FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

وقت کا سفر

 

A BRIEF HISTORY OF TIME

 

سٹیون ہاکنگ

Stephen Hawking

ترجمہ:ناظر محمود

نظرِ ثانی:شہزاد احمد

 

اردو یونیکوڈ برقی کتاب

محمد علی مکی

makki.ma@gmail.com

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ابتدائیہ

 

 

سٹیون ہاکنگ کی کتاب (A BRIEF HISTORY OF TIME) مدتوں تک بیسٹ سلر  (BEST SELLER) شمار ہوتی رہی ہے ، دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے ، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے  کہ یہ کتاب کوئی آسان کتاب نہیں ہے ، اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ اس کے  موضوعات مشکل ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے  کہ یہ کتاب ان عوامل کو بیان کرتی ہے  جو روز مرہ کی زندگی میں ہمارے  تجربے  میں نہیں آتے  اور نہ ہی اس کے  بیشتر موضوعات کو تجربہ گاہ کی سطح پر ثابت ہی کیا جا سکتا ہے  مگر اس کے  باوجود یہ موضوعات ایسے  ہیں جو صدیوں تک انسان کو اپنی طرف متوجہ کیے  ہوئے  ہیں اور ان کے  بارے  میں بعض ایسی معلومات حال ہی میں حاصل ہوئی ہیں، جو شاید فیصلہ کن ہیں، یہ کتاب بیسویں صدی کے  اواخر میں لکھی گئی ہے ، لہذا اس میں فراہم کردہ مواد ابھی بہت نیا ہے ، ابھی اسے  وقت کے  امتحان سے  بھی گزرنا ہے  اور لوگوں کو اس سے  آشنائی بھی حاصل کرنی ہے ، ہماری طالب علمی کے  زمانے  میں کہا جاتا تھا کہ آئن سٹائن کے  نظریات کو سمجھنے  والے  لوگ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے  جا سکتے  ہیں، اس سے  کچھ پہلے  ایڈنگٹن (EDDINGTON) کو یہ خیال تھا کہ آئن سٹائن کو سمجھنے  والا وہ شاید واحد فرد ہے ، مگر اب یہ حال ہے  کہ آئن سٹائن کے  نظریات کو سائنس کا عام طالب علم بخوبی سمجھتا ہے ، کار ساگان (CARL SAGAN) کا خیال ہے  کہ آئن سٹائن کو سمجھنے  کے  لیے  جس قدر ریاضی جاننے  کی ضرورت ہے  وہ میٹرک کا عام طالب علم جانتا ہے ، مگر مشکل یہ ہے  کہ آئن سٹائن نے  جن موضوعات کو چھیڑا ہے  وہ ایسے  ہیں جو روز مرہ زندگی میں کم کم ہی سامنے  آتے  ہیں، لہذا اسے  سمجھنا مدتوں تک مشکل شمار ہوتا رہا ہے ۔

سٹیون ہاکنگ کی یہ کتاب بھی اسی زمرے  میں آتی ہے ، اسے  سمجھنا مشکل نہیں ہے ، بشرطیکہ آپ روز مرہ کے  تجربات سے  ماوراء جانے  کے  خواہش مند ہوں، اب بلا مبالغہ لاکھوں لوگوں نے  اس کتاب کو پڑھا ہے  یا پڑھنے  کی کوشش کی ہے ، اس کتاب کے  سلسلے  میں جو سروے  ہوئے  ہیں یہ بتاتے  ہیں کہ تجسس کے  جذبے  کی وجہ سے  یہ کتاب خریدی تو بہت گئی ہے  مگر پڑھی محدود تعداد میں گئی ہے ، کچھ حصوں کے  بارے  میں خاص طور سے  نشاندہی کی گئی ہے  کہ وہ مشکل ہیں لیکن ان کو زیادہ آسان بنایا نہیں جا سکتا، ہمارے  ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات خاصی پیچیدہ ہے  اور لاکھوں برس اس میں گزارنے  کے  باوجود ابھی ہم نے  شاید اسے  سمجھنا شروع ہی کیا ہے ۔

یہ کتاب آپ سے  یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ آپ اسے  اپنے  اعتقاد کا حصہ بنا لیں، مگر یہ ضرور چاہتی ہے  کہ آپ اپنے  بنائے  ہوئے  ذہنی گھروندے  سے  نک لیں اور یہ دیکھنے  کی کوشش کریں کہ دنیا میں اور بھی بہت کچھ موجود ہے ، یہ تو ہم سبھی لوگ تسلیم کرتے  ہیں کہ سپیس (SPACE) کی تین جہتیں یا ابعاد (DIMENSIONS) ہیں اور وقت اس کی چوتھی جہت یا بعد ہے ، ہم صدیوں سے  وقت کو مطلق تصور کرتے  چلے  آتے  ہیں لہذا ہمارے  لیے  چند لمحوں کے  لیے  بھی یہ آسان نہیں ہے  کہ ہم وقت کو سپیس کا ایک شاخسانہ سمجھ  لیں۔

میرے  ایک محترم دوست جو شاعر بھی ہیں اور مصور بھی ہیں اور آج کل سائنسی موضوعات کا مطالعہ بھی کر رہے  ہیں، ان معتقدات کو غلط ثابت کرنے  کے  لیے  بار بار وہی دلائل دہراتے  ہیں جو برسوں سے  ہمارے  فلسفے  کا حصہ ہیں، جو لوگ سپیس ٹائم کو چار ابعادی بھی خیال کرتے  ہیں ان کے  لیے  بھی مشکل ہے  کہ وہ اپنی عادات سے  ماورا جا کر کسی ایسے  تصور تک رسائی حاصل کریں جس کا تجربہ ہم سطح زمین پر نہ کر سکتے  ہوں، میں ایک مثال پیش کروں گا۔

اگر کبھی سورج اچانک بجھ جائے  تو آٹھ منٹ تک ہمیں معلوم ہی نہ ہو گا کہ سورج بجھ چکا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے  کہ آٹھ منٹ تک وہ روشنی زمین پر آتی رہے  گی جو سورج سے  چلی ہوئی ہے ، پھر دوسرے  سیارے  اور ستارے  بھی ہیں، چاند کی روشنی چند سیکنڈ میں ہم تک آ جاتی ہے  لیکن بعض کہکشائیں اس قدر دور ہیں کہ ان کی روشنی اربوں سالوں میں ہم تک پہنچتی ہے ، اب اگر یہ کہکشائیں معدوم ہو چکی ہوں تو ہم اربوں برس تک یہ معلوم نہ کر سکیں گے  کہ وہ موجود نہیں ہیں، دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے  کہ روشنی کی بھی کمیت (MASS) ہوتی ہے ، وہ جب کسی بڑے  ستارے  کے  پاس سے  گزرتی ہے  تو وہ اسے  اپنی طرف کھینچتا ہے  لہذا وہ ذرا سا خم کھا جاتی ہے ، ایسی روشنی جب ہم تک پہنچتی ہے  تو اسے  دیکھ کر سیارے  یا ستارے  کے  جس مقام کا تعین کیا جاتا ہے  وہ درست نہیں ہو سکتا۔

جب ہم آسمان کو دیکھتے  ہیں تو وہ ستارے ، سیارے  اور کہکشائیں اصل میں وہاں موجود نہیں ہوتیں جہاں وہ ہمیں نظر آتی ہیں، لہذا جو کچھ ہم دیکھتے  ہیں وہ ماضی کی کوئی صورتحال ہے ، جو اب بدل چکی ہے  اور یہ تبدیلی تمام اجرامِ فلکی کے  لیے  ایک جیسی بھی نہیں ہے ، لہذا ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے  اس کا تعلق اس شے  سے  نہیں ہے  جسے  ہم حقیقت کہتے  ہیں، مگر آسمان کا اپنی موجودہ شکل میں نظر آنا ایک ایسی حقیقت ہے  جسے  تسلیم کئے  بغیر انسان چند قدم نہیں چل سکتا، اس کی شاعری اور اس کے  فنونِ لطیفہ شاید کبھی بھی اس صورتحال کو تبدیل کرنے  کے  لیے  تیار نہ ہوں جو ان کا ذاتی اور اجتماعی تجربہ ہے ۔

لہذا ہم ایک وقت میں کئی سطحوں پر زندگی گزارتے  ہیں جس طرح جدید طبیعیات کے  باوجود ابھی نیوٹن کی طبیعیات متروک نہیں ہوئی کیونکہ اس سے  کچھ نہ کچھ عملی فائدہ ہم ابھی تک اٹھا رہے  ہیں، مگر جب جہانِ کبیر (MACROCOSM) یا جہانِ صغیر (MICROCOSM) کی بات ہوتی ہے  تو نیوٹن کی طبیعیات کسی بھی طرح منطبق نہیں کی جا سکتی، اکیسویں صدی میں کیا ہونے  والا ہے  اس کا تھوڑا بہت اندازہ تو ابھی سے  کیا جا رہا ہے  مگر یہ یقین سے  نہیں کہا جا سکتا کہ خود انسان کے  اندر کیا کیا تبدیلیاں ہونے  والی ہیں۔

جدید عہد کو سائنسی نظریات کے  بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا، اس لیے  اگر آپ سائنس کے  با قاعدہ طالب علم نہ بھی ہوں، پھر بھی کچھ بنیادی باتوں کا علم ہونا ہم سب کے  لیے  ضروری ہے ، اور یہ کتاب ان چند کتابوں میں سے  ہے  جو اس سلسلے  میں بنیادی نوعیت کی کتابیں کہی جا سکتی ہیں، بجائے  اس کے  کہ ہم سائنس کے  بارے  میں صحافیوں کے  لکھے  ہوئے  مضامین پڑھیں، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ایک ایسے  سائنس دان کی کتاب پڑھ لی جائے  جسے  جدید عہد کے  اہم نظریاتی سائنس دانوں میں شمار کیا جاتا ہے ، کچھ لوگ ہاکنگ کو آئن سٹائن کے  بعد اہم ترین سائنس دان سمجھتے  ہیں، میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ یہ اندازہ درست ہے  یا غلط، بہرحال اتنی بات ضرور ہے  کہ موجودہ سائنسی برادری میں اسے  ایک اعلی مقام حاصل ہے ، وہ کیمبرج میں اسی چیئر پر کام کر رہا ہے  جہاں کبھی نیوٹن ہوا کرتا تھا۔

ہمارے  عہد میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے  کہ سائنس کو آسان زبان میں بھی بیان کیا جائے ، ایسی بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں جو ریاضیاتی مساواتوں سے  مبرا ہیں، موجودہ کتاب بھی انہی کتابوں میں سے  ایک ہے ، ہم جیسے  لوگ جو ریاضی سے  نابلد ہیں ایسی ہی کتابوں پر انحصار کرتے  ہیں۔

موجودہ کتاب کا ترجمہ جناب ناظر محمود نے  ١٩٩٢ء میں مشعل پاکستان کے  لئے  کیا تھا، جب سے  اب تک اس کے  تین ایڈیشن شائع ہو چکے  ہیں، کسی سائنسی کتاب کے  تین ایڈیشن شائع ہو جانا بجائے  خود اس امر کی دلیل ہے  کہ کتاب کو پسند کیا گیا ہے ، ناظر محمود صاحب نے  یہ ترجمہ دل جمعی کے  ساتھ کیا ہے ، اس پر نظرِ ثانی کرتے  ہوئے  بہت کم مواقع ایسے  آئے  ہیں جہاں مجھے  ان سے  اتفاق نہ ہوا ہو، ویسے  بھی میں نے  کوشش کی ہے  کہ اصل متن میں کم سے  کم تبدیلی کروں اور صرف وہیں تک محدود رہوں جہاں تک اس کی اشد ضرورت ہے ، اصطلاحات کا جھگڑا البتہ موجودہ ہے ، جب بھی سائنس کی کسی کتاب کا ترجمہ اردو میں ہو گا یہ مسئلہ درپیش رہے  گا، وجہ بہت سیدھی سادھی ہے  کہ اردو میں اصطلاحات متعین نہیں ہیں، اس مسئلہ کا ایک حل تو یہ ہے  کہ انگریزی کی اصطلاحات ہی استعمال کر لی جائیں، خود ڈاکٹر عبد السلام اس کے  حق میں تھے ، مثلاً ان کا خیال تھا کہ RELATIVITY کا ترجمہ اضافیت نہ کیا جائے ، بلکہ فارسی اور عربی کی طرح ‘ریلے  تی وی تی’ کی اصطلاح استعمال کر لی جائے ، ایسا کرنے  سے  سائنس کا طالب علم ایک ہی اصطلاح کے  لیے  کئی بہروپ تلاش کرنے  کی اذیت سے  بچ جائے  گا مگر اس کے  ساتھ ہی ان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ اصطلاح کو قابلِ قبول ہونا چاہیے ، ‘خود ان کی کتاب ارمان اور حقیقت’ کا ترجمہ کرتے  وقت میں نے  ‘اضافیت’ کی اصطلاح استعمال کی، جس پر انہوں نے  اصرار نہیں کیا کہ ‘ریلے  تی وی تی’ ضرور استعمال کی جائے ، کچھ اور اصطلاحات کے  بارے  میں بھی کچھ مسائل اس کتاب میں موجود ہیں، میں نے  ناظر محمود صاحب سے  بعض مقامات پر اتفاق نہیں کیا، کچھ اصطلاحات ایسی تھیں جو پہلے  سے  مروج تھیں مثلاً DIMENSIONS کے  لیے  اردو میں ابعاد کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے  یا MASS کو کمیت کہا جاتا ہے ، ان کو بدلنے  کی ضرورت نہیں تھی، مگر مشکل یہ ہے  کہ اس کے  لیے  اردو میں کوئی ایسی باقاعدہ لغت ہے  بھی نہیں جس پر سب کا اتفاق ہو، لہذا میں نے  انگریزی اصطلاح بھی ساتھ لکھ دی ہیں تاکہ سمجھنے  میں مشکل پیش نہ آئے ۔

سب سے  اہم لغت تو میرے  خیال میں اردو سائنس بورڈ کی لغت ‘فرہنگ اصطلاحات’ ہے  مگر وہ تین جلدوں میں ہے ، اسے  استعمال کرنا آسان نہیں ہے ، کاش اسے  ایک جلد میں شائع کیا جاتا، مقتدرہ قومی زبان کی قومی انگریزی اردو لغت بات کو کھول تو دیتی ہے  مگر اصطلاح کے  تعین کے  لیے  زیادہ سود مند نہیں ہے ، لے  دے  کے  مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کی لغت ‘قاموس الاصطلاحات’ ہے  جو عملی طور پر مجھے  زیادہ کار آمد محسوس ہوئی ہے ، اس کے  مؤلف پروفیسر شیخ منہاج الدین ہیں۔

میرے  خیال میں یہ مسئلہ اس وقت تک حل ہو نہیں سکتا جب تک اس سلسلے  میں بہت سا کام اردو زبان میں کر نہ لیا جائے  یا ہم اس قابل نہ ہو جائیں کہ سائنس کے  اندر کوئی بڑا کارنامہ انجام دے  سکیں، اس وقت دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی بین الاقوامی سائنس کانفرنس ہوتی ہے ، انگریزی زبان میں ہوتی ہے ، حتی کہ پیرس میں ہونے  والی کانفرنسیں بھی انگریزی ہی میں ہوتی ہیں، شاید آپ نے  وہ واقعہ سنا ہو جب بلیک ہول کی اصطلاح متعارف کروائی گئی تھی اور کسی نے  اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا تو یہ اصطلاح فحش نظر آنے  لگی تھی اور بقول پال ڈے  ویز (PAUL DAVIES) اسے  فرانس میں چند برس قبول ہی نہ کیا گیا تھا، جدید تر اصطلاحات کے  سلسلے  میں تو ہمیں بار بار انگریزی کی اصطلاحات کو قبول کرنا پڑے  گا، کیونکہ یہی بین الاقوامی زبان ہے ، جاپان، جرمنی، اور چین بھی بقول ڈاکٹر عبد السلام انہی اصطلاحات کو بنیاد بناتے  ہیں، ویسے  بھی سائنس کے  عام طالب علم کو بے  شمار اصطلاحات نہیں سکھائی جاتیں، جو مروج ہیں وہی کافی ہیں، یہ بحث میں کھلی رکھتا ہوں کیونکہ اس کے  دونوں طرف کچھ نہ کچھ کہا جا سکتا ہے ، حق میں بھی، خلاف بھی۔

اس کتاب کے  بارے  میں کوئی بات کوئی مشورہ!

 

شہزاد احمد

 

1- Stephen Hawking, Black Holes and Universe and Other Essays, Bantam Press U.K. 1994۔

2- Stephen hawking (edited by) A Readers Companion, Bantam Press U.K. 1992.

3- John Boslough, Stephen Hawking’s Universe, Avon Book, New York 1989.

4- Kitty Ferguson Stephen Hawking Quest for a Theory of Every Things – Bantam Books, New York 1992.

5- Michael White – John Gribbin Steven Hawking Aliff In Science, Penguin Books, New Delhi 1992.

 

 

تعارف

 

ہم دنیا کے  بارے  میں کچھ سمجھے  بغیر اپنی روز مرہ زندگی گزارتے  ہیں، ہم اس سلسلے  میں بھی کم ہی سوچتے  ہیں کہ وہ مشین کیسی ہے  جو ایسی دھوپ پیدا کرتی ہے  جو زندگی کو ممکن بناتی ہے  یا وہ تجاذب (Gravity) جو ہمیں زمین سے  چپکائے  رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم خلاؤں میں آوارہ گھوم رہے  ہوتے ، نہ ہی ہم ان ایٹموں (Atoms) پر غور کرتے  ہیں جن سے  ہم بنے  ہیں اور جن کی استقامت پر ہمارا دارومدار ہے ، بچوں کی طرح (جو یہ بھی نہیں جانتے  کہ اہم سوال نہیں اٹھائے  جاتے ) ہم میں سے  کچھ لوگ ایسے  ہیں جو اس بات پر مدتوں غور کرتے  رہتے  ہیں کہ فطرت ایسی کیوں ہے  جیسی کہ وہ ہے ، یہ کاسموس (Cosmos) کہاں سے  آگیا ہے ، کیا یہ ہمیشہ سے  یہیں تھا، کیا وقت کبھی واپسی کا سفر اختیار کرے  گا، اور علت (Cause) معلول (Effect) سے  پہلے  ظاہر ہونا شروع ہو جائے  گی، کیا اس کی کوئی حتمی حدود بھی ہیں کہ انسان کیا جان سکتا ہے ، میں ایسے  چند بچوں سے  بھی مل چکا ہوں جو جاننا چاہتے  ہیں کہ بلیک ہول (Black Hole) کیسا نظر آتا ہے ، مادے  کا سب سے  چھوٹا جزو کیا ہے ، ہمیں ماضی کیوں یاد رہتا ہے  مستقبل کیوں نہیں، اگر پہلے  انتشار (Chaos) تھا اور اب بظاہر ایک ترتیب موجود ہے  اور یہ کائنات آخر ہے  کیوں؟

ہمارے  معاشرے  میں اب بھی یہ رواج ہے  کہ والدین اور اساتذہ ایسے  سوالات پر کاندھے  ا چک دیتے  ہیں، یا ان کے  ذہن کسی مذہبی تصور کی مبہم یادداشت سے  رجوع کرتے  ہیں، کچھ لوگ ان معاملات میں بے  چینی محسوس کرتے  ہیں، کیونکہ اس طرح انسانی فہم کی حدود بہت واضح ہو جاتی ہیں۔

مگر فلسفہ اور سائنس زیادہ تر ایسے  ہی سوالات کی بنا پر آگے  بڑھے  ہیں، بالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی قسم کے  سوالات پوچھنا چاہتی ہے  اور کبھی کبھی ان کو بہت حیرت انگیز جواب ملتے  ہیں، ایٹموں اور ستاروں سے  مساوی فاصلے  پر ہم اپنے  تشریحی افق وسیع کر رہے  ہیں تاکہ وہ چھوٹی سے  چھوٹی اور بڑی سے  بڑی چیز کا احاطہ کر لیں۔

١٩٧۴ء کے  موسمِ بہار میں وائی کنگ خلائی جہاز کے  مریخ پر اترنے  سے  دو سال پہلے  میں انگلستان میں ایک ایسی میٹنگ میں شریک تھا جس کا اہتمام رائل سوسائٹی آف لندن نے  کیا تھا، جو کرہ ارض سے  باہر کی زندگی (Extraterrestrial Life) کی تحقیق کے  سلسلے  میں سوالات تشکیل دینا چاہتی تھی، کافی پینے  کے  وقفے  کے  دوران میں نے  دیکھا کہ ساتھ والے  ایک ہال میں بہت بڑا جلسہ ہو رہا ہے ، میں ہال میں داخل ہو گیا، جلد ہی مجھے  یہ اندازہ ہو گیا کہ میں ایک قدیم رسم ادا ہوتی ہوئی دیکھ رہا ہوں، وہاں رائل سوسائٹی میں نئے  ارکان کی شمولیت کی تقریب ہو رہی تھی، جو اس سیارے  کی قدیم ترین تنظیموں میں سے  ایک ہے ، پہلی قطار میں ایک نوجوان وہیل چیئر میں بیٹھا ہوا بہت آہستہ آہستہ اس کتاب پر دستخط کر رہا تھا جس کے  بالکل ابتدائی صفحات پر آئزک نیوٹن  کے  دستخط بھی ثبت تھے ، جب آخر کار وہ فارغ ہوا تو بہت پر جوش تالیاں بجیں، سٹیون ہاکنگ اس وقت بھی ایک اساطیری کردار تھا۔

ہاکنگ اب کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کا لوکاسین (Lucasian) پروفیسر ہے ، یہ وہ عہدہ ہے  جو پہلے  نیوٹن اور ڈیراک (Dirac) کے  پاس رہ چکا ہے ، یہ دونوں بہت بڑی اور بہت چھوٹی چیزوں کے  نامور دریافت کنندگان تھے ، ہاکنگ ان کا صحیح جانشین ہے ، ہاکنگ کی یہ اولین کتاب ان کے  لیے  لکھی گئی ہے  جو تخصیص کار (Specialist) نہیں ہیں، اس میں عام قاری کے  لیے  بہت سی معلومات موجود ہیں، جتنے  دلچسپ اس کتاب کے  متنوع موضوعات ہیں ان سے  یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے  کہ مصنف کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے ، اس کتاب میں طبیعات، فلکیات، اور کونیات (Cosmology) کے  ساتھ ساتھ ان کی واضح حدود پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

یہ کتاب خدا کے  بارے  میں بھی ہے … یا شاید خدا کے  نہ ہونے  کے  بارے  میں ہے ، اس کتاب کے  صفحات لفظ خدا سے  معمور ہیں، ہاکنگ کی جستجو کا مقصد آئن سٹائن کے  اس مشہور سوال کا جواب تلاش کرنا ہے  کہ آیا کائنات کی تخلیق میں خدا کے  پاس انتخاب کا اختیار واقعی تھا جیسا کہ ہاکنگ نے  کھلے  لفظوں میں کہا ہے ، وہ خدا کے  ذہن کو سمجھنے  کی کوشش کر رہا تھا، اور اسی سے  اس کوشش کا بہت غیر متوقع نتیجہ نکلتا ہے ، کم از کم اب تک تو یہی کہا جا سکتا ہے  کہ اس کائنات میں مکان (Space) کا کوئی کنارہ نہیں ہے  اور نہ ہی وقت یا زمان کا کوئی آغاز یا انجام ہے  اور نہ ہی خالق کے  کرنے  کے  لیے  کچھ ہے ۔

کارل سیگان

CARL SAGAN

ایتھاکا، نیویارک

 

اظہارِ تشکر

 

زمان و مکان کے  بارے  میں ایک عام فہم کتاب لکھنے  کی کوشش کرنے  کا فیصلہ میں نے  1982ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں لوب (LOEB) لیکچرز دینے  کے  بعد کیا، اس وقت بھی پہلے  ہی سے  ابتدائی کائنات اور بلیک ہول کے  بارے  میں کتابوں کی کافی تعداد موجود تھی، جن میں سٹیون وائن برگ (STEVEN WEINBERG) کی کتاب ‘’اولین تین منٹ’‘‎ (THE FIRST THREE MINUTES) جیسی بہت اچھی کتابوں سے  لے  کر بہت بڑی کتابیں بھی شامل تھیں، جن کی نشاندہی میں نہیں کروں گا، تاہم میں نے  محسوس کیا کہ ان میں سے  حقیقتاً کوئی بھی کتاب ایسی نہیں جو ان سوالوں سے  متعلق ہو جو مجھے  کونیات (COSMOLOGY) اور کوانٹم نظریے  (QUANTUM THEORY) کی تحقیق کی طرف لے  گئے  تھے ، کائنات کہاں سے  آئی؟ اس کا آغاز کیوں اور کیسے  ہوا؟ کیا وہ اپنے  اختتام کو پہنچے  گی؟ اور اگر یہ ہو گا تو کیسے  ہو گا؟ یہ ایسے  سوال ہیں جو ہم سب کے  لیے  دلچسپی کا باعث ہیں، لیکن جدید سائنس اس قدر تکنیکی ہو کر رہ گئی ہے  کہ بہت کم ماہرین ہی ان کی تشریح کے  لیے  استعمال ہونے  والی ریاضی پر عبور حاصل کر سکتے  ہیں، پھر بھی کائنات کے  نقطۂ آغاز (Origin) اور مقدر کے  بارے  میں بنیادی خیالات کو ریاضی کے  بغیر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے  کہ سائنسی تعلیم سے  محروم لوگ بھی انہیں سمجھ سکیں، یہ فیصلہ تو اب قارئین ہی کو کرنا ہے  کہ میں اس میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں۔

کسی نے  مجھے  بتایا تھا کہ کتاب میں شامل ہونے  والی ریاضی کی ہر مساوات (Equation) کتاب کی فروخت کو آدھا کر دے  گی، میں نے  اس لیے  کوئی بھی مساوات شامل نہ کرنے  کا عہد کیا تھا، تاہم آخر کار مجھے  آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات

E = mc²

شامل کرنی پڑی، مجھے  امید ہے  کہ اس کی وجہ سے  میرے  ممکنہ نصف قارئین خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔

اس بدقسمتی کے  باوجود کہ میں اے  ایل ایس (ALS) یا موٹر نیوٹرون مرض (MOTOR NEUTRON DISEASE)‎ کا شکار ہوں، میں تقریباً ہر معاملے  میں خوش قسمت رہا ہوں، مجھے  جو مدد اور سہارا میری بیوی جین اور میری بچوں رابرٹ، لوسی، اور ٹمی نے  دیا اسی سے  میرے  لیے  یہ ممکن ہوا کہ میں خاصی نارمل زندگی گزار سکوں اور کامیابی سے  اپنا کام کاج کر سکوں، میں اس لحاظ سے  بھی خوش قسمت رہا کہ میں نے  اپنے  لیے  نظریاتی طبیعیات (Theoretical Physics) کا انتخاب کیا، کیونکہ یہ ساری کی ساری ذہن کے  اندر ہی ہوتی ہے ، اس لیے  میری معذوری کوئی سنگین محتاجی نہیں بنی، میرے  سائنسی رفقا بلا استثنا بڑے  مددگار رہے ۔

میرے  پیشہ ورانہ زندگی کے  ابتدائی کلاسیکی مرحلے  میں، شریک کار اور معاون راجر پنروز (ROGER PENROSE) رابرٹ گیروچ (ROBERT GEROCH) برانڈن کارٹر (BRANDON CARTER) اور جارج ایلیس (GEORGE ELLIS) رہے ۔

انہوں نے  میری جو مدد کی میں اس کے  لیے  ان کا ممنون ہوں اور اس کام کے  لیے  بھی جو ہم نے  مل جل کر کیا، اس دور کا اختتام ‘’بڑے پیمانے  پر مکان و زمان کی ساخت’‘ (The Large Scale Structure of Space  ٭٭ی پرچ سن لو دمنرتا ہے نل دمن time)‎ سے  ہوا، یہ کتاب میں نے  ایلیس کے  اشتراک سے  1973ء میں لکھی تھی، میں موجودہ کتاب کے  قارئین کو یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ مزید معلومات کے  لیے  اسی کتاب سے  رجوع کریں، یہ بے  حد تکنیکی اور خاصی ناقابلِ مطالعہ ہے ، میرا خیال ہے  کہ میں اس کے  بعد اس انداز میں لکھنا سیکھ گیا تھا جو سمجھنے  میں آسان ہو۔

میرے  کام کے  دوسرے  مقداری (Quantum) مرحلے  میں 1974ء سے  رفقا گیری گبن (Gary Gibbons) ڈان پیج (Don Page) اور جم ہارٹل (Jim Hartle) تھے ، میں ان کا اور اپنے  تحقیقی طلباء کا بہت احسان مند ہوں جنہوں نے  نظریاتی اور طبیعی دونوں لحاظ سے  میری مدد کی، اپنے  طلبا کے  ساتھ چلنا میرے  لیے  تحریک کا باعث رہا اور میرے  خیال میں اسی نے  مجھے  لکیر کا فقیر ہونے  سے  بچائے  رکھا، اس کتاب کے  سلسلے  میں مجھے  اپنے  شاگرد برائین وھٹ (Brian Whitt) سے  بہت مدد ملی، پہلا مسودہ لکھنے  کے  بعد مجھے  نمونیا ہو گیا جس کی وجہ سے  مجھے  نرخرے  کا آپریشن کروانا پڑا، جس کی وجہ سے  میری گویائی سلب ہو گئی اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانا میرے  لیے  تقریباً نا ممکن ہو گیا، میں سمجھا کہ میں اب اس کتاب کو مکمل نہیں کر سکوں گا، تاہم برائن نے  نہ صرف اس کی نظرِ ثانی میں میری مدد کی بلکہ مجھے  بات چیت کے  لیے  (Living Centre) نامی پروگرام بھی استعمال کرنا سکھایا جو سنی ویل کیلیفورنیا میں ورلڈ پاس انکارپوریٹ کے  والٹ والٹوز (WALT WOLTOSZ OF WORDS INC – SUNNYVALE CALIFORNIA) نے  عطیے  کے  طور پر دیا تھا، اس کی مدد سے  میں دونوں کام کر سکتا ہوں، کتابیں اور مقالات لکھ سکتا ہوں اور ایک تقریری سنتھ سائیزر (SPEECH SYTHESIZER)‎ استعمال کر کے  بات بھی کر سکتا ہوں، یہ آلہ بھی  مجھے  سنی ویل کیلیفورنیا کے  ادارے  سپیچ پلس (Speech Plus) نے  تحفے  کے  طور پر دیا ہے ، یہ آلہ اور ایک چھوٹا سا ذاتی کمپیوٹر ڈیوڈ میسن (David Mason) نے  میری وھیل چیئر میں نصب کر دیا ہے ، اس نظام نے  سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ، اب میں واقعی اس زمانے  سے  بھی بہتر طور پر اظہارِ خیال کر سکتا ہوں جب میری گویائی سلب نہیں ہوئی تھی۔

اس کتاب کو بہتر بنانے  کے  سلسلے  میں مجھے  بہت سے  ایسے  لوگوں نے  مشورے  دیے  ہیں جنہوں نے  اس کے  ابتدائی مسودے  دیکھے  تھے ، خاص طور پر بنٹم بُکس (Bantam Books) میں میرے  مدیر پیٹر گزارڈی (Peter Guzzardi) نے  مجھے  سوالات اور استفسارات کے  پلندے  بھیجے ، یہ ان کے  خیال میں وہ نکات تھے  جو وضاحت طلب تھے ، مجھے  یہ تسلیم کرنا ہی پڑے  گا کہ جب مجھے  ان کی مجوزہ تبدیلیوں کی طویل فہرست ملی تو میں چڑ گیا تھا مگر اس کی بات درست تھی، مجھے  یقین ہے  کہ اس کی باریک بینی سے  یہ کتاب بہتر ہو گئی ہے ۔

میں اپنے  معاونین کولن ولیمز (Colin Williams) ڈیوڈ تھامس (David Thomas) اور ڈیوڈ لافلیم (David Laflamme) اپنی سیکریٹریز جوڈی فیلا (Judy Fella) این رالف (Ann Ralph) شیریل بلنگٹن (Cheryl Billington) سومیسی (Sue Masey) اور اپنی نرسوں کا بہت ممنون ہوں، اگر میرے  تحقیقی اور طبی اخراجات گونول اینڈ کیس کالج (Gonville and Cius College) ‎سائنس اینڈ انجنیئرنگ کونسل اور لیور ہیوم (Leverhulme) میکارتھر (Mcarthur) نفیلڈ (Nuffield) اور رالف سمتھ (Ralph Smith) فاؤنڈیشنز فراہم نہ کرتیں تو میرے  لیے  یہ سبھی کچھ نا ممکن ہوتا، میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔

 

سٹیون ہاکنگ

20 اکتوبر 1987ء

 

پہلا باب: کائنات کی تصویر

 

ایک مرتبہ کوئی معروف سائنس دان علمِ فلکیات پر عوامی لیکچر دے  رہا تھا (کچھ لوگ کہتے  ہیں کہ وہ برٹرینڈ رسل تھا) اس نے  بیان کیا کہ کس طرح زمین سورج کے  گرد گھومتی ہے  اور کس طرح سورج ستاروں کے  ایک وسیع مجموعے  یعنی کہکشاں (GALAXY) کے  گرد گردش کرتا ہے ، لیکچر کے  اختتام پر ایک چھوٹی سی بوڑھی عورت جو ہال کے  پیچھے  کہیں بیٹھی ہوئی تھی کھڑی ہوئی اور بولی ‘’جو کچھ تم نے  بیان کیا ہے  بکواس ہے ، دنیا اصل میں ایک چپٹی طشتری ہے  جو ایک بہت بڑے  کچھوے  کی پشت پر دھری ہے ‘‘ سائنس دان جواب دینے  سے  پہلے  فتح کے  احساس کے  ساتھ مسکرایا ‘’یہ کچھوا کس چیز پر کھڑا ہے؟’‘ بوڑھی عورت بولی ‘’تم بہت چالاک بنتے  ہو نوجوان بہت چالاک، لیکن یہ سارے  کچھوے  ہی تو ہیں جو نیچے  تک گئے  ہوئے  ہیں’‘۔

 

بہت سے  لوگ ہماری تصویرِ کائنات کو کچھووں کا لا محدود مینار تصور کرنے  کو مضحکہ خیر سمجھیں گے  لیکن ہم کس بنیاد پر یہ کہہ سکتے  ہیں کہ ہمارا علم اس سے  بہتر ہے؟ ہم کائنات کے  بارے  میں کیا جانتے  ہیں؟ اور ہم نے  یہ کہاں سے  جانا ہے؟ کائنات کہاں سے  آئی ہے  اور کہاں جا رہی ہے؟ کیا کائنات کی کوئی ابتداء تھی، اور اگر تھی تو اس سے  پہلے  کیا تھا؟ وقت کی ماہیت کیا ہے؟ اور کیا یہ کبھی اپنے  اختتام کو پہنچے  گا؟ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے  ممکن ہونے  والی علمِ طبیعیات کی کامیابیوں نے  ان قدیم سوالات کے  کچھ جوابات تجویز کیے  ہیں، ایک دن ہمیں یہ جوابات ایسی ہی عام چیز معلوم ہوں گے  جیسے  سورج کے  گرد زمین کا گھومنا یا شاید ایسے  ہی مضحکہ خیز جیسے  کچھووں سے  بنا ہوا مینار، صرف وقت (جو کچھ بھی وہ ہے ) ہی اس کا جواب دے  گا۔

 

٣۴٠ قبلِ مسیح میں یونانی فلسفی ارسطو (Aristotle) نے  اپنی کتاب افلاک پر (On The Heavens) میں زمین کے  چپٹے  ہونے  کی بجائے  گول ہونے  پر یقین کرنے  کے  لیے  اور اچھے  دلائل دیے  تھے ، اول تو اس نے  یہ اندازہ لگایا کہ سورج اور چاند کے  درمیان زمین کے  آ جانے  سے  چاند گرہن ہوتا ہے  اور چاند پر پڑنے  والا زمین کا سایہ ہمیشہ گول ہوتا ہے  جو زمین کے  گول ہونے  ہی کی صورت میں ممکن ہے ، اگر زمین چپٹی طشتری ہوتی تو اس کا سایہ پھیل کر بیضوی ہو جاتا جب تک کہ گرہن کے  وقت سورج طشتری کے  عین مرکز کے  نیچے  واقع نہ ہو اور دوم یہ کہ یونانیوں کو اپنی سیاحتوں کی وجہ سے  یہ بات معلوم تھی کہ شمالی ستارہ شمالی علاقوں کی نسبت جنوب سے  دیکھنے  میں آسمان پر ذرا نیچے  نظر آتا ہے  مگر جب اسے  خطِ استوا سے  دیکھا جائے  تو یہ بالکل افق پر معلوم ہوتا ہے ، مصر اور یونان سے  شمالی ستارے  کے  مقام میں فرق کو دیکھتے  ہوئے  ارسطو نے  زمین کے  گرد کے  فاصلہ کا اندازہ چار لاکھ اسٹیڈیا (Stadia) لگایا، ایک سٹیڈیم کی لمبائی بالکل ٹھیک تو معلوم نہیں البتہ اندازہ ہے  کہ یہ کوئی دو سو گز ہو گی، اس کا مطلب یہ ہے  کہ ارسطو کا اندازہ موجودہ تسلیم شدہ اندازے  سے  دو گنا تھا، یونانیوں کے  پاس ایک تیسری دلیل بھی تھی جس کی وجہ سے  وہ زمین کو گول مانتے  تھے  اور وہ یہ تھی کہ افق سے  آنے  والے  جہاز کے  بادبان پہلے  نظر آتے  ہیں اور جہاز کا ڈھانچہ بعد میں دکھائی دیتا ہے ۔

 

ارسطو سمجھتا تھا کہ زمین ساکت ہے  اور سورج، چاند، ستارے  اور سیارے  زمین کے  گرد گول مدار میں گھوم رہے  ہیں، اس کا یہ اعتقاد اس لیے  تھا کہ وہ باطنی طور پر یہ محسوس کرتا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے  اور دائرے  میں حرکت مکمل ترین اور بہترین ہے ، اس خیال کی تفصیل بطلیموس (Ptolemy) نے  دوسری صدی عیسوی میں بیان کی تھی اور اسے  ایک ممکن کونیاتی ماڈل (Cosmological Model) بنا دیا تھا، زمین مرکز میں تھی، اس کے  گرد آٹھ کرے  چاند، سورج، ستارے  اور اس وقت تک معلوم پانچ سیارے  یعنی عطارد (Mercury) زہرہ (Venus) مریخ (Mars) مشتری (Jupiter) اور زحل (Saturn) تھے ، (دیکھیے  شکل 1.1) سیارے  اپنے  اپنے  کروں کے  ساتھ نسبتاً چھوٹے  دائروں میں حرکت کرتے  تھے  تاکہ ان کے  خاصے  پیچیدہ آسمانی راستوں کا اندازہ لگایا جا سکے ، سب سے  زیادہ بیرونی کرے  میں وہ ستارے  تھے  جو جامد ستاروں کے  نام سے  موسوم تھے ، جو ایک دوسرے  کی نسبت سے  اپنے  اپنے  مقررہ مقام رکھتے  تھے  مگر آسمان پر ایک ساتھ گھومتے  تھے ، اس آخری کرے  کے  ماورا کیا تھا؟ یہ کبھی واضح نہیں کیا گیا تھا، وہ یقینی طور پر انسان کی قابلِ مشاہدہ کائنات کا حصہ نہیں تھا۔

 

 

FIGURE 1.1

 

بطلیموس ماڈل نے  اجرامِ فلکی کے  مقامات کی صحیح پیش گوئی کرنے  کے  لیے  معقول حد تک درست نظام فراہم کیا لیکن ان مقامات کی ٹھیک پیشین گوئی کرنے  کے  لیے  بطلیموس کو یہ فرض کرنا پڑا کہ چاند ایک ایسے  راستے  پر چلتا ہے  جو اسے  عام حالات کے  مقابلے  میں بعض اوقات زمین سے  دو گنا قریب کر دیتا ہے ، اس کا مطلب تھا کہ ان دنوں میں چاند کو دو گنا نظر آنا چاہیے ، بطلیموس کو اس خامی کا علم تھا مگر اسی کا ماڈل ہمہ گیر طور پر نہ سہی البتہ عام طور پر قبول کر لیا گیا تھا، اسے  عیسائی کلیسا نے  بھی صحیفوں سے  مطابقت رکھنے  والی کائنات کی تصویر کے  طور پر قبول کر لیا کیونکہ اس ماڈل نے  جامد ستاروں کے  کرے  سے  ماورا جنت اور دوزخ کے  لے  خاصی گنجائش چھوڑ دی تھی۔

 

بہرحال ١۵١۴ء میں پولینڈ کے  ایک پادری نکولس کوپرنیکس (Nicholas Copernicus) نے  ایک سادہ تر ماڈل پیش کیا (شروع میں شاید کلیسا کی طرف سے  بدعتی قرار دیے  جانے  کے  ڈر سے  جب یہ ماڈل پیش کیا گیا تو اس پر کوئی نام نہیں تھا) اس کا خیال تھا کہ سورج مرکز میں ساکت ہے  اور زمین اور سیارے  اس کے  گرد گول مداروں میں گردش کر رہے  ہیں، تقریباً ایک صدی کے  بعد اس خیال کو سنجیدگی سے  لیا گیا جب دو فلکیات دانوں یعنی جرمنی کے  رہنے  والے  یوہانس کیپلر (Johannes Kepler) اور اطالوی گلیلیو گیلی (Galileo Galilei) نے  کھلے  عام کوپرنیکس کے  نظریے  کی حمایت شروع کر دی، اس کے  باوجود کہ پیش گوئی کیے  جانے  والے  مدار (ORBITS) ان مداروں سے  مطابقت نہیں رکھتے  تھے  جن کا اس وقت مشاہدہ کیا جانا ممکن تھا، ١٦٠٩ء میں ارسطو اور بطلیموس کے  نظریے  کو کاری ضرب لگی، گلیلیو نے  اس برس دور بین کی مدد سے  رات کے  وقت آسمان کا مشاہدہ شروع کیا، دور بین اس وقت نئی نئی ایجاد ہوئی تھی، اسے  مشتری سیارے  کے  مشاہدے  سے  پتہ چلا کہ یہ سیارہ چھوٹے  چھوٹے  حواریوں (Satellites) اور چاندوں میں گھرا ہوا ہے  جو اس کے  گرد گردش کر رہے  ہیں، اس کے  مخفی معانی یہ تھے  کہ ہر چیز کو براہ راست زمین کے  گرد گھومنے  کی ضرورت نہیں جیسا کہ ارسطو اور بطلیموس سمجھتے  تھے  (بلا شبہ اس وقت یہ سمجھنا ممکن تھا کہ کائنات کے  مرکز میں زمین ساکت ہے  اور مشتری کے  چاند بہت پیچیدہ راستوں پر دراصل زمین کے  گرد گھوم رہے  ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے  جیسے  وہ مشتری کے  گرد چکر لگا رہے  ہوں، بہر صورت کوپرنیکس کا نظریہ پھر بھی کافی سادہ ہی تھا) اس دور میں یوہانس کیپلر نے  کوپرنیکس کے  نظریے  کو بہتر بنا دیا تھا اور کہا تھا کہ سیارے  دائروں میں نہیں بلکہ بیضوی (Ellipses) راستوں پر حرکت کرتے  ہیں (بیضوی راستہ لمبائی کی طرف کھنچے  ہوئے  دائرے  کی طرح ہوتا ہے ) چنانچہ یہ ممکن ہوا کہ پیش گوئیاں مشاہدات کے  مطابق ہونے  لگیں۔

 

جہاں تک کیپلر کا تعلق ہے  بیضوی مداروں کا مفروضہ محض عارضی تھا اور تھوڑا ناگوار بھی کیونکہ بیضوی راستے  دائروں کی نسبت نا مکمل تھے ، تقریباً حادثاتی طور پر یہ معلوم کرنے  کے  بعد کہ بیضوی مدار مشاہدات کے  مطابق ہیں وہ اس بات کو اپنے  اس نظریے  سے  ہم آہنگ نہ کر سکا کہ سیارے  مقناطیسی قوت کے  ذریعے  سورج کے  گرد گردش کر رہے  ہیں، اس کی تشریح بہت عرصے  کے  بعد 1687ء میں سر آئزک نیوٹن نے  اپنی کتاب A NATURALIS PRINCEPIA MATHEMATICA PHILOSOPHIE ‎ میں کی، جو شاید طبیعاتی علوم پر شائع ہونے  والی سب سے  اہم تصنیف ہے ، اس میں نیوٹن نے  نہ صرف زمان و مکاں میں اجسام کی حرکت کا نظریہ پیش کیا بلکہ ان حرکات کا تجزیہ کرنے  کے  لیے  پیچیدہ ریاضی بھی تشکیل دی، اس کے  علاوہ نیوٹن نے  ہمہ گیر تجاذب (UNIVERSAL GRAVITATION) کا ایک قانون بھی تشکیل دیا جس کی رو سے  کائنات میں موجود تمام اجسام ایک دوسرے  کی طرف کھنچ رہے  ہیں، اس کشش کا انحصار ان اجسام کی کمیت اور قربت پر ہے ، یہی وہ قوت ہے  جو چیزوں کو زمین پر گراتی ہے  یہ کہانی کہ نیوٹن کے  سر پر سیب گرنے  سے  وہ متاثر ہوا تھا یقینی طور پر من گھڑت ہے ، نیوٹن نے  صرف اتنا کہا تھا کہ وہ استغراق کے  عالم میں تھا کہ سیب کے  گرنے  سے  اسے  تجاذب یا کششِ ثقل کا خیال آیا تھا، نیوٹن نے  یہ بھی واضح کیا تھا کہ اس قانون کے  مطابق یہ تجاذب ہی ہے  جو چاند کو زمین کے  گرد بیضوی مدار میں گردش کرنے  پر مجبور کرتا ہے  اور زمین اور سیاروں کو سورج کے  گرد بیضوی راستوں پر چلاتا ہے ۔

 

کوپرنیکس کے  ماڈل نے  بطلیموس کے  آسمانی کروں سے  اور اس خیال سے  کہ کائنات کی ایک قدرتی حد ہوتی ہے ، نجات حاصل کر لی، چونکہ جامد ستارے  زمین کی محوری گردش سے  پیدا ہونے  والی حرکت کے  سوا آسمان پر اپنا مقام تبدیل کرتے  ہوئے  محسوس نہیں ہوتے  اس لیے  فطری طور پر یہ فرض کر لیا گیا کہ جامد ستارے  بھی سورج کی طرح کے  اجسام ہیں لیکن بہت دور واقع ہیں۔

 

نیوٹن کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ تجاذب کے  نظریے  کے  مطابق چونکہ ستارے  ایک دوسرے  کے  لیے  کشش رکھتے  ہیں اس لیے  ان کا بے  حرکت رہنا ممکن نہیں ہے  تو پھر کیا وہ سب ایک ساتھ مل کر کسی نقطے  پر گر نہیں جائیں گے؟ 1691ء میں نیوٹن نے  اس دور کے  ایک اور نامور مفکر رچر بنٹلے  (Richard Bentley) کے  نام ایک خط میں یہ دلیل پیش کی کہ ایسا ہونا یقیناً ممکن ہوتا لیکن صرف اس صورت میں جب ستاروں کی ایک محدود تعداد مکاں (Space) کے  ایک محدود حصے  کے  اندر موجود ہوتی، لیکن پھر اس نے  اپنے  استدلال کو آگے  بڑھاتے  ہوئے  کہا، ستارے  تو لا محدود ہیں اور وہ لا محدود مکاں میں کم و بیش ایک ہی طرح پھیلے  ہوئے  ہیں لہذا ایسا ہونے  کا امکان نہیں ہے  کیونکہ ان کو گرنے  کے  لیے  کوئی مرکزی نقطہ میسر نہیں آ سکتا۔

 

یہ ان مشکلات کی ایک مثال ہے  جن سے  آپ کا واسطہ لا متناہیت (Infinity) کے  بارے  میں گفتگو کرتے  ہوئے  پڑے  گا، لا متناہی کائنات میں ہر نقطہ مرکزی نقطہ سمجھا جا سکتا ہے  کیونکہ اس کے  ہر طرف لا محدود ستاروں کی تعداد ہو گی، صحیح طریقہ بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ متناہی (Finite) حالت پر ہی غور کرنا چاہیے  جس میں ستارے  ایک دوسرے  پر گر رہے  ہوں اور پھر یہ معلوم کیا جائے  کہ اگر اس خطے  (Region) کے  باہر مزید ستارے  فرض کر لیے  جائیں اور ان کی تقسیم بھی ایک جیسی ہو تو کیا تبدیلی واقع ہو گی؟ نیوٹن کے  قانون کے  مطابق مزید ستاروں کی وجہ سے  اصل اوسط پر کوئی فرق نہیں پڑے  گا اور نئے  ستارے  بھی اس تیزی سے  گرتے  رہیں گے ، ہم ستاروں کی تعداد میں جتنا چاہیں اضافہ کر سکتے  ہیں، وہ بدستور اپنے  آپ پر ہی ڈھیر ہوتے  رہیں گے ، اب ہم یہ جان چکے  ہیں کہ کائنات کا کوئی لا متناہی ساکن ماڈل ایسا نہیں ہو سکتا جس میں تجاذب ہمیشہ پرکشش ہو۔

 

بیسویں صدی سے  پہلے  کی عمومی سوچ میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی نے  بھی کائنات کے  پھیلنے  یا سکڑنے  کے  بارے  میں کسی خیال کا اظہار نہیں کیا تھا، اس پر عام طور پر اتفاق تھا کہ یا تو کائنات ہمیشہ سے  ایسی ہی چلی آ رہی ہے  یا پھر ماضی میں خاص مقرر وقت میں اسے  کم و بیش اسی طرح تخلیق کیا گیا ہے ، جیسا کہ ہم اسے  دیکھ رہے  ہیں، جزوی طور پر اس کی وجہ لوگوں کے  اندر پایا جانے  والا لافانی صداقت (Eternal Truth) پر ایمان لانے  کا رجحان ہو سکتا ہے  اور پھر اس یقین میں سہولت بھی تھی کہ انسان تو بوڑھے  ہو سکتے  ہیں لیکن کائنات لافانی اور غیر متغیر ہے ۔

 

وہ لوگ بھی جن کو پوری طرح یہ اندازہ تھا کہ نیوٹن کا نظریہ تجاذب یہ بتاتا ہے  کہ کائنات کا ساکن ہونا ممکن نہیں، وہ بھی یہ سوچنے  سے  قاصر رہے  کہ کائنات پھیل بھی سکتی ہے ، اس کی بجائے  انہوں نے  اس نظریے  میں یہ تبدیلی کرنے  کی کوشش کی کہ تجذیبی قوت کو طویل فاصلوں میں گریز (repulse) کی قوت بنا دیا جائے ، اس بات نے  سیاروں کی حرکت کے  بارے  میں ان کی پیش گوئیوں پر تو کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں ڈالا مگر اس سے  اتنا تو ہوا کہ ستاروں کی لا متناہی تقسیم توازن میں رہی، اس میں قریبی ستاروں کی کشش دور دراز ستاروں کی قوت گریز سے  متوازن رہی، بہر صورت اب ہمیں یہ یقین ہے  کہ ایسا توازن غیر مستحکم ہو گا، کیونکہ اگر کہیں ستارے  ایک دوسرے  سے  زیادہ قریب ہو گئے  تو ان کی تجذیبی قوت گریز کی قوت سے  بڑھ جائے  گی اور اس طرح ستارے  ایک دوسرے  کے  اوپر گرنے  لگیں گے  اور اس کے  برعکس اگر وہ ایک دوسرے  سے  نسبتاً دور ہو گئے  تو ان کی قوت گریز قوت تجاذب سے  بڑھ جائے  گی جو انہیں ایک دوسرے  سے  مزید دور پھینک دے  گی۔

 

لامتناہی اور ساکن کائنات کے  نظریے  پر ایک اور اعتراض عام طور پر جرمن فلسفی ہائن رخ اولبر (Heinrich Olber) سے  منسوب کیا جاتا ہے  لیکن اس نظریے  کے  بارے  میں ١٨٢٣ء میں درحقیقت نیوٹن کے  کئی ہمعصر بھی اس مسئلے  کو اٹھا چکے  تھے ، اولبر کا مضمون اس کے  خلاف دلائل فراہم کرنے  والا پہلا مضمون بھی نہیں تھا مگر اس نے  پہلی بار وسیع توجہ ضرور حاصل کی تھی، مشکل یہ ہے  کہ لامتناہی اور ساکن کائنات میں نظر کی تقریباً ہر لکیر ایک ستارے  کی سطح پر ختم ہو گی اور اس سے  یہ توقع پیدا ہو گی کہ رات کے  وقت بھی سارا آسمان سورج کی طرح روشن ہو گا، اولبر کی جوابی دلیل یہ تھی کہ دور دراز ستاروں کی روشنی حائل مادوں کے  انجذاب (Absorption) کی وجہ سے  مدھم ہو جائے  گی، بہر حال اگر ایسا ہو تو حائل مادہ گرم ہو کر جلنے  لگے  گا حتی کہ وہ ستاروں کی طرح روشن ہو جائے  گا، اس نتیجے  سے  بچ نکلنے  کا صرف ایک ہی راستہ ہے  کہ رات کا پورا آسمان سورج کی طرح ہمیشہ روشن نہ ہو بلکہ ماضی میں کسی خاص وقت میں ایسا ہوا ہو، اس صورت میں انجذاب شدہ مادہ اب تک گرم نہیں ہوا ہو گا یا دور دراز ستاروں کی روشنی ہم تک ابھی نہیں پہنچی ہو گی، اسی سے  یہ سوال پیدا ہوتا ہے  کہ وہ کون سی شئے  ہے  جس نے  سب سے  پہلے  ستاروں کو روشن کیا ہو گا۔

 

بلا شبہ کائنات کی ابتدا بہت پہلے  ہی سے  بحث کا موضوع رہی ہے ، بہت سے  ابتدائی ماہرین کونیات اور یہودی، عیسائی، مسلمان روایت کے  طور پر یہ سمجھتے  ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک مخصوص وقت پر ہوا، اور اسے  زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، اس ابتدا کے  لیے  ایک دلیل یہ خیال تھا کہ کائنات کے  وجود کی تشریح کے  لیے  پہلی علت (First Cause) کا ہونا ضروری ہے  (کائنات میں ہمیشہ کسی بھی واقعے  کی تشریح اس سے  قبل واقع ہونے  والے  کسی اور واقعے  سے  وابستہ کی جاتی ہے ، لیکن اس طرح وجود کی تشریح صرف اسی وقت ممکن ہے  جب اس کی واقعی کوئی ابتدا ہو) ایک اور دلیل سینٹ آ گسٹن ((ST. AUGUSTINE ‎ نے  اپنی کتاب شہرِ ربانی ( The city of God) ‎ میں پیش کی تھی، اس نے  کہا تھا کہ تہذیب (Civilization) ترقی کر رہی ہے  اور ہم یہ جانتے  ہیں کہ کون سا عمل کس نے  آغاز کیا یا اسے  ترقی دی، یا کون سی تکنیک کس نے  بہتر بنائی چنانچہ انسان اور شاید کائنات بھی زیادہ طویل مدت کے  نہیں ہو سکتے ، سینٹ آگسٹن نے  بائبل کی کتابِ پیدائش (Book of Genesis) کے  مطابق کائنات کی تخلیق کی تاریخ پانچ ہزار قبلِ مسیح تسلیم کی (دلچسپ بات یہ ہے  کہ یہ تاریخ بھی دس ہزار قبلِ مسیح کے  آخری برفانی دور کے  اختتام سے  زیادہ دور کی تاریخ نہیں ہے  جب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے  مطابق تہذیب کی اصل ابتدا ہوئی تھی)۔

ارسطو اور بہت سے  دوسرے  یونانی فلسفی اس کے  برعکس نظریہ تخلیق کو پسند نہیں کرتے  تھے ، کیونکہ اس میں الوہی مداخلت کی آمیزش کچھ زیادہ ہی تھی، اس لیے  ان کا عقیدہ تھا کہ نوعِ انسانی اور ان کے  اطراف کی دنیا ہمیشہ سے  ہے  اور ہمیشہ رہے  گی، قدما پہلے  ہی سے  ترقی کی اس دلیل پر غور و خوض کر چکے  تھے  اور اس کا جواب انہوں نے  یوں دیا تھا کہ وقتاً فوقتاً آنے  والے  سیلاب اور دوسری آفات نوعِ انسانی کو بار بار تہذیب کے  نقطہ آغاز پر پہنچا دیتے  تھے ۔

 

یہ سوال کہ کیا کائنات کا آغاز زمان (Time) کے  اندر ہوا تھا یا کیا وہ محض مکان (Space) تک محدود ہے؟، ایسا سوال تھا جس کا بہت تفصیلی مطالعہ فلسفی امینول کانٹ (Immanauel Kant) اپنی شاہکار (مگر بہت مبہم) کتاب انتقاد عقل محض (Critique Pure Reason)‎ میں کیا تھا جو ١٧٨١ء میں شائع ہوئی تھی، وہ ان سوالات کو عقلِ محض کے  تضادات (ANTINOMIES) کہا کرتا تھا کیونکہ اس کے  خیال میں یہ دعوی کہ کائنات کا آغاز ہوا تھا اور اس کا جوابِ دعوی کہ کائنات ہمیشہ سے  موجود ہے  ایک جیسے  وزنی دلائل رکھتے  تھے ، دعوی کے  لیے  اس کا استدلال یہ تھا کہ اگر کائنات کی ابتدا نہ ہوتی تو ہر واقعے  سے  قبل لامتناہی وقت ہوتا، جو اس کے  نزدیک لایعنی (Absurd) بات تھی، جوابِ دعوی کے  لیے  اس کی دلیل یہ تھی کہ اگر کائنات آغاز ہوئی ہوتی تو اس کے  قبل بھی لامتناہی وقت ہوتا، پھر کائنات کیونکر ایک خاص وقت پر شروع ہو سکتی تھی، حقیقت میں دعوی اور جوابِ دعوی کے  بارے  میں اس کے  بیانات ایک ہی دلیل ہیں اور یہ دونوں اس کے  اس غیر بیان کردہ مفروضے  پر مبنی ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے  ہو یا نہ ہو مگر وقت کا تسلسل ہمیشہ سے  موجود ہے ، مگر ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کائنات کی ابتدا کے  قبل وقت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا، اس بات کی نشاندہی سب سے  پہلے  سینٹ آگسٹن نے  کی تھی جب ان سے  پوچھا گیا کہ کائنات کی تخلیق سے  پہلے  خدا کیا کر رہا تھا، تو انہوں نے  یہ جواب نہیں دیا تھا کہ خدا ایسا سوال پوچھنے  والوں کے  لیے  دوزخ تیار کر رہا تھا، اس کی بجائے  انہوں نے  کہا تھا کہ وقت یا زمان کائنات کی صفت (Property) ہے  جو خدا نے  بنائی ہے  اور وقت کائنات سے  پہلے  وجود نہیں رکھتا تھا۔

 

جب بہت سے  لوگ بنیادی طور پر کائنات کے  ساکن اور غیر متغیر ہونے  میں یقین رکھتے  تھے  تو کائنات کا آغاز ہونے  یا نہ ہونے  کا سوال دراصل ما بعد الطبیعیات (Metaphysics) یا دینیات (Theology) کا سوال تھا، جو کچھ انسان مشاہدہ کرتا تھا اس کی تشریح اس نظریے  سے  بھی کی جا سکتی تھی کہ یہ ہمیشہ سے  ہے  اور اس نظریے  سے  بھی کہ کائنات کو کسی متناہی وقت میں اس طرح متحرک کیا گیا تھا کہ وہ ہمیشہ سے  موجود معلوم ہوتی ہے  لیکن ١٩٢٩ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے  یہ عہد آفریں مشاہدہ کیا کہ جہاں سے  بھی دیکھا جائے  دور دراز کہکشائیں ہم سے  مزید دور ہوتی جا رہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے  کہ پہلے  وقتوں میں اجرامِ فلکی ایک دوسرے  سے  قریب تر رہے  ہوں گے ، حقیقت میں یہ لگتا ہے  کہ اب سے  دس یا بیس ارب سال پہلے  وہ سب ٹھیک ایک ہی جگہ پر تھیں تو اس وقت کائنات کی کثافت (Density) لامتناہی ہو گی، یہ دریافت بالآخر کائنات کی ابتدا کے  سوال کو سائنس کی دنیا میں لے  آئی۔

 

ہبل کے  مشاہدہ سے  یہ اشارہ ملا کہ ایک وقت تھا جب عظیم دھماکہ Big Bang) ‎) ہوا تھا ، یہ وہ زمانہ تھا جب کائنات بے  انتہا مختصر اور لامتناہی طور پر کثیف تھی، اس وقت سائنس کے  تمام قوانین اور مستقبل بینی کی صلاحیت یکسر ختم ہو گئی تھی، اگر اس سے  پہلے  کچھ ہوا تھا تو وہ موجودہ وقت میں ہونے  والی چیزوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، بگ بینگ یا عظیم دھماکے  سے  پہلے  کے  واقعات نظر انداز کیے  جا سکتے  ہیں کیونکہ ان سے  کوئی مشاہداتی نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ، یہ کہا جا سکتا ہے  کہ بگ بینگ سے  وقت کا آغاز ہوا تھا کیونکہ اس سے  پہلے  کے  وقت کے  بارے  میں کچھ بھی کہہ سکنا ممکن نہیں ہے ، اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے  کہ وقت کے  آغاز کا یہ تصور وقت کے  آغاز کے  اس تصور سے  جو پہلے  زیرِ غور رہا ہے  بے  حد مختلف ہے ، ایک غیر متغیر کائنات میں وقت کا آغاز کائنات کے  باہر ہی سے  مسلط کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ ایسی کائنات جو تغیر سے  عاری ہو اس میں آغاز کی کوئی طبیعی ضرورت نہیں ہو سکتی، یہ تصور کیا جا سکتا ہے  کہ خدا نے  کائنات حقیقتاً ماضی میں کسی بھی وقت تخلیق کی ہو گی، مگر اس کے  برعکس اگر کائنات پھیل رہی ہے  تو اس کی کوئی طبیعی وجہ بھی ہو گی اور اس پھیلاؤ کی ابتدا بھی ضرور ہوئی ہو گی، کوئی چاہے  تو یہ سوچ سکتا ہے  کہ خدا نے  کائنات کو بگ بینگ کے  لمحے  تخلیق کیا ہے  یا پھر اس کے  بعد اس طرح بنایا ہو کہ ہمیں یہ تاثر ملے  کہ اس کا آغاز بگ بینگ سے  ہوا ہے ، مگر یہ فرض کرنا تو بہر صورت بے  معنی ہو گا کہ اسے  بگ بینگ سے  پہلے  تخلیق کیا گیا تھا، پھیلتی ہوئی کائنات خالق کو خارج از امکان قرار نہیں دیتی مگر وہ یہ حد ضرور مقرر کرتی ہے  کہ یہ کائنات اس نے  کب بنائی ہو گی۔

 

کائنات کی نوعیت کے  بارے  میں بات کرتے  ہوئے  اور پھر اسی سوال کو زیرِ بحث لاتے  ہوئے  کہ اس کا کوئی آغاز یا انجام ہے  ہمیں اس بارے  میں واضح ہونا ہو گا کہ یہ سائنسی نظریہ ہے  کیا؟ میں تو سیدھی سادھی بات کرتا ہوں کہ یہ نظریہ یا تو کائنات کا ماڈل ہے  یا پھر اس کے  کسی معین حصے  کا، اور قوانین کا ایک مجموعہ ہے  جو مقداروں کو ماڈل کے  ان مشاہدات سے  ملاتا ہے ، جو ہمارے  تجربے  میں آتے  ہیں، یہ سبھی کچھ ہمارے  ذہن میں ہوتا ہے  اور اس کی کوئی اور حقیقت نہیں ہوتی (اس سے  خواہ آپ کچھ بھی مطلب نکالیں) ایک نظریہ اچھا نظریہ ہوتا ہے  بشرطیکہ وہ دو ضروریات کو پورا کرتا ہو، اسے  چند بے  قاعدہ عناصر کے  ماڈل کی بنیاد پر بہت سے  مشاہدات کی درست تشریح کرنی چاہیے  اور مستقبل کے  مشاہدات کے  بارے  میں پیش گوئیاں کرنی چاہئیں، مثلاً ارسطو کا یہ نظریہ کہ ہر چیز چار عناصر یعنی مٹی، ہوا، آگ اور پانی سے  مل کر بنی ہے  اتنا سادہ تھا کہ اس پر یقین کیا جا سکتا تھا لیکن اس سے  کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں تھا، اس کے  برعکس تجاذب کا نظریہ ایک آسان تر ماڈل پر مبنی تھا جس میں اجسام ایک دوسرے  کے  لیے  کشش کی ایک جیسی قوت رکھتے  تھے  جو ان کی ایک یسی صلاحیت سے  متناسب (Proportional) تھی جسے  کمیت (Mass) کہا جا سکتا ہے  اور ان کے  درمیان فاصلے  کے  مربع سے  معکوس متناسب (Inversely Proportional) ہوتی ہے ، تاہم یہ نظریہ سورج چاند اور سیاروں کی حرکات کی بہت حد تک درست پیش گوئی بھی کرتا ہے ۔

 

ہر طبیعاتی نظریہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے ، ان معنوں میں کہ وہ محض ایک مفروضہ ہے  آپ اسے  کبھی ثابت نہیں کر سکتے ، اس سے  کچھ فرق نہیں پڑتا کہ تجربات کے  نتائج خواہ بے  شمار دفعہ نظریے  کے  مطابق ہی ہوتے  ہوں لیکن یہ بات کبھی وثوق سے  نہیں کہی جا سکتی کہ اگلی بار نتائج نظریے  سے  متضاد نہیں ہوں گے ، اس کے  برعکس نظریے  کو آپ صرف کسی ایک مشاہدے  سے  بھی غلط ثابت کر سکتے  ہیں جو اس سے  مطابقت نہیں رکھتا، سائنس کے  ایک فلسفی کارل پوپر (Karl Popper) یہ بات بہت زور دے  کر کہی ہے  کہ ایسے  نظریے  کی یہ خاصیت ہوتی ہے  کہ وہ بہت سی ایسی پیش گوئیاں کرتا ہے  جو اصولی طور پر مشاہدات سے  غلط یا غیر معتبر ثابت کی جا سکتی ہیں، جب تک نئے  تجربات سے  حاصل ہونے  والے  مشاہدات پیش گوئیوں سے  مطابقت رکھتے  ہیں نظریہ باقی رہتا ہے  لیکن جب بھی کوئی نیا مشاہدہ اس سے  مطابقت نہیں رکھتا تو ہمیں وہ نظریہ چھوڑنا پڑتا ہے  یا پھر اس میں ترمیم کرنی پڑتی ہے  مگر مشاہدہ کرنے  والی کی قابلیت پر آپ بہرحال شبہ کر سکتے  ہیں۔

 

عملی سطح پر یہ ہوتا ہے  کہ نیا نظریہ حقیقت میں کسی پچھلے  نظریے  ہی کی توسیع ہوتا ہے  مثلاً عطارد کے  بہت درست مشاہدے  نے  اس کی حرکت اور نیوٹن کے  نظریہ تجاذب کے  درمیان تھوڑا بہت فرق دکھایا تھا، آئن سٹائن کے  عمومی نظریہ اضافیت (General Theory of Relativity)‎ نے  نیوٹن کے  نظریے  سے تھوڑی سی مختلف حرکت کی پیش گوئی کی تھی چنانچہ جو کچھ مشاہدہ کیا گیا اس میں آئن سٹائن کی پیش گوئی نیوٹن سے  زیادہ بہتر تھی اور یہی اس نظریے  کی فیصلہ کن تصدیق تھی، بہر حال ہم اب تک عملی مقاصد کے  لیے  نیوٹن ہی کا نظریہ استعمال کرتے  ہیں کیونکہ عام طور پر درپیش صورت حال میں اس کی پیش گوئیوں اور اضافیت کے  درمیان معمولی سا فرق ہے ، نیوٹن کے  نظریے  میں سب سے  بڑا فائدہ یہ ہے  کہ اس کی مدد سے  کام کرنا آئن سٹائن کے  نظریے  کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے ۔

 

سائنس کا حتمی مقصد پوری کائنات کی تشریح کرنے  والے  واحد نظریے  کی فراہمی ہے ، درحقیقت زیادہ تر سائنس دان اس مسئلے  کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے  ہیں، پہلے  تو وہ قوانین ہیں جو ہمیں یہ بتاتے  ہیں کہ کائنات وقت کے  ساتھ کیسے  بدلتی ہے  (اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ کسی ایک وقت میں کائنات کیسی ہے ، تو یہ طبیعاتی قانون ہمیں یہ بتاتے  ہیں کہ بعد میں کسی اور وقت یہ ہمیں کیسے  دکھائی دے  گی) دوسرا سوال کائنات کے  ابتدائی حالات کے  بارے  میں ہے ، کچھ لوگوں کا خیال ہے  کہ سائنس کا تعلق صرف پہلے  حصے  سے  ہونا چاہیے  کیونکہ ان کا خیال ہے  کہ کائنات کی ابتدائی صورتحال کا سوال ما بعد الطبیعیات یا مذہب کا معاملہ ہے  کیونکہ خدا قادرِ مطلق ہے  اور کائنات کو جس طرح چاہے  شروع کر سکتا ہے ، ہو سکتا ہے  ویسا ہی ہو، لیکن اس صورت میں خدا کائنات کو بے  قاعدہ طریقے  سے  بھی شروع کر سکتا تھا تاہم ایسا لگتا ہے  کہ اس نے  چاہا کہ کائنات کو بڑی ترتیب سے  چند قوانین کے  مطابق تشکیل دیا جائے  اس لیے  یہ فرض کرنا بھی ویسا ہی معقول لگتا ہے  کہ کائنات کی ابتدائی حالت بھی قوانین کے  تابع ہو گی۔

 

پوری کائنات کی ایک ہی مرتبہ تشریح کر دینے  والا نظریہ دینا بہت مشکل کام ہے  اس کی بجائے  ہم یہ مسئلہ ٹکڑوں میں بانٹ کر بہت سے  جزوی نظریات تشکیل دیتے  ہیں، ان میں سے  ہر جزوی نظریہ مشاہدات کے  ایک خاص حلقے  کی تشریح اور پیش گوئی کرتا ہے  جس میں دوسری مقداروں کے  اثرات کو نظر انداز کریا جاتا ہے  یا پھر ان کو اعداد کے  سادے  مجموعوں میں پیش کیا جاتا ہے ، ہو سکتا ہے  کہ طریق کار مکمل طور پر غلط ہو، بنیادی طور پر اگر کائنات کی ہر ایک چیز کا انحصار دوسری تمام چیزوں پر ہے ، تو پھر ممکن ہے  کہ اس مسئلے  کے  حصوں کی علیحدہ علیحدہ تحقیق کرنے  سے  مکمل نتیجہ حاصل نہ ہو، پھر بھی ماضی میں ہم نے  اسی طرح ترقی کی ہے ، اس کی کلاسیکی مثال نیوٹن کا نظریہ تجاذب ہے  جس کے  مطابق دو اجسام کے  درمیان تجاذب صرف ان کی کمیت پر منحصر ہے  یا پھر مادے  پر منحصر ہے  نہ کہ ان کے  اجزائے  ترکیبی پر لہذا سورج اور سیاروں کے  مدار معلوم کرنے  کے  لیے  ان کی ساخت اور اجزائے  ترکیبی کو جاننا ضروری نہیں۔

 

آج سائنس دان کائنات کی تشریح دو بنیادی جزوی نظریات کی بنیاد پر کرتے  ہیں، اضافیت کا عمومی نظریہ اور کوانٹم میکینکس (Quantum Mechanics) یہ اس صدی کے  پہلے  نصف میں فکر و دانش کی عظیم کامیابیاں ہیں، اضافیت کا عمومی نظریہ تجاذب اور کائنات کی وسیع تر ساخت کو بیان کرتا ہے ۔

 

یعنی چند میل کے  پیمانے  سے  لیے  کر اربوں کھربوں میل کے  قابلِ مشاہدہ کائنات کے  پیمانے  تک، دوسری طرف کوانٹم میکینکس مظاہر کا انتہائی چھوٹے  پیمانے  پر مطالعہ کرتی ہے  جیسے  ایک انچ کے  لاکھویں، کروڑویں پیمانے  تک، مگر بدقسمتی سے  یہ دونوں نظریات ایک دوسرے  کے  لیے  غیر متناسب جانے  جاتے  ہیں یعنی دونوں (بیک وقت) درست نہیں ہو سکتے ، آج کے  علم طبیعیات کی ایک بنیادی کاوش اور اس کتاب کا اہم موضوع ایک ایسے  نظریے  کی تلاش ہے  جو ان دونوں نظریات کو ملا کر تجاذب کا کوانٹم نظریہ مہیا کرے ، اس وقت ہمارے  پاس ایسا نظریہ نہیں ہے  اور ہو سکتا ہے  ہم ابھی اس سے  بہت دور ہوں لیکن اس کی چند ضروری خصوصیات ہم اب بھی جانتے  ہیں اور اس کتاب کے  اگلے  باب میں ہم دیکھیں گے  کہ ہمیں یہ معلوم ہے  کہ تجاذب کے  کوانٹم نظریے  کو کس قسم کی پیش گوئیاں کرنا ہوں گی۔

 

اب اگر آپ کو یقین ہے  کہ کائنات بے  قاعدہ نہیں ہے  بلکہ مخصوص قوانین کی تابع ہے  تو بالآخر آپ کو جزوی نظریات کو مجتمع کر کے  ایک جامع نظریہ تشکیل دینا ہو گا، جو کائنات میں موجود ہر شئے  کی تشریح کر سکے  مگر ایسے  جامع اور مکمل نظریے  کی تلاش میں ایک بنیادی تضاد ہے ، مندرجہ بالا خیالات کے  مطابق ہم عقل رکھنے  والی مخلوق ہیں، اور جس طرح چاہیں کائنات کا مشاہدہ کر کے  اس سے  منطقی نتائج اخذ کر سکتے  ہیں، اس صورت میں یہ فرض کرنا ایک معقول بات ہو گی کہ ہم کائنات کو چلانے  والے  قوانین کے  قریب تر جا سکتے  ہیں، اور اگر واقعی کوئی مکمل اور متحد (Unified) نظریہ موجود ہے  تو وہ ہمارے  اعمال کو بھی متعین کرے  گا، وہ نظریہ یہ بھی متعین کرے  گا کہ اس تلاش کیا نتیجہ نکل سکتا ہے  مگر وہ ہمیں یہ کیوں بتائے  گا کہ ہم شہادتوں کے  ذریعے  درست نتیجے  پر پہنچے  ہیں، ہو سکتا ہے  وہ مادے  سے  غلط نتائج کا تعین کرے  اور پھر ہمیں کسی بھی نتیجے  پر پہنچنے  نہ دے ۔

 

میں اس مسئلے  کا صرف ایک ہی حل ڈارون کے  اصول فطری انتخاب(Principle of Natural Selection)‎ پر انحصار کر کے  دے  سکتا ہوں ، اس خیال کے  مطابق کسی بھی خود افزائشی اجسام کی آبادی میں جینیاتی مادوں اور انفرادی نشو و نما میں فرق ہو گا، اس کا مطلب یہ ہے  کہ کچھ افراد اپنے  ارد گرد پھیلی ہوئی دنیا میں صحیح نتائج نکالنے  اور ان کے  مطابق عمل کرنے  کے  لیے  دوسروں سے  زیادہ اہل ہوں گے  اور اپنی بقا اور افزائشِ نسل کے  لیے  بھی زیادہ مناسب ہوں گے  لہذا ان کے  کرداری اور فکری رویے  غالب آ جائیں گے ، یہ بات یقیناً درست ہے  کہ ماضی میں ذہانت اور سائنسی دریافت نے  بقا میں معاونت کی ہے  مگر اس بات کی صداقت واضح نہیں ہے ، ہماری سائنسی دریافتیں ہمیں تباہ کر سکتی ہیں اور اگر نہ بھی کریں تو ہو سکتا ہے  کہ ایک مکمل اور متحد نظریہ بھی ہماری بقا کے  امکانات کے  لیے  زیاد مؤثر نہ ہو، بہرحال اگر کائنات کا ارتقا باقاعدہ طریقے  سے  ہوا ہے  تو ہم یہ توقع کر سکتے  ہیں کہ فطری انتخاب سے  ہمیں ملی ہوئی صلاحیتیں مکمل اور متحد نظریے  کی تلاش میں بھی کارگر ثابت ہوں گی اور ہمیں غلط نتائج کی طرف نہ لے  جائیں گی۔

 

چونکہ ہمارے  پاس پہلے  سے  موجود جزوی نظریات غیر معمولی صورتحال کے  علاوہ صحیح پیش گوئیاں کرنے  کے  لیے  کافی ہیں چنانچہ کائنات کے  حتمی نظریے  کی تلاش کو عملی بنیادوں پر حق بجانب کہنا مشکل ہے  (یہ بات قابلِ ذکر ہے  کہ ایسے  دلائل اضافیت کے  نظریے  اور کوانٹم میکینکس کے  خلاف بھی دیے  گئے  ہیں اور انہی نظریات نے  ہمیں جوہری (Nuclear) توانائی اور مائکرو الیکٹرونکس (Micro Electronics) انقلاب دیے  ہیں) ہو سکتا ہے  کہ ایک مکمل اور متحد نظریے  کی دریافت ہماری نوع کی بقا میں مددگار ثابت نہ ہو اور ہو سکتا ہے  کہ وہ ہمارے  طرزِ زندگی کو بھی متاثر نہ کرے  لیکن تہذیب کی ابتدا سے  ہی لوگ واقعات کو بے  جوڑ اور ناقابلِ تشریح سمجھنے  کے  باعث غیر مطمئن رہے  ہیں، ان کی شدید خواہش رہی ہے  کہ دنیا کے  پیچھے  کام کرنے  والے  نظام کو جانا جائے ، ہم آج بھی یہ جاننے  کے  لیے  بے  چین ہیں کہ ہم یہاں کیوں ہیں اور کہاں سے  آئے  ہیں؟ علم کے  لیے  انسان کی شدید ترین خواہش ہماری مسلسل کوشش کو حق بجانب ثابت کرنے  کے  لیے  کافی ہے  اور ہمارا کم سے  کم ہدف یہ ہے  کہ ہم اس کائنات کی مکمل تشریح کریں جس میں ہم آباد ہیں۔

 

دوسرا باب: زمان و مکان

 

اجسام کی حرکت کے  بارے  میں ہمارے  موجودہ خیالات گلیلیو (Galileo) اور نیوٹن سے  چلے  آ رہے  ہیں، ان سے  پیشتر لوگ ارسطو پر یقین رکھتے  تھے  جس کا کہنا تھا کہ جسم کی فطری حالت سکونی ہوتی ہے  تاوقتیکہ اسے  کوئی قوت یا محرک حرکت نہ دے ، مزید یہ کہ ایک بھاری جسم آہستہ روی کی نسبت تیزی سے  گرے  گا کیونکہ زمین کی جانب اس کا کھنچاؤ زیادہ ہو گا۔

 

ارسطو کی روایت میں یہ عقیدہ بھی شامل تھا کہ صرف غور و فکر کرنے  سے  تمام قوانین دریافت کیے  جا سکتے  ہیں، انہیں مشاہدات کی مدد سے  پرکھنا بھی ضروری نہیں ہے ، چنانچہ گلیلیو سے  پہلے  کسی نے  یہ معلوم کرنے  کی بھی زحمت نہ کی کہ کیا واقعی مختلف وزن کے  اجسام مختلف رفتار سے  گرتے  ہیں، کہا جاتا ہے  کہ گلیلیو نے  پیسا (Pisa) کے  خمیدہ مینار سے  اوزان گرا کر ارسطو کے  اس خیال کو غلط کر دکھایا، یہ کہانی پوری طرح سچ نہیں ہے  مگر گلیلیو نے  اسی طرح کا کوئی کام کیا تھا اس نے  ہموار ڈھلان سے  مختلف گول اوزان نیچے  لڑھکائے  تھے ، بھاری اجسام کے  عمودی طور پر گرنے  سے  بھی ایسا ہی ہوتا ہے  مگر رفتار کم ہونے  کی وجہ سے  ڈھلان کا مشاہدہ زیادہ آسان ہے ، گلیلیو کی پیمائش نے  یہ بات ثابت کی کہ وزن سے  قطع نظر ہر جسم کی رفتار میں اضافے  کی شرح مساوی ہوتی ہے ، مثلاً اگر آپ ایک سیکنڈ کے  بعد گیند کسی ایسی ڈھلان سے  لڑھکائیں جو ہر دس میٹر کے  فاصلے  پر ایک میٹر نیچے  آتی ہو تو ایک سیکنڈ کے  بعد گیند کی رفتار ایک میٹر فی سیکنڈ ہو گی، دو سیکنڈ بعد یہ رفتار دو میٹر فی سیکنڈ ہو گی اور اس طرح گیند کی رفتار میں اضافہ ہوتا جائے  گا خواہ اس کا وزن کچھ بھی ہو، بلا شبہ ایک سیسے  کا باٹ پرندے  کے  پر کے  مقابلے  میں یقیناً زیادہ تیزی سے  گرے  گا لیکن صرف اس لیے  کہ پر کی رفتار ہوا کی مزاحمت سے  سست ہو جائے  گی، اگر ہوا کی مزاحمت کے  بغیر دو اجسام پھینکے  جائیں جیسے  مثال کے  طور پر سیسے  کے  دو اوزان تو وہ ایک ہی شرح سے  گریں گے ۔

 

نیوٹن نے  اپنے  قوانینِ حرکت کی بنیاد گلیلیو کی پیمائشوں پر رکھی تھی، گلیلیو کے  تجربات کے  مطابق جب کوئی جسم ڈھلان سے  لڑھکتا ہے  تو اس پر صرف ایک قوت (اس کا وزن) عمل کرتی ہے  اور یہی قوت اس کی رفتار میں بھی اضافہ کرتی رہتی ہے ، ان تجربات سے  یہ ظاہر ہوا کہ قوت کا اصل کام ہمیشہ کسی جسم کی رفتار میں تبدیلی لانا ہوتا ہے  نہ کہ اسے  صرف حرکت میں لے  آنا جیسا کہ اس سے  قبل سمجھا جاتا تھا، اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ اگر کسی جسم پر کوئی قوت عمل نہ بھی کر رہی ہو تو وہ یکساں رفتار سے  خطِ مستقیم (Straight Line) میں حرکت کرتا رہے  گا، یہ خیال پہلی بار نیوٹن کی کتاب اصولِ ریاضی ( Pricipia Mathematica)‎ میں وضاحت سے  بیان کیا گیا تھا اور یہی نیوٹن کا پہلا قانون ہے ، ایک جسم پر جب کوئی قوت عمل کرتی ہے  تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ اس کا بیان نیوٹن کا دوسرا قانون ہے ، اس کے  مطابق جسم اپنی رفتار میں اضافہ یا تبدیلی کرے  گا جس کی شرح قوت کے  تناسب سے  ہو گی (مثلاً اگر قوت میں اضافے  کی شرح دوگنی ہو گی تو پھر رفتار بھی دوگنی ہو گی) اسراع (Acceleration) اس صورت میں کم ہو گی، اگر اس کی کمیت (یا مادے  کی مقدار) زیادہ ہو گی،یہی قوت اگر دوگنا مادے  رکھنے  والے  جسم پر عمل کرے  گی تو اسراع آدھا ہو گا، ایسی ہی ایک مثال کار کی ہے ، جتنا زیادہ طاقتور انجن ہو گا اتنا ہی زیادہ اسراع پیدا کرے  گا مگر جس قدر بھاری کار ہو گی تو وہی انجن اس قدر کم اسراع پیدا کرے  گا۔

 

ان قوانینِ حرکت کے  علاوہ نیوٹن نے  تجاذب کی تشریح کے  لیے  بھی قانون دریافت کیا، اس کے  مطابق دو اجسام کے  درمیان کشش کی قوت ان کی کمیت کے  تناسب سے  ہوتی ہے ، یعنی اگر دو اجسام میں سے  (جسم الف) کی کمیت دوگنی ہو جائے  تو ان کے  درمیان قوت بھی دوگنی ہو جائے  گی، شاید آپ یہی توقع رکھیں کیونکہ نئے  جسم الف کو اپنی اصل کمیت کے  دو الگ الگ اجسام کا مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے  جن میں سے  ہر ایک جسم ب کو اصل قوت کے  ساتھ پہنچے  گا، اس طرح الف اور ب کے  درمیان کی قوت بھی اصل قوت سے  دوگنی ہو گی، اور اگر فرض کریں کہ ایک جسم کی کمیت دوگنی ہو اور دوسرے  کی تین گنا تو ان کے  درمیان تجاذب چھ گنا زیادہ ہو جائے  گا، اب ہم تمام اجسام کے  ایک ہی شرح سے  گرنے  کی وجہ سمجھ سکتے  ہیں، ایک دوگنے  وزن والے  جسم کو نیچے  کھینچنے  والی تجذیب کی قوت دوگنی ہو گی مگر اس کے  ساتھ ہی اس کی کمیت بھی دوگنی ہو گی، نیوٹن کے  دوسرے  قانون کے  مطابق یہ دونوں اثرات ایک دوسرے  کو زائل کر دیں گے  اس طرح اسراع ہر حال میں یکساں ہو گا۔

 

نیوٹن کا تجاذب کا قانون ہمیں یہ بھی بتاتا ہے  کہ اجسام جتنی دور ہوں گے  اتنی ہی کم کشش ہو گی، اس قانون کے  مطابق ایک ستارے  کی تجذیب اسی سے  نصف فاصلے  پر واقع ستارے  کی کشش سے  ایک چوتھائی ہو گی، یہ قانون زمین، چاند اور سیاروں کے  مداروں کی بڑی درست پیش گوئی کرتا ہے ، اگر قانون یہ ہوتا کہ ستارے  کا تجاذب فاصلے  کے  ساتھ نیوٹن کے  بتائے  ہوئے  تناسب سے  زیادہ تیزی سے  کم ہوتا تو سیاروں کے  مدار بیضوی نہ ہوتے  بلکہ مرغولے  (SPIRAL) کی شکل میں سورج کی طرف چکر کھاتے  ہوئے  جاتے  اور اگر تجاذب کی قوت کا تناسب نیوٹن کے  بتائے  ہوئے  تناسب سے  زیادہ آہستہ روی سے  کم ہوتا تو دور دراز ستاروں کی کشش کی قوت زمین کی کشش پر حاوی ہوتی۔

 

ارسطو کے  خیالات اور گلیلیو اور نیوٹن کے  خیالات میں بڑا فرق یہ ہے  کہ ارسطو سکون کی اس ترجیحی حالت پر یقین رکھتا ہے  جسے  کوئی جسم قوت یا محرک کے  عمل نہ کرنے  کی صورت میں اختیار کرتا ہے ، خاص طور پر وہ یہ سمجھتا تھا کہ زمین حالتِ سکون میں ہے ، لیکن نیوٹن کے  قوانین سے  یہ پتہ چلتا ہے  کہ سکون کا کوئی مخصوص معیار نہیں ہے ، ہم یکساں طور پر یہ کہہ سکتے  ہیں کہ جسم الف ساکن ہے  اور جسم ب جسم الف کی نسبت حرکت میں ہے  یا یہ کہ جسم ب ساکن ہے  اور جسم الف حرکت میں ہے ، مثلاً اگر ایک لمحے  کے  لیے  زمین کی گردش اور سورج کے  گرد اس کے  مدار کو نظر انداز کر دیا جائے  تو ہم کہہ سکتے  ہیں کہ زمین ساکن ہے  اور اس پر ایک ریل گاڑی نوے  میل فی گھنٹہ کی رفتار سے  جنوب کی سمت جا رہی ہے ، اگر کوئی ریل گاڑی میں متحرک اجسام کے  ساتھ تجربات کرے  تو بھی نیوٹن کے  قوانین اسی طرح برقرار رہتے  ہیں، مثلاً ریل گاڑی میں پنگ پانگ کے  کھیل ہی کو لیجئے ، ہم دیکھیں گے  کہ گیند ریل گاڑی میں نیوٹن کے  قانون کی اسی طرح تابع ہے  جس طرح ریل گاڑی سے  باہر کسی میز پر، اس لیے  یہ بتانے  کا کوئی طریقہ نہیں کہ آیا ریل گاڑی حرکت میں ہے  یا زمین۔

 

سکون کے  ایک قطعی معیار (Absolute Standard) کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے  کہ ہم مختلف اوقات میں وقوع پذیر ہونے  والے  دو واقعات کے  بارے  میں نہیں بتا سکتے  کہ وہ مکاں کے  کسی ایک ہی مقام پر ہوئے  ہوں، مثلاً فرض کریں کہ ہماری پنگ پانگ کی گیند ریل گاڑی میں اوپر نیچے  ٹپے  کھا رہی ہے  اور ایک سیکنڈ کے  وقفے  میں میز کے  ایک مقام سے  دو مرتبہ ٹکراتی ہے ، ریل گاڑی سے  باہر کسی شخص کے  لیے  دو ٹپوں کا درمیانی فاصلہ تقریباً چالیس میٹر ہو گا کیونکہ گاڑی اس وقفے  میں اتنا فاصلہ طے  کر چکی ہو گی اس طرح مکمل سکون (Absolute Rest) کی عدم موجودگی کا مطلب ہے  کہ ہم مکاں میں کسی واقعے  کو حتمی مقام (Absolute Position) نہیں دے  سکتے ، جیسا کہ ارسطو کو یقین تھا، واقعات کے  مقامات اور ان کا درمیانی فاصلہ ریل گاڑی میں اور اس سے  باہر کھڑے  افراد کے  لیے  مختلف ہو گا اور کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا سکے  گی۔

 

نیوٹن حتمی مقام یا حتمی مکاں کی عدم موجودگی پر بہت پریشان تھا کیونکہ وہ اس خدائے  مطلق (Absolute God) کے  تصور سے  مطابقت نہیں رکھتا تھا، حقیقت یہ ہے  کہ اس نے  حتمی مکاں کی عدم موجودگی تسلیم کرنے  سے  انکار کر دیا تھا حالانکہ یہ اس کے  قوانین سے  نکلی تھی، اس کے  اس غیر عقلی عقیدے  پر بہت سے  لوگوں نے  شدید تنقید کی تھی، ان میں سے  سب سے  زیادہ قابلِ ذکر بشپ برکلے  ( Bishop Berkely) ہے  جو فلسفی تھا اور جسے  یقین تھا کہ تمام مادی اشیاء اور زمان و مکان ایک واہمہ (illusion) ہیں، جب شہرہ آفاق ڈاکٹر جانسن کو برکلے  کی اس رائے  کے  متعلق بتایا گیا تو وہ چلائے  ‘میں اس کی تردید کرتا ہوں’ اور اپنا پاؤں ایک بہت بڑے  پتھر پر مارا۔

 

ارسطو اور نیوٹن دونوں مطلق وقت یا زمان پر یقین رکھتے  تھے ، ان کا اعتقاد تھا کہ دو واقعات کا درمیانی وقت بغیر کسی ابہام کے  ناپا جا سکتا ہے  اور اسے  کوئی بھی ناپے  یہ وقت یکساں ہو گا بشرطیکہ اچھی قسم کی گھڑی استعمال کی جائے ، یہ بات کہ زمان (Time) مکان (Space) سے  مکمل طور پر آزاد تھا بہت سے  لوگوں کے  لیے  عام فہم ہو گی، بہر صورت ہمیں زمان اور مکان کے  بارے  میں اپنے  خیالات بدلنے  پڑے  ہیں حالانکہ بظاہر عام فہم قیاسات سی جیسی چیزوں یا سیاروں کے  معاملے  میں صحیح کام کرتے  ہیں کیونکہ یہ مقابلتاً آہستہ رو ہوتے  ہیں جبکہ تقریباً روشنی کی رفتار سے  سفر کرنے  والی چیزوں کے  لیے  یہ بالکل ناقابلِ عمل ہوتے  ہیں۔

 

١٦٧٦ء میں ڈنمارک کے  ایک ماہر فلکیات کرسٹنسن روئیمر (Christensen Roemer) نے  یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ روشنی متناہی ہے  مگر بہت تیز رفتار سے  سفر کرتی ہے ، اس نے  یہ مشاہدہ بھی کیا کہ مشتری کے  چاند کے  خود مشتری کے  عقب میں چلے  جانے  کے  اوقات یکساں نہیں ہیں جیسا کہ مشتری کے  گرد چاندوں کی یکساں گردش ہونے  کی صورت میں متوقع تھا، چونکہ زمین اور مشتری دونوں سورج کے  گرد گردش کرتے  ہیں لہذا ان کے  درمیان فاصلہ بدلتا رہتا ہے ، روئیمر نے  دیکھا کہ اگر ہم مشتری سے  زیادہ دور ہوں تو اس کے  چاندوں کی روشنی ہم تک دیر میں پہنچتی ہے ، اس نے  یہ دلیل پیش کی کہ اگر ہم زیادہ دور ہوں تو چاندوں کی روشنی ہم تک دیر میں پہنچتی ہے ، روئیمر نے  مشتری کے  زمین سے  فاصلے  میں کم یا زیادہ ہونے  کی جو پیمائش کی تھی وہ زیادہ درست نہیں تھی، یعنی اس کے  خیال میں روشنی کی رفتار ١۴٠.٠٠٠ میل فی سیکنڈ تھی جبکہ جدید دور میں ہم جانتے  ہیں کہ روشنی کی رفتار ١٨٦٠٠٠ ہزار میل فی سیکنڈ ہے ، روئیمر کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے  نہ صرف یہ ثابت کیا تھا کہ روشنی متناہی رفتار سے  سفر کرتی ہے  بلکہ اس کی پیمائش کرنا بھی ایک بڑا کارنامہ تھا جو نیوٹن کے  اصولِ ریاضی کی اشاعت سے  بھی گیارہ سال پہلے  انجام دیا گیا تھا۔

 

روشنی کس طرح پھیلتی ہے؟ اس کے  متعلق کوئی خاص نظریہ ١٨٦۵ء تک نہیں تھا، پھر برطانوی ماہرِ طبیعیات جیمز کلارک میکسول ((James Clerk Maxwell‎ نے  جزوی نظریات کو یکجا کر دیا، یہ وہ نظریات تھے  جو برقی اور مقناطیسی قوتوں کے  لیے  استعمال ہوتے  تھے ، میکسول کی مساوات (Equation) نے  پیش گوئی کی کہ مجموعی برقی مقناطیسی میدان (Combined Electromagnetic Field) میں لہروں جیسے  اضطراب (Wavelike Disturbances) پیدا ہو سکتے  ہیں جو پانی کے  تالاب کی لہروں کی طرح ایک مقررہ وقت سفر کریں گے ، اگر ان لہروں کا طول موج (Wave Length) یعنی لہروں کے  ایک دوسرے  سے  متصل ابھاروں کا فاصلہ ایک میٹر یا اس سے  زیادہ ہو تو وہ موجودہ اصطلاح میں ریڈیائی لہریں ہوں گی، چھوٹے  طول موج کی لہریں مائکرو ویو (Micro Wave) یعنی چند سینٹی میٹر زیر سرخ یا  انفرا ریڈ (Infrared) (ایک سینٹی میٹر کے  دس ہزارویں حصے  سے  زیادہ) کہلاتی ہیں وہ روشنی جو نظر آتی ہے  اس کا طول موج ایک سینٹی میٹر کے  صرف چار کروڑ سے  آٹھ کروڑویں حصے  کا ہوتا ہے ، مزید چھوٹے  طول موج کی لہریں بالائے  بنفشی یا الٹرا وائی لیٹ (Ultra Violet) اکس ریز (X-Rays) اور گاما شعاعیں (Gamma Rays) وغیرہ کہلاتی ہیں۔

 

میکسویل نے  پیش گوئی کی کہ ریڈیائی یا روشنی کی لہروں ((Radio Or Light Waves‎ کو ایک خاص مقررہ رفتار سے  سفر کرنا چاہیے  مگر چونکہ نیوٹن کے  نظریے  نے  مکمل سکون (Absolute Rest) کے  خیال کو مسترد کر دیا تھا اس لیے  اگر روشنی مقررہ رفتار سے  سفر کرتی ہے  تو اس رفتار کو کس کی اضافیت سے  ناپا جائے ، چنانچہ یہ تجویز کیا گیا کہ ایک لطیف مادہ ایتھر (Ether) ہر جگہ موجود ہے  حتی کہ وہ خالی سپیس (Empty Space) میں بھی ہے ، جس طرح آواز کی لہریں (Sound Waves) ہوا کے  ذریعے  سفر کرتی ہیں روشنی کی لہروں (Light Waves) کو ایتھر کے  ذریعے  سفر کرنا چاہیے  جس کی رفتار ایتھر کے  اضافی ہو گی، ایسے  مشاہدہ کرنے  والے  جو خود ایتھر کی اضافیت سے  حرکت میں ہوں روشنی کو مختلف رفتاروں سے  اپنی طرف آتا دیکھیں گے ، مگر ایتھر کی اضافیت سے  روشنی کی رفتار معین رہے  گی، خاص طور پر جب زمین اپنے  مدار پر سورج کے  گرد ایتھر میں سے  گزر رہی ہو تو زمین کی گردش کی سمت ناپی جانی والی رفتار (جب ہم روشنی کے  منبع کی طرف سفر میں ہوں) حرکت کے  زاویہ قائمہ (Right Angle) پر روشنی کی رفتار سے  زیادہ ہو گی (جب ہم منبع کی سمت سفر میں نہ ہوں)، ١٨٨٧ء میں البرٹ مائیکل سن (Albert Michelson) (جو بعد میں طبیعیات پر نوبل انعام حاصل کرنے  والا پہلا امریکی بنا) اور ایڈورڈ مورلے  (Edward Morley) نے  کلیو لینڈ کے  اطلاقی سائنس کے  سکول  (Case School of Applied Sciences In Cleveland)‎ میں بہت محتاط تجربہ کیا، انہوں نے  زمین کی حرکت کی سمت میں روشنی کی رفتار اور اس کی گردش کے  زاویہ قائمہ پر روشنی کی رفتار کا موازنہ کیا تو حیرت انگیز طور پر یہ دریافت ہوا کہ دونوں بالکل مساوی ہیں۔

 

١٨٨٧ء اور ١٩٠۵ء کے  درمیانی عرصے  میں اس بات کی کئی کوششیں ہوئیں کہ مائیکل مورلے  کے  اس تجربے  کے  حوالے  سے  کہ ایتھر میں اشیاء سکڑتی ہیں اور گھڑی سست رفتار ہو جاتی ہے  تشریح کی جائے ، ان میں سب سے  زیادہ قابلِ ذکر کوشش ہالینڈ کے  ایک ماہرِ طبیعیات ہینڈرک لورینٹز (Hendrik Lorentz) نے  کی تھی، بہرحال ١٩٠۵ء میں سوس پیٹنٹ آفس (Swiss Patent Office) کے  ایک غیر معروف کلرک البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) نے  اپنے  مشہور مقالے  میں بتایا تھا کہ ایتھر کا پورا نظریہ غیر ضروری ہے  بشرطیکہ مطلق زمان (Absolute Time) کا خیال ترک کر دیا جائے ، چند ہی ہفتوں بعد ایسا ہی خیال معروف فرانسیسی ریاضی دان ہنری پوئن کارے  ((Henri Poincare‎ نے  پیش کیا، آئن سٹائن کے  خیالات ہنری کے  خیالات کی نسبت طبیعیات کے  زیادہ قریب تھے  جو اسے  محض ریاضی کا مسئلہ سمجھتا تھا، پس نئے  نظریے  کا سہرا آئن سٹائن کے  سر باندھا جاتا ہے  جبکہ ہنری پوئن کارے  کا بھی اس نظریے  کے  اہم حصے  سے  گہرا تعلق ہے  اور وہ اسی کے  نام سے  منسوب ہے ۔

 

نظریہ اضافیت کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ تمام ایسے  مشاہدہ کرنے  والوں کے  لیے  جو خود حرکت میں ہوں سائنس کے  قوانین یکساں ہونے  چاہئیں خواہ ان کی رفتار کچھ بھی ہو، یہ بات نیوٹن کے  قوانینِ حرکت کے  لیے  تو سچ تھی ہی مگر اب اسی خیال کا دائرہ وسیع کر کے  اس میں میکسویل کا نظریہ اور روشنی کی رفتار کو بھی شامل کر لیا گیا، تمام مشاہدہ کرنے  والوں کو اب روشنی کی رفتار کی ایک ہی پیمائش کرنی چاہیے  خواہ ان کی اپنی رفتار کچھ بھی ہو، اس سادے  سے  خیال کے  بہت دور رس نتائج نکلتے  ہیں جن میں شاید سب سے  زیادہ مشہور کمیت اور توانائی کا مساوی پن ہے ، جس کی تلخیص آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E=mc2 (جہاں E توانائی m کمیت اور c روشنی کی رفتار کے  لیے ) ہے  اور یہ قانون کہ کوئی بھی شئے  روشنی کی رفتار سے  تیز سفر نہیں کر سکتی، توانائی اور کمیت کے  مساوی ہونے  (Equivalence) کے  تصور کی رو سے  کسی شئے  کو اپنی حرکت سے  ملنے  والی توانائی اس کی عام کمیت میں جمع ہو جائے  گی، دوسرے  لفظوں میں اس کی رفتار میں اضافہ مشکل ہو جائے  گا، یہ اثر صرف ان اشیاء پر نمایاں ہو گا جن کی رفتار روشنی کی رفتار کے  قریب ہو گی مثلاً روشنی کی ١٠ فیصد رفتار پر کسی شئے  کی کمیت اس کی عام کمیت سے  ٠۵۰ فیصد زیادہ ہو گی جبکہ روشنی کی ٩٠ فیصد رفتار پر اس کی کمیت اس کی عمومی کمیت سے  دوگنی سے  بھی زیادہ ہو جائے  گی، جب کسی شئے  کی رفتار روشنی کی رفتار کے  قریب پہنچتی ہے  تو اس کی کمیت میں اضافہ تیز تر ہو جاتا ہے  لہذا اس کی رفتار میں مزید اضافے  کے  لیے  توانائی کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے  اور کوئی بھی شئے  روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی کیونکہ اس وقت تک اس کی کمیت لا متناہی ہو چکی ہو گی، اس وجہ سے  عمومی اشیاء اضافیت کے  مطابق کبھی روشنی کی رفتار کو چھو نہیں سکتیں، صرف روشنی یا دوسری لہریں جن کی کوئی حقیقی کمیت نہ ہو روشنی کی رفتار سے  سفر کر سکتی ہیں۔

 

اضافیت ایک اور شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے  ہمارے  مکان اور زمان کے  متعلق نظریات میں انقلاب برپا کر دیا، نیوٹن کے  نظریے  کے  مطابق اگر روشنی کی ایک کرن کو ایک مقام سے  دوسرے  مقام پر بھیجا جائے  تو مشاہدہ کرنے  والے  مختلف افراد اس سفر کے  وقت پر تو متفق ہو سکتے  ہیں (کیونکہ وقت مطلق Absolute ہے ) مگر اس بات پر ہمیشہ متفق نہیں ہو سکتے  کہ روشنی نے  کتنا فاصلہ طے  کیا ہے  (کیونکہ سپیس یا مکان مطلق نہیں ہے ) چونکہ روشنی کی رفتار طے  کردہ فاصلے  کو صرف شدہ وقت سے  تقسیم کرنے  پر حاصل ہوتی ہے ، اس لیے  مختلف مشاہدہ کرنے  والے  روشنی کی مختلف رفتاریں ناپیں گے ، اس کے  برعکس اضافیت کی مدد سے  تمام مشاہدہ کرنے  والوں کو روشنی کی رفتار پر ضرور متفق ہونا ہو گا، اگر وہ روشنی کے  طے  کردہ فاصلے  پر متفق نہ ہوں تو وہ سفر میں لگنے  والے  وقت پر بھی متفق نہ ہوں گے  (کیونکہ وقت وہ فاصلہ ہے  جو روشنی نے  طے  کیا ہے  مگر اس پر مشاہدہ کرنے  والوں کا اتفاق نہیں ہے ، اسے  روشنی کی رفتار پر تقسیم کرنا ہو گا جس پر وہ متفق ہیں) دوسرے  لفظوں میں نظریہ اضافیت نے  مطلق وقت کا خاتمہ کر دیا ہے  کیونکہ ہر مشاہدہ کرنے  والا اپنی گھڑی کے  مطابق وقت کی پیمائش کرے  گا اور اگر سب کے  پاس ایک جیسی گھڑیاں ہوں تو بھی ضروری نہیں کہ سب مشاہدہ کرنے  والوں کا آپس میں اتفاق ہو جائے ۔

 

ہر مشاہدہ کرنے  والا ریڈیائی لہر یا روشنی کی ضرب (Pulse) بھیج کر کسی واقعے  کے  وقوع پذیر ہونے  کے  مقام اور وقت کا تعین کر سکتا ہے ، ضرب کا کچھ نہ کچھ حصہ واقعہ کو واپس منعکس کرتا ہے  یا ریڈیائی لہر کو لوٹاتا ہے  اور مشاہدہ کرنے  والا بازگشت (Echo) وصول ہونے  سے  وقت کی پیمائش کرتا ہے ، ضرب کے  اس واقعے  تک پہنچنے  کا وقت یقیناً اس کی واپسی تک کے  مجموعی وقت کا نصف ہوتا ہے  اور فاصلہ اس نصف وقت کو روشنی کی رفتار سے  ضرب دینے  سے  حاصل ہوتا ہے  (اس کا مطلب یہ ہے  کہ کوئی بھی واقعہ ایک ایسی چیز ہے  جو ایک خاص وقت میں مکاں کے  ایک خاص مقام پر وقوع پذیر ہوتا ہے ) اسی خیال کو شکل نمبر 2.1 میں پیش کیا گیا ہے  جو مکانی – زمانی شکل  (Space – Time Diagram)‎ کی ایک مثال ہے :

FIGURE 2.1

 

اس طریقے  سے  مشاہدہ کرنے  والے  جو خود بھی ایک دوسرے  کی اضافیت سے  حرکت میں ہوں، ایک ہی واقع کے  مختلف مقام اور وقت بتائیں گے ، کسی خاص مشاہدہ کرنے  والے  کی پیمائش کسی اور مشاہدہ کرنے  والے  کی پیمائش سے  زیادہ درست نہیں ہو گی مگر تمام پیمائشوں کا ایک دوسرے  سے  تعلق ہے ، کوئی بھی مشاہدہ کرنے  والا کسی واقعے  کے  بارے  میں دوسرے  مشاہدہ کرنے  والے  کی نکالی ہوئی رفتار اور وقت کا بالکل ٹھیک تعین کر سکتا ہے  بشرطیکہ اسے  دوسرے  مشاہدہ کرنے  والے  کی اضافیتی رفتار معلوم ہو۔

 

آج کل ہم فاصلوں کی پیمائش کے  لیے  ٹھیک یہی طریقہ استعمال کرتے  ہیں کیونکہ ہم لمبائی کی نسبت وقت کو زیادہ درست ناپ سکتے  ہیں، عملاً ایک میٹر وہ فاصلہ ہے  جو روشنی2590465333000000000  سیکنڈ میں طے  کرتی ہے  جیسا کہ سیزم کلاک (Cesium Clock) سے  ناپا جاتا ہے  (اس خاص عدد کے  لیے  جواز یہ ہے  کہ یہ میٹر کی اس تاریخی تعریف سے  مطابقت رکھتا ہے  جو پیرس میں محفوظ پلاٹینم کی سلاخ کے  دو نشانوں کے  درمیان فاصلہ ہے ) اس طرح ہم لمبائی کی ایک اور اکائی بھی استعمال کر سکتے  ہیں، نوری سیکنڈ (Light Second) وہ فاصلہ ہے  جو روشنی ایک سیکنڈ میں طے  کرتی ہے ، نظریہ اضافیت میں اب ہم فاصلے  کی تعریف وقت اور روشنی کی رفتار کی اصطلاحوں میں کرتے  ہیں جس سے  ہر مشاہدہ کرنے  والا روشنی کی ایک ہی رفتار نکالتا ہے  (تعریف کے  مطابق ایک میٹر فی روشنی 2590465333000000000  سیکنڈ) اب ایتھر کا تصور متعارف کروانے  کی کوئی ضرورت نہیں ہے  اور مائکل سن – مورلے  تجربے  کے  مطابق ایتھر کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا، بہرحال نظریہ اضافیت ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے  کہ ہم مکان اور زمان کے  بارے  میں اپنے  خیالات میں بنیادی تبدیلی لے  آئیں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان زمان سے  مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے ، بلکہ وہ اس سے  مل کر ایک اور چیز بناتا ہے  جسے  مکان – زمان (Space – Time) کہا جاتا ہے ۔

 

یہ ایک عام تجربے  کی بات ہے  کہ ہم مکاں میں کسی نقطے  کے  مقام کا تعین تین اعداد یا  محدد (Coordinates) سے  کرتے  ہیں، مثال کے  طور پر ہم کہہ سکتے  ہیں کہ کمرے  کے  اندر کوئی نقطہ ایک دیوار سے  سات فٹ کے  فاصلے  پر دوسرے  سے  تین فٹ کے  فاصلے  پر اور فرش سے  پانچ فٹ اوپر واقع ہے ، یا ہم کہہ سکتے  ہیں کہ نقطہ کسی خاص طول بلد (Longitude) اور عرض بلد (Latitude) پر سطح سمندر سے  ایک خاص بلندی پر واقع ہے ، ہم کوئی سے  بھی تین موزوں محدد استعمال کرنے  میں بھی آزاد ہیں حالانکہ ان کا جوازی (Validity) دائرہ کار خاصہ محدود ہوتا ہے ، ہم چاند کے  مقام کا تعین پکاڈلی سرکس کے  چند میل شمال یا چند میل جنوب میں نہیں کر سکتے  اور نہ ہی سطح سمندر سے  منٹوں میں اس کی بلندی بتا سکتے  ہیں، اس کی بجائے  چاند کے  مقام کا تعین سورج کے  فاصلے  سے  یا سیاروں سے  مداروں تک اس کے  فاصلے  سے  کیا جا سکتا ہے  یا پھر ان لکیروں کے  درمیان زاویے  سے  جو چاند کو سورج سے  اور سورج کو ایک قریبی ستارے  مثلاً نیر قنطورس (Alpha Centauri) سے  ملاتا ہے ، یہ محدد بھی ہماری کہکشاں میں سورج کے  تعین میں زیادہ مدد نہیں کر سکتے  نہ ہی مقامی کہکشاؤں کے  مجموعے  میں ہماری کہکشاں کے  مقام کا تعین کر سکتے  ہیں، حقیقت یہ ہے  کہ کائنات کی تشریح اوپر تلے  رکھے  ہوئے  ٹکڑوں (PATCHES) کے  مجموعے  کی مناسبت سے  کی جا سکتی ہے ، جس طرح ہر ٹکڑے  یا پیوند میں کسی نقطے  کے  تعین کرنے  کے  لیے  ہم تین محدد کا ایک مختلف سیٹ (Set) استعمال کرتے  ہیں، کوئی بھی واقعہ، کوئی ایسی چیز ہے  جو کسی خاص زماں میں مکاں کے  کسی خاص نقطے  پر وقوع پذیر ہوتی ہے  اور جس کی وضاحت چار اعداد یا عددی خطوط (محدد) کی مدد سے  کی جا سکتی ہے ، یہاں بھی ہم عددی خطوط کے  انتخاب میں آزاد ہیں اور مکاں کی کوئی بھی تین وضاحت شدہ مکانی محدد (Spatial Coordinates) اور زماں کا کوئی بھی پیمانہ استعمال کر سکتے  ہیں، اضافیت میں مکان اور زمان کے  محدد کے  درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جس طرح مکان کے  دو محددوں کے  مابین کوئی حقیقی امتیاز نہیں ہوتا، ہم خطوط کا کوئی ایسا نیا سیٹ (Set) بھی منتخب کر سکتے  ہیں جس میں مکان کا پہلا خصوصی محدد ہی مکان کے  پرانے  پہلے  اور دوسرے  خطوط کا مجموعہ ہو، مثلاً زمین پر کسی نقطے  کے  مقام کا تعین پکاڈلی سرکس سے  چند میل شمال یا چند میل جنوب میں کرنے  کی بجائے  ہم چند میل شمال مشرق یا چند میل شمال مغرب میں بھی کر سکتے  ہیں، اسی طرح اضافیت میں ہم وقت کا ایک نیا محدد بھی استعمال کر سکتے  ہیں جو پرانے  وقت (سیکنڈوں میں) اور پکاڈلی سے  شمال میں فاصلے  (نوری سیکنڈوں میں) کا مجموعہ ہو۔

 

چار ابعادی (Four Dimensional) مکاں میں واقع کسی مقام کا تعین کرتے  ہوئے  چار محددین پر سوچنا ہی اکثر کار آمد ہوتا ہے ، کسی چار ابعادی مکاں کا تصور کرنا تقریباً نا ممکن ہے ، مجھے  ذاتی طور پر تو سہ ابعادی (Three Dimensional) مکاں کا تصور کرنا بھی مشکل لگتا ہے ، بہرحال دو ابعادی اشکال (Diagrams) بنانے  میں آسان ہوتے  ہیں جیسے  زمین کی سطح کا خاکہ بنانا آسان ہے ، سطح زمین دو ابعادی ہے  کیونکہ کسی نقطے  کے  مقام کا تعین دو محدد یعنی عرض بلد (Latitude) اور طول بلد (Longitude) سے  ہو سکتا ہے ، میں عموماً ایسی اشکال استعمال کروں گا جن میں زمان عمودی طور پر بڑھتا ہے  اور مکاں کا ایک بعد (Dimension) افقی طور پر دکھایا جاتا ہے ، مکاں کا دوسرا بعد نظر انداز کر دیا جاتا ہے  یا کبھی ان میں سے  ایک کی نشاندہی تناظر (Perspective) میں کر دی جاتی ہے ، یہ مکانی – زمانی اشکال (Space – Time Diagram) ‎ کہلاتی ہیں جیسے  شکل 2.1 مثال کے  طور پر شکل 2.2 میں وقت کی پیمائش عمودی طور پر سالوں میں کی گئی ہے  اور فاصلہ سورج سے  نیر قنطورس تک لکیر کے  ساتھ افقی طور پر میلوں میں ناپا گیا ہے :

 

FIGURE 2.2

 

 

 

زمان و مکان میں سورج اور نیر قنطورس جھرمٹ کے  راستے  خاکے  کے  دائیں اور بائیں عمودی لکیروں کی طرح دکھائے  گئے  ہیں، سورج سے  روشنی کی شعاع وتری لکیر (Diagonal Line) اختیار کرتی ہے  اور نیر قنطورس جھرمٹ تک پہنچنے  میں چار سال لیتی ہے ۔

 

جیسا کہ ہم دیکھ چکے  ہیں میکسویل کی مساوات نے  نشاندہی کی تھی کہ روشنی کی رفتار یکساں ہو گی چاہے  اس کی منبع کی رفتار کچھ بھی ہو اور یہ بات اب درست پیمائشوں سے  ثابت ہو چکی ہے ، اس کا مطلب ہے  اگر روشنی کی ایک کرن ایک خاص وقت میں سپس کے  ایک خاص نقطے  سے  خارج ہو، تو وقت گزرنے  کے  ساتھ ساتھ یہ ایک کرہ نور کی طرح پھیل جائے  گی جس کی جسامت (Size) اور مقام اس کے  منبع کی رفتار سے  آزاد ہوں گے ، سیکنڈ کے  دس لاکھویں (One Millionth) حصے  کے  بعد روشنی پھیل کر ٣٠٠ میٹر نصف قطر کا ایک کرہ تشکیل دے  چکی ہو گی، بیس لاکھویں حصے  کے  بعد اس کا نصف ٦٠٠ میٹر ہو جائے  گا جو بتدریج بڑھتا رہے  گا، یہ بالکل ایسا ہی ہے  جیسے  تالاب میں پتھر پھینکنے  سے  سطح آب پر لہروں کا پھیلنا، وقت گزرنے  کے  ساتھ ساتھ دائرے  کے  بڑے  ہونے  پر یہ لہریں پھیلتی ہیں، اگر تالاب کی دو ابعادی سطح اور ایک ابعادی وقت پر مشتمل تین ابعادی نمونے  (Model) پر غور کریں تو لہروں کا پھیلتا ہوا دائرہ مخروطیہ (Cone) کی شکل اختیار کرے  گا جس کی نوک (Tip) اس وقت اور مقام پر ہو گی جہاں پتھر پانی میں گرا تھا (شکل 2.3):

 

FIGURE 2.3

اسی طرح کسی واقعے  سے  پھیلنے  والی روشنی چار ابعادی مکان – زمان میں تین ابعادی کون تشکیل دیتی ہے  جو واقعے  کے  مستقبل کی نوری مخروط (Light Cone) کہلاتی ہے ، اسی طرح ہم ایک اور مخروط بنا سکتے  ہیں جو ماضی کی نوری مخروط ہو گی، یہ ان واقعات کا مرقع (Set) ہے  جن سے  روشنی کی کرن مذکورہ واقعے  تک پہنچتی ہے  (خاکہ 2.4):

 

FIGURE 2.4

 

ایک واقع ‘P’ کی ماضی اور مستقبل کی نوری مخروطیں مکان – زمان کو تین اقلیم میں تقسیم کر دیتی ہیں (شکل 2.5):

 

FIGURE 2.5

 

واقعے  کا مطلق مستقبل ‘P’ کے  مستقبل نوری مخروط کے  اندر کا علاقہ ہو گا، یہ ان تمام واقعات کا مرقع ہے  جو ‘P’ پر وقوع پذیر ہونے  والے  واقعے  سے  متاثر ہو سکتے  ہیں، ‘P’ کی نوری مخروط سے  باہر ہونے  والے  واقعات تک ‘P’ کے  اشارے  (SIGNAL) نہیں پہنچ سکتے ، کیونکہ کوئی بھی شئے  روشنی سے  زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی، اس لئے  ‘P’ پر ہونے  والے  واقعات کا اثر ان پر نہیں پڑ سکتا ‘P’ کا مطلق ماضی، ماضی کی نوری مخروط کا اندرونی علاقہ ہے ، یہ ان تمام واقعات کا مرقع ہے  جن کے  اشارے  روشنی کی رفتار یا اس سے  کم رفتار سے  سفر کرتے  ہوئے  ‘P’ تک پہنچ سکتے  ہیں، لہذا یہ ان تمام واقعات کا مرقع ہے  جو ممکنہ طور پر ‘P’ پر ہونے  والی چیزوں کو متاثر کر سکتے  ہیں، اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ‘P’ کے  ماضی کی نوری مخروط کی سپیس میں واقع اقلیم میں ہر جگہ کیا ہو رہا ہے  تو پھر ہم پیش گوئی کر سکتے  ہیں کہ ‘P’ میں کیا ہونے  والا ہے ، باقی جگہ مکان – زمان کا وہ علاقہ ہے  جو ‘P’ کے  ماضی یا مستقبل کی نوری مخروط میں نہیں ہے  اور جہاں کے  واقعات ‘P’ پر ہونے  والے  واقعات سے  نہ تو متاثر ہو سکتے  ہیں اور نہ ہی انہیں متاثر کر سکتے  ہیں، مثلاً اگر اسی لمحے  سورج چمکنا بند کر دے  تو اس کا اثر زمینی واقعات پر اس وقت نہیں پڑے  گا کیونکہ وہ سورج کے  بجھتے  وقت کہیں اور ہوں گے  (شکل 2.6):

 

 

 

FIGURE 2.6

 

ہم ان کے  بارے  میں آٹھ منٹ بعد ہی جان سکیں گے  کیونکہ یہی وہ وقت ہے  جو روشنی کو سورج سے  ہم تک پہنچنے  میں لگتا ہے  اور صرف اسی وقت زمین کے  واقعات سورج کے  بجھنے  کے  واقعے  کی مستقبل کی نوری مخروط میں ہوں گے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے  کہ اس وقت کائنات میں کیا ہو رہا ہے ، جو روشنی ہم دور دراز کہکشاؤں سے  آتی ہوئی دیکھتے  ہیں دراصل وہ لاکھوں سال پہلے  ان سے  نکلی تھی اور جو دور ترین اجرامِ فلکی ہم دیکھ چکے  ہیں ان کی روشنی کوئی آٹھ ارب سال پہلے  وہاں سے  نکلی تھی، چنانچہ جب ہم کائنات کو دیکھتے  ہیں تو دراصل ہم یہ دیکھ رہے  ہوتے  ہیں کہ یہ ماضی میں کیسی تھی۔

اگر ہم تجاذب یا کششِ ثقل کے  اثرات کو نظر انداز کر دیں جیسا کہ آئن سٹائن اور پوائن کارے  (POINCARE) نے  ١٩٠۵ء میں کیا تھا تو ہمارے  ہاتھ اضافیت کا خصوصی نظریہ آ جائے  گا، مکان – زمان کے  ہر واقعے  کے  لیے  ہم ایک نوری مخروط بنا سکتے  ہیں (یعنی اس موقعے  پر خارج ہونے  والے  تمام ممکنہ راستوں کا مرقع) اور چونکہ روشنی کی رفتار ہر واقعے  اور ہر سمت سے  یکساں ہوتی ہے  اس لیے  تمام نوری مخروط ایک جیسی ہوں گی اور ایک ہی سمت میں اشارہ کریں گی، یہ نظریہ ہمیں یہ بتاتا ہے  کہ کوئی بھی چیز روشنی سے  زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی، اس کا مطلب یہ ہے  کہ مکان اور زمان میں ہر شئے  کا راستہ اس لکیر سے  پیش کیا جا سکتا ہے  جو نوری مخروط میں اس کے  اندر ہر واقعے  پر ہو۔

 

اضافیت کے  خصوصی نظریے  نے  بڑی کامیابی سے  اس بات کی تشریح کی کہ تمام مشاہدہ کرنے  والوں کے  لیے  روشنی کی رفتار سب کو یکساں لگتی ہے  (جیسا کہ مائیکل سن – مورلے  تجربے  نے  دکھایا تھا) اور یہ کہ اگر چیزیں تقریباً روشنی کی رفتار سے  سفر کریں تو ان پر کیا گزرتی ہے ، بہرصورت یہ بات نیوٹن کے  تجاذب کے  نظریے  سے  مطابقت نہیں رکھتی تھی جس کی رو سے  اشیاء کی قوتِ کشش کا انحصار ان کے  درمیان فاصلے  پر ہوتا ہے  اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم ایک شئے  کو حرکت دیں تو دوسری شئے  پر پڑنے  والی قوت میں فوراً تبدیلی آئے  گی یا دوسرے  لفظوں میں تجاذب کے  اثرات لامتناہی رفتار سے  سفر کریں گے  جبکہ اضافیت کے  خصوصی نظریے  کے  مطابق انہیں روشنی کے  برابر یا اس سے  کم رفتار سے  سفر کرنا چاہیے ، آئن سٹائن کے  اضافیت کے  خصوصی نظریے  سے  مطابقت رکھنے  والے  تجاذب کا نظریہ دریافت کرنے  کے  لیے  ١٩٠٨ء اور ١٩١۴ء کے  دوران کئی ناکام کوششیں کیں، آخر کار ١٩١۵ء میں اس نے  جو نظریہ پیش کیا ہم اسے  آج اضافیت کا عمومی نظریہ (General Theory of Relativity)‎ کہتے  ہیں۔

آئن سٹائن نے  یہ انقلابی تصور پیش کیا تھا کہ تجاذب دوسری قوتوں کی مانند کوئی قوت نہیں ہے ، بلکہ یہ اس حقیقت کا نتیجہ ہے  کہ مکان – زمان چپٹے  نہیں ہیں جیسا کہ پہلے  سمجھا جاتا تھا بلکہ وہ تو خمدار یا ٹیڑھے  (Warped) ہیں اور یہ کمیت تقسیم اور توانائی کی وجہ سے  ہے ، زمین جیسے  اجسام تجاذب کی وجہ سے  خمدار مداروں پر حرکت کرنے  کی بجائے  خمدار مکاں میں تقریباً سیدھا راستہ اختیار کرتے  ہیں جسے  تقسیم الارضی (Geodesic) کہتے  ہیں، ایک تقسیم ارضی دو قریبی نقطوں کے  درمیان مختصر ترین (یا طویل ترین) راستہ ہوتی ہے  مثلاً زمین کی سطح دو ابعادی اور خمدار ہے  جس پر تقسیم ارضی ایک عظیم دائرے  کو کہتے  ہیں جو دو نقطوں کے  درمیان مختصر ترین راستہ ہے  (خاکہ 2.8):

FIGURE 2.7

 

 

FIGURE 2.8

 

تقسیم ارضی دو ہوائی اڈوں کے  مابین مختصر ترین راستہ ہے  اس لئے  یہی وہ راستہ ہے  جس پر کوئی فضائی جہاز ران (Airline Navigator) کسی ہوا باز کو پرواز کا مشورہ دیتا ہے ، عمومی اضافیت میں اجسام ہمیشہ چار ابعادی مکان – زمان میں خط مستقیم میں سفر کرتے  ہیں مگر ہمیں ایسا لگتا ہے  جیسے  وہ ہمارے  سہ ابعادی مکاں میں خمدار راستوں پر چل رہے  ہیں (یہ ایسا ہی ہے  جیسے  ہم کسی طیارے  کو پہاڑی علاقے  پر اڑتا ہوا دیکھیں، حالانکہ وہ سہ ابعادی مکاں میں خط مستقیم پر چلتا ہے  مگر اس کا سایہ دو ابعادی زمین پر خمدار راستہ اختیار کرتا ہے )۔

 

سورج کی کمیت مکان – زمان کو کچھ اس طرح خم دیتی ہے  کہ زمین چار ابعادی مکان – زمان میں خط مستقیم اختیار کرنے  کے  باوجود ہمیں تین ابعادی مکاں میں گول مدار پر حرکت کرتی نظر آتی ہے ، حقیقت میں عمومی اضافیت اور نیوٹن کے  نظریہ تجاذب نے  سیاروں کے  جن مداروں کی نشاندہی کی ہے  وہ تقریباً ایک جیسے  ہیں، جہاں تک عطارد (Mercury) کا تعلق ہے  تو وہ سورج کا قریب ترین سیارہ ہونے  کی وجہ سے  تجاذب کے  طاقتور ترین اثرات محسوس کرتا ہے  اور اس کا مدار بھی بہت حد تک (Elongated) ہے ، عمومی اضافیت پیش گوئی کرتی ہے  کہ بیضوی شکل کا طویل محور سورج کے  گرد دس ہزار سال میں ایک درجے  کی شرح سے  گردش کرے  گا، اگرچہ یہ اثر بے  حد معمولی ہے  مگر یہ ١٩١۵ء سے  پہلے  ہی معلوم کیا جا چک تھا اور یہ آئن سٹائن کے  نظریے  کی اولین تصدیقوں میں سے  ایک تصدیق تھی، حالیہ برسوں میں دوسرے  سیاروں کے  مداروں کا معمولی سا تجاذب بھی راڈار (RADAR) سے  ناپا گیا ہے  اور عمومی اضافیت کی پیش گوئیوں کے  مطابق پایا گیا ہے ۔

 

روشنی کی شعاعیں بھی مکان – زمان کی تقسیم ارضی کے  مطابق چلنی چاہئیں، یہاں بھی مکاں کے  خمدار ہونے  کا مطلب یہ ہے  کہ اب اس میں روشنی خط مستقیم میں سفر کرتی دکھائی دیتی ہے ، چنانچہ عمومی اضافیت پیش گوئی کرتی ہے  کہ تجاذبی میدانوں (Gravitational Fields) کے  زیرِ اثر روشنی خم کھا جائے  گی، مثلاً اضافیت کا نظریہ پیش گوئی کرتا ہے  کہ سورج کے  قریب واقع نقطوں میں نوری مخروط (Cone Light) سورج کی کمیت کے  باعث کچھ اندر کی طرف مڑی ہوئی ہو گی، اس کا مطلب ہے  کہ کسی دور دراز ستارے  کی روشنی سورج کے  قریب سے  گزرتے  ہوئے  ایک خفیف سے  زاویے  پر خم کھا جائے  گی اور زمین پر مشاہدہ کرنے  والوں کو ستارہ اپنے  مقام سے  مختلف مقام پر دکھائی دے  گا (شکل ٢.٩):

 

FIGURE 2.9

 

بلا شبہ اگر ستارے  کی روشنی ہمیشہ ہی سورج کے  قریب سے  گزرے  تو ہم یہ نہیں بتا سکیں گے  کہ آیا روشنی خم کہا رہی ہے  یا اس کی بجائے  ستارہ واقعی وہاں موجود ہے  جہاں ہم اسے  دیکھتے  ہیں، بہر صورت چونکہ زمین سورج کے  گرد گھومتی ہے  تو مختلف ستارے  سورج کے  عقب میں جاتے  نظر آتے  ہیں اور بظاہر ان کی روشنی مڑ جاتی ہے  اس طرح ان کے  مقام دوسرے  ستاروں کی نسبت بظاہر بدل جاتے  ہیں۔

 

عام طور پر یہ اثر دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے  کیونکہ سورج کے  قریب نظر آنے  والے  ستارے  سورج کی روشنی کی وجہ سے  دکھائی ہی نہیں دیتے ، تاہم سورج گرہن کے  دوران یہ ممکن ہے  جب سورج کی روشنی چاند کی وجہ سے  رک جاتی ہے ، روشنی کے  مڑ جانے  کے  بارے  میں آئن سٹائن کی پیش یا پیشین گوئی عمودی طور پر ١٩١۵ء میں تو جانچی نہ جا سکی کیونکہ پہلی جنگِ عظیم جاری تھی، ١٩١٩ء میں مغربی افریقہ میں گرہن کا مشاہدہ کرنے  والی ایک برطانوی مہم نے  بتایا کہ واقعی نظریے  کی پیشین گوئی کے  مطابق سورج روشنی کی موڑ دیتا ہے ، اس جرمن نظریے  کے  برطانوی سائنس دانوں کی تصدیق نے  جنگ کے  بعد دونوں ممالک کے  درمیان مصالحانہ عمل کے  طور پر خاصی پذیرائی حاصل کی، ستم ظریفی یہ ہے  کہ اس مہم کے  دوران کھینچی جانی والی تصویروں کی مزید جانچ پڑتال سے  یہ پتہ چلا کہ جتنے  بڑے  اثرات کی پیمائش وہ کرنا چاہتے  تھے  اتنی ہی بڑی غلطیاں بھی تھیں یہ پیمائشیں تو ایک حسنِ اتفاق ہی تھا چونکہ وہ پہلے  ہی سے  یہ نتیجہ حاصل کرنا چاہتے  تھے ، سائنس میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے  تاہم روشنی کا مڑنا بعد کے  تجربات سے  بالکل درست ثابت ہو چکا ہے ۔

 

عمومی اضافیت کی ایک اور پیشین گوئی یہ بھی ہے  کہ زمین جیسے  وزنی اجسام کے  قریب وقت کو بظاہر آہستہ گزرنا چاہیے  ایسا اس لیے  ہے  کہ روشنی کی توانائی اور اس کی تعدد (Frequency) (یعنی فی سیکنڈ روشنی کی لہروں کی تعداد) میں ایک تعلق ہے ، توانائی جتنی زیادہ ہو گی تعدد بھی اسی حساب سے  زیادہ ہو گا، جب روشنی زمینی کشش کے  میدان میں  (Earth Gravitational Field)‎ عمودی سفر کرتی ہے  تو اس کی توانائی کم ہوتی جاتی ہے  اور تعدد بھی کم ہوتا جاتا ہے  اس کا مطلب ہے  کہ ایک اوجی لہر (Crest Wave) سے  اگلی اوجی لہر کا درمیانی وقت بڑھ جاتا ہے ، بہت اونچائی سے  دیکھنے  والے  کو لگے  گا جیسے  زمین پر ہر چیز کو وقوع پذیر ہونے  میں خاصہ وقت لگ رہا ہے ، یہ پیشین گوئی ١٩٦٢ء میں بہت درست گھڑیوں کے  استعمال سے  صحیح ثابت ہوئی، ایک گھڑی مینار کے  اوپر جبکہ دوسری نیچے  رکھی گئی تھی، نیچے  رکھی جانے  والی گھڑی جو زمین کے  قریب تر تھی عمومی اضافیت کے  مطابق آہستہ چلتی ہوئی پائی گئی، زمین کے  اوپر مختلف بلندیوں پر گھڑی کی رفتار میں فرق اب خاصی عملی اہمیت کا حامل ہے  کیونکہ مصنوعی سیاروں کے  اشارات پر چلنے  والے  جہاز رانی کے  نظام اب انتہائی درست کام کر رہے  ہیں، اگر عمومی اضافیت کی پیش یا پیشین گوئیاں نظر انداز کر دی جائیں تو اعداد و شمار کے  مطابق نکالے  جانے  والے  مقام میں کئی میل کا فرق آ جائے  گا۔

 

نیوٹن کے  قوانینِ حرکت نے  مکاں میں مطلق مقام کے  تصور کا خاتمہ کر دیا اور اضافیت کے  نظریے  نے  مطلق زمان سے  نجات حاصل کر لی، ایک جڑواں جوڑے  کا تصور کیجیے ، فرض کریں ان میں سے  ایک پہاڑی کی چوٹی پر رہنے  چلا جاتا ہے  اور دوسرا سمندر کے  قریب رہتا ہے ، پہلے  کی عمر دوسرے  کی نسبت تیزی سے  بڑھے  گی اس طرح اگر ان کی دوبارہ ملاقات ہو تو ایک دوسرے  سے  زیادہ معمر ہو گا، اس صورت میں عمروں کا فرق تو بہت معمولی ہو گا لیکن اگر ان میں سے  ایک تقریباً روشنی کی رفتار سے  مکاں کے  اندر کسی خلائی جہاز کے  ذریعے  سفر پر چلا جائے  تو یہ فرق بہت بڑھ جائے  گا اور واپسی کے  بعد وہ زمین پر رہنے  والے  سے  بہت کم عمر ہو گا اسے  جڑواں کا متناقضہ (Twins Paradox) کہا جاتا ہے  مگر یہ اسی صورت میں متناقضہ ہو گا جب ہمارے  ذہن میں کہیں مطلق وقت کا تصور مخفی ہو، اضافیت کے  نظریے  میں کوئی منفرد مطلق وقت نہیں ہے  بلکہ اس کی بجائے  ہر فرد کا اپنا ذاتی پیمانہ وقت ہوتا ہے  جس کا انحصار اس پر ہے  کہ وہ کہاں ہے ، کیسے  حرکت کر رہا ہے ۔

 

١٩١۵ء سے  پہلے  مکان و زمان ایک متعین میدان عمل سمجھے  جاتے  تھے  جن میں واقعات تو وقوع پذیر ہوتے  تھے  مگر ان پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا حتی کہ یہ بات اضافیت کے  خصوصی نظریے  پر بھی صادق آتی تھی، اجسام حرکت کرتے ، قوتیں کشش رکھتیں یا گریز کرتیں، مگر مکان اور زمان ان سب سے  بے  نیاز رواں دواں رہتے  اور ان پر کچھ اثر نہ پرتا، یہ سوچنا گویا قدرتی امر تھا کہ مکان اور زمان ازل سے  ابد تک رہیں گے ۔

 

تاہم اضافیت کے  عمومی نظریے  میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے ، اب مکان اور زمان حرکی مقداریں (Dynamic Quantities) ہیں، جب ایک جسم حرکت کرتا ہے  یا قوت عمل پذیر ہوتی ہے  تو مکان اور زمان کے  خم (Curvature) پر اثر پڑتا ہے  اور جواباً مکان – زمان کی ساخت اجسام کی حرکت اور قوت کے  عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ، مکان اور زمان وقوع پذیر ہونے  والی ہر چیز پر صرف اثر انداز ہی نہیں ہوتے  بلکہ ان سے  متاثر بھی ہوتے  ہیں جس طرح ہم کائنات میں ہونے  والے  واقعات کا ذکر مکان اور زمان کے  بغیر نہیں کر سکتے ، اسی طرح عمومی اضافیت میں مکان اور زمان کا ذکر کائنات کی حدود سے  ماورا بے  معنی ہو جاتا ہے ۔

 

بعد کے  عشروں میں مکان و زمان کی اس نئی تفہیم نے  ہمارے  کائنات کے  نقطۂ نظر میں انقلاب برپا کر دیا، ایک بنیادی طور پر غیر متغیر اور ازل سے  ابد تک قائم رہنے  والی کائنات کا قدیم تصور تبدیل ہو گیا اور اس کی جگہ ایک حرکی اور پھیلتی ہوئی کائنات نے  لے  لی، جو لگتا ہے  کہ ماضی میں ایک خاص وقت پر آغاز ہوئی تھی اور مستقبل کی ایک خاص ساعت میں ختم ہو سکتی ہے ، یہی انقلاب ہمارے  اگلے  باب کا موضوع ہے  اور برسوں بعد اسی کو نظریاتی طبیعیات میں میرے  کام کا نقطۂ آغاز ہونا تھا، راجر پن روز  (Rogerpen Rose) ‎ اور میں نے  یہ بتایا کہ آئن سٹائن کے  عمومی نظریہ اضافیت کے  مطابق کائنات کا آغاز ہونا ضروری ہے  اور ممکنہ طور پر اس کا ایک انجام بھی ہے ۔

 

 

تیسرا باب: پھیلتی ہوئی کائنات

 

ایک شفاف رات میں جب چاند نہ نکلا ہو اگر کوئی آسمان کو دیکھے  تو سب سے  زیادہ روشن اجسام ممکنہ طور پر زہر، مشتری، اور زحل سیارے  ہی نظر آئیں گے ، ایک بہت بڑی تعداد ستاروں کی بھی ہو گی جو ہمارے  سورج کی طرح ہیں مگر ہم سے  بہت دور واقع ہیں، ان جامد ستاروں میں سے  بعض ایسے  بھی ہیں جو ایک دوسرے  کی نسبت سے  اپنے  مقام تبدیل کرتے  ہوئے  نظر آتے  ہیں اور یہ اس وجہ سے  ہوتا ہے  کہ زمین اپنے  مدار پر سورج کے  گرد گردش کرتی ہے ، یہ ستارے  حقیقت میں قطعاً جامد نہیں ہیں، ایسا اس لیے  ہے  کہ وہ نسبتاً ہم سے  قریب واقع ہیں، جب زمین سورج کے  گرد گھومتی ہے  تو ہم انہیں دور تر ستاروں کے  پس منظر کے  سامنے  مختلف مقامات سے  دیکھتے  ہیں، خوش قسمتی سے  یہ ہمیں اس قابل بناتی ہے  کہ ہم اپنے  آپ ان ستاروں کا فاصلہ براہ راست ناپ سکیں، یہ جتنے  قریب ہوں گے  اتنے  ہی متحرک معلوم ہوں گے ، قریب ترین ستارہ بروکسیما قنطور (Proxima Centauri) تقریباً چار نوری سال کے  فاصلے  پر پایا گیا ہے  (اس کی روشنی زمین تک پہنچنے  میں چار سال لیتی ہے ) یا تقریباً ٢٣٠ کھرب میل Million Million Miles)23) ‎ زیادہ تر ستارے  جن کو ہم اپنی آنکھ سے  دیکھ سکتے  ہیں ہم سے  چند نوری سال کے  اندر واقع ہیں، موازنے  کے  طور پر ہمارا سورج ہم سے  صرف آٹھ نوری منٹ دور ہے ، دکھائی دینے  والے  ستارے  پورے  آسمان شب پر پھیلے  ہوئے  ہیں مگر خاص طور پر ایک جتھے  میں مرتکز ہیں جسے  ہم مجرہ یا اکاس گنگا (Milkyway) کہتے  ہیں، بہت پہلے  ١٧۵٠ء میں بعض ماہرینِ فلکیات یہ تجویز کر رہے  تھے  کہ مجرہ کی تشریح کی جا سکتی ہے  اگر نظر آنے  والے  زیادہ تر ستارے  ایک طشتری نما ترتیب میں ہوں! جس کی ایک مثال کو ہم اب مرغولی (Spiral) کہکشاں کہتے  ہیں، صرف چند عشروں بعد فلکیات دان سر ولیم ہرشل  (Sir William Herschel)  نے  بڑی محنت سے  ستاروں کی وسیع تعداد کے  فاصلوں اور مقامات کو مرتب کر کے  اپنے  خیال کی تصدیق کی، پھر بھی یہ خیال اس صدی کے  اوائل ہی میں پوری طرح مقبولِ عام ہوا۔

 

ہماری جدید تصویرِ کائنات صرف ١٩٢۴ء ہی میں بنی جب امریکی فلکیات دان ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے  بتایا کہ ہماری کہکشاں اکلوتی نہیں ہے ، در حقیقت بہت سی اور کہکشائیں بھی ہیں جو ایک دوسرے  کے  درمیان خالی جگہ (Empty Space) کے  وسیع خطے  رکھتی ہیں، یہ ثابت کرنے  کے  لیے  ضروری تھا کہ وہ ان دوسری کہکشاؤں کے  فاصلے  معلوم کرتا جو اتنی دور ہیں کہ قریبی ستاروں کے  برعکس حقیقتاً جامد معلوم ہوتی ہیں، اس لیے  ہبل مجبور تھا کہ وہ فاصلہ ناپنے  کے  لیے  بالواسطہ طریقے  اپنائے ، ایک ستارے  کی ظاہری چمک دو عوامل پر منحصر ہوتی ہے ، وہ کتنی روشنی فروزاں کرتا ہے  (Radiates) یعنی اس کی تابانی (Luminosity) کتنی ہے  اور یہ ہم سے  کتنی دور ہے ، قریبی ستاروں کی ظاہری چمک اور فاصلے  ہم ناپ سکتے  ہیں اور یوں ہم ان کی تابانی معلوم کر سکتے  ہیں، اس کے  برعکس اگر ہم دوسری کہکشاؤں میں ستاروں کی تابانی جانتے  ہوں تو ہم ان کی ظاہری چمک ناپ کر ان کے  فاصلے  بھی نکال سکتے  ہیں، ہبل نے  یہ معلوم کیا کہ خاص قسم کے  ستارے  یکساں تابانی رکھتے  ہیں جب وہ ہم سے  اس قدر نزدیک ہوں کہ ہم ان کی پیمائش کر سکتے  ہوں، ہم یہ فرض کر سکتے  ہیں کہ ان کی تابانی یکساں ہے ، اسی لیے  اس نے  دلیل دی کہ اگر ایک اور کہکشاں میں ہم ایسے  ہی ستارے  پائیں تو یہ فرض کر سکتے  ہیں کہ ان کی تابانی یکساں ہے  اس طرح اس کہکشاں کے  فاصلے  کا حساب لگایا جا سکتا ہے ، اگر ہم ایک ہی کہکشاں کے  کئ ستاروں کے  ساتھ یہی عمل دہرائیں اور ہمارے  اعداد و شمار بھی ہمیں ایک سا فاصلہ دیں تو ہم اپنے  اندازے  پر فاصلے  پر اعتماد ہو سکتے  ہیں۔

 

اس طرح ایڈون ہبل نے  نو مختلف کہکشاؤں تک فاصلے  معلوم کیے ، اب ہم جانتے  ہیں کہ ہماری کہکشاں ان چند کھرب کہکشاؤں میں سے  ایک ہے  جو جدید دوربینوں سے  دیکھی جا سکتی ہے  اور ان میں سے  ہر کہکشاں کھربوں ستاروں پر مشتمل ہے ، شکل نمبر ٣.١ میں ایک مرغولی (Spiral) کہکشاں دکھائی گئی ہے  جو ہمارے  خیال میں ایسی ہے  جیسے  کسی اور کہکشاں میں رہنے  والوں کے  لیے  ہماری کہکشاں یوں نظر آتی ہو گی:

 

FIGURE 3.1

 

ہماری کہکشاں کا طول تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے  اور یہ آہستہ آہستہ گھوم رہی ہے ، اس کے  مرغولی بازوؤں میں ستارے  اس کے  مرکز کے  گرد اپنا چکر کئی ارب سالوں میں لگاتے  ہوں گے ، ہمارا سورج ایک عام درمیانی جسامت کا زرد ستارہ ہے  جو ایک مرغولی بازو کے  اندرونی کنارے  کے  قریب ہے ، ہم یقیناً ارسطو اور بطلیموس سے  بہت آگے  آ چکے  ہیں جب ہم سمجھتے  تھے  کہ زمین مرکزِ کائنات ہے ۔

 

ستارے  اس قدر دور ہیں کہ وہ ہمیں فقط روشنی کے  نقطے  نظر آتے  ہیں ہم ان کی جسامت یا شکل نہیں دیکھ سکتے  تو ہم مختلف اقسام کے  ستاروں کو الگ الگ کیسے  بتا سکتے  ہیں؟ ستاروں کی وسیع اکثریت کے  لیے  ہم صرف ایک امتیازی خصوصیت کا مشاہدہ کر سکتے  ہیں جو ان کی روشنی کے  رنگ سے  نیوٹن نے  دریافت کیا تھا کہ اگر سورج کی روشنی تکونی شیشے  میں سے  گزرے  جسے  منشور (PRISM) کہا جاتا ہے  تو اس کے  اجزا مختلف رنگوں کی دھنک میں بکھر جاتے  ہیں جس طرح طیف (SPECTRUM) کے  سلسلے  میں ہوتا ہے  کسی ایک ستارے  یا کہکشاں کی طرف دور بین لگا کر اس کی روشنی کے  طیف کا مشاہدہ بھی اس طرح کیا جا سکتا ہے ، مختلف ستاروں کے  طیف مختلف ہوتے  ہیں مگر مختلف رنگوں کی نسبتاً مختلف چمک ہمیشہ کسی سرخ دہکتے  ہوئے  جسم سے  خارج ہونے  والی روشنی کی طرح ہوتی ہے ، در حقیقت کسی نا شفاف (Opaque) جسم سے  خارج ہونے  والی روشنی جو دہکتے  ہوئے  سرخ رنگ کی ہوتی ہے  اور اس کا خصوصی طیف ہوتا ہے  جس کا انحصار صرف اس کی حرارت پر ہوتا ہے ، اسے  حرارتی طیف (Thermal Spectrum) کہا جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے  کہ ہم کسی ستارے  کے  طیف سے  اس روشنی کا درجہ حرارت بتا سکتے  ہیں، ہمیں مزید یہ پتہ چلا ہے  کہ چند مخصوص رنگ ستاروں کے  طیف سے  غائب ہوتے  ہیں جو ہر ستارے  میں مختلف ہو سکتے  ہیں، چونکہ ہم جانتے  ہیں کہ ہر کیمیائی عنصر رنگوں کا ایک مخصوص سیٹ جذب کرتا ہے ، ان رنگوں کا موازنہ کر کے  جو ستارے  کے  طیف سے  غائب ہیں ہم ستارے  کی فضا کے  اندر موجود اجزاء کا ٹھیک ٹھیک تعین کر سکتے  ہیں۔

 

١٩٢٠ء کے  عشرے  میں جب فلکیات دانوں نے  کہکشاؤں کے  ستاروں کے  طیف دیکھنے  شروع کیے  تو انہیں ایک انوکھی بات معلوم ہوئی کہ وہاں بھی ایسے  ہی امتیازی رنگ غائب تھے  جیسے  کہ ہماری کہکشاں کے  ستاروں سے  غائب تھے ، مگر وہ سب یکساں مقدار کی نسبت طیف کے  سرخ کنارے  کی طرف منتقل ہوتے  تھے ، اس کا مفہوم سمجھنے  کے  لیے  ہمیں ڈوپلر اثر (Doppler Effect) کو سمجھنا ہو گا، جیسا کہ ہم دیکھ چکے  ہیں قابلِ دید روشنی برقی مقناطیسی (Electro Magnetic) میدان میں اتار چڑھاؤ (Fluctuation) یا لہروں پر مشتمل ہوتی ہے ، روشنی کا تعدد (فی سیکنڈ لہروں کی تعداد) بہت تیز ہوتا ہے  جو فی سیکنڈ چار سے  سات ہزار کھرب (Hundred Million Million) لہروں تک ہوتا ہے ، روشنی کے  مختلف تعدد انسانی آنکھ مختلف رنگوں کی شکل میں دیکھتی ہے ، سب سے  کم تعدد طیف کے  سرخ کنارے  پر اور تیز ترین تعدد نیلے  کنارے  پر ہوتا ہے ، اب ایک ستارہ جسے  روشنی کا منبع تصور کیجیے  جو ہم سے  مستقل فاصلے  پر ہو اور وہ مستقل تعدد سے  روشنی کی لہریں خارج کرتا ہے ، ظاہر ہے  کہ جس تعدد سے  لہریں خارج ہوں گی اسی تواتر سے  ہم انہیں وصول کریں گے  (کہکشاں کا تجاذبی میدان کوئی خاص اثر ڈالنے  کے  قابل نہیں ہو گا) اب فرض کریں کہ روشنی کا منبع ہماری طرف بڑھتا ہے  اور جب وہ اگلا لہری اوج (Crest) خارج کرتا ہے  تو ہم سے  قریب تر ہو جاتا ہے ، اس طرح اس کے  ہم تک پہنچنے  کا وقت اس وقت سے  کم ہو جائے  گا جب منبع ساکن تھا۔

 

اس کا مطلب ہے  کہ دو لہری اوجوں کے  ہم تک پہنچنے  کا وقت کم تر ہے  اس لیے  ہم تک پہنچنے  والی لہروں کی فی سیکنڈ تعداد یعنی تعدد اس سے  زیادہ ہو گی جب ستارہ ساکن تھا، اسی طرح اگر منبع دور جا رہا ہو تو ہم تک پہنچنے  والی لہروں کا تعدد پست ہو گا، اس لیے  روشنی کے  سلسلے  میں اس کا مطلب ہے  کہ ہم سے  دور جانے  والے  ستاروں کے  طیف سرخ کناروں کی طرف مائل (Red Shifted) ہوں گے ، اور ہماری طرف آنے  والے  ستاروں کے  طیف نیلی طرف مائل (Blue Shifted) ہوں گے ، تعدد اور رفتار کے  ما بین یہ تعلق ہے  جسے  ہم ڈوپلر اثر (Doppler Effect) کہتے  ہیں جو ایک روز مرہ کا تجربہ ہے ، سڑک پر جانے  والی کار کی آواز سنیں تو کار کے  قریب آنے  پر انجن کی آواز تیز لگتی ہے  (جو صوتی لہروں کے  نسبتاً تیز تعدد کے  مطابق ہے ) اور جب وہ گزر کر دور چلی جاتی ہے  تو آواز ہلکی ہو جاتی ہے ، روشنی یا ریڈیائی لہریں بھی ایسا ہی کرتی ہیں، کاروں کی رفتار ناپنے  کے  لیے  پولیس ڈوپلر اثر ہی استعمال کرتی ہے  اور کاروں سے  ٹکرا کر واپس آنے  والی ریڈیائی لہروں کے  تعدد کو ناپتی ہے ۔

 

دوسری کہکشاؤں کا وجود ثابت کرنے  کے  بعد، ہبل نے  اپنا وقت ان کے  فاصلے  مرتب کرنے  اور ان کے  طیف کا مشاہد کرنے  پر صرف کیا، اس زمانے  میں اکثر لوگوں کو توقع تھی کہ کہکشائیں بالکل بے  ترتیبی سے  گھوم رہی ہیں اور ان کو توقع تھی کہ نیلی طرف مائل کہکشائیں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں گی جتنی کہ سرخ طرف مائل کہکشائیں ہیں پھر یہ بات حیران کن تھی کہ وہ کہکشائیں جو ہم سے  دور جا رہی تھیں ان میں سے  اکثر سرخی مائل نک لیں، ١٩٢٩ء میں ہبل نے  مزید حیرت انگیز دریافت شائع کی کہ کہکشاؤں کے  سرخی مائل ہونے  کی جسامت بے  تکی نہیں ہے  بلکہ یہ ہم سے  کہکشاں تک کے  فاصلے  کے  براہ راست متناسب ہے  یا دوسرے  الفاظ میں کہکشاں جتنی دور ہے  اتنی ہی تیزی سے  مزید دور جا رہی ہے  اور اس کا مطلب تھا کہ کائنات ساکن نہیں ہو سکتی، جیسا کہ پہلے  سمجھا جاتا تھا، بلکہ در حقیقت یہ پھیل رہی ہے  اور مختلف کہکشاؤں کا درمیانی فاصلہ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔

 

یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے  بیسویں صدی کے  عظیم فکری انقلابات میں سے  ایک تھی، بعد ازیں اس بات پر حیران ہونا آسان ہے  کہ پہلے  کسی نے  یہ کیوں نہ سوچا، نیوٹن اور دوسروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے  تھی کہ ایک ساکن کائنات تجاذب کے  تحت فوراً ہی سکڑنا شروع ہو جائے  گی، لیکن اس کے  برعکس فرض کریں کہ کائنات پھیل رہی ہے ، اگر وہ خاصی آہستگی سے  پھیل رہی ہے  تو تجاذب کی قوت اسے  پھیلنے  سے  روک کر سکڑنے  پر مجبور کر دے  گی، بہرحال اگر یہ کسی خاص شرح سے  زیادہ تیزی سے  پھیل رہی ہے  تو تجاذب کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہو گا کہ اسے  پھیلنے  سے  روک سکے ، اور کائنات ہمیشہ کے  لیے  مسلسل پھیلتی ہی رہے  گی، یہ کچھ اس طرح ہے  جیسے  کسی راکٹ کا سطح زمین سے  اوپر کی طرف چھوڑا جانا، اگر اس کی رفتار خاصی کم ہو تو تجاذب اس راکٹ کو دے  گا اور وہ واپس گرنا شروع ہو جائے  گا، اس کے  برعکس اگر راکٹ ایک خاص فیصلہ کن رفتار تقریباً سات میل فی سیکنڈ سے  زیادہ تیز ہو تو تجاذب کی قوت اتنی طاقتور نہیں ہو گی کہ اسے  واپس کھینچ سکے  چنانچہ وہ ہمیشہ کے  لیے  زمین سے دور ہوتا چلا جائے  گا، نیوٹن کے  نظریہ تجاذب سے  کائنات کے  اس کردار کی نشاندہی اٹھارویں یا انیسویں صدی میں کسی وقت یا سترھویں صدی کے  اواخر میں کی جا سکتی تھی، مگر ساکن کائنات پر یقین اتنا پختہ تھا کہ وہ بیسویں صدی کے  اوائل تک قائم رہا، حتی کہ آئن سٹائن نے  جب ١٩١۵ء میں عمومی نظریہ اضافیت وضع کیا تو اسے  ساکن کائنات پر اتنا یقین تھا کہ اسے  ممکن بنانے  کے  لیے  اس نے  اپنے  نظریے  میں ترمیم کی اور ایک نام نہاد کائناتی مستقل (Cosmological Constant) اپنی مساوات میں متعارف کروایا، آئن سٹائن نے  ایک نئی رد تجاذب (Anti Gravity) قوت متعارف کروائی جو دوسری قوتوں کے  برعکس کسی مخصوص ذریعے  سے  نہیں آتی تھی بلکہ مکان – زمان کی اپنے  تانے  بانے  سے  تشکیل پاتی تھی، اس نے  دعوی کیا تھا کہ پھیلنے  کا رجحان جو مکان – زمان کے  اندر موجود ہے  اور وہ کائنات کے  اندر موجود تمام مادے  کی کشش کو متوازن کر سکتا ہے  تاکہ اس کا نتیجہ ساکن کائنات کی صورت میں نکل سکے ، لگتا ہے  کہ صرف ایک آدمی عمومی اضافیت کو ایسے  ہی قبول کرنے  پر تیار تھا جبکہ آئن سٹائن اور دوسرے  ماہرینِ طبیعیات عمومی اضافیت کی غیر ساکن کائنات سے  بچنے  کی کوشش کر رہے  تھے ، ایک روسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان الیگزینڈر فرائیڈمین (Alexander Friedman) اس کی تشریح کرنے  میں لگا ہوا تھا۔

 

فرائیڈمین نے  کائنات کے  بارے  میں دو بہت سادہ مفروضے  بنائے  تھے ، ہم کسی بھی سمت دیکھیں کائنات ایک جیسی دکھائی دیتی ہے  اور ہم کہیں سے  بھی کائنات کا مشاہدہ کریں یہی بات درست ہو گی، صرف ان دو خیالات سے  فرائیڈمین نے  بتایا کہ ہمیں کائنات کے  ساکن ہونے  کی توقع نہیں رکھنی چاہیے؟ در حقیقت ایڈون ہبل کی دریافت سے  کئی سال قبل ١٩٢٢ء میں ہی فرائیڈمین نے  بالکل وہی پیش گوئی کر دی تھی جسے  ہبل نے  دریافت کیا تھا۔

 

یہ مفروضہ کہ کائنات ہر سمت میں ایک جیسی دکھائی دیتی ہے  واضح طور پر حقیقت میں سچ نہیں ہے ، مثلاً جیسا کہ ہم دیکھ چکے  ہیں کہ ہماری کہکشاں کے  دوسرے  ستارے  رات کو آسمان پر روشنی کی ایک امتیازی پٹی (Band) تشکیل دیتے  ہیں جسے  آکاس گنگا یا مجرہ (Milkyway) کہا جاتا ہے ، لیکن اگر ہم دو کہکشاؤں کو دیکھیں تو ان کی تعداد کم و بیش یکساں معلوم ہوتی ہے  چنانچہ کائنات اندازاً ہر سمت میں یکساں لگتی ہے  بشرطیکہ ان کا مشاہدہ کہکشاؤں کے  درمیانی فاصلے  میں بڑے  پیمانے  پر کیا جائے  اور چھوٹے  پیمانے  پر فرق کو نظر انداز کر دیا جائے ، ایک طویل عرصے  تک یہ بات فرائیڈمین کے  مفروضے  کو حق بجانب ثابت کرنے  کے  لیے  کافی تھی کیونکہ اس میں حقیقی کائنات سے  سرسری مشابہت تھی مگر کچھ عرصہ پہلے  ایک خوشگوار حادثے  نے  یہ حقیقت بے  نقاب کر دی کہ فرائیڈمین کا مفروضہ دراصل ہماری کائنات کی بڑی درست توضیح تھی۔

 

١٩٦۵ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات آرنو پینزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson) نیو جرمنی کی بیل ٹیلیفون لیبارٹریز (Bell Telephone Laboratories)‎ میں ایک نہایت حساس مائیکرو ویو سراغ رساں (Micro Wave Detector) کی آزمائش کر رہے  تھے ، مائیکرو ویو یا خرد موجیں روشنی کی لہروں کی طرح ہوتی ہیں مگر ان کا تعدد دس ارب یا دس ہزار ملین لہریں فی سیکنڈ ہوتا ہے ، پینزریاس اور ولسن نے  جب دیکھا کہ ان کا سراغ رساں کچھ زیادہ ہی شور وصول کر رہا ہے  تو وہ پریشان ہو گئے ، وہ شور بھی بظاہر کسی خاص سمت سے  نہیں آ رہا تھا، پہلے  تو انہیں اپنے  سراغ رساں میں پرندوں کی بیٹیں م لیں اور پھر انہوں نے  دوسری خرابیوں کو بھی پرکھا، مگر جلد ہی انہیں رد کر دیا، وہ جانتے  تھے  کہ اگر سراغ رساں کا رخ بالکل اوپر کی طرف نہ ہو تو فضا کا شور زیادہ طاقتور ہو گا کیونکہ روشنی کی لہریں اگر عین اوپر سے  وصول ہونے  کی بجائے  افق کے  قریب سے  وصول ہوں تو وہ زیادہ فضا سے  گزرتی ہیں، چونکہ سراغ رساں کو کسی بھی سمت کرنے  سے  اضافی شور یکساں تھا اس لیے  وہ ضرور فضا کے  باہر سے  آ رہا تھا، وہ شب و روز اور سال بھر یکساں تھا حالانکہ زمین اپنے  محور پر گھوم رہی تھی اور سورج کے  گرد گردش بھی کر رہی تھی، اس بات نے  ثابت کیا کہ ریڈیائی لہریں (Radiation) ضرور نظامِ شمسی اور حتی کہ کہکشاں کے  پار سے  آ رہی ہیں ورنہ زمین کی حرکت سے  سراغ رساں کی سمتوں میں تبدیلی کے  ساتھ اس میں کچھ فرق پڑنا چاہیے  تھا، در حقیقت ہم جانتے  ہیں کہ ریڈیائی لہریں ضرور قابلِ مشاہدہ کائنات کے  زیادہ تر حصے  کو پار کر کے  ہم تک پہنچتی ہیں اور چونکہ یہ مختلف سمتوں میں بظاہر یکساں معلوم ہوتی ہیں، اس لیے  اگر کائنات کو صرف بڑے  پیمانے  پر دیکھا جائے  تو یہ بھی ضرور ہر سمت میں یکساں ہوں گی، اب ہمیں معلوم ہے  کہ ہم جس سمت میں بھی دیکھیں شور کبھی بھی دس ہزار میں ایک حصے  سے  زیادہ تبدیل نہیں ہوتا، اس طرح پینزریاس اور ولسن نے  اتفاق سے  اچانک فرائیڈمین کے  پہلے  مفروضے  کی انتہائی درست تصدیق حاصل کر لی۔

 

تقریباً اسی وقت ماہرینِ طبیعیات باب ڈک (Bob Dick) اور جم پیبلز (Jim Peebles) بھی قریبی پرنسٹن یونیورسٹی (Princeton University) میں مائیکرو ویو میں دلچسپی لے  رہے  تھے ، وہ جارج گیمو (George Gamow) (جو کبھی الیگزینڈ فرائیڈمین کا شاگرد تھا) کے  اس قیاس پر کام کر رہے  تھے  کہ ابتدائی کائنات بہت گرم کثیف اور دہکتی ہوئی سفید ہونی چاہیے ، ڈک اور پیبلز نے  دلیل دی کہ ہمیں اب بھی ابتدائی کائنات کی دمک (Glow) دکھائی دیتی ہے ، کیونکہ اس کے  دور افتادہ حصوں سے  روشنی ہم تک پہنچ رہی ہے ، تاہم کائنات کے  پھیلاؤ کا مطلب تھا کہ یہ روشنی اتنی زیادہ سرخی مائل ہونی چاہیے  کہ وہ اب ہمیں مائیکرو ویو ریڈیائی (Micro Wave Radiation) ‎ معلوم ہو، ڈک اور پیبلز اس ریڈیائی لہروں کی تلاش کی تیاریاں کر رہے  تھے  کہ پینزیاس اور ولسن نے  ان کے  کام کے  بارے  میں سنا اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ تو پہلے  ہی یہ دریافت کر چکے  ہیں، اس کے  لیے  پینزیاس اور ولسن کو ١٩٧٨ء میں نوبل انعام دیا گیا (جو ڈک اور پیبلز کے  لیے  کچھ گراں تھا گیمو کا تو خیر ذکر ہی کیا)۔

 

اب بادی النظر میں یہ تمام ثبوت کہ ہم جس سمت میں دیکھیں کائنات یکساں دکھائی دیتی ہے  کائنات میں ہمارے  مقام کے  بارے  میں کسی خاص چیز کی نشاندہی کرتے  ہوئے  محسوس ہوتے  ہیں، خاص طور پر ایسا لگتا؟ اگر ہم یہ مشاہدہ کریں کہ تمام کہکشائیں ہم سے  دور جا رہی ہیں تو پھر ہم ضرور کائنات کے  مرکز میں ہوں گے ، پھر بھی ایک اور متبادل تشریح یہ ہے  کہ کسی اور کہکشاں سے  دیکھنے  پر بھی کائنات ہر سمت میں یکساں معلوم ہوتی ہے  اور یہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے  ہیں فرائیڈمین کا دوسرا مفروضہ تھا، ہمارے  پاس اس مفروضے  کے  خلاف یا اس کے  حق میں کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے ، ہم صرف انکساری کی بنیاد پر اس پر یقین رکھتے  ہیں، یہ بہت شاندار بات ہو گی اگر کائنات ہمارے  گرد ہر سمت میں یکساں دکھائی دے ، مگر کائنات میں دوسرے  مقامات پر ایسا نہ لگے ، فرائیڈمین کے  ماڈل میں تمام کہکشائیں ایک دوسرے  سے  بلا واسطہ طور پر دور جا رہی ہیں، یہ صورتحال ایک چتکبرے  غبارے  جیسی ہے  جسے  بتدریج پھلایا جا رہا ہو، غبارے  کے  پھولنے  پر کوئی سے  دو نقاط کا درمیانی فاصلہ بڑھتا ہے  مگر کسی بھی نقطے  کو پھیلاؤ کا مرکز قرار نہیں دیا جا سکتا، مزید یہ کہ نقاط جتنے  دور ہوں گے  اتنی ہی تیزی سے  وہ مزید دور جا رہے  ہوں گے ، اس طرح فرائیڈمین کے  ماڈل میں کوئی سی دو کہکشاؤں کے  دور جانے  کی رفتار ان کے  درمیانی فاصلے  کے  متناسب ہو گی، چنانچہ اس نے  پیش گوئی کی کہ ایک کہکشاں کا سرخ تبدل (Red Shift) اس کے  ہمارے  درمیان فاصلے  کے  براہ راست متناسب ہونا چاہیے؟ بالکل ویسے  ہی جیسے  کہ ہبل نے  دریافت کیا تھا، اس کے  نمونے  (Model) کی کامیابی اور ہبل کے  مشاہدوں کے  بارے  میں اس کی پیشین گوئی کے  باوجود فرائیڈمین کا کام مغرب میں زیادہ تر غیر معروف رہا تا وقتیکہ ١٩٣۵ء میں امریکی طبیعیات دان ہاورڈ رابرٹسن (Howard Robertson) اور برطانوی ریاضی دان آرتھر واکر (Arthur Walker) نے  کائنات کے  یکساں پھیلاؤ کی ہبل کی دریافت کے  جواب میں اسی طرح کے  ماڈل دریافت کئے ۔

 

فرائیڈمین کے  دو بنیادی مفروضات کے  تحت در حقیقت تین مختلف اقسام کے  ماڈل ہیں جبکہ فرائیڈمین کو صرف ایک معلوم تھا، پہلی قسم میں (جو فرائیڈمین نے  دریافت کی) کائنات اتنی آہستہ روی سے  پھیل رہی ہے  کہ مختلف کہکشاؤں کے  درمیان تجاذبی کشش پھیلاؤ کو سست کر دیتی ہے  اور بالآخر روک دیتی ہے  پھر کہکشائیں ایک دوسرے  کی سمت حرکت کرنا شروع کرتی ہیں اور کائنات سکڑ جاتی ہے  شکل 3.2 یہ ظاہر کرتی ہے  کہ وقت بڑھنے  کے  ساتھ ساتھ دو پڑوسی کہکشاؤں کا درمیانی فاصلہ کیسے  تبدیل ہوتا ہے ، یہ صفر سے  شروع ہو کر انتہائی حد تک جاتا ہے  اور پھر دوبارہ کم ہوتے  ہوتے  صفر ہو جاتا ہے :

 

FIGURE 3.2

 

دوسری قسم کے  نتیجے  میں کائنات اتنی تیزی سے  پھیل رہی ہے  کہ تجاذب کی کشش اسے  کبھی روک نہیں پاتی اگرچہ وہ اسے  کسی حد تک سست کرنے  میں ضرور کامیاب ہو جاتی ہے ، شکل 3.3 میں یہ ماڈل پڑوسی کہکشاؤں کے  درمیان علیحدگی دکھاتا ہے ، یہ صفر پر شروع ہوتی ہے  اور آخر کار کہکشائیں ایک یکساں رفتار سے  دور جانے  لگتی ہیں:

 

 

FIGURE 3.3

 

آخر میں ایک تیسری قسم بھی ہے  جس میں کائنات صرف اتنی تیزی سے  پھیل رہی ہے  کہ وہ دوبارہ ڈھیر ہونے  سے  بچ سکے ، اسی صورتحال میں شکل 3.4 میں دکھائی جانے  والی علیحدگی بھی صفر سے  شروع ہو کر ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے ، بہرحال کہکشاؤں کے  دور جانے  کی رفتار کم سے  کم تر تو ہو جاتی ہے  مگر اس کے  با وجود وہ صفر پر نہیں پہنچتی:

 

FIGURE 3.4

 

فرائیڈمین کے  پہلے  ماڈل کی ایک شاندار خصوصیت یہ بھی ہے  کہ اس میں کائنات لامتناہی نہیں ہے ، مگر مکاں کی بھی کوئی حدود نہیں ہیں، تجاذب اتنا طاقتور ہے  کہ مکاں مڑ کر اپنے  اوپر آ گئی ہے  اور اس نے  اسے  زمین کی سطح کی طرح بنا دیا ہے ، اگر کوئی سطح زمین پر ایک خاص سمت میں سفر کرتا ہے  تو وہ کبھی کسی ناقابلِ عبور رکاوٹ کا سامنا نہیں کرتا اور نہ ہی گرتا ہے  مگر آخر کار اپنے  نقطۂ آغاز پر پہنچ جاتا ہے ، فرائیڈمین کے  پہلے  ماڈل میں مکاں بالکل ایسا ہی ہے  مگر سطح زمین کی طرح دو ابعادی ہونے  کی بجائے  وہ تین ابعادی ہے ، چوتھی بعد یعنی زمان اپنی وسعت میں متناہی ہے  مگر ایک لکیر کی طرح جس کے  دو کنارے  یا حدیں ہیں، ایک ابتداء اور ایک انجام، ہم آگے  چل کر دیکھیں گے  کہ جب عمومی اضافیت کو کوانٹم میکینکس (Quantum Mechanics) کے  اصول غیر یقینی (Uncertainty Principle) سے  ملا دیا جائے  تو مکان اور زمان دونوں کے  لیے  یہ ممکن ہو جاتا ہے  کہ وہ کناروں اور حدود کے  بغیر ہی متناہی ہو جائیں۔

 

کائنات کے  گرد چکر لگا کر نقطۂ آغاز پر واپس آنے  کا خیال ایک اچھی سائنس فکشن (Fiction) تو ہو سکتا ہے  مگر اس کی عملی اہمیت زیادہ نہیں ہے  کیونکہ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے  کہ چکر مکمل ہونے  سے  پہلے  کائنات کی جسامت دوبارہ ڈھیر ہو کر صفر ہو سکتی ہے ، کائنات کے  خاتمے  سے  پہلے  سفر مکمل کر کے  دوبارہ نقطۂ آغاز پر پہنچنے  کے  لیے  روشنی سے  تیز سفر کرنا ضروری ہے  مگر اس کی اجازت نہیں ہے ۔

پہلی قسم کا فرائیڈمین ماڈل جو پھیلتا ہے  اور پھر ڈھیر ہو جاتا ہے  اس میں مکاں اپنے  اندر مڑ کر سطح زمین کی طرح ہو جاتا ہے  لہذا یہ اپنی وسعت میں متناہی ہے ، دوسرا ماڈل ہمیشہ پھیلتا ہی رہتا ہے ، اس میں مکاں گھوڑے  کی زین کی سطح کی طرح دوسری طرف مڑا ہوا ہوتا ہے  چنانچہ اس صورت میں بھی مکاں متناہی ہے  اور سب سے  آخر میں تیسری قسم کے  فرائیڈمین ماڈل میں مکاں چپٹا ہے  (اور اسی وجہ سے  لامتناہی ہے )۔

 

مگر کون سا فرائیڈمین ماڈل ہماری کائنات کی تشریح کر سکتا ہے؟ کیا کائنات کا پھیلنا رک جائے  گا اور وہ سکڑنا شروع ہو جائے  گی یا ہمیشہ پھیلتی رہے  گی؟ اس سوال کا جواب دینے  کے  لیے  ہمیں کائنات کے  پھیلاؤ کی موجودہ شرح اور اس کی موجودہ اوسط کثافت (Density) کا جاننا ضروری ہے ، اگر کثافت کے  پھیلاؤ کی شرح فاصل قدر (Critical Value) سے  کم ہے  تو پھر تجاذب کی کشش اس پھیلاؤ کو روکنے  سے  قاصر ہو گی، اگر کثافت فاصل قدر سے  زیادہ ہو گی تو تجاذب اس پھیلاؤ کو مستقبل میں کسی وقت روک لے  گا اور کائنات کے  دوبارہ ڈھیر ہو جانے  کا باعث بنے  گا۔

 

ڈوپلر اثر کو استعمال میں لاتے  ہوئے  ہم اپنے  سے  دور جانے  والی دوسری کہکشاؤں کی رفتار ناپ کر پھیلاؤ کی موجودہ شرح کا تعین کر سکتے  ہیں، یہ کام بہت صحت کے  ساتھ کیا جا سکتا ہے  مگر کہکشاؤں تک فاصلے  بالکل صحیح طور پر معلوم نہیں کیونکہ ہم ان کو صرف بالواسطہ ہی ناپ سکتے  ہیں، فی الحال ہم بس اتنا جانتے  ہیں کہ کائنات ہر ارب سال (Thousand Million Years) ‎ میں پانچ سے  دس فیصد پھیل رہی ہے ، بہرحال کائنات کی موجودہ اوسط کثافت کے  بارے  میں ہمارا غیر یقینی ہونا اس سے  بھی کہیں زیادہ ہے ، اگر ہم اپنی کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں میں دیکھے  جا سکنے  والے  تمام ستاروں کے  مادے  کو جمع کریں تو پھیلاؤ کی شرح کا اندازہ کم سے  کم لگانے  کے  باوجود یہ مجموعی مادہ کائنات کا پھیلاؤ روکنے  کے  لیے  مطلوبہ مقدار کے  سوویں حصے  سے  بھی کم ہو گا، ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں میں بہرحال تاریک مادے  (DARK MATTAR) کی ایک بہت بڑی مقدار ہونی چاہیے  جسے  ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے ، مگر کہکشاؤں میں ستاروں کے  مداروں پر اس کے  تجاذب کے  اثر کی وجہ سے  ہم جانتے  ہیں کہ وہ وہاں ضرور موجود ہو گا، مزید یہ کہ زیادہ تر کہکشائیں جھرمٹوں میں پائی جاتی ہیں جن میں کہکشاؤں کے  درمیان تاریک مادے  کی موجودگی کو اس طرح مانا جا سکتا ہے  کیونکہ اس کا اثر کہکشاؤں کی حرکت پر پڑتا ہے ، جب ہم یہ تمام تاریک مادہ جمع کرتے  ہیں تو بھی ہمیں پھیلاؤ روکنے  کے  لیے  مطلوبہ مقدار کا دسواں حصہ ہی حاصل ہوتا ہے ، بہرحال ہم کائنات کے  طول و عرض میں یکساں طور پر پھیلے  ہوئے  کسی ہنوز غیر دریافت شدہ مادے  کی موجودگی کو خارج از امکان قرار نہیں دے  سکے  جو کائنات کی اوسط کثافت کو اس مخصوص فاصل قدر تک بڑھا سکے  جس کی ضرورت پھیلاؤ کو روکنے  کے  لیے  ہے ، چنانچہ موجودہ صداقت کے  مطابق کائنات ہمیشہ ہی پھیلتی رہے  گی، مگر جس چیز کے  بارے  میں ہمیں کامل یقین ہے  وہ یہ ہے  کہ اگر کائنات کو دوبارہ ڈھیر بھی ہونا ہے  تو ایسا کم از کم دس ارب سال سے  پہلے  نہیں ہو گا کیونکہ یہ کم از کم اتنا ہی عرصہ پہلے  پھیلتی رہی ہے ، ہمیں اس کے  لیے  غیر ضروری طور پر پریشان نہیں ہونا چاہیے ، اس وقت تک اگر ہم نے  نظامِ شمسی سے  باہر آبادیاں نہ بنا لیں تو نوعِ انسانی اس سے  بہت پہلے  ہمارے  سورج کے  بجھنے  تک فنا ہو چکی ہو گی۔

 

فرائیڈمین کے  تمام انکشافات ایک خاصیت رکھتے  ہیں کہ ماضی میں کسی وقت (دس بیس ارب سال پہلے  کے  دوران) پڑوسی کہکشاؤں کے  درمیان فاصلہ ضرور صفر رہا ہو گا، اس وقت جسے  ہم عظیم دھماکہ یا بگ بینگ (Big Bang) کہتے  ہیں، کائنات کی کثافت اور مکان – زمان کا خم لامتناہی ہو گا، چونکہ ریاضی لامتناہی اعداد کا حساب نہیں لگا سکتی چنانچہ اس کا مطلب ہے  کہ عمومی نظریہ اضافیت (جس پر فرائیڈمین کے  نظریات کی بنیاد ہے) نشاندہی کرتا ہے  کہ کائنات میں ایک مقام ایسا ہے  جہاں یہ نظریہ خود ہی بالکل بے  کار ہو جاتا ہے ، ایسا مقام ریاضی دانوں کے  بقول اکائیت (Singularity) ہی ایسی مثال ہو سکتی ہے ، در حقیقت ہمارے  تمام سائنسی نظریات اس مفروضے  پر بنے  ہیں کہ مکان – زمان تقریباً سپاٹ ہے  اور ہموار ہے  اس لیے  وہ بگ بینگ سے  پہلے  کچھ واقعات ہوئے  بھی ہوں تو انہیں بعد میں ظہور پذیر ہونے  والے  واقعات کا تعین کرنے  کے  لیے  استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بگ بینگ پر پیشین گوئی کی صلاحیت ختم ہو چکی ہو گی، اسی طرح اگر ہم صرف بگ بینگ کے  بعد کے  واقعات کے  بارے  میں جانتے  ہوں، تو ہمیں اس سے  پیشتر کے  واقعات کا علم نہیں ہو سکتا، جہاں تک ہمارا تعلق ہے  ہمارے  لیے  بگ بینگ سے  پہلے  کے  تمام واقعات بے  نتیجہ ہیں، اس لیے  انہیں کائنات کے  سائنسی ماڈل کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ، چنانچہ ہم ان کو ماڈل میں سے  خارج کر دیتے  ہیں اور کہتے  ہیں کہ وقت کا آغاز بگ بینگ سے  ہوتا ہے ۔

 

بہت سے  لوگوں کو یہ خیال پسند نہیں ہے  کہ وقت کبھی آغاز ہوا تھا، شاید اس لیے  کہ اس سے  الوہی مداخلت کی بو آتی ہے ، (اس کے  برعکس کیتھولک چرچ نے  بھی بگ بینگ ماڈل کو قبول کر کے  ١٩۵١ء میں اسے  انجیل کے  مطابق قرار دے  دیا ہے ) چنانچہ بگ بینگ کے  خیال سے  بچنے  کی بہت سی کوششیں ہو چکی ہیں، جس خیال نے  وسیع تر حمایت حاصل کی ہے  اسے  مستقل حالت کا نظریہ (State Steady Theory) کہتے  ہیں، یہ ١٩۴٨ء میں نازیوں کے  مقبوضہ آسٹریا کے  دو تارکینِ وطن ہرمین بونڈی  (Hermann Bondi) ‎ اور تھامس گولڈ (Thomas Gold) ‎نے  ایک برطانوی فریڈ ہوئیل (Fred Hoyle) ‎ کے  ساتھ مل کر پیش کیا جو دوسری جنگِ عظیم کے  دوران ان کے  ساتھ راڈار کو ترقی دینے  کے  سلسلے  میں کام کر چکا تھا، خیال یہ تھا کہ کہکشاؤں کے  ایک دوسرے  سے  دور جانے  کے  ساتھ درمیانی خالی جگہوں میں مسلسل نیا مادہ تخلیق ہو رہا ہے  جس سے  نئی کہکشائیں مسلسل تشکیل پا رہی ہیں، اس لیے  کائنات تمام زمانوں میں اور مکاں کے  تمام مقامات پر تقریباً ایک سی دکھائی دے  گی، مادے  کی مسلسل تخلیق کے  لیے  مستقل حالت کے  نظریے  کو عمومی اضافیت میں ترمیم کی ضرورت تھی مگر اس کی شرح اتنی کم تھی (یعنی ہر سال ایک ذرہ فی کلو مکعب میٹر) کہ یہ تجربے  سے  متصادم نہیں تھی، یہ نظریہ پہلے  باب میں بیان کردہ معانی میں ایک اچھا سائنسی نظریہ تھا، یہ سادہ سا تھا اور اس نے  ایسی پیشین گوئیاں کیں جو مشاہدات سے  جانچی جا سکتی تھیں، ان پیشین گوئیوں میں سے  ایک یہ تھی کہ کائنات میں جب بھی اور جہاں سے  بھی دیکھا جائے  مکاں کے  کسی بھی دیے  ہوئے  حجم میں کہکشائیں یا ایسے  ہی اجسام کی تعداد یکساں ہو گی، ١٩۵٠ء کے  عشرے  کے  اواخر اور ١٩٦٠ء کے  عشرے  کے  اوائل میں بیرونی مکاں (Outer space) سے  آنے  والی ریڈیائی لہروں کے  منبعوں کا ایک سروے  کیمبرج میں ماہرینِ فکلیات کی ایک جماعت نے  کیا جس کی قیادت مارٹن رائیل (Martin Ryle) نے  کی جو جنگ کے  دوران بونڈی، گولڈ اور ہوئیل کے  ساتھ راڈار پر کام کر چکا تھا، کیمبرج کی اس جماعت نے  معلوم کیا کہ زیادہ تر ریڈیائی منبعے  (Radio Sources) ہماری کہکشاں کے  باہر ہونے  چاہئیں، یقیناً ان میں سے  بہت سے  دوسری کہکشاؤں کے  ساتھ شناخت کیے  جا سکے  تھے ، اور منبعوں کی تعداد طاقتور منبعوں کی تعداد سے  کہیں زیادہ تھی، انہوں نے  کمزور منبعوں کو دور تر اور طاقتور منبعوں کو قریب تر قرار دیا، پھر معلوم ہوا کہ مشترکہ منبع (Common Sources) کی تعداد کے  فی اکائی حجم (Per Unit Volume of Space) ‎ میں قریبی منبعوں کے  لیے  دور دراز سے  کم ہے ، اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا تھا کہ ماضی میں جس وقت ریڈیائی لہریں ہماری طرف سفر پر روانہ ہوئیں تو اس وقت منبعے  حال کے  مقابلے  میں کہیں زیادہ تھے ، ہر تشریح مستقل حالت کے  نظریے  کی پیشین گوئیوں سے  متضاد تھی، مزید یہ ہے  کہ ١٩٦۵ء میں پینزیاس اور ولسن کی مائیکرو ویو ریڈیائی لہروں کی دریافت نے  بھی نشاندہی کی کہ کائنات ماضی میں ضرور کہیں زیادہ کثیف رہی ہو گی، اس لیے  مستقل حالت کے  نظریے  کو ترک کرنا پڑا، بگ بینگ اور آغازِ وقت کے  نتائج سے  بچنے  کی ایک اور کوشش دو روسی سائنس دانوں ایوگنی لشٹز (Evgeni Lishitz) اور آئزک خلاطنیکوف (Isaas Khalatnikov) نے  ١٩٦٣ء میں کی، انہوں نے  کہا ہو سکتا ہے  کہ بگ بینگ صرف فرائیڈمین کے  ماڈلوں کا خاصہ ہو جو حقیقی کائنات میں صرف مشابہت ہی تو رکھتے  ہیں، شاید حقیقی کائنات جیسے  تمام ماڈلوں میں صرف فرائیڈمین کے  ماڈل ہی بگ بینگ کی انفرادیت کے  حامل ہوں، فرائیڈمین کے  ماڈلوں میں تمام کہکشائیں بلا واسطہ طور پر ایک دوسرے  سے  دور جا رہی ہیں چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں کہ ماضی میں کسی وقت وہ سب ایک ہی جگہ ہوں گی، بہرحال حقیقی کائنات میں نہ صرف کہکشائیں ایک دوسرے  سے  دور جا رہی ہیں، بلکہ اپنے  دائیں بائیں بھی رفتاریں (Velocities) رکھتی ہیں، چنانچہ در حقیقت کبھی بھی ان سب کا بالکل ٹھیک ایک ہی جگہ پر ہونا ضروری نہیں رہا ہو گا، البتہ وہاں ایک دوسرے  کے  قریب ضروری ہوں گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاید موجودہ وسعت پذیر کائنات کے  آغاز میں کوئی ایسی انفرادی شکل نہیں ہو گی جیسا کہ بگ بینگ کے  نظریے  میں تصور کیا جاتا ہے ، بلکہ اس وقت وجود میں آئی ہوں جب کائنات سکڑ رہی ہو اور پھر ٹکرانے  کی بجائے  ڈھیر (Collapse) ہونے  پر اس کے  تمام ذرات آپس میں قریب سے  گزر کر ایک دوسرے  سے  دور ہوتے  چلے  گئے  ہوں جس کے  نتیجے  میں موجودہ وسعت پذیر کائنات پیدا ہوئی ہو، ہم یہ کیسے  کہہ سکتے  ہیں کہ حقیقی کائنات ایک عظیم دھماکے  ہی سے  آغاز ہوئی تھی، لشٹز اور خلاطنیکوف نے  ایسے  ماڈلوں کا مطالعہ کیا جو تقریباً فرائیڈمین کے  ماڈلوں جیسے  تھے ، مگر انہوں نے  حقیقی کائنات میں کہکشاؤں کی بے  قاعدہ رفتاروں اور بے  ترتیبیوں کو ذہن میں رکھا، انہوں نے  بتایا کہ ایسے  ماڈل ایک عظیم دھماکے  سے  شروع ہو سکتے  ہیں حالانکہ کہکشائیں ایک دوسرے  سے  براہ راست دور نہیں جا رہیں، پھر انہوں نے  دعوی کیا کہ یہ خصوصیت بھی غیر معمولی ماڈلوں میں ممکن ہے  جن میں تمام کہکشائیں ایک ہی صحیح راستے  پر گامزن ہوں، ان کے  استدلال میں چونکہ عظیم دھماکے  کی اکائیت کے  بغیر فرائیڈمین جیسے  ماڈلوں کی تعداد کہیں زیادہ معلوم ہوتی تھی اس لیے  ہمیں نتیجہ نکال لینا چاہیے  کہ دراصل ایسا عظیم دھماکہ ہوا ہی نہیں ہے ، انہیں بعد میں یہ اندازہ ہوا کہ ایسی اکائیت (Singularity) کے  بغیر فرائیڈمین جیسے  ماڈلوں کی زیادہ عمومی تعداد موجود ہے  جس میں کہکشاؤں کو کسی خاص راستے  پر حرکت نہیں کرنی پڑتی، لہذا انہوں نے  اپنا دعوی ١٩٧٠ء میں واپس لے  لیا۔

 

لشٹز اور خلاطنیکوف کا کام اس لیے  قابلِ قدر تھا کہ انہوں نے  یہ دکھایا کہ اگر اضافیت کا عمومی نظریہ درست ہو تو یہ قطعی ممکن ہے  کہ کائنات ایک اکائیت اور ایک بڑے  دھماکے  سے  وجود میں آئی ہو، بہرحال اس نے  وہ سوال حل نہیں کیا جو سب سے  اہم تھا یعنی کیا عمومی اضافیت پیشین گوئی کرتی ہے  کہ ہماری کائنات میں ایک عظیم دھماکہ ہونا چاہیے  تھا اور پھر اس کے  ساتھ ہی وقت کا آغاز بھی ہو جاتا؟ اس کا جواب ١٩٦۵ء ایک برطانوی ریاضی دان اور ماہرِ طبیعیات راجر پینروز (Roger Penrose) کی بالکل مختلف سوچ نے  فراہم کیا، عمومی اضافیت میں نوری مخروط (Light Cones) کے  انداز عمل کو تجاذب کی دائمی کشش سے  ملاتے  ہوئے  اس نے  دکھایا کہ کوئی ستارہ خود اپنے  تجاذب کے  تحت ڈھیر ہوتے  ہوئے  ایک ایسے  خطے  میں پھنس جاتا ہے  جس کی سطح بالآخر سکڑ کر جسامت میں صفر رہ جاتی ہے ، اور جب سطح سکڑ کر صفر رہ جاتی ہے  تو پھر اس کا حجم بھی صفر ہو جاتا ہے ، ستارے  کا تمام مادہ صفر حجم کے  ایک خطے  میں مرکوز ہو جاتا ہے  چنانچہ مادے  کی کثافت اور مکان – زمان کا خم لامتناہی بن جاتا ہے ، دوسرے  لفظوں میں مکان – زمان کے  ایک خطے  میں ایک ایسی اکائیت بن جاتی ہے  جسے  بلیک ہول (Black Hole) کا نام دیا جاتا ہے ۔

 

بادی النظر میں پن روز کا نتیجہ صرف ستاروں پر لاگو ہوتا تھا، اور وہ اس بارے  میں خاموش تھا کہ آیا پوری کائنات میں ایک بگ بینگ اکائیت کا ظہور ہوا تھا، تاہم جب پن روز نے  اپنا نظریہ پیش کیا تو مین ایک تحقیقی طالب علم تھا، اور ایک ایسے  مسئلے  کی تلاش میں مصروف تھا جس پر میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر سکتا، اس سے  دو سال قبل مجھے  اے  ایل ایس  (A. L. S) ‎ کی بیماری تشخیص کی جاچکی تھی جو عام طور پر لاؤ گیہرگ بیماری (Lougehrig Disease) یا حرکی عصبانیہ بیماری (Motor Neuron Disease)‎ کے  طور پر جانی جاتی ہے ، مجھے  یہ بتا دیا گیا کہ میں صرف ایک یا دو سال مزید زندہ رہ سکوں گا، ان حالات میں پی ایچ ڈی پر کام کرنا بظاہر بے  معنی تھا، کیونکہ مجھے  اتنا عرصہ جینے  کی توقع نہیں تھی، تاہم دو برس گزر گئے  اور میری حالت زیادہ خراب نہ ہوئی، حقیقت یہ تھی کہ میرے  حالات کچھ بہتر ہوتے  جا رہے  تھے  اور میں ایک بہت نفیس لڑکی جین وائیلڈ (Jane Wilde) سے  منسوب ہو گیا تھا مگر شادی کرنے  کے  لیے  مجھے  ملازمت کی ضرورت تھی اور ملازمت کے  لیے  پی ایچ ڈی درکار تھی۔

 

میں نے  ١٩٦۵ء میں پن روز کے  نظریے  کے  بارے  میں پڑھا تھا کہ تجاذب سے  ڈھیر ہوتا ہوا  (gravitational collapse) ‎ کوئی بھی جسم بالآخر ایک اکائیت تشکیل دیتا ہے ، مجھے  جلد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر پن روز کے  نظریے  میں وقت کی سمٹ کو الٹ دیا جائے  تاکہ اس کا ڈھیر ہونا پھیلنے  میں بدل جائے  تو اس نظریے  کی شرائط بھی برقرار رہیں گی بشرطیکہ موجودہ وقت میں بڑے  پیمانے  پر کائنات تقریباً فرائیڈمین نمونے  جیسی ہو، پن روز کے  نظریے  نے  یہ بتایا تھا کہ کوئی بھی ڈھیر ہوتا ہوا ستارہ بالآخر ایک اکائیت پر ختم ہو گا، زمان معکوس والی دلیل (time reversed argument) ‎ نے  ظاہر کیا تھا کہ کوئی فرئیڈمین قسم کی پھیلتی ہوئی کائنات ضرور ایک اکائیت سے  آغاز ہوتی ہو گی، تکنیکی وجوہات کی بنا پر پن روز کا نظریہ اس بات کا متقاضی تھا کہ کائنات مکاں میں لامتناہی ہو، اس طرح میں اسے  یہ ثابت کرنے  کے  لیے  استعمال کر سکتا تھا کہ اکائیت محض اس صورت میں ہو گی جب کائنات اتنی تیزی سے  پھیل رہی ہو کہ دوبارہ ڈھیر ہونے  سے  بچ سکے  (چونکہ صرف فرائیڈمین ہی کے  ماڈل میں مکاں لامتناہی تھا)۔

 

اگلے  چند سالوں کے  دوران میں نے  نئے  ریاضیاتی طریق کار تشکیل دیے  تاکہ قضیوں (THEOREMS) سے  ان تکنیکی حالات کو ختم کر سکوں جو اکائیت کو ناگزیر ثابت کرتے  ہیں، اس کی آخری صورت ١٩٧٠ء میں میرا اور پن روز کا مشترکہ مقالہ تھا جس نے  ثابت کیا کہ ایک بگ بینگ اکائیت ضرور ہوئی ہو گی، بشرطیکہ عمومی اضافیت درست ہو اور کائنات میں اتنا مادہ موجود ہو جس کا مشاہدہ ہم کرتے  ہیں، ہمارے  کام کی بڑی مخالفت جزوی طور پر روسیوں کی طرف سے  ہوئی کیونکہ سائنسی جبریت (DETERMINISM SCIENTIFIC) ان کا مارکسی عقیدہ تھا اور جزوی طور پر دوسرے  ان لوگوں کی طرف سے  جو سمجھتے  تھے  کہ اکائیت کا پورا تصور ہی فضول تھا اور آئن سٹائن کے  نظریے  کی خوبصورتی کو خراب کرتا تھا، بہرحال ایک ریاضیاتی قضیے  سے  محبت نہیں کی جا سکتی تھی اس لیے  عام طور پر ہمارا کام تسلیم کر لیا گیا اور اب تقریباً ہر ایک یہ سمجھتا ہے  کہ کائنات ایک بگ بینگ اکائیت سے  شروع ہوئی، یہ شاید عجیب بات ہے  کہ اب میں خود اپنی سوچ بدل کر دوسرے  ماہرینِ طبیعیات کو قائل کرنے  کی کوشش کر رہا ہوں کہ در حقیقت کائنات کے  آغاز میں کوئی اکائیت نہیں تھی، جیسا کہ ہم بعد میں دیکھیں گے  کہ اگر کوانٹم اثرات کے  بارے  میں سوچا بھی جائے  تو یہ غائب ہو جاتی ہے ۔

 

اس باب میں ہم دیکھ چکے  ہیں کہ کس طرح کائنات کے  بارے  میں ہزار سال میں تشکیل پانے  والے  انسانی تصورات نصف سے  بھی کم صدی میں بدل گئے  تھے ، ہبل کی یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے  اور اس کی وسعت میں ہمارے  اپنے  سیارے  کی بے  وقعتی کا احساس صرف نقطۂ آغاز تھا، جب تجرباتی اور نظریاتی ثبوتوں میں اضافہ ہوا تو یہ بات مزید عیاں ہو گئی کہ کائنات کا آغاز وقت کے  اندر ہی ہوا تھا، حتی کہ ١٩٧٠ء میں، میں نے  اور پن روز نے  آئن سٹائن کے  عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر اسے  ثابت کر دیا، اس ثبوت نے  یہ ظاہر کیا کہ عمومی اضافیت کا نظریہ ایک نامکمل نظریہ ہے  جو ہمیں یہ نہیں بتا سکتا کہ کائنات کس طرح شروع ہوئی، کیونکہ یہ پیشین گوئی کرتا ہے  کہ تمام طبیعاتی نظریات بشمول خود اس کے  ابتدائے  کائنات کے  سلسلے  میں بیکار ہو جاتے  ہیں، تاہم عمومی اضافیت کا نظریہ فقط جزوی نظریہ ہونے  کا دعویدار ہے  اس لیے  جو بات وہ اکائیت کے  قضیے  (SINGULARITY THEOREM) میں حقیقتاً ظاہر کرتا ہے ، وہ یہ ہے  کہ بالکل ابتدائی کائنات میں ایک وقت ایسا رہا ہو گا جب کائنات بہت چھوٹی تھی اور بیسویں صدی کے  ایک اور جزوی نظریے  کوانٹم میکینکس کے  چھوٹے  پیمانے  کے  اثرات کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہو گا، پھر ١٩٧٠ء کی دہائی کے  اوائل میں کائنات کو سمجھنے  کے  لیے  ہمیں اپنی تحقیق کا رخ غیر معمولی وسعت کے  نظریے  سے  غیر معمولی انحطاط کے  نظریے  کی طرف موڑنا پڑا، اس سے  پہلے  کہ ہم دو جزوی نظریات ملا کر تجاذب کا ایک واحد کوانٹم نظریہ واضح کرنے  کی کوشش شروع کریں، کوانٹم میکینکس کا یہ نظریہ آگے  بیان کیا جائے  گا۔

مکمل کتاب مع تصاویر ڈاؤن لوڈ کریں