FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

پانی کی زبان

 

 

۱۹۶۶ء ۱۹۶۷ء

 

 

مظفرؔ حنفی

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

یا اخی۔۔ ۔ !

 

کارخانے سے نکل کر پارک میں آیا تو کیا

لاؤڈ اسپیکر پہ بھاشن۔۔ ۔

(انتخابی سلسلہ)

یہ عطائی ڈاکٹر ہے،

وہ مداری،

آپ دو پشتوں کے بھوکے۔

بولیے ! پالش کروں سرکار!

مالش ہی کرا لو۔

کوٹ میں بیلے کی یہ کلیاں سجا لو۔

(ایک روپیہ فی کلی!)

گھڑ گھڑاہٹ، سنسناہٹ، چیخ۔۔ ۔

شور و غل کا حملہ۔

آج کا ا توار بھی ضایع گیا وا حسرتا!

ہر طرف آواز دیتا ہے مجھے کوہِ ندا!!

٭٭٭
 

 

 

دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں

ٹینوں پر گھنگھرو کی بوندیں ناچ رہی ہیں

پیروں میں مکڑی نے جالا تان رکھا ہے

پر پھیلا کر چڑیاں کاندھے پر بیٹھی ہیں

ڈول رہے ہیں آنکھوں میں پتھر کے سائے

شریانوں میں بہتی ندیاں سوکھ چکی ہیں

در پر ویرانی کا پردہ جھول رہا ہے

کھونٹی سے تنہائی کی بیلیں لٹکی ہیں

مجھ سے مت بولو میں آج بھرا بیٹھا ہوں

سگرٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں

دشمن کیوں زحمت فرمائیں میری خاطر

خود کو مخلص کہنے والے ہی کافی ہیں

بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا

اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں

زخموں کی چھلنی میں ان کو چھان رہا ہوں

کرنیں اپنے ساتھ اندھیرے بھی لائی ہیں

چلیے صاحب! اور کوئی دروازہ دیکھیں

آج مظفر کی باتیں بہکی بہکی ہیں

٭٭٭
 

 

 

 

لوہے کے راستے میں

وقت تھم کر رہ گیا تھا،

آئنے میں ایک دھندلا عکس جم کر رہ گیا تھا۔

داہنی جانب وہ لڑکی سو چکی تھی،

رات آدھی ہو چکی تھی۔

گم شدہ سیکنڈ کی سوئی کے غم میں

اونگھتی سی جان پڑتی تھی کلائی پر گھڑی۔

تھپتھپاتا تھا کوئی لوہے کا ہاتھ۔

ذہن پر جالا سا بن رکھا تھا سگرٹ کے دھوئیں نے۔

نیم خوابیدہ خیالوں نے یہ سوچا،

زندگی بھی سو رہی ہے۔

دفعتاً پر شور ہچکولے کے ساتھ،

ایک اسٹیشن پہ گاڑی رک گئی،

اور باہر کی صدائیں کھڑکیوں کو توڑ کر اندر گھس آئیں،

تب خیال آیا،

کہ ہم تو بھاگتے آئے ہیں،

اسّی میل کی رفتار سے !

٭٭٭
 

آزادیِ بشر بھی اصولوں کے درمیاں

تنکے سی اڑ رہی ہے بگولوں کے درمیاں

تحریر کر رہا ہوں انھیں نوک خار سے

میں نے جو زخم کھائے ہیں پھولوں کے درمیاں

اخلاق کا خلوص کی محفل میں کام کیا

کافر کو مت بٹھاؤ رسولوں کے درمیاں

تصویر میری اس نے سجائی ہے میز پر

پھلنے لگے ہیں آم ببولوں کے درمیاں

سرکس کے ایکٹر کی طرح جھول عمر بھر

امید اور یاس کے جھولوں کے درمیاں

غیروں نے جو کہا ہے، سنو، خود نہ کچھ کہو

سکتے میں ہے زبان، مقولوں کے درمیاں

٭٭٭
 

 

 

نئے خدا کا قہر

 

سونگھ رہا ہوں کھیتوں کی شاداب ہوا میں زہر

بوڑھا برگد چیخ رہا ہے ’’بچے پھول نہ توڑ‘‘

مسجد کے مینار پہ لٹکی دو بیلوں کی جوڑ

مندر کی دیوار پہ چسپاں نو ٹنکی کا ناچ

الّھڑ دوشیزہ بھڑکاتی عطر حنا کی آنچ

شرمیلے بھولا نے آخر ڈاٹ لیا پتلون

چوپالوں پر بِک جاتا ہے طاقت کا معجون

چپکے چپکے گھس آیا ہے میرے گاؤں میں شہر

سونگھ رہا ہوں کھیتوں کی شاداب ہوا میں زہر

٭٭٭

 

 

 

 

وحشت کو نیند آنے لگی، درد چل دیا

یادوں نے آ کے رات کا نقشہ بدل دیا

جانے کسی حسین کی تصویر تھی کہ خط

کاغذ بلک رہا ہے، کسی نے کچل دیا

کانٹے بھی خوب ہیں کہ سخاوت کے جوش میں

سارا لہو گلاب کے چہرے پہ مل دیا

الفاظ کو خیال کی تتلی جو مل گئی

کچھ دیر لطف رنگ اٹھا کر مَسل دیا

ایسا لگا، سمٹ سی گئی ساری کائنات

اس نے کمر کے گرد جو ساری کو بَل دیا

٭٭٭

 

 

آج کی بات

 

میں نے مرحوم دادا کی تصویر سے،

باسی پھولوں کا گجرا اتارا،

مہکتے ہوئے تازہ پھول ان کے چرنوں پہ رکھتے ہوئے،

نگاہوں میں میری اچانک وہ کِیل آ گئی،

جو اکھڑنے کو تھی،

جس پہ مرحوم دادا کھڑے تھے مرے۔

میں نے اس کیل کو،

احتیاطاً ذرا زور سے جڑنا چاہا تھا،

پتھر کی دیوار میں۔

غالباً زاویہ کچھ غلط ہو گیا۔

چوٹ میرے انگوٹھے پہ آ کر پڑی،

اور منّا نے اک قہقہہ جڑ دیا!

٭٭٭

 

 

 

 

وہ شوخ رنگ جو خوش بو کے گاؤں سے گزرا

بگولہ بن کے میں ساکت ہواؤں سے گزرا

سیاہ دھوپ کی چادر جو اوڑھ لی میں نے

تو اک ستارہ سا پلکوں کی چھاؤں سے گزرا

ندامتوں کا سفر، آگہی کی منزل تھی

نظر بچا کے خود اپنی وفاؤں سے گزرا

مناؤ شکر کہ صحرا نے غم دیے تم کو

میں اپنے گھر میں ہی لاکھوں بلاؤں سے گزرا

عبور کر نہ سکا بے حسی کے دریا کو

ترا خیال ہزاروں اداؤں سے گزرا

دھواں دھواں سی فضا، گرد گرد سا ہے افق

سمندِ شوق یہ کس کا خلاؤں سے گزرا

مگر وجود کے احساس سے نجات کہاں

اگرچہ غم کی سبھی انتہاؤں سے گزرا

٭٭٭

 

 

 

ایک پرانی داستان کے بیچ سے

 

۔۔ ۔ پھر گل خورشید بھی مرجھا گیا،

ہر طرف گہرا اندھیرا چھا گیا۔

اپنے اپنے طور پر،

سب ہی کوشاں تھے،

کسی صورت ذرا سی روشنی ہو۔

جگمگائے مفلسوں کے دل،

امیروں کے ایاغ،

اور یہ سارے چراغ،

ایک دو پل ٹمٹما کر بجھ گئے،

لوگ مایوسی کی چادر تان کر سونے لگے۔

خشک سورج کی کلی پر،

خامشی کے ساتھ،

پیہم،

رات شبنم کی طرح گرتی رہی۔۔ ۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

پلنگ پر جو میں بتی بجھا کے لیٹ گیا

خیال صبح بھی پہلو میں آ کے لیٹ گیا

تری ادا کا اثر آ چلا ہے سبزے میں

بلا کے پاس مجھے، مسکرا کے لیٹ گیا

حساب مل نہ سکا، بج رہے تھے رات کے دو

میں کیش بک ہی کا تکیہ لگا کے لیٹ گیا

سفر نہ ختم ہوا، چاند رہ گیا پیچھے

غبار راہ بھی بستر بچھا کے لیٹ گیا

تنا کھڑا تھا جو برگد کا پیڑ صدیوں سے

ندی کے پاس وہ ٹانگیں اٹھا کے لیٹ گیا

خوشا یہ رات کہ سایہ جو مجھ سے باغی تھا

مرے قریب ذرا کسمسا کے لیٹ گیا

تمام رات مظفر، کٹی ہے آنکھوں میں

وہ مجھ سے دور، مجھے گدگدا کے لیٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

ہابیل کی کہانی

 

 

کوٹھے سے،

حوّا کی بیٹی جھانک رہی تھی۔

اس نے اپنا بٹوہ دیکھا،

ٹھنڈے دل سے غور کیا۔

پہلے جانے میں پیسے زائد لگتے ہیں،

اور سمے بھی کم ملتا ہے۔

لہجے میں ایثار سمو کر،

وہ اپنے ساتھی سے بولا:

پہلا حق تو تیرا ہے،

بھائی قابیل!

٭٭٭
 

 

 

 

جگر کو خار، نظر کو گلاب جیسا ہے

سیاہ رات میں وہ آفتاب جیسا ہے

ہوا کی چاپ سنے گا تو ٹوٹ جائے گا

سکوت صبح کا عالم حباب جیسا ہے

بس اک سکون کا جھونکا جہاں میسر ہو

مرے لیے تو وہی انتخاب جیسا ہے

نظر سے ایک بھی جذبہ پڑھا نہیں جاتا

سنا تھا آپ کا چہرہ کتاب جیسا ہے

نگہہ کے ہونٹ اُسے کس مقام سے چومیں

کہ وہ تو سر سے قدم تک شراب جیسا ہے

ہمیں سنبھال کے رکھ، دھوپ چھاؤں ہیں ہم لوگ

ابھی سکون، ابھی اضطراب جیسا ہے

لکھیں تو کیسے لکھیں قصّہ وجود و عدم

تمام جاگتی آنکھوں کے خواب جیسا ہے

بتائیے کسے آئنہ توڑنا ہو گا

ہمارا چہرہ اگر آں جناب جیسا ہے

٭٭٭

 

 

 

پچھلے فیصلے کی روشنی میں

 

سبھی کہیں گے غلط ہے،

اگر کوئی بھوکا،

مرے مکان پر آ کر سوال کرتا ہے،

تو ہے غلط کہ اسے نامراد لوٹا دوں،

بنام اہل و عیال!

جناب شیخ بتائیں کہ یہ غلط ہے نا؟

جناب شیخ بتائیں۔۔ ۔

وہ نوجوان ہے،

اس کا بھی ایک جسم ہے جو،

(سبھی کی طرح)

کچھ اپنے تقاضے رکھتا ہے۔

مگر وہ شومیِ قسمت سے بال ودھوا ہے۔

بچا بچا کے نظر پھول پھینکتی ہے وہ!

مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھتی ہے وہ!

جناب شیخ اگر حکم دیں تو پیار کروں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

آج اکیلا ہوں تو سورج کھڑکی پر آ کر جھانکے گا

چندا چھت کی کھپریلوں کو سرکا سرکا کر جھانکے گا

سچ مچ تم کو پیار ہوا تو اس کو لاکھ دباؤ لیکن

آنکھوں سے یہ نٹ کھٹ جذبہ دل کی شہ پا کر جھانکے گا

اس کے دل کا چور تو دیکھو سب سے ہنس ہنس کر ملتا ہے

ہم کو بچ بچ کر دیکھے گا، شرما شرما کر جھانکے گا

گل چیں کے دامن میں جا کر ہمت کی پیمائش ہو گی

کانٹا باہر آ جائے گا، غنچہ گھبرا کر جھانکے گا

میرے ذہن میں جب تک بیتے لمحوں کی یادیں باقی ہیں

گل دانوں سے تیرا چہرہ لہرا لہرا کر جھانکے گا

محرومی ہو یا ناکامی، ان پردوں سے کیا گھبرانا

ایک نہ اک دن طفل تمنا، غم سے اکتا کر جھانکے گا

رنگ نہیں تو خیر، مظفرؔ، مستقبل کا کوئی ناقد

میرے فن کی گہرائی میں جدت ہی پا کر جھانکے گا

٭٭٭

 

 

 

بلیک آؤٹ کی تیسری آنکھ

 

خوف نے بازو بڑھائے،

کھڑکیوں نے ڈر سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں،

روشن دان،

دروازے،

سیہ ملبوس میں لپٹے کھڑے ہیں۔

روشنی کونے میں دبکی رو رہی ہے۔

روشنی۔۔ ۔۔

جو زندگی اور جہد پیہم کی علامت تھی،

مسرت اور خوش آئند مستقبل کی ضامن تھی،

ہمارے عہد میں،

موت کی پیغام بر ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

جل کر چراغ گُل جو صبا نے لگا دیا

ہر شاخ آشیاں کو ٹھکانے لگا دیا

وارد ہوئے خیال یکے بعد دیگرے

زینہ جو میری فکر رسا نے لگا دیا

اس کی شریر آنکھ تو درپے تھی قتل کے

تھوڑا سا ہاتھ رنگ حنا نے لگا دیا

تنہائیاں نہ جوڑ سکیں شیشۂ سکوں

پھر زخم تازہ سنگ صدا نے لگا دیا

از راہ  احتیاط شگوفے کی لاش پر

کانٹوں کا ایک ڈھیر ہوا نے لگا دیا

لشکر پلٹ کے جا نہ سکے گا بہار کا

دروازہ اس کے بند قبا نے لگا دیا

رفعت کو جب روانہ ہوا پیک جستجو

اک اور تازیانہ خلا نے لگا دیا

فردوس گم شدہ کی طلب ہے تجھے تولے

اک سلسلہ سا ارض و سما نے لگا دیا

ایسے گرے کہ اٹھ نہ سکی فرق انفعال

منزل پہ ہم کو لغزش پانے لگا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

انا الحق کی تفسیر

 

آگ پانی میں پڑی تو بجھ گئی۔

آگ پر پانی جو رکھا،

بھاپ بن کر اڑ گیا۔

آگ میں مٹی جو ڈالی،

راکھ بن کر رہ گئی۔

آگ جب مٹی میں آئی، سرد تھی۔

آب و گِل مل کر غلاظت بن گئے۔

آگ، پانی اور مٹی،

جب ہوا کے جال میں آئے،

تو انساں بن گئے۔

یعنی۔۔ ۔

انسانی عناصر میں نمایاں وصف رکھتی ہے،

ہوا!

٭٭٭

 

 

 

 

اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

کس قدر تیز چلی سرد ہوا پچھلی رات

گرم بستر کو بہت یاد ہماری آئی

پھول بے نور سی پتھرائی ہوئی آنکھیں ہیں

اب اگر آئی تو کیا باد بہاری آئی

آبلہ پا ہے تصور تری یادوں کے طفیل

اور کیا کام تری گریہ و زاری آئی

بولنے پر اسے مجبور کیا ہے میں نے

جب کبھی ہاتھ میں تصویر تمہاری آئی

پارسا حاشیہ آرائیاں فرماتے تھے

زیر بحث آج مری بادہ گساری آئی

اپنے سائے کو کوئی دوست نہیں کہہ سکتا

عمر بھر ساتھ رہے پھر بھی نہ یاری آئی

دن تو بیتا ہے مگر خیر مناتے بیتا

رات آئی ہے مگر نیند سے عاری آئی

اے مظفر مجھے ان پر بھی ترس آتا ہے

جن کے حصّے میں کوئی چوٹ نہ کاری آئی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک انمول پالیسی

 

میں اسے سمجھا رہا تھا:

زندگی انمول شے ہے،

قدر اس کی کیجیے۔

ایک ہی بیمے کی پالیسی۔۔ ۔

اچانک:

’’انّ داتا! ایک روپیہ!‘‘

میں نے جلدی سے،

اسے اک پانچ کا سکّہ تھمایا،

تاکہ میرا انّ داتا،

وقت پا کر،

چل نہ دے !

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

لوہے کے راستے پہ مرا ہات چھوڑ کر

پیچھے کو بھاگتی ہے زمیں سات چھوڑ کر

تحت الثریٰ کے راز، خلاؤں کی داستاں

باتیں کچھ اور بھی ہیں تری بات چھوڑ کر

بے خوابیوں کی گود میں کیفیتیں بھی ہیں

بستر کو آئیے تو کسی رات چھوڑ کر

ہاتھ آ گیا کبھی تو دکھاؤں گا وقت کو

بھاگا تھا میرے پاس جو لمحات چھوڑ کر

تگنی کا ناچ ہم بھی نچائیں گے اب اسے

جاتی کہاں ہے گردش حالات چھوڑ کر

پینا بھی چھوڑ دیں گے تمہارے خیال سے

لیکن خطا معاف یہ برسات چھوڑ کر

بہتوں کی شاعری میں علامات ہیں مگر

واضح، قرین فہم علامات چھوڑ کر

٭٭٭

 

 

 

کیلنڈروں کی نفسیات

 

اس بنگلے پر رقصاں سرخ دھوئیں کے لچھے

اس کونے میں ہنستے ہیں دو موٹے بچے

یہ اک ٹیڈی لڑکی ہے۔

اس میں مشعل بھڑکی ہے

بلی اک ٹافی کا پیکٹ کھول رہی ہے

جانیؔ سے ہیلن جانے کیا بول رہی ہے

یہ ٹیگور ہیں وہ گاندھی ہیں۔

اس میں کچھ کلیاں باندھی ہیں۔

ننگی عورت کو وہسکی میں گھول کے پیتا ہے خیام

اس کیلی پر جھول رہے ہیں اوپر والے کے سو نام

نیا زاویہ تاج محل کا

جنگل پر سایہ بادل کا

جب جب اپنے ذوق ناہموار کا تجزیہ کرتا ہوں۔

سچ مانو میں خود ہی اپنے کمرے میں آتے ڈرتا ہوں !

٭٭٭

 

 

کچھ اس درجہ ڈرایا ہے اسے عفریت ہستی نے

طلسم آئنہ باندھا ہے میری خود فریبی نے

خود اپنی ذات سے مایوس ہو جانا قیامت ہے

یہ سارے گل کھلائے ہیں تری باریک بینی نے

ذرا سا زاویوں میں فرق ہو تو کچھ نہیں ورنہ

یہی دو آئنے ترتیب پا کر لاکھ آئنے

جلو میں نکہتوں کے قافلے ہر وقت رکھتی تھی

خزاں کو اس طرف مائل کیا باد بہاری نے

خودی سے پیر تسمہ پا کو ڈھونڈھا ہے مری خاطر

مرے اندر کی اس تاریک وادی کی تجلّی نے

تناور ہو کے اس نے راستے کو تھام رکھا ہے

جو اک پودا لگایا تھا کسی گم نام راہی نے

جنم دے گی نئے اشعار کو دن کے اجالے میں

وہ سرگوشی، جو مجھ سے کی ہے را توں کی خموشی نے

مری پہلی مراد اس طرح بر آئی کہ قسمت سے

خرد ہی بھینٹ میں چاہی تمناؤں کی دیوی نے

پرانی شاہراہوں سے نئی پگڈنڈیاں اچھی

مظفر جن پہ سر پر ہاتھ رکھا سنگ باری نے

٭٭٭

 

 

 

جھولنا حاتم کے سر کا

 

اور حاتم طائی نے جب،

اسم اعظم پڑھ کے،

ان پر دم کیا،

پیڑ پر لٹکے ہوئے سر،

گر پڑے تالاب میں۔

اپنے جسموں سے گلے مل کر،

نہایت خوش ہوا پریوں کا غول۔

مہ لقاؤں میں جو سب سے خوب تھی،

شکریے کے طور پر حاتم سے ہم بستر ہوئی۔

یہ بدن ہی سے بدن کا تھا ملاپ،

جسم اور سرکا نہیں۔

اس واسطے،

اسم اعظم کا اثر جاتا رہا۔

تب سے، حاتم طائی کا سر،

جھولتا ہے پیڑ پر،

اور،

دھڑ تالاب میں ڈوبا ہوا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

ہر تازہ پل کے دوش پہ ماضی کی لاش ہے

لمحوں کے ٹوٹنے کی صدا دل خراش ہے

ہر چیز کو ہزار طرح دیکھتا ہوں میں

آئنۂ خیال مرا پاش پاش ہے

یہ رمز کائنات ہے، محتاط ہو کے لکھ

رکنا ذرا، ہوا میں ابھی ارتعاش ہے

حاتم سے پوچھنا ہے ابھی آخری سوال

شہزادیِ حیات کو اپنی تلاش ہے

الفاظ کی شدید نزاکت معاف ہو

مصرع کے ہاتھ میں مرے جذبے کی قاش ہے

یادوں کو جسم دے کے بٹھا لوں گا آس پاس

تنہائی کا مزاج اگر یار باش ہے

کچھ دور چل چکے ہیں مظفر ہوا کے ساتھ

کھلتی ہوئی کلی سے یہی راز فاش ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ارتقاء کا ڈیلٹا

 

لالچی دریا نے،

چٹانوں کے ٹکڑے،

گھاٹیوں کے سنگ ریزے،

خشک میدانوں کی مٹی،

الغرض،

جو بھی خس و خاشاک پایا راہ میں،

سب کو دامن میں سمیٹا،

اور نادانستگی میں،

اپنی منزل کے بہت نزدیک آ کر،

راستے سے ہٹ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جلتے رہیں گے پاؤں اگر اجتہاد سے

یہ راہ طے نہ ہو گی کسی سندباد سے

محفوظ وہ رہیں گے غلط انتقاد سے

جو مشورہ کریں گے غزلیات شادؔ سے

اب تو خوش آمدید کہے ملکۂ بہار

کانٹوں پہ چل رہا ہوں بڑے اعتماد سے

تکلیف دہ تھی سرد ہواؤں کی تیز دھار

لپٹی ہے رات ماہ لقاؤں کی یاد سے

چنچل پری کو ڈھونڈھ کے لائیں کہاں سے ہم

منے کی ضد بھی کم تو نہیں دیو زاد سے

اب آشیاں جلے ہوں کہ چٹکے ہوں ماہتاب

اک روشنی سی آئی ہے باغ مراد سے

چپٹی نہیں زمیں تو مظفر ملے گا وہ

دوری گھٹا رہا ہوں سفر کے تضاد سے

٭٭٭

 

 

 

 

نو کی لکڑی۔۔ ۔

 

حرف مل کر لفظ بنتے ہیں،

کئی الفاظ مل کر ایک جملہ،

سینکڑوں جملوں سے بنتی ہے کہانی۔

یعنی۔۔ ۔

کہنی ہو اگر اک حرف ہی کی داستاں،

ان گنت الفاظ ہوں گے آنجہانی!

٭٭٭

 

 

 

 

طوفانِ بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا

وہ پوچھ کے صحرا سے پتہ میرے گھر آیا

آغاز تمنا ہو کہ انجام تمنا

الزام بہر حال ہمارے ہی سر آیا

اس میں تو کوئی دل کی خطا ہو نہیں سکتی

جب آنکھ لگی آپ کا چہرہ نظر آیا

بستی میں مری کج کُلہی جرم ہوئی ہے

دیکھوں گا اگر اب کوئی پتھر اِدھر آیا

آیا تری محفل میں جو بھولے سے مرا نام

آنکھوں میں زمانے کی وہیں خون اتر آیا

ایسا بھی کہیں ترک تعلق میں ہوا ہے

نامہ کوئی آیا نہ کوئی نامہ بر آیا

فن ہے وہ سمندر کہ کنارہ نہیں جس کا

ڈوبا ہوں مظفر، تو مرا نام ابھر آیا

٭٭٭
 

 

 

 

اصلیت کا زہر

 

سانپ کے بارے میں،

دانتوں کو ہٹا کر سوچیے تو،

کیچوا رہ جائے گا۔

لیکن یہ دانت۔۔ ۔

کاش!

یہ ہاتھی کے ہوتے !!

٭٭٭

 

 

 

 

ماضی رکھیے، فردا رکھیے

دو مصرعوں میں کیا کیا رکھیے

اس بُت کو تو سجدے چاٹ گئے

اب اور کوئی پتلا رکھیے

ہے تنگ اگر زندانِ بدن

چھت پھاڑ کے سر اونچا رکھیے

مئے نوشی ہے یا پابندی

ساقی رکھیے، مینا رکھیے

جو شخص ملے گا، خوش ہو گا

دل آئنے جیسا رکھیے

مسند تو نہیں چھن جائے گی

میری بھی اگر پروا رکھیے

جسموں کے ملن پر قید نہیں

دو آنکھوں کا پردا رکھیے

جب ٹھیس لگے تو بہہ نکلیں

اپنے کو حباب آسا رکھیے

الفاظ بڑے آوارہ ہیں

معنی میں انھیں الجھا رکھیے

٭٭٭

 

 

 

ڈھلتے جاڑے کی دوپہر پر طنز

 

آنگن میں بیٹھو تو گرمی،

کمرے میں لیٹو تو سردی،

کیا الٹا سیدھا موسم ہے،

جیسے میرا ہیڈ کلرک!

٭٭٭

 

 

 

 

منجمد احساس میں جب کپکپی سی آ گئی

وادیِ ظلمات میں اک روشنی سی آ گئی

وقت کا پردہ گرا کر میں جو گھر کو آ گیا

دفعتاً ویرانیوں میں زندگی سی آ گئی

ٹوٹنے والا ستارہ کس قدر تابندہ تھا

سوچ کر اس سیم تن کو جھرجھری سی آ گئی

سنگ دل ہو کر بڑھی تنہا شگوفے کی طرف

پھر خزاں کی خشک آنکھوں میں نمی سی آ گئی

سرد تنہا رات میں دم گھٹ رہا تھا پیاس سے

میکدے کی رات ایسے میں بھلی سی آ گئی

منع کرتا تھا، مری تصویر مت ہٹوائیے

دیکھیے کمرے کی ہر شے میں کمی سی آ گئی

الجھنوں کا زہر یوں رچ بس گیا ہے ذہن میں

آگہی کے ساتھ مجھ میں بے رخی سی آ گئی

اے مظفرؔ جس غزل میں ذکر اس کا آ گیا

تلخ لہجے میں ہمارے چاشنی سی آ گئی

٭٭٭

 

 

 

رستا ہوا بوسہ

 

 

میں نے اس کے تھرتھراتے ہونٹ پر،

کچھ اس طرح آہستگی سے،

رکھ دیے تھے ہونٹ اپنے،

جیسے چوڑی پر کوئی چوڑی بٹھائے۔

ذہن میں ہلکی سی شیرینی کا خوش کن ذائقہ ہے۔

سانس میں خوشبو گھلی ہے،

شہد میں ڈوبی ہوئی چمپا کی پنکھڑیوں کا عالم،

پھر مرے احساس میں کیوں۔۔ ۔

کانچ کا ٹکڑا سا چبھ کر رہ گیا ہے،

میرے ہونٹوں پر،

یہ سرخی کس لیے ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

دل درد کا مارا ہے، نہ رہ جائے کچل کر

اے جذبۂ محتاط ذرا اور سنبھل کر

زندہ ہوں تو اس شخص کا احسان سمجھیے

مرتا ہے جو مجھ پر مرے اندر سے نکل کر

ڈرتا ہوں کہ احساس پہ قابو نہ رہا تو

بہہ جاؤں نہ جذبات کی بھٹی میں پگھل کر

ٹوٹی ہوئی چوڑی کی مزے دار کہانی

خوابیدہ گلی جاگ پڑی آنکھ مسل کر

کس موڑ پہ یادوں سے ملاقات کریں ہم

ہر بار گزرتی ہیں نئی راہ بدل کر

لازم تھا نگاہوں پہ کہ اٹھ جائیں ادھر کو

پردہ جو گرایا مری ہمسائی نے جل کر

راہوں کا ہر احسان سہا بھی نہیں جاتا

سایہ مرا ہنستا ہے جو گرتا ہوں پھسل کر

اب آپ ہی سمجھائیے اس طفل خودی کو

مجھ سے ہی بگڑتا ہے مری گود میں پل کر

آنسو تو بہر حال نہ گرنے دیے ہم نے

اشعار ابل پڑتے ہیں خامے سے مچل کر

حد ہے کہ مظفرؔ سے مظفر نہیں ملتا

آیا تھا ملاقات کو میں دور سے چل کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کال کوٹھری

 

نہایت نفیس اور آرام دہ،

چمک دار، چکنا، ملائم سہی،

بہر حال۔۔ ۔

تیار کرتا ہے ریشم کا کیڑا،

وہ اک خول،

محبوس رہنا ہے جس میں اسے حبس دم تک۔

یہ رشتے، یہ ناتے،

من و تو کے جذبے،

نظریات اور فلسفے،

علم و فن،

فرائض، عمل، ارتقائ،

اور یہ۔۔ ۔ اور وہ

سوچیے تو ذرا،

روح کے حبس دم کے لیے،

ہم نے کتنا چمک دار، چکنا، ملائم سازنداں بُنا ہے !

٭٭٭
 

 

 

 

طویل رات، زمیں سخت، آسماں چپ چاپ

مگر ہے قافلہ زندگی رواں چپ چاپ

ہمیں بتائیں کہ منزل کے نام پر یہ کیا

جناب راہ نما! اب چلے کہاں چپ چاپ

وہیں وہیں سے صداؤں کے باندھ ٹوٹے ہیں

چلی ہے بات ہماری جہاں جہاں چپ چاپ

طلوع صبح کے دھوکے میں صبح کاذب سے

لٹا کیے ہیں ستاروں کے کارواں چپ چاپ

وفور خوف سے آنکھیں گلوں کی پھیلی ہیں

نشیمنوں کو جلاتا ہے باغباں چپ چاپ

زباں پہ مہر تھی، لوح و قلم پہ بندش تھی

نظر سنا ہی گئی غم کی داستاں چپ چاپ

سفینہ موج حوادث کی زد پہ ہے پھر بھی

کھڑے ہوئے ہیں کنارے پہ مہرباں چپ چاپ

کسی کو یاد نہ کرنے کا عہد کرتا ہوں

مگر یہ رات، سیہ رات، بے کراں چپ چاپ

غزل سناؤ مظفر! دھواں دھواں ہے فضا

سلگ رہا ہے کوئی قلب نا تواں چپ چاپ

٭٭٭
 

 

 

جذبوں کا تصادم

 

آئنے کے سامنے اک آئنہ رکھ دیجیے،

پھر دیکھیے۔

ساتھ میں لیٹا ہوا بچہ اگر سویا نہ ہو،

نصف بہتر کو ذرا سا گود میں لے لیجیے !

توبہ تو کیجیے !

٭٭٭

 

 

 

 

کجلا رہا تھا درد، کوئی یاد آ گیا

پلکوں پہ شام غم کی ستارے سجا گیا

اپنے تئیں وہ خاک میں مجھ کو ملا گیا

میں جھوم کر اٹھا تو خلاؤں پہ چھا گیا

صدیوں کے بس کی بات نہیں رات کر سکیں

اک لمحۂ حیات اگر جگمگا گیا

ہم زندگی کے ساتھ رواں ہو لیے مگر

تو زعم احتیاط میں پہلو بچا گیا

زخموں میں یہ کسک تو نہ تھی آج کی طرح

چلیے اسے جفا کا سلیقہ تو آ گیا

ہے تو نگار خانۂ دل دیکھنے کی چیز

ہر لمحہ اپنے عکس جہاں چھوڑتا گیا

یارو! غرور فتح میں اتنا تو سوچتے

میں جان بوجھ کر تو نہیں مات کھا گیا

اک التفات خاص تھا اس بے رخی کے ساتھ

سب کو پلا رہا تھا، مجھے دیکھتا گیا

کچھ اس طرح جناب مظفرؔ نے بات کی

دل کے قریب تار کوئی تھرتھرا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہنسی کا ڈر

 

بے خوابیوں نے رات مجھے گدگدا دیا،

اٹھ کر جو دیکھتا ہوں تو بادل کے جال پر،

پیہم لگا رہا تھا قلابازیاں سی چاند،

بازو کے لالٹین سے عاری مکان میں،

آ جا رہی تھی رات ابابیل کی طرح،

سہما ہوا سکوت کھڑا تھا منڈیر پر،

پیپل کے لاکھ ہاتھ بجاتے تھے تالیاں،

چلتی تھی ایریل پہ ہوا پاؤں سادھ کر،

جی چاہا پیٹ تھام کے جی کھول کر ہنسوں۔

پھر تھم گیا کہ میرے پڑوسی نہ جاگ جائیں،

اور قہقہے لگائیں !

٭٭٭

 

 

 

 

خود آگہی کا راز جو دھوکے سے پا لیا

ذروں نے کائنات کو سر پر اٹھا لیا

مطعون کر رہی تھی تری آرزو مجھے

محرومیوں نے بڑھ کے گلے سے لگا لیا

حسنِ تمام نے جو اٹھایا نقاب شب

نور سحر کی اوٹ میں چہرہ چھپا لیا

پیچیدہ عہد نو کی علامت کے نام پر

یاروں نے شاعری کو تماشا بنا لیا

کروٹ بدل بدل کے گزاری تمام رات

بے خوابیوں نے نیند کی دیوی کو آ لیا

ایسا ہوا کہ آج تری یاد آ گئی

ہم نے بھی جشن خون تمنا منا لیا

زخمی حقیقتوں سے، جو راہوں میں مل گئیں

اس مصلحت شناس نے دامن بچا لیا

پرچھائیوں کا رقص تماشہ نہیں کوئی

کرنوں کو ماہتاب نے واپس بلا لیا

اصرار کر رہا تھا مظفرؔ بری طرح

دو گھونٹ پی کے شیخ نے پیچھا چھڑا لیا

٭٭٭
 

 

 

جذبۂ بے نام کی پہلی فتح

 

کان میں سونے کی گھنٹی سی بجی،

تھرکا رگ جاں میں لہو۔

رفتہ رفتہ ہو گئی دل کو خبر،

ایک چھوٹی سی خوشی کی موج نے،

یہ ابتری پھیلائی ہے۔

اس نے آنکھوں کی طرف،

جذبۂ بے نام کی موجوں کا اک لشکر بڑھایا۔

اور اب۔۔ ۔

نوکِ مژگاں سرخ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھینچ رہی ہے کچھ نا پختہ ذہنوں کا سا منظر دھوپ

رینگ رہے ہیں نیچے سائے، ناچ رہی ہے چھت پر دھوپ

شہر تمنا کے باشندے آن پھنسے کس بستی میں

نیچے کانٹے، آگے پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر دھوپ

میں نے اس کو پاس بلایا، بیٹھ رہی وہ بچوں میں

جب جب چاند کی خواہش کی ہے ہاتھ لگی ہے اکثر دھوپ

بوڑھے بازو ٹوٹ چکے تھے، گھر کا چولھا ٹھنڈا تھا

آنگن میں دیکھا تو بیٹھی کانپ رہی تھی تھر تھر دھوپ

دھندلے اجیاروں سے میرا سمجھوتا نا ممکن ہے

تیرے ساتھ مسلسل بادل، میرے ساتھ برابر دھوپ

میری پرچھائیں کی گردن پھندے تک لے جاتی ہے

کیسی اتراتی پھرتی ہے تیرے گھر میں آ کر دھوپ

یہ نادر تشبیہیں تیری بے مہری سے ملتی ہیں

چمکیلا پیلا سناٹا، پھول کھلاتی بنجر دھوپ

سورج کے دھوکے میں لہریں کرنوں سے آ لپٹیں گی

بھولی بھالی جھیلوں کے پھر کاٹ رہی ہے چکر دھوپ

اس کی کچھ تعبیر بتاؤ (مصرع میں تعقید سہی)

دروازے سے جھانک رہی تھی پچھلی رات مظفرؔ دھوپ

٭٭٭
 

 

 

 

 

سونے کی کان کا حادثہ

 

 

جس کو مٹی دے رہا ہوں،

وہ مرا اک دوست تھا،

دوست،

سونے سا کھرا۔

جس کے اخلاص و محبت کی قسم کھاتے تھے سب۔

روزآنہ،

جو زمیں کی کوکھ میں جاتا تھا سونے کے لیے۔

آج کے اس حادثے کے بعد،

وہ ہاتھوں پہ سونا لے کے،

شاید پھر نہ لوٹے گا کبھی۔

جس کو مٹی دے رہا ہوں۔۔ ۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہم راہیِ بہار ہے گل کار سی فضا

لیکن برائے خار ہے بیزار سی فضا

ڈھلتی ہوئی یہ رات یہ چڑھتا ہوا خمار

یہ کیف ہفت رنگ یہ گل نار سی فضا

لمحات گن رہی ہے ترے انتظار کے

بوجھل سی چاندنی میں دھواں دھار سی فضا

آنکھیں مسل رہا ہے مرے دل میں غم ترا

بکھری ہے چاندنی میں پراسرار سی فضا

اس بزم عام میں یہ تری بے تکلفی

محسوس کر رہا ہوں گراں بار سی فضا

ایسے میں ان کی یاد بھی پہلو بچا گئی

یہ مضمحل سی شام، یہ بیمار سی فضا

میرا مشاہدہ ہے کہ اکثر غیور لوگ

رکھتے ہیں اپنے ساتھ طرح دار سی فضا

تلخی بڑھا رہی ہے مظفرؔ کی اور بھی

ہو گی تری نگاہ میں سرشار سی فضا

٭٭٭
 

 

 

فلسفے کے شہر میں

 

وہ دھارا میں تَیر رہے ہیں

میں اُلٹے رُخ پر بہتا ہوں

وہ سکھ میں روتے رہتے ہیں

میں ہنس ہنس کر دکھ سہتا ہوں

وہ اپنی شہرت کے طالب

میں کھویا کھویا رہتا ہوں

وہ مجھ کو پاگل کہتے ہیں

میں ان کو پاگل کہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

سر جو روندے ہوئے ذروں نے اٹھائے ہوتے

آسمانوں سے ستارے اتر آئے ہوتے

ہم سے ظاہر ہے ہواؤں کا مخالف ہونا

زیر دامن نہ چراغوں کو چھپائے ہوتے

بے وفا سوچ کہ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا

ہم تری یاد کو سینے سے لگائے ہوتے

دل میں زخموں سے جگہ ہی نہ تھی باقی ورنہ

اس تبسم نے کئی پھول کھلائے ہوتے

تیری زلفوں کا بکھرنا مجھے منظور نہ تھا

ورنہ ہر موڑ پہ مہکے ہوئے سائے ہوتے

صاف گو آپ نہ ہوئے جو مظفرؔ صاحب

اس طرح آپ کے اپنے نہ پرائے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

سندر سپنے کی تعبیر

 

میں نے اک سپنا دیکھا تھا،

کیسا سندر سپنا تھا!

جیسے میری پہلی محبوبہ میرے گھر آئی ہے۔

عصّوؔ (میری بیوی) سے مل کر بیحد مسرور ہوئی ہے۔

گڈو، پپو، منّا، ببلُو،

سب کو پاس بلا کر اس نے پیار کیا ہے۔

مجھ سے آنکھوں ہی آنکھوں میں،

چاہت کا اقرار کیا ہے۔

کیا ہی سندر سپنا تھا!

اب میں بھوگ رہا ہوں اپنے سندر سپنے کی تعبیر،

وہ سچ مچ آئی ہے،

(اپنے سا توں بچوں کے ہمراہ)

عصّو کی کوشش ہے اس کی ناک نہ نیچی ہونے پائے۔

مجھ کو یہ گھبراہٹ، بنیا پیٹھ دکھا کر بھاگ نہ جائے !

٭٭٭

 

 

 

 

روشنی کا غرور بنتا ہوں

آج میں برق طور بنتا ہوں

ظلمتوں کو اگر یہی ضد ہے

میں بھی سیلاب نور بنتا ہوں

ٹوٹ جاتا ہوں حرف حرف کے ساتھ

اور بین السطور بنتا ہوں

بے شعوری سی بے شعوری ہے

میں اگر با شعور بنتا ہوں

تلخ اشعار کہہ کے، در پردہ

کیف، مستی، سرور بنتا ہوں

سو خطا کی خطا، وفا کی ہے

اور پھر بے قصور بنتا ہوں

رسم مئے خانہ ہی کچھ ایسی ہے

اس لیے ناصبور بنتا ہوں

خوف کھاتا ہوں میں مظفرؔ سے

صاف گو تو ضرور بنتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوف در خوف

 

سرد ہواؤں نے پر تولے،

جھینگر چکّی مکّی بولے۔

الّو چیخا۔۔ ۔ ہاؤں۔

کالی بلی۔۔ ۔ میاؤں۔

کتوں نے ملہار الاپا ویرانے میں،

رات پھنسی ہے مکڑی کے تانے بانے میں۔

خوف نے ڈرتے ڈرتے،

جوں ہی دل میں کروٹ لی،

سناٹا بولا:

شی!

٭٭٭

 

 

 

 

کئی سوکھے ہوئے پتے ہرے معلوم ہوتے ہیں

ہمیں دیکھو کہیں سے دل جلے معلوم ہوتے ہیں

مہینوں سے جو خالی تھا وہ کمرہ اٹھ گیا شاید

یہ الہڑ پن، یہ معصومی نئے معلوم ہوتے ہیں

سمٹ آتی تھی کس اپنائیت کے ساتھ وہ کٹیا

عمارت میں تو ہم دبکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں

غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم

خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں

قدم لیتی ہے بڑھ کر اوس میں بھیگی ہوئی دھرتی

یہ پس ماندہ مسافر شہر کے معلوم ہوتے ہیں

بڑھاوا دے رہے ہیں مضمحل چہرے کی زردی کو

ترے جوڑے میں یہ غنچے برے معلوم ہوتے ہیں

بتائیں کیا کہ بے چینی بڑھاتے ہیں وہی آ کر

بہت بے چین ہم جن کے لیے معلوم ہوتے ہیں

پرانا ہو چکا، چشمے کا نمبر بڑھ گیا شاید

ستارے ہم کو مٹی کے دیے معلوم ہوتے ہیں

سنا اے دوستو تم نے کہ شاعر ہیں مظفرؔ بھی

بہ ظاہر آدمی کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں

٭٭٭
 

 

احساس کے زخم

 

کچھ دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا وہ پارک میں۔

میں نے اسے سلام کیا،

اس نے غالباً،

دیکھا نہیں کہ ٹال دیا جان بوجھ کر۔

القصّہ وہ سلام معلق ہی رہ گیا۔

سبزہ زمیں پہ لیٹ گیا قہقہے کے ساتھ،

ظالم ہوا بھی پیٹ پکڑ کر پلٹ گئی۔

پتّوں نے تالیاں سی بجائیں،

کلی ہنسی۔

سنجیدہ کانٹے منہ کو بسورے کھڑے رہے !

٭٭٭

 

 

 

 

خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں

اب تک تو خود اپنی ہی نگاہوں سے چھپا ہوں

حالات کے نرغے میں کچھ اس طرح گھرا ہوں

محسوس یہ ہوتا ہے تجھے بھول چکا ہوں

سمجھا تھا کہ روداد نئے دور کی ہو گی

آیا ہے ترا نام تو میں چونک اٹھا ہوں

شاید کبھی بچپن میں کہیں ساتھ رہا ہے

آئنے میں اک شکل کو پہچان رہا ہوں

زلفوں کے مہکتے ہوئے سائے کی طلب میں

تپتی ہوئی راہوں پہ بہت دور گیا ہوں

محجوب سا تنہائی کا احساس کھڑا ہے

بستر پہ بڑی دیر سے خاموش پڑا ہوں

اب سوچنے بیٹھا ہوں کہ مصرف مرا کیا ہے

مجبور محبت ہوں نہ پابند وفا ہوں

سنیے تو مظفرؔ کا ہر اک شعر کہے گا

میں ٹوٹے ہوئے ساز کی بے چین صدا ہوں

٭٭٭
 

 

 

 

انجیل کے ایک ورق کی تکمیل

 

مجھ کو گھیرے بھیڑ کھڑی تھی،

میں مجرم تھا۔

میں نے اصلی پیار کیا تھا،

ایک مجسم عورت سے۔

حکم ہوا سب مل کر مجھ پر،

پتھر برسا سکتے ہیں۔

لیکن یہ پابندی تھی:

پہلا پتھر وہ پھینکے گا،

جو اب تک معصوم رہا ہو۔

سب منہ تکتے کھڑے ہوئے تھے۔

میں نے خود ہی بڑھ کر،

ہر پتھر کو سر سے توڑ دیا!

٭٭٭

 

 

سن کر ہمارے شعر کبھی تو ہنسا کرو

فطرت پہ اختیار نہیں تم بھی کیا کرو

ممکن ہے تلخ بات میں شامل خلوص ہو

ٹھنڈے دماغ سے تو کبھی سن لیا کرو

حساس ایک تم ہی نہیں دوسرے بھی ہیں

بے وجہ دوستوں سے خفا مت ہوا کرو

تلقین صبر زہر ہلاہل سے کم نہیں

خود ہی پتہ چلے گا، ذرا تجربا کرو

تم ہی جو اتحاد کے حامی ہو اس جگہ

موقعہ ملے تو گوشت سے ناخن جدا کرو

ہم سر پھروں کی قید ہے بزم تکلّفات

دم گھٹ رہا ہے حَبس کے مارے، ہوا کرو

بیٹھے بٹھائے لوگ مجھے گھورنے لگے

یوں اپنی انجمن سے نہ غائب رہا کرو

ویسے تو دست شوق سے بے حد خفا تھا وہ

لیکن نگاہ بول رہی تھی، خطا کرو

کانٹے نہیں کہ گرتے ہوئے تھام لیں تمھیں

آسان راستوں پہ سنبھل کر چلا کرو

پہلو بچا کے طنز مظفرؔ نے کر دیا

ہم سے نہیں تو خیر کسی سے وفا کرو

٭٭٭
 

 

 

 

جنس سے ہٹ کر

 

رات۔۔ ۔

جب وہ میرے شانے پر،

مہکتی زلف بکھرائے،

ادا کے ساتھ لیٹی تھی،

تو میں سمجھا تھا،

وہ میری ہے،

بس میری۔

سحر نے رد سحر آ کر کیا تو یہ کھلا،

وہ منقسم ہے سینکڑوں خانوں میں۔

اس کی ماں،

بہن اس کی،

بہو اس کی وغیرہ

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

خدا جانے مرے بارے میں وہ کیا سوچتی ہو گی!

٭٭٭

 

 

 

 

بوتل کا دوسرا ہے، کتابوں کا طاق اور

مئے کش کا ذوق اور ہمارا مذاق اور

شاید یہی غبار سفر جستجو کا ہے

کچھ تیز دوڑ اشہب نیلیں رواق اور

بس کیجیے یہ پرسش بے جا کہ ہم چلے

زخموں پہ یہ نمک تو گزرتا ہے شاق اور

جس روز اس نے راہ جفا اختیار کی

اس دن بڑھا ہوا تھا مرا اشتیاق اور

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپیے

ہم اور چیز، غالب و میر و فراق اور

اس موڑ پر ملا ہوں توقع نہ تھی جہاں

آئیں گے پیش ایسے کئی اتفاق اور

کہتی ہے فلسفے سے مظفرؔ کی ہر غزل

یہ میری سادگی ہے، ترا طمطراق اور

٭٭٭
 

 

 

 

ایک اور مرحلہ

 

شام اپنے پر سمیٹے،

مضمحل انداز سے بوجھل قدم رکھتی ہوئی،

جنگل کی جانب جا رہی تھی،

میرا سایہ،

اس کے پیچھے ہو لیا۔

آنے والی رات،

تنہا خشک آنکھوں سے،

بھلا کیسے کٹے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

ہے منعکس حباب میں گہرائیوں کا ناچ

اک جشن ماہ تاب ہے پرچھائیوں کا ناچ

تفسیر ہے اس عہد بغاوت مزاج کی

مرکز کے انہدام پہ گولائیوں کا ناچ

ہر فلسفے کی اوٹ میں دیکھا کیے ہیں ہم

فرزانگی کے دشت میں سودائیوں کا ناچ

آوارگان شہر بھی کتنے دلیر ہیں

دیکھا کیے قریب سے رسوائیوں کا ناچ

آزادیِ خیال کسی بھاؤ میں نہیں

رقاص کو دکھاؤ تماشائیوں کا ناچ

مٹتی ہوئی لکیر کو پیٹا گیا بہت

تھا محفل غزل میں بڑے بھائیوں کا ناچ

میں بھی اڑا رہا ہوں مظفر غبار فکر

اجڑے ہوئے مکاں میں ہے تنہائیوں کا ناچ

٭٭٭

 

 

 

 

پریشانی کی ادائیگی

 

تھرڈ کے ڈبے میں،

بیٹھا ہے جو دروازے کے پاس،

پچھلے اسٹیشن پہ تھا بے حد اداس۔

تین گھنٹوں سے مسلسل،

بیٹھنے کے واسطے اس کو جگہ ملتی نہ تھی۔

اس نے پہلے ریل کے قانون بتلائے۔۔ ۔

نتیجے میں صفر۔

بعد ازاں ڈبے کو جلسہ جان کر،

اخلاق پر تقریر کی،

بیکار ہی۔

آخرش وہ اپنی بیماری کا حیلہ لے کے،

ہر اک مرد و زن سے گڑگڑانے پر اتر آیا۔۔ ۔

بہر صورت وہ اب بیٹھا ہوا ہے۔

ہر مسافر کو،

جو دروازے کی جانب آئے،

فوراً کاٹنے کو دوڑتا ہے۔

اب یہ ڈبّہ بھر چکا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

اک مصرف اوقات شبینہ نکل آیا

ظلمت میں تری یاد کا زینہ نکل آیا

ہر چند کہ محفل نے مری قدر بہت کی

اکتا کے انگوٹھی سے نگینہ نکل آیا

پھر کوہ کنی ڈھال رہی ہے نئے تیشے

پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا

سچ مچ وہ تغافل سے کنارا ہی نہ کر لے

میں سوچنے بیٹھا تو پسینہ نکل آیا

غوطہ جو لگایا ہے تو مایوس ہوا ہوں

ہر موج کے دامن میں سفینہ نکل آیا

گھبرایا ہوا دیکھ کے پت جھڑ کے عقب سے

میرے لیے ساون کا مہینہ نکل آیا

جب وقت نے چھانی ہیں مظفرؔ کی بیاضیں

ہر شعر میں ندرت کا دفینہ نکل آیا

٭٭٭

 

 

 

مرے اشعار کے معنی

 

اپنے جھرمٹ سے نکل کے،

رات کے سینے میں اک لمبی خراش،

ڈال کر،

ایک ننھا سا ستارہ بجھ گیا،

اب سویرا ہو نہ ہو،

اس کی بلا سے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سکوت کی جھیل میں تمہارا خیال بھی تیرنے لگا ہے

برائے تکمیل شعر، لفظوں کا جال بھی تیرنے لگا ہے

یہ خوف تھا، منسلک ہیں دونوں، ہڑپ نہ لے وقت کا سمندر

غریق رحمت ہوا جو ماضی، تو حال بھی تیرنے لگا ہے

بہت گھٹا ٹوپ تھا اندھیرا، مگر خیال آ گیا جو تیرا

تو ابر پاروں پہ ایک چاندی کا تھال بھی تیرنے لگا ہے

قصور میرا نہیں ہے یارو جو بن پیے ڈگمگا رہا ہوں

کہ چشم ساقی میں اک پرانا سوال بھی تیرنے لگا ہے

سکون کی برف توڑ دی ہے تو پھر دھڑکنے لگی رگ جاں

خوشی کی اک موج بھی اٹھی ہے، ملال بھی تیرنے لگا ہے

تو پھر یقیناً ترے مقدر میں کوئی گہرائیاں نہیں ہیں

جو سطح آغاز ہی پہ تیرا مآل بھی تیرنے لگا ہے

سپاٹ لہجے کو اس کی ندرت نے دل کشی بخش دی مظفرؔ

شراب کی لہر چھو کے شیشے کا بال بھی تیرنے لگا ہے

٭٭٭

 

 

 

وحشت کی زبانی

 

زندگی…؟ تمام قید جسم ہے … ہٹائیے

آگہی؟ کتاب کے فریب میں نہ آئیے

روشنی…؟ رہینِ تیرگی ہے … آزمائیے

اداسیاں، تکان،

بے حسی، جمود،

خوف و غم۔

یہ ارتقاء کی الجھنیں،

یہ فلسفے کا حبس دم۔

کسی طرح تو روح کو کھلی ہوا نصیب ہو،

ہٹائیے یہ زندگی۔

غبار سے اٹا ہوا ہے، جھاڑیے دماغ کو،

فریب ہے یہ آگہی۔

سکون تیرگی کی گود میں چھپا ہے دوستو!

فضول ہے یہ روشنی۔

روشنی رہینِ تیرگی ہے۔ آزمائیے

آگہی…! کتاب کے فریب میں نہ آئیے

زندگی تمام قید جسم ہے … ہٹائیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سانس روکو، زور سے پلکیں نہ مارو، چھپ رہو

ایک سایہ پھر ادھر آتا ہے یارو! چھپ رہو

ٹوٹ کر ذرے قیامت ڈھائیں گے، ہشیار باش!

کیا تمہارا ٹوٹنا، بس اے ستارو! چھپ رہو

آ چکا ہے ایٹمی چابک مشینی ہاتھ میں

اے خلا میں ناچنے والے غبارو! چھپ رہو

کیمرے کی آنکھ ہر حالت میں خود پر پاؤ گے

تم کہیں بھی رخشِ آہن کے سوارو! چھپ رہو

چاند را توں میں نکلتے ہیں شکاری چاند کے

بن پڑے تو مہہ جبینوں، ماہ پارو! چھپ رہو

نام ان کا یوں نہ لو، دیوار بھی رکھتی ہے کان

یہ بھیانک رات ایسے ہی گزارو، چھپ رہو

اور کب تک روکتے آوارگانِ خارزار

آ گئی سر پر خزاں، بزدل بہارو، چھپ رہو

پھر بہا لے جائے گی مصروفیت کی تند رو

آؤ میرے دل میں یادوں کی قطارو، چھپ رہو

اے مظفر! بلبلے یہ کہہ رہے ہیں ٹوٹ کر

آج ہم طوفاں اٹھائیں گے، کنارو، چھپ رہو

٭٭٭

 

 

 

پانی کی زبان

 

کون سی بستی ہے یہ؟

جس میں میرا ہم زباں کوئی نہیں۔

سینکڑوں الفاظ کی گردن اڑا دی،

اور جذبہ ہے کہ پھر بھی اَن کہا ہے۔

بے بسی کی آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں،

تو یا حیرت!

سبھی بڑھ بڑھ کے سینے سے لگاتے ہیں مجھے !

٭٭٭

 

 

 

 

نہ پوچھیے مری خود آگہی نے کیا دیکھا

طلسم ہوش ربا ٹوٹتا ہوا دیکھا

غلط بٹن کو دبا کر خیال میں ہم نے

مشینی دور کا اک پیر تسمہ پا دیکھا

یہ عہد نو المیّہ نہیں تو پھر کیا ہے

خود اپنی ذات میں اک بے کراں خلا دیکھا

کسی کی یاد نہ آئے تو کیا کرے کوئی

تمام رات خود اپنا ہی راستا دیکھا

حیات یہ ہے تو کچھ اور نام دو اس کو

عجب طرح کا پریشان خواب سا دیکھا

نظر کے ساتھ دل و جاں بھی ہو گئے شاداب

اگر کہیں کوئی پودا ہرا بھرا دیکھا

ہمارے پاس ابھی زخم ہیں دکھانے کو

تمہارے پاس نمک ہی نہیں رہا، دیکھا

ترقیوں کی یہ معراج بھی قیامت ہے

ہر ایک موڑ پہ اک جادۂ فنا دیکھا

نئی غزل نے مظفرؔ قیام کی خاطر

بطور خاص دل درد آشنا دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

حروف کے ایٹم

 

داستانیں لکھتے لکھتے،

اَن گنت ہاتھوں نے دم توڑا،

مگر یہ داستانیں،

آج تک انجام کو پہنچی نہیں ہیں۔

کیوں نہ ہم پیچھے کو پلٹیں،

چاک کر دیں ان کتابوں کے ورق،

جملوں کو نوچیں،

لفظ کے ٹکڑے کریں،

اس عمل سے حرف تک ہو دسترس،

تو اس کاجوہر بھی نکالیں،

پھر اسے ایٹم سمجھ کر توڑ ڈالیں۔

غالباً ایسا دھماکہ ہو،

کہ ساری داستانیں،

خاتمے کو جا لگیں۔۔ ۔ !

٭٭٭
 

 

 

 

 

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے، مرے پاس آ کے دیکھ

وہ دن ہوا ہوئے کہ بچھاتے تھے جان و دل

اب ایک بار اور ہمیں مسکرا کے دیکھ

پردہ پڑا ہوا ہے تبسم کے راز پر

پھولوں سے اوس، آنکھ سے آنسو گرا کے دیکھ

یہ دوپہر بھی آئی ہے پرچھائیوں کے ساتھ

ویسے نظر نہ آئیں تو مشعل جلا کے دیکھ

گل چیں نے جب تمام شگوفوں کو چن لیا

کانٹے پکار اٹھے کہ ہمیں آزما کے دیکھ

تو میرا ہم سفر ہے تو پھر میرے ساتھ چل

ہے راہ زن، تو نقش قدم رہ نما کے دیکھ

اپنی نظر سے دیکھ برہنہ حیات کو

آنکھوں سے یہ کتاب کی عینک ہٹا کے دیکھ

از راہ احتیاط سفر کو نہ ختم کر

یہ پھول ہیں کہ آگ، قدم تو جما کے دیکھ

ٹھپّہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

چھڑی اور پتھر

 

یاد کیا ہو گا تمھیں،

چھوٹی سی تھیں تم۔

ایک لڑکے نے تمھیں،

اپنی چھڑی سے پیٹنا چاہا تھا جب،

(تتلی پہ قضیہ تھا کوئی)

میں نے اپنے ہاتھ پر جھیلی تھیں چوٹیں۔

پھر بڑا ہو کر وہی لڑکا،

تمھیں مجھ سے چھڑا کر لے گیا تھا۔

جانے کیوں یاد آ گیا وہ واقعہ؟

آج پھر اس ہاتھ میں چوٹ آ گئی ہے،

ایک پتھر سے کچل کر!

٭٭٭
 

 

 

 

 

دل کی دھڑکن بھی سر پٹکتی ہے

آج تو سانس تک اٹکتی ہے

پاؤں ہیں پل صراط کے اوپر

سر پہ تلوار سی لٹکتی ہے

درد نے آنکھ پھیر لی ہم سے

بے حسی بے طرح کھٹکتی ہے

کون کھینچے مراد کی صورت

جستجو پیر کیوں پٹکتی ہے

ڈھول پیٹیں گے حضرتِ اخلاق

ناچ گھر میں حیا مٹکتی ہے

زندگی ہے کہ موت، پہچانو

ایک پرچھائیں سی بھٹکتی ہے

ٹوٹتے ہیں نجوم کے موتی

رات زلفیں اگر جھٹکتی ہے

عافیت ہے خفا مظفر سے

وہ کہاں اس طرف پھٹکتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی تلاش کی مہم

 

رات یوں ہی تھک چکی تھی۔

صبح نے دامن کو اپنے،

آخری جھٹکا دیا،

اور بھاگ نکلی۔

خوف سے تاروں نے آنکھیں بند کر لیں،

چاند نیچے گر پڑا۔

اس طرف۔۔ ۔

سورج کے کوڑے پیٹھ پر کھاتے ہوئے،

صبح بھاگی جا رہی تھی تیز تیز۔

اس نے تھم کر بھی نہ دیکھا،

دوپہر کا سنگ میل،

کب قریب آیا تھا،

اور کس وقت پیچھے رہ گیا تھا۔

اور سورج نے کہاں کس راستے پر ساتھ چھوڑا۔

وہ تو اپنی دھن میں آگے،

اور آگے،

تیز تیز،

بھاگتی ہی جا رہی تھی۔

آخرش وہ تھک گئی۔

اور اس نے تنگ آ کر،

شام کی آغوش میں سر رکھ دیا!

٭٭٭

 

 

 

 

حوصلہ یوں نہ زمانے کا بڑھایا جائے

میری خاطر کوئی آنسو نہ گرایا جائے

آخری کیل دعاؤں پہ یہ کہہ کر جڑ دی

اب وہ آنا بھی جو چاہیں تو نہ آیا جائے

شمع محفل کو بجھا کر ہی دکھانا ہو گا

حال دل بزم میں کس کس کو سنایا جائے

سر بلندی نے شش و پنج میں ڈالا ہے ہمیں

انتقاماً اسے کس در پر جھکایا جائے

وہ مرا نام کچھ اس طرح لیا کرتے ہیں

کوٹ میں جیسے کوئی پھول سجایا جائے

اب جو ہونا تھا ہوا زخم نہیں بھر سکتے

کیوں کسی شخص پہ الزام لگایا جائے

سر پہ تلوار لٹکنے کا مزا کہتا ہے

اور کچھ دیر ابھی سر نہ اٹھایا جائے

پیدلوں کو تو بہر حال کہیں کٹنا ہے

شہ سواروں کو بھی میدان میں لایا جائے

ہر ضرورت پہ مظفرؔ کا قلم حاضر ہے

شرط یہ ہے کہ قصیدہ نہ لکھایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئے نظریے کی تخلیق

 

کانچ کی رنگین ٹوٹی چوڑیوں کو،

آئنے کے تین ٹکڑوں میں،

کسی بھی ڈھنگ سے رکھ دیں

نیا خاکہ بنے گا

جس میں اک ترتیب ہو گی۔

لاکھ جھٹکے دیجیے،

ہر بار یہ ترتیب،

اک ترتیبِ نو ہی میں ڈھلے گی۔

جب بھی کچھ ٹوٹے ہوئے لوگوں میں،

اپنے تجربات خام کے قصے چھڑیں گے،

اک نظریہ جنم لے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

وجود غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے

صریر خامہ سے وجدان ٹوٹ جاتا ہے

جو ہو سکے تو کرو عام لا ابالی پن

خودی کے بوجھ سے انسان ٹوٹ جاتا ہے

سنائیے وہ لطیفہ ہر ایک جام کے ساتھ

کہ ایک بوند سے ایمان ٹوٹ جاتا ہے

سجانے لگتا ہوں جب کچھ حسین یادوں کے پھول

مرے خیال کا گل دان ٹوٹ جاتا ہے

تو لازمی بھی نہیں تولنا سمندر کا

اگر حباب کا میزان ٹوٹ جاتا ہے

ہوا جہاں بھی ترے وحشیوں کا دامن چاک

وہیں بہار کا احسان ٹوٹ جاتا ہے

یہ دور وہ ہے مظفرؔ، گناہ زید کرے

بکر کی ذات پہ بہتان ٹوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پرانی تنقید کا باب

 

زنگ لگے،

دیمک خوردہ،

یہ بھاری پھاٹک،

جو سالوں سے بند پڑے تھے،

بن کر ویرانی کے پہرے دار،

کھڑے تھے۔

ان کو،

کھلنے میں تھوڑی تکلیف تو ہو گی،

چیں چُوں،

چَر مَر،

کھٹ پٹ جیسی،

بھونڈی آوازیں نکلیں گی!

٭٭٭

 

 

 

 

نگاہ مصلحت بیں میں تماشا ہو گئے ہم تو

کھلا سچ کہہ کے دنیا بھر میں رسوا ہو گئے ہم تو

ہمارا گاؤں تو تہذیب کے دامن پہ دھبّہ تھا

مگر لاکھوں کی اس بستی میں تنہا ہو گئے ہم تو

برا مت ماننا یہ آج کی عریاں حقیقت ہے

تمہاری مملکت میں بے سہارا ہو گئے ہم تو

خلش بن کر کھٹکتے ہیں زمانے کی نگاہوں میں

کسی ٹوٹے ہوئے دل کی تمنا ہو گئے ہم تو

ابھی تک اپنی شخصیت کے کوزے میں مقید تھے

ذرا سا بہہ نکلنا تھا کہ دریا ہو گئے ہم تو

اب اپنی ذات کو پہچان کر بھی مطمئن کیا ہوں

سراسر اپنی ہی نظروں کا دھوکا ہو گئے ہم تو

ہماری انفرادیّت مظفرؔ ڈھونڈھ کر لا دے

مہذب ہو کے ہم سائے کا سایہ ہو گئے ہم تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹوٹی ہوئی کڑیاں

 

وہ، جو اس غلے کے کیو میں آٹھویں نمبر پہ تھا

دل کی بیماری نے اس پر دفعتاً حملہ کیا

تھرتھرایا، لڑکھڑایا، ڈگمگایا، گر گیا

سا تویں نمبر پہ تھا جو، بن مُڑے آگے بڑھا

نو پہ اک بُڑھیا تھی جس نے منھ پہ آنچل رکھ لیا

دسویں نمبر نے ذرا سا جھک کے دیکھا، ہنس دیا

بارہویں کا پوچھنا تھا ’’بھائی صاحب! کیا ہوا؟‘‘

گیارہواں یوں ہی بھرا بیٹھا تھا، فوراً لڑ پڑا

’’ہو گا کچھ، میری بلا سے۔۔ ۔ اب اگر دھکّا لگا

کھول دوں گا سر ترا!‘‘

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

سوکھے ہوئے پتوں کی قبا چوم رہے ہیں

ہم تند بگولوں کی طرح جھوم رہے ہیں

ظاہر ہے اندھیروں کے وفادار رہیں گے

وہ لوگ بصیرت سے جو محروم رہے ہیں

اس شہر میں، سائے سے بدکتے ہیں جہاں لوگ

ہم جان ہتھیلی پہ لیے گھوم رہے ہیں

پھر ہاتھ نہ آئیں گے وہ الفاظ بگڑ کر

پتھر کے زمانے سے جو محکوم رہے ہیں

کیوں تیرے گھر آنے پہ تعجب سا ہوا ہے

حالانکہ ارادے ترے معلوم رہے ہیں

انصاف روایات کی بنیاد پہ ہو گا

معصوم ہی ٹھہریں گے جو معصوم رہے ہیں !

سجتے ہیں یہ معشوق مظفرؔ کی غزل میں

یادوں کے خرابے میں کہاں گھوم رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سامنے کا واقعہ

 

۔۔ ۔ آپ سچ مانیں کہ جھوٹ۔

ہر طرف دزدیدہ نظریں ڈال کر،

اس نے چپکے سے سپاہی کو بلایا،

سَو کا ایک پتّہ دکھایا۔

مونچھ پھڑکا کر سپاہی نے کہا:

کیا چاہتے ہو؟

گڑ گڑا کر عرض کی،

جی! خودکشی کرنے کی چھوٹ!

آپ سچ مانیں کہ جھوٹ،

سامنے کا واقعہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خار سے کم نہیں آزما لو ہمیں

نرم بستر کی رونق بنا لو ہمیں

سر جھکانا بہرحال ممکن نہیں

جس طرح جی میں آئے ستا لو ہمیں

سکۂ رائج الوقت میں کھوٹ ہے

ہر طرف سے کھرے ہیں چلا لو ہمیں

ہم تمھیں اپنے اشعار میں ڈھال لیں

تم تصور میں اپنے بسا لو ہمیں

سنگ ریزوں میں مضمر ہیں شمس و قمر

دوستو! اب نہ اتنا اچھالو ہمیں

دوش پر آگہی کا کڑا بوجھ ہے

آج ہر آستاں پر جھکا لو ہمیں

ورنہ پھر ہاتھ مل مل کے پچھتاؤ گے

روٹھنے جا رہے ہیں منا لو ہمیں

ہم بھی پتھر نہیں ہیں ذرا دیکھ کر

راستے میں پڑے ہیں، اٹھا لو ہمیں

ٹوٹ کر بہہ گئے آنسوؤں کی طرح

اب تو پلکوں پہ اپنی بٹھا لو ہمیں

اے مظفرؔ حقیقت بڑی تلخ ہے

خواب کی وادیوں میں چھپا لو ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

جستجو کا مشورہ

 

سرخ ذرّو!

سرد کالی دھوپ سے بچتے ہوئے،

زرد رنگوں کی خلا کو پار کر لو۔

آسماں،

نیلاہٹوں کے ساتھ،

اپنی گود پھیلائے،

کھڑا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نقش پا اس کا بلا سے خاک میں رُل جائے گا

گمرہی کو اور بھی اک راستہ کھل جائے گا

اک ستارہ پھر مری پلکوں پہ ہے آ دیکھ لے

ورنہ یہ بھی آتش سیال میں گھل جائے گا

ہم جو آ بیٹھے ہیں اس دیوار کے سائے تلے

اب ترا سایہ بھی اس دیوار سے دھُل جائے گا

کیا کریں گے کانچ کی نگری کے باسی سوچ لیں

سنگ باری ہی پہ دیوانہ اگر تل جائے گا

کون سا دن ہو گا یارو! جس کی آئے گی نہ شام

کب ہماری زندگی سے یہ تسلسل جائے گا

غم نہ کر رسوائی و غیرت کی باتیں سوچ کر

بے تکلف آئے گا جو بے تامّل جائے گا

اے مظفرؔ مجھ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے

اس کا بازو بند ہی محفل میں کھل کھل جائے گا

٭٭٭
 

 

 

اندھیرے کا انتقام

 

دن دہاڑے،

چور کیا، ڈاکو کی مانند،

چھت کی کھپریلوں کو سرکا کر اگر،

سورج مرے کمرے میں در آئے،

مری آنکھوں پہ آئنہ سا چمکائے،

تو کیا پھر بھی مجھے یہ حق نہیں ؟

دوپہر میں بلب زیرو کا جلا کر،

اس کے چہرے پر،

سیاہی پوت دوں !

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں ہمارے راستے پر پھول برساتے نہیں

ہم گنہ کرنے پہ آتے ہیں تو پچھتاتے نہیں

سوچتے ہی جی لرز جاتا ہے پتے کی طرح

آبگینے ٹھیس خود کھاتے ہیں پہنچاتے نہیں

وہ اندھیرے بھی مقدس ہیں دیار نور میں

روشنی کے واسطے دامن جو پھیلاتے نہیں

عکس حیرت مانگتا ہے کچھ سوالوں کے جواب

اس لیے وہ آئنے کے سامنے جاتے نہیں

آج بھی لوگوں کو شعروں میں تغزل چاہیے

اور ہم کو اس طرح کے چونچلے آتے نہیں

رات بھر بیٹھے رہے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر

اب مرے سائے ذرا بھی مجھ سے شرماتے نہیں

خشک ڈالیں، زرد پتے کیا کریں گے، سوچ لیں

آندھیوں کے راستے سے پیڑ کتراتے نہیں

٭٭٭

 

وصل کی سوغات

 

شکَر ہے منہ میں کسی کے،

تو کوئی خالی بات۔

کسی کی لاش سے اُلجھی ہیں،

دیر سے چھَے سات۔

ہر ایک کرتی ہے،

اک دوسرے کو سونگھ کے بات۔

تمام جسم پہ،

پھیلی ہے چیونٹیوں کی برات۔

تمہارے ہجر کی رات!

٭٭٭

 

 

 

 

اب کیا جئیں کہ موت کے حیلے نہیں رہے

ناخن ہی وحشیوں کے نکیلے نہیں رہے

از خود مری کلاہ کا کج دور ہو گیا

ان بستیوں کے لوگ رنگیلے نہیں رہے

چیخوں کی باز گشت جو کانوں میں ہے مکیں

نغمے بھی عہد نو کے سریلے نہیں رہے

موسم نے کھیت کھیت اُگائی ہے فصل زرد

سرسوں کے کھیت ہیں کہ جو پیلے نہیں رہے

جو فرد، جس جگہ بھی ہے، ٹوٹا ہوا سا ہے

تہذیب آئی ہے تو قبیلے نہیں رہے

اب خود کلامیاں ہی مری کائنات ہیں

یاروں سے گفتگو کے وسیلے نہیں رہے

غم کے سفر کا لطف دو بالا جو کر سکیں

صحرا میں اب وہ غار، وہ ٹیلے نہیں رہے

یہ کیا کہ آسمان کا سایہ بھی اٹھ گیا

حدّ نظر کے رنگ بھی نیلے نہیں رہے

سینے سے اٹھ رہے ہیں بگولے غبار کے

گوشے ہماری آنکھوں کے گیلے نہیں رہے

٭٭٭

 

 

میری نظموں کا مصرف

 

میں نہیں کہتا،

کہ میری کھردری نظموں کو پڑھ کر،

سنگ میل راہ نو تسلیم کیجے۔

میری نظمیں تو،

روایت کی بہت پامال فرسودہ سڑک کے دونوں جانب،

کنکروں اور پتھروں کے ڈھیر کی مانند ہیں،

جن سے،

آئندہ نئی راہیں بنائی جائیں گی۔

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

آواز کی رفتار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

مسرور ہے تلوار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

آہستہ ذرا بول کہ نیچے نہ سرک جائے

تہذیب کے مینار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

مجھ کو مرے بارے میں نہ کچھ سوچنے دے گی

بارود کے انبار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

صدیوں کا کڑا بوجھ ہے کاندھے پہ سنبھالے

لمحوں کے سبک تار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

تم یاد نہ آؤ کہ ابھی جھانک رہی ہے

تنہائی کی دیوار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

لاعلم ہی رہنے دے مجھے رمز خودی سے

اے مسند پندار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

چھالے وہیں پھوٹے ہیں مظفرؔ کے، جہاں سے

گزری ہے ہوادار پہ بیٹھی ہوئی دنیا

٭٭٭

 

 

 

مرکز کی طرف

 

روح کے مسیح کو،

جسم کی صلیب سے اتار کر،

آسمانِ لا عدد پہ لے چلو۔

اس کے کل کی لاش،

آسمان لا عدد پہ،

تعزیت کی منتظر ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

نقش گل سیاہ نکھرتا چلا گیا

گہرائیوں سے خوف ابھرتا چلا گیا

تھم کر کبھی جو سانس بھی لی ہے سکون سے

نشتر سا ایک دل میں اترتا چلا گیا

کیا کیجیے کہ درد کی تصویر بن گئی

جو رنگ مل گیا مجھے، بھرتا چلا گیا

بڑھتا رہا میں وادیِ ظلمات کی طرف

راہوں میں میری نور بکھرتا چلا گیا

ہر لمحۂ گزشتہ گزرنے کے ساتھ ساتھ

بال و پر حیات کترتا چلا گیا

جینا پڑا تو حشر کے دن تک جیوں گا میں

مرنے پہ آ گیا ہوں تو مرتا چلا گیا

مرنے کی آرزو نے دیا حوصلہ مجھے

ہستی کے ہفت خواں سے گزرتا چلا گیا

٭٭٭
 

 

 

 

معاشرے کا سفید ہاتھی

 

چھوٹی سی چونے کی پپڑی گر جانے سے،

کمرے کی دیوار پہ،

اک ننھا سا خاکہ آ بیٹھا تھا۔

بد حلیہ اور بھونڈا خاکہ۔

سوچا یہ تھا،

تھوڑا چونا بھر کر،

اس مینڈک سے کمرہ خالی کر لوں۔

مینڈک تو غائب ہے،

لیکن اک موٹا بد ہیئت ہاتھی،

بے باکانہ اس کمرے میں در آیا ہے۔

یعنی۔۔ ۔

اب پورے کمرے میں

پھر سے سپیدی کرنی ہو گی!

٭٭٭

 

گرمی جو آ گئی تری یادوں کے خون میں

پرچھائیوں نے پھوڑ لیے سر جنون میں

بستر ترے بغیر وہ بستر نہیں رہا

نرمی ہے روئی میں نہ وہ گرمی ہے اون میں

برسات میں تھی سر پہ کھلے آسماں کی چھت

سورج سے دوستی ہے مئی اور جون میں

ہم کو ہمارے حال پہ دنیا جو چھوڑ دے

ہم بھی مخل نہ ہوں گے کسی کے سکون میں

پھونکو تو گر پڑے گا یہ تہذیب کا محل

بنیاد پائیدار نہ دم ہے ستون میں

تارے جنہیں شمار کیا، ٹوٹتے گئے

انجام شب چھپا ہے اسی بد شگون میں

٭٭٭

 

۔۔ ۔ بصیرت مل گئی جب سے

 

شفق سی کھل گئی کیوں مطلع احساس پر،

یہ دھنک سی تن گئی شہ رگ میں کیوں ؟

کیوں تھرکتا ہے، ہر اک قطرہ لہو کا؟

شہادت کے لیے بے چین کیوں ہوں میں ؟

سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

بجز اس کے،

کہ اپنی ہی نگاہوں میں،

مرا اک راز افشا ہو گیا ہے۔

یہ، کہ میں بزدل ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

کونا کونا جگ مگ جگ مگ، گوشہ گوشہ روشن ہے

پھر یادوں کی جوت جلی ہے، دل کا خرابہ روشن ہے

حوض میں منہ پھاڑے بیٹھا ہے اندھیارے کا گہراپن

فوارے سے اڑنے والا قطرہ قطرہ روشن ہے

مایوسی کا موڈ بنا تو یاد کریں گے ماضی کو

مستقبل کی بات کرو، موجودہ لمحہ روشن ہے

مجھ کو ایک غزل کہنی ہے اور ستائے اس کو نیند

آدھے کمرے میں تاریکی آدھا کمرہ روشن ہے

جو غم تو نے بخشے ہیں وہ اب تک دل میں روشن ہیں

البم کے کالے پنّے پر تیرا چہرہ روشن ہے

اپنا آنگن، اپنا بستر، اپنی یادیں، اپنا وقت

یوں لگتا ہے جیسے دن سے رات زیادہ روشن ہے

ایماں لانا ہو گا اس کی لن ترانیوں پر فی الحال

موسیٰؑ ہے وہ، ہاتھ میں اس کے سوکا پتّہ روشن ہے

چمکیلا پن شرط نہیں ہے زنگ آلود نہ ہونے کی

جس میں مظفرؔ عکس ہو اپنا وہ آئنہ روشن ہے

٭٭٭
 

 

آگہی کا غم

 

خبر ملی۔۔ ۔

کہ مری والدہ سدھار گئیں۔

مجھے یہ غم ہے کہ اے کاش!

یہ خبر مجھ کو،

بجائے تار کے،

خط سے جو کی گئی ہوتی،

تو چند روز،

یتیمی سے میں بچا رہتا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں

لفظوں کے جنگل میں معنی بھٹک رہے ہیں

پاکیزہ اخلاق مسلط ہے جذبے پر

خواہش کی آنکھوں میں کانٹے کھٹک رہے ہیں

ملہاریں گاتے ہیں مینڈک تال کنارے

آسمان پر بھورے بادل مٹک رہے ہیں

مطلع پر یادوں کی پوسی پھوٹ رہی ہے

من پر کالے سانپ اپنے پھن پٹک رہے ہیں

خوشبو کی چوری کا داغ لگا ہے ان پر

سب گل بوٹے اپنے دامن جھٹک رہے ہیں

ایسی جدت سے ہم کو کیا مل جائے گا

پڑھنے والے ہر مصرع پر اٹک رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

جبلت کے ہاتھ

 

سائیکل سے گر کے،

دزدیدہ نظر سے،

اس نے چاروں اور دیکھا،

ہنسنے والا دور تک کوئی نہیں تھا۔

گرمیوں کی دوپہر تھی۔

ہانپتی خالی سڑک لیٹی ہوئی تھی۔

پیر کی چوٹوں کو سہلاتے ہوئے،

اس نے اپنا ہیٹ اٹھایا،

گرد جھاڑی۔

سائیکل پر بیٹھ کر چلتا بنا،

ہنستے ہوئے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

رکھیے کانٹوں میں چھپا کر ہم کو

ناز ہے اپنے لہو پر ہم کو

کچھ قیامت تو نہ آ جائے گی

پیار کر لو جو گھڑی بھر ہم کو

اُف وہ لمحے جو گزرتے ہی نہیں

یاد آتے ہیں برابر ہم کو

غالباً عرش پہ پہنچائے گی

گردش وقت کی ٹھوکر ہم کو

ہم بھی خود اپنے تماشائی ہیں

لے چلو شہر کے اندر ہم کو

خوش نصیبی ہو کہ بدبختی ہو

نہ ملا آپ سے بہتر ہم کو

رحم کی بھیک نہیں مانگتے ہم

شوق سے جانیے خود سر ہم کو

آسماں چھت ہے تو بستر فٹ پاتھ

کون کہہ سکتا ہے بے گھر ہم کو

دوش پر زیست کا الزام جو ہے

جھوٹ لگتا ہے مظفرؔ ہم کو

٭٭٭

 

 

 

بدلتے لمحوں کی آواز

 

 

کون ہے جو دوپہر میں،

ہر قدم پر ساتھ رہ کر،

مجھ سے کہتا ہے،

کہ تو آقا ہے میرا۔

کون ہے،

جو رات کی تاریکیوں میں،

میرے ہی اندر سما کر،

مجھ سے کہتا ہے،

کہ تو کچھ بھی نہیں،

اس وقت میں آقا ہوں تیرا

٭٭٭

 

 

 

آلام روزگار کا منہ زرد ہو گیا

ہر زخم کا علاج ترا درد ہو گیا

چہرے کی ہے تلاش ہر اک فرد کو جہاں

اس انجمن سے جو بھی اٹھا، فرد ہو گیا

کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل

آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا

گمراہیوں نے دھول اڑا دی مذاق میں

ہر نقش پائے راہ نما گرد ہو گیا

اس عہد نو کو لہجۂ مردانہ چاہیے

جس نے بھی میرے شعر پڑھے مرد ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

ٹوٹے ہوئے لوگوں کی خاطر

 

ہزار چاہا کہ سچ بول دوں، سکون ملے۔

یہی کہ میرا کوئی بھی نہیں یہاں،

میں بھی کسی کا ہوں نہ کبھی ہو سکوں گا دنیا میں،

ہر ایک فرد اکیلا ہے،

میں بھی تنہا ہوں۔

مگر ہمیشہ یہ احساس آڑے آیا ہے،

کہ لوگ خود ہی تو ٹوٹے ہوئے ہیں،

(میں خود بھی)

اب ان کے ہاتھ سے کیا رشتۂ امید چھڑاؤں،

یہ زندگی تو خود ایک ریگ زار ہے،

اس میں مزید خاک اڑانے کا نام ’’سچ‘‘ تو نہیں۔

اسی گناہ کی،

ملتی رہی مجھے پاداش

صلیب دل پہ لٹکتی رہی شعور کی لاش!

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

 

 

 

خوف کے پر سرسراتے ہیں ہوا میں

خشک پتّے چرچراتے ہیں ہوا میں

سامنے چنگاریاں سی اڑ رہی ہیں

یا ستارے تھرتھراتے ہیں ہوا میں

ان جٹا دھاری درختوں پر نہ جاؤ

آج یا کل اراراتے ہیں ہوا میں

خون بہنے کو بلکتا ہے تو سنیے

تیز چاقو کر کراتے ہیں ہوا میں

اب تو شاہیں کا بسیرا موج میں ہے

اور مینڈک ٹرٹراتے ہیں ہوا میں

پھونک ڈالیں گے خود اپنا ہی نشیمن

مرغ آہن گھرگھراتے ہیں ہوا میں

٭٭٭

 

 

 

 

کار طفلاں

 

میں گڈو کی سال گرہ پر،

اک چھوٹا سا ٹین کا بھالو،

دو سو پینتالیس روپے میں لے آیا تھا،

ایک ہاتھ میں ہیٹ تھا جس کے،

اور دوسرے ہاتھ میں جام۔

کوک بھرو تو ٹین کا بھالو،

ہیٹ ہلا کر،

کولھے اور آنکھیں مٹکا کر،

لہرا لہرا کر پیتا تھا۔

اب گڈو نے،

جام توڑ کر رسی باندھ رکھی ہے بھالو کی گردن میں،

کہتا ہے:

چل چندہ مانگ!

٭٭٭

 

 

 

 

سارے دروازے اندھے ہیں، سب دیواریں کالی ہیں

اس بستی کی ساری گلیاں میری دیکھی بھالی ہیں

یا حیرت! جب روشنیوں کو پاس سے دیکھا تو یہ کیا

آنکھیں ویرانی کا مسکن، سینے غم سے خالی ہیں

میں تیری تصویر کے نیچے سوتا ہوں تو کون گناہ

یہ راتیں تو اچھے اچھّوں کو بہکانے والی ہیں

یو پی کے دیہات کی اک لڑکی کے نقشے مت پوچھ

کشمیری ہیں، بنگالی ہیں، سندھی ہیں، سنتھالی ہیں

بے معنی الفاظ کے بندھن، ان جانے رشتوں کے جال

ہم نے اپنے پیروں میں خود ہی زنجیریں ڈالی ہیں

بے شک وہ فلسفیوں جیسی بات کرے گا شعروں میں

جس نے بھی دو چار کتابیں مغرب کی منگوا لی ہیں

میں نے اپنا فن ٹھہرایا، ترچھی راہوں پر چلنا

جب سے سیدھی سچی راہیں یاروں نے اپنا لی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

رنگین زاویے کا بیان

 

چیختے رنگوں کی اک پُر شور وادی میں،

حضور!

رقص کے دوران،

وہ مجھ سے ملا تھا۔

اس نے میری مانگ میں،

تارے بھرے تھے،

منھ پہ مل دی تھی شفق۔

لوگ اندھے ہیں،

جو کہتے ہیں کہ اس نے،

مجھ سے منھ کالا کیا تھا!

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

 

 

دنیا نے جب چراغ تمنا بجھا دیا

مرنے کی آرزو نے بڑا حوصلہ دیا

میں نے مخالفین کو چرکا لگا دیا

رونے کا تھا مقام جہاں، مسکرا دیا

ساحل سے ڈوبنے کا اشارہ ملا مگر

موجِ بلا نے ہم کو کنارے لگا دیا

میں نقش بن کے بیٹھ گیا حیرتوں کے پاس

دل نے تری نظر کو مصوّر بنا دیا

تنگ آ چکے تھے قید تسلسل کے ہاتھ سے

لو آج ہم نے اپنا نشیمن جلا دیا

ہم کو دعائیں دے کہ جفاؤں کو بھول کر

محفل پہ تیرے نام کا سکہ جما دیا

ایسا ہوا کہ ناقد نازک مزاج نے

میری غزل کو بزم ادب سے اٹھا دیا

سجدے نہ جانیے گا، مظفر نے اس طرح

ہر نقش پا کو لمسِ جبیں سے مِٹا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

قصہ طوطا مینا جدید

 

مینا بولی۔۔ ۔ دن کتنا لمبا ہے،

طوطے !

اپنی بیتی ہی کہہ ڈالو۔

طوطا بولا۔۔ ۔ مٹھو بیٹے !

مینا بولی۔۔ ۔ سچ کہتے ہو۔

پھر مینا نے اپنے اور زمانے بھر کے،

دُکھڑے طوطے سے کہہ ڈالے۔

رات ہوئی:

مینا بولی۔۔ ۔ رات کٹھن ہے،

جگ بیتی سنواؤ مٹھو!

طوطا بولا۔۔ ۔ مٹھو میاں !!

مینا بولی۔۔ ۔ سچ کہتے ہو!!!

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

یادگاریں ہی چھوڑتے جاؤ

اینٹ سے اینٹ جوڑتے جاؤ

عطر ظلمت کبھی تو ٹپکے گا

چاندنی کو نچوڑتے جاؤ

گر پڑے گا پچھاڑ کھا کر دن

شب کی گردن مروڑتے جاؤ

اے گزرتے ہوئے سبک لمحو!

بے حسی کو جھنجھوڑتے جاؤ

کوئی مجنوں ملے، ملے نہ ملے

سر خود اپنا ہی پھوڑتے جاؤ

ایک دن خود کو ٹوٹنا ہو گا

رُخ ہواؤں کا موڑتے جاؤ

جب وفا ہی نہ کی مظفر سے

غم کا ناتا بھی توڑتے جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آدم کی آخری خواہش

 

کاش!

پھر وہ وقت آئے،

جب خدا سارے فرشتوں کو بلا کر،

حکم دے:

انسان کو سجدہ کرو۔

ان فرشتوں کا معلّم،

پھر خودی کے زعم میں،

اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دے۔

طوق لعنت اس کی گردن میں پڑے۔

اور میں موقع کو استعمال کر کے،

خود ہی اپنے سامنے،

اک بار اپنا سر جھکا دوں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو ہم چکنی غزل کہہ دیں جو توصیف بتاں کر لیں

تو مطلع ہی سے اس محفل کو اپنا راز داں کر لیں

نہ اس کے ہاتھ پر پھولوں نے بیعت کی نہ کانٹوں نے

کوئی بنیاد ہو تو اعتماد باغباں کر لیں

کہاں سے محترم کو حق پہنچتا ہے کہ تفریحاً

کسی تیکھی حقیقت کو گھما کر داستاں کر لیں

سمندر بھی ہمیں پایاب لیکن آپ جیسے تو

تنک ظرفی سے جس قطرے کو چاہیں بے کراں کر لیں

اگر بوڑھی روایت کے مقلد خیریت چاہیں

نئے اسلوب دے کر فکر و فن کو نوجواں کر لیں

غلو حد سے گزر کر شعر میں اچھا نہیں لگتا

غلط ہو گا اگر چھت کو اٹھا کر آسماں کر لیں

کسی گل چیں، کسی صیاد کو جرأت نہیں ہو گی

اگر دو چار کانٹے بھی شریک آشیاں کر لیں

اب وجد کے بھروسے پر غلط ہے مدعی ہونا

کہ ہم تو ریگ زاروں پر سفینوں کو رواں کر لیں

مظفر اس طرح گھٹ گھٹ کے مر جانے سے بہتر ہے

علاج درد دل کہہ کر حساب دوستاں کر لیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

۔۔ ۔ کھینچے ہے مجھے کفر

 

خشمگیں چہرہ،

نظر چبھتی ہوئی،

ماتھے پہ بل۔

روز ہی صاحب کا یہ دستور ہے۔

آج تو میں خیر سے کل تین گھنٹے لیٹ ہوں۔

کیا قیامت ہے کہ ساڑھے چھے بجے چھٹّی ملے،

پھر سویرے آٹھ بج کر تیس پر حاضر رہو۔

(زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے )

آج تو میں سوچ کر نکلا ہوں،

یوں دبنے سے اپنا کام چلنے کا نہیں۔

لیجیے گھنٹی بجی، طلبی ہوئی، وہ چل پڑے۔

سوچتا ہوں میں بھی ان سے کم نہیں۔

پھر خیال آتا ہے،

بیوی اور بچے ساتھ ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

دن کے زخموں کا مداوا درکنار

رات ہے یا روشنی کا آبشار

منتظر ہوں، بس یہی احساس ہے

کیا خبر کس کا ہے اور کیوں انتظار

کوئی منزل ہے نہ جادہ ہے مگر

بھاگتے رہتے ہیں ہم دیوانہ وار

اڑ رہی ہے ساتھ میں سائے لیے

جھیل کی چادر پہ بگلوں کی قطار

پانچواں درویش ہوں مجھ سے سنو

اک نیا افسانۂ باغ و بہار

بیچ کے لوگوں کو خوش کرنا پڑا

لڑ رہے ہیں پنج تن سے چار یار

اے مظفرؔ تم بھی کیوں کرتے نہیں

شاعری میں خود ہی اپنا اشتہار

٭٭٭

 

 

 

 

بھیگی ہوئی تہذیب

 

پاگل ہوا کے زور سے،

چھتری الٹ گئی۔

چورا ہے پر میں بھیگ گیا،

اس کا غم نہیں۔

کپڑے تو ٹیری کاٹ کے ہیں،

سوکھ جائیں گے۔

لوگوں کے قہقہوں کی یہ بوچھار،

الاماں۔

کس طرح دور ہو گی مری روح کی نمی؟

چھتری الٹ گئی!

٭٭٭

 

 

 

 

شاہوں کے نام لو نہ گداؤں کے سامنے

جلتے نہیں چراغ ہواؤں کے سامنے

تنہائیوں میں ان پہ غزل کہہ چکے ہیں ہم

شرما رہے ہیں ماہ لقاؤں کے سامنے

بس ایک جرم تھا کہ تسلسل سے ہو گیا

تیری ادا نہیں تھی وفاؤں کے سامنے

احباب کے خلوص سے بڑھ کر نہ تھی کوئی

تن کر کھڑا رہا میں بلاؤں کے سامنے

آئنہ دل کا سنگ ملامت کی زد پہ ہے

ٹوٹا ہوا پڑا ہوں صداؤں کے سامنے

نیکی جو بھول سے کبھی سرزد ہوئی تو میں

دریا میں ڈال آیا خطاؤں کے سامنے

کب سے بڑھا رہی تھیں تجسّس کا حوصلہ

انجام آ رہا ہے خلاؤں کے سامنے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دی انڈ

 

گھپ اندھیارے میں،

نورانی انگلی جانے کیا لکھتی تھی۔

رنگوں کی خوش بو پھیلی تھی۔

ڈالی ڈالی ہونٹ کھلے تھے۔

آسمان گیسو گیسو تھا۔

پیمانوں میں نیلی آنکھیں تیر رہی تھیں۔

سانسیں گھنگھروسی بجتی تھیں۔

پلکیں جھپکاتے ہی،

نازک سپنا ٹوٹ گیا۔

جیسے پکچر چھوٹ گیا!

٭٭٭

 

 

 

 

دریا گم، دلدل باقی ہے

رسّی جل گئی، بل باقی ہے

پتھر تو پوجا جائے گا

جب تک شیش محل باقی ہے

چکھتے چکھتے عمر گزاری

صبر کا میٹھا پھل باقی ہے

پنڈت جی! لے آؤ بوتل

تھوڑا گنگا جل باقی ہے

میرا دامن کورا نکلا

اب تیرا آنچل باقی ہے

بھور ہو گئی چلتے چلتے

یادوں کا جنگل باقی ہے

بس مقطع ہو جائے مظفرؔ

کٹ گئی رات غزل باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دائرے سے مربع تک

 

زمین گول تھی،

(یعنی اس کی کوئی حد مقرر نہ تھی)

مگر تم نے اس پر،

سمندر کے پردے لگا کر،

کئی بر اعظم بنائے۔

پہاڑوں کو دیوار،

ندیوں کو خندق بنا کر،

اسے سینکڑوں تنگ ملکوں میں بانٹا۔

ہر اک ملک میں رنگ اور نسل،

تہذیب و مذہب،

زبان و ثقافت کی چھریاں چلا کر،

اسے صوبوں میں،

شہروں میں، قصبوں میں،

گاؤں میں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔

پھر وہاں بھی، علاقے محلے کی قاشیں،

محلوں میں گھر،

پھر گھروں میں بھی کمرے،

کئی مستطیلیں،

ہزاروں مربعے !

بتاؤ!

کہ ان چار دیواروں میں بیٹھ کر،

تم کو اپنی گھٹن،

اور اس حبس و تنہائی کی شکل میں،

جو سزا مل رہی ہے،

وہ کیوں کر غلط ہے ؟

زمین گول رکھنے میں ہی مصلحت تھی!

٭٭٭

 

 

 

 

باب طلسم ہوش ربا مل گیا مجھے

میں خود کو ڈھونڈھتا تھا خدا مل گیا مجھے

جانا کہ ریگ زار کے سینے پہ زخم ہیں

سایہ جو راستے میں پڑا مل گیا مجھے

ویرانیوں سے اس نے مرا حال سن لیا

تنہائیوں سے اس کا پتہ مل گیا مجھے

شہرت کے آسمان پہ اڑنے لگا تھا میں

رستے میں آگہی کا خلا مل گیا مجھے

دنیا تو مجھ کو چھوڑ کے آگے نکل گئی

خوابوں کا اک جزیرہ نما مل گیا مجھے

گم راہیوں پہ فخر کی منزل کے پاس ہی

اک سنگ میل ہنستا ہوا مل گیا مجھے

جنت مرے خیال کی مسمار ہو گئی

بدقسمتی سے ذہنِ رسا مل گیا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

سندباد کی واپسی

 

فوم ربر کے ایوانوں سے سر ٹکرا کر،

لوہے کے تپتے بازاروں سے گھبرا کر،

اپنی ذات کی بھول بھلیوں سے اکتا کر،

عہد نو کے فلسفیوں سے آنکھ بچا کر،

فن کاروں کی الجھی با توں سے چکرا کر،

سہلانے والے ہاتھوں سے چوٹیں کھا کر،

اندر سے باہر کی جانب،

سندباد جب واپس لوٹا،

اس نے چاروں جانب پھیلی دنیا کو،

جب غور سے دیکھا۔

پیدل چلنے والے پہلے سے زائد تھے !

ننگے پھرنے والے پہلے سے زائد تھے !!

بھوکوں مرنے والے پہلے سے زائد تھے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

غوغا، کھٹ پٹ، چیخم دھاڑ

اُف، آوازوں کے جھنکاڑ

رات، گھنا جنگل اور میں

ایک چنا کیا پھوڑے بھاڑ

مجنوں کا انجام تو سوچ

یار مرے ! مت کپڑے پھاڑ

ظلمت مارے گی شب خون

روشنیوں کی لے کر آڑ

اپنا گنجا چاند سنبھال

میرے سر پر دھول نہ جھاڑ

آخر تجھ کو مانیں گے

نقادوں کو خوب لتاڑ

دیکھو کب تک باقی ہیں

دریا جنگل اور پہاڑ

ہمدمِ دیرینہ! ہنس بول

یادوں کے مردے نہ اکھاڑ

پھر سورج سے ٹکرانا

دھرتی میں تو پنجے گاڑ

٭٭٭
 

 

 

فیڈنگ پرابلم

 

شہر میں کرفیو لگا ہے۔

میری ہمسایہ کے گھر طوفاں بپا ہے۔

دودھ اس کی چھاتیوں سے بہہ رہا ہے۔

بھوک سے بے حال اس کا بچہ کپڑے نوچتا ہے۔

دودھ کا ٹن اس طرف خالی پڑا ہے۔

شہر میں کرفیو لگا ہے۔

٭٭٭
 

 

 

 

 

 

شیر خوار حیرت کو دیکھ کر بہکنے دو

عہد نو کے فرزانو! چاند کو چمکنے دو

یاد کی انی بن کر آنکھ مت جھپکنے دو

ختم ہیں اگر آنسو، خون ہی ٹپکنے دو

لب لبی دبانے میں یوں مزا نہ آئے گا

خوش نما پرندوں کو شاخ پر پھدکنے دو

عشق محض کی گرمی نسل کو جلا دے گی

سرد آگ کے شعلے جسم سے لپکنے دو

بیشتر کو لٹنے کی بے پناہ خواہش ہے

رہ زنو! چلے آؤ، رہ بروں کو بکنے دو

روز و شب کے جھگڑے ہیں ثالثی کے داعی ہیں

صبح کو بلکنے دو، شام کو سسکنے دو

راستہ دکھائیں گے ہم کو آس کے جگنو

دشتِ بے نیازی میں یاس کو بھٹکنے دو

٭٭٭
 

 

 

 

 

اسے دیکھ کر

 

ساری تہذیب جیسے ہوا ہو گئی۔

میں اسے دیکھ کر،

دیکھتا رہ گیا۔

جی میں آیا کہ سینے میں رکھ لوں اسے،

واقعی نامکمل ہے میرا وجود۔

مجھ سے چھینی گئی تھی جو روز ازل،

وہ یہی ہے۔

مری بائیں پسلی،

یہی ہے !!

٭٭٭

تشکر: شاعر اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل