FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ افسانوی ترجمے

               مدیر: اجمل کمال

 

تعارف

               اجمل کمال

ابراہیم جُبیرا فلی پینز سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کہانی کا ترجمہ عطا صدیقی نے کیا ہے۔

ابیوسے ڈی نکل (Abioseh D. Nicol) افریقی ملک سیرالیون میں پیدا ہوے اور انھوں نے نائیجیریا اور سیرالیون میں ابتدائی تعلیم پانے کے بعد برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ وہ افریقی فکشن نگاروں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اور ان کی کہانیاں، مضامین اور نظمیں برطانیہ اور امریکا کے ادبی رسالوں میں شائع ہوتی رہی ہیں اور افریقی تحریروں کے کئی انتخابوں میں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ ان کی ایک کہانی The Devil of Yolahun Bridge کا ترجمہ "یولاہُن پُل کا بھُتنا” کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ترجمہ عطا صدیقی نے کیا ہے۔

ریشارد کاپوشنسکی (Ryszard Kapuscinski) پولینڈ سے تعلق رکھنے والے اخبارنویس اور ادیب ہیں۔ ان کی کتاب Shah of Shahs کا اردو ترجمہ "شہنشاہ” کتب خانہ پیپر بیک سیریز میں شائع ہو چکا ہے۔ کاپوشنسکی کے جس مضمون کا ترجمہ موجودہ شمارے میں پیش کیا جا رہا ہے وہ Startled in the Dark کے عنوان سے برطانوی جریدے "گرانٹا” کے شمارہ ۴۸ (خزاں ۱۹۹۴) میں شائع ہوا تھا۔

٭٭٭

 

               ابراہیم ایم جُبیرا

               انگریزی سے ترجمہ : عطا صدیقی

جھرّیاں

شہر کے کاروباری علاقے کے قلب میں واقع یہ گھر ایک اونچا یک منزلہ مکان تھا جس کو یہ فوائد حاصل تھے کہ ایک طرف تو جب مطلع صاف ہوتا شمال میں واقع پہاڑ کا تھوڑا بہت نظارہ کیا جا سکتا تھا اور دوسری طرف جنوب سے اُمسائی ہوا کے وہ جھونکے آ جاتے تھے جن میں سمندری جانوروں کی مخصوص بساند بسی ہوتی تھی۔ تنگ و نیم تاریک گلی میں داخل ہوتے ہی ایک طویل زینہ تھا جو اوپر ایک ڈیوڑھی پر ختم ہوتا تھا جہاں سے پوری گنجان بستی نظر آتی تھی۔ گھر کے مالک کی اُپج کے طفیل ڈیوڑھی کی شہ نشین کے اطراف رنگین چلمنیں پڑی تھیں تاکہ موسم گرما مںی تیز اور چلچلاتی دھوپ کو روکا جا سکے اور جب طوفانی موسم آئے تو باد و باراں سے بچا جا سکے۔

            تقریباً دس برس سے اس مکان میں شیخ عبدالغفار کا چھوٹا سا کنبہ رستا بستا تھا۔ بوڑھا شیخ اپنے سبز عمامے، گلابی عبا، خاکی چپّلوں اور سونے کی موٹھ والی چھڑی سے مزیّن، یہاں عیش و آرام والی قابلِ رشک زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ایک محنتی آدمی ہے جس نے اپنی زندگی ایک قلّاش کی طرح شروع کی تھی۔ جب وہ اپنے پرانے وطن کو ترک کر کے یہاں آیا تھا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی، اور اب انجام کار اس نے اتنی دولت جمع کر لی تھی کہ تمام عمر ختم نہ ہو۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ شیخ عبدالغفار جس شے کو چھُو دے وہ فوراً سونا بن جائے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ بوڑھے شیخ سے زیادہ مصروف کوئی نہ ہو گا۔ دن بھر وہ گھر سے باہر ہی رہتا اور اپنی جواہرات کی دکان اور دیگر چھوٹے موٹے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا اور شام کو گھر لوٹ کر شراب کی چسکی لگاتا اور اپنی رقم گنتا۔ اور ترنگ میں آتا تو اپنے دقیانوسی گراموفون سے گانے سنتا یا پھر اپنی بیوی کی گرم آغوش سے لطف اندوز ہوتا۔ گھر میں اس کی بیگم کی دُسراہٹ کے لیے ایک دور پرے کی سالی بھی رہتی تھی۔ اُس کا نام صوفیہ تھا۔ صوفیہ ایک بن بیاہی عورت تھی جو چالیس کے پیٹے میں تھی اور جس کا پانچ سال پرانا گٹھیا کا مرض اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس کا برتاؤ صوفیہ کے ساتھ اتنا ہی ظالمانہ تھا جتنا اُس کے ناکام معاشقے کا۔ تیس برس سے ذرا زیادہ عمر کی زہرہ صوفیہ سے زیادہ خوش نصیب تھی۔ لا ولد ہونے کے باوجود وہ شیخ کی بیوی ہونے کے ناتے زندگی کے مزے لُوٹ رہی تھی۔ وہ اس تصور میں مگن رہتی تھی کہ پختہ سِن ہو جانے کے باوجود اس نے اپنی طراوت کو برقرار رکھا ہوا تھا جس پر نئی نسل انگاروں پر لوٹتی تھی۔ رہی اس کے چہرے کی بناوٹ تو اب بھی اس کی ناک کا بانسہ اونچا اُٹھا ہوا تھا۔ اس کی گہری آنکھوں کو گھنی بھنووں نے اور بھی نمایاں کر رکھا تھا۔

            صوفیہ اور زہرہ دور کے رشتے سے خالہ زاد بہنیں تھیں۔ جب ان کی ملاقات ہوئی تھی دونوں ہی بڑی ہو چکی تھیں۔ پرانے وطن میں والدین کی وفات ہو جانے کے بعد صوفیہ کو اس کے ایک ماموں نے پالا تھا۔ چند برس بعد وہ ماموں بھی کسی انجانے مرض میں الله کو پیارا ہو گیا تو اس کو اپنی خالہ کے ساتھ اس نئے آزاد ملک میں رہنا پڑا، اس انوکھے "فری فِین” میں۔ شروع میں ہی چھوٹی چھوٹی بد گمانیوں سے ان دونوں کے دلوں میں بال پڑ چکے تھے لیکن زہرہ کے والدین کی موت کے بعد یہ ان دونوں کی ضرورت تھی کہ وہ ایک دوسرے کی رفاقت سے اس کی صبر آزما ناخوشگواری کے باوجود چمٹی رہیں۔ اگر اب ان کے دلوں میں حسد کی تلخی تھی بھی تو انھوں نے کمال عیاری سے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ یہ بغض کبھی کبھار غیر شعوری طور پر ظاہر ہو جاتا لیکن اس وقت تک وہ اتنا تشویش ناک نہیں ہوا تھا کہ شیخ کے گھر کے سکون کو درہم برہم کر دیتا۔

            طبیعت جولانی پر ہوتی تو دونوں خالہ زاد بہنیں ڈیوڑھی کی شہ نشین میں بیٹھ کر سستاتیں اور خوش گپّیوں میں وقت گزارتیں۔ جب یوں ہوتا تو صوفیہ آرام کرسی پر بیٹھ کر کشیدہ کاری کرتی۔ زہرہ کبھی سوزن کاری میں دیدہ ریزی نہ کرتی بلکہ جھولنے والی کرسی میں بیٹھ کر اپنی خلیری بہن کو دیکھتی اور اُس سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ کبھی کبھار وہ اپنے جُوڑوں کو بنا سنوار کر اپنی کَسی چولیوں میں ہی اپنی گات کو ابھارتیں اور فرمائشی قہقہے لگا کر لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ ان کی یہ پُر اسرار حرکات، جن کا راز انھوں نے چالاکی سے اپنے تک رکھا ہوا تھا، دراصل ان کی اپنی پڑوسنوں کی نقّالی ہوتی تھی کہ وہ کس طرح اٹھتی بیٹھتی تھیں، ان کی روزمرّہ کی عادتیں اور یہ کہ ان کے شوہر ان کی کیسی گت بناتے تھے۔

            "ذرا سوچو تو” صوفیہ ایک سہ پہر پڑوسیوں کے اس ایک سے اُکتا دینے والے موضوع کو چھوڑ کر بولی۔ "اور کیا، ذرا سوچو تو…” اُس نے کاڑھنے سے ہاتھ روک کر کہا۔ "کسی نے کبھی کاہے کو سوچا ہو گا کہ شیخ تمھارا ہو جائے گا اور تم یوں ٹھاٹ کرو گی؟” مگر جی ہی جی میں اُس نے یوں کہا: جو کچھ تمھارا یہاں ہے اس پر میرا بھی پورا حق بنتا ہے۔ میں تم سے عمر میں کافی بڑی ہوں۔ بخدا ایک وقت تھا کہ تمھارا میاں تھوڑا بہت میرے قبضے میں بھی تھا۔ وہ تو تمھاری بے حیائی نے․․․

            زہرہ نے اپنی خالہ زاد بہن پر نظر ڈالی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "اے لو، ہر ایک کو اس بات کی امید تھی۔ یاد نہیں جب شیخ محمود نے میرا ہاتھ دیکھا تھا تو کہا تھا: زہرہ، اپنی آنے والی بختاوری پر الله کا شکر ادا کرو۔ یہ لکیریں بتاتی ہیں․․․”

            "ارے وہ کھوسٹ نجومی… اور یاد ہے اُس نے مجھ سے کیا کہا تھا؟ کیا وہ بد فال نہیں تھی؟ میں نے تو اُس کا ٹینٹوا دبا دیا ہوتا․․․” اُس لمحے صوفیہ کے پتلے حسّاس جبڑے کپکپاتے ہوے یوں بھنچ گئے گویا وہ اپنی کسی اندرونی تکلیف کو دبا رہی ہو۔

            "اوہو صوفیہ، اب اُس پر اتنا غصّہ تو نہ کرو۔ اُس نے تو ایک سچی بات کی پیش گوئی کی تھی۔”

            صوفیہ نے اپنی خالہ زاد بہن کی طرف حیرت سے دیکھا اور جل کر بولی، "سچی بات! حضور کے روضۂ پاک کی قسم، ذرا سوچو اُس نے کہا کیا تھا؟ صوفیہ، تم اب کسی آدمی کا دامن کیوں نہیں تھام لیتیں؟ اگر تم نے یہ نہ کیا تو تمھاری جان کی خیر ہو، تمھاری شادی پھر کبھی نہ ہو سکے گی۔”

            زہرہ دل کھول کر اتنا ہنسی کہ اُس کے آنسو رواں ہو گئے۔ مگر اپنی خالہ زاد بہن کے چہرے پر کرب دیکھ کر اُسے فوراً احساس ہوا کہ اس ہنسی سے اُس کی خالہ زاد بہن کو اذیت پہنچی ہے تو اُس نے دم سادھ لیا۔

            اُس نے اپنی انگیا کے اندر سے رومال نکالا اور اپنی آنکھیں پونچھنے لگی۔ نتیجتاً کچھ وقت کے لیے سکوت چھا گیا جس میں شہر کے کاروباری علاقے کی بھنبھناہٹ در آئی۔ سورج کی شعاعوں نے فرش پر روپہلی پٹی بنا دی تھی۔ زہرہ رنگین چلمنوں میں سے ایک کو گرانے کے لیے اٹھی اور پھر بیٹھ کر اپنی خالہ زاد بہن کو اپنا کام کرتے دیکھتی رہی۔

            کچھ دیر کے بعد ہی زہرہ گفتگو کے ٹوٹے دھاگے کو پکڑ سکی۔ "یہ کام کب تک نبیڑ لو گی؟” اور جی ہی جی میں یوں کہا: دُکھیا بڑی بی، ایسی باتیں دل پر کیوں لیتی ہو؟

            صوفیہ بولی، "اب ایسی جلدی بھی کیا ہے۔ شاید ایک آدھ ہفتے میں نبٹ جائے۔” اس نے سامان ایک طرف کیا اور اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔ پہلے اس نے کاروباری اور رہائشی عمارتوں کو تکا اور پھر دور دراز نیلے پہاڑ کی جانب رُخ کر لیا تاکہ اپنی تھکی نگاہوں کو چین دے سکے۔ زہرہ نے اپنی پنکھیا اٹھا لی اور جھلنے لگی۔ دونوں پھر گم سم ہو گئیں۔

            اس مختصر سے پُر سکون لمحے میں صوفیہ تصور ہی تصور میں اپنی جوانی کے ہنگامہ خیز دنوں کے گذرے واقعات کو سلسلہ وار چھوٹی چھوٹی تصاویر کی صورت میں دیکھنے لگی۔ تلخ اور شیریں پریشان کن احساسات اُس کے ذہن میں روانی سے گزرنے لگے، اوّل اوّل تو بالکل اُس چڑیا کے بچے کی طرح پھڑپھڑا کر جو اڑان کے لیے پر تول رہا ہو، اور پھر تو انھوں نے بپھرے تاریک پانی کے سیلاب کی طرح اس کے سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اُسے شیخ سے اپنا معاشقہ یاد آیا جو اُس وقت ادھیڑ عمر تھا۔ ایک مرتبہ وہ مغرب کی نماز کے بعد کسی طرح پرانی مسجد سے چپ چاپ نکل آئے تھے اور پھر چند دنوں کے چوری چھپے چاؤ چونچلوں کے بعد شیخ نے کم سن زہرہ کا رشتہ مانگنے کا فیصلہ کر لیا۔ آخر کیوں؟ کیا اس کا سبب یہ تھا کہ زہرہ زیادہ قبول صورت اور ہری بھری تھی جبکہ وہ یعنی صوفیہ․․․ اُس کے گٹھیا مارے پیروں میں سوئیاں سی چبھنے لگیں اور وہ اپنے دُکھتے پیروں کو سہلانے کے لیے جھکی۔ یہ کام اُس نے بالکل بے نیازی سے کیا۔ دراصل اس نے خود اپنے دل میں اسے بے نیازی ہی گردانا   اپنی زندگی، اپنی صحت، اپنے عشق اور اپنی شادی سے بے نیازی۔ اچانک اس کے اندر ہوا سے دہکائے ہوے شعلے کی طرح حسد کی چنگاری اُڑی لیکن اس نے تحمل سے بظاہر اپنے پُر سکون وقار کو برقرار رکھ کر اُسے قابو میں کر لیا۔

            "مجھے حیرت ہوتی ہے زہرہ، کہ شیخ عبدالغفار اب تک تم سے کیوں چپکا ہوا ہے؟ تم ہو نِپُوتی، اور مسلمانوں کے رواج سے اُسے دوسری کر لینا چاہیے۔”

            "وہ نہیں کر سکتے” زہرہ نے اتنی سُرعت سے جواب داغا کہ بجلی کے کڑاکے کی طرح اس نے صوفیہ کو حواس باختہ کر دیا۔

            "کیوں؟”

ُ            "میرے اب بھی وہی چم خم ہیں۔ کبھی تم نے دیکھا ہوتا کہ وہ کیسی نظروں سے مجھے سراہتے ہیں، اور اگر حقیقت یوں نہ ہوتی․․․”

            "اچھا تو اب بھی وہ تم سے جی لُبھاتا ہے! اری زہرہ، اب ایسی بھولپن کی بات تو نہ کرو۔ دس برس تمھارے ساتھ یوں گزار کر کیا وہ اُوبھ نہیں جائے گا؟ بغیر کسی دوسری عورت کی تلاش کے رہ جائے گا جو اُس کو․․․”

            "کیا بک رہی ہو صوفیہ!”

            "میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ شیخ کو اپنی اولاد کا ارمان ہو گا اور وہ اس کو بھلا کس طرح مل سکے گی؟”

            "خیر۔ اُس نے ابھی تک تو یہ بات نکالی نہیں۔ علاوہ اس کے، اُس جیسی عمر کے آدمی کو مجھ جیسی بیوی پا کر چین سے بیٹھ جانا چاہیے۔ میں تو آخر شادی کے وقت بہت کم سن تھی اور دیکھنے میں اب بھی میں کوئی بُری نہیں ہوں۔”

            پھر خاموشی۔ اَور خاموشی۔ دونوں خلیری بہنیں اپنے اپنے خیالات میں گم نظر آتی تھیں۔ بازار کی فٹ پاتھ پر اخبار فروش لونڈے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے۔ پڑوس کی دھوبنوں نے اپنی بے ہودہ غیبتیں کرتے ہوئے، صابن گھُلا مَیلا پانی کھڑکیوں سے باہر فرش پر پھینکا۔

            "تم نے جو یہ کہا زہرہ کہ تم بہت چھوٹی تھیں، مگر اب تو نہیں ہو۔ کیا تم نے اِن دنوں اپنے چہرے پر نظر نہیں ڈالی؟ تمھارے دہانے اور آنکھوں کے آس پاس ہلکی ہلکی جھرّیاں پڑ رہی ہیں۔”

            "کیا واقعی؟”

            "اچھا ہو اگر اندر جا کر خود کو آئینے میں دیکھ لو۔”

            "ہوں گی، ہوں گی۔ پروا نہیں۔ میں نے تو جی بھرپور زندگی گزار لی۔”

            تو گویا اب اُس کے چہرہ پر جھرّیاں پڑ گئی تھیں، اور نظر بھی آئیں تو سب کو چھوڑ کر صوفیہ کو، اور پھر اس نے جتا بھی دیا۔ اس حرکت نے زہرہ کے نازک مزاج کو کبیدہ کر دیا لیکن اُس نے دوسری عورت کی کہی بات کا اثر خود پر یوں ہی سا ظاہر کیا۔ بات کو مزید تلخ بنا دینے کے لیے صوفیہ نے مندرجہ ذیل اعلان داغ دیا۔

            "سوچو تو بھلا تمھاری زندگی کتنی مختلف ہوتی جو کہیں تم نے احمد الجناح سے شادی کر لی ہوتی۔” اور جی ہی جی میں اس نے یوں سوچا: اور میں شیخ کو پا سکتی اگر وہ تمھاری ہر وقت کی مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ پر سِڑی نہ ہو گیا ہوتا۔ دیکھو زہرہ، تم نے میرے منھ میں آیا ہوا تَر نوالہ اُچک لیا۔

            "ارے وہ لفنگا! میری نظر میں تو وہ ایک جانگلو چاپلوس لینڈی کتا تھا۔”

            "ہائے کیوں زہرہ! وہ تو جوان تھا، سجیلا تھا۔ بخدا وہ تو تم سے شادی کر لیتا اگر شیخ نے تمھارے ابّا کو بہت سارا چڑھاوا نہ پیش کیا ہوتا۔” یہ کہتے ہوے اس کے دل میں تاراج کر دینے والی خواہشات اُبل پڑیں۔

            "میں مانتی ہوں مجھے احمد سے لگاؤ تھا، اور جیسا تم نے کہا وہ نوجوان بھی تھا، کڑیل بھی تھا۔ پر بی، کوئی خالی خولی محبت اور جوانی پر گزارا نہیں کر سکتا۔ آخر کل کا آسرا سب سے پہلے چاہیے۔ اس میں شک نہیں، میرا اُس کے ساتھ جی بڑا لگتا تھا۔”

            "یاد ہے کتنے جگ بیت گئے؟”

            "دنوں کی گنتی میں چھوڑ چکی۔”

            "پتا نہیں اب وہ کہاں ہے۔ جب سے یہاں سے گیا ہے اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔”

            "پرانے وطن لوٹ گیا ہو گا۔ یا ہو سکتا ہے کہ سنگاپور کے عرب کوچوں میں کہیں مارا مارا پھر رہا ہو۔ کون جانے؟ بے چارہ! دل اُس کا ضرور ٹوٹ گیا ہو گا۔”

            "یاد ہے، تب تم بہت بے چین رہتی تھیں؟”

            "رہتی تو تھی، پر تم تو جانتی ہو جب ابّا اماں حیات تھے تو حالات کیا تھے۔ انھوں نے کہا: شیخ سے شادی کر لو اور آسودگی سے گزارو۔ یوں تمھارا مستقبل محفوظ ہے۔”

            اپنی افتادِ طبع کے سبب صوفیہ اپنی پراسرار ناقابلِ اندازہ شخصیت کی بغل میں دغا کی چھری چھپائے رکھتی تھی، جس کو اس نے اِس وقت اپنی خلیری بہن کو ایک اندرونی کچوکا لگانے کے لیے استعمال کیا۔ وہ بولی، "کیوں جی، شادی سے پہلے کسی آدمی سے آشنائی کے بارے میں شیخ نے کبھی تم سے کچھ بھی نہیں پوچھا؟”

            "احمق مت بنو۔ لے دے کے یہی ذکر تو رہ گیا تھا جیسے۔”

            "اب ناراض مت ہو زہرہ۔ میں تو بس یوں ہی جاننا چاہ رہی تھی۔”

            "یقین جانو کبھی نہیں پوچھا۔ مجھے اس سے ایسی امید بھی نہیں۔ بھلا اس کا اس معاملے سے کیا واسطہ۔”

            "اے بی کم از کم ․․․”

            "تب میں اس کی بیوی کب تھی!”

            "پر کم از کم تمھیں چاہیے تھا کہ اُسے بتا دیتیں۔ اپنے شوہر کو اندھیرے میں رکھنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ تو کلام پاک میں بھی لکھا ہے۔” اور جی ہی جی میں اُس نے یوں سوچا: میں تو اُس کو بتا سکتی تھی کہ میری زندگی میں بس وہی ایک مرد آیا تھا، اور جو میں نے خود کو اس کے سپرد کر دیا تھا تو اس کی وجہ میرا یہ خیال تھا کہ․․․

            "بس اب ان بیتی باتوں کو جانے دو صوفیہ۔”

            "اچھا تم کو دکھ ہوتا ہے تو جانے دو۔”

            رات شیخ اور اس کی بیوی معمول سے کچھ پہلے ہی سونے کے لیے آرام گاہ میں چلے گئے لیکن وہ فوراً ہی سونے کے لیے نہیں لیٹے۔ شیخ تو حسبِ عادت نشہ پانی اور اپنے دقیانوسی گراموفون کے گانوں میں مگن ہو گیا جبکہ زہرہ ایک سبز سوفے پر بیٹھ کر خود کو اپنے شوہر کی دلچسپیوں میں شریک ظاہر کرنے لگی۔ دقیانوسی عربی گانوں سے اس کی طبیعت اُلجھتی تھی۔ دراصل وہ بیزار تھی اور اپنی جگہ بیٹھی پہلو بدلتی رہی اور دعا کرتی رہی کہ شیخ جلد ہی اپنے اس خنّاس سے فارغ ہو جائے اور سونے لیٹے، لیکن اس میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ وہ اپنے شوہر پر یہ بات ظاہر کر دے۔ بارے اسے نجات مل ہی گئی۔ اُس شخص نے اپنا عمامہ اتارا اور سونے لیٹ گیا۔ گھڑیاں کی ٹک ٹک کے علاوہ اس لمحے مکمل خاموشی تھی۔

            دوسرے کمرے میں صوفیہ سوفے پر بیٹھی کاڑھنے میں مصروف تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے پا رہی۔ جماہی روکنے کے لیے اس نے ہاتھ اٹھایا۔ ایک آدھ بار اس نے کان کھڑے کیے تاکہ خفیف سے خفیف سرگوشی بھی جو پاس کے کمرے میں ہو سن سکے۔ چندے اُس نے ہنسی اور دھیمی سرگوشیاں سنیں اور تھوڑی ہی دیر بعد اپنی خلیری بہن پر دبے دبے قہقہوں کا دورہ پڑتے سنا۔ احمقو! بن بیاہی عورت نے سوچا۔ احمق مزا لوٹ رہے ہیں۔ آخر اس شیخ کو ہوش کیوں نہیں آتا؟

            چند ہی دنوں میں اپنی خالہ زاد بہن کی اٹھتے بیٹھتے کی لگاتار اشارتوں سے تنگ آ کر زہرہ اپنی زندگی کے بارے میں متفکر رہنے لگی۔ ایک صبح ناشتے کی میز پر اس نے محسوس کیا کہ ماحول میں کھنچاؤ ہے، بالکل اُس تنے ہوے تار کی مانند جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہو۔ ہر کوئی دوسرے سے نظریں چرا رہا تھا۔ ان کی گفتگو مختصر اور بے جان تھی۔ شیخ کے روزمرّہ کے چٹکلے بھی دونوں عورتوں پر اثر نہیں کر رہے تھے اور اس کی ساری خوش مذاقی گویا سامنے کی دیواروں سے سر پھوڑنے کے لیے تھی۔ شیخ نے ان کو ہنسانے کے لیے جو کچھ بھی کیا پھُس ہو کر رہ گا ۔ شیخ نے فوراً اس عجیب تبدیلی کو بھانپ لیا جس نے اسے پریشان کر دیا۔ اس کی کھلی بانچھیں سکڑ گئیں اور ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں اور اُس نے اپنے باریش دہانے تک اٹھی ہوئی کافی کی پیالی پھر میز پر رکھ دی اور اپنی بیوی سے پوچھا، "کیا بات ہے میری ننّھی؟”

            زہرہ کا سر بھاری ہو رہا تھا، جو ایک جھوٹا بہانہ تھا اور وہ یہ جانتی تھی۔ شیدائی اور شفیق شیخ نے تاسّف کے اظہار میں اپنی زبان ٹٹخائی اور اپنا عمامہ پوش سر افسوس میں ہلایا، اور بیوی سے کہا کہ وہ فوراً جا کر لیٹ جائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اپنی جواہرات کی دکان جاتے ہوے جیسے ہی راستے میں دوافروش کی دکان پڑے گی وہ اس کی دوائی بھجوا دے گا۔ "اور صوفیہ” شیخ نے تنبیہ کی، "خیال رہے جیسے ہی دوا پہنچے تمھاری بہن دوا کھا لے۔” صوفیہ نے پھیکی مسکراہٹ سے اقرار میں سر ہلا دیا مگر بولی نہیں۔

            شیخ کے جانے کے بعد دونوں خلیری بہنیں ایک دوسرے سے کٹی کٹی رہیں۔ ان دونوں میں کبھی جوتم پیزار کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس وقت دونوں کا جی نہ چاہا کہ خوش گپیوں سے دل بہلائیں۔ جب اسپرین کی ٹکیاں آ گئیں تو صوفیہ نے بغیر کچھ کہے اپنی خلیری بہن کو پکڑا دیں، جنھیں زہرہ نے چپ چاپ لے لیا، ڈرائنگ روم پار کیا، ٹکیاں ٹائلٹ میں پھینکیں اور بیڈروم میں گھس گئی۔

            اپنے کمرے کی تنہائی میں زہرہ ان باتوں سے جو ان دونوں کے درمیان ڈیوڑھی میں بیٹھ کر ہوتی رہی تھیں، اور اب اِس وقت کی اس انوکھی خاموشی سے اور زیادہ اُلجھنے لگی۔ جب اُس نے آئینے میں خود پر نظر ڈالی تو صاف ظاہر تھا کہ وہ اب اتنی جوان نہیں رہی جتنی پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہائے، ماہ و سال کے تاریک سائے اس کی سمت بڑھنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے منھ کے کناروں پر اور آنکھوں کے گرد باریک باریک جھرّیاں تھیں۔ یہ تو پھر بھی زمانے کی ڈالی ہوئی جسمانی جھرّیاں تھیں مگر وہ جو درونِ دل تھیں؟ اس کی سوچ گہرائی کی سمت چل نکلی۔ اس کا دھانن اپنی جوانی کی طرف لوٹنے لگا اور اس نے اپنی بیتی زندگی کو یاد کیا۔ احمد الجناح بدّھو تھا۔ وہ چمپت کیوں ہو گیا؟ بڑا ٹوٹ کر محبت کرنے والا تھا وہ۔ پھر اسے دوسرا خیال آیا کہ آیا وہ اس کمینے سے اپنے مراسم کو ہمیشہ کے لیے پوشیدہ رکھ سکتی تھی؟ جو وہ اپنے شوہر کو بتا دے تو کیا ہو گا؟ آخر شیخ نے اسے بہت آسائشیں دی تھیں، کیا اس کا حق نہیں کہ اُسے معلوم ہو؟ بالفرض اگر اس کی خالہ زاد بہن اس کی زندگی برباد کر دینے کے لیے شیخ کو بتا دے․․․ لیکن نہیں، صوفیہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گی۔ آخرکار اس کا اثر معاشی طور پر اُس کی زندگی پر بھی پڑے گا۔

            جوں جوں دن گزرتے گئے زہرہ کی زندگی نے ایک نیا پریشان کن ڈھب اختیار کیا۔ اس نے صوفیہ کے ساتھ ڈیوڑھی میں بیٹھنا چھوڑ دیا، مبادا وہی ذکر پھر نکل آئے۔ اپنے کمرے میں ہوتی تو اکثر وہ آئینہ دیکھا کرتی اور اپنے چہرے کی معمولی سی تبدیلیوں کو دیکھ کر حیرت کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ہلکی جھرّیاں دن بدن زیادہ گہری ہوتی جائیں گی۔ بہرحال، وہ سب اس کے لیے اتنی تکلیف دہ نہیں تھیں جتنی زندگی کی دین اندرونی گہری سیاہ جھرّیاں جن کا تصوّر ہی اس کے اندر ایسی سرسراہٹ پیدا کر دیتا جو ساحل سے ٹکرانے والی موجوں کی طرح بڑھتی چلی جاتی اور اس کے پورے جسم پر چھا جاتی۔ وہ رہ رہ کر دل میں سوچتی کہ اُس کی ان اندرونی جھرّیوں پر دنیا کی نظر نہیں پڑنی چاہیے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ انھیں اپنے ساتھ ہی اپنی قبر میں لے جائے گی۔

            کمرے کے اُس طرف صوفیہ بھی ان ہی کے بارے میں سوچ رہی تھی اور بے کل ہو رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ زندگی کی ان اندرونی تاریک جھرّیوں کو مٹاتے مٹاتے تو پوری عمر بیت جائے گی۔ یہ اس کی سادگی بلکہ حماقت ہی تھی کہ اُس نے اتنا نازک موضوع اپنی خلیری بہن کے سامنے چھیڑا، یہ جانتے ہوے کہ وہ خود بھی عیب سے پاک اور ملامت سے مبرّا نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میاں بیوی نے اپنے راز و نیاز میں کبھی اُس کا ذکر ہی نہ کیا ہو؟ کم از کم اُن کے کسی عمل نے تو ایسا ظاہر نہیں کیا تھا کہ زہرہ کو گھر کے مالک اور صوفیہ کے گذرے تعلق کا مکمل علم ہو۔ یا شاید وہ بھلی عورت یہ سوچ کر کہ اُس کا کوئی سہارا نہیں، اُس کا لحاظ اور مروّت کرتی ہو۔ یا شاید وہ شروع سے ہی سب کچھ جانتی ہو․․․ یہ زہرہ بعض وقت ایک دم بجھ کیوں جاتی تھی؟ لاتعلّق کیوں ہو جاتی تھی؟ یہ سب خیالات گڈمڈ ہونے کے باعث الجھے ہوے خاردار تاروں کی مانند اُس کی کنپٹیوں کو پھاڑ کر نکل آنے کو ہوتے اور انجام کار وہ خود رحمی پر اُتر آتی۔ اسی باعث اُن کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی تھی جس کا سبب خود بوڑھے شیخ کے سوا کوئی نہ تھا۔ صوفیہ نے تلخی سے سوچا کہ جب تک شیخ ختم نہیں ہو جاتا اُس کی یہ خفیہ بے تعلّقی جاری رہے گی اور اُن کی روزمرّہ زندگی کو اندر ہی اندر گھُن کی طرح چاٹتی رہے گی۔

            مگر ایک ہفتے بعد ہی زہرہ کو غیر متوقع حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک سہانی صبح جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو اُس نے محسوس کیا کہ ان کی وہ دل لگی اور چہلیں جو اُنھوں نے اُس دن کی کشیدگی کے بعد دوبارہ شروع کر دی تھیں یکلخت معدوم ہو گئی تھیں۔ یوں لگا جیسے وہ نازک انسانی رشتہ جس سے اُن دونوں کی زندگیاں منسلک تھیں، حالات کے پنجوں نے کھسوٹ لیا ہو، کچھ اس طرح کہ اب جو تھوڑا بہت تعلّق باقی رہ گیا تو اُس کا تسمہ اتنا کمزور تھا کہ ایک جھٹکا بھی برداشت نہ کر سکتا۔ دونوں خالہ زاد بہنیں یہ جانتی تھیں کہ بے کیف زندگی کی تلخی ان کے رگ و پے میں اترتی جا رہی ہے جس سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ زہرہ اس بات کی زیادہ قائل ہو گئی، خاص طور پر جب اُس نے اپنی خلیری بہن کو کاڑھنے سے ہاتھ روک کر گم سم بیٹھے دیکھا۔ وہ ایک ایسے شہید کی طرح جس نے ذلّت اور موت کو قبول کر لیا ہو، سر نیہوڑائے بیٹھی تھی۔ یہ دیکھ کر اس وقت زہرہ کا دل بہت دُکھا۔ وہ صوفیہ سے پوچھنے ہی والی تھی کہ آخر اُسے کیا غم ہے، لیکن اُس کے کم چکنے چہرہ پر بہتے ہوے آنسوؤں نے اسے پوچھنے سے روک دیا۔ چناں چہ زہرہ ایک ایسے پُر سکون وقار کے ساتھ جو گھر کی مالکن کو زیب دیتا ہے، چپ چاپ ڈیوڑھی میں چلی گئی جہاں دھوپ نے فرش پر روپہلی پٹی بنا دی تھی۔ اُس نے ایک رنگین چلمن بہت احتیاط اور نزاکت سے یوں گرائی جیسے اس کی ذرا سی درشت حرکت اُس کی زندگی تباہ کر دیتی، اور جھولنے والی کرسی میں بیٹھ گئی۔ اُس نے سوچا یوں وہ دونوں کی زندگیوں کی اُن اندرونی تاریک جھرّیوں کے بارے میں ایک معقول تناظر میں غور کر سکتی تھی اور پوری طرح جان سکتی تھی کہ انھوں نے اس کی خلیری بہن اور خود اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ آخر کیوں کیا۔

٭٭٭

               اَبیوسے ڈی نِکل

               انگریزی سے ترجمہ : عطا صدیقی

یولاہُن پُل کا بھُتنا

سینڈرسن نے فاؤنٹین پین اپنی انگلیوں میں آہستہ آہستہ گھمایا اور دوسرے ہاتھ سے سامنے پڑی میز کو بجایا۔ اس کی نگاہیں بھٹکتی ہوئی دور دراز کِسّی لینڈ کی ان سرسبز پہاڑیوں کی طرف چلی گئیں جو کہ اس کے ضلعے اور ساتھ کے ضلعے کے درمیان حدِ فاصل تھیں۔ اس نے ایک نظر پھر سے اپنے سامنے پڑے فارم پر ڈالی، جو کراؤن ایجنٹ کے کاغذ پر چھپا ہوا تھا، اور دسویں مرتبہ اُس کو پڑھ ڈالا۔ "ڈسٹرکٹ آفیسرز اینول رپورٹ۔ ویسٹ افریکن کلونیل سروس (کانفی ڈینشیل)۔”

            اس کے نیچے کی خالی جگہ معمول سے کہیں زیادہ پھیلی ہوئی معلوم دی۔ جس وقت سے اس کا سینیئر ڈسٹرکٹ آفیسر میکفرسن چھٹّی پر وطن گیا تھا، اس رپورٹ کا لکھنا اس نے ملتوی کر رکھا تھا۔ چند روز قبل اس نے ہیڈ کوارٹر کے سیکریٹریٹ سے اس کے بارے میں ایک نرم سی یاددہانی وصول کی تھی۔ اس نے سوچا کہ سہ پہر تک اسے یہ کام ضرور نمٹا دینا چاہیے۔

            "موموہ” وہ پکارا۔ نوجوان مغربی افریقی کلرک پاس کے کمرے سے نکل کر آیا۔

            "جتنی بھی سالانہ رپورٹیں ہاتھ لگیں مجھ کو لا دو۔”

            "کوئی پچاس کے قریب ہیں جنابِ عالی” موموہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ پھر اس نے تُرنت ہی اضافہ کر دیا: "لیکن اگر جناب حکم کریں تو میں سب کی سب پیش کر سکتا ہوں۔”

            "پچھلے دس برسوں کی لے آؤ۔”

            جب وہ رپورٹیں آ گئیں تو اس نے ان کو دیکھ ڈالا۔ اسے یہ باور نہ ہو سکا کہ کبھی کسی نے بھی ان کو پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہو گی۔ اس نے تعجب کے ساتھ سوچا، کیا ہو جو وہ ۱۹۳۶ کی رپورٹ لفظ بہ لفظ، کہیں کہیں سے کسی سب چیف یا کسی دیہات کا نام بدل کر، روانہ کر دے، یا پھر ایک سادہ فارم پر کچھ اس قسم کی گول مول تحریر لکھ بھیجے:

            "راز داری میں (جیسا کہ زیر دستخطی کو حکم دیا گیا ہے) عرض ہے کہ افریقی لوگ پچھلے ایک سال میں کچھ زیادہ نہیں بدلے ہیں، بلکہ اُس کے یوروپین ساتھی، جو اس مستقر پر تعینات ہیں، ناقابلِ یقین حد تک بدل گئے ہیں، مثلاً زرد رُو، متذبذب نا تجربہ کاری نے متعدد ہستیوں میں، رفتہ رفتہ لیکن ثابت قدمی سے، حیران کن دھوپ سنولائی اہلیت کو راہ دے دی ہے۔”

            اوں ہوں۔ اوپری حلقوں میں بذلہ سنجی کو سراہا نہیں جاتا۔ تو کیا تاریخی نوٹ سے شروع کیا جائے؟ یا ابتدا علم الانسان سے کرے؟ فیصلہ اس نے مختلف کیا۔ بجائے اس کے یہ مناسب تھا کہ وہ روزمرّہ کے لازمی امور پر توجّہ دے۔ نئی سڑکیں، تجارت میں اضافہ، دیہاتوں سے شہروں کی سمت نوجوانوں کی نقل مکانی… تو پھر چل میرے خامے…

            "معاف فرمائیے جناب عالی، میں نے اب تک جناب کے رواں ہفتے کے اپائنٹ منٹس نہیں سنائے۔” موموہ اندر آ کر اس کی میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

            سینڈرسن نے بے تابانہ ابھرتی ہوئی گھُرکی کو لگام دی، کیوں کہ اس کو یاد آ گیا کہ خود اسی نے اپنے کلرک پر ہر پیر کو رواں ہفتے کی مصروفیات یاد دلانے کی اہمیت جتا رکھی تھی۔ وہ انھیں خود بھی بہ آسانی پڑھ سکتا تھا، مگر موموہ کو دفتری کارکردگی میں حدِ کمال تک تربیت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اس کو ایک باطنی مسرت بھی ہوتی تھی جب وہ خود کو ایک ایسا ایڈمنسٹریٹر سمجھتا تھا جس کے اتنے اہم اپائنٹ منٹس ہوتے ہوں۔ خود موموہ بھی اس ساری کارروائی کو جی جان سے پسند کرتا تھا۔ وہ ناٹا سا، گٹھیلا سا نوجوان تھا، جس کا چہرہ چوکس اور ولولہ طفلانہ تھا۔ اس کی اوپری جیب میں ہر وقت باریک چھِلی پنسلیں اور مختلف رنگ کی روشنائیوں سے بھرے فاؤنٹین پین اُڑسے رہتے تھے۔

            "اچھا تو مسٹر موموہ، پھر سنائیے۔”

            موموہ نے کھنکھار کر حلق صاف کیا اور دھیمی یکساں رُوں رُوں میں سنانے لگا۔ اوّل تو مقامی ثانوی مدرسے کا سالانہ معائنہ تھا، جس کو ایک بوکھل سا چمرخ آئرش پادری چلاتا تھا، اور سالانہ گرانٹ ملنے سے قبل جس کا معائنہ ہونا لازم تھا۔ یہ معائنہ تو بس ضابطے کی خانہ پُری تھا، ورنہ سال بھر مختلف اوقات میں محکمۂ تعلیم کے افسران یہ دیکھنے آتے ہی رہتے تھے کہ معیار برقرار رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ایک نیم سرکاری مصروفیت تھی، یعنی اگلی رات کو مقامی افریکن کلب میں تقریر کرنا تھی۔

            "کیا آپ وہاں ہوں گے مسٹر موموہ؟” سینڈرسن نے پوچھا، لیکن فوراً ہی اس سوال پر اس کو تاسّف ہوا، مبادا اس کا کلرک اس کو افسر کا حکم سمجھ لے۔

            "جی ہاں، میں یقیناً حاضر ہوں گا جناب عالی” موموہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ "اس قسم کی تقاریر آدمی کے ذہن کو بصیرت بخشتی ہیں۔”

            "بھئی، اپنا خیال ہے کہ یہ ایسا کچھ نہیں کر سکے گی” سینڈرسن نے رکھائی سے کہا۔ "بہرحال، جاری رہیے۔”

            جمعرات کو پی ڈبلیو ڈی ہیڈ کوارٹر کے انجنیئر کا دورہ تھا۔ موموہ نے اس سلسلے میں عمومی کارروائیاں شروع کر دی تھیں: ریسٹ ہاؤس ٹھیک ٹھاک کرانا، سرکاری عمارت کی مرمّت اور دیکھ بھال کی فائل کا مطالعہ کرنا، اور نئی ضروریات کا تعین کرنا یا انھیں ایجاد کرنا، سرکاری لاری تیار رکھنا کہ اگر کہیں انجنیئر کی گاڑی کِسّی کے راستے میں آتے جاتے بگڑ جائے تو وہ کام میں لائی جا سکے۔ سینڈرسن نے ایک نظر اندراجات پر ڈالی اور منظوری کے دستخط کر دیے، اور موموہ سے انجنیئر کا نام دریافت کیا۔

            "مسٹر او ای ہیوز” موموہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، جس کو دیکھ کر سینڈرسن اس وقت تو سوچ میں پڑ گیا، مگر بعد میں وہ اسے موقعے پر یاد آئی۔ ہمارا کوئی کیلٹِک بھائی ہو گا، سینڈرسن نے سوچا۔ وہ بلند آواز میں بولا: "رائٹ، تھینک یو ویری مچ” اور کلرک کو فارغ کر دیا۔

            "اب ہیوز کے بارے میں” اس نے دبی زبان میں خود سے کہا۔ وہ اس کو پہچان نہیں سکا تھا، نام بھی مانوس نہیں تھا۔ نیا ہو گا، اس نے سوچا، اور طے کیا کہ تازہ ترین سینیئر اسٹاف لِسٹ میں دیکھ لے۔ اس نے اپنی انگلی سینیئر پی ڈبلیو ڈی اسٹاف کے کالم پر دوڑائی، یہاں تک وہ "ایچ” پر آ گیا۔ اوہ! تو یہ ہیں موصوف۔ ہیوز، اولویےمی ایگبرٹ۔ خوب! تو یہ بات تھی، کہ وہ افریقی تھا۔ اسی لیے اس کا نام پہلے نہیں سنا تھا۔ اس نے منھ ہی منھ میں سیٹی بجائی۔ "بخدا، تب تو پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔” سینیئر اسٹاف کے ارکان جب بھی کِسّی میں رات گزارتے تھے تو عموماً ان کو یوروپین کلب لے جایا جاتا تھا۔ اس نے خیال ہی خیال میں کلب کے اراکین کی فہرست پر فرداً فرداً نظر دوڑائی، تاکہ اپنے تصوّر میں ان کے اس ردِ عمل کو دیکھ سکے جو ایک افریقی مہمان کی آمد پر ان میں پیدا ہوتا ۔ تب دم بھر کے لیے اس نے خجِل ہوتے ہوے حیرت سے سوچا کہ کہیں وہ خود ہی تو، کوئی واقعہ رونما ہونے سے پہلے، بہانے نہیں تراش رہا اور وجوہات نہیں تلاش کر رہا۔ اوں ہوں! اس نے فیصلہ کیا کہ اس کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ پیش بندی کر لے کہ کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو، کیوں کہ اگر کچھ ہو گیا تو اس کی رپورٹ اوپر بھیجنا پڑے گی، اور نتیجتاً ہیڈ کوارٹر، درپردہ، اسی کو اس کا قصوروار گردانے گا۔ اس نے سوچا، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ ہیوز کی خاطرداری سینیئر افریقن کلرک مسٹر ٹامس کے ذمّے کر دے۔ آخرکار اس نے کچھ اَور ہی ارادہ کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ خود اپنے بنگلے پر ہیوز کی خاطرمدارات کرے گا، اور ہاؤنس لو کو، جو ایک بڑے تجارتی ادارے کا ایجنٹ تھا، تیسراہٹ کے لیے مدعو کر لے گا۔ ہاؤنس لو تھا تو انگریز، مگر پیدا مشرقی افریقہ میں ہوا تھا، کینیا میں آباد ہو جانے والوں کی اولاد۔ اس طرح وہ یہ بھی ظاہر کر سکے گا کہ اس میں کوئی عصبیت نہیں ہے۔ مسئلے کو یوں حل کر لینے کے بعد وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوے اپنے کام میں مصروف ہو گیا، گو خفیف سی بے اطمینانی اب بھی موجود تھی۔

            ہیوز اپنے وقت پر لنچ کے بعد دفتر میں آیا۔ وہ دراز قد تھا، غالباً تیس کے پیٹے میں ہو گا، اس کی مونچھیں فوجیوں جیسی مختصر اور بال خشخشی تھے، رنگ سیاہ، اور دانت سفید اور ہموار تھے، البتّہ مسکراہٹ نام کو نہ تھی، مگر وہ تھا نہایت وضع دار۔ اس نے سینڈرسن سے مصافحہ کیا، نشست قبول کی، سگریٹ سے انکار کیا، اور فوراً ہی اپنے کام پر متوجّہ ہو گیا۔ سینڈرسن کی معروضات کو اس نے غور سے سنا، نوٹس لیے، اور اکا دکا سوالات کیے۔ سینڈرسن نے فائل لانے کے لیے موموہ کو پکارا۔ کلرک نے فائلیں لا کر سامنے رکھ دیں اور جانے لگا، تو سینڈرسن نے اس کو یکدم روکا، اور اس کی اُس خفیف سی مسکراہٹ کو یاد کرتے ہوے اس کا تعارف ہیوز سے کروایا، جو خوش دلی سے مسکرایا لیکن ذرا کی ذرا ہاتھ ملا کر پھر فائلوں پر متوجہ ہو گیا۔ سینڈرسن کو اس کی شائستگی اور مستعدی پہلے پہل کھَلی، اور اس نے چٹکلوں کی مدد سے ماحول کو سبک بار بنانے کی کوشش کی۔ لیکن یا تو ہیوز ان کو سمجھا ہی نہیں، یا وہ جان بوجھ کر انجان بنا رہا۔ دو گھنٹے بعد زیادہ تر کام نمٹ چکا تو سینڈرسن نے ہیوز سے پوچھا کہ شام کو اس کا کیا پروگرام ہے، اور پھر، یہ محسوس کر کے کہ کہیں افریقی انجنیئر اس سوال کو اپنی نجی زندگی میں مداخلتِ بے جا نہ سمجھ لے، فوراً ٹکڑا لگایا: "کیوں کہ میں آج شام آپ کو ڈنر دینا چاہتا ہوں۔”

            "بہت خوب، بندے کو بڑی مسرت ہو گی” ہیوز نے جواب دیا، اور اپنا کام ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ سینڈرسن کو تھوڑی مایوسی ہوئی کہ اس نے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ گولی مارو، اس نے سوچا، وہ نہیں سمجھتا کہ جس طرح میں نے اس کی دعوت کر دی اس طرح دیگر یوروپین اس کے ساتھ پیش آتے ہوں گے۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ اس کی ذہنیت سیاسی ہو اور محض فریضہ سمجھ کر اس نے دعوت قبول کر لی ہو، یا شاید وہ اس بات کی تہہ کو پہنچ گیا ہو کہ میں نے اپنے بنگلے پر ہی اس کو دعوت کیوں دی۔ اس نے بہ آوازِ بلند پوچھا: "ویسے، آپ کو کوئی دقّت تو نہیں ہو گی؟”

            "ارے جناب، شکریہ۔ بندے کو بڑی مسرت ہو گی” ہیوز نے دُہرایا۔ "اب جا کر بندہ دیگر سرکاری عمارات کا معائنہ کرے گا، اور شام کو آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔ اچھا، تو سرِ دست خدا حافظ” اس نے کہا۔ سینڈرسن اس کے ساتھ ساتھ دروازے تک آیا، جبکہ موموہ دونوں کو تحسن  بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔

            ہاؤنس لو آٹھ بجے سینڈرسن کے بنگلے پر پہنچ گیا اور اس نے اپنے لیے ایک جام بنایا۔ "آج کوئی اَور بھی آ رہا ہے کیا؟” اس نے دروازے پر سے ہی گلا پھاڑ کر سینڈرسن سے پوچھا، جو آرام گاہ میں کپڑے بدل رہا تھا۔

            "ہیوز، نیا اسسٹنٹ انجنیئر” سینڈرسن نے بھی چیخ کر جواب دیا۔

            "کیسا ہے؟ کیا سوان سِی سے آیا ہے؟ دیکھو بھائی…”

            "ارے نہیں، افریقی ہے۔ مسٹر اولُویےمی ایگبرٹ ہیوز۔”

            تھوڑی دیر چپ لگی رہی۔

            "ہاؤس لو ہوت؟ تم ہو نا؟” سینڈرسن ذرا دیر بعد تشویش سے پکارا۔

            "ہاں ہاں” ہاؤنس لو دروازے پر سے بولا۔ "یہ بات تم نے پہلے کیوں نہ بتائی؟”

            "صاف بات یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ پھر تم آؤ گے۔”

            "سینڈرسن، کیا تم کسی پڑھے لکھے کالے سے اکیلے میں ملتے ڈرتے ہو؟”

            "بالکل نہیں، بلکہ میں نے سوچا تمھارے لیے یہ ایک اچھا تجربہ رہے گا۔ برخوردار، وہ تمھارے غلاموں کو ہانکنے والے تصوّرات کو تھوڑا سنوار بھی دے گا۔”

            "مجھے تو بس یہ اُلجھن ہے کہ آپس میں بات چیت کے لیے ہمارے پاس کوئی موضوع نہیں ہو گا” ہاؤنس لو نے جواب دیا۔ "افسوس کہ آج کلب بھی بند ہے، ورنہ میں تو اس کی آمد سے پہلے ہی سٹک لیتا۔”

            سینڈرسن دروازہ کھول کر بیٹھک میں آ گیا۔

            "کلب بند ہے؟”

            ہاؤنس لو نے بتایا، "ہاں، واقعہ یہ ہے کہ بد انتظامی کے سبب سے بوتل والی چیز ختم ہو گئی ہے” اور پوچھا: "کیوں؟ کیا تم اپنے مسٹر ہیوز کو وہاں لے جانے والے تھے؟”

            "خیال تو آیا تھا” سینڈرسن نے تھوڑی طمانیت اور تھوڑی ندامت محسوس کرتے ہوے جواب دیا۔

            "تم انتظامیہ والے اپنی مذموم سرکاری فراخ دلی جتلانے کے لیے جو کچھ کرو کم ہے” اس نے سگریٹ سلگائی، اور سوچ میں گم ہو کر کرسی میں دھنس گیا۔

            "کاش میں اپنی کالی بیگم کو ساتھ لے آتا” اس نے کہا، اور اُس کا دھیان کرتے ہوے مسکرایا۔

            "تم تو جانتے ہی ہو، وہ ایک پیاری بچی ہے” اس نے پُر جوش انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔ "پتا نہیں اس کے بغیر میں کیا کروں گا!”

            "نہیں، تم اس کو قطعی نہیں لا رہے۔ مسٹر ہیوز بہت محترم ہستی ہیں، اور تم بھی ان کے ساتھ آدمیت سے پیش آؤ گے۔”

            "اچھا سرکار! کیا وہ پولیٹیکل ہے؟”

            "کیا تعجب؟” سینڈرسن نے کہا۔ "سب ہی ہیں۔ تم جانتے ہو جب تک یہ لوگ ملازمت میں رہتے ہیں، ان کو اپنے سیاسی خیالات چھپانا ہی پڑتے ہیں۔”

            "کیا تعجب کہ وہ قومی جریدوں میں مضامین بھی لکھتا ہو۔ بہرحال، اب ہم کو بھی زمانے کی ہوا کا ساتھ دینا چاہیے” ہاؤنس لو نے ہتھیار ڈالنے والی بے تعلقی سے کہا۔

            "شاید وہ پی پلا کر الّو ہو جائے اور بوتلیں توڑنے لگے” وہ پُر امید ہو کر بولا۔

            اصل میں رات بھیگنے سے پہلے پہلے وہ دونوں خود کچھ کچھ مست ہو چکے تھے۔ اُولُویے ہیوز ہلکا ٹروپیکل سوٹ پہنے اور سیاہ بو لگائے جس وقت وہاں آیا تو بہت خوش پوش لگ رہا تھا۔

            "اوہ! میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ڈریس ضروری نہیں” سینڈرسن نے کہا۔

            "کوئی بات نہیں” ہیوز نے جواب دیا۔

            ہاؤنس لو سے ہیوز کا تعارف کرایا گیا۔ افریقی بولا، "مزاج شریف؟” ہاؤنس لو نے اُچٹتا ہوا سلام کیا۔ دونوں نے مصافحہ نہیں کیا۔ سینڈرسن نے ان کے لیے جام تیار کیے اور اپنی پھُلواری کے بارے میں بتاتا رہا۔

            وہ اٹھ کر کمرے کی دوسری جانب گئے اور کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ سینڈرسن نے خود پہل کرنے سے قبل ہیوز کے شروع کرنے کا انتظار کیا۔ اِدھر ہیوز سینڈرسن کے پہل کرنے کا منتظر رہا، کیوں کہ وہ رُتبے میں اس سے بڑا تھا۔ یوں بھی چھری کانٹوں کی صف آرائی ذرا چکرا دینے والی تھی۔ ہاؤنس لو کھانا سامنے آتے ہی شروع ہو گیا۔ تب سینڈرسن نے اپنی چھری اور کانٹا پلیٹ پر رکھا اور نمک ہیوز کی طرف بڑھایا۔ ہیوز نے نمک لے لیا، اور پھر انھوں نے کھانا شروع کیا۔ ہاؤنس لو کی پوری توجہ کھانے پر تھی اور وہ، کچھ ملول سا، آہستہ آہستہ چباتا رہا، کبھی کبھار سینڈرسن سے کوئی بات کر لیتا۔ شاید یہی دیکھ کر ہیوز سینڈرسن کی طرف مڑا، اور خاص طور پر اس کو اپنے سہ پہر میں کیے ہوے کام کے بارے میں بتانے لگا۔ جس وقت طعام اپنے آخری مراحل میں تھا، اس وقت بڑھتی ہوئی گرانی پر بولتے بولتے ہاؤنس لو ہیوز کی جانب متوجہ ہوا اور بولا: "آپ کے والے اس چڑھتی مہنگائی میں بھلا کس طرح گزارا کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان دنوں یوروپین کھانوں اور لباسوں کا خرچ برداشت کرنا اُتنا آسان نہیں رہا ہو گا جتنا کہ کیھر ان کی دانست میں تھا۔”

            چند منٹ تک ہیوز منھ کا نوالہ چباتا رہا، اور خاموشی ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ یہ گمان کر کے اس طرح اس کی سرزنش کی گئی ہے، ہاؤنس لو تیوری چڑھانے لگا۔ وہ اپنا سوال اب کے اونچی آواز میں دُہرانے والا ہی تھا، اور سینڈرسن، یہ قیاس کرتے ہوے کہ افریقی کو شاید بُرا لگا ہو، موقعے کے مناسب کچھ کہنے ہی جا رہا تھا، کہ ہیوز نے پانی پیا اور مڑ کر ہاؤنس لو سے مخاطب ہوا۔ "جی جناب، ان کو یوروپین کھانوں اور لباسوں کا استعمال جاری رکھنا اب دُوبھر ہو رہا ہے۔” اور وہ پھر سے کھانے میں مشغول ہو گیا۔ ہاؤنس لو شش و پنج میں پڑ گیا کہ اس جواب کا مقصد کہیں اس پر طنز کرنا تو نہیں۔ یہ جاننے کے لیے اس نے افریقی کے چہرے سے ٹوہ لینے کی ناکام کوشش کی۔ سینڈرسن نے بڑھتی ہوئی گرانی کے سلسلے میں کچھ اس قسم کی بات کہی کہ وہ تو تمام ہی طبقوں پر یکساں اثر انداز ہو رہی ہے، کیا بڑے اور کیا چھوٹے۔ بجز رئس  ترین لوگوں کے۔ "اور میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی اس قبیل میں سے نہیں ہے۔ آئیے چل کر زیادہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر کافی پئیں۔”

            ہاؤنس لو نے کھل کر بیٹھنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہ اپنے آپ کو اکّھڑ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کو یہ جاننے کا شوق بھی تھا کہ درحقیقت اس افریقی کے خیالات کس قسم کے ہیں، کیوں کہ ایسا موقع اس کو پہلے کبھی نہیں ملا تھا جب اس نے کسی افریقی سے برابری کے ماحول میں گفتگو کی ہو۔ اُس نے بار بار ہیوز سے ایسے سوالات کیے کہ فلاں فلاں کے بارے میں افریقیوں کی کیا رائے ہے۔ آخر ہیوز نے نہایت نرمی سے جواب دیا کہ وہ پچھلے دنوں اس قدر مصروف رہا کہ اپنے لوگوں کی آرا سے بالکل ناواقف ہے۔ ہاؤنس لو نے پھر سے یہ معلوم کرنے کے لیے اس پر ایک تیکھی نظر ڈالی کہ کہیں اس کا منشا اہانت تو نہیں۔ اس نے اپنے آپ سے کہا: یہی تو اُلجھن ہے کہ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ کب ان تعلیم یافتہ مقامیوں کی نیت گستاخی کی ہوتی ہے اور کب نہیں، سب کے سب شائستگی کی منحوس نقاب چڑھائے رہتے ہیں، اپنے راسخ یقین پر قائم رہنے کی جرأت تو ان میں ہوتی ہی نہیں۔ مگر جوں جوں رات بھیگی اور وِسکی کی نئی بوتل کھلی، ماحول میں بشاشت زیادہ ہو گئی۔ اچانک سینڈرسن ہیوز کی طرف مڑا اور پوچھا: "آپ نے وطن میں ٹریننگ لی ہے نا؟ میرا مطلب ہے برطانیہ میں؟ آپ کہاں تھے؟ لندن؟”

            "جی، بندے نے زیادہ وقت لندن ہی میں گزارا۔ میں نے وہاں آکسفورڈ سرکس کے نزدیک ایک بڑے پولی ٹیکنک میں پڑھا، اور میرا قیام کریکل وُڈ کے ڈِگز میں رہا۔ روزانہ صبح میں بس سے کالج جاتا تھا۔”

            "ٹھکانا تو آپ کا معقول ہو گا؟” سینڈرسن نے پوچھا۔

            یونیورسٹی کے قدیم طلبا اب یادداشتوں کا تبادلہ کر رہے ہیں، ہاؤنس لو نے قدرے حقارت سے سوچا، اور اپنی کرسی پر کچھ اَور پسر گیا۔ وہ پوچھے گا، تمھاری فسٹ ففٹین کیسی تھی؟ اور کالا کہے گا، اصل میں فارورڈ اتنے برے نہیں تھے، شاید پاس دینے میں سست تھے، ایک مرتبہ ہم نے روزلن پارک سے میچ ڈرا کیا تھا۔ اس نے برہمی میں تھوڑی وِسکی اَور چڑھا لی۔

            "بڑی خاک چھاننے کے بعد مجھے ٹِکنے کا ایک سہارا مل گیا تھا” ہیوز نے جواب دیا، "یعنی بہت سے در مجھ پر کھٹ سے بند کر دیے جانے کے بعد۔ کافی آرام دہ جگہ تھی وہ۔ اور لینڈ لیڈی بھی سنہرے بالوں والی ایک نفیس بی بی زَن تھی۔”

            سینڈرسن ہنسا۔ "کیا خوب طرزِ کلام ہے جناب کا” وہ بولا۔ "مگر سچ بتائیے گا، رہائش کے مسئلے کے علاوہ کیا آپ انگلستان کے قیام سے لطف اندوز ہوے؟” ہیوز نے قبولا: "کیا بتاؤں، شروع میں تو نہیں ہوا، البتہ بعد کے لیے بندہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انگلستان میں اپنی پذیرائی کی غیریقینی صورتِ حال ہم میں سے بہتوں کو چکرا دیتی ہے۔ کبھی تو بھلے لوگ اپنے دونوں بازو پھیلا کر بڑے تپاک سے آپ کی آؤ بھگت کرتے ہیں، مگر دوسری طرف آپ کو اچانک بے اعتنائی سے پالا پڑتا ہے۔ یا بدترین بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ بس آپ سے کنّی کاٹنے لگتے ہیں، جیسے آپ کسی اُڑ کر لگنے والے مرض میں مبتلا ہوں۔ وہ سرد مہر اور لاتعلق ہو جاتے ہیں۔”

            سینڈرسن نے اپنا جام بھرا۔ "آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ میں سمجھ گیا ہوں” اس نے کہا، اور ایک گھونٹ لے کر جام کو روشنی کے آگے کر لیا۔ "میں نے بھی لندن میں چند ماہ کام کیا ہے، اور مجھ کو بھی لوگ بہت سرد مہر اور لیے دیے نظر آئے۔ میں اکثر سوچا کرتا، مجھ میں کیا کوئی خامی ہے۔ آپ جانیں، شہروں میں افراد کا رویّہ چونکا دینے والا ہوتا ہے۔ ان میں پرے پرے رہنے اور گھنّے پن کا میلان ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنی ذات کو اپنے آس پاس کی بے کرانی سے محفوظ رکھ سکیں۔ اور پھر معمول سے ہٹی ہوئی ذرا سی بھی نامانوس چیز، مثلاً سیاہ فام انسان، ان کو مزید ایسا بنا دیتی ہے۔”

            ہاؤنس لو نے قہقہہ لگایا۔ "بخدا سینڈرسن، تم بھی ٹھیٹ آکسفورڈ والے ہو۔ تم تو جنّت کی راہ بھی نظریہ سازی کرتے ہوے ہی نکالو گے، اور جب وہاں پہنچو گے تو اس کو جہنّم پاؤ گے۔” وہ اپنے ہی فقرے پر ہنسا، اور پھر غصّے کے مارے اس کی بھنویں تن گئیں۔ "آپ کے پاس شکایت والی کوئی بات ہی نہیں” اس نے ہیوز سے کہا، "اور نہ ہی تمھارے پلّے” وہ سینڈرسن سے مخاطب ہوا۔ "دراصل انگلستان سے بد دل ہونے والا تو مَیں ہوں۔ پَلا بڑھا تو میں کینیا میں، مگر میں نے انگلستان ہی کو ہمیشہ اپنا وطن جانا۔ والد نے انگلستان اور اپنی موروثی روایات کے بارے میں ہم کو بہت سی داستانیں سنا رکھی تھیں، مگر جب میں وہاں پڑھنے کے لیے گیا تو میں نے وہاں کسی کو بھی اُن باتوں کو اہمیت دیتے نہ دیکھا جو ہمارے لیے بہت محترم تھیں۔” وہ کرسی پر تن گیا۔ "میری دانست میں وہ کوئی اچھا مدرسہ نہیں تھا” اس نے گفتگو جاری رکھی۔ "کہنے کو وہ بھی ایک پبلک اسکول تھا، یعنی اس میں بھی ہیڈ ماسٹرز کانفرنس وغیرہ، سب ہی کچھ ہوتا تھا۔ ساری نوآبادیات میں اس کی بڑی دھوم تھی، اور ان بچوں کے لیے تعطیلات کے دوران خاصے رعائتی ریٹ تھے جن کے والدین سمندر پار مقیم تھے۔ میرے والد ایک خود ساختہ آدمی تھے۔ انھوں نے تعلیم جلد ہی ترک کر دی تھی، اس لیے جب انھیں اس اسکول کے بارے میں معلوم ہوا تو سوچا کہ جو تعلیم وہ خود حاصل نہ کر سکے وہ ہم کو دلوا کر حساب بے باق کر دیں۔”

            سینڈرسن نے پوچھا: "اسکول چھوڑتے ہی کیا تم واپس افریقا آ گئے تھے؟”

            "نہیں تو، میں وہاں تھوڑے عرصے ٹِکا رہا تھا۔ لیکن حالات کبھی اپنے دلخواہ نہیں رہے۔ میں نے کچھ دن ایک بڑے برآمدی ادارے میں کام کیا، مگر وہ مجھ پسند نہ آیا۔ وہاں بعضے مجھ کو تھوڑا تھوڑا قدامت کا پُتلا سمجھتے تھے۔ ان کے حسابوں میں کچھ زیادہ ہی تنگ نظر تھا۔ والد والی نسل، جس کے تصوّرات کے ہم کالونی والے امین ہیں، اب کہاں۔ اس کی نسبت اب یہ پود کچھ بدلی بدلی نظر آتی تھی۔ کالونی والوں سے میری مراد سفید فام کلونیل ہے” اس نے فوراً اضافہ کر دیا۔

            "اپنی توقع کے برخلاف آپ نے ان کو کس طرح بدلا ہوا پایا؟” ہیوز نے گفتگو جاری رکھنے کے لیے پوچھا۔

            "اوہ، ہر طرح،” ہاؤنس لو نے تھوڑے توقف کے بعد کہا۔ اس نے غور کیا کہ ہیوز کو اس بےتکلف گفتگو میں شریک بھی کرے یا نہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بے تکلفی اور مجلسی تقاضے کی خاطر، آج رات کالے کو اعزازی سفید فام تصور کیا جا سکتا ہے۔ "ہر لحاظ سے،” اس نے غور کرتے ہوے دُہرایا، اور اپنا سر موڑ کر اس نے سینڈرسن کا گھٹنا تھپتھپاتے ہوے کہا: "جانتے ہو، ایک رات تماشا ختم ہونے پر ابھی قومی ترانہ جاری ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ کو کہنی مارتے ہوے قطار میں سے نکل جانے کی کوشش فرمائی۔ میں قطار کا سِرا روکے کھڑا تھا۔ وہ واہی تباہی اُڑانے لگا۔ بولا، مجھ کو آگے سے ہٹ جانا چاہیے، اس کا راستا نہیں روکنا چاہیے، کیوں کہ اس کو بس بھی پکڑنا ہے۔ مگر میں پھر بھی اٹینشن کھڑا رہا۔ وہ شخص جھک کر میرے کان میں چیخا: جوان، آسان باش! سخت ناگوار لہجہ تھا اس کا۔ میں پھر بھی ڈٹا کھڑا رہا تو وہ اور اس کے ساتھی کرسیاں پھلانگتے، ہڑبونگ مچاتے نکل گئے۔ ضرور سُرخے رہے ہوں گے۔ جوں ہی ترانہ ختم ہوا، میں لپکا کہ اگر وہ مل جائے تو مار مکّے ڈھیر کر دوں، مگر اس وقت تک وہ رفوچکّر ہو چکا تھا۔ بس ایسی ہی حرکتیں میرا دل کھٹا کر دیتیں،” اس نے آگے کی طرف جھکتے ہوے کہا۔ "نہیں بھائی! ہمارا قدیم وطن اب وہ نہیں رہا۔ حرّیت، مساوات اور جمہوریت کا چرچا تو بہت رہتا ہے مگر عمل کے نام خاک نہیں ہوتا۔”

            "اپنے خیال میں تو وہ اب اتنے بُرے بھی نہیں،” سینڈرسن نے، یہ محسوس کرتے ہوے کہ یہ باتیں اُسے سنائی گئی ہیں، کہا۔ "دیکھو نا، بڑے شہروں میں اب حالات کتنے بدل چکے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ لندن اور آس پاس کے مضافات ہمیشہ کی طرح ویسے کے ویسے ہی ہیں۔” وہ ہیوز سے مخاطب ہوا: "آپ کیا کہتے ہیں لندن کے بارے میں؟”

            "بندے کے لیے تو لندن عجائبات کا گھر تھا۔ ہر معاملے میں تنظیم اور گھڑی جیسی پابندی نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا۔ آپ انگریز لوگ بَلا کے مستعد ہیں۔ رات کو جب بندہ ٹہلنے نکلتا، تو ٹریفک کی بتیوں کو رات بھر بار بار سرخ، پیلا، ہرا ہوتے دیکھا کرتا۔ امتحان کے زمانے میں جان توڑ محنت کے دوران، مَیں رات دو سے تین بجے تک کے لیے باہر نکل جاتا تھا، کہ سونے سے پہلے ذرا دماغ کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک بہت بڑی لاری کو مخالف روشنی ہوتے ہی رکتے ہوے دیکھا۔ اس وقت کوئی جو ہوتا! پولیس والا بھی دور دور نظر نہ آیا، اور بندہ تو تھا ہی اندھیرے کی اوٹ میں، اس سب کے باوجود وہ سرخ بتّی دیکھ کر رک گیا۔ اسی کو بندہ تنظیم کہتا ہے اور احساسِ ذمہ داری سمجھتا ہے۔ میں اس لمحے کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر میں تو یہ کہوں گا کہ وہ منظر میری دانست میں لندن اور انگریزوں کا اصل خلاصہ ہے۔” کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی، اور دونوں ہی اس کی گفتگو سے متاثر نظر آئے۔ ہیوز نے آنکھیں موند کر کریکل وُڈ براڈوے کا دھیان کیا، جسے وہ زیادہ تر پسند ہی کرتا تھا، بس جب شدید سردیوں میں اسے گھر کی یاد ستاتی تھی تو وہ اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ اچانک اس نے اپنا جام بلند کیا اور بولا: "لندن کے نام!”

            "لندن کے نام!” دونوں بُدبُدائے۔ "اس پر خدا کی رحمت ہو،” ہیوز نے  یہ سوچ کر کہ کہیں وہ اس کو کالا انگریز نہ سمجھ بیٹھیں، کیوں کہ اس بات سے وہ سب سے زیادہ خوف کھاتا تھا ،  اپنی بات میں ٹکڑا لگایا۔ "مگر خیال رہے، وطن لوٹ آنے پر مجھے خوشی ہوئی، کیوں کہ کچھ کام ایسے ہیں جو آدمی اِسی ملک میں کر سکتا ہے، انگلستان میں نہیں۔”

            "مثلاً؟” ہاؤنس لو نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوے پوچھا۔

            "کسی بھی کام کا آپ یہاں اکیلے ہی ڈول ڈال سکتے ہیں، اور اپنی ذاتی نگرانی میں، اپنی آنکھوں کے سامنے، تکمیل کو پہنچا سکتے ہیں۔ جب کہ انگلستان میں ایسا کرنے کے لیے آپ کا جینیئس ہونا لازمی ہے۔”

            سینڈرسن بولا: "اپنے کو تو یہاں کسی کام کو شروع کرنے اور پھر ختم بھی کر لینے کی کوئی خبر نہیں۔”

            ہیوز نے بات کاٹی: "بندے نے یہاں ایک پُل بنوایا ہے۔ مجھ کو پچھلے سال یہ ضلع ملا تھا۔ یہاں سے کوئی چار میل پرے یولاہُن روڈ پر ایک خشک برساتی نالا ہے، جس کو لوگ باگ خشک موسم میں بڑی مارکیٹ تک جانے کے لیے بطور باٹ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن برسات میں پانی کے بہاؤ کا مقابلہ کر کے اس نالے میں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا، اور لوگوں کو چکر لگا کر، دو گھنٹے برباد کر کے، رسّوں کے جھُولتے پُل پر سے اسے پار کرنا پڑتا تھا۔ اور یہی اصل وجہ تھی کہ قدیم زمانے سے ہر برسات کے موسم میں اس ضلعے میں اشیا کا کال پڑ جاتا تھا، کیوں کہ زیادہ تر لوگ یا تو بڑے شہر جانے کی تکلیف ہی نہیں اٹھاتے تھے، یا کسی مناسب طریقے سے وہاں تک جا نہیں پاتے تھے کہ اپنا غلّہ وہاں تک لے جا سکیں اور وہاں سے اپنے لیے غذا خرید سکیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مقام پر پُل بنوانے کا خیال پہلے کسی کو کیوں نہیں آیا۔”

            "شاید وہ برسات میں سوچتے ہوں اور کھُلتے ہی بھول جاتے ہوں۔ اس ملک میں ایسا اکثر ہوتا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے لوگوں نے صورتِ حال کو جوں کا توں قبول کر لیا ہو۔ اچھا تو وہ پل جناب نے بنوایا تھا؟ میں اکثر اس کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔”

            سینڈرسن نے کہا: "اپنا خیال تھا کہ فوج کا کام ہو گا، مگر ان کی کارکردگی کے مقابلے میں وہ کچھ زیادہ ہی پائیدار لگتا ہے۔”

            "امید ہے اب پُل بن جانے سے حالات بہتر ہو گئے ہوں گے۔ ہے نا؟” ہیوز نے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔

            سینڈرسن نے سوچا کہ اصلیت کا اس پر نہ ظاہر کرنا آیا اس پر کرم ہوگا یا نہیں، کیوں کہ حقیقت تو یہ تھی کہ اس پُل کو لوگ شاذ ہی استعمال کرتے تھے، اور وہ بھی صرف موٹر گاڑیوں کے لیے۔ برسوں پہلے اس جگہ پر کوئی ڈوب مرا تھا، اور مقامی روایت تھی کہ برسات کے دنوں میں وہاں آبی آسیب منڈلاتا رہتا ہے۔

            "جی ہاں، اب صورتِ حال بہتر ہو گئی ہے،” اس نے بلند آواز میں کہا۔

            "یہ سب توقع سے ذرا پہلے ہی ہو گیا،” ہیوز نے کہا۔ "آپ کو معلوم ہے، چند سال پہلے اس جگہ کوئی ڈوب گیا تھا۔ لوگوں کا خیال ہے اس جگہ پر برسات میں کوئی بھُتنا گھومتا ہے۔ مجھ کو سچ مچ ایک سیانے حاضراتی کی خدمات حاصل کرنا پڑی تھیں، کہ وہ وہاں پر مرغی کی بھینٹ چڑھائے اور خاک پر َرم نچھاور کر کے بَلا دور کرے، تاکہ مزدور مطمئن ہو کر اپنا کام شروع کر سکیں۔”

            "آپ کو تو علم ہی ہے،” ہاؤنس لو نے خوش دلی اور شائستگی سے کہا۔ "ہم لوگ شمپین کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاز پر اس کی بوتل ماری، اور جہاز کھسکتا ہوا گیا سمندر میں۔ محض قدیم دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے۔ بالکل آپ لوگوں کی طرح۔”

            "سچّی بات تو یہ ہے کہ وہ مرغی اور بچی کھچی َرم اُس رات بندے نے چٹ کر ڈالی تھی،” ہیوز نے صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے بتایا کہ اس نے یہ عمل صرف اپنے مزدوروں کے خبط کی تسلی کے لیے کیا تھا، ورنہ وہ خود ان باتوں کو ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی سوچا کہ اس کارروائی کا موازنہ انگلش رسم سے کر کے ہاؤنس لو نے سرپرستانہ شفقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے خود ایک شِپ یارڈ میں نئے جہاز کو سمندر میں اتارتے دیکھا تھا، اور وہ اس تقریب سے مرعوب بھی بہت ہوا تھا۔ بھلا اُس تقریب کا ایک گمراہ مقامی کے ہاتھوں سفید مرغی کے ذبح ہونے اور زمین پر َرم چھڑ کے جانے سے کیا موازنہ! کلائڈ سائڈ میں لانچِنگ کے موقعے پر تو بےشک ایک می لارڈ رونق افروز تھا۔ کسی نے اشارے سے دکھایا تھا۔ ان دونوں کا کیا مقابلہ بھلا؟ تاہم، اس نے سوچا، شاید میں زیادہ ہی حساس ہوں۔

            "مجھے تو آپ حضرات پر رشک آتا ہے۔ آپ انجنیئروں، ڈاکٹروں، ماہرینِ زراعت وغیرہ پر،” سینڈرسن نے کہا۔ "آپ کسی کام کی طرح ڈالتے ہیں تو پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچاتے ہیں۔ آپ اپنی محنت کا پھل پا لیتے ہیں، مگر اپنے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اپنا تو یہ حال ہے کہ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔ سچ جانیے، ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا کچھ مصرف بھی ہے یا محض فالتو ہیں۔”

            ہیوز متاثر ہو گیا۔ "نہیں!” وہ چلّایا۔ "آپ منصرم حضرات، کیا گورے اور کیا کالے، منصوبہ بندی اور اہلکاروں کی نگرانی کے لیے ہمیشہ درکار ہوں گے۔ بوڑھے ہونے پر، جب ہم کھُکّل ہو جاتے ہیں اور انجنیئر کی حیثیت سے ہماری افادیت ختم ہو جاتی ہے، تب کہیں ہم آپ کا ہنر سیکھنا شروع کرتے ہیں۔ اچھا، اب بندے کو چلنا چاہیے،” اُس نے کرسی سے اچانک اٹھتے ہوے کہا۔ "امید ہے آپ معاف فرمائیں گے، کیوں کہ مجھے تڑکے ہی نکل جانا ہے۔” اس نے دونوں سے مصافحہ کیا، اور سینڈرسن کی تجویز کے باوجود کہ وہ رات وہیں گزارے، تیزی سے باہر نکل گیا۔ ہاؤنس لو راہ کے لیے آخری جام کی پیشکش کرتا ہی رہ گیا۔

            افریقی کے چلے جانے کے بعد ہاؤنس لو کمرے میں ٹہلنے لگا اور اِدھر اُدھر ڈولتا رہا۔ پھر یک دم وہ سینڈرسن کے بالمقابل آ ٹھہرا، جو رہ رہ کر پائپ سے دھواں اڑا رہا تھا۔ "جانتے ہو؟” اس نے ایسی تھکی تھکی آواز میں کہا کہ اگلے نے فوراً ہی اس پر نگاہیں مرکوز کر دیں۔ "جانتے ہو؟ جو کچھ اَبھی تھوڑی دیر پہلے تم نے کہا تھا، اس کے حوالے سے میں اس ملعون ملک میں اپنے آپ کو بالخصوص فالتو ہی سمجھنے لگا ہوں۔”

            وہ بیٹھ گیا اور اپنا سر میز کے سرے پر ٹکا دیا، اور کرسی میں اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ کر پسر گیا۔

            "مگر تم تو ایڈمنسٹریٹر نہیں ہو،” سینڈرسن نے کہا۔ "تم تو ایک پھلتی پھولتی فرم میں سینیئر ایجنٹ ہو۔”

            "نہیں جی، ایک اَور رخ سے میں اپنے آپ کو مدِ فاضل محسوس کرتا ہوں، خاص کر جب آج شام والے اپنے مشترک دوست کی قبیل کے تعلیم یافتہ مقامیوں سے میرا سابقہ پڑتا ہے۔ بچپن میں تو ہماری پرورش یہ جتا جتا کر کی گئی تھی کہ افریقا گوروں کا ملک ہے، اور وہ سب کچھ سکھانے کے لیے، جسے حاصل کرنے میں ہم کو سینکڑوں برس لگے، ہمیں کالوں کو آئندہ کئی صدیوں تک آہستہ آہستہ تربیت دینا ہو گی۔ مگر یہاں تو میں اپنی ہی زندگی میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ ہر قسم کے کام کاج کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، اور آفت یہ ہے کہ وہ اکثر کام بہتر انجام دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ اتنے ہی طاق ہیں جتنے ہم لوگ، ویسے تو خیر وہ کبھی بن ہی نہیں سکتے۔”

            "درست،” سینڈرسن نے فوراً کہا۔ "بالکل اسی طرح جیسے ہم کتنی بھی کوشش کریں اُن جیسے نہیں بن سکتے۔ ہم اور وہ دونوں ہی مختلف ہیں۔ اور اپنے اپنے ڈھنگ سے دونوں ہی خوب ہیں۔”

            "ہاں ہاں، تم تو اپیہ حیثیت میں یہی کہو گے،” ہاؤنس لو نے جواب دیا۔ "میں تو یہ جانتا ہوں کہ وہ ایک نسل ختم ہوتے ہوتے بھی اتنے ماہر نہیں ہو سکتے۔ دیکھ لینا، جب بھی حالات دگرگوں ہوے، سب کے سب بَولا جائیں گے۔ مثال کے طور پر وہ شخص ہیوز اُس دریائی جُوجُو سے سہما ہوا تھا۔ اس کے چہرے سے مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔” اس نے اپنا جام خود ہی بھرا، اور چڑھا گیا۔ "بہرصورت، بڑے میاں، وہ لوگ ہم کو بے مصرف گردان رہے ہیں، ایک دم بےکار۔ تم وہائٹ ہال والوں کو سُجھائی نہیں دیتا کہ تم ہم لوگوں کو، یعنی اپنے بھائی بندوں کو، زمستاں میں ٹھٹھرنے کے لیے چھوڑے دے رہے ہو۔ تم سنو تو حیرت میں پڑ جاؤ کہ یہ ملازمت مجھے کتنے پاپڑ بیل کر ملی تھی، اور اب ہیڈ کوارٹر میں افریقیوں کو اسسٹنٹ مینیجر کی آسامیوں کے لیے تربیت دینے کی بات چل رہی ہے۔ جیسے میں تو ان کا مطلب سمجھتا ہی نہیں۔ تم صاحب لوگ ہر وقت مساوی سلوک پر کیوں اصرار کرتے ہو؟ کیوں ہم لوگوں کو لے جا کر ہمیشہ اَدھر میں چھوڑ دیتے ہو؟” وہ زار و قطار رونے لگا۔ پہلے تو سینڈرسن نے نظرانداز کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر ہتھیار ڈال دیے۔ وہ اس کے قریب گیا، اور ہاؤنس لو کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

            "تم یوں کیوں نہیں سوچتے کہ ہیوز کے لیے، تمھارے لیے اور میرے لیے یہ ملک کافی وسیع ہے۔ ہیوز تو یہاں اس لیے رہے گا کہ یہ اس کا وطن ہے۔ تم یہاں اس لیے ہو کہ ہر کوئی اپنے وطن میں سب کچھ نہیں کر سکتا۔ اپنا خیال یہ ہے کہ ملک ملکی کا والے نظریے کا دور تو ہم گزار چکے، پچاس سال پہلے ہی ہم اس تصور کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اب تو اپنے وطن میں فقط بیرونجات اور افتادہ زمینیں ہی کسی فرد کی ہو سکتی ہیں۔ زمین سے حاصل ہونے والے عیش تو بس اس کے لیے ہیں جس کو میسر آ جائیں، اور جو پھر اُس سرزمین سے اس کے وارثوں کی بہ نسبت زیادہ وابستہ رہنے میں جان لڑائے۔ اہل ترین بدیسیوں کی ایسی ہی دائمی کھپت سے عظیم قومیں اور مراعات یافتہ طبقے بقا حاصل کرتے ہیں… اگر تم میں مناسب اہلیت موجود ہے تو تم بھی یہاں ہمیشہ رہ سکو گے، ہاؤنس لو، بس صرف اسی وجہ سے۔”

            ہاؤنس لو بہت توجہ سے اس کی باتیں سُن رہا تھا۔

            "کاش میں بھی تمھاری طرح تیم   یافتہ ہوتا، سینڈرسن۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ لفظوں کے مفہوم کیا ہوتے ہیں، اور میں ان کو استعمال کر سکتا۔ پر میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ مسئلہ اہل ترین کی بقا کا ہے۔” ہوا کے جھونکے افتاں و خیزاں آتے رہے اور پَٹوں کو کھڑکھڑاتے رہے۔

            "تو تمھاری دانست میں یہاں سب کے لیے جگہ ہے؟” اس نے کرسی سے اُٹھ کر انگڑائی لیتے ہوے پوچھا۔ "مجھ کو اس میں شک ہے۔ اور اس کے لیے صرف مقامی چیتھڑوں کو ایک نظر پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن سب کچھ کہنے سننے کے باوجود، یہ ملک برا نہیں ہے۔ آدمی بعض اوقات یہاں پر نتائج دیکھ سکتا ہے۔”

            سینڈرسن نے متانت سے جام تجویز کیا: "افریقا کے نام!”

            "ہاں، ہاں، افریقا کے نام! جو گوروں کا دیس ہے، اور کالوں کا بھی،” ہاؤنس لو نے گردن جھٹک کر گھونٹ چڑھا لیا۔ "بقول شخصے، راہ کے لیے ایک آخری گشت!” اس نے ٹکڑا لگایا، اور گردن یوں ہلاتا رہا جیسے اس کو اعتبار تو آ گیا ہو لیکن تشفی نہ ہوئی ہو۔ سینڈرسن نے بوتل اٹھائی تو وہ خالی تھی۔

            "کوئی بات نہیں،” ہاؤنس لو نے بھاری آواز میں کہا۔ "سوڈا ہی چلے گا۔” وہ خود کو تھکا ہوا، اداس، مگر مسرور محسوس کر رہا تھا۔

            سینڈرسن نے سوڈا انڈیلا۔ ننھے ننھے، موتی جیسے بلبلے گلاس کے کناروں کی طرف سے سطح پر آ کر پھوٹنے کے لیے لپک رہے تھے۔ انھوں نے ہاؤنس لو کے نتھنوں میں گدگدی پیدا کی اور وہ سرور میں آ کر منھ بنانے لگا۔

            "اس بار کس کے لیے؟” سینڈرسن نے پوچھا۔

            "تمھارے لیے، بڑے میاں، تمھارے لیے!” ہاؤنس لو نے چاؤ سے کہا۔ "تمھارے لیے اور میرے لیے!”

            "اور اَولُو ہیوز کے لیے بھی؟” سینڈرسن نے گرہ لگائی۔

            "ہاں، اس کے لیے بھی،” ہاؤنس لو نے ہنکارا بھرا۔ "اصل میں تو جس جس جگہ ہو ہر بھلے آدمی کے لیے، کیوں کہ ہم سب ہی جالی گڈ فیلوز ہیں،” وہ گنگنایا، اور اپنی کار کی چابی تلاش کرنے لگا۔

            سینڈرسن نے اپنے بنگلے کے بیرونی صحن سے اسے رخصت کیا۔ "تمھیں یقین ہے کہ کار چلا کر تم گھر تک پہنچ جاؤ گے؟” اس نے ہاؤنس لو سے پوچھا۔

            "یقیناً، بڑے میاں، گھر تو میں آنکھیں موند کر بھی پہنچ سکتا ہوں۔ بس ذرا دھکّا لگا دو۔ شاباش، بڑے بھلے آدمی ہو تم۔”

            سینڈرسن نے کچھ دیر زور لگا کر دھکیلا، کار میں جان پڑی، اور وہ اندھا دھند آگے بڑھتی چلی گئی۔ جیسے ہی وہ شہر کی مخالف سمت بڑھی تو سینڈرسن نے چیخ کر ہاؤنس لو کو رکنے اور کار گھمانے کے لیے کہا۔ مگر کار جلد ہی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی، گو اس کی آواز دور سے آتی رہی۔ سینڈرسن تشویش میں ڈوبا، تھکا ماندہ، سونے کی تیاری کرنے لگا۔

            ہاؤنس لو نے کار کو گیئر لگایا اور پہاڑی پر چڑھانے لگا۔ انجن کی گڑگڑاہٹ نے اس کے اندر ویسی ہی خوش کن توانائی پیدا کر دی جیسی کہ ہوا کا اتفاقی جھونکا پیدا کر دے۔ تقریباً پندرہ منٹ چلنے کے بعد اس نے رفتار کم کی اور پھر کار روک دی۔ اس نے اسٹیئرنگ پر ٹیک لگا کر جھینگروں کی تیکھی کِر کِر اور مینڈکوں کی بھونڈی ٹَرٹَر پر کان لگائے، جو ذرا کی ذرا رکتیں تو فضا میں ایک پُر اسرار سنّاٹا چھا جاتا۔ ہیڈ لیمپ جلتا چھوڑ کر وہ روشنی کی پھیلتی شعاعوں میں دبے پاؤں آگے بڑھا تاکہ پُل کا بغور معائنہ کر سکے۔ وہ معمولی، لیکن ٹھوس کنکریٹ کا، سادہ سا، نہایت شاندار پُل تھا۔ وہ پل کے بیچوں بیچ کھڑا ہو کر اس پر اچھلنے کودنے لگا۔ اس کو آدھی امید تھی کہ پل اب بیٹھ جائے گا۔ ایک جانب جھک کر اس نے پانی کو چٹانوں میں آگے بڑھتے ہوے دیکھا۔ ایک ڈالی اس نے پانی میں پھینکی، اور دوڑ کر دوسری طرف گیا اور اس کو پُل کے نیچے سے بہہ کر آتے دیکھا، اور خوش ہو کر قہقہہ لگایا، اور پھر پلٹ کر وہ آہستہ چلتا ہوا اپنی کار تک گیا۔ اور اَولُو ہیوز نے، جو اُس وقت سے اندھیرے میں دبکا کھڑا تھا جس وقت سے اس نے کار کو آتے سنا تھا، سکھ کا سانس لیا کہ اس کی موجودگی کا علم ہاؤنس لو کو نہ ہو سکا۔ اس کا دل دھکڑ پکڑ کر رہا تھا۔ وہ شہر سے اتنی دور پاپیادہ آیا تھا کہ اس پُل پر نظر ڈال لے جو اس نے بہت چاؤ اور توجہ سے تعمیر کروایا تھا۔ وہ رات کے اندھیارے میں آیا تھا۔ اس نے اس تاریکی کا مقابلہ خود کو یہ دکھانے کے لیے کیا تھا کہ وہ کسی آبی بھُتنے سے نہیں ڈرتا۔ جس وقت اس کی نظر اُس سفید فام آدمی کے چہرے پر پڑی جو اپنے پنجوں پر چلتا ہوا اس کے بالکل پاس سے گزرا، تو اس کو ایک انوکھی سی مسرت اور تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی۔

            زقند مار کر وہ آن کی آن میں بیچ سڑک میں آ دھمکا، اور وہاں تن کر کھڑا ہو گیا۔ ہیڈ لیمپ کی روشنی سے چُندھیا کر وہ ساکت کھڑا تھا۔ اس کو اچھی طرح دیکھنے کے لیے ہاؤنس لو اپنی سیٹ پر سیدھا ہو بیٹھا۔ ہیوز نے اپنی اُبھرتی چیخ کو روکا، اور مسحور سا ہو کر دیکھتا رہا۔ وہ ایک عجیب جانور تھا۔ اس کی صورت تو بارہ سنگھے جیسی تھی، مگر وہ پیٹھ پر سے بھورا سرخ، اور پیٹ کی طرف سے سفید تھا۔ ان دونوں رنگوں کے درمیان ایک واضح لکیر سی تھی، جیسے وہ کہیں پیرتا رہا تھا اور پانی سے نیچے کا رنگ ڈھل بہا تھا۔ اس کے سینگ نازک اور مڑے ہوے تھے، اور اس کا سر اس کی نازک گردن پر تمکنت سے ٹکا ہوا تھا۔ اس کے دونوں کولھوں پر سیاہ عمودی دھاریاں تھیں، اور ایک لمبی دھاری اس کی پیٹھ پر تھی، جو دُم تک چلی گئی تھی۔ وہ چند سیکنڈ تک اس جگہ کھڑا رہا۔ پھر ہاؤنس لو نے زور سے ہارن بجا دیا، اور وہ چوپایہ ہوا میں اچھلا، اور آگے کی طرف جست لگا کر یہ جا وہ جا۔ نظروں کے سامنے سے اتنی ہی سرعت سے اوجھل ہو گیا جتنی سرعت سے وہ نمودار ہوا تھا، بالکل کسی بھولی بسری یاد کی طرح۔

            "ہت تیرے کی! یہ تو سرخ چکارا نکلا،” ہاؤنس لو زور سے چیخا۔ پھر دل ہی دل میں کچھ سوچتے ہوے اس نے کار اسٹارٹ کی، احتیاط سے سڑک پر پیچھے کو لے گیا، گھمائی، اور قرینے سے شہر کی سمت روانہ ہو گیا۔

             وہ تو بس امپالا تھا جس سے دونوں ہی سہم گئے تھے۔ ہیوز نے پُل پر چڑھتے ہوے سوچا۔ اس نے اپنا چھوٹا سا اسپرِٹ لیوِل، جو وہ ہر وقت اپنی جیب میں لیے پھرتا تھا، نکال کر پُل کے ایک جنگلے پر رکھ دیا، اور اس پر ٹارچ سے روشنی ڈالی۔ جوں ہی اس نے ہوا کے بلبلے کو ہلنے کے بعد متوازن ہو کر درمیان میں رکتے دیکھا، اطمینان ظاہر کرنے کے لیے اپنی گردن ہلائی، اور پھر پلٹ کر ریسٹ ہاؤس کی طرف چل پڑا۔ اچانک وہ ٹھٹکا۔ اس نے ایک لمحے کو اپنا ہاتھ آگے پھیلایا اور پھر تیزی سے دوڑ لگا دی، کیوں کہ موٹی موٹی بوندوں کا تار لگ گیا تھا، بالکل اس خوددار خاتون کے چپ چاپ ٹپکتے آنسوؤں کی طرح جس کو اپنے اکلوتے بیٹے پر جنون کی حد تک ناز ہو، مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی سلامتی کی طرف سے انجانا دھڑکا بھی لگا ہوا ہو۔

٭٭٭

 

               ریشارد کاپوشِنسکی

               انگریزی سے ترجمہ : اجمل کمال

اندھیرے میں چونکنا

سویرا اور شام کا جھٹ پٹا افریقا کے دن کا بہترین وقت ہیں۔ دن میں شدید دھوپ ہوتی ہے، لیکن یہ دو وقت جینے کی مہلت دیتے ہیں۔

تفاخر کا اشارہ

ہم سابیتا آبشار کی طرف جا رہے ہیں جو ادیس ابابا سے پچیس کلومیٹر دور واقع ہے۔ ایتھیوپیا میں ڈرائیو کرتے ہوے آپ کو مسلسل سمجھوتے کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ سڑکیں پرانی اور تنگ ہیں اور گاڑیوں اور لوگوں سے بُری طرح بھری رہتی ہیں، اور ان سب گاڑیوں اور لوگوں کو کسی نہ کسی طرح جگہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ڈرائیور کو (یا گلّہ بان کو یا مسافر کو) ہر وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ، کوئی نہ کوئی رکاوٹ، کوئی نہ کوئی آزمائش درپیش رہتی ہے: سامنے سے آنے والی گاڑی کی زد سے کیوں کر بچا جائے؟ اپنے مویشی (بھیڑیں یا اونٹ) ہنکاتے ہوے ان بچوں یا معذور لوگوں کو کچلے جانے سے کیسے بچایا جائے جو ہر طرف رینگتے پھر رہے ہیں؟ کسی لاری کے پہیوں تلے آنے سے بچتے ہوے سڑک کس طرح پار کی جائے؟ اُس بیل کی ٹکر سے بچنے کے لیے کس لمحے راستے سے ہٹ جانا چاہیے؟ اور کیا اس عورت کو، جو سر پر بیس کلو وزنی بنڈل اٹھائے جا رہی ہے، واقعی اپنی گاڑی سے ٹکرانے سے بچایا جا سکے گا؟ اس کے باوجود نہ کوئی طیش میں آتا ہے نہ گالیاں دیتا ہے۔ چیخنے، کوسنے یا دھمکانے کی آوازیں بالکل سنائی نہیں دیتیں۔ ہر شخص خاموشی سے، صبر سے اپنے اپنے طور پر، مڑتا، بچتا، بچاتا، دائیں بائیں جھکولے کھاتا اور لہراتا چلتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ راستے میں ٹریفک اگر پھنس جائے تو اس کا حل دوستانہ انداز میں ایک ایک ملی میٹر آگے بڑھتے ہوے نکالا جاتا ہے۔

            سابیتا آبشار سے گرنے والا دریا ایک کٹے پھٹے پتھریلے درّے میں سے بہہ کر آتا ہے۔ یہاں دریا کم گہرا اور چٹانوں اور تیز دھاروں سے بھرا ہوا ہے۔ پھر وہ نیچے کی طرف جھکنا شروع کرتا ہے، یہاں تک کہ آبشار کی تیز نوکیلی کگر پر پہنچ جاتا ہے۔ ٹھیک اس مقام پر ایک کم عمر، تقریباً آٹھ سالہ، ایتھیوپیائی لڑکا اپنی روزی پیدا کرتا ہے۔ وہ آبشار سے کچھ فاصلے پر دریا کے کنارے پہنچتا ہے۔ وہ وہاں جمع ہونے والے سیّاحوں کے سامنے کپڑے اتار کر دریا میں چھلانگ لگاتا ہے اور پلک جھپکتے میں پانی کے تیز دھارے کی زد میں آ کر دریا کی پتھریلی تہہ پر پھسلتا ہوا کگر کی طرف جانے لگتا ہے، اور اس آخری نقطے پر پہنچ کر ڈرامائی انداز سے رُک جاتا ہے۔ تماشائیوں کے منھ سے دہشت اور تسکین کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ پھر وہ اٹھتا ہے اور مڑ کر بہاؤ کے خلاف چلتا ہوا اوپر چڑھنے لگتا ہے، اس کا بے لباس پچھایا نمایاں طور پر تماشائیوں کے ملاحظے کے لیے اٹھا ہوتا ہے۔ کیا یہ تحقیر کا اشارہ ہے؟ یا ہتک کا؟ حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ نمائش دراصل فخر کا اظہار ہے (اور تماشائیوں کے لیے تسلّی کا باعث بھی بنتی ہے)   اس کے کولھوں کی کھال دھوپ میں جل جل کر اتنی سیاہ اور پکّی ہو گئی ہے کہ دریا میں آبشار کی طرف پھسلتے ہوے چٹانوں کے نوکیلے سروں سے رگڑ کھانے سے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ یہ کھال سچ مچ اُن جوتوں کے تلوں جیسی سخت دکھائی دیتی ہے جو پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔

ایک عظیم فوج کی تباہی

اگلے دن ہم ادیس ابابا کے ایک قید خانے کے باہر کھڑے ہیں۔ پھاٹک کے باہر ٹین کی چھت کے نیچے لوگوں کی ایک قطار قید خانے کے کھلنے کی منتظر ہے۔ جیل کی دیوار سے لگ کر کھڑے ننگے پاؤں اور ادھ ننگے مرد قید خانے کے دربان ہیں۔ حکومت اس قدر غریب ہے کہ انھیں وردیاں مہیا نہیں کر سکتی۔ ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان دربانوں کے پاس ہمیں اندر جانے کی اجازت   یا واپس لوٹ جانے کا حکم   دینے کا اختیار ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر کے صبر سے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ آپس میں باتیں کرنے سے فارغ ہو لیں۔

            قید خانہ خاصا پرانا ہے۔ اسے اطالویوں نے بنوایا تھا اور بعد میں ماسکو کی حمایت یافتہ مینجستو حکومت نے اسے اپنے مخالفوں کو قید کرنے اور اذیتیں دینے کے لیے استعمال کیا۔ پھاٹک کے اوپر بہت بڑا ستارہ بنا ہوا ہے اور ہتھوڑے اور درانتی کا جانا پہچانا نشان ہے۔ قید خانے کے احاطے میں ہمیں کارل مارکس کا سینے تک کا مجسمہ لگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آج ملک کی موجودہ حکومت نے یہاں مینجستو کے قریبی ساتھیوں   سنٹرل کمیٹی کے سابق ممبروں، سابق وزیروں، سابق فوجی جرنیلوں اور سابق پولیس اہلکاروں   کو قید کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

            ۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں   جب مینجستو کا تختہ الٹا گیا اور وہ ٹھیک آخری لمحے پر جان بچا کر زمبابوے بھاگ گیا   اس کی حکومت کو سترھواں سال تھا۔ اس لمحے تک اس نے   ماسکو میں بیٹھے اپنے دوستوں کی مدد سے   صحارا کے جنوب کے علاقے کی طاقتور ترین فوج تیار کی تھی: چار لاکھ نفر پر مشتمل فوج، جس کے پاس دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ میزائل اور کیمیائی ہتھیار تھے، اور جس کا مقصد  شمالی پہاڑی علاقوں (اریٹریا اور ٹائیگر) اور جنوب کے علاقے (اوگادن) میں گوریلا فوجیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ گوریلا سپاہی ننگے پیر کسان تھے: ان میں بہت سے کم عمر بچے تھے، ان کے پاس ڈھنگ کے ہتھیار نہیں تھے، پیٹ خالی تھے اور بدن پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ لیکن ۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں انھوں نے اس طاقتور فوج کو ادیس ابابا کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کر دیا، اور یوروپی باشندے ایک دہشت ناک قتلِ عام کے اندیشے سے فرار ہو گئے۔ لیکن ایسا کوئی قتلِ عام نہیں ہوا۔ جو کچھ پیش آیا وہ کسی فلم کا ایک منظر ہو سکتا تھا، جس کا عنوان ہوتا: "ایک عظیم فوج کی تباہی”۔ مینجستو کی طاقت ور فوج اس کے ملک چھوڑنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر منتشر ہو گئی۔ فوجی اب نڈھال اور فاقہ کشی کا شکار ہو کر بھک منگے ہو گئے تھے اور کندھوں پر کلاشنکوفیں لٹکائے خوراک کی بھیک مانگتے پھرتے تھے۔ وہ اپنے ٹینک، راکٹ لانچر، لڑاکا طیارے، بکتر بند گاڑیاں اور توپیں چھوڑ کر (جن کا ایک بہت بڑا ڈھیر اب تک شہر کے مضافات میں پڑا ہے) چاروں سمتوں میں بکھر گئے۔ وہ پیدل، خچروں پر اور بسوں میں اپنے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ آج بھی ایتھیوپیا میں آپ کو صحت مند اور توانا جوان مرد اپنی دہلیز پر یا کسی مے خانے کے اسٹول پر بے کار بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مینجستو کی عظیم فوج کے سابق سپاہی ہیں، جو ایک وقت تھا کہ پورے افریقا کو فتح کرنے پر تلی بیٹھی تھی، اور جو ۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں صرف ایک دن میں مکمل طور پر تتربتر ہو گئی۔

            ہم یہاں شیمیلِس مازنگیا سے ملنے آئے تھے۔ وہ مینجستو حکومت کے نظریہ سازوں میں شامل تھا اور پولٹ بیورو کا رکن ہونے کے علاوہ نظریاتی معاملات سے متعلق سنٹرل کمیٹی (گویا ایتھیوپیائی Suslov) کا سیکرٹری بھی تھا۔ مازنگیا کی عمر پینتالیس برس ہے۔ وہ ذہین ہے اور گفتگو کے دوران اپنے لفظوں کے چناؤ میں بہت محتاط رہتا ہے۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کا اسپورٹس کے انداز کا لباس پہن رکھا ہے۔ یہاں قیدیوں کو قید خانے کے محافظوں سے جدا شناخت نہیں کیا جا سکتا، حکومت کے پاس انھیں قیدیوں کی وردی مہیّا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ میں نے ایک محافظ سے پوچھا کہ کیا قیدیوں میں فرار ہونے کی ترغیب پیدا نہیں ہوتی، کیوں کہ وردیوں کی غرت موجودگی میں وہ آسانی سے عام شہریوں میں گم ہو سکتے ہیں۔ فرار؟ اس نے سچ مچ کی بے اعتباری سے میری طرف دیکھا۔ یہاں، وہ بولا، ان کو پیالہ بھر سُوپ مل جاتا ہے۔ باہر جا کر انھیں باقی سب کی طرح بھوکوں مرنا پڑے گا۔ یہ قیدی، اس نے زور دے کر کہا، ہمارے دشمن ضرور ہیں ، لیکن احمق نہیں۔

            مازنگیا کہتا ہے کہ مینجستو کے فرار نے اس سے وابستہ ہر شخص کو حیرت میں ڈال دیا۔ مینجستو تھکے بغیر، دن رات کام کرنے کا عادی تھا، اور بظاہر اسے مادّی اشیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ اسے اقتدار کا جنون تھا، مطلق اقتدار کا۔ وہ کسی بھی طرح کا سمجھوتا کرنے یا اپنی سوچ میں لچک پیدا کرنے سے معذور تھا۔ وہ قتلِ عام کو   جسے "سُرخ دہشت” کہا جاتا تھا اور جس نے ملک کی آبادی کے اچھے خاصے حصّے کو ٹھکانے لگا دیا تھا   اقتدار کا ایک ضروری شاخسانہ خیال کرتا تھا۔ (مینجستو کو تیس ہزار ہلاکتوں کا ذمےدار قرار دیا جاتا ہے، بعض لوگ یہ تعداد تین لاکھ بتاتے ہیں۔) مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۰ کی دہائی میں صبح سویرے شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوے میں نے "رات کی فصل”، یعنی گزشتہ رات میں مارے جانے والوں کی لاشیں، دیکھی تھیں۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب مازنگیا بدنام اور معزول شدہ حکومت کے، جس کے خاتمے کے بعد بے چارگی اور موت ہر طرف پھیل گئی، اعلیٰ ترین عہدےدار کے طور پر خود اپنے کردار کو کس طرح دیکھتا ہے۔

            مازنگیا میری باتوں کا جواب فلسفیانہ انداز سے دیتا ہے۔ تاریخ ایک پیچیدہ عمل کا نام ہے، وہ کہتا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ بچ کر نکلتی، راستہ ڈھونڈتی اور موڑ مڑتی رہتی ہے اور کبھی کبھی کسی اندھی گلی میں پھنس جاتی ہے۔ ماضی کا درست جائزہ لینے کے لیے آپ کے پاس مناسب وسائل ہونے چاہییں۔ اور یہ شرط صرف مستقبل ہی پوری کر سکتا ہے۔

            چار سو چھ دوسرے افراد کے ساتھ، جو سب کے سب، ایتھیوپیائی اصطلاح میں، "پرانی حکومت” سے وابستہ تھے، مازنگیا نے پچھلے تین سال قید خانے میں گزارے ہیں، یہ جانے بغیر کہ اس کا کیا انجام ہو گا۔ کیا اسے کسی اَور قید خانے میں بھیج دیا جائے گا؟ اس پر مقدمہ چلایا جائے گا؟ سزائے موت دے دی جائے گی؟ رہا کر دیا جائے گا؟ لگتا ہے حکومت کے ذہن میں بھی یہی سوال گردش کر رہا ہے: ان قیدیوں کا کیا کیا جائے؟

            ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہیں، یہ کسی محافظ کا کمرہ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ہماری گفتگو پر کان لگائے ہوے نہیں ہے، نہ کوئی ہم سے بات چیت ختم کرنے کو کہتا ہے۔ لوگ متواتر آ جا رہے ہیں، افراتفری مچی ہوئی ہے۔ برابر کی میز پر فون کی گھنٹی بجتی ہے مگر کسی کو اس کی طرف متوجہ نہیں کیا جا سکتا۔

            رخصت ہونے سے پہلے میں مازنگیا سے کہتا ہوں کہ مجھے وہ جگہ دکھائے جہاں اسے قید کیا گیا ہے۔ مجھے ایک احاطے میں لے جایا جاتا ہے جس کے دونوں طرف دو منزلہ گیلریاں ہیں۔ قیدیوں کی کوٹھریاں ان گیلریوں کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہیں، ان کے دروازے احاطے کی طرف کھلتے ہیں۔ یہ جگہ قیدیوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں ان کے چہروں کا جائزہ لیتا ہوں۔ یہ یونیورسٹی کے پروفیسروں، ان کے ماتحتوں اور شاگردوں کے چہرے ہیں۔ مینجستو حکومت کو ان لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو سوشلزم کی البانوی شکل کے، جسے البانیہ میں انور ہوجا نے نافذ کیا تھا، پُر جوش اور آدرش پسندانہ طور پر ماننے والے تھے۔ جب ترانہ (البانیہ) نے پیکنگ سے علیحدگی اختیار کی تو ادیس ابابا کی سڑکوں پر لوگ ہلاک کیے جانے لگے: ہوجا کے حامی ایتھیوپیائی باشندے عقیدے کے اس قدر پکے تھے کہ ماؤ کے ماننے والوں کو قتل کرنے لگے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ مہینے بھر چلتا رہا۔ لیکن مینجستو کے فرار، فوج کے انتشار اور سپاہیوں کی گھر واپسی کے بعد یونیورسٹی کے استاد اور شاگرد ہی شہر میں باقی بچے، کیوں کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ کہاں جائیں۔ سو ان کو آسانی سے گرفتار کر کے اس بُری طرح بھرے ہوے احاطے میں قید کر دیا گیا۔

افریقا سے دور

صومالیہ سے نکلنے والے سہ ماہی "ہل ابُر” (صومالی ادب اور ثقافت کے جریدے) کے گرما ۱۹۹۳ کے شمارے پر نظر ڈالتے ہوے مجھے اندازہ ہوا کہ جن سترہ مصنفوں    معروف صومالی دانشوروں، سائنس دانوں اور ادیبوں   کی تحریریں اس میں شامل ہیں ان میں سے پندرہ ملک سے باہر رہ رہے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے۔ بیشتر افریقی دانشور اس براعظم میں رہتے تک نہیں۔ اگر انھیں ملک میں صعوبتوں کا سامنا ہو تو وہ آس پاس کے کسی افریقی ملک میں پناہ نہیں لیتے۔ آپ انھیں بوسٹن، جنیوا، لندن، پیرس یا روم میں پائیں گے۔ پیچھے رہ جانے لوگوں میں   سب سے نیچے    جبر اور استحصال کے شکار ناخواندہ کسان ہیں اور   سب سے اوپر   انتہائی بدعنوان بیوروکریسی یا بد دماغ فوج کے اہلکار ہیں (جنھیں یوگنڈا کے مورخ علی ماذوری نے lumpen militariat  کا نام دیا ہے)۔ یہ براعظم اپنے مڈل کلاس دانشوروں سے محروم ہو کر کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟

شاید اُس وقت؟

میں ادیس ابابا یونیورسٹی کا دورہ کرتا ہوں جو ملک کی واحد یونیورسٹی ہے۔ میں اس کی لائبریری پر سرسری سی نگاہ ڈالتا ہوں، جو ملک کی واحد لائبریری ہے۔ اس کے شیلف خالی پڑے ہیں۔ نہ کتابیں ہیں اور نہ اخبار۔ بہت سے دوسرے افریقی ملکوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ کبھی کمپالا (یوگنڈا) میں ایک عمدہ لائبریری تھی (بلکہ تین لائبریریاں تھیں)۔ دارالسلام (تنزانیہ) میں ایک اچھی لائبریری تھی۔ اب کچھ باقی نہیں ہے۔ ایتھیوپیا کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ فرانس، جرمنی اور پولینڈ اس میں سما سکتے ہیں۔ اس وقت اس کی آبادی پانچ کروڑ ہے۔ پیش گوئی کی جاتی ہے کہ چند برس میں یہ چھ کروڑ سے بڑھ جائے گی، چند اور برس گزریں گے تو یہ آٹھ کروڑ تک جا پہنچے گی۔

            شاید اُس وقت؟

            کم سے کم ایک؟

ادیس میں افریقی انجیل

جب مجھے وقت ملتا ہے، میں افریقا ہال کی طرف جا نکلتا ہوں جو شہر کی پہاڑیوں میں سے ایک پر واقع ایک بہت بڑی اور آراستہ عمارت ہے۔ مئی ۱۹۶۳ میں اس عمارت میں افریقی ملکوں کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ میں یہاں موجود تھا اور میں نے اپنے دور کے ان سب بڑے ناموں کو دیکھا تھا: ناصر، نکروما، ہیل سلاسی، بن بیلا، مودیبو کِیتا۔ وہ سب اسی ہال میں جمع تھے جہاں اگر وہ آج دیکھتے تو انھیں لڑکے پنگ پانگ کھیلتے اور ایک عورت چمڑے کی جیکٹیں بیچتی نظر آتی۔

            ہر بار جب میں یہاں آتا ہوں، مجھے اس کے آس پاس ایک نئی عمارت بنتی دکھائی دیتی ہے، اور ہر عمارت پچھلی سے زیادہ با رعب اور پُر آسائش ہوتی ہے۔ اگرچہ افریقی معاشرے میں تبدیلی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اور تبدیلی کا یہ عمل اسے روزبروز غریب تر کر رہا ہے، لیکن حکومتوں کا کام بے قابو ہو کر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ افریقا ہال ہی کی مثال موجود ہے۔ اس پر کسی قاعدے یا ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کانفرنس روم اور دفتر ہی نہیں، راہ داریاں بھی چھتوں تک کاغذوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فائلنگ کیبنٹوں اور الماریوں میں کاغذ ٹھنسے ہوے ہیں۔ درازوں اور شیلفوں سے کاغذ اُبلے پڑ رہے ہیں۔ اور ہر طرف، ہر ڈیسک کے پیچھے، خوب صورت عورتیں، ایک دوسرے میں ممکن حد تک گھُسی ہوئی، بیٹھی ہیں۔

            یہ سیکرٹریز ہیں۔

            مجھے ایک کاغذ کی تلاش ہے جس کا عنوان "افریقا کی معاشی ترقی کا لاگوس عملی منصوبہ (۱۹۸۰ تا ۲۰۰۰)” ہے۔ اس میں افریقی ملکوں کے سربراہوں کے اُس اجلاس کی تفصیلات ہیں جو ۱۹۸۰ میں لاگوس کے مقام پر افریقی بحرانوں پر غور کرنے کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں تیار کیے گئے منصوبے کو ایک انجیل، ایک امرت دھارا، افریقا کو ترقی دینے کی ایک عظیم حکمت عملی کے طور پر دیکھا گیا۔

            میری تلاش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اکثر لوگوں نے تو اس کاغذ کا نام تک نہیں سنا۔ چند لوگ ایسے ہیں جنھوں نے سن رکّھا ہے لیکن انھیں اس کی کوئی تفصیل نہیں معلوم۔ اکا دکا ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے پڑھا تھا لیکن اس کی کوئی کاپی ان کے پاس نہیں۔ تاہم وہ مجھے اس اجلاس میں منظور کی گئی چند ایک قراردادوں کی تفصیل بتاتے ہیں: سینیگال میں مونگ پھلی کی پیداوار اور اس میں اضافے کی تجویزیں، تنزانیہ میں پائی جانے والی زے زے مکھی اور اس کے خاتمے کے طریقے، سودان میں خشک سالی اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کی تدبیریں۔ لیکن اس منصوبے نے اپنے بنیادی سوال   افریقا کو کیسے بچایا جائے؟   کا کیا جواب دیا تھا، یہ کسی کو یاد نہیں ہے۔

ہماری دنیا کا ایک پیراڈوکس

افریقا ہال میں میری ملاقات نوعمر اور پھرتیلے بابا ساہولا چِنسمین سے ہوتی ہے جو اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کا ڈپٹی ڈائرکٹر ہے۔ وہ سیرالیون کا رہنے والا ہے اور ان معدودے چند افریقیوں میں سے ہے جو نئی "گلوبل کلاس” کا حصہ ہیں۔ اس کے پاس ایک وِلا ادیس ابابا میں ہے (جو اس کی ملازمت کی مراعات میں شامل ہے)، ایک اور وِلا فری ٹاؤن میں ہے (جو اس نے جرمن سفارت خانے کو کرائے پر دے رکّھی ہے)، اور مین ہیٹن میں ایک نجی اپارٹمنٹ ہے (اسے ہوٹل میں ٹھہرنے سے نفرت ہے)۔ اس کے پاس ایک کار ہے، مع ڈرائیور کے، اور کئی نوکر ہیں۔ کل وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میڈرڈ جا رہا ہے، تین دن بعد وہ نیویارک میں ہو گا، اگلے ہفتے اسے پرواز کر کے سڈنی جانا ہے۔ اور ان میں سے ہر مقام پر گفتگو کا مرکز یہی ایک سوال ہو گا: افریقا کے بھوکوں مرتے ہوے لوگوں کی مدد کس طرح کی جائے؟

            ہماری بات چیت دوستانہ اور دل چسپ ہے۔

            چنسمین مجھے بتاتا ہے: "یہ سچ نہیں ہے کہ افریقا ایک جگہ پر ٹھہرا ہوا ہے۔ افریقا ترقی کر رہا ہے۔ یہ محض بھوک کا براعظم نہیں ہے، اصل مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر اور عالم گیر ہے، ایک سو پچاس کم ترقی یافتہ ملک پچیس ترقی یافتہ ملکوں کے دروازے پر کھڑے شور و غوغا کر رہے ہیں، اور یہ پچیس ترقی یافتہ ملک خود کساد بازاری کا شکار ہیں اور ان کی آبادی نہیں بڑھ رہی … اور اس اثنا میں افریقا اس رکاوٹ کو پار نہیں کر پا رہا جو اس کے نہایت غیر ترقی یافتہ انفرا اسٹرکچر نے کھڑی کر رکھی ہے: ناکافی ٹرانسپورٹ، خراب سڑکیں، بھاری سامان لے جانے والی گاڑیوں، بسوں اور کوچوں کی کمی، خراب مواصلاتی نظام۔

            "ہماری دنیا کے ایک اور پیراڈوکس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مثلاً سودان کے کسی کیمپ میں ایک پناہ گزیں تک خوراک پہنچانے پر   جو عموماً مٹھی بھر مکئی کے دانوں پر مشتمل ہوتی ہے   کتنا خرچ آتا ہے: اس مٹھی بھر مکئی کی نقل و حمل، اسے ذخیرہ کرنے اور اسے اس فاقہ کش پناہ گزیں تک پہنچانے کا خرچ پیرس کے کسی گراں ترین ریستوراں میں ڈنر کھانے کے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔

            "ہمیں تعلیم کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ پانے میں تیس سال لگے ہیں۔ جن معیشتوں میں کسان تعلیم یافتہ ہیں وہاں ان ملکوں کے مقابلے میں دس سے پندرہ گنا زیادہ پیداوار ہوتی ہے جن کے کسان تعلیم سے محروم ہیں۔ صرف تعلیم ہی مادّی فوائد ساتھ لے آتی ہے۔ کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔”

            میں تنزانیہ کے جان مینرُو سے بات کرتا ہوں: "افریقا کو سیاست دانوں کی ایک نئی نسل کی ضرورت ہے جو نئے انداز سے سوچ سکیں” وہ کہتا ہے۔ "موجودہ سیاست دانوں کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ لوگ ترقی کے بارے میں نہیں سوچتے، ان کا واحد مقصد اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے۔ ہمیں ایسے سیاست دانوں کی ضرورت ہے جن کا کوئی وژن ہو۔

            "ہمیں سب سے زیادہ خطرہ کس چیز سے ہے؟ نسلی بنیاد پرستی سے۔ یہ بڑھ کر اس نقطے تک پہنچ سکتی ہے جہاں نسلی پس منظر کو مذہبی رنگ حاصل ہو جاتا ہے، بلکہ یہ مذہب کا متبادل بن جاتا ہے۔”

            سودان کا صادق رشید، جو افریقی اقتصادی معاملات کے کمیشن کا ڈائرکٹر ہے، کہتا ہے: "افریقا کو جاگنا ہو گا! افریقی معاشروں کو ایک نیا، خود تنقیدی کا رویّہ اختیار کرنا ہو گا، ورنہ افریقا کا وجود ہمیشہ محض حاشیے تک محدود رہے گا۔”

تنقید اور غرور

میں ایک بوڑھے انگریز سے بات کرتا ہوں جو یہاں آ کر بس گیا ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یوروپ اور یوروپی کلچر کی قوّت دراصل اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ تنقید کرنے، اور سب سے اہم بات یہ کہ خود پر تنقید کرنے، کا اہل ہے۔ یوروپی معاشرے تجزیے اور تجسس کے فن پر عمل پیرا ہیں۔ وہ بے قرار رہتے ہیں۔ یوروپی ذہن اپنی حدود کو تسلیم کرنے، اپنی خامیوں کو ماننے پر تیار رہتا ہے۔ یہ شک کرنے والا ذہن ہے۔ دوسری تہذیبوں میں تنقید کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ مغرور ہیں، سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ مکمل ترین ہے۔ وہ خود پر غیر تنقیدی انداز میں نظر ڈالتے ہیں، دوسروں کو   شرپسند ایجنٹوں اور بیرونی طاقتوں کے غلبے کی مختلف شکلوں کو   ہر چیز کے لیے قصوروار ٹھہرانے پر آمادہ رہتے ہیں۔ تنقید کو وہ خود پر حملہ اور اپنے خلاف بدترین تعصب کا اظہار سمجھتے ہیں۔ اسے ایک ذاتی توہین، ہتک کرنے کی دانستہ کوشش یا استرداد کا اظہار گردانا جاتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ شہر گندا ہے، تو اسے ذاتی حملہ سمجھا جائے گا۔ یوں جیسے آپ نے یہ کہا ہو کہ اس شہر کے باشندے اپنے منھ نہیں دھوتے، یا اپنی گردنیں اور ناخن غلیظ رکھتے ہیں۔ وہ ایسے تبصرے پر بُرا مانتے ہیں، جلتے اور کڑھتے ہیں، آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس رویے کے باعث وہ ترقی کرنے سے، خود میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا کرنے سے تہذیبی اور ساختیاتی طور پر معذور رہتے ہیں۔

            کیا افریقی معاشرے   اور ان کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی افریقی مذاہب کی   واقعی تنقید سے ماورا اور اور رسائی سے باہر ہیں؟ آخر کیوں افریقا باقی تمام براعظموں سے مستقل پیچھے ہے؟ صادق رشید اور اس جیسے دوسرے افریقی باشندے اپنے لیے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پلاسٹک کی بالٹی کا انقلاب

ہم ایتھیوپیا  میں  دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔ سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصے میں (یوروپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوے بچوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچوں کے ہاتھ میں ہو۔

            افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوے۔ اور گھر پر بھی بچے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منھ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنووں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنولوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔

            پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے   پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا   اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں   افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔ گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصے میں آتا تھا۔ بچے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔

            پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دستیاب تھی۔ اور چند لٹر کی بالٹی چھوٹے بچے بھی اٹھا سکتے تھے۔

            چناں چہ پانی لانا اب بچوں کی ذمے داری ہے۔ دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوشگوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔ قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔ آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔

ایک قلم کی فرمائش

اگر آپ کسی گاؤں یا چھوٹے قصبے میں رکیں، یا کسی فارم پر بھی، تو اچانک مٹی میں لتھڑے، پھٹی پرانی قمیصیں اور جانگیے پہنے بچوں کے غول میں خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں۔ ان کے پاس پانی سے آدھے بھرے تونبے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک کیلا یا روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا ان کے درمیان پلک جھپکتے میں غائب ہو جاتا ہے۔ بھوک ایک مستقل موجودگی ہے۔ اس کے باوجود وہ جو چیزیں مانگتے ہیں وہ روٹی، پھل یا پیسے نہیں ہے۔

            وہ قلم کی فرمائش کرتے ہیں۔

            ایک بال پوائنٹ قلم۔ قیمت: دس سینٹ۔

            مگر یہ دس سینٹ وہ کہاں سے لائیں؟

            وہ اسکول جانا چاہتے ہیں، ان میں سے ہر ایک تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ لوگ بھی جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اسکول ہے (جس کا مطلب کسی گاؤں میں آم کے پیڑ کے نیچے کوئی سایہ دار جگہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا) لکھنا نہیں سیکھ سکتے، ان کے پاس قلم نہیں ہے۔

جنوب کی سمت سفر

گوندار کے قریب (جو ایتھیوپیائی بادشاہوں اور فرماں رواؤں کا شہر ہے اور خلیج عدن سے جبوتی ہو کر العبید، ترساف، جمینا اور جھیل چاڈ کی طرف جاتے ہوے راستے میں پڑتا ہے) میری ملاقات ایک شخص سے ہوتی ہے جو پیدل شمال سے جنوب کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہنے کو میرے پاس یہی ایک بات ہے، یہی بات اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں ہے۔

            اس کے پاؤں ننگے ہیں اور وہ ایک پیوند لگا جانگیا اور ایک ایسا کپڑا پہنے ہے جسے کبھی بہت پہلے قمیص کہا جا سکتا ہو گا۔ اس کا اسباب تین چیزوں پر مشتمل ہے: سہارے کے لیے ایک لاٹھی، ایک کپڑا جو صبح کو منھ پونچھنے، دن کے وقت دھوپ سے بچنے اور رات میں اوڑھ کر سونے کے کام آتا ہے، اور لکڑی کا ایک ڈھکنے والا پیالہ جو اس کے کاندھے پر پڑا رہتا ہے۔ پیسے اس کے پاس نہیں ہیں۔ اجنبیوں کی رحم دلی پر اس کا گزارا ہے۔ اگر اسے کھانے کو کچھ نہ ملے تو وہ بھوکا رہتا ہے۔ بھوکا تو وہ ہمیشہ سے رہا ہے۔

            وہ جنوب کی طرف اس لیے جا رہا ہے کہ اس کے بھائی نے گھر سے روانہ ہو کر یہی سمت اختیار کی تھی۔ یہ کب ہوا تھا؟ میں پوچھتا ہوں۔ بہت دن پہلے۔ اس شخص کے پورے ماضی نے سمٹ کر اس فقرے کی صورت لے لی ہے: بہت دن پہلے۔ وہ اریٹریا کے پہاڑی علاقے سے، کیرن سے روانہ ہوا تھا۔ بہت دن پہلے۔

            وہ جنوب کی سمت سفر کرنا جانتا ہے۔ ہر صبح وہ سورج کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ راستے میں ملنے والے ہر شخص سے اس کا ایک ہی سوال ہوتا ہے: کیا تم میرے بھائی سولومن کو جانتے ہو؟ اس قسم کے سوال پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ پورا افریقا سفر میں ہے۔ کچھ لوگ اپنے وطن میں ہونے والی جنگوں سے بھاگ رہے ہیں، کچھ خشک سالی سے، کچھ بھوک سے۔ اور وہ اکثر راہ کھو بیٹھتے ہیں۔ جنوب کی سمت سفر کرنے والا یہ آدمی بھی بہت سوں میں سے ایک ہے۔

            میں اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے بھائی کو کیوں تلاش کر رہا ہے۔ وہ اپنے کندھے اچکاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ سوال خود ہی اپنا جواب ہے۔ اس کے کندھوں کی یہ جنبش اِس سوال کرنے والے شخص، اِس اجنبی پر ترس کھانے کا اشارہ ہے جو چاہے بڑا خوش پوش دکھائی دیتا ہو، مگر نہایت بنیادی طور پر ایک بہت سچی، قابلِ قدر شے سے محروم ہے۔

            میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا اسے اندازہ ہے کہ وہ اریٹریا سے نکل کر ایتھیوپیا میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ جواب میں ایک ایسے شخص کی سی مسکراہٹ پش  کرتا ہے جو جانتا ہو۔ اس کے لیے یہ صرف ایک جلتی ہوئی زمین ہے جس پر ایک بھائی دوسرے بھائی کو تلاش کر رہا ہے۔

دیبر لیبانوس

اسی سڑک پر، لیکن ایک پہاڑی اتر کر اور پھر ایک گہری کھائی میں دیبر لیبانوس نامی ایک خانقاہ ہے۔ اندر گرجاگھر میں خوشگوار ٹھنڈک ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں مکمل اندھیرے میں آ گیا ہوں۔ کچھ دیر بعد میری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوتی ہیں اور مجھے دیواروں پر بنے ہوے فریسکو اور پیال سے ڈھکے فرش پر منھ کے بل لیٹے، سفید لباس پہنے ایتھیوپیائی زائر نظر آتے ہیں۔ کونے میں بیٹھا ایک بوڑھا راہب گیز (Gyz) زبان میں، جو اب مُردہ ہو چکی ہے، مناجات گا رہا ہے۔ اس کی خواب آلود آواز بہت مدّھم ہے   جیسے کسی بھی لمحے مکمل طور پر غائب ہو جانے والی ہو۔ یہ خاموشی اور تصوف کا لمحہ ہے، ایک ایسا لمحہ جو لمحے سے بڑھ کر ہے، کسی ناپ تول سے، وجود سے، وقت سے ماورا۔

            یہ راہب یہاں کب سے منھ کے بل پڑے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں گرجا گھر سے باہر نکلتا ہوں اور واپس آ جاتا ہوں۔ میں ایسا دن میں کئی بار کرتا ہوں۔ اور ہر بار یہ راہب اپنی جگہ پڑے ہوتے ہیں، بے حس و حرکت۔

            ایک دن؟ ایک مہینہ؟ ایک سال؟ ایک ابدیت؟

٭٭٭

 

               دینو بوزاتی

               انگریزی سے ترجمہ : چودھری محمد نعیم

سائبیریا کے ایک چرواہے کی رپورٹ ایٹم بم کے بارے میں

ہم قبائلی چرواہوں میں ایک روایت بہت قدیم سے بیان ہوتی آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب نوح نے جانوروں کو اپنی کشتی میں بٹھانے کے لیے جمع کیا تو پہاڑوں اور وادیوں کے سارے جانوروں نے آپس میں خوں ریزی بند کر دی اور ساتھ ہی ساتھ آدم کی اولاد سے بھی صلح کر لی۔ چناں چہ جتنے دن وہ کشتی میں رہے نوح کے احکام کے پابند رہے۔ لیکن ایک جانور نے نوح کی بات نہ سنی۔ اس ہیبت ناک شیرنی موما کے پاس جب نوح گئے تو اس نے ان کی بات کا جواب غرّاہٹ سے دیا، اور وہ خوف زدہ ہو کر چلے آئے۔ اسی لیے جب طوفان آیا تو موما کو کشتی میں جگہ نہ ملی۔ لیکن تھی وہ قوّت میں بے نظیر، چالیس دن اور چالیس رات جب تک پانی نہ اترا وہ تیرتی رہی۔ آخر سیلاب کا زور گھٹا اور سمندر کی گود سے زمین اور جنگل پھر نمودار ہوے۔ اب موما اتنی تھک چکی تھی کہ زمین پر پیر ٹکتے ہی نیند سے غافل ہو کر گر پڑی۔ اس وقت سے یہ شیرنی امگا، غوئی، تیپوتورگو اور یورکانچا کے ان تاریک جنگلوں میں پڑی سو رہی ہے۔

            یہی روایت بتاتی ہے کہ جس دن اس مہیب شکل شیرنی کی نیند ٹوٹے گی، جنگل کے جانور جنگل چھوڑ دیں گے اور آدم کی اولاد ان کا شکار آسانی سے کر سکے گی۔ تب ان جنگلوں میں موما کا راج ہو گا۔ اور یہ غارت گری اُس دن ختم ہو گی جس دن بے یال آسمان سے اتر کر اس کو کھا جائے گا۔

            اب یہ کہنا تو بہت دشوار ہے کہ ہم میں سے کتنے چرواہے اس روایت میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس ویرانے میں ہماری تنہائی اتنی سخت ہے اور ہمارے الاؤ کے گرد اتنی کہانیاں سنائی جاتی ہیں کہ اب یقین اور شک کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔ اب ہم ہر بات پر یقین کر لیتے ہیں اور ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دور دراز ملکوں سے جو خبر ہم تک پہنچتی بھی ہے وہ نہ صرف انوکھی بلکہ مشتبہ لگتی ہے کیوں کہ ہماری خانہ بدوش زندگی تو قدرت کے سرد و گرم کے اختیار میں ہے۔ ہم غریب چرواہوں کو کیا پتا ہے کہ اس وسیع دنیا میں جو مغرب میں دور افق تک پھیلی ہوئی ہے کیا ہوتا ہے۔ ہمارے کچھ پرانے قانون ہیں جو ہم کو سرحد پار کرنے سے روکتے ہیں۔ اور اگر ہم سرحد کے پار جائیں بھی تو کالے کوس طے کرنے کے بعد اور بے شمار خطروں سے دوچار ہونے کے بعد کہیں آبادی کے آثار نظر آئیں گے۔ کیوں کہ سرحد کے اس پار امگا، غوئی، تیپوتورگو، اور یورکانچا کے جنگل ہیں جن میں وہ بھیانک شیرنی موما سیلاب کے بعد سے سو رہی ہے۔

            کبھی کبھی کچھ سپاہی سرحد پر گھوڑے دوڑاتے نظر آتے۔ اکثر وہ اِترا اِترا کر ہماری طرف دیکھتے اور کسی طرح کی پیمائش کرتے۔ پھر مختلف رنگوں اور شکلوں کی جھنڈیاں زمین پر گاڑ کر چلے جاتے۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں اسٹیپ کی طوفانی ہوا ان جھنڈیوں کو اڑا لے جاتی۔ کسی کسی دن کوئی ہوائی جہاز ہمارے اوپر سے چکّر کاٹ کر نکل جاتا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ نہیں ہوتا۔

            لیکن یہ سب بتانے سے کیا فائدہ اگر اپنی موجودہ پریشانی کا ہی ذکر نہ کیا۔ کیوں کہ اِدھر کچھ دنوں میں ہمارے علاقے میں کچھ عجیب پریشان کن چزھیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اگرچہ کسی طرح کا جانی نقصان تو نہیں ہوا، پھر بھی ہم لوگ بُری طرح خوف زدہ ہیں اور ہمیں ہر طرح کے اندیشوں نے گھیر رکھا ہے۔

            پہلی عجیب واردات گزشتہ موسم بہار میں ہوئی۔ وہ سپاہی متعدد بار ہماری سرحد پر دیکھے گئے۔ اس بار انھوں نے اتنی بھاری بھاری جھنڈیاں زمین پر گاڑیں کہ طوفانی ہوا بھی انھیں نہ اکھاڑ سکی۔ یہ جھنڈیاں ابھی کچھ دن پہلے تک لگی تھیں۔

            پھر وسط جون میں ہمارے خیموں کے پاس دو سانپ نکلے جن کو ہم نے مار ڈالا۔ ایسے سانپ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ دوسرے دن اس قسم کے سینکڑوں ہی سانپ دیکھے گئے۔ نہ تو انھوں نے ہم کو ڈسنے کی کوشش کی نہ ہماری بھیڑوں کو گزند پہنچایا۔ بس سب کے سب مشرق کی طرف رینگتے نکل گئے۔ ان میں اَور بھی بیسیوں طرح کے سانپ تھے، چھوٹے اور بڑے بھی۔ اس عجیب نظارے سے ہم سب کو بڑی حیرت ہوئی۔

            پھر ہم نے دیکھا کہ تنہا سانپ ہی نہیں، ان کے ساتھ ساتھ چوہے، چھچھوندر، گندھ گلہری اور دوسرے بے شمار اقسام کے کیڑے مکوڑے بھی میدان پار کرتے ہوے مشرق کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب حشرات الارض ایک دوسرے کی موجودگی سے بے نیاز، کسی طرح کی دشمنی یا خوں ریزی کا اظہار کیے بغیر رینگتے چلے جاتے تھے، اگرچہ ان میں بیشتر ایسے تھے جو عام حالات میں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے۔

            پھر ہم نے جنگلی بکریاں دیکھیں اور خرگوش کہ بھاگے چلے جا رہے تھے اور بہت سے ایسے چوپائے بھی جن کے وجود تک سے ہم اب تک ناواقف تھے۔ ان میں سے بعض تو بہت ہی خوب صورت تھے، ان کی کھال کی نہایت بیش بہا پوستین بنتی۔ پھر چڑیاں نظر آئیں، غول کی غول، کہ اپنے قدیم گھونسلوں کو چھوڑ چھوڑ کر مشرق کی طرف اڑتی جا رہی تھیں۔ آخر یہ سب کس چیز سے بھاگ رہے تھے؟ ایسے کون سے خطرے نے ان کو آن گھیرا تھا؟ جانور کی حِس آسانی سے دھوکا نہیں کھاتی۔ ہم چرواہے بھی کچھ کچھ پریشان ہونے لگے۔ لیکن آخر کیوں ہم یہاں سے بھاگیں جب کہ اس سال گھاس کی فراوانی بھی ہے۔ بہتیرا دماغ لڑایا لیکن اس انوکھی اور تعجب خیز ہجرت کی کوئی مناسب وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ زلزلہ تو نہیں آنے والا؟ لیکن زلزلے سے چڑیوں کو کیا خدشہ! آخر ایسی کون سی وبا ہو گی جس سے نہ جھینگر کو مفر ہے نہ گلہری کو، نہ سانپ بچ سکتے ہیں اور نہ جنگلی بلّی۔ کہیں آگ تو نہیں لگ گئی؟ لیکن نہ تو افق پر دھوئیں کے آثار ہیں نہ ہوا میں جلنے کی بُو۔ تب ہم سے کسی نے مزاحاً موما شیرنی کا بھی نام لیا۔ لیکن مجھے تو اس میں کوئی بات ہنسی کی نظر نہ آئی۔

            کچھ دنوں کے بعد ایسا لگنے لگا کہ سرحد کا جنگل بالکل خالی ہو گیا ہو۔ ہجرت کرنے والوں میں سب سے آخر میں جنگلی کبوتر اور چیونٹیاں تھیں جن کی قطاریں میلوں تک چلی گئی تھیں۔ ایک آدھ جانور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی مشرق کی طرف نکل گئے۔ پھر ایک دم سنّاٹا ہو گیا۔ اب تک ہمارے شکاریوں نے خوب دھائیں دھائیں مچا رکھی تھی، مگر اب ان کی بندوقیں بھی خاموش ہو گئیں۔ ایک بھیانک، قبر کی یاد دلانے والی خاموشی سارے سائبیریا پر چھا گئی۔ ہم لوگ رات رات بھر بے وقوفوں کی طرح کان لگائے پڑے رہے مگر کچھ آواز نہ آئی۔ شاید ہم لوگ موما کی دہاڑ سننے کے منتظر تھے۔

            اور تب ایک دن ہماری بھیڑوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی مشرق کی طرف بھاگ جانا چاہتی ہیں۔ دور دور تک ان کے پیچھے بھاگنے کے بعد ہم نے جنگلے بنا بنا کر ان کو بند کر دیا۔

            لیکن اب ہم چرواہوں میں سے بھی کئی کافی پریشان نظر آنے لگے۔ وہ بھی بغیر کسی ظاہر وجہ کے خیمے اکھاڑ مشرق کی سمت چلے جانا چاہتے تھے۔ جب آپس میں بحثا بحثی ہونے لگی تو قبیلے کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن صبح کو یہاں سے چل دینا چاہیے۔

            وہ جولائی کی ایک گرم شام تھی۔ سورج ابھی ابھی ڈوبا تھا اور رات کی فرحت بخش تازگی پھیلنے لگی تھی کہ اچانک قبیلے کے کتّوں نے ایک آواز بھونکنا شروع کر دیا۔ تب یکایک مغرب میں جنگلوں کے اُس پار بہت فاصلے پر چکا چوند کر دینے والی روشنی اُبھری۔ ایسا لگا سورج پلٹ پڑا ہے اور اس کا جلتا ہوا چہرہ پورے افق پر پھیل گیا ہے۔ یہ روشنی کی گیند پھٹ کر آسمان میں سرخ، سفید زرد، کاہی، اودی دھجیّوں میں بکھرتی گئی۔ سورج کے پرخچے اڑ رہے تھے۔

            یہ روشنی کتنی دیر رہی؟ مجھے تو ایسا لگا جیسے دنیا کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن جب چکا چوند دور ہوئی اور میں نے آنکھ کھول کر آسمان کی طرف دیکھا تو ستارے بدستور چمک رہے تھے۔

            اور تب وہ خوفناک گرج سنائی پڑی کہ اس کی مثال کسی نے کبھی سنی نہ تھی۔ اس گرج کے ساتھ آندھی بھی آئی، گرم اور زہریلی آندھی کہ سانس لینا ناممکن ہو گیا اور کوئی شے زمین پر کھڑی نہ رہی۔ مجھے لگا کہ بس اب دم نکلنے ہی والا ہے، مگر یہ آندھی بھی گزر گئی۔

            ہمارے جب حواس کچھ قابو میں آئے تو ہم نے پھر آگ سلگائی اور جلتی شاخوں کی مشعلیں لے کر اپنی اپنی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے لگے جو خوف اور دہشت کے مارے بھاگتی پھر رہی تھیں۔ آندھی نے ان کے جنگلے کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ بھیڑوں کی فکر میں ہمیں کسی اَور چیز کا خوف بھی نہ رہا تھا۔ لیکن اچانک ہمارے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ بھیڑ بکری، انسان، سب اپنی اپنی جگہ دم بخود کھڑے تھے جیسے اچانک خوف سے مفلوج ہو گئے ہوں۔ تب بھیڑوں اور بکریوں کے ممیانے سے بھی تیز اور ہماری چیخوں سے بھی بلند ایک آواز سنائی دی۔ یہ آواز اتنی تند تو نہ تھی جتنی ایک لمحہ قبل کی گرج، لیکن اپنے تاثر میں پہلی سے کچھ بدتر ہی تھی۔ ایک، دو، تین بار یہ خون کو منجمد کر ڈالنے والی آواز رات کے سناٹے میں اُبھری اور ہمارے دل کی حرکت دھیمی پڑ گئی۔ یہ شیرنی کے گرجنے کی آواز تھی۔

            "آگ جلاؤ!”، "الاؤ بھڑکاؤ!” بھیڑوں، بکریوں کو چھوڑ ہم سب جھاڑ جھنکاڑ جمع کرنے میں لگ گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں الاؤ لگا سکیں۔ کچھ ہی دیر میں ایک لمبی قطار الاؤوں کی مغرب کی سمت بھڑکنے لگی۔ بالآخر  موما شیرنی کی نیند ٹوٹی تھی اور وہ اب ہماری سمت آ رہی تھی۔ اسی لمحے الاؤوں کی قطار کے اس طرف دہاڑنے کی بھیانک آواز گونجی۔ دھندلکے میں اس کا سایہ لہرایا۔ پھر دوسرے لمحے وہ ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ سرخ لپکتے ہوے شعلوں کی روشنی پر ناچ رہی تھی موما شیرنی۔ وہ کوئی معمولی شیرنی نہ تھی۔ اس کا ہیبت ناک قد کسی دیو کی طرح تھا۔

            ہم میں سے کسی نے بھی فائر نہ کیا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ اس بھیانک جانور کو چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں جل کر سیاہ لُگدی کی طرح ہو گئی تھیں۔ اس کی پوری کھال جھُلسی ہوئی تھی اور اس کے دائیں پہلو میں کسی کھوہ کی طرح گہرا شگاف تھا جس سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی موت اب بہت دور نہ تھی۔

            تب ہمارے دیکھتے دیکھتے موما شیرنی نے غصے میں اپنی کمر ٹیڑھی کی جس سے اس کا قد دو گھوڑوں سے بھی اونچا ہو گیا۔ اور ایک جہنّمی دہاڑ سنائی دی۔ اُس وقت مجھے اپنی زندگی کی قطعی امید نہ رہی۔ بغیر نشانہ لگائے میں نے اپنی رائفل چلا دی۔ ساتھ ہی ساتھ دوسروں نے اپنی اپنی رائفل داغ دی۔ ایک دھماکے کے ساتھ اُس کا بھیانک جسم زمین پر گر پڑا۔ کیا وہ مر گئی تھی؟ ہم فائر پر فائر کرتے گئے، اندھا دھند، بِنا نشانہ لگائے۔ شیرنی کے جسم میں جنبش تک نہ ہوئی۔

            یہی ہیں وہ عجیب و غریب پریشان کن واقعات جن کی طرف میں نے رپورٹ کی ابتدا میں اشارہ کیا تھا۔ اس روایتی شیرنی کا وجود واقعی تھا۔ اگرچہ بدبو سے بچنے کے لیے ہم نے اس کو فوراً جلا ڈالا، لیکن اس کا ڈھانچا ابھی تک اسی مقام پر موجود ہے، جس کا جی چاہے آ کر اس کی پیمائش کر لے۔ لیکن جو سوال ہم کو پریشان کیے ہوے ہے وہ یہ ہے: آخر کس نے اس کو نیند سے چونکا دیا؟ آخر کس نے اس کو اور اس کے آنے والے دور کو اس طرح ختم کر ڈالا؟ اُس رات وہ دل دہلا دینے والی گرج کیسی تھی؟ اُس کا سورج سے تو کوئی تعلّق نہ تھا کیوں کہ کچھ گھنٹوں کے بعد سورج پھر مشرق میں اپنے مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر نمودار ہو گیا تھا۔ آخر اُس رات ہوا کیا؟ کیا کسی جہنّمی طاقت نے ان جنگلوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے شعلے موما شیرنی کو نگل گئے؟ تو کیا وہ ہم کو بھی اپنی شر انگیزی سے جلا کر خاک نہیں کر سکتے؟ اب ہم کیسے چنر سے زندگی گزار سکتے ہیں؟ یہی سبب ہے کہ آج کل رات کو کسی کو نیند نہیں آتی اور ہم سب صبح تھکن سے چوُر اٹھتے ہیں۔

٭٭٭

’آج‘ ۔ مدیر : اجمل کمال، شمارہ ۲۷ سے

ماخذ:

http://pakdata.com/aaj/aaj27

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید