودھ کی طرف متوجہ ہوا اور وہاں کے کمزور نواب پر دباؤ ڈالا کہ وہاں کی انگریزی فوج کی تعداد دس ہزار سے زیادہ بڑھا دی جائے اور اس کے مصارف کے لیے دوآب اور روہیل کھنڈ کے علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دے،اس طرح نواب اودھ کا آدھا علاقہ انگریزوں کے تسلط میں آ گیا۔

            پھر تقریباً چالیس برس تک انگریز مرہٹوں اور سکھوں سے لڑتے رہے اور انھوں نے افغانستان کو بھی ١٨٣٩ء میں فتح کرنے کی ناکام کوشش کی وہاں ان کو کامیابی نہیں ہوئی،انھوں نے سندھ کے امیروں پر یہ الزام رکھا کہ انھوں نے انگریزوں کی فوج کی رسد رسانی کا ٹھیک انتظام نہیں کیا اور فوج کی کوچ میں رخنہ ڈالا،اور پھر وہاں کے امیروں کو اتنا تنگ کیا کہ وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئے لیکن انگریزوں نے ١٨٤٣ء،میں ان کی قوت توڑ کر رکھ دی۔

            انگریزوں کی چالبازیوں سے ہندوستان کا پورا علاقہ ان کے قبضہ میں آ گیا تو ١٨٥٧ء میں یہاں کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ سات سمندر پار ایک بیرونی قوم کے وہ غلام ہو گئے ہیں ، تو وہ کو ہ آتش فشاں کی طرح ان کے خلاف پھٹ پڑے،او ر پھر جو کچھ ہوا اس کی تفصیل بڑی ہی ہولناک ہے،جو کئی جلدوں میں بھی قلمبند نہیں کی جا سکتی، یہاں پر ایک انگریز مورخ ہی کے حوالہ سے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔

            سرجون نے اپنی ہسٹری آف سی پوائی وار میں لکھا ہے کہ  :

بغاوت کے نام سے مجرموں کے ساتھ عورتیں اور بچے ہلاک کیے جا رہے تھے،ان کو  قصدًا پھانسی نہیں دی جاتی،بلکہ وہ اپنے گاؤں میں آگ میں ڈال کر جلا دیے جاتے، یا ان کو گولی مار دی جاتی انگریز یہ فخر کرنے میں نہیں ہچکچاتے کہ انھوں نے کسی کو نہیں چھوڑا،ہلاک کرنا ان کے لیے خوشگوار تفریح تھی تین مہینے تک روزانہ لاشوں کی آٹھ گاڑیاں صبح سے شام تک ان مردوں کو لاتیں جو راہوں اور بازاروں میں لٹکی دکھائی دیتیں ۔   ١

مغلوں کے آخری فرمان روا بہادر شاہ ظفر اور ان کے شہزادوں کے ساتھ جو انتہائی سفاکانہ سلوک ہوا،وہ انسانیت کی انتہائی درد ناک تاریخ ہے۔ ایک فوجی افسر ہڈ سن نے بہادر شاہ ظفر کے شہزادوں میں سے مرزا مغل، مرزا خضر خاں ،مرزا بو بکر اور مرزا عبداللہ کو ہمایوں کے مقبرے میں گرفتار کیا، ان کو رتھ پر سوار پرکیا، ایک میل چل کر ان کو رتھ پرسے اُتار دیا، اور ان کو اپنے کپڑے اتارنے کا حکم دیا، پھر اپنے ہاتھ سے تین گولیاں ان کے سینوں پر ماریں اور شہ رگ کو سنگین سے چیر دیا، کوتوالی میں لا کر ان کی نعشوں کو زمین پر ڈال دیا۔کہا جاتا ہے کہ ہڈسن نے ان کو قتل کر کے ایک چلو خون یہ کہہ کر پیا کہ اگر میں ان کا خون نہ پیتا تو میرا دماغ خراب ہو جاتا، شہزادوں کے سر کاٹے گئے،اور یہ بادشاہ کے سامنے لائے گئے،ہڈسن نے کہا : یہ آپ کی نذر ہے جو بند ہو گئی تھی اور جس کو جاری کرانے کے لیے آپ نے غدر میں شرکت کی،بہادر شاہ نے جوان بیٹوں اور جوان پوتوں کے کٹے ہوئے سردیکھے تو حیرت انگیز استقلال کے ساتھ ان کو دیکھ کر منھ پھیر لیا اور کہا کہ الحمد للہ تیمور کی اولاد ایسی ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے آیا کرتی تھی،اس کے بعد شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے سامنے خونی دروازے میں لٹکا دی گئیں ،جن کو ہزاروں آدمیوں نے دیکھا۔

     ١  بحوالہ رائز آف کرسچین پاور ان انڈیا  از کے۔ڈ ی۔ باسو  ج  ٥،ص  ٢٨٥

دہلی کے آس پاس جتنے شہزادے ملے پکڑے گئے ان کی تعداد انتیس(٢٩) بیان کی جاتی ہے ان میں بوڑھے لنگڑے،بیمار سب کے سب پھانسی پر لٹکا دئیے گئے،سب سے زیادہ بوڑھا شہزادہ مرزا قیصر ابن شاہ عالم ثانی اکبر شاہ کا بھائی تھا،او ر مرزا محمود شاہ اکبر کا پوتا وجع المفاصل میں مبتلا تھا۔ اس کو بھی پھانسی دی گئی او ر اس کی لاش لٹکتی ہوئی دکھائی گئی،جو شہزادے قید میں ڈال دیے گئے ان پر سخت مظالم ہوتے رہے۔زینت محل کے والد بزرگوار نے جیل ہی میں وفات پائی،بہادر شاہ کے دو لڑکوں مرزا بختاور اور مینڈھو پر مقدمہ قائم کیا گیا، پھر ان کو گولی مار دی گئی،اور ان کی لاشیں کوتوالی میں لٹکائی گئیں ،اسی طرح شاہی خاندان کے چوبیس افرادپھانسی پر لٹکائے گئے،ان میں بادشاہ کے دو برادرِنسبتی اور دو داماد تھے، بقیہ بادشاہ کے بھتیجے وغیرہ تھے۔

            اوپر جو تفصیلات لکھی گئی ہیں ان کے لیے کسی حوالہ کی ضرورت نہیں ،یہ ایسے کھلے ہوئے موٹے موٹے واقعات ہیں جواسکول کی نصابی کتابوں میں بھی درج ہیں اور اس سلسلہ میں کسی مستند ضخیم کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ان تفصیلات میں ایک سامراجی قوت کی ہولناکیوں ، خون ریزیوں اور سفاکیوں کی اور بھی درد ناک تصویر یں ملیں گی۔

            انگریزوں نے جس حکومت کو سفاکانہ طور پر ختم کیا اس کی بڑی لمبی تاریخ رہی ہے،اس نے ہندوستان میں ٣٣٠ برس تک حکمرانی کی لیکن اس کی پوری تاریخ میں ایسی سفاکی کی مثال نہیں ملے گی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔اس کی رواداری کی تاریخ خاکسار نے دو جلدوں میں لکھی ہے اور برطانوی راج کے زمانہ میں ہندو مورخین نے بھی مغل حکومت کی عدل پروری، نرمی،لینت، فراخ دلی اور روا داری کی تعریف کی ہے۔ ان کی تفصیل میری مذہبی روا داری کی دوسری او ر تیسری جلدوں میں ملیں گی جن ناظرین کو یہ دونوں جلدیں کسی وجہ سے نہ مل سکیں ان کے لیے یہاں پر ایک دو اقتباسات درج کیے جاتے ہیں ۔

            پر و فیسر رام پر شاد گھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ شپ اینڈ نوبی لیٹی میں لکھتے ہیں  :

مغلوں کے زمانہ میں عدل و انصاف میں جو اہتمام ہوتا او ر جو ان کی مذہبی رواداری کی پالیسی تھی اس سے عوام ہمیشہ مطمئن رہے،اسلامی ریاست میں سیاست اور مذہب کا گہرا لگاؤ رہا ہے لیکن مغلوں کی مذہبی روا داری کی وجہ سے اس لگاؤ کی وجہ سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا،کسی زمانہ میں بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ حکمراں قوم کا مذہب محکوموں کا بھی مذہب بنا دیا جائے حتی کہ اورنگ زیب نے بھی حصول ملازمت کے لیے اسلام کی شرط نہیں رکھی تھی،مغلوں کے عہد میں Corporation Act    جیسے قوانین منظور نہیں کیے گئے۔ایلز بتھ کے زمانہ میں ایک ایسا قانون تھا جس کے ذریعہ سے جبر ی طور پر عبادت کرائی جاتی تھی مغلو ں کے زمانہ میں اس قسم کا  کوئی جبر نہیں کیا گیا  Bartholomew’s Day جیسے قتل عام سے مغلوں کی تاریخ کبھی داغدار نہیں ہوئی، مذہبی جنگ کی خون ریزی سے یورپ کی تاریخ بھری ہوئی ہے لیکن مغلوں کے عہد میں ایسی مذہبی جنگ کی مثال نہیں ملتی، بادشاہ مذہب اسلام کا محافظ اور نگہبان ضرور سمجھا جاتا،لیکن اس نے کبھی غیر مسلم رعایا کے عقائد پر دباؤ نہیں ڈالا۔  ١

            پرمتھا سرن نے اپنی کتاب پرونشل گورنمنٹز انڈر دی مغلز میں لکھا ہے کہ مغلوں کی حکومت عروج کے ز مانہ میں دنیا کی شاندار حکومتوں میں سے ایک تھی اور اس کی تمام معاصر حکومتوں میں اس سے زیادہ وسیع اور مستحکم کوئی حکومت نہ تھی۔ اس نے ہندومسلمان دونوں کو متحد کیا،اس کی کارکردگی ایسی تھی جس پر فخر کیا جا سکتا ہے،اٹھارہویں صدی عیسوی میں سر جا ن شور بہت بڑا مدبر گزرا ہے جو حکومت کے نظم ونسق میں بڑ اماہر سمجھا جاتا تھا،اس کا بیان ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی برسر اقتدار ہوئی تو اس وقت صوبوں کے نظم ونسق میں ابتری ضرور تھی لیکن اس کا جو نظام تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں کی حکومت استحکام اور دانش مندی کی مضبوط بنیاد پر قائم تھی جس میں مختلف فرقوں کے حقوق کی پوری حفاظت تھی۔ ہندوؤں کے لیے قوانین ان ہی کے بنائے ہوئے تھے جن پرسختی سے عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جاتی۔

عیسائیوں کی اصلی فطرت

            یورپ او ر امریکہ کے عیسائی بظاہر بہت مہذب،متمدن اور شائستہ نظر آتے ہیں ۔وہ اخوت، مساوات اور جمہوریت کے حامی بھی ہیں ،علوم و فنون کے بہت بڑے سر پرست بھی ہیں ۔ سائنس کی ترقی میں ان کے کارنامے بے مثال ہیں لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان سب کارناموں میں ان کی فطرت کی بنیادی کج روی کارفرما رہتی ہے ان کی تہذیبی اور تمدنی زندگی میں جو فاسقانہ اور فاجرانہ رنگ پیدا ہو گیا ہے وہ بھی اسی کج روی کا مظاہرہ ہے اور ان کی تہذیب خود ان کے خنجروں سے ہلاک ہو رہی ہے۔ ان کی اخوت کے دعویٰ میں بھی ان کی اپنی مصلحت اندیشی ہوتی ہے مساوات کی حمایت میں بھی ان کی خود غرضی شامل ہوتی ہے اور ان کی جمہوریت توسیاسی استحصال کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔علوم و فنون کی سر پرستی میں بھی ان کی نظر و فکر کی وجہ سے مذہب میں ژولیدگی،معاشرہ میں پرا گندگی اور سیاست میں فریب کاری پیدا ہو گئی ہے،پھر ان کی معروضی تاریخ نویسی قوموں میں باہمی منافرت پیدا کرنے کے لیے ہے،ان کی حقیقت پسندانہ سوانح نگاری سے اسلاف کی سطوت شکنی ہوتی ہے،ان کی غیر جانبدارانہ تنقید نگاری سے آبروریزی ہوتی ہے۔ان کی ناول نگاری جنسی جرائم کی پردہ پوشی کے لیے ہے،شعر و ادب میں بشری اور نفسیاتی تقاضے کے بہانے قلم میں بے باکی،تحریر میں بے راہ روی اور انداز بیان میں فتنہ انگیز ی کی ترویج ہو رہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سائنسی علوم کو ترقی دے کر انھوں نے انسانی راحت وآسائش کی خاطر بے شمار چیزیں ایجاد کیں ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ایسے جنگی اسلحہ، ہوائی جہاز،بم اور زہریلی گیس بھی ایجاد کی ہے جن کے ذریعہ سے نہ صرف ایک علاقہ یا ایک ملک یا ایک بر صغیر بلکہ پورا بر اعظم چند دنوں میں راکھ   کا ڈھیر کیا جا سکتا ہے ان ایجادات کا تصور ہی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہ فطرۃً ظالم اور طبعاً سفاک ہیں اور اگر ان کی پوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس ظلم اور سفاکی کا پورا نقشہ سامنے آ جائے گا،آئیے ذرا ان کی تاریخ کے ایسے پہلو پر بھی ایک سرسری نظر ڈالی جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ انھوں نے خود اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں اس کی کچھ جھلک ہم گزشتہ اوراق میں بھی دکھا چکے ہیں ، کچھ اور دیکھیے۔

عیسائی حکمرانوں کے مظالم

            ولیم اول نے ١٠٦٦ء میں انگلستان کو فتح کیا تو اس کے حکم سے مفتوحہ علاقوں کے گھر،کھلیان اور کھیت وغیرہ سب کچھ جلا دیے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ مرد و زن،بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا،لن گارڈ نے تاریخ انگلستان جلد دوم میں لکھا ہے کہ یارک اور ڈرہم کے علاقے اس طرح برباد کر دیے گئے تھے کہ نو سال تک وہاں کی زمین کھیتی کے لائق نہیں رہی۔ انگلستان کے کچھ مورخین ایسے سفاکانہ واقعات کی تاویل کر کے ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دوسرے ملکوں کے ایسے واقعات میں خوب رنگ آمیزی کرتے ہیں ۔

            روس کا حکمران آئیون چہارم (١٥٨٤ئ۔ ١٥٣٠ء )آئیون مہیب (ٹریبل )کہلاتا،وہ اپنے غلاموں کو اپنی نجی ملکیت سمجھتا،اور کہتا کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے ان کو ہلاک کر دے اور جب تک چاہے ان کو زندہ رہنے دے،اس کو کلیسا کے پادریوں سے شکایت رہتی کہ وہ کاہل ہیں ،عبادت نہیں کرتے اس لیے کلیسامیں جا کر قیام کرتا اور کبھی کبھی رات رات بھر ان سے عبادت کراتا،ا س نے تو بائبل کو بھی بدل دینے کی کوشش اور اپنی طرف سے اس کا ایک نسخہ تیار کر کے اس کو رائج کرانے کی کوشش کی۔                                                  (روس از ڈبلیو۔آر۔مورفل  ص٦٩۔٦٧)

            سولہویں صدی میں فرانس کے حکمراں چارلس نہم اور اس کی ماں کیتھرائن نے مل کر سینٹ بار تھیمیلو کے میلے کے موقع پر ساڑھے دس ہزار پروٹسٹنٹ کو قتل کرا دیا،تو کیتھولک چرچ نے خوشی کے شادیانے بجائے۔

                                              (انسائیکلو پیڈیا آف بری ٹانیکا،گیارہواں ایڈیشن ج١٠  ص ٨٣١۔٨٢٩)

            لوئی پانزدہم اپنی داشتاؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہا اس کے زمانہ میں ژان سینی تحریک مذہبی اور سیاسی احکام کے خلاف چلی تو اس کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔                        (ایضاًص  ٨٤٩۔٨٤٧)

            روس کا شہنشاہ پیٹر (١٧٢٥ء۔١٦٧٢ء) اپنے کارناموں کی وجہ سے پیٹر اعظم کہلاتا مگر جہاں اس میں بڑی عظمت تھی وہاں اس کے مزاج میں اتنا غصہ تھا کہ پھر ایسے مظالم کرنے پر اُتر آتا کہ لوگ ان کو دیکھ کر تھرا اُٹھتے،اس کے راستے میں جو کوئی رکاوٹ پیدا کرتا اس کو نیست و نابود کر دینے میں تامل نہ کرتا۔وہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے معمہ بنا رہا،اس کے قریب ترین ساتھی بھی باخبر نہیں ہوتے کہ وہ کس وقت کیا کر بیٹھے گا اس کے بارہ میں مشہور تھا کہ اس کا غصہ طوفانی ہوتا وہ کسی سے نفرت کرتا تو اس کی پوری بیخ کنی کر کے دم لیتا،اس کی ضیافت میں بڑی سر مستیاں ہوتیں اور اس کی تفریحیں بڑی پیچیدہ ہوتیں اس نے اپنے لڑکے الیکزیسن کو پھانسی کی سزا دلوائی،اس لیے کہ اس کی حرکتیں اس کو پسند نہیں تھیں ،اس نے اپنی ایک بیوی کو خانقاہ میں بند کر کے نن بننے پر مجبور کیا کیونکہ اس شبہہ تھا کہ وہ پادریوں سے مل کر اس کے خلاف باغیانہ سازش میں ملوث ہو گئی تھی،اس نے کلیسا میں اپنی خواہش کے مطابق اصلاحات کیں تو پادریوں نے اس کو قتل کر دینے کی دھمکی دی۔

                      (روس،از ڈبلیو۔ای مورفل ص ١٧٣۔١٦٢، انسائیکلو پیڈیا بری ٹانیکا،گیارہواں ایڈیشن)

            سترہویں صدی میں جرمنی میں پر و ٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کی جنگ شروع ہوئی تو یہ یورپ کی تیس سالہ جنگ کے نام سے مشہور ہوئی،یورپ کی بہت سی حکومتیں اس میں الجھ گئی تھیں ،مورخین کا بیان ہے کہ اس لڑائی میں بو ہیمیا کے ٣٥ ہزار گاؤں میں صرف ٦ ہزار باقی رہ گئے تھے،بویریا، فرینکونیا اور سوابیا میں غارتگری ایسی کی گئی تھی کہ یہ سارے علاقے قحط اور امراض سے تباہ ہو کر ویرا ن ہو گئے۔جرمنی میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی تھی اس جنگ کے بعد ساٹھ لاکھ رہ گئی،اے جے گرانٹ اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس سے صنعت و حرفت اور علوم و فنون کا فقدان ہو گیا۔ لوگوں کے خیالات اور اعمال میں ایک وحشیانہ انداز پیدا ہو گیا،مذہب،تدبر اور سیاست کا کوئی بلند معیار باقی نہ رہا،آئر لینڈ کے سوا اور کوئی ملک ایسے جہنمی عذاب میں مبتلا نہیں ہوا۔

                        (تاریخ یورپ از اے۔ جے گرانٹ،اردو ترجمہ ص ٧٧٧)

            انیسویں صدی میں ١٨٣١ء میں یونان کے علاقے موریا میں تین لاکھ اور یونان کے شمالی حصہ میں ہزاروں مسلمان مرد،بچے اور عورتیں بڑی بے رحمی سے ہلاک کی گئیں ۔تفصیل مارماڈیوک پکتھال کی کتاب دی کلچرل سائڈ آف اسلام میں پڑھی جا سکتی ہے۔

            یورپ میں تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد خوں ریز لڑائیاں ہوتی رہیں ہیں اور ان سے جو غارتگری ہوتی رہی اس کی تاریخ المناکی سے بھری ہوئی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں انسانوں پر جو الم انگیز مصائب آئے اس کا ذکر گزشتہ اوراق میں آ چکا ہے،دوسری عالمگیر جنگ میں روسیوں کے تیس لاکھ سپاہی جرمن حملہ آوروں کے اسلحہ سے ہلاک ہوئے ان کے ملک کے آٹھ لا کھ مربع میل کے علاقے بالکل تباہ کر دیے گئے،اسی جنگ میں برطانیہ کے چھ لاکھ سپاہی مارے گئے اورچالیس لاکھ مکانات برباد ہوئے،فرانس کو چھبیس ملین ڈالر کا نقصان پہونچا،یہاں کے پانچ لاکھ گھر تہس نہس ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ خاندان بے گھر ہو گئے،کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے زمانہ میں پورے یورپ میں ایک کروڑ سے زیادہ سپاہی موت کے گھاٹ اترے،اور دو کروڑ سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے اور خدا جانے کتنے لنگڑے لولے اور بے کار ہو کر زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہوئے،چار سو ملین ڈالر کی املاک تباہ ہوئی۔

(ماڈرن یورپ از سی۔ڈی ہیزن،باب ٣٨۔١٩٧٩ء ایڈیشن)

اسی جنگ کا یہ واقعہ بھی ابھی تک لوگوں کے ذہن میں ہے کہ اخوت،مساوات اور جمہوریت کے علمبردار عیسائیوں نے جاپان کے شہروں میں سے ہیرو شیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرا کران کے لاکھوں مردوں ،عورتوں ،بوڑھوں اور بچوں کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اس طرح اتار دیا گیا کہ چنگیز اور ہلاکو کی سفاکیاں بھلا دی گئیں ۔

            اور ابھی کچھ دن پہلے ویٹ نام میں امریکہ کے عیسائیوں نے تیس سال تک جنگ کی،لندن کے اخبار ٹائمس میں چھپا ہے کہ اس مدت میں امریکی فضائیہ نے اٹھارہ لاکھ ننانوے ہزار چھ سو اڑسٹھ حملے کیے۔ سرسٹھ لاکھ ستائیس ہزارچوراسی ٹن بم گرائے،وہاں کے نباتات کو تباہ کر نے کے لیے ایک کروڑ نوے لاکھ گیلن کے تباہ کن مادے پھینکے،٣٥ لاکھ ایکڑ زمین پر زہریلی دوائیں چھڑکی گئیں ،جن کا زہر خیال ہے کہ ایک سو برس تک کام کرتا رہے گا۔ ایک کروڑ افراد بے گھر ہوئے ان کے بچے یتیم ہوئے،پندرہ لاکھ ساٹھ ہزار شہری مجروح ہوئے،چھتیس لاکھ باسٹھ ہزار آدمی مارے گئے۔

            یہ سفاکی،بے دردی اور ستم آرائی بلکہ خونخواری اور درندگی عیسائیوں کی طرف سے ہوئی جن کے پیغمبر نے یہ تعلیم دی تھی کہ جو تیرے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو اس کے سامنے اپنا بایاں گال بھی پھیر دے،جو تجھ کو ایک میل بیگار لے جائے تو اس کے ساتھ دو میل جا،جو تیرا کوٹ مانگے تو اس کو اپنا کرتہ بھی دے دے،کیا عیسائیوں اور ان کے فرماں رواؤں نے بلکہ ان کے مذہبی پیشواؤں نے اس پر کبھی عمل کیا ؟ان کی تاریخ نویسی کا طلسم سامری بھی ان کے ان جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔مگر وہ اب عیسائی مذہب کے پیرو کب رہے،انھوں نے اپنی بظاہر چمکدار زندگی کے جو روزمرہ اصول بنا لیے ہیں ،یا اپنی مصنوعی تہذیب کے جو ضابطے مقرر کر لیے ہیں یا اپنی عیاشیانہ زندگی کی تسکین کے لیے جو رسم و رواج رائج کر لیے ہیں ان ہی کی پابندی کرنا ان کی شریعت ہے۔

 یہی حال ان کی پاپائیت کا ہے جو کلیسامیں بیٹھ کر اپنے ظاہر ی کروفر سے دنیا کو تو مرعوب کر لیتی ہے،مگر اپنے پیرووں کو وہ مذہبی زندگی بسرکرنے پر آمادہ نہیں کرسکتی جس کی تعلیم حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دی تھی،اسی لیے یہ پاپائیت بھی اسی فطری کج روی میں مبتلا ہے جس میں عیسائی اور عیسائی حکمراں رہے ہیں ۔

٭٭٭

ماخذ: ماہنامہ دار العلوم، دیو بند

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید