FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

منشی پریم چند کی کہانیاں

 

 

حصہ سوم

 

انتخاب: عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

یہ حصہ:

جلد سوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد اول

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد چہارم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

راہ نجات

 

سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جو ناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس کے چھ سو تو آپ ہی مل جائیں گے، اور جو کہیں بھگوان نے ڈنڈی تیز کر دی۔ (مراد نرخ سے ) تو پھر کیا پوچھنا، دونوں بیل بوڑھے ہو گئے۔ اب کی نئی گوئیں بٹیسر کے میلہ سے لے آوے گا۔ کہیں دو بیگھے کھیت اور مل گئے تو لکھا لے گا۔ روپیوں کی کیا فکر ہے، بنئے ابھی سے خوشامد کرنے لگے تھے۔ ایسا کوئی نہ تھا جس سے اس نے گاؤں میں لڑائی نہ کی ہو۔ وہ اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہ تھا۔

ایک روز شام کے وقت وہ اپنے بیٹے کو گود میں لیے مٹر کی پھلیاں توڑ رہا تھا۔ اتنے میں اس کوا بھیڑوں کا ایک جھنڈ اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگا، ادھر سے بھیڑوں کے نکلنے کا راستہ نہ تھا کیا کھیت کی مینڈ پر سے بھیڑوں کا جھنڈ نہیں جا سکتا تھا؟ بھیڑوں کو ادھر سے لانے کی کیا ضرورت؟  یہ کھیت کو کچلیں گی، چریں گی۔ اس کا دام کون دے گا؟ معلوم ہوتا ہے بدّھو گڈریا ہے۔ بچہ کو گھمنڈ ہو گیا ہے جبھی تو کھیتوں کے بیچ میں سے بھیڑیں لیے جا رہا ہے۔ ذرا اس کی ڈھٹائی تو دیکھو۔ دیکھ رہا ہے کہ میں کھڑا ہوں اور پھر بھی بھیڑوں کو لوٹاتا نہیں۔ کون میرے ساتھ کبھی سلوک کیا ہے کہ میں اس کی مروّت کروں۔ ابھی ایک بھیڑا مول مانگوں تو پانچ روپے سنا دیگا۔ ساری دنیا میں چار روپے کے کمبل بکتے ہیں پر یہ پانچ روپے سے کم بات نہیں کرتا۔

اتنے میں بھیڑیں کھیت کے پاس آ گئیں۔ جھینگر نے للکار کر کہا ارے یہ بھیڑیں کہاں لیے آتے ہو۔ کچھ سوجھتا ہے کہ نہیں؟

بدھو۔ انکسار سے بولا۔ موپا۔ ڈانڈ پر سے نکل جائیں گی، گھوم کر جاؤں گا۔ تو کوس بھرکا چکر پڑے گا۔

جھینگر۔ تو تمھارا چکر بچانے کے لیے میں اپنا کھیت کیوں کچلاؤں ڈانڈ ہی پر سے لے جانا ہے تو اور کھیتوں کے ڈانڈے سے کیوں نہیں لے گئے؟  کیا مجھے کوئی چمار بھنگی سمجھ لیا ہے یا روپیہ کا گھمنڈ ہو گیا ہے؟  لوٹاؤ ان کو۔

بدھو۔ مہتو آج نکل جانے دو۔ پھر کبھی ادھر سے آؤں تو جو ڈند(سزا) چاہے دینا۔

جھینگر۔ کہہ دیا کہ لوٹاؤ انھیں۔ اگر ایک بھیڑ بھی مینڈ پر چڑھ آئی تمھاری کسل نہیں۔

بدھو۔ مہتو، اگر تمھاری ایک بیل بھی کسی بھیڑ کے پیروں کے نیچے آ جائے تو مجھے بٹھا کر سوگالیاں دینا۔

بدھو باتیں تو بڑی لجاجت سے کر رہا تھا۔ مگر لوٹنے میں اپنی کسر شان سمجھتا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اسی طرح ذرا ذرا سی دھمکیوں پر بھیڑوں کو لوٹانے لگا تو پھر میں بھیڑیں چرا چکا۔ آج لوٹ جاؤں گا تو کل کو کہیں نکلنے کا راستہ ہی نہ ملے گا۔ سبھی رعب جمانے لگیں گے۔

بدھو بھی گھر کا مضبوط آدمی تھا۔ بارہ کوڑی بھیڑیں تھیں۔ انھیں کھیتوں میں بٹھانے کے لیے فی شب آٹھ آنے کوڑی مزدوری ملتی تھی۔ اس کے علاوہ دودھ بھی فروخت کرتا تھا۔ اون کے کمبل بناتا تھا۔ سوچنے لگا۔‘‘ اتنے گرم ہو رہے ہیں، میرا کر ہی کیا لیں گے؟  کچھ ان کا دبیل تو ہوں نہیں۔‘‘ بھیڑوں نے جو ہری پتّیاں دیکھیں تو بے کل ہو گئیں۔ کھیت میں گھس پڑیں۔ بدھو انھیں ڈنڈوں سے مار مار کر کھیت کے کنارے سے ہٹاتا تھا۔ اور وہ ادھر ادھر سے نکل کر کھیت میں جا گھستی تھیں۔ جھینگر نے گرم ہو کر کہا۔ تم مجھے ہینکڑی جتانے چلے ہو تو تمھاری ہینکڑی بھلا دوں گا۔

بدھو۔ تمھیں دیکھ کر بھڑکتی ہیں، تم ہٹ جاؤ تو میں سب نکال لے جاؤں۔‘‘

جھینگر نے لڑکے کو گودی سے اتار دیا اور اپنا ڈنڈا سنبھال کر بھیڑوں کے سر پر گیا۔ دھوبی بھی اتنی بے دردی سے اپنے گدھوں کو نہ مارتا ہو گا، کسی بھیڑ کی ٹانگ ٹوٹی کسی کی کمر ٹوٹی۔ سب نے زور سے ممیانا شروع کیا۔ بدھو خاموش کھڑا ہوا اپنی فوج کی تباہی، اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا وہ نہ بھیڑوں کو ہانکتا تھا، اور نہ جھینگر سے کچھ کہتا تھا۔ بس کھڑا ہوا تماشا دیکھتا رہا۔ دو منٹ میں جھینگر نے اس فوج کو اپنی حیوانی طاقت سے مار بھگایا۔ بھیڑوں کی فوج کو تباہ کر کے فاتحانہ غرورسے بولا۔ اب سیدھے چلے جاؤ، پھر ادھر سے آنے کا نام نہ لینا۔

بدھو نے چوٹ کھائی ہوئی بھیڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جھینگر، تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ پچھتاؤ گے۔

کیلے کو کاٹنا بھی اتنا آسان نہیں، جتنا کسان سے بدلا لینا۔ ان کی ساری کمائی کھیتوں میں رہتی ہے یا کھلیانوں میں، کتنی ارضی و سماوی آفات کے بعد اناج گھر میں آتا ہے اور جو کہیں آفات کے ساتھ عداوت نے میل کر لیا تو بے چارہ کسان کا نہیں رہتا۔ جھینگر نے گھر آ کر اور لوگوں سے اس لڑائی کا حال کہا تو لوگ سمجھانے لگے۔ ’’جھینگر تم نے بڑا برا کیا۔ جان کر انجان بنتے ہو۔ بدھو کو جانتے نہیں کہ کتنا جھگڑا لو آدمی ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، جا کر اسے منا لو نہیں تو تمھارے ساتھ گاؤں پر آفت آ جائے گی‘‘۔ جھینگر کے سمجھ میں بات آئی، پچھتانے لگا کہ میں نے کہاں سے کہاں اسے روکا۔ اگر بھیڑیں تھوڑا بہت چرہی جاتیں تو کون میں اجڑا جاتا تھا۔ اصل میں ہم کسانوں کا بھلا دب کر رہنے ہی میں ہے۔ بھگوان کو بھی ہمارا سر اٹھا کر چلنا اچھا نہیں لگتا۔ جی تو بدھو کے یہاں جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر دوسروں کے اصرار سے مجبور ہو کر چلا۔ اگہن کا مہینہ تھا۔ کہرا پڑ رہ تھا۔ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں سے باہر نکلا ہی تھا۔ کہ یکایک اپنے ایکھ کے کھیت کی طرف آگ کے شعلے دیکھ کر چونک پڑا دل دھڑکنے لگا۔ کھیت میں آگ لگی ہوئی تھی بے تحاشا دوڑا۔ مناتا جاتا تھا کہ میرے کھیت میں نہ ہو۔ مگر جیوں جیوں قریب پہنچتا تھا۔ یہ پر امید وہم دور ہوتا جاتا تھا۔ وہ غضب ہی ہو گیا جسے روکنے کے لیے وہ گھر سے چلا تھا۔ ہتھیارے نے آگ لگا دی اور میرے پیچھے سارے گاؤں کو چوپٹ کر دیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کھیت آج بہت قریب آ گیا ہے گویا درمیان کے پرتی کھیتوں کو وجود ہی نہیں رہا۔ آخر جب وہ کھیت پر پہنچا تو آگ خوب بھڑک چکی تھی۔ جھینگر نے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ گاؤں کے لوگ دوڑ پڑے اور کھیتوں سے ارہر کے پودے اکھاڑ کر آگ کو پیٹنے لگے۔ انسان و آتش کی باہمی جنگ کا منظر پیش ہو گیا۔ ایک پہر تک کہرام برپا رہا۔ کبھی ایک فریق غالب آتا، کبھی دوسرا۔ آتشی جانباز مر کر جی اٹھتے تھے اور دوگنی طاقت سے لڑائی میں مستعد ہو کر ہتھیار چلانے لگتے تھے۔ انسانی فوج میں جس سپاہی کی مستعدی سب سے زیادہ روشن تھی وہ بدھو تھا۔ بدھو کمر تک دھوتی چڑھائے اور جان کو ہتھیلی پر رکھے آگ کے شعلوں میں کود پڑتا تھا۔ اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے بال بال بچ کر نکل آتا تھا۔ بالآخر انسانی فوج فتحیاب ہوئی مگر ایسی فتح جس پر شکست بھی خندہ زن تھی گاؤں بھر کی ایکھ جل کر راکھ ہو گئی اور ایکھ کے ساتھ ساری تمنائیں بھی جل بھن گئیں۔

آگ کس نے لگائی۔ یہ کھلا ہو راز تھا مگر کسی کو کہنے کی ہمّت نہ تھی کوئی ثبوت نہیں اور بلا ثبوت کے بحث کی وقعت ہی کیا؟  جھینگر کو گھر سے نکلنا محال ہو گیا۔ جدھر جاتا طعن و تشنیع کی بوچھار ہوتی۔ لوگ اعلانیہ کہتے کہ یہ آگ تم نے لگوائی تمھیں نے ہمارا ستیاناس کیا۔ تمھیں مارے گھمنڈ کے دھرتی پر پاؤں نہ رکھتے تھے۔ آپ کے آپ گئے اور اپنے ساتھ گاؤں بھر کو بھی لے ڈوبے بدھو کو نہ چھیڑتے تو آج کیوں یہ دن دیکھنا پڑتا؟  جھینگر کو اپنی بربادی کو اتنا رنج نہ تھا۔ جتنا ان جلی کٹی باتوں کا۔ تمام دن گھر میں بیٹھتا رہتا۔ پوس کا مہینہ آیا۔ جہاں ساری رات کولھو چلا کرتے تھے وہاں سناٹا تھا۔ جاڑوں کے سبب لوگ شام ہی سے کواڑ بند کر کے پڑ رہتے اور جھینگر کو کوستے تھے۔ راکھ اور بھی تکلیف دہ تھا۔ ایکھ صرف دولت دینے والی نہیں بلکہ کسانوں کے لیے زندگی بخش بھی ہے اسی کے سہارے کسانوں کا جاڑا پار ہوتا ہے۔ گرم رس پیتے ہیں، ایکھ کی پتّیاں جلاتے ہیں اور اس کے اگوڑے جانوروں کو کھلاتے ہیں۔ گاؤں کے سارے کتّے جو رات کو بھٹیوں کی راکھ میں سویا کرتے تھے، سردی سے مر گئے۔ کتنے ہی جانور چارے کی قلّت سے ختم ہو گئے۔ سردی کی زیادتی ہوئی اور کل گاؤں کھانسی بخار میں مبتلا ہو گیا اور یہ ساری مصیبت جھینگر کی کرنی تھی۔ ابھاگے ہتھیارے جھینگر کی۔

جھینگر نے سوچتے سوچتے قصد کر لیا کہ بدھو کی حالت بھی اپنی ہی سی بناؤں گا۔ اس کے کارن میراستیاناس ہو گیا اور وہ چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ میں اس کا ستیاناس کر دوں گا۔

جس روز اس مہلک عناد کی ابتدا ہوئی اسی روز سے بدھو نے اس طرف آنا ترک کر دیا تھا۔ جھینگر نے اس سے ربط ضبط بڑھانا شروع کیا۔ وہ بدھو کو دکھلانا چاہتا تھا کہ تم پر مجھے ذرا بھی شک نہیں ہے۔ ایک روز کمبل لینے کے بہانے گیا، پھر دودھ لینے کے بہانے جانے لگا۔ بدھو اس کی خوب آؤ بھگت کرتا۔ چلم تو آدمی دشمن کو بھی پلا دیتا ہے۔ وہ اسے بلا دودھ اور شربت پلائے نہ جانے دیتا۔ جھینگر آج کل ایک سن لپیٹنے والی مشین میں مزدوری کرنے جایا کرتا تھا۔ اکثر کئی روز کی اجرت یکجائی ملتی تھی۔ بدھو ہی کی مدد سے جھینگر کا روزانہ خرچ چلتا تھا۔ بس جھینگر نے خوب میل جول پیدا کر لیا۔ ایک روز بدّھو نے پوچھا۔ کیوں جھینگر، اگر اپنی ایکھ جلانے والے کو پا جاؤ تو کیا کرو، سچ کہنا۔

جھینگر نے متانت سے کہا۔ میں اس سے کہوں کہ بھیّا ‘ تم نے جو کچھ کیا بہت اچھا کیا۔ میرا گھمنڈ تو توڑ دیا مجھے آدمی بنا دیا۔

بدھو۔ میں جو تمھاری جگہ ہوتا تو اس کا گھر جلائے بغیر نہ مانتا۔

جھینگر۔ چار دن کی جندگانی میں بیر بڑھانے سے کون فائدہ؟  میں تو برباد ہی ہوا، اب اسے برباد کر کے کیا پاؤں گا۔؟

بدھو۔ بس یہی تو آدمی کا دھرم ہے۔ مگر بھائی کرودھ (غصّہ) کے بس میں ہو کر بدھی الٹی ہو جاتی ہے۔

پھاگن کا مہینہ تھا۔ کسان ایکھ بونے کے لیے کھیتوں کو تیار کر رہے تھے، بدھو کا بازار گرم تھا۔ بھیڑوں کی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ دو چار آدمی روزانہ دروازہ پر کھڑے خوشامد کیا کرتے۔ بدھو کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ بھیڑ بٹھانے کی اجرت دوگنی کر دی تھی۔ اگر کوئی اعتراض کرتا تو بے لاگ کہتا ’’بھیا، بھیڑیں تمھارے گلے تو نہیں لگاتا ہوں۔ جی نہ چاہے تو نہ بٹھلاؤ لیکن میں نے جو کہہ دیا ہے اس سے ایک کوڑی بھی کم نہیں ہو سکتی۔‘‘ غرض تھی لوگ اس کی بے مروّتی پر بھی اسے گھیرے ہی رہتے تھے، جیسے پنڈے کسی جاتری کے پیچھے پڑے ہوں۔

لکشمی کا جسم تو بہت بڑا نہیں اور وہ بھی وقت کے مطابق چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ کبھی وہ اپنی قد و قامت کو سمیٹ کر چند کاغذی الفاظ ہی میں چھپا لیتی ہے۔ کبھی کبھی تو انسان کی زبان پر جا بیٹھتی ہے۔ جسم غائب ہو جاتا ہے۔ مگر ان کے رہنے کے لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آئیں اور گھر بڑھنے لگا چھوٹے چھوٹے مکان میں ان سے نہیں رہا جاتا۔ بدّھو کا گھر بھی بڑھنے لگا۔ دروازہ پر برآمدے کی تعمیر ہوئی، دو کی جگہ چھ کوٹھریاں بنوائی گئیں۔ یوں کہئے کہ مکان از سر نو بننے لگا۔ کسی کسان سے لکڑی مانگی، کسی سے کھرپل کا آنوا لگانے کے لیے اپلے، کسی سے بانس اور کسی سے سرکنڈے۔ دیوار بنانے کی اجرت دینی پڑی۔ وہ بھی نقد نہیں، بھیڑ کے بچّوں کی شکل میں لکشمی کا یہ اقبال ہے، سارا کام بیگار میں ہو گیا مفت میں اچھا خاصا مکان تیار ہو گیا داخلہ کے جشن کی تیاریاں ہونے لگیں۔

ادھر جھینگر دن بھر مزدوری کرتا تو کہیں آدھا اناج ملتا۔ بدھو کے گھر میں کنچن برس رہا تھا۔ جھینگر جلتا تھا تو کیا بُرا کرتا تھا؟  یہ انیائے کس سے سہا جائے گا۔

ایک روز وہ ٹہلتا ہوا چماروں کے ٹولے کی طرف چلا گیا۔ ہری ہر کو پکارا۔ ہری ہر نے آ کر رام رام کی اور چلم بھری، دونوں پینے لگے۔ یہ چماروں کا مکھیا بڑا بدمعاش آدمی تھا۔ سب کسان اس سے تھر تھر کانپتے تھے۔

جھینگر نے چلم پیتے پیتے کہا۔ آج کل بھاگ واگ نہیں ہوتا کیا؟  کہو، تمھاری آج کل کیسی کٹتی ہے؟‘‘

جھینگر۔ کیا کٹتی ہے۔ نکٹا جیا برے حال؟  دن بھر کارخانے میں مجوری کرتے ہیں تو چولھا جلتا ہے۔ چاندی تو آج کل بدّھو کی ہے۔ رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ نیا گھر بنا۔ بھیڑیں اور لی ہیں۔ اب گرہ پرویش (داخلہ مکان) کی دھوم ہے۔ ساتوں گاؤں میں نیوتنے کی سپاری جائے گی۔

ہری ہر لچھمی میّا آتی ہیں تو آدمی کی آنکھوں میں سیل (مروت) آ جاتی ہے۔ مگر اس کو دیکھو دھرتی پر پاؤں نہیں دھرتا۔ بولتا ہے تو اینٹھ کر بولتا ہے۔

جھینگر کیوں نہ اینٹھے؟  اس گاؤں میں کون ہے اس کے ٹکّر کا؟  پر یار یہ انیائے تو نہیں دیکھا جاتا۔ جب بھگوان دیں تو سر جھکا کر چلنا چاہیے یہ نہیں کہ اپنے برابر کسی کو سمجھے ہی نہیں۔ اس کو موینگ سنتا ہوں تو بدن میں آگ لگ جاتی ہے اکل کا بانی آج کا سیٹھ۔ چلا ہے ہمیں سے اکڑنے ابھی لنگوٹی لگائے کھیتوں میں کوّے ہانکا کرتا تھا، آج اس کا آسمان میں دِیا جلتا ہے۔

ہری ہر۔ کہو تو کچھ جوگ جاگ کروں۔

جھینگر۔ کیا کرو گے؟  اسی ڈر سے تو وہ گائے بھینس نہیں پالتا۔

ہری ہر۔ بھیڑیں تو ہیں۔

جھینگر۔ کیا بگلا مارے پکھنا ہاتھ۔

ہری ہری۔ پھر تمھیں سوچو۔

جھینگر۔ ایسی جگت نکالو کہ پھر پنپنے نہ پائے۔

اس کے بعد دونوں میں کانا پھوسی ہونے لگی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ نیکی میں جتنی نفرت ہوتی ہے، بدی میں اتنی ہی رغبت۔ عالم عالم کو دیکھ کر، سادھو سادھو کو دیکھ کر، شاعر شاعر کو دیکھ کر جلتا ہے۔ ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔ مگر جواری جواری کو دیکھ کر، شرابی شرابی کو دیکھ کر، چور چور کو دیکھ کر، ہمدردی جتاتا ہے، مدد کرتا ہے۔ ایک پنڈت جی اگر اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑیں تو دوسرے پنڈت جی انھیں اٹھانے کے بجائے دو ٹھوکریں اور لگائے کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکیں۔ مگر ایک چور پر آفت آتے دیکھ کر دوسرا چور اس کی آڑ کر لیتا ہے۔ بدی سے سب نفرت کرتے ہیں اس لیے بدوں میں باہمی محبت ہوتی ہے۔ نیکی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے، اس لئے نیکوں میں مخالفت ہوتی ہے۔ چور کو مار کر چور کیا پائے گا؟  نفرت۔ عالم کی توہین کر کے عالم کیا پائے گا؟  نیک نامی۔

جھینگر اور ہری ہر نے صلاح کر لی۔ سازش کی تدبیر سوچی گئی اس کا نقشہ، وقت اور طریقہ طے کیا گیا۔ جھینگر چلا تو اکڑا جاتا تھا۔ مار لیا دشمن کو اب تو کہاں جاتا ہے۔

دوسرے روز جھینگر کام پر جانے لگا تو پہلے بدّھو کے گھر پہنچا۔ بدّھو نے پوچھا کیوں آج نہیں گئے؟  جھینگر۔ جا تو رہا ہوں، تم سے یہی کہنے آیا تھا کہ میری بچھیا کو اپنی بھیڑوں کے ساتھ کیوں نہیں چرا دیا کرتے؟  بے چاری کھونٹے پر بندھی مری جاتی ہے۔ ’’نہ گھاس، نہ چارا، کیا کھلاویں‘‘؟

بدّھو؟  بھیّا میں گائے بھینس نہیں رکھتا۔ چماروں کو جانتے ہوں یہ ایک ہی ہتھیارے ہوتے ہیں۔ اسی ہری ہر نے میری دو گائیں مار ڈالیں۔ نہ جانے کیا کھلا دیتا ہے۔ تب سے کان پکڑے کہ اب گائے بھینس نہ پالوں گا۔ لیکن تمھاری ایک ہی بچھیا ہے، اس کا کوئی کیا کرے گا؟  جب چاہو پہنچا دو۔

یہ کہہ کر بدّھو اپنے مکان والی دعوت کا سامان اسے دکھانے لگا۔ گھی، شکر، میدہ، ترکاری سب منگا کر رکھا تھا۔ صرف ست نرائن کی کتھا کی دیر تھی۔ جھینگر کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایسی تیاری نہ اس نے خود کبھی کی تھی اور نہ کسی کو کرتے دیکھی تھی۔ مزدوری کر گھر کو لوٹا تو سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ اپنی بچھیا کو بدھو کے گھر پہچانا تھا اسی رات کو بدّھو کے یہاں ست نرائن کی کتھا ہوئی ’’وبرمہ بھوج‘‘ بھی کیا گیا، ساری رات برہمنوں کی تواضع و تکریم میں گذری۔ بھیڑوں کے گلہ میں جانے کا موقع ہی نہ مِلا علی الصباح کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا (کیوں کہ رات کا کھانا صبح ملا) کہ ایک آدمی نے آ کر خبر دی۔ بدّھو تم یہاں بیٹھے ہو۔ ادھر بھیڑوں میں بچھیا مری پڑی ہے۔ بھلے آدمی، اس کی پگھیا بھی نہیں کھولی تھی۔

بدّھو نے سنا اور گویا ٹھوکر لگ گئی۔ جھینگر بھی کھانا کھا کر وہیں بیٹھا تھا۔ بولا ہائے میری بچھیا۔ چلو ذرا دیکھوں تو، میں نے تو پگھیا نہیں لگائی تھی۔ اسے بھیڑوں میں پہنچا کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ تم نے یہ پگھیا کب لگا دی۔

بدّھو۔ بھگوان جانے جو میں نے اس کی پگھیا دیکھی بھی ہو، میں تو تب سے بھیڑوں میں گیا ہی نہیں۔

جھینگر۔ جاتے نہ تو پگھیا کون لگا دیتا؟  گئے ہو گے، یاد نہ آتی ہو گی۔

ایک برہمن۔ مری تو بھیڑوں ہی میں نا؟  دنیا تو یہی کہے گی کہ بدّھو کی غفلت سے اس کی موت ہوئی، چاہے پگھیا کسی کی ہو۔

ہری ہر۔ میں نے کل سانجھ کو انھیں بھیڑوں میں بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا۔

بدّھو۔ مجھے؟

ہری ہر۔ تم نہیں لاٹھی کندھے پر رکھے، بچھیا کو باندھ رہے تھے؟

بدّھو۔ بڑا سچّا ہے تو، تو نے مجھے بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا؟

ہری ہر۔ تو مجھ پر کا ہے کو بگڑتے ہو بھائی؟  تم نے نہیں باندھی تو نہیں سہی۔

برہمن۔ اس کا نشچے کرنا ہو گا گو ہتھیا کو پراشچت کرنا پڑے گا، کچھ ہنسی ٹھٹھا ہے۔

جھینگر۔ مہاراج، کچھ جان بوجھ کر تو باندھی نہیں۔

برہمن۔ اس سے کیا ہوتا؟  ہتھیا اسی طرح لگتی ہے کوئی گؤ کو مارنے نہیں جاتا۔

جھینگر۔ ہاں۔ گؤوں کو کھولنا باندھنا ہے تو جوکھم کا کام۔

برہمن۔ شاستروں میں اسے مہا پاپ کہا ہے۔ گؤ کی ہتھیا برہمن کی ہتھیا سے کم نہیں۔

جھینگر۔ ہاں، پھر گؤ تو ٹھہری ہی اسی سے نہ ان کا مان (اور) ہے۔ جو ماتا سو گؤ۔ لیکن مہاراج۔ چوک ہو گئی۔ کچھ ایساکیجئے کہ بے چارہ تھوڑے میں نپٹ جائے۔

بدّھو کھڑا سن رہا تھا کہ خواہ مخواہ میرے سر گؤ ہتھیا کا الزام تھوپا جا رہا ہے۔ جھینگر کی چالاکی بھی سمجھ رہا تھا، میں لاکھ کہوں کہ میں نے بچھیا نہیں باندھی پر مانے گا کون؟  لوگ یہی کہیں گے کہ پراشچت سے بچنے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔

برہمن دیوتا کا بھی اس کے پراشچت کرانے میں فائدہ تھا۔ بھلا ایسے موقع پر کب چوکنے والے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بدّھو کو ہتھیا لگ گئی۔ برہمن بھی اس سے جل رہے تھے۔ کسر نکالنے کا موقع ملا۔ تین ماہ تک بھیک مانگنے کی سزا دی گئی۔ پھر سات تیرتھوں کی جاترا، اس پر پانچ سو برہمنوں کا کھلانا اور پانچ گایوں کا دان۔ بدّھو نے سنا تو ہوش اڑ گئے۔ رونے پیٹنے لگا، تو سزا گھٹا کر دو ماہ کر دی گئی۔ اس کے سوا کوئی رعایت نہ ہو سکی۔ نہ کہیں اپیل، نہ کہیں فریاد، بے چارے کو یہ سزا قبول کرنی پڑی۔

بدّھو نے بھیڑیں۔ ایشور کو سونپیں۔ لڑکے چھوٹے تھے۔ عورت اکیلی کیا کرتی۔ غریب جا کر دروازوں پر کھڑا ہوتا اور منہ چھپاتے ہوئے کہتا گائے کی باچھی دیو بن باس، بھیک تو مل جاتی مگر بھیک کے ساتھ دو چار سخت اور توہین آمیز فقرے بھی سننے کو پڑتے۔ دن کو جو کچھ پاتا اسی کو شام کے وقت کسی درخت کے نیچے پکا کر کھا لیتا اور وہیں پر رہتا۔ تکلیف کی تو اس کو پرواہ نہ تھی۔ بھیڑوں کے ساتھ تمام دن چلتا ہی تھا، درخت کے نیچے سوتا ہی تھا، کھانا بھی اس سے کچھ بہتر ہی ملتا تھا، مگر شرم تھی بھیک مانگنے کی۔ خصوصاً  جب کوئی بدمزاج عورت یہ طعنے دیتی کہ روٹی کمانے کا اچھا ڈھنگ نکالا ہے، تو اسے دلی قلق ہوتا تھا مگر کرے کیا۔

دو ماہ بعد وہ گھر واپس آیا۔ بال بڑھے ہوئے تھے، کمزور اس قدر کہ گویا ساٹھ سال کا بوڑھا ہو۔ تیرتھ جانے کے لیے روپیوں کا بندوبست کرنا تھا۔ گدڑیوں کو کون مہاجن قرض دے۔ بھیڑوں کا بھروسہ کیا؟  کبھی کبھی وبا پھیلتی ہے تو رات بھرمیں گلّہ کا گلّہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس پر جیٹھ کا مہینہ جب بھیڑوں سے کوئی آمدنی ہونے کی امید نہیں، ایک تیلی راضی بھی ہوا، تو دو فی روپیہ سود پر آٹھ ماہ میں سود اصل کے برابر ہو جائے گا۔ یہاں قرض لینے کی ہمّت نہ پڑی۔ ادھر دو مہینوں میں کتنی ہی بھیڑیں چوری چلی گئیں۔ لڑکے چرانے لے جاتے تھے دوسرے گاؤں والے چپکے سے دو ایک بھیڑیں کسی کھیت یا گھر میں چھپا دیتے اور بعد کو مار کر کھا جاتے۔ لڑکے بے چارے ایک تو نہ پکڑ سکتے اور جو کچھ بھی لیتے تو لڑیں کیسے۔ سارا گاؤں ایک ہو جاتا تھا۔ ایک ماہ میں بھیڑیں آدھی بھی نہ رہ جائیں گی۔ بڑا مشکل مسئلہ تھا۔ مجبوراً بدّھو نے ایک قصاب کو بلایا اور سب بھیڑیں اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالیں۔ پانچ سو روپیہ ہے ان میں سے دو سو لے کر وہ تیرتھ یاترا کرنے گیا۔ بقیہ روپیہ برمہہ بھوج کے لیے چھوڑ گیا۔

بدھو کے جانے پر اس کے مکان میں دو بار نقب ہوئی مگر یہ خیریت ہوئی کہ جاگ پڑنے کی وجہ سے روپے بچ گئے۔

ساون کا مہینہ تھا چاروں طرف ہریالی پھیلی ہوئی تھی۔ جھینگر کے بیل نہ تھے، کھیت بٹائی پر دے دیے تھے۔ بدھو پراشچت سے فارغ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مایا کے پھندے سے بھی آزاد ہو گیا تھا۔ نہ جھینگر کے پاس کچھ تھا، نہ بدّھو کے پاس۔ کون کس سے جلتا اور کس لیے جلتا؟

سن کی کل بند ہو جانے کے سبب جھینگر اب بیلداری کا کام کرتا تھا۔ شہر میں ایک بڑا دھرم شالہ بن رہا تھا۔ ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ جھینگر بھی انھیں میں تھا، ساتویں روز مزدوری کے پیسے لے کر گھر آتا تھا اور رات بھر رہ کر سویرے پھر چلا جاتا تھا۔

بدّھو بھی مزدوری کی تلاش میں یہیں پہنچا۔ جمعدار نے دیکھا کہ کمزور آدمی ہے۔ سخت کام تو اس سے ہو نہ سکے گا۔ کاری گروں کا گارا پہنچا نے کے لیے رکھ لیا، بدّھو سر پر طاش رکھے گا را لینے گیا، تو جھینگر کو دیکھا۔ رام رام ہوئی۔ جھینگر نے گارا بھر دیا۔ بدّھو نے اٹھا لیا۔ دن بھر دونوں اپنا کام کرتے رہے۔

شام کو جھینگر نے پوچھا۔ کچھ بناؤ گے نا؟

بدّھو۔ نہیں تو کھاؤں گا کیا؟

جھینگر۔ میں تو ایک جون جینا کر لیتا ہوں۔ اس جوں ستو کھاتا ہوں کون جھنجھٹ کرے؟

بدّھو۔ ادھر ادھر لکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بٹور لاؤ۔ آ ٹاگھرسے لیتا آیا ہوں گھر ہی میں پسوا لیا تھا۔ یہاں تو بڑا مہنگا ملتا ہے۔ اسی پتھر والی چٹان پر آٹا گوندھے لیتا ہوں۔ تم تو میرا بنایا کھاؤ گے نہیں۔ اس لیے تمھیں روٹیاں سینکو میں روٹیاں بناتا جاؤں گا۔

جھینگر۔ تو ا، بھی نہیں ہے۔

بدّھو۔ توے بہت ہیں یہی گارے کا تسلہ مانجے لیتا ہوں۔

آگ جلی، آٹا گوندھا گیا۔ جھینگر نے کچّی پکّی روٹیاں تیاری کیں۔ بدّھو پانی لایا۔ دونوں نے نمک مرچ کے ساتھ روٹیاں کھائیں۔ پھر چلم بھری گئی دونوں پتّھر کی سلوں پر لیٹے اور چلم پینے لگے۔

بدّھو نے کہا۔ تمھاری اوکھ میں آگ میں نے لگائی تھی۔

جھینگر نے مذاق آمیز لہجہ میں کہا۔ جانتا ہوں۔

ذرا دیر بعد جھینگر بولا۔ بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہری ہر نے اسے کچھ کھلا دیا تھا بدّھو نے بھی اسی لہجہ میں کہا جانتا ہوں۔

پھر دونوں سوگئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پوس کی رات

 

 

ہلکو نے آ کر اپنی بیوی سے کہا۔ ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دے دو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘

منی بہو جھاڑو لگا رہی تھی۔ پیچھے پھر کر بولی۔ ’’تین ہی تو روپے ہیں دیدوں، تو کمبل کہاں سے آئے گا۔ ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی۔ اس سے کہہ دو فصل پر روپے دیں گے۔ ابھی نہیں ہے۔‘‘

ہلکو تھوڑی دیر تک چپ کھڑا رہا۔ اور اپنے دل میں سوچتا رہا پوس سر پر آ گیا ہے۔ بغیر کمبل کے کھیت میں رات کو وہ کسی طرح سو نہیں سکتا۔ مگر شہنا مانے گا نہیں، گھڑکیاں دے گا۔ یہ سوچتا ہوا وہ اپنا بھاری جسم لیے ہوئے (جو اس کے نام کو غلط ثابت کر رہا تھا) اپنی بیوی کے پاس گیا۔ اور خوشامد کر کے بولا۔ ’’لا دیدے گردن تو کسی طرح سے بچے کمبل کے لیے کوئی دوسری تدبیر سوچوں گا۔‘‘

منی اس کے پاس سے دور ہٹ گئی۔ اور آنکھیں ٹیڑھی کرتی ہوئی بولی۔ ’’ کر چکے دوسری تدبیر۔ ذرا سنوں کون تدبیر کرو گے؟  کون کمبل خیرات میں دیدے گا۔ نہ جانے کتنا روپیہ باقی ہے جو کسی طرح ادا ہی نہیں ہوتا۔ میں کہتی ہوں تم کھیتی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ مرمر کر کام کرو۔ پیداوار ہو تو اس سے قرضہ ادا کرو چلو چھٹی ہوئی، قرضہ ادا کرنے کے لیے تو ہم پیدا ہی ہوئے ہیں۔ ایسی کھیتی سے باز آئے۔ میں روپے نہ دوں گی، نہ دوں گی۔‘‘

ہلکو رنجیدہ ہو کر بولا، ’’تو کیا گالیاں کھاؤں۔‘‘

منی نے کہا۔ ’’گالی کیوں دے گا۔؟  کیا اس کا راج ہے؟‘‘ مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی اس کی تنی ہوئی بھویں ڈھیلی پڑ گئیں۔ ہلکو کی بات میں جو دل دہلانے دینے و الی صداقت تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لا کر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔ کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لاؤ وہ بھی اس میں جھونک دو۔ اس پر سے دھونس۔‘‘

ہلکو نے روپے لیے اور اسی طرح باہر چلا۔ معلوم ہوتا تھا وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جا رہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جا رہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دبا جا رہا تھا۔

پوس کی اندھیری رات۔ آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہلکو اپنے کھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کے نیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئے کانپ رہا تھا۔ کھٹولے کے نیچے اس کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منھ ڈالے سردی سے کوں کوں کر رہا تھا۔ دو میں سے ایک کو بھی نیند نہ آتی تھی۔

ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آ رہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ جبرا نے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہو گیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کے مالک کو نیند نہیں آ رہی ہے۔

ہلکو نے ہاتھ نکال کر جبرا کی ٹھنڈی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’کل سے میرے ساتھ نہ آنا نہیں تو ٹھنڈے ہو جاؤ گے۔ یہ رانڈ پچھوا ہوا نہ جانے کہاں سے برف لیے آ رہی ہے۔ اٹھوں پھر ایک چلم بھروں کسی طرح رات تو کٹے۔ آٹھ چلم تو پی چکا۔ یہ کھیتی کا مزہ ہے اور ایک بھاگوان ایسے ہیں جن کے پاس اگر جاڑا جائے تو گرمی سے گھبرا کر بھاگے۔ موٹے گدے لحاف کمبل مجال ہے کہ جاڑے کا گذر ہو جائے۔ تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘

ہلکو اٹھا اور گڈھے میں ذرا سی آگ نکال کر چلم بھری۔ جبرا بھی اٹھ بیٹھا۔ ہلکو نے چلم پیتے ہوئے کہا، ’’پئے گا چلم؟  جاڑا تو کیا جاتا ہے ہاں ذرا من بہل جاتا ہے۔‘‘

جبرا نے اس کی جانب محبت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ ہلکو نے کہا۔ ’’آج اور جاڑا کھا لے۔ کل سے میں یہاں پیال بچھا دوں گا۔ اس میں گھس کر بیٹھنا جاڑا نہ لگے گا۔‘‘

جبرا نے اگلے پنجے اس کے گھٹنوں پر رکھ دیے اور اس کے منھ کے پاس اپنا منھ لے گیا۔ ہلکو کو اس کی گرم سانس لگی۔ چلم پی کر ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔

جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھا یا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گود میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سے معلوم نہیں کیسی بدبو آ رہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئے ایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔ جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔ وہ اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔ ایسی انوکھی دوستی نے اس کی روح کے سب دروازے کھول دیے تھے اس کا ایک ایک ذرہ حقیقی روشنی سے منور ہو گیا تھا۔ اسی اثنا میں جبرا نے کسی جانور کی آہٹ پائی اس کے مالک کی اس خاص روحانیت نے اس کے دل میں ایک جدید طاقت پیدا کر دی تھی جو ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کو بھی ناچیز سمجھ رہی تھی۔ وہ جھپٹ کر اٹھا اور چھپری سے باہر آ کر بھونکنے لگا۔ ہلکو نے اسے کئی مرتبہ پچکار کر بلایا پر وہ اس کے پاس نہ آیا کھیت میں چاروں طرف دوڑ دوڑ کر بھونکتا رہا۔ ایک لمحہ کے لیے آ بھی جاتا تو فوراً ہی پھر دوڑتا، فرض کی ادائیگی نے اسے بے چین کر رکھا تھا۔

ایک گھنٹہ گذر گیا سردی بڑھنے لگی۔ ہلکو اٹھ بیٹھا اور دونوں گھٹنوں کو چھاتی سے ملا کر سرکو چھپا لیا پھر بھی سردی کم نہ ہوئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا خون منجمد ہو گیا ہے۔ اس نے اٹھ کر آسمان کی جانب دیکھا ابھی کتنی رات باقی ہے۔ وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کر چکے جب وہ اوپر آ جائیں گے تو کہیں سویرا ہو گا۔ ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔

ہلکو کے کھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا۔ پت جھڑ شروع ہو گئی تھی۔ باغ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کو جلا کر خوب تاپوں رات کو کوئی مجھے پتیاں بٹورتے دیکھے تو سمجھے کہ کوئی بھوت ہے کون جانے کوئی جانور ہی چھپا بیٹھا ہو۔ مگر اب تو بیٹھے نہیں رہا جاتا۔

اس نے پاس کے ارہر کے کھیت میں جا کر کئی پودے اکھاڑے اور اس کا ایک جھاڑو بنا کر ہاتھ میں سلگتا ہوا اپلہ لیے باغ کی طرف چلا۔ جبرا نے اسے جاتے دیکھا تو پاس آیا اور دم ہلا نے لگا۔

ہلکو نے کہا اب تو نہیں رہا جاتا جبرو، چلو باغ میں پتیاں بٹور کر تاپیں، ٹاٹھے ہو جائیں گے تو پھر آ کر سوئیں گے۔ ابھی تو رات بہت ہے۔

جبرا نے کوں کوں کرتے ہوئے اپنے مالک کی رائے سے موافقت ظاہر کی اور آگے آگے باغ کی جانب چلا۔ باغ میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ درختوں سے شبنم کی بوندیں ٹپ ٹپ ٹپک رہی تھیں یکا یک ایک جھونکا مہندی کے پھولوں کی خوشبو لیے ہوئے آیا۔

ہلکو نے کہا کیسی اچھی مہک آئی جبرا۔ تمہاری ناک میں بھی کچھ خوشبو آ رہی ہے؟

جبرا کو کہیں زمین پر ایک ہڈی پڑی مل گئی تھی۔ وہ اسے چوس رہا تھا۔

ہلکو نے آگ زمین پر رکھ دی اور پتیاں بٹورنے لگا۔ تھوڑی دیر میں پتوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں گلے جاتے تھے اور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کر رہا تھا۔ اسی الاؤ میں وہ سردی کو جلا کر خاک کر دے گا۔

تھوڑی دیر میں الاؤ جل اٹھا۔ اس کی لو اوپر والے درخت کی پتیوں کو چھو چھو کر بھاگنے لگی۔ اس متزلزل روشنی میں باغ کے عالی شان درخت ایسے معلوم ہوتے تھے کہ وہ اس لا انتہا اندھیرے کو اپنی گردن پر سنبھالے ہوں۔ تاریکی کے اسا تھاہ سمندر میں یہ روشنی ایک ناؤ کے مانند معلوم ہوتی تھی۔

ہلکو الاؤ کے سامنے بیٹھا ہوا آگ تاپ رہا تھا۔ ایک منٹ میں اس نے اپنی چادر بغل میں دبا لی اور دونوں پاؤں پھیلا دیے۔ گویا وہ سردی کو للکار کر کہہ رہا تھا ’’تیرے جی میں آئے وہ کر۔‘‘ سردی کی اس بے پایاں طاقت پر فتح پا کر وہ خوشی کو چھپا نہ سکتا تھا۔

اس نے جبر اسے کہا، کیوں جبرا۔ اب تو ٹھنڈ نہیں لگ رہی ہے؟

جبرا نے کوں کوں کر کے گویا کہا، اب کیا ٹھنڈ لگتی ہی رہے گی۔

’’پہلے یہ تدبیر نہیں سوجھی نہیں تو اتنی ٹھنڈ کیوں کھاتے؟‘‘

جبرا نے دم ہلائی۔

’’اچھا آؤ، اس الاؤ کو کود کر پار کریں۔ دیکھیں کون نکل جاتا ہے اگر جل گئے بچہ تو میں دوا نہ کروں گا۔‘‘

جبرا نے خوف زدہ نگاہوں سے الاؤ کی جانب دیکھا۔

’’منی سے کل یہ نہ جڑ دینا کہ رات ٹھنڈ لگی اور تاپ تاپ کر رات کاٹی۔ ورنہ لڑائی کرے گی۔‘‘

یہ کہتا ہوا وہ اچھلا اور اس الاؤ کے اوپر سے صاف نکل گیا پیروں میں ذرا سی لپٹ لگ گئی پروہ کوئی بات نہ تھی۔ جبرا الاؤ کے گرد گھوم کر اس کے پاس کھڑا ہوا۔

ہلکو نے کہا چلو چلو، اس کی سہی نہیں۔ اوپر سے کود کر آؤ۔ وہ پھر کودا اور الاؤ کے اس پار آ گیا۔ پتیاں جل چکی تھیں۔ باغیچے میں پھر اندھیرا چھا گیا تھا۔ راکھ کے نیچے کچھ کچھ آگ باقی تھی۔ جو ہوا کا جھونکا آنے پر ذرا جاگ اٹھتی تھی پر ایک لمحہ میں پھر آنکھیں بند کر لیتی تھی۔

ہلکو نے پھر چادر اوڑھ لی اور گرم راکھ کے پاس بیٹھا ہوا ایک گیت گنگنانے لگا۔ اس کے جسم میں گرمی آ گئی تھی۔ پر جوں جوں سردی بڑھتی جاتی تھی اسے سستی دبا لیتی تھی۔

دفعتاً جبرا زور سے بھونک کر کھیت کی طرف بھاگا۔ ہلکو کو ایسا معلوم ہوا کہ جانور کا ایک غول اس کے کھیت میں آیا۔ شاید نیل گائے کا جھنڈ تھا۔ ان کے کودنے اور دوڑنے کی آوازیں صاف کان میں آ رہی تھیں۔ پھر ایسا معلوم ہوا کہ کھیت میں چر رہی ہیں۔ اس نے دل میں کہا۔ ہنہ، جبرا کے ہوتے ہوئے کوئی جانور کھیت میں نہیں آ سکتا۔ نوچ ہی ڈالے، مجھے وہم ہو رہا ہے۔ کہاں اب تو کچھ سنائی نہیں دیتا مجھے بھی کیسا دھوکا ہوا۔

اس نے زور سے آواز لگائی جبرا۔ جبرا۔

جبرا بھونکتا رہا۔ اس کے پاس نہ آیا۔

جانوروں کے چرنے کی آواز چرچر سنائی دینے لگی۔ ہلکو اب اپنے کو فریب نہ دے سکا مگر اسے اس وقت اپنی جگہ سے ہلنا زہر معلوم ہوتا تھا۔ کیسا گرمایا ہوا مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس جاڑے پالے میں کھیت میں جانا جانوروں کو بھگانا ان کا تعاقب کرنا اسے پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ بیٹھے بیٹھے جانوروں کو بھگانے کے لیے چلانے لگا۔ لہو لہو، ہو۔ ہو۔ ہاہا۔

مگر جبرا پھر بھونک اٹھا۔ اگر جانور بھاگ جاتے تووہ اب تک لوٹ آیا ہوتا۔ نہیں بھاگے ابھی تک چر رہے ہیں۔ شاید وہ سب بھی سمجھ رہے ہیں کہ اس سردی میں کون بیٹھا ہے جو ان کے پیچھے دوڑے گا۔ فصل تیار ہے کیسی اچھی کھیتی تھی۔ سارا گاؤں دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اسے یہ ابھاگے تباہ کیے ڈالتے ہیں۔

اب ہلکو سے نہ رہا گیا وہ پکا ارادہ کر کے اٹھا اور دو تین قدم چلا۔ پھر یکا یک ہوا کا ایسا ٹھنڈا چبھنے والا، بچھو کے ڈنک کا سا جھونکا لگا وہ پھر بجھتے ہوئے الاؤ کے پاس آ بیٹھا اور راکھ کو کرید کرید کر اپنے ٹھنڈے جسم کو گرمانے لگا۔

جبرا اپنا گلا پھاڑے ڈالتا تھا۔ نیل گائیں کھیت کا صفایا کیے ڈالتی تھیں اور ہلکو گرم راکھ کے پاس بے حس بیٹھا ہوا تھا۔ افسردگی نے اسے چاروں طرف سے رسی کی طرح جکڑ رکھا تھا۔

آخر و ہیں چادر اوڑھ کر سو گیا۔

سویرے جب اس کی نیند کھلی تو دیکھا چاروں طرف دھوپ پھیل گئی ہے۔ اور منی کھڑی کہہ رہی ہے۔ کیا آج سوتے ہی رہو گے تم یہاں میٹھی نیند سو رہے ہو اور ادھر سارا کھیت چوپٹ ہو گیا۔ سارا کھیت کا ستیاناس ہو گیا بھلا کوئی ایسا بھی سوتا ہے۔ تمہارے یہاں منڈ یا ڈالنے سے کیا ہوا۔

ہلکو نے بات بنائی۔ میں مرتے مرتے بچا۔ تجھے اپنے کھیت کی پڑی ہے پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ میں ہی جانتا ہوں۔

دونوں پھر کھیت کے ڈانڈے پر آئے۔ دیکھا کھیت میں ایک پودے کا نام نہیں اور جبرا منڈیا کے نیچے چت پڑا ہے۔ گویا بدن میں جان نہیں ہے۔ دونوں کھیت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ منی کے چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ پر ہلکو خوش تھا۔

منی نے فکر مند ہو کر کہا۔ اب مجوری کر کے مال گجاری دینی پڑے گی۔

ہلکو نے مستانہ انداز سے کہا۔ ’’ رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔‘‘

’’میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گی یہ کہے دیتی ہوں۔ جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں مرنے کے لیے نہیں کرتے۔‘‘

’’جبرا ابھی تک سویا ہوا ہے۔ اتنا تو کبھی نہ سوتا تھا۔‘‘

’’آج جا کر شہنا سے کہہ دے، کھیت جانور چر گئے ہم ایک پیسہ نہ دیں گے۔‘‘

’’رات بڑے گجب کی سردی تھی۔‘‘

’’میں کیا کہتی ہوں تم کیا سنتے ہو۔‘‘

’’تو گالی کھلانے کی بات کہہ رہی ہے۔ شہنا کو ان باتوں سے کیا سرو کار، تمہارا کھیت چاہے جانور کھائیں چاہے آگ لگ جائے، چاہے اولے پڑ جائیں، اسے تو اپنی مال گجاری چاہیے۔‘‘

’’تو چھوڑ دو کھیتی، میں ایسی کھیتی سے باز آئی۔

ہلکو نے مایوسانہ انداز سے کہا۔ ’’جی من میں تو میرے بھی یہی آتا ہے کہ کھیتی باڑی چھوڑ دوں۔ منی تجھ سے سچ کہتا ہوں مگر مجوری کا کھیال کرتا ہوں تو جی گھبرا اٹھتا ہے۔ کسان کا بیٹا ہو کر اب مجوری نہ کروں گا، چاہے کتنی ہی درگت ہو جائے۔ کھیتی کا مرد جا نہ نہیں بگاڑوں گا۔ جبرا۔۔۔ جبرا۔۔۔ کیا سوتا ہی رہے گا۔ چل گھر چلیں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

پنساری کا کنواں

 

 

بستر مرگ پر پڑی گومتی نے چودھری ونایک سنگھ سے کہا۔ ’’چودھری میری زندگی کی یہی لالسا تھی۔‘‘

چودھری نے سنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’اس کی کچھ چنتا نہ کرو کاکی۔ تمھاری لالسا بھگوان پوری کریں گے۔ میں آج ہی سے مزدوروں کو بلا کر کام پر لگائے دیتا ہوں۔ دیو نے چاہا تو تم اپنے کنویں کا پانی پیو گی۔ تم نے تو گنا ہو گا کتنے روپے ہیں۔؟

گومتی نے ایک پل آنکھیں بند کر کے بکھری ہوئی یادداشت کو یکجا کر کے کہا۔ بھیا میں کیا جانوں کتنے روپے ہیں جو کچھ ہیں وہ اسی ہانڈی میں ہیں۔ اتنا کرنا کہ اتنے ہی میں کام چل جائے۔ کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو گے۔

چودھری نے بند ہانڈی کو اٹھا کر ہاتھوں سے تولتے ہوئے کہا۔ ’’ایسا تو کریں گے ہی کاکی کون دینے والا ہے۔ ایک چٹکی بھیک تو کسی کے گھر سے نکلتی نہیں۔ کنواں بنوانے کے لیے کون دیتا ہے۔ دھنیہ ہو تم کو کہ اپنی عمر بھر کی کمائی اس دھرم کاج کے لیے دے دی۔‘‘

گومتی نے فخر سے کہا۔ ’’بھیا تم تو بہت چھوٹے تھے تمھارے کاکا مرے تو میرے ہاتھ میں ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ دن بھر بھوکی رہتی۔ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب ان کی بیماری پر اٹھ گیا۔ وہ بھگوان کے بڑے بھگت تھے۔ اس لیے انھیں بھگوان نے جلدی سے اپنے پاس بلا لیا۔ اس دن سے آج تک تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح دن کاٹ رہی ہوں۔ میں نے ایک رات میں من بھر اناج پیسا ہے۔ بیٹا دیکھنے والے تعجب کرتے تھے۔ نہ جانے اتنی طاقت مجھ میں کہاں سے آ جاتی تھی۔ بس یہی تمنّا رہی کہ ان کے نام پر گاؤں میں ایک چھوٹا سا کنواں بن جاتا۔ نام تو چلنا چاہیے اس لیے تو آدمی بیٹے بیٹی کو روتا ہے۔

اس طرح چودھری ونایک سنگھ کو وصیت کر کے اسی رات کو بڑھیا گومتی پرلوک سدھاری۔ مرتے وقت آخری الفاظ جو اس کے منہ سے نکلے تھے وہی تھے۔ ’’کنواں بنوانے میں دیر مت کرنا۔‘‘ اس کے پاس دولت ہے یہ تو لوگوں کو اندازہ تھا لیکن دو ہزار ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ بڑھیا اپنی دولت کو عیب کی طرح چھپاتی تھی۔ چودھری ونایک سنگھ گاؤں کا مکھیا اور نیت کا صاف آدمی تھا اس لیے بڑھیا نے اسے یہ آخری حکم دیا تھا۔

چودھری نے بڑھیا کے کریا کرم میں بہت روپے خرچ نہیں کیے۔ جوں ہی ان سنسکاروں سے چھٹی ملی وہ اپنے بیٹے ہرناتھ سنگھ کو بلا کر اینٹ، چونا، پتھر کا تخمینہ کرنے لگا۔ ہرناتھ سنگھ اناج کا کاروبار کرتا تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ بیٹھا سنتا رہا پھر بولا۔ ’’ابھی دو چار مہینے کنواں نہ بنے تو کوئی بڑا ہرج ہے کیا۔‘‘؟

چودھری نے ’’ہوں‘‘ کر کے کہا۔ ’’ہرج تو کچھ نہیں۔ لیکن دیر کرنے کا کام ہی کیا ہے۔‘‘ روپے اس نے دے ہی دئیے ہیں، ہمیں تو مفت میں ناموری ملے گی۔ گومتی نے مرتے مرتے جلد کنواں بنوانے کو کہا تھا۔‘‘

ہرناتھ بولا۔ ’’ہاں۔ کہا تو تھا، لیکن آج کل بازار اچھا ہے تین ہزار کا اناج بھر لیا جائے تو اگہن پوس تک سوایا ہو جائے گا۔ میں آپ کو کچھ سود دے دوں گا۔‘‘

چودھری کا دل شک اور خوف کی وجہ سے کشمکش میں پھنس گیا۔ دو ہزار کے کہیں ڈھائی ہزار ہو گئے تو کیا کہنا، کچھ بیل بوٹے بنوا دوں گا۔ لیکن خوف تھا کہ کہیں گھاٹا ہو گیا تو۔؟  اس شک کو وہ چھپا نہ سکے۔ بولے ’’جو کہیں گھاٹا ہو گیا تو۔‘‘؟

ہر ناتھ نے تڑپ کر کہا۔ ’’گھاٹا کیوں ہو جائے گا؟  کوئی بات ہے۔‘‘

’’مان لو گھاٹا ہو گیا تو۔‘‘؟

ہرناتھ نے مشتعل ہو کر کہا۔ ’’یہ کہو کہ تم روپیہ نہیں دینا چاہتے ہو۔ بڑے دھرماتما بنے ہو۔‘‘

دوسرے بزرگوں کی طرح چودھری بھی بیٹے سے ڈرتے تھے۔ دبے ہوئے لہجے میں بولے۔ ’’ میں یہ کب کہتا ہوں کہ روپیہ نہیں دوں گا۔ لیکن پرایا دھن ہے سوچ سمجھ کر ہی تو اس میں ہاتھ لگانا چاہیے۔ بیوپار کا حال کون جانتا ہے۔ کہیں بھاؤ اور زیادہ گر جائے تو؟  اناج میں گھن ہی لگ جائے۔ کوئی مدعی گھر میں آگ لگا دے۔ سب باتیں سوچ لو اچھی طرح۔‘‘

ہر ناتھ نے طنز سے کہا۔ ’’اس طرح سوچنا ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ کوئی چور ہی اٹھا لے جائے یا بنی بنائی دیوار بیٹھ جائے۔ یہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں۔‘‘

چودھری کے پاس اب اور کوئی دلیل نہیں تھی۔ کمزور سپاہی نے تال تو ٹھونکی اکھاڑے میں اتر بھی پڑا تلوار کی چمک دیکھتے ہی ہاتھ پھول گئے۔ بغلیں جھانک کر چودھری نے کہا

’’تو کتنا لو گے؟‘‘

ہرناتھ ہوشیار جنگجو کی طرح دشمن کو پیچھے ہٹتا دیکھ کر بپھر کر بولا۔ ’’سب کا سب دیجئے سو پچاس لے کر کیا کھلواڑ کرنا ہے۔‘‘

چودھری راضی ہو گئے۔ گومتی کو انھیں روپیہ دیتے کسی نے نہیں دیکھا۔ دنیا برائی کرے گی اس کا امکان بھی نہیں تھا۔ ہر ناتھ نے اناج بھرا۔ اناج کے بوروں کا ڈھیر لگ گیا۔ آرام کی میٹھی نیند سونے والے چودھری اب ساری رات چوروں کی رکھوالی کرتے مجال نہ تھی کہ کوئی چوہیا بوروں میں گھس جائے۔ چودھری اس طرح جھپٹتے کہ بلّی بھی ہار مان جاتی اس طرح چھ مہینے گذر گئے۔ اناج بکا۔ پورے پانچ سو روپے کا منافع ہوا۔

ہر ناتھ نے کہا۔ ’’اس میں پچاس روپیہ آپ لے لیں۔‘‘

چودھری نے جھلّا کر کہا۔ ’’پچاس روپیہ کیا خیرات لے لوں۔ کسی مہاجن سے اتنے روپے لیے ہوتے تو کم سے کم دو سو روپیہ سود کے ہوتے۔‘‘

ہر ناتھ نے بات کو زیادہ نہیں بڑھایا۔ ایک سو پچاس روپے چودھری کو دے دیے۔ چودھری کی آتما اتنی خوش کبھی نہیں ہوئی تھی۔ رات کو وہ اپنی کوٹھری میں سونے گیا تو اس کو ایسا محسوس ہوا کہ بڑھیا گومتی کھڑی مسکرا رہی ہے۔ چودھری کا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا وہ نیند میں نہ تھا۔ کوئی نشہ نہ کھایا تھا۔ گومتی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ہاں اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ایک عجیب تازگی تھی۔

کئی سال گذر گئے چودھری برابر اسی فکر میں رہتے کہ ہر ناتھ سے روپیہ نکال لوں لیکن ہر ناتھ ہمیشہ ہی حیلے حوالے کرتا رہتا تھا۔ وہ سال میں تھوڑاسا سود دے دیتا تھا مگر مول کے لیے ہزاروں باتیں بناتا تھا۔ کبھی لہنے کا رونا تھا کبھی چکتے کا۔ ہاں کاروبار بڑھتا جاتا تھا۔ آخر کار ایک دن چودھری نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ تمھارا کام چلے یا ڈوبے مجھے پرواہ نہیں۔ اس مہینے میں تمھیں ضرور روپے چکانے پڑیں گے۔ ہر ناتھ نے بہت اڑن گھائیاں بتائیں چودھری اپنے ارادے پر جمے رہے۔

ہرناتھ نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’کہتا ہوں کہ دو مہینے اور ٹھہرئیے مال فروخت ہوتے ہی میں روپے دے دوں گا۔‘‘

چودھری نے سختی سے کہا۔ ’’تمھارا مال کبھی نہ بکے گا اور نہ کبھی تمھارے دو مہینے پورے ہوں گے۔ میں آج روپیہ لوں گا۔‘‘

ہرناتھ اسی وقت غصّے میں بھر اہوا اٹھا اور دو ہزار روپیہ لا کر چودھری کے سامنے پٹک دیا۔

چودھری نے کچھ جھینپ کر کہا ’’روپے تو تمھارے پاس تھے۔‘‘

’’تو کیا باتوں سے روزگار ہوتا ہے۔‘‘

’’تم اس وقت مجھے پانچ سو روپے دے دو۔ باقی دو مہینے میں دے دینا۔ سب آج ہی خرچ نہیں ہو جائیں گے۔‘‘

ہرناتھ نے تاؤ کھا کر کہا۔ ’’آپ چاہے خرچ کیجئے یا جمع کیجئے مجھے ان روپیوں سے کام نہیں۔ دنیا میں کیا مہاجن مر گئے ہیں جو آپ کی دھونس سہوں۔‘‘

چودھری نے روپے اٹھا کر ایک طاق پر رکھ دئیے کنویں کی داغ بیل ڈالنے کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

ہرناتھ نے روپے لوٹا تو دئیے تھے مگر من میں کچھ اور منصوبہ باندھ رہا تھا۔ آدھی رات کو جب گھر میں سنّاٹا چھا گیا تو ہر ناتھ چودھری کی کوٹھری کی چول کھسکا کر اندرگھسا چودھری بے خبر سوئے ہوئے تھے۔ ہرناتھ نے چاہا کہ دونوں تھیلیاں اٹھا کر باہر نکل جاؤں لیکن جوں ہی ہاتھ بڑھایا اسے اپنے سامنے گومتی کھڑی دکھائی دی۔ وہ دونوں تھیلیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھی۔ ہرناتھ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔

پھر یہ سوچ کر کے شاید مجھے دھوکا ہو رہا ہے۔ اس نے پھر ہاتھ بڑھایا پر اب کی وہ مورتی اتنی ڈراؤنی ہو گئی کہ ہر ناتھ ایک پل بھی وہاں کھڑا نہ رہ سکا۔ بھاگا پر برآمدے میں ہی بیہوش ہو کر گر پڑا۔

ہرناتھ نے چاروں طرف سے روپے وصول کر کے بیوپاریوں کے دینے کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ چودھری نے آنکھیں دکھائیں تو وہی روپیہ لا کر پٹک دیا۔ دل میں اسی وقت سوچ لیا تھا کہ رات کو روپے اڑا لاؤں گا۔ جھوٹ موٹ چور کا غل مچاؤں گا تو میری طرف شک بھی نہ ہو گا۔ پر جب یہ پیش بندی ٹھیک نہ اتری تو اس پر بیوپاریوں کے تقاضے ہونے لگے۔ وعدوں پر لوگوں کو کہاں تک ٹالتا جتنے بہانے ہو سکتے تھے سب کیے۔ آخر یہ نوبت آ گئی کہ لوگ نالش کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ ایک نے تو تین سو روپے کی نالش بھی کر دی۔ بیچارے چودھری بڑی مشکل میں پھنسے۔

دکان پر ہرناتھ بیٹھتا تھا۔ چودھری کو اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ پر اس کی جوساکھ تھی وہ چودھری کی وجہ سے تھی۔ لوگ چودھری کو کھرا اور لین دین کا صاف آدمی سمجھتے تھے حالانکہ اب بھی ان سے کوئی تقاضا نہیں کرتا تھا پر وہ سب سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مگر انھوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ کنویں کے روپے نہ چھوؤں گا۔ چاہے کچھ بھی آ پڑے۔

رات کو ایک بیوپاری کے مسلمان چپراسی نے چودھری کے دروازے پر جا کر ہزاروں گالیاں سنائیں چودھری کو بار بار غصّہ آیا تھا کہ چل کر اس کی مونچھ اکھاڑ لوں، پر دل کو سمجھایا۔ ہم سے مطلب ہی کیا ہے۔ بیٹے کا قرض ادا کرنا باپ کا فرض نہیں ہے۔

جب کھانا کھانے گئے تو بیوی نے کہا۔ ’’یہ سب کیا جھگڑا کر رکھا ہے۔‘‘؟

چودھری نے کمزور لہجے میں کہا۔ ’’میں نے کر رکھا ہے‘‘؟

’’اور کس نے؟ بچّہ قسم کھاتا ہے کہ میرے پاس صرف تھوڑا سا مال ہے۔ روپے تو سب تم نے مانگ لیے۔‘‘

چودھری: مانگ نہ لیتا تو کیا کرتا۔ حلوائی کی دکان پر دادا کا فاتحہ پڑھنا مجھے پسند نہیں ہے۔

استری: یہ ناک کٹاتی اچھی لگتی ہے۔؟

چودھری: تو میرا کیا بس ہے بھائی۔ کبھی کنواں بنے گا کہ نہیں، پانچ سال ہو گئے۔

استری: اس وقت اس نے کچھ نہیں کھایا۔ پہلی جون بھی منہ جھوٹا کر کے اٹھ گیا تھا۔

چودھری: تم نے سمجھا کر کھلایا نہیں۔ دانہ پانی چھوڑ دینے سے تو روپے نہیں ملیں گے۔

استری: تم کیوں نہیں جا کر سمجھا دیتے۔

چودھری: مجھے تو وہ اس وقت بیری سمجھ رہا ہو گا۔

استری: میں روپے لے جا کر بچّہ کو دے آتی ہوں۔ ہاتھ میں جب روپے آ جائیں تو کنواں بنوا دینا۔

چودھری: نہیں، نہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ میں اتنا بڑا دھوکا نہ کر سکوں گا چاہے گھر مٹی میں مل جائے۔

لیکن استری نے ان باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا وہ لپک کر اندر گئی اور تھیلیوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتی تھی کہ ایک چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کا سارا جسم ستار کی طرح کانپنے لگا۔

چودھری نے گھبرا کو پوچھا ’’کیا ہوا، تمھیں چکر تو نہیں آ رہا۔‘‘

عورت نے طاق کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’وہ۔۔۔ وہ چڑیل وہاں کھڑی ہے۔

چودھری نے طاق کی طرف دیکھ کر کہا۔ کون چڑیل؟  مجھے تو وہاں کوئی بھی نظر نہیں آتا۔‘‘

استری: میرا تو کلیجہ دھک دھک کر رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس بڑھیا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے۔

چودھری: یہ سب وہم ہے۔ بڑھیا کو مرے ہوئے پانچ سال ہو گئے۔ کیا اب تک وہ یہاں بیٹھی ہے۔

استری: میں نے صرف دیکھا وہی تھی۔ بچّہ کہتا تھا کہ اس نے رات تھیلیوں پر ہاتھ رکھے دیکھا تھا۔

چودھری: وہ رات کو میری کوٹھری میں کب آیا۔؟

استری: تم سے کچھ روپیوں کے بارے میں ہی کہنے آیا تھا، اسے دیکھتے ہی بھاگا۔

چودھری: اچھا پھر تم اندر جاؤ میں دیکھ رہا ہوں۔

استری نے کان پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’نا بابا۔ اب اس کمرے میں قدم نہ رکھوں گی۔‘‘

چودھری: اچھا میں جا کر دیکھتا ہوں۔

چودھری نے کوٹھری میں جا کر دونوں تھیلیاں طاق پر سے اٹھا لیں۔ کسی طرح کا شک نہیں ہوا۔ گومتی کی چھایا کا کہیں نام تک نہیں تھا۔ استری دروازے پر کھڑی جھانک رہی تھی۔ چودھری نے آ کر فخر سے کہا۔

’’مجھے تو کہیں کچھ نہ دکھائی دیا۔ وہاں ہوتی تو کہاں چلی جاتی۔‘‘

استری: کیا جانے تمھیں کیوں نہیں دکھائی دی۔ تم پر مہربان تھی، اسی لیے ہٹ گئی ہو گی۔

چودھری: تمھیں وہم تھا اور کچھ نہیں۔

استری: بچّہ کو بلا کر پچھوائے دیتی ہوں۔

چودھری: کھڑا تو ہوں جا کر دیکھ کیوں نہیں آتی۔

استری کی کچھ ہمت بندھی۔ اس نے طاق کے پاس جا کر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور زور سے چلا کر بھاگی اور آنگن میں آ کر دم لیا۔

چودھری بھی اس کے ساتھ آنگن میں آ گیا اور حیرت سے بولا۔ کیا تھا؟  کیا بیکار میں بھاگی چلی آئی۔ مجھے تو کچھ نہ دکھائی دیا۔

استری نے ہانپتے ہوئے کہا۔ چلو ہٹو۔ اب تک تو تم نے میری جان ہی لے لی تھی نہ جانے تمھاری آنکھوں کا کیا ہو گیا۔ کھڑی تو ہے وہ ڈاین۔

اتنے میں ہر ناتھ بھی وہاں آ گیا۔ ماتا کو آنگن میں پڑے دیکھ کر بولا۔ ’’کیا ہے امّاں کیسا جی ہے۔‘‘

استری: وہ چڑیل آج دوبارہ دکھائی دی۔ بیٹا میں نے کہا لاؤ تمھیں روپے دے دوں جب ہاتھ میں آ جائیں گے تو کنواں بنوا دیا جائے گا۔ لیکن جیوں ہی تھیلیوں پر ہاتھ رکھا اس چڑیل نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ پر ان نکل گئے۔

ہرناتھ نے کہا۔ ’’کسی اچھے اوجھا کو بلانا چاہیے جو اسے مار بھگائے گا۔‘‘

چودھری: کیا رات کو تمھیں بھی دکھائی دی تھی۔

ہرناتھ: ہاں، میں تمھارے پاس ایک معاملے میں صلاح کرنے آیا تھا۔ جیوں ہی اندر قدم رکھا۔ وہ چڑیل طاق کے پاس کھڑی دکھائی دی، میں بدحواس ہو کر بھاگا۔

چودھری: اچھا پھر تو جاؤ۔

استری: کون؟  اب تو میں نہ جانے دوں چاہے کوئی لاکھ روپیہ ہی کیوں نہ دے۔

ہرناتھ: ۔ میں اب نہ جاؤں گا۔

چودھری: مگر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات کیا ہے۔؟

ہرناتھ: کیا جانے آپ سے ڈرتی ہو گی۔ آج کسی اوجھا کو بلانا چاہیے۔

چودھری: کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا ماجرا ہے۔ کیا ہوا بیجو پانڈے کی ڈگری کا۔؟  ہرناتھ ان دنوں چودھری سے اتنا جلتا تھا کہ اپنی دکان کے بارے میں کوئی بات بھی ان سے نہ کہتا۔ آنگن کی طرف تاکتا ہوا جیسے ہوا سے بولا۔ ’’جو ہونا ہو گا وہ ہو گا۔ میری جان کے سوا اور کوئی کیا لے لے گا۔ جو کھا گیا ہوں وہ تو اگل نہیں سکتا۔

چودھری: کہیں اس نے ڈگری جاری کرا دی تو۔

ہرناتھ: تو کیا دکان میں چار پانچ سو کا مال ہے وہ نیلام ہو جائے گا۔

چودھری: کاروبار تو سب چوپٹ ہو جائے گا۔

ہرناتھ: اب کاروبار کے نام کو کہاں تک روتا رہوں۔ اگر پہلے سے معلوم ہوتا کہ کنواں بنوانے کی اتنی جلدی ہے تو یہ کام چھیڑتا ہی کیوں۔ روٹی دال تو پہلے بھی مل جاتی تھی۔ بہت ہو گا دو چار مہینے حوالات میں رہنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

ماتا نے کہا: جو تمھیں حوالات میں لے جائے اس کا منہ جھلس دوں۔ ہمارے جیتے جی تم حوالات میں جاؤ گے۔

ہرناتھ نے فلاسفر بن کر کہا۔ ’’سن باپ جنم کے ساتھی ہوتے ہیں، کسی کے کرم کے ساتھی نہیں ہوتے۔‘‘

چودھری کو بیٹے سے بڑی محبت تھی مگر انھیں شک تھا کہ ہر ناتھ روپے ہضم کرنے کے لیے ٹال مٹول کر رہا ہے اسی لیے انھوں نے تقاضا کر کے روپے وصول کر لیے تھے۔ اب انھیں احساس ہوا کہ ہرناتھ کی جان سچ مچ مصیبت میں ہے۔ سوچا اگر لڑکے کو حوالات ہو گئی یا دکان پر قرقی آ گئی تو خاندان کی عزّت دھول میں مل جائے گی۔ کیا ہرج ہے اگر گومتی کے روپے دے دوں۔ آخر دکان چلتی ہی ہے، کبھی نہ کبھی تو روپے ہاتھ میں آ ہی جائیں گے۔

یکایک کسی نے باہر سے پکارا ’’ہر ناتھ سنگھ۔‘‘

ہرناتھ کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔

چودھری نے پوچھا ’’کون ہے۔؟‘‘

’’ قرقی کرنے والا امین۔‘‘

’’کیا دکان قرق کرنے آیا ہے۔؟‘‘

’’ہاں معلوم تو یہی ہوتا ہے۔‘‘

’’کتنے روپے کی ڈگری ہے۔؟‘‘

’’بارہ سو روپے کی۔‘‘

’’قرقی کرنے والا امین کچھ لے دے کر نہ ٹلے گا۔‘‘

’’ٹل تو جاتا پر مہاجن بھی تو اس کے ساتھ ہو گا۔ اسے جو کچھ لینا ہے ادھر سے لے چکا ہو گا۔‘‘

’’نہ ہو۔ بارہ سو روپے گومتی کے روپیوں میں سے دے دو۔‘‘

’’اس کے روپے کون چھوئے گا۔ نہ جانے گھر پر کیا آفت آئے۔‘‘

’’اس کے روپے کوئی ہضم تھوڑے ہی کیے لیتا ہے چلو میں دے دوں۔‘‘

چودھری کو اس وقت ڈر ہوا کہیں وہ مجھے بھی دکھائی نہ دے لیکن ان کا شک بے بنیاد تھا۔ انھوں نے ایک تھیلی سے بارہ سو روپے نکالے اور دوسری تھیلی میں رکھ کر ہرناتھ کو دے دئیے۔ شام تک ان دو ہزار روپیوں میں سے ایک روپیہ بھی نہ بچا۔

بارہ سال گزر گئے۔ نہ چودھری اب اس دنیا میں ہے اور نہ ہر ناتھ چودھری جب تک زندہ رہے انھیں کنواں بنانے کی فکر رہی۔ یہاں تک کہ مرتے دم بھی ان کی زبان پر کنویں کی رٹ لگی ہوئی تھی لیکن دکان میں ہمیشہ روپیوں کی کمی رہی۔ چودھری کے مرتے ہی سارا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ ہر ناتھ نے ایک آنہ روپے کے منافع سے مطمئن نہ ہو کر دگنے تگنے منافع پر ہاتھ مارا جوا کھیلنا شروع کیا۔ سال بھر بھی گذر نے نہ پایا تھا کہ دکان بند ہو گئی۔ گہنے پاتے برتن بھانڈے سب مٹی میں مل گئے۔

چودھری کی موت کے ٹھیک سال بھر بعد ہرناتھ نے بھی اس نفع نقصان کی دنیا سے کوچ کیا۔ ماتا کی زندگی کا اب کوئی سہارا نہ رہا۔ بیمار پڑی پر دو ادارو نہ ہو سکی۔ تین چار مہینے تک طرح طرح کے دکھ جھیل کر وہ بھی چل بسی۔ اب صرف بہو تھی اور وہ بھی حاملہ اس بیچاری کے لیے اب کوئی سہارا نہیں تھا۔ ایسی حالت میں مزدوری بھی نہ کر سکتی تھی۔ پڑوسیوں کے کپڑے سی کر اس نے کس طرح پانچ چھ مہینے کاٹے۔ تیرے لڑکا ہو گا۔ ساری علامات لڑکے کی تھیں۔ یہی ایک زندگی کا سہارا تھا۔ جب لڑکی ہوئی تو وہ سہارا بھی جاتا رہا۔

ماں نے اپنا دل اتنا سخت کر لیا کہ نو مولود بچّے کو چھاتی بھی نہ لگاتی تھی۔ پڑوسیوں کے بہت سمجھانے بجھانے پر چھاتی سے لگایا پر اس کی چھاتی میں دودھ کی ایک بوند بھی نہ تھی۔ اس وقت بد نصیب ماں کے دل میں رحم اور ممتا کا ایک زلزلہ سے آ گیا۔ اگر کسی طریقے سے اس کے سینے کی آخری بوند دودھ بن جاتی تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی۔

بچی کی یہ بھولی، معصوم قابلِ رحم اور پیاری صورت دیکھ کر ماں کا دل جیسے ہزاروں آنکھوں سے رونے لگا۔ اس کے دل کی ساری نیک خواہشات، ساری آشیرواد، ساری محّبت جیسے اس کی آنکھوں سے نکل کر اس بچی کو اس طرح شرابور کر دیتے تھے جیسے چاند کی ٹھنڈی روشنی پھولوں کو نہلا دیتی ہے۔ پر اس بچّی کی قسمت میں ماں کی محّبت کے سکھ نہیں تھے۔ ماں نے کچھ اپنا خون، کچھ اوپر کا دودھ پلا کر اسے زندہ رکھا مگر اس کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جاتی تھی۔

ایک دن لوگوں نے آ کر دیکھا تو وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور بچی اس کی چھاتی سے چپٹی ہوئی اس کے پستان کو چوس رہی تھی۔ دکھ اور غریبی کے مارے ہوئے جسم میں خون کہاں جس سے دودھ بنتا۔

وہی بچی پڑوسیوں کے رحم و کرم سے پل کر ایک دن گھاس کھودتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جہاں بڑھیا گومتی کا گھر تھا۔ چھپر کب کے زمین میں مل چکے تھے۔ صرف جہاں تہاں دیواریں کھڑی تھیں۔ لڑکی نے جانے کیا سوچ کر کھرپی سے گڈھا کھودنا شروع کیا دوپہرسے شام تک وہ گڈھا کھودتی رہی۔ نہ کھانے کی سدھ تھی نہ پینے کی۔ نہ کوئی خوف تھا نہ ڈر۔ اندھیرا ہو گیا پر وہ جیوں کی تیوں بیٹھی گڈھا کھودتی رہی۔ اس وقت کسان لوگ بھول کر بھی ادھر نہیں آتے تھے۔ یہ لڑکی بے خوف بیٹھی زمین سے مٹی نکال رہی تھی۔ جب اندھیرا ہو گیا تو چلی گئی۔

دوسرے دن وہ بڑے سویرے اٹھی اور اتنی گھاس کھودی جتنی وہ کبھی دن بھر میں بھی نہیں کھودتی تھی۔ دوپہر کے بعد وہ اپنی کھانچی اور کھرپی لیے ہوئے پھر اسی جگہ پر پہنچی پر وہ آج اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ دو بچے اور بھی تھے۔ تینوں وہاں شام تک کنواں کھودتے رہے۔ لڑکی گڈھے کے اندر کھودتی تھی اور دونوں بچے مٹی نکال نکال کر پھینکتے تھے۔

تیسرے دن دو اور لڑکے بھی اس کھیل میں مل گئے۔ شام تک کھیل ہوتا رہا۔ آج گڈھا دو ہاتھ گہرا ہو گیا تھا۔ گاؤں کے لڑکے لڑکیوں میں اس عجیب کھیل نے بے مثال حوصلہ بھر دیا تھا۔

چوتھے دن اور بھی کئی بچے آملے۔ صلاح ہوئی کون اندر جائے۔ کون مٹی اٹھائے گڈھا اب چار ہاتھ گہرا ہو گیا تھا پر ابھی تک بچّوں کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔

ایک دن رات کو ایک کسان اپنی کھوئی ہوئی بھینس ڈھونڈتا ہوا اس کھنڈر میں پہنچا اندر مٹی کا اونچا ڈھیر۔ ایک بڑا سا گڈھا اور ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ دیکھا تو ڈر کر بھاگا۔

اوروں نے بھی آ کے دیکھا۔ کئی آدمی تھے، کوئی ڈر نہ تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو بچی بیٹھی تھی۔

ایک آدمی نے پوچھا۔ ’’ارے کیا تو نے یہ گڈھا کھودا ہے؟‘‘

بچی نے کہا۔ ’’ہاں‘‘

’’گڈھا کھود کر کیا کرے گی۔؟‘‘

’’یہاں کنواں بناؤ گی۔‘‘

’’کنواں کیسے بنائے گی۔؟‘‘

’’جیسے اتنا کھودا ہے ویسے ہی اور کھود لوں گی۔ گاؤں کے سب لڑکے کھیلنے آتے ہیں۔‘‘

’’معلوم ہوتا ہے تو اپنی جان دے گی اور اپنے ساتھ اور لڑکوں کو بھی مارے گی خبردار جو کل سے گڈھا کھودا۔‘‘

دوسرے دن اور لڑکے نہ آئے۔ لڑکی بھی دن بھر مزدوری کرتی رہی لیکن شام کے وقت وہاں پھر چراغ جلا اور پھر وہ کھرپی ہاتھ میں لیے ہوئے وہاں بیٹھی دکھائی دی۔

گاؤں والوں نے اسے مارا پیٹا۔ کوٹھری میں بند کیا پر وہ موقع پاتے ہی وہاں جا پہنچتی۔ گاؤں کے لوگ عام طور پر عقیدت مند ہوتے ہیں۔ لڑکی کے اس روحانی لگاؤ نے آخر ان میں بھی لگاؤ پیدا کیا۔ کنواں کھدنے لگا۔

ادھر کنواں کھد رہا تھا ادھر وہ بچی مٹی سے اینٹیں بناتی تھی۔ اس کھیل میں سارے گاؤں کے لڑکے شریک ہوتے تھے۔ اجالی راتوں میں جب سب لوگ سو جاتے تھے تب بھی وہ اینٹیں تھاپتی دکھائی دے جاتی۔ نہ جانے اتنی لگن اس میں کہاں سے آ گئی تھی سات سال کی عمر والوں کے کان کاٹتی تھی۔

آخر ایک دن وہ بھی آیا کہ کنواں بن گیا اور اس کی پکی جگت بھی تیار ہو گئی اس دن بچی اسی جگت پر سوئی۔ آج اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ وہ گاتی تھی، چہکتی تھی۔

صبح کے وقت اس جگت پر صرف اس کی لاش ملی۔ اس دن سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ وہی بڑھیا گومتی تھی اور اس کنواں کا نام ’’پسنہاری کا کنواں‘‘ پڑ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پنچایت

 

جُمّن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا یارانہ تھا۔ ساجھے میں کھیتی ہوتی۔ لین دین میں بھی کچھ ساجھا تھا۔ ایک کو دوسرے پر کامل اعتماد تھا۔ جُمّن جب حج کرنے گئے تھے تو اپنا گھر الگو کو سونپ گئے تھے اور الگو جب کبھی باہر جاتے تو جُمّن پر اپنا گھر چھوڑ دیتے۔ وہ نہ ہم نوالہ تھے نہ ہم مشرب۔ صرف ہم خیال تھے اور یہی دوستی کی اصل بنیاد ہے۔

اس دوستی کا آغاز اسی زمانہ میں ہوا جب دونوں لڑکے جُمّن کے پدر بزرگوار شیخ جمعراتی کے روبرو زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ الگو نے استاد کی بہت خدمت کی خوب رکابیاں مانجھیں۔ خوب پیالے دھوئے۔ ان کا حقّہ دم نہ لینے پاتا تھا۔ ان خدمتوں میں شاگردانہ عقیدت کے سوا اور کوئی بھی خیال مضر نہ تھا۔ جسے الگو خوب جانتا تھا۔ ان کے باپ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ تعلیم کے مقابلے میں انھیں استاد کی خدمت پر زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے استاد کی دعا چاہیے جو کچھ ہوتا ہے فیض سے ہوتا ہے۔ اور اگر الگو پر استاد کے فیض یا دعاؤں کا اثر نہ ہوا تو اسے تسکین تھی کہ تحصیل علم کا کوئی دقیقہ اس نے فروگزاشت نہیں کیا۔ علم اس کی تقدیر ہی میں نہ تھا۔ شیخ جمعراتی خود دعا اور فیض کے مقابلے میں تازیانے کے زیادہ قائل تھے اور جُمّن پر اس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے اسی کا یہ فیض تھا کہ آج جُمّن کے قرب و جوار کے مواضعات میں پرسش ہوتی تھی۔ بیع نامہ یا رہن نامہ کے مسودات پر تحصیل کا عرائض نویس بھی قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ حلقہ کا پوسٹ میں کانسٹیبل اور تحصیل کا مذکوری یہ سب ان کے دست کرم کے محتاج تھے۔ اس لیے اگر الگو کو ان کی ثروت نے ممتاز بنا دیا تھا۔ تو شیخ جُمّن بھی علم کی لازوال دولت کے باعث عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔

شیخ جُمّن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں۔ ان کے پاس کچھ تھوڑی سی ملکیت تھی۔ مگر غریب کا وارث کوئی نہ تھا، جُمّن نے وعدے وعید کے سبز باغ دکھا کر خالہ اماں سے وہ ملکیت اپنے نام کرالی تھی، جب تک ہبہ نامہ پر رجسٹری نہ ہوئی تھی خالہ جان کی خوب خاطر داریاں ہوتی تھی۔ خوب میٹھے لقمے چٹ پٹے سالن کھلائے جاتے تھے۔ مگر پگڑی کی مہر ہوتے ہی ان کی خاطر داریوں پر بھی مہر ہو گئی وہ وعدے وصال کے دمورے ثابت ہوئے۔ جُمّن کی اہلیہ بی فہیمن نے روٹیوں کے ساتھ چیز بھی بدل دیں اور رفتہ رفتہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کر دی۔ بڑھیا وقت کے بوریے بٹورے گی کیا، دو تین بیگھے اوسر کیا دے دیا ہے، ایک دن دال بغیر روٹی نہیں اترتی۔ جتنا روپیہ اس کے پیٹ میں گیا، اگر ہوتا تو اب تک کئی گاؤں مول لے لیتے کچھ دنوں تک خالہ جان نے اور دیکھا مگر جب برداشت نہ ہوئی تو جُمّن سے شکایت کی۔ جُمّن صلح پسند آدمی تھا۔ اب اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کچھ دن تو رو دھو کر کام چلا۔ آخر ایک روز خالہ جان نے جُمّن سے کہا۔

’’بیٹا۔ تمہارے ساتھ میرا نباہ نہ ہو گا۔ تم مجھے روپے دے دیا کرو میں اپنا الگ پکا لوں گی۔‘‘

جُمّن نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ ’’روپیہ کیا یہاں پھلتا ہے۔‘‘؟

خالہ جان نے بگڑ کر کہا ’’تو مجھے کچھ نان نمک چاہیے یا نہیں۔‘‘؟

جُمّن نے مظلومانہ انداز سے جواب دیا ’’چاہیے کیوں نہیں میرا خون چوس لو! کوئی یہ ٹھوڑے ہی سمجھتا تھا کہ تم خواجہ خضر کی حیات لے کر آئی ہو۔

خالہ جان اپنے مرنے کی بات نہیں سن سکتی تھیں جامہ باہر ہو کر پنچایت کی دھمکی دی۔ جُمّن ہنسے۔ وہ فاتحانہ ہنسی جو شکاری کے لبوں پر ہرن کو جال کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر نظر آتی ہے۔ کہا ہاں۔ ضرور پنچایت کرو فیصلہ ہو جائے مجھے بھی رات دن کا وبال پسند نہیں۔

پنچایت کی صدا کس کے حق میں اٹھے گی اس کے متعلق شیخ جُمّن کو اندیشہ نہیں تھا۔ قرب و جوار، ہاں ایسا کون تھا جوان کا شرمندہ منّت نہ ہو؟  کون تھا جو ان کی دشمنی کو حقیر سمجھے؟  کس میں اتنی جرأت تھی جو ان کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ آسمان کے فرشتہ تو پنچایت کرنے آئیں گے نہیں مریض نے آپ ہی دوا طلب کی۔

اس کے بعد کئی دن تک بوڑھی خالہ لکڑی لیے آس پاس کے گاؤں کے چکرّ لگاتی رہیں۔ کمر جھک کر کمان ہو گئی تھی۔ ایک قدم چلنا مشکل تھا مگر بات آ پڑی تھی اس کا تصفیہ ضروری تھا۔ شیخ جُمّن کو اپنی طاقت رسوخ اور منطق پر کامل اعتماد تھا۔ وہ کسی کے سامنے فریاد کرنے نہیں گئے۔

’’بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں تو گریہ و زاری کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ مگر خوبیِ تقدیر کوئی اس طرف مائل نہ ہوا۔ کسی نے تو یوں ہی ہاں ہوں کر کے ٹال دیا کسی نے زخم پر نمک چھڑک دیا ذرا اس ہوس کو دیکھو قبر میں پیر لٹکائے ہوئے ہیں۔ آج مریں کل دوسرا دن ہوا، مگر صبر نہیں ہوتا۔ پوچھو اب تمھیں گھر بار جگہ زمین سے کیا سروکار۔ ایک لقمہ کھاؤ ٹھنڈا پانی پیو اور مالک کی یاد کرو۔ سب سے بڑی تعداد ستم ظریفوں کی تھی۔ خمیدہ کمر پوپلا منہ سن کے سے بال اور ثقل سماعت جب اتنے تفریح کے سامان موجود ہوں تو ہنسی کا آنا قدرتی امر ہے۔ غرض ایسے درد رس,۔ انصاف پرور آدمیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جنھوں نے خالہ جان کی فریاد کو غور سے سنا ہو، اور اس کی تشفی کی ہو، چاروں طرف سے گھوم گھام کر بڑھیا الگو چودھری کے پاس آئی لاٹھی پٹک دی اور دم لے کر کہا۔‘‘

’’بیٹا تم بھی چھن بھر کو میری پنچایت میں چلے آنا۔‘‘

الگو بے رخی سے بولے۔

مجھے بلا کر کیا کرو گی۔ کئی گاؤں کے آدمی تو آئیں گے ہی۔‘‘

خالہ نے ہانپ کر کہا ’’اپنی فر یاد تو سب کے کان میں ڈال آئی ہوں۔ آنے نہ آنے کا حال اللہ جانے؟  ہمارے سیّد سالار گہار سن کر پیڑسے اٹھ آئے تھے۔ کیا میرا رونا کوئی نہ سنے گا۔‘‘

الگو نے جواب دیا۔ ’’یوں آنے کو میں آ جاؤں گا، مگر پنچایت میں منہ نہ کھولوں گا۔‘‘ ’’خالہ نے حیرت سے پوچھا کیوں بیٹا۔‘‘

الگو نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا۔ ’’اب اس کا کیا جواب؟  اپنی اپنی طبیعت جُمّن میرے پرانے دوست ہیں۔ اس سے بگاڑ نہیں کر سکتا۔‘‘

خالہ نے تاک کر نشانہ مارا ’’بیٹا کیا بگاڑ کے ڈرسے ایمان کی بات نہ کہو گے؟‘‘

ہمارے سوئے ایمان کی ساری جتھا چوری سے لٹ جائے۔ اسے خبر نہیں ہوتی۔ مگر کھلی ہوئی للکار سن کر وہ چونک پڑتا ہے اور ہوشیار ہو جاتا ہے۔ الگو چودھری اس سوال کا جواب نہ دے سکے کیا وہ ’’نہیں‘‘ کہنے کی جرأت کر سکتے تھے۔؟

شام کو ایک پیڑ کے نیچے پنچایت بیٹھی۔ ٹاٹ بچھا ہوا تھا۔ حقّہ کا بھی انتظام تھا یہ سب شیخ جُمّن کی مہمان نوازی تھی۔ وہ خود الگو چودھری کے ساتھ ذرا دور بیٹھے حقّہ پی رہے تھے۔ جب کوئی آتا تھا ایک دبی ہوئی سلام علیک سے اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔ مگر تعجب تھا کہ با اثر آدمیوں میں صرف وہی لوگ نظر آتے۔ جنھیں ان کی رضا جوئی کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تھی۔ کتنے مجلس کو دعوتِ احباب سمجھ کر جھنڈ کے جھنڈ جمع ہو گئے تھے۔

جب پنچایت پوری بیٹھ گئی تو بوڑھی بی نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا: ۔

’’پنچوں آج تین سال ہوئے میں نے اپنی سب جائیداد اپنے بھانجے جُمّن کے نام لکھ دی تھی اسے آپ لوگ جانتے ہوں گے۔ جُمّن نے مجھے تا حین حیات روٹی کپڑا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سال چھ مہینے تو میں نے ان کے ساتھ کسی طرح رو دھو کر کاٹے مگر اب مجھ سے رات دن کا رونا نہیں سہا جاتا، مجھے پیٹ کی روٹیاں تک نہیں ملتیں۔ بیکس بیوہ ہوں۔ تھانہ کچہری کر نہیں سکتی سوائے تم لوگوں کے اور کس سے اپنا دکھ درد روؤں۔ تم لوگ جو راہ نکال دو اس راہ پر چلوں اگر میری بُرائی دیکھو میرے منہ پر تھپڑ مارو جُمّن کی بُرائی دیکھو تو اسے سمجھاؤ۔ کیوں ایک بیکس کی آہ لیتا ہے۔‘‘

رام دھن مصر بولے ’’(ان کے کئی اسامیوں کو جُمّن نے توڑ لیا تھا۔ )جُمّن میاں پنچ کسے بناتے ہو ابھی سے طے کر لو۔‘‘

جُمّن نے حاضرین پر ایک اڑتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ اپنے تئیں مخالفوں کے نرغے میں پایا۔ دلیرانہ انداز سے کہا: ۔

’’خالہ جان جسے چاہیں پنچ بنائیں مجھے عذر نہیں ہے۔‘‘

خالہ نے چلّا کر کہا۔ ’’ارے اللہ کے بندے تو پنچوں کے نام کیوں نہیں بتا دیتا۔؟

جُمّن نے بڑھیا کو غضبناک نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔‘‘

’’اب اس وقت میری زبان نہ کھلواؤ جسے چاہو پنچ بنا دو۔‘‘

خالہ نے جُمّن کے اعتراض کو تاڑ لیا۔ بولیں ’’بیٹا۔ خدا سے ڈر۔ میرے لیے کوئی اپنا ایمان نہ بیچے گا۔ اتنے بھلے آدمیوں میں کیا سب تیرے دشمن ہیں اور سب کو جانے دو۔ الگو چو دھری کو تو مانے گا۔؟

جُمّن فرط مسرت سے باغ باغ ہو گئے۔ مگر ضبط کر کے بولے۔

’’الگو چودھری ہی سہی میرے لیے جیسے رام دھن مصر، ویسے الگو چودھری کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔‘‘

’’الگو بغلیں جھانکنے لگے۔ اس جھمیلے میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے۔ معترضانہ انداز سے کہا۔‘‘

’’بوڑھی ماں تم جانتی ہو کہ میری اور جُمّن کی گاڑی دوستی ہے۔‘‘

خالہ نے جواب دیا۔

’’بیٹا دوستی کے لیے کوئی اپنا ایمان نہیں بیچتا۔ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ پنچ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ اللہ کی طرف سے نکلتی ہے۔‘‘

الگو کو کوئی چارہ نہ رہا۔۔ سرپنچ بنے۔ رام دھن مصر دل میں بڑھیا کو کوسنے لگے۔

الگو چودھری نے فرمایا۔

شیخ جُمّن۔ ہم اور تم پرانے دوست ہیں۔ جب ضرورت پڑی ہے۔ تم نے میری مدد کی ہے اور ہم سے بھی جو کچھ بن پڑا ہے، تمھاری خدمت کرتے آئے ہیں۔ مگر اس وقت نہ تم ہمارے دوست ہو، نہ ہم تمھارے دوست۔ یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے۔

خالہ جان نے پنچوں سے اپنا حال کہہ سنایا۔ تم کو بھی جو کچھ کہنا ہو کہو۔‘‘

جُمّن ایک شانِ فضیلت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: ۔

پنچوں میں خالہ جان کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہوں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھتا۔ ہاں عورتوں میں ذرا اَن بَن رہتی ہے۔ اس میں میں مجبور ہوں۔ عورتوں کی تو عادت ہی ہے۔ مگر ماہوار روپیہ دینا میرے قابو سے باہر ہے۔ کھیتوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے چھپی نہیں۔ آگے پنچوں کا حکم سر اور ماتھے پر ہے۔‘‘

الگو کو آئے دن عدالت سے واسطہ رہتا تھا۔ قانونی آدمی تھے۔ جُمّن سے جرح کرنے لگے۔ ایک ایک سوال جُمّن کے دل پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگتا تھا۔ رام دھن مصر اور ان کے رفیق سر ہلا ہلا کر ان سوالوں کی داد دیتے تھے۔ جُمّن حیرت میں تھے کہ الگو کو کیا ہو گیا ہے۔ ابھی تو یہ میرے ساتھ بیٹھا کیسے مزے مزے کی باتیں کر رہا تھا۔ اتنی دیر میں ایسی کایا پلٹ ہو گئی کہ میری جڑ کھودنے پر آمادہ ہے۔ اچھی دوستی نباہی۔ اس سے اچھے تو رام دھن ہی تھے۔ وہ یہ تو نہ جانتے کہ کون کون سے کھیت کتنے پر اٹھتے ہیں اور کیا نکاسی ہوتی ہے۔ ظالم نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔

جرح ختم ہونے کے بعد الگو نے فیصلہ سنایا۔ لہجہ نہایت سنگین اور تحکمانہ تھا۔

’’شیخ جُمّن۔ پنچوں نے اس معاملہ پر اچھی طرح غور کیا۔ زیادتی سراسر تمھاری ہے۔ کھیتوں سے معقول نفع ہوتا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ خالہ جان کے ماہوار۔ گذارے کا بندوبست کر دو۔ اس کے سوائے اور کوئی صورت نہیں اگر تمھیں یہ منظور نہیں تو ہبّہ نامہ منسوخ ہو جائے گا۔

جُمّن نے فیصلہ سنا اور سنّاٹے میں آ گیا۔ احباب سے کہنے لگا۔

’’بھئی اس زمانہ میں یہی دوستی ہے کہ جو اپنے اوپر بھروسہ کرے۔ اس کی گردن پر چھُری پھیری جائے۔ اسی کو نیرنگی روزگار کہتے ہیں، اگر لوگ ایسے دغا باز جو فروش گندم نما نہ ہوتے تو ملک پر یہ آفتیں کیوں آتیں یہ ہیضہ اور پلیگ انہی مکاریوں کی سزا ہے۔‘‘

مگر رام دھن مصرا اور فتح خان اور جگّو سنگھ اس بے لاگ فیصلہ کی تعریف میں رطب اللّسان تھے۔ اس کا نام پنچایت ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی دوستی دوستی کی جگہ ہے۔ مقّدم ایمان کا سلامت رکھنا ہے۔ ایسے ہی ستیہ بادیوں سے دنیا قائم ہے ورنہ کب کی جہنم میں مل جاتی۔

اس فیصلہ نے الگو اور جُمّن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں۔ تناور درخت حق کا ایک جھونکا بھی نہ سہہ سکا۔ وہ اب بھی ملتے تھے مگر وہ تیر وسپر کی طرح جُمّن کے دل سے دوست کی غّداری کا خیال دور نہ ہوتا تھا اور انتقام کی خواہش چین نہ لینے دیتی تھی۔

خوش قسمتی سے موقع بھی جلد مل گیا پچھلے سال مصروٹبیسرکے میلے سے بیلوں کی ایک اچھی گوئیاں مول لائے تھے۔ پچھائیں نسل کے خوبصورت بیل تھے مہینوں تک قرب و جوار کے لوگ انھیں دیکھنے آتے رہے۔

اس پنچایت کے ایک مہینہ بعد ایک بیل مرگیا۔ جُمّن نے اپنے دوستوں سے کہا۔

’’یہ دغا بازی کی سزا ہے۔ انسان صبر کر جائے، مگر خدا نیک و بد دیکھتا ہے۔ الگو کو اندیشہ ہوا کہ جُمّن نے اسے زہر دلوایا ہے اس کے برعکس چودھرائن کا خیال تھا کہ اس پر کچھ کرایا گیا ہے۔ چودھرائین اور فہمین میں ایک دن زور شورسے ٹھنی۔ دونوں خواتین نے روانی بیان کی ندی بہا دی۔ تشبیہات اور استعاروں میں باتیں ہوئیں۔ بارے جُمّن نے آگ بجھا دی۔ بیوی کو ڈانٹا اور رزم گاہ سے ہٹا لے گیا۔ ادھر الگو چودھری سے اپنے ڈنڈے سے چودھرائین کی شیریں بیانی کی داد دی۔

ایک بیل کس کام کا۔ اس کا جوڑا بہت ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ ناچاراسے بیچ ڈالنے کی صلاح ہوئی۔ گاؤں میں ایک سجھو سیٹھ تھے۔ وہ یکّہ گاڑی ہانکتے تھے۔ گاؤں میں گڑ گھی بھرتے اور منڈی لے جاتے۔ منڈی سے تیل نمک لاد کر لاتے اور گاؤں میں بیچتے تھے۔ اس بیل پر ان کی طبیعت لہرائی سوچا اسے لے لوں، تو دن میں بلا کسی منت کے تین کھیوے ہوں۔ نہیں تو ایک ہی کے لالے رہتے ہیں۔ بیل دیکھا گاڑی میں دوڑایا۔ دام کے لیے ایک مہینہ کا وعدہ ہوا۔ چودھری بھی غرض مند تھے گھاٹے کی کچھ پرواہ نہ کی۔

سجھو نے نیا بیل پایا تو پاؤں پھیلائے دن میں، تین تین چار چار کھیوے کرتے نہ چارے کی فکر تھی نہ پانی کی۔ بس کھیووں سے کام تھا۔ منڈی لے گئے وہاں کچھ سوکھا بھس ڈالا دیا اور غریب جانور ابھی دم بھی نہ لینے پایا تھا کہ پھر جوت دیا۔ الگو چودھری کے یہاں تھے تو چین کی بنسی بجتی تھی۔ راتب پاتے، صاف پانی، دلی ہوئی ارہر، بھوسے کے ساتھ کھلی، کھبی کبھی کبھی گھی کا مزہ بھی مل جاتا۔ شام سویرے ایک آدمی کھریرے کرتا۔ بدن کھجلاتا، جھاڑتا، پونچھتا، سہلاتا، کہاں وہ ناز و نعمت کہاں یہ آٹھوں پہر کی رپٹ مہینہ بھر میں بیچا رے کا کچومر نکل گیا۔ یکّہ کا جوا دیکھتے ہی بے چارے کا ہاؤ چھوٹ جاتا۔ ایک ایک قدم چلنا دوبھر تھا۔ ہڈیاں نکل آئی تھیں، لیکن اصیل جانور، مار کی تاب نہ تھی۔ ایک دن چوتھے کھیوے میں سیٹھ جی نے دونا بوجھ لادا دن بھر کا تھکا جانور، پیر مشکل سے اٹھتے تھے۔ اس پر سیٹھ جی کوڑے رسید کرنے لگے۔ بیل جگر توڑ کر چلا۔ کچھ دور دوڑا۔ چاہا کہ ذرا دم لے ادھر سیٹھ جی کو جلد گھر پہنچنے کی فکر، کئی کوڑے بے دردی سے لگائے بیل نے ایک بار پھر زور لگایا مگر طاقت نے جواب دے دیا۔ زمین پر گر پڑا اور ایسا گرا کہ پھر نہ اٹھا۔ سیٹھ نے بہت مارا پیٹا، ٹانگ پکڑ کر کھینچی، نتھنوں میں لکٹی کھونس دی، مگر لاش نہ اٹھی تب کچھ اندیشہ ہوا غور سے دیکھا بیل کو کھول کر الگ کیا اور سوچنے لگے کہ گاڑی کیوں کر گھر پہنچے بہت چیخے اور چلّائے مگر دیہات کا راستہ بچّوں کی آنکھ ہے سر شام سے بند، کوئی نظر نہ آیا قریب کوئی گاؤں بھی نہ تھا۔ مارے غصّہ کے موئے بیل پر اور درّے لگائے سسرے تجھے مرنا تھا تو گھر پر مرتا۔ تو نے آدھے راستہ میں دانت نکال دیے۔ اب گاڑی کون کھینچے؟ اس طرح خوب جلے بھنے کئی بورے گڑ اور کئی کنستر گھی کے بیچے تھے۔ دو چار سو روپے کمر میں بندھے ہوئے تھے، گاڑی پر کئی بورے نمک کے تھے چھوڑ کر جا بھی نہ سکتے گاڑی پر لیٹ گئے، وہیں رت جگا کرنے کی ٹھان لی اور آدھی رات تک دل کو بہلاتے رہے۔ حقہّ پیا، گایا، پھر حقّہ پیا، آگ جلائی، تاپا۔ اپنی دانست میں وہ تو جاگتے ہی رہے۔ مگر جب پو پھٹی چونکے اور کمر پر ہاتھ رکھا، تو تھیلی ندارد کلیجہ سن سے ہو گیا، کمر ٹٹولی۔ تھیلی کا پتہ نہ تھا گھبرا کر اِدھر ادھر دیکھا، کئی کنستر تیل کے بھی غائب تھے۔ سر پیٹ لیا، پچھاڑیں کھانے لگے۔ صبح کو بہزار خرابی گھر پہنچے۔

سیٹھانی جی نے یہ حادثہ المناک سنا تو چھاتی پیٹ لی، پہلے تو خوب روئیں تب الگو چودھری کو گالیاں دینے لگیں۔ حفظ ما تقدم کی سوجھی نگوڑے نے ایسا منحوس بیل دیا کہ سارے جنم کی کمائی لٹ گئی۔

اس واقعہ کو کئی ماہ گذر گئے الگو جب اپنے بیل کی قیمت مانگتے تو سیٹھ اور سیٹھانی دونوں جھلّائے ہوئے کتّوں کی طرح چڑھ بیٹھے۔ یہاں تو سارے جنم کی کمائی مٹّی میں مل گئی، فقیر ہو گئے۔ انھیں دام کی پڑی ہے۔ مردہ منحوس بیل دیا تھا، اس پر دام مانگتے ہیں۔ آنکھ میں دھول جھونک دی۔ مرا ہوا بیل گلے باندھ دیا۔ نرا پونگا ہی سمجھ لیا ہے۔ کسی گڈھے میں منہ دھو آؤ تب دام لینا۔ صبر نہ ہوتا ہو تو ہمارا بیل کھول لے جاؤ مہینے کے بدلے دو مہینے جوت لو اور کیا لو گے؟  اس فیاضانہ فیصلے کے قدر دان حضرات کی بھی کمی نہ تھی۔ اس طرح جھڑپ سن کر چودھری لوٹ آتے مگر ڈیڑھ سو روپے سے اس طرح ہاتھ دھو لینا آسان کام نہ تھا۔

ایک بار وہ بھی بگڑے سیٹھ جی گرم ہو پڑے۔ سیٹھانی جی جذبہ کے مارے گھر سے نکل پڑیں سوال و جواب ہونے لگے۔ خوب مباحثہ ہوا مجادلہ کی نوبت آ پہنچی سیٹھ جی نے گھر میں گھس کر کواڑ بند کر لیے۔ گاؤں کے کئی معزز آدمی جمع ہو گئے۔ دونوں فریق کو سمجھایا۔ سیٹھ جی کو دلاسا دے کر گھر سے نکالا۔ اور صلاح دی کہ آپس میں سرپھٹّول سے کام نہ چلے گا۔ اس سے کیا فائدہ پنچایت کر لوجو کچھ طے ہو جائے اسے مان جاؤ۔ سیٹھ جی راضی ہو گئے۔ الگو نے بھی حامی بھری فیصلہ ہو گیا۔ پنچایت کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دونوں فریق نے غول بندیاں شروع کیں۔ تیسرے دن اسی سایہ دار درخت کے نیچے پھر پنچایت بیٹھی۔

وہی شام کا وقت تھا کھیتوں میں کووّں کی پنچایت لگی ہوئی تھی۔ امر متنازعہ یہ تھا۔ مٹر پھلیوں پر اس کا جائز استحقاق ہے، یا نہیں، اور جب تک یہ مسئلہ طے نہ ہو جائے وہ رکھوالے لڑکے کی فریاد بے دار پر اپنی بلاغت آمیز ناراضگی کا اظہار ضروری سمجھتے تھے۔

درخت کی ڈالیوں پر طوطوں میں زبردست مباحثہ ہو رہا تھا۔ بحث طلب یہ امر تھا کہ انسان کو انھیں من حیث القوم بے وفا کہنے کا کیا حق حاصل ہے۔

پنچایت پوری آ بیٹھی، تو رام دھن مصر نے کہا: ۔

’’اب کیوں دیر کی جائے بولو چودھری کن کن آدمیوں کو پنچ بدتے ہو‘‘؟

الگو نے منکسرانہ انداز سے جواب دیا: ۔

سمجھو سیٹھ ہی چن لیں:

سمجھو سیٹھ کھڑے ہو گئے اور کڑک کر بولے:

میری طرف سے شیخ جُمّن کا نام رکھ لو۔

الگو نے پہلا نام جُمّن کا سنا تو کلیجہ دھک سے ہو گیا، گویا کسی نے اچانک تھپڑ مار دیا رام دھن مصرا الگو کے دوست تھے۔ تہ پر پہنچ گئے بولے ’’چودھری تم کو کوئی عذر تو نہیں ہے۔‘‘

چودھری نے مایوسانہ انداز سے جواب دیا۔ ’’ نہیں مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔‘‘

اس کے بعد چار نام اور تجویز کیے گئے۔ الگو پہلا چرکا کھا کر ہوشیار ہو گئے تھے خوب جانچ کر انتخاب کیا۔ صرف سرپنچ کا انتخاب باقی تھا۔ الگو اس فکر میں تھے، کہ اس مرحلہ کو کیوں کر طے کروں کہ یکایک سمجھو سیٹھ کے ایک عزیز گوڈر شاہ بولے: ۔

’’سمجھو بھائی سر پنچ کسے بناتے ہو؟

سمجھو کھڑے ہو گئے اور اکڑ کر بولے۔ شیخ جُمّن کو۔‘‘

رام دھن مصر نے چودھری کی طرف ہمدردانہ انداز سے دیکھ کر پوچھا۔ ’’الگو تمھیں کوئی عذر ہو تو بولو۔

الگو نے قسمت ٹھونک لی، حسرتناک لہجے میں بولے۔ ’’ نہیں عذر کوئی نہیں ہے۔‘‘

اپنی ذمّہ داریوں کا احساس اکثر ہماری تنگ ظرفیوں کا زبردست مصلح ہوتا ہے اور گمراہی کے عالم میں معتبر رہنما۔

ایک اخبار نویس اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھا ہو امجلس وزرا کو کتنی بے باکی اور آزادی سے اپنے تازیانہ قلم کا نشانہ بناتا ہے مگر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ خود مجلس وزراء میں شریک ہوتا ہے۔ اس دائرہ میں قدم رکھتے ہی اس کی تحریر میں ایک دل پذیر متانت کا رنگ پیدا ہوتا ہے، یہ ذمّہ داری کا احساس ہے۔

ایک نوجوان عالم شباب میں کتنا بے فکر ہوتا ہے۔ والدین اسے مایوسانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسے ننگ خاندان سمجھتے ہیں۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد وہی وارفتہ مزاج، ننگ خاندان کتنا سلامت رو، کتنا محتاط ہو جاتا ہے۔ یہ ذمّہ داری کا احساس ہے یہ احساس ہماری نگاہوں کو اور وسیع کر دیتا ہے، مگر زبان کو محدود۔

شیخ جُمّن کو بھی اپنی عظیم الشّان ذمہ داری کا احساس ہوا۔ اس نے سوچا میں اس وقت انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھا ہوں۔ میری آواز اس وقت حکم خدا ہے اور خدا کے حکم میں میری نیت کو مطلق دخل نہ ہونا چاہیے۔ حق اور راستی سے جو بھر ٹلنا بھی مجھے دنیا اور دین دونوں ہی میں سیاہ بنا دے گا۔

پنچایت شروع ہوئی فریقین نے اپنے حالات بیان کیے جرح ہوئی شہادتیں گذریں۔ فریقین کے مددگاروں نے بہت کھینچ تان کی جُمّن نے بہت غور سے سنا، اور تب فیصلہ سنایا۔

’’الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ پنچوں نے تمھارے معاملہ پر غور کیا سمجھو کو بیل کی پوری قیمت دینا واجب ہے جس وقت بیل ان کے گھر آیا۔ اس کو کوئی بیماری نہ تھی۔ اگر قیمت اس وقت دے دی گئی ہوتی تو آج سمجھو اسے واپس لینے کا ہر گز تقاضہ نہ کرتے۔‘‘

رام دھن مصر نے کہا۔ ’’قیمت کے علاوہ ان سے کچھ تاوان بھی لیا جائے سمجھو نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔

جُمّن نے کہا ’’اس کا اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوڈر شاہ نے کہا سمجھو کے ساتھ کچھ رعایت ہونی چاہیے۔ ان کا بہت نقصان ہوا ہے اور اپنے کیے کی سزامل چکی ہے۔

جُمّن بولا ’’اس کا بھی اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ الگو چودھری کی بھل منسی پر منحصر ہے۔ ’’یہ فیصلہ سنتے ہی الگو چودھری پھولے نہ سمائے۔ اٹھ کھڑے ہوئے، اور زور زور سے ہانک لگائی۔

’’پنچ پرمیشری کی جے۔۔۔

آسمان پر تارے نکل آئے تھے اس نعرہ کے ساتھ ان کی صدائے تحسین بھی سنائی دی۔ بہت مدھم گویا سمندر پار سے آئی ہو۔

ہر شخص جمّن کے انصاف کی داد دے رہا تھا۔ ’’انصاف اس کو کہتے ہیں آدمی کا یہ کام نہیں پنچ میں پرماتما بستے ہیں۔ یہ ان کی مایا ہے پنچ کے سامنے کھوٹے کو کھرا بنانا مشکل ہے۔‘‘

ایک گھنٹہ کے بعد جُمّن شیخ الگو کے پاس آئے اور ان کے گلے سے لپٹ کر بولے۔ بھیّا جب سے تم نے میری پنچایت کی ہے میں دل سے تمھارا دشمن تھا۔ مگر آج مجھے معلوم ہوا کہ پنچایت کی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔ انصاف کے سوا اور اسے کچھ نہیں سوجھتا یہ بھی خدا کی شان ہے آج مجھے یقین آ گیا کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔‘‘

الگو رونے لگے۔ دل صاف ہو گئے۔ دوستی کا مرجھا یا ہوا درخت پھر سے ہرا ہو گیا اب وہ بالو کی زمین پر نہیں۔ حق اور انصاف کی زمین پر کھڑا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

نئی بیوی

 

ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے۔ اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔

جب سے لالہ ڈنگا مل نے نئی شادی کی ہے ان کی جوانی از سر نو عود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقید حیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے۔ صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے تھے۔ پھر کھانا کھا کرد کان چلے جاتے۔ وہاں سے ایک بجے رات کو لوٹتے اور تھکے ماندے سو جاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آ جایا کرو تو بگڑ جاتے۔ ’’تمہارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روز گار چھوڑ دوں۔ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے۔ آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے تب بھی ان کا منھ سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘ لیلا بے چاری خاموش ہو جاتی۔

ابھی چھ مہینے کی بات ہے۔ لیلا کو زور کا بخار تھا لالہ جی دکان پر چلنے لگے تو لیلا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’دیکھو میری طبیعت اچھی نہیں ہے ذرا سویرے آ جانا۔‘‘

لالہ جی نے پگڑی اتار کر کھونٹی پر لٹکا دی اور بولے۔ ’’اگر میرے بیٹھے رہنے سے تمہارا جی اچھا ہو جائے تو میں دکان نہ جاؤں گا۔‘‘

لیلا رنجیدہ ہو کر بولی۔ ’’میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم دکان نہ جاؤ۔ میں تو ذرا سویرے آ جانے کو کہتی ہوں۔‘‘

’’تو کیا میں دکان پر بیٹھا موج کرتا ہوں؟‘‘

لیلا کچھ نہ بولی۔ شوہر کی یہ بے اعتنائی اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ادھر کئی دن سے اس کا دل دوز تجربہ ہو رہا تھا کہ اس گھر میں اس کی قدر نہیں ہے۔ اگر اس کی جوانی ڈھل چکی تھی۔ تو اس کا کیا قصور تھا کس کی جوانی ہمیشہ رہتی ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ پچپن سال کی رفاقت اب ایک گہرے روحانی تعلق میں تبدیل ہو جاتی جو ظاہر سے بے نیاز رہتی ہے۔ جو عیب کو بھی حسن دیکھنے لگتی ہے، جو پکے پھل کی طرح زیادہ شیریں زیادہ خوشنما ہو جاتی ہے۔ لیکن لالہ جی کا تاجر دل ہر ایک چیز کو تجارت کے ترازو پر تولتا تھا۔ بوڑھی گائے جب نہ دودھ دے سکتی ہو نہ بچے تو اس کے لیے گؤ شالہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ان کے خیال میں لیلا کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر کی مالکن بنی رہے۔ آرام سے کھائے پہنے پڑی رہے۔ اسے اختیار ہے چاہے جتنے زیور بنوائے چاہے جتنی خیرات اور پوجا کرے روزے رکھے۔ صرف ان سے دور رہے۔ فطرت انسانی کی نیرنگیوں کا ایک کرشمہ یہ تھا کہ لالہ جی جس دلجوئی اور حظ سے لیلا کو محروم رکھنا چاہتے تھے۔ خود اسی کے لیے والہانہ سرگرمی سے متلاشی رہتے تھے۔ لیلا چالیس کی ہو کر بوڑھی سمجھ لی گئی تھی مگر وہ پینتالیس سال کے ہو کر ابھی جوان تھے۔ جوانی کے ولولوں اور مسرتوں سے بے قرار لیلا سے اب انہیں ایک طرح کی کراہیت ہوتی تھی اور وہ غریب جب اپنی خامیوں کے حسرتناک احساس کی وجہ سے فطری بے رحمیوں کے ازالے کے لیے رنگ و روغن کی آڑ لیتی تو وہ اس کی بوالہوسی سے اور بھی متنفر ہو جاتے۔ ’’چہ خوش۔ سات لڑکوں کی تو ماں ہو گئیں، بال کھچڑی ہو گئے چہرہ دھلے ہوئے فلالین کی طرح پر شکن ہو گیا۔ مگر آپ کو ابھی مہاور اور سیندور مہندی اور ابٹن کی ہوس باقی ہے۔ عورتوں کی بھی کیا فطرت ہے۔ نہ جانے کیوں آرائش پر اس قدر جان دیتی ہیں۔ پوچھو اب تمہیں اور کیا چاہیے؟  کیوں نہیں دل کو سمجھا لیتیں کہ جوانی رخصت ہو گئی اور ان تدبیروں سے اسے واپس نہیں بلایا جا سکتا۔‘‘ لیکن وہ خود جوانی کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ طبیعت جوانی سے سیر نہ ہوتی۔ جاڑوں میں کشتوں اور معجونوں کا استعمال کرتے رہتے تھے۔ ہفتہ میں دو بار خضاب لگاتے اور کسی ڈاکٹر سے بندر کے غدودوں کے استعمال سے متعلق خط و کتابت کر رہے تھے۔

لیلا نے انہیں شش و پنج کی حالت میں کھڑا دیکھ کر مایوسانہ انداز سے کہا ’’کچھ بتلا سکتے ہو کے بجے آؤ گے؟‘‘

لالہ جی نے ملائم لہجے میں کہا۔ ’’تمہاری طبیعت آج کیسی ہے؟‘‘

لیلا کیا جواب دے؟  اگر کہتی ہے بہت خراب ہے تو شاید یہ حضرت یہیں بیٹھ جائیں اور اسے جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بخار نکالیں۔ اگر کہتی ہے اچھی ہوں تو بے فکر ہو کر دو بجے رات کی خبر لائیں۔ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ’’اب تک تو اچھی تھی لیکن اب کچھ بھاری ہو رہی ہے۔ لیکن تم جاؤ دکان پر لوگ تمہارے منتظر ہوں گے۔ مگر ایشور کے لیے ایک دو نہ بجا دینا، لڑکے سو جاتے ہیں، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا، طبیعت گھبراتی ہے۔‘‘

سیٹھ جی نے لہجے میں محبت کی چاشنی دے کر کہا۔ ’’بارہ بجے تک آ جاؤں گا، ضرور۔‘‘

لیلا کا چہرہ اتر گیا۔ ’’دس بجے تک نہیں آ سکتے؟‘‘

’’ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے کسی طرح نہیں۔‘‘

’’ساڑھے دس بھی نہیں۔‘‘

’’اچھا گیارہ بجے۔‘‘

گیارہ پر مصالحت ہو گئی۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی۔ اب بچارے اس دعوت کوکیسے رد کرتے جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلاتا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس کی دعوت نا منظور کر دیں۔ وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں۔ آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں۔ محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہے آپ پر اس کی دعوت قبول کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ گھر کے جنجال سے کسے فرصت ہے ایک نہ ایک کام تو روز لگا ہی رہتا ہے۔ کبھی کوئی بیمار ہے، کبھی مہمان آئے ہیں، کبھی پوجا ہے، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ اگر آدمی یہ سوچے کہ گھر سے بے فکر ہو کر جائیں گے تو اسے سارے دوستانہ مراسم منقطع کر لینے پڑیں گے۔ اسے شاید ہی گھر سے کبھی فراغت نصیب ہو۔ لالہ جی مجرا سننے چلے گئے تو دو بجے لوٹے۔ آتے ہی اپنے کمرے کی گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دیں۔ لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ کی گنجائش کسی طرح نہ نکال سکے دو کو ایک تو کہہ سکتے ہیں گھڑی کی تیزی کے سر الزام رکھا جا سکتا ہے لیکن دو کو بارہ نہیں کہہ سکتے۔ چپکے سے آ کر نوکر کو جگایا کھانا کھا کر آئے تھے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ رہے۔ لیلا ان کی راہ دیکھتی، ہر لمحہ درد اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت کا احساس کرتی نہ جانے کب سو گئی تھی۔ اس کو جگانا سوئے فتنہ کو جگانا تھا۔

غریب لیلا اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی۔ لالہ جی کو اس کی وفات کا بے حد روحانی صدمہ ہوا۔ دوستوں نے تعزیت کے تار بھیجے کئی دن تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ایک روزانہ اخبار نے مرنے والی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اس کی دماغی اور اخلاقی خوبیوں کی مبالغہ آمیز تصویر کھینچی۔ لالہ جی نے ان سب ہمدردوں کا دلی شکریہ ادا کیا اور ان کے خلوص و وفاداری کا اظہار جنت نصیب لیلا کے نام سے لڑکیوں کے لیے پانچ وظیفے قائم کرنے کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ نہیں مریں صاحب میں مر گیا۔ زندگی کی شمع ہدایت گل ہو گئی۔ اب تو جینا اور رونا ہے میں تو ایک حقیر انسان تھا۔ نہ جانے کس کار خیر کے صلے میں مجھے یہ نعمت بارگاہ ایزدی سے عطا ہوئی تھی۔ میں تو اس کی پرستش کرنے کے قابل بھی نہ تھا۔۔۔ وغیرہ۔

چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنگا مل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کر لی۔ آخر غریب کیا کرتے۔ زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو جب ہی ہوتی ہے جب پاؤں میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔

جب سے نئی بیوی آئی ہے۔ لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے۔ دکان سے اب انہیں اس قدر انہماک نہیں ہے۔ متواتر ہفتوں نہ جانے سے بھی ان کے کاروبار میں کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا۔ زند گی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جو ان میں روز بروز مضمحل ہوتی جاتی تھی۔ اب یہ ترشح پا کر پھر سر سبز ہو گئی ہے۔ اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ موٹر نیا آ گیا ہے کمرے نئے فرنیچر سے آراستہ کر دیے گئے ہیں نوکروں کی تعداد میں معقول اضافہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ لالہ جی کی بوڑھی جوانی جوانوں سے بھی زیادہ پر جوش اور ولولہ انگیز ہو رہی ہے۔ اسی طرح جیسے بجلی کی روشنی چاند کی روشنی سے زیادہ شفاف اور نظر فریب ہوتی ہے۔ لالہ جی کو ان کے احباب ان کی اس جوان طبعی پر مبارک باد دیتے ہیں تو وہ تفاخر کے انداز سے کہتے ہیں۔ ’’بھئی ہم تو ہمیشہ جوان رہے اور ہمیشہ جوان رہیں گے۔ بڑھاپا میرے پاس آئے تو اس کے منھ پر سیاہی لگا کر گدھے پر الٹا سوار کر کے شہر بدر کر دوں۔ جوانی اور بڑھاپے کو لوگ نہ جانے عمر سے کیوں منسوب کرتے ہیں۔ جوانی کا عمر سے اتنا ہی تعلق ہے۔ جتنا مذہب کا اخلاق سے۔ روپے کا ایمانداری سے۔ حسن کا آرائش سے۔ آج کل کے جوانوں کو آپ جوان کہتے ہیں۔ ارے صاحب میں ان کی ایک ہزار جوانیوں کو اپنی جوانی کے ایک گھنٹہ سے نہ تبدیل کروں۔ معلوم ہوتا ہے زندگی میں کوئی دلچسپی ہی نہیں کوئی شوق ہی نہیں۔ زندگی کیا ہے گلے میں پڑا ہوا ڈھول ہے۔‘‘ یہی الفاظ وہ کچھ ضروری ترمیم کے بعد آشا دیوی کے لوح دل پر نقش کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ سنیما، تھیٹر، سیر دریا کے لیے اصرار کرتے ہیں لیکن آشا نہ جانے کیوں ان دلچسپیوں سے ذرا بھی متاثر نہیں، وہ جاتی تو ہے مگر بہت اصرار کے بعد۔

ایک دن لالہ جی نے آ کر کہا۔ ’’چلو آج برںے پر دریا کے سیر کر آئیں۔‘‘

بارش کے دن تھے، دریا چڑھا ہوا تھا۔ ابر کی قطاریں بین الاقوامی فوجوں کی سی رنگ برنگ وردیاں پہنے آسمان پر قواعد کر رہی تھیں۔ سڑک پر لوگ ملار اور بارہ ماسے گاتے چلے جا رہے تھے۔ باغوں میں جھولے پڑ گئے تھے۔

آشا نے بے دلی سے کہا۔ ’’میرا تو جی نہیں چاہتا۔‘‘

لالہ جی نے تادیب آمیز اصرار سے کہا۔ ’’تمہاری کیسی طبیعت ہے جو سیرو تفریح کی جانب مائل نہیں ہوتی۔‘‘

’’آپ جائیں، مجھے اور کئی کام کرنے ہیں۔‘‘

’’کام کرنے کو ایشور نے آدمی دے دیے ہیں۔ تمہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’مہراج اچھا سالن نہیں پکاتا۔ آپ کھانے بیٹھیں گے تو یوں ہی اٹھ جائیں گے۔‘‘

آشا اپنی فرصت کا بیشتر حصہ لالہ جی کے لیے انواع اقسام کے کھانے پکانے میں صرف کرتی تھی۔ کسی سے سن رکھا تھا کہ ایک خاص عمر کے بعد مردوں کی زندگی کی خاص دلچسپی لذت زبان رہ جاتی ہے۔ لالہ جی کے دل کی کلی کھل گئی۔ آشا کو ان سے کس قدر محبت ہے کہ وہ سیر کو ان کی خدمت پر قربان کر رہی ہے۔ ایک لیلا تھی کہ کہیں جاؤں پیچھے چلنے کو تیار، پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔ بہانے کرنے پڑتے تھے، خواہ مخواہ سر پر سوار ہو جاتی تھی اور سارا مزہ کر کرا کر دیتی تھی۔ بولے، ’’تمہاری بھی عجیب طبیعت ہے اگر ایک دن سالن بے مزہ ہی رہا تو ایسا کیا طوفان آ جائے گا۔ تم اس طرح میرے رئیسا نہ چونچلوں کا لحاظ کرتی رہو گی تو مجھے بالکل آرام طلب بنا دو گی۔ اگر تم نہ چلو گی تو میں بھی نہ جاؤں گا۔‘‘

آشا نے جیسے گلے سے پھندا چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بھی تو مجھے ادھر ادھر گھما کر میرا مزاج بگاڑے دیتے ہیں۔ یہ عادت پڑ جائے گی تو گھر کے دھندے کون کرے گا؟‘‘

لالہ جی نے فیاضانہ لہجے میں کہا۔ ’’مجھے گھر کے دھندوں کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے، بال کی نوک برابر بھی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارا مزاج بگڑے اور تم اس گھرکی چکی سے دور ہو اور مجھے بار بار ‘آپ’ کیوں کہتی ہو؟  میں چاہتا ہوں تم مجھے ‘تم’ کہو۔ محبت کی گالیاں دو، غصے کی صلواتیں سناؤ۔ لیکن تم مجھے آپ کہہ کر جیسے دیوتا کے سنگھاسن پر بٹھا دیتی ہو۔ میں اپنے گھر میں دیوتا نہیں شریر چھو کرا بن کر رہنا چاہتا ہوں۔‘‘

آشا نے مسکرانے کی کوشش کر کے کہا۔ ’’اے نوج، بھلا میں آپ کو ’تم‘ کہوں گی۔ تم برابر والوں کو کہا جاتا ہے یا بڑوں کو؟‘‘

منیم جی نے ایک لاکھ کے گھاٹے کی پر ملال خبر سنائی ہوتی تب بھی لالہ جی کو شاید اتنا صد مہ نہ ہوتا جتنا کہ آشا کے ان بھولے بھولے الفاظ سے ہوا۔ ان کا سارا جوش سارا ولولہ ٹھنڈا پڑ گیا جیسے برف کی طرح منجمد ہو گیا۔ سر پر باقی رکھی ہوئی رنگین پھول دار ٹوپی گلے میں پڑی ہوئی جو گیے رنگ کی ریشمی چادر، وہ تن زیب کا بیل دار کرتا جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ یہ سارا ٹھاٹ جیسے مضحکہ خیز معلوم ہونے لگا۔ جیسے سارا نشہ کسی منتر سے اتر گیا ہو۔

دل شکستہ ہو کر بولے۔ ’’تو تمہیں چلنا ہے یا نہیں؟‘‘

’’میرا جی نہیں چاہتا۔‘‘

’’تو میں بھی نہ جاؤں؟‘‘

’’میں آپ کو کب منع کرتی ہوں۔‘‘

’’پھر آپ، کہا۔‘‘

آشا نے جیسے اندر سے زور لگا کر کہا۔ ’تم‘ اور اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔

’’ہاں اسی طرح تم کہا کرو۔ تو تم نہیں چل رہی ہو؟  اگر میں کہوں کہ تمہیں چلنا پڑے گا۔ تب؟‘‘

’’تب چلوں گی آپ کے حکم کی پابندی میرا فرض ہے۔‘‘

لالہ جی حکم نہ دے سکے فرض اور حکم جیسے لفظ سے ان کے کانوں میں خراش سی ہونے لگی کھسیانے ہو کر باہر چلے۔ اس وقت آشا کو ان پر رحم آ گیا۔ بولی، ’’ تو کب تک لوٹو گے؟‘‘

’’میں نہیں جا رہا ہوں۔‘‘

’’اچھا تو میں بھی چلتی ہوں۔‘‘

جس طرح کوئی ضدی لڑکا رونے کے بعد اپنی مطلوبہ چیز پا کر اسے پیروں سے ٹھکرا دیتا ہے اسی طرح لالہ جی نے رونا منھ بنا کر کہا۔ ’’تمہارا جی نہیں چاہتا تو نہ چلو۔ میں مجبور نہیں کرتا۔‘‘

’’آپ۔۔۔ نہیں، تم برا مان جاؤ گے۔‘‘

آشا سیر کرنے گئی لیکن امنگ سے نہیں جو معمولی ساری پہنے ہوئے تھی، وہی پہنے چل کھڑی ہوئی۔ نہ کوئی نفیس ساڑی نہ کوئی مرصع زیور، نہ کوئی سنگار جیسے بیوہ ہو۔

ایسی ہی باتوں سے لالہ جی دل میں جھنجھلا اٹھتے تھے۔ شادی کی تھی زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے، جھلملاتے ہوئے چراغ میں تیل ڈال کر اسے روشن کرنے لیے، اگر چراغ کی روشنی تیز نہ ہوئی تو تیل ڈالنے سے کیا فائدہ؟  نہ جانے اس کی طبیعت کیوں اس قدر خشک اور افسردہ ہے، جیسے کوئی اوسر کا درخت ہو کہ کتنا ہی پانی ڈالو اس میں ہری پتیوں کے درشن ہی نہیں ہوتے۔ جڑاؤ زیوروں کے بھرے ہوئے صندوق رکھے ہیں، کہاں کہاں سے منگوائے، دہلی سے، کلکتے سے، فرانس سے، کیسی کیسی بیش قیمت ساڑیاں رکھی ہوئی ہیں ایک نہیں سینکڑوں مگر صندوق میں کیڑوں کی خوراک بننے کے لیے، غریب خاندان کی لڑکیوں میں یہی عیب ہوتا ہے ان کی نگاہ ہمیشہ تنگ رہتی ہے، نہ کھا سکیں نہ پہن سکیں، نہ دے سکیں، انہیں تو خزانہ بھی مل جائے تو یہی سوچتی رہیں گی کہ بھلا اسے خرچ کیسے کریں۔

دریا کی سیر تو ہوئی مگر کچھ لطف نہ آیا۔

کئی ماہ تک آشا کی طبیعت کو ابھارنے کی ناکام کوشش کر کے لالہ جی نے سمجھ لیا کہ یہ محرم کی پیدائش ہے۔ لیکن پھر بھی برابر مشق جاری رکھی۔ اس بیوپار میں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے بعد وہ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھانے کے تاجرانہ تقاضے کو کیسے نظر انداز کرتے۔ دلچسپی کی نئی نئی صورتیں پیدا کی جاتیں گراموفون اگر بگڑ گیا ہے، گاتا نہیں یا آواز صاف نہیں نکلتا تو اس کی مرمت کرانی پڑے گی۔ اسے اٹھا کر رکھ دینا تو حماقت ہے۔

ادھر بوڑھا مہراج بیمار ہو کر چلا گیا تھا اور اس کی جگہ اس کا سولہ سترہ سال کا لڑکا آ گیا تھا۔ کچھ عجیب مسخرا سا، بالکل اجڈ اور دہقانی۔ کوئی بات ہی نہ سمجھتا اس کے پھلکے اقلیدس کی شکلوں سے بھی زیادہ مختلف الاشکال ہو جاتے۔ بیچ میں موٹے، کنارے پتلے، دال کبھی تو اتنی پتلی جیسے چائے اور کبھی اتنی گاڑھی جیسے دہی۔ کبھی نمک اتنا کم کہ بالکل پھیکا کبھی تو اتنا تیز کہ نیبو کا نمکین اچار۔ آشا سویرے ہی سے رسوئی میں پہنچ جاتی اور اس بد سلیقے مہراج کو کھانا پکانا سکھاتی۔ ’’تم کتنے نالائق آدمی ہو جگل؟  اتنی عمر تک تم کیا گھاس کھودتے رہے یا بھاڑ جھونکتے رہے کہ پھلکے تک نہیں بنا سکتے۔‘‘

جگل آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے۔ ’’بہو جی ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ سترہواں ہی سال توہے۔‘‘

آشا ہنس پڑی۔ ’’تو روٹیاں پکانا کیا دس بیس سال میں آتا ہے؟‘‘

’’آپ ایک مہینہ سکھا دیں بہو جی۔ پھر دیکھنا میں آپ کو کیسے پھلکے کھلاتا ہوں کہ جی خوش ہو جائے۔ جس دن مجھے پھلکے بنانے آ جائیں گے میں آپ سے کوئی انعام لوں گا۔ سالن تو اب کچھ پکانے لگا ہوں نا؟‘‘

آشا حوصلہ افزا تبسم سے بولی۔ ’’سالن نہیں دوا پکانا آتا ہے ابھی کل ہی نمک اتنا تیز تھا کہ کھایا نہ گیا۔‘‘

’’میں جب سالن بنا رہا تھا تو آپ یہاں کب تھیں؟‘‘

’’اچھا تو جب میں یہاں بیٹھی رہوں۔ تب تمہارا سالن لذیذ پکے گا؟‘‘

’’آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے۔‘‘

’’اور میں نہیں رہتی تب؟‘‘

’’تب تو آپ کے کمرے کے دروازے پر جا بیٹھتی ہے۔‘‘

’’تمہارے دادا آ جائیں گے تو تم چلے جاؤ گے؟‘‘

’’نہیں بہو جی کسی اور کام میں لگا دیجیے گا۔ مجھے موٹر چلوانا سکھوا دیجیے گا۔ نہیں نہیں آپ ہٹ جائیے میں پتلیا اتار لوں گا۔ ایسی اچھی ساڑی آپ کی کہیں داغ لگ جائے تو کیا ہو؟‘‘

’’دور ہو، پھوہڑ تو تم ہی ہو۔ کہیں پتیلی پیر پر گر پڑے تو مہینوں جھیلو گے۔‘‘

جگل افسردہ ہو گیا۔ نحیف چہرہ اور بھی خشک ہو گیا۔

آشا نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کیوں منھ کیوں لٹک گیا سرکار کا؟‘‘

’’آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ سیٹھ جی کتنا ہی گھڑکیں دیں مجھے ذرا بھی صد مہ نہیں ہوتا۔ آپ کی نظر کڑی دیکھ کر جیسے میرا خون سرد ہو جاتا ہے۔‘‘

آشا نے تشفی دی۔ ’’میں نے تمہیں ڈانٹا نہیں۔ صرف اتنا ہی کہا کہ کہیں پتیلی تمہارے پاؤں پر گر پڑے تو کیا ہو گا؟‘‘

’’ہاتھ تو آپ کا بھی ہے کہیں آپ کے ہاتھ سے ہی چھوٹ پڑے تب؟‘‘

سیٹھ جی نے رسوئی کے دروازے پر آ کر کہا۔ ’’آشا ذرا یہاں آنا! دیکھو تمہارے لیے کتنے خوش نما گملے لایا ہوں۔ تمہارے کمرے کے سامنے رکھے جائیں گے۔ تم وہاں دھوئیں دھکڑ میں کیا پریشان ہو رہی ہو۔ لونڈے کو کہہ دو کہ مہراج کو بلائے ورنہ میں کوئی دوسرا انتظام کر لوں گا۔ مہراج کی کمی نہیں ہے۔ آخر کب تک کوئی رعایت کرے اس گدھے کو ذرا بھی تو تمیز نہ آئی۔ سنتا ہے جگل! آج لکھ دے اپنے باپ کو۔‘‘ چولھے پر توا رکھا ہوا تھا۔ آشا روٹیاں بیل رہی تھی۔ جگل توے کو لیے روٹیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ ایسی حالت میں بھلا وہ کیسے گملے دیکھنے جاتی؟  کہنے لگی ’’ابھی آتی ہوں ذرا روٹی بیل رہی ہوں چھوڑ دوں گی تو جگل ٹیڑھی میڑھی بیلے گا۔‘‘

لالہ جی نے کچھ چڑھ کر کہا۔ ’’اگر روٹیاں ٹیڑھی میڑھی بیلے گا تو نکال دیا جائے گا۔‘‘

آشا ان سنی کر کے بولی۔ ’’دس پانچ دن میں سیکھ جائے گا۔ نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

’’تم چل کر بتا دو گملے کہاں رکھے جائیں گے؟‘‘

’’کہتی ہوں روٹیاں بیل کر آئی جاتی ہوں۔‘‘

’’نہیں میں کہتا ہوں تم روٹیاں مت بیلو۔‘‘

’’تم خواہ مخواہ ضد کرتے ہو۔‘‘

لالہ جی سناٹے میں آ گئے۔ آشا نے کبھی اتنی بے التفاتی سے انہیں جواب نہ دیا تھا۔ اور یہ محض بے التفاتی نہ تھی اس میں ترشی بھی تھی خفیف ہو کر چلے گئے۔ انہیں غصہ ایسا آ رہا تھا کہ ان گملوں کو توڑ کر پھینک دیں اور سارے پودوں کو چولہے میں ڈال دیں۔

جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’آپ چلی جاتیں بہو جی سرکار ناراض ہوں گے۔‘‘

’’بکو مت جلدی روٹیاں سینکو۔ نہیں تو نکال دیے جاؤ گے۔ اور آج مجھ سے روپے لے کر اپنے لیے کپڑے بنوا لو بھک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں۔ تمہیں نائی بھی نہیں جڑتا؟‘‘

’’کپڑے بنوا لوں تو دادا کو کیا حساب دوں گا؟‘‘

’’ارے بے وقوف! میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی۔ مجھ سے لے جانا۔‘‘

’’آپ بنوائیں گی تو اچھے کپڑے لوں گا۔ میں کھدر کا کرتا کھدر کی دھوتی ریشمی چادر اور اچھا سا چپل۔‘‘

آشا نے مٹھاس بھرے تبسم سے کہا۔ ’’اور اگر اپنے دام سے بنوانا پڑے تو؟‘‘

’’تب کپڑے بنواؤں گا ہی نہیں‘‘

’’بڑے چالاک ہو تم۔‘‘

’’آدمی اپنے گھر پر روکھی روٹی کھا کر سو رہتا ہے لیکن دعوت میں اچھے اچھے پکوان ہی کھاتا ہے۔‘‘

’’یہ سب میں نہیں جانتی ایک گاڑھے کا کرتہ بنوا لو اور ایک ٹوپی حجامت کے لیے دو آنے پیسے لے لو۔‘‘

’’رہنے دیجیے، میں نہیں لیتا۔ اچھے کپڑے پہن کر نکلوں گا تو آپ کی یاد آئے گی۔ سڑیل کپڑے ہوئے تو جی جلے گا۔‘‘

’’تم بڑے خود غرض ہو۔ مفت کے کپڑے لو گے اور اعلیٰ درجے کے۔‘‘

’’جب یہاں سے جانے لگوں گا تو آپ مجھے اپنی تصویر دے دیجیے گا۔‘‘

’’میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟‘‘

’’اپنی کوٹھری میں لگا دوں گا اور دیکھا کروں گا بس وہی ساڑی پہن کر کھنچوانا جو کل پہنی تھی اور وہی موتیوں والی مالا بھی ہو۔ مجھے ننگی ننگی صورت اچھی نہیں لگتی آپ کے پاس تو بہت گہنے ہوں گے آپ پہنتی کیوں نہیں؟‘‘

’’تو تمہیں گہنے اچھے لگتے ہیں؟‘‘

’’بہت۔‘‘

لالہ جی نے خفت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’ابھی تک تمہاری روٹیاں نہیں پکیں۔ جگل اگر کل سے تم نے اپنے آپ اچھی روٹیاں نہ بنائیں، تو میں تمہیں نکال دوں گا؟‘‘

آشا نے فوراً ہاتھ دھوئے اور بڑی مسرت آمیز تیزی سے لالہ جی کے ساتھ جا کر گملوں کو دیکھنے لگی۔ آج اس کے چہرے پر غیر معمولی شگفتگی نظر آ رہی تھی اس کے انداز گفتگو میں بھی دل آویز شیرینی تھی۔ لالہ جی کی ساری خفت غائب ہو گئی۔ آج اس کی باتیں زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ بولی، ’’میں ان میں سے کوئی گملا نہ جانے دوں گی۔ سب میرے کمرے کے سامنے رکھوانا سب کتنے سندر پودے ہیں۔ واہ ان کے ہندی نام بھی بتا دینا۔‘‘

لالہ جی نے چھیڑا، ’’سب لے کر کیا کرو گی؟ د س پانچ پسند کر لو باقی باہر باغیچے میں رکھوا دوں گا۔‘‘

’’جی نہیں میں ایک بھی نہیں چھوڑوں گی سب یہیں رکھے جائیں گے۔‘‘

’’بڑی حریص ہو تم۔‘‘

’’حریص سہی، میں آپ کو ایک بھی نہ دوں گی۔‘‘

’’دس پانچ تو دے دو اتنی محنت سے لایا ہوں۔‘‘

’’جی نہیں ان میں سے ایک بھی نہ ملے گا۔‘‘

دوسرے دن آشا نے اپنے کو زیوروں سے خوب آراستہ کیا اور فیروزی ساڑی پہن کر نکلی تو لالہ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ اب ان کی عاشقانہ دلجوئیوں کا کچھ اثر ہو رہا ہے ضرور۔ ورنہ ان کے بار بار تقاضا کرنے پر منت کرنے پر بھی اس نے کوئی زیور نہ پہنا تھا۔ کبھی کبھی موتیوں کا ہار گلے میں ڈال لیتی تھی وہ بیچ بے دلی سے۔ آج ان زیوروں سے مرصع ہو کر وہ پھولی نہیں سماتی۔ اتراتی جاتی ہے۔ گویا کہتی ہے دیکھو میں کتنی حسین ہوں پہلے جو کلی تھی وہ آج کھل گئی ہے۔

لالہ صاحب پر گھڑوں کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں ان کے احباب و اعزہ آ کر اس سونے کی رانی کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کریں، دیکھیں کہ ان کی زندگی کتنی پر لطف ہے۔ جو انواع و اقسام کے شکوک دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اعتماد، رواداری اور فراست نے کتنا خلوص پیدا کر دیا ہے۔

انہوں نے تجویز کی۔ ’’چلو کہیں سیر کر آئیں۔ بڑی مزیدار ہوا چلی رہی ہے۔‘‘

آشا اس وقت کیسے آ سکتی ہے ابھی اسے رسوئی جانا ہے۔ وہاں سے کہیں بارہ ایک بجے تک فرصت ملے پھر گھر کے کام دھندے سر پر سوار ہو جائیں گے، اسے کہاں فرصت ہے۔ پھر کل سے اس کے کلیجے میں کچھ درد بھی ہو رہا ہے، رہ رہ کر درد اٹھتا ہے، ایسا درد کبھی نہ ہوتا تھا۔ رات نہ جانے کیوں درد ہونے لگا۔

سیٹھ جی ایک بات سوچ کر دل ہی دل میں پھول اٹھے وہ گولیاں رنگ لا رہی ہیں۔ راج وید نے آخر کہا بھی تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کیجئے گا کیوں نہ ہو خاندانی وید ہے۔ اس کا باپ مہاراجہ بنارس کا معالج تھا پرانے مجرب نسخے ہیں اس کے پاس۔

چہرے پر سراسیمگی کا رنگ بھر کر پوچھا۔ ’’تو رات ہی سے درد ہو رہا ہے۔ تم نے مجھ سے کہا نہیں ورنہ وید جی سے کوئی دوا منگوا دیتا۔‘‘

’’میں نے سمجھا تھا کہ آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا مگر اب بڑھ رہا ہے۔‘‘

’’کہاں درد ہو رہا ہے؟  ذرا دیکھوں تو کچھ آماس تو نہیں ہے؟‘‘

سیٹھ جی نے آشا کے آنچل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آشا نے شرما کر سر جھکا لیا اور بولی۔ ’’یہی تمہاری شرارت مجھے اچھی نہیں لگتی۔ جا کر کوئی دوا لا دو۔‘‘

سیٹھ جی اپنی جواں مردی کا یہ ڈپلوما پا کر اس سے کہیں زیادہ محظوظ ہوئے جتنا شاید رائے بہادری کا خطاب پا کر ہوتے۔ اپنے اس کار نمایاں کی داد لیے بغیر انہیں کیسے چین ہو جاتا۔ جو لوگ ان کی شادی سے متعلق شبہ آمیز سرگوشیاں کرتے تھے انہیں زک دینے کا کتنا نادر موقع ہاتھ آیا ہے پہلے پنڈت بھولا ناتھ کے گھر پہنچے اور بادل درد مند بولے۔ ’’میں تو بھئی سخت مصیبت میں مبتلا ہو گیا، کل سے ان کے سینے میں درد ہو رہا ہے کچھ عقل کام نہیں کرتی، کہتی ہیں ایسا درد پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

بھولا ناتھ نے کچھ زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ بولے ’’ہوا لگ گئی ہو گی، اور کیا؟‘‘

سیٹھ جی نے ان سے اختلاف کیا۔ ’’پنڈت جی ہوا کا فساد نہیں ہے۔ کوئی اندرونی شکایت ہے۔ ابھی کمسن ہیں نہ؟  راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں۔‘‘

’’میں تو سمجھتا ہوں آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا۔‘‘

’’آپ بات نہیں سمجھتے یہی آپ میں نقص ہے۔‘‘

’’آپ کا جو خیال ہے وہ بالکل غلط ہے مگر خیر دوا لا کر دیجیے اور اپنے لیے بھی دوا لیتے آئیے گا۔‘‘

سیٹھ یہاں سے اٹھ کر اپنے دوسرے دوست لالہ پھاگ مل کے پاس پہنچے اور ان سے بھی قریب انہیں الفاظ میں پر ملال خبر کہی۔ پھاگ مل بڑا شہدہ تھا۔ مسکرا کر بولا، ’’مجھے تو آپ کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔‘‘

سیٹھ جی کی باچھیں کھل گئیں۔ ’’میں اپنا دکھ سنا رہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھتا ہے ذرا بھی انسانیت تم میں نہیں ہے۔‘‘

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں بھلا اس میں مذاق کی کیا بات ہے وہ ہیں کم سن، نازک اندام۔ آپ ٹھہرے آزمودہ کار، مرد میدان۔ بس اگر یہ بات نہ نکلے تو مونچھیں منڈوا ڈالوں۔‘‘

سیٹھ جی نے متین صورت بنائی، ’’میں تو بھئی بڑی احتیاط کرتا ہوں، تمہارے سر کی قسم۔‘‘

’’جی رہنے دیجیے میرے سر کی قسم نہ کھائیے میرے بھی بال بچے ہیں۔ گھر کا اکیلا آدمی ہوں۔ کسی قاطع دوا کا استعمال کیجیے۔‘‘

’’انہیں راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں۔‘‘

’’اس کی دوا وید جی کے پاس نہیں آپ کے پاس ہے۔‘‘

سیٹھ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ شباب کا احساس پیدا ہوا اور اس کے ساتھ چہرے پر بھی شباب کی جھلک آ گئی، سینہ جیسے کچھ فراخ ہو گیا۔ چلتے وقت ان کے پیر کچھ زیادہ مضبوطی سے زمین پر پڑنے لگے۔ ا ور سر کی ٹوپی بھی خدا جانے کیوں کج ہو گئی۔ بشرے سے ایک بانکپن کی شان برس رہی تھی۔ راج وید سے مژدۂ جانفزا سنایا تو بولے۔ ’’میں نے کہا تھا ذرا سوچ سمجھ کر ان گولیوں کا استعمال کیجیے گا۔ آپ نے میری ہدایت پر توجہ نہ کی۔ ذرا مہینے دو مہینے ان کا استعمال کیجئے اور پرہیز کے ساتھ رہیے، پھر دیکھیے ان کا اعجاز۔ اب گولیاں بہت کم رہی ہیں لوٹ مچی رہتی ہے لیکن ان کا بنانا اتنا مشکل اور دقت طلب ہے کہ ایک بار ختم ہو جانے پر مہینوں تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ ہزاروں بوٹیاں ہیں۔ کیلاش نیپال اور تبت سے منگانی پڑتی ہیں، اور اس کا بنانا تو آپ جانتے ہیں کتنا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ آپ احتیاطاً ایک شیشی لیتے جائیے۔‘‘

جگل نے آشا کو سر سے پاؤں تک جگمگاتے دیکھ کر کہا۔ ’’بس بہو جی آپ اسی طرح پہنے اوڑھے رہا کریں۔ آج میں آپ کو چولہے کے پاس نہ آنے دوں گا۔‘‘

آشا نے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’کیوں آج یہ سختی کیوں؟  کئی دن تو تم نے منع نہیں کیا۔‘‘

’’آج کی بات دوسری ہے۔‘‘

’’ذرا سنوں تو کیا بات ہے۔‘‘

میں ڈرتا ہوں کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں۔‘‘

’’نہیں نہیں کہو میں ناراض نہ ہوں گی۔‘‘

’’آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔‘‘

لالہ ڈنگا مل نے سینکڑوں ہی بار آشا کے حسن و انداز کی تعریف کی تھی، مگر ان کی تعریف میں اسے تصنع کی بو آتی تھی۔ وہ الفاظ ان کے منھ سے کچھ اس طرح سے لگتے تھے جیسے کوئی ہیجڑا تلوار لے کر چلے۔ جگل کے ان الفاظ میں ایک کیف تھا، ایک سرور تھا۔ ایک ہیجان تھا، ایک اضطراب تھا۔ آشا کے سارے جسم میں رعشہ آ گیا۔ آنکھوں میں جیسے نشہ چھا جائے۔

’’تم مجھے نظر لگا دو گے۔ اس طرح کیوں گھورتے ہو؟‘‘

’’جب یہاں سے چلا جاؤں گا تو تب آپ کی بہت یاد آئے گی۔‘‘

’’روٹی بنا کر تم کیا کرتے ہو؟  دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

’’سرکار رہتے ہیں۔ اسی لیے نہیں آتا پھر اب تو مجھے جواب مل رہا ہے، دیکھیے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں۔‘‘

آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ’’کون تمہیں جواب دیتا ہے۔‘‘

’’سرکار ہی تو کہتے ہیں تجھے نکال دوں گا۔‘‘

’’اپنا کام کیے جاؤ۔ کوئی نہیں نکالے گا۔ اب تو تم روٹیاں بھی اچھی بنانے لگے۔‘‘

’’سرکار ہیں بڑے گسہ ور۔‘‘

’’دو چار دن میں ان کا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں۔‘‘

’’آپ کے ساتھ چلتے ہیں تو جیسے آپ کے باپ سے لگتے ہیں۔‘‘

’’تم بڑے بد معاش ہو خبردار، زبان سنبھال کر باتیں کرو۔‘‘

مگر خفگی کا یہ پردہ اس کے دل کا راز نہ چھپا سکا وہ روشنی کی طرح اس کے اندر سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ جگل نے اسی بیباکی سے کہا۔ ’’میری زبان کوئی بند کر لے۔ یہاں تو سبھی کہتے ہیں۔ میرا بیاہ کوئی پچاس سال کی بڑھیا سے کر دے تو میں گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤں، یا خود زہر کھا لوں یا اسے زہر دے کر مار ڈالوں، پھانسی ہی تو ہو گی۔‘‘

آشا مصنوعی غصہ قائم نہ رکھ سکی۔ جگل نے اس کے دل کے تاروں پر مضراب کی ایک ایسی چوٹ ماری تھی کہ اس کے بہت مضبوط کرنے پر بھی درد دل باہر نکل ہی آیا۔ ’’قسمت بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘

’’ایسی قسمت جائے جہنم میں۔‘‘

’’تمہاری شادی کسی بڑھیا سے کروں گی، دیکھ لینا۔‘‘

’’تو میں بھی زہر کھا لوں گا، دیکھ لیجئے گا۔‘‘

’’کیوں؟  بڑھیا تمہیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی۔ زیادہ خدمت کرے گی۔ تمہیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔‘‘

’’یہ سب ماں کا کام ہے۔ بیوی جس کام کے لیے ہے اسی کے لیے ہے۔‘‘

’’آخر بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘

’’آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا دیتا کس کام کے لیے ہے۔‘‘

موٹر کی آواز آئی، نہ جانے کیسے آشا کے سر کا آنچل کھسک کر کندھے پر آ گیا تھا اس نے جلدی سے آنچل سر پر کھینچ لیا۔ اور یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی۔ ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آ جانا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمک کا داروغہ

 

 

جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کر دی گئی تو لوگ دروازہ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔

چاروں طرف خیانت، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر لوگ صیغہ نمک کی برقندازی کرتے تھے۔ اور اس محکمہ کا داروغہ تو وکیلوں کے لیے بھی رشک کا باعث تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزی تعلیم اور عیسائیت مترادف الفاظ تھے۔ فارسی کی تعلیم سند افتخار تھی لوگ حسن اور عشق کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر اعلیٰ ترین مدارج زندگی کے قابل ہو جاتے تھے۔ منشی بنسی دھرنے بھی زلیخا کی داستان ختم کی اور مجنوں اور فرہاد کے قصہ غم کو دریافت امریکہ یا جنگ نیل سے عظیم تر واقعہ خیال کرتے ہوئے روز گار کی تلاش میں نکلے۔ ان کے باپ ایک جہاندیدہ بزرگ تھے سمجھانے لگے۔ ’’بیٹا! گھر کی حالت ذرا دیکھ رہے ہو۔ قرضے سے گردنیں دبی ہوئی ہیں۔ لڑکیاں ہیں وہ گنگا جمنا کی طرح بڑھتی چلی آ رہی ہیں۔ میں کگارے کا درخت ہوں نہ معلوم کب گر پڑوں تم ہی گھر کے مالک و مختار ہو۔ مشاہرے اور عہدے کا مطلق خیال نہ کرنا یہ تو پیر کا مزار ہے۔ نگاہ چڑھاوے اور چادر پر رکھنی چاہیے۔ ایسا کام ڈھونڈو جہاں کچھ بالائی رقم کی آمد ہو۔ ماہوار مشاہرہ پورنماشی کا چاند ہے۔ جو ایک دن دکھائی دیتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے غائب ہو جاتا ہے۔ بالائی رقم پانی کا بہتا ہوا سوتا ہے جس سے پیاس ہمیشہ بجھتی رہتی ہے۔ مشاہرہ انسان دیتا ہے اسی لیے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ بالائی رقم غیب سے ملتی ہے اسی لیے اس میں برکت ہوتی ہے۔ اور تم خود عالم و فاضل ہو تمھیں کیا سمجھاؤں یہ معاملہ بہت کچھ ضمیر اور قیافے کی پہچان پر منحصر ہے۔ انسان کو دیکھو، موقع دیکھو اور خوب غور سے کام لو۔ غرض مند کے ساتھ ہمیشہ بے رحمی اور بے رخی کر سکتے ہو لیکن بے غرض سے معاملہ کرنا مشکل کام ہے۔ ان باتوں کو گرہ باندھ لو، یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہیں۔‘‘

بزرگانہ نصیحتوں کے بعد کچھ دعائیہ کلمات کی باری آئی۔ بنسی دھرنے سعادت مند لڑکے کی طرح یہ باتیں بہت توجہ سے سنیں اور تب گھر سے چل کھڑے ہوئے۔ اس وسیع دنیا میں جہاں اپنا استقلال، اپنا رفیق، اپنی ہمت، اپنا مددگار اور اپنی کوشش اپنا مربی ہے لیکن اچھے شگون سے چلے تھے خوبی قسمت ساتھ تھی صیغۂ نمک کے داروغہ مقرر ہو گئے۔ مشاہرہ معقول بالائی رقم کا کچھ ٹھکانہ نہ تھا۔ بوڑھے منشی جی نے خط پایا تو باغ باغ ہو گئے۔ کلوار کی تسکین و تشفی کی سند لی۔ پڑوسیوں کو حسد ہوا اور مہاجنوں کی سخت گیریاں مائل بہ نرمی ہو گئیں۔

جاڑے کے دن تھے رات کا وقت نمک کے برقنداز چوکیدار شراب خانے کے دربان بنے ہوئے تھے۔ بنشی دھر کو ابھی یہاں آئے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے لیکن اس عرصے میں ان کی فرض شناسی اور دیانت نے افسروں کا اعتبار اور پبلک کی بے اعتباری حاصل کر لی تھی۔

نمک کے دفتر سے ایک میل پورب کی جانب جمنا ندی بہتی تھی اور اس پر کشتیوں کی ایک گذر گاہ بنی ہوئی تھی۔ داروغہ صاحب کمرہ بند کیے ہوئے میٹھی نیند سوتے تھے۔ یکایک آنکھ کھلی تو ندی کے میٹھے سہانے راگ کے بجائے گاڑیوں کا شور و غل اور ملاحوں کی بلند آوازیں کان میں آئیں۔ اٹھ بیٹھے، اتنی رات گئے کیوں گاڑیاں دریا کے پار جاتی ہیں اگر کچھ دغا نہیں ہے تو اس پردۂ تاریک کی ضرورت کیوں؟  شبہ کو استدلال نے ترقی دی۔ وردی پہنی، طمنچہ جیب میں رکھا اور آن کی آن میں گھوڑا بڑھائے ہوئے دریا کے کنارے آ پہنچے۔ دیکھا تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار زلف محبوب سے بھی زیادہ طولانی پل سے اتر رہی ہے۔ حاکمانہ انداز سے بولے۔

’’کس کی گاڑیاں ہیں؟‘‘

تھوڑی دیر تک سناٹا رہا آدمیوں میں کچھ سرگوشیاں ہوئیں۔ تب اگلے گاڑی بان نے جواب دیا۔ ’’پنڈت الوپی دین کی۔‘‘

’’کون پنڈت الوپی دین؟‘‘

’’داتا گنج کے۔‘‘

منشی بنسی دھر چونکے۔ الوپی دین اس علاقے کا سب سے بڑا اور ممتاز زمیندار تھا لاکھوں کی ہنڈیاں چلتی تھیں، غلے کا کاروبار الگ۔ بڑا اثر، بڑا حکام رس، بڑے بڑے انگریز افسر اس کے علاقے میں شکار کھیلنے آتے اور اس کے مہمان ہوتے۔ بارہ مہینے سدا برت چلتا تھا۔ پوچھا کہاں جائیں گی۔ جواب ملا کہ کان پور لیکن اس سوال پر کہ ان میں ہے کیا؟  ایک خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور داروغہ صاحب کا شبہ یقین کے درجہ تک پہنچ گیا۔ جواب کے ناکام انتظار کے بعد ذرا زور سے بولے۔ ’’کیا تم سب گونگے ہو گئے۔ ہم پوچھتے ہیں ان میں کیا لدا ہے؟‘‘

جب اب کے بھی کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے گھوڑے کو ایک گاڑی سے ملا دیا اور ایک بورے کو ٹٹولا۔ شبہ یقین سے ہم آغوش تھا، یہ نمک کے ڈھیلے تھے۔

پنڈت الوپی دین اپنے سجیلے رتھ پر سوار کچھ سوتے کچھ جاگتے چلے آتے تھے۔ کہ کئی گھبرائے ہوئے گاڑی بانوں نے آ کر جگایا اور بولے۔ ’’مہاراج دروگا نے گاڑیاں روک دیں اور گھاٹ پر کھڑے آپ کو بلاتے ہیں۔‘‘

پنڈت الوپی دین کو مبلغ علیہ السلام کی طاقت کا پورا پورا اور عملی تجربہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کا ذکر ہی کیا۔ دولت کا سکہ بہشت میں بھی رائج ہے اور ان کا یہ قول بہت صحیح تھا۔ قانون اور حق و انصاف یہ سب دولت کے کھلونے ہیں جن سے وہ حسب ضرورت اپنا جی بلا یا کرتی ہے۔ لیٹے لیٹے امیرانہ بے پروائی سے بولے۔ اچھا چلو ہم آتے ہیں یہ کہہ کر پنڈت جی نے بہت اطمینان سے پان کے بیڑے لگائے اور تب لحاف اوڑھے ہوئے داروغہ جی کے پاس آ کر بے انداز سے بولے۔ ’’بابوجی اشیرباد۔ ہم سے کیا ایسی خطا ہوئی کہ گاڑیاں روک دی گئیں۔ ہم برہمنوں پر تو آپ کی نظر عنایت ہی رہنی چاہیے۔‘‘

بنسی دھر نے الوپی دین کو پہچانا۔ بے اعتنائی سے بولے۔ ’’سرکاری حکم۔‘‘ الوپی دین نے ہنس کر کہا۔ ’’ہم سرکاری حکم کو نہیں جانتے اور نہ سرکار کو۔ ہمارے سرکار تو آپ ہی ہیں ہمارا اور آپ کا تو گھر کا معاملہ ہے کبھی آپ سے باہر ہو سکتے ہیں۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ادھر سے جائیں اور اس گھاٹ کے دیوتا کو بھینٹ نہ چڑھائیں۔ میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔‘‘

بنسی دھر پر دولت کی ان شیریں زبانیوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ دیانت داری کا تازہ جوش تھا۔ کڑک کر بولے۔ ’’ہم ان نمک حراموں میں نہیں ہیں جو کوڑیوں پر اپنا ایمان بیچتے پھرتے ہیں۔ آپ اس وقت حراست میں ہیں صبح کو آپ کا باقاعدہ چالان ہو گا۔ بس مجھے زیادہ باتوں کی فرصت نہیں ہے۔ جمعدار بدلو سنگھ۔ تم انہیں حراست میں لے لو۔ میں حکم دیتا ہوں۔‘‘

پنڈت الوپی دین اور اس کے ہوا خواہوں اور گاڑی بانوں میں ایک ہلچل مچ گئی یہ شاید زندگی میں پہلا موقع تھا کہ پنڈت جی کو ایسی ناگوار باتوں کے سننے کا اتفاق ہوا۔ بدلو سنگھ آگے بڑھا لیکن فرط رعب سے ہمت نہ پڑی کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکے۔ الوپی دین نے بھی فرض کو دولت سے ایسا بے نیاز اور ایسا بے غرض کبھی نہ پایا تھا۔ سکتے میں آ گئے۔ خیال کیا کہ یہ ابھی طفل مکتب ہے دولت کے ناز و انداز سے مانوس نہیں ہوا۔ الھڑ ہے جھجکتا ہے۔ زیادہ ناز برداری کی ضرورت ہے۔ بہت مسکرانہ انداز سے بولے۔ ’’بابو صاحب ایسا ظلم نہ کیجیے ہم مٹ جائیں گے۔ عزت خاک میں مل جائے گی۔ آخر آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟  بہت ہوا تھوڑا سا انعام و اکرام مل جائے گا ہم کسی طرح آپ سے باہر تھوڑا ہی ہیں۔‘‘

بنسی دھر نے سخت لہجہ میں کہا۔ ’’ہم ایسی باتیں سننا نہیں چاہتے۔‘‘

الوپی دین نے جس سہارے کو چٹان سمجھ رکھا تھا وہ پاؤں کے نیچے سے کھسکتا ہوا معلوم ہوا۔ اعتماد نفس اور غرور دولت کو صدمہ پہنچا، لیکن ابھی تک دولت کی تعدادی قوت کا پورا بھروسہ تھا۔ اپنے مختار سے بولے۔ ’’لالہ جی ایک ہزار کا نوٹ بابو صاحب کی نظر کرو۔ آپ اس وقت بھوکے شیر ہو رہے ہیں۔‘‘

بنسی دھر نے گرم ہو کر کہا۔ ’’ ہزار نہیں مجھے ایک لاکھ بھی فرض کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘

دولت فرض کی اس خام کارانہ جسارت اور اس زاہدانہ نفس کشی پر جھنجھلائی اور اب ان دونوں طاقتوں کے درمیان بڑے معرکہ کی کش مکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کھا کر مایوسانہ جوش کے ساتھ کئی حملے کیے۔ ایک سے پانچ ہزار تک، پانچ سے دس ہزار تک دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس ہزار تک نوبت پہنچی لیکن فرض مردانہ ہمت کے ساتھ اس سپاہ عظیم کے مقابلے میں یکہ و تنہا پہاڑ کی طرح اٹل کھڑا تھا۔

الوپی دین مایوسانہ انداز سے بولے۔ ’’اس سے زیادہ میری ہمت نہیں۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ بنسی دھر نے اپنے جمعدار کو للکارا۔ بدلو سنگھ دل میں داروغہ جی کو گالیاں دیتا ہوا الوپی دین کی طرف بڑھا، پنڈت جی گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہو گئے اور نہایت منت آمیز بے کسی کے ساتھ بولے۔ ’’بابو صاحب ایشور کے لیے مجھ پر رحم کیجیے میں پچیس ہزار پر معاملہ کرنے کو تیار ہوں۔‘‘

’’غیر ممکن۔‘‘

’’تیس ہزار۔‘‘

’’غیر ممکن۔‘‘

’’کیا چالیس ہزار بھی ممکن نہیں؟‘‘

’’چالیس ہزار نہیں چالیس لاکھ بھی غیر ممکن۔ بدلو سنگھ اس شخص کو فوراً حراست میں لے لو میں اب ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔‘‘

فرض نے دولت کو پاؤں تلے کچل ڈالا۔ الوپی دین نے ایک قوی ہیکل جوان کو ہتھکڑیاں لیے ہوئے دیکھا۔ چاروں طرف مایوسانہ نگاہیں ڈالیں اور تب غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔

دنیا سوتی تھی مگر دنیا کی زبان جاگتی تھی۔ صبح ہوئی تو یہ واقعہ بچے بچے کی زبان پر تھا اور ہر گلی کوچے سے ملامت اور تحقیر کی صدائیں آتی تھیں۔ گویا دنیا میں اب گناہ کا وجود نہیں رہا۔ پانی کو دودھ کے نام سے بیچنے والے حکام سرکار، ٹکٹ کے بغیر ریل پر سفر کرنے والے بابو صاحبان اور جعلی دستاویزیں بنانے والے سیٹھ اور ساہوکار یہ سب پارساؤوں کی طرح گردنیں ہلاتے تھے اور جب دوسرے دن پنڈت الوپی دین کا مواخذہ ہوا اور وہ کانسٹبلوں کے ساتھ شرم سے گردن جھکائے ہوئے عدالت کی طرف چلے۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، دل میں غصہ و غم تو سارے شہر میں ہلچل سی مچ گئی۔ ملویں میں بھی شاید شوق نظارہ ایسی امنگ پر نہ آتا ہو، کثرت ہجوم سے سقف و دیوار میں تمیز کرنا مشکل تھا۔

مگر عدالت میں پہنچنے کی دیر تھی۔ پنڈت الوپی دین اس قلزم نا پید کنارے کے نہنگ تھے۔ حکام ان کی قدرشناس، عملے ان کے نیاز مند، وکیل اور مختار ان کے ناز بردار۔ اور اردلی، چپراسی اور چوکیدار تو ان کے درم خریدہ غلام تھے۔ انہیں دیکھتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑے۔ ہر شخص حیرت سے انگشت بدنداں تھا اس لیے نہیں کہ الوپی دین نے کیوں ایسا فعل کیا، بلکہ وہ کیوں قانون کے پنجے میں آئے، ایسا شخص جس کے پاس محال کو ممکن کرنے والی دولت اور دیوتاؤں پر جادو ڈالنے والی چرب زبانی ہو۔ کیوں قانون کا شکار بنے حیرت کے بعد ہمدردی کے اظہار ہونے لگے۔

فوراً اس حملے کو روکنے کے لیے وکیلوں کا ایک دستہ تیار کیا گیا۔ اور انصاف کے میدان میں فرض اور دولت کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ بنسی دھر کھڑے تھے۔ یکہ و تنہا سچائی کے سوا کچھ پاس نہیں۔ صاف بیانی کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں۔ استغاثہ کی شہادتیں ضرور تھیں لیکن ترغیبات سے ڈانوا ڈول۔ حتی کہ انصاف بھی کچھ ان کی طرف کھچا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ضرور سچ ہے کہ انصاف سیم و زر سے بے نیاز ہے لیکن پردے میں وہ اشتیاق ہے جو ظہور میں ممکن نہیں۔ دعوت اور تحفے کے پردے میں بیٹھ کر دولت زاہد فریب بن جاتی ہے۔ وہ عدالت کا دربار تھا لیکن اس کے ارکان پر دولت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ مقدمہ بہت جلد فیصل ہو گیا۔ ڈپٹی مجسٹریٹ نے تجویز لکھی۔ پنڈت الوپی دین کے خلاف شہادت نہایت کمزور اور مہمل ہے۔ وہ ایک صاحب ثروت رئیس تھے یہ غیر ممکن ہے کہ وہ محض چند ہزار کے فائدے کے لیے ایسی کمینہ حرکت کے مرتکب ہو سکتے۔ داروغہ صاحب نمک منشی بنسی دھر پر اگر زیادہ نہیں تو ایک افسوس ناک غلطی اور خام کارانہ سر گرمی کا الزام ضرور عائد ہوتا ہے۔

ہم خوش ہیں کہ وہ ایک فرض شناس نوجوان ہیں لیکن صیغۂ نمک کی اعتدال سے بڑھی ہوئی نمک حلالی نے اس کے امتیاز ادراک کو مغلوب کر دیا ہے۔ اسے آئندہ ہوشیار رہنا چاہیے۔

وکیلوں نے یہ تجویز سنی اور اچھل پڑے۔ پنڈت الوپی دین مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ حوالیوں نے روپے برسائے، سخاوت اور فراخ حوصلگی کا سیلاب آ گیا اور اس کی لہروں نے عدالت کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ جب بنسی دھر عدالت سے باہر نکلے نگاہیں غرور سے لبریز، تو طعن اور تمسخر کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگیں۔ چپراسیوں اور برقندازوں نے جھک کر سلام کیے لیکن اشارہ اس وقت اس نشۂ غرور پر ہوائے سرد کا کام کر رہا تھا۔ شاید مقدمے میں کامیاب ہو کر وہ شخص اس طرح اکڑتا ہوا نہ چلتا۔ دنیا نے اسے پہلا سبق دے دیا تھا۔ انصاف علم اور پنچ حرفی خطابات اور لمبی داڑھیاں اور ڈھیلے ڈھالے چغے ایک بھی حقیقی عزت کے مستحق نہیں۔

لیکن بنسی دھر نے ثروت اور رسوخ سے بیر مول لیا تھا۔ اس کی قیمت دینی واجبی تھی۔ مشکل سے ایک ہفتہ گذرا ہو گا کہ معطلی کا پروانہ آ پہنچا۔ فرض شناسی کی سزا ملی۔ بیچارے دل شکستہ اور پریشان حال اپنے وطن کو روانہ ہوئے۔ بوڑھے منشی جی پہلے ہی سے بد ظن ہو رہے تھے کہ چلتے چلتے سمجھایا تھا مگر اس لڑکے نے ایک نہ سنی۔ ہم تو کلوار اور بو چڑ کے تقاضے سہیں، بڑھاپے میں بھگت بن کر بیٹھیں اور وہاں بس وہی سوکھی تنخواہ۔ آخر ہم نے بھی نوکری کی ہے اور کوئی عہدہ دار نہیں تھے لیکن جو کام کیا دل کھول کر کیا اور آپ دیانتدار بننے چلے ہیں۔ گھر میں چاہے اندھیرا رہے مسجد میں ضرور چراغ جلائیں گے۔ تف ایسی سمجھ پر، پڑھانا لکھانا سب اکارت گیا۔ اسی اثنا بنسی دھر خستہ حال مکان پر پہنچے اور بوڑھے منشی جی نے روداد سنی تو سر پیٹ لیا اور بولے۔ ’’جی چاہتا ہے اپنا اور تمہارا سر پھوڑ لوں۔‘‘ بہت دیر تک پچھتاتے اور کف افسوس ملتے رہے۔ غصے میں کچھ سخت وسست بھی کہا اور بنسی دھر وہاں سے ٹل نہ جاتے تو عجب نہ تھا کہ یہ غصہ عملی صورت اختیار کر لیتا۔ بوڑھی اماں کو بھی صدمہ ہوا، جگن ناتھ اور رامیشور کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور بیوی نے کئی دن تک سیدھے منہ بات نہیں کی۔

اس طرح اپنے بیگانوں کی ترش روئی اور بیگانوں کی دل دوز ہمدردیاں سہتے سہتے ایک ہفتہ گزر گیا۔ شام کا وقت تھا بوڑھے منشی رام نام کی مالا پھیر رہے تھے کہ ان کے دروازے پر ایک سجا ہوا رتھ آ کر رکا۔ سبز اور گلابی رنگ کے پردے، پچھائیں نسل کے بیل ان کی گردنوں میں نیلے دھاگے سینگ پیتل سے منڈے ہوئے۔ منشی جی پیشوائی کو دوڑے۔ دیکھا تو پنڈت الوپی دین ہیں۔ جھک کر سلام کیا اور مدبرانہ درافشانیاں شروع کیں۔ آپ کو کون سا منہ دکھائیں۔ منہ میں کالک لگی ہوئی ہے مگر کیا کریں لڑکا نالائق ہے نا خلف ہے ورنہ آپ سے کیوں منہ چھپاتے، ایشور بے چراغ رکھے مگر ایسی اولاد نہ دے۔ بنسی دھر نے الوپی دین کو دیکھا مصافحہ کیا۔ لیکن شان خود داری لیے ہوئے۔ فوراً گمان ہوا یہ حضرت مجھے جلانے آئے ہیں۔ زبان شرمندۂ معذرت نہیں ہوئی۔ اپنے والد بزرگوار کا خلوص رواں سخت ناگوار گزرا۔ یکایک پنڈت جی نے قطع کلام کیا۔ ’’نہیں بھائی صاحب ایسا نہ فرمائیے۔‘‘

بوڑھے منشی جی کی قیافہ شناسی نے فوراً جواب دے دیا۔ انداز حیرت سے بولے۔ ’’ایسی اولاد کو اور کیا کہوں۔‘‘

الوپی دین نے کسی قدر جوش سے کہا۔ ’’فخر خاندان اور بزرگوں کا نام روشن کرنے والا ایسا سپوت لڑکا پا کر پرماتما کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایسے کتنے انسان ہیں جو دیانت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تیار ہوں۔ داروغہ جی! اسے زمانہ سازی نہ سمجھیے۔ زمانہ سازی کے لیے مجھے یہاں تک تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس رات کو آپ نے مجھے حکومت کے زور سے حراست میں لیا تھا آج میں خود بخود آپ کی حراست میں آیا ہوں۔ میں نے ہزاروں رئیس اور امیر دیکھے، ہزاروں عالی مرتبہ حکام سے سابقہ پڑا۔ لیکن مجھے زیر کیا تو آپ نے، میں نے سب کو اپنا اور قیمتی دولت کا غلام بنا کر چھوڑ دیا۔ مجھے اجازت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کروں؟‘‘

بنسی دھر کو ان باتوں سے کچھ خلوص کی بو آئی۔ پنڈت جی کے چہرے کی طرف اڑتی ہوئی مگر تلاش کی نگاہ سے دیکھا۔ صداقت کی گاڑھی گاڑھی جھلک نظر آئی۔ غرور نے ندامت کو راہ دی۔ شرماتے ہوئے بولے۔ ’’یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے، فرض نے مجھے آپ کی بے ادبی کرنے پر مجبور کیا ورنہ میں تو آپ کی خاک پا ہوں جو آپ کا ارشاد ہو گا بحد امکان اس کی تعمیل میں عذر نہ کروں گا۔‘‘

الوپی دین کی التجا آمیز نگاہوں نے اسے دیکھ کر کہا۔ ’’دریا کے کنارے آپ نے میرا سوال رد کر دیا تھا لیکن یہ سوال پورا کرنا پڑے گا۔‘‘

بنسی دھر نے جواب دیا۔ ’’میں کس قابل ہوں لیکن مجھ سے جو کچھ ناچیز خدمت ہو سکے گی اس میں دریغ نہ ہو گا۔‘‘

الوپی دین نے ایک قانونی تحریر نکالی اور اسے بنسی دھر کے سامنے رکھ کر بولے۔ ’’اس مختار نامے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس پر دستخط کیجیے۔ میں برہمن ہوں جب تک یہ سوال پورا نہ کیجیے گا دروازے سے نہ ٹلوں گا۔‘‘

منشی بنسی دھر نے مختار نامے کو پڑھا تو شکریہ کے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔ پنڈت الوپی دین نے انہیں اپنی ساری ملکیت کا مختار عام قرار دے دیا تھا۔ چھ ہزار سالانہ تنخواہ، جیب خرچ کے لیے۔ روزانہ خرچ الگ، سواری کے لیے گھوڑے، اختیارات غیر محدود، کانپتی ہوئی آواز سے بولے۔ ’’پنڈت جی میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ مجھے آپ نے بیکراں عنایات کے قابل سمجھا لیکن میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ میں اتنے اعلیٰ رتبے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘

الوپی دین بولے۔ ’’اپنے منہ سے اپنی تعریف نہ کیجیے۔‘‘

بنسی دھر نے متین آواز سے کہا۔ ’’یوں میں آپ کا غلام ہوں آپ جیسے نورانی اوصاف بزرگ کی خدمت کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے لیکن مجھ میں نہ علم ہے نہ فراست نہ تجربہ ہے جوان خامیوں پر پردہ ڈال سکے۔ ایسی معزز خدمات کے لیے ایک بڑے معاملہ فہم اور کار کردہ منشی کی ضرورت ہے۔‘‘

الوپی دین نے قلمدان سے قلم نکالا اور بنسی دھر کے ہاتھ میں دے کر بولے۔ ’’مجھے نہ علم کی ضرورت ہے نہ فراست کی نہ کار کردگی کی اور نہ معاملہ فہمی کی۔ ان سنگ ریزوں کے جوہر میں بار بار پرکھ چکا ہوں اب حسن تقدیر اور حسن اتفاق نے مجھے وہ بے بہا موتی دے دیا ہے جس کی آپ کے سامنے علم اور فراست کی چمک کوئی چیز نہیں۔ یہ قلم حاضر ہے زیادہ تامل نہ کیجیے، اس پر آہستہ سے دستخط کیجیے۔ میری پرماتما سے یہی التجا ہے کہ آپ کو سدا وہی ندی کے کنارے والا بے مروت، سخت زبان تند مزاج لیکن فرض شناس داروغہ بنائے رکھے۔‘‘

بنسی دھر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ دل کی تنگ ظروف میں اتنا احساس نہ سما سکا۔ پنڈت الوپی دین کی طرف ایک بار پھر عقیدت اور پرستش کی نگاہ سے دیکھا اور مختار نامے پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔ الوپی دین فرط مسرت سے اچھل پڑے اور انہیں گلے لگا لیا۔

٭٭٭

 

 

 

نجات

 

 

دکھی چمار دروازے پر جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور اس کی بیوی جھریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارن نے کہا۔

’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں۔‘‘

دکھی۔ ہاں جاتا ہوں، لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟

جھریا۔ کہیں سے کوئی کھٹیا نہ مل جائے گی۔ ٹھکرانی سے مانگ لانا۔

دکھی۔ تو تو کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ بھلا ٹھکرانے والے مجھے کھٹیا دیں گے؟  جا کر ایک لوٹا پانی مانگوں، تو نہ ملے۔ بھلا کھٹیا کون دے گا۔ ہمارے اوپلے ایندھن، بھوسا، لکڑی تھوڑے ہی ہیں کہ جو چاہے اٹھا لے جائے۔ اپنی کھٹولی دھو کر رکھ دے گی۔ گرمی کے تو دن ہیں ان کے آتے آتے سوکھ جائے گی۔

جھریا۔ ہماری کھٹولی پر وہ نہ بیٹھیں گے۔ دیکھتے نہیں، کتنے نیم دھرم سے رہتے ہیں۔

دکھی نے کسی قدر مغموم لہجہ میں کہا۔ ’’ہاں، یہ بات تو ہے۔ مہوے کے پتے توڑ کر ایک پتل بنا لوں، تو ٹھیک ہو جائے۔ پتل میں بڑے آدمی کھاتے ہیں۔ وہ پاک ہے۔ لا تو لاٹھی، پتے توڑ لوں‘‘

جھریا۔ پتل میں بنا لوں گی تم جاؤ۔ لیکن ہاں انہیں سیدھا بھی جائے اور تھالی بھی۔ چھوٹے بابا تھالی اٹھا کر پٹک دیں گے۔ وہ بہت جلد غصہ میں آ جاتے ہیں۔ غصہ میں پنڈتانی تک کو نہیں چھوڑتے۔ لڑکے کو ایسا پیٹا کہ آج تک ٹوٹا ہاتھ لیے پھرتا ہے۔ پتل میں سیدھا بھی دے دینا، مگر چھونا مت۔ بھوری گونڈ کی لڑکی کو لے کر شاہ کی دکان سے چیزیں لے آنا۔ سیدھا بھر پور، سیر بھر آٹا، آدھ سیر چاول، پاؤ بھر دال، آدھ پاؤ گھی، ہلدی، نمک اور پتل میں یاک کنارے چار آنے کے پیسے رکھ دینا۔ گونڈ کی لڑکی نہ ملے، تو پھر جن کے ہاتھ جوڑ کر لے آنا۔ تم کچھ نہ چھونا ورنہ گجب ہو جائے گا۔‘‘

ان باتوں کی تاکید کر کے دکھی نے لکڑی اٹھا لی اور گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا لے کر پنڈت جی سے عرض کرنے چلا۔ خالی ہاتھ بابا جی کی خدمت میں کس طرح جاتا۔ نذرانے کے لیے اس کے پاس گھاس کے سوا اور کیا تھا۔ اسے خالی دیکھ کر تو بابا جی دور ہی سے دھتکار دیتے۔

پنڈت گھاسی رام ایشور کے پرم بھگت تھے۔ نیند کھلتے ہی ایشور کی اپاسنا میں لگ جاتے۔ منھ ہاتھ دھوتے دھوتے آٹھ بجتے۔ تب اصلی پوجا شروع ہوتی۔ جس کا پہلا حصہ بھنگ کی تیاری تھی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ تک چندن رگڑتے۔ پھر آئینے کے سامنے ایک تنکے سے پیشانی پر تلک لگاتے۔ چندن کے متوازی خطوں کے درمیان لال روٹی کا ٹیکہ ہوتا۔ پھر سینہ پر دونوں بازوؤں پر چندن کے گول گول دائرے بناتے اور اٹھا کر جی کی مورتی نکال کر اسے نہلاتے۔ چندن لگاتے، پھول چڑھاتے، آرتی کرتے اور گھنٹی بجاتے۔ دس بجتے بجتے وہ پوجن سے اٹھتے اور بھنگ چھان کر باہر آتے۔ اس وقت دو چار ججمان دروازے پر آ جاتے۔ ایشور اپاسنا کا فی الفور پھل مل جاتا۔ یہی ان کی کھیتی تھی۔

آج وہ عبادت خانے سے نکلے تو دیکھا۔ دکھی چمار گھاس کا ایک گٹھا لیے بیٹھا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور نہایت ادب سے ڈنڈوت کر کے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایسا پر جلال چہرہ دیکھ کر اس کا دل عقیدت سے پر ہو گیا۔ کتنی تقدس مآب صورت تھی۔ چھوٹا سا گول مول آدمی۔ چکناسر، پھولے ہوئے رخسار، روحانی جلال سے منور آنکھیں۔ اس پر روئی اور چندن نے دیوتاؤں کی تقدس عطا کر دی تھی۔ دکھی کو دیکھ کر شیریں لہجہ میں بولے۔ ’’آج کیسے چلا آیا رے دکھیا؟‘‘

دکھی نے سر جھکا کر کہا۔ ’’بٹیا کی سگائی کر رہا ہوں مہاراج! ساعت شگن بچارنا ہے۔ کب مرجی ہو گی؟‘‘

گھاسی۔آج تو مجھے چھٹی نہیں ہے۔ شام تک آ جاؤں گا۔

دکھی۔نہیں مہاراج! جلدی مرجی ہو جائے۔ سب ٹھیک کر آیا ہوں۔ یہ گھاس کہاں رکھ دوں؟

گھاسی۔ اس گائے کے سامنے ڈال دے اور ذرا جھاڑو لے کر دروازہ تو صاف کر دے۔ یہ بیٹھک بھی کئی دن سے لیپی نہیں گئی۔ اسے بھی گوبر سے لیپ دے۔ تب تک میں بھوجن کر لوں، پھر ذرا آرام کر کے چلوں گا۔ ہاں، یہ لکڑی بھی چیر دینا۔ کھلیان میں چار کھانچی بھوسہ پڑا ہے اسے بھی اٹھا لانا اور بھوسیلے میں رکھ دینا۔

دکھی فوراً حکم کی تعمیل کرنے لگا۔ دروازے پر جھاڑو لگائی۔ بیٹھک کو گوبرے سے لیپا۔ اس وقت بارہ بج چکے تھے۔ پنڈت جی بھوجن کرنے چلے گئے۔ دکھی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اسے بھی زور کی بھوک لگی، لیکن وہاں کھانے کو دھرا ہی کیا تھا؟  گھر یہاں سے میل بھر تھا۔ وہاں کھانے چلا جائے تو پنڈت جی بگڑ جائیں۔ بے چارے نے بھوک دبائی اور لکڑی پھاڑنے لگا۔ لکڑی کی موٹی سی گرہ تھی جس پر کتنے ہی بھگتوں نے اپنا زور آزما لیا تھا۔ وہ اسی دم خم کے ساتھ لوہے لوہا لینے کے لیے تیار تھی۔ دکھی گھاس چھیل کر بازار لے جاتا ہے۔ لکڑی چیرنے کا اسے محاورہ نہ تھا۔ گھاس اس کے کھر پے کے سامنے سر جھکا دیتی تھی۔ یہاں کس کس کر کلہاڑی کا ہاتھ جماتا۔ لیکن اس گرہ پر نشان تک نہ پڑتا تھا۔ کلہاڑی اچٹ جاتی۔ پسینہ سے تر تھا۔ ہانپتا تھا۔ تھک کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر اٹھتا تھا۔ ہاتھ اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ہوائیاں اڑ رہی تھیں، پھر بھی اپنا کام کیے جاتا تھا۔ اگر ایک چلم تمباکو پینے کو مل جاتا، تو شاید کچھ طاقت آ جاتی۔ اس نے سوچا، یہاں چلم اور تمباکو کہاں ملے گا۔ برہمنوں کا گاؤں ہے۔ برہمن ہم سب نیچ جاتوں کی طرح تمباکو تھوڑا ہی پیتے ہیں۔ یکا یک اسے یاد آیا کہ گاؤں میں ایک گونڈ بھی رہتا ہے۔ اس کے یہاں ضرور چلم تمباکو ہو گی۔ فوراً اس کے گھر دوڑا۔ خیر محنت سپھل ہوئی۔ اس نے تمباکو اور چلم دی لیکن آگ وہاں نہ تھی۔ دکھی نے کہا۔

’’آگ کی فکر نہ کرو بھائی۔ پنڈت جی کے گھر سے آگ مانگ لوں گا۔ وہاں تو ابھی رسوئی بن رہی تھی۔‘‘

یہ کہتا ہوا وہ دونوں چیزیں لے کر چلا اور پنڈت جی کے گھر میں دالان کے دروازہ پر کھڑا ہو کر بولا۔ ’’مالک ذرا سی آگ مل جائے تو چلم پی لیں۔‘‘

پنڈت جی بھوجن کر رہے تھے۔ پنڈتانی نے پوچھا ’’یہ کون آدمی آگ مانگ رہا ہے؟‘‘

’’ارے وہی سسرا دکھیا چمار ہے۔ کہا ہے تھوڑی سی لکڑی چیڑ دے۔ آگ ہے تو دے دو۔‘‘

پنڈتانی نے بھنویں چڑھا کر کہا۔ ’’تمہیں تو جیسے پوتھی پڑے کے پھیر میں دھرم کرم کی سدھ بھی نہ رہی۔ چمار ہو، دھوبی ہو، پاسی ہو، منھ اٹھائے گھر میں چلے آئے۔ پنڈت کا گھر نہ ہوا کوئی سرائے ہوئی۔ کہہ دو ڈیوڑھی سے چلا جائے، ورنہ اسی آگ سے منھ جھلس دوں گی۔ بڑے آگ مانگے چلے ہیں۔‘‘

پنڈت جی نے انہیں سمجھا کر کہا۔ ’’اندر آ گیا تو کیا ہوا۔ تمہاری کوئی چیز تو نہیں چھوئی۔ زمین پاک ہے۔ ذرا سی آگ کیوں نہیں دے دیتیں۔ کام تو ہمارا ہی کرہا ہے۔ کوئی لکڑ ہارا یہی لکڑی پھاڑتا، تو کم از کم چار آنے لیتا۔‘‘

پنڈتانی نے گرج کر کہا۔ ’’وہ گھر میں آیا ہی کیوں؟‘‘

پنڈت نے ہار کر کہا۔ ’’سسرے کی بدقسمتی تھی۔‘‘

پنڈتانی۔ اچھا، اس وقت تو آگ دیے دیتی ہوں لیکن پھر جو اس گھر میں آئے گا تو منھ جھلس دوں گی۔

دکھی کے کانوں میں ان باتوں کی بھنک پڑ رہی تھی۔ بے چارا پچھتا رہا تھا۔ ناحق آیا۔ سچ تو کہتی ہیں، پنڈت کے گھر چمار کیسے چلا آئے۔ یہ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں، تبھی تو اتنا مان ہے، چر چمار تھوڑے ہی ہیں۔ اسی گاؤں میں بوڑھا ہو گیا مگر مجھے انتی اکل (عقل) بھی نہ آئی۔ اسی لیے جب پنڈتانی جی آگ لے کر نکلیں تو جیسے اسے جنت مل گئی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر زمین پر سر جھکاتا ہوا بولا۔

’’پنڈتانی ماتا، مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ گھر چلا آیا۔ چمار کی اکل (عقل) ہی تو ٹھہری۔ اتنے مورکھ نہ ہوتے تو سب کی لات کیوں کھاتے؟‘‘

پنڈتانی چمٹے سے پکڑ کر آگ لائی تھی۔ انہوں نے پانچ ہاتھ کے فاصلے پر گھونگھٹ کی آڑ سے دکھی کی طرف آگ پھینکی۔ ایک بڑی سی چنگاری اس کے سر پر پڑ گئی۔ جلدی سے پیچھے ہٹ کر جھاڑنے لگا۔ اس کے دل نے کہا۔ یہ ایک پاک برہمن کے گھر کو ناپاک کرنے کا نتیجہ ہے۔ بھگوان نے کتنی جلدی سزادے دی۔ اسی لیے تو دنیا پنڈتوں سے ڈرتی ہے اور سب کے روپے مارے جاتے ہیں۔ برہمن کے روپے بھلا کوئی مار تولے، گھر بھر کا ستیاناس ہو جائے۔ ہاتھ پاؤں گل گل کر گرنے لگیں۔

باہر آ کر اس نے چلم پی اور کلہاڑی لے کر مستعد ہو گیا۔ کھٹ کھٹ کی آوازیں آنے لگیں۔ سر پر آگ پڑ گئی تو پنڈتانی کو کچھ رحم آ گیا۔ پنڈت جی کھانا کھا کر اٹھے، تو بولیں۔ اس چمرا کو بھی کچھ کھانے کو دے دو۔ بے چارہ کب سے کام کر رہا۔ بھوکا ہو گا۔‘‘

پنڈت جی نے اس تجویز کو فنا کر دینے کے ارادے سے پوچھا۔

’’روٹیاں ہیں؟‘‘

پنڈتانی۔ دو چار بچ جائیں گی۔

پنڈت۔ دو چار روٹیوں سے کیا ہو گا؟  یہ چمار ہے، کم از کم سیر بھر چڑھا جائے گا۔

پنڈتانی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔ ’’ارے باپ رے! سیر بھر! تو پھر رہنے دو۔‘‘

پنڈت جی نے اب شیر بن کر کہا۔ ’’کچھ بھوسی چوکر ہو، تو آٹے میں ملا کر موٹی موٹی روٹیاں توے پر ڈال دو۔ سالے کا پیٹ بھر جائے گا۔ پتلی روٹیوں سے ان کمینوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ انہیں تو جوار کا ٹکر چاہئیے۔‘‘

پنڈتانی نے کہا۔ ’’اب جانے بھی دو۔ دھوپ میں مرے۔‘‘

دکھی نے چلم پی کر کلہاڑی سنبھالی۔ دم لینے سے ذرا ہاتھوں میں طاقت آ گئی تھی۔ تقریباً آدھ گھنٹے تک پھر کلہاڑی چلاتا رہا۔ پھر بے دم ہو کر وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں وہی گونڈ آ گیا۔ بولا۔ ’’بوڑھے دادا، جان کیوں دیتے ہو۔ تمہارے پھاڑے یہ گانٹھ نہ پھٹے گی۔ ناحق ہلکان ہوتے ہو۔‘‘

دکھی نے پیشانی کا پسینہ صاف کر کے کہا۔ ’’بھائی! ابھی گاڑی پر بھوسہ ڈھونا ہے۔‘‘

گونڈ۔ کچھ کھانے کو بھی دیا، یا کام ہی کروانا جانتے ہیں۔ جا کے مانگتے کیوں نہیں؟

دکھی۔ تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو۔ بھلا باہمن کی روٹی ہم کو پچے گی؟

گونڈ۔ پچنے کو تو پچ جائے گی، مگر ملے تو۔ خود مونچھوں پر تاؤ دے کر کھانا کھایا اور آرام سے سو رہے ہیں۔ تمہارے لیے لکڑی پھاڑنے کا حکم لگا دیا۔ زمیندار بھی کھانے کو دیتا ہے۔ حاکم بھی بیگار لیتا ہے، تو تھوڑی بہت مزدوری دے دیتا ہے۔ یہ ان سے بھی بڑھ گئے۔ اس پر دھر ماتما بنتے ہیں۔

دکھی نے کہا۔ ’’بھائی آہستہ بولو۔ کہیں سن لیں گے تو بس۔‘‘

یہ کہہ کر دکھی پھر سنبھل پڑا اور کلہاڑی چلانے لگا۔ گونڈ کو اس پر رحم آ گیا۔ کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھین کر تقریباً نصف گھنٹہ تک جی توڑ کر چلاتا رہا، لیکن گانٹھ پر ذرا بھی نشان نہ ہوا۔ بالآخر اس نے کلہاڑی پھینک دی اور یہ کہہ کر چلا گیا۔ ’’یہ تمہارے پھاڑے نہ پھٹے گی۔ خواہ تمہاری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘

دکھی سوچنے لگا۔ یہ گانٹھ انہوں نے کہاں سے رکھ چھوڑی تھی کہ پھاڑے نہیں پھٹتی۔ میں کب تک اپنا خون پسینہ ایک کروں گا۔ ابھی گھر پر سوکام پڑے ہیں۔ کام کاج والا گھر ہے۔ ایک نہ ایک چیز گھٹتی رہتی ہے۔ مگر انہیں ان کی کیا فکر۔ چلوں، جب تک بھوسہ ہی اٹھا لاؤں۔ کہہ دوں گا، آج تو لکڑی نہیں پھٹی۔ کل آ کر پھاڑ دوں گا۔

اس نے ٹوکرا اٹھایا اور بھوسہ ڈھونے لگا۔ کھلیان یہاں سے دو فرلانگ سے کم نہ تھا۔ اگر ٹوکرا خوب خوب بھر کر لاتا تو کام جلد ہو جاتا۔ مگر سر پر اٹھاتا کون۔ خود اس سے نہ اٹھ سکتا تھا، اس لیے تھوڑا تھوڑا لانا پڑا۔ چار بجے کہیں بھوسا ختم ہوا۔ پنڈت جی کی نیند بھی کھلی۔ منھ ہاتھ دھوئے، پان کھایا اور باہر نکلے۔ دیکھا تو دکھی ٹوکرے پر سر رکھے سو رہا ہے۔ زور سے بولے۔

’’ارے دکھیا! تو سو رہا ہے۔ لکڑی تو ابھی جوں کی توں پڑی ہے۔ اتنی دیر تو کیا کرتا رہا۔ مٹھی بھر بھوسہ اٹھانے میں شام کر دی۔ اس پر سو رہا ہے۔ کلہاڑی اٹھا لے اور لکڑی پھاڑ ڈال۔ تجھ سے ذرا بھر لکڑی بھی نہیں پھٹی۔ پھر ساعت بھی ویسے ہی نکلے گی۔ مجھے دوش مت دینا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جہاں نیچ کے گھر کھانے کو ہوا اس کی آنکھ بدل جاتی ہے۔‘‘

دکھی نے پھر کلہاڑی اٹھائی۔ جو باتیں اس نے پہلے سوچ رکھی تھی، وہ سب بھول گیا۔ پیٹ پیٹھ میں دھنسا جاتا تھا۔ آج صبح ناشتہ تک نہ کیا تھا۔ فرصت ہی نہ ملی۔ اٹھنا بیٹھنا تک پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ دل ڈوبا جاتا تھا، پر دل کو سمجھا کر اٹھا۔ پنڈت ہیں۔ کہیں ساعت ٹھیک نہ بچاریں، تو پھر ستیہ ناس ہو جائے۔ جب ہی تو ان کا دنیا میں اتنا مان ہے۔ ساعت ہی کا تو سب کھیل ہے۔ جسے چاہیں بنا دیں جسے چاہیں بگاڑ دیں۔ پنڈت جی گانٹھ کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور حوصلہ افزائی کرنے لگے۔

’’ہاں مار کس کے اور کس کے مار۔ ابے زور سے مار۔ تیرے ہاتھ میں تو جیسے دم ہی نہیں۔ لگا کس کے، کھڑا کھڑا سوچنے کیا لگتا ہے۔ ہاں بس پھٹا ہی چاہتی ہے۔ اس سوراخ میں۔‘‘

دکھی اپنے ہوش میں نہ تھا۔ نہ معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلا رہی تھی۔ تکان، بھوک، پیاس، کمزوری سب کے سب جیسے ہوا ہو گئی تھیں۔ اسے اپنے قوت بازو پر خود تعجب ہو رہا تھا۔ ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑتی تھی۔ آدھ گھنٹے تک وہ اسی بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر پڑی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی چکر کھا کر گر پڑا۔ بھوکا پیاسا، تکان خوردہ جسم جواب دے گیا۔ پنڈت جی نے پکارا۔

’’اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگا دے۔ پتلی پتلی چیلیاں ہو جائیں۔‘‘

دکھی نہ اٹھا۔

پنڈت جی نے اسے دق کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اندر جا کر بوٹی چھانی۔ حاجات ضروری سے فارغ ہوئے۔ نہایا اور پنڈتوں کا لباس پہن کر باہر نکلے۔ دکھی ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا۔ زور سے پکارا۔ ارے دکھی، کیا پڑے ہی رہو گے؟  چلو تمہارے ہی گھر چل رہا ہوں۔ سب سامان ٹھیک ہے نا؟‘‘

دکھی پھر بھی نہ اٹھا۔

اب پنڈت جی کو کچھ فکر ہوا۔ پاس جا کر دیکھا تو دکھی اکڑا ہوا پڑا تھا۔ بدحواس ہو کر بھاگے اور پنڈتانی سے بولے۔ ’’دکھیا تو جیسے مر گیا۔‘‘

پنڈتانی جی۔ تعجب انگیز لہجہ میں بولیں۔ ’’ابھی تو لکڑی چیر رہا تھا نا!‘‘

’’ہاں لکڑی چیرتے چیرتے مرگیا۔ اب کیا ہو گا؟‘‘

پنڈتانی نے مطمئن ہو کر کہا۔ ’’ہو گا کیا۔ چمروے میں کہلا بھیجو، مردہ اٹھا لے جائیں۔‘‘

دم کے دم میں یہ خبر گاؤں میں پھیل گئی۔ گاؤں میں زیادہ تر برہمن ہی تھے۔ صرف ایک گھر گونڈ کا تھا۔ لوگوں نے ادھر کا راستہ چھوڑ دیا۔ کنوئیں کا راستہ ادھر ہی سے تھا۔ پانی کیونکر بھرا جائے۔ چمار کی لاش کے پاس ہو کر پانی بھرنے کون جائے۔ ایک بڑھیا نے پنڈت جی سے کہا۔ ’’اب مردہ کیوں نہیں اٹھواتے۔ کوئی گاؤں میں پانی پئیے گا یا نہیں؟‘‘

ادھر گونڈ نے چمروے میں جا کر سب سے کہہ دیا۔ ’’خبردار! مردہ اٹھانے مت جانا ابھی پولیس کی تحقیقات ہو گی۔ دل لگی ہے کہ ایک غریب کی جان لے لی۔ پنڈت ہوں گے تو اپنے گھر کے ہوں گے لاش اٹھاؤ گے تو تم بھی پکڑے جاؤ گے۔‘‘

اس کے بعد ہی پنڈت جی پہنچے۔ پر چمروے میں کوئی آدمی لاش اٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ ہاں دکھی کی بیوی اور لڑکی دونوں ہائے ہائے کرتی وہاں سے چلیں اور پنڈت جی کے دروازے پر آ کر سرپیٹ کر رونے لگیں۔ ان کے ساتھ دس پانچ اور چمارنیں تھیں۔ کوئی روتی تھی، کوئی سمجھاتی تھی۔ پر چمار ایک بھی نہ تھا۔ پنڈت جی نے ان سب کو بہت دھمکایا، سمجھایا، منت کی۔ پر چماروں کے دل پر پولیس کا ایسا رعب چھایا، کہ ایک بھی من نہ سکا۔ آخر نا امید ہو کر لوٹ آئے۔

آدھی رات تک رونا پیٹنا جاری رہا۔ دیوتاؤں کا سونا مشکل ہو گیا مگر لاش اٹھانے کو کو کوئی چمار نہ آیا اور برہمن چمار کی لاش کیسے اٹھائے۔ بھلا ایسا کسی شاستر پوران میں لکھا ہے۔ کہیں کوئی دکھا دے۔

پنڈتانی نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ان ڈائنوں نے تو کھوپڑی چاٹ ڈالی۔ سبھوں کا گلا بھی نہیں تھکتا۔‘‘

پنڈت نے کہا۔ ’’چڑیلوں کو رونے دو۔ کب تک روئیں گی۔ جیتا تھا تو کوئی بات نہ پوچھتا تھا۔ مر گیا تو شور و غل مچانے کے لیے سب کی سب آ پہنچیں۔‘‘

پنڈتانی۔ چماروں کا رونا منحوس ہے۔

پنڈت۔ ہاں بہت منحوس۔

پنڈتانی۔ ابھی سے بو آنے لگی۔

پنڈت۔ چمار تھا سسرا کہیں کا۔ ان سبھوں کو کھانے پینے کا کوئی بچار نہیں ہوتا۔

پنڈتانی۔ ان لوگوں کو نفرت بھی نہیں معلوم ہوتی۔

پنڈت۔ سب کے سب بھرشٹ ہیں۔

رات تو کسی طرح کٹی، مگر صبح بھی کوئی چمار نہ آیا۔ چمارنی بھی رو پیٹ کر چلی گئی۔ بدبو پھیلنے لگی۔

پنڈت جی نے ایک رسی نکالی۔ اس کا پھندا بنا کر مردے کے پیر میں ڈالا اور پھندے کو کھینچ کر کس دیا۔ ابھی کچھ کچھ اندھیرا تھا۔ پنڈت جی نے رسی پکڑ کر لاش کو گھسیٹنا شروع کیا اور گھسیٹ کر گاؤں کے باہر لے گئے۔ وہاں سے آ کر فوراً نہائے۔ درگا پاٹھ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا۔

ادھر دکھی کی لاش کو کھیت میں گیدڑ، گدھ اور کوے نوچ رہے تھے۔ یہی اس کی تمام زندگی کی بھگتی، خدمت اور اعتقاد کا انعام تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

کفن

 

 

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔

گھیسو نے کہا ’’معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔‘‘

مادھو دردناک لہجے میں بولا ’’مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔‘‘

’’تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔‘‘

’’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا۔‘‘

چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا۔ اور جب تک دو پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر ما رے مارے پھرتے۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشتکاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی۔ عجیب زندگی تھی ان کی۔ گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے۔ گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے یا دن پانچ ایکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ میں مر رہی تھی اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں۔

گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ’’جا دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی‘‘ چڑیل کا پھنساد ہو گا اور کیا۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے۔‘‘

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا۔ بولا:

’’مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’ڈر کس بات کا ہے؟

میں تو یہاں ہوں ہی‘‘

’’تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔‘‘

’’میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں اور پھر مجھ سے لجائے گی کہ نہیں۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا۔ آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں۔ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی۔‘‘

’’میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں۔‘‘

’’سب کچھ آ جائے گا۔ بھگوان بچہ دیں تو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب بلا کر دیں گے۔ میرے نو لڑکے ہوئے، گھر میں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا۔‘‘

جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے یہ جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔

دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔

گھیسو کو اس وقت ٹھا کر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا ’’وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھرپیٹ نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو اور جتنا چاہو کھاؤ۔ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں۔ نہیں چاہئے مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھا کر۔

مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا ’’اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔‘‘

’’اب کوئی کیا کھلائے گا؟‘‘ وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے۔‘‘

’’تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔‘‘

بیس سے جیادہ کھائی تھیں۔‘‘

’’میں پچاس کھا جاتا۔‘‘

’’پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہوں گی۔ اچھا پٹھا تھا۔ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے۔‘‘ آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈال کر سو رہے جیسے دو بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔

صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔

مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا اور پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غمزدوں کی تشفی کرنے لگے۔

مگر زیادہ رونے دھونے کا موقع نہ تھا کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی۔ گھر میں تو پیسہ اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں بانس۔

باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمینداروں کے پاس گئے۔ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے۔ چوری کی علت میں، وعدے پر کام نہ کرنے کی علت میں۔ پوچھا ’’کیا ہے بے گھسوا۔ روتا کیوں ہے۔ اب تو تیری صورت ہی نظر نہیں آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔‘‘

گھیسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ’’سرکار بڑی بپت میں ہوں۔ مادھو کی گھر والی رات گجر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا مالک۔ تباہ ہو گئے۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پار لگائے گا۔ ہمارے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہو گی تو اس کی مٹی اٹھے گی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جاؤں۔‘‘

زمیندار صاحب رحمدل آدمی تھے مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں ’’چل دور ہو یہاں سے لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے حرام خور کہیں کا۔ بدمعاش۔‘‘ مگر یہ غصہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپے نکال کر پھینک دئے مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔

جب زمیندار صاحب نے دو روپے دئے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرأت کیونکر ہوتی۔ گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے کسی نے چار آنے۔ ایک گھنٹے میں گھیسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہو گئی۔ کسی نے غلہ دے دیا، کسی نے لکڑی۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے۔

گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔

بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا۔ ’’لکڑی تو اسے جلانے بھر کی مل گئی ہے کیوں مادھو۔‘‘

مادھو بولا ’’ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہئے۔‘‘

’’تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں۔‘‘

’’ہاں اور کیا! لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔‘‘

’’کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا نہ ملے، اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔‘‘

’’کپھن لاش کے جل ہی تو جاتا ہے۔‘‘

اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔‘‘

دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے۔ پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی۔ کچھ گزک لی اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر پینے لگے۔

کئی کجیاں پیم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے۔

گھیسو بولا ’’کفن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔‘‘

مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو۔ ’’دنیا کا دستور ہے۔ یہی لوگ برہمنوں کو ہجاروں روپے کیوں دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے۔ پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔‘‘

’’بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے پھونکیں، ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے۔‘‘

’’لیکن لوگوں کو کیا جواب دو گے؟  لوگ پوچھیں گے کہ کپھن کہاں ہے؟‘‘

گھیسو ہنسا۔ ’ؔ’کہہ دیں گے کہ روپے کمر سے کھسک گئے بہت ڈھونڈا۔ ملے نہیں۔‘‘

مادھو بھی ہنسا۔ اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت کو اس طرح شکست دینے پر بولا۔ ’’بڑی اچھی تھی بیچاری مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔‘‘

آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی۔ گھیسو نے دو سیر پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور چٹ پٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں۔

شراب خانے کے سامنے دکان تھی۔ مادھو لپک کر دو پتلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔‘‘

دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوں نے بہت پہلے طے کر لیا تھا۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا۔ ’’ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہو گا۔‘‘

مادھو نے سر عقیدت جھکا کر تصدیق کی۔ ’’جرور سے جرور ہو گا۔ بھگوان تم انتر جامی (علیم) ہو۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔‘‘

ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی۔ بولا ’’کیوں دادا ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی‘‘ گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔

’’جو وہاں ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟‘‘

’’کہیں گے تمہارا سر۔‘‘

’’پوچھے گی تو جرور۔‘‘

’’تو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟  مجھے گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا، جو ہم دیتے۔‘‘

مادھو کو یقین نہ آیا۔ ’’بولا کون دے گا؟  روپے تو تم نے چٹ کر دئے۔‘‘

گھیسو تیز ہو گیا۔ ’’میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟‘‘

’’کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘۔

’’وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کے دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اس طرح بیٹھے پئیں گے اور کپھن تیسری بار ملے گا۔‘‘

جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی، میخانے کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی۔ کوئی گاتا تھا، کوئی بہکتا تھا، کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا، کوئی اپنے دوست کے منہ سے ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا، ہوا میں نشہ۔ کتنے تو چلو میں ہی الو ہو جاتے ہیں۔ یہاں آتے تھے تو صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں یا زندہ در گور ہیں۔

اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کے چسکیاں لے رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہے۔

کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا پتل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا، جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ‘‘دینے‘‘ کے غرور اور مسرت اور ولولہ کا، اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔

گھیسو نے کہا ’’لے جا کھوب کھا اور اسیر باد دے۔ جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی مگر تیرا اسیر باد اسے جرور پہنچ جائے گا۔ روئیں روئیں سے اسیر باد دے۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔‘‘

مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’وہ بیکنٹھ میں جائے گی۔ دادا بیکنٹھ کی رانی بنے گی۔‘‘

گھسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا۔ ’’ہاں بیٹا بیکنٹھ میں نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے، جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کے دھونے کے لئے گنگا میں جاتے ہیں اور مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘

یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔ نشہ کی خاصیت سے یاس اور غم کا دورہ ہوا۔ مادھو بولا ’’مگر دادا بیچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنی دکھ جھیل کر۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔

گھیسو نے سمجھایا ’’کیوں روتا ہے بیٹا! کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دئے۔‘‘

اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگے

ٹھگنی کیوں نیناں جھمکا دے۔ ٹھگنی۔

سارا میخانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش مخمور محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی، کودے بھی، گرے بھی، مٹکے بھی۔ بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشے سے بد مست ہو کر وہیں گر پڑے۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

یہ حصہ:

جلد سوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد اول

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل
کنڈل فائل

 

جلد چہارم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل