FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

نا ممکن کی طبیعیات

PHYSICS OF THE IMPOSSIBLE

 

حصہ دوم

 

                مصنف: میچو کاکو

                مترجم: زُہیر عباس

 

 

 

 

9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس )

 

چاند پر کسی چیز کو پھینکنا ایک مہمل اور بیوقوفانہ مثال ہے اس بد طینت مہارت کے پیچھے سائنس دان چلیں گے۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر نا ممکن لگ رہا ہے۔
اے ڈبلیو بائیکرٹن (A.W.Bickerton)
بگمان غالب انسانیت کے ٹھاٹ باٹ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ انسان ایک سے دوسرے سورج کی طرف ہجرت کریں گے جب وہ ختم ہو جائے گا۔
اور حیات، ذہانت اور انسانیت کی معراج کا خاتمہ کبھی نہیں ہو گا وہ ہمیشہ ترقی کرے گی۔
کونسٹنٹین ای ٹیولکوفسکی (Konstantin E. Tsiolkovsky) – بابائے راکٹ

 

مستقبل بعید میں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب وہ ہمارا زمین پر آخری دن ہو گا۔ آج سے ارب ہا سال گزرنے کے بعد آخر کار آسمان پر آگ برسنے لگے گی۔ سورج پھول کر زمین سے سوا نیزے کی دوری پر رہ کر اس کو جہنم بنا دے گا۔ پورے آسمان پر صرف سورج ہی دکھائی دے گے اور آسمان میں موجود دوسری تمام چیزیں اس کے آگے ہیچ لگیں گی۔ زمین پر درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ہی سمندر ابل کر بخارات بن کر اڑ جائیں گے  اور اپنے پیچھے سوختہ اور تپتی ہوئی خشک زمین چھوڑ دیں گے۔ پہاڑ پگھل کر سیال میں بدل جائیں گے نتیجتاً جہاں کبھی شہر بسا کرتے ہوں گے ان جگہوں پر لاوا بہنے لگے گا۔

قوانین طبیعیات کی رو سے یہ ڈراؤنی وحشت ناک قیامت آنا ناگزیر ہے۔ آخر کار سورج زمین کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ کر ختم کر دے گا۔ قوانین طبیعیات میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ آفت و بربادی کا عمل اگلے ٥ ارب برسوں میں ہو گا۔ کائناتی وقت کے اس پیمانے پر انسانی تہذیب میں اتار چڑھاؤ کی لہریں انتہائی خفیف سی ہوں گی۔ ایک دن یا تو ہمیں زمین کو چھوڑنا ہو گا یا پھر موت کو گلے لگانا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسانیت یا ہماری آنے والی نسلیں اس وقت زمین پر موجود نا قابل برداشت حالات سے کیسے نمٹیں گی؟

ریاضی دان اور فلاسفر "برٹرانڈرسل” (Bertrand Russell)  نے ایک دفعہ ایسے نوحہ کیا ” نہ تو کوئی آگ، نہ ہی کوئی جوانمردی، نہ ہی تخیل کی پرواز و احساس، حیات کو اس کی قبر  دفن ہونے سے بچا سکتی ہے ، نسلوں کی محنت، ریاضت، کشف، انسانیت کی تمام تر روشن و غیر معمولی اختراعی قوّت ان سب کا مقدر نظام شمسی کی وسیع موت کے نتیجے میں ہونے والی معدومیت میں دفن ہے ، اور انسانیت کی تمام کاوشوں کے مینار کو لازمی طور پر کائنات کی دھول میں کھنڈر بن کر دفن ہونا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

میرے لئے انگریزی ادب میں موجود یہ ٹکڑا سب سے زیادہ رلا دینے والا ہے۔ مگر رسل نے یہ ٹکڑا اس وقت لکھا تھا جب خلائی جہازوں کا بننا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج کے دور میں کسی دن زمین کو چھوڑ کر جانے کا خیال کوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہے۔ کارل ساگاں نے ایک دفعہ کہا تھا ہمیں دو سیاروں کی انواع بننا چاہئے۔ زمین پر موجود حیات بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے کہا کہ کسی بھی بڑی تباہی آنے سے پہلے ہمیں کم از کم ایک اور سیارے پر پھیل کر اس کو آباد کرنا جانا چاہئے۔ زمین کائناتی نشانہ بازوں یعنی کہ سیارچوں، دم دار ستاروں اور زمین کے مدار کے قریب تیرتے ہوئے گرد و غبار کے ملبے کے عین نشانے پر ہے اور اس میں سے کسی سے بھی ہونے والا تصادم ہمیں مرحوم کر سکتا ہے۔

 

                آنے والی عظیم تباہیاں

 

شاعر "رابرٹ فراسٹ” (Robert Frost) پوچھتا ہے کہ زمین کا انجام آگ سے ہو گا یا پھر برف سے۔ طبیعیات کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی معقولیت کے ساتھ پیش بینی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں زمین کا کیا انجام ہو گا۔

ہزار برس کے پیمانے پر، انسانی تہذیب کے لئے ایک خطرہ نئے برفانی دور کا ہے۔ آخری برفانی دور ١٠ ہزار سال پہلے ختم ہوا ہے۔ آج سے ١٠ سے ٢٠ ہزار سال کے درمیان جب نیا برفانی دور آئے گا اس وقت زیادہ تر شمالی امریکہ آدھ میل برف سے ڈھک جائے گا۔ انسانی تہذیب اس چھوٹے سے "بین ثلجین” (Interglacial) زمانے میں حال میں ہی پروان چڑھی ہے۔ جب زمین غیر معمولی گرم تھی مگر یہ چکر ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔

لاکھوں سال گزرنے کے بعد بڑے شہابیے یا دم دار ستارے زمین سے ٹکرا کر بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ آخری بڑے اجرام فلکی سے زمین کا تصادم آج سے ٦۔ ٥ کروڑ سال پہلے ہوا تھا جب ایک جسم جو ٦ میل چوڑا تھا آ کر میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ایک ١٨٠ میل قطر کا گڑھا بن گیا۔ اس تصادم سے پیدا ہونے والی تباہی نے وقت کے زمین پر حکمران ڈائنو سارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ مزید ایک تصادم کی امید اسی وقت کے پیمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔

آج سے ارب ہا سال کے بعد سورج بتدریج پھیل کر زمین کو نگل جائے گا۔ حقیقت میں ہم نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ سورج اگلے ایک ارب سال میں ١٠ فیصد زیادہ گرم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں زمین شدید گرم ہو جائے گی۔ یہ زمین کو مکمل طور پر اگلے ٥ ارب برسوں میں اس وقت ختم کر دے گا جب یہ ایک دیو ہیکل سرخ دیو میں بدل جائے گا۔

آج سے دسیوں ارب سال بعد سورج اور ملکی وے کہکشاں دونوں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا سورج اپنا ایندھن جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی شکل میں ہے پھونک دے گا اور پھر ایک سفید بونے کی صورت میں سکڑ کر بتدریج ٹھنڈا ہوتے ہوئے ایک کالا نیوکلیائی  کچرے کا ڈھیر بن کر خلاء میں تیرتا رہے گا۔ آخر کار ملکی وے کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا  (مراة المسلسلہ ) سے جا ٹکرائے گی۔ یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ملکی وے کے مرغولی بازوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے نتیجتاً ہمارا سورج خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ دونوں کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول ایک دوسرے سے ٹکرا کر ضم ہونے سے پہلے موت کا رقص شروع کر دیں گے۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انسانیت ایک دن نظام شمسی کی قید سے نکل کر کسی قریبی سیارے پر اپنی جان بچا کر بھاگ سکتی ہے تاکہ اپنے آپ کو ختم ہونے سے روکا جا سکے  تو سوال یہ اٹھتا ہے :ہم وہاں کیسے جائیں گے ؟ سب سے قریبی ستارہ الف قنطورس ٤ نوری برس سے بھی زیادہ دور ہے۔ روایتی کیمیائی راکٹ جو موجودہ خلائی پروگراموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مشکل سے ٤٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھو سکتے ہیں۔ اس رفتار سے صرف سب سے قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ہی ٧٠ ہزار برس درکار ہوں گے۔

آج کے خلائی منصوبوں کی جانچ کریں تو یہ بات عیاں ہو گی کہ ہماری موجودہ قابلیت اور ایسے نجمی سفر کرنے والے خلائی جہازوں کو بنانے کی درکار قابلیت جو ہمیں کائنات میں سفر کا آغاز کرنے کے قابل بنا سکیں زمین آسمان کا فرق ہے۔

١٩٧٠ء کی دہائی میں چاند پر قد م رکھنے کے بعد سے ہم نے انسان بردار خلائی جہاز کو صرف ایک ایسے مدار میں بھیجا ہے جہاں موجود خلائی شٹل اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن زمین سے صرف ٣٠٠ میل دور پر تھے۔ ٢٠١٠ء سے ناسا نے شٹل پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا ہوا ہے کہ اورائن خلائی جہاز کو بنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ جہاز خلاء نوردوں کو ٢٠٢٠ء تک ٥٠ سال کے وقفے کے بعد چاند پر لے جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چاند پر مستقل انسانی اڈہ بنانا ہے۔ اس کے بعد انسان بردار جہاز مریخ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔

ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہم ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہیں تو راکٹ کی ایک نئی قسم کو کھوجنا ہو گا۔ یا تو ہمیں بنیادی طور پر اپنے راکٹوں کی دھکیل کی قوّت کو بڑھانا ہو گا یا پھر راکٹوں کے کام کرنے کے وقت کو بڑھانا ہو گا۔ مثال کے طور پر ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ صرف چند منٹ تک ہی ایندھن کو جلا پاتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے راکٹ جیسا کہ برق پارے والا انجن ([Ion Engine]اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے ) میں دھکیل کی کمزور قوّت پیدا ہوتی ہے خاص باٹ یہ ہے کہ وہ برسوں تک خلاء میں کام کر سکتا ہے۔ اور جب بات راکٹ کی ہو تو اس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش سے جیت جاتا ہے۔

 

                برق پارے اور پلازما کے انجن

 

کیمیائی راکٹوں کے برخلاف، برق پارے والے انجن اچانک، ڈرامائی دھماکے سے انتہائی گرم گیسوں کو پیدا نہیں کرتے جو روایتی راکٹوں کو چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اصل میں ان کی قوّت دھکیل کو اکثر اونس میں ناپا جاتا ہے۔ زمین کی سطح پر رہتے ہوئے یہ راکٹ بہت ہی کمزور حرکت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی قوّت دھکیل کی یہ خامی ان کے چلنے کے لمبے دورانیے کی خوبی سے پوری ہو جاتی ہے۔ یہ خالی خلاء میں برسوں تک کام کر سکتے ہیں۔

ایک عام برق پارے کا انجن کسی ٹیلی ویژن کے اندر موجود نلکی کے جیسا ہوتا ہے۔ ایک گرم فلامنٹ کو برقی رو کے ذریعہ تپایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک برقی پاروں کے ایٹموں، جیسا کہ زینون، کی کرن جنم لیتی ہے جس کو راکٹ کے آخری کنارے میں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ گرم، دھماکے دار گیسوں پر سواری کرنے کے بجائے برق پارے کا انجن ایک پتلی اور متلون مزاج برق پاروں کی رو پر سواری کرتی ہے۔

ناسا کا این اسٹار برق پارے کا انجن خلاء میں ڈیپ ا سپیس١ خلائی کھوجی میں کامیابی کے ساتھ ١٩٩٨ء میں استعمال ہو چکا ہے۔ برق پارے والا انجن کل ملا کر ٦٧٨ دنوں تک چلتا رہا جس کے نتیجے میں اس نے برق پاروں کے انجن کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ یورپین اسپیس ایجنسی نے بھی ایک برق پارے کا انجن اپنے ا سمارٹ – ١ کھوجی میں استعمال کیا ہے۔ جاپان کا ہا یا بوسا خلائی کھوجی جو ایک سیارچے کے پاس سے گزرا ہے وہ بھی زینون کے چار برق پارے کے انجنوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ ہرچند برق پارے کا معمولی انجن سیاروں کے درمیان لمبی سفر ی مہموں (جو بہت زیادہ فوری نہ ہوں ) میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن درحقیقت ایک دن یہ بین النجم ذرائع نقل و حمل کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا۔

برق پارے انجن کی ایک اور طاقتور قسم پلازما انجن ہے مثال کے طور پر وی اے ایس آئی ایم آر (ویرییبل اسپسیفک امپلس میگنیٹو پلازما راکٹ ) جو راکٹ کو خلاء میں دھکیلنے کے لئے طاقتور پلازما کی دھاریں استعمال کرتا ہے۔ اس کو خلا نورد اور انجنیئر "فرینکلن چانگ ڈیاز” (Franklin Chang Diaz)  نے بنایا ہے یہ ریڈیائی لہریں اور مقناطیسی میدانوں کے استعمال سے ہائیڈروجن گیس کو کئی لاکھ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد انتہائی گرم پلازما راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکلتا ہے جس کے نتیجے میں اسے کافی دھکیل کی قوّت ملتی ہے۔ ہرچند اس میں سے ابھی تک کسی کو بھی خلاء میں نہیں بھیجا لیکن زمین پر اس قسم کے ابتدائی تجرباتی نمونے بنائے جا چکے ہیں۔ کچھ انجنیئر اس بات کے لئے پرامید ہیں کہ پلازما انجن مریخ کی کسی مہم پر کام آ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مریخ تک پہنچنے کا وقت کافی کم ہو کر صرف کچھ مہینوں تک ہی رہ جائے گا۔ کچھ نمونوں میں شمسی طاقت کا استعمال پلازما کو طاقت رساں بنانے کے لئے انجن میں کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسرے نمونے نیوکلیائی گداخت کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ایسے انجن حفاظتی خدشات کا باعث ہیں کیونکہ کسی ایسے انجن والے خلائی جہاز کو خلاء میں روانہ کرتے ہوئے اس میں کافی سارا نیوکلیائی مواد موجود ہو گا۔ خلائی جہاز میں حادثہ ہونے کا خطرہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اور نیوکلیائی مواد  کسی بھی حادثے کی ہولناکی کو اور بڑھا دے گا۔ )

نہ تو برق پارے اور نہ ہی پلازما / وی اے ایس آئی ایم آر انجن اس قدر طاقتور ہیں کہ ہمیں ستاروں پر لے جا سکیں۔ اس کام کے لئے ہمیں ایک بالکل ہی نئے دھکیل والے راکٹوں کو بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نجمی سفر کرنے والے خلائی جہاز کو بنانے میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ ایندھن کی مقدار ہے جو قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ خلائی جہاز کو اس سفر کے دوران اپنی منزل تک پہنچنے تک ایک لمبا عرصہ گزرنا ہو گا۔

 

                شمسی بادبان

 

ایک تجویز جو ان مسائل سے چھٹکارا دے سکتی ہے وہ ہے شمسی بادبان۔ یہ سورج کی معمولی لیکن متلون روشنی کے دباؤ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جو اتنا ہوتا ہے کہ ایک بڑے بادبان کو خلاء میں چلا سکے۔ شمسی بادبان کا خیال کافی پرانا ہے جس کا تذکرہ جوہانس کیپلر نے اپنی کتاب سومینیم میں ١٦١١ء میں کیا ہے۔

ہرچند شمسی بادبان کے پیچھے سادہ سی طبیعیات موجود ہے ، لیکن ایک ایسے شمسی بادبان کو بنانے میں پیش رفت کافی ناہموار رہی ہے جس کو خلاء میں بھیجا جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ایک جاپانی راکٹ نے کامیابی کے ساتھ دو چھوٹے شمسی بادبانوں کے تجرباتی نمونے خلاء میں بھیجے۔ ٢٠٠٥ء میں پلانیٹری سوسائٹی، کوسموس ا سٹوڈیو اور رشین اکیڈمی آف سائنس نے کوسموس ١ کو سب میرین برنٹس سی سے خلاء میں چھوڑا۔ لیکن افسوس کہ اس کو لے کر جانے والا وولنا راکٹ ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے اس کو مدار میں نہیں پہنچا یا جا سکا۔ (اس سے پہلے بھی ایک اور کوشش ٢٠٠١ء میں اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب بادبان کو خلاء میں بیرون مدار چھوڑا جا رہا تھا۔ )  فروری ٢٠٠٦ء میں ایک ١٥ میٹر کا شمسی بادبان کامیابی کے ساتھ مدار میں جاپانی ایم وی راکٹ کے ذریعہ چھوڑا گیا۔ اگرچہ اس میں بھی بادبان مکمل طور پر نہیں کھل پایا تھا۔

اگرچہ شمسی بادبانوں کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت تکلیف دہ حد تک سست ہے لیکن اس کے حامیوں کے پاس ایک اور خیال ہے جس کے نتیجے میں یہ ہمیں ستاروں تک پہنچا سکتے ہیں : ایک عظیم الشان لیزروں کا پشتہ چاند پر بنایا جائے تو وہاں سے انتہائی طاقتور لیزر کی شعاعیں شمسی بادبان پر پھینکی جا سکتی ہیں  جس کے نتیجے میں وہ قریبی ستارے تک جا سکتا ہے۔ بین السیارہ شمسی بادبانوں کی طبیعیات بہت ہی زیادہ ڈھاما ڈول ہے۔ بادبان کو خود سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے۔ اس عظیم حجم کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو مکمل طور پر خلاء میں ہی بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہزار ہا طاقتور لیزر کرنوں کو چاند پرنانا ہو گا جس میں سے ہر ایک لیزر اتنی طاقتور ہونی چاہئے جو مسلسل کچھ برسوں سے لے کر کچھ عشروں تک شعاعوں کو پھینک سکے۔ (ایک تخمینے کے مطابق جن لیزر شعاعوں کو پھینکنے کی ضرورت ہو گی ان کو زمین کی دور حاضر کی توانائی کو پیدا کرنے سے لگ بھگ ایک ہزار گنا زیادہ قوّت درکار ہو گی۔)

کاغذوں کے مطابق ایک بھاری بھرکم روشنی کا بادبان، روشنی کی آدھی رفتار تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے شمسی بادبان کو صرف قریبی سیارے تک پہنچنے کے لئے ٨ سال یا اس سے کچھ زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس قسم کے دھکیلنے والے نظام کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ فوری طور پر دستیاب ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے کسی بھی شمسی بادبان کو بنانے کے لئے طبیعیات کے کسی نئے قانون کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اصل مسئلہ مالی اور فنی ہے۔ کسی بھی سینکڑوں میل لمبے شمسی بادبان اور طاقتور لیزر کی کرنوں کو چاند پر بنانے کے لئے انجینئرنگ کے ہیبت ناک مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ جس کے لئے درکار ٹیکنالوجی شاید اگلے صدی میں ہی حاصل ہو سکے گی۔ ( ایسے کسی بھی شمسی بادبان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہو گی ؟ ایک لیزر کی شعاعوں کا دوسرا پشتہ کسی دور دراز چاند پر بنانا ہو گا تاکہ بادبان کو واپس زمین پرلا یا جا سکے۔ یا ہو سکتا ہے کہ جہاز ستارے کے گرد تیزی سے جھولا کھاتے ہوئے ، اس کو غلیل کی طرح استعمال کرتے ہوئے اتنی رفتار حاصل کر لے کہ وہ اس کو واپس زمین تک لے جا سکے۔ اس کے بعد چاند پر موجود لیزر کی شعاعوں کو واپسی پر اس کو آہستہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ زمین پر اتر سکے۔ )

 

                دو شاخہ گداختی انجن  (Ramjet Fusion )

 

ستاروں تک سفر کرنے کا میرا اپنا پسندیدہ امیدوار دو شاخہ گداختی انجن ہے۔ کائنات میں ہائیڈروجن کی بہتات ہے لہٰذا دو شاخہ انجن آسانی کے ساتھ ہائیڈروجن کو سفر کے دوران حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے پاس نہ ختم ہونے والا ایندھن موجود ہو گا۔ ہائیڈروجن کو حاصل کرنے کے بعد اس کو دسیوں لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جائے گا تا کہ وہ اتنی گرم ہو جائے اس میں گداختی عمل شروع ہو کر اس کے دو جوہروں کو ایک بھاری عنصر میں ضم کر کے حر مرکزی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی کا اخراج کرے۔

دو شاخہ گداختی انجن کی تجویز طبیعیات دان” رابرٹ ڈبلیو بزارڈ” (Robert W. Busard)  نے ١٩٦٠ء میں دی تھی  اور بعد میں کارل ساگاں نے اس کو کافی مشہور کیا تھا۔ بزارڈ کے اندازے کے مطابق ایک ہزار ٹن وزنی دو شاخہ انجن نظری طور پر ایک جی فورس کی دھکیل کی قوّت کو پائیداری اور تسلسل کے ساتھ پیدا کر سکتا ہے۔ اس جی فورس کا مقابلہ زمین کی سطح پر کھڑے ہونے کی درکار طاقت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دو شاخہ انجن ایک جی فورس کے اسراع کو ایک سال تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے  تو وہ روشنی کی سمتی رفتار کے ٧٧ فیصد تک پہنچ جائے گا جو نجمی سفر کرنے کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ امکان کو پیدا کرتا ہے۔ دو شاخہ انجن کے قابل عمل سفر کی شرائط کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں ہائیڈروجن گیس کی اوسطاً کثافت پوری کائنات میں جاننی ہو گی۔ موٹا موٹا حساب لگا کر ہم ایک جی فورس اسراع حاصل کرنے کے لئے درکار ہائیڈروجن گیس کو بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ حساب ہمیں بتائے گا کہ ہمیں ہائیڈروجن گیس حاصل کرنے کے لئے کتنا بڑا "ڈونگا” (Scoop) چاہئے ہو گا۔ چند معقول مفروضوں کے ساتھ ہمیں یہ بات آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے کہ ہمیں ایک ١٦٠ کلو میٹر قطر کا ہائیڈروجن حاصل کرنے کا ڈونگا چاہئے ہو گا۔ اگرچہ اتنا بڑا ڈونگا زمین پر نہیں بنایا جا سکتا، لیکن بے وزنی کی حالت میں خلاء میں اس کو بنانے میں زمین پر درکار مسائل سے کم کا سامنا ہو گا۔

اصولی طور پر دو شاخہ انجن اپنے آپ کو لامحدود طور پر دھکیل سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کہکشاں کے دور دراز تاروں تک بھی جا پہنچ سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق راکٹ کے اندر وقت آہستہ گزرے گا لہٰذا یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ عملے کو” غنودگی کے عمل” (Suspended Animation) میں ڈالے بغیر ہی فلکیاتی فاصلوں کو طے کر لیا جائے۔ ایک جی فورس لگا کر گیارہ سال بعد حاصل ہونے والے اسراع کی مدد سے ، خلائی جہاز میں موجود گھڑیوں کے مطابق، خلائی جہاز ہم سے ٤٠٠ نوری برس کی مسافت پر موجود "پلئیڈیز” (Pleiades)  ستاروں کے جھرمٹ میں پہنچ جائے گا جبکہ صرف ٢٣ برسوں میں وہ ہم سے ٢٥ لاکھ نوری برس کے فاصلے پر موجود اینڈرومیڈا کہکشاں پر پہنچ سکتا ہے۔ مفروضے کی بنیاد پر خلائی جہاز قابل مشاہدہ کائنات کی سرحدوں پر عملے کی زندگی میں ہی پہنچ سکتا ہے (اگرچہ زمین پر ارب ہا سال گزر چکے ہوں گے ) ۔

اس میں سب سے کلیدی بے یقینی گداختی عمل ہے۔ آئی ٹی ای آر گداختی ری ایکٹر جنوبی فرانس میں بننے کے لئے طے ہوا ہے جس میں ہائیڈروجن کے دو کمیاب ہم جا (ڈیوٹیریئم اور ٹریٹم) کو توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ خلاء میں سب سے زیادہ بہتات ہائیڈروجن کے اس عنصر کی ہے جس میں ایک پروٹون اور ایک الیکٹران ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دو شاخہ انجن کو پروٹون پروٹون گداختی عمل سے استفادہ اٹھانا ہو گا۔ ہرچند ڈیوٹیریئم / ٹریٹم گداختی عمل کئی دہائیوں سے طبیعیات دانوں کے زیر تحقیق ہے ، لیکن پروٹون پروٹون گداختی عمل کو بہت ہی کم سمجھا گیا ہے ، اس کو نہ صرف سمجھنا ایک مشکل امر ہے بلکہ اس سے حاصل کردہ توانائی بھی بہت کم مقدار کی ہو گی۔ لہٰذا اس زیادہ مشکل پروٹون پروٹون کے گداختی عمل میں ماہر ہونے کے لئے آنے والی دہائیوں میں کئی فنی مشکلات کو عبور کرنا ہو گا۔ (کچھ انجینیروں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا دو شاخہ انجن گھسٹنے کے اثر کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے پر کم کر سکے گا۔ )

جب تک پروٹون پروٹون گداختی عمل کی طبیعیات اور معاشیات کا حل نہیں نکالا جاتا اس وقت تک دو شاخہ انجن کی عمل پذیری کا صحیح اندازہ لگانا امر محال ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کا نقشہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے کسی بھی مہم کے ممکنہ امید واروں کی فہرست میں شامل ہے۔

 

                نیوکلیائی برقی راکٹ

 

١٩٥٦ء میں یو ایس اٹامک انرجی کمیشن (اے ای سی ) نے نیوکلیائی راکٹوں کو بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور فکر شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک "پروجیکٹ روور” (Project Rover) بنا۔ نظریاتی طور پر نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر ہائیڈروجن جیسی گیسوں کو انتہائی درجہ حرارت تک گرم کرنے کے لئے استعمال ہو گا اور اس کے بعد گرم گیسیں راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالی جائیں گی جس کے نتیجے میں دھکیل کی قوّت پیدا ہو گی۔

زمین کی فضا میں زہریلے نیوکلیائی ایندھن کے دھماکے کے خطرے کے پیش نظر، ابتدائی نیوکلیائی راکٹ کے تجرباتی نمونے ریل کی پٹریوں پر افقی رکھے گئے جس کے بعد ان کی کارکردگی کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ پہلا نیوکلیائی راکٹ انجن جو پروجیکٹ روور کے تحت جانچا گیا وہ ١٩٥٩ء میں کیوی ١ تھا ( جس کو آسٹریلیا کے لا پرواز پرندے کے نام پر رکھا گیا تھا ) ۔ ١٩٦٠ء میں ناسا نے "اے ای سی” کے ساتھ مل کر ایک نیوکلیئر انجن فار راکٹ وہیکل ایپلیکیشنز  (این ای آر وی اے ) بنایا جو پہلا نیوکلیائی راکٹ تھا جس کو افقی چلانے کے بجائے عمودی طرح سے چلا کر جانچا گیا تھا۔ ١٩٦٨ء میں یہ نیوکلیائی راکٹ آزمائشی طور پر نشیب کی طرف چلایا گیا۔

اس تحقیق سے حاصل کردہ نتائج ملے جلے تھے۔ راکٹ بہت زیادہ پیچیدہ تھا اور اکثر غلط داغ دیا جاتا تھا۔ نیوکلیائی انجن کی زبردست تھرتھراہٹ اکثر ایندھن کے بنڈلوں کو چٹخا دیتی تھی جس کے نتیجے میں جہاز ٹوٹ جاتا تھا۔ اونچے درجہ حرارت پر ہائیڈروجن کو جلانے کی وجہ سے خوردگی (Corrosion)  ایک مستقل مسئلہ تھی۔ نیوکلیائی راکٹ کو آخر کار ١٩٧٢ء میں بند کر دیا گیا۔

(ان ایٹمی راکٹوں میں ایک اور مسئلہ بے قابو نیوکلیائی عمل کا بھی تھا جیسا کہ ایک چھوٹے سے ایٹم بم میں ہوتا ہے۔ اگرچہ تجارتی نیوکلیائی بجلی گھر آج کل رقیق نیوکلیائی ایندھن پر چل رہے ہیں اور ہیروشیما پر گرائے گئے بم کی طرح سے نہیں پھٹ سکتے ، یہ ایٹمی راکٹ، زیادہ دھکیل کی قوّت پیدا کرنے کے چکر میں، بلند درجے کی افزودہ یورینیم کا استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ ایک زنجیری عمل کی صورت میں پھٹ کر ننھے نیوکلیائی دھماکوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب نیوکلیائی راکٹ کا منصوبہ ختم ہونے کے قریب تھا تو سائنس دانوں نے ایک آخری ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ راکٹ کو ایک چھوٹے نیوکلیائی بم کی طرح پھاڑا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے قابو میں رکھنے والی سلاخوں کو ہٹا دیا [جن کا کام نیوکلیائی عمل پر نظر رکھنا تھا ]۔ ری ایکٹر بے قابو ہو کر ایک آگ کے شعلوں کی گیند بن کر پھٹ گیا۔ اس شاندار نیوکلیائی راکٹ منصوبے کی موت کو فلمایا بھی گیا تھا۔ روسی اس بات سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس کرتب کو لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی کی خلاف ورزی جانا جس میں زمین کے اوپر نیوکلیائی بم کو پھاڑنے پر پابندی تھی۔ )

ماضی میں مختلف ادوار میں فوج وقتاً فوقتاً نیوکلیائی راکٹ کو بنانے کا جائزہ لیتی رہی ہے۔ ایک خفیہ منصوبہ” ٹمبر ونڈ نیوکلیائی راکٹ "کا تھا جو کہ ١٩٨٠ء میں فوجی اسٹار وار منصوبے کا حصّہ تھا۔ (فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ  کے اس کو ظاہر کرنے کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا۔ )

سب سے بڑا مسئلہ نیوکلیائی راکٹ میں حفاظت کا ہے۔ ٥٠ سال سے زیادہ عرصے تک خلاء میں اپنی موجودگی کے باوجود کیمیائی راکٹ بوسٹر میں ایک فیصدی خطرہ ناکام ہو کر تباہی مچانے کا اپنی جگہ موجود ہے۔ (چیلنجر اور کولمبیا خلائی جہازوں کے دو انتہائی افسوس ناک واقعات نے ناکامی کی اس شرح کو مزید تقویت بخشی ہے اس حادثے میں چودہ خلا نوردوں نے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لئے تھے۔ )

ان تمام باتوں سے قطع نظر، ماضی میں چند برسوں کے دوران ناسا نے نیوکلیائی راکٹ میں اپنی تحقیق کو پہلی مرتبہ١٩٦٠ء کے این ای آر وی اے منصوبے کو ختم کرنے کے بعد سے دوبارہ شروع کیا ہے۔ ٢٠٠٣ء ایک نیا منصوبہ جس کا نام یونانی دیوتا "پرومیتھیئس” (Prometheus) کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے انسانوں کو آگ کا تحفہ دیا تھا۔ ٢٠٠٥ء میں پرومیتھیئس کو ٤٣ کروڑ ڈالر کا فنڈ دیا گیا تھا۔ بہرحال ٢٠٠٦ء میں اس فنڈ میں زبردست کٹوتی کر کے اس کو صرف ١٠ کروڑ ڈالر تک محدود کر دیا تھا۔ منصوبے کا مستقبل تا حال واضح نہیں ہے۔

 

                نیوکلیائی ضربی راکٹ

 

ایک اور دور کی کوڑی یہ ہے کہ راکٹ کو دھکیلنے کے لئے چھوٹے نیوکلیائی بموں کے سلسلہ کو استعمال کیا جائے۔ پروجیکٹ اورائن میں چھوٹے ایٹم بموں کو راکٹ میں ایک ترتیب میں چھوڑا جانا تھا تاکہ خلائی جہاز ان چھوٹے ہائیڈروجن بموں کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی صدماتی موجوں پر سفر کر سکے۔ ایسا کوئی بھی خلائی جہاز کم از کم نظری طور پر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ ١٩٤٧ء میں "اسٹینس لاء اولم” (Stanislaw Ulam)  نے اس طرز کے راکٹ کو بنانے کا خیال پیش کیا جو اس وقت پہلے ہائیڈروجن بم کو بنانے میں مدد کر رہا تھا، اس خیال پر مزید کام ٹیڈ ٹیلر ([Ted Taylor]جو یو ایس فوج میں نیوکلیائی بموں کا چیف ڈیزائنروں میں سے ایک تھا ) اورپرنسٹن میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طبیعیات دان "فری مین ڈیسن” (Freeman Dyson)  نے کیا۔

١٩٥٠ء کے اواخر میں اور ١٩٦٠ء کی دہائی میں ایسے کسی نجمی راکٹ کے لئے مفصل تخمینے لگائے گئے۔ اندازہ لگایا گیا کہ ایسا کوئی بھی خلائی جہاز سب سے زیادہ بلند سمتی رفتار جو روشنی کی رفتار کے ١٠ فیصد تک ہو سکتی ہے حاصل کر کے پلوٹو جا کر ایک سال میں واپس بھی آ سکتا ہے۔ مگر اس شاندار رفتار کے باوجود بھی قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ٤٤ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ سائنس دانوں نے اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ اس قسم کے راکٹوں کے ذریعہ چلانے والی کوئی بھی خلائی کشتی صدیوں تک چلائی جا سکتی ہے ، جس میں خلا نوردوں کی کئی نسلیں پیدا ہو کر اپنی تمام زندگی اسی خلائی کشتی پر گزار سکتی ہیں اس طرح سے ان کی اگلی نسل قریبی ستارے تک پہنچ سکتی ہیں۔

١٩٥٩ء میں جنرل اٹامکس نے ایک رپورٹ کا اجراء کیا جس میں ایک اورائن خلائی جہاز کے حجم کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس کے مطابق سب سے بڑا نمونے سپر اورائن کا وزن ٨ لاکھ ٹن جبکہ اس کا قطر ٤٠٠ میٹر کا ہو گا۔ اور اس کو ایک ہزار ہائیڈروجن کے بموں کی قوّت سے چلانا ہو گا۔

ایسے کسی بھی خلائی جہاز میں ایک سب سے بڑا مسئلہ اس ممکنہ آلودگی کا ہے جو اس کے خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت پیدا ہو گی۔ ڈیسن نے اندازہ لگایا کہ ہر چھوڑے جانے والے خلائی جہاز سے نکلنے والا نیوکلیائی فضلہ١٠ لوگوں میں مہلک قسم کا کینسر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کسی بھی خلائی جہاز کو چھوڑتے وقت نکلنے والی برقی مقناطیسی ضربیں (ای ایم پی ) اس قدر زور آ ور ہوں گی کہ آس پاس کے پڑوس میں موجود برقی نظام میں شارٹ سرکٹ پیدا کر دیں گی۔

١٩٦٣ء میں لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی پر دستخط کرنے کی وجہ سے اس منصوبے کی موت ہو گئی۔ آخر میں اس منصوبے کے روح رواں، نیوکلیائی بم کے ڈیزائنر ٹیڈ ٹیلر نے ہار مان لی۔ (ایک دفعہ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی کہ ان پر اس پروجیکٹ کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ چھوٹے ہائیڈروجن بموں کے پیچھے کی طبیعیات کو دہشت گرد ان بموں میں استعمال کر سکتے ہیں جن کی ترسیل انتہائی آسان ہو گی۔ اگرچہ اس منصوبے کو خطرناک سمجھتے ہوئے اس پر تالا ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا نام اورائن خلائی جہاز کے نام سے باقی رکھا گیا۔ اس خلائی جہاز کو ناسا نے ٢٠١٠ء میں "خلائی شٹل "سے تبدیل کرنے کے لئے چنا ہے۔ )

نیوکلیائی توانائی سے چلنے والے راکٹ کا تصوّر برطانیہ کی بین السیارہ سوسائٹی نے ١٩٧٣ء سے لے ١٩٧٨ء تک دوبارہ "ڈائڈالس منصوبے ” (Project Daedalus) کے نام سے زندہ کیا۔ یہ ایک ابتدائی تحقیق تھی جس کا مقصد بغیر انسان کے نجمی خلائی جہاز کی معقولیت کو جانچنا تھا۔ اس خلائی جہاز کو برنارڈ ستارے تک پہنچنا تھا جو زمین سے ٥۔ ٩ نوری برس کے فاصلے پر تھا۔ (برنارڈ ستارہ اس لئے چنا گیا تھا کہ امکان غالب تھا کہ یہاں ایک سیارہ موجود ہو سکتا ہے۔ اس وقت سے فلکیات دان "جل ٹارٹر” (Jill Tarter)  اور مارگریٹ ٹرنبل (Margaret Turnbull)  نے ایک ١٧، ٢١٩ قریبی ستاروں کی فہرست بنائی ہے جن کے سیارے حیات کا مسکن ہو سکتے ہیں۔ حیات کے مسکن کے سب سے بہترین امیدوار اپسیلون انڈی الف ہے جس کا زمین سے فاصلہ  جو ١١۔ ٨ نوری برس کا ہے۔ )

ڈائڈالس منصوبے کا خلائی جہاز اس قدر بڑا تھا کہ اس کو خلاء میں ہی بنایا جا سکتا تھا۔ اس کا کل وزن ٥٤ ہزار ٹن ہوتا جس میں کام کے حصّے کا وزن صرف ٤٥٠ ٹن جبکہ باقی زیادہ تر وزن ایندھن کا ہوتا اور وہ روشنی کی رفتار کا صرف ٧۔ ١ فیصد ہی حاصل کر پاتا۔ ننھے ہائیڈروجن بموں کو استعمال کرنے والے اورائن منصوبے کے برعکس، ڈائڈالس کا منصوبہ ڈیوٹیریئم / ہیلیئم – ٣ کے ملغوبہ والے چھوٹے ہائیڈروجن بم استعمال کرتا اور ان کو الیکٹران کی شعاعوں سے جلایا جاتا۔ زبردست فنی مسائل اور نیوکلیائی دھکیل کے نظام پر خدشات کی بنیاد پر ڈائڈالس کا منصوبہ غیر معینہ مدّت کے لئے سر بمہر کر دیا گیا۔

 

                مخصوص ضرب اور انجن کی کارکردگی

 

انجنیئر اکثر مخصوص ضرب کی بات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم کارکردگی کے لحاظ سے مختلف انجن کے ڈیزائن کو درجوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ مخصوص ضرب کو ہم راکٹ کی فی کمیتی اکائی کی بنسبت معیار حرکت میں تبدیلی سے بیان کر سکتے ہیں کہ لہٰذا انجن کی کارکردگی جتنی بہتر ہو گی خلاء میں اضافی حرکت کے لئے درکار اتنے  ہی کم ایندھن کی ضرورت ہو گی۔ معیار حرکت اس قوّت کا حاصل ہے جو کچھ وقت کے بعد حاصل کی جائے۔ کیمیائی راکٹوں میں اگرچہ بڑے دھکیل موجود ہوتے ہیں لیکن یہ صرف چند منٹوں تک ہی چلتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی مخصوص ضرب بہت ہی کم درجہ کی ہوتی ہے۔ کیونکہ برق پارے کے انجن برسوں تک چل سکتے ہیں لہٰذا ان میں بلند مخصوص ضرب ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف ان میں دھکیل کی قوّت انتہائی پست ہوتی ہے۔

مخصوص ضرب کو سیکنڈوں میں ناپا جاتا ہے۔ ایک مخصوص کیمیائی راکٹ میں ٤٠٠-٥٠٠ سیکنڈوں کی مخصوص ضرب ہو سکتی ہے۔ خلائی شٹل کے انجن کی مخصوص ضرب ٤٥٣ سیکنڈ ہے۔ (سب سے بلند مخصوص ضرب صرف ٥٤٢ سیکنڈوں کی ہے جو کسی کیمیائی راکٹ نے حاصل کی ہے۔ اس کو ہائیڈروجن، لیتھیم اور فلورین کے ملغوبہ کو راکٹ میں استعمال کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ ) ا سمارٹ – ١ کے راکٹ کی مخصوص ضرب کی قوّت ١٦٤٠ سیکنڈ ہے۔ بلند ترین ممکنہ مخصوص ضرب جو کوئی بھی راکٹ حاصل کر سکتا ہے وہ روشنی کی رفتار ہے۔ اس کی مخصوص ضرب لگ بھگ ٣ کروڑ ہو گی۔ درج ذیل ایک چارٹ دیا گیا ہے جو مختلف قسم کے راکٹ انجن کی مختلف مخصوص ضربوں کو بیان کرتا ہے۔

راکٹ کی قسم     مخصوص ضرب

ٹھوس ایندھنی راکٹ      ٢٥٠

مائع ایندھنی راکٹ        ٤٥٠

برق پارہ انجن     ٣٠٠٠

وی اے ایس آئی ایم آر پلازما انجن    ١٠٠٠ – ٣٠٠٠٠

نیوکلیائی انشقاقی راکٹ     ٨٠٠ – ١٠٠٠

نیوکلیائی گداختی راکٹ     ٢٥٠٠ – ٢٠٠٠٠٠

نیوکلیائی ضربی راکٹ     ١٠٠٠٠ – ١٠ لاکھ

ضد مادّہ راکٹ    دس لاکھ – ایک کروڑ

(نظریاتی طور پر، لیزر بادبان اور دو شاخہ انجن  کے مسائل کو اگر چھوڑ دیں تو ان کو لامتناہی مخصوص ضرب حاصل ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس راکٹ ہوتا ہی نہیں ہے۔ )

 

                خلائی بالا بر  (Space Elevators)

 

ایک سب سے خطرناک اعتراض ان تمام راکٹوں کے نقشوں پر حجم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ بلحاظ حجم  یہ اس قدر قوی الجثہ ہوتے ہیں کہ ان کو زمین پر کبھی بھی نہیں بنائے جا سکے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ سائنس دان اس بات کی تجویز دیتے ہیں کہ ان کو خلاء میں بنایا جائے جہاں وزن کے بغیر کا ماحول خلا نوردوں کو بھاری چیزیں حرکت دینے میں انتہائی سازگار ہو گا۔ مگر ناقدین خلاء میں جہاز کو بنانے کی لاگت کی وجہ سے اس کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی خلائی ا سٹیشن کو مکمل بنانے کے لئے ١٠٠ خلائی جہازوں کو خلاء میں بھیجنا پڑا اور اس کی لاگت ایک کھرب ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے مہنگا منصوبہ ہے۔ نجمی خلائی بادبان یا دو شاخہ ڈونگا خلاء میں بنانا اس سے کہیں زیادہ مہنگا پڑے گا۔

مگر جیسے کہ ایک سائنس فکشن مصنف ” رابرٹ ہینلین” (Robert Heinlein)  یہ بات نہایت شوق سے اکثر و بیشتر دہراتے ہیں کہ اگر آپ زمین سے ١٦٠ کلو میٹر اوپر چلے جائیں تو آپ نظام شمسی کے کسی بھی حصّے تک پہنچنے کے لئے آدھا راستہ طے کر چکے ہیں۔ ان کے قول کی ایک وجہ سے کہ کسی بھی خلائی جہاز کو شروع کے ١٦٠ کلو میٹر میں زمین کی کشش ثقل سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں جو لاگت آتی ہے وہ اس لاگت سے کہیں زیادہ ہے جو راکٹ کو پلوٹو یا اس سے آگے وہاں سے کہیں اور جانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔

مستقبل میں لاگت میں ڈرامائی کمی کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک خلائی بالا بر بنایا جائے۔ رسی پر چڑھ کر فلک پر پہنچنے کا خیال بہت پرانا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی کہانی "جیک اینڈ دی بین سٹالک ” میں یہ تصوّر موجود ہے۔ یہ بات حقیقت کا روپ تب دھار سکتی ہے جب رسی کو کافی دور تک خلاء میں بھیجا جا سکے۔ اس وقت زمین کی محوری گردش سے پیدا ہوئی مرکز گریز قوّت اتنی ہو گی کہ وہ اس کی جاذبی قوّت کو زائل کر سکے۔ اس طرح  سے وہ رسی کبھی نیچے نہیں گرے گی۔ رسی جادوئی طور پر خلاء میں جاتی ہوئی بادلوں میں غائب ہو جائے گی۔ (ایک رسی میں بندھی ہوئی گیند کا تصوّر کریں۔ ایسے لگے گا جیسے کہ بال پر کشش ثقل اثر انداز نہیں ہو رہی ہے کیونکہ مرکز گریز قوّت اس کو محوری مرکز سے دور کر رہی ہو گی۔ بالکل ایسی طرح سے ایک لمبی رسی بھی ہوا میں زمینی گھماؤ کی وجہ سے معلق رہی گی۔ ) زمین سے ہوا معلق رکھنے کے لئے زمین کی محوری گردش کے علاوہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی۔ نظری طور پر کوئی بھی شخص اس رسی پر چڑھ اور اتر سکتا ہے۔ ہم اکثر سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں طبیعیات کا مضمون پڑھنے والے طلبہ کو ایسی کسی رسی کے تناؤ کا حساب لگانے کا ایک مسئلہ دیتے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنا انتہائی آسان ہے کہ رسی پر موجود تناؤ اتنا ہو گا کہ کسی اسٹیل کے تار کو بھی وہ آسانی کے ساتھ چٹخا سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اگرچہ بالائی بروں کو بنانے کے لئے کافی عرصے سے سوچا تو جا رہا ہے لیکن ان کو بنانا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ خلائی بر پر سب سے پہلی سنجیدہ تحقیق ایک صاحب کشف روسی سائنس دان کونسٹنٹین ٹیولکوفسکی نے کی۔ ١٨٩٥ء میں ایفل ٹاور سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک ایسے مینار کا خواب دیکھا جو خلاء تک جاتا ہو اور زمین کو خلاء میں فلکی اجسام سے ملاتا ہو۔ خلائی بالا بر کو زمین سے اٹھاتے ہوئے انجنیئر آہستگی کے ساتھ اسے آسمانوں تک لے جائیں۔

١٩٥٧ میں روسی سائنس دان "یوری آرٹ سٹا نوف” (Yuri Artsutanov) نے ایک نیا حل تجویز کیا کہ خلائی بالا بر کو الٹے طریقہ سے بنایا جائے یعنی اوپر سے نیچے کی جانب جس کی شروعات خلاء سے کی جائے۔ اس نے ایک ایسے مصنوعی سیارچے کا تصوّر پیش کیا جو ساکن زمینی مدار میں خلاء میں ٣٦ ہزار میل کی اونچائی پر رہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زمین سے دیکھنے پر وہ ساکن ہی نظر آئے گا اور تار کو نیچے زمین پر اتارا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد تار کو زمین سے جڑے آنکڑے میں پھنسا دیا جائے گا۔ مگر اس خلائی بالا پر کی رسی کو ٦٠ سے ١٠٠ گیگا پا سکل (جی پی اے ) تناؤ کو برداشت کرنا ہو گا۔ اسٹیل تو صرف ٢ جی پی اے پر ہی ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ خیال قابل عمل نہیں لگتا۔

آرتھر سی کلارک کے ١٩٧٩ء میں شائع ہونے والے ناول "دی فاؤنٹین آف پیرا ڈائز اور رابرٹ ہینلین کا ١٩٨٢ء کے ناول "فرائیڈے ” نے خلائی بالا بر کے تصوّر کو کافی مقبولیت بخشی۔ مگر اس خیال میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

کیمیا دانوں کی کاربن نینو ٹیوبز کی ایجاد کے بعد سے صورتحال کچھ بدلی ہے۔ ١٩٩١ء میں نیپون الیکٹرک کے "سومیو ایجیما ” (Somio Iijima) کے کام کی وجہ سے اس میں لوگوں کی دلچسپی ایک دم سے بڑھ گئی ہے۔ (اگرچہ کاربن نینو ٹیوبز کے ثبوت ١٩٥٠ء کی دہائی سے ملتے ہیں جس کو اس وقت نظر انداز کر دیا گیا تھا ) ۔ حیرت انگیز طور پر نینو ٹیوبز ا سٹیل کی تاروں سے کہیں زیادہ مضبوط ہونے کا باوجود کہیں زیادہ ہلکی ہوتی ہیں۔ حقیقت میں ان کی طاقت اس سے کہیں زیادہ ہے جو خلائی بالا بر کے لئے درکار ہوتی ہے۔ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کاربن نینو ٹیوبز فائبر ١٢٠ جی پی اے کا تناؤ برداشت کر سکتی ہیں جو اس ٹوٹنے والے نقطہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دریافت نے خلائی بالا بر کو بنانے میں دوبارہ سے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

١٩٩٩ء میں ناسا کی ایک تحقیق میں خلائی بالا بر پر کافی سنجیدگی سے غور کیا گیا، جس میں ایک ایسے فیتے کا خیال پیش کیا گیا جو ایک میٹر چوڑا اور ٤٧ ہزار کلو میٹر لمبا ہو گا اور وہ ١٥ ٹن وزن کو زمین کے مدار میں پہنچا سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ خلائی بالا بر خلائی معیشت کو راتوں رات بدل دے۔ یہ لاگت میں دس ہزار گنا کمی کر کے خلائی سفر کے میدان میں ایک زبردست انقلابی تبدیلی برپا کر سکتے ہیں۔

دور حاضر میں ایک پونڈ وزن کو زمین کے مدار میں بھیجنے کے لئے ١٠ ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ کی لاگت آتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر خلائی شٹل مہم میں آنے والی لاگت ٧٠ کروڑ ڈالر ہوتی ہے۔ خلائی بالا بر لاگت کو ایک ڈالر فی پونڈ تک کم کر سکتا ہے۔ خلائی مہمات کی بنیادی لاگت میں کمی خلائی سفر میں ایک انقلاب رونما کر سکتا ہے۔ ایک سادے سے بٹن کو دبا کر کوئی بھی شخص ایک ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی قیمت میں خلائی سفر کے مزے لے سکتا ہے۔

مگر اس کام میں فلک کے لئے اٹھان بھر نے میں سخت عملی رکاوٹیں موجود ہیں۔ فی الوقت تجربہ گاہوں میں بنائی گئی کاربن نینو ٹیوبز ١٥ ملی میٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہیں۔ خلائی بالا بر کو بنانے کے لئے ہمیں ہزاروں میل لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی ضرورت ہو گی۔ سائنس دانوں کے نقطہ نظر سے یہ صرف ایک فنی مشکل ہے ، لیکن یہ ایک ضدی اور مشکل مسئلہ ہے اگر ہم خلائی بالا بر کو بنانا چاہتے ہیں تو اس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ سائنس دانوں کی اکثریت کو اس بات پر یقین ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے کچھ عشروں میں ہم لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی تاروں کو بنانے میں مہارت حاصل کر لیں۔

دوسرے کاربن نینو ٹیوبز میں موجود خورد بینی کثافت لمبے تاروں کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہیں۔ اٹلی میں واقع پولی ٹیکنیک آف ٹیورن کے ” نیکولا پنگو” (Nicola Pungo) کے اندازے کے مطابق اگر کاربن نینو ٹیوب میں سے ایک ایٹم بھی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا ہو تو اس کی مضبوطی ٣٠ فیصد کم ہو جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ایٹمی پیمانے کے نقص نینو ٹیوبوں کی تاروں کی مضبوطی کو ٧٠ فیصد تک کم کر سکتے ہیں جس سے خلائی بالا بر کو سہارا دینے کے لئے ضروری درکار کم از کم گیگا پا سکل مضبوطی کہیں کم ہو جاتی ہے۔

خلائی بالا بر میں مہم کارانہ دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے ناسا نے دو انعامات کے اجراء کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ( انعامات کو ایک کروڑ ڈالر کے ” انصاری ایکس انعام” کی طرز پر رکھا گیا ہے جس نے مہم کار موجدوں میں ایک ایسے تجارتی خلائی جہاز بنانے کے لئے جذبہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو مسافروں کو خلاء کی آخری حد تک لے جا سکے۔ ایکس انعام ا سپیس شپ و ن نے ٢٠٠٤ء میں جیت لیا تھا۔ ) ناسا جس انعام کو پیش کر رہا ہے وہ بیم پاور چیلنج کہلائے گا۔ اس میں حصّہ لینے والی ٹیموں کو ایک ایسا آلہ بنانا ہو گا ( جو کرین کی مدد سے ہوا میں معلق ہو گا۔ ) جو کم از کم ٢٥ کلو وزن کو ایک رسی کی مدد سے ایک میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ٥٠ میٹر کی دوری تک بھیج سکے۔ سننے میں یہ کافی آسان لگتا ہے ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس آلے کو نہ تو کوئی ایندھن استعمال کرنا ہو گا نہ ہی کسی قسم کی بیٹری یا برقی تار۔ اس کے برعکس روبوٹک آلے کو درکار توانائی شمسی پینل ، شمسی عاکس، لیزر یا خورد موجوں کے ذریعہ حاصل کرنی ہو گی جو خلاء میں توانائی حاصل کرنے کے زیادہ مناسب طریقے ہیں۔

اس رسی کو بنانے کے چیلنج میں ٹیم کو ایک ٢ میٹر لمبی رسی بھی بنانی ہو گی جس کا وزن ٢ گرام سے زیادہ نہ ہو اور جو پچھلے سال کی سب سے بہترین رسی کے مقابلے میں ٥٠ فیصد زیادہ وزن اٹھا سکتی ہوں۔ اس چیلنج کا مقصد ہلکی مادّے سے بنی ہوئے چیزوں کی میں تحقیق میں تیزی پیدا کرنا ہے۔ یہ مادّے اتنے مضبوط ہونے چاہئے کہ خلاء میں ایک لاکھ کلو میٹر تک لٹک سکیں۔ اس میں ١٥٠ لاکھ ڈالر، ٤٠ ہزار ڈالر اور ١٠ ہزار ڈالر کے انعامات دیے جائیں گے۔ (اس چیلنج کے مشکل ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٢٠٠٥ء میں اس چیلنج کو دیئے ہوئے ایک سال کے گزرنے کے بعد بھی کسی نے کوئی بھی انعام نہیں جیتا۔ )

اگرچہ ایک کامیاب خلائی بالا بر خلائی مہمات میں انقلاب برپا کر سکتا ہے لیکن ایسی کسی بھی مشین کے اپنے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر زمین سے قریب مصنوعی سیارچوں کی خط حرکت زمین کے مدار میں چکر لگانے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین ان کے نیچے چکر لگاتی ہے ) ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مصنوعی سیارچے کبھی نا کبھی خلائی بالا بر سے ١٨ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے جا ٹکرائیں گے۔ اس رفتار سے ٹکر رسی کو توڑنے کے لئے کافی ہو گی۔ اس قسم کے حادثے سے بچنے کے لئے مستقبل کے سیارچوں کو اس طرح سے بنانا ہو گا کہ ان میں چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ خلائی بالا بر کے پاس سے آسانی کے ساتھ آگے پیچھے ہو کر گزر سکیں یا پھر خلائی بالا بر کی رسی  میں چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ ان کی مدد سے سامنے آتے ہوئی سیارچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔

کیونکہ خلائی بالا بر زمین کی فضا سے کافی اونچائی پر ہوں گے۔ لہٰذا خورد شہابیوں کے تصادم بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہو گا۔ عام طور سے ہمارا کرۂ فضائی ہمیں ان شہابیوں سے بچاتا ہے۔ کیونکہ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کب خورد شہابیے آ کر ٹکرا جائیں اس لئے خلائی بالا بر کو اس طرح سے بنانا ہو گا کہ وہ ان تصادموں سے اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے نظاموں میں فالتو پرزے بھی رکھے جائیں  تاکہ ممکنہ ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کیا جا سکے۔ زمین پر طوفانی موسموں کے رونما ہونے کے اثرات جیسا کہ آندھیاں، مدو جزر کی موجیں اور طوفان بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

 

                غلیل کا اثر یا ثقلی مدد (The Slingshot Effect)

 

کسی بھی جسم کو روشنی کی قریب ترین رفتار سے پھینکنے کا ایک اور نیا اور اچھوتا طریقہ "غلیلی اثر” بھی ہے۔ جب خلائی کھوجیوں کو باہر ی سیاروں کی جانب روانہ کیا جاتا ہے تو ناسا اکثر ان کو پڑوسی سیاروں کی طرف غوطہ لگواتے ہیں تاکہ وہ غلیلی اثر کو خلائی جہاز کی سمتی رفتار بڑھانے میں استعمال کر سکیں۔ ناسا اس طرح سے قیمتی ایندھن کی بچت کر لیتا ہے۔ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے وائیجر خلائی جہاز نظام شمسی کے دور دراز کنارے کے پاس واقع نیپچون سیارے تک پہنچنے کے قابل ہوا تھا۔

پرنسٹن کے طبیعیات دان فری مین ڈیسن تجویز کرتے ہیں کہ مستقبل بعید میں ہمیں دو ایسے نیوٹرون تلاش کرنے چاہیں جو ایک دوسرے کے گرد زبردست رفتار سے چکر لگا رہے ہوں۔ ان میں سے کسی ایک کے انتہائی نزدیک سفر کرتے ہوئے ہم ان کے گرد ایک جھولا لے کر خلاء میں روشنی کی رفتار کے ایک تہائی سے سفر کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں ہم قوّت ثقل کو اپنی رفتار کو مزید بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہوں گے۔ کاغذوں میں تو یہ طریقہ بالکل صحیح طرح سے کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دوسرے ماہرین یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنے سورج کے گرد اچھل کر روشنی کی رفتار کے قریب تک کا اسراع حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ درحقیقت فلم اسٹار ٹریک IV:دی وائییج ہوم میں استعمال ہوا ہے جب انٹرپرائز کا عملہ  ایک کلنگون جہاز کو اغواء کر لیتا ہے اور پھر سورج کے نزدیک جاتا ہے تاکہ روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ کر پچھلے وقت میں پہنچ جائے۔ فلم "وین ورلڈ ز کولائیڈ” میں جب زمین پر ایک سیارچے سے تصادم کا خطرہ ہوتا ہے تو اس وقت سائنس دان زمین کو ایک دیو ہیکل رولر کوسٹر بنا کر اس سے بچاتے ہیں۔ ایک خلائی جہاز رولر کوسٹر کی طرف بھیجا جاتا ہے ، جو زبردست سمتی رفتار حاصل کرتے ہوئے رولر کوسٹر کے نیچے جھکائی لیتا ہے اور خلاء میں انتہائی تیزی سے چھوڑ دیتا ہے۔

کشش ثقل کے استعمال سے اضافی رفتار حاصل کرنے والا کوئی بھی ایسا طریقہ درحقیقت خلاء  میں کام نہیں کر سکے گا۔ ( اس کی وجہ” قانون بقائے توانائی” ہے ، رولر کوسٹر میں نیچے جانے اور پھر واپس آنے میں ہم اسی سمتی رفتار پر اپنا خاتمہ کریں گے جس رفتار سے ہم نے شروع کیا تھا لہٰذا اس میں ہمیں کوئی اضافی توانائی حاصل نہیں ہو گی۔ اس طرح سے ساکن سورج کے گرد اچھلنے سے ہمیں آخر میں وہی سمتی رفتار حاصل ہو گی جس سے ہم نے شروعات کی تھی۔ ) دو نیوٹرون ستاروں کے استعمال سے ڈیسن کا طریقہ شاید اس لئے کام کر سکے گا کہ نیوٹرون ستارے بہت تیزی سے گھومتے ہیں۔ کوئی بھی خلائی جہاز جو غلیلی اثر کا استعمال کرتے ہوئی کسی سیارے یا ستارے کی حرکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صرف شدہ توانائی سے زیادہ توانائی حاصل کر لیتا ہے۔ اگر سیارہ یا ستارہ ساکن ہو تو کوئی ثقلی مدد حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ ڈیسن کی تجویز قابل عمل ہے مگر یہ آج کی دنیا میں زمین پر رہنے والے سائنس دانوں کے کسی کام نہیں آسکتی کیونکہ ہمیں کسی بھی گھومتے ہوئے نیوٹرون ستارے تک پہنچنے کے لئے بھی ایک نجمی خلائی جہاز درکار ہو گا۔

 

                فلکی ریلی بندوق

 

ایک اور دوسرا شاندار طریقہ کسی بھی جسم کو خلاء میں زبردست سمتی رفتار سے داغنے کا” ریل گن” کا ہے جس کو آرتھر سی کلارک اور دوسرے مصنفین نے اپنی سائنس فکشن کہانیوں میں استعمال کیا ہے۔ اس طریقے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اسٹار وار میزائل ڈھال کے لئے بھی جانچا گیا تھا۔

کسی جسم کو اضافی رفتار دینے کے لئے راکٹ ایندھن یا بندوق کے بارود کا استعمال کرنے کے بجائے ریلی بندوق، برقی مقناطیسی قوّت کا استعمال کرتی ہے۔ اپنی سادہ ترین شکل میں ریلی بندوق دو متوازی تاروں یا جنگلے پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ایک گولا دونوں تاروں پر رکھے ہوئے ایک U کی شکل بناتا ہے۔ مائیکل فیراڈے بھی یہ بات جانتا تھا کہ برقی رو کو جب مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو اس پر بھی قوّت اثر انداز ہوتی ہے۔ ( یہ بات تمام برقی موٹروں کی اساس ہوتی ہے۔ ) ان تاروں اور گولے میں سے دسیوں لاکھوں ایمپئر کی برقی قوّت کو گزار کر ایک زبردست مقناطیسی میدان ریل کے چاروں طرف بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مقناطیسی میدان اس کے بعد اس گولے کو ریل پر زبردست رفتار سے نہایت ہی کم فاصلہ تک دھکیلتا ہے۔ قابل ذکر طریقے سے نظری طور پر ایک سادی سی ریلی بندوق دھات کے گولے کو ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکنے کے قابل ہوتی ہے۔ نظری طور پر ناسا کے تمام راکٹوں کے بیڑے کو ریلی بندوق سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی جسم کو زمین کے مدار میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ریلی بندوق کیمیائی راکٹوں اور بندوق کے اوپر معنی خیز برتری رکھتی ہے۔ ایک بندوق میں سمتی رفتار کی وہ آخری حد صدماتی موجوں کی رفتار سے محدود ہو جاتی ہے جس میں پھیلتی ہوئی گیسیں گولی کو دھکیلتی ہیں۔ ہرچند کہ جولیس ورنی نے خلا نورد کو چاند پر بھیجنے کے لئے بندوق کا بارود اپنی کلاسک کہانی "فرام دا ارتھ ٹو دا مون ” میں استعمال کیا تھا۔ لیکن اس بات کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے کہ بندوق کے بارود کی سمتی رفتار اس رفتار سے کہیں زیادہ کم ہوتی ہے جو کسی کو چاند پر بھیجنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ریلی بندوق کو بہرحال صدماتی موجوں کی رفتار تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

مصیبت یہ ہے کہ ریلی بندوق کے ساتھ بھی کچھ مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ یہ چیزوں میں اس قدر تیز اسراع پیدا کر دیتی ہے کہ وہ ہوا سے ٹکرا کر چپٹے ہو جاتے ہیں۔ ریلی بندوق کی نالی سے نکلنے والی چیزیں اس عمل میں بری طرح سے مسخ ہو جاتی ہیں کیونکہ جب پھینکی گئی اشیاء ہوا سے ٹکراتی ہیں وہ ایسا اثر محسوس کرتی ہیں جیسے انھیں اینٹوں کی دیوار پر مارا جا رہا ہو۔ مزید براں یہ کہ بھیجی جانے والی چیزوں کا زبردست اسراع ریل کے ساتھ اتنا ہوتا ہے کہ وہ ریل کو بھی مسخ کر دیتا ہے۔ ریل کی پٹری کو بھی باقاعدگی کے ساتھ بدلنا ہو گا کیونکہ اس کو گولے کی وجہ سے نقصان پہنچے گا۔ مزید براں یہ کہ خلا نوردوں پر لگنے والی جی فورس ان کو جہان فانی سے کوچ کرانے کے لئے کافی ہو گی اور ان کے جسم میں موجود تمام ہڈیوں کا بآسانی چورا بنا ڈالے گی۔

ایک تجویز تو یہ ہے کہ ریلی بندوق کو چاند پر لگایا جائے۔ زمین کی فضا سے باہر ریلی بندوق کا گولا باہر ی خلاء کی خالی جگہ میں سے بغیر کسی پریشانی کے کسی بھی چیز کو بآسانی پھینک سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود ریلی بندوق سے پیدا شدہ زبردست اسراع مسافروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ریلی بندوق، لیزر بادبان کے برعکس کام کرتا ہے جو اپنی آخری رفتار کو ایک لمبے عرصے میں جا کر حاصل کرتا ہے۔ ریلی بندوق محدود ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ توانائی بہت ہی کم جگہ میں جمع کیے ہوتی ہیں۔

ایسی کوئی بھی ریلی بندوق جو کسی بھی شئے کو قریبی ستارے کی طرف پھینک سکے کافی مہنگی ہو گی۔ ایک تجویز یہ ہے کہ سورج سے دو تہائی دوری پر ریلی بندوق کو خلاء میں ہی بنا لیا جائے۔ یہ شمسی توانائی کا ذخیرہ کر کے اس حاصل کردہ توانائی کو ریلی بندوق میں اچانک سے خارج کرے گی جس سے ١٠ ٹن وزنی کسی بھی جسم کو روشنی کی ایک تہائی رفتار سے ٥٠٠٠ جی فورس کے اسراع کے ساتھ پھینک سکتی ہے۔ اس بات میں شاید کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی سخت جان روبوٹ ہی اس زبردست اسراع میں باقی بچ سکتا ہے۔

 

                خلائی سفر کے خطرات

 

ظاہر سی بات ہے کہ خلاء میں سفر کوئی چھٹی والے دن کی سیر و تفریح نہیں ہے۔ خطرناک قسم کے خطرات انسان بردار خلائی جہاز کو مریخ اور اس سے آگے لے جانے کے درمیان راستہ میں منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کرۂ ارض پر حیات کروڑوں برسوں سے محفوظ ہے :سیارے کی اوزون کی تہ زمین کو بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے ، اس کے مقناطیسی میدان شمسی طوفانوں اور کائناتی شعاعوں سے بچاتے ہیں، اس کا کثیف کرۂ فضائی ان شہابیوں سے بچاتا ہے جس کو یہ داخل ہوتے ہی بھسم کر دیتی ہے۔ ہم زمین پر پائے جانے والے معتدل درجہ حرارت اور دباؤ کو بہت ہی ہلکا لیتے ہیں۔ مگر خلائے بسیط میں ہمیں حقیقت حال کا سامنا کرنا ہو گا جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے جہاں مہلک شعاعی پٹیاں اور ہلاکت خیز شہابیوں کے جتھے کے جتھے موجود ہیں۔

سب سے پہلے خلائی سفر کے دوران بے وزنی کی حالت کا مسئلہ حل کرنا ہو گا۔ بے وزنی کی کیفیت پر کی جانے والی روسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جسم کے بہت سارے قیمتی معدنیات اور نامیاتی کیمیائی اجزاء خلاء میں امیدوں کے بر خلاف تیزی سے ختم ہوتے ہیں۔ سخت قسم کی جسمانی مشقوں کے باوجود خلائی ا سٹیشن پر ایک سال گزارنے کے بعد روسی خلا نوردوں کے پٹھے اور ہڈیاں اس قدر لاغر ہو گئے تھے کہ وہ جب پہلی مرتبہ زمین پر واپس آئے تو بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل بھی مشکل سے چل پا رہے تھے۔ پٹھوں کا لاغر ہونا، ہڈیوں کے پنجر میں بگاڑ، خون میں سرخ خلیوں کی پیداوار میں کمی، حفاظتی اور قلبی نظام کی پستی خلاء میں زیادہ لمبا عرصہ گزارنے کے نتیجے میں ہونے والے کچھ لازمی اثرات ہیں۔

مریخ کی مہم جو کئی مہینوں سے لے کر ایک سال پر محیط ہو سکتی ہے وہ ہمارے خلاء نوردوں کی برداشت کا آخری امتحان ہو گی۔ لمبے عرصے کے قریبی ستاروں کے سفر میں یہ مسئلہ تو ہلاکت خیز ہو گا۔ مستقبل کے خلائی جہازوں میں کسی قسم کے گھماؤ کی ضرورت ہو گی جو قوّت ثقل کو مرکز گریز کی قوّت کے ذریعہ پیدا کر سکے تاکہ انسان اس میں آسانی کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ انسانی ماحول سے مطابقت پذیری، پیچیدگی اور لاگت کو بے تحاشا بڑھا دے گی۔

دوسرے دسیوں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری رہنے والے خلائی سفر کے راستے میں خورد شہابیوں کی موجودگی کی وجہ سے اس بات کی ضرورت ہو گی کہ خلائی جہاز کو اضافی طور پر ان سے محفوظ بنایا جائے۔ خلائی جہازوں کا قریبی جائزہ لینے سے بہت سے چھوٹے مگر ممکنہ طور پر مہلک ننھے شہابیوں کے تصادموں کے ثبوتوں کا سراغ ملا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں خلائی جہاز میں عملے کے لئے دوہرے مضبوط خانے موجود ہوں۔ خلائے بسیط میں شعاعی سطح ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورج کے داغ آفتابی کے گیارہ سالہ چکر میں شمسی طوفان بہت زیادہ مقدار میں مہلک پلازما کو زمین کی طرف پھینکتے ہیں۔ ماضی میں اس مظاہر کے نتیجے میں خلائی ا سٹیشن پر موجود خلا نورد خصوصی حفاظتی اقدامات کے ذریعہ ان مہلک ذیلی ایٹمی ذرّات سے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

اس قسم کے شمسی طوفانوں کے دوران خلائی چہل قدمی انتہائی مہلک ہو سکتی ہے۔ (مثال کے طور پر لاس اینجیلس سے نیو یارک کے سفر کے دوران ہی ہم شعاعوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ اس سفر کے دوران ہم اتنی شعاعوں کا سامنا کرتے ہیں جتنی کہ دانت کا ایکس رے کرنے کے دوران کرنا پڑتا ہے۔ ) خلائے بسیط میں جہاں کرۂ فضائی اور زمینی مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں ہمیں ان سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ شعاعوں کا سامنا کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔

 

                سکتہ یا غنودگی

 

ابھی تک جن راکٹوں کو میں نے بیان کیا ہے ان کے ضمن میں ایک مستقل تنقید کی جاتی ہے کہ اگر ہم ایسے کوئی خلائی جہاز بنا بھی لیں تو بھی ہمیں عشروں سے لے کر صدیاں تک کا وقت قریبی ستاروں تک پہنچنے کے لئے درکار ہو گا۔ اس قسم کی مہمات میں کئی نسلوں پر مشتمل عملے کی ضرورت ہو گی جن کی نسل اپنی آخری منزل پر پہنچ سکے گی۔

اس مسئلہ کا ایک حل فلم "خلائی مخلوق” اور” پلانیٹ آف دی ایپس” میں تجویز کیا ہے جس میں خلائی مسافروں کو سکتے یا غنودگی کی حالت میں لے جایا جاتا ہے۔ یعنی ان کا جسمانی درجہ حرارت انتہائی محتاط طریقے سے پست کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جسم تقریباً کام کرنا بند کر دیتا ہے ، کچھ جانور ہر موسم سرما میں اس غنودگی میں جاتے ہیں۔ کچھ مخصوص مچھلیاں اور مینڈک ٹھوس برف کے بلاک میں منجمد ہو جاتے ہیں اور اس کے باوجود جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو واپس اٹھ جاتے ہیں۔

اس پراسرار مظاہر پر تحقیق کرنے والے حیات دانوں کو یقین ہے کہ ان جانوروں میں قدرتی طور پر مانع منجمد ہونے کی صلاحیت موجود ہے جو پانی کی نقطہ انجماد کو کم کر دیتی ہے۔ مچھلی کے اس مانع منجمد میں کچھ مخصوص پروٹین ہوتے ہیں جبکہ مینڈکوں میں یہ گلوکوز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اپنی خون میں ان پروٹین کی مقدار کو بڑھا کر مچھلی آرکٹک میں منفی ٢ سیلسیس تک زندہ رہ سکتی ہے۔ مینڈکوں نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ وہ اپنے گلوکوز کی سطح کو بلند کر لیں جس کی وجہ سے برف کی قلموں میں تبدیل ہو جانے سے بچ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے جسم باہر سے دیکھنے میں ٹھوس منجمد لگتے ہیں  لیکن وہ اندرونی طور پر منجمد نہیں ہوتے لہٰذا ان کے اندرونی اعضاء اپنا کام عمل انجام دیتے رہتے ہیں اگرچہ ان کے کام کرنے کی شرح بہت ہی کم ہوتی ہے۔

بہرحال فقاریوں میں اس قسم کی صلاحیت کو حاصل کرنے میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ جب انسانی خلیات جمتے ہیں تو برف کی قلمیں خلیوں کے اندر بننے لگتی ہیں۔ یہ قلمیں بڑھنے کے ساتھ خلیات میں سرایت کرتی ہوئی ان کو تباہ کر دیتی ہیں (وہ مشہور شخصیات جو اپنے سروں اور جسموں کو مرنے کے بعد مائع نائٹروجن میں منجمد کا کروانے کا سوچ رہے ہیں وہ ذرا ایک دفعہ پھر سے سوچ لیں۔ )

ان تمام باتوں سے ہٹ کر، اس میدان میں کچھ محدود پیش رفت چوہوں اور کتوں کے جیسے فقاریوں میں ہوئی ہے جو قدرتی طور پر غنودگی کے عمل کو سرانجام نہیں دے سکتے۔ ٢٠٠٥ء میں یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سائنس دانوں نے کتوں کو دوبارہ زندگی کی طرف اس وقت لوٹایا جب ان کا تمام خون نکال کران کو ایک خصوصی برف کے ٹھنڈے محلول سے بدل دی گیا تھا۔ تشخیصی طور پر تین گھنٹے مردہ رہنے کے بعد کتوں کو زندگی کی طرف دل کو دوبارہ دھڑکا کر لایا گیا۔ (اگرچہ زیادہ تر کتے اس عمل کے بعد بھی صحت مند رہے مگر کچھ کو دماغی چوٹ آئی۔ )

اس برس سائنس دانوں نے ایک چوہے کو ایک ایسے خانے میں رکھا جس میں ہائیڈروجن سلفائڈ موجود تھا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ ان کے جسم کا درجہ حرارت ١٣ سیلسیس تک ٦ گھنٹوں کے لئے گرا دیا تھا۔ ان کے عمل استحالہ کی شرح ١٠ گنا سے گر گئی تھی۔ ٢٠٠٦ء میں بوسٹن میں واقع میسا چوسٹس جنرل ا ہسپتال میں ڈاکٹروں نے خنزیر اور چوہے کو غنودگی کی حالت میں ہائیڈروجن سلفائڈ کا استعمال کرتے ہوئے رکھا۔

مستقبل میں ایسے عمل کو ان لوگوں کی جان بچانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو انتہائی خطرناک قسم کے حادثے سے دو چار ہوئے ہوں یا جن کو دل کا دورہ پڑا ہوا جس میں ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ غنودگی سے ڈاکٹروں کو مریض کو اس وقت تک منجمد کرنے میں مدد ملے گی جب تک ان کا علاج شروع نہ ہو جائے۔ لیکن اس عمل کو حاصل کرنے میں ابھی کچھ عشرے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہو گا۔ اس کے بعد ہی ہم اس مہارت کو انسانی خلا نوردوں پر استعمال کر سکیں جن کو صدیوں تک حالت غنودگی میں رکھنے کی ضرورت ہو گی۔

 

                نینو خلائی جہاز

 

ہمارے پاس ستاروں پر کمند ڈالنے کے اور دوسرے کافی خیالات موجود ہیں۔ یہ خیالات جدید طریقہ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی ٹیکنالوجی کو عملی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے ان طریقوں کی حیثیت سائنس فکشن میں دکھائے جانے والے طریقوں سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ایک امید افزا تجویز نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے غیر انسان بردار کھوجی کی ہے۔ اس تمام بحث میں ابھی تک میں نے اپنی گفتگو کا دائرہ کار جہازی قسم کے خلائی جہازوں تک رکھا تھا جو کثیر مقدار میں توانائی کو صرف کرتے ہیں اور انسانی عملے کو ستاروں تک لے جا نے کے قابل ہوں گے جیسا کہ اسٹار ٹریک فلم کا خلائی جہاز انٹرپرائز تھا۔

مگر ابتدائی کھوجیوں کو ستاروں کے سفر پر بھیجنے کے سب سے اہل اور موزوں امیدوار چھوٹے غیر انسان بردار جہاز ہیں جو روشنی کی رفتار سے سفر کر سکیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مستقبل میں نینو ٹیکنالوجی  کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات ممکن ہے کہ ایسے ننھے خلائی جہاز بنائے جا سکیں جو ایٹمی اور سالماتی جسامت کی مشینوں کو قوّت فراہم کریں۔ مثال کے طور پر ہلکے برق پاروں کو روشنی کی رفتار کے قریب آسانی کے ساتھ ہماری تجربہ گاہوں میں پائے جانے والے عام سے وولٹیج کا استعمال کرتے ہوئے اسراع دیا جا سکتا ہے۔ ان راکٹوں کے برعکس جن کو دیوہیکل بوسٹر کی ضرورت ہوتی ہے ننھے خلائی جہاز خلاء میں برقی مقناطیسی لہروں کا استعمال کر کے روشنی کی رفتار کے انتہائی قریبی رفتار سے بھیجے جا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر نینو بوٹ کو آئنائزڈ کر کے برقی میدان میں رکھا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ روشنی کی رفتار کے قریبی رفتار کے ذریعہ خلاء میں روانہ کیے جا سکیں گے۔ اس کے بعد نینو بوٹ ستاروں پر کمند ڈالنے کے لئے تیار ہوں گے کیونکہ خلاء میں رگڑ کی قوّت موجود نہیں ہوتی۔ اس طرح سے وہ تمام مسائل جو بڑے جہازی خلائی جہازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور وہ فوری طور پر حل ہو جائیں گے۔ غیر انسان بردار ذہین نینو بوٹ خلائی جہاز ممکنہ طور پر کسی قریبی ستارے کے نظام تک پہنچ سکیں۔ ان کو بنانے کی لاگت بھی بڑے انسانی عملہ بردار جہازوں کے مقابلے میں انتہائی کم آئے گی۔

ایسے نینو خلائی جہاز  قریبی ستاروں تک پہنچے کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک ریٹائر فضائی فوج کے خلائیاتی انجنیئر "جیرالڈ نورڈلے ” (Gerald Nordley)  تجویز کرتے ہیں کہ شمسی بادبان کو خلاء میں دھکیلا جائے۔ نورڈلے کہتے ہیں کہ ” سوئی کی نوک جتنے خلائی جہازوں کے جتھے بنانے کے ساتھ جو خود کی نقل بنا سکیں اور آپس میں خود سے رابطہ بھی کر سکیں ہم ان کو عملی طور پر روشنی کی رفتار کے قریب سے خلاء میں چھوڑ سکتے ہیں۔ ”

مگر نینو نجمی خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے بھی ہمیں مختلف چیلنجوں سے نمٹنا ہو گا۔ خلائے بسیط میں ان کے راستہ میں پڑنے والے برقی اور مقناطیسی میدان ان کو مقررہ راستے سے منحرف کر سکتے ہیں۔ ان قوّتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ان نینو خلائی جہازوں کو زمین پر ہی بہت ہی بلند وولٹیج پر اسراع دینا ہو گا  تاکہ ان کو آسانی سے مقررہ راستے سے گمراہ نہ کیا جا سکے۔ دوسرے ہمیں شاید لاکھوں نینو شپس کے جھنڈ خلاء میں بھیجنے ہوں گے تاکہ ہمیں اس بات کی ضمانت حاصل ہو کہ ان میں سے اچھی خاصی تعداد اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے گی۔

ایسے نینو خلائی جہاز کیسے دکھائی دیں گے ؟ "ڈین گولڈن” (Dan Golden)  ناسا کے سابق سربراہ ایک مشروب کے کین کے جتنے خلائی جہاز کا تصوّر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ سوئی جتنے جہازوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ پینٹاگون اسمارٹ دھول کو بنانے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ حساسئے لگے دھول جتنے ذرّات کی پھوار کو جنگ کے میدان میں پھینک کر جنگی سالار کو فوری اطلاعات دی جا سکیں گی۔ یہ بات قابل ادرک ہے کہ مستقبل میں ایسی کوئی خاک قریبی ستاروں تک بھیجی جا سکتی ہے۔

خاک کے ذرّے جتنے نینو بوٹ اسی نقش نگاری والی فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جائیں گے جس کو نیم موصل صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ٣٠ نینو میٹر جتنے یا ١٥٠ ایٹموں پر پھیلے ہوئے حصّے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان نینو بوٹوں کو چاند سے کسی ریلی بندوق سے یا کسی ذرّاتی اسراع گر کی مدد سے روانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ آلات انتہائی کم لاگت سے تیار کیے جا سکیں گے جس کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں کی تعداد میں ان کو خلاء میں روانہ کیا جا سکے گا۔

ایک دفعہ وہ کسی قریبی ستارے کے نظام کے پاس پہنچ جائیں تو پھر یہ کسی دور دراز کے چاند پر اتر سکتے ہیں۔ چاند کی کم قوّت ثقل کی وجہ سے نینو بوٹ وہاں پر آسانی سے اتر بھی سکتے ہیں اور وہاں سے بغیر کسی مشکل کے خلاء میں بھی جا سکتے ہیں۔ ایک مستقل اڈہ بنانے کے لئے چاند پر جگہ بھی مل سکتی ہے جہاں سے وہ اپنا کام آسانی سے جاری رکھ سکتا ہے۔ نینو بوٹ چاند پر پائے جانے والی معدنیات کا استعمال کرتے ہوئے نینو کارخانے بھی بنا سکتے ہیں۔ زمین پر اطلاعات کو بھیجنے کے لئے وہ وہاں پر ایک طاقتور ریڈیو ا سٹیشن بھی قائم کر سکتے ہیں۔ نینو کارخانے میں اپنے جیسے دسیوں لاکھوں نینو بوٹس کی نقلیں تیار کر کے ماورائے شمس نظام کی چھان بین کرنے کے لئے بھیج سکتے ہیں تاکہ مزید دوسرے ستاروں کی طرف روانہ ہو کر اس عمل کو دہرا سکیں۔ روبوٹک ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ جب یہ اطلاعات کو زمین پر بھیجیں گے تو اس کے بعد ان کو واپس آنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

جو نینو روبوٹ میں نے ابھی بیان کیے ہیں اکثر ان کو وان نیومین کھوجی بھی کہتے ہیں جن کا نام مشہور ریاضی دان "جان وان نیومین” (John Von Neumann) کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے خود نقلچی ٹیورنگ مشینوں کی ریاضی پر کام کیا ہوا ہے۔ نظریاتی طور پر ایسے نینو روبوٹ صرف قریبی ستاروں کی ہی نہیں بلکہ پوری کہکشاں کی خاک چھاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ آخر کار ایسے کھرب ہا روبوٹوں کے بھنڈار حاصل ہو جائیں گے جو شرحاً انتہائی تیزی سے اپنی تعداد کو بڑھاتے ہوئے روشنی کی رفتار سے پھیل رہے ہوں گے۔ اس پھیلتے ہوئے کرہ میں موجود نینو بوٹ پوری کہکشاں کو چند ہزار سال میں ہی آباد کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف مشی گن کے برائن گلکرسٹ جو ایک الیکٹریکل انجنیئر ہیں انہوں نے نینو جہازوں کے خیال کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ ابھی حال میں ہی انھیں ایک ٥ لاکھ ڈالر کا مالی تعاون ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس سے حاصل ہوا ہے تاکہ وہ کسی جرثومے کے حجم جتنے نینو خلائی جہازوں کو بنانے کے خیال کی چھان بین کر سکیں۔ انہوں نے اسی نقشی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کا سوچا ہے جو نیم موصل صنعت میں استعمال ہو رہی ہے تاکہ کئی دسیوں لاکھ پر مشتمل نینو خلائی جہازوں کا بیڑا بنایا جائے۔ ان نینو جہازوں میں ننھے ١٠ نینو میٹر کے ذرّات کو خارج کر کے دھکیل کی قوّت حاصل ہو سکے گی۔ یہ نینو ذرّات برقی میدان سے گزرتے ہوئے  قوّت برداری کو اس سے حاصل کریں گے بعینہ ایسے جیسا کہ کسی برق پارے انجن میں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نینو ذرّات کا وزن ایک برق پارے کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی برق پارے کے انجن کے مقابلے میں اس انجن میں دھکیل کی قوّت کو زیادہ اچھی طرح سے دبا کر ڈالا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ان نینو خلائی جہازوں کے انجن کا وہی فائدہ ہو گا جو کسی برق پارے کے انجن کا ہوتا ہے بس صرف فرق اتنا ہو گا کہ ان میں دھکیل کی قوّت زیادہ ہو گی۔ گلکرسٹ نے ان نینو خلائی جہازوں کے کچھ حصّوں کو تو نقش کر لیا ہے ابھی تک انہوں نے ١٠ ہزار انفرادی دھکیلوں کو ایک سلیکان کی چپ پر لگا دیا ہے جو ایک سینٹی میٹر لمبی ہے شروع میں انہوں نے اپنے ان نینو جہازوں کے بیڑے کو نظام شمسی میں بھیجنے کا سوچا ہے لیکن حتمی طور پر انھیں بھی اس بیڑے کا حصّہ بننا ہو گا جس کو ستاروں کی طرف بھیجا جائے گا۔

گلکرسٹ کی تجویز مستقبل کی ان کئی تجویزوں میں سے ایک ہے جو ناسا کے زیر غور ہیں۔ کئی دہائیوں کی غیر فعالیت کے بعد ناسا نے ابھی کچھ انتہائی سنجیدہ توجہ نجمی خلائی سفروں کے ممکنہ انتخاب پر دینی شروع کی ہے۔ ان تجا ویزوں میں کچھ تو قابل یقین ہیں جبکہ کچھ انتہائی طلسماتی ہیں۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اوائل سے ہی ناسا نے ایک سالانہ ایڈوانسڈ اسپیس پروپلشن ریسرچ ورکشاپ شروع کی ہے جس کے دوران ان ٹیکنالوجی کو سنجیدگی کے ساتھ انجنیئر ز اور طبیعیات دانوں کی ٹیموں نے منتخب کیا ہے۔ ایک اور اولوالعزم منصوبہ ایک انقلابی پروپلشن فزکس پروگرام ہے جو کوانٹم کی پراسرار دنیا کی چھان بین، نجمی خلائی سفر کے لئے کرے گا۔ اگرچہ ابھی تک کوئی اتفاق رائے تو قائم نہیں ہو سکا لیکن زیادہ تر توجہ سب سے آگے رہنے والے پروگراموں مثلاً لیزر بادبان اور دوسرے کئی قسم کے گداختی راکٹ وغیرہ پر ہی مرکوز رکھی ہے۔

خلائی جہازوں کو بنانے کے میدان میں دھیمی لیکن مستقل پیشرفت کے مد نظر اس بات کو معقولیت کے ساتھ فرض کیا جا سکتا ہے کہ شاید اس صدی کے خاتمے پر یا پھر نئی صدی کے آغاز میں کسی بھی قسم کا پہلا غیر انسانی بردار کھوجی کسی قریبی ستارے کی طرف روانہ کیا جا سکے گا۔ اس وجہ سے میں اس کو جماعت "I” کی ممکنات میں درجہ بند کر رہا ہوں۔

ہو سکتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور خلائی جہاز کا وہ نمونہ ہو جس میں ضد مادّے کا استعمال ہو۔ ہرچند یہ بات سننے میں کسی سائنسی قصّے کا حصّہ لگتی ہے ، لیکن ضد مادّہ زمین پر پہلے ہی بنایا جا چکا ہے اور گمان غالب ہے کہ قابل عمل انسان بردار خلائی جہاز کے لئے ایک دن ہمیں سب سے پر امید نمونہ اسی سے حاصل ہو۔

 

 

 

 

10۔    ضد مادّہ اور ضد کائنات

 

سائنس کی دنیا میں ہے کسی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سب سے ہیجان انگیز فقرہ "یوریکا”  (میں نے پا لیا !)  نہیں بلکہ "یہ مضحکہ خیز ہے ” ہے۔
آئزک ایسی موف
اگر کوئی آدمی اس چیز پر یقین نہ رکھے جس پر ہم رکھتے ہیں تو ہم اسے پاگل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں  میرا مطلب ہے کہ آج کل ایسا ہوتا ہے کیونکہ ہم اسے جلا نہیں سکتے۔
مارک ٹوئن

 

آپ رہبر کو اس کی پیٹھ میں گھسے تیر سے پہچان سکتے ہیں۔
بیورلی روبک

 

ڈین براؤن کی شہرہ آفاق کتاب "اینجلز اینڈ ڈیمنس”  جو ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب ” دی ڈاونچی کوڈ”  کی پیش رو تھی۔ اس ناول میں ایک بنیاد پرستوں کا ایک ٹولہ، دی ایلومنیٹی (روشن ضمیر والے ) ویٹی کن کو ایک ضد مادّہ کے بم سے اڑانے کی ایک سازش تیار کرتے ہیں۔ اس بم کو جنیوا سے باہر نیوکلیائی تجربہ گاہ سرن سے چرایا ہوتا ہے۔ سازشی جانتا تھا کہ جب مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملیں گے تو اس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان دھماکا ہو گا جو ہائیڈروجن کے بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گا۔ اگرچہ ایک ضد مادّہ کا بم خالص خیالی ہے مگر ضد مادّہ کا وجود بالکل حقیقی ہے۔

ایک جوہری بم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود صرف ایک فیصد کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔ یورینیم کا انتہائی معمولی حصّہ ہی توانائی میں بدلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ضد مادّہ کا بم بنا لیا گیا تو وہ اس کی کمیت کو سو فیصد توانائی میں بدل دے گا جس کے نتیجے میں وہ نیوکلیائی بم کے مقابلے میں کافی زیادہ کارگر ہو گا۔ (زیادہ درست طور پر ضد مادّہ کے بم میں پچاس فیصد مادّہ قابل استعمال توانائی میں تبدیل ہو گا ؛ جبکہ باقی نظر نہ آنے والے نیوٹرینوں کی شکل میں بدل جائے گی۔ )

ضد مادّہ کافی عرصے سے قیاس آرائیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہرچند ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی بھی ضد مادّہ بم وجود نہیں رکھتا لیکن طبیعیات دانوں نے اپنے طاقتور جوہری ذرّاتی اسراع گروں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی قلیل مقدار میں ضد مادّہ کو اپنے تحقیقی مقصد کے لئے استعمال کے لئے پیدا کر لیا ہے۔

 

                ضد مادّہ کی پیداوار اور اس کی کیمیا

 

بیسویں صدی کے نقطہ آغاز سے ہی، طبیعیات دانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ایٹم بار دار ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کے مرکزے (جس میں مثبت بار ہوتا ہے )  کے گرد الیکٹران (منفی بار کے ساتھ ) چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ مرکزے میں پروٹون (جن کے اوپر پر مثبت بار ہوتا ہے ) اور نیوٹرون (جو برقی طور پر معتدل ہوتے ہیں ) موجود ہوتے ہیں۔ ١٩٥٠ء میں طبیعیات دانوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب انھیں پتا چلا کہ ہر ذرّے کا ایک جڑواں مخالف بار والا ضد ذرّہ بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا دریافت ہونے والا ضد ذرّہ ایک مثبت بار والا ضد الیکٹران  (جس کو پوزیٹرون کہتے ہیں)  تھا۔ پوزیٹرون ہر لحاظ سے الیکٹران کے مثل ہی ہے بجز اس کے کہ اس پر مخالف بار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی دریافت ایک کائناتی شعاعوں کی تصاویر ایک بادلوں والے خانے میں لیتے ہوئے ہوئی تھی۔ (پوزیٹرون کا سراغ ایک بادلوں کے خانے میں لگانا بہت ہی آسان تھا۔ جب انھیں ایک طاقتور مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو وہ عام الیکٹران کی مخالف سمت میں مڑ جاتے ہیں۔ حقیقت میں ان ضد مادّہ کی تصویر میں نے بھی اپنے کالج کے زمانے میں لی تھی۔ )

١٩٥٥ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں موجود ذرّاتی اسراع گر – بیواٹرن میں پہلا ضد پروٹون بنایا۔ امیدوں کے عین مطابق وہ بالکل پروٹون کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ اس پر منفی بار تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نظری طور پر ہم ضد مادّہ کو بھی بنا سکتے ہیں۔ (جس میں پوزیٹرون ایک ضد پروٹون کے گرد چکر لگا رہا ہو گا ) ۔ حقیقت میں ضد عناصر، ضد کیمیا، ضد لوگ، ضد زمین اور یہاں تک کہ ضد کائنات کا نظری طور پر موجود ہونا ممکن ہے۔

فی الحال تو سرن میں موجود ایک دیو ہیکل ذرّاتی اسراع گر اور شکاگو سے باہر فرمی لیب نے انتہائی معمولی سی ضد ہائیڈروجن کی مقداریں بنائی ہیں۔ (اس کو پروٹون کی بلند توانائی والی کرنوں کو ہدف پر ذرّاتی اسراع گر کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔ جس کے سبب ایک ذیلی جوہری ذرّات کی پھوار سی بن گئی تھی۔ طاقتور مقناطیس کے ذریعہ ضد پروٹون کو علیحدہ کر لیا تھا جو بہت زیادہ دھیمے ہو کر انتہائی پست سمتی رفتار والے ہو گئے تھے اور پھر وہ ان  ضد الیکٹران کے سامنے ظاہر ہو گئے تھے جو قدرتی طور پر سوڈیم – ٢٢ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب ضد الیکٹران ضد پروٹون کے گرد چکر لگاتے ہیں تو وہ ضد ہائیڈروجن بناتے ہیں کیونکہ ہائیڈروجن ایک پروٹون اور ایک الیکٹران سے مل کر بنتا ہے۔ ) خالص خالی جگہ میں یہ ضد جوہر ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتے ہیں۔ لیکن آلودگی اور دیواروں کے درمیان ٹکرانے کی وجہ سے ضد جوہر عام مادے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں توانائی میں بدلتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔

١٩٩٥ء میں سرن نے اس اعلان کے ساتھ ہی تاریخ رقم کر دی تھی کہ اس نے نو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے تھے۔ فرمی لیب نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلد ہی ایک سو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنا لئے۔ نظریاتی طور پر اس پر آنے والی زبردست لاگت کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ہمیں بھاری عناصر کے ضد جوہر بنانے سے روکے۔ صرف چند اونس ضد مادّہ پیدا کرنے میں ہی کچھ اقوام تو دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ضد مادّہ پیدا کرنے کی موجودہ شرح ایک گرام کے ایک ارب سے دس ارب حصّے سالانہ ہیں۔ امکان ہے کہ ضد مادّہ کی پیداوار کی یہ شرح ٢٠٢٠ء تک تین گنا بڑھ جائے۔ ضد مادّہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد ان کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ ٢٠٠٤ء میں سرن میں ایک گرام کے کچھ دسیوں کھرب حصّے پیدا کرنے کی لاگت ہی دو کروڑ ڈالر تھی۔ اس شرح سے ایک گرام ضد مادّہ کو پیدا کرنے کے لئے لاگت ایک ہزار کھرب  (ایک پدم) آئی گی اور ضد مادّہ کے کارخانے کو مسلسل ایک کھرب سال تک چلنا ہو گا! یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں ضد مادّہ کائنات کی سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔

” اگر ہم سرن میں پیدا ہونے والے تمام ضد مادّہ کو جمع کر کے اس کو مادّے کے ساتھ ملا کر فنا کریں تو ہمارے پاس حاصل ہونے والی توانائی اتنی ہو گی کہ جس سے ہم ایک برقی بلب صرف چند سیکنڈ کے لئے جلا سکیں ” یہ سرن سے جاری ایک بیان کا حصّہ ہے۔

ضد مادّہ کو سنبھال کر رکھنا بھی اپنے آپ میں کافی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ مادّے اور ضد مادّے کا آپس میں ملنا دھماکے کا باعث ہو گا۔ ضد مادّہ کو عام مادّے سے بنی کسی چیز میں رکھنا خود کشی کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب ضد مادّہ اس قدر بارودی نوعیت کا ہوتا ہے تو پھر اس سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے ضد مادّہ کے برق پاروں کو برقی پارہ گیس میں تبدیل کیا جائے اور پھر ان کو محفوظ طریقے سے ایک مقناطیسی بوتل میں رکھا جائے۔ مقناطیسی میدان ان کو خانے کی دیواروں کو چھونے سے روکے رکھے گا۔

ایک ضد مادّہ کا انجن بنانے کے لئے ایک ضد مادّہ کے متواتر دھارے کی ضرورت ہو گی جو اس کو تعاملی خانے میں ڈالے گا جہاں پر اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ عام مادے سے ملایا جائے گا جس کے نتیجے میں کیمیائی راکٹ جیسا ایک انضباطی دھماکہ ہو گا۔ اس دھماکے میں پیدا ہوئے برق پاروں کو ضد مادّے کے راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالا جائے گا جس کے نتیجے میں دھکیل پیدا ہو گی۔ مادّے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی ضد مادّہ کے انجن کی کارکردگی نظری طور پر مستقبل کے خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے سب سے زیادہ لبھانے والی ہے۔ اسٹار ٹریک سلسلے میں ضد مادّہ انٹرپرائز کے ایندھن کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ اس کے انجن کو طاقت انضباطی مادّہ اور ضد مادّہ کو ٹکرانے سے ملتی ہے۔

 

                ضد مادّے سے چلنے والے راکٹ

 

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیرالڈا سمتھ ضد مادّے سے چلنے والی راکٹوں کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کو پورا بھروسہ ہے کہ صرف چار ملی گرام پوزیٹرون پر مشتمل ضد مادّہ کسی ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کو مریخ تک صرف چند ہفتوں میں ہی پہنچا دے گا۔ ان کے اندازے کے مطابق ضد مادّہ میں موجود توانائی عام مادّے سے چلنے والے راکٹ کے ایندھن کے مقابلے میں ایک ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔

اس جانب سب سے پہلا قدم اس کا ایندھن بنانے کی جانب ہو گا جس میں ضد پروٹون کو کسی ذرّاتی اسراع گر میں پیدا کیا جائے گا اور پھر ان کو ایک "پیننگ ٹریپ ” میں رکھا جائے گا جس کواسمتھ ابھی بنا رہے ہیں۔ جب یہ بن کر مکمل ہو جائے گا تو اس کا وزن لگ بھگ دو سو بیس پونڈ (جس میں زیادہ تر وزن مائع نائٹروجن اور مائع ہیلیئم) ہو گا جس میں ایک مقناطیسی میدان میں اندازاً ایک ارب ضد پروٹون ذخیرہ ہوں گے۔ (انتہائی کم درجہ حرارت پر، ضد پروٹون کی موجی لہریں اس برتن کی دیواروں کے مقابلے میں جس میں وہ رکھا گیا ہو گا کئی گنا لمبی ہوں گی۔ لہٰذا ضد پروٹون اپنے آپ کو فنا کیے بغیر اس کی دیواروں میں سے بھی منعکس ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ ) انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کو صرف پانچ دن ہی اپنے اندر قید رکھ سکے گا (اس کے بعد وہ عام مادّے کے ساتھ مل کر پھٹ جائیں گے۔ ) اس کی پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کا ایک گرام کا ایک اربواں حصّہ ذخیرہ کرنے کے قابل ہو گی۔ ان کا مقصد ہے کہ ایک ایسا پیننگ ٹریپ بنایا جائے جو ایک مائیکرو گرام تک ضد پروٹون کو ذخیرہ کر سکے۔

ہرچند ضد مادّہ زمین پر سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے ، لیکن اس کی قیمت ڈرامائی طور پر ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہی ہے  (ایک گرام کی قیمت آج کے حساب سے چھ کروڑ پچیس لاکھ کھرب ڈالر ہے ) ۔ ایک نیا ذرّاتی اسراع گر شکاگو سے باہر فرمی لیب میں بن رہا ہے جو ضد مادّہ کو ١۔ ٥ سے ١٥ نینو گرام تک سالانہ بنا سکے گا نتیجتاً اس کی قیمتیں اور کم ہوں گی۔ بہرحال ناسا کے  "ہیرالڈ گیررش” (Harold Gerrish)  اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مزید بہتری کے ساتھ اس کی لاگت حقیقت پسندانہ طور پر فی مائیکرو گرام پانچ ہزار ڈالر ہو جائے گی۔ نیو میکسیکو میں واقع لاس الموس کی سینرجسٹک ٹیکنالوجیز کے ڈاکٹر اسٹیون ہوو  (Steven Howe) کہتے ہیں "ہمارا مقصد ضد مادّہ کو سائنس دنیا سے نکا ل کر حقیقی دنیا میں لانا ہے تاکہ اس سے ذرائع نقل و حمل اور طب میں تجارتی فوائد اٹھا سکیں۔ ”

ابھی تک ذرّاتی اسراع گر جو ضد پروٹون کو پیدا کر رہے ہیں ان کو خاص اس مقصد کے لئے نہیں بنایا لہٰذا ان کی کارکردگی کافی خراب ہے۔ ایسے اسراع گروں کو ضد مادّہ پیدا کرنے کے کارخانوں کے بجائے بنیادی طور پر تحقیقاتی مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ا سمتھ ایک نئے ذرّاتی اسراع گر کو بنانے کے خواب کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو خاص اس مقصد کے بنایا گیا ہو کہ وہ کافی مقدار میں ضد مادّہ کو پیدا کرے تاکہ اس پر آنے والی لاگت کم ہو۔

اگر ضد مادّہ کی لاگت مزید فنی بہتری اور بڑے پیمانے پر پیداوار کی وجہ سے کم ہو سکی توا سمتھ کو یقین ہے کہ مستقبل میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ ہی بین السیارہ سفر بلکہ ہو سکتا ہے کہ بین النجم سفر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھیں گے۔ بہرحال تب تک تو ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کاغذی منصوبوں کی شکل میں میزوں پر ہی پڑے رہیں گے۔

 

                قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ

 

اگر ضد مادّہ کو بنانا زمین پر اتنا مشکل ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اس کو خلائے بسیط میں تلاش کیا جا سکے ؟ کائنات میں ضد مادّہ کو تلاش کرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت ہی کم تعداد میں موجود ہے اس امر نے طبیعیات دانوں کو کافی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری کائنات زیادہ تر ضد مادّے کے بجائے مادّہ سے بنی ہوئی ہے جس کی توضیح کرنی نہایت مشکل ہے۔ ہم سادے طریقے سے اس بات کو یوں فرض کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء میں تشاکلی طور پر مادّے اور ضد مادّے کی برابر مقدار موجود تھی۔ لہٰذا ضد مادّے کا موجود نہ ہونا ایک کافی پریشان کن بات ہے۔

سب سے پہلے اس کا حل آندرے سخاروف نے پیش کیا جنہوں نے سوویت یونین کے لئے ہائیڈروجن بم کو ١٩٥٠ء میں بنایا تھا۔ سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی ابتداء میں مادّے اور ضد مادّے میں ہلکی سا تشاکل تھا۔ یہ ننھا سا تشاکلی فرق "سی پی” نقص کہلایا۔ فی الحال یہ مظاہر ابھی زبردست تحقیق کا متقاضی ہے۔ حقیقت میں سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات میں موجود تمام جوہر اس تقریباً مکمل بے عیب مادّے اور ضد مادّے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والے ہیں، بگ بینگ ان دونوں کو فنا کرنے کا سبب بنا تھا جس کے نتیجے میں مادّے کی ننھی سی مقدار باقی بچ گئی تھی۔ یہ وہی مادّہ تھا جس نے بعد میں قابل مشاہدہ کائنات کو بنایا۔ ہمارے جسم میں موجود تمام جوہر اس جناتی ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والی کھرچن ہی ہیں۔

اس نظریے کے مطابق اس امر کا امکان بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ تھوڑی سی مقدار ضد مادّہ کی قدرتی طور پر بچ گئی ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے منبع کی کھوج کے ساتھ ہی ضد مادّہ کی ضد مادّہ راکٹ میں ایندھن کی  لاگت کافی گھٹ جائے گی۔ نظری طور پر قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ کے ذخیرے کو تلاش کرنے میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ جب ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں ملتے ہیں تو وہ گیما شعاعوں کی صورت میں فنا ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ١ء٠٢ ملین الیکٹران وولٹ یا اس سے زیادہ کی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قوّت کی گیما شعاعوں کی کھوج کرنے سے کائنات میں ہمیں قدرتی طور پر پایا جانے والے ضد مادّہ کا سراغ مل جائے گا۔

حقیقت میں ضد مادّہ کے مخزن ملکی وے میں پائے گئے ہیں جو اس کے مرکز سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ بات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ڈاکٹر "ولیم پرسیل” (William Purcell)  نے کہی۔ بظاہر ضد مادّے کی کافی مقدار موجود ہے جو ان گیما شعاعوں کو پیدا کر رہی ہے جن میں ١ء٠٢ ملین الیکٹران وولٹ کی توانائی موجود ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عام ہائیڈروجن گیس سے ٹکراتی ہے۔ اگر یہ ضد مادّہ کی کہر قدرتی طور پر موجود ہے تو یہ بات بھی ممکن ہے کہ ضد مادّے کے دوسرے ذخیرہ بھی کائنات میں موجو د ہوں جو بگ بینگ کے وقت تباہ ہونے سے بچ گئے ہوں۔

قدرتی طور پر پائے جانے والی ضد مادّہ کی منظم طریقے سے تحقیق کے لئے ، دی پامیلا – پی اے ایم ای ایل اے  (پے لوڈ فار اینٹی میٹر – میٹر ایکسپلوریشن اینڈ لائٹ نیوکلی اسٹرو فزکس) مصنوعی سیارچہ ٢٠٠٦ء میں مدار میں چھوڑا گیا۔ یہ روس، اٹلی، جرمن اور سویڈن کی اشتراکی کوششیں تھیں جس میں اس کو ضد مادّہ کے ذخیروں کو کائنات میں تلاش کر نے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس سے پیش تر ضد مادّے کو تلاش کرنے والی مہمات میں بلند ارتفاع پر اڑنے والے غبارے اور خلائی شٹل استعمال کیے گئے تھے لہٰذا اس میں حاصل ہونے والا مواد ایک ہفتے سے زیادہ کا نہیں تھا۔ ان تمام کے برخلاف پامیلا مدار میں کم از کم تین سال تک رہے گا۔ "یہ اب تک کا بنایا جانے والا سب سے بہترین سراغ لگانے والا ہے اور ہم اس کو کافی لمبے عرصے تک استعمال کر سکیں گے۔ "یہ بات یونیورسٹی آف روم کے ٹیم ممبر "پئیرجورجو پیکوزہ” (Piergiorgio Picozza)  نے کہی۔

پامیلا کو کائناتی شعاعوں کا سراغ عام ذرائع جیسا کہ سپرنووا سے لگانے کے لئے بنایا ہے لیکن وہ دوسرے غیر معمولی ذریعے مثلاً ضد مادّہ سے بنے ستارے کا استعمال بھی کر سکتی ہے۔ خاص طور پر پامیلا کسی ضد مادّے کے ستارے کے اندرون میں پیدا ہوئے ضد ہیلیئم گیس کی کھوج بھی کرے گی۔ اگرچہ موجودہ دور کے زیادہ تر طبیعیات دان یہ سمجھتے ہیں کہ بگ بینگ میں لگ بھگ مکمل طور پر مادّے اور ضد مادّے میں ٹکراؤ ہو گیا تھا جیسا کہ سخاروف بھی سمجھتا ہے۔ پامیلا کو ایک دوسرے زاویے سے سوچ کر بنایا ہے کہ کائنات کے پورے حصّے میں ضد مادّہ، مادّہ کے ساتھ مل کر فنا نہیں ہو گیا تھا لہٰذا وہ آج بھی ضد ستارہ کی شکل میں موجود ہونا چاہئے۔

ضد مادّہ کی خلاء میں تھوڑی سی مقدار کا مطلب ہو گا کہ اس کو بین النجم خلائی جہاز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس نے ضد مادّہ کو خلاء سے حاصل کرنے والے خیال کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تجرباتی پروگرام کی مالی معاونت کی ہے تا کہ وہ اس خیال پر مزید تحقیق کر سکے۔ "بنیادی طور پر آپ کو ایک ایسا جال بنانا ہو گا جیسے کہ آپ مچھلی پکڑ رہے ہوں ” یہ بات ہبار ٹیکنالوجیز کے جیرالڈ جیکسن نے کہی جن کی تنظیم ان تنظیموں میں سے ایک ہے جس نے اس خیال پر کام شروع کر دیا ہے۔

ضد مادّہ کو چننے والا آلہ تین ہم مرکز کروں پر مشتمل ہو گا جس میں سے ہر ایک میں تاروں کی جالی جیسا جال بنا ہوا ہو گا۔ باہری کرہ سولہ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہو گا اور اس پر مثبت بار ہو گا، لہٰذا وہ کسی بھی مثبت بار والے پروٹون کو دفع کر سکے گا جبکہ منفی بار والے ضد پروٹون کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ ضد پروٹون کو باہری کرہ میں جمع کر لیا جائے گا اور پھر ان کو اس کرہ میں سے گزرتے وقت دھیما کر دیا جائے گا اور آخر میں وہ سب سے اندرونی کرہ میں پہنچ کر رک جائے گا۔ یہ اندرونی کرہ صرف سو میٹر پر پھیلا ہوا ہو گا۔ ضد پروٹونوں کو ایک مقناطیسی بوتل میں قید کر لیا جائے گا جہاں ان کو ضد الیکٹران کے ساتھ ملا کر ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے جائیں گے۔

جیکسن نے اندازہ لگایا ہے کہ مادّہ اور ضد مادّے کے ضابطے میں تعامل کے نتیجے میں ایک خلائی جہاز صرف تیس ملی گرام کے ضد مادّہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک شمسی بادبان کو پلوٹو تک پہنچا سکتا ہے۔ ضد مادّے کا سترہ گرام خلائی جہاز کو قنطورس الف تک پہنچانے کے لئے کافی ہو گا۔ جیکسن کا دعویٰ ہے کہ زہرہ اور مریخ سیارے کے مدار کے درمیان اسی گرام ضد مادّہ موجود ہے جس کو خلائی کھوجی کی مدد سے چنا جا سکتا ہے۔ پیچیدگیوں اور ضد مادّے کے چننے والے دیوہیکل سیارچے کی لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شاید اس صدی کے آخر تک یا پھر اس کے بھی بعد ہی ہم اس ضد مادّہ سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

کچھ سائنس دان ضد مادّہ کو باہر خلاء میں تیرتے ہوئے شہابیوں سے حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ( فلیش گورڈن کی تمثیلی کہانی میں ایک دفعہ ایسے آوارہ سیارچے کا ذکر تھا جو ضد مادّہ سے بنا باہر ی خلاء میں تیر رہا تھا اگر وہ کسی سیارے سے ٹکرا جاتا تو ایک زبردست دھماکے کا سبب بن سکتا تھا۔ )

اگر قدرتی طور پر پایا جانے والا ضد مادّہ خلاء میں نہیں ملا تو ہمیں عشروں یا ہو سکتا ہے کہ صدیوں تک زمین پر بڑے پیمانے پر ضد مادّہ کو پیدا کرنے کا انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن فرض کریں کہ ضد مادّہ کو پیدا کرنے کی تمام فنی مشکلات پر قابو پا لیا جا سکتا ہے تو اس بات کا امکان کھلا ہوا ہے کہ ایک دن ضد مادّہ ہمیں ستاروں کے پار لے جائے گا۔

مفصلہ بالا تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس ٹیکنالوجی کی مستقبل میں ارتقاء کا اندازہ لگاتے ہوئے میں ایک ضد مادّہ راکٹ خلائی جہاز کو جماعت "I” کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔

 

                ضد مادّہ کے بانی

 

ضد مادّہ کیا ہے ؟ ایسا سوچنا بھی عجیب لگتا ہے کہ قدرت نے ذیلی ایٹمی ذرّوں کو کائنات میں یوں ہی دگنی تعداد میں پیدا کر دیا تھا۔ قدرت عام طور پر انتہائی کفایت شعار ہوتی ہے لیکن ضد مادّہ کی جانکاری کے بعد قدرت اب ہمیں کافی فضول خرچ اور بے انتہا شاہ خرچ لگ رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اگر ضد مادّہ موجود ہے تو کیا ضد کائنات بھی موجود ہو گی ؟

ان تمام سوالات کا جواب دینے کے لئے ہمیں ضد مادّے کی اصلیت کے بارے میں جاننا ہو گا۔ ضد مادّہ کی دریافت ماضی میں ١٩٢٨ء میں "پال ڈیراک ” (Paul Dirac)  کے زبردست کام کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے ایک نہایت ہی روشن فکر رکھنے والے طبیعیات دان تھے۔ ان کے پاس کیمبرج یونیورسٹی کی لوکیشین کرسی تھی، یہ وہی کرسی تھی جس پر نیوٹن بیٹھا کرتا تھا اور اب یہ کرسی ا سٹیفن ہاکنگ کے پاس ہے۔ ڈیراک ١٩٠٢ء میں پیدا ہوئے۔ یہ لمبے قد کے اور چست آدمی تھے۔ ١٩٢٥ء میں جب کوانٹم کا انقلاب رونما ہوا تو وہ اس وقت اپنے عہد شباب سے گزر رہے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ الیکٹریکل انجنیئر نگ  کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن کوانٹم نظریے سے پیدا ہونے والی دلچسپی کی لہر کی وجہ سے اچانک انہوں نے قلابازی لگا کر اس میدان میں چھلانگ لگا دی۔

کوانٹم کا نظریئے اس خیال پر مبنی ہے کہ الیکٹران جیسے ذرّات کو نقطہ جیسے ذرّات کے بجائے کسی قسم کو موجوں سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے جس کو شروڈنگر کی "موجوں کی مساوات "بھی کہتے ہیں۔ (موجیں کسی بھی نقطہ پر کسی بھی ذرّے کے موجود ہونے کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں ) ۔

مگر ڈیراک نے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ شروڈنگر کی مساوات میں نقص ہے۔ یہ صرف ان الیکٹران کو بیان کرتی ہے جو صرف کم سمتی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ بلند سمتی رفتار پر یہ مساوات ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بلند رفتار سے حرکت کرتے ہوئی اجسام کے قانون کی فرمانبرداری نہیں کرتی یعنی کہ اضافیت کے قانون جو البرٹ آئن سٹائن نے دریافت کیے تھے۔

نوجوان ڈیراک کے لئے یہ ایک چیلنج تھا کہ شروڈنگر کی مساوات کو دوبارہ سے اس طرح سے ترتیب دے کہ وہ نظریہ اضافیت سے بھی رو گردانی نہ کرے۔ ١٩٢٨ء میں ڈیراک نے شروڈنگر کی مساوات میں ایک بنیادی تبدیلی پیش کی جو آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے بھی تابع تھی۔ اس نے دنیائے طبیعیات کو بھونچکا کر دیا تھا۔ ڈیراک نے اپنی مشہور اضافی مساوات برائے الیکٹران خالصتاً بلند ریاضیاتی اجسام جن کو "اسپیونر” کہتے ہیں ان کو آگے پیچھے کر کے حاصل کر لی تھی۔ اچانک ایک ریاضیاتی تجسس کائنات کا مرکز نگاہ بن گیا تھا۔ (اس سے پہلے کے طبیعیات دانوں کے برعکس جو اس بات پر زور دیتے تھے کہ طبیعیات کی دنیا کی عظیم دریافتیں صرف ناقابل تردید تجربات سے ہی حاصل ہو سکتی تھیں، ڈیراک نے ان کے مخالف بالکل ہی الگ راہ چنی تھی۔ اس کے خیال میں خالص ریاضی بشرطیکہ حقیقت میں وہ خوبصورت بھی ہو تو کسی بھی عظیم دریافت تک رہنمائی کر سکتی ہے۔ اس نے لکھا ” مساوات میں خوبصورتی ہو نا زیادہ اہم ہے بجز اس کے کہ وہ تجربات سے مطابقت رکھے۔ ۔ ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کسی کی مساوات میں خوبصورتی لانے پر کام کر رہا ہے اور اگر وہ حقیقت میں صاحب بصیرت بھی ہو تو وہ یقینی طور پر صحیح راہ پر گامزن ہے۔ ")

اپنی الیکٹران کے لئے مساوات کو درست کرتے ہوئے ڈیراک کو اندازہ ہوا کہ آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات E = mc2 بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں تھی۔ صحیح مساوات کو E = ± mc2 ہونا چاہئے۔ (یہ منفی کا نشان اس لئے آیا کیونکہ ہمیں کچھ مخصوص تعداد کا "جزر المربع” (Square Root) بھی لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا جزر المربع لیتے ہوئے کسی بھی مقدار کی منفی اور مثبت کا نشان ہمیشہ ابہام پیدا کرے گا۔ )

مگر طبیعیات کو منفی توانائی سے ہمیشہ سے چڑ ہے۔ طبیعیات کا ایک مسلمہ اصول ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ اجسام ہمیشہ سے پست توانائی کی طرف مائل ہوتے ہیں (یہ ہی وجہ ہے کہ پانی ہمیشہ نیچے کی سطح کی طرف میلان رکھتا ہے ) ۔ کیونکہ مادّہ ہمیشہ سے اپنی پست توانائی کی حالت کی طرف میلان رکھتا ہے لہٰذا منفی توانائی کا امکان ممکنہ طور پر  تباہ کن ہو گا۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمام الیکٹران آخر کار لامتناہی منفی توانائی کی طرف رو بہ سفر ہوں گے لہٰذا ڈیراک کا نظریہ پائیدار نہیں ہو گا۔ لہٰذا ڈیراک نے ایک خیال ایجاد کیا جس کا نام "ڈیراک کا سمندر "رکھا۔ اس کے وجدان میں تمام منفی توانائیوں کی حالت پہلے سے ہی لبریز ہے لہٰذا ایک الیکٹران کسی بھی منفی توانائی کی طرف نہیں رو بہ سفر ہو گا۔ اسی وجہ سے کائنات پائیدار ہے۔ اس کے علاوہ گیما شعاعیں اکثر ان الیکٹرانوں سے ٹکرا سکتی ہیں جو منفی توانائی کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ ان کو مثبت توانائی کی حالت میں لے آتی ہیں۔ اس وقت ہم گیما شعاع کو ایک الیکٹران میں بدلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈیراک کے سمندر میں ایک سوراخ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ سوراخ ضد الیکٹران کی طرح خلاء میں ایک بلبلے کی طرح برتاؤ کرے گا۔ لہٰذا اس تصویر میں ضد مادّہ ڈیراک کے سمندر میں موجود بلبلے ہیں۔

ڈیراک کی اس شاندار پیشن گوئی کے چند سال کے بعد ہی "کارل اینڈرسن” نے اصل میں ضد الیکٹران کو دریافت کر لیا  (جس کے نتیجے میں ڈیراک کو نوبل پرائز ١٩٣٣ء میں ملا) ۔

دوسرے الفاظ میں ضد مادّہ وجود رکھتا ہے کیونکہ ڈیراک کی مساوات میں دو قسم کے حل موجود ہیں ایک مادّے کے لئے ہے جبکہ دوسرا ضد مادّہ کے لئے ہے (اور اس طرح سے یہ خصوصی نظریہ اضافیت کا نتیجہ بنتا ہے۔ )

نہ صرف ڈیراک کی مساوات نے ضد مادّہ کے وجود کی پیش گوئی کی بلکہ اس نے الیکٹران کے "گھماؤ ” کے امکان کو بھی ظاہر کیا۔ ذیلی جوہری ذرّات لٹو کی طرح سے گھوم سکتے ہیں۔ ٹرانسسٹر اور نیم موصل میں الیکٹران کے بہاؤ کو سمجھنے کے لئے ان کا گھماؤ بہت ہی اہم ہوتا ہے جنہوں نے جدید برقیات کی بنیاد رکھی ہے۔

ا سٹیفن ہاکنگ کو اس بات کا افسوس رہا ہے کہ ڈیراک نے اپنی اس ایجاد کردہ مساوات کی پیٹنٹ حاصل نہیں کی۔ اس نے لکھا "ڈیراک اپنی قسمت بنا لیتا اگر وہ اپنی” ڈیراک مساوات” کو پیٹنٹ کروا لیتا۔ اس کو ہر بکنے والے ٹیلی ویژن، واک مین، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر سے آمدنی حاصل ہوتی۔

آج ڈیراک کی یہ مساوات ویسٹ منسٹر، ایبی میں پتھر پر نقش کر کے آئزک نیوٹن کے مقبرے سے کچھ زیادہ دور نہیں لگی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں شاید یہ واحد مساوات ہے جس کو یہ امتیازی اعزاز حاصل ہوا ہے۔

 

                ڈیراک اور نیوٹن

 

سائنسی مورخ جواس انقلابی مساوات کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیسے ڈیراک نے یہ مساوات اور ضد مادّہ کا تصوّر حاصل کیا وہ اکثر اس کو نیوٹن کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر نیوٹن اور ڈیراک میں کافی چیزیں قدر مشترک تھیں۔ ان دونوں نے اپنا اختراعی کام کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے عہد شباب میں کیا، دونوں ہی ریاضی کے ماہر تھے ، اور دونوں میں ایک اور سخت قسم کی خصوصیت تھی :بیماری کی حد تک پہنچنے والی مکمل طور پر آدم بیزاری۔ دونوں ہی اس بات میں بدنام تھے کہ وہ ہلکی پھلکی گپ شپ نہیں کر سکتے تھے اور معاشرتی طور پر بالکل ہی روکھے تھے۔ تکلیف دہ حد تک شرمیلا ڈیراک اس وقت تک کچھ نہیں کہتا تھا جب تک اس سے براہ راست کچھ پوچھا نہ جائے اور اس کا جواب ہوتا تھا "ہاں "، یا "نہ”، یا پھر "میں نہیں جانتا "۔

ڈیراک انتہائی شرمیلا اور شہرت سے نفرت کرتا تھا۔ جب اس کو طبیعیات میں نوبل انعام کے لئے نامزد کیا تو اس نے شہرت اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے نہایت سنجیدگی سے اس کو واپس کرنا کا سوچا۔ لیکن جب اس کو بتایا کہ نوبل انعام کو واپس کرنے سے وہ اور زیادہ مشہور ہو جائے گا تو اس نے بادل نخواستہ اس کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

نیوٹن کی منفرد شخصیت کے اوپر تدھے کے تدھے لکھے جا چکے ہیں جس میں اس کی پارے کے زہر سے لے کر دماغی بیماریوں تک سب کچھ ہی تو شامل ہے۔ لیکن حالیہ دور میں ایک نیا نظریہ کیمبرج کے ماہر نفسیات "سائمن بیرن کوہین” (Simon Baron-Cohen) نے پیش کی ہے جو نیوٹن اور ڈیراک کی عجیب و غریب شخصیت کو بیان کر سکتی ہے۔ بیرن کوہین کا دعویٰ ہے کہ دونوں ایک بیماری جس کا نام "اسپرجر کی علامات ” ہے اور جو خود خیالی کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ وہی بیماری ہے جو فلم "رین مین ” میں ایک بے وقوف علامہ کو ہوتی ہے۔ جو افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ بد نامی کی حد تک کم سخن، معاشرتی طور پر بدسلیقہ اور کبھی کبھار خداداد ریاضی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیکن خود خیالی کے شکار کے افراد کے برعکس یہ معاشرے کے کارآمد افراد بن سکتے ہیں اور بہت ہی شاندار ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو شاید ڈیراک اور نیوٹن کی معجزاتی ریاضیاتی کی طاقت کی قیمت ان کی انسانیت سے معاشرتی طور پر دوری ہے۔

 

                ضد قوّت ثقل اور ضد کائنات

 

ڈیراک کے نظریہ کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کو جواب دے سکتے ہیں : کہ ضد مادّے کا قوّت ثقل کی شکل میں کون رفیق کار ہو گا ؟ کیا ضد کائنات وجود رکھتی ہے ؟ جیسا کہ ہم نے بیان کیا تھا کہ ضد ذرّات عام مادّے کے مقابلے میں مخالف بار رکھتے ہیں۔ لیکن ان ذرّات پر جن پر کوئی بار نہیں ہوتا (جیسا کہ فوٹون، روشنی کا ایک ذرّہ یا گریوٹون جو قوّت ثقل کا ذرّہ ہوتا ہے ) ان کے بھی اپنے ضد ذرّات ہو سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جاذبی قوّت کا اپنا ضد مادّہ ہوتا ہے ، دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل اور ضد قوّت ثقل ایک ہی چیز ہیں۔ لہٰذا ضد مادّہ کو دفع ہونے کے بجائے قوّت ثقل کے زیر اثر اپنے آپ میں ڈھیر ہونا چاہئے۔ (یہ بات عالمگیر طور پر طبیعیات دان مانتے ہیں اگرچہ اس کو تجربہ گاہ میں ابھی تک ثابت نہیں کیا گیا۔ )

ڈیراک کا نظریئے اس گہرے سوال کا بھی جواب دیتا ہے : کہ قدرت نے ضد مادّہ کو بننے کیوں دیا؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ضد کائنات بھی موجود ہو گی ؟ کچھ سائنس فکشن کی کہانیوں میں، ہیرو زمین کے جیسا کوئی سیارہ خلاء میں دریافت کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ سیارہ ہر طرح سے زمین کا ہمشکل ہوتا ہے بجز اس کے کہ وہ ضد مادّہ سے بنا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اس سیارے کا جڑواں ضد مادّہ سے بنا ہوا ہو سکتا ہے ، جہاں ضد بچے ، ضد شہروں میں رہ رہے ہوں۔ کیونکہ ضد کیمیا قوانین بالکل قوانینِ کیمیا جیسے ہی ہوں گے بجز اس کے کہ ان پر بار مخالف ہونگے ، لہٰذا اس جہاں میں رہنے والے لوگوں کو کبھی نہیں پتا لگے گا کہ وہ ضد مادّہ سے بنے ہیں۔ (طبیعیات دان اس کو بار- الٹ یا سی الٹ کائنات کہتے ہیں، کیونکہ وہاں اس ضد کائنات میں تمام بار الٹ ہوں گے ، لیکن اس کے علاوہ ہر چیز یہاں کے جیسی ہی ہو گی۔ )

دوسری سائنسی کہانیوں میں سائنس دانوں کو یہ بات معلوم چلتی ہے کہ باہری خلاء میں زمین کا جڑواں ایسا ہے جیسے کہ آپ کائنات کو آئینے میں دیکھ رہے ہوں جہاں ہر چیز الٹی ہے۔ ہر ہستی کا قلب سیدھی طرف ہے اور زیادہ تر لوگ کھبے ہیں۔ وہ وہاں اپنی زندگی اس بات سے بے خبر ہو کر گزار رہے ہیں کہ وہ الٹی آئینے میں نظر آنے والی جیسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز الٹی ہے۔ (طبیعیات دان ایسی دنیا کو آئینے جیسی الٹ پھیر کائنات یا پھر پی الٹ پھیر کہتے ہیں۔ )

کیا ایسی ضد کائنات یا الٹ پھیر کائنات حقیقت میں موجود ہو سکتی ہے ؟ طبیعیات دانوں نے جڑواں کائنات کے سوال کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ جب ہم صرف بار کو اپنے تمام ذیلی جوہری ذرّات پر الٹ دیں گے یا سیدھی الٹی حالت کو ایک دوسرے کی مخالفت میں پلٹ دیں گے تب بھی نیوٹن اور آئن سٹائن کی مساوات اپنی جگہ ایک جیسی ہی رہیں گی۔ لہٰذا سی الٹ اور پی الٹ کائنات تو ایک جیسی ہی رہے گی۔

نوبل انعام یافتہ رچرڈ فیمین ایسی کائناتوں کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ سوال اٹھاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک دن ہمارا ریڈیائی رابطہ دور دراز کے سیارے کی خلائی مخلوق سے ہو جاتا ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ کیا ہم ان کو ریڈیو کے ذریعہ سیدھے اور الٹے کا فرق بتا پائیں گے ؟ انہوں نے پوچھا۔ اگر طبیعیات کے قوانین پی الٹ کائنات کو بننے کی اجازت دیں تو ان کو اس قسم کی بات کو سمجھانا ناممکن ہو گا۔

کچھ چیزیں بیان کرنا آسان ہوتی ہیں جیسا کہ ہمارے جسموں کی شکل، ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد، بازو اور پیر۔ خلائی مخلوق کو ہم قوانین طبیعیات اور قوانین کیمیا کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کو سیدھے اور الٹے (یا کلاک وائز اور ضد کلاک وائز ) کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو ہر دفعہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔ ان کو ہم کبھی بھی یہ بیان نہیں کر سکیں گے کہ ہمارا دل ہمارے جسم کے الٹی طرف ہے ، زمین کس سمت میں گھوم رہی ہے ، ڈی این اے کے سالمات کس طرح سے گھومتے ہیں۔

لہٰذا ایک زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب کولمبیا یونیورسٹی کے ” سی این یانگ” (C۔ N۔ Yang) اور "ٹی ڈی لی” (T۔ D۔ Lee)  نے اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے ذیلی ذرّات کی نوعیت کو جانچتے ہوئے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آئینے کی طرح پی الٹ کائنات وجود نہیں پا سکتی۔ ایک طبیعیات دان نے یہ نتیجے کو سننے کے بعد کہا "دیوتا سے کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ ” ان ہلا دینے والے نتیجوں، جن کو "مساوی نمائندگی کی شکست” کہا جاتا ہے یانگ اور لی کو طبیعیات کا نوبل انعام ١٩٥٧ء میں دلوانے کا سبب بنا حاصل کیا۔

فیمین کے لئے اس نتیجے کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ خلائی مخلوق سے ریڈیو پر بات کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسا تجربہ کر سکیں جو آپ کو اس قابل کر دے کہ آپ سیدھی اور الٹی کائنات کا فرق خالی ریڈیو کے ذریعہ ہی بیان کر سکتے ہیں  (مثال کے طور پر، تابکار کوبالٹ – ٦٠سے خارج ہونے والے الیکٹران برابری کی بنیاد پر کلاک وائز یا ضد کلاک وائز نہیں گھومتے بلکہ اصل میں وہ ایک ترجیح سمت میں گھومتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مساوی نمائندگی کے اصول کو توڑ دیتے ہیں۔ )

تب فیمین سمجھ گیا تھا کہ خلائی مخلوق اور انسانوں کی تاریخی ملاقات آخر کار ممکن ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ جب ہم پہلی مرتبہ خلائی مخلوق سے ملیں تو انھیں بتا سکتے ہیں کہ اپنے سیدھے ہاتھ کو اٹھائیں تاکہ ہم ان سے مصافحہ کیا جا سکے۔ اگر خلائی مخلوق نے صحیح طرح سے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھا لیا تو تب ہی ہم یہ بات جان پائیں گے کہ ہم نے ان کو کامیابی کے ساتھ سیدھے اور الٹے اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا تصوّر سمجھا دیا ہے۔ مگر پھر فیمین نے ایک بوکھلا دینے والا خیال پیش کیا ہے۔ اس وقت کیا ہو گا کہ اگر خلائی مخلوق نے سیدھے ہاتھ کو اٹھانے کے بجائے الٹا ہاتھ اٹھایا ؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے ایک انتہائی مہلک غلطی کر لی ہے یعنی ہم ان کو سیدھے اور الٹے کا تصوّر صحیح طرح سے نہیں بیان کر سکے۔ سب سے خطرناک بات تو یہ ہو گی کہ اگر خلائی مخلوق ضد مادّہ سے بنی ہو گی تو انہوں نے اس تجربہ کو الٹا ادا کیا ہو گا لہٰذا انہوں نے سیدھے اور الٹے کے تصوّر کو ملا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب ہم ان سے ہاتھ ملائیں گے تو ہم دونوں ہی دھماکے سے پھٹ جائیں گے !

مفصلہ بالا ہماری سمجھ بوجھ١٩٦٠ء تک کی تھی۔ یہ بات ناممکن ہے کہ ہم اپنی کائنات اور اس کائنات میں کوئی فرق کر سکیں جو ضد مادّہ سے بنی ہے جہاں مساوی نمائندگی الٹی ہے۔ اگر آپ اس نمائندگی اور بار کو الٹ بھی کر دیں تو بننے والی کائنات انھیں طبیعیات کے قوانین کے تابع ہو گی جو ہماری کائنات میں لاگو ہیں۔ مساوی نمائندگی خود ہی سے شکست کھا لے گی مگر بار اور مساوی نمائندگی اب بھی ایک کائنات کا اچھا تشاکل ہیں۔ لہٰذا پی کائنات کا وجود اب بھی ہونا ممکن ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کسی خلائی مخلوق سے فون پر بات کر رہے ہیں تو ہم ان کو ایک ایسی کائنات جس میں بار بھی الٹ ہوں اور مساوی نمائندگی بھی الٹ ہو اورایک عام کائنات کا فرق نہیں بتا سکتے۔ (یعنی سیدھا اور الٹا ایک دوسرے سے بدل جائے گا اور تمام مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ )

تب ١٩٦٤ء میں طبیعیات دانوں کو ایک اور جھٹکا ملا : سی پی الٹ کائنات وجود نہیں رکھ سکتی۔ ذیلی جوہری ذرّات کی خصوصیات کو جانچ کریہ ممکن ہے کہ اگر آپ ریڈیو کے ذریعہ کسی دوسری سی پی الٹ کائنات میں بات کر رہے ہیں تو سیدھے اور الٹے اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا فرق بتایا جا سکتا ہے۔ اس نتیجے کے صلے میں "جیمز کرونن” (James Cronin) اور "ول فیچ” (Val Fitch) نے ١٩٨٠ء میں نوبل انعام جیتا۔

(کافی طبیعیات دان اس وقت بہت زیادہ دلبرداشتہ ہو گئے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ سی پی کائنات طبیعیات کے قوانین کی رو سے متصادم ہے۔ پس بین جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ یہ دریافت ایک اچھی بات تھی۔ اگر سی پی کائنات کا وجود ممکن ہوتا تو بگ بینگ کی ساعت کے وقت مادّہ اور ضد مادّہ ہو بہو برابر کی مقدار میں ہوتا جس کے نتیجے میں مادّہ اور ضد مادّہ سو فیصد آپس میں مل کر فنا ہو جاتا اور ہمارے ایٹموں کا بننا ممکن نہ رہتا ! ہمارا اپنا وجود اس حقیقت کی گواہی ہے کہ ہم اس بچے ہوئے مادّے سے بنے ہیں جو مادّہ اور ضد مادّہ کے ٹکراؤ کے بعد بچ جانے والا مادّہ تھا اور یہ اس سی پی کائنات کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔ )

کیا کسی الٹی کائنات کا ہونا ممکن ہے ؟ مفصلہ بالا باتوں کے باوجود اس بات کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر مساوی نمائندگی کا الٹ اور بار کا الٹ ہونا ناممکن ہے اس کے باوجود ایک ضد کائنات موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ انتہائی عجیب ہو گی۔ اگر ہم بار، مساوی نمائندگی اور وقت کے دھارے کو پلٹ دیں تب بھی کائنات کو طبیعیات کے تمام قوانین کی اطاعت کرنا ہو گی۔ ایک سی پی ٹی کائنات کا وجود ممکن ہے۔

وقت کے دھارے کو الٹنا ایک عجیب تشاکل ہے۔ ایک الٹے وقت کی کائنات میں تلا ہوا انڈا کھانے کی میز پر سے اٹھ کر ہانڈی میں چلا جائے گا اور پھر وہاں سے اٹھ کر انڈے کے چھلکوں میں جا کر ان کو بند کر کے ثابت انڈا بن جائے گا۔ مردے زندہ ہو جائیں گے ، اس کے بعد جوان ہوں گے ، پھر بچے بنیں گے اور آخر میں اپنی ماؤں کے رحم میں چلے جائیں گے۔

عقل عامہ ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ ایک الٹے وقت کی کائنات کا موجود ہونا ممکن نہیں ہے۔ مگر ذیلی ایٹمی ذرّات کی ریاضیاتی مساوات ہمیں کچھ اور بتاتی ہیں۔ نیوٹن کے قانون کا اطلاق بے عیب طریقے سے آگے پیچھے کی طرف ہو سکتا ہے۔ کسی بلیرڈ کے کھیل کی ویڈیو بنانے کا تصوّر کریں۔ گیندوں کا ہر ٹکراؤ نیوٹن کے قانون کی اطاعت کرتا ہے ، اسی کسی ویڈیو گیم کی ٹیپ کو الٹا چلانا ایک عجیب سا کھیل بنا دے گا مگر نیوٹن کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے !

کوانٹم کے نظریئے میں چیزیں اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ الٹے وقت کی کائنات کوانٹم میکانیات کے اصولوں سے انحراف ہے مگر پوری سی پی ٹی کائنات کے وجود کی اس میں بھی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی کائنات، جس میں سیدھا اور الٹا آپس میں ایک دوسرے سے بدل جائیں، مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے اور وقت کا دھارا الٹا بہنے لگے ، مکمل طور پر قابل قبول ہے یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کا بھی اتباع کرے گی۔

(حیران کن بات یہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسی سی پی ٹی الٹ دنیا سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں کر سکتے۔ اگر ان کے سیارے پر وقت کا دھارا الٹا بہ رہا ہو گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان کو جو بھی پیغام ریڈیو کے ذریعے بھیجیں گے وہ ان کے مستقبل کا حصّہ ہو گا لہٰذا وہ اس بات کو فوراً اسی وقت بھول جائیں گے جیسی ہی وہ بات ہم انھیں بتائیں گے۔ لہٰذا اگرچہ سی پی ٹی الٹ کائنات کا قوانین طبیعیات کی رو سے موجود ہونا ممکن ہے لیکن ہم کسی بھی سی پی ٹی الٹ دنیا میں رہنے والی خلائی مخلوق سے ریڈیو کے ذریعہ بات چیت نہیں کر سکتے۔ )

مختصر الفاظ میں ضد مادّے سے چلنے والے انجن ہمیں ایک حقیقی امکان بہم پہنچاتے ہیں جس کا استعمال ہم مستقبل بعید میں بطور ایندھن کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کافی سارا ضد مادّہ زمین پر بن سکے یا اس کو خلاء میں تلاش کر لیا جائے۔ مادّے اور ضد مادّے میں توازن سی پی انحراف کی وجہ سے بگڑا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ضد مادّہ کائنات کے کچھ حصّوں میں موجود ہو سکتا ہے اور ہم اس کا اب بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

لیکن کیونکہ ضد مادّہ کے انجن کو بنانے میں کافی مشکلات فنی طور پر راہ میں حائل ہیں لہٰذا ان مشکلات پر قابو پانے میں شاید ایک صدی کا عرصہ یا اس سے بھی زیادہ لگ سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں اس کو جماعت "I” کی ناممکنات میں درجہ بند کر رہا ہوں۔

مگر چلیں ایک اور سوال سے نمٹتے ہیں :کیا آج سے ہزاروں برسوں بعد مستقبل بعید میں روشنی کی رفتار سے چلنے والے خلائی جہاز بنانا ممکن ہو گا ؟ کی آئن سٹائن کے مشہور مقولے "روشنی کی رفتار سے کوئی بھی چیز تیز نہیں ہو سکتی؟” میں کیا کوئی گنجائش موجود ہے۔ حیرت انگیز طور اس کا جواب ہاں میں ہے۔

 

 

 

11۔     سریع از نور

 

یہ بات کافی قابل ادراک ہے کہ (زندگی) کہکشاں اور اس سے آگے پھیلے گی۔ لہٰذا زیست کائنات میں غیر اہم آلودہ سراغ کی طرح ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی اگرچہ ہنوز ایسا ہی ہے۔ درحقیقت میں اس خیال کو کسی حد تک پسند کرتا ہوں۔
خلا نورد رائل سر مارٹن ریس
روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ بات مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ٹوپی گر جائے گی۔
ووڈی ایلن

 

اسٹار وار میں جب ” میلینیم فالکن” (Millennium Falcon)  سنسان سیارے "ٹیٹو یئن ” (Tatooine)  کو اڑاتا ہے ، جس میں ہمارے جوان مرد لیوک اسکائی والکر اور ہین سولو موجود ہوتے ہیں، تو جہاز کا ٹکراؤ سیارے کی گرد چکر لگانے والے جنگی خلائی جہاز امپیریل کے اسکواڈرن آف مینا نسنگ  کے جہاز سے ہو جاتا ہے۔ سلطنت کا جنگی جہاز سزا دینے کے لئے لیزر کا سمندر ہمارے جانبازوں کے جہاز کی طرف پھینکتا ہے جو چشم فلک میں ان کی غیر مرئی ڈھال کو توڑتا ہوا اس میں سے گزر جاتا ہے۔ میلینیم فالکن مصیبت میں آ جاتا ہے۔ لیزر کی آگ سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے بچتے ہوئے ہین سولو چیختا ہے کہ اضافی خلاء (Hyper Space)  میں کودنا ہی ان کے پاس بچنے کی آخری امید ہے۔ فوراً ہی اضافی ڈرائیو (Hyper Drive)  کا انجن چالو ہو کر زندہ ہو جاتا ہے ان کے گرد موجود تمام ستارے ان کی اسکرین پر نظر آنے والے مرکز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھوں کو چندیا جانے والی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سوراخ کھلتا ہے جس کے اندر دی میلینیم فالکن غائب ہو کر اضافی خلاء میں پہنچ کر آزادی حاصل کرتا ہے۔

یہ تو سائنسی قصّہ ہے ؟ بے شک۔ لیکن کیا یہ مبنی بر سائنسی حقائق ہے ؟ شاید روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز سفر نے سائنسی قصّوں کو اپنے سحر میں کچھ زیادہ ہی جکڑا ہوا ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ دور حاضر میں طبیعیات دانوں نے اس امکان پر کافی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔

آئن سٹائن کے مطابق روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے طاقتور ترین ذرّاتی اسراع گر جس میں جوہروں کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے ، اس قسم کی توانائی کو پیدا کر سکتے ہیں جو صرف کسی پھٹتے ہوئے ستارے کے قلب میں ہی یا پھر بگ بینگ کے وقت پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنی اس تمام تر قوّت کے باوجود بھی یہ ذیلی جوہری ذرّات کو روشنی کی رفتار سے تیز نہیں پھینک سکتے۔ بظاہر طور پر روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دور دراز کی کہکشاؤں میں پہنچنے کی ہماری امید خاک میں مل جائے گی۔

اور ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

 

                ناکام آئن سٹائن

 

١٩٠٢ء میں یہ بات کافی طور پر واضح تھی کہ نوجوان طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن اس منزل سے بہت دور ہے جہاں وہ آئزک نیوٹن کے بعد ایک عظیم ماہر طبیعیات کے طور پر جانا جائے گا۔ حقیقت میں وہ سال اس کی زندگی کا سب سے برا سال تھا۔ تازہ تازہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ان تمام یونیورسٹیوں میں تدریسی ملازمت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جہاں اس نے ملازمت کے لئے درخواست دی تھی۔ (بعد میں اس پر یہ عقدہ خلا کہ اس کے پروفیسر ” ہینرچ ویبر” (Heinrich Weber) نے اس کی سفارش کے لئے انتہائی خطرناک خطوط لکھے تھے ، ہو سکتا ہے کہ اس نے آئن سٹائن سے اپنی کلاس میں غیر حاضری کا بدلہ لیا ہو۔ ) مزید براں آئن سٹائن کی ماں بہت شدت کے ساتھ اس کی محبوبہ "ملیوا میرک” (Mileva Maric)  کے خلاف تھی، جوان دنوں میں امید سے تھی۔ ان کی پہلی بیٹی "لیزرل” (Lieserl)  ناجائز طریقے سے پیدا ہوئی تھی۔ نوجوان البرٹ اس معمولی ملازمت میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی وہ کم آمدن والی پڑھانے والی نوکری بھی اس وقت ختم ہو گئی جب وہ اپنی ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ اپنے مایوس کن خطوط میں اس نے اس بات کا بھی اظہار کیا تھا جس میں وہ زندہ رہنے کے لئے سیلز مین کی نوکری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو ایک خط میں یہاں تک لکھا کہ کیونکہ وہ اپنے خاندان پر ایک بوجھ ہے اور اس میں ایک اچھے اور کامیاب مستقبل کو پانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے لہٰذا اس کا پیدا نہ ہونا ہی بہتر تھا۔ جب اس کے باپ کا انتقال ہوا تو اس کو اس بات کا انتہائی غم تھا کہ اس کا باپ یہ سوچتے ہوئے مر گیا کہ اس کا بیٹا ایک ناکام انسان ہے۔

اس ایک سال کے بعد آئن سٹائن کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ایک دوست نے اس کو سوئس پیٹنٹ آفس میں کلرک کی جاب دلوا دی۔ اس انتہائی کم درجے کی نوکری پر رہتے ہوئے ہی اس نے جدید دور کے عظیم انقلاب کو برپا کیا۔ وہ بہت ہی تیزی سے اپنی میز پر موجود پیٹنٹوں کا تجزیہ کر کے طبیعیات کے ان مسائل میں غور و فکر کرنا شروع کرتا  جو اس کو عہد طفلی سے ہی پریشان کرتے تھے۔

اس کی غیر معمولی ذہانت کا راز کیا تھا ؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ وہ خالص ریاضی سوچ کے بجائے طبیعیاتی اشکال کی صورت میں سوچتا تھا (مثال کے طور پر حرکت کرتی ہوئی ریل، اسراعی گھڑیاں اور کھینچی ہوئی ساخت)۔  آئن سٹائن نے ایک مرتبہ یہ بات کہی کہ جب تک کوئی نظریہ کسی بچے کو سمجھ میں نہیں آئے اس وقت تک وہ نظریہ بیکار ہے ؛ یعنی کسی بھی نظریئے کو جسمانی تصویری شکل میں بیان کرنے ہی اس کی اصل روح ہوتی ہے۔ بہت سارے طبیعیات دان ریاضی کی دبیز گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور کہیں کے نہیں رہتے۔ مگر اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن بھی طبیعی تصاویر کا دیوانہ تھا اس کے لئے ریاضی اس کے بعد آتی تھی۔ نیوٹن کے لئے طبیعی تصویر چاند اور گرتا ہوا سیب تھی۔ کیا وہ قوّت جس نے سیب کو گرایا تھا اس قوّت کے برابر تھی جس نے چاند کو اس کے مدار میں ٹکا کر رکھا ہوا ہے ؟جب نیوٹن نے اس کا فیصلہ کیا تو اس کا جواب ہاں میں تھا۔ اس نے کائنات کے لئے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنا دیا جس نے اچانک سے ہی فلک کے عظیم راز – فلکی اجسام کی اپنی حرکت کے قوانین کو ہم پر افشاں کیا۔

 

                آئن سٹائن اور اضافیت

 

البرٹ آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کو ١٩٠٥ء میں پیش کیا۔ اس نظریئے کے قلب میں موجود ایک ایسی تصویر تھی جس کو کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا تھا۔ اس کا نظریہ اس خواب کی تعبیر تھا جو وہ ١٦ برس کی عمر سے دیکھ رہا تھا، جب وہ ایک نتیجہ خیز سوال پوچھتا تھا : اس وقت کیا ہو گا جب آپ ایک دور میں روشنی کی رفتار کو پیچھے چھوڑ دیں گے ؟ ایک نوجوان کے طور پر وہ یہ بات جانتا تھا کہ نیوٹن کی میکانیات زمین اور فلکی اجسام کی حرکت کو بیان کرتی ہے اور میکسویل کا نظریہ روشنی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ دونوں نظریئے اس وقت طبیعیات کے دو ستون تھے۔

آئن سٹائن کی غیر معمولی ذہانت نے جان لیا تھا کہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو گرنا ہو گا۔

نیوٹن کے مطابق روشنی کی شعاع کو شکست دی جا سکتی ہے کیونکہ روشنی کی رفتار میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روشنی کی شعاع کو ضرور اس وقت ساکن رہنا چاہئے جب کوئی اس سے دوڑ لگائے۔ لیکن نوجوان آئن سٹائن نے اس بات کو جان لیا تھا کہ کسی نے بھی ایسی روشنی کی موج نہیں دیکھی ہے جو ساکن ہو یعنی جو منجمد موج کی طرح ہو۔ لہٰذا نیوٹن کا نظریہ اس بات کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر تھا۔

آخر کار بطور طالبعلم زیورخ میں میکسویل کے نظریئے کو پڑھتے ہوئے آئن سٹائن نے اس سوال کا جواب حاصل کر لیا تھا۔ اس نے ایک ایسی چیز دریافت کر لی تھی جس کو میکسویل بھی نہیں جانتا تھا : روشنی کی رفتار مستقل ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کتنی تیزی سے حرکت کرے۔ چاہئے آپ روشنی کی سمت میں دوڑیں یا اس کی مخالفت میں دوڑ لگائیں وہ دونوں صورتوں میں ایک ہی سمتی رفتار سے سفر کرے گی مگر اس کی یہ خاصیت عقل سے متصادم ہے۔ آئن سٹائن نے اپنے بچپن کے سوال کا جواب حاصل کر لیا تھا : کوئی بھی روشنی سے دوڑنے کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔

مگر نیوٹن میکانیات ایک سختی سے بند نظام تھا : جیسے کسی ڈھیلی رسی کو چرخی پر چڑھایا ہوا ہو، رسی کو ذرا سے کھینچا اور وہ پوری بکھر گئی۔ یہی حال اس نظریئے کا تھا۔ پورا نظریہ اس وقت بکھر جاتا ہے جب اس مفروضے کی بنیادوں میں تھوڑا سا بھی رد و بدل کیا جاتا۔ نیوٹن کے نظریئے میں وقت تمام کائنات میں ایک جیسا یکساں تھا۔ زمین پر ایک سیکنڈ، زہرہ یا مریخ پر گزرے ہوئے ایک سیکنڈ کے جتنا ہی تھا۔ اسی طرح سے زمین پر لگی پیمائش کی لکڑی پلوٹو پر لگی پیمائش کی لکڑی جتنی ہی ہو گی۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شئے کتنی ہی تیز حرکت میں ہو اگر روشنی کی رفتار ہمیشہ ساکن رہے گی تو ہمیں اپنی مکان و زمان کی تفہیم میں کافی تبدیلی کرنا ہو گی۔ روشنی کی رفتار کو ساکن رکھنے کے لئے زمان و مکان میں عمیق خلل آ جائے گا۔

آئن سٹائن کے مطابق اگر آپ کسی تیز رفتار خلائی جہاز میں بیٹھے ہیں تو راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار بہ نسبت ان لوگوں کے جو زمین پر موجود ہیں کم ہو گی۔ وقت کے مختلف گزرنے کی شرح اس بات پر منحصر ہو گی کہ آپ کتنا تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ مزید براں راکٹ کے اندر موجود خلاء بھی دب جائے گی جس کے نتیجے رفتار کی مناسبت سے ناپنے کی لکڑی بھی بدل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی جہاز کی کمیت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر ہم راکٹ کے اندر دوربین سے دیکھنے کے قابل ہوں تو ہم یہ بات دیکھ سکیں گے کہ راکٹ کے اندر موجود گھڑیاں آہستہ چل رہی ہیں لوگ آہستہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں اور لوگ ہمیں چپٹے نظر آئیں گے۔

حقیقت میں اگر راکٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرے گا تو بظاہر ان کے لئے وقت تھم جائے گا اور راکٹ کی کمیت لامتناہی ہو جائے گی۔ (کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو ہماری عقل عامہ میں سما سکے لہٰذا آئن سٹائن نے کہا کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار کو پار نہیں کر سکتی۔ (کیونکہ کوئی بھی جسم جتنی تیز حرکت کرے گا اتنا ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حرکی توانائی کمیت میں بدل جائے گی۔ کمیت میں تبدیل ہوتی ہوئی توانائی کی درست مقدار بہت آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ہمیں وہ عہد ساز مساوات حاصل ہوئی جو صرف چند سطروں میں آسکتی ہے یعنی E = mc²) ۔

جب سے آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ مساوات پیش کی ہے تب سے کروڑوں کی تعداد میں تجربات نے اس انقلابی خیال کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر جی پی ایس نظام جو زمین پر موجود ہمارے محل وقوع کو چند فٹ کے فاصلے تک صحیح بتا سکتا ہے . اگر اس میں اضافیت کے حساب سے وقت کو درست نہیں کیا جائے تو یہ نظام صحیح طرح سے کام نہیں کرے گا۔ (کیونکہ فوج بھی جی پی ایس نظام پر انحصار کرتی ہے لہٰذا پینٹاگون کے جنرلوں کو بھی طبیعیات کے اس حصّے کا بارے میں بتایا جاتا ہے جس کا تعلق آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ہے۔ ) جی پی ایس میں موجود گھڑیاں حقیقت میں زمین سے اوپر مدار میں رہتے ہوئے ایسے ہی تبدیل ہوتی ہیں جیسے کہ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی تھی۔

تصویری طور پر اس خیال کی سب سے بہترین شکل کسی جوہری اسراع گر میں ملتی ہے جہاں سائنس دان ذرّات کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتے ہیں۔ سرن میں موجود جناتی اسراع گر جس کا نام ” لارج ہیڈرون کولائیڈر” ہے جو جنیوا، سوئٹزرلینڈ کے باہر ی حصّے میں واقع ہے ، اس میں پروٹون کو دسیوں کھربوں الیکٹران وولٹ پر اسراع دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرتے ہیں۔

راکٹ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان کے لیے ابھی تک روشنی کی حد کوئی مسئلہ نہیں ہو گی کیونکہ راکٹ مشکل سے ہی کچھ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ مگر اگلی ایک یا دو صدی میں جب راکٹ کے سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ کھوجی دوسرے ستاروں کی طرف روانہ کریں گے  (جو زمین سے ٤ برس نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں ) تو روشنی کی حد بتدریج مسئلہ بن جائے گی۔

 

                آئن سٹائن کے نظریے میں سوراخ

 

عشروں سے طبیعیات دان آئن سٹائن کے مشہور زمانہ مقولے کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ توڑ تو ملے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر کارآمد نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی روشنی کی چمک کو آسمان میں ہلائے تو نظری طور پر روشنی کی کرن کی رفتار روشنی سے تیز ہو سکتی ہے۔ چند ہی سیکنڈوں میں روشنی کا خاکہ افق پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتا ہے جس کے درمیان کا فاصلہ کئی نوری برس تک کا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس طرح سے کسی بھی قسم کی اطلاعات کو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں بھیجا جا سکتا۔ روشنی کی کرن کا خاکہ روشنی کی رفتار سے بڑھ جاتا ہے مگر وہ خاکہ کسی قسم کی توانائی یا اطلاع پر مشتمل نہیں ہوتا۔

بالکل اسی طرح سے اگر ہمارے پاس قینچی ہو جس کے بلیڈ آپس میں ملتے ہوئے ہوں تو وہ جڑے ہوئے حصّے سے جتنا دور ہوں گے اتنا زیادہ تیزی سے حرکت کریں گے۔ اگر ہم یہ بات فرض کریں کہ قینچی ایک نوری برس جتنی لمبی ہے تو بلیڈوں کو بند کرنے سے اس کے آپس میں قطع کرنے والے حصّے روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتے ہیں۔ (اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ قطع کرنے والے کناروں پر کوئی اطلاع یا توانائی موجود نہیں ہے۔ ) اسی طرح سے جیسے کہ میں نے باب چہارم میں بیان کیا تھا کہ ای پی آر تجربہ اطلاعات کو روشنی کی رفتار سے تیز بھیجنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ (یاد دہانی کے لئے بتاتے چلیں کہ اس تجربے میں دو الیکٹران جو ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایک دوسرے سے دور مخالف سمت میں چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں الیکٹران آپس میں مربوط ہوتے ہیں لہٰذا ان کے درمیان اطلاعات کو روشنی کی بھی رفتار سے تیز بھیجا جا سکتا ہے مگر یہ اطلاعات بھی بے ترتیب ہو گی لہٰذا اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لئے ای پی آر مشینوں کو دور دراز ستاروں کے پاس کھوجی بھیجنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ )

ایک طبیعیات دان کے لئے سب سے اہم توڑ تو آئن سٹائن کی طرف سے ہی آیا تھا جس نے عمومی نظریہ اضافت کو ١٩١٥ء میں تخلیق کیا تھا، ایک ایسا نظریہ جو خصوصی نظریہ اضافیت سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد آئن سٹائن کے دماغ میں اس وقت سے پڑ گئی تھی جب اس نے عہد طفلی میں گول گھومنے والے جھولے کو غور سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ اجسام جب روشنی کی رفتار تک پہنچتے ہیں تو وہ سکڑ جاتے ہیں۔ جتنا تیزی سے آپ حرکت کریں گے اتنی ہی آپ سکڑ جائیں گے۔ مگر ایک گھومتی ہے قرص میں باہری حصّہ اندرونی حصّے سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے۔ (مرکز حقیقت میں ساکن ہی ہوتا ہے۔ ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فٹے کو گھیرے پر لگائیں گے تو وہ سکڑ جائے گا جبکہ مرکز میں لگا ہو فٹا لگ بھگ اتنا ہی رہے گا۔ مطلب جھولے کی سطح اب چپٹی نہیں بلکہ خمیدہ ہو جائے گی۔ لہٰذا اسراع نے مکان و زمان پر اثر ڈال کر جھولے کو خمیدہ کر دیا تھا۔

عمومی نظریہ اضافیت میں مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جو کھینچ اور سکڑ سکتی ہے۔ کچھ مخصوص حالت میں ساخت روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سکڑ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ذرا بگ بینگ کے بارے میں سوچیں جب کائنات ایک کائناتی دھماکے میں تیرہ ارب پچھتر کروڑ سال پہلے پیدا ہوئی تھی۔ کوئی بھی اس بات کا حساب لگا سکتا ہے کہ کائنات ابتداء میں روشنی کی رفتار سے تیزی سے پھیلی۔ (اس نے خصوصی نظریہ اضافیت کے کلیہ سے انحراف نہیں کیا تھا کیونکہ وہ خالی جگہ تھی – ستاروں کے درمیان موجود جگہ تیزی سے پھیل رہی تھی ستارے بذات خود ایک دوسرے سے دور نہیں جا رہے تھے۔ پھیلتی ہوئی خلاء کسی قسم کی اطلاعات پر مشتمل نہیں تھی۔

اہم نقطہ یہ تھا کہ خصوصی اضافیت کا اطلاق صرف مقامی چیزوں یعنی کہ آپ کے آس پاس کی چیزیں پر ہوتا تھا۔ آپ کے پڑوس (جیسا کہ نظام شمسی ) میں خصوصی نظریہ اضافیت کی بادشاہی ہے  جیسا کہ ہمارے خلائی کھوجیوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ مگر عالمگیر سطح پر (مثال کے طور پر فلکیاتی پیمانے پر جس میں کائنات آ جاتی ہے ) ہمیں عمومی نظریہ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ عمومی نظریہ میں مکان و زمان ایک ساخت بن جاتی ہے اور یہ ساخت روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز پھیلتی ہے۔ یہ خلاء میں سوراخ کرنے کی بھی اجازت دے دیتی ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی مختصر راستہ اختیار کرتے ہوئے زمان و مکان میں سے گزر سکتا ہے۔

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی عمومی نظریہ اضافیت کا سہارا لے کر روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کر سکتا ہے۔ ایسے دو طریقے موجود ہیں جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خلاء کو پھیلانا۔ اگر آپ اپنے پیچھے موجود خلاء کو پھیلا دیں اور سامنے والی خلاء میں رابطہ قائم کریں تو آپ کو ایسا دھوکہ ہو گا کہ آپ روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں آپ نے بالکل بھی حرکت نہیں کی ہو گی۔ مگر کیونکہ خلاء میں بگاڑ آگیا ہو گا اس لئے آپ دور دراز ستاروں تک پلک جھپکتے ہی پہنچ جائیں گے۔

خلاء کو توڑنا۔ ١٩٣٥ء میں آئن سٹائن نے ایک تصوّر ثقب کرم (وارم ہول – ثقب سوراخ کو جبکہ کِرم، کیڑے کو کہتے ہیں ) کا دیا۔ "ایلکس” (Alex)  کے جادوئی آئینے کا ذرا تصوّر کریں ایک ایسا جادوئی آلہ جو آکسفورڈ کے گاؤں کو ونڈر لینڈ سے ملا دیتا تھا۔ ثقب کرم ایک ایسا آلہ ہے جو دو کائناتوں کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ جب ہم ابتدائی اسکول میں تھے تو ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ سب سے مختصر راستہ کسی بھی دو نقاط کا ایک سیدھا راستہ ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ سچ بھی ہو کیونکہ اگر ہم کاغذ کے کسی پنے کو لے کر اتنا موڑیں کہ اس کے دونوں سرے آپس میں مل جائیں تو ہم ان دو نقاط کے درمیان راہ مختصر ایک ثقب کرم کو دیکھیں گے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے طبیعیات دان "میٹ ویزر”  (Matt Visser)  کہتے ہیں کہ ” اضافیت والے اس بات کو سوچ رہے ہیں کہ وہ کیا چیز ہو گی جس کی مدد سے ایک خمیدہ راستہ (وارم ڈرائیو )  یا ایک ثقب کرم سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ جائے۔ ”

رائل ایسٹرو نومر آف گریٹ برٹین کے سر مارٹن ریس کہتے ہیں کہ ” ثقب کرم، اضافی جہتوں اور کوانٹم کمپیوٹروں نے ایسے قیاسی خیالوں کا سمندر بہا دیا ہے جس میں ہماری پوری کائنات آخر میں رہنے کے لائق کائنات بن جائے گی۔

 

                الکوبئیرے کا راستہ  (Alcubierre Drive) اور منفی توانائی

 

سب سے بہترین مثال کھینچتی ہوئی خلاء کی الکوبئیرے کا راستہ ہے  جو کہ ایک طبیعیات دان "میگول الکوبئیرے ” (Miguel Alcubierre)  نے ١٩٩٤ء میں آئن سٹائن کے نظریہ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے تجویز دی تھی۔ یہ اسٹار ٹریک میں نظر آنے والے دھکیل نظام سے ملتی ہے۔ ایسے کسی بھی خلائی جہاز کو چلانے والا پائلٹ ایک بلبلے میں بیٹھا ہوتا ہے (جس کو خمیدہ بلبلہ کہا جاتا ہے ) اس میں رہتے ہوئے ہر چیز معمول کے مطابق دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی جب خلائی جہاز سریع از نور رفتار کو توڑتا ہے۔ اصل میں پائلٹ کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ سکون سے بیٹھا ہوا ہے۔ جبکہ خمیدہ بلبلے کے باہر مکان و زمان میں اس وقت زبردست قسم کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب خلاء خمیدہ بلبلے کے سامنے سکڑتی ہے۔ کیونکہ وقت کی وسعت میں کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا وقت عام حالات کی طرح سے ہی خمیدہ بلبلے کے اندر گزرتا ہے۔

الکوبئیرے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسٹار ٹریک نے شاید اس حل کی تلاش میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ "اسٹار ٹریک میں موجود لوگ خمیدہ راستے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، ایک ایسا نظریہ جس میں آپ خلاء کو سکیڑ دیتے ہیں، ” اس نے کہا۔ ” ہمارے پاس یہ مفروضہ پہلے سے ہی موجود ہے کہ خلاء کو کس طرح سے خمیدہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں کیا جا سکتا اور یہ نظریہ ہی عمومی نظریہ اضافیت کا ہے۔ میں نے یہ بات سوچی کہ کوئی تو ایسا طریقہ ہو گا جس میں اس خیال کو استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھا جا سکے کہ خمیدہ راستہ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ ” شاید یہ پہلی بار ہے کہ کسی ٹیلی ویژن کے پروگرام نے آئن سٹائن کی مساوات کے ایک حل کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

الکوبئیرے اس بات کی پیش بینی کرتے ہیں کہ ان کے تجویز کردہ خلائی جہاز کا سفر اسٹار وار کے ملینیم فالکن کے جیسا ہی ہو گا۔ "میرا خیال ہے کہ وہ لوگ شاید کچھ ایسا ہی دیکھ سکیں گے۔ جہاز کے سامنے ستارے روشنی کی لمبی لکیروں جیسے بن جائیں گے۔ جہاز میں موجود مسافر اپنے پیچھے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پائیں گے ان کو صرف تاریکی ہی دکھائی دے گی کیونکہ ستاروں کی روشنی اتنی تیز نہیں ہو گی کہ وہ ان تک پہنچ سکے۔ ” وہ کہتا ہے۔

الکوبئیرے کے راستے کی روح وہ توانائی ہے جو اس خلائی جہاز کو سریع از نور سمتی رفتار سے آگے کی طرف دھکیلنے کے لئے ضروری ہے۔ عام طور سے طبیعیات دان کسی بھی خلائی جہاز کو دھکیلنے کے لئے مثبت توانائی سے شروع کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا خلائی جہاز ہمیشہ سے روشنی کی رفتار سے آہستہ چلتا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹتے ہوئے سریع از نور کی رفتار کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایندھن کو بدلنا ہو گا۔ ایک سیدھا حساب کتاب تو اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ اس کام کے لئے منفی کمیت یا منفی توانائی کی ضرورت ہو گی۔ منفی توانائی شاید کائنات میں موجود سب سے زیادہ عجیب و غریب چیز ہو گی بشرطیکہ وہ وجود رکھتی ہو۔ روایتی طور پر طبیعیات دان منفی کمیت اور منفی توانائی کو سائنس فکشن کی خرافات کہہ کر اس سے گلو خلاصی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر اب ہم یہ دیکھ سکتے ہیں سریع از نور کی رفتار سے سفر کرنے کے لئے یہ انتہائی لازمی ہیں اور ممکن ہے کہ اصل میں یہ وجود بھی رکھتے ہوں۔

سائنس دانوں نے منفی مادّے کو قدرتی طور پر دیکھنے کی کوشش کی ہے مگر اپنی اس کوشش میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ (ضد مادّہ اور منفی مادّہ دونوں مکمل طور پر الگ چیزیں ہیں۔ اوّل الذکر وجود رکھتا ہے اور اس کی مثبت توانائی ہوتی ہے لیکن اس پر بار الٹا ہوتا ہے۔ جبکہ موخّرالذکر ابھی تک اپنے وجود کو ثابت نہیں کر سکا ہے۔ ) منفی مادّہ بہت ہی الگ چیز ہے کیونکہ وہ ہر چیز سے ہلکا ہو گا۔ اصل میں وہ تیرے گا۔ اگر منفی مادّہ ابتدائی کائنات میں موجود ہوتا تو وہ خلاء میں ضرور تیر رہا ہوتا۔ شہابیوں کے برعکس جو سیاروں کی قوت ثقل کے زیر اثر آ کر ان سے ٹکراتے ہیں منفی مادّے سیاروں سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ ستارے اور سیارے جیسے بڑے اجسام کی طرف کھینچنے کے بجائے ان سے دور بھاگتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ منفی مادّہ وجود رکھتا ہو لیکن ہم یقینی طور پر اسے زمین کے بجائے گہری خلاء میں ہی پا سکتے ہیں۔

منفی مادّے کو گہری خلاء سے حاصل کرنے کی ایک تجویز یہ ہے کہ ایک مظاہر کا استعمال کیا جائے جس کا نام "آئن سٹائن کا عدسہ "ہے۔ نظریہ اضافیت کی رو سے جب روشنی کسی ستارے یا کہکشاں کے گرد سے ہوتی ہے محو سفر ہوتی ہے تو اس کا راستہ قوّت ثقل کی وجہ سے خمدار ہو جاتا ہے۔ ١٩١٢ء میں (جب آئن سٹائن نے عمومی اضافیت کو "نظریئے ” کے قالب میں مکمل طور پر نہیں ڈھالا تھا ) اس نے اس بات کی پیشگوئی کی تھی کہ کہکشاں ایک دوربین کے عدسے کی طرح سے کام کر سکتی ہے۔ دور دراز کے جسم کی روشنی جب کسی قریبی کہکشاں کے قریب پہنچتی ہے تو وہ کہکشاں میں سے گزرتے ہوئے ایک عدسے کی طرح سے کام کرتی ہے جس کے نتیجے میں جب روشنی زمین تک پہنچتی ہے تو وہ ایک حلقی نمونے کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ اب ان مظاہر کو ” آئن سٹائن کے حلقے ” کہا جاتا ہے۔ ١٩٧٩ء میں سب سے پہلے خلائے بسیط میں آئن سٹائن کے عدسوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس کے بعد سے آئن سٹائن کے عدسے ماہرین فلکیات کے لئے ایک لازمی اوزار بن گئے ہیں۔ (مثال کے طور پر پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ خلائے بسیط میں غیر مرئی مادّے کو تلاش کرنا ناممکن ہے۔ [غیر مرئی مادّہ ایک پراسرار چیز ہے جو نظر نہیں آتا لیکن وزن رکھتا ہے۔ یہ کہکشاؤں کے پاس موجود ہوتا ہے اور شاید یہ کائنات میں عام نظر آنے والے مادّے کے مقابلے میں ١٠ گنا زیادہ موجود ہے۔ ] ناسا کے سائنس دانوں نے تاریک مادّے کا نقشہ ترتیب دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے کیونکہ تاریک مادّہ روشنی کو اس وقت خمدار کر دیتا ہے جب وہ اس میں سے گزرتی ہے بالکل اسی طرح سے جیسے شیشہ روشنی کو موڑتا ہے۔ )

لہٰذا ممکن ہے کہ آئن سٹائن کے عدسوں کو منفی مادّے اور خمیدہ راستے کو خلائے بسیط میں ڈھونڈنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عدسے ایک مخصوص انداز میں روشنی کو موڑیں گے جس کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھا جانا چاہئے۔ ابھی تک تو آئن سٹائن کے عدسے نے کسی بھی منفی مادّے یا خمیدہ راستے کو خلائے بسیط میں نہیں ڈھونڈا ہے لیکن ہنوز تلاش جاری ہے۔ اگر کبھی کسی دن ہبل خلائی دوربین نے منفی مادّے کے وجود یا خمیدہ راستے کو آئن سٹائن کے عدسے کی مدد سے تلاش کر لیا تو یہ طبیعیات کی دنیا میں ایک زبردست جھٹکا ہو گا۔

منفی توانائی منفی مادّے سے اس لئے مختلف ہے کہ وہ حقیقت میں وجود رکھتی ہے مگر انتہائی معمولی مقدار میں۔ ١٩٣٣ء میں "ہینڈرک کسیمیر”  (Hendrik Casimir)  نے کوانٹم نظریہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک عجیب سے پیش گوئی کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ دو غیر بار دار متوازی دھاتوں کی پلیٹ ایک دوسرے کو جادوئی انداز سے کھینچیں گی۔ عام طور سے متوازی پلیٹیں ساکن ہوتی ہیں کیونکہ ان میں خالص طور پر کسی بھی قسم کا بار نہیں پایا جاتا۔ مگر ان دونوں پلیٹوں کے درمیان کی خالی جگہ، کھوکھلی نہیں بلکہ مجازی ذرّات سے بھری ہوتی ہے جو تیزی سے آتے اور جاتے ہیں۔

انتہائی مختصر ساعت میں الیکٹران اور ضد الیکٹران کے جوڑے عدم سے نکل کر پھٹتے ہیں تاکہ وہ فنا ہو کر واپس خلاء میں غائب ہو جائیں۔ حیرت انگیز طور پر پہلے خالی خلاء کو ایک ایسی چیز سمجھا جاتا تھا  جس میں کوئی بھی چیز موجود نہیں ہوتی تھی۔ لیکن خلاء  اب ایک ایسی جگہ بن گئی ہے جہاں کوانٹم کی حرکیات وقوع پذیر ہو رہی ہوں۔ عام طور سے ننھے مادّے اور ضد مادّے کے ٹکراؤ بقائے توانائی کے اصول سے انحراف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مگر اصول عدم یقین کے نظریئے کی وجہ سے یہ ننھی خلاف ورزیاں ناقابل تصوّر طور پر کم عرصے کے لئے ہوتی ہیں اور اوسطاً توانائی باقی رہ جاتی ہے۔

کسیمیر نے معلوم کر لیا کہ مجازی ذرّات کے بادل خلاء میں ایک خالص دباؤ پیدا کریں گے۔ دو پلیٹوں کے درمیان خلاء محدود ہو جاتی ہے لہٰذا دباؤ کم ہوتا ہے۔ لیکن پلیٹوں سے باہر موجود دباؤ قید نہیں ہوتا لہٰذا وہ کافی بلند ہوتا ہے۔ اس لئے ایک خالص دباؤ بنتا ہے جو ان پلیٹوں کو ایک دوسرے کی طرف دھکیلتا ہے۔

عام طور پر توانائی کی حالت صفر اس وقت ہوتی ہے جب وہ دونوں پلیٹیں ساکن ہوں اور ایک دوسرے سے دور رکھی ہوئی ہوں۔ مگر جیسے ہی پلیٹیں ایک دوسرے کے نزدیک آتی ہیں تو  ان میں سے توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پس کیونکہ ان پلیٹوں میں سے حرکی توانائی کو نکال دیا گیا ہے لہٰذا ان پلیٹوں کی توانائی صفر سے کم ہو جاتی ہے۔

منفی توانائی کو اصل میں کسی بھی تجربہ گاہ میں سب سے پہلے ١٩٤٨ء میں ناپا گیا جس کے حاصل کردہ نتائج نے کسیمیر کی پیشن گوئی کو درست ثابت کیا۔ لہٰذا منفی توانائی اور کسیمیر کا اثر اب کوئی سائنس فکشن کی بات نہیں ہیں بلکہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسیمیر کا اثر بہت ہی چھوٹا ہے ، اس توانائی کو تجربہ گاہ میں ناپنے کے لئے انتہائی نازک اور حساس اور انتہائی اختراعی قسم کے آلات کی ضرورت ہوتی ہے  (عام طور پر کسیمیر کی توانائی نسبتاً دونوں پلیٹوں کے درمیان علیحدگی کے فاصلے کی قوّت کے چوتھائی حصّے کی الٹ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علیحدگی کا فاصلہ جتنا چھوٹا ہو گا توانائی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ کسیمیر اثر کی درست پیمائش ١٩٩٦ء میں لاس الموس نیشنل لیبارٹری کے "ا سٹیون لامو راکس” (Steven Lamoreaux)  نے کی جس کی تجاذبی قوّت ایک چیونٹی کے وزن کا ایک بٹا تیس ہزار حصّہ تھی۔

الکوبئیرے نے جب سے یہ نظریہ پہلی بار پیش کیا اس وقت سے طبیعیات دانوں نے کافی عجیب و غریب خصوصیات کو دریافت کیا ہے۔ خلائی جہاز میں موجود لوگ عام طور پر باہری دنیا سے کٹ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنی مرضی سے بٹن دبا کر سریع از نور کی رفتار سے سفر نہیں کر سکیں گے۔ آپ اس بلبلے میں سے کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ مکان و زمان میں پہلے سے ہی موجود راستہ ہونا چاہئے جس طرح سے ایک ترتیب سے ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خلائی جہاز ایک عام سے جہاز کی طرح سے نہیں ہو گا جو اپنی مرضی سے رفتار اور سمت کو بدل سکے۔ خلائی جہاز اصل میں ایک ایسی گاڑی ہو گی جو پہلے سے ہی متعین دبی ہوئی خلائی موج پر سفر کر رہی ہو گی۔ یہ خلائی موج بھی پہلے سے ہی موجود کسی خمیدہ مکان و زمان کے راستے پر گامزن ہو گی۔ الکوبئیرے پیش بینی کرتے ہوئے کہتے ہیں، ” ہمیں ایک عجیب و غریب مادّے سے چلنے والے جنریٹروں کا پورا سلسلہ اس راستہ میں چاہئے ہو گا جو خلاء کو سازگار طریقے سے خلائی جہاز سے باہم مربوط کرے گا۔ ”

اصل میں اس سے بھی کہیں زیادہ عجیب و غریب قسم کے حل آئن سٹائن کی مساوات کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کی مساوات کہتی ہے کہ اگر آپ کے پاس مخصوص مقدار میں مادّہ یا توانائی موجود ہے تو آپ زمان و مکان کے اس سکڑنے کا حساب لگا سکتے ہیں جو وہ توانائی اور مادّہ پیدا کرے گا۔ (بعینہ ایسے جیسے جب ہم کوئی پتھر تالاب میں پھینکتے ہیں تو اس سے بننی والی لہروں کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ ) لیکن آپ اس مساوات کو الٹا بھی حل کر سکتے ہیں۔ ہم مکان و زمان جیسی عجیب و غریب چیز سے بھی شروعات کر سکتے ہیں، جس طرح سے ایک ٹیلی ویژن سلسلے ٹوائی لائٹ زون میں دکھایا گیا ہے۔ (مثال کے طور پر اس طرح کی کائناتوں میں آپ کوئی دروازہ کھول کر اپنے آپ کو چاند پر پا سکتے ہیں۔ آپ کسی درخت کے ساتھ بھاگتے ہوئے اپنے آپ کو ماضی میں لے جا سکتے ہیں جس میں آپ کا دل آپ کے جسم کے سیدھے حصّے کی جانب ہو گا۔ ) اس کے بعد آپ اس مخصوص زمان و مکان کی مادّے اور توانائی کی تقسیم کا حساب لگا سکتے ہیں۔ (اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر تالاب کی سطح پر آپ کو عجیب و غریب موجوں کا مجموعہ دے دیا جائے تو آپ ان پتھروں کی تقسیم کا حساب کتاب لگا سکتے ہیں جو آپ کو ان لہروں کو پیدا کرنے کے لئے درکار ہوں گی ) ۔ اصل میں یہ ہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعہ الکوبئیرے نے اس مساوات کو حاصل کیا تھا۔ اس نے شروعات مکان و زمان سے کی جو متواتر روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہو اور اس کے بعد اس نے الٹا حساب لگایا کہ اس کو پیدا کرنے کے لئے کتنی توانائی کی ضرورت ہو گی۔

 

                ثقب کرم اور ثقب سیاہ یا روزن سیاہ  (وارم ہول اور بلیک ہول )

 

خلاء کو کھینچنے کے علاوہ، روشنی کی رفتار کی حد کو توڑنے کا دوسرا ممکنہ طریقہ ثقب کرم کا ہے۔ جس میں ثقف کرم کے ذریعہ خلاء میں بگاڑ پیدا کر کے ایک ایسا راستہ بنایا جا سکتا ہے جو دو کائناتوں کو ایک دوسرے سے ملا دے۔ کہانیوں میں سب سے پہلے ثقب کرم کا ذکر ہمیں آکسفورڈ کے ریاضی دان "چارلس ڈوڈ سن”  (Charles Dodgson)  کے ناول تھرو دی لکنگ گلاس میں ملتا ہے  جو اس نے لیوس کیرول کے قلمی نام سے لکھی تھی۔ دیکھنے والا آئنہ ایلس کا ایک ایسا ثقب کرم تھا جو آکسفورڈ کے گاؤں کو جادوئی دنیا ونڈر لینڈ سے ملا دیتا تھا۔ آئینے میں اپنا ہاتھ ڈال کر ایلس فی الفور ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جا سکتا تھا۔ ریاضی دان ان کو "ضربی خلائی رابطہ” کہتے ہیں۔

طبیعیات میں ثقب کرم کا تصوّر ١٩١٦ء میں آئن سٹائن کے انقلابی نظریہ اضافیت کے کام کو شایع ہونے کے ایک سال کے بعد آیا۔ طبیعیات دان "کارل شوارز چائلڈ”  (Carl Schwarzschild)  جو اس وقت کیزر کی فوج میں خدمات انجام دے رہا تھا اس نے آئن سٹائن کی مساوات کو ایک نقطۂ جیسے ستارے کے لئے حل کر لیا تھا۔ ستارے سے بہت دور اس کے ثقلی میدان ایک عام ستارے جیسی ہی ہوں گے۔ حقیقت میں آئن سٹائن نے شوارز چائلڈ کے حل کو استعمال کرتے ہوئے ستارے کے گرد روشنی کی خمیدگی کو ناپا تھا۔ شوارز چائلڈ کے حل نے ایک فوری اور انتہائی عمیق اثر فلکیات کی دنیا میں ڈالا۔ نسلوں تک طبیعیات دان اس ثقلی میدان کو نوکدار ستارے کے گرد اس طرح سے ناپنے میں استعمال کرتے رہے جیسا کہ وہ ایک اصل ستارے کے گرد موجود ہو جس کا ایک محدود قطر ہو۔

لیکن اگر آپ اس نقطۂ جیسے حل کو سنجیدگی سے دیکھیں گے تو اس کے قلب میں گھات لگائے عفریت کو بھی دیکھ پائیں گے جس نے ایک صدی سے طبیعیات دانوں کو متحیر اور گنگ کیا ہوا ہے – یعنی کہ یہ ایک بلیک ہول ہے۔  شوارز چائلڈ کے نقطے جیسے ستارے کی قوّت ثقل کا حل کاٹھ کے گھوڑے جیسا تھا۔ باہر سے یہ فلکی تحفہ نظر آتا تھا مگر اس کے اندر ہر قسم کے بھوت اور عفریت چھپے ہوئے تھے۔ لیکن اگر آپ نے ایک تحفے کو قبول کر لیا تو دوسرا اس کے ساتھ لازمی طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ شوارز چائلڈ کے حل نے بتایا کہ جیسے ہی کوئی بھی اس نقطہ جیسے ستارے کے پاس پہنچے گا عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہونے لگیں گی۔ اس ستارے کے چاروں طرف ایک عجیب سا کرہ ہو گا (جس کو “واقعاتی افق” کہتے ہیں ) جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہے۔ ہر چیز یہاں پر اندر آسکتی ہے باہر نہیں جا سکتی جیسا کہ روچ موٹیل میں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ آپ نے واقعاتی افق کو پار کر لیا پھر  آپ کبھی بھی واپس نہیں آ سکیں گے۔ (ایک دفہ آپ واقعاتی افق کے اندر پہنچ گئے تو آپ کو واقعاتی افق سے باہر نکلنے کے لئے سریع از نور رفتار حاصل کرنی پڑے گی جس کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ )

واقعاتی افق کے پاس پہنچنے پر آپ کے ایٹم مد و جزر کی قوّت کی وجہ سے کھینچنے لگیں گے۔ آپ کے پیروں کو محسوس ہونے والی قوّت ثقل سر پر لگنے والی قوّت ثقل سے کہیں زیادہ ہو گی لہٰذا آپ سویوں کی طرح کھینچ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اسی طرح سے آپ کے جسم میں موجود جوہر کھینچ کر قوّت ثقل کے زیر اثر ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔

ایک شاہد جو آپ کو باہر سے واقعاتی افق کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہا ہو گا اسے ایسا لگے کہ آپ آہستہ ہو رہے ہیں۔ در حقیقت جیسے ہی آپ واقعاتی افق کی سرحد تک پہنچیں گے تو ایسا لگے کہ وقت رک گیا ہے !

مزید براں یہ کہ آپ واقعاتی افق کو پار کرنے کے بعد روشنی کو اس بلیک ہول میں قید ہو کر ارب ہا سال سے چکر کھاتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ ایسا لگے گا کہ جیسے آپ کسی فلم کو آہستہ کر کے دیکھ رہے ہیں، جو بلیک ہول کی مکمل تاریخ کو اس کی ابتداء تک آپ کے سامنے پیش کر رہی ہے۔

اور آخر میں اگر آپ بلیک ہول کے اندر ہوتے ہوئے اس میں سے نکل بھی گئے تو آپ ایک دوسری کائنات میں سے نکلیں گے۔ یہ مظہر آئن سٹائن اور روزن برگ کا پل کہلاتا ہے جس کو پہلے آئن سٹائن نے ١٩٥٥ء میں متعارف کروایا تھا۔ اس کو اب ہم ثقف کرم کے نام سے جانتے ہیں۔

آئن سٹائن اور دوسرے طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کبھی بھی کوئی بھی ستارہ قدرتی طور پر ایسے کسی عفریت میں ارتقاء پذیر نہیں ہو گا۔ حقیقت میں ١٩٣٩ء میں آئن سٹائن نے ایک مقالہ شایع کیا جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گھومتے ہوئے گرد و گیس کی کمیت کبھی بھی کثیف ہو کر بلیک ہول میں نہیں ڈھلے گی۔ اس کو اس بات پر انتہائی یقین تھا کہ ایسی کوئی عجیب چیز کبھی بھی قدرتی طور پر نہیں بن سکتی۔ حقیقت میں فلکیاتی طبیعیات دان "آرتھر ایڈنگٹن”  (Arthur Edington) نے ایک دفعہ کہا کہ "کوئی قانون قدرت ایسا ہونا چاہئے جو کسی ستارے کو اس عجیب طرح کے برتاؤ کرنے سے روک سکے۔ ” دوسرے الفاظ میں بلیک ہول آئن سٹائن کی مساوات کا جائز حل تو تھا مگر کوئی ایسا طریقہ قدرتی طور پر معلوم نہیں تھا جس سے وہ بن سکے۔

ان تمام باتوں کا بوریا بستر اس وقت گول ہو گیا جب اسی سال ایک مقالہ "جے رابرٹ اوپن ہائمر” (J. Robert Oppenheimer)  اور اس کے شاگرد "ہارٹ لینڈ اسنائیڈر” (Hartland Snyder)  نے لکھا۔ اس مقالہ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ بلیک ہول اصل میں قدرتی طور پر پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے فرض کیا کہ مرتا ہوا ستارہ جب اپنا نیوکلیائی ایندھن صرف کر لیتا ہے تو وہ قوّت ثقل کے تحت ڈھے جاتا ہے لہٰذا وہ اپنے ہی وزن کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔ اگر قوّت ثقل نے اس ستارے کو اس کے واقعاتی افق کے اندر دبا دیا تو سائنس میں ابھی تک کوئی بھی چیز ایسی معلوم نہیں ہے جو ستارے کو بھینچ کر اس نقطے جیسے ستارہ بننے سے روک سکے۔ (کچھ سال بعد شاید اسی انفجار ی طریقے نے اوپن ہائمر کو اس بم بنانے کی طرف رہنمائی فراہم کی جس نے ناگاساکی کے اوپر گر کر پھٹنا تھا اور جو پلوٹونیم کے کرہ کے انفجار پر انحصار کرتا تھا۔ )

دوسری اہم دریافت ١٩٦٣ء میں ہوئی جب نیو زی لینڈ کے ریاضی دان "روئے کر ”  (Roy Kerr) نے شاید سب سے حقیقی بلیک ہول کی مثال کو جانچا۔ اجسام سکڑتے ہوئے تیزی سے گھومتے ہیں بالکل اسی طرح سے جب اسکیٹر اپنے بازوں کو سکیڑ لیتے ہیں تو وہ تیزی سے گھومنے لگتے ہیں۔ لہٰذا بلیک ہول کو بھی انتہائی تیز رفتار سے گھومنا ہو گا۔

"کر” نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ گھومتا ہوا بلیک ہول کسی نقطہ جیسے ستارے میں منہدم نہیں ہو گا جیسا کہ شوارز چائلڈ نے فرض کیا تھا بلکہ وہ ایک گھومتے ہوئے حلقے میں ڈھے گا۔ کوئی بھی بدقسمت جو اس حلقے سے مس کر گیا ختم ہو جائے گا۔ اس کے باوجود کوئی اس حلقے میں گر گیا تو وہ مرے گا نہیں بلکہ اس میں سے گزر جائے گا۔ لیکن بجائے کہ وہ اس حلقے کے دوسری طرف نکلے وہ آئن سٹائن اور روزن برگ کے پل سے گزرتا ہوا دوسری کائنات میں نکل جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں گھومتا ہوا بلیک ہول ایلس کے آئینے کے کنارے جیسا ہی ہے۔

کوئی بھی دوسری دفعہ اس گھومتے ہوئے حلقے کے پاس سے گزرے گا تو وہ کسی دوسری نئی کائنات میں اپنے آپ کو پائے گا۔ حقیقت میں گھومتے ہوئے حلقے میں کوئی بھی شخص جتنی دفعہ بھی داخل ہو گا ہر مرتبہ وہ ایک نئی اور مختلف متوازی کائناتوں میں سے نکلے گا۔ بعینہ ایسے جیسے بالا بر میں داخل ہو کر جب ہم اوپر جانے کے لئے بٹن دباتے ہیں۔ نظری طور پر لامحدود متوازی کائناتیں ہونی چاہئے جو ایک دوسرے کے اوپر موجود ہوں گی۔ "جادوئی حلقے سے گزریں اور آپ ایک نئی بالکل ہی مختلف کائنات میں موجود ہوں گے جہاں قطر اور کمیت منفی ہو گی !” کر نے لکھا۔

بہرحال یہاں ایک مسئلہ موجود ہے بلیک ہول "غیر قا طع ثقب کرم” (Nontransversable)  ہوتے ہیں یعنی کہ واقعاتی افق میں سے گزرنا یکطرفہ سفر ہے۔ ایک دفعہ آپ واقعاتی افق اور” کر” کے حلقے سے گزر گئے اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ بذریعہ حلقہ اس واقعاتی افق سے نہیں ملے گا۔

مگر ١٩٨٨ء میں "کپ تھورن”  (Kip Thorne)  اور ان کے رفقائے کاروں نے کالٹک میں ایک "قا طع ثقب کرم” کی مثال کھوج لی یعنی کہ جس میں سے آپ آسانی سے آ اور جا سکیں۔ حقیقت میں ایک حل میں تو ثقف کرم میں سفر کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی ہوائی جہاز میں سفر کرنا۔

عام طور پر کسی بھی ثقف کرم میں قوّت ثقل اس کا گلہ دبا دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خلا نورد تباہ ہو جائے گا جو دوسری طرف جانے کا سوچ رہا ہو گا۔ یہ ہی وہ چیز ہی جس کی وجہ سے سریع از نور رفتار سے سفر ممکن نہیں۔ مگر دھکیل کی منفی قوّت یا منفی کمیت ممکنہ طور پر اس گلے کو اتنی دیر تک کھول کر رکھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں خلا نورد آسانی سے راستے میں سے گزر جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں منفی کمیت اور منفی توانائی الکوبئیرے کا راستہ اور ثقف کرم دونوں مسئلوں کے حل کے لئے ضروری ہے۔

پچھلے چند برسوں کے دوران حیران کن تعداد آئن سٹائن کی مساوات کے حل کی صورت میں نکلی ہیں جو ثقف کرم کو بننے کی اجازت دیتی ہیں۔ مگر کیا ثقف کرم حقیقت میں وجود رکھتے ہیں یا پھر وہ صرف ریاضی کی بناوٹی باتیں ہی ہیں ؟ سر دست ثقف کرم کو کافی بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سب سے پہلے مکان و زمان میں شدید قسم کا بگاڑ پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ ثقف کرم کے ذریعہ سفر کیا جا سکے اس کے لئے انتہائی بڑی مقدار میں مادّہ اور منفی مادّہ درکار ہو گا جسے کسی جسیم ستارے یا بلیک ہول جتنا ہونا چاہئے۔ "میتھیو وائزر” (Mathew Visser)  واشنگٹن یونیورسٹی کے طبیعیات دان اندازہ لگاتے ہیں کہ ایک میٹر ثقف کرم کو کھولنے کے لئے جتنی مقدار منفی توانائی کی درکار ہو گی وہ ایک مشتری کے حجم کے سیارے جتنی ہونی چاہئے۔ بس صرف فرق اتنا ہو گا کہ وہ توانائی منفی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں ” آپ کو "منفی ایک” مشتری جتنی کمیت کی ضرورت ہو گی جو اس کام کو سرانجام دے سکے۔ صرف ایک مشتری جتنی مثبت کمیت کے ساتھ کھیلنا پہلے ہی مصیبت ہے جو ہماری مستقبل میں حاصل ہونے والی صلاحیتوں سے بھی کہیں دور کی چیز ہے۔ ”

کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کپ تھورن کہتے ہیں "ایسا لگتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین انسانی جسامت جتنی مقدار میں اجنبی مادّے کو ثقف کرم میں موجود ہونے کی اجازت دیتے ہیں جو ثقف کرم کو کھول کر رکھنے کے لئے کافی ہو گا۔ مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ ثقف کرم کو بنانے اور ان کو کھلا رکھنے کی ٹیکنالوجی ہماری موجودہ انسانی تہذیبی قابلیت سے کہیں زیادہ ہے۔ ”

دوسرے ہم یہ بات بھی نہیں جانتے کہ یہ ثقف کرم کس قدر متوازن ہوں گے۔ ان ثقف کرم سے نکلنے والی شعاعیں ہو سکتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلیک ہول بالکل بھی پائیدار نہ ہوں اور جیسے ہی کوئی اس میں گھسے ویسے ہی وہ بند ہو جائیں۔

تیسرے بلیک ہول میں گرنے والی روشنی کا جھکاؤ نیلے رنگ کی جانب ہو گا۔ یعنی جیسے جیسے وہ واقعاتی افق کے پاس پہنچتی ہے ویسے ویسے وہ زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرتی ہے۔ حقیقت میں واقعاتی افق میں روشنی لامحدود طور پر نیلی رنگ کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس توانائی سے نکلنے والی شعاعیں راکٹ میں موجود کسی بھی شخص کو ہلاک کر سکتی ہیں۔

چلیں ان مسائل کو ذرا تفصیل سے زیر بحث کریں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اتنی مقدار میں کمیت کو جمع کریں جس سے پیدا ہونے والی توانائی مکان و زمان کی ساخت کو توڑ سکے۔ اس کا سب سے بہتر  حل یہ ہے کہ کسی جسم کو اس قدر دبا دیا جائے کہ وہ اس کی واقعاتی افق سے بھی چھوٹا ہو جائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم سورج کو لیں تو اس کو ہمیں ٢ میل تک دبا کر چھوٹا کرنا ہو گا جس کے بعد وہ ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔ (سورج کی قوّت ثقل انتہائی کمزور ہے لہٰذا وہ اسے قدرتی طور پر دبا کر ٢ میل جتنا چھوٹا نہیں کر سکتی لہٰذا قدرتی طور پر ہمارا سورج کبھی بھی بلیک ہول نہیں بن سکے گا۔ نظری طور پر اس بات کا یہ مطلب ہوا کہ کوئی بھی چیز بشمول ہمارے ، بلیک ہول بن سکتی ہے ، بشرطیکہ اس کو کافی دبا دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے جسم کے تمام جوہروں کو اتنا دبا دیا جائے کہ وہ ذیلی جوہری ذرّات سے بھی چھوٹا ہو جائے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہماری موجودہ جدید سائنسی قابلیت سے کہیں زیادہ دور کی بات ہے۔ )

ایک زیادہ عملی طریقہ لیزر شعاعوں کا پشتہ بنانے کی ہے جس کے ذریعہ شدید کرنوں کو ایک مخصوص ہدف پر مارا جائے۔ یا کوئی دیوہیکل جوہری ضارب بنایا جائے جو دو کرنوں پیدا کرے اور پھر وہ دونوں کرنیں ایک دوسرے سے اتنی توانائی کے ساتھ متصادم ہوں جو مکان و زمان میں ایک چھوٹا سے سوراخ کر دے۔

 

                پلانک کی توانائی اور ذرّاتی اسراع گر

 

ساخت کوئی بھی اس بات کا آسانی سے حساب لگا سکتا ہے کہ مکان و زمان میں خلل ڈالنے کے لئے درکار توانائی کتنی ہونی چاہئے : یہ پلانک توانائی کے برابر ہونی چاہئے ، یا ١٠١٩ ارب الیکٹران وولٹ۔ حقیقت میں یہ عدد ایک ایسا عدد ہے جو ہماری سوچ سے بھی ماوراء ہے۔ یہ ایک ہزار کھرب گنا اس توانائی سے زیادہ ہے جو دنیا میں موجود سب سے بڑی طاقتور مشین پیدا کرتی ہے جس کا نام دی لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے۔ یہ جنیوا، سوئٹزر لینڈ کے باہر واقع ہے۔ یہ اسراع گر پروٹون کو ایک بڑی ڈونَٹ کی شکل میں اتنا جھولا دیتی ہے جس سے ان کی توانائی دسیوں کرب الیکٹران وولٹ تک جا پہنچتی ہے۔  یہ وہ توانائی ہے جو بگ بینگ کے بعد دیکھی گئی ہے۔ مگر یہ عفریتی مشین بھی اس توانائی کا عشر عشیر بھی پیدا نہیں کر سکتی جو پلانک توانائی کو پیدا کرنے کے لئے درکار ہے۔

ایل ایچ سی کے بعد دوسرا اسراع گر انٹرنیشنل لینئیر کولائیڈر ہو گا جو ذیلی جوہری ذرّات کو دائرے میں موڑنے کے بجائے ان کو ایک سیدھے راستے میں داغے گا۔ ذرّات کو راستے پر حرکت دیتے ہوئے اس میں توانائی کو ڈالا جائے گا یہاں تک کہ وہ ناقابل بیان زبردست توانائی حاصل کر لیں گے۔ اس کے بعد الیکٹران کی کرن کو ضد الیکٹران سے ٹکرایا جائے گا جس کے نتیجے میں زبردست توانائی پیدا ہو گی۔ آئی ایل سی ٣٠ سے ٤٠ کلومیٹر لمبی ہو گی یا سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سے ١٠ گنا زیادہ لمبی ہو گی جو اب تک کی سب سے زیادہ بڑی لمبائی والی اسراع گر ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو آئی ایل سی اگلی دہائی تک مکمل ہو کر کام کرنا شروع کر دے گی۔

آئی ایل سی جو توانائی پیدا کرے گی وہ ٥ کھرب سے ١٠ کھرب الیکٹران وولٹ تک ہو گی۔ یہ توانائی ایل ایچ سی سے ١٤٠ کھرب گنا کم ہے مگر یہ بات ایک طرح سے گمراہ کن ہے۔ (ایل ایچ سی میں تصادم پروٹونوں کے درمیان ہوتا ہے جو کوارک سے مل کر بنتے ہیں یعنی اصل میں تصادم کوارک کا ہوتا ہے لہٰذا کوارک میں ہوئے تصادم میں ١٤٠ کھرب الیکٹران وولٹ توانائی کم ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آئی ایل سی جو تصادم سے توانائی پیدا کرے گی وہ ایل ایچ سی سے زیادہ ہو گی۔ )  کیونکہ ہمیں ابھی تک نہیں پتا کہ الیکٹران کس سے مل کر بنے ہیں لہٰذا الیکٹران اور ضد الیکٹران میں تصادم زیادہ آسان اور صاف ہو گا۔

در حقیقت آئی ایل سی مکان و زمان کی ساخت میں سوراخ کرنے سے درکار کہیں کم توانائی پیدا کرے گی۔ اتنی توانائی پیدا کرنے کے لئے ایک ایسے اسراع گر کی ضرورت ہو گی جو اس سے ایک ہزار کھرب گنا زیادہ طاقتور ہو۔ ہم جماعت 0 کی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جو مردہ پودوں کو بطور توانائی (جیسا کہ تیل اور کوئلہ ) استعمال کر رہی ہے یہ ٹیکنالوجی اس سے کہیں دور کی بات ہے جس کو ہم نے ابھی تک حاصل کیا ہوا ہے۔ مگر یہ بات تہذیب III کے لئے ممکن ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ جماعت III کی تہذیب وہ ہے جس کے استعمال میں پوری کہکشاں کی توانائی ہوتی ہے اور جس کی توانائی کی ضروریات جماعت II کی تہذیب کے مقابلے میں ١٠ ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جماعت II تہذیب کا انحصار ایک اکلوتے ستارے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ اور جماعت II کی تہذیب جماعت I کے تہذیب سے ١٠ ارب گنا زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے جس کی توانائی کا انحصار ایک پورے سیارے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ کچھ ١٠٠ یا ٢٠٠ برس بعد ہماری کمزور تہذیب 0 سے چھلانگ لگا کر تہذیب I کی جماعت کا درجہ حاصل کر لے گی۔

تخمینا جات کو مد نظر رکھتے ہوئے پلانک توانائی حاصل کرنا ایک لمبا اور انتہائی طویل سفر ہے۔ طبیعیات دانوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انتہائی چھوٹے فاصلوں پر، پلانک فاصلے کے ٣٣-١٠ سینٹی میٹر تک، خلاء بالکل خالی یا ہموار نہیں ہے بلکہ جھاگ کی شکل میں ہے۔ وہ جھاگ دار ننھے بلبلوں سے بھری ہوئی ہے جو مستقل عدم سے وجود میں آرہے ہیں اور پھر فوراً ہے خلاء میں غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بلبلے جو عدم سے وجود میں آتے ہیں اور پھر فنا ہو جاتے ہیں یہ مجازی کائناتیں ہیں بعینہ ان مجازی الیکٹران اور ضد الیکٹران کے ذرّات کی طرح سے جو اچانک وجود میں آتے اور فنا ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ مقداری مکان و زمان ہمارے لئے مکمل طور پر غیر مرئی ہے۔ یہ بلبلے اتنے چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتے ہیں کہ ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ مگر کوانٹم طبیعیات اس بات کو بتلاتی ہے کہ اگر ہم کافی مقدار میں توانائی کو ایک نقطہ پراس وقت تک مرکوز رکھیں جب تک ہم پلانک توانائی تک نہ پہنچ جائیں تو یہ بلبلے بڑے ہو جائیں گے۔ اس وقت ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ زمان و مکان ان ننھے بلبلوں سے بنا ہوا ہے اور ہر بلبلہ ایک ثقف کرم ہے جو ایک ننھی کائنات سے جڑا ہوا ہے۔

ماضی میں یہ ننھی کائناتیں شعوری تجسس تھیں جو خالص ریاضی کا عجیب نتیجہ تھا۔ لیکن اب طبیعیات دان سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ ہماری کائنات بھی شروع میں ایک ایسی ہی ننھی کائنات تھی۔

ایسی سوچ صرف قیاسی ہی ہے لیکن قوانین طبیعیات اس امکان کی اجازت دیتے ہیں کہ مکان میں کسی ایک نقطہ پر کوئی بلند توانائی کو مرتکز کر کے سوراخ کر دیا جائے یہاں تک کہ ہم مکان و زمان کے جھاگ تک رسائی حاصل کر لیں اور ثقف کرم جو ہماری کائنات کو دوسری ننھی کائنات کے ساتھ جوڑتا ہوا نمودار ہو جائے۔

مکان میں سوراخ کرنے کے لئے موجودہ ٹیکنالوجی میں کسی بڑی دریافت کا ہونا ضروری ہے مگر یہ تہذیب III کے لئے شاید ممکن ہو۔ مثال کے طور پر ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ ایکسلریٹر کے میدان میں کافی پر امید پیشرفت جاری ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ جوہری ضارب اتنا چھوٹا ہو گا کہ اسے کسی میز کے اوپر رکھا جا سکتا ہے اور اس کے باوجود یہ ارب ہا الیکٹران وولٹ کی توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ دی ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ ایکسلریٹر میں لیزر کو بار دار ذرّات پر مار کر کام کیا جاتا ہے جس میں ذرّات لیزر سے پیدا ہوئی روشنی کے اوپر بیٹھ کر محو سفر ہوتے ہیں۔ سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر، دی ردر فورڈ ایپلٹن لیبارٹری ان انگلینڈ اور دی ایکول پولی ٹیکنیک ان پیرس میں کیے گئے تجربات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ زبردست اسراع کو چھوٹے فاصلوں پر لیزر کی کرنوں اور پلازما کے ذریعہ توانائی داخل کر کے پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی ایک اور زبردست دریافت ٢٠٠٧ء میں کی گئی جب سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر، یو سی ایل اے ، اور یو ایس سی میں موجود طبیعیات دانوں اور انجینیروں نے یہ بات ثابت کی کہ ہم بڑے ذرّاتی اسراع گروں میں توانائی کو صرف ایک میٹر میں دوگنا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے الیکٹران کی کرن کو سٹینفرڈ میں موجود ٢ میل لمبی سرنگ میں داغا جس کے نتیجے میں توانائی ٤٢ ارب الیکٹران وولٹ تک جا پہنچی۔ پھر یہ بلند توانائی کے حامل الیکٹران صرف٨٨ سینٹی میٹر لمبے پلازما کے خانے پر مشتمل آفٹر برنر کے ذریعہ بھیجے گئے جہاں پر الیکٹران کو مزید ٤٢ ارب الیکٹران وولٹ ملا ہے جس کے نتیجے میں اس کی توانائی دگنی ہو گئی۔ (پلازما کا خانہ لیتھیم گیس سے بھرا ہوتا ہے جیسے ہی الیکٹران گیس میں سے گزرتے ہیں تو وہ ایک پلازما کی موج کو پیدا کرتے ہیں جو ایک خط بناتی ہے۔ یہ خط پھر واپس الیکٹران کی کرن کی طرف جاتا ہے اور ان کو آگے کی طرف پھینکتا ہے جس سے ان کو وہ اضافی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ ) اس شاندار کامیابی میں طبیعیات دانوں نے پچھلے سب سے زیادہ حاصل ہونے والی توانائی کے مقابلے میں فی میٹر تین ہزار گنا زیادہ توانائی حاصل کی ہے جو وہ الیکٹران کی کرن کو اسراع دے کر حاصل کر سکتے تھے۔ موجودہ ذرّاتی اسراع گروں میں ایسے آفٹر برنر وں کا اضافہ کر کے توانائی کو دوگنا بغیر کسی اضافی لاگت کے کیا جا سکتا ہے۔

ابھی سب سے زیادہ توانائی کسی بھی ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ اسراع گر کا ٢٠٠ ارب الیکٹران وولٹ فی میٹر ہے۔ اس نتیجے کو لمبے فاصلوں پر حاصل کرنے کے لئے مسائل کا ایک انبار ہے جس سے نمٹنا ہو گا (جیسے کہ کرن کی پائیداری کو اس وقت برقرار رکھنا جب لیزر کی توانائی اس میں ڈالی جا رہی ہو ) ۔ مگر اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ ہم نے ٢٠٠ ارب وولٹ فی میٹر حاصل کر لیا ہے ، اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا اسراع گر جو پلانک کی توانائی کو حاصل کر سکے وہ صرف ١٠ نوری برس لمبے ہونا چاہئے۔ یہ تہذیب III کی ٹیکنالوجی کی پہنچ کے اندر ہی ہے۔

ثقف کرم اور کھینچی ہوئی خلاء ہمیں روشنی کی رفتار کی حد کو توڑنے کا سب سے حقیقی راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا یہ ٹیکنالوجی پائیدار بھی ہوں گی یا نہیں۔ بات صرف پائیدار کی نہیں ہے ان کو کام کرنے کے لئے زبردست مقدار میں توانائی چاہے مثبت ہو یا منفی درکار ہو گی۔

ممکن ہے کہ ایک جدید تہذیب III کی جماعت پہلے سے ہی اس قسم کی ٹیکنالوجی کی حامل ہو۔ ہمیں تو ابھی صرف ایک ہزار برس اس بات کے لئے چاہئے کہ ہم اس طرح کی توانائی کو قابو کرنے کا سوچیں۔ کیونکہ اب بھی ان بنیادی قوانین میں اختلاف موجود ہے جو مکان و زمان کی ساخت پر کوانٹم کی سطح پر نافذ العمل ہوتے ہیں۔ لہٰذا میں انھیں جماعت II کی ناممکنات میں درجہ بند کروں گا۔

 

 

 

 

 

12۔    وقت میں سفر

 

اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟
ا سٹیفن ہاکنگ
"[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے "۔ فلبی نے کہا
"کس عقل کے خلاف ؟”وقت کے مسافر نے پوچھا۔
ایچ۔ جی۔ ویلز

 

جانس اکویشن (Janus Equation)  میں مصنف "جی۔ ا سپریول” (G. Spruill)  نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی۔ یعنی اصل میں "وہ” خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں، باپ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟

 

                ماضی میں تبدیلی

 

وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔ ٤٠٠ برس بعد مسیح میں "سینٹ آگسٹین” (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :”ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہو گی۔ ” اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔ (سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔ )

سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔

اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری ” ١٧٣٣ء میں ” سیموئیل میڈن” (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کی بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔

اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم، ” جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے۔ وہاں وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ اچانک سے اپنے آپ کو ویسے ہی پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔

١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول، اے کرسمس کیرول بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge)  کو ماضی میں اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے کہ وہ کیسی ہو گی۔

امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ” میں ملتا ہے۔ انیسویں صدی کے ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہو گا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔

مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین ” ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک خطرناک ” مور لاکس”  جو گندی زیر زمین مشینیں رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے ” جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے ) ۔

اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔  یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے بہتا ہے تو کبھی آہستہ بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛ وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہو گی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج ہوم میں انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کر لیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تاکہ وہ سان فرانسسکو میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہو گا لیکن اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہو گا۔ (ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف”  (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02 سیکنڈ آگے چلے گئے۔ )

لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟

اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہو گا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔

 

                وقت میں سفر :طبیعیات دانوں کے کھیل کا میدان

 

شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز کیا ہے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر ایک ١٩٦٢ء میں نقطۂ انقلاب آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اس کے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری (Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease)  کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا  اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا ؟

ایک دفعہ جب اسے یہ جھٹکا مل گیا تو پھر اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کر لیا، اس نے اضافیت کے انتہائی مشکل سوالات سے نمٹنا شروع کر دیا۔ ١٩٧٠ء کی دہائی کے شروع میں ہی اس نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شایع کروانا شروع کیا جس میں اس نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں  "وحدانیت ” (جہاں ثقلی قوّت لامتناہی بن جاتی ہے ، جیسے کہ کسی بلیک ہول کے مرکز میں اور بگ بینگ کی ساعت کے وقت ہوا تھا ) اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  (جیسا کہ آئن سٹائن سمجھتا تھا) ۔ ١٩٧٤ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے  پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور یہ ابھی تک اس کا سب سے شاندار کام ہے۔

جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا۔ اس کی بیماری نے آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ، پیر اور زبان کو مفلوج کر دیا۔ لیکن بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ اس کے نتیجے میں اس نے کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لئے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔  (اب تو وہ دادا بھی بن گیا ہے۔ )  اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس نے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے ٢٠٠٦ء میں طلاق دینے کے لئے دستاویز کو جمع کروا دیا ہے۔ ٢٠٠٧ء میں اس نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی جب وہ غیر ملک ایک جیٹ طیارے میں گیا جس نے اس کو بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اب اس کا اگلا مقصد خلاء میں جانا ہے۔

آج تو وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہے اور دنیا سے اس کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے رہتا ہے۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتا ہے ، مقالات لکھتا ہے ، لیکچروں کو دیتا ہے اور مختلف قسم کے تنازعات میں الجھا رہتا ہے۔ وہ اپنے آنکھوں کے اشاروں کے ساتھ ان سائنس دانوں کی ٹیم کی بہ نسبت جن کو اپنے اوپر پورا قابو ہے کہیں زیادہ کام کا ہے۔ (اس کے کیمبرج یونیورسٹی کے رفیق سر مارٹن ریس ہیں جن کو ملکہ نے شاہی فلکیات دان نامزد کیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہاکنگ کی بیماری اس کو تھکا دینے والے اعداد شمار کے حساب کتاب سے دور رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اس کھیل میں اپنے آپ کو سر فہرست نہیں رکھ سکا لہٰذا اب وہ نئے اور تازہ خیالات کو تخلیق کرنے میں اپنی ساری توجہ صرف کیے ہوئے ہے جبکہ مشکل اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اس کے طالبعلم ہی اس کی مدد کرتے ہیں۔ )

١٩٩٠ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں متشکک ہو گیا۔ اس کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لئے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔

ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہئے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لئے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک "نظریہ تحفظ تقویم” (Chronology Protection Conjecture)  پیش کیا ہے تاکہ "تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے "۔

شرمندگی کی بات یہ ہے کہ طبیعیات دان جتنی بھی کوشش کر لیں وہ کوئی بھی ایسا قانون دریافت نہیں کر سکتے جو وقت میں سفر کو ناممکن بنا سکے۔ بظاہر طور پر وقت میں سفر موجودہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہیں۔ اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر جس میں کوئی ایسا طبیعیاتی قانون مل سکتا جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا سکتا، ہاکنگ نے حال میں ہی اپنے خیال کو بدل لیا۔ اس کی بات نے اخبار کی شہ سرخی لندن میں اس وقت بنائی جب اس نے کہا ” ہو سکتا ہے کہ وقت میں سفر کرنا ممکن ہو پر یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ”

خرافات سمجھی جانے والی وقت میں سفر کی سائنس اچانک ہی طبیعیات دانوں کے لئے ایک کھیل کا میدان بن گئی۔ کالٹک کے طبیعیات دان رپ تھورن لکھتے ہیں "وقت میں سفر کبھی صرف سائنسی قصصی مصنفوں کے لئے ہی مخصوص تھا سنجیدہ سائنس دان اس سے اس طرح سے بچتے تھے جیسا کہ وہ طاعون کی بیماری ہو – ہرچند وہ قصصی ناول قلمی ناموں سے لکھتے بھی تھے یا تخلیہ میں چھپ کر پڑھتے بھی تھے۔ وقت کیسے بدل گیا !اب ہم وقت کے سفر کے عالمانہ تجزیات کو سنجیدہ سائنسی رسالوں میں دیکھتے ہیں جو ممتاز طبیعیات دانوں کے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ تبدیلی کیوں آئی ہے ؟کیونکہ ہم طبیعیات دانوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ وقت کی نوعیت بہت زیادہ اہم ہے۔ اور اس کو خالی سائنسی قصصی مصنفوں کے ہاتھ میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ”

ان تمام تر پریشانیوں اور ہیجان انگیزی کا سبب آئن سٹائن کی وہ مساوات ہے جو کئی قسم کی ٹائم مشینوں کو بنانے کی اجازت دیتی ہے۔ (ہر چند ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ کوانٹم نظریہ کے دیئے ہوئے چیلنج سے نمٹ سکیں گی یا نہیں۔ ) حقیقت میں آئن سٹائن کے نظریہ میں ہمارا واسطہ اکثر ایک ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کو ہم ” بند وقتی خمیدگی” (Closed Time-like Curves)  کہتے ہیں جو تیکنیکی بنیادوں پر بنایا جانے والا وہ لفظ ہے جو ان راستوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہمیں ماضی میں سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہم بند وقتی خمیدگی کے راستے پر چلیں گے تو ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں جہاں ہم سفر پر جانے سے پہلے ہی لوٹ کر آ سکیں گے۔

 

پہلی ٹائم مشین ثقف کرم کے ذریعہ بن سکتی ہے۔ آئن سٹائن کی مساوات کے کئی حل موجود ہیں جو خلاء میں کسی بھی دو نقاط کو آپس میں ملا سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مکان و زمان آئن سٹائن کے نظریئے میں ایک دوسرے سے آپس میں گتھم گتھا ہیں لہٰذا وہی ایک ثقف کرم وقت میں بھی دو نقاط کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ ثقف کرم میں گرنے کے بعد آپ  (کم از کم ریاضی کی حد تک تو ) ماضی میں سفر کر سکتے ہیں۔ قابل ادرک طور پر آپ واپس اس ابتدائی وقت میں یعنی اپنے سفر سے جانے سے پہلے کے وقت میں بھی واپس لوٹ کر آ سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز میں موجود ثقف کرم سے گزر نا صرف یکطرفہ سفر ہو گا۔ جیسا کہ طبیعت دان "رچرڈ گوٹ” (Richard Gott) کہہ چکے ہیں "میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا سوال ہے کہ آیا کوئی بھی بلیک ہول کے ذریعہ وقت میں سفر کر سکتا ہے یا نہیں۔ ہاں لیکن یہ سوال موجود ہے کہ کیا وہ واپس آ کر اس بات کی شیخی بگھار سکتا ہے۔ ”

گھومتی ہوئی کائنات کے ذریعہ ایک اور ٹائم مشین بھی بنائی جا سکتی ہے۔ ١٩٤٩ء میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل نے آئن سٹائن کی مساوات کو حل کیا تھا جو وقت میں سفر کے متعلق تھی۔ اگر کائنات گھوم رہی ہے تو آپ کائنات کے گرد تیزی سے گھوم کر ماضی میں جا سکتے ہیں اور اس سے پہلے کے آپ ماضی میں جائیں اس حال کے وقت میں بھی واپس لوٹ سکتے ہیں۔ کائنات کے گرد چکر لگانے کا مطلب ماضی میں چکر لگانا ہے۔ جب ماہر فلکیات انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کا دورہ کرتے تو اکثر گوڈیل ان سے پوچھتا کہ کیا ان میں سے کسی نے کائنات کے گھومنے کا ثبوت حاصل کیا ہے۔ جب اس کو بتایا جاتا ہے کہ کائنات کے پھیلنے کے واضح ثبوت ملے ہیں لیکن شاید کائنات کا خالص گھماؤ صفر درجے ہے تو اس کو یہ سن کر کافی مایوسی ہوتی تھی۔ (اگر ایسا نہیں ہوتا تو ممکن ہے وقت میں سفر بہت ہی عام ہوتا اور اس تاریخ جس کو ہم جانتے ہیں ڈھے جاتی۔ )

تیسرے اگر آپ ایک لامحدود گھومتے ہوئے سلنڈر جیسی جگہ کے گرد لمبا چلیں گے تو ممکن ہے کہ آپ وہاں سے چلنے سے پہلے واپس اس جگہ پر پہنچ جائیں۔ (یہ حل "ڈبلیو جے وین اسٹاکم” (W.J. Van Stockum) نے ١٩٣٦ء میں گوڈیل کے وقت کے سفر کے حل سے پہلے دریافت کیا تھا، لیکن وین اسٹاکم اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے حل کے نتیجے میں وقت کا سفر ممکن ہے۔ ) اس حل کے مطابق اگر آپ مئی کے دن مئی کے پول پر گھوم رہے ہیں تو آپ اپنے آپ کو اپریل میں موجود پا سکتے ہیں۔ (اس میں مسئلہ یہ ہے کہ سلنڈر کو لامحدود طور پر لمبا ہونا ہو گا اور اس قدر تیزی سے گھومنا ہو گا کہ اس میں زیادہ تر موجود مادّے ایک دوسرے سے دور چلا جائے۔ )

وقت کے سفر کی سب سے تازہ مثال پرنسٹن کے رچرڈ گوٹ نے ١٩٩١ء میں دریافت کی ہے۔ اس کا حل ایک دیو ہیکل کائناتی دھاگے پر انحصار کرتا ہے (جو اصل بگ بینگ کے بعد بچ گیا ہو ) ۔ اس نے اس بات کو فرض کیا کہ دو بڑے دھاگے ٹکرانے کو ہیں۔ اگر آپ جلدی سے ان ٹکرانے والے دھاگوں کے گرد سفر کر سکیں تو آپ ماضی میں پہنچ جائیں گے۔ اس طرح کی ٹائم مشین کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو لامحدود گھومنے والے سلنڈروں، گھومنے والی کائنات یا بلیک ہول کی ضرورت نہیں ہو گی۔ (مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ پہلے آپ کو پہلے جسیم خلاء میں تیرتے ہوئے دھاگے تلاش کرنے ہوں گے پھر ان کو آپس میں درست انداز میں ٹکرانا ہو گا۔ اور ماضی میں جانے کا امکان نہایت ہی کم وقت کے لئے ہو گا۔ ) گوٹ کہتے ہیں "جسیم دھاگوں کا منہدم ہوتا ہوا حلقہ جو اس قابل ہو کہ اس کے گرد آپ ایک چکر پورا کر سکیں اور ایک سال ماضی میں جا سکیں اس کے لئے ایک پوری کہکشاں میں موجود توانائی کے نصف سے بھی زیادہ ا کمیت اور توانائی درکار ہو گی۔

مگر سب سے زیادہ امید افزا ٹائم مشین "قا طع ثقف کرم” ہے جس کا ذکر ہم نے پچھلے باب میں کیا تھا، خلاء میں ایک ایسا سوراخ جس میں کوئی بھی شخص وقت میں آسانی کے ساتھ آ اور جا سکے۔ کاغذی طور پر تو قا طع ثقف کرم نہ صرف سریع از نور رفتار سے سفر کرنے کو ممکن بناتا ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قا طع ثقف کرم میں سب سے اہم چیز منفی توانائی ہے۔

قا طع ثقف کرم والی ٹائم مشین دو خانوں پر مشتمل ہو گی۔ ہر خانے میں دو مرتکز کرہ ہوں گے جن کے درمیان انتہائی کم فاصلہ ہو گا۔ باہری کرہ کو پھاڑ کر دونوں کرہ کیسیمیر کا اثر پیدا کریں گے اور اس طرح سے منفی توانائی پیدا ہو گی۔ فرض کریں کہ تہذیب III کی قسم ان دونوں خانوں کے درمیان ثقف کرم کو پرونے کے قابل ہوتی ہے (ان میں سے ایک ممکنہ طور پر ایک مکان و زمان کے جھاگ سے حاصل کیا ہو گا ) ۔ دوسرے مرحلے میں پہلا خانہ لے کر اس کو خلاء میں روشنی کی رفتار کے قریب سمتی رفتار سے روانہ کرتی ہے۔ وقت اس خانے میں آہستہ ہو جائے گا لہٰذا دونوں گھڑیاں ایک دوسرے کی موافقت میں نہیں رہ سکیں گی۔ وقت دونوں خانوں کے اندر مختلف رفتار سے چل رہا ہو گا یہ دونوں خانے ایک ثقف کرم کے ذریعہ جوڑے ہوئے ہوں گے۔ اگر آپ دوسرے خانے میں موجود ہیں تو آپ فی الفور ثقف کرم سے ہوتے ہوئے پہلے خانے میں پہنچ جائیں گے جو ماضی کے وقت میں موجود ہو گا۔ اس طرح سے آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔

اس طریقے کو استعمال میں لانے میں بہت ہی زیادہ مسائل کے انباروں سے نمٹنا ہو گا۔ ممکن ہے کہ ثقف کرم بہت ہی ننھا سا ہو، شاید ایک ایٹم سے بھی چھوٹا۔ اور پلیٹوں کو بھی پلانک کے فاصلوں جتنا چھوٹا ہونا پڑے گا تاکہ کافی منفی توانائی حاصل کی جا سکے۔ دوسرے آپ صرف ماضی میں اس وقت تک سفر کر سکیں گے جب آپ نے ٹائم مشین بنائی ہو گی۔ اس سے پہلے ان دونوں خانوں میں وقت ایک جیسی حالت میں ہو گا۔

 

                تناقضات اور وقت کی پہیلیاں

 

وقت کا سفر ہر قسم کے فنیات سے لے کر معاشرتی پہلوؤں تک کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اخلاقی، دینی اور قانونی مسائل کو "لیری ڈویر” (Larry Dwyer) نے اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں "کیا ایک وقت کے مسافر کو جس نے اپنے آپ کو گھونسا مارا ہو گا اس کو اس جرم میں نامزد کیا جا سکتا ہے ؟کیا وقت کا مسافر جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور جائے پناہ حاصل کرنے کے لئے ماضی میں فرار ہو گیا ہو اس کو ماضی میں اپنے مستقبل کے جرائم کے لئے پکڑا جا سکے گا ؟ اگر اس نے ماضی میں شادی کی تو کیا اس کو دو بیویاں رکھنے کے الزام میں مجرم ٹھہرایا جا سکے گا اگرچہ اس کی دوسری بیوی کے پیدا ہونے میں ابھی ٥٠٠٠ برس باقی ہوں ؟

شاید یہ خار دار مسائل وہ منطقی تناقضات ہیں جن کا سامنا ہمیں وقت کے سفر کو کرنے میں ہو گا۔ مثال کے طور پر اس وقت کیا ہو گا اگر ہم اپنے والدین کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیں ؟ منطقی طور پر یہ بات ناممکن ہے۔ اکثر اس کو "دادا کا تناقض” کہا جاتا ہے۔

ان تناقضات کو حل کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں جائیں تو اس کو اسی طرح سے واقع ہونے دیں جس کے نتیجے میں ماضی میں کوئی خلل نہیں واقع ہو گا۔ اس طریقے میں آپ کو کسی بھی قسم کی آزادی نہیں ہو گی۔ آپ کو ماضی کو اسی طرح سے واقع ہونے دینا ہو گا جیسا کہ وہ لکھا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ماضی میں پہنچ کر اپنے آپ کو وقت کے سفر کا راز بتا دیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ تاریخ نے ویسے ہی لکھا جانا ہے۔ کیونکہ وقت میں سفر کا طریقہ مستقبل سے آیا ہو گا اس کی منزل یہی تھی۔ (مگر ہمیں یہ بات نہیں پتا لگ سکے گی کہ اصل خیال کہاں سے آیا۔ )

دوسرے آپ کو اس بات کی آزادی ہو گی کہ آپ ماضی کو ایک حد میں رہ کر تبدیل کر سکیں۔ آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہو گی کہ آپ وقت کے تناقض کو پیدا کر سکیں۔ جب بھی آپ اپنے والدین کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے مار ڈالنا چاہیں گے ایک پراسرار طاقت آپ کو اس کام کے کرنے سے روک دے گی۔ اس بات کے حامی روسی طبیعیات دان "آئیگور نوویکوف”  (Igor Novikov)  ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسا قانون موجود ہے جو ہمارے چاہنے کے باوجود ہمیں چھتوں پر چلنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا کوئی قانون ایسا بھی ہو گا جو ہمیں ہمارے پیدا ہونے سے پہلے اپنے والدین کے قتل سے روک دے گا۔ کچھ پراسرار قانون ہمیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔ )

تیسرے کہ کائنات دو کائناتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جس میں ایک کائنات میں آپ کے والدین جیسے دکھائی دینے والے لوگ موجود ہوں گے جن کو آپ مار سکتے ہیں لیکن وہ اصل میں آپ کے والدین نہیں ہوں گے اور ان سے مختلف لوگ ہوں گے کیونکہ اب آپ متوازی کائنات میں موجود ہیں۔ یہ آخر الذکر احتمال کوانٹم کے نظرئیے سے میل کھاتا ہے اس کے بارے میں ہم بعد میں اس وقت رجوع کریں گے جب ہم متعدد کائناتوں کے بارے میں بات کریں گے۔

دوسرے ممکنہ طریقے کو فلم ٹرمنیٹر ٣ میں استعمال کیا تھا۔ اس فلم میں آرنلڈ شیوازینگر نے مستقبل کے ایک روبوٹ کا کردار ادا کیا ہے جہاں پر ہلاک کر دینے والی مشینوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ چند باقی بچے رہنے والے انسانوں کو وہ مشینیں جانوروں کی طرح سے شکار کر رہی تھیں۔ ان انسانوں کو ایک عظیم انسان کی رہنمائی حاصل تھی جس کو وہ مشینیں قتل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس رہنما کو قتل کرنے کی کوششوں کو اکارت ہوتا دیکھ کر انہوں نے مشینوں کے ایک سلسلے کو ماضی میں روانہ کیا تاکہ اس سے پہلے کہ عظیم رہنما پیدا ہو سکے اس کی ماں کو ہی مار دیا جائے۔ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ مگر ایک زبردست رمز ی جنگ کے بعد انسانیت کی تہذیب اس فلم کے اختتام تک صفحہ ہستی سے مٹ گئی جیسا کہ اس کی قسمت میں لکھا تھا۔

بیک ٹو دی فیوچر نے تیسرے ممکنہ امکان کا استعمال کیا تھا۔ ڈاکٹر براؤن نے ایک پلوٹونیم سے چلنے والی ڈی لورین کی کار بنائی جو حقیقت میں ماضی میں لے جانے والی کار تھی۔ مائیکل جے۔ فاکس (مارٹی مک فلائی ) مشین میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں سے اس کی نوجوانی کے دور میں ملتا ہے۔ وہ اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر مارٹی مک فلائی کی نوجوان ماں اس کے مستقبل کے باپ کو انکار کر دیتی تو وہ کبھی بھی شادی نہیں کرتے اور مائیکل جے فاکس کا کردار کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا۔

اس مسئلہ کو تھوڑا سا ڈاکٹر براؤن نے حل کیا تھا۔ وہ بلیک بورڈ کی طرف گیا اور ایک افقی لکیر کھینچ دی جو ہماری کائنات کی نمائندگی کر رہی تھی۔ اس کے بعد اس نے ایک اور لکیر کھینچی جو دوسری لکیر سے نکل رہی تھی۔ یہ لکیر ایک اور متوازی کائنات کو ظاہر کر رہی تھی جو اس وقت کھلتی ہے جب آپ ماضی کو بدلتے ہیں۔ لہٰذا ہم جب بھی وقت کے دریا میں الٹی طرف جائیں گے وہ دو شاخہ دریا میں اور وقت کی لکیر دو لکیروں میں بدل جائے گی۔ اس کو ہم” کثیر جہاں طریقہ” کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں اگلے باب میں مزید بات کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کے تمام تناقض حل کیے جا سکتے ہیں اگر آپ نے اپنے والدین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ نے کسی اور کو مار دیا ہے جو خلقی طور پر آپ کے والدین جیسے ہیں جن کی یادداشت اور شخصیت تو ویسی ہی ہو گی لیکن وہ آپ کے اصل والدین نہیں ہوں گے۔

کثیر جہاں والا خیال کم از کم وقت میں سفر کا ایک مسئلہ تو حل کرتا ہے۔ ایک طبیعیات دان کے لئے سب سے پہلی تنقید جو وقت کے سفر کے لئے ہوتی ہے (منفی توانائی کو حاصل کرنے کے علاوہ ) وہ یہ ہے کہ اشعاع کا اثر آپ کے ثقف کرم میں داخل ہونے کے وقت تک بڑھتا جائے گا لہٰذا جوں ہی آپ مشین میں داخل ہوں گے یا تو آپ کی موت ہو جائے گی یا ثقف کرم آپ پر منہدم ہو جائے گا۔ اشعاع کا اثر اس لئے بنے گا کیونکہ کوئی بھی اشعاع جو ٹائم پورٹل میں داخل ہو گی وہ واپس ماضی میں بھیج دی جائے گی جہاں وہ کائنات میں آوارہ گردی کرتی ہوئی آخر کار وہ پھر حال میں پہنچ جائے گی اور پھر وہ ثقف کرم میں داخل ہو جائے گی۔ کیونکہ اشعاع ثقف کرم کے منہ میں لامحدود طور پر داخل ہو سکتی ہے لہٰذا ثقف کرم میں اشعاع ناقابل تصوّر حد تک طاقتور ہوتی جائی گی۔ اتنی طاقتور کہ آپ کو ختم کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ مگر کثیر جہاں والی توجیح اس مسئلہ سے جان چھڑا سکتی ہے۔ اگر اشعاع ٹائم مشین میں داخل ہو گی اور اس کو ماضی میں روانہ کیا جائے گا تو وہ ایک نئے جہاں میں داخل ہو جائے گی  اور اس طرح سے وہ ٹائم مشین میں بار بار داخل نہیں ہو سکے گی۔ اس کا مطلب سیدھا سادہ سا یہ ہوا کہ لامحدود تعداد میں کائناتیں موجود ہوں گی، ہر چکر کے لئے ایک کائنات اور ہر چکر میں لامحدود مقدار میں اشعاع کے بجائے صرف ایک فوٹون کی اشعاع ہو گی۔

١٩٩٧ء میں یہ بحث مزید اس وقت واضح ہوئی جب تین طبیعیات دانوں نے ثابت کیا کہ ہاکنگ کے وقت کے سفر کو بند کرنے کے پروگرام میں خلقی طور پر ہی نقص موجود ہے۔ برنارڈ رے (Bernard Ray) ، مریک ریزے کاسکی (Marek Radzikowski) اور رابرٹ والڈ (Robert Wald) نے ثابت کر دیا کہ وقت کا سفر مروجہ قوانین طبیعیات سے سوائے ایک جگہ کے مکمل طور پر میل کھاتا ہے۔ جب وقت میں سفر کر رہے ہوں گے تو اس وقت  تمام ممکنہ مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہوں گے (جو ثقف کرم کے داخلے کی جگہ پر واقع ہو گی ) ۔ مگر افق درستگی کے ساتھ اس جگہ پر موجود ہوتی ہے جہاں آئن سٹائن کے نظرئیے کے پر جلتے ہیں اور کوانٹم کا اثر کمان کو سنبھال لیتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں جب بھی اشعاع کے اثر کو جاننا چاہیں گے تو ہمیں دونوں نظریوں کو یعنی آئن سٹائن کی عمومی نظریہ  اضافیت اور اشعاع کے کوانٹم نظریئے کو ملا کر ہی اس اثر کا پتا چلے گا۔ مگر جب ہم اپنی سادگی میں ان دونوں نظریوں کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں تو حاصل کردہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یہ ایک ایسا لامتناہی نتیجہ دیتا ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر ہر شئے کا نظریہ کمان سنبھالنے کو تیار نظر آتا ہے۔

ثقف کرم کے ذریعہ سفر کرنے کے تمام مسائل جنہوں نے طبیعیات دانوں کو آسیب بن کر ڈرا یا ہوا ہے (جیسا کہ ثقف کرم کی پائیداری، اشعاع جو ہلاک کر سکتی ہیں، داخل ہوتے وقت ثقف کرم کا بند ہو جانا ) یہ تمام مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہیں، جہاں پر آئن سٹائن کا نظریہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

لہٰذا وقت میں سفر کرنے کی کنجی واقعاتی افق کی طبیعیات کو سمجھنے میں ہے اور صرف ہر شئے کا نظریہ ہی اس بات کو بیان کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس میں وقت کے سفر کو مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ قوّت ثقل اور مکان و زمان کا ایک مکمل نظریہ پیش کیا جائے۔

ہر شئے کا نظریہ ہی کائنات کی چاروں قوّتوں کو یکجا کر کے ہمیں ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت واقعات کے بارے میں حساب لگانے کے قابل کر سکے گا۔ صرف ہر شئے کا نظریہ ہی کامیابی کے ساتھ ثقف کرم کی پیدا کردہ اشعاع کے اثر کو بیان کر سکتا ہے اور اس بات کا یقینی جواب دے سکتا ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت ثقف کرم کتنے پائیدار ہوں گے۔ ان تمام چیزوں کے بعد بھی ہمیں صدیوں تک یا اس سے بھی زیادہ اس بات کا انتظار کرنا ہو گا کہ اصل ٹائم مشین کو بنایا جائے تاکہ ان نظریوں کی جانچ ہو سکے۔

کیونکہ وقت کے سفر کے قوانین ثقف کرم کی طبیعیات سے بہت ہی زیادہ جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا وقت کا سفر جماعت II کی ناممکنات میں شامل ہونے کا اہل ہے۔

 

 

 

 

13۔    متوازی کائناتیں

 

"جناب، کیا واقعی آپ کا یہ مطلب ہے "پیٹر نے پوچھا، "کیا ہر جگہ دوسرے جہاں بھی ہو سکتے ہیں، اس طرح کے کونے کی گرد بھی ؟”
"اس سے زیادہ اور کس چیز کا امکان ہے ، "پروفیسر نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے "سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ا سکولوں میں انھیں آج کل کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ "
سی۔ ایس۔ لوئس، دی لائن، دی وچ اینڈ دی وارڈروب
سنو :پڑوس میں بے تحاشا شاندار کائناتیں موجود ہیں۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔
ای۔ ای کمنگس

 

کیا واقعی متبادل کائناتیں وجود رکھتی ہیں ؟ یہ موضوع فلموں کے مصنفین کے لئے سب سے پسندیدہ ہے جیسا کہ اسٹار ٹریک کی ایک قسط "مرر مرر ” (Mirror Mirror) میں دکھایا گیا ہے۔ کپتان کرک حادثاتی طور پر ایک اجنبی متوازی کائنات میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی سیارگان، ایک شیطانی حکومت ہوتی ہے جس کے حکمران وحشی فاتح، لالچی اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں سپوک نے عجیب سی داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے جبکہ کپتان کرک ایک بھوکے قزاقوں کا سردار ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں کو غلام بناتا ہوا اپنے سے برتر لوگوں کو غارت کر رہا ہوتا ہے۔

متبادل کائناتیں ہمیں ان جہانوں کو کھوجنے کے قابل کر سکیں گی جہاں "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا ” کے مزیدار اور حیرت انگیز امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سپرمین کی بچوں کی کہانیوں میں کئی ایسی کائناتیں موجود ہوتی ہیں جہاں سپرمین کا اصل سیارہ کریپٹون کبھی بھی نہیں پھٹتا یا جہاں سپرمین آخر میں اپنی شناخت ایک عام آدمی کلارک کانٹ کے نام سے بتا دیتا ہے اور پھر لوئس لین سے شادی کر کے سپر بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ مگر کیا متوازی کائناتیں صرف ٹوائی لائٹ زون ریرن کا ہی خاصا ہے یا پھر جدید طبیعیات میں ان کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی ہے ؟

تاریخ میں پیچھے قدیمی سماجوں تک دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے جہانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے جو عموماً دیوتاؤں یا بھوتوں کی دنیا ہوتی تھی۔ گرجا جنت، دوزخ اور برزخ پر یقین رکھتا ہے۔ بدھ مت میں نروان اور دوسری شعوری حالتیں موجود ہیں۔ جبکہ ہندو تو مختلف جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔

عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے میں ناکام ہو گئیں، اکثر وہ اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہیں کہ شاید خدا بلند آسمانوں میں رہتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اگر ایک اضافی جہت اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ کافی ساری خصوصیات جو دیوتاؤں میں پائی جاتی ہیں ہو سکتا ہے کہ  وہ واقعی میں موجود ہوں۔ کوئی بھی ہستی جو اضافی یا بلند جہتوں میں رہتی ہو وہ اپنی مرضی سے حاضر، غائب ہونے پر قادر ہو گی یا وہ دیواروں میں سے بھی گزر سکتی ہو گی یعنی کہ وہ ایک ایسی خاصیت کی حامل ہو گی جو اللہ والوں کی نشانی ہے۔

دور حاضر میں متوازی کائناتوں کا تصوّر طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت میں کافی قسم کی متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہم کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ "حقیقت "سے ہماری کیا مراد ہے۔ متوازی کائناتوں کی اس بحث میں سوائے "حقیقت "کے معنی کے بذات خود کوئی اور چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی ہے۔ کم از کم تین قسم کی مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو سائنسی دنیا میں زبردست مباحثوں کا موجب بنی رہتی ہیں :

الف۔ اضافی خلاء (ہائپر ا سپیس ) یا بلند جہتیں

ب۔ کثیر کائناتیں

ج۔ کوانٹم متوازی کائناتیں

 

                اضافی خلاء یا بلند جہت

 

متوازی کائناتیں جو تاریخ میں مباحثوں کے سب سے لمبے سلسلے کا عنوان رہی ہیں ان میں سے ایک بلند جہتیں ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمیں آسان لگتا ہے کہ ہم تین جہتوں کی دنیا میں رہتے ہیں (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی ) ۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی بھی جسم کو خلاء میں کیسے بھی حرکت دے دیں اس کا ہر محل وقوع ان تین جہتوں کے ذریعہ ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں ہم ان تین چیزوں سے کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا، یہاں تک کہ اپنی ناک کے کونے سے لے کر سب سے دور دراز کی کہکشاں تک ہر چیز کا محل وقوع بیان کر سکتے ہیں۔

چوتھی مکانی جہت، ہمیں اپنی عقل کے خلاف لگتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دھوئیں کو کمرے میں بھر نے دیا جائے تو ہم دھوئیں کو کسی اور جہت میں غائب ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ اپنی کائنات میں ہم کسی بھی جسم کو اچانک سے غائب ہوتا دیکھ کر کسی دوسری کائنات میں تیر کر جاتا ہوا نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بلند جہتیں موجود بھی ہیں تو لازمی طور پر وہ کسی بھی جوہر سے چھوٹی ہوں گی۔

یہ سہ جہتی مکانی ہی یونانیوں کی بنیادی جیومیٹری کی اساس ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنے مضمون "فلک پر "لکھا "ایک لکیر کی صرف ایک ہی جہت ہے ، ایک سطح کی دو جہتیں ہیں جبکہ کسی بھی ٹھوس چیز کی تین جہتیں ہوتی ہیں اور اس سے آگے کسی بھی قسم کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ بس یہی تین جہتیں ہوتی ہیں۔ ” اسکندریہ کے بطلیموس نے ١٥٠ بعد مسیح میں پہلی مرتبہ بلند جہتوں کے ناممکن ہونے کا ثبوت دیا۔ اپنے مضمون "فاصلوں پر ” اس نے وجوہات اس طرح سے بیان کیں۔ تین لکیروں کو ایک دوسرے کے عمودی کھینچیں (جیسے کہ کسی کمرے کے کونے میں ہوتی ہیں۔ ) واضح طور پر چوتھی لکیر کو ان تین لکیروں کے عمودی نہیں کھینچا جا سکتا لہٰذا چوتھی جہت کا ہو ناممکن نہیں ہے۔ (اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا ذہن چوتھی جہت کو تصوّر میں لانے سے قاصر ہے۔ آپ کی میز پر رکھا ہوا ذاتی کمپیوٹر ہر وقت اضافی جہتوں میں حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔ )

دو ہزار سال تک جس ریاضی دان نے بھی چوتھی جہت کی بات کی اسے ممکنہ طور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٦٨٥ میں ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) کو چوتھی جہت کے سلسلے میں متنازع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ "قدرت کا عفریت ہے اور اس کے ہونے کا امکان بد خلقت مخلوق یا آدھے گھوڑے اور آدھے انسان کے جیسی کسی چیز کے ہونے سے بھی کم ہے۔ ” انیسویں صدی میں کارل گاس، (Karl Gauss) "ریاضی کے شہزادے "، نے چوتھی جہت پر ریاضی میں کافی کام کیا م تاہم وہ اس کی مخالفت کے ڈر سے اس کو شایع کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ذاتی طور پر گاس نے اس بات کو جانچنے کے لئے تجربات کئے کہ کیا یونانی سہ جہتی جیومیٹری حقیقت میں کائنات کو بیان کر سکتی ہے۔ ایک تجربے میں اس نے اپنے مدد گاروں کو تین پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کھڑا کیا جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی  اس طرح سے اس نے ایک بہت بڑا تکون بنا لیا تھا۔ گاس نے پھر تکون کے ہر زاویہ کو ناپا۔ اس نے مایوس کن طور پر تمام اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ١٨٠ درجہ کا پایا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یونانیوں کے معیار کی جیومیٹری میں کسی قسم کا فرق ہو گا تو وہ اتنا کم ہو گا کہ ان لالٹینوں سے ناپا نہیں جا سکے گا۔

 

گاس نے اضافی جہتوں کی بنیادی ریاضی کو  اپنے شاگرد گورگ برن ہارڈ ریمین (Georg Bernhard Riemann)  پر چھوڑ دیا تھا۔ (اس کے کام کو مکمل طور پر عشروں بعد آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت میں درآمد کیا گیا ) ۔ مشہور زمانہ لیکچر جو اس نے ١٨٥٤ میں دیا تھا ریمین نے ایک ہی وار میں یونانیوں کی دو ہزار سالہ جیومیٹری کرسی اقتدار کو اٹھا کر پھینک دیا اور اضافی خم دار جہتوں کی ریاضی کے بنیادی اصول وضع کیے جن کو ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔

ریمین کی شاندار دریافت ١٨٠٠ کے آخر میں کافی مشہور ہوئی، چوتھی جہت فنکاروں، موسیقاروں، مصنفین، فلاسفروں اور مصوروں میں کافی مقبول ہوئی۔ فنی مؤرخ لنڈا ڈال ریمپل ہنڈریسن (Linda Dolrymple Henderson)  کے مطابق پکاسو کا "کیوب ازم” چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔ (پکاسو کی عورت کی بنائی ہوئی اس تصویر میں آنکھیں سامنے کی جانب جبکہ ناک اطراف میں موجود ہے۔ یہ تصویر اس کوشش کا حصّہ تھی جس میں چوتھی جہت کو بیان کیا گیا تھا کیونکہ جو کوئی چوتھی جہت سے اس عورت کو دیکھے گا وہ ایک ساتھ ہی اس چہرہ، ناک اور سر کا پچھلا حصّہ دیکھ سکے گا۔ )  ہنڈریسن لکھتی ہے "بلیک ہول کی طرح چوتھی جہت پراسرار خصوصیات رکھتی ہے جس کو مکمل طور پر سائنس دانوں نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود اس کا اثر١٩١٩ء کے بعد سے بلیک ہول یا کسی بھی اور حالیہ سائنسی نظریئے سے (اضافیت کو چھوڑ کر ) سب سے زیادہ ہے۔

دوسرے مصوروں نے بھی چوتھی جہت کو بنانے کی کوشش کی ہے۔ سلواڈور ڈالی (Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس (Christus Hypercubius) ، میں حضرت عیسی کو ایک عجیب تیرتے ہوئے سہ جہتی صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے جو اصل میں ایک "ٹیسسر ایکٹ ” کھلا ہوا چوتھی جہت کا مربع ہے۔ اپنی مشہور "دائمی یاد” (پرسسٹنس آف میموری ) میں اس نے وقت کو چوتھی جہت سے بتانے کی کوشش کی تھی لہٰذا اس نے پگھلی ہوئی گھڑی سے اس کو تشبیہ دی۔ مارسیل ڈویکیم (Marcel Duchamps)  کی ” اترتی ہوئی سیڑھی سے برہنہ ” میں ایک برہنہ کو سیڑھی سے اترتے ہوئے بہتے ہوئے وقت سے تشبیہ دے کر وقت کو ایک چوتھی جہت بتانے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جہت آسکر وائلڈ (Oscar Wilde) کی کہانی "دی کینٹرول گھوسٹ ” میں بھی موجود تھی جس میں گھر پر طاری ہوا بھوت چوتھی جہت میں رہتا تھا۔

چوتھی جہت ایچ۔ جی۔ ویلز کی کافی کہانیوں میں موجود ہے جس میں "پوشیدہ آدمی” (دی انوزیبل مین) ، دی پلانر ا سٹوری، اور دی وونڈر فل وزٹ شامل ہیں۔ آخری کہانی تب سے  ہی ہالی ووڈ کی فلموں اور سائنسی قصصی ناولوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے ، جس میں ہماری کائنات متوازی کائنات سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسری کائنات کا ایک بیچارہ فرشتہ ہماری کائنات میں کسی شکاری سے حادثاتی طور پر زخمی ہو کر گر جاتا ہے۔ ہماری کائنات کی زبردست لالچ، کمینے پن اور خود غرضی کی وجہ سے آخر کار وہ فرشتہ خود کشی کر لیتا ہے۔ )

متوازی کائنات کا خیال رابرٹ ہینلین (Robert Heinlein)  کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ میں بھی موجود ہے۔ ہینلین نے ایک چار بہادر مہم جوؤں کی جماعت کی کہانی کو بیان کیا ہے جو متوازی کائناتوں میں ایک پاگل پروفیسر کی بین الجہت ا سپورٹ کار میں اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں۔

ایک ٹیلی ویژن سلسلے سلائیڈر میں ایک نوجوان ایک کتاب کو پڑھتا ہے اور ایک ایسی مشین بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو متوازی کائناتوں میں گرا سکے۔ (وہ کتاب جو نوجوان لڑکا پڑھتا ہے وہ اصل میں میری کتاب "اضافی جہتیں "[Hyperspace]تھی۔ )

تاریخی طور پر چوتھی جہت طبیعیات دانوں کے لئے صرف ایک پر تجسس چیز سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ فی الحال ابھی تک تو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت اضافی جہتوں کا نہیں مل سکا ہے۔ تبدیلی کا آغاز ١٩١٩ء میں اس وقت ہوا جب ایک انتہائی متنازع مقالہ تھیوڈور کلوز ا (Theordor Kaluza) نے لکھا جس میں اس نے اضافی جہتوں کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت سے شروع کیا، تاہم اس نے اس کو پانچ جہتوں میں رکھا۔ (ایک جہت وقت کی اور چوتھی جہت خلاء کی، کیونکہ وقت ایک مکان و زمان کی چوتھی جہت ہے ، طبیعیات دان اب چوتھی مکانی جہت کو پانچویں جہت کہتے ہیں ) ۔ اگر پانچویں جہت کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیا جائے تو مساوات جادوئی طریقے سے دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک حصّہ آئن سٹائن کی معیاری نظریہ اضافیت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا حصّہ میکسویل کی روشنی کا نظریہ بن جاتا ہے !

یہ ایک شاندار دریافت تھی۔ شاید روشنی کا راز ہی پانچویں جہت میں چھپا ہوا ہے ! آئن سٹائن بھی اس حل کو دیکھنے کے بعد مبہوت رہ گیا جس نے روشنی اور ثقل کی ایک شاندار وحدت کو بیان کیا تھا۔ (آئن سٹائن کلوز ا کی اس تجویز سے اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ اس نے صرف دو سال اس بات کی غور و فکر میں ہی گزار دیئے اور اس کے بعد ہی وہ اس مقالے کو شایع کروانے پر راضی ہوا۔ ) آئن سٹائن نے کلوز ا کو لکھا "پانچ جہتی سلنڈر نما دنیا کا خیال ایک وحدتی نظریئے کے ذریعہ مجھ پر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ۔ پہلی نظر میں ہی، مجھے تمہارا نظریہ بہت پسند آیا۔ ۔ ۔ ۔ با ضابطہ طور پر تمہارے نظریہ کی وحدت چونکا دینے والی ہے۔ ”

برسوں سے طبیعیات دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں : اگر روشنی موج ہے ، تو وہ کس چیز کو خمیدہ کر رہی ہے ؟روشنی ارب ہا سال تک خالی خلاء میں سے گزر سکتی ہے ، مگر خلاء تو خالی ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی مادّہ نہیں ہے۔ تو خلاء میں کیا چیز خمیدہ ہو رہی ہے ؟ کلوز ا کے نظریئے سے ہمیں اس مسئلہ کا ایک ٹھوس اور پائیدار حل مل گیا : روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں۔ میکسویل کی مساوات جو نہایت درستگی کے ساتھ روشنی کی تمام خصوصیات کو بیان کرتی ہے وہ ایک ایسی مساوات کے طور پر نمودار ہوتی ہے جہاں موجیں پانچویں جہت میں سفر کرتی ہیں۔

کسی مچھلی کو اتھلے تالاب میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ اس کو تیسری جہت کا شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا، کیونکہ ان کی آنکھیں اس کے اطراف میں لگی ہوئی ہیں اور وہ آگے ، پیچھے ، سیدھی اور الٹی طرف ہی تیر سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری جہت ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر فرض کریں کہ تالاب کے اوپر بارش شروع ہو جاتی ہے ہرچند کہ وہ تیسری جہت کو نہیں دیکھ سکے گی تاہم تالاب کی سطح پر بنتی لہروں کو تو دیکھ ہی سکتی ہے۔ بعینہ ایسے کلوز ا کا نظریہ روشنی کو پانچویں جہت میں لہروں پر سفر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے۔

کلوزا نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پانچویں جہت کہاں ہے۔ کیونکہ ہم نے پانچویں جہت کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے ، لہٰذا اس کو اس قدر چھوٹا حلقہ دار ہونا چاہئے کہ ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔ (ذرا دو جہتی کاغذ کی شیٹ کا تصوّر کریں اور اس کو موڑ کر ایک سلنڈر کی طرح سے بنا دیں۔ دور سے سلنڈر ایک جہت کی لکیر نظر آئے گا۔ اس طرح سے موڑنے پر ایک دو جہتی چیز ایک جہتی بن جائے گی۔ )

کلوزا کے مقالے نے شروع میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی۔ مگر آنے والی دنوں میں اس نظریئے پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ اس پانچویں جہت کا حجم کیا ہے ؟وہ کیسی مڑتی ہے ؟ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا۔

عشروں تک آئن سٹائن نے اس نظریئے پر بار بار کام کیا۔ ١٩٥٥ میں اس کے آنجہانی ہو جانے کے بعد، اس نظریئے کو جلد ہی بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں طبیعیات کے ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک عجیب سے حاشیہ جیسی ہو گئی تھی۔

 

                اسٹرنگ نظریہ

 

نیہ سب اس چونکا دینے والے نظریئے کو پیش کئے جانے کے ساتھ ہی بدل گیا جس کا نام سپر اسٹرنگ نظریہ تھا۔ ١٩٨٠ء کی دہائی میں طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ ہر مرتبہ جب بھی وہ کسی جوہر کو طاقتور اسراع گر میں ٹکراتے تو اس میں سے انھیں نئے ذرّات حاصل ہوتے۔ یہ بات اس قدر پریشان کن تھی کہ طبیعیات دان جے۔ رابرٹ اپن ہائمر اکثر از راہ مذاق کہتا تھا کہ نوبل انعام اس سائنس دان کو دیا جائے گا جس نے اس سال کوئی نیا ذرّہ دریافت نہیں کیا ! (انریکو فرمی [Enrico Fermi] نے ذیلی جوہری ذرّات کے یونانی ناموں کی کثرت سے خوف زدہ ہو کر کہا "اگر میں ان تمام ذرّات کے ناموں کو یاد رکھ سکتا تو میں ایک ماہر نباتات بن جاتا۔ ") عشروں کی محنت کے بعد، ذرّات کے اس چڑیا گھر کو کچھ اس طرح سے ترتیب دیا جا سکا جس کا نام "معیاری نمونہ "رکھا گیا۔ ارب ہا ڈالر، ہزار ہا طبیعیات دانوں اور انجینیروں کا پسینہ، اور ٢٠ نوبل انعامات اس تکلیف دہ معیاری نمونے کو ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر بنانے میں لگ گئے۔ یہ حقیقی طور پر ایک شاندار نظریہ ہے جو ذیلی جوہری ذرّاتی طبیعیات سے متعلق تمام حاصل کردہ تجربات کے اعداد و شمار پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔

تمام تجرباتی کامیابی کے باوجود معیاری نمونہ کا پالا ایک نہایت ہی خطرناک قسم کے نقص سے پڑتا ہے۔ جیسا کہ ا سٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں "یہ بدصورت اور عارضی ہے۔ ” اس میں کم از کم انیس آزاد مقدار معلوم ہیں ( جس میں ذرّوں کی کمیت اور دوسرے ذرّات کے ساتھ ان کے تعامل کی قوّت بھی شامل ہے ) ، ٣٦ کوارک اور ضد کوارک، تین ہو بہو اور فالتو ذیلی جوہری ذرّات کی نقلیں ایک سننے میں عجیب ذیلی جوہری ذرّات کے  میزبان مثلاً  ٹاو نیوٹرینو، یانگ –ملز گلوآ ن، ہگس بوسون، ڈبلیو بوسون اور زی ذرّات۔ سب سے زیادہ خراب بات یہ کہ معیاری نمونہ قوّت ثقل کا ذکر ہی نہیں کرتی ہے۔ اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ قدرت سب سے زیادہ برتر بنیادی سطح پر اس قدر بے ضابطہ اور اس قدر بھونڈی ہو سکتی ہے۔ ایک نظریہ تھا کہ ماں صرف پیار ہی کر سکتی ہے۔ معیاری نمونے کی خالص بے ضابطگی نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ قدرت سے متعلق ان تمام مفروضات کا دوبارہ سے تجزیہ کریں۔ کوئی چیز بہت ہی بھیانک حد تک غلط تھی۔

اگر پچھلی ایک صدی میں ہم طبیعیات کا تجزیہ کریں تو اس میدان میں حاصل ہونے والی سب سے بڑی کامیابی کا لب لباب بنیادی طبیعیات کو دو نظریوں کی صورت میں بیان کرنے کو صورت میں نظر آ جائے گا :  کوانٹم نظریہ (جس کو معیاری نمونے سے ظاہر کیا جاتا ہے ) اور آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت (جو قوّت ثقل کو بیان کرتا ہے ) ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں مل کر طبیعیات کا تمام علم بنیادی سطح پر پیش کرتی ہیں۔ پہلا نظریہ جہاں اصغر کو بیان کرتا ہے ، ذیلی جوہری کوانٹم دنیا جہاں ذرّات شاندار رقص پیش کرتے ہیں، عدم سے حاضر اور حاضر سے فنا ہوتے ہیں اور دو جگہوں پر ایک ساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ دوسرا نظریہ دنیا کو بڑے پیمانے پر بیان کرتا ہے جیسا کہ بلیک ہول اور بگ بینگ اور ہموار سطحوں، کھینچتی ہوئی ساختوں اور خمیدہ سطحوں کی زبان استعمال کرتا ہے۔ دونوں نظرئیے ایک دوسرے کے ہر طرح سے مخالف ہیں، مختلف ریاضیاتی مساواتیں، مختلف مفروضات اور مختلف طبیعی خاکے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے قدرت کے دو ہاتھ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ میں نہیں ہیں۔ مزید براں یہ کہ ان دونوں نظریوں کو ملانے کی کوششوں میں حاصل ہونے والے نتیجے لاحاصل رہے۔ آدھی صدی تک جس بھی طبیعیات دان نے کوانٹم نظریئے اور عمومی اضافیت کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کی اس نے منہ کی کھائی، انھیں جو نتیجے ملے وہ لامتناہی جواب تھے جو کسی بھی قسم کے شعور سے عاری تھے۔

یہ تمام صورتحال سپر اسٹرنگ نظریئے کی دریافت کے بعد سے بدل گئی ، اس نظرئیے میں اس بات کو فرض کر لیا گیا ہے کہ الیکٹران اور دوسرے ذیلی جوہری ذرّات کچھ اور نہیں بلکہ دھاگے یا ڈوری کی تھرتھراہٹ ہیں، جو ننھے ربڑ بینڈ کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ربڑ بینڈ کو چھیڑے گا تو وہ مختلف ڈھنگ سے جھولے گا اس طرح سے سپر اسٹرنگ نظریئے نے ان سینکڑوں ذیلی جوہری ذرّات کو بیان کر دیا جو ابھی تک ذرّاتی اسراع گروں میں دریافت ہوئے ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت میں سب سے پست ڈوری کی تھرتھراہٹ ثابت ہوئی ہے۔

اسٹرنگ کے نظریئے کو "ہر شئے کا نظریہ "بھی کہتے ہیں۔ ایک طلسماتی نظریہ ہے جو آئن سٹائن کی زندگی کے آخری تیس برسوں میں باوجود کوشش کے ہاتھ میں نہیں آ سکا۔ آئن سٹائن چاہتا تھا کہ ایک ایسا جامع نظریہ حاصل کیا جا سکے جو تمام طبیعیاتی قوانین کو یکجا کر دے اور جو اس کو خدا کا ارادہ پڑھنے میں مدد کر سکے۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ صحیح طرح قوّت ثقل کو کوانٹم کے نظریہ کے ساتھ متحد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو شاید یہ سائنس کی اس دو ہزار سالہ دنیا میں ایک شاہانہ سنگ میل ہو گا جب سے یونانیوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا کہ مادّہ کس سے بنا ہے۔

مگر سب سے عجیب خاصیت جو سپر اسٹرنگ نظریہ کی ہے کہ یہ صرف مکان و زمان کی مخصوص جہتوں میں تھر تھرا تھے ہیں، وہ صرف دس جہتوں میں ہی تھرتھرا سکتے ہیں۔ اگر ہم اسٹرنگ نظریہ کو دوسری جہتوں میں بنانے کی کوشش کریں گے تو نظریہ ریاضیاتی طور پر بکھر جائے گا۔

ہمارے کائنات چار جہتی ہے (تین جہتیں مکان کی اور ایک وقت کی ) ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری چھ جہتیں لازمی طور پر کسی طرح سے منہدم ہو گئی ہوں گی، یا کلوز ا کی پانچویں جہت کی طرح مڑ گئی ہوں گی۔

حالیہ دور میں طبیعیات دانوں نے سنجیدگی کے ساتھ ان اضافی جہتوں کی توثیق یا تردید کرنی ہے۔ ان اضافی جہتوں کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شاید سب سے آسان طریقہ نیوٹن کی کشش ثقل کے قانون میں کسی قسم کا انحراف کو تلاش کرنا ہو سکتا ہے۔ اسکول میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ زمین کی کشش خلاء میں ختم ہو جاتی ہے۔ زیادہ درستگی کے ساتھ قوّت ثقل دوری کے فاصلے کے مربع جتنی کم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم سہ جہتی دنیا میں رہتے ہیں۔ (زمین کے گرد ایک کرہ کے بارے میں سوچیں۔ زمین کی کشش کرہ کی سطح پر برابر پھیلی ہوئی ہے لہٰذا جتنا بڑا کرہ ہو گا اتنی ہی اس کی کشش کم ہو گی۔ تاہم کیونکہ کرہ کی سطح اس کے نصف قطر کے مربع سے بڑھے گی، کشش کی قوّت، جو پورے کرہ پر پھیلی ہوئی ہے لازمی طور پر اس کے نصف قطر کے مربع سے کم ہو گی۔ )

لیکن اگر کائنات کی چار مکانی جہتیں ہوں، تو کشش ثقل فاصلے کی دوری کے مکعب سے کم ہو گی۔ اگر کشش ثقل کی "x” جہتیں ہوں تو کشش ثقل کو "x” منفی ایک کی قوّت سے کم ہونا ہو گا۔ نیوٹن کا مشہور قانون معکوس مربع کو بہت ہی زیادہ درستگی کے ساتھ فلکیاتی پیمانوں پر جانچا گیا ہے ، اسی وجہ سے ہم خلائی کھوجیوں کو زحل کے حلقوں سے بھی دور انتہائی درستگی کے ساتھ روانہ کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک نیوٹن کے قانون معکوس مربع کو چھوٹے فاصلوں پر تجربہ گاہوں میں نہیں جانچا گیا۔

یونیورسٹی آ ف کولوراڈو میں ٢٠٠٥ء میں سب سے پہلا تجربہ کیا گیا جس معکوس قانون مربع کو چھوٹے فاصلوں پر جانچا گیا اور نتائج قانون کے مطابق درست تھے۔ بظاہر تو کوئی متوازی کائنات موجود نہیں تھی کم از کم کولوراڈو میں تو نہیں تھی۔ مگر ان نتائج نے دوسرے طبیعیات دانوں کی اشتہا انگیزی کو صرف بڑھایا ہی تھا جو اس تجربہ کو اور زیادہ درستگی سے کرنے کے خواہاں تھے۔

مزید براں دی لارج ہیڈرون کولائیڈر جو جنیوا، سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے وہ بھی ٢٠٠٨ء سے کام کرنا شروع کر دے گا۔ وہ نئے ذرّات کی تلاش کرے گا جن کو "اسپارٹیکل ” یا فوقی ذرّات کہتے ہیں جو کہ سپر اسٹرنگ کی اضافی تھرتھرا ہٹ ہیں (ہر چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں وہ اس سپر اسٹرنگ کی سب سے پست تھرتھراہٹ ہے۔ ) اگر اسپارٹیکل ایل ایچ سی میں مل گئے تو یہ ایک ایسا انقلابی اشارہ ہو گا جو ہماری کائنات سے متعلق سوجھ بوجھ کو بدل دے گا۔ اس تصویر میں معیاری نمونہ صرف سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ کو ہی پیش کرتا ہے۔

کپ تھورن (Kip Thorne) کہتے ہیں کہ "٢٠٢٠ء تک، طبیعیات دان کوانٹم ثقلی قانون کو جان چکے ہوں گے ، جو اسٹرنگ نظریئے کی ہی ایک قسم ہو گی۔ ”

بلند جہتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات جس کی پیش گوئی اسٹرنگ نظریئے نے کی ہے وہ ہے "کثیر کائنات۔”

 

                کثیر کائنات (Multiverse)

 

ایک پریشان کر دینے والا سوال جو اسٹرنگ نظریئے کے بارے میں ہے : اسٹرنگ نظریئے کے پانچ مختلف ورژن کیوں ہیں ؟اسٹرنگ کا نظریہ کامیابی کے ساتھ کوانٹم نظریئے کو قوّت ثقل کے ساتھ یکجا کر سکتا ہے ، تاہم اس کام کو کرنے کے پانچ مختلف راستے ہیں جس میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کافی شرمندگی کی بات ہے کیونکہ زیادہ تر طبیعیات دان "ہر شئے کے نظریئے "کو واحد اور منفرد چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن اس بات کو جاننا چاہتا تھا کہ "خدا کے پاس کائنات کو بنانے کے لئے کتنا اختیار تھا۔ ” اس کا یقین تھا کہ وحدتی ہر شئے کا نظریئے کو بالکل منفرد ہونا چاہئے۔ لہٰذا پھر پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے کیوں موجود ہیں ؟

١٩٩٤ء میں طبیعیات کی دنیا میں ایک اور بم اس وقت گرا جب پرنسٹن انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن (Edward Witten) اور کیمبرج یونیورسٹی کے پال ٹاؤنسینڈ (Paul Townsend) نے اس بات کی پیش گوئی کی کہ پانچوں اسٹرنگ حقیقت میں ایک ہی ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہم اس میں ایک گیارہویں جہت کا اضافہ کر دیں۔ گیارہویں جہت سے دیکھنے پر پانچوں کے پانچ اسٹرنگ کے نظریئے ڈھے کر ایک ہو جائیں گے ! نظریہ کافی منفرد تھا لیکن یہ صرف اس وقت کام کرتا ہے جب ہم گیارہویں جہت کی پہاڑی پر چڑھ کر اس کو دیکھتے۔

گیارہویں جہت میں ایک نیا ریاضیاتی جسم وجود رکھ سکتا تھا جس کو "جھلی” کہتے ہیں (جیسا کہ کسی بھی کرہ کی سطح ہوتی ہے ) ۔ ایک شاندار مشاہدہ یہ تھا : اگر کوئی گیارہویں جہت سے نیچے دسویں جہت پر اترے ، تو تمام پانچوں اسٹرنگ کے نظریئے مل کر ایک نئی جھلی بن کر نمودار ہوں گے۔

(اس بات کو سمجھنے کے لئے ، ایک رنگین پٹی والی گیند کا تصوّر کریں جس کے استواء پر ایک ربڑ بینڈ لگا ہو گا ہے۔ تصوّر کریں کہ قینچی لے کر آپ نے گیند دو حصّوں میں تقسیم کر دی ہے ایک ربڑ بینڈ کے اوپر کا حصّہ ہے جبکہ دوسرا ربڑ بینڈ کے نیچے کا حصّہ ہے۔ گیند کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کے بعد ربڑ بینڈ ہی باقی بچتا ہے جو کہ ایک اسٹرنگ ہے۔ بالکل اسی طرح سے ہم اگر گیارہویں جہت کو موڑیں تو جو باقی بچے گی وہ صرف استواء کے گرد ایک جھلی ہی ہو گی جو کہ ایک اسٹرنگ ہو گی۔ ریاضیاتی طور پر ایسے پانچ طریقے ہیں جس میں اس گیند کو اس طرح سے کاٹا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے ملتے ہیں جن کی دس جہتیں ہوتی ہیں۔ )

گیارہویں جہت ہمیں ایک نئی تصویر دکھاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کائنات بذات خود ایک جھلی ہو، جو مکان و زمان کی گیارہویں جہت میں تیر رہی ہو۔ مزید براں یہ کہ تمام جہتوں کو چھوٹا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت میں ان میں سے کچھ جہتیں ہو سکتا ہے کہ لامتناہی ہوں۔ اس امر کی وجہ سے اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہماری کائنات لامحدود کثیر کائناتوں میں سے ایک ہو۔ ایک وسیع تیرتے ہوئے شوربے میں یا جھلی میں بنتے بلبلوں کا تصوّر کریں۔ شوربے کا ہر بلبلہ ایک پوری کائنات کی نمائندگی کرتا ہے جو بلند خلاء میں گیارہویں جہت میں تیر رہی ہے۔ یہ بلبلے دوسرے بلبلوں سے بھی مل سکتے ہیں یا ایک بلبلہ دو حصّوں میں بھی تقسیم ہو سکتا ہے مزید یہ کہ کوئی بھی بلبلہ عدم سے بھی وجود میں آ سکتا ہے اور وجود سے فنا بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم ان بلبلی کائناتوں میں سے کسی ایک کی سطح پر رہ رہے ہوں۔

ایم آئی ٹی کے میکس ٹیگ مارک (Max Tegmark) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ "٥٠ برسوں میں متوازی کائناتوں کا وجود کوئی متنازع بات نہیں ہو گی بعینہ جیسے کہ دوسری کہکشائیں وجود رکھتی ہیں – اور آج سے ١٠٠ برس پہلے ان کو جزیرہ نما کائنات کہتے تھے۔ ”

اسٹرنگ کا نظریئے کتنی کائناتوں کے موجود ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ اسٹرنگ نظریئے کی ایک اور پریشان کن خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مطابق کھرب ہا کھرب کائناتوں کا وجود ممکن ہے جس میں سے ہر ایک اضافیت اور کوانٹم نظریئے سے مطابقت رکھتی ہو گی۔ ایک اندازے کا مطابق ممکنہ طور پر ایک گوگول (ایک کے بعد ١٠٠ صفر ) کائناتیں موجود ہوں۔

عام طور پر ان کائناتوں میں اپس میں رابطہ ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے جوہر ان مکھیوں کی طرح سے ایک جال میں قید ہیں۔ جہاں ہم تین جہتوں میں اپنی جھلی والی کائنات میں تو آسانی کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں مگر ہم اضافی خلاء میں موجود کائنات میں چھلانگ نہیں لگا سکتے ، کیونکہ ہم اپنی کائنات میں چپکے ہوئے ہیں۔ مگر قوّت ثقل، مکان و زمان کو خم دیتی ہوئی آزادی سے کائناتوں کے درمیان موجود خلاء میں تیر سکتی ہے۔

حقیقت میں ایک نظریہ ایسا ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ تاریک مادّہ – جو ایک غیر مرئی مادّے کی شکل ہے اور کہکشاؤں کے گرد موجود رہتا ہے ، ممکنہ طور پر ان متوازی کائناتوں میں پایا جانے والا عام مادّہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ایچ جی۔ ویلز کے ناول "دی انویزیبل مین ” میں ایک شخص اس وقت غائب ہو جاتا ہے جب وہ چوتھی جہت میں ہم سے اوپر تیرتا ہے۔ دو متوازی کاغذ کے ٹکڑوں کا تصوّر کریں جس میں سے ایک دوسرے کے اوپر تیر رہا ہو۔

بعینہ ایسے اس بات کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی ایک عام کہکشاں ہو سکتی ہے جو ہماری کائنات کے اوپر کسی دوسری کائنات کی جھلی پر تیر رہی ہو۔ ہم اس کہکشاں کی قوّت ثقل کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ قوّت ثقل ان کائناتوں میں سے گزر سکتی ہے تاہم دوسری کہکشاں ہمارے لئے غیر مرئی ہو گی کیونکہ روشنی اس کہکشاں کے نیچے ہی حرکت کرے گی۔ اس طرح سے کہکشاں میں قوّت ثقل تو ہو گی لیکن وہ غیر مرئی ہو گی جو تاریک مادّے کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ (ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ تاریک مادّہ بھی شاید کوئی سپر اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ ہو۔ ہر وہ چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں جیسا کہ جوہر اور روشنی کچھ اور نہیں بلکہ سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ ہی ہے۔ تاریک مادّہ ایک نئی اضافی تھرتھراہٹ کا جوڑا ہو سکتا ہے۔

یقین کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر متوازی کائناتیں مردہ ہوں گی، بغیر شکل و صورت کی ذیلی جوہری ذرّات جیسا کہ الیکٹران اور نیوٹرینو پر مشتمل گیس پر ہوں گی۔ ان کائناتوں میں شاید پروٹون غیر قیام پذیر ہوں گے ، لہٰذا اس میں موجود تمام مادّہ آہستگی کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتا ہوا تحلیل ہو جائے گا۔ جوہروں اور سالموں پر مشتمل پیچیدہ مادّے شاید ان کائناتوں میں بننے ممکن نہ ہوں۔

ممکن ہے کہ دوسری متوازی کائناتیں اس کا بالکل ہی متضاد ہوں، جہاں ہمارے تصوّر سے بھی زیادہ پیچیدہ مادّے کی اقسام موجود ہوں۔ بجائے ایک قسم کے جوہروں کے جو صرف الیکٹران، نیوٹران اور پروٹون سے مل کر بنے ہوں ہو سکتا ہے کہ وہاں  آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے دوسرے اقسام کے مادّے موجود ہوں۔

یہ جھلی والی کائناتیں ممکنہ طور پر ایک دوسرے سے متصادم ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں کائناتی آتش بازی جنم لے سکتی ہے۔ پرنسٹن میں موجود کچھ طبیعیات دان یہ مانتے ہیں کہ شاید ہماری کائنات کا آغاز اس ساعت میں ہوا ہے جب آج سے ١٣ ارب ٧٠ کروڑ سال پہلے دو دیوہیکل جھلیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہوں۔ ان کے مطابق اس ٹکر میں پیدا ہونے والی صدماتی موجوں نے ہماری کائنات کی تشکیل کی۔ حیرت انگیز طور پر جب اس خیال کے تجزیوں کی چھان پھٹک کی گئی تو بظاہر طور پر حاصل ہونے والے نتائج ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ، سے حاصل کردہ نتیجوں سے میل کھا گئے۔ (اس کو "عظیم منتشری "نظریئے کہتے ہیں۔ )

 

کثیر کائناتوں کے نظریئے میں صرف ایک چیز اس کی موافقت میں جاتی ہے۔ جب ہم قدرتی مستقلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی درستگی کے ساتھ زیست کو پنپنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ تاہم ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ستارے بہت ہی جلد اپنا ایندھن پھونک دیں گے جس کے نتیجے میں حیات پروان نہیں چڑھ سکے گی۔ اگر ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت میں تھوڑی سی کمی کر دیں تو ستارے کبھی بھی جل نہیں پائیں گے۔ جس کے نتیجے میں حیات تو وجود ہی نہیں پا سکتی۔ اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ہماری کائنات ایک عظیم چرمراہٹ کی صورت میں جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو کم کر دیں  تو کائنات تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک عظیم انجماد کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ حقیقت میں حادثوں کی حدیں موجود ہیں جو ان مستقلات کا تعین کرتی ہے جو زیست کو پروان چڑھانے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ بظاہر طور پر ہماری کائنات ایک گولڈی لاکس زون میں موجود ہے جہاں پر کئی مقدار معلوم اس قدر موزوں اور متوازن ہیں جنہوں نے حیات کی شروعات کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ لہٰذا ہمارے پاس دو صورتیں بچتی ہیں۔ یا تو کسی قسم کا خالق موجود  ہے جس نے ہماری کائنات کو انتہائی موزوں و متوازن بنایا تا کہ یہاں پر حیات پروان چڑھ سکے یا پھر ارب ہا متوازی کائناتیں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر مردہ ہیں۔ جیسا کہ فری مین ڈیسن نے کہا تھا، "ایسا لگتا ہے کہ کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آرہے ہیں۔ ”

کیمبرج یونیورسٹی کے سر مارٹن ریس لکھتے ہیں کہ اس قدر درستگی کا مطلب کثیر کائناتوں کے وجود کی اثبات کی دلالت کر دینے والے ثبوت ہیں۔ پانچ طبیعی مستقلات ہیں (جیسا کہ مختلف قوّتوں کی طاقتوں کی قیمتیں ) جو اس قدر درستگی کے ساتھ موجود ہیں جن کی وجہ سے زیست کا پروان چڑھنا ممکن ہوا ہے ، اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لاتعداد کائناتیں ایسی ہیں جس میں قدرتی مستقلات حیات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

یہ خود ساختہ "بشری اصول "ہے۔ کمزور نقطۂ نظر سادے طور پر یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات اس حد در درستگی کے ساتھ بنی ہے کہ حیات یہاں پھل پھول سکے (اس بات کا سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہی ہے کہ ہم اس بات کو کہنے کے لئے یہاں پر موجود ہیں ) ۔ مضبوط نظریئے کے مطابق ممکن ہے کہ ہمارا وجود کسی مقصد یا ڈیزائن کی ضمنی پیداوار ہو۔ زیادہ تر ماہرین تکوینیات کمزور بشری اصول کے حامی ہیں تاہم اب بھی بحث جاری ہے کہ آیا بشری اصول، سائنس کا کوئی نیا اصول ہے جو ہمیں نئی دریافتوں اور نتائج کی طرف لے جا سکتا ہے۔

 

                کوانٹم نظریہ

 

بلند جہتوں اور کثیر کائناتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات کی قسم ہے ، ایک ایسی کائنات جس نے آئن سٹائن کے سر میں درد کیا ہوا تھا اور جس نے اب بھی مسلسل طبیعیات دانوں کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ کوانٹم کائنات ہے جس کو عام کوانٹم میکانیات نے پیش کیا ہے۔ کوانٹم کے نظریئے میں تناقضات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین اس جملے کی تکرار بہت شوق سے کرتے تھے کہ کسی نے بھی کوانٹم کے نظریئے کو صحیح سے نہیں سمجھا۔

حیرت انگیز طور پر اگرچہ کوانٹم کا نظریہ انسانی دماغ کی طرح سے پیش کیا جانے والا سب سے کامیاب نظریہ ہے (اکثر ١٠ ارب میں سے بقدر ایک حصّے کے اندر درست ہوتی ہے ) تاہم یہ اتفاق، قسمت اور احتمال کی ریت کی دیوار کے اوپر بنا ہوا ہے۔ نیوٹن کے نظریئے کے برخلاف جو قطعیت کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے اجسام کا محل وقوع بیان کرتی ہے ، کوانٹم کا نظریہ صرف امکانات ہی کو بیان کرتی ہے۔ جدید دور کے عجائبات جیسا کہ لیزر، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، سیل فون، ریڈار، خورد موجی بھٹیاں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب کے سب بدلتی ریت کی دیواروں پر ہی بنی ہیں۔

اس معمے کی سب سے بہترین شہرہ آفاق مثال شروڈنگر کی بلی کا مسئلہ ہے (جس کو کوانٹم نظریئے کے بانیوں میں سے ایک نے بنایا تھا، اس مثال کا مقصد تناقض کے طور پر پیش کیا گیا تھا تاکہ اس امکانی تاویل کو پاش پاش کرسکے۔ شروڈ نگر نے اپنے نظریئے کی اس تاویل پر بر انگیختہ ہوتے ہوئے کہا "اگر کسی کو اس کی لعنتی کوانٹم کی چھلانگ پر چپک کر رہنے کا پتا ہوتا تو وہ کبھی ہی اس قسم کی چیز کو پیش نہیں کرتا۔ ”

شروڈ نگر کی بلی کا تناقض کچھ اس طرح سے ہے :ایک بلی ایک بند ڈبے میں موجود ہے۔ اس کے اندر ایک بندوق اس کی طرف تنی ہوئی ہے (اور اس کی لبلبی ایک گائیگر کاؤنٹر سے بندھی ہوئی ہے جو کہ یورینیم کے ٹکڑے کے سامنے ہے ) ۔ عام طور پر یورینیم جب انحطاط پذیر ہو گا تو وہ گائیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دے گا جس کے نتیجے میں بندوق کی لبلبی دب جائے گی اور بلی ختم ہو جائے گی۔ یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے یا نہیں۔ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ یہ قابل ادرک بات ہے۔

مگر کوانٹم کے نظریئے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں جانتے کہ یورینیم انحطاط پذیر ہو گا۔ لہٰذا ہمیں دو امکانات اس میں شامل کرنے پڑیں گے ، ایک انحطاط پذیر جوہر کا موجی تفاعل اور ایک پائیدار جوہر کا موجی تفاعل۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بلی کی حالت کو بیان کرنے کے لئے ہمیں دو حالتیں بتانی ہوں گی۔ بلی نہ تو زندہ ہو گی نہ ہی مردہ۔ وہ ایک زندہ اور مردہ بلی کا مجموعہ ہو گی !

جیسا کہ فینمین نے ایک دفہ لکھا "کوانٹم میکانیات قدرت کو قابل فہم نقطۂ نظر سے دیکھنے پر انتہائی نامعقول بیان کرتے ہیں۔ اور یہ مکمل طور پر تجربات سے ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ اس بات کو قبول کر لیں گے کہ وہ انتہائی مہمل ہے۔ ”

آئنسٹائن اور شروڈ نگر کے نقطہ نگاہ سے یہ بعید از قیاس ہے۔ آئنسٹائن معروضی حقیقت، عام فہم چیز پر یقین رکھتا تھا، نیوٹن کا نقطہ نظر جس میں اشیاء متعین حالت میں موجود ہوتی تھیں اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا جس میں قطعیت کے بجائے مختلف امکانات موجود ہوں۔ اس کے باوجود یہ عجیب و غریب چیز آج جدید تہذیب کے قلب میں موجود ہے۔ اس کے بغیر جدید برقیات (اور ہمارے جسم کے جوہر بھی ) اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی (عام دنیا میں ہم کبھی ہم اس بات کا مذاق کرتے ہیں کہ تھوڑا سے امید سے ہونا ناممکن ہے مگر کوانٹم کی دنیا میں اس سے بھی برا ہے۔ ہم ایک ساتھ ان تمام جسمانی امکانات کے ساتھ وجود رکھتے ہیں:، بغیر حمل کے ، حمل کے ساتھ، ایک بچے ، ایک جوان عورت، ایک نوجوان لڑکی، ایک کام پر جانے والی عورت وغیرہ وغیر ہ ) ۔

اس پریشان کن مسئلے کو کئی طرح سے حل کیا جا سکتا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بانی کوپن ہیگن اسکول مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ ایک دفہ آپ نے ڈبہ کھول دیا تو پھر آپ ناپ کر ہی اندازہلگا سکیں گے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ موجی تفاعل منہدم ہو جائے گا اور عقل اس کی جگہ لے لے گی۔ موج غائب ہو جائے گی اور صرف ذرّات ہی باقی بچے رہ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بلی اپنی قطعی حالت میں موجود ہو گی (زندہ یا مردہ ) اور اب اس کو موجی تفاعل کے ذریعے نہیں بیان کیا جا سکتا۔

ایک نہ نظر آنے والا عجیب سی رکاوٹ جوہروں کی دنیا میں اور انسانوں کی اجمالی دنیاکے درمیان موجود ہے۔ جوہری دنیا میں ہر چیز کو موجی امکان سے بیان کیا جاتا ہے جہاں پر جوہر کئی جگہوں پر ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جتنی بڑی موج کسی جگہ پر ہو گی اتنا ہی زیادہ  ذرّے کو وہاں پانے کا امکان ہو گا۔ مگر بڑے اجسام کے لئے یہ موجیں منہدم ہو جائیں گی اور اشیاء ایک متعین حالت میں موجود ہوں گی لہٰذا یہ بات ہماری عقل پر پوری اترتی ہے۔

(جب مہمان آئنسٹائن کے گھر آتے تھے تو وہ چاند کی طرف اشارہ کر کے پوچھتا تھا، "کیا چاند وجود رکھتا ہے کیونکہ ایک چوہا اسے دیکھ رہا ہے ؟” ایک طرح سے ، کوپن ہیگن مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس کا جواب ہاں میں ہی دیں گے۔ )

زیادہ تر پی ایچ ڈی کی طبیعیات کی کتابیں نہایت سختی کے ساتھ کوپن ہیگن مکتبہ فکر کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں مگر کافی محققین طبیعیات نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نینو طرزیات موجود ہیں اور ہم اس قابل ہیں کہ انفرادی جوہروں کو اپنی مرضی سے ادھر ادھر کر سکیں لہٰذا جو جوہر پلک جھپکتے ہی ظاہر و غائب ہوتے ہیں اسکینینگ ٹنلنگ مائیکروسکوپ کی مدد سے اب ہم اپنی مرضی سے ان کو قابو میں کر سکتے ہیں۔ اب کوئی بھی غیر مرئی دیوار خورد بینی دنیا میں اور اجمالی دنیا میں باقی رہی ہے۔ اب ایک تسلسل موجود ہے۔

فی الحال اس بات پر تو کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے جس نے جدید طبیعیات کے قلب پر زبردست وار کیا ہے۔ کانفرنسوں میں کافی نظریئے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ ایک اقلیتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک کونیاتی شعور پوری کائنات میں نفوذ پذیر ہے۔ اشیاء اس وقت وجود میں آتی ہیں جب ان کو ناپا جاتا ہے اور ناپنے والا کوئی باشعور ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا کونیاتی شعور کو ضرور موجود ہونا چاہئے جو کائنات میں سرایت کیا ہوا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ کچھ لوگ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ یوجین ویگنر اس بات سے قائل کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خدا کا وجود کی دلیل ہے یا پھر کسی قسم کے کونیاتی شعور کی۔ (ویگنر نے لکھا، "اصولوں  (کوانٹم کے نظریئے ) کومکمل طور پر وضع دار بنانا کونیاتی شعور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ” حقیقت میں اس نے ہندؤں کی وندانتا کی فلاسفی میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے جہاں پر پر کائنات میں ہر جگہ شعور سرایت کیا ہوا ہے۔ )

تناقض کا ایک اور نقطہ نظر”کثیر جہاں ” ہیں جس کو ہو ایو رٹ نے ١٩٥٧ میں پیش کیا جو کہتا ہے کہ کائنات دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ، ایک حصّہ میں زندہ بلی موجود ہے جبکہ دوسرے حصّے میں ایک مردہ بلی موجود ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا ایک وسیع متوازی کائناتوں کی شاخیں ہر اس وقت بن جائیں گی جب کوئی بھی کوانٹم کا واقع ہو۔ ہر قسم کی کائنات موجود ہو گی۔ جتنی زیادہ کائنات عجیب ہو گی اس کے ہونے کا امکان اسی قدر کم ہو گا مگر ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ایسی کائناتیں تو بہرحال موجود ہوں گی۔ اس بات کا یہ مطلب کہ ایک ایسا جہاں بھی ہو گا جہاں جرمن نازیوں نے جنگ عظیم دوئم جیت لی ہو گی یا ایک ایسی دنیا جہاں ہسپانوی بیڑا کبھی بھی شکست نہیں کھائے گا اور سب لوگ ہسپانوی زبان بول رہے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں موجی تفاعل کبھی بھی نہیں ڈھے گا۔ وہ اپنے راستے پر چلتا رہے گا جس کے نتیجے میں انگنت کائناتیں بنتی رہیں گی۔ جیسا کہ ایم آئی ٹی کے طبیعیات دان ایلن گتھ کہتے ہیں، "ایک ایسی کائنات بھی ہو گی جہاں ایلوس ابھی تک زندہ ہو گا، اور الگور وہاں کا صدر ہو گا۔ "نوبل انعام یافتہ ولکزیک کہتے ہیں، "یہ بات جان کر ہم آسیب زدہ ہو گئے ہیں کہ لامحدود طور تھوڑے سے مختلف ہمارے ہی ہمزار متوازی کائنات میں رہ رہے ہیں اور ہر لمحے مزید ہمزاد پیدا ہوتے جارہے ہیں جن میں سے ہر ایک کا مستقبل الگ ہو گا۔ ”

ایک نقطہ نظر جو طبیعیات دانوں میں آج کل کافی مقبول ہو رہا ہے وہ ہے "ڈی کو ہرنس "ہے۔ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ یہ تمام متوازی کائنات صرف امکان ہیں، مگر ہمارا موجی تفاعل ان سے غیر مربوط ہے (یعنی اب وہ اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہا ) لہٰذا وہ ان کے ساتھ تعامل نہیں کر رہا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے کمرے کے اندر ایک ساتھ ڈائنو سارس، خلائی مخلوق، قزاقوں، جل پریوں کے موجی تفاعل کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ سمجھ رہا ہے کہ ان کی کائنات ہی اصلی ہے مگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ا سٹیو وینبرگ کے مطابق، یہ ایسا ہے کہ جیسے کسی ایک ریڈیو ا سٹیشن کوکسی ملک یا دنیا کے مختلف ریڈیو ا سٹیشنوں میں سے لگائیں۔ مگر آپ ایک وقت میں ایک ہی ریڈیو ا سٹیشن کو لگا سکیں گے۔ وہ دوسرے تمام ریڈیو ا سٹیشن سے غیر مربوط ہو جائے گا۔ (مختصراً وینبرگ کے مطابق "کثیر جہاں کا خیال سوائے دوسرے خیالوں کے ایک انتہائی بیہودہ خیال ہے۔ ")

تو کیا کوئی شیطانی سیارگان کی فیڈریشن کا موجی تفاعل موجود ہے جو کمزور سیاروں کو لوٹ رہا ہے اور اپنے دشمنوں کو ذبح کر رہا ہے ؟ شاید، لیکن اگر ایسا ہوا تو ہم ان کی کائنات سے غیر مربوط ہیں۔

 

                کوانٹم کائنات

 

جب ہو ایو رٹ نے اپنا اس "کثیر جہانوں ” کے نظریئے کو دوسرے طبیعیات دانوں سے بیان کیا تو اسے بے یقینی اور سرد مہری والے انداز ملے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ایک طبیعیات دان برائس ڈ ی وٹ نے اس نظریئے پر یوں معترض ہوا کہ "میں اپنے آپ کو ٹوٹتا ہوا محسوس نہیں کرتا۔ "یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے گلیلیو اپنے ناقدین کو جواب دیتا تھا جو یہ کہتے تھے کہ وہ زمین کو گھومتا ہوا محسوس نہیں کرتے۔ ایو رٹ نے کہا۔ (آخر میں ڈی وٹ، ایو رٹ سے جیت گیا اور اس نظریئے کی مخالفت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ )

کئی عشروں تک "کثیر جہانوں "کا نظریہ گمنامی کے اندھیرے میں لاچار پڑا رہا۔ اس کا سچا ہونا ہماری فہم سے ماوراء تھا۔ جان وہیلر، جو ایورٹ کے پرنسٹن میں مشیر تھے انہوں نے آخر میں نتیجہ اخذ کیا کہ نظریئے کے ساتھ بہت زیادہ بیکار کی چیزیں موجود ہیں۔ اس وقت ایو رٹ کے نظریئے کی اچانک مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طبیعیات دان کوانٹم کے نظریئے کو اس آخری میدان عمل پر اطلاق کرنے کے لئے عمل پیرا ہیں جس نے ابھی تک اس سے کافی مزاحمت کی ہے :یعنی کہ کائنات۔ اصول عدم یقین کا اطلاق پوری کائنات پر کرنے سے آخر میں ہمیں کثیر کائناتوں کی طرف لے ہی جائے گا۔

کوانٹم کائنات کا تصّور پہلی نظر میں ایک تضاد لگتا ہے : کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق تو بے حد چھوٹے ننھے جوہروں کے جہاں پر ہوتا ہے ، جبکہ کونیات تو پوری کائنات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ مگر ذرا اس چیز کو سمجھیں :بگ بینگ کے لمحے ، کائنات ایک الیکٹران سے بھی کافی چھوٹی تھی۔ ہر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہے کہ الیکٹرانوں پر کوانٹم کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی کہ ان کو امکانی موجی مساوات (ڈیرک کی مساوات ) کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے جو متوازی حالت میں ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اگر الیکٹران پر کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق ہوسکتا ہے تو جب کائنات ایک الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی تو اس وقت کائنات کو بھی متوازی حالت میں لازمی موجود ہونا چاہئے – یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو قدرتی طور پر "کثیر جہانوں ” کے مفروضے کی طرف لے جائے گا۔

نیلز بوہر کی کوپن ہیگن کی تاویل کے مطابق جب اس نظریئے کا اطلاق پوری کائنات پرہوتا ہے تو ان کا مختلف مسائل سے سامناہوتا ہے۔ کوپن ہیگن تاویل اگرچہ ہر پی ایچ ڈی کے پروگرام میں پڑھائی جاتی ہے – کوانٹم میکانیات زمین پر ایک ایسے شاہد پر انحصار کرتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں موجی تفاعل منہدم ہو جاتی ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے کا عمل جہاں اکبر کو بیان کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مگر کائنات کے باہر رہ کر کیسے کوئی کائنات کا مشاہدہ کرسکتا ہے ؟ اگر موجی تفاعل کائنات کو بیان کرتا ہے ، تو کیسا ایک باہر کا شاہد کائنات کا موجی تفاعل کو منہدم کر دے گا ؟ حقیقت میں کچھ لوگ کائنات کو اس کے باہر سے دیکھنے میں اپنے آپ کو معذور پاتے ہیں جو کوپن ہیگن تاویل کے لئے ایک مہلک بات ہے۔

"کثیر جہانوں ” کے مفروضے میں اس مسئلہ کا حل سادہ ہے :کائنات کافی متوازی حالتوں میں موجود ہے ، اور یہ تمام حالتیں ایک آقائی موجی تفاعل سے بیان کی گئیں ہیں جس کو "کائناتی موجی تفاعل” کہتے ہیں۔ کوانٹم کونیات میں کائنات کی شروعات خالی جگہ میں کوانٹم کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوئی، یعنی جھاگ میں ایک ننھے بلبلے کی شکل میں۔ مکان و زمان کے جھاگ میں زیادہ تر نوزائیدہ کائناتیں بگ بینگ سے شروع ہوتی ہیں اور ان کا خاتمہ فوراً ہی بگ کرنچ پر ہو جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو کبھی بھی نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وہ انتہائی ننھے ہوتی ہیں اور بہت ہی کم عرصے کے لئے وجود میں آتی ہیں اور خالی جگہ میں ابھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز ان ننھی کائناتوں کے ساتھ ابل نہیں رہی جو وجود میں آتے ہی فنا ہو جاتی ہیں مگر یہ سب کچھ اس قدر صغاری پیمانے پر ہو رہا ہے جس کا سراغ ہمارے آلات لگا نہیں سکتے۔ مگر کسی وجہ سے مکان و زمان کے جھاگ سے ایک بلبلہ بگ کرنچ میں منہدم نہیں ہوا اور اس نے پھیلنا جاری رکھا۔ یہ ہماری کائنات ہے۔ ایلن گتھ کے مطابق پوری کائنات ایک مفت کے کھانے کی طرح ہے۔

کوانٹم کونیات میں، طبیعیات دان شروڈنگر کی مساوات کی مماثلت سے شروع کرتے ہیں جس کا اطلاق الیکٹران اور جوہروں کے موجی تفاعل پر ہوتا ہے۔ وہ ڈیوٹ – وہیلر کی مساوات کا استعمال کرتے ہیں جو کائناتی موجی تفاعل پر لاگو ہوتی ہے۔ عام طور سے شروڈنگر کی موجی تفاعل مکان و زمان کے ہر نقطہ پر بیان کی جا سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں آپ الیکٹران کو مکان و زمان کے کسی بھی نقطہ پر تلاش کرنے کا حساب لگا سکتے ہیں۔

مگر "کائناتی موجی تفاعل” تمام کائناتوں کو بیان کرتا ہے۔ اگر کائناتی موجی تفاعل کسی مخصوص کائنات کو بیان کرتے ہوئے کافی بڑا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات کی کافی امید ہے کہ کائنات اس مخصوص حالت میں موجود ہو گی۔

ہاکنگ اس نقطہ نظر پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ وہ دعوا کرتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے منفرد کائنات ہے۔ ہماری کائنات کا موجی تفاعل کافی بڑا ہے جبکہ دوسری کائناتوں میں یہ صفر کے برابر ہے۔ لہٰذا اس لئے بہت ہی محدود پیمانے پر اس بات کا امکان ہے کہ دوسری کائناتیں کثیر کائناتوں میں وجود رکھ سکتی ہیں مگر ہمارے کائنات کا امکان ان سب میں سب سے زیادہ ہے۔ ہاکنگ نے افراط پذیری کے نظریئے کو اس طرح سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تصّور میں دوسری کائناتوں کے مقابلے میں ایک کائنات جو پھیل گئی ہے وہ ہماری پھیلی ہوئی کائنات ہے۔

یہ نظریہ کہ ہماری کائنات مکان و زمان کے جھاگ سے عدم سے وجود میں آئی ہے شاید ایسا نظریہ لگے جس کو آزمایا نہیں جا سکے مگر یہ بات کافی مشاہدات سے ہم آہنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلے ، کافی طبیعیات دانوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ مثبت اور منفی بار کی کل مقدار ملا کر بالکل صفر ہو جاتی ہے کم از کم تجرباتی درستگی کی حدتک ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات کو بہت ہلکا لیتے ہیں کہ باہری خلاء میں قوّت ثقل کا غلبہ ہے ، یہ اسی وجہ سے ممکن ہو ہے کہ منفی بار اور مثبت بار ایک دوسرے کو زائل کر دیتے ہیں۔ اگر کرۂ ارض پر ذرا سا بھی باروں میں فرق ہوتا تو اس کے نتیجے میں باروں کی قوّت، کشش ثقل پر غالب آجاتی جس نے زمین کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے اور نتیجتاً زمین ریزہ ریزہ ہو جاتی۔ ایک سادہ سا طریقہ اس بات کو بیان کرنے کا یہ ہوسکتا ہے کہ کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی تھی اور عدم پر صفر بار تھا لہٰذا مثبت اور منفی بار میں اس لئے توازن ہے۔

دوسرے ہماری کائنات کا گھماؤ صفر ہے۔ اگرچہ کافی برسوں تک کرٹ گوڈیل اس بات کی کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح سے کہکشاؤں کے گھماؤ کو جمع کر کے کائنات کے گھومنے کو ثابت کر دے ، مگر آج ماہرین فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کو مکمل گھماؤ صفر ہے۔ اس مظاہر تو بھی آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے اور عدم کا گھماؤ صفر ہوتا ہے۔

تیسرے ہماری کائنات کا عدم سے وجود میں آنا اس بات کو بیان کرنے میں بھی مدد ہے کہ کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی مل کر بھی اتنا کم کیوں ہے ، شاید صفر ہو۔ جب ہم مادّے کی مثبت توانائی اور ثقلی قوّت کی منفی توانائی کو جمع کرتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عمومی اضافیت کے نظریئے کے مطابق اگر کائنات بند اور محدود ہے تو کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی بالکل صفر ہو گا۔ (اگر ہماری کائنات کھلی ہوئی اور لامحدود ہے تو ایسا نہیں ہو گا، مگر اس کے باوجود افراط پذیری کا نظریئے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہماری کائنات میں مادّے اور توانائی کی مکمل غیر معمولی طور پر کم ہے۔ )

 

                 کائناتوں کے درمیان رابطے ؟

 

اس نے کچھ وسوسہ انگیز سوالات کا دریچہ کھول دیا ہے : اگر طبیعیات مختلف قسم کی کائناتوں کے وجود کی انکاری نہیں ہوسکتی، تو کیا یہ بات ممکن ہے کہ ان کے درمیان رابطہ بھی ہوسکے ؟ان کا سفر بھی کیا جا سکے ؟ یا یہ بھی ممکن ہے کہ شاید کچھ دوسری کائناتی ہستیوں نے ہماری کائنات کا بھی چکر لگایا ہو ؟

ان کوانٹم کائناتوں سے جن سے ہم غیر مربوط ہیں، ان میں رابطہ ہونا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ دوسری کائناتوں سے غیر مربوط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جوہر ہماری آس پاس کی جگہ کے انگنت جوہروں سے متصادم ہو گئے ہیں۔ جب بھی تصادم ہوتا ہے اس وقت موجی تفاعل منہدم ہو جاتا ہے ، یعنی کہ متوازی کائناتیں کم ہو جاتی ہیں۔ ہر ٹکراؤ امکانات کو کم کر دیتا ہے۔ ان تمام دسیوں کھربوں جوہری "چھوٹی کمی "اس بات کا دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارے جسم کے جوہر مکمل طور پر ایک مخصوص حالت میں ڈھے جاتے ہیں۔ آئنسٹائن کی "معروضی حقیقت "ایک دھوکہ ہے جو اس وجہ سے بنتا ہے کہ ہمارے جسم میں کئی جوہر ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہتے ہیں، ہر تصادم کے نتیجے میں "ممکنہ کائناتوں کی تعداد ” کو کم کر دیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی ہی بات ہے کہ کسی منتشر چیز کو کیمرے کی مدد سے دیکھا جائے۔ یہ جہاں اصغر جیسا ہی ہو گا جہاں پر ہر چیز دھندلی اور لامحدود نظر آئے گی۔ ہر دفعہ جب آپ کیمرے کو کسی چیز پر مرتکز کریں گے اور تصویر بہتر سے بہتر ہوتی چلے جائے گی۔ یہ ان دسیوں کھرب ننھے تصادموں کے موافق ہے جو ان کا اپنے پڑوسی جوہروں کے ساتھ ہو رہا ہے اور ہر تصادم کے نتیجے میں ممکنہ کائناتوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ اس طرح سے ہم آسانی کے ساتھ دھندلے جہاں اصغر سے جہاں اکبر کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہمارا واسطہ دوسری کوانٹم کائنات سے ہو، صفر نہیں ہے ، بلکہ وہ انتہائی تیزی کے ساتھ ہمارے جسموں کے جوہروں کی تعداد کے برابر کم ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے جسم میں دسیوں کھرب جوہر موجود ہوتے ہیں لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہم دوسری کائنات جس میں ڈائنو سارس، یا خلائی مخلوق موجود ہو انتہائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ اس بات کا آسانی سے حساب لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کسی بھی ایسے موقع کو حاصل کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی کہیں زیادہ کی عمر درکار ہو گی۔

لہٰذا کوانٹم کائنات سے رابطہ سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ انتہائی نایاب اور انوکھا واقعہ ہو گا کیونکہ ہم ان سے غیر مربوط ہیں۔ مگر کونیات میں ہم ایک اور قسم کی متوازی کائنات سے ملتے ہیں :ایک کثیر کائناتی دنیا جو دوسری کائناتوں کے ساتھ قائم رہ سکتی ہیں، جس طرح سے صابن کے بلبلے ایک ٹب میں تیرتے ہیں۔ کثیر کائناتی دنیا میں دوسری کائناتوں سے رابطہ ایک دوسرا سوال ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان میں آپس میں رابطہ کرنا ایک کمال کی بات ہو گی مگر شاید یہ تیسری قسم کی تہذیب کے لئے ممکن ہو گا۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے ، کہ مکان و زمان کے جھاگ میں سوراخ کرنے یا اس کو بڑا کرنے کے لئے پلانک توانائی درکار ہو گی جہاں پر تمام معلوم قوانین طبیعیات کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ مکان و زمان اس توانائی پر غیر پائیدار ہو جاتے ہیں اور اس بات سے ہماری کائنات سے باہر نکلنے کا امکان کھلا رہتا ہے۔ (بشرط یہ کہ ہمارے کائنات باقی رہے اور ہم اس عمل میں ہلاک نہ ہو جائیں ) ۔

یہ کوئی خالص علمی سوال نہیں ہے ، کیونکہ کائنات میں موجود تمام حیات کو ایک دن اس بات کا سامنا کرنا ہے کہ ہماری کائنات کا خاتمہ ہو گا۔ کثیر کائناتوں کا نظریہ ہی آخر کار ہماری کائنات میں پائی جانے والی تمام ذہین مخلوق کی مکتی پانے کا ذریعہ بچتا ہے۔ ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد مدار میں چکر لگا رہا ہے اس سے حاصل ہونے والے تازہ اعداد و شمار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کائنات اسراعی شرح سے پھیل رہی ہے۔ ایک دن ہم سب اس واقعہ میں مارے جائیں گے جس کو طبیعیات کی دنیا میں "بگ فریز "کہتے ہیں۔ آخر میں تمام کائنات تاریک ہو جائے گی، کائنات میں موجود تمام ستارے بجھ جائیں گے اور کائنات میں صرف مردہ ستارے ، نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول ہی باقی رہ جائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے جوہر بھی تنزلی کا شکار ہو رہے ہوں گے۔ درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا جس کے نتیجے میں حیات ناممکن ہو جائے گی۔

کائنات جیسے ہی اس نقطہ پر پہنچے گی، کوئی بھی جدید تہذیب جو کائنات کو موت کی جانب رواں ہوتے دیکھے گی لازمی طور پر اپنے بچاؤ کے لئے دوسری کائناتوں کی طرف ہجرت کرسکتی ہے۔ ان ہستیوں کے لئے صرف دو موقع ہوں گے یا تو سرد موت کو قبول کر لیں یا اس کائنات کو چھوڑ دیں۔ قوانین طبیعیات تو تمام ذہین مخلوق کے لئے موت کا پروانہ ہیں، مگر ان قوانین میں بچاؤ کی دفعہ بھی شامل ہے۔

کسی بھی ایسی تہذیب کو دیوہیکل جوہروں کے تصادم گراور نظام شمسی جتنی لیزر کی کرن یا پھر ستاروں کے جھرمٹ کی قوّت کو مرتکز کرنا ہو گا اور ان سے پیدا ہوئی طاقت کو قابو کرنا ہو گا تا کہ پلانک توانائی کو حاصل کیا جا سکے۔ یہ ممکن ہے کہ ایسے کرنے میں اتنی توانائی مل جائے گی جو کسی ثقف کرم یا دوسری کائنات کے کسی قسم کے دروازے کو کھول دے۔ ایک قسم III کی تہذیب ہوسکتا ہے کہ عظیم توانائی کو اپنے اختیار سے استعمال کر کے کوئی ثقف کرم کو کھول سکے تا کہ وہ دوسری کائنات کی طرف گامزن ہو سکے اس طرح سے وہ مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑ کر ایک نئی کائنات میں جا سکے گی جہاں پر وہ اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کرسکے گی۔

 

                تجربہ گاہ میں نوزائیدہ کائنات ؟

 

یہ سننے میں جتنا نامعقول خیال لگے ، مگر اس بات کو طبیعیات دان انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس بات کو سمجھا جا رہا تھا کہ بگ بینگ کیسے شروع ہوا تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ بگ بینگ کیسے شروع ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ بات پوچھنی ہو گی :کہ آپ نوزائیدہ کائنات کیسے تجربہ گاہ میں بنائیں گے ؟ سٹن فورڈ یونیورسٹی کے انڈری لنڈے ، جو افراط پذیر کائنات کے بانیوں میں سے ایک ہیں کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک نوزائیدہ کائنات بنا سکیں، تو "شاید یہ وقت ہو گا جس میں ہم خدا کو دوبارہ سے سمجھ سکیں کہ وہ اس سے کائنات کی تخلیق سے کہیں زیادہ قدرت رکھتا ہے۔ ”

یہ خیال نیا نہیں ہے۔ کسی برسوں پہلے جب طبیعیات دانوں نے اس توانائی کا حساب لگایا جو بگ بینگ کے لئے ضروری تھی "لوگ اس بات کو فوراً ہی سوچنے لگے کہ اگر کافی ساری توانائی کو تجربہ گاہ میں ایک جگہ میں بہت ساری توپوں سے داغا جائے تو کیا ہو گا۔ کیا ہم اتنی توانائی کو مرتکز کر سکیں گے جس کے نتیجے میں بگ بینگ شروع ہو سکے ؟”لینڈ ے پوچھتے ہیں۔

اگر آپ کافی توانائی کو کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں گے تو مکان و زمان منہدم ہوتے ہوئی بلیک ہول کو جنم دیں گے اس سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ مگر ١٩٨١ میں ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور لینڈ ے نے "افراط پذیر کائنات کا نظریہ پیش کیا جس اس وقت سے طبیعیات دانوں کی زبردست دلچسپی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق بگ بینگ ایک بہت ہی زیادہ قوّت والے پھیلاؤ سے شروع ہوا اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ ہم پہلے سمجھتے تھے۔ (افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کونیات کے کافی ضدی مسائل کو حل کر دیا ہے ، جیسا کہ کائنات بڑے پیمانے پر اتنی یکساں کیوں دکھائی دیتی ہے۔ ہر جگہ ہم جہاں سے بھی دیکھیں، آسمان کے ایک کونے سے یہ اس کے دوسرے مخالف کونے سے ، ہمیں کائنات یکساں دکھائی دیتی ہے ، اگرچہ ان وسیع دور ہوتے اجسام میں بگ بینگ کے وقت سے لے کر اب تک زیادہ وقت بھی نہیں گزرا۔ افراط پذیر کائنات کے مطابق اس سوال کہ جواب یہ ہے کہ ایک ننھا مکان و زمان کا حصّہ جو نسبتاً یکساں تھا پھٹ کر ایک دم سے نظر آنے والی کائنات میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ) افراط پذیر کائنات کو شروع کرنے کے لئے گتھ نے اس بات کو فرض کیا کہ وقت کے آغاز میں مکان و زمان کے ننھے بلبلے موجود تھے جس میں سے ایک اس قدر افراط پذیر ہوا کہ وہ آج کی کائنات بن گئی۔

ایک ہی حلے میں افراط پذیر کائنات کے نظریہ نے کافی سارے کونیاتی سوالات کے جواب دے دیئے۔ مزید براں یہ کہ یہ نظریہ ان مشاہداتی اعداد و شمار سے میل کھاتا ہے جو ہمیں خلائے بسیط سے ڈبلیو میپ اور کوبی سیارچوں سے حاصل ہوئے ہیں۔ حقیقت میں بگ بینگ نظریہ کے لئے یہ بغیر شرکت امیدوار ہے۔

اس کے باوجود افراط پذیر کائنات نے ناقابل یقین سوالوں کے سلسلوں کو جنم دیا ہے۔ یہ بلبلہ کیوں پھیلنا شروع ہوا ؟کس چیز نے افراط پذیر کائنات کو روک کر دور حاضر کی کائنات کے قلب میں ڈھالا ؟ افراط پذیر ی اگر ایک دفہ ہوئی ہے تو کیا دوسری دفہ بھی ہوسکتی ہے ؟ حیرت انگیز طور پر اگرچہ افراط پذیر کائنات کا نظریہ کونیات کی دنیا میں سب سے قابل قبول ہے مگر اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا کہ افراط پذیری کو شروع کس نے کیا اور یہ کیوں رک گیا۔

ان پریشان کر دینے والے سوالات کا جواب دینے کے لئے ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور ایڈورڈ فہری نے مزید قیاسی سوالات اٹھائے : کوئی جدید تہذیب کس طرح سے اپنی کائنات کو پھیلا سکتی ہے ؟ ان کو یقین ہے کہ اگر وہ اس سوال کا جواب دینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اور گہرے سولات کے جواب دینے کے قابل ہو سکیں گے جیسے کہ کائنات افراط کے نتیجے میں کیوں شروع ہوئی۔

انہوں نے اس بات کو دریافت کیا کہ اگر آپ کافی زیادہ توانائی کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں تو ننھے مکان و زمان کے بلبلے خود سے پیدا ہونے لگیں گے۔ لیکن اگر بلبلے بہت زیادہ ننھے ہوئے تو وہ مکان و زمان کے جھاگ میں غائب ہو جائیں گے۔ صرف اس صورت میں ہی بلبلے ایک پوری کائنات بن کر پھیلیں گے جب وہ کافی بڑے ہوں گے۔

باہر سے ایسی کسی بھی کائنات کی پیدائش کچھ زیادہ نہیں لگے گی، شاید ایک ٥٠٠ کلو ٹن کے نیوکلیائی طاقت کے بم کے پھٹنے جتنی اس کی توانائی ہو گی۔ وہ صرف ایسے ہی لگے گی کہ جیسے صرف ایک چھوٹا سا بلبلہ کائنات سے غائب ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے ایک چھوٹا سا نیوکلیائی دھماکہ چھوڑ گیا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ بلبلے کے اندر ایک پوری نئی کائنات پھیل رہی ہو۔ صابن کے ان بلبلوں کا سوچیں جو دو بلبلوں یا چھوٹے بلبلوں میں بدل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک نیا بلبلہ بن جاتا ہے۔ چھوٹا بلبلہ ہوسکتا ہے کہ یکدم سے پھیلتی ہوئی کائنات بن جائے۔ اسی طرح سے کائنات کے اندر آپ ایک زبردست دھماکہ مکان و زمان میں دیکھے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک پوری کائنات بن جاتی ہے۔

١٩٨٧ء سے کافی سارے نظریئے تجویز کیئے گئے جس میں یہ دیکھا جائے کہ توانائی کو داخل کر کے کوئی بڑا بلبلا بنا یا جا سکتا ہے جو پوری کائنات میں بدل جائے۔ سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ یہ ہے کہ ایک نیا ذرّہ جس کا نام "انفلا ٹون "ہے وہ مکان و زمان کو غیر پائیدار کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بلبلے بنتے اور پھیلتے ہیں۔

حالیہ تنازع اس وقت ٢٠٠٦ء میں پھوٹ پڑا جب ایک نئی تجویز آئی کہ ایک یک قطبی کے ساتھ ننھی کائنات بنائی جائے۔ اگرچہ یک قطبی جن پر صرف شمالی یا جنوبی قطب موجود ہوں کبھی بھی نہیں دیکھے جا سکے ، پھر بھی اس بات پر یقین رکھا جاتا ہے کہ ان کی حکمرانی شروعاتی کائنات پر تھی۔ وہ اس قدر ضخیم ہوتے ہیں کہ ان کو تجربہ گاہ میں بننا قریب قریب ناممکن ہی ہے ، اور درستگی کے صحت وہ اتنے زیادہ ضخیم ہوتے ہیں کہ اگر ہم مزید توانائی اس یک قطبی میں ڈالیں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ایسی ننھی کائنات کو جگا دیں جو پھیلتی ہوئی نئی حقیقی کائنات میں بدل جائے گی۔ طبیعیات دان کیوں ایک ننھی کائنات بنانا چاہتے ہیں ؟لینڈ ے پوچھتے ہیں، "اس کے مطابق ہم میں سے ہر ایک خدا بن سکتا ہے۔ ” مگر ایک نئی کائنات کو بنانے کی خواہش میں اس سے زیادہ ایک اور عملی توجیہ ہے :اپنی کائنات کی موت سے پہلے اس سے فرار۔

 

                کائنات کا ارتقاء

 

کچھ طبیعیات دانوں نے اس خیال کو یہ پوچھ کر سائنسی قصصی دنیا کی حد تک اور آگے بڑھایا ہے کہ کیا ہماری کائنات کو بنانے میں کوئی شعور کار فرما رہا ہے۔

گتھ / فہری کے مفروضے میں کوئی بھی جدید تہذیب ننھی کائنات کو بنا سکتی ہے مگر طبیعیاتی مستقل (جیسا کہ الیکٹران اور پروٹون کی کمیت اور چاروں قوّتوں کی طاقت ) وہ ہی رہے گی۔ مگر اس وقت کیا ہو گا کہ اگر جدید تہذیب نے ایک ایسی ننھی کائنات بنا لی جو بنیادی مستقلات سے تھوڑا سا ہٹ کر ہوں ؟ تو ننھی کائنات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہو گی، اور ہر نئی کائنات کی نسل پچھلے والی کائنات کی نسل سے مختلف ہو گی۔

اگر ہم بنیادی مستقلات کو کائنات کا ڈی این اے سمجھیں، تو اس کہ مطلب ہو گا کہ ذہین حیات ننھی کائناتوں کو تھوڑے سے مختلف ڈی این اے کے ساتھ بھی بنا سکتی ہوں گی۔ کائنات کا ارتقاء ہو گا اور بچہ خیز کائنات وہ ہو گی جس کا ڈی این اے سب سے بہتر طریقے سے ذہین حیات کو پھلنے پھولنے میں مدد کرے گا۔ طبیعیات دان ایڈورڈ ہیرسن، لی سمولین کے پرانے مفروضہ کو بنیاد بنا کر ایک تجویز کائناتوں کے درمیان "قدرتی چناؤ ” پیش کرتے ہیں۔ وہ کائنات جو کثیر کائناتوں میں اپنا غلبہ رکھتی ہے وہ اس سب سے بہتر ڈی این اے سے بنی ہوتی ہے جو اس تہذیب سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اسے تخلیق کیا ہے جو پھر سے مزید ننھی کائناتیں بنائی گی۔

بقائے اہل کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا بقاء ہو گا جو جدید تہذیب کو پنپنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوسکے گی کہ کائنات کے بنیادی مستقلات حیات کو پروان چڑھانے کے لئے اس قدر درست کیوں ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہو گا کہ وہ کائناتیں جن میں بنیادی مستقلات حیات سے مطابقت رکھتے ہیں وہ ان کثیر کائناتوں میں زیادہ پھلیں اور پھولیں گی۔

(اگرچہ یہ ارتقائی کائناتوں کا خیال پرکشش ہے کیونکہ یہ بشری اصول کے مسئلہ کو حل کرتا ہے ، مگر اس خیال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو جانچا نہیں جا سکتا اور یہ ناقابل تصدیق ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس خیال کو سمجھیں ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک ہمارے پاس ہر چیز کے نظریئے کا نظریہ نہیں آجاتا۔ )

ان متوازی کائناتوں کو ظاہر کرنے کے لئے ابھی تو ہماری طرزیات بہت ہی ابتدائی قسم کی ہیں۔ لہٰذا یہ سب جماعت II میں ہی زمرہ بند ہونے کے اہل ہیں۔ یعنی وہ ناممکنات جو آج تو ناممکن ہیں مگر طبیعیات کے قوانین کے خلاف نہیں ہیں۔ ہزار سے لے کر دسیوں لاکھ سال تک یہ پیشن گوئیاں ہوسکتا ہے کہ تہذیب IIIکی نئی طرزیات کی بنیا د بنیں۔

 

 

 

 

14۔    دائمی حرکی مشین

 

نظریوں کی قبولیت کے چار مراحل ہوتے ہیں :
یہ بالکل بیکار ہے ، فضول ؛
یہ دلچسپ ہے ، مگر ٹھیک نہیں ہے ؛
یہ سچ ہے ، مگر اہم نہیں ہے ؛
میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں۔
 (جے بی ایس ہیلڈ ن، ١٩٦٥ء )

 

آئزک ایسی موف کے کلاسک ناول "دی گاڈ دیم سیلو ز” میں ایک گمنام کیمیا دان حادثاتی طور پر ٢٠٧٠ء میں اپنے وقت کی سب سے عظیم ایجاد کر بیٹھتا ہے ، وہ ایک ایسا الیکٹران پمپ ایجاد کر لیتا ہے جو لامحدود توانائی مفت میں پیدا کرتا ہے۔ اس ایجاد کا اثر فوری اور بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ اس کیمیا دان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس کو تاریخ کا عظیم سائنس دان گردانا جاتا ہے کیونکہ اس نے تہذیب کی توانائی کی پیاس کو بجھایا تھا۔ "وہ پوری دنیا کا سانتا کلاز اور الہ دین کا چراغ تھا۔ "ایسی موف نے لکھا۔ اس کی بنائی ہوئی کمپنی جلد ہی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک بن جاتی ہے جو تیل، گیس، کوئلے اور نیوکلیائی صنعتوں کے کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دیتی ہے۔

دنیا اس مفت کی توانائی کے نشے میں ڈوب جاتی ہے اور تہذیب اس نئی ملنے والی طاقت کے نشے سے سرشار ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کارنامے کی خوشی منانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ صرف ایک اکیلا طبیعیات دان ہی اس بات سے پریشان رہتا ہے۔ "یہ مفت کی توانائی کہاں سے آ رہی ہے ؟” وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ آخر میں وہ یہ راز جان ہی جاتا ہے۔ مفت کی توانائی ایک ہولناک قیمت کے بدلے میں مل رہی ہوتی ہے۔ یہ توانائی خلاء میں ایک سوراخ میں سے آ رہی ہوتی ہے جو ایک متوازی کائنات سے جڑا ہوا ہوتا ہے ، اور پھر اچانک ہی توانائی کا سیلاب ہماری کائنات میں ایک زنجیری عمل شروع کر دیتا ہے۔ نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں تباہ ہو جاتی ہیں اور سورج ایک سپرنووا میں بدل جاتا ہے اور یوں وہ زمین کے ساتھ ہی تباہ ہو جاتا ہے۔

جب سے تاریخ لکھی گئی ہے ، موجدوں، سائنس دانوں کے مقدس جام جبکہ عطائیوں اور دھوکے بازوں کے افسانوں میں” جاودانی حرکی مشین "کا ذکر ملتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو توانائی کو ضائع کئے بغیر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک بہتر ورژن ایک ایسا آلہ بھی ہوتا ہے جو اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے جو وہ استعمال کرتا ہے ، جیسا کہ الیکٹران پمپ تھا، جو مفت کی لامحدود توانائی پیدا کرتا تھا۔

آنے والے وقتوں میں جب ہماری صنعتی دنیا سے بتدریج سستا تیل ختم ہو جائے گا تو صاف توانائی کے وافر ذرائع کو ڈھونڈھنے پر کافی دباؤ ہو گا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، گرتی ہوئی پیداوار، بڑھتی ہوئی آلودگی، ماحولیاتی تبدیلیاں سب کے سب قابل تجدید توانائی کی کھوج میں دلچسپی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج چند موجد اس لہر پر سوار ہو کر لامحدود مفت کی توانائی کی امید دلا رہے ہیں اور اپنی ان ایجادوں کو سینکڑوں لاکھوں کی تعداد میں بیچنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مختلف موجد سامنے آتے رہتے ہیں جو سنسنی خیز دعوے کر کے ذرائع ابلاغ میں اکثر اگلے ایڈیسن کہلاتے ہیں۔

دائمی حرکی مشین کی شہرت چار دانگ پھیلی ہوئی ہے۔ دی سمسنز کی ایک قسط جس کا عنوان "دی پی ٹی اے ڈس بینڈ ” تھا، اس میں لیزا استادوں کی ہڑتال کے دوران اپنی ایک دائمی حرکی مشین بناتی ہے۔ اس وجہ سے ہومر سختی سے اس بات کا اعلان کرتا ہے ، ” لیزا یہاں آؤ۔ ۔ ۔ اس گھر میں ہم حر حرکیات کے قوانین کو مانتے ہیں !”

ایک کمپیوٹر کے کھیل دی سمز، زینو ساگا قسط Iاور II اور الٹیما IV: دی فالس پروفیٹ، میں اور نکلوڈین کے پروگرام "انویڈر زم "، میں دائمی حرکی مشینوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیکن اگر توانائی اتنی قیمتی ہے ، تو پھر اس بات کی کیا امید ہے کہ کوئی دائمی حرکی مشین بنائی جا سکے ؟کیا ایسا آلہ بنانا واقعی ناممکن ہے ، یا ان کے بنانے میں ہمیں طبیعیات کے قوانین پر نظر ثانی کرنا پڑے گی ؟

 

                توانائی تاریخ کے آئینے میں

 

توانائی کسی بھی تہذیب کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ دراصل انسانی تاریخ کو توانائی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٩٩۔ ٩ فیصد انسانی وجود، قدیمی سماج خانہ بدوش تھے ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے خوراک کے لئے شکار کرتے تھے۔ ان کی زندگی وحشیانہ اور مختصر تھی۔ ہمارے پاس جو توانائی اس وقت موجود تھی وہ ایک ہارس پاور کے بیسواں حصّہ تھی یعنی کہ ہمارے پٹھوں کی طاقت۔ ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیوں کے تجزیہ سے زبردست ٹوٹ پھوٹ کے واضح ثبوت ملے ہیں، جو روز مرہ زندگی میں جدوجہد کے نتیجے میں واقع ہوئے تھے۔ اوسط عمر ٢٠ سال سے بھی کم تھی۔

مگر آخری برفانی دور کے خاتمے کے بعد جو دس ہزار سال قبل پہلے ختم ہوا تھا، ہم نے زراعت اور پالتو جانوروں کے طریقوں کو دریافت کر لیا تھا، خاص طور پر گھوڑے کو، جس کے نتیجے میں بتدریج ہماری توانائی ایک ہارس پاور سے دو ہارس پاور تک بڑھ گئی۔ اس سے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انقلاب آنے کی شروعات ہوئی۔ گھوڑے اور بیل سے ایک آدمی کے پاس اتنی توانائی آ جاتی تھی کہ وہ پورے میدان میں حل چلا سکے ، دس میل کا سفر ایک دن میں کر سکے اور سینکڑا ہا پونڈ وزنی چٹانوں یا غلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے۔ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے پاس زائد توانائی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے شہروں کی بنیاد پڑی۔ زائد توانائی کا مطلب تھا کہ سماج فنکاروں، ماہرین تعمیرات اور کاتب نویسوں کو پالنے کے قابل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں قدیمی سماج پھلے پھولے۔ جلد ہی عظیم سلطنتیں اور اہرام جنگلوں سے نمودار ہونے لگے۔ اوسط زندگی ٣٠ سال تک کی ہو گئی۔

اس کے بعد ٣٠٠ برس پہلے انسانی تاریخ میں دوسرا عظیم انقلاب برپا ہوا۔ مشین اور بھاپ کی آمد کے ساتھ ہی ایک انسان کے پاس توانائی کی مقدار دسیوں ہارس پاور تک ہو گئی۔ بھاپ کے انجن کی توانائی کو قابو میں لا کر لوگ اب پورے کے پورے براعظموں کو چند دنوں میں پار کرنے لگے۔ مشینیں اب پورے کے پورے میدانوں میں ہل چلا سکتی تھیں، سینکڑوں لوگوں کو ہزاروں میل کی دوری تک لے جا سکتی تھیں اور ہم اس قابل ہو سکے کہ بلند و بالا عمارتوں والے شہروں کو بنا سکیں۔ انیسویں صدی تک ایک امریکی کی اوسط عمر لگ بھگ ٥٠ برس کے پہنچ گئی تھی۔

آج ہم انسانی تاریخ کے تیسرے عظیم انقلاب یعنی کہ اطلاعاتی انقلاب کے دوراہے پر موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، بجلی اور طاقت کی حرص نے ہماری توانائی کی ضرورت کو آسمان سے باتیں کرنے والا بنا دیا ہے اور ہماری اضافی توانائی بہت ہی قلیل مقدار میں رہ گئی ہے۔ اب کسی بھی فرد کے لئے موجود توانائی کو ہزار ہا ہارس پاور میں ناپا جاتا ہے۔ ہم ایک کار جو ہزار ہا ہارس پاور کی ہوتی ہے اس کو یوں ہی ایک عام سے انداز میں لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ توانائی کی اس بڑھتی ہوئی طلب نے توانائی کے عظیم ذرائع میں دلچسپی کو یکدم بڑھا دیا ہے اور ان ذرائع میں دائمی حرکی مشین بھی شامل ہے۔

 

                دائمی حرکی مشین تاریخ کے آئینے میں

 

دائمی حرکی مشین کی تلاش ایک قدیمی تلاش ہے۔ لکھی ہوئی تاریخ میں سب سے پہلی کوشش دائمی حرکی مشین کو بنانے کی بویریا (Bavaria) میں آٹھویں صدی میں شروع ہوئی۔ یہ اس ابتدائی مشین کا نمونہ تھی جس کی سینکڑوں مختلف قسموں نے آنے والے ایک ہزار برس میں بننا تھا، یہ چھوٹے مقناطیسی سلسلوں پر مبنی تھی جو ایک پہیے سے منسلک تھے جیسا کہ فیرس کا پہیہ (Ferris Wheel) ۔ یہ پہیہ زمین پر رکھے ہوئے ایک بڑے مقناطیس کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی پہیہ پر رکھا ہوا مقناطیس ساکن مقناطیس کے اوپر سے گزرتا تھا، تو پہلے اس کو بڑا مقناطیس کھینچتا تھا اور پھر دفع کرتا تھا، جس کے نتیجے میں پہیے کو دھکا ملتا اور دائمی حرکت پیدا ہوتی۔

ایک اور اختراعی نمونہ ١١٥٠ء میں ہندوستانی فلاسفر بھشکارا نے بنایا، اس نے ایک ایسے ہمیشہ چلنے والے پہیہ کی تجویز پیش کی تھی جس کے بیرونی گھیرے پر وزن کو لگا دیا جائے ، کیونکہ اس طرح سے پہیہ غیر متوازن ہو کر گھومنے لگے گا۔ وزن سے اس طرح سے کام لیا جا سکے کہ وہ چکر کو پیدا کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آ جائے گا۔ بھشکارا کے دعوے کے مطابق اس بات کو دہرا کر کوئی بھی لامحدود کام مفت میں کروا سکتا ہے۔

بویرین اور بھشکارا دونوں کے دائمی حرکی مشین کے نمونوں میں اور ان کے بعد اسی طرح کے کئی اور چیزوں میں ایک چیز قدر مشترک تھی :کسی بھی قسم کا ایک پہیہ جو بغیر کسی توانائی کو خرچ کئے بغیر ایک چکر لگا لیتا تھا اور نتیجے میں فائدہ مند توانائی پیدا کرتا تھا۔ (احتیاط سے ان اختراعی مشینوں کی جانچ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں ہر چکر میں توانائی ضائع ہی ہوتی ہے یا اس سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔ )

نشاط الثانیہ کے دور میں دائمی حرکی مشین کی تجویز میں اسراع پیدا ہوئی۔ ١٦٣٥ء میں سب سے پہلا پیٹنٹ ایک دائمی حرکی مشین کو دیا گیا۔ ١٧١٢ء میں جوہان بیسسلر  (Johann Bessler) نے کچھ تین سو کے قریب مختلف نمونوں کا تجزیہ کیا اور ایک اپنا بھی نمونہ تجویز کیا۔ ( ایک قصّے کے مطابق، اس کی ماسی نے بعد میں اس کی بنائی ہوئی مشین کو دھوکہ ثابت کر دیا تھا۔ ) نشاط الثانیہ کے عظیم مصوّر اور سائنس دان لیونارڈو ڈ ا ونچی بھی دائمی حرکی مشین میں دلچسپی لی تھی۔ اگرچہ اس نے عوام کے سامنے اس کی مخالفت کی تھی، اور اس کا مقابلہ اس فضول تلاش سے کیا تھا جس میں لوگ پارس پتھر کو تلاش کرتے تھے ، اس کے باوجود خلوت میں اس نے بہت ہی اختراعی نوعیت کے خاکے اپنی کتاب میں بنائے ہوئے تھے جس میں خود سے دھکیلنے ، دائمی حرکی مشین ، کے خاکے بھی تھے۔ اس میں ایک مرکز گریز پمپ اور ایک چمنی کا جھنڈا استعمال کر کے بھٹی کے اوپر ایک سیخ خود بخود آ جاتی تھی۔

١٧٧٥ء میں اس قدر نمونے تجویز کیے گئے تھے کہ پیرس کی رائل اکیڈمی آف سائنس کو مجبوراً اس بات کا اعلان کرنا پڑا کہ "وہ دائمی حرکی مشین کا مزید کوئی بھی نمونہ قبول نہیں کرے گی۔ ”

آرتھر او رڈ –ہیوم  (Arthur Ord-Hume) ، جو دائمی حرکی مشین کے ایک مورخ تھے وہ ان انتھک محنت کرنے والے موجدوں کے لاحاصل کام سے بے لوث لگن کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کا موازنہ قدیمی کیمیا دانوں سے کرتے ہیں۔ وہ درج کرتے ہیں "کیمیا دان بھی۔ ۔ ۔ ۔ جانتے تھے کہ ان کو کب ہارنا ہے۔ ”

 

                فریبی اور دھوکے باز

 

دائمی حرکی مشین کا پس پردہ محرک اتنا عظیم تھا کہ چکمے باز اور دھوکے بازوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ ١٨١٣ء میں چارلس ریڈہیفر (Charles Redheffer) نے نیویارک شہر میں ایک ایسی مشین کی نمائش کی جس نے لامحدود توانائی پیدا کر کے تماش بین کو حیران کر دیا تھا۔ (مگر جب رابرٹ فلٹون (Robert Fulton) نے اس مشین کا احتیاط کے ساتھ معائنہ کیا تو اسے ایک مخصوص تار سے بنی ہوئی پٹی، مشین کو چلاتی ہوئی نظر آئی۔ یہ تار ایک چھپے ہوئے آدمی سے جڑی ہوئی تھی جو ایک خمیدہ بالا خانے میں موجود تھا۔ )

سائنس دان اور انجنیئر بھی دائمی حرکی مشین میں غلطاں اور پیچاں تھے۔ ١٨٧٠ء میں سائنٹفک امریکن کے مدیر کو ای پی ولیز (E.P. Willis) نے ایک مشین بنا کر بے وقوف بنا دیا۔ اس رسالے نے اس خبر کو یوں شہ سرخی بنایا  "اب تک کی ہونے والی عظیم دریافت۔ ” کچھ عرصے بعد ہی تفتیش کاروں نے اس بات کو کھوج لیا کہ ایک چھپا ہوا توانائی کا ذریعہ ولیز کی دائمی حرکی مشین میں موجود تھا۔

١٨٧٢ء میں جان ارنسٹ وہریل کیلی  (John Ernst Worrel Kelly)  اس دور کا سب سے سنسنی خیز اور منفعت بخش دھوکا دینے کا مرتکب ہوا، اور فریب سے سرمایہ کاروں کے ٥٠ لاکھ ڈالر ہڑپ کر گیا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر میں ایک ایسی رقم سمجھی جاتی تھی جو بادشاہوں اور شہزادوں کے پاس ہی ہوتی تھی۔ اس کی دائمی حرکی مشین کی بنیاد سر ملائے کانٹوں کی گمگ تھی جو "ایتھر "سے جڑے ہوئے تھے۔ کیلی ایک ایسا شخص تھا جس کو سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اس نے امیر سرمایہ داروں کو اپنے گھر بلایا جہاں پر اس نے انھیں اپنی ہائیڈرو-نیومیٹک -پلسیٹنگ واکو –انجن کو دکھا کر حیران کر دیا جو اپنے گرد بغیر کسی توانائی کے ذرائع سے چلتی تھی۔ مشتاق سرمایہ کار اس خود کار چلنے والی مشین میں سرمایہ لگانے کے لئے بیتاب تھے۔

کچھ عرصے بعد دھوکا کھائے ہوئے غیض و غضب سے بھرے ہوئے سرمایہ داروں نے اس پر الزام لگا دیا اور اس نے کچھ عرصہ جیل میں بھی گزارا۔ بہرحال وہ ایک امیر آدمی کے طور پر ہی مرا۔ اس کے مرنے کے بعد تفتیش کاروں نے اس کی مشین کا چھپا ہوا راز دریافت کر لیا۔ جب اس کے گھر کو گرایا گیا تو مخفی نلکیاں تہ خانے کے فرش اور دیواروں میں پائی گئیں جو خفیہ طریقے سے دبی ہوئی ہوا کو اس کی مشین میں داخل کرتی تھیں۔ ان نلکیوں کو توانائی ایک گھومتے پہلے سے ملتی تھی۔

یو ایس بحریہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر بھی اس مشین سے مرعوب تھے۔ ١٨٨١ء میں جان گیمگی (John Gamgee) نے ایک مائع امونیا سے چلنے والی مشین کو بنایا۔ ٹھنڈی امونیا کی تبخیر پھیلتی ہوئی گیسوں کو پیدا کرتی تھی جو پسٹن کو حرکت دینے میں استعمال کی جاتی تھی اور اس طرح سے صرف سمندروں کی حرارت سے  وہ مشین کو چلاتی تھی۔ یو ایس بحریہ نے غیر محدود توانائی کو اس طرح سے سمندر سے حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہو کر ایک ایسے آلے کو بنانے کی منظوری دے تھی بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ اس کا نظارہ اس وقت کے صدر جیمز گارفیلڈ (James Garfield) کو بھی کروایا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بخارات کثیف ہو کر دوبارہ مائع نہیں بن رہے تھے ، جس کی وجہ سے چکر پورا نہیں ہو پا رہا تھا۔

یو ایس پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے دائمی حرکی مشین کی تجاویز ات کی بہتات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی پیٹنٹ کو اس وقت تک دینے سے انکار کر دیا جب تک اس کا کام کرتا ہوا نمونہ نہیں دکھایا جاتا۔ بہت ہی کم موقعوں پر ایسا ہوتا کہ جب پیٹنٹ کو جانچنے والا کوئی بظاہر غلط چیز اس نمونے کے ساتھ نہیں پاتا تھا تو اس کے بعد ہی اس نمونے کو پیٹنٹ دے دی جاتی تھی۔ پیٹنٹ آفس کہتا ہے "دائمی حرکی مشین کے علاوہ، عام طور سے آفس کو کسی نمونے کی ضرورت نہیں ہوتی جو اس آلے کو چلا کر دکھا سکے۔ ” (اس نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ایمان موجدوں نے سادے سرمایہ کاروں کو خوب بے وقوف بنا کر اپنی ایجادات کے لئے پیسے بٹورے کہ یو ایس پیٹنٹ آفس نے ان کی مشین کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ )

سائنسی نقطہ نظر سے دائمی حرکی مشین کی کھوج بہرحال بیکار نہیں گئی، وقت اور توانائی جو اس قسم کی مشینوں کو بنانے میں استعمال ہوئی اس سے طبیعیات دانوں کو تفصیل کے ساتھ حرارتی انجنوں کی جزئیات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ (بعینہ جیسے کیمیا دانوں کی پارس پتھر کی بے ثمر تلاش نے کیمیا کے کچھ بنیادی قوانین کو دریافت کیا تھا۔ پارس ایک ایسا تصوّراتی پتھر تھا جو سیسے کو سونے میں بدل سکتا تھا) ۔

مثال کے طور پر ١٧٦٠ء میں جان کاکس (John Cox) نے ایک ایسی گھڑی بنائی جو اصل میں ہمیشہ چل سکتی تھی، جس کو توانائی ماحول میں ہونے والی تبدیلی سے ملتی تھی۔ ہوا کے دباؤ میں تبدیلی ایک بیرومیٹر کو چلاتا تھا جو گھڑی کی سوئیوں کو حرکت دیتا تھا۔ گھڑی نے نا صرف حقیقت میں کام کیا بلکہ وہ اب بھی موجود ہے۔ یہ گھڑی ہمیشہ چل سکتی ہے کیونکہ یہ توانائی کو باہری ذریعہ سے یعنی ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلی سے حاصل کرتی ہے۔

کاکس کی دائمی حرکی مشین کی طرح جیسی مشینوں نے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے میں مدد دی کہ ایسی کوئی بھی مشین ہمیشہ چل سکتی ہے بشرط یہ کہ اس میں باہر سے توانائی کو ڈالا جائے یعنی کہ پوری توانائی محفوظ ہو۔ اس نظرئیے نے حر حرکیات کا پہلا اصول مرتب کیا کہ مادّے اور توانائی کی کل مقدار کو پیدا یا فنا نہیں کیا جا سکتا۔ آخرکار حر حرکیات کے تین اصول وضح کر لئے گئے۔ دوسرا اصول اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ناکارگی (بے ترتیبی ) کی کل مقدار ہمیشہ بڑھے گی۔ (یوں سمجھ لیں کہ یہ قانون کہتا ہے کہ حرارت اچانک صرف گرم ترین یا سرد ترین جگہوں سے ہی خود سے اچانک نکلتی ہے۔ ) تیسرا قانون کہتا ہے کہ آپ کبھی بھی مطلق صفر درجہ حرارت تک نہیں پہنچ سکتے۔

اگر ہم کائنات کا مقابلہ ایک کھیل سے کریں اور اس کھیل کا مقصد توانائی کو حاصل کرنا ہو تو ان تین اصولوں کو ایسے بیان کیا جا سکتا ہے :

"آپ کوئی بھی چیز عدم سے حاصل نہیں کر سکتے۔ ” (پہلا اصول )

"آپ اس کو توڑ بھی نہیں سکتے۔ ” (دوسرا اصول )

"آپ کھیل کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ ” (تیسرا اصول )

(طبیعیات دان انتہائی محتاط ہو کر یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق ہر دور میں مطلق طور پر ہو۔ اس بات سے قطع نظر ابھی تک ان سے انحراف نہیں ملا۔ کوئی بھی شخص جو ان قوانین کو رد کرنے کو کوشش کرے گا اس کو صدیوں پر محیط انتہائی احتیاط سے کیے ہوئے تجربات کو باطل ثابت کرنا ہو گا۔ ہم ان قوانین کے ممکنہ انحراف کو تھوڑی ہی دیر میں آگے بیان کریں گے۔ )

یہ قوانین انیسویں صدی کے سائنسی شاہکار ہیں جن پر فتح و المیے کے نشان ثبت ہیں۔ ایک اہم شخصیت جنہوں نے ان قوانین کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا یعنی کہ جرمن طبیعیات دان لوڈ وگ بولٹز مین (Ludwig Boltzmann) نے اپنے ان بنائے ہوئے قوانین کے تنازع کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔

 

                لوڈوگ بولٹزمین اور ناگارگی

 

بولٹزمین ایک پستہ قد، پچکی ہوئی پسلیوں کے ساتھ ایک منحنی سا آدمی تھا جس کی جھاڑ جھنکار جیسی داڑھی تھی۔ اس کی ہیبت ناک اور تندخو شخصیت ان زخموں پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی جو اسے اپنے خیالات و افکار کی حفاظت کرنے میں لگے تھے۔ اگرچہ نیوٹنی طبیعیات اچھی طرح سے انیسویں صدی میں اپنی جڑیں پکڑ چکی تھی، بولٹزمین یہ جانتا تھا کہ ان قوانین کا اطلاق ان متنازعہ جوہروں پر نہیں کر کے دیکھا گیا ہے ، ایک ایسا نظریہ جو کئی چوٹی کے سائنس دانوں کو قابل قبول نہیں تھا۔ (ہم اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ایک صدی قبل تک ہی سائنس دانوں کا ایسا جم عفیر موجود تھا جو اس بات پر بضد تھے کہ جوہر صرف ایک چالاک داؤ ہے اور اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جوہر ناقابل تصوّر طور پر ننھے ہوتے ہیں کہ ان کا وجود ممکنہ طور پر ہو ہی نہیں سکتا۔ )

نیوٹن نے ثابت کیا کہ بد روحیں یا خواہشات نہیں بلکہ اصل میں تو یہ میکانکی قوّتیں ہوتی ہیں جو اجسام کو حرکت دیتی ہیں۔ بولٹزمین نے انتہائی نفاست سے گیسوں کے کئی قوانین کو ایک سادے سے مفروضہ کی بنیاد پر حاصل کیا : گیسیں چھوٹی بلیرڈ کی گیندوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور نیوٹن کے قوانین کے تابع ہوتی ہیں۔ بولٹز مین کے لئے ایک گیس کا خانہ ایسا ہے جو دسیوں کھرب ا سٹیل کی ننھی گیندوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے ، جس میں سے ہر گیند ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس نیوٹن کے قانون حرکت کے تحت پلٹتی ہے۔ طبیعیات کے ایک شاہکار میں، بولٹز مین (اور جیمز کلارک میکسویل نے خود مختار طور پر ) ریاضیاتی طور پر ثابت کیا کہ اس سادے سے مفروضے سے کسی طرح سے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے نئے قوانین اور طبیعیات کی ایک نئی شاخ شماریاتی میکانیات کو تخلیق کیا۔

یکایک مادّے کے کئی خصائص پہلے اصول سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ نیوٹن کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ جوہروں میں ڈالی جانے والی توانائی کا ان میں محفوظ رہنا ضروری ہے ، جوہروں کے ہر تصادم میں توانائی کو محفوظ رہنا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دسیوں کھرب جوہروں پر مشتمل پورا خانہ بھی توانائی کو باقی رکھتا ہے۔ بقائے توانائی کا اصول اب صرف تجرباتی طور سے نہیں بلکہ پہلے ہی اصول کی مدد سے ثابت ہو سکتا ہے یعنی کہ نیوٹنی جوہروں کے قانون حرکت سے۔

تاہم انیسویں صدی میں جوہروں کے وجود پر زبردست بحث چل رہی تھی اور اس کا اکثر جید سائنس دان بھی مذاق اڑا تے پائے جاتے تھے جیسا کہ فلاسفر ارنسٹ میک (Ernst Mach) ۔ بطور حساس اور افسردہ آدمی کے ، بولٹزمین اپنے آپ کو اس تختہ ستم پر بے چین پاتا جس پر اسے اکثر جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والے اپنے بیہودہ حملے کرتے۔ جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والوں کے لئے کسی بھی ایسی چیز کا وجود نہیں ہوتا تھا جس کو ناپا نہ جا سکے اور اس میں جوہر بھی شامل تھے۔ بولٹزمیں کی تذلیل میں اضافے کے لئے ایک ممتاز طبیعیات کے رسالے نے اس کے کئی مقالات کو صرف اس لئے رد کر دیا کیونکہ اس مدیر کی نظر میں جوہر اور سالمات صرف نظری چیزیں تھیں اور حقیقت میں قدرتی طور ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔

 

ذاتی حملوں سے تنگ اور بیزار بولٹزمین نے اپنے آپ کو ١٩٠٦ء میں پھانسی پر اس وقت لٹکا لیا جب اس کی بیوی اور بچہ ساحل پر تھے۔ صد افسوس کے بولٹز مین کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا کہ ایک سال پہلے ہی ایک نڈر اور نوجوان طبیعیات دان جس کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا : اس نے پہلا مقالہ لکھا تھا جس میں اس نے جوہروں کا وجود کو ثابت کر دیا تھا۔

 

                مکمل ناکارگی ہمیشہ بڑھتی ہے

 

بولٹزمین اور دوسرے طبیعیات دانوں کے کام نے دائمی حرکی مشینوں کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں مدد دی، جس کے نتیجے میں ان کو دو اقسام میں بانٹا گیا۔ پہلی قسم کی دائمی حرکی مشینیں وہ ہوتی ہیں جو حر حرکیات کے پہلے قانون سے انحراف کرتی ہیں ؛ یعنی کہ، وہ اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہیں جو وہ صرف کرتی ہیں۔ اس قسم کی ہر مشین کا تجزیہ کرنے کے بعد طبیعیات دانوں کو آخر میں یہ پتا چلتا کہ ایسی مشینیں خفیہ باہری توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتی ہیں، ایسا یا تو دھوکا دینے کی غرض سے کیا جاتا تھا یا پھر موجد اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ توانائی کا ذریعہ باہر کہیں سے آ رہا ہے۔

دوسری قسم کی دائمی حرکی مشینیں کافی لطیف ہوتی ہیں۔ وہ حر حرکیات کے پہلے اصول بقائے توانائی کے تابع ہوتی ہیں، مگر وہ دوسرے قانون سے انحراف کرتی ہیں۔ نظری طور پر دوسری قسم کی دائمی حرکی مشین کسی قسم کی توانائی کو حرارت کی شکل میں ضائع نہیں کرتی لہٰذا وہ سو فیصد کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود دوسرا اصول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسی مشین بنانا بھی ناممکن ہے کیونکہ حرارت پیدا ہو کر ضرور ضائع ہو گی جس کے نتیجے میں کائنات میں افراتفری یا بے ترتیبی یا ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مشین کتنی بھی کارگر ہو وہ ہمیشہ کچھ توانائی کو حرارت کی صورت میں ضائع کرے گی جس کے نتیجے میں کائنات میں ناکارگی میں اضافہ ہو گا۔

ناکارگی کے ہمیشہ بڑھنے کی حقیقت انسانی قلب اور قدرت دونوں کی تاریخ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسرے قانون کی رو سے ، کسی چیز کو تباہ کرنا اس کے بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کو بنانے میں ہزار ہا برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس کو چند ہی مہینوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے مثلاً میکسیکو کی عظیم ازٹیک سلطنت جس کو غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہسپانوی نے ختم کر دیا۔ یہ ہسپانوی گھوڑوں اور آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئے تھے۔

ہر مرتبہ آپ جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ایک نئی جھری یا سفید بال نظر آئے گا اور آپ اس دوسرے اصول کے اثر کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ حیاتیات دان ہمیں بتاتے ہیں کہ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جو خلیوں اور جین میں ہونے والی بتدریج غلطیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، اس طرح سے ہمارے خلیوں کی کارکردگی آہستہ آہستہ متاثر ہوتی رہتی ہے۔ بڑھاپا، زنگ لگنا، سڑنا، زائل ہونا، حصّوں بخروں میں بٹنا، اور منہدم ہونا یہ سب دوسرے اصول کی مثالیں ہیں۔

دوسرے اصول کی عمیق گہرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فلکیات دان آرتھر ایڈڈنگٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا، "ناکارگی کا قانون ہمیشہ بڑھے گا، میں سمجھتا ہوں کہ قدرت کے قوانین کے درمیاں سب سے اہم جگہ اس کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ کا نظریہ حر حرکیات کے دوسرے اصول کے برعکس ہے تو میں آپ کو کسی بھی قسم کی امید نہیں دلا سکتا، اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ ذلت کے گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے۔ ”

آج بھی مہم جو انجنیئر (اور چالاک دھوکے باز ) دائمی حرکی مشین کی ایجادات کے اعلانوں سے باز نہیں آتے۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل نے مجھ سے ایک موجد کے کام کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کہا جس نے حقیقت میں سرمایہ داروں کو دلفریب جال میں پھنسا کر ان کے دسیوں لاکھ ڈالروں کو اپنی مشین میں لگا کر ڈوبو دیا تھا۔ نہ رکنے والے مضامین اہم مالیاتی اخباروں میں شایع ہوئے ہیں جو ان صحافی حضرات نے لکھے ہیں جن کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، جو جذباتی طور پر اس ایجاد کے دنیا کے بدل جانے کے ممکنہ امکانات کو زیر بحث کیے ہوئے ہیں (اور اس عمل کے دوران شاندار منافع بخش کمائی بھی کر لیتے ہیں۔ ) "جوہر قابل یا خبطی ؟” شہ سرخی میں گرجا جاتا ہے۔

سرمایہ دار بے تحاشا پیسا اس آلے میں لگاتے ہیں جو طبیعیات اور کیمیا کے ان بنیادی اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے جو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔ (جو بات میرے لیے صدمے کی ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ ایک شخص کسی غیر محتاط شخص کے پیسے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے – بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ایسی کوششیں تو وقت کے آغاز سے ہی لوگوں نے شروع کر دیں تھیں۔ اصل حیرانگی کی بات یہ ہوتی ہے کہ امیر سرمایہ داروں کو بیوقوف بنانا اس موجد کے لئے اس لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ دار بنیادی طبیعیات کو نہیں جانتے۔ ) میں نے اس جرنل کو تبصرہ دینے کے لئے وہ ہی مثال دہرا دی "جب تک بیوقوف زندہ ہیں تب تک عقل مند مر نہیں سکتا۔ ” اور پی ٹی بارنم (P.T. Barnum) کا مشہور زمانہ ارشاد "ہر لمحہ نا تجربہ کار لوگ پیدا ہو رہے ہیں۔ ” شاید اسی لئے فنانشل ٹائمز، دی اکنامسٹ، اور دی وال اسٹریٹ جرنل سب کے سب پورے کے پورے مضامین ان موجدوں کی ایجادوں پر چھاپتے ہیں جو اپنی دائمی حرکی مشینوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔

 

                تین قوانین اور تشاکل

 

مفصلہ بالا تمام باتوں نے اور گہرے سوالات کو جنم دیا ہے : حر حرکیات کے قانون کیوں اتنی سختی سے قائم ہیں ؟ یہ ایک ایسا راز ہے جس نے سائنس دانوں کو ان قوانین کے پیش کئے جانے کے وقت سے ہی متحیر کیا ہوا ہے۔ اگر ہم اس سوال کا جواب دے سکیں، تو شاید ہم ان قوانین میں کوئی سقم نکال سکیں جس کے اثرات زمین کو ہلا دینے والے ہوں۔

ایک دن میں کالج میں اس وقت گنگ ہو گیا جب میں نے بالآخر بقائے توانائی کا اصلی ماخذ جان لیا۔ طبیعیات کا ایک بنیادی اصول (جس کو ریاضی دان ایمی نویتھر[Emmy Noether] نے ١٩١٨ء میں دریافت کیا تھا ) یہ ہے کہ جب بھی کوئی نظام متشاکل ہو گا تو اس کا نتیجہ بقائے توانائی ہو گا۔ اگر کائنات کے قوانین وقتوں سے ایک جیسے چلے آ رہے ہیں تو اس کا نتیجہ حیران کن طور پر یہ نکلتا ہے کہ نظام بقائے توانائی کے اصول پر کاربند ہے۔ (مزید براں، اگر طبیعیات کے قوانین بھی ایک جیسے ہیں تو آپ کسی بھی سمت میں حرکت کریں، تو آپ کا معیار حرکت اس سمت میں محفوظ رہے گا۔ اور اگر قوانین طبیعیات گردش کے وقت ایک جیسے ہی رہیں گے ، تو زاویائی حرکت بھی باقی رہے گی۔ )

یہ میرے لئے ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ میں یہ بات جان گیا کہ جب ہم دور دراز کہکشاؤں سے آتی ہوئی روشنی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس روشنی کا طیف بھی بالکل ویسا ہی پاتے ہیں جیسا کہ زمین پر روشنی کا طیف ہوتا ہے۔ ہرچند کے یہ کہکشائیں ہم سے ارب ہا نوری برس دور کائنات کی آخری سرحدوں پر واقع ہیں۔ روشنی کی وہ بچی ہوئی مقدار جو ارب ہا برسوں پہلے زمین و سورج ہونے کے پیدا ہونے سے بھی پہلے خارج ہوئی تھی، اس سے ہم بعینہ ہائیڈروجن، ہیلیئم، کاربن، نیون اور اس طرح دوسرے کے طیف کو پاتے ہیں جو آج ہمیں زمین پر نظر آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، بنیادی قوانین طبیعیات شاید ارب ہا برس گزرنے کے بعد بھی نہیں تبدیل ہوئے ہیں اور وہ کائنات کی آخری سرحد پر بھی ویسے ہی مستقل ہیں۔

کم از کم میں نے یہ سمجھا، نویتھر کے نظرئیے کا مطلب یہ ہے کہ بقائے توانائی چاہئے ابدی نہ ہو پر ارب ہا سال تک تو قائم رہ سکے گی۔ جتنا ہم اب تک جان سکے ہیں اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طبیعیات کے قوانین وقت کے ساتھ نہیں بدلے اور بقائے توانائی کی وجہ بھی یہی ہے۔

نویتھر کے نظرئیے کے اثرات جدید طبیعت پر نہایت ہی عمیق پڑے ہیں۔ جب بھی طبیعیات دان ایک نیا نظریہ پیش کرتے ہیں چاہئے وہ کائنات کی ابتداء ، کوارک اور ذیلی جوہری ذرّات کے آپس میں تعاملات یا ضد مادّہ کے بارے میں ہو، ہم شروع ہی اس تشاکل سے کرتے ہیں جو نظام کے تابع ہو۔ درحقیقت متشاکلات ہی وہ بنیادی چیز ہیں جو کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ ماضی میں، تشاکل کسی بھی نظرئیے کی ضمنی پیداوار سمجھی جاتی تھیں -ایک اچھی مگر نظرئیے کا بیکار حصّہ، خوبصورت مگر غیر ضروری۔ آج ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ تشاکل کسی بھی نظرئیے کو بیان کرنے کا انتہائی لازمی حصّہ ہیں۔ کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے کے لئے ہم طبیعیات دان شروع ہی تشاکل سے کرتے ہیں اور پھر اس کے گرد ایک نظرئیے بناتے ہیں۔

(صد افسوس کہ ایمی نویتھر کو بھی اپنے سے پہلے گزرنے والے بولٹزمین ہی کی طرح اپنی پہچان بنانے کے لئے لڑنا پڑا۔ ایک خاتون ریاضی دان ہونے کے ناتے اس کو صرف اپنی جنس کی وجہ سے کسی بھی ممتاز ادارے میں ایک بہتر مقام دینے سے انکار کر دیا گیا۔ نویتھر کا استاد، ایک عظیم ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hibert) ، نویتھر کو تدریسی ملازمت دلوانے پر ناکامی سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ وہ چیخ پڑا، "ہم آخر کیا چیز ہیں، کوئی جامعہ یا پھر کوئی غسلی سماج ؟”)

مفصلہ بالا گفتگو انتہائی پریشان کن سوال اٹھاتی ہے۔ اگر بقائے توانائی اس لئے ہے کہ قوانین طبیعیات وقت کے ساتھ نہیں بدلے تو کیا اس تشاکل کو غیر معمولی صورتحال میں کبھی توڑا جا سکتا ہے۔ کائناتی پیمانے پر اب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ بقائے توانائی کے اصول کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ اگر ہمارے قوانین کی تشاکل کسی اجنبی اور غیر متوقع جگہ پر ٹوٹ جائے تو کیا ہو گا۔ ایسا ہونے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین وقت یا فاصلے کے ساتھ تبدیل ہوں۔ (ایسی موف کے ناول "دی گاڈ دیم سیلفز ” میں یہ تشاکل اس لئے ٹوٹا تھا کہ خلاء میں ایک سوراخ ہو گیا تھا جس نے ہمیں ایک دوسری متوازی کائنات سے جوڑ دیا تھا۔ طبیعیات کے قوانین خلاء میں سوراخ کے آس پاس تبدیل ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں حر حرکیات کے قوانین کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ لہٰذا بقائے توانائی کے اصول کو اسی صورت میں توڑا جا سکتا ہے جب خلاء میں کوئی سوراخ ہو جیسا کہ ثقف کرم (وارم ہول) ۔

ایک اور سقم جس پر آج کل گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں وہ یہ ہے کہ کیا توانائی عدم سے پیدا ہو سکتی ہے۔

 

                خلاء سے توانائی ؟

 

ایک سنسی خیز سوال :کیا یہ ممکن ہے کہ توانائی کو عدم سے حاصل کیا جا سکے ؟ حال میں ہی طبیعیات دانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خلاء کا "عدم ” بالکل خالی نہیں ہے اس میں بھی مختلف عمل جاری ہیں۔

اس خیال کے حامی بیسویں صدی کے ایک کج رو اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)  ہیں  جو تھامس ایڈیسن کے حریف تھے۔ وہ بھی نقطہ صفر توانائی کے حامیوں میں سے تھے یعنی کہ خالی خلاء ناقابل بیان توانائی رکھتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو خالی جگہ ہمارے لئے وہ آخری جگہ ہو گی جو ہمیں ہوا سے لامحدود توانائی نکال کر دے گی۔ خالی خلاء جو کسی بھی مادّے کے بغیر خالی سمجھی جاتی ہے وہ توانائی کو محفوظ رکھنے کی سب سے بہترین جگہ ہو گی۔

ٹیسلا ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا جو اب سربیا کا حصّہ ہے اور ریاست متحدہ میں پنیلیس میں ١٨٨٤ء میں آیا۔ جلد ہی وہ تھامس ایڈیسن کا معاون بن گیا مگر اس کی ذہانت نے اس کو ایڈیسن کا حریف بنا دیا۔ مورخوں کے مطابق اس شہرہ آفاق مقابلے میں ٹیسلا کو داغدار کر دیا گیا تھا جس کو وہ "برقی رو کی جنگ ” کہتے ہیں۔ ایڈیسن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وہ دنیا کو اپنے "راست رو موٹروں ” سے برقا دے گا جبکہ ٹیسلا "متبادل رو ” کو پہچانے والا تھا اور اس نے کامیابی کے ساتھ اس بات کو ثابت بھی کیا کہ اس کا طریقہ ایڈیسن کے طریقے سے کہیں زیادہ بہتر تھا اور اول الذکر طریقے کے مقابلے میں طویل فاصلے پر کہیں کم رو کو ضائع کرتا تھا۔ آج پورا سیارہ ٹیسلا کے پیٹنٹ سے برقا رہا ہے ایڈیسن کے ایجاد کیے ہوئے طریقے سے نہیں۔

ٹیسلا کی ایجادات اور پیٹنٹ سات سو سے زائد ہیں اور اس میں سے کچھ تو ایسی ہیں کہ وہ جدید برقیات کی دنیا میں اہم سنگ میل ثابت ہوئیں۔ مورخوں نے با وثوق طور پر اس بات کے ثبوت حاصل کیے ہیں کہ ٹیسلا نے نہ صرف گگلیلمو مارکونی ([Guglielmo Marconi] جس کو ریڈیو کا موجد مانا جاتا ہے ) سے کہیں پہلے ریڈیو ایجاد کر لیا تھا بلکہ وہ ایکس ریز پر اس کے با ضابطہ طور پرویلہلم روینٹ جین (Wilhelm Roentgen) کے دریافت کرنے سے پہلے اس پر کام کر رہا تھا۔ (مارکونی اور روینٹ جین دونوں نے بعد میں شاید ان دریافتوں پر نوبل انعام حاصل کیا جو ٹیسلا ان سے پہلے دریافت کر چکا تھا۔ )

ٹیسلا اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ وہ لامحدود توانائی کو خلاء میں سے نکال سکتا ہے ، بدقسمتی سے یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت وہ اپنی نوٹ بک میں درج نہیں کر سکا۔ شروع میں "نقطہ صفر توانائی” حرحرکیات کے پہلے قانون سے متصادم ہوتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ نقطہ صفر توانائی نیوٹنی میکانیات سے میل نہیں کھاتی نظر آتی، نقطہ صفر توانائی کا تصوّر حال ہی میں دوبارہ ایک نئی سمت سے نمودار ہوا ہے۔

جب سائنس دانوں نے حال ہی میں خلاء میں بھیجے جانے والے زمین کے گرد چکر لگانے والے مصنوعی سیارچوں جیسا کہ ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو وہ اس حیرت انگیز نتیجے پر پہنچے کہ ٧٣ فیصد کائنات تاریک مادّے سے بنی ہوئی ہے ، وہ توانائی جو خالص خلاء کی توانائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام کائنات میں سب سے عظیم توانائی کا ذخیرہ اس خالی جگہ میں ہے جس نے کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہوا ہے۔ (یہ تاریک توانائی سی قدر جسیم ہے کہ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں کائنات ٹوٹ کر بکھر کر ایک عظیم انجماد میں ختم ہو جائے گی۔ )

تاریک توانائی کائنات میں ہر جگہ موجود ہے یہاں تک کہ یہ اس کمرے میں جس میں آپ بیٹھے ہیں بلکہ آپ کے جسم میں بھی یہ موجود ہے۔ تاریک توانائی کی مقدار خلاء میں حقیقی طور پر فلکیاتی ہے جس نے اس تمام توانائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کائنات میں موجود ان تمام کہکشاؤں اور ستاروں میں موجود ہے۔ ہم زمین پر بھی تاریک توانائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کافی کم مقدار میں ہے۔ یہ اس قدر کم مقدار میں ہے کہ اس کو دائمی حرکی مشین میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیسلا تاریک توانائی کے بارے میں تو درست تھا مگر زمین پر موجود تاریک توانائی کے بارے میں اس کا اندازہ غلط تھا۔

 

                کیا واقعی وہ غلط تھا؟

 

جدید طبیعیات کی ایک الجھا دینے والی خلیج یہ ہے کہ کوئی بھی تاریک توانائی کی مقدار کا حساب نہیں لگا سکتا جس کو ہم اپنے مصنوعی سیارچوں سے ناپ سکتے ہیں۔ اگر ہم جوہری طبیعیات کے تازہ نظرئیے کا استعمال کرتے ہوئے کائنات میں تاریک مادّے کی مقدار کا اندازہ لگائیں ، تو ہم ایک ایسے عدد پر پہنچ سکتے ہیں جو ١٠١٢٠ سے زیادہ غلط ہو سکتی ہے ! یعنی کہ ایک کے بعد ١٢٠ صفر ! نظرئیے اور تجربے کا یہ فرق دنیائے طبیعیات میں اب تک کا حاصل ہونے والے تفاوتوں میں سب سے بڑا فرق ہے۔

نقطہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ "عدم کی توانائی "کو کیسے ناپا جائے۔ طبیعیات میں یہ ایک سب سے اہم سوال ہے (کیونکہ بالآخر اسے ہی کائنات کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے ) ، مگر دور حاضر میں ہم اسے ناپنے سے مجبور ہیں۔ کوئی بھی نظریہ تاریک توانائی کو بیان نہیں کرتا، اگرچہ تجرباتی ثبوت اس کی موجودگی کے احساس دلاتے ہوئے ہمیں گھور رہے ہیں۔

لہٰذا خالی جگہ میں بھی توانائی موجود ہوتی ہے جیسا کہ ٹیسلا کو شک تھا۔ مگر شاید یہ توانائی اس قدر کم ہو گی کہ اس کو قابل استعمال توانائی کے طور پر کام میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ہرچند کہ کہکشاؤں کے درمیان تاریک توانائی کی بہت وسیع مقدار موجود ہے ، تاہم زمین پر پائی جانے والی مقدار بہت ہی کم ہے۔ مگر الجھا دینے والی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ اس توانائی کو کیسے ناپا جائے یا یہ کہاں سے آئی ہے۔

میرا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ بقائے توانائی گہری کائناتی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس قانون سے ذرا سا بھی انحراف ملنے کا مطلب ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں بہت ہی عمیق تبدیلی ہو گی۔ اور تاریک توانائی کے اسرار نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس سوال سے دو بدو مقابلہ کریں۔

 

کیونکہ کسی بھی دائمی حرکی مشین کو بنانے کے لئے ہمیں اپنے بنیادی قوانین طبیعیات کو کائناتی پیمانے پر دوبارہ سے زیر غور لانا ہو گا، لہٰذا میں دائمی حرکی مشین کو جماعت III میں زمرہ بند کرتا ہوں ؛ یعنی کہ یا تو وہ واقعی حقیقت میں ناممکن ہیں یا ہمیں اپنی سمجھ کو بنیادی طبیعیات کے کائناتی پیمانے پر جاننے کے لئے بدلنا پڑے گا تا کہ کسی ایسی ممکنہ مشین کو بنایا جا سکے۔ تاریک توانائی جدید سائنس میں ایک غیر مکمل سبق بنا رہے گا۔

 

 

 

15۔    پیش بینی

 

تناقض ایک سچائی ہے جو توجہ حاصل کرنے کے لئے سر کے بل کھڑی ہے۔
نیکولس فلیٹا (Nicholas Falletta)

 

 

کیا پیش بینی یا وقوف ماقبل  کا وجود ہو سکتا ہے ؟ یہ قدیمی تصوّر ہر مذہب میں موجود ہے جس کی تاریخ رومیوں اور یونانیوں کے ہاتف سے لے کر پرانے عہد نامے کے انبیا تک جاتی ہے۔ مگر ان قصّوں میں پیش بینی کا تحفہ ایک طرح سے سزا بھی ہوتی تھی۔ یونانی دیو مالائی قصّوں میں ایک ٹرائے کے بادشاہ کی بیٹی کیسنڈرا (Cassandra) ہوتی ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ سورج دیوتا اپالو کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کا دل جیتنے کے لئے اپالو اس کو مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ تاہم کیسنڈرا اپالو کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ہے۔ غیض و غضب سے بھرا ہوا اپالو  اپنے دیئے ہوئے تحفہ کو اس طرح سے بدل دیتا ہے کہ کسینڈرا مستقبل کو تو دیکھ سکتی ہے لیکن اس کی پیش بینی پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔ جب کسینڈرا اپنے لوگوں کو آنے والی قریبی تباہی سے آگاہ کرتی ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا۔ اس نے کاٹھ کے گھوڑے کی فریب کے بارے میں، ایگا میمنون (Agamemnon)  اور یہاں تک کہ اپنی موت کے بارے میں بھی پہلے ہی سے بتا دیا تھا۔ تاہم اس کو سنجیدہ لینے کے بجائے ٹرائے کے لوگ اس کو پاگل سمجھ کر قید کر دیتے ہیں۔

نوسٹراڈیمس کی سولویں صدی کی پیش گوئیاں ہوں یا حال میں ہی ایڈگر کائیسے (Edgar Cayce) کے دعوے کہ وہ وقت کے پردے کو اٹھا سکتا ہے ہر کوئی پیش بینی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اگرچہ بہت سارے دعوے دار ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ان کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوں گی (مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم کی پیشن گوئی، جان ایف کینیڈی کا قتل، اور اشتراکیت کا زوال ) ، غیر واضح، تمثیلی انداز میں ان غیب دانوں نے اپنے شعر کچھ اس طرح سے لکھے ہیں کہ اس سے مختلف قسم کی متناقض توجہات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر نوسٹراڈیمس کی رباعیاں عمومی طور کی ہیں کہ اس سے کوئی بھی اپنا من چاہا مطلب مطلب نکال سکتا ہے (اور لوگوں نے یہی کیا۔ ) ۔ ایک رباعی ملاحظہ کیجئے :

زمین کو ہلا دینے والی آگ دنیا کے قلب سے نکل کر دھاڑے گی :

نئے شہر کے قریب زمین لرزے گی

دو عالی منش ایک لاحاصل جنگ میں الجھ جائیں گے

بہار کی حسینہ چھوٹا نیا سرخ دریا بہائے گی۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رباعی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نوسٹراڈیمس نے پہلے سے ہی نیویارک شہر کے جڑواں ٹاوروں کو ١١ ستمبر ٢٠٠١ء میں جلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود صدیوں سے دوسرے واقعات کو بھی اسی رباعی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کردہ چیزیں اتنی مبہم ہیں کہ ان کی کئی تشریحات کی جا سکتی ہیں۔

پیش بینی تمثیل نگاروں کا پسندیدہ کھیل کا میدان بنا رہا ہے جنہوں نے آنے والے وقتوں میں سلطنتوں کے زوال کے بارے میں اس کے ذریعہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ شیکسپیئر کی میک بیتھ میں پیش بینی کھیل کا مرکزی خیال تھا اور میک بیتھ کی آرزو بھی تھی، اس کھیل میں اس کا سامنا تین چڑیلوں سے ہوتا ہے جو اس کا عروج اسکاٹ لینڈ کے حکمران کی حیثیت سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ چڑیلوں کی پیش گوئی کے ساتھ ہی اس کی لوگوں کے قتال کی خواہش اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ اور یہ پیش بینی اس کو ایک خونی اور مہیب مہم اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے شروع کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں وہ اپنے دشمن میکڈوف  (Macduff) کی معصوم بیوی اور بچے کو بھی قتل کر دیتا ہے۔

تخت و تاج پر قبضہ کرنے کے لئے گھناؤنی حرکتیں کرنے کے بعد میک بیتھ کو چڑیلوں کے ذریعہ پتا لگتا کہ اس کو کسی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی اور  نہ ہی اس پر کوئی فاتح غالب آ سکتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ہی شکست کھا سکتا ہے جب عظیم برنام جنگل کے لوگ اس کے خلاف بلندی (ڈنسیننی پہاڑی ) پر آئیں گے۔ اور کوئی بھی عورت ایسے بچے کو جنم دے گیجو میک بیتھ کو نقصان پہنچا سکے۔ تاہم قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا عظیم برنام کے جنگل میں میکڈوف کے فوجی اپنے آپ کو پودوں کی ٹہنیوں میں چھپائے ہوئے تھے ، اور خفیہ طور پر میک بیتھ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور میکڈوف خود رحم مادر کو چیر کر پیدا ہوا تھا۔

اگرچہ ماضی کی پیش گوئیوں سے کئی الگ طرح کے معنی لئے جا سکتے ہیں، لہٰذا ان کو جانچنا ممکن نہیں ہوتا ہے ، پیش گوئیوں کی ایک قسم ایسی ہے جس کا آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے مثلاً زمین کی تباہی کے بارے میں درست تاریخ کا اندازہ لگانا۔ جب سے انجیل کے آخری باب "الہام "نے یوم قیامت کی تفصیلات بیان کی ہیں، جس میں افراتفری اور تباہی، دجال کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گی اور دوسری اور آخری بار یسوع مسیح تشریف لائیں گے ، تب سے بنیاد پرستوں نے کافی کوشش کی ہے کہ یوم حشر کی درست تاریخ کی پیش گوئی کر سکیں۔

ایک اور شہرہ آفاق قیامت کی پیشن گوئی نجومیوں نے کی تھی، اس پیش گوئی میں انہوں نے کہا کہ ایک عظیم سیلاب دنیا کا خاتمہ ٢٠ فروری ١٥٢٤ کو کر دے گا۔ ان کی اس پیشن گوئی میں  تمام سیاروں کا فلک میں جمع ہونا تھا یعنی کہ عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل۔ اس پیش گوئی نے پورے یورپ میں بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلا دی۔ انگلستان میں ٢٠ ہزار لوگوں نے اپنے گھروں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ ایک قلعہ جس میں خوراک اور پانی کا دو مہینے کا ذخیرہ جمع کیا گیا تھا وہ سینٹ بارتھولومیو گرجا گھر (Saint Bartholomew Church) کے قریب بنایا گیا۔ پورے جرمنی اور فرانس میں لوگوں نے تندہی سے بڑی کشتیاں بنانی شروع کر دیں تاکہ سیلاب کے آنے پر اس میں بیٹھ جائیں۔ کاؤنٹ وون اگلہیم (Count Von Iggleheim) نے تو یہاں تک کیا کہ اس یادگار لمحے کے لئے ایک تین منزلہ کشتی تیار کر لی تھی۔ لیکن آخر کار جب وہ تاریخ آئی تو صرف معمولی سی بارش ہی برسی۔ ہجوم کا مزاج خوف سے یکدم غصّے میں بدل گیا۔ ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی تمام جمع پونجی بیچ ڈالی تھی اور اپنی زندگانیوں کو الٹ پلٹ کر دیا تھا انتہائی ناامید ہو گئے تھے۔ غصّے سے بپھرا ہوا ہجوم دیوانہ ہو گیا۔ کاؤنٹ کو سنگسار کر کے موت سے ہمکنار کر دیا گیا اور سینکڑوں لوگ اس بھگدڑ میں مارے گئے۔

صرف عیسائی ہی نہیں ہیں جو پیش گوئیوں کے جھانسے میں آتے ہیں۔ ١٦٤٨ میں سباتائی زیوی، سمیرنا کے امیر یہودی کا بیٹا تھا جس نے مسیحیت کا دعویٰ کر دیا تھا اور یہ پیش گوئی کی تھی کہ دنیا ١٦٦٦ میں ختم ہو جائے گی۔ خوش باش، کرشماتی شخصیت، اور دیو مالائی کہانیوں کبالہ پر زبردست عبور کے ساتھ اس نے تیزی سے اپنی گرد خوفناک جانباز وفادار مریدوں کا ٹولہ جمع کر لیا  تھا جنہوں نے پورے یورپ میں خبر کو عوام الناس میں پھیلا دیا تھا۔ ١٦٦٦ کی بہار میں دور دراز میں رہنے والے یہودی جس میں فرانس، ہالینڈ، جرمنی اور ہنگری کے رہائشی شامل تھے انہوں نے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے مسیحا کی پکار کے منتظر ہوئے۔ مگر اس سال کے آخر میں زیوی کو قسطنطنیہ کے وزیر اعظم نے پابند سلاسل کر دیا تھا۔ ممکنہ پھانسی کو دیکھتے ہوئے اس نے ڈرامائی طور پر اپنے یہودی کپڑے اتار کر ترک عمامہ باندھ لیا اور اسلام قبول کر لیا۔ نتیجتاً دسیوں ہزاروں مریدوں نے اس کے طلسم کو توڑ کر اس دھرم سے علیحدگی اختیار کر لی۔

غائب دانوں کی پیش گوئیوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے اور دسیوں لاکھ دنیا کے باسیوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ولیم ملر نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس بات کا اعلان کیا کہ ٣ اپریل، ١٨٤٣ کو روز قیامت برپا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی پیش گوئی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پہنچی، اتفاق سے رات کو آسمان پر ١٨٣٣ میں ایک شاندار شہابیوں کی بارش شروع ہو گئی، جو اس قسم کی بارش میں سب سے بڑی تھی۔ اس واقعے نے ملر کی پیشن گوئی کو مزید تقویت دی۔

دسیوں ہزار جوشیلے مرید جو ملی رائٹس کہلاتے تھے روز قیامت کا انتظار کرنے لگے۔ جب ١٨٤٣ آیا اور بغیر کسی قیامت برپا کیے گزر گیا، تو ملی رائٹس کی تحریک کئی بڑے حصّوں میں بٹ گئی۔ ملی رائٹس کے زبردست جمگھٹے کی وجہ سے اس میں سے بنا ہوا ہر جتھے کا مذہب پر کافی گہرا اثر ہوا اور آج بھی ہے۔ ملی رائٹس کے ایک بڑے جتھے کی تحریک نے ١٨٦٣ میں جمع ہو کر اپنا نام سیون ڈے ایڈونٹسٹ چرچ رکھا جس کے آج لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ مسیحی ارکان ہیں۔ ان کے مذہب کا مرکزی خیال مسیح کا فوری طور پر دوبارہ ظاہر ہونا ہے۔

ملی رائٹس سے ایک اور الگ ہوئی جماعت بعد میں چارلس ٹیزرسل (Charles Teze Russell)  کی طرف راغب ہو گئی، جس کے مطابق روز قیامت ١٨٧٤ تک ٹل گئی تھی۔ جب یہ تاریخ بھی گزر گئی، تو اس نے اپنی پیشن گوئی پر نظر ثانی کی جو مصر کے عظیم اہراموں پر انحصار کرتے ہوئے اب ١٩١٤ میں ہونا تھی۔ یہ جماعت بعد میں شاہدان یہوا کہلائی جس کے ارکان کی تعداد ٦٠ لاکھ سے زیادہ ہے۔

ملی رائٹس کے دوسرے گروہوں نے پیش گوئیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہر پیشن گوئی کی ناکامی کے بعد مزید حصّوں بخروں میں بٹتے چلے گئے۔ ملی رائٹس کی ایک چھوٹی جماعت داؤدی جماعت کہلائی، جو سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ سے الگ ہو کر ١٩٣٠ میں بنی تھی۔ ان کی ایک چھوٹی سی تحصیل واکو ٹیکساس میں ہے ، جو ایک کرشماتی تبلیغی نوجوان جس کا نام ڈیوڈ کو ریش (David Koresh)  ہے ، کے زیر اثر ہے ، جو دنیا کے خاتمے پر تنویمی انداز پر بولتا ہے۔ یہ جماعت اپنی افسوسناک انجام کو ١٩٩٣ میں ایف بی آئی کے مقابلے میں اس وقت پہنچی جب برامدے میں موجود ایک دہکتے ہوئے الاؤ میں ٧٦ارکان، ٢٧ بچے اور کریش بھی جھلس گئے۔

اؤں

                کیا ہم مستقبل میں جھانک سکتے ہیں ؟

 

کیا سخت گیر سائنسی تجربات یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مستقبل کی پیش بینی کر سکتے ہیں ؟باب ١٢ میں ہم نے دیکھا تھا کہ وقت میں سفر کرنا طبیعیات کے قوانین کی رو سے ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک جدید تہذیب III کی قسم کے لئے ہی ممکن ہو گا۔ مگر کیا پیش بینی کرنا آج کے دور میں موجود ٹیکنالوجی اور سائنس کی بدولت زمین پر ممکن ہے ؟

رائن سینٹر میں کیے گئے مفصل تجربات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کچھ لوگ مستقبل میں دیکھ سکتے ہیں ؛ یعنی کہ وہ پتوں کو ان پر ظاہر ہونے سے پہلے ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم بار بار کے تجربوں نے یہ ثابت کیا کہ اس کا اثر بہت ہی معمولی ہے اور جب دوسرے لوگ اس کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر یہ ویسا نہیں کر پاتے۔

در حقیقت پیش بینی کا جدید طبیعیات سے میل کھانا بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ سببیت  یعنی علت و معلول کے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اثر اس وقت ہوتا ہے جب اس کا سبب ہو، سبب اثر سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک پائے جانے والے تمام طبیعیات کے قوانین کے اندر موجبیّت لامحالہ موجود ہوتی ہے۔ علت و معلول سے ذرا سا بھی انحراف طبیعیات کی بنیادوں کو ڈھانے کا بڑا سبب بن جائے گا۔ نیوٹنی طبیعیات سختی سے علت و معلول پر کاربند ہے۔ نیوٹنی میکانیات ایک دوسرے پر اتنی زیادہ انحصار کرتی ہیں کہ اگر آپ کو تمام سالموں کا محل و وقوع پہلے سے معلوم ہو تو آپ ان کے مستقبل کی حرکت کا حساب لگا سکتے ہیں۔ اس طرح سے مستقبل کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ نظری طور پر نیوٹنی میکانیات بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو آپ مستقبل کے تمام واقعات کو بیان کر سکتے ہیں۔ نیوٹن کے مطابق کائنات ایک دیو قامت گھڑی کی مانند ہے ، جس میں اس کی ابتداء کے وقت خدا نے چابی بھر دی ہے اور یہ اس وقت سے اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ نیوٹن کے نظریہ میں کسی پیش بینی کا ذکر نہیں ہے۔

 

                وقت میں رجعت

 

جب ہم میکسویل کا نظریہ زیر بحث کریں گے تو صورتحال اور زیادہ گھمبیر ہو جائے گی۔ جب روشنی کے لئے ہم میکسویل کی مساوات کو حل کرتے ہیں، تو ہمیں ایک نہیں دو حل ملتے ہیں : ایک "پس ماندہ "موج جو معیاری روشنی کی حرکت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بیان کرتی ہے ، تاہم اس کے ساتھ ایک بلند موج بھی ہوتی ہے جس میں روشنی کی کرن وقت میں واپس جاتی ہے۔ یہ بلند حل مستقبل سے آتا ہوا ماضی میں جاتا ہے !

سو سال سے بھی زائد عرصے میں انجینیروں کو اس بلند حل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو واپس دوبارہ وقت میں چلا جاتا ہے اور وہ اس کو صرف اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو بس ایک ریاضیاتی جستجو ہے۔ کیونکہ کہ پس ماندہ موجیں اتنی درستگی کے ساتھ ریڈیائی، خورد موجوں، ٹیلی ویژن، ریڈار اور ایکس ریز کو بیان کرتی ہیں کہ اس بلند حل کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ پس ماندہ موجیں اتنی شاندار اور خوبصورت طریقے سے کام کرتی ہیں کہ انجینیروں نے بدصورت ہمزاد کو نظرانداز ہی کر دیا۔ آخر کو کامیابی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کری جائے ؟

مگر طبیعیات دانوں کے لئے ، بلند موجیں پچھلی ایک صدی سے پریشان کر دینے والی ہیں۔ کیونکہ میکسویل کی مساوات جدید دور کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے ، لہٰذا اس کے کسی بھی حل کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔  چاہئے وہ مستقبل سے آتی ہوئی موجوں کو ہی کیوں نہ بیان کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل سے آتی ہوئی بلند موجوں کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو گا۔ قدرت نے اس بنیادی سطح پر ہمیں کیوں اتنا عجیب و غریب حل فراہم کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ظالمانہ مذاق ہے یا اس کے گہرائی میں کچھ اور مطلب موجود ہے ؟

سالکوں نے اس بلند موج میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس بات کا اندازہ لگانا شروع کر دیا کہ وہ مستقبل سے آتے ہوئے پیغام ہیں۔ شاید اگر ہم کسی طرح سے ان موجوں کو قابو کر لیں تو ہم کسی طرح سے ماضی میں پیغام کو بھیج سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پچھلی نسل کو آنے والے واقعات سے ہوشیار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے دادا کو ١٩٢٩ میں پیغام بھیج سکتے ہیں جس میں انھیں خبردار کرتے ہوئے بتایا جائے کہ وہ اپنے تمام حصص کو عظیم کساد بازاری کے آنے سے پہلے ہی فروخت کر دیں۔ یہ بلند موجیں ہمیں ذاتی طور پر ماضی میں نہیں لے جا سکتی، جیسا کہ وقت کے سفر میں ہوتا ہے تاہم اس کے ذریعہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ ماضی میں خطوط و پیغامات کو بھیج سکیں اور لوگوں کو ان واقعات سے خبردار کر دیں جو اس وقت تک واقع نہیں ہوئے تھے۔

یہ بلند موجیں اس وقت تک ایک معمہ بنی رہیں جب تک رچرڈ فینمین نے ان کا مطالعہ نہیں کیا، وہ ماضی میں جانے کے خیال سے کافی متاثر تھا۔ مین ہٹن منصوبے پر کام کرنے کے بعد، جہاں پہلا جوہری بم بنایا گیا تھا، فینمین نے لاس الموس کو چھوڑ دیا اور پرنسٹن یونیورسٹی میں جان وہیلر کے ماتحت کام شروع کیا۔ الیکٹران پر ڈیراک کے اصل کام کا تجزیہ کرتے ہوئے فینمین نے بہت ہی عجیب چیز دریافت کی۔ اگر وہ صرف ڈایرک کی مساوات میں وقت کو الٹا کر کر کے الیکٹران پر بار کو بھی الٹ دیتا تو مساوات ویسی ہی رہتی۔ بالفاظ دیگر الیکٹران کو واپس ماضی میں بھیجنا، ضد الیکٹران کو مستقبل میں بھیجنے کے برابر ہے !عام طور پر ایک کہنہ مشق طبیعیات دان اس توجیہ کو رد کر دیتا ہے کہ یہ صرف مساوات کا ہیر پھیر ہے ، صرف ریاضی کی شعبدہ بازی ہے جس کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ وقت میں پیچھے جانا کوئی معانی نہیں رکھتا، اس کے باوجود ڈیراک کی مساوات اس بارے میں بالکل واضح تھی۔ دوسرے الفاظ میں فینمین نے یہ بات کھوج لی تھی کہ قدرت گزرے وقت میں جانے کی اجازت دیتی ہے :ماضی میں جانا ضد مادّہ کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ کوئی ضعیف طبیعیات دان ہوتا تو وہ اس حل کو اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دیتا۔ مگر ایک سند یافتہ طالبعلم کی حیثیت سے اس نے اپنے تجسس کی تسکین جاری رکھی۔

اس نے اس معمے میں الجھنا جاری رکھا جس میں اسے مزید عجیب چیزیں ملیں۔ عام طور پر اگر ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو فنا کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں گیما اشعاع پیدا ہوتی ہیں۔ اس کو اس نے ایک کاغذ پر بنایا :دو جسم ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں توانائی پھوٹ رہی تھی۔

تاہم اگر آپ ضد الیکٹران کا بار تبدیل کر دیں تو وہ ایک عام الیکٹران بن کر وقت میں واپس چلا جاتا ہے۔ آپ پھر دوبارہ سے وہی خاکہ بنا سکتے ہیں جس میں وقت الٹا بہ رہا ہو گا۔ اب وہ ایسے لگے گا جیسا کہ الیکٹران واپس وقت میں جا رہا ہے اور اچانک ہی اس نے اپنی سمت بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکٹران نے وقت میں ایک یو ٹرن (الٹا موڑ ) لے لیا تھا اور اب وہ واپس وقت میں الٹا جا رہا تھا، اور اس عمل کے دوران توانائی کو چھوڑ رہا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ وہی الیکٹران تھا۔ الیکٹران اور ضد الیکٹران کے فنا کا عمل وہی عمل تھا جس میں الیکٹران نے وقت میں واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا !

لہٰذا فینمین نے ضد مادّہ کے اصل راز کا پردہ فاش کر دیا تھا :وہ ایک عام مادّہ تھا جو وقت میں واپس جا رہا تھا۔ اس سادے سے مشاہدے نے فوری طور پر ان تمام معموں کو حل کر دیا کہ تمام ذرّات کے ساتھی ضد ذرّات بھی ہوتے ہیں: یہ اس لئے ہے کہ تمام ذرّات وقت میں پیچھے سفر کر سکتے ہیں وہ صرف ضد مادّہ کا روپ بھرتے ہیں۔ (یہ توجیہ ڈیراک کے سمندر جس کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے جیسی ہی ہے ، مگر یہ نسبتاً زیادہ سادہ ہے ، اور یہ وہ توجیہ ہے جو آج کل مقبول عام ہے۔ )

چلیں اب فرض کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ضد مادّہ کا ایک ٹکڑا موجود ہے جو عام مادّے سے ٹکرا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک زبردست دھماکا پیدا ہوتا ہے۔ اب یہاں دسیوں کھرب الیکٹران اور ضد الیکٹران فنا ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم ضد الیکٹران کے سمت کے تیر کو بدل دیں، تو وہ ایک الیکٹران بن کر ماضی میں سفر کر رہا ہو گا، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہی الیکٹران آ ڑ ھا ترچھا دسیوں کھرب مرتبہ وقت میں آ رہا اور جا رہا ہو گا۔

یہاں پر مزید پر تجسس نتیجے موجود ہیں :مادّے کے ٹکڑے میں صرف ایک ہی الیکٹران کو ہونا چاہئے۔ وہ ہی الیکٹران وقت میں آتا جاتا رہے گا۔ ہر مرتبہ جب وہ وقت میں یو ٹرن لے گا تو وہ ضد مادّہ بن جائے گا۔ لیکن اگر اس نے ایک اور مزید یو ٹرن وقت میں لیا تو وہ ایک اور الیکٹران بن جائے گا۔

(اپنے مقالے کے مشیر، جان وہیلر کی مدد سے ، فینمین نے خیال ظاہر کیا کہ شاید مکمل کائنات صرف ایک ہی الیکٹران سے بنی ہے ، جو وقت میں آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ ذرا تصوّر کریں کہ بگ بینگ کی افراتفری میں صرف ایک ہی الیکٹران پیدا ہوا تھا دسیوں کھرب سال بعد، اس اکیلے الیکٹران کا سامنا روز قیامت کے دن سے ہو گیا جہاں اس نے ایک یو ٹرن لے لیا اور واپس وقت میں چلا گیا اور اس عمل کے دوران گیما شعاعوں کو پیدا کیا۔ پھر وہ اصلی بگ بینگ کے لمحے میں لوٹ گیا اور پھر وہاں دوسرا یو ٹرن لیا۔ تو الیکٹران اس سفر کوبگ بینگ سے کائنات کے خاتمے تک آگے پیچھے کر کے متواتر  دوہراتا رہے گا۔ اکیسویں صدی میں ہماری کائنات اس الیکٹران کے سفر کی صرف ایک وقت کی قاش ہے جس میں ہم کھرب ہا الیکٹران اور ضد الیکٹران دیکھ رہے ہیں یعنی کہ قابل مشاہدہ کائنات دیکھ رہے ہیں۔ یہ نظریہ جتنا بھی عجیب نظر آئے یہ اس کوانٹم کی پر تجسس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ کیوں تمام الیکٹران بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ طبیعیات میں آپ الیکٹران کو لیبل نہیں کر سکتے۔ الیکٹران ہرے یا جونی الیکٹران نہیں ہوتے۔ الیکٹران کی کوئی انفرادیت نہیں ہوتی۔ آپ الیکٹران کو اس طرح سے ٹیگ نہیں لگا سکتے جیسے سائنس دان جنگلی جانوروں میں ان پر تحقیق کی غرض سے ٹیگ لگاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات ہی اس ایک الیکٹران پر مشتمل ہے جو صرف وقت میں آگے پیچھے چکر لگا رہا ہے۔ )

لیکن اگر ضد مادّہ ایک عام مادّہ ہے جو وقت میں پیچھے جا رہا ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی میں کوئی پیغام بھیجا جا سکے ؟کیا یہ بات ممکن ہے کہ آج کا وال اسٹریٹ جرنل، اپنے آپ کو ماضی میں بھیجا جا سکے تاکہ حصص مارکٹ میں کمایا جا سکے ؟

اس کا جواب ہے نہیں۔

اگر ہم ضد مادّے کو ایک عجیب طرح کا مادّہ سمجھیں، اور اس ضد مادّہ کے ساتھ ایک تجربہ کریں تو حاصل کردہ نتائج علت و معلول کے خلاف نہیں حاصل ہوں گے۔ اگر ضد الیکٹران کے لئے اب ہم وقت کے بہاؤ کو واپس الٹ دیں تو اس میں ہم صرف ایک ریاضی کا فعل ہی انجام دیں گے۔ طبیعیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ طبعی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہو گا۔ تمام تجربہ ویسے ہی رہے گا۔ لہٰذا اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ الیکٹران کو وقت میں آگے پیچھے دیکھا جا سکتا ہے تاہم ہر مرتبہ جب الیکٹران وقت میں پیچھے جائے گا، تو وہ صرف ماضی کو تکمیل دے گا۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے جیسے کہ مستقبل کے جدید حل حقیقت میں نہایت ضروری ہیں تا کہ ایک پائیدار کوانٹم کے نظریہ کو حاصل کیا جا سکے۔ تاہم یہ بات علت و معلول سے انحراف نہیں ہے۔ (حقیقت میں ان عجیب بلند موجوں کے بغیر علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی کوانٹم نظرئیے میں ہوتی ہے۔ فینمین نے اس بات کو ثابت کیا کہ اگر ہم بلند اور پسماندہ موجوں کو شامل کر لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی اس سے واپس صحیح ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ضد مادّہ علت و معلول کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔ ضد مادّہ کے بغیر علت و معلول کا اثر ڈھیر ہو جائے گا۔ )

فینمین نے اس پاگل پنے کے خیال کے جراثیم کو اس وقت بڑھایا جب تک وہ ایک مکمل الیکٹران کے کوانٹم نظرئیے کی کلی بن کر نہیں پھوٹ پڑا۔ اس کی دریافت کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس کو تجرباتی طور پر دس ارب میں ایک حصّے کے بقدر جانچا گیا ہے اوریہ اب تک پیش کیا جانے والا سب سے زیادہ درست نظریہ ہے۔ اس دریافت نے اس کو اور ان کے رفقائے کاروں جولین شیوینگر (Julian Schwinger)  اور سن –اتیرو ٹوموناگا (Sin-Itiro Tomonaga) کو ١٩٦٥ء میں نوبل انعام جتوایا۔

(فینمین نے نوبل انعام کو قبول کرتے ہوئے جو تقریر کی تھی اس میں اس نے کہا تھا کہ بطور نوجوان وہ اضطراری طور پر مستقبل سے آتی ہوئی ان بلند موجوں کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا۔ آج وہ خوبصورت لڑکی، پوری ایک سنجیدہ خاتون میں بدل گئی ہے اور اب تو اس کے کافی بچے بھی ہو گئے ہیں۔ ان بچوں میں سے ایک اس کا پیش کردہ کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس ہے۔ )

 

                مستقبل سے آتا ہوا ٹیکیون

 

مستقبل سے آتی ہوئی بلند موجوں کے علاوہ (جنہوں نے اپنے کار آمد ہونے کو کوانٹم نظریہ میں بارہا ثابت کیا ہے) ابھی کوانٹم نظریہ میں ایک اور عجیب خیال ہے جو اتنا ہی پاگل کر دینے والا تو ہے تاہم ممکنہ طور پر اتنا کارآمد نہیں ہے۔ یہ خیال ٹیکیونس (tachyons) کا ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں مستقل نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ جب بھی اسٹار ٹریک کے مصنف کو کوئی نئی قسم کی توانائی کسی جادوئی کمال کو دکھانے کے لئے چاہئے ہوتی ہے تو وہ اس کا ہی سہارا لیتا ہے۔

ٹیکیونس ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر چیز روشنی کی رفتار سے بھی تیز محو سفر ہوتی ہے۔ ٹیکیونس توانائی کا اخراج کرتے ہوئے اور تیز رفتار سفر کرتے ہیں جو خلاف عقل ہے۔ حقیقت میں اگر وہ تمام توانائی کو ختم کر دیں تو وہ لامحدود رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ ٹیکیونس توانائی کو حاصل کرتے ہوئے آہستہ ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روشنی کی رفتار کو پہنچ جاتے ہیں۔

ٹیکیونس کو جو چیز سب سے زیادہ عجیب بناتی ہے وہ اس کی تصوّراتی کمیت ہے۔ (تصوّراتی کا مطلب کہ ان کی کمیت حاصل ضرب جزر المربع منفی ایک یا "i” کے برابر ہوتی ہے۔ اگر ہم آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات کو لے کر "m” کو "im” سے بدل دیں تو کچھ معجزانہ چیزیں وقوع پذیر ہو جائیں گی۔ اچانک سے ذرّات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے سفر کرنے لگیں گے۔

یہ نتیجہ کچھ عجیب و غریب قسم کی صورتحال کو جنم دے گا۔ اگر ٹیکیونس مادّے میں سے ہو کر سفر کریں تو کیونکہ وہ مادّے  کے جوہروں سے ٹکرائیں گے لہٰذا ان میں سے توانائی کم ہو جاتی ہے۔ یہ تصادم اس سے مزید توانائی کو خارج کروانے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر جیسی ہی اس کی توانائی کم ہوتی ہے اس کی رفتار اور بڑھ جاتی ہے جو اس کے مادّے کے ساتھ ہونے والے تصادموں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ان تصادموں میں مزید توانائی خارج ہو کر کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مزید اسراع پذیر ہو کر اور تیز ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ شیطانی چکر بار بار گھوم کر چلتا ہی رہتا ہے لہٰذا قدرتی طور پر ٹیکیونس لامحدود تیز رفتاری خود ہی سے ہی حاصل کر لیتے ہیں !

(ٹیکیونس ضد مادّہ اور منفی توانائی سے مختلف ہوتے ہیں۔ ضد مادّہ پر مثبت بار ہوتا ہے جو روشنی کی رفتار سے آہستہ سفر کرتے ہیں اور ان کو اسراع گروں میں بنایا جا سکتا ہے۔ نظریہ کے مطابق وہ قوّت ثقل کے زیر اثر آتے ہیں۔ ضد مادّہ عام مادّے کی ہی طرح ہوتے ہیں جو وقت میں رجعت کرتے ہیں۔ منفی مادّے کی منفی توانائی ہوتی ہے اور یہ بھی روشنی کی رفتار سے آہستہ ہی سفر کرتے ہیں مگر یہ قوّت ثقل کے تحت جذب نہیں ہوتے بلکہ دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ منفی مادّے کو کبھی بھی تجربہ گاہ میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔ نظرئیے کے مطابق اس کو بڑی مقدار میں ٹائم مشین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکیونس روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتے ہیں اور ان کی تصوّراتی کمیت ہوتی ہے ؛ یہ بات واضح نہیں ہے کہ قوّت ثقل اس کو کھینچتی ہے یا دھکیلتی ہے۔ ان کو بھی تجربہ گاہوں میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔

اپنی عجیب و غریب خصائص کے باوجود ٹیکیونس کو کچھ طبیعیات دانوں نے سنجیدگی سے لیا ہے جس میں ایککولمبیا یونیورسٹی کے آنجہانی جیرالڈ فینبرگ (Gerald Feinberg)  اورآسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کے جارج سدارشن (George Sudarshan)  بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ٹیکیونس کو تجربہ گاہ میں نہیں دیکھا ہے۔ ٹیکیونس کے تجرباتی ثبوتوں کو حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ علت و معلول کی ہو گی۔

فینبرگ نے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ طبیعیات دان لیزر کی کرن کو اس کے چالو ہونے سے پہلے ہی دیکھ کر اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اگر ٹیکیونس وجود رکھتے ہیں تو شاید لیزر کی کرن آلے کو کھولنے سے پہلی ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ سائنسی قصص میں ٹیکیونس کو ماضی میں پیغام بھیجنے کے لئے مستقل استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر ہم طبیعیات کا صحیح طرح سے تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر فینبرگ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وقت میں آگے جاتا ہوا ٹیکیونس اس ٹیکیونس کے برابر ہے جس نے منفی توانائی کو جذب کر لیا ہو اور وہ وقت پیچھے کی طرف جا رہا ہو۔ (جیسا کہ ضد مادّہ کے ساتھ ہوتا ہے ) لہٰذا موجبیّت سے انحراف نہیں ہوتا۔

سائنسی قصص کو چھوڑ دیں، آج بھی ٹیکیونس کا جدید نظریہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بگ بینگ کے لمحے میں یہ وجود رکھتے ہوں جس کے نتیجے میں سببیت کا انحراف تو ہو گا تاہم اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ۔ درحقیقت شروع میں ہو سکتا ہے کہ شاید انہوں نے کائنات کے دھماکے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہو۔ اس طرح سے ٹیکیونس بگ بینگ کے کچھ نظریوں کا لازمی حصّہ ہوتے ہیں۔

ٹیکیونس کے کچھ مخصوص خواص ہوتے ہیں۔ جب بھی آپ اس کو کسی بھی نظریہ میں ڈالتے ہیں تو وہ خالی جگہ کو غیر متوازن کر دیتے ہیں یعنی وہ نظام کی سب سے کم توانائی حالت کو غیر پائیدار کر دیتے ہیں۔ اگر نظام میں ٹیکیونس موجود ہوں گے ، تو وہ خالی جگہ میں موجود ہوں گے لہٰذا نظام پائیدار نہیں ہو گا اور انحطاط یا تنزل پذیر ہوتا ہوا بالکل خالی ہو جائے گا۔

ایک ڈیم کا تصوّر کریں جس نے جھیل کے پانی کو روکا ہوا ہو۔ یہ اس جھوٹی خلاء کی طرح ہو گا۔ اگرچہ ڈیم دیکھنے میں بالکل پائیدار لگ رہا ہو گا، مگر اس میں توانائی کی ایک حالت موجود ہو گی جو ڈیم کی توانائی سے کم ہو گی۔ اگر ڈیم میں کوئی دراڑ پڑ جائے اور پانی اس دراڑ میں سے نکلنا شروع کر دے تو نظام ایک ٹھیک خلاء حاصل کر لے گا کیونکہ پانی سمندر کی سطح پر آ جائے گا۔

بالکل اسی طرح سے اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کائنات، جھوٹی خلاء سے شروع ہوئی جس میں ٹیکیونس موجود تھے۔ مگر ٹیکیونس کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ توانائی کی نچلی حالت میں نہیں تھی جس کی وجہ سے نظام غیر پائیدار تھا۔ ایک چھوٹی سی "دراڑ "مکان و زمان کی ساخت میں پیدا ہو گئی، جو مکمل خلاء کو ظاہر کرتی تھی۔ دراڑ جیسی بڑی ہوتی گئی ایک بلبلہ نمودار ہوتا رہا۔ بلبلے کے باہر ٹیکیونس اس وقت بھی موجود تھے ، مگر بلبلے کے اندر وہ سب غائب ہو گئے تھے ، بلبلے کے پھیلنے کے بعد ہم نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل میں بغیر ٹیکیونس کے پایا۔ اور یہ ہی بگ بینگ تھا۔

ایک اور نظریہ جو ماہرین کونیات بہت ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک ٹیکیون جو افراط کہلایا اس نے ہی اصل افراط پذیر کائنات کو شروع کیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ افراط پذیر کائنات کا نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات ایک مکان و زمان کے ایک ننھے بلبلے کی شکل میں شروع ہوئی تھی جو ایک بہت ہی زیادہ توانائی سے بھرپور افراط پذیر دور سے گزری۔ طبیعیات دان اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کائنات شروع میں ایک جھوٹی خلاء سے شروع ہوئی تھی، جس میں افراط کا میدان ایک ٹیکیونس تھا۔ مگر ٹیکیونس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر دیا تھا اور چھوٹے سے بلبلے پیدا ہو گئے۔ کسی بھی ایک بلبلے کے اندر افراطی میدان کو سچی خلاء کی حالت میسر آ گئی تھی۔ پھر یہ بلبلہ فطری طور پر نہایت ہی تیزی سے پھیلا یہاں تک کہ ہماری کائنات کی صورت میں نمودار ہوا۔ ہماری کائنات کے اندر افراطی دور ختم ہو گیا  لہٰذا یہ اب ہماری کائنات میں نظر نہیں آتا۔

لہٰذا ٹیکیون ایک کوانٹم کی عجیب و غریب حالت کو پیش کرتے ہیں جس میں اجسام روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر سکتے ہیں اور شاید علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی بھی کر سکتے ہوں۔ تاہم وہ بہت عرصہ پہلے غائب ہو چکے ہیں اور شاید انہوں نے ہی کائنات کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ تمام باتیں فالتو کی قیاس آرائیاں لگتی ہیں کیونکہ ان کو جانچا نہیں جا سکتا۔ مگر جھوٹی خلاء کا نظریہ پہلی مرتبہ ٢٠٠٨ء میں جانچا جائے گا جب دی لارج ہیڈرون کولائیڈر سوئٹزر لینڈ میں جنیوا کے باہر چلنا شروع ہو گا۔ اس اسراع گر کا ایک اہم مقصد "ہگس بوسون "کی تلاش ہے ، جو معیاری نمونے کا آخری ذرّہ ہے ، ایک ایسا ذرّہ جس کو ابھی ڈھونڈا جانا ہے۔ یہ اس آڑے کٹے معمے کا آخری ٹکڑا ہے۔ (ہگس کا ذرّہ اس قدر اہم مگر مشکل ہے کہ نوبل انعام یافتہ لیون لیڈرمین اس کو "خدائی ذرّہ "کہتے ہیں۔ )

طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہگس بوسون شروع میں ایک ٹیکیونس ہی تھا۔ جھوٹی خلاء میں، کسی بھی ذیلی جوہر ی ذرّہ پر کوئی کمیت موجود نہیں تھی۔ مگر اس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر دیا تھا اور کائنات ایک ایسے نئے خلاء سے گزری تھی جس میں ہگس بوسون عام ذرّے میں بدل گئے تھے۔ ٹیکیونس سے ایک عام ذرّہ کے بننے کے دوران، ذیلی جوہری ذرّات نے کمیت حاصل کرنی شروع کر دی جس کو ہم آج تجربہ گاہ میں ناپ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہگس بوسون کی دریافت نہ صرف معیاری نمونے کے آخری ٹکڑے کو مکمل کر دے گی بلکہ یہ اس بات کو بھی جانچ سکے گی کہ آیا ٹیکیونس کی حالت کبھی وجود رکھتی تھی جو اب عام ذرّے میں بدل گئی ہے۔

خلاصے کے طور پر، پیش بنی نیوٹنی طبیعیات میں تو نہیں کی جا سکتی۔ علت و معلول کے آہنی اصول کی خلاف ورزی کبھی بھی نہیں کی جا سکتی۔ کوانٹم کے نظریہ میں، مادّے کی نئی حالتیں ممکن ہیں جیسا کہ ضد مادّہ جو مادّے کو وقت کے مخالف میں سفر کرنے کے برابر ہے تاہم یہ موجبیّت سے انحراف نہیں ہے۔ حقیقت میں، کوانٹم نظریہ میں ضد مادّہ موجبیّت کو لانے کے لئے لازمی ہے۔ ٹیکیونس پہلی نظر میں تو علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کا اصلی مقصد بگ بینگ کو پیدا کرنا تھا لہٰذا اب ان کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا پیش بینی کو فی الوقت کم از کم آنے والے وقت تک تو خارج از امکان قرار دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً میں اس کو جماعت III کی ناممکنات میں زمرہ بند کرتا ہوں۔ اگر کبھی بھی کسی قابل افزائش نو تجربے میں پیش بینی ثابت ہو گئی تو وہ طبیعیات کی انتہائی بنیادوں کی ہلا کر رکھ دے گی۔

 

 

 

اختتامیہ – ناممکنات کا مستقبل

 

کوئی بھی چیز چاہئے کتنی بڑی اور پاگل پن کی ہو بشرطیکہ کہ وہ طبیعی طور پر ممکن ہو تو لاکھوں کی تعداد میں موجود ٹیکنالوجیکل سوسائٹیوں میں سے کوئی ایک نہ ایک اس کو سنجیدگی سے ضرور لے گی۔
فری مین ڈیسن
منزل قسمت سے نہیں پسند سے حاصل کی جاتی ہے۔ چیزوں کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو حاصل کیا جاتا ہے۔
ولیم جیننگس برائن (William Jennings Brian)

 

کیا کچھ ایسی سچائیاں موجود ہوں گی جو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رہیں گ؟ کیا علم کے کچھ ایسے بیش بہا سمندر موجود ہیں جو جدید تہذیب کی بھی پہنچ سے دور ہوں گے۔ ابھی تک ہم نے جتنی ٹیکنالوجی کو بھی دیکھا اور جانچا ہے اس میں سے صرف دو ہی ایسی ملتی ہیں جو جماعت III کی ناممکنات میں جگہ پاتی ہیں یعنی کہ دائمی حرکی مشین اور پیش بینی۔ کیا کچھ اور ٹیکنالوجی بھی ایسی ہیں جن کا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ؟

خالص ریاضی وافر کلیات کی شکل میں بتاتی ہے کہ کچھ چیزیں یقینی طور پر ناممکن ہیں۔ ایک سادی سی مثال ہے کہ کسی بھی زاویے کو صرف پرکار اور فٹے کی مدد سے تین مساوی حصّوں میں قطعہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس حقیقت کو ١٨٣٧ء میں ثابت کیا جا چکا ہے۔

یہاں تک کہ سادے نظام جیسا کہ علم الحساب میں بھی ناممکنات موجود ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ یہ بات ناممکن ہے کہ تمام سچے بیانوں کو علم الحساب کے مفروضوں کے اندر رہتے ہوئے ثابت کیا جا سکے۔ علم الحساب نامکمل ہے۔ علم الحساب میں ہمیشہ سے ایسی سچے بیان موجود رہیں گے جن کو صرف ایک بڑے نظام کے تحت ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں علم الحساب اس کا ذیلی حصّہ ہو۔

ہرچند کہ ریاضی میں کچھ چیزیں ناممکن ہیں، لیکن کسی کو طبیعیاتی سائنس میں مطلق طور پر ناممکن کہنا بہت ہی خطرناک گردانہ جاتا ہے۔ میں آپ کو نوبل انعام یافتہ البرٹ اے مچلسن (Albert A. Michelson)  کی تقریر یاد دلاتا چلوں جو انہوں نے ١٨٩٤ء میں یونیورسٹی آف شکاگو کی ریئرسن فزیکل لیب کی یاد میں دی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے برملا اس بات کا اعلان کیا تھا کہ نئی طبیعیات کو دریافت کرنا ممکن نہیں ہے : طبیعیات کی سائنس کے سب سے زیادہ اہم بنیادی قوانین اور حقائق دریافت ہو چکے ہیں اور اب ان کو اتنا مضبوطی کے ساتھ قائم کیا جا چکا ہے کہ اس بات کا امکان کہ نئی دریافتوں کی صورت میں ان کی کوئی اور کبھی بھی جگہ لے سکے انتہائی دور کی کوڑی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہماری مستقبل کی دریافتیں عشاریہ کے بعد چھٹے حصّے میں ملیں گی۔ ”

اس کا تبصرہ سائنسی دنیا کی تاریخ میں اس انقلاب کی شام میں تھا جب کوانٹم کا آفتاب ١٩٠٠ء میں طلوع ہو رہا تھا اور اضافیت کا مہتاب ١٩٠٥ء میں اپنی روشنی سے رات کی تاریکی کو دور کرنے آ رہا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزیں جو دور جدید کے مروجہ طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نا ممکن نظر آتی ہیں ممکن ہے کہ کل جب ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات بدل جائیں وہ چیزیں ممکنات میں شامل ہو جائیں۔

١٨٢٥ء میں، عظیم فرانسیسی فلاسفر اوگستے کومتے (Auguste Comte) نے کورس ڈی فلوسوفی میں اعلان کر دیا تھا کہ سائنس کے لئے یہ بات نا ممکن ہے کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ ستارے کس چیز سے مل کر بنے ہیں۔ یہ اس وقت کے حساب سے ایک محفوظ دعویٰ تھا کیونکہ اس وقت تک ستاروں کی نوعیت کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ وہ اس قدر فاصلے پر تھے کہ ان پر جایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کے دعوے کے صرف چند سال کے بعد ہی طبیعیات دانوں نے (طیف بینی کو استعمال کرتے ہوئے ) اس بات کا اعلان کر دیا کہ سورج ہائیڈروجن سے بنا ہے۔ درحقیقت ہم جانتے ہیں کہ ستاروں سے خارج ہونے والی روشنی کے ارب ہا سال پہلے طیفی خطوط کا تجزیہ کر کے یہ ممکن ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے زیادہ تر کیمیائی عناصر کا پتا لگا سکیں۔

کومتے نے سائنس کی دنیا کو دوسری ناممکنات کی فہرست دے کر بھی للکارا تھا :

اس کا دعویٰ تھا کہ اشیاء کی اصل ساخت ہمارے علم سے ہمیشہ ماوراء ہی رہے گی۔ بالفاظ دیگر مادّے کی اصل نوعیت کو جاننا ممکن ہی نہ ہو گا۔

وہ سمجھتا تھا کہ ریاضی کو کبھی بھی حیاتیات اور کیمیا کو بیان کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔

اس کا خیال تھا کہ فلکی اجسام کا مطالعہ انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔

انیسویں صدی میں ایسی ناممکنات کو پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ سائنس کے بارے میں کا علم بہت ہی سطحی قسم کا تھا۔ مادّے اور حیات کے بارے میں وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ تاہم آج ہمارے پاس جوہر ی نظریہ ہے جس نے مادّے کی ساخت کی تفتیش کے لئے بالکل ایک نیا جہاں ہی کھول دیا ہے۔ ہم ڈی این اے اور کوانٹم کے نظریہ کے بارے میں جانتے ہیں جس نے حیات اور کیمیا کے کئی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہم خلاء میں شہابیوں کے اثر کے بارے میں بھی جان گئے ہیں جس نے نہ صرف زمین پر زندگی گزرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے بلکہ اس کے اپنے وجود کو بھی شکل دینے میں مدد کی ہے۔

فلکیات دان جان بیرو درج کرتے ہیں، "مورخ اب بھی اس بارے میں بحث کرتے ہیں کہ کومتے کا نقطۂ نظر ہی فرانس میں سائنس کے زوال کا ایک سبب بنا تھا۔ ”

ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hilbert) کومتے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں "میرے خیال کے مطابق کومتے کو غیر حل شدہ مسئلہ نہ ملنے کی اصل وجہ یہ ہے حقیقت میں کوئی بھی لاینحل مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ”

مگر آج سائنس دان نئے نا ممکنات کی فہرست بنا کر بیٹھ گئے ہیں : ہم کبھی بھی یہ بات نہیں جان پائیں گے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا (یا یہ دھماکہ ہوا ہی کیوں تھا ) اور ہم کبھی بھی ہر شئے کا نظریہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

طبیعیات دان جان وہیلر پہلے ناممکن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :”دو سو برس پہلے آپ کسی سے بھی یہ بات پوچھ سکتے تھے کہ "کیا ہم کبھی یہ بات سمجھ سکیں گے کہ حیات کیسے وجود میں آئی تھی ؟” اور وہ آپ کو شاید یہ جواب دیتا، ” بعید از قیاس !ناممکن !” میں بھی اس سوال کے لئے ایسا محسوس کرتا ہوں "کیا ہم کبھی یہ سمجھ سکیں گے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟” ماہر فلکیات جان بیرو مزید اضافہ کرتے ہیں، روشنی جس رفتار سے سفر کرتی ہے وہ محدود ہے لہٰذا ہمارا کائنات کی ساخت کے بارے میں علم بھی محدود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ محدود ہے یا لامحدود، اس کی شروعات بھی ہوئی تھی یا اس کا خاتمہ بھی ہو گا یا نہیں، معلوم نہیں کہ طبیعیات کی ساخت ہر جگہ ایک جیسی ہے یا نہیں، اور کیا کائنات صاف ہے یا گندی ہے ، ۔ ۔ ۔ ۔ تمام عظیم سوالات جو کائنات کی نوعیت کے بارے میں ہیں – اس کی پیدائش سے لے کر اس کے انجام تک – ناقابل جواب ہیں۔ ”

بیرو بالکل صحیح تھا کہ ہم کبھی بھی قطعیت کے ساتھ کائنات کی شان و شوکت کی  اصل نوعیت کو نہیں جان پائیں گے۔ مگر یہ بات ممکن ہے کہ ہم بتدریج ان ازلی سوالات کے جواب کافی نزدیک تک حاصل کر لیں۔ بجائے قطعیت کو اپنے علم کی سرحدوں کا تابع کریں ان ناممکنات کو اپنے لئے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا اگلی آنے والی سائنس دانوں کی نسل کے لئے زیادہ بہتر ہو گا۔ یہ حدود کیک کی پرتوں جیسی ہیں جن کو بس کاٹنا ہے۔

 

                بگ بینگ سے پہلے کے دور کا سراغ

 

بگ بینگ کے سلسلے میں سراغ رسان آلات کی ایک نئی نسل بنائی جا رہی ہے جو ان ازل سے موجود سوالات کا جواب دیں گے۔ خلاء میں موجود آج ہماری اشعاع کے سراغ رساں بگ بینگ کے تین لاکھ سال بعد پیدا ہونے والی ان خورد موجی شعاعوں کو ناپ سکتے ہیں جب پہلے جوہر بنے تھے۔ خورد موجوں کا استعمال کر کے ہم بگ بینگ کے بعد تین لاکھ برسوں سے پہلے کے دور کو نہیں جانچ سکتے کیونکہ اس سے پہلے والی شعاعیں بہت زیادہ گرم اور بے ترتیب تھیں اور ان سے ہمیں کسی بھی قسم کے کام کی اطلاعات حاصل نہیں ہو سکتیں۔

لیکن اگر ہم دوسری اقسام کی اشعاع کا تجزیہ کریں تو تب ہی ہمیں بگ بینگ سے قریب کے دور کی معلومات حاصل ہوں گی۔ مثال کے طور پر نیوٹرینو کا پیچھا کرتے ہوئے ہم بگ بینگ کے ابتدائی لمحے سے قریب ہو سکتے ہیں (نیوٹرینو اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ وہ پورے سیسے سے بنے ہوئے نظام شمسی میں سے گزر سکتے ہیں ) ۔ نیوٹرینو کی شعاعیں ہمیں بگ بینگ شروع ہونے کی چند لمحے پہلے تک لے جا سکتی ہیں۔

ممکن ہے کہ بگ بینگ کا سب سے بڑا راز ثقلی موجوں کے تجزیہ سے ہی پتا لگ سکے ، ثقلی موجیں جو مکان و زمان کی ساخت کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے طبیعیات دان راکی کولب (Rockey Kolb) کہتے ہیں، "نیوٹرینو کے پس منظر کا تجزیہ کرنے کے بعد تو ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے ایک سیکنڈ کے بعد تک کے وقت کو دیکھ سکیں گے۔ تاہم ثقلی موجیں جو افراطی دور کی ہیں وہ اس وقت کی باقیات ہیں جب کائنات کی عمر بگ بینگ کے بعد ١٠-٣٥ سیکنڈ کی تھی۔ ”

ثقلی موجوں کا اندازہ سب سے پہلے آئن سٹائن نے ١٩١٦ء میں لگا لیا تھا؛ اور یہ موجیں بالآخر فلکیات کی دنیا میں وہ سب سے اہم کھوجی بن سکتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر نئی اشعاع کی دریافت کے ساتھ فلکیات کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی اشعاع کی صورت بصری روشنی ہے جس کو گلیلیو نے نظام شمسی کی تفتیش کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اشعاع کی دوسری قسم ریڈیائی موجیں تھیں جس کا سہارا لیتے ہوئے آخرکار ہم نے کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہول کو تلاش کر لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ثقلی موجی سراغ رساں تخلیق کے اہم رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں۔

ایک طرح سے ثقلی موجوں کا وجود لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک پرانے سوال پر غور کیجئے :اس وقت کیا ہو گا جب سورج ایک دم سے غائب ہو جائے گا ؟نیوٹن کے مطابق ہمیں اس کا اثر فوری طور پر پتا لگ جائے گا۔ زمین فوری طور پر اپنے مدار سے نکل کر خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوٹن کی قوّت ثقل کا قانون سمتی رفتار کو خاطر میں نہیں لاتا لہٰذا قوّت ثقل پوری کائنات میں فوری طور پر نافذ العمل ہوتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی، لہٰذا سورج کے غائب ہونے کی اطلاع کو زمین تک پہنچنے میں ٨ منٹ لگیں گے۔ دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل کی ایک کروی صدماتی موج سورج سے نمودار ہوتی ہوئی زمین تک پہنچے گی۔ ثقلی موجوں کے باہر کی دنیا میں ایسا لگے گا کہ جیسا سورج معمول کے مطابق چمک رہا ہے کیونکہ اس کی اطلاع ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی ہو گی۔ ثقلی موجوں کے کرہ کے اندر بہرحال سورج پہلے ہی غائب ہو چکا ہو گا کیونکہ کہ پھیلتی ہوئی ثقلی موجیں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہوں گی۔

ایک دوسرا طریقہ اور بھی ہے جو ثقلی موجوں کے لازمی وجود کی توجیح فراہم کرتا ہے ، ذرا ایک بڑی چادر کا تصوّر کریں، آئن سٹائن کے مطابق مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جس کو لپیٹا اور کھینچا بھی جا سکتا ہے جس طرح سے خمدار بستر کی چادر ہوتی ہے۔ اگر ہم بستر کی چادر کو پکڑ کر تیزی سے ہلائیں تو ہم دیکھیں گے موجیں اس کی سطح پر ایک مخصوص سمتی رفتار سے بہتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ثقلی موجیں بھی بعینہ ایسی ہوتی ہیں جو مکان و زمان کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ثقلی موجیں طبیعیات کی دنیا میں زیر بحث ہونے والا آج کل سب سے زیادہ گرما گرم موضوع ہیں۔

سب سے پہلے ٢٠٠٣ء میں بڑے پیمانے پر کے ثقلی موجوں کے سراغ رساں نے کام کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نام لیگو (لیزر انٹرفیرو میٹر گریویٹیشنل ویو آ بزر ویٹری ) ہے ، اس کی لمبائی 2.5 میل ہے۔ ان میں سے ایک ہنفورڈ واشنگٹن میں ہے جبکہ دوسرا لیونگسٹون پیرش لوزیانا میں ہے۔ اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ لیگو جس کی لاگت ٣٦ کروڑ ٥٠ لاکھ ڈالر ہے ؛ بلیک ہول اور نیوٹرون ستاروں سے نکلنے والی اشعاع کا سراغ لگا سکے گا۔

اس بارے میں اگلی بڑی پیش رفت ٢٠١٥ء میں ہو گی جب ایک پوری نئی سیارچوں کی کھیپ خلاء میں بھیجی جائی گی جو تخلیق کے فوری لمحے کے بعد کے وقت پیدا ہونے والی ثقلی اشعاع کو خلائے بسیط سے حاصل کر کے ان کا تجزیہ کریں گے۔ تین سیارچے مل کر لیزا (لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا ) کی صورت میں سورج کے مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ یہ سیارچے اتنی اہلیت کے حامل ہوں گے کہ بگ بینگ میں پید ا ہونے والی ثقلی موجوں کا سراغ اس کی پیدائش کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ تک لگا سکیں گے۔ اگر بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی ثقلی موجیں اب بھی کائنات میں گھوم رہی ہیں تو یہ کسی بھی سیارچے سے ٹکرا کر اس  سے نکلنے والی لیزر کی کرن میں خلل ڈال دیں گی۔ یہ سیارچے لیزر کی کرن میں ہونے والے اس خلل کو بہت ہی درست انداز میں ناپ لیں گے نتیجتاً ہمیں تخلیق کے فی الفور لمحے کی نوزائیدہ کائنات کی تصویر حاصل ہو جائے گی۔

لیزا تین سیارچوں پر مشتمل ہے جو سورج کے گرد ایک تکون کی شکل میں چکر لگائیں گے ہر سیارچہ ایک ٣٠ لاکھ میل لمبی لیزر کی کرن سے جڑا ہوا ہو گا نتیجتاً یہ اب تک بننے والا سب سے بڑا آلہ ہو گا۔ یہ تین سیارچوں کا سلسلہ سورج کے گرد زمین سے ٣ کروڑ میل کی دوری پر چکر لگائے گا۔

ہر سیارچہ ایک لیزر کی کرن کو خارج کرے گا جس کی طاقت صرف آدھے واٹ کی ہو گی۔ دوسرے دونوں سیارچوں سے حاصل ہونے والی لیزر کی شعاعوں کا موازنہ کر کے ہر سیارچہ اس قابل ہو سکے گا کہ روشنی میں پڑنے والے خلل کا ایک خاکہ بنا سکے۔ اگر ثقلی موج لیزر کی کرن میں خلل ڈالے گی، تو وہ روشنی کے اس خلل شدہ خاکے کو بدل دے گی اور اس طرح سے سیارچہ اس خلل کو ناپ سکے گا۔ (ثقلی موجیں سیارچوں کو تھرتھرانے کے بجائے ان تینوں سیارچوں کے درمیان موجود خلاء کو مسخ کرے گی۔ )

اگرچہ لیزر کی شعاعیں کافی کمزور ہوتی ہیں، لیکن ان کی درستگی بہت ہی شاندار ہو گی۔ وہ ایک کھرب کے ایک کھربویں حصّہ تک کی تھرتھراہٹ کا سراغ لگا سکتی ہیں جو ایٹم کے حجم کا ایک بٹا ١٠٠ حصّہ ہے۔ ہر لیزر کی کرن ثقلی موج کا سراغ ٩ ارب نوری سال دوری سے لگا سکتی ہے یہ فاصلہ زیادہ تر قابل مشاہدہ کائنات کا احاطہ کرتا ہے۔

یہ لیزا اس قدر حساس ہو گی کہ وہ ممکنہ طور پر بگ بینگ سے پہلے کی مختلف صورتحالوں میں فرق کر سکے گی۔ نظری طبیعیات میں آج کل کا سب سے گرما گرم موضوع بگ بینگ سے پہلے کائنات کی خصوصیات کا حساب لگانا ہے۔ فی الوقت "افراط پذیر کائنات” کا نظریہ یا افراطی نظریہ بہت اچھی طرح سے بیان کر رہا ہے کہ کائنات بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد کیسے ارتقاء پذیر ہوئی۔ مگر افراط پذیر کائنات کا نظریہ یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے بگ بینگ کو شروع کیا۔ مقصد یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کے دور کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے بگ بینگ سے خارج ہوتی ہوئی ثقلی شعاعوں کا حساب لگایا جا سکے۔ بگ بینگ کے مختلف نظریوں میں سے ہر ایک مختلف قسم کا اندازہ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) نظریہ میں بتائی جانی والی بگ بینگ کی اشعاع اس سے مختلف ہو گی جو افراط کے کچھ دوسرے نظریئے بتاتے ہیں، لہٰذا اس بات کی قوی امید ہے کہ لیزا ان میں سے کافی نظریوں کو رد کر دے گی۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ یہ بگ بینگ سے پہلے کے نمونے براہ راست جانچے نہیں جا سکتے کیونکہ اس میں وقت کی تخلیق سے پہلے کی کائنات کو سمجھنا ہے۔ تاہم ہم ان کو بالواسطہ طور پر اس لئے جانچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ بگ بینگ کے بعد نکلنے والے مختلف شعاعوں کے طیف کا اندازہ لگاتا ہے۔

طبیعیات دان کپ تھورن لکھتے ہیں، "٢٠٠٨ء سے لے کر ٢٠٣٠ء کے درمیان کسی بھی وقت بگ بینگ کی وحدانیت کی ثقلی موجوں کو دریافت کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد آنے والا دور کم از کم ٢٠٥٠ء تک چلے گا۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوششیں بگ بینگ وحدانیت کی ابتدائی تفصیلات کو ظاہر کر دیں گی اور اس سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں تصدیق ہو گی کہ کچھ اسٹرنگ نظریئے ہی  قوّت ثقل کے کوانٹم کے درست نظریئے ہیں۔ ”

اگر لیزا بگ بینگ سے پہلے کے نظریوں میں فرق کرنے میں ناکام ہو گئی، تو اس کا جانشین ، دی بگ بینگ آبزرور (بی بی او ) شاید یہ کام کر سکے۔ اس کو اندازاً٢٠٢٥ء میں بھیجا جائے گا۔ بی بی او اس قابل ہو گا کہ وہ مکمل کائنات کا جائزہ لے سکے اس میں وہ تمام ثنائی نظام بشمول نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول جن کی کمیت سورج سے ایک ہزار گنا کم ہے ؛ شامل ہوں گے۔ اس کا اہم مقصد بگ بینگ کے افراطی دور سے خارج ہونے والی ثقلی موجوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس طرح سے ، بی بی او کو خاص اس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے کہ بگ بینگ کے دور میں ہونے والے افراط پذیر کائنات کے مرحلے کے نظریئے کی صحیح طرح سے کھوج کر سکے۔

بی بی او صورت گری میں ایک طرح سے لیزا کے جیسا ہی ہے۔ اس میں تین سیارچے شامل ہوں گے جو سورج کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے سے فاصلہ ٥٠ ہزار کلو میٹر کا ہو گا (یہ سیارچے ایک دوسرے سے لیزا کی با نسبت کافی قریب ہوں گے ) ۔ ان میں سے ہر ایک سیارچہ اس قابل ہو گا کہ وہ ایک ٣٠٠ واٹ کی طاقت کی لیزر کی کرن کو داغ سکے۔ بی بی او اس قابل ہو گا کہ ثقلی موجوں کے تعدد کو لیگو اور لیزا کے درمیان میں کھوج سکے اس طرح سے یہ ایک اہم فاصلے کو پاٹ سکے گا۔ (لیزا ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ سے ٣٠٠٠ ہرٹز تک، جبکہ لیگو ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ مائیکرو ہرٹز سے ١٠ ملی ہرٹز تک لگا سکتا ہے۔ بی بی او ان تعدد ارتعاش میں ثقلی موجوں کا سراغ لگائے گا جس میں یہ دونوں شامل ہیں۔ )

"٢٠٤٠ء تک ہم ان قوانین (کوانٹم کی ثقل ) کا استعمال کرتے ہوئے گہرے اور پریشان کن سوالات کے پر اعتماد جواب حاصل کر لیں گے ، "تھرون لکھتا ہے ، "بشمول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بگ بینگ وحدانیت سے پہلے کیا تھا یا اس وقت کوئی ایسی چیز بھی تھی کہ جیسے "قبل "؟ کیا دوسری کائناتیں بھی ہیں ؟اور اگر ایسا ہے تو وہ کس طرح سے ہماری کائنات سے ملی یا جڑی ہوئی ہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا طبیعیات کے قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جدید درجے کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں ثقف کرم کو بین النجم سفر کے لئے بنا کر قائم رکھ سکیں یا وہ کس طرح سے وہ وقت میں پیچھے کی طرف سفر کرنے کے لئے ٹائم مشین کو بناتے ہیں ؟”

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے چند عشروں میں خلاء میں موجود ثقلی موجی سراغ رسانوں سے حاصل ہوئے اتنے اعداد و شمار موجود ہوں گے جو مختلف قسم کے بگ بینگ کے نظریات میں تفریق کر سکیں۔

 

                کائنات کا خاتمہ

 

 

شاعر ٹی ایس ایلئٹ  (T.S. Eliot)  سوال کرتے ہیں کیا کائنات ایک دھماکے میں یا ریں ریں کرتے ہوئے ختم ہو گی ؟ رابرٹ فراسٹ (Robert Frost) پوچھتے ہیں کیا ہم سب کا خاتمہ آگ سے ہو گا یا پھر برف سے ؟ تازہ ترین حاصل ہونے والے ثبوت اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کائنات کی موت ایک عظیم انجماد میں ہو گی جس میں درجہ حرارت مطلق صفر تک جا پہنچے گا اور تمام ذہین مخلوق ختم ہو جائے گی۔ مگر کیا ہم اس بارے میں پر یقین ہیں ؟

کچھ لوگ دوسرے نا ممکن سوالات کو اٹھاتے ہیں۔ ہم کیسے کبھی یہ بات جان پائیں گے کہ کائنات کا مقدر کیا ہو گا، وہ پوچھتے ہیں، کیونکہ یہ واقعہ تو آج سے دسیوں کھرب سال کے بعد جا کر مستقبل میں ہو گا ؟ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریک توانائی یا خلاء کی توانائی کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلتی ہوئی لگ رہی ہے اور اس کی دھکیلنے کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے جو اس جانب اشارہ ہے کہ کائنات بے قابو ہو کر پھیل رہی ہے۔ ایسا کوئی بھی پھیلاؤ کائنات کے درجہ حرارت کو کم کر کے بتدریج ٹھنڈا کر دے گا اور بالآخر اس کا نتیجہ ایک عظیم انجماد کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مگر کیا یہ پھیلاؤ وقتی ہے ؟کیا مستقبل میں اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے ؟

مثال کے طور پر، عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) میں دو جھلیاں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس کے نتیجے میں کائنات بنتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ جھلیاں وقتاً فوقتاً ٹکراتی رہتی ہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو عظیم انجماد (بگ فریز) کی طرف جانے والا پھیلاؤ وقتی ہو گا اور یہ واپس پلٹے گا۔

حالیہ کائنات کے اسراع کی وجہ صرف تاریک توانائی ہے جس کی وجہ شاید کونیاتی مستقل ہے۔ اصل بات تو اس پراسرار مستقل یا پھر خلاء کی توانائی کو سمجھنا ہے۔ کیا یہ مستقل وقت کے ساتھ بدلتے ہیں یا واقعی یہ مستقل ہی ہیں ؟فی الحال کوئی بھی اس بات کو یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ زمین کے گرد چکر لگانے والے سیارچے ڈبلیو میپ کی بدولت ہم جانتے ہیں کہ یہ کونیاتی مستقل ہی کائنات کی حالیہ اسراع کے پیچھے ہے۔ تاہم ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ آیا یہ مستقل بھی ہے یا نہیں۔

مسئلہ اصل میں کافی پرانا ہے جو ١٩١٦ء میں اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب آئن سٹائن نے سب سے پہلے کائناتی مستقل کو پیش کیا تھا۔ اضافیت کے نظرئیے کو پیش کرنے کے اگلے ہی سال اس نے اپنے نظرئیے کے کونیاتی مضمرات پر کام کیا۔ اس کی توقع کے برخلاف کائنات متحرک تھی یعنی یا تو وہ پھیل رہی تھی یا پھر سکڑ رہی تھی۔ مگر یہ خیال اعداد و شمار کے موافق نہیں تھے۔

آئن سٹائن کا بینٹلے کے تناقض سے سامنا ہو گیا تھا جس نے نیوٹن کو بھی پریشان کر دیا تھا۔ ١٦٩٢ء میں ریور ینڈرچرڈ بینٹلے (Reverend Richard Bentley) نے نیوٹن کو بظاہر ایک معصومانہ خط لکھا جس میں ایک انتہائی تباہ کن سوال چھپا ہوا تھا۔ اگر نیوٹن کی قوّت ثقل ہمیشہ سے جاذبی نوعیت کی ہے ، بینٹلے پوچھتا ہے ، تو پھر کائنات منہدم کیوں نہیں ہو جاتی ؟ اگر کائنات محدود ستاروں کے مجموعہ پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک دوسرے کو آپس میں کھینچ رہا ہے تو اس کے نتیجے میں ستارے آپس میں ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ اس کا انجام یہ ہو گا کہ کائنات ایک آگ کے گولے کی صورت میں منہدم ہو جائے گی ! نیوٹن کو اس خط نے انتہائی پریشان کر دیا تھا کیونکہ یہ خط اس کے قوّت ثقل کے نظریہ میں موجود ایک اہم نقص کی طرف اشارہ کر رہا تھا : کوئی بھی قوّت ثقل کا نظریہ جو صرف کشش رکھتا ہو وہ اپنے آپ میں غیر متوازن ہو گا۔ محدود ستاروں کا مجموعہ ناگزیر طور پر قوّت ثقل کے تحت منہدم ہو جائے گا۔

نیوٹن نے اس کو جواب لکھا کہ صرف ایک ہی ایسا طریقہ ہے جس میں کائنات متوازن رہ سکتی ہے۔ وہ یہ  کہ کائنات لامحدود ستاروں کے یکساں طور پھیلے ہوئے مجموعہ پر مشتمل ہے جس کے نتیجے میں ستارہ ہر طرف سے کھینچا جا رہا ہے لہٰذا اس پر لگنے والی تمام قوّت ایک دوسرے کو زائل کر دیتی ہے۔ یہ بہت ہی شاطرانہ طرز کا جواب تھا، تاہم نیوٹن اتنا چالاک تھا کہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسی کوئی بھی پائیداری گمراہ کن ہو گی۔ تھوڑی سی ہلچل پورے شیش محل کو چکنا چور کر دے گی۔ اس صورت میں کائنات بہت ہی نازک توازن پر قائم ہو گی یعنی وقتی طور پر اس وقت تک پائیدار رہی گی جب تک اسے تباہ کرنے کے لئے تھوڑی سی بھی گڑ بڑ نہیں ہو گی۔ نیوٹن نے نتیجہ اخذ کیا کہ خدا وقتاً فوقتاً ستاروں کو درست کرتا رہتا ہے تا کہ کائنات منہدم نہ ہو۔

بالفاظ دیگر ، نیوٹن نے کائنات کو ایک بڑے گھڑیال کی طرح سے دیکھا، جس کو وقت کی شروعات میں خدا نے چابی دے دی جو نیوٹن کے دریافت شدہ قوانین کی پاسداری کر رہی ہے۔ یہ جب سے بغیر خدائی مداخلت کے خودکار طریقے سے چل رہی ہے۔ بہرحال نیوٹن کے مطابق، خدا ستاروں کو کبھی کبھار درست کرتا رہتا ہے تا کہ کائنات آگ کے گولے میں منہدم نہ ہو جائے۔

جب ١٩١٦ء میں آئن سٹائن کا سامنا بینٹلے کے تناقض سے ہوا تو اس کی مساوات صحیح طور پر بتا رہی تھی کہ کائنات یا تو متحرک ہے یا پھر پھیل رہی ہے یا پھر سکڑ رہی ہے۔ ساکن کائنات کسی بھی صورت قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تک فلکیات دان اس بات پر بضد تھے کہ کائنات ساکن اور غیر متغیر ہے۔ لہٰذا آئن سٹائن کو فلکیات دانوں کے آگے لامحالہ طور پر سر کو جھکا نا پڑا اور اس نے ایک کونیاتی مستقل کو اپنی مساوات میں شامل کر لیا۔ یہ کونیاتی مستقل قوّت ثقل کی ضد تھا جو ستاروں کو ایک دوسرے سے دھکیل رہا تھا تاکہ اس توازن کو برقرار رکھا جا سکے جس کے ختم ہونے سے کائنات منہدم ہو سکتی ہے۔ (یہ ضد قوّت ثقل خلاء میں موجود توانائی سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس صورتحال میں خلاء کی وسیع خالی جگہ غیر مرئی توانائی کی بڑی مقدار رکھتی تھی۔ ) اس مستقل کی مقدار کو بہت ہی درستگی کے ساتھ چنا گیا تھا تا کہ قوّت ثقل کی کشش کی طاقت کو زائل کیا جا سکے۔

بعد میں جب ایڈوِن ہبل نے ١٩٢٩ء میں اس بات کو ثابت کیا کہ کائنات اصل میں پھیل رہی ہے ، تب آئن سٹائن کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ کائناتی مستقل اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس کے باوجود ستر سال گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آئن سٹائن کی وہ غلطی، کونیاتی مستقل، اصل میں کائنات میں موجود سب سے بڑا توانائی کا سوتا ہے جو کائنات کے ٧٣ فیصد مادّے اور توانائی کے اجزاء پر مشتمل ہے۔ (وہ عناصر جنہوں نے ہمارے جسموں کو بنایا ہے وہ صرف کائنات کا 0.03 فیصد ہیں) ۔ شاید آئن سٹائن کی غلطی ہی کائنات کا مستقبل طے کرے گی۔

مگر یہ کائناتی مستقل آیا کہاں سے ؟فی الوقت کوئی نہیں جانتا۔ ممکن ہے کہ وقت کے شروع میں ضد قوّت ثقل کی طاقت شاید اتنی پر اثر تھی جس کے نتیجے میں کائنات پھیل سکی اور یوں بگ بینگ وجود میں آیا۔ اس کے بعد یہ اچانک غائب ہو گئی! کس وجہ سے یہ بات اب تک معلوم نہیں ہے۔ (کائنات اس وقت میں بھی پھیل رہی تھی، مگر کم رفتار سے۔ ) مگر پھر بگ بینگ کے لگ بھگ ٨ ارب سال بعد ضد قوّت ثقل واپس سے نمودار ہوئی اور کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں کائنات کا پھیلاؤ دوبارہ سے اسراع پذیر ہو گیا۔

تو کیا یہ بات واقعی ناممکن ہے کہ کائنات کے حتمی انجام کا تعین نہیں کیا جا سکے گا ؟ شاید نہیں۔ زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوانٹم کا اثر آخرکار کائناتی مستقل کے حجم کا تعین کرے گا۔ اصل کوانٹم نظریہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک سادہ سا حساب بتاتا ہے کہ کائناتی مستقل ١٠١٢٠ کی قوّت کے بقدر اصل مقدار سے دور ہے۔ یہ سائنس کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا بے جوڑ ہے۔

تاہم طبیعیات دان اس پر بھی متفق ہیں کہ اس بے قاعدگی کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک کوانٹم قوّت ثقل کے نظرئیے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کائناتی مستقل کوانٹم تصحیحات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے لہٰذا ہر شئے کے نظرئیے کی انتہائی شدید ضرورت ہے – ایک ایسا نظرئیے جو ہمیں اس بات کی اجازت دے کہ نہ صرف ہم معیاری نمونے کا اس کی مدد سے تعین کر سکیں بلکہ کونیاتی مستقل کی قدر کو بھی بتا سکیں جس نے کائنات کا مقدر طے کرنا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

 

                ہر شئے کا نظریہ

 

جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ اسٹرنگ نظریہ "ہر شئے کے نظرئیے "کے لئے ایک ابھرتا ہوا نظریہ ہے ، مگر کچھ لوگ گومگو کیفیت میں بھی ہیں کہ آیا اسٹرنگ نظریہ ہر شئے کے نظریئے بننے کے دعوے کو حاصل بھی کرے گا یا نہیں۔ ایک طرف ایم آئی ٹی کے پروفیسر میکس ٹیگمارک بھی ہیں جو لکھتے ہیں، "٢٠٥٦ء میں، میرے خیال میں آپ ایک ایسی ٹی شرٹ خرید سکیں گے جس کے پیچھے کائنات کی یکساں طور پر طبیعیاتی قوانین کی اطلاقی مساوات چھپی ہوئی ہو گی۔ ” دوسری طرف ناقدین کی ایک پر عزم جماعت ہے جو اس بات پر مصر ہے کہ اسٹرنگ کے نظرئیے کو ابھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم چاہئے جتنے بھی دم بخود کر دینے والی ٹیلی ویژن پر چلنے والی دستاویزی فلموں کو بنا لیں جو اسٹرنگ نظرئیے کو بیان کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، اس نظریئے کو اب بھی ایک قابل جانچ عمل میں اپنے آپ کو ثابت کرنا باقی ہے ، کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ بجائے ہر شئے کے نظرئیے کے یہ نظریہ تو کسی بھی شئے کا نہیں ہے ، ناقدین نے دعویٰ کیا۔ بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ٢٠٠٢ء میں ا سٹیفن ہاکنگ نے نامکمل مفروضہ ہونے کی وجہ سے جگہ بدل لی اور کہا کہ ایک ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنا شاید ریاضیاتی طور پر ممکن نہیں ہے۔

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہے کہ ایک طبیعیات دان دوسرے طبیعیات دان پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے کیونکہ ہرچند مقصد بہت عظیم لیکن مبہم ہے۔ قدرت کے تمام قوانین کو یکجا کرنے کی جستجو ایک ہزار برس سے طبیعیات دانوں اور فلاسفروں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ خود سقراط نے ایک دفعہ کہا تھا کہ، "مجھے اعلیٰ و ارفع وہ چیز لگتی ہے جس سے میں ہر چیز کے بارے میں جان سکوں، کہ آیا وہ کیوں وقوع پذیر ہوتی ہے ، اس کا خاتمہ کیوں ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ ہے کیوں۔ ”

ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنے کی سب سے پہلی سنجیدہ کوشش ٥٠٠ قبل مسیح میں اس وقت ہوئی جب یونانی فیثا غورسیوں کو موسیقی کے ریاضیاتی قوانین کی تفصیل سمجھ میں آئی۔ تاروں کی تھرتھراہٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ موسیقی بھی سادہ ریاضی کے تابع ہی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ تمام قدرت کو ایک ہی طرح سے بربطی تار کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ (ایک طرح سے ، اسٹرنگ کے نظرئیے نے فیثا غورسیوں کے خواب کو دوبارہ سے زندہ کر دیا ہے۔ )

جدید دور میں طبیعیات کی تمام بڑی ہستیوں نے اپنی قسمت آزمائی ایک یکجا میدانی نظرئیے میں کی ہے۔ مگر جیسا کہ فری مین خبر دار کرتا ہے ، ” طبیعیات کے میدان میں وحدتی نظریوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ ”

١٩٢٨ء میں نیو یارک ٹائمز نے ایک سنسنی خیز شہ سرخی چھاپی "آئن سٹائن ایک عظیم دریافت کے دھانے پر ؛ بیجا مداخلت پر ناراض۔ ” بے چینی سے منتظر اور پیاسا ذرائع ابلاغ جو ہر شئے کے نظرئیے کو پھیلانے کے لئے تیار کھڑا تھا اس کی لئے یہ خبر نعمت غیر مترقبہ بن کر اتری۔ شہ سرخی کچھ یوں گرجی "آئن سٹائن نظرئیے میں ہلچل سے خوش۔ ١٠٠ صحافیوں کو ساحل پر ایک ہفتے کے لئے بلا لیا۔ ” صحافیوں کی کافی تعداد اس کے گھر برلن میں جمع ہو گئی، جہاں بغیر کسی وقفے کے اس کی نگرانی شروع ہو گی تاکہ سب سے پہلے ان کی نظر ہی اس شاندار دریافت پر پڑے۔ اور وہ ایک زبردست خبر کو حاصل کر سکیں۔ ان تمام واقعات نے آئن سٹائن کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ ان صحافیوں سے چھپ جائے۔

ماہر فلکیات آرتھر ایڈنگٹن نے آئن سٹائن کو لکھا :”یہ بات جان کر آپ کو نہایت خوشی ہو گی کہ ہمارا لندن کا ایک بڑا ڈیپارٹمنٹ اسٹور (سیلفرجز ) نے اپنی کھڑکیوں پر آپ کے مقالے کو چسپاں کیا ہوا ہے (چھ صفحات ایک کے بعد ایک لگے ہوئے ہیں ) تاکہ راہ گیر ان کو پورا پڑھ سکیں۔ اس کو پڑھنے کے لئے کافی سارا مجمع جمع ہو گیا ہے۔ ” (١٩٢٣ء میں ایڈنگٹن نے خود اپنی عظیم وحدتی میدانی نظریہ پیش کیا جس پر اس نے ١٩٤٤ء میں اپنی موت تک زندگی کے تمام شب ور روز ایک کر دیئے تھے۔ )

١٩٤٦ء میں کوانٹم میکانیات کے بانیوں میں سے ایک ایرون شروڈنگر نے ایک پریس کانفرنس رکھی جس میں اس نے اپنا عظیم وحدتی میدانی نظریہ پیش کیا۔ اس پریس کانفرنس میں آئرلینڈ کے وزیراعظم، ایمون ڈی ویلیرا تک (Eamon De Valera)  بھی موجود تھے۔ جب ایک رپورٹر نے پوچھا کہ وہ اس وقت کیا کرے گا جب اس کا نظریہ غلط ثابت ہو گا۔ شروڈنگر نے جواب دیا، "میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میں صحیح ہوں۔ میں اس وقت ایک انتہائی احمق دکھائی دوں گا اگر میں غلط ہوا۔ ” (شروڈنگر کی اس وقت کافی تذلیل ہوئی جب آئن سٹائن نے انتہائی ملائمت کے ساتھ اس کے نظرئیے میں غلطیوں کی طرف نشاندہی کی۔ )

وحدت کے سب سے زیادہ خلاف تنقید کرنے والوں میں طبیعیات دان وولف گینگ پائولی (Wolfgang Pauli)  ہیں۔ اس نے آئن سٹائن کو یہ کہ کر جھڑکا تھا، ” جو چیز خدا نے ٹکڑے ٹکڑے کر کر الگ کر دی ہے ، اس کو کوئی بھی انسان نہیں جوڑ سکتا۔ ” وہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ کسی بھی کچے پکے ناقص نظرئیے پر بھپتی کستا تھا:” یہ اتنا بھی غلط نہیں ہے۔ ” لہٰذا یہ بہت ہی متضاد بات تھی کہ جب خود ترش رو پاؤ لی نے اپنا عظیم وحدتی میدانی نظریہ ورنر ہائزن برگ کے ساتھ ١٩٥٠ء کے عشرے میں پیش کیا۔

١٩٥٨ء میں پاؤلی نے ہائزن برگ – پاؤلی کا وحدتی نظریہ کولمبیا یونیورسٹی میں پیش کیا۔ نیلز بوہر مجمع میں شامل تھا اور یہ نظریہ اس کو متاثر کرنے میں بالکل ناکام ہوا۔ بوہر کھڑا ہو گیا اور بولا، "ہم پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ اس بات پرتو متفق ہیں کہ آپ کا نظریہ پاگل پن ہے۔ تاہم جس بات پر ہم میں پھوٹ پڑ گئی ہے وہ یہ ہے کہ نظریہ کس قدر بیوقوفانہ ہے۔ ” تنقید دندان شکن تھی۔ کیونکہ تمام پیش کردہ نظریوں کو پرکھ کر مسترد کر دیا گیا تھا، ایک سچا نظریہ ماضی سے بہت ہی زیادہ مختلف ہونا چاہئے۔ ہائیزن برگ – پاؤلی کا نظریہ بہت ہی زیادہ روایتی، بہت ہی عام سا تھا، وہ ایک سچا نظریہ بننے کی اہلیت سے کافی دور تھا۔ (اسی سال پاؤلی اس وقت کافی مضطرب ہو گیا جب ہائیزن برگ نے ریڈیو پر یہ کہا کہ صرف چند تیکنیکی تفصیلات ان کے نظریہ میں رہ گئیں تھیں۔ پاؤ لی نے اپنے دوست کو ایک کورا خط بھیجا جس پر صرف ایک سادہ مستطیل بنا ہوا تھا جس کا عنوان تھا، "یہ دنیا کو بتانے کے لئے ہے کہ میں ٹائٹن کو بنا سکتا ہوں۔ صرف تیکنیکی تفصیلات اس میں موجود نہیں ہیں۔ ")

 

                اسٹرنگ کے نظرئیے پر تنقید

 

وآج ہر شئے کے نظرئیے کا ابھرتا ہوا امید وار اسٹرنگ کا نظریہ ہے۔ تاہم اس کے بارے میں بھی ایک شدید رد عمل ظاہر ہوا ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں بڑی جگہ حاصل کرنے کے لئے آپ کو اسٹرنگ کے نظرئیے پر کام کرنا لازمی ہو گا۔ اگر آپ یہ کام نہیں کر سکے تو آپ فارغ ہیں۔ یہ غیر ضروری خبط ہے اور طبیعیات کے لئے یہ بات اچھی نہیں ہے۔

میں جب بھی یہ تنقید سنتا ہوں تو مسکراتا ہوں، کیونکہ طبیعیات انسانی دوڑ دھوپ کی طرح وقتی غیر ضروری خبط اور رواج کی ماتحت ہے۔ عظیم نظریوں کی قسمت خاص طور پر اختراعی انسانی علم دامن کی طرح اٹھتا اور گرتا رہتا ہے ، درحقیقت کافی برسوں پہلے جگہ بدلی ہوئی تھی ؛ اسٹرنگ کا نظریہ ناکارہ قرار دیا جا چکا تھا، یہ ایک برگشتہ نظریہ تھا، یہ چلتی کا نام گاڑی کے اثر کا شکار تھا۔

اسٹرنگ نظرئیے کی پیدائش ١٩٦٨ء میں اس وقت ہوئی تھی جب دو مابعد ڈاکٹریٹ کرنے والے ، گیبریل وینزیانو (Gabriel Veneziano)  اور ماہیکو سوزوکی (Mahiko Suzuki) کا واسطہ ایک ایسے کلیہ سے پڑا جو ذیلی جوہری ذرّات کے تصادم کو بیان کرتا ہوا نظر آیا۔ جلد ہی اس بات کو کھوج لیا گیا کہ یہ شاندار کلیہ تھرتھرا تھے ہوئے تاروں کے تصادم سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ١٩٧٤ء میں یہ نظریہ مردہ ہو گیا تھا۔ ایک نیا نظریہ کوانٹم لونی حرکیات (کیو سی ڈی ) یا ” کوارک کا نظریہ اور قوی تفاعل” ایک خطرناک طاقت کے روپ میں ابھری جس نے تمام نظریوں کو پچھاڑ دیا۔ لوگوں نے کیو سی ڈی کے چکر میں اسٹرنگ کے نظرئیے کو بھلا دیا۔ تمام پیسے ، نوکریاں، اور شہرت ان طبیعیات دانوں کے پاس جانے لگی جو کوارک کے نمونے پر کام کر رہے تھے۔

مجھے بھی وہ تاریک دن اچھی طرح سے یاد ہیں۔ صرف کچھ احمقانہ بہادر یا پھر ضدی لوگ اسٹرنگ کے نظریہ میں جتے رہے۔ اور جب یہ دریافت ہوا کہ یہ اسٹرنگ صرف دس جہتوں میں ہی تھرتھرا سکتے ہیں تو نظریہ زبردست تمسخر کا نشانہ بنا۔ اسٹرنگ کے بانی جان شیوارز  (John Schwarz)  کالٹک میں بالا بر میں اکثر رچرڈ فینمین سے ٹکرا جاتے۔ ہر وقت مذاق کرنے والا فینمین ان سے پوچھتا، "اچھا، جان یہ بتاؤ کہ آج کل تم کتنی جہتوں میں پائے جا تے ہو ؟”ہم اکثر یہ بات مذاق میں کہتے تھے کہ کسی بھی اسٹرنگ نظرئیے دان کو تلاش کرنا ہے تو ان کو بیروزگاروں کی قطار میں ڈھونڈو۔ (نوبل انعام یافتہ مررے گال –مین، کوارک نمونے کے بانی، نے ایک دفعہ مجھ سے اس بات کا ذکر کیا کہ ان کو اسٹرنگ نظریہ دانوں پر رحم آتا تھا اور انہوں نے کالٹک میں "قدرت نے خطرات میں گھرے اسٹرنگ کے نظرئیے دانوں کو بچا کر رکھا ہے۔ ” بنایا تاکہ جان جیسے لوگ بے روزگار نہ ہو جائیں۔ )

اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کافی نوجوان طبیعیات دان اسٹرنگ کے نظریہ پر کام کر رہے ہیں، سٹیووائن برگ نے لکھا، "اسٹرنگ کا نظریہ صرف ہمیں دور حاضر کا حتمی امیدوار فراہم کرتا ہے – یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی روشن نوجوان نظریہ دان اس پر کام نہ کریں ؟”

 

                کیا اسٹرنگ کے نظریہ کی جانچ نہیں کی جا سکتی ؟

 

دور حاضر میں سب سے زیادہ تنقید اسٹرنگ کے نظریہ پر یہ ہے کہ اس کو جانچا نہیں جا سکتا۔ ناقدین کے دعووں کے مطابق ایک کہکشاں کے حجم کا جوہری تصادم گر اس کو جانچنے کے لئے درکار ہو گا۔

مگر یہ تنقید اس بات کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ زیادہ تر سائنس کو بالواسطہ کے بجائے بلاواسطہ ہی جانا گیا ہے۔ کسی نے آج تک سورج کی جانچ کے لئے اس کا سفر نہیں کیا، مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ ہائیڈروجن گیس سے بنا ہے کیونکہ ہم اس کی طیفی لکیروں کو دیکھ سکتے ہیں۔

یا بلیک ہول کو ہی لے لیں۔ بلیک ہول کا نظریہ ١٧٨٣ء میں اس وقت پیدا ہوا جب جان مچل (John Michell) نے ایک مضمون فلوسفیکل ٹرانزیکشنس آف دی رائل سوسائٹی میں چھاپا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ کوئی ستارہ اتنا ضخیم ہو سکتا ہے کہ ” ایسے کسی ضخیم جسم سے خارج ہونے والی تمام روشنی اسی کے پاس واپس ثقلی طاقت کے اثر سے لوٹ جائے گی۔ مچل کا  "تاریک ستارے ” کا نظریہ صدیوں تک گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا کیونکہ اس کا براہ راست جانچنا ممکن نہ تھا۔ ١٩٣٩ء میں آئن سٹائن نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی بھی ایسا تاریک ستارہ قدرتی طور پر نہیں بن سکتا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ اندھیرے ستارے بذات خود ہی جانچ کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ اپنی تعریف کی رو سے وہ غیر مرئی ہوں گے۔ اس کے باوجود آج ہبل خلائی دوربین نے بلیک ہول کے ہمیں شاندار اور نفیس شواہد فراہم کیے ہیں۔ اب ہم اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ ارب ہا ایسے ستارے کہکشاؤں کے قلب میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، کافی تعداد میں بلیک ہول تو ہماری اپنی کہکشاں میں ہی موجود ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلیک ہول کے تمام ثبوت و شواہد بلاواسطہ ہیں ؛ یعنی کہ ہم نے بلیک ہول کے بارے میں تمام اطلاعات کو افزودہ قرص (تہ دار ٹکیہ) کے تجزیے سے حاصل کیا ہے جو ان کے گرد گھومتی ہے۔

مزید براں یہ کہ کئی ناقابل جانچ نظریہ آخر میں قابل جانچ بن گئے تھے۔ دمقراط کے جوہر کے نظریہ کو پیش کئے جانے کے بعد اس کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے ٢ ہزار سال کا عرصہ لگا۔ انیسویں صدی کے طبیعیات دان جیسا کہ لڈوگ بولٹزمین کو اس نظریہ پر یقین رکھنے پر موت سے ہمکنار ہونا پڑا، اس کے باوجود آج ہمارے پاس جوہروں کی نفیس تصاویر موجود ہیں۔ پاؤلی نے خود سے نیوٹرینو کا تصّور ١٩٣٠ء میں پیش کیا تھا، یہ ایک ایسا ذرّہ تھا جو سیسے کے ٹھوس بلاک سے بنے ہوئے پورے کے پورے نظام شمسی کے جتنے حجم میں سے بھی جذب ہوئے بغیر گزر جاتا تھا۔ پاؤلی نے ایک مرتبہ کہا تھا، "میں نے گناہ کبیرہ کر دیا تھا ؛ میں نے ایک ایسے ذرّے کو پیش کیا جس کا مشاہدہ کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ” اس وقت نیوٹرینو کا مشاہدہ کر ناممکن نہ تھا، لہٰذا عشروں تک اس کو سائنسی قصص سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود ہم آج نیوٹرینو کی کرنوں کو پیدا کر سکتے ہیں۔

درحقیقت کافی سارے ایسے بلاواسطہ اسٹرنگ نظرئیے کی جانچ کے تجربات موجود ہیں جو طبیعیات دانوں کو امید دلا رہے ہیں :

ممکن ہے کہ لارج ہیڈرون کولائیڈر اتنی طاقتور ہو کہ وہ اسپار ٹیکل یا سپر پارٹیکل جو کہ اسٹرنگ نظریہ کے مطابق (اور دوسرے فوقی تشاکل نظریوں کے مطابق ) بلند تھرتھراہٹ ہے کو پیدا کر سکے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے ، ٢٠١٥ء میں لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا (لیزا ) کو خلاء میں بھیجا جائے گا۔ لیزا اور اس کے جانشین ، بگ بینگ آبزرور شاید اتنے حساس ہوں کہ وہ بگ بینگ سے پہلے کے مختلف  قسم کے نظریوں بشمول اسٹرنگ کے کچھ نظریوں کی بھی جانچ کر سکیں گے۔

کافی ساری تجربہ گاہیں اضافی جہتوں کی کھوج میں مصروف ہیں جو نیوٹن کے شہرہ آفاق قانون معکوس مربع سے انحراف کو ملی میٹر کے پیمانے پر تلاش کر رہے ہیں۔ (اگر کوئی چوتھی مکانی جہت موجود ہوئی تو قوّت ثقل معکوس مربع کے بجائے معکوس مکعب سے کم ہو گی۔ ) سب سے جدید اسٹرنگ نظرئیے کا ورژن (ایم نظریہ )  گیارہ جہتوں کی پیشن گوئی کرتا ہے۔

کئی تجربہ گاہیں تاریک مادّے کا سراغ لگانے کی کھوج میں ہیں، کیونکہ زمین کونیاتی تاریک مادّے کی ہوا میں حرکت کر رہی ہے۔ تاریک مادّے کی خواص کے بارے میں اسٹرنگ کا نظریہ مخصوص، قابل جانچ پیشن گوئیاں کرتا ہے کیونکہ تاریک مادّہ شاید اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ کی اضافی جہت ہے۔ (جیسا کہ فوٹینو ) ۔

اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ مزید تجربات کے سلسلے (جیسا کہ نیوٹرینو کی جنوبی قطب پر تقطیب ) شاید ننھے بلیک ہول اور دوسرے عجیب اجسام کا سراغ کونیاتی شعاعوں میں بے قاعدگی کا تجزیہ کر کے لگا سکیں  جس کی توانائی آسانی سے ایل ایچ سی سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ کونیاتی شعاعوں اور ایل ایچ سی کے تجربے سے معیاری نمونے سے بھی آگے نئے جہاں کھلیں گے۔

ایسے بھی طبیعیات دان موجود ہیں جو اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ بگ بینگ اتنا زیادہ دھماکے دار تھا کہ شاید ننھے سپر اسٹرنگ کونیاتی تناسب سے پھوٹے ہوں۔ جیسا کہ تفٹس یونیورسٹی کے طبیعیات دان الیگزینڈر ویلنکن (Alexander Vilenkin) لکھتے ہیں، "ایک بہت ہی زیادہ پر تجسس ممکنہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ سپر اسٹرنگ کی فلکیاتی جہتیں ہوں۔ ۔ ۔ تب ہم اس قابل ہوں گے کہ آسمان میں اس کا مشاہدہ کر کے براہ راست اسٹرنگ کے نظریہ کی جانچ کر سکیں۔ ” (بگ بینگ کے دوران پھوٹنے والی سپر اسٹرنگ کی باقیات کو تلاش کرنے کا احتمال بہت ہی معمولی ہے۔ )

 

                کیا طبیعیات نامکمل ہے ؟

 

١٩٨٠ء میں ا سٹیفن ہاکنگ کے لیکچر بعنوان "کیا طبیعیات کے خاتمے کا وقت قریب نظر آ رہا ہے ؟”نے ہر شئے کے نظرئیے کو پھیلانے میں کافی مدد دی ہے ، اس مضمون میں وہ کہتا ہے ، "ہم میں سے کچھ لوگ جو اس دور میں جی رہے ہیں اپنی زندگی میں ہی ایک مکمل نظرئیے کو دیکھ سکیں گے۔ ” اس کا دعویٰ ہے کہ اس بات امکان آدھا آدھا ہے کہ ہم اگلے ٢٠ برسوں میں حتمی نظرئیے کو حاصل کر پائیں گے۔ مگر جب ٢٠٠٠ء آگیا اور ہر شئے کے نظرئیے پر کسی بھی قسم کا اتفاق نہیں ہوسکا تو اس نے اپنی سوچ بدلی اور کہا کہ آدھا آدھا اس بات کا امکان ہے کہ اگلے ٢٠ برسوں میں ہم اس کو تلاش کر سکیں۔

پھر ٢٠٠٢ء میں ا سٹیفن ہاکنگ نے ایک بار پھر اپنے خیال میں تبدیلی کی اور اعلان کیا کہ گوڈیل کا نامکمل کلیہ اس کی سوچ کے ایک انتہائی مہلک نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس نے لکھا، ” محدود اصولوں پر مشتمل حتمی نظریہ کو بنانے میں ناکامی پر کچھ لوگ بہت زیادہ ناامید ہوں گے۔ میں اسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا، مگر اب میں نے اپنی سوچ تبدیل کر لی ہے۔ ۔ ۔ ۔ گوڈیل کا کلیہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاضی دانوں کے لئے ہمیشہ ہی روزگار موجود رہے گا۔ میرے خیال میں ایم نظریہ بھی طبیعیات دانوں کے لئے یہ ہی کام سرانجام دے گا۔ ”

اس کے دلائل پرانے ہیں :کیونکہ ریاضی نامکمل ہے اور طبیعیات کی زبان ہی ریاضی ہے ، لہٰذا ہمیشہ ایسے سچے بیان موجود رہیں گے جو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رہیں گے لہٰذا ہر شئے کا نظریہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ۔ کیونکہ نامکمل کلیہ نے یونانیوں کے اس خواب کو مار ڈالا تھا جو انہوں نے ریاضی میں تمام سچے بیانوں کو حاصل کرنے کے کے لئے دیکھا تھا، یہ ہمیشہ ہی ممکن رہے گا کہ ہر شئے کا نظریہ ہماری پہنچ سے دور رہے۔

فری مین ڈیسن نے اس بات کو انتہائی فصاحت کے ساتھ اس وقت کہا جب اس نے یہ لکھا، "گوڈیل نے یہ بات ثابت کر دی کہ ریاضی کی دنیا لازوال ہے ؛ کوئی بھی محدود جامع کلیات کا مجموعہ اور اصول استنباط کبھی بھی پوری ریاضی کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔ ۔ ۔ ۔ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اس سے ملتی جلتی ہی صورتحال طبیعیات کی دنیا میں بھی ہو گی۔ اگر میرا مستقبل بینی کا نظریہ درست ہوا، تو اس کا مطلب ہو گا کہ دنیائے طبیعیات اور فلکیات بھی لازوال ہوں گی، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم مستقبل میں کتنا بھی آگے چلے جائیں، ہمیشہ نت نئی چیزیں سامنے آتی رہیں گی، نئی اطلاعات آتی رہیں گی، نئی جہاں کھوجنے کے لئے آتے رہیں گے ، مستقل زیست، شعور اور یاد داشت کا حلقہ اثر پھیلتا رہے گا۔ ”

فلکیاتی طبیعیات دان جان بیرو اس کا خلاصہ ایک منطقی انداز میں پیش کرتے ہیں "”سائنس کی بنیاد ریاضی پر ہے ؛ ریاضی تمام سچائیوں کو نہیں دریافت کرسکتی ؛ لہٰذا سائنس بھی کبھی تمام سچائیوں کو نہیں کھوج سکتی۔ ”

ایسی کوئی بھی دلیل سچی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی، مگر اس میں ممکنہ نقائص موجود ہو سکتے ہیں۔ پیشہ ور ریاضی دان زیادہ اپنے کام میں موجود ریاضی کے نامکمل کلیہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نامکمل کلیہ شروع ہی اس تجزیاتی بیان سے ہوتا ہے جس میں اس ہی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ؛ یعنی کہ وہ خود سے اپنے آپ کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل بیان متناقض ہیں :

یہ جملہ غلط ہے۔

میں جھوٹا ہوں۔

اس بیان کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

پہلے جملے میں اگر بیان درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے۔ اگر جملہ غلط ہے ، تو بیان درست ہو گا۔ اسی طرح سے ، اگر میں سچ بول رہا ہوں، تو میں جھوٹ بول رہا ہوں، اور اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو میں سچ بول رہا ہوں۔ آخری جملے کے بارے میں اگر وہ سچا ہے تو اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سچا ہے۔

(دوسرا جملہ مشہور زمانہ جھوٹے کا تناقض ہے۔ کریٹ کے رہنے والے فلاسفر ایپیمینی ڈیز (Epimenides) اس تناقض کی مثال کو یہ کہتے ہوئے استعمال کرتے تھے ، "سارے کریٹن جھوٹے ہوتے ہیں۔ ” بہرحال سینٹ پال نے یہ نقطہ پوری طرح سے چھوڑ دیا اور ٹائیٹس  (Titus) کے نام اپنے مکتوب میں لکھا، "کریٹ کے اپنے ہی ایک پیغام بر نے یہ کہا تھا کہ ‘کریٹن ہمیشہ ہی جھوٹے ، شیطانی وحشی، سست پیٹو ہوتے ہیں۔ ‘ اس نے یقینی طور پر ایک سچ بات کی تھی۔ ")

نامکمل کلیہ ایسے بیانوں پر بنتا ہے "اس جملے کو ریاضی کلیوں کے حساب سے ثابت نہیں کیا جا سکتا ” اور پھر انتہائی پیچیدہ خود حوالہ جاتی تناقضات پیدا کرتا ہے۔

ہاکنگ نے بہرحال نامکمل کلیہ کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ہر شئے کے نظریئے کا وجود نہیں ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ گوڈیل کا نامکمل نظریہ خود حوالہ جاتی ہے اور طبیعیات بھی ایسی ہی بیماری سے متاثرہ ہے۔ کیونکہ مشاہد کو مشاہدے کے عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ طبیعیات ہمیشہ سے اپنے آپ کا حوالہ دے گی، کیونکہ ہم کائنات کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ حتمی تجزیہ میں شاہد بھی جوہروں اور سالموں سے بنا ہے لہٰذا وہ بھی اس تجربہ کا لازمی حصّہ ہے جس کو وہ ادا کر رہا ہے۔

مگر ہاکنگ کی تنقید سے بچنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔ گوڈیل کے کلیہ میں موروثی طور پر موجود تناقض سے بچنے کے لئے ، پیشہ ور ریاضی دان آج کل صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ ان کا کام تمام زیر حوالہ جات سے مستثنیٰ ہے۔ اس طرح سے وہ نامکمل کلیے کو جل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ریاضی میں ہونے والی زبردست پیش رفت کافی حد تک گوڈیل کے نامکمل کلیے کو نظر انداز کر کے ہی ممکن ہو سکی ہے ، یعنی کہ دور حاضر کے تمام کام کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کا حوالہ نہیں دیں گے۔

اسی طرح سے ایسا ہونا ممکن ہے کہ ہر شئے کے نظریہ کو بنایا جا سکے۔ ایسا کوئی بھی نظریہ ہر دریافت شدہ تجربے کو شاہد / مشاہد جفت شاخیت پر انحصار کیے بغیر خود سے بیان کر سکے گا۔ اگر ایسا کوئی بھی ہر شئے کا نظریہ بگ بینگ سے لے کر قابل مشاہدہ کائنات تک جس کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، بیان کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر یہ صرف علمی بحث ہی رہ جائے گی کہ ہم شاہد اور مشاہد کے آپس میں تعلق کو کیسے بیان کریں۔

مزید براں ہو سکتا ہے کہ قدرت لامتناہی اور لامحدود ہو اگرچہ وہ تھوڑے اور کم اصولوں پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ذرا شطرنج کے کھیل کا تصوّر کریں۔ دوسرے سیارے سے آئی ہوئی خلائی مخلوق سے کہیں کہ وہ صرف کھیل کو دیکھ کر اس کے اصولوں کو معلوم کریں۔ کچھ عرصے کے بعد خلائی مخلوق کو سیکھ لیتی ہے کہ کس طرح پیادے ، گھوڑے اور بادشاہ کو حرکت دی جا سکتی ہے۔ کھیل کے اصول محدود اور سادے ہیں۔ مگر ممکنہ کھیلوں کی تعداد فلکیاتی ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے قدرت کے قانون بھی سادے اور محدود ہوسکتے ہیں مگر ان قوانین کا اطلاق لامحدود و لامتناہی ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد طبیعیات کے اصولوں کی تلاش ہے۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم پہلے ہی کئی مظاہر کے مکمل نظریات کو حاصل کر چکے ہیں۔ ابھی تک کسی نے بھی میکسویل کی روشنی کی مساوات میں کوئی نقص نہیں نکالا۔ معیاری نمونہ اکثر "ہر شئے کا نظرئیے ” کہلاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم قوّت ثقل کو ختم کر دیتے ہیں۔ تو معیاری نمونہ مکمل طور پر بے عیب نظریہ سوائے قوّت ثقل کے تمام مظاہر کا بن جائے گا۔ نظریہ بدصورت ہو سکتا ہے مگر یہ کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ نامکمل کلیہ کی موجودگی میں بھی ہمارے پاس ایک لگ بھگ بے عیب نظریہ "ہر شئے کے نظریہ "کی صورت میں موجود ہے (سوائے قوّت ثقل کے ) ۔

میرے لئے تو کم از کم یہ بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ صرف ایک کاغذ کے پنے پر کوئی بھی وہ تمام قوانین لکھ سکتا ہے جن کا اطلاق تمام معلوم طبیعیاتی مظاہر پر ہوتا ہے جو کائنات کے ١٠ ارب نوری سال کے دور دراز علاقوں سے لے کر کوارک اور نیوٹرینو کی دنیا کے جہاں اصغر تک کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کاغذ کے صفحے پر صرف دو مساوات موجود ہوں گی، آئن سٹائن کی قوّت ثقل کا نظریہ اور معیاری نمونہ۔ میرے لئے تو یہ دونوں نظریات  قدرت کو انتہائی بنیادی سطح پر مکمل سادہ اور ہم آہنگ ظاہر کرتے ہیں۔ کائنات کج رو، بے ترتیب اور متلون مزاج ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ کل کائنات ہم آہنگ اور خوبصورت ہے۔

نوبل انعام یافتہ ا سٹیو وائن برگ ہمارے ہر شئے کے نظریہ کی کھوج کا موازنہ قطب شمالی کی دریافت سے کرتے ہیں۔ صدیوں تک قدیمی ملاح ان نقشوں کا استعمال کرتے رہے جن میں قطب شمالی موجود ہی نہیں تھا۔ تمام قطب نماؤں کی سوئیاں اور نقشے اس غیر دریافت شدہ نقشے کے ٹکڑے کی جانب اشارہ کر رہے تھے اس کے باوجود کسی نے اس کا سفر نہیں کیا تھا۔ اسی طرح سے ہمارے تمام اعداد و شمار اور نظریات ہر شئے کے نظریہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ہماری مساوات کی گمشدہ کڑی ہے۔

ہمیشہ ایسی چیزیں موجود رہیں گی جو ہماری پہنچ سے دور ہوں گی جن کا کھوجنا ہمیشہ نا ممکن رہے گا (جیسا کہ الیکٹران کا بالکل درست مقام، یا پھر روشنی کی رفتار سے بھی دور کی دنیا ) ۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بنیادی قانون قابل ادرک اور محدود ہیں۔ آنے والے برسوں میں جب ہم کائنات کو نئی نسل کے ذرّاتی اسراع گروں، خلائی موجی سراغ رسانوں اور دوسری قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے کھوجیں گے تو طبیعیات کا میدان بہت ہی زیادہ جوش و جذبے سے بھر جائے گا۔ ہم خاتمے کے قریب نہیں ہیں، مگر ہم ایک نئی طبیعیات کے دور کی شروعات میں ضرور موجود ہیں۔ مگر ہم جو کچھ بھی حاصل کریں گے اس کے بعد بھی نئے افق مسلسل ہمارے انتظار میں رہیں گے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید