فہرست مضامین
- مری آنکھوں میں آ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- سپنوں میں آنے والے اک بار ذرا آنکھوں میں آ
- یہ کالی رات کا سایا، یہ تنہائی کا سناٹا
- نظر آ کے وہ چھپ جائیں، تو دل سینے میں رک جائے
- ساحل پہ آ لگی ہے زمانے گزر گئے
- رخ نہ یوں پھیر کہ مر جائیں گے
- جڑوں سے ٹوٹ کر بکھرا نہیں ہوں
- میری راہوں میں تم کب سے کھڑے ہو
- محبت میں ضمانت ضبط ہو گی
- خرد کی ناک کٹ جائے
- رات کی تنہا یادوں میں
- ذرا ٹھہرو، ذرا سا میں سنور لوں
- تمہاری یاد میں جاگیں کہ سوئیں
- مری یادوں میں رہتے تھے ہمیشہ
- نام پکارو چھپ جاتے ہو
- جینے کی کیا خواہش کی ہے
- ہمارا ہوش تو لوٹا دے ظالم!
- کسی کو کیوں کوئی کاہے کو چاہے
- اپنی پرچھائیوں کو سزا دیں گے ہم
- ترا ’’کچھ نہیں‘‘ ہے ہمارا بہت کچھ
- نئی دنیا نیا دستور مانگے
- شبنم کی بوندوں پر بارش کا دھوکا
- بے سری بانسری کا کیا کہنا
- شبد انڈیلے کوئی میں چباؤں انھیں
- سامری تھا غضب کا ترا فن
- اشک چھلکے نہ ہوا زرد ہی چہرہ میرا
- عشق کے روگی، حسن کے مارے
- جو کھڑکی کبھی پوری کھلتی نہیں تھی
- وہ کچھ سمجھے نہ ہم سمجھا ہی پائے
- وہ جو گھر نہیں تھا پسند ہمیں اسے اپنے ہاتھوں جلا دیا
- وہ میرے واسطے آدھا یقیں آدھا گماں سا ہے
- محبت کی ہے بس اتنی کہانی
- ہم کہیں ہائے، تم ہلو کہہ دو
- جانے کب تک چپ بیٹھو گے
- ’’دیوانوں سا حال ہوا ہے‘‘
- ہمیں یہ ضد کہ پانی میں لگا دیں آگ، لیکن وہ
- کئی چاند قدموں میں آئیں گے جو چلو گے تارو ں کو چھیڑتے
- کوئی بھولا ہوا قصہ نہ یاد آئے تو اچھا ہے
- آنکھوں میں سایہ لہرایا
- نئے موسم میں تم آؤ نہ آؤ
- تجھے آواز دوں تو کچھ نہ بولے
- کبھی لگا کہ ضروری ہے ہوش میں رہنا
- جڑوں سے ٹوٹ کے ظالم اگر مگر میں رہی
- کسی دن درد کا چہرہ نہیں تھا
- اس دل کا کیا کیجئے، ظالم جانے کیوں آ جاتا ہے
- زندگی، تیرے نام، جا، کر دی
- ہمیں ڈر ہے کہیں موسم نہ بدلے
- کسی کا درد بڑھ گیا
- کسی کو درد اٹھا نہیں
- چلو آگے بڑھو، ہمت دکھاؤ
- الفت میں کہیں اپنا مکاں بھول گئے تو؟
- بجھا جائے گی دل کی آگ پونم
- ہمارے واسطے تحفہ بڑا ہے
- چوڑی بولے، کنگنا بولے، بولے مانگ سیندوریا
- خدا کرے کہ وہ تصویر مجھ کو مل جائے
- ہم آئیں یا نہ آئیں، یاد رکھنا
- زلفوں کے بادل میں کاہے چاند میرا چھپ جاتا ہے
- کانوں پہ تو ہاتھ نہ رکھو، ہم کیسے سوپائیں گے
- سیاست کچھ ہے، سانست اور کچھ ہے
- جو ہوا وہ ہوتا نہیں تو کیا
- بکھر جائیں گے سارے تار ، نہ جا
- چپکے چپکے بات کرو
- مری آنکھوں میں سپنے بو گیا ہے
- انگلی لہراتے رہتے ہو کیسا لگتا ہے؟
- ندی کی ریت پر میلہ لگا ہے
- امتحان لینا تھا، پہلے کہہ دیا ہوتا
- ای عاشقی ہے کہ سسری کوئی بلا ہے میاں
- یادیں، وعدے سواہا!
- ابھی تو میری زمیں کا بیان باقی ہے
- چاند آنکھوں میں اتر آیا کیوں؟
- حریف عشق پر رحمت خدا کی
- نئی دنیا بسا کے دیکھتے ہیں
- تم بھی کیسا کمال کرتے ہو
- مجھ سے جیتا، ہار گیا وہ
- کبھی کبھی تو کسی فلم جیسی لگتی ہے
- نظر کی سیدھ میں منظر نہیں ہے
- کبھی جو کہہ نہ سکے ہم اسے سنا تم نے
- ہم نے سوچی ہے، تم نے ٹھانی ہے
- ابے تو اُس طرف کیا بار بار دیکھتا ہے
- زیادہ بول ابھی نہ، چپ بے!
- قریب آؤ ذرا، فاصلے ختم کر دو
- Related
مری آنکھوں میں آ
نصیر رحمانی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
سپنوں میں آنے والے اک بار ذرا آنکھوں میں آ
دل میں تو تو آتا ہی ہے، دل کے ارمانوں میں آ
دن کٹتے ہیں دن گننے میں، راتیں ساری آنکھوں میں
یادوں میں آنے والے اک بار ذرا بانہوں میں آ
دل کی کٹیا میں بس تیرے نام کا دیا جلتا ہے
دھول ترے قدموں کی چن لوں، آ میری راہوں میں آ
تیری یادیں میری دھڑکن تیز بہت کر دیتی ہیں
جانے کا رستہ کھو جائے یوں میری راہوں میں آ
٭٭٭
یہ کالی رات کا سایا، یہ تنہائی کا سناٹا
کسی کے ہاتھ کی خوشبو بہت ہی یاد آتی ہے
لبوں پر مسکراہٹ ہے جگر میں تیر پیوستہ
پھٹا جائے ہے سینہ درد سے، جاں مسکراتی ہے
ہمارا حال ہے بے حال وہ کیا خوب سوتے ہیں
ہمارے دل سے ان کی ناک بھی کیا سر ملاتی ہے
٭٭٭
نظر آ کے وہ چھپ جائیں، تو دل سینے میں رک جائے
مریں نہ، کیا کریں ظالم تمہاری یاد جب آئے
تمھیں مرہم کی نہ سوجھے، ہمیں یہ زخم ہے پیارا
بھٹکتے پھر رہے تھے ہم، نصیبوں سے یہ سکھ پائے
ہواؤں کے پروں پر تو کئی دلکش مناظر ہیں
ہمارے دل کے پنجرے میں خموشی مرثیہ گائے
ہمارے دل میں اک سوتا ابلتا ہے محبت کا
بچے رہیو، نہ بہہ جئیو، کوئی سیلاب لہرائے
جو آتا ہے وہ جاتا ہے، جو جاتا ہے نہیں آتا
جو آئے وہ نہ کیوں جائے، جو جائے پھر وہ کیوں آئے
٭٭٭
ساحل پہ آ لگی ہے زمانے گزر گئے
کس نے کہا کہ آپ کی کشتی بھنور میں ہے
جس نے کہا تھا آگے کئی کھائیاں ہیں وہ
میں نے سنا ہے آج تلک رہ گزر میں ہے
دل چیر کے بھی درد ہمارا نہ پاؤ گے
برسوں سے دفن وہ تو خوشی کے کھنڈر میں ہے
٭٭٭
رخ نہ یوں پھیر کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہیں پائیں گے
بس ذرا دیر ٹھہر جاؤ تم
ہم بہت خوب سنور جائیں گے
تیرے کوچے سے گزر جائیں تو
زخم سارے مرے بھر جائیں گے
٭٭٭
جڑوں سے ٹوٹ کر بکھرا نہیں ہوں
ہواؤں سے ابھی نکھرا نہیں ہوں
ابھی آئی نہیں یادوں کی آندھی
خموشی دیکھ کر ٹھہرا نہیں ہوں
وفا کرنے پہ تو مجبور ہو تم
تمہارا پیار ہوں، پہرا نہیں ہوں
٭٭٭
میری راہوں میں تم کب سے کھڑے ہو
ارے چھوٹے میاں تم تو بڑے ہو
ہمیں سونے دو اب خوابوں میں ملنا
عجب دیدار ہو ضد پر اڑے ہو
میری خواہش تو تھی میں آگے جاؤں
مگر تم تو میرے پیچھے پڑے ہو
٭٭٭
محبت میں ضمانت ضبط ہو گی
اگر تشنہ لبی بے ربط ہو گی
قوافی نہ ملے تو کیا کرو گے
بغاوت کی مہر تو ثبت ہو گی
چلو ناآشنا راہوں پہ پیارے
جمع حاصل تو آمد رفت ہو گی
٭٭٭
خرد کی ناک کٹ جائے
جنوں کا کام پٹ جائے
لگے نہ حسن کی بولی
تو شاید دام گھٹ جائے
ہمیشہ ساتھ رکھو دل
کہیں نہ دھیان بٹ جائے
ہوا نہ بیچ میں آئے
جسے چلنا ہو سٹ جائے
دھڑکتے دل کو سنبھالو
کہیں سینہ نہ پھٹ جائے
٭٭٭
رات کی تنہا یادوں میں
دل بہکے گا بھادوں میں
آنا ہو گا، آئیں گے
کون پڑے اب وعدوں میں
جنت کا نقشہ بکتا ہے
چرچا ہے شدادوں میں
٭٭٭
ذرا ٹھہرو، ذرا سا میں سنور لوں
بلائیں تو ذرا سی اپنے سر لوں
تمھیں جینے کو مل جائے بہانہ
تو پھر اک بار کیا سو بار مر لوں
تمہاری یاد میں جاگا ہوا ہوں
اگر آؤ تو آنکھیں بند کر لوں
نگاہوں میں کھلے ہو اشک بن کر
کہو تو دل کے ویرانے میں دھر لوں
گئے دن کے حوالوں کے حوالے
تمھیں دیکھوں کہ بس آنکھوں میں بھر لوں
٭٭٭
تمہاری یاد میں جاگیں کہ سوئیں
ملے نہ چین تو اب جان کھوئیں
ملیں تو مسکرانا بھول جائیں
جدا ہوں تو اکیلے خوب روئیں
اجی! خوابوں میں مل کر تھک گئے ہیں
چلو ملنے کا اب سپنا سنجوئیں
٭٭٭
مری یادوں میں رہتے تھے ہمیشہ
تو اب آنکھوں میں کاہے بس گئے ہو
کہا تھا نا نظر نہ آزمانا
عجب سا درد ہے، کیا ڈس گئے ہو
سنائی دے رہی ہے گونج اب تک
مری رگ رگ میں تم یوں ہنس گئے ہو
٭٭٭
نام پکارو چھپ جاتے ہو
اتنا کاہے تڑپاتے ہو
ہم نے کیا غلطی کر دی جو
کروٹ لے کر سوجاتے ہو
دل کھوئیں یا جان گنوا دیں
مر جائیں کیا، کیا چاہتے ہو
٭٭٭
جینے کی کیا خواہش کی ہے
سانسوں نے فرمائش کی ہے
دل کا عالم ٹھیک نہیں ہے
آنکھوں نے پھر سازش کی ہے
یادوں کی جنت میں آؤ
خلوت نے آرائش کی ہے
٭٭٭
ہمارا ہوش تو لوٹا دے ظالم!
کہ زلفیں ہی ذرا بکھرا دے ظالم!
دوبارہ دیکھنے لائق نہ چھوڑا
نہ آنکھیں دے، پلک جھپکا دے ظالم!
ہواؤں میں کوئی خوشبو نہیں ہے
ذرا آنچل تو اب لہرا دے ظالم!
تمنا کی کوئی منزل نہیں ہے
رسائی کو نہ یوں چونکا دے ظالم!
عبادت کا بھرم ٹوٹے نہ ٹوٹے
کم از کم تو کمر لچکا دے ظالم!
٭٭٭
کسی کو کیوں کوئی کاہے کو چاہے
ہوا سے شمع یوں کب تلک نباہے
ہمارے دل میں کب سے ہو بتاؤ
بتاؤ ہر گھڑی یہ کیوں کراہے
ہمیشہ ’’کچھ نہیں‘‘ کہتے رہے تم
پتا بھی ہے یہ دل بہکا ہے کاہے
٭٭٭
اپنی پرچھائیوں کو سزا دیں گے ہم
تیرے سائے میں خود کو چھپا دیں گے ہم
تم سمٹنے لگے تو بکھر جائیں گے
موت کو پھر گلے سے لگا لیں گے ہم
کچھ کہو نہ تو آنکھیں کھلی رہنے دو
دو گھڑی اور دل کو سنبھالیں گے ہم
٭٭٭
ترا ’’کچھ نہیں‘‘ ہے ہمارا بہت کچھ
تجھے جیت کر ہم نے ہارا بہت کچھ
ترا قہقہہ سوچ کر ہنس پڑے ہم
تری یاد نے تو سنوارا بہت کچھ
تمنا کے شعلے بجھائے تو دریا
نئے راہرو کو کنارا بہت کچھ
٭٭٭
نئی دنیا نیا دستور مانگے
زمیں آکاش کے سائے سے بھاگے
اندھیروں سے کہو اب لوٹ جائیں
اجالوں کی نئی بستی ہے آگے
سرکتا جائے ہے پلو ہوا سے
غباروں کے پرانے خواب جاگے
نئی آنکھوں میں پانی ڈھونڈتا ہوں
ندی کو دشت کہتے لاج لاگے
قلم بھر انگلیاں ہیں لب کٹاری
درازوں میں پڑے ہیں سوئی دھاگے
٭٭٭
شبنم کی بوندوں پر بارش کا دھوکا
حاجت نے الفت بن کر ہم کو روکا
دیو دوانہ تھا ناحق جیتے جی مرا
مر کر بھی جینا تو دیکھو پارو کا
تنہائی نے صبر ہمارا دیکھا تھا
محفل نے انجانے میں ہم کو ٹوکا
پھولوں نے پت جھڑ پہ مقدمہ گلشن نے
موسم لب کی چڑھتی جوانی پر ٹھونکا
پچھوا نے زخموں پر مرہم رکھا تھا
لے کے نمک آیا ہے پروا کا جھونکا
٭٭٭
بے سری بانسری کا کیا کہنا
جلوہٴ سادگی کا کیا کہنا
آئینہ کانپتا سکڑتا ہے
اپنی بے چہرگی کا کیا کہنا
حسن خاکی ہے عشق عرش آرا
بے غرض بے خودی کا کیا کہنا
پانیوں میں شرر اگاتی ہے
آج کی شاعری کا کیا کہنا
دل گیا جاں بھی جانے والی ہے
ہائے تیری ہنسی کا کیا کہنا
٭٭٭
شبد انڈیلے کوئی میں چباؤں انھیں
میری دھرتی پہ گھر ہو کسی اور کا
چھت مرا میری دیواریں میری زمیں
گھر مرا اور در ہو کسی اور کا
دل پہ پتھر رکھے تو کہ پتھر پہ دل
جب ترا ہمسفر ہو کسی اور کا
ہم، ہماری شبیں، دن ہمارے کہاں
غم ہی کیا جب جگر ہو کسی اور کا
ہم کہاں جائیں جا کر مریں ہم کہاں
خشک و تر ہی اگر ہو کسی اور کا
٭٭٭
سامری تھا غضب کا ترا فن
تیرے جلوے خبر میں ابھی ہیں
تو نے زنجیر کیوں کھینچ لی رے
ہمسفر ہم سفر میں ابھی ہیں
آسماں اک یہ زیر زمیں ہے
اور کتنے نظر میں ابھی ہیں
ڈالیاں سوکھ کر پھٹ گئیں تو
سارے پھل کیوں شجر میں ابھی ہیں
کب اتارا تھا کاغذ پہ اس کو
رعشے دست ہنر میں ابھی ہیں
٭٭٭
اشک چھلکے نہ ہوا زرد ہی چہرہ میرا
وقت فرقت تھا ترا پردہ ہی پردہ میرا
ہم جدا ہوکے بھی جاناں نہ جدا تم سے ہوئے
تیری نظروں نے کیا ہی نہیں پیچھا میرا
وہ تو اپنا نہیں اپنا سا لگے ہے پھر بھی
ہے ضرور اس سے کوئی نہ کوئی رشتہ میرا
بے زمینی مری بے چین کیے رہتی ہے
چاند کے بعد ہے مریخ نشانہ میرا
مرد ہے باپ نہیں زن ہے مگر ماں غائب
موت کو زندگی کہتا ہے علاقہ میرا
٭٭٭
عشق کے روگی، حسن کے مارے
دونوں دل کی بازی ہارے
رشتوں میں رکھا ہی کیا ہے
سب کچھ ایک ضرورت پیارے
روح تو نکلے آسانی سے
ایک جھلک دکھلا جا رے
دریا سے کیا لینا دینا
موجوں سے ٹکرائیں کنارے
گھر میں پھیلی ہے تنہائی
کھڑکی بیچاری چاند نہارے
٭٭٭
جو کھڑکی کبھی پوری کھلتی نہیں تھی
اسی گھر کا دروازہ سوتا نہیں ہے
ہوئے خشک آنسو کہ غم دل سے ہارا
کوئی درد آنکھیں بھگوتا نہیں ہے
ملن کی ہے چاہت نہ کرب جدائی
ضرورت کا بندہ ہے روتا نہیں ہے
سنا ہے کہ سرحد کو نزلہ ہوا ہے
مرا یار سپنے سنجوتا نہیں ہے
میں کیوں مانوں وہ بے وفا ہو گیا ہے
ہواؤں کے نخرے وہ ڈھوتا نہیں ہے
٭٭٭
وہ کچھ سمجھے نہ ہم سمجھا ہی پائے
رہی بات آنکھوں ہی آنکھوں میں ہائے
کہو جب آئے وہ باپردہ آئے
کہیں یہ دل ہمارا کھو نہ جائے
ابھی ہم اور جینا چاہتے ہیں
دوا لے جائے کوئی درد لائے
ادب کیسا نہ لب تک جام پہنچے
مزہ تو جب ہے وہ نظریں ملائے
گئے دن غم پہ ہوتے تھے دکھی ہم
خوشی کم ہے کہو وہ دل جلائے
٭٭٭
وہ جو گھر نہیں تھا پسند ہمیں اسے اپنے ہاتھوں جلا دیا
ولے کیا تھا رشتہ کہ راکھ کو نئے گھر کے دل میں سجا دیا
تو نہ تھا تو ہم تری رہ تکے، جو ملا تو خود ہی کھو گئے
نہ تو تو نے کی جفا کوئی، نہ ہی ہم نے تجھ کو دغا دیا
وہی دن ہے یہ، وہی روشنی، وہی رات ہے، وہی تیرگی
ہوا یہ کہ ہم بڑے ہو گئے، گئے بچپنے کو بھلا دیا
نہ سناؤ پریوں کی داستاں نئے یگ میں میری دادی ماں
نئی صبح کھا گئی دن، شبوں کو نگل گیا نیا دیا
کسی رانجھے کا کہا سنو، کسی ہیر کی ادا پڑھو
نئے آدمی کی طرح جیو، گئے دن نے کس کو کیا دیا
٭٭٭
وہ میرے واسطے آدھا یقیں آدھا گماں سا ہے
جو دیکھوں تو وہ ہے پنہاں نہ دیکھوں تو نہاں سا ہے
کوئی کہتا ہے تیکھی مرچ تو پاگل ہوا کوئی
مگر میرے لیے تو وہ کسی سندر سماں سا ہے
عجب سی چیز ہے وہ، وقت کو پرواہ ہے اس کی
وہ سچا واقعہ ہے پھر بھی اچھی داستاں سا ہے
٭٭٭
محبت کی ہے بس اتنی کہانی
تری آنکھوں سے چھلکے میرا پانی
مری دیوانگی کا حال سن کر
ہوئی ہے جانے کیوں دنیا دیوانی
سمٹ آئے گی آنکھوں میں تمنا
چلی جائے گی دو پل میں جوانی
٭٭٭
ہم کہیں ہائے، تم ہلو کہہ دو
جب بلائیں تو بس ’’چلو‘‘ کہہ دو
ہاں نہیں کہہ رہے تو نہ بہتر
دل پہ یہ بات تم نہ لو، کہہ دو
نت نئے نام سے بلاتے ہو
اب کمینہ کہو گے؟ لو کہہ دو
٭٭٭
جانے کب تک چپ بیٹھو گے
رب جانے کتنا اینٹھو گے
وقت سے آگے چلتے جاؤ
پیچھے مڑ کر بھی دیکھو گے
ساری دنیا جان چکی ہے
کب تک تم انجان بنو گے
٭٭٭
’’دیوانوں سا حال ہوا ہے‘‘
دل جی کا جنجال ہوا ہے
اپنی راہوں میں بھٹکے ہیں
جیون مکڑی جال ہوا ہے
سپنوں کا سیلاب آیا ہے
تعبیروں کا کال ہوا ہے
٭٭٭
ہمیں یہ ضد کہ پانی میں لگا دیں آگ، لیکن وہ
ہمارے ہاتھ میں ماچس تھما کر مسکراتا ہے
کبھی سردی کی راتوں میں سلگ اٹھتی ہے تنہائی
کبھی سورج ذرا سا اونگھ کر ماتم مناتا ہے
ہواؤں میں نمی ہے بولتے تھے دھوپ کے ٹکڑے
اجالا شام سے ملتے ہوئے بھی سنسناتا ہے
٭٭٭
کئی چاند قدموں میں آئیں گے جو چلو گے تارو ں کو چھیڑتے
یہ بڑے کمال کا شہر ہے یہاں رات میں بھی جگا کرو
کبھی چھوٹ جاتی ہیں منزلیں کئی سنگ میل سی راہ میں
کبھی پیچھے مڑ کے بھی دیکھ لو ، کبھی الٹے پاؤں چلا کرو
نئے راستوں پہ چلو کبھی، نئی وادیوں میں رکو کبھی
یہ جو عقل ہے اسے سونے دو کبھی دل کی وانی سنا کرو
٭٭٭
کوئی بھولا ہوا قصہ نہ یاد آئے تو اچھا ہے
اندھیری رات میں سایہ نہ لہرائے تو اچھا ہے
تصور کی حدوں میں سب تو تھا، بیکار تم الجھے
نہ سلجھے مسئلہ یہ، اور الجھ جائے تو اچھا ہے
بڑے بھولے ہو چڑیا اڑ گئی تو وار کرتے ہو
تمہارے ہاتھ میں بندوق نہ آئے تو اچھا ہے
٭٭٭
آنکھوں میں سایہ لہرایا
اندھیرے سے ڈر ٹکرایا
جان پہ اتنی بن آئی تھی
آنکھ کھلی تو دل گھبرایا
چوٹ تو برسوں پہلے کی ہے
درد کمینہ اب گہرایا
٭٭٭
نئے موسم میں تم آؤ نہ آؤ
چلے گی پانیوں پہ تب بھی ناؤ
چلو نا بیٹھ کر باتیں کریں گے
ہم اپنی اور تم اپنی سناؤ
تمھیں تو میرے رستے میں کھڑے تھے
چلو رہنے دو باتیں نہ بناؤ
٭٭٭
تجھے آواز دوں تو کچھ نہ بولے
مری جاں اپنے سینے میں سمو لے
الجھ کر سوگئی ہیں دادی اماں
تمنا کھیلتی ہے بال کھولے
بڑا مشکل ہے دیواروں سے لڑنا
پس دیوار جا جی بھر کے رو لے
٭٭٭
کبھی لگا کہ ضروری ہے ہوش میں رہنا
کبھی بہک کے چلے تو ترا خیال آیا
کئی دنوں سے تری یاد بھی نہیں آئی
میں تیرا نام بھی گنگا میں اب کے ڈال آیا
ترے غرور پہ روئیں کہ اپنے دل پہ ہنسیں
جو تیری اور بڑھے تو یہی سوال آیا
٭٭٭
جڑوں سے ٹوٹ کے ظالم اگر مگر میں رہی
نئی دشاؤں کی تدبیر رہ گزر میں رہی
کسی کی یاد نے ہاتھوں سے جھام چھین لیا
کوئی نگاہ ہماری نظر نظر میں رہی
سنا ہے آج کنارے سے جا لگی ہے وہ
جو ایک کشتی بڑی دیر تک بھنور میں رہی
کھڑے رہے وہ بڑی دیر تک کناروں پر
گہر بھری ہوئی سیپی مگر سفر میں رہی
نہ رنگ میں، نہ صدا میں، نہ روپ میں ٹھہری
ہماری روح ہمیشہ کسی کھنڈر میں رہی
٭٭٭
کسی دن درد کا چہرہ نہیں تھا
مرے چہرے پے اک سہرا نہیں تھا
چلی تھی جھوم کر کالی ہوا جب
مرے ہاتھوں میں یہ مہرا نہیں تھا
گئی تو کون جائے روکنے اب
مرا بھی زخم کچھ گہرا نہیں تھا
٭٭٭
اس دل کا کیا کیجئے، ظالم جانے کیوں آ جاتا ہے
گونگا بہرا سا اک رشتہ کیا اتنا تڑپاتا ہے
رشتوں کی بنیاد بدن کیسے ہوسکتی ہے پیارے
دو گز کی دوری سے کاہے حال ہمیں آ جاتا ہے
تیرا میرا، میرا تیرا رشتہ کیا ہوسکتا ہے
میری مسجد سے پہلے تو مندر تیرا آتا ہے
تیری آہٹ سے میرے کانوں کا کیسا رشتہ ہے
آنکھوں میں منظر آتے ہی، دل منہ میں آجاتا ہے
چاہت کی برسات ہوئی، اور اتنی کہ دن رات ہوئی
نفرت کے رشتے کی مٹی یہ ساون دھو جاتا ہے
٭٭٭
زندگی، تیرے نام، جا، کر دی
رک ذرا، عقل نے تو نا کر دی
تو مسیحا نہیں ہے، قاتل ہے
میرے بیمار کی دوا کر دی
آئینے میں بھی تو نظر آئے
ہائے کمبخت تو نے کیا کر دی
٭٭٭
ہمیں ڈر ہے کہیں موسم نہ بدلے
طبیعت پھر کہیں سنبھلے نہ سنبھلے
کہیں سر میں سما جائے نہ سودا
مبادا دل مرے سینے میں مچلے
ہمیں جانے دے اے ظالم تمنا
تو چاہے تو ہماری لاج رکھ لے
٭٭٭
کسی کا درد بڑھ گیا
کسی کو درد اٹھا نہیں
کوئی یہاں سے جا چکا
کسی پہ در کھلا نہیں
ذرا ذرا سا یاد رکھ
وہ آسرا بھلا نہیں
٭٭٭
چلو آگے بڑھو، ہمت دکھاؤ
ہمارے سامنے کشتی جلاؤ
کئی راتوں سے تم سوئے نہیں ہو
تمہارے نام سورج کا الاؤ
قدم بھی ڈگمگانے سے رہے اب
جگر کی آگ ماتھے پر سجاؤ
پیا تو چل دیئے پردیس سکھیو
ہمارے درد کا درماں بتاؤ
بڑے بیاکل ہیں یہ الہڑ کبوتر
انھیں جاؤ ابھی دانہ چگاؤ
سجن تڑکے گئے ہیں چاند لانے
سکھی رے سانجھ تک قصہ سناؤ
٭٭٭
الفت میں کہیں اپنا مکاں بھول گئے تو؟
تم ہم سے ملے، سارا جہاں بھول گئے تو؟
ایسی بھی عداوت نہ کرو پیار سے پیارے
دل چھوڑ کے آئے ہو کہاں، بھول گئے تو؟
تم ہم سے ملو، بات کرو، پاس تو آؤ
ہم کہتے ہیں تم اپنا گماں بھول گئے تو؟
٭٭٭
کھلا رکھو گے دروازہ تو اک دن
بجھا جائے گی دل کی آگ پونم
سنا ہے دل بیچارا چل بسا ہے
بڑی مدت سے اٹھا ہی نہیں غم
مری آنکھوں سے آنسو روٹھ بیٹھے
تری شادی ہے یا خوشیوں کا ماتم
٭٭٭
نصیبوں سے انھیں کچھ یاد آیا
ہمارے واسطے تحفہ بڑا ہے
انھیں جانے دو تاروں کی گلی اب
کوئی چوکھٹ پہ سر پٹکے پڑا ہے
کوئی تھامے ہوئے ہاتھوں میں مالا
کوئی راہوں میں دل رکھے کھڑا ہے
٭٭٭
چوڑی بولے، کنگنا بولے، بولے مانگ سیندوریا
گوری تن من سے سنو تو بتیائے یہ بیریا
کاگا کھونے سے بچائے، سونے نہ دے تنکو
رتیا رتیا نیند نہ آئے ، کیسے آئے سنوریا
آنکھیں موندو، من کو بھولو، بھولو جگ سنسروا
پون چلی جب سینے میں تو سن ہو جائی بجریا
٭٭٭
ابھی جو صرف تصور میں میرے رہتی ہے
خدا کرے کہ وہ تصویر مجھ کو مل جائے
قدم رکھا تھا گلی میں تری تو سوچا تھا
تو نہ سہی تو ترا نقش پا نظر آئے
یہ کیا کہ درد اٹھے تو سیرور ملتا ہے
کوئی جگاڑ بتاؤ کہ دل بدل جائے
٭٭٭
ہم آئیں یا نہ آئیں، یاد رکھنا
ہمارے دوستوں کو شاد رکھنا
بڑی مشکل سے بنتے ہیں گھروندے
تم اپنی پیاس دل کے بعد رکھنا
چکورے کو پکڑ رکھا ہے ہم نے
تم اپنے ہاتھ میں بس چاند رکھنا
٭٭٭
زلفوں کے بادل میں کاہے چاند میرا چھپ جاتا ہے
کاہے آنکھوں میں کوئی سیلاب نہیں آ جاتا ہے
آگ لگی ہے یاں دل میں تو وہ کاہے کو جلتے ہیں
آسمان میں میرے کیوں مہتاب نہیں آ جاتا ہے
میرے من کی بات بھلا اب ان سے کوئی کیسے کہہ دے
کاہے کو یہ بات بتانے خواب نہیں آ جاتا ہے
٭٭٭
کانوں پہ تو ہاتھ نہ رکھو، ہم کیسے سوپائیں گے
کیسے دنیا کی جھنجھٹ میں خود کو ہم بہلائیں گے
تم کہتے ہو، آسانی سے ہم کو تم بسرادو گے
ہم کہتے ہیں، دھیرج رکھو تم کو ہم بسرائیں گے
ایسی ویسی بات کرو نہ، ہم تم کو بتلاتے ہیں
ہنسنا ہی بند کر دو دیکھو ہم یوں ہی مر جائیں گے
٭٭٭
سیاست کچھ ہے، سانست اور کچھ ہے
بلا کچھ، اس پہ آفت اور کچھ ہے
پڑھی بھی ہے کبھی الفت کی پستک
محبت کچھ ہے، چاہت اور کچھ ہے
سمجھ میں آ گئی ہے بات کچھ کچھ
یہ انڈیا کچھ ہے، بھارت اور کچھ ہے
٭٭٭
جو ہوا وہ ہوتا نہیں تو کیا
وہ جو ہوتا بھی تو کہیں تو کیا
جو جنون بن کے گزر گیا
وہ گماں بھی ہوتا یقیں تو کیا
گئے دن، گزر گئے واہمے
ارے ہو گا کوئی حسیں تو کیا
٭٭٭
بکھر جائیں گے سارے تار ، نہ جا
جگر پہ کر کے ایسا وار، نہ جا
کریں کس طرح اظہار تمنا
نہ کر انکار پہ انکار، نہ جا
تو کہہ تو دل بدل لیتے ہیں لیکن
نظر سے دور میرے یار، نہ جا
٭٭٭
چپکے چپکے بات کرو
آنکھیں موندو، رات کرو
سیدھی چالیں سب چلتے ہیں
دو دو جوڑو سات کرو
پانی چھوڑ ہوا پیتے ہو
اگنی کی برسات کرو
٭٭٭
مری آنکھوں میں سپنے بو گیا ہے
کوئی مجھ کو جگا کر سوگیا ہے
اسے پرواہ کب تھی فاصلوں کی
قرینے سے کنارے ہو گیا ہے
مرے ماتھے پہ آ بیٹھا تھا سورج
ابھی بس چاند اس کو دھو گیا ہے
٭٭٭
انگلی لہراتے رہتے ہو کیسا لگتا ہے؟
دن میں بھی تارے گنتے ہو کیسا لگتا ہے؟
سناٹوں سے باتیں کر کے خوش ہو جاتے ہو
خود سے جب جھگڑا کرتے ہو کساا لگتا ہے؟
ملتے ہو تو تم بہکے بہکے سے لگتے ہو
جب میرا رستہ تکتے ہو کیسا لگتا ہے؟
٭٭٭
ندی کی ریت پر میلہ لگا ہے
الاؤ سا کوئی دل جل رہا ہے
کسی کی دسترس میں ہم نہیں ہیں
کوئی کمبخت ہم سے ماورا ہے
کبھی آؤ تو ہم جنت دکھائیں
ہمارے دل سے اک رستہ گیا ہے
٭٭٭
رات ہم نہیں سوئے، جاگتا رہا وہ بھی
امتحان لینا تھا، پہلے کہہ دیا ہوتا
جب کبھی بھی لکھتا ہوں، شبد ٹوٹ جاتے ہیں
نام کم سے کم ظالم ڈھنگ کا رکھ لیا ہوتا
مڑ کے ایک بار اس نے جاتے جاتے دیکھا تھا
کاش ہم نے بھی اس کو جانے نہ دیا ہوتا
٭٭٭
ای عاشقی ہے کہ سسری کوئی بلا ہے میاں
پھر ایک اور پرندے کا پر جلا ہے میاں
نظر پہ قابو، جگر پہ کڑی نظر رکھنا
بڑی دعاؤں سے خطرہ ابھی ٹلا ہے میاں
کہا تھا تم نے صبح تک اتر کے آئے گا
یہاں سے چاند تک اب بھی وہی خلا ہے میاں
٭٭٭
یادیں، وعدے سواہا!
سارے ارادے سواہا!
تو بھی لے اک پنجرہ
مار پرندے سواہا!
آگ تو بجھ جائے گی
راکھ اڑا دے سواہا!
٭٭٭
ابھی تو میری زمیں کا بیان باقی ہے
چلے چلو کہ نگوڑی چڑھان باقی ہے
نصیب والے ہو اُس راہ سے نہیں گزرے
وہیں تو سارے جہاں کی گران باقی ہے
مجھے یقیں ہے کسی روز پھر ملو گے تم
اسی لیے تو مری جاں میں جان باقی ہے
٭٭٭
چاند آنکھوں میں اتر آیا کیوں؟
وہ نہیں اب رہا پرایا، کیوں؟
سر جھکا کے گزر ہی جاتا نا
تو نے اس سے نظر ملایا کیوں؟
تار ہوتے نہیں تو ٹوٹیں کیا
بے غرض رابطے بنایا کیوں؟
٭٭٭
حریف عشق پر رحمت خدا کی
جلن بڑھتی گئی جتنی دعا کی
رقیبوں کو بھی کچھ کچھ ہو رہا ہے
محبت چیز بھی تو ہے بلا کی
ہمیں تو وہ ہمارے واسطے بس
پتا بھی ہے تمھیں قیمت وفا کی
٭٭٭
نئی دنیا بسا کے دیکھتے ہیں
تمھیں اپنا بنا کے دیکھتے ہیں
تمہارے دم سے کتنی روشنی ہے
چلو سورج بجھا کے دیکھتے ہیں
نئے گھر کی اگر قیمت یہی ہے
پرانا گھر جلا کے دیکھتے ہیں
٭٭٭
تم بھی کیسا کمال کرتے ہو
میرے ہوتے ملال کرتے ہو
آؤ، بیٹھو، کہو، سنو صاحب
آتے جاتے سوال کرتے ہو
دل جو کہتا ہے وہ سنو تو سہی
ایویں کاہے بوال کرتے ہو
٭٭٭
مجھ سے جیتا، ہار گیا وہ
چھوڑ کے یہ سنسار گیا وہ
بے جا امیدیں نہ باندھو
سات سمندر پار گیا وہ
رتی بھر بھی عقل نہیں تھی
دل کی بازی مار گیا وہ
٭٭٭
کبھی کبھی تو کسی فلم جیسی لگتی ہے
اماں! یہ زندگی بھی کیسی کیسی لگتی ہے
عجیب سچ ہے، بھلا لگ رہا ہے سننے میں
تری کتھا تو مری شاعری سی لگتی ہے
اسے پتا ہیں دلوں کے سبھی فریب اگر
تو کیا ہوا جو ذرا ایسی ویسی لگتی ہے
٭٭
نظر کی سیدھ میں منظر نہیں ہے
تری تقدیر میں رہبر نہیں ہے
جلا دے خط، بجھا لے آگ دل کی
مرے نیزے پہ تیرا سر نہیں ہے
مٹا دے نقش سارے، جانے والے!
دکھا دے، اب یہ تیرا گھر نہیں ہے
٭٭٭
کبھی جو کہہ نہ سکے ہم اسے سنا تم نے
کہاں کہاں سے گزر کے یہ کیا چنا تم نے
ہمارے من میں مچلتا رہا جو برسوں سے
بتاؤ آج وہی گیت کیوں گنا تم نے
سنا ہے آپ بھی رہتے ہو مایانگری میں
ذرا ہمیں بھی بتاؤ تو کیا بنا تم نے
٭٭٭
ہم نے سوچی ہے، تم نے ٹھانی ہے
فلم جیسی مری کہانی ہے
وقت کی سانس سن رہے ہیں ہم
تیری خوشبو تو لامکانی ہے
آنے والے سے مل لو جی بھر کے
جانے والے نے کس کی مانی ہے
٭٭٭
ابے تو اُس طرف کیا بار بار دیکھتا ہے
پری کو چھوڑ کے ندیا کے پار دیکھتا ہے
دکھانا، ہاتھ میں یہ کیا چھپا رہا ہے تو
بتانا، کیا ہے کہ یوں بے قرار دیکھتا ہے
سنبھل کے بیٹا، سنبھل کے، بہت اجالا ہے
یہاں سنار کے گھر میں کمہار دیکھتا ہے
٭٭٭
زیادہ بول ابھی نہ، چپ بے!
کچھ سننے کا ہے کیا، چپ بے!
شیانا جا ممبئی میں بنیو
یہ دلی ہے بیٹا، چپ بے!
رپٹا کھائے گا، لگتا ہے
دل کی بات کہے گا، چپ بے!
٭٭٭
قریب آؤ ذرا، فاصلے ختم کر دو
جبین وقت پہ اک حادثہ رقم کر دو
بھلا دو سارا جہاں، سارے رشتے ناطے بھی
ذرا سی دیر کو تھوڑا سا یہ کرم کر دو
اٹھے گا درد تو دیوار کانپ اٹھے گی
اٹھو نا جان تمنا، ذرا سا دم کر دو
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید