FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

چھیاں چھیاں

 

 

 

 

                فراغ روہوی

 

 

 

 

سوانحی اشارے

 

 

نام     :       محمد علی صدیقی

قلمی نام :       فراغ روہوی

والدین :       جناب محمد انعام الحق صدیقی(مرحوم) و محترمہ زینب خاتون

ولادت :       ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ ئ،  بمقام موضع : روہ،  ضلع : نوادہ،  بہار

تعلیم   :       بی۔ کام پارٹ – I

شغل   :       تجارت

آغاز شاعری    :       ۱۹۸۵ ء

شرف تلمذ     :       حضرت قیصر شمیم

تصنیف :       (۱) چھیاں چھیاں (ماہیے ) ۱۹۹۹ ء

ادارت :       سہ ماہی ’’ترکش‘‘ کلکتہ،  دو ماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور،  ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ اور                 ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کلکتہ

انتخاب :       کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں

رابطہ   :       -67مولانا شوکت علی اسٹریٹ(کولوٹولہ اسٹریٹ) کلکتہ700 073-

موبائل :       9831775593 / 9830616464

E-mail : faraghrohvi@gmail.com

 

 

 

 

تیرے نام

 

 

 

 

عرض ہے

 

بنیادی طور پر میں غزل کا شاعر ہوں، اور ماہیوں کا یہ مجموعہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ میرا اوّلین شعری مجموعہ ہے۔

میں صنف ماہیا کو برتنے میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے،  مجھے آپ کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا۔

میں احسان مند ہوں اپنے اُستاذِ محترم حضرتِ قیصر شمیم کا جنہوں نے اصلاح سے لے کر اس کتاب کی ترتیب و طباعت تک میری رہنمائی فرمائی ہے۔

ممنون ہوں اپنے بزرگ حضرتِ علقمہ شبلی،  برادرِ محترم ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور جناب حیدر قریشی کا جنہوں نے اپنے مضامین سے میری حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔

منت کش ہوں جنابِ گلزار کا جن کے ایک نغمے سے میں نے اپنے مجموعے کا نام مستعار لیا ہے۔

شکر گزار ہوں جنابِ ضمیر یوسف کا جن کے شوق دلانے پر میں نے ماہیا نگاری شروع کی تھی۔

اور اس موقع پر برادرم نسیم فائق کا بھی شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ اُن کی طرف تحریک نہ ہوتی تو شاید یہ کتاب وجود میں نہ آتی!

فراغ روہوی

 

 

 

 

 چھیاں چھیاں راہرو

 

فیرس لین کلکتہ کی ساؤتھ ٹرانسویز (ٹرانسپورٹ کمپنی)کے دفتر میں چلے جائیں وہاں انگریزی لباس میں ملبوس، گورے چٹے اور نہایت چاق و چوبند ایک صاحب ہندوستانی یا تیلگو میں ساؤتھ انڈین ڈرائیوروں سے اُلجھتے ہوئے یا ان ڈرائیوروں کے کاغذات سامنے رکھے کلکو لیٹر پر کھٹاکھٹ حساب کر کے روپے ادا کرتے نظر آئیں گے۔ وہی اس دفتر کے علی بھائی ہیں اور ہمارے فراغ روہوی۔ فراغ کا اصلی نام محمد علی صدیقی ہے اور قلمی نام فراغ روہوی۔

فراغ روہوی جس ماحول میں ملازمت کرتے ہیں وہ انتہائی غیر شاعرانہ ہے۔ اس کے باوجود ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ وہ کوئی غزل، نظم یا رباعی اور دوہا، کہہ مکرنی یا ماہیا نہ کہتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے شاگردوں میں فراغ سب سے زیادہ زود گو واقع ہوئے ہیں اور گذشتہ دس بارہ سال سے سب سے زیادہ ان ہی کی تخلیقات ہند و پاک اور امریکہ و کناڈا کے رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہی ہیں۔

چودہ پندرہ سال کے قلیل عرصے میں فراغ نے اتنا کچھ کہہ لیا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے کلام کے دو تین مجموعے با آسانی ترتیب دے سکتے ہیں۔ ویسے انہوں نے اپنی منتخب غزلوں کا ایک ضخیم مجموعہ گذشتہ سال ہی تیار کر لیا تھا لیکن اسے طباعت کے لئے دینے سے پہلے ہی ان پر ماہیا نگاری کا نشہ اس قدر طاری ہوا کہ خود تحریک ماہیا نگاری کے ’’مجاہد‘‘ بن گئے اور آناً فاناً اس تحریک کے ہندوستانی قائد ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کو بلا کر اپنے ذاتی خرچ سے ماہیا نگار شعراء کا ایک مشاعرہ کر ڈالا جسے کلکتہ کا پہلا ماہیا مشاعرہ قرار دیا گیا اور جس کی گونج دور دور تک پہنچی۔ مشاعرے سے لازمی تھا کہ فراغ میاں کا نشہ تیز ہوتا، سو ہوا، جس کا نتیجہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ کی صورت میں اور وہ بھی ’’چھیاں چھیاں‘‘ کی خوبصورتی کے ساتھ، آپ کے سامنے ہے۔

فراغ روہوی نے ’’چھیاں چھیاں‘‘ کی اشاعت کے لیے اردو اکیڈمی یا کسی دوسرے ادارے سے کوئی مالی مدد نہیں لی ہے۔ بلکہ اس پر اپنی محنت و مشقت کے پیسے ہی صرف کئے ہیں۔ لیکن اس میں بھی انہوں نے یہ احتیاط برتی ہے کہ ان کی دفتری تنخواہ متاثر نہ ہو، کیوں کہ اس پر ان کے اہل و عیال کا حق ہے۔ لہٰذا کتاب کی اشاعت پر انہوں نے صرف وہ روپے صرف کئے ہیں جو انہیں ٹی وی، ریڈیو، رسائل اور ریکارڈنگ کمپنیوں سے حاصل ہوتے رہے ہیں۔ عنقریب ہی انہیں HMVسے رائلٹی کے طور پر ایک بڑی رقم ملنے والی ہے۔ یہ رقم ملتے ہی وہ اپنی غزلوں کا مجموعہ پریس کے حوالے کر دیں گے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو ان کی تحریریں سوکھی ساکھی شہرت کے سوا کچھ نہیں دیتیں، لیکن جہاں تک فراغ روہوی کا تعلق ہے، یہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔ انہیں شہرت بھی مل رہی ہے اور ان کی آمدنی بھی ہو رہی ہے۔ فراغ خوش قسمت ہیں کہ کئی گانے والے ان کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور ان گانے والوں کی آواز میں ان کی غزلوں کے کئی کیسٹ بازار میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان پرسب سے زیادہ مہربانی مشہور غزل سنگر جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے اس طرح کی ہے کہ ندا فاضلی، بشیر بدر، شہریار، ظفر گورکھپوری اور ایاز جھانسوی کی غزلوں کے ساتھ ان کی بھی ایک غزل اپنے مقبول کیسٹ ’’HOPE‘‘میں پیش کرنے کے علاوہ اس کی باقاعدہ رائلٹی HMV میں مقر ر کرا دی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ وہ اس فاضل آمدنی سے اپنا ادبی شوق پورا کر رہے ہیں ورنہ تین بچیوں کے باپ اور چھ بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہونے کے ناتے فراغ پر والد کے انتقال کے بعد سے اپنے مشترکہ خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔

ایک زمانے میں ان کے والد جناب انعام الحق صدیقی کی اخبارات اور رسائل کی ایک دکان گلستاں بک اسٹال کے نام سے زکریا اسٹریٹ میں تھی۔ اسی اسٹال سے شمع ادبی معمہ حل کرنے والوں کے لیے ماہنامہ کلید خزانہ نکلتا تھا۔ ۱۹۷۳ ء سے دس سال تک اس سے بحیثیت مدیر معاون وابستہ رہنے کے بعد فراغ نے روبی اور شمع دونوں کے معمے حل کرنے والوں کے لیے ’ تبصرہ ‘  کے نام سے اپنا ایک ذاتی رسالہ نکالا تھا جس کے سولہ شمارے ان کی ادارت میں شائع ہوئے۔

ماہ نامہ کلید خزانہ کی وابستگی کے دوران ہی محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ۱۹۷۵ ء میں ہائر سکنڈری امتحان پاس کر کے فراغ کلکتے کے امیش چندر کالج میں بی کام کے طالب علم ہو گئے لیکن پارٹI کے امتحان سے کچھ پہلے بعض دشواریوں کے باعث ان کا سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا۔ اس کا ملال انہیں آج بھی ہے۔ لیکن ان کے ذوق مطالعہ نے انہیں بڑا سہارا دیا ہے۔

فراغ نے باقاعدہ شاعری ۱۹۸۴ ء میں شروع کی، اول اول اپنے بزرگ دوست بازغ بہاری سے مشورہ سخن کیا۔ پھر بدنام نظر کے چھوٹے بھائی اور میرے شاگرد قمر اعجاز کنڈوی سے کچھ دنوں تک اصلاح لیتے رہے۔ بدقسمتی سے عین جوانی میں قمر کی اچانک وفات ہو گئی تو بازغ انہیں میرے حوالے کر گئے تب سے وہ میرے ساتھ ہیں اور ان کی ادبی زندگی واقعی چھیاں چھیاں گزر رہی ہے !

 

قیصر شمیم

گیسٹ لکچر ر، شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی، کلکتہ

 

 

 

 

خیر مقدم

 

نئی نسل کے شاعروں میں جن کی تخلیقات پابندی سے اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں، ایک نمایاں نام فراغ روہوی کا ہے۔ فراغ روہوی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ انہوں نے نظمیں رباعیاں اور دوہے بھی کہے ہیں۔ کچھ دنوں سے ان کے ماہیے بھی رسالوں میں نظر آ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں انہوں نے کلکتہ میں ایک ماہیا مشاعرے کا بھی اہتمام کیا جس میں جناب مظہر امام اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے خصوصی طور پر شرکت کی اور پینتیس شاعروں نے اپنے ماہیوں سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اور اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس طرح اردو ماہیا نگاری کے فروغ میں ان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔

ماہیا کی جنم بھومی سرزمین پنجاب ہے۔ یہ در اصل لوک گیت کی ایک قسم ہے جسے عشق و رومان کی سرزمین پنجاب میں وہاں کے مختلف لہجوں اور بولیوں میں سننے کا رواج رہا ہے۔ اس میں عاشقانہ جذبات،  ہجر و فراق اور پیار محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ وہاں کی بہت مقبول عوامی صنف سخن ہے۔ اس کی مقبولیت اور غنائیت سے اردو والے بھی متاثر ہوئے اوراس کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوئی۔ ابتدا میں بعض فلمی گیتوں میں اس صنف کا استعمال ہوا پھر مختلف شاعروں نے بھی اس پر طبع آزمائی کی لیکن بیشتر حالات میں تین مساوی الارکان کی نظم کو ماہیے کا نام دیا گیا۔ حالاں کہ پنجابی میں تینوں مصرعوں کے ارکان برابر نہیں ہوتے۔ ۱۹۹۰ئ  کے آس پاس سنجیدگی کے ساتھ اردو میں نہ صرف ماہیا نگاری کی طرف توجہ دی گئی بلکہ اس کے خد و خال کی وضاحت اور وزن و ہیئت کے تعین کے لیے تواتر کے ساتھ مضامین کی اشاعت بھی ہوئی۔ اس سے ماہیے کا صحیح رنگ روپ اُبھر کر سامنے آیا اور اردو میں صحیح ماہیا نگاری کی رفتار تیز ہوئی۔ پنجابی میں گائی جانے والی صنف تھی لیکن اردو میں اس نے تحریری شکل اختیار کی۔ ایک عرصے تک ماہیا کا وزن معرض بحث رہا، کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ تین مساوی الارکان مصرعوں میں بھی ماہیا کہا جا سکتا ہے لیکن زیادہ تر حضرات اس خیال کے تھے کہ اسے ثلاثی، ہائیکو اور تروینی سے تمیز کرنے کے لیے اس کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہو۔ پنجابی ماہیوں کی دھن اور لے پر نگاہ رہے تو اس سے بھی ایک سبب کم ہونے کی تائید ہوتی ہے اور اب بہت حد تک طے ہو چکا ہے کہ صحیح ماہیا وہی ہے جس کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہو۔ چنانچہ اب ماہیے اسی ہیئت میں لکھے جا رہے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں بھی اس کا التزام رکھا گیا ہے۔

فراغ روہوی نے ابھی تھوڑے ہی دنوں سے ماہیا نگاری شروع کی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ماہیے کی روایت اور اس کے مزاج پر ان کی نگاہ ہے اور ان کی کوشش رہی ہے کہ یہ صنف جس فراوانیِ جذبات اور غنائی کیفیات کی متقاضی ہے اس سے صرفِ نظر نہ کیا جائے۔ گاؤں کی خوشبو، وہاں کے لوگوں کے معصوم احساسات، پیار محبت اور ہجر و فراق کی تصویریں ملاحظہ ہوں :

ؓ بیسن کی بنی روٹی

مرغ مسلم سے

تھی کتنی بھلی روٹی

 

وہ گاؤں کہاں ماہی

نیم کے پیڑوں کی

اب چھاؤں کہاں ماہی

 

یوں آہ نہ بھرتے تھے

کھیت میں گیہوں کے

ہم کام تو کرتے تھے

 

شرماتی تھی وہ اکثر

نام مرا لکھ کے

نام مرا لکھ کے

 

گم صم نہ رہا کرنا

نام کوئی دے دو

لہروں کو گنا کرنا

 

اب اُنگلی ہے اُٹھنے کو

یاد کے ساحل پر

بے نام سے رشتے کو

آج اردو ماہیا انہیں موضوعات تک محدود نہیں۔ زندگی کے داخلی و خارجی مسائل و موضوعات اس کی دسترس سے باہر نہیں۔ چنانچہ فراغ روہوی نے بھی اردو شاعری کے رنگا رنگ موضوعات کو زندگی کے دردو کرب، خوشی ومسرت اور پرب تہوار کو اپنے ماہیوں میں سمو کر اس صنف کو وسیع تر آفاق سے آشنا کیا ہے۔ کچھ مثالیں دیکھئے :

 

مٹی کا بنا ہوں میں

سچ تو مگر یہ ہے

شہکارِ خدا ہوں میں

 

اک خواب نہیں ہیں ہم

ڈھونڈ کے تو دیکھو

نایاب نہیں ہیں ہم

 

اب ایسی فضا کیوں ہے

سرد رُتوں میں بھی

یہ گرم ہوا کیوں ہے

 

اب ایسا سماں کیوں ہے

امن کے موسم میں

سرحد پہ دھواں کیوں ہے

 

انجان سے لگتے ہیں

اپنے ہی گھر میں ہم

مہمان سے لگتے ہیں

 

دفتر نہ بنا گھر کو

پھینک بہی کھاتے

چاہت سے سجا گھر کو

 

ہر برگ پہ شبنم ہے

زرد مگر گل ہیں

یہ کون سا موسم ہے

 

ہر ہاتھ میں پتھر ہے

دیکھ مرے ربا

پھر زد پہ مرا سر ہے

 

احسان یہ فرمانا

عید میں ساجن کو

اے چاند لئے آنا

بچوں کی چہکار، اچھل کود، شوخی و شرارت زندگی کے خاکے میں دل پسند رنگ بھرتی ہیں اور زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ فراغ روہوی نے ان سے بھی اپنے ماہیوں کے حسن میں اضافہ کیا ہے اور بچوں کے احساسات کی ترجمانی اپنے ماہیوں میں یوں کی ہے :

سن میری دعا یارب

باغ میں ٹافی کا

اک پیڑ اُگا یارب

 

کیوں اتنا ستاتے ہیں

خواب میں بھی مجھ کو

اُستاد ڈراتے ہیں

 

اللہ کی مرضی ہے

موج اُڑائیں گے

اک ماہ کی چھٹی ہے

 

اردو شاعری میں حمد و نعت کی روایت پرانی ہے۔ عہد حاضر میں اس روایت کی پیش رفت کمیت و کیفیت دونوں جہتوں سے ہوئی ہے۔ شاعروں نے ماہیوں میں بھی اپنے جذبات، عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ فراغ روہوی کی عبدیت کس طرح سر بہ خم ہے ملاحظہ کیجیے :

 

مختار ہے،  عالی ہے

نام خدا جس کا

وہ ذات نرالی ہے

 

تعریف الٰہی میں

وقت مرا گزرے

توصیف الٰہی میں

 

فراغ روہوی کے ماہیوں میں محبوب خدا کی شان بھی دیکھتے چلئے :

 

محشر کا کسے ڈر ہے

ساتھ ہمارے جب

خود شافع محشر ہے

 

نبیوں میں جدا ٹھہرے

میرے محمدؐ ہی

محبوبِ خدا ٹھہرے

شہدائے کربلا کا خون گلشن اسلام کی آبیاری کا سبب بنا۔ حق و باطل کی اس کشا کش کو بھی فراغ روہوی نے اپنے ماہیوں کا موضوع کامیابی کے ساتھ بنایا ہے :

 

سر دینا ہی واجب تھا

سامنے باطل کے

جھکنا نہ مناسب تھا

 

کربل کی کمائی تھی

پیاس شہیدوں کی

کوثر نے بجھائی تھی

 

پیاسا ہی سدا ٹھہرا

قافلہ زہراؓ کا

کس شہر میں جا ٹھہرا

 

فراغ روہوی کی شاعری کی عمر بہت زیادہ نہیں اور ’’چھیاں چھیاں‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے لیکن ان کی شاعری کے حوالے سے یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہو گا کہ یہ مانوس لب و لہجہ میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر ایک طرف وہ کلاسیکی ادب کی روایات اور اس کی لفظیات سے آشنا ہیں تو دوسری طرف ان کے یہاں بیان کے نئے سانچے اور اسلوب بھی ملتے ہیں۔ اگر وہ اسی طرح مشق سخن اور موزونیِ طبع سے کام لیتے رہے تو ان کے لیے مزید ’’فتوحات‘‘ کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔

 

علقمہ شبلی

وائس چیر مین مغربی بنگال اردو اکاڈمی، کلکتہ

 

 

 

 

فراغ روہوی کے ماہیے میں سوز دل کا فنکارانہ اظہار

 

 

جدید آفاق کو پانے کی جستجو فراغ روہوی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ وہ اپنی امکانی صلاحیتوں سے نامعلوم کو وجود میں لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ تسخیر ان کی سرشت میں ہے۔ فطرت، اشیاء، اور معاشرے کی فکری و عملی تفتیش سے وہ اپنی شاعری کو پروان چڑھاتے ہیں اور رابطوں کے عطا کردہ لامتناہی اور بے کراں سلسلے سے اختراعی فارمولے وضع کرتے ہیں۔ یہ ان کا اپنا امکانی باطن ہی ہے کہ انہوں نے معروضی تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے ماہیے جیسی کلاسیکی صنف کو اپنایا اور شد و مد سے اس کے فروغ میں حصہ لیا۔

اقدار کی مطلقیت، جذبے کی مدوریت، تخیل کی لا محدودیت اور نئے معروضی تقاضے اور تجریدی تناظر میں فراغ روہوی کے ماہیے ایک بڑے نقش کا حصہ ہیں۔ یہ نقش ماہیے کی وہ خصوصیت ہے جس کی بنا پر معنویت کسی مخصوص واقعہ، صورتِ حال، مقام، زمانے اور شخص کی حدوں کو توڑتی ہوئی اپنے آپ کو آفاق اور کائنات پر محیط کرتی ہے۔

فراغ روہوی کے ماہیے تصویر جمال اور جمالیاتی قدروں پر خلاقانہ تبصرہ ہونے کے ساتھ زمان و مکاں کے جبر اور انسانی ذات کے درمیان کشمکش اور انسان کی آبرو مندی کی دستاویز ہیں :

 

 

 

دل میرا دھڑکتا ہے

شہر سے کیا لوٹا

وہ مجھ سے جھجکتا ہے

 

یہ کیسی صدی دیکھی

خون کے رشتوں میں

بے گانہ روی دیکھی

 

اے دوست،  یہ کیا کم ہے

چوٹ لگی مجھ کو

اور آنکھ تری نم ہے

 

ڈولی میں جو بیٹھی ہے

بول نہیں سکتی

زر دار کی بیٹی ہے

 

شرماتی تھی وہ اکثر

نام مرا لکھ کے

مہندی سے ہتھیلی پر

 

روز مرہ کی زندگی نئے مفاہیم کو جنم دیتی ہے اور نئی دقتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ معاشرے کا کوئی واقعہ اچانک سامنے آتا ہے اور اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ فراغ روہوی جیسے حساس شاعر صورتِ حال اور ممکنات پر نظر رکھتے ہیں اور حقیقت کا مخصوص کردار سامنے لاتے ہیں وہ خود کہتے ہیں :

 

جیسا بھی نگر آئے

راہ بنا لوں گا

منزل تو نظر آئے

 

ہم دھوپ کے راہی ہیں

چھاؤں تلے یارو

کب چلنے کے عادی ہیں

 

فکر، خیال اور اظہار کے درمیان منطقی رشتہ کی سہہ جہتی کو سمجھتے ہوئے فراغ روہوی اس دلیل کے قائل ہیں کہ:

اُلفت کے فسانے کو

موڑ نیا دے کر

چونکا دو زمانے کو

 

اب اُنگلی ہے اُٹھنے کو

نام کوئی دے دو

بے نام سے رشتے کو

 

ساتھ ہی موت اور زندگی کے تسلسل کے فلسفے پر بھی ان کی کڑی نگاہ ہے :

ہر پل یہی اُلجھن ہے

موت ہے رُک جانا

چلنا ہی تو جیون ہے

 

لیکن سامراجی طاقت نے جو عصبیت پیدا کر دی ہے، رشتوں میں دوری پیدا کر دی ہے،  دلوں میں نفاق پیدا کر دیا ہے، انتشار اور خوفزدگی کی فضا پیدا کر دی ہے اس سے رویے،  فیصلے، پسند اور عقیدے مجروح ہوئے ہیں اور پیچیدگی اور پھیلاؤ سامنے آیا ہے۔ اسلوب زیست کی اس نفسا نفسی کو فراغ روہوی نے اپنے ماہیے کا موضوع بنایا ہے :

 

کس دور کے انساں ہو

آگ،  دھواں ہر سو

کیوں دیکھ کے حیراں ہو

 

اُف! کیسا تماشا تھا

رام کی نگری میں

تہذیب کا لاشا تھا

 

اب ایسی فضا کیوں ہے

سرد رُتوں میں بھی

یہ گرم ہوا کیوں ہے

 

پاگل نہ بنو بھائی

غیر کے کہنے پر

ہم سے نہ لڑو بھائی

 

اوراقِ پریشاں ہیں

ساتھ نہیں رہتے

ہم کیسے مسلماں ہیں

تلقین کے لیے فراغ روہوی مجبور ہیں کیوں کہ وہ جس عہد میں زندگی کے سچ کا دریچہ وا رکھ رہے ہیں اس کے ماہ وسال کی محبس میں تازہ ہوا کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں اور خود کے چہرے کو دیکھنے کا حوصلہ پست ہوتا جا رہا ہے۔ سراپا لباس کے باوجود بے پیرہن روح کو پرکھنے کا سلیقہ فریب بنتا جا رہا ہے۔ ہر طرف جنگ و جدال ہے اور فراغ روہوی ماہیے کے ذریعے پیغام دیتے ہیں :

ہم جنگ کے دشمن ہیں

روپ جو کجلا دے

اُس رنگ کے دشمن ہیں

 

ہم وار نہیں کرتے

امن کے شیدائی

تکرار نہیں کرتے

 

وہ صرف پیغام ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ عمل کے بعد کا تجربہ بھی بیان کرتے ہیں :

 

ہم نے جو پیا یارو

زہر محبت کا

امرت سا لگا یارو

 

سب نے تو مذمت کی

کون دعا دیتا

تکمیل محبت کی

 

اس پہلو سے بین الاقوامی تحریکاتِ حریت کے ذریعے ادب کے رشتے کا جو مطالعہ سامنے آتا ہے وہ عصری ضرورت ہے کیوں کہ فراغ روہوی کے عہد کا ماحول بہت ہی پراگندہ ہو چکا ہے۔ لفظوں کے پیکر سے ماہیے کی روح تک پہنچنے کا سچا رنگ دیکھئے :

کیا بم کا دھماکا تھا

ہیر بھی تھی سہمی

رانجھا بھی ڈرا سا تھا

 

سب لوگ نظر میں ہیں

امن کے دشمن تو

اب اپنے ہی گھر میں

 

ماہیا نغمۂ حسن اور ترانۂ شباب کی صنف ہے، وسیع المشرب اور متواضع صنف ہے اور نرم اور لچکدار صنف ہے۔ فراغ روہوی نے البیلے انداز میں معاملاتِ حسن و عشق کو برتا ہے اور ہمہ رنگی کو شیرینی اور موسیقیت کا خمیر عطا کیا ہے :

 

تو ہیر کی ثانی ہے

مکھ پہ ترے گوری

پنجاب کا پانی ہے

 

ہر شخص بہک جائے

آپ کے سینے سے

آنچل جو ڈھلک جائے

 

اِٹھلا کے نہ چل گوری

ہوش نہ ہم کھو دیں

بل کھا کے نہ چل گوری

 

لیکن احساس کی جوانی کی کامرانی میں سوزِ باطن اور آتش تند کی نغمہ سرائی بھی ہے۔ عشق و حیات کے ارتباط اور ہم رنگی میں مادیت اور روحانیت خارجیت اور داخلیت صہبائے خوش رنگ کی صورت میں ملتی ہے جس میں ترنم ریزی نہیں بلکہ طنز کی نشتریت ہے :

 

 

کب عشق وہ کرتے ہیں

لوگ جو دنیا میں

رُسوائی سے ڈرتے ہیں

 

ہر حد سے گزرتے ہیں

پیار کے پنچھی کب

پرواز سے ڈرتے ہیں

 

 

فراغ روہوی کے ماہیے میں احساس کی تصویریں الگ الگ روپ دھارن کرتی ہیں اور وارداتِ قلب کے مرقعے بن جاتی ہیں :

 

منہ میٹھا کرا دیں گے

آپ اگر ہم کو

خط اُن کا دکھا دیں گے

 

محفوظ پناہوں میں

تجھ کو چھپا لوں گا

میں اپنی نگاہوں میں

 

ہنستے ہی رہا کرنا

ہجر کے موسم میں

ملنے کی دعا کرنا

 

اک تیری محبت میں

عمر گزاری ہے

دنیا سے بغاوت میں

 

فراغ روہوی غم دوراں کو جس طرح اپنے ماہیے میں برتا ہے اور درد بے کراں کو سمیٹ کر لہجہ و آہنگ عطا کیا ہے اسی طرح غم جاناں کے ذکر سے اپنے ماہیے کا حسن نکھارا ہے اور رچاؤ پیدا کیا ہے ان کیفیتوں سے گزرتے وقت وہ جمال پسند،  صاحب دل،  وفا سرشت اور خوش گو بن جاتے ہیں، معنوی حدود میں نفسیاتی قدریں اور تہذیبی روایات کی پاس داری بھی ان کے پیش نگاہ ہوتی ہیں :

 

دہلیز پہ اک دیپک

روز مری خاطر

جلتا تھا سویرے تک

 

کس بات کی اُلجھن ہے

ٹوٹ نہیں سکتا

یہ پیار کا بندھن ہے

 

گم صم نہ رہا کرنا

یاد کے ساحل پر

لہروں کو گنا کرنا

 

تم عید میں آ جانا

بھول کے سب باتیں

بانہوں میں سما جانا

باطنی احتسابی عمل فراغ روہوی کا خزانہ اور اختیاری شعور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صائب اور غیر صائب، خیر اور شر،  حقیقی اور غیر حقیقی، مصنوعی اور تخلیقی اور ایمانی اور غیر ایمانی میں تمیز کرتے ہیں اور دل گداختہ کے ساتھ نظریہ سازی، خیال آرائی اور جذباتی منظر کشی کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں :

خوددار طبیعت کو

جھیلنا آتا ہے

ہر ایک مصیبت کو

 

اللہ سے ڈر بھائی

مجھ کو مرے حق سے

محروم نہ کر بھائی

 

اک ڈھال تھی کیا یارو

جنگ کے میداں میں

تھی ماں کی دعا یارو

 

فراغ روہوی ابدی بازگشت بھی سنتے ہیں اور خود کو اللہ کا عبد مانتے ہیں۔ ویسے بھی عبدیت بلند ترین مرتبہ، آدم کا اشارہ ہے کیوں کہ خدا وحدہٗ لا شریک ہے اس کی حمد سب پر واجب ہے۔ فراغ روہوی نے بھی حمدیہ ماہیے کہے ہیں اور اپنے عشق کو نورِ حیات، نارِ حیات اور ظہور و سبب ظہور کے طور پر پیش کرتے ہوئے خدا کی وحدانیت کی رطب اللسانی کی ہے :

 

مختار ہے،  عالی ہے

نام خدا جس کا

وہ ذات نرالی ہے

 

ہر شے کا تو صانع ہے

سانس تلک میری

یارب،  ترے تابع ہے

 

تعریف الٰہی میں

عمر مری گزرے

توصیف الٰہی میں

 

منصب اور عظمت کو موضوع بناتے ہوئے فراغ روہوی نے رسول اللہﷺ کے فضائل و کمال کو بھی ماہیے میں پیش کیا ہے۔ خاتم الانبیاء اور سیدالرسل ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا:

 

 

نبیوں میں جدا ٹھہرے

میرے محمدؐ ہی

محبوبِ خدا ٹھہرے

 

محشر کا کسے ڈر ہے

ساتھ ہمارے جب

خود شافع محشر ہے

 

فراغ روہوی کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کے لئے بھی ماہیے کہے ہیں۔ نفسیات سے آگاہی کے بغیر بچوں کا ادب نہیں لکھا جا سکتا۔ بچوں کے کردار کو بلند کرنے، انہیں تفریح بہم پہچانے اور ان میں اخلاقی قدریں عام کرنے کے لئے بچوں کی نفسیات کو سمجھنا فرض اولین ہے۔

فراغ روہوی بچوں کی دلچسپی کے لیے چھوٹی سے چھوٹی بات کو نیا بنا کر پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ وہ اس لحاظ سے قابل توجہ ہیں کہ ماہیے جیسی صنف سے بچوں کے ذہنی نشو و نما میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں :

اکزام بھی دینا ہے

یاد سبق کر لو

انعام بھی لینا ہے

 

یہ کیسی کہانی ہے

دور تلک جس میں

راجا ہے نہ رانی ہے

 

کیوں اتنا ستاتے ہیں

خواب میں بھی مجھ کو

اُستاد ڈراتے ہیں

 

فراغ روہوی کے ماہیے میں نکھری، ستھری، پاکیزہ، محبت آمیز، حسن پرور جذبہ و احساس زدہ، شوق انگیز اور ولولہ خیز فضا ملتی ہے جو سوز دل کا فنکارانہ اظہار ہے !

 

ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی،  بھاگل پور

 

 

 

 

چھیاں چھیاں کے ماہیے

 

مغربی بنگال میں اردو ماہیے کو حالیہ دنوں میں جو مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے،  میرے لیے حیران کن ہے۔ شمیم انجم وارثی وہاں سے ۳۴ماہیا نگاروں کا ایک خوب صورت انتخاب شائع کر چکے ہیں۔ فراغ روہوی کی جانب سے کلکتہ میں ایک کامیاب ماہیا مشاعرہ ہو چکا ہے اور اب فراغ روہوی کے ماہیوں کا مجموعہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ شائع ہو رہا ہے۔ مختلف ادبی رسائل میں فراغ روہوی کے ماہیے ایک ساتھ پڑھنے کو ملے ہیں تو میں جیسے خوشی سے لبالب بھر گیا ہوں۔

بعض ادیبوں نے محض اپنی ترجیحات کے باعث غیر پنجابی اردو ماہیا نگاروں کے بارے میں ایسے رویے کا اظہار کیا تھا جس سے صرف ان کا زعم ہمہ دانی ظاہر ہوتا تھا۔ اس زعم کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ معترضین گنتی کے چند اچھے ماہیے لکھنے کے بعد اپنے زعم کا خود ہی شکار ہو گئے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ بہار اور پونہ کے بعد اب مغربی بنگال بھی اردو ماہیے کا مرکز بن گیا ہے اور اس مرکز کی مرکزی شخصیات میں ایک بے حد اہم نام فراغ روہوی کا ہے۔

’’چھیاں چھیاں‘‘ کے آغاز میں پہلے حمدیہ،  پھر نعتیہ اور پھر تھوڑے سے کربلائی ماہیے پیش کیے گیے ہیں۔ ان ماہیوں سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے :

 

 

تعریف الٰہی میں

وقت مرا گزرے

توصیف الٰہی میں

 

پھٹ جائے نہ سینہ چل

دل کی دوا لینے

چل سوئے مدینہ چل

 

کس حال میں لشکر تھا

دھوپ کی چادر تھی

اور ریت کا بستر تھا

اب فراغ روہوی کے چند ایسے ماہیے دیکھیں جنہیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں کے سامنے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے :

 

کیا مجھ کو دوا دو گے

زخم مرے چھو کر

پھر درد بڑھا دو گے

 

اب اُنگلی ہے اُٹھنے کو

نام کوئی دے دو

بے نام سے رشتے کو

 

ہر حد سے گزرتے ہیں

پیار کے پنچھی کب

پرواز سے ڈرتے ہیں

 

رُکنا یا ٹھہرنا کیا

عشق کی راہوں میں

انجام سے ڈرنا کیا

 

کس بات کی اُلجھن ہے

ٹوٹ نہیں سکتا

یہ پیار کا بندھن ہے

 

کچھ پاسِ وفا رکھنا

کون مٹا تم پر

یہ یاد ذرا رکھنا

 

 

کیا آنکھ لڑا بیٹھی

اپنے ہی دل کو وہ

اک روگ لگا بیٹھی

 

ہم جان گئے تجھ کو

دیر لگی،  لیکن

پہچان گئے تجھ کو

 

پنجابی ماہیے کا سیاسی اور اخلاقی رنگ مغربی بنگال کے اردو ماہیے میں اپنے ماحول سے اگتا ہوا یوں فراغ روہوی کے یہاں اظہار پاتا ہے :

 

ہم جنگ کے دشمن ہیں

روپ جو کجلا دے

اُس رنگ کے دشمن ہیں

 

وہ کالا دسمبر تھا

رام کے بھگتوں سے

ماحول مکدر تھا

 

منہ اپنا نہ کالا کر

اپنے بزرگوں کی

پگڑی نہ اُچھالا کر

 

فراغ روہوی نے بچوں کے ماہیے بھی کہے ہیں۔ یہ تجربہ پنجابی ماہیے میں بھی نہیں ملتا اور اردو میں اس کی ابتدا فراغ روہوی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ فراغ روہوی کی اس نوعیت کے چند ماہیے اس رجحان کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

 

سن میری دعا یارب

باغ میں ٹافی کا

اک پیڑ اُگا یارب

 

لوگو،  یہ کرم کر دو

بوجھ کتابوں کا

ہم بچوں پہ کم کر دو

 

کیوں اتنا ستاتے ہیں

خواب میں بھی مجھ کو

اُستاد ڈراتے ہیں

 

میرے نزدیک فراغ روہوی کا یہ تجربہ خوب صورت بھی ہے اور کامیاب بھی۔ اخیر میں ’’چھیاں چھیاں‘‘سے چند ایسے ماہیے دیکھیں جو ایک طرف ماہیا نگاری میں ان کی انفرادیت کا موجب بن سکتے ہیں تو دوسری طرف ان کے آئندہ امکانات کی جانب خوب صورت اشارہ کر رہے ہیں :

 

 

تھے کیسے دِوانے ہم

آگ کو دامن سے

نکلے تھے بجھانے ہم

 

وہ خاک سمندر ہے

تہہ میں اگر اُس کے

موتی ہے نہ گوہر ہے

 

تکیہ نہ بچھونا تھا

خواب میں بھی مجھ کو

چٹان پہ سونا تھا

 

دفتر نہ بنا گھر کو

پھینک بہی کھاتے

چاہت سے سجا گھر کو

 

اب وقت پہ سوئیں گے

جاگتی آنکھوں میں

سپنے نہ سنجوئیں گے

 

گم صم نہ رہا کرنا

یاد کے ساحل پر

لہروں کو گنا کرنا

 

فراغ روہوی کے ماہیوں کا مجموعہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ اردو ماہیے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مجموعے کے مطالعہ کے بعد مغربی بنگال میں خصوصی طور پر اور پوری اردو دنیا میں عمومی طور پر نئے شعرا بھی ماہیے کہنے کی طرف مائل ہوں گے۔ اور اردو ماہیا ایک شعری صنف کے طور پر مسلسل مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔

 

حیدر قریشی، جرمنی

 

 

 

حمدیہ ماہیے

 

مختار ہے،  عالی ہے

نام خدا جس کا

وہ ذات نرالی ہے

 

ہر شے کا تو صانع ہے

سانس تلک میری

یارب،  تری تابع ہے

 

خلاق تو ہی مولا

سارے جہاں کا ہے

رزّاق تو ہی مولا

 

ہر بات نرالی ہے

ذات تری یکتا

ہر شے کا تو والی ہے

 

تعریف الٰہی میں

وقت مرا گزرے

توصیف الٰہی میں

٭٭٭

 

 

 

نعتیہ ماہیے

 

 

نبیوں میں جدا ٹھہرے

میرے محمدؐ ہی

محبوبِ خدا ٹھہرے

 

مہمانِ خدا تم سا

عرشِ معلی پر

کوئی نہ ہوا تم سا

 

محشر کا کسے ڈر ہے

ساتھ ہمارے جب

خود شافع محشر ہے

 

تعظیم کی منزل ہے

صل علیٰ کہیے

سرکارؐ کی محفل ہے

 

اک جنت ثانی ہے

شہر مدینہ کی

ہر شام سہانی ہے

 

پُر نور گھٹا دیکھوں

کاش! وہ دن آئے

طیبہ کی فضا دیکھوں

 

پھٹ جائے نہ سینہ چل

دل کی دوا لینے

چل سوئے مدینہ چل

 

بدبخت اگر جائے

آپؐ کی چوکھٹ پر

تقدیر سنور جائے

٭٭٭

 

 

 

نذرِ شہیدانِ کربلا

 

 

پیاسا ہی سدا ٹھہرا

قافلہ زہراؓ کا

کس شہر میں جا ٹھہرا

 

کس حال میں لشکر تھا

دھوپ کی چادر تھی

اور ریت کا بستر تھا

 

ایمان کی پروا تھی

آلِ پیمبرؐ کو

کب جان کی پروا تھی

 

سر دینا ہی واجب تھا

سامنے باطل کے

جھکنا نہ مناسب تھا

 

جو خون میں ڈوبا تھا

آہ! وہ چہرہ تو

شبیرؓ کا چہرہ تھا

 

کربل کی کمائی تھی

پیاس شہیدوں کی

کوثر نے بجھائی تھی

 

اخلاص کے مظہر تھے

ابن علیؓ بے شک

ایثار کے پیکر تھے

 

ہر دور میں شہرت ہے

آلِ محمدؐ کی

کیا شانِ شہادت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قوسِ قزح

 

 

جو دیکھ کے نادم تھا

بند مری مٹھی

وہ شہر کا حاتم تھا

 

خوددار طبیعت کو

جھیلنا آتا ہے

ہر ایک مصیبت کو

 

وہ خاک سمندر ہے

تہہ میں اگر اُس کی

موتی ہے نہ گوہر ہے

 

برسے تو وہ بادل ہے

اور نہ برسے تو

سمجھو کہ وہ پاگل ہے

 

تعریف جو کرتا ہے

میرے محاسن کی

وہ آئینہ کیسا ہے

 

جس ڈھب سے وہ ملتا ہے

میں بھی سمجھتا ہوں

مطلب سے وہ ملتا ہے

 

سچ کہنا مرا اُن کو

آج نہ جانے کیوں

لگتا ہے برا اُن کو

 

حالات بتاتے ہیں

عقل کے اندھے بھی

اب راہ دکھاتے ہیں

 

اوروں سے چلا تھا وہ

ناپنے قد میرا

خود جھینپ رہا تھا وہ

 

ہم جانتے بہتر ہیں

کس سے بڑے ہیں ہم

اور کس کے برابر ہیں

 

منہ اپنا نہ کالا کر

اپنے بزرگوں کی

پگڑی نہ اُچھالا کر

 

ہم دل میں اُتر جاتے

گھر میں ہمارے تم

اک شب جو ٹھہر جاتے

 

بے وجہ بھٹکتے ہو

اپنے ہی گھر میں کیوں

جانے سے جھجکتے ہو

 

انجان سے لگتے ہیں

اپنے ہی گھر میں ہم

مہمان سے لگتے ہیں

 

اک شور تھا دفتر میں

چین کہاں حاصل

ہے شور وہی گھر میں

 

دفتر نہ بنا گھر کو

پھینک بہی کھاتے

چاہت سے سجا گھر کو

 

کس کس سے خفا رہتا

ایک ہی کمرے میں

بے کار ہی دکھ سہتا

 

ہر ہاتھ میں پتھر ہے

دیکھ مرے ربا

پھر زد پہ مرا سر ہے

 

نیزے پہ ہے سر میرا

کون بچائے گا

جلتا ہوا گھر میرا

 

منظر کو بدلنے دو

آگ میں گھر میرا

جلتا ہے تو جلنے دو

 

کس دور کے انساں ہو

آگ،  دھواں،  ہر سو

کیوں دیکھ کے حیراں ہو

 

سچ بول رہے ہو تم

یار! مصیبت کیوں

خود مول رہے ہو تم

 

سن میرا کہا سائیں

سانپ کے بچوں کو

مت دودھ پلا سائیں

 

اللہ سے ڈر بھائی

مجھ کو مرے حق سے

محروم نہ کر بھائی

 

پاگل نہ بنو بھائی

غیر کے کہنے پر

ہم سے نہ لڑو بھائی

 

یہ کیسی صدی دیکھی

خون کے رشتوں میں

بے گانہ روی دیکھی

 

اک ڈھال تھی کیا یارو

جنگ کے میداں میں

تھی ماں کی دعا یارو

 

مغموم حویلی تھی

دے دی کرائے پر

برسوں سے اکیلی تھی

 

چمبل کی جو رانی ہے

کتنے اداروں کی

سنتے ہیں کہ بانی ہے

 

تقدیر میں جلنا ہے

حیف! چمن چھوٹا

اب ریت پہ جلنا ہے

 

ہر سمت اُداسی ہے

ابر ذرا برسے

خلقت ابھی پیاسی ہے

 

بارش جو ہوئی ہوتی

دور تلک ربا

ہر شاخ ہری ہوتی

 

ہر برگ پہ شبنم ہے

زرد مگر گل ہیں

یہ کون سا موسم ہے

 

اے میرے خدا،  دے دے

زرد درختوں کو

پھر سبز قبا دے دے

 

ہے چاند نہ اک تارا

رات یہ کیسی ہے

سونا ہے گگن سارا

 

برسات کا موسم ہے

آج سوا میرے

ہر چیز یہاں نم ہے

 

اب ایسی فضا کیوں ہے

سرد رُتوں میں بھی

یہ گرم ہوا کیوں ہے

 

کلیوں کے چٹکنے سے

رونقِ گلشن ہے

چڑیوں کے چہکنے سے

 

تکیہ نہ بچھونا تھا

خواب میں بھی مجھ کو

چٹان پہ سونا تھا

 

ہر شخص سنپیرا ہے

شہر میں اب تیرے

سانپوں کا بسیرا ہے

 

میں پھر بھی اکیلا تھا

دور تلک یوں تو

انسانوں کا میلہ تھا

 

اب ایسا سماں کیوں ہے

امن کے موسم میں

سرحد پہ دھواں کیوں ہے

 

ہم امن کے قائل ہیں

فرق بس اتنا ہے

وہ جنگ پہ مائل ہیں

 

تم پھینک دو پھندوں کو

جنگ سے کیا مطلب

ہم امن پسندوں کو

 

ہم جنگ کے دشمن ہیں

روپ جو کجلا دے

اُس رنگ کے دشمن ہیں

 

ہم وار نہیں کرتے

امن کے شیدائی

تکرار نہیں کرتے

 

سب لوگ نظر میں ہیں

امن کے دشمن تو

اب اپنے ہی گھر میں ہیں

 

وہ کالا دسمبر تھا

رام کے بھگتوں سے

ماحول مکدر تھا

 

اُف! کیسا تماشا تھا

رام کی نگری میں

تہذیب کا لاشا تھا

 

پُرکھوں کی امانت تھی

ہاتھ لگی کس کے

ہم میں جو شرافت تھی

 

واقف ہیں حقیقت سے

دور ہی رہتے ہیں

ہم لوگ سیاست سے

 

ہم پر جو نوازش ہے

اہل سیاست کی

شاید کوئی سازش ہے

 

بس اتنی سزا دو گے

سچ جو میں بولوں گا

سولی پہ چڑھا دو گے

 

اوراقِ پریشاں ہیں

ساتھ نہیں رہتے

ہم کیسے مسلماں ہیں

 

احسان یہی کر دے

درد سے اے داتا

دامن کو مرے بھر دے

 

داتا کو پکاریں گے

خلق کے آگے ہم

دامن نہ پساریں گے

 

طے ہے کہ خدا دے گا

میری ریاضت کا

اک دن وہ صلہ دے گا

 

دن رات کی محنت سے

ہاتھ یہ فن آیا

برسوں کی ریاضت سے

 

تھوڑی سی جو شہرت ہے

آج مری،  ربا

تیری ہی عنایت ہے

 

ہم دھوپ کے راہی ہیں

چھاؤں تلے یارو

کب چلنے کے عادی ہیں

 

سایوں سے لپٹنا کیا

دھوپ نکلتے ہی

رُخ اپنا پلٹنا کیا

 

رہ گیر وہ کیسے ہیں

پیڑ کے سائے میں

جو دیر سے بیٹھے ہیں

 

جیسا بھی نگر آئے

راہ بنا لوں گا

منزل تو نظر آئے

 

ہر پل یہی اُلجھن ہے

موت ہے رُک جانا

چلنا ہی تو جیون ہے

 

یوں ختم سفر کر دو

چھوڑ گیا مانجھی

موجوں کو خبر کر دو

 

ہم نے جو پیا یارو

زہر محبت کا

امرت سا لگا یارو

 

اک پل میں ہوئے رُسوا

دشت محبت میں

جب ہم نے قدم رکھا

 

سب نے تو مذمت کی

کون دعا دیتا

تکمیل محبت کی

 

اُلفت کے فسانے کو

موڑ نیا دے کر

چونکا دو زمانے کو

 

اک تیری محبت میں

عمر گزاری ہے

دنیا سے بغاوت میں

 

کچھ پاسِ وفا رکھنا

کون مٹا تم پر

یہ یاد ذرا رکھنا

 

اشکوں کی روانی ہے

پہلی محبت کی

یہ پہلی نشانی ہے

 

کیا خوب سمجھتے ہیں

لوگ محبت کو

معیوب سمجھتے ہیں

 

طوفان کے خوگر ہیں

بحر محبت کے

ہم لوگ شناور ہیں

 

اُلجھا ہوں سوالوں میں

رات کے ڈھلنے تک

تھا کون خیالوں میں

 

پل بھر ہی ٹھہرتا ہے

ذہن کے گوشے میں

جو عکس اُبھرتا ہے

 

کس بات پہ روئے تھے

یاد نہیں کچھ بھی

ہم آپ میں کھوئے تھے

 

دو پل تو ہوں چاہت کے

کاش! کوئی بولے

دو بول محبت کے

 

خوشبو کا کوئی جھونکا

ہجر کی راتوں میں

پھر دے گا مجھے دھوکا

 

کیا اس کے سوا دے گا

خواب میں آ کر وہ

پھر نیند اُڑا دے گا

 

اب وقت پہ سوئیں گے

جاگتی آنکھوں میں

سپنے نہ سنجوئیں گے

 

کیوں جاگ رہے ہیں ہم

نیند کے سائے سے

کیوں بھاگ رہے ہیں ہم

 

کچھ دیر تو سو جائیں

صبح تلک غم سے

آزاد تو ہو جائیں

 

تھے کیسے دِوانے ہم

آگ کو دامن سے

نکلے تھے بجھانے ہم

 

اے دوست،  یہ کیا کم ہے

چوٹ لگی مجھ کو

اور آنکھ تری نم ہے

 

ہر زخم کو بھرنے میں

وقت تو لگتا ہے

ہر شے کو سنورنے میں

 

پھر یاد تری آئی

ایک زمانے پر

پھر سخت گھڑی آئی

 

کیوں زندہ ہیں ہم دونوں

اپنے کئے پر کیوں

شرمندہ ہیں ہم دونوں

 

کیوں دل کو جلائیں ہم

خوابِ شکستہ پر

کیوں اشک بہائیں ہم

 

شرماتی تھی وہ اکثر

نام مرا لکھ کے

مہندی سے ہتھیلی پر

 

اک وہ بھی زمانہ تھا

زلف کے سائے میں

جب میرا ٹھکانہ تھا

 

دہلیز پہ اک دیپک

روز مری خاطر

جلتا تھا سویرے تک

 

گم صم نہ رہا کرنا

یاد کے ساحل پر

لہروں کو گنا کرنا

 

کس بات کی اُلجھن ہے

ٹوٹ نہیں سکتا

یہ پیار کا بندھن ہے

 

ہنستے ہی رہا کرنا

ہجر کے موسم میں

ملنے کی دعا کرنا

 

تم یاد نہیں کرتے

فکر سے اپنوں کو

آزاد نہیں کرتے

 

ہم جان گئے تجھ کو

دیر لگی،  لیکن

پہچان گئے تجھ کو

 

کیا مجھ کو دوا دو گے

زخم مرے چھو کر

پھر درد بڑھا دو گے

 

کب عشق وہ کرتے ہیں

لوگ جو دنیا میں

رُسوائی سے ڈرتے ہیں

 

ہر حد سے گزرتے ہیں

پیار کے پنچھی کب

پرواز سے ڈرتے ہیں

 

رُکنا یا ٹھہرنا کیا

عشق کی راہوں میں

انجام سے ڈرنا کیا

 

دکھ سینکڑوں سہتا ہے

شام و سحر،  لیکن

وہ ہنستا ہی رہتا ہے

 

ہمدرد سا لگتا ہے

وہ تو مرے گھر کا

اک فرد سا لگتا ہے

 

کیوں دل یہ دھڑکتا ہے

اُس کی نگاہوں سے

جب پیار چھلکتا ہے

 

منہ میٹھا کرا دیں گے

آپ اگر ہم کو

خط اُن کا دکھا دیں گے

 

دل میرا دھڑکتا ہے

شہر سے کیا لوٹا

وہ مجھ سے جھجکتا ہے

 

ٹھکرا بھی نہیں سکتے

پیار کا نذرانہ

اپنا بھی نہیں سکتے

 

دہلیز پہ پہرہ ہے

صبح سے گوری کا

اُترا ہوا چہرہ ہے

 

کیا آنکھ لڑا بیٹھی

اپنے ہی دل کو وہ

اک روگ لگا بیٹھی

 

دنیا کو جگا ڈالا

رات کا افسانہ

آنکھوں نے سنا ڈالا

 

وہ گاؤں کہاں ماہی

نیم کے پیڑوں کی

اب چھاؤں کہاں ماہی

 

بیسن کی بنی روٹی

مرغ مسلّم سے

تھی کتنی بھلی روٹی

 

رہنے کے لئے گھر تھا

شہر سے اے ڈھولا

وہ گاؤں تو بہتر تھا

 

یوں آہ نہ بھرتے تھے

کھیت میں گیہوں کے

ہم کام تو کرتے تھے

 

دل دیکھ کے بھر آیا

شکل میں روٹی کے

جب چاند نظر آیا

 

مارے ہیں نصیبوں کے

کاش! اُگے روٹی

آنگن میں غریبوں کے

 

گھر میں جو اندھیرا ہے

دوش نہیں تیرا

تقدیر کا لکھا ہے

 

بازار کو کیا جاتے

جیب تو خالی تھی

بے کار ہی للچاتے

 

بچوں کو پڑھاتے کیا

علم و ہنر اُن کو

غربت میں سکھاتے کیا

 

دیکھو تو غریبوں کو

کوس رہے ہو تم

بے کار نصیبوں کو

 

صابر جو بشر ہو گا

یاد رکھو اُس کی

آہوں میں اثر ہو گا

 

لکھا ہے کتابوں میں

ظلم جو ڈھائے گا

ڈوبے گا عذابوں میں

 

ڈولی میں جو بیٹھی ہے

بول نہیں سکتی

زر دار کی بیٹی ہے

 

مفلس کو جو بیٹی دے

رنگ نرالا ہو

صورت بھی انوکھی دے

 

اک اچھا سا گھر دے دے

چاند سی بیٹی ہے

مولا،  اُسے بر دے دے

 

ہر جوتشی کہتا ہے

میرے تعاقب میں

اک حادثہ رہتا ہے

 

بے کار کا رونا ہے

یار،  وہی ہو گا

قسمت میں جو ہونا ہے

 

ہم باز نہ آئیں گے

تیز ہواؤں میں

پھر شمع جلائیں گے

 

لمحات نہیں بدلے

آہ! مرے گھر کے

حالات نہیں بدلے

 

مت پوچھ مرا دُکھڑا

اب کے تو پھاگن بھی

ساجن کے بنا بیتا

 

کیا بھول ہوئی مجھ سے

نیند کی دیوی بھی

کیوں روٹھ گئی مجھ سے

 

موسم نہ بدل جائے

آپ کے آنے تک

جوبن ہی نہ ڈھل جائے

 

پُر کیف کہاں گزری

عہد جوانی کی

ہر رات گراں گزری

 

یہ اپنی کہانی ہے

آج تلک ہم سے

شرمندہ جوانی ہے

 

جب چاند نکلتا ہے

دیکھ کے ہر بچہ

چھونے کو مچلتا ہے

 

دل سوچ کے بھر آیا

عمر گھٹانے کو

پھر سال نیا آیا

 

اُترے گا نشہ اپنا

شہر میں جب اپنے

پوچھیں گے پتہ اپنا

 

اک خواب نہیں ہیں ہم

ڈھونڈ کے تو دیکھو

نایاب نہیں ہیں ہم

 

پینے کا خیال آیا

جب بھی مجھے یارو

جینے کا خیال آیا

 

کیوں آپ کو اُلجھن ہے

خار سے جب میرا

اُلجھا ہوا دامن ہے

 

اے مرغ،  اُٹھا دینا

بانگ ذرا دے کر

غفلت سے جگا دینا

 

کیا کیا نہ سکھاتی ہے

ایک ہی ٹھوکر تو

انساں کو جگاتی ہے

 

مشکل سے سنبھلتے ہیں

حضرتِ زاہد کے

جب پاؤں پھسلتے ہیں

 

پردے میں ہی پینے دے

شیخ کو اے ساقی

عزت سے تو جینے دے

 

پیتے ہیں،  پلاتے ہیں

شیخ بھی ساقی کے

اب ناز اُٹھاتے ہیں

 

ناصح کی دعا لیں گے

جب وہ گریں گے تو

میخوار اُٹھا لیں گے

 

مٹی کا بنا ہوں میں

سچ تو مگر یہ ہے

شہکارِ خدا ہوں میں

 

جب خود سے ملا ہوں میں

میں نے یہ جانا ہے

خانوں میں بٹا ہوں میں

 

کیا دیکھ رہا ہوں میں

سامنے درپن کے

مجرم سا کھڑا ہوں میں

 

کچھ تھک سا گیا ہوں میں

ورنہ سفر میں کب

اس طرح رُکا ہوں میں

 

جس در پہ گیا ہوں میں

دست طلب لے کر

شرمندہ ہوا ہوں میں

 

یہ جان چکا ہوں میں

میں نے جو بویا تھا

وہ کاٹ رہا ہوں میں

 

پابند وفا ہوں میں

در پہ تمہارے ہی

برسوں سے پڑا ہوں میں

 

کچھ ایسے جیا ہوں میں

تجھ سے جدا ہو کر

ہر روز مرا ہوں میں

 

ہر چند خفا ہوں میں

حق میں مگر اُس کے

مصروفِ دعا ہوں میں

 

آ،  بیٹھ ذرا سائیں

بیچ فقیروں کے

جب آ ہی گیا سائیں

 

چوکس تو میں تھا سائیں

دل پہ مگر اپنا

کب زور چلا سائیں

 

دے دے یہ دعا سائیں

پیار ہے جس سے،  وہ

ہو جائے مرا سائیں

 

کیا بھول گیا سائیں

جنگ و محبت میں

سب کچھ ہے روا سائیں

 

کیا سوچا کیا سائیں

دکھ تو اسی کا ہے

سب اُلٹا ہوا سائیں

 

مت خون جلا سائیں

عقل کے اندھوں سے

مت بات بڑھا سائیں

 

وہ راہ دکھا سائیں

جس پہ ہمیں چل کر

مل جائے خدا سائیں

 

خوش ہو گا خدا سائیں

خلق خدا سے تو

کچھ ربط بڑھا سائیں

 

کر اُس کی ثنا سائیں

جس نے عطا کی ہے

ہم سب کو انا سائیں

 

البیلی غزل جیسی

ذہن پہ چھائی ہے

اک لڑکی کنول جیسی

 

جادو ہے کہ مایا ہے

ایک پری چہرہ

جو ذہن پہ چھایا ہے

 

غنچہ ہے دہن اُس کا

چاند سا مکھڑا ہے

کندن سا بدن اُس کا

 

تو ہیر کی ثانی ہے

مکھ پہ ترے گوری

پنجاب کا پانی ہے

 

میں تیرے اشاروں پر

نام ترا لکھ دوں

ان چاند ستاروں پر

 

محفوظ پناہوں میں

تجھ کو چھپا لوں گا

میں اپنی نگاہوں میں

 

ہر شخص بہک جائے

آپ کے سینے سے

آنچل جو ڈھلک جائے

 

مستی ہے اشاروں میں

آج نہ بہہ جائیں

جذبات کے دھاروں میں

 

اِٹھلا کے نہ چل گوری

ہوش نہ ہم کھو دیں

بل کھا کے نہ چل گوری

 

پھولوں پہ نکھار آیا

آپ کے آتے ہی

پھر عہد بہار آیا

 

 

ماہی نے بلایا ہے

مست ہواؤں نے

پیغام سنایا ہے

 

یہ چرچا ہے بستی میں

پیار کے دو پنچھی

اب ملتے ہیں مستی میں

 

محمد رفیع کی یاد میں

 

اکتیس جولائی تھی

چپ تھے رفیع صاحب

مغموم خدائی تھی

 

 

 

 

ڈھونڈوں میں کہاں پی کو

چھین لیا مجھ سے

قدرت نے رفیع جی کو

۔۔۔۔

٭ ’ع،  کی آواز عام بول چال میں ادا نہیں ہوتی- (ف-ر)

 

ہر دل میں بسا تو ہے

یار رفیع،  تیری

آواز میں جادو ہے

 

ہر گیت،  غزل،  نغمہ

نقش دلوں پر ہے

سرمایہ رفیع جی کا

 

 

 

ہر ایک زمانے میں

نام رفیع جی کا

آئے گا فسانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

عید کے ماہیے

 

دن عید کا جب آئے

خلق کا اے خالق

ارمان نکل جائے

 

ربا یہ خوشی دے دے

عید کے دن سب کو

پوشاک نئی دے دے

 

احسان یہ فرمانا

عید میں ساجن کو

اے چاند،  لئے آنا

 

تم عید میں آ جانا

بھول کے سب باتیں

بانہوں میں سما جانا

 

نفرت کو مٹانا ہے

عید کے دن تم کو

سینے سے لگانا ہے

 

مسرور زمانہ ہے

چاند کے دامن میں

خوشیوں کا خزانہ ہے

 

مستانی فضا لے کر

عید چلی آئی

دلہن کی ادا لے کر

 

خوشیوں کی کرن پھوٹی

عید مبارک ہو

ہر سو یہ دعا گونجی

 

ہے راہ گذر روشن

عید کی آمد پر

ہے چشم بشر روشن

 

کیا خوب کرشمہ ہے

ایک ہی افسانہ

ہر چہرے پہ لکھا ہے

 

دن عید کا آیا ہے

دیکھ ہر اک جانب

اک نور سا چھایا ہے

 

رُت عید کی آئی ہے

دیکھ مرے ربا

سرشار خدائی ہے

 

یہ عید جو آئی ہے

یاد رکھو لوگو

روزے کی کمائی ہے

 

ہر غم کی دوا ہو گی

عید کے دن بے شک

مقبول دعا ہو گی

 

رو رو کے دعا مانگو

دن یہ صلے کا ہے

جو دل نے کہا،  مانگو

 

کیوں لوٹ کے جاتی ہے

ایک برس میں جب

اے عید،  تو آتی ہے

 

ہم شان سے چلتے ہیں

عید کے دن دل کے

ارمان نکلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے ماہیے

 

پھر موج اُڑائیں گے

چاند نظر آیا

کل عید منائیں گے

 

حاصل یہ خوشی ہو گی

عید کے دن تن پر

پوشاک نئی ہو گی

 

بھرپور خوشی ہو گی

عید میں عیدی سے

جب جیب بھری ہو گی

 

روزے کا صلہ پایا

خوب ملی عیدی

کیا عید کا دن آیا

 

راہوں کو سجائیں گے

سال نیا آیا

پھر جشن منائیں گے

 

سن میری دعا یارب

باغ میں ٹافی کا

اک پیڑ اُگا یارب

 

یہ کیسی کہانی ہے

دور تلک جس میں

راجا ہے نہ رانی ہے

 

لوگو،  یہ کرم کر دو

بوجھ کتابوں کا

ہم بچوں پہ کم کر دو

 

اکزام بھی دینا ہے

یاد سبق کر لو

انعام بھی لینا ہے

 

پھر جوش سے دل بھر دے

سخت تھے سب پرچے

تو پاس مجھے کر دے

 

اللہ کی مرضی ہے

موج اُڑائیں گے

اک ماہ کی چھٹی ہے

 

امی نے کہا مجھ سے

جھوٹ نہیں کہنا

روٹھے گا خدا تجھ سے

 

ابو کی نصیحت ہے

ذہن نشیں کر لو

یہ وقت غنیمت ہے

 

اُستاد یہ کہتے ہیں

نیک ہیں وہ بچے

مل جل کے جو رہتے ہیں

 

دن رات جو لڑتے ہیں

دور رہو اُن سے

اخلاق بگڑتے ہیں

 

کیوں اتنا ستاتے ہیں

خواب میں بھی مجھ کو

اُستاذ ڈراتے ہیں

 

بے خوف چلے آؤ

علم کے دریا میں

اے بچو،  اُتر جاؤ

 

چلتا ہوں تو لگتا ہے

ساتھ مرے ہر دم

یہ چاند بھی چلتا ہے

 

کیا ہیں،  یہ بتا دیں گے

وقت پہ ہم بچے

کچھ کر کے دکھا دیں گے

 

ہم چاند پہ جائیں گے

اور وہاں جا کر

گھر اپنا بنائیں گے

٭٭٭

تشکر:  افتخار راغبؔ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید