FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

پیغمبرِ اخلاق

 

اقتباس از رحیق المختوم۔ تصنیف صفی الرحمن مبارک پوری

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر بھی درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جن کے ذریعے الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا .رسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبر و حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺ وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔

اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ آپ ﷺ نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! ….

آپ ﷺ سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے۔

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اس  کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ﷺ اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو۔ ابن عبّاس ؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے، اور آپ ﷺ کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ ﷺ سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے۔ پس رسول ﷺ خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر ؓ کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپﷺ نے نہیں کہہ دیا ہو..شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجائے ۓ آگے ہی بڑھتے گئے۔ پایۂ  ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی ۔ بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے۔ مگر آپ ﷺ میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا۔

حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا ۔ لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول الله ﷺ واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں۔ ( کوئی خطرہ نہیں)۔

آپ ﷺ سب سے زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپﷺ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا۔ اپنی نظریں کسی کے چہرے پر گاڑتے نہ تھے۔ نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ.نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی۔

حیا اور کرم نفس کا عالم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو برو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ ﷺ تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔

آپ ﷺ سب سے زیادہ عادل، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے۔ اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے۔ نبوت سے پہلے آپ ﷺ کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ ﷺ کے پاس فیصلے کے لیے مقدمات لاۓ  جاتے تھے۔

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبیﷺ ) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپﷺ سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے۔ جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے۔ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے۔ آپ ﷺ بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ ﷺ سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروّت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے۔ آپ ﷺ کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا۔ بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے۔ نہ عادتاً فحش گو تھے نہ بہ.تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے۔ نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیتے تھے۔ کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے۔ کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا۔ نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب فرمایا۔ مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے۔ کسی کو فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے۔

ایک مرتبہ آپ ﷺ سفر میں تھے۔ ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا۔ ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی ﷺ نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا۔ ہم آپﷺ کا کام کر دیں گے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کر دو گے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم پر امتیاز حاصل کرو ں کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں۔

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول ﷺ کے اوصاف سنیں۔ ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں:

رسول الله ﷺ نرم خو تھے جفا جو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے۔ کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے۔ کھانے کی برائی نہ کرتے تھے، حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ ﷺ کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا۔ البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے۔ جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرما لیتے۔ آپﷺ کی بیشتر ہنسی تبسم کی صراط میں تھی، مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔

ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے۔ ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے۔ اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے….

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے۔ اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح ۔ معتدل تھے، افراط و تفریط سے دور تھے۔ غافل نہ ہوتے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں۔ ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے۔ حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے۔ جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں بھی آپ ﷺ کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو….

آپ ﷺ اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے۔ یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے۔ جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے۔ سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ ﷺ کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے۔ کوئی کسی ضرورت سے آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ ﷺ اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے۔ کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کیے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ ﷺ کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر قناعت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے۔ یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بدولت بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے۔ بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے۔

آپ ﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خو نہ تھے۔ نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے۔ جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے۔ آپ ﷺ سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آپ ﷺ نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ ﷺ (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ ﷺ تکلم فرماتے تو آپ ﷺ کے ہم نشین یوں سرجھکاۓ کر بیٹھے ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ ﷺ خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے۔ لوگ آپ ﷺ کے پاس گپ بازی نہ کرتے۔ آپ ﷺ کے پاس جب کوئی بولتا تو سب اس کے لیے خاموش رہتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا۔ جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ ﷺ بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے۔ اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ ﷺ صبر کرتے اور فرماتے "جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”۔ آپ ﷺ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے۔

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبیﷺ اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے۔ اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے۔ بلا ضرورت نہ بولتے۔

جو شخص نا مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ ﷺ کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک ، نہ فضول نہ کوتاہ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی۔

حاصل یہ کہ نبی ﷺ بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے۔ آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کو بے نظیر ادب سے نوازا تھا، حتیٰ کہ اس نے خود آپ کی تعریف میں فرمایا:

یقیناً آپ عظیم اخلاق پر ہیں۔

اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ ﷺ کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپ کی محبت بیٹھ گئی اور آپﷺ کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ ﷺ پر دا رفتہ ہو گئے۔ ان ہی خوبیوں کے سبب آپ ﷺ کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ وہ الله کے دین میں فوج در فوج داخل ہو گئی۔

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ ﷺ کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اور شمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ عالم تھا کہ ان کی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

پیغمبرِ اسلامﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیوں کیا جائے؟

سیرت طیّبہ پرفرانسیسی زبان میں ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب

le prophète de l’islamکے اردو ترجمے سے اقتباس

انسانی زندگی دو بڑے شعبوں میں تقسیم ہے۔ ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں ہم۔آہنگی اور توازن پیدا کرنے کے لیے ایسی حیات مبارکہ کی عملی مثال دینا ہو گی جو فانی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو۔

تاریخ نے ایسے لا تعداد بادشاہوں، دانشوروں، ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنماؤں کا ریکارڈ پیش کیا ہے جن کی زندگیاں ہمارے لیے مثال ہوسکتی ہیں۔ پھر حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جائےجو چودہ سوسال قبل وصال فرما گئے اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں….؟ ایک مسلمان کے لیے اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبرو رہنما حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبی آخرالزماں حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت ( سوانح حیات) کی تفصیلات سے آگاہ و آشنا نہیں ہیں ان کے لیے چند حقائق کی یاددہانی اہمیت کی حامل ہے۔

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے خود آپ ﷺ کی اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لائی گئیں۔ دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے وقتاً فوقتاً رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے نازل ہونے والی وحی کو نہ صرف اپنی صحبت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور یہ کہ اس کے نسخے اپنے پیروکاروں تک پہنچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصّوں ( اقتباسات) کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں۔ اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا۔ یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہی کہ رب کائنات کے کلام، قرآن کے تحریر شدہ نسخے محفوظ رکھے جائیں۔ دوسرا یہ کہ انہیں زبانی حفظ کیا جاۓ ۔ یہ دونوں طریقے الله تعالی کے کلام کی اصلی زبان میں مستند و معتبر ترسیل میں ایک دوسرے کے مددگار ثابت ہوئے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے الله تبارک و تعالیٰ نے تمام قوموں کے لیے پیغمبر بھیجے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے چند کے نام بھی لیے ہیں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ جن پیغمبروں کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے نام لیے ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی پیغمبر ہیں۔

نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کسی قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رنگ ونسل اور سماجی و معاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد نیک اعمال و افعال(تقوی) پر ہے۔

انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین، عظیم فاتحین، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں۔ ان تمام اوصاف کا تمام پہلوؤں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا۔ جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے۔ نہ صرف بہت ہی نایاب و کمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاں ہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے۔

اتنا کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ ایک صالح کی حیثیت سے ایک مذہب کے بانی ہیں جو دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جس کا ہمیشہ شاندارو جاندار وجود رہا ہے، جس کا نقصان اس کے روزانہ کے فوائد و ثمرات کے مقابلہ نہ ہونے کہ برابر ہے۔ اپنے ہی بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر انتہائی استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے حوالے سے رحمۃ اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ بے مثال ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک سماجی و معاشرتی منتظم کی حیثیت سے پیغمبر اسلام حضرت محمّد ﷺ نے ایسے ملک میں صفرسے سفر کا آغاز کیا جہاں ہر ایک شخص، ہر دوسرے شخص سے برسروکار تھا۔ سرور کونین حضرت محمد ﷺ کو ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنے میں دس سال لگے جو تیس ٣٠ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور جس میں تمام جزیرہ نمائے عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین اور جنوبی عراق کے علاقے شامل تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اتنی بڑی سلطنت کو اپنے جانشینوں کے لیے ورثہ میں چھوڑا جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد پندرہ سال کے عرصے میں اسے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے تین براعظموں تک وسعت دے دی۔ فاتح کی حیثیت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جنگی وعسکری مہمات میں دونوں جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع کی کل تعداد چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان علاقوں کی رعایا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کامل و اکمل تھی۔ درحقیقت رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جسموں کی بجائے ۓ دلوں پر حکمرانی کی۔ جہاں تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی و کامرانی کا تعلق ہے مکہ مکرمہ میں حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ڈیڑھ لاکھ پیروکاروں کے اجتماع سے خطاب کیا جب کہ ابھی تک مسلمان ہونے والوں کی ایک کثیر تعداد اس تاریخی موقع پر لازما اپنے اپنے گھروں میں بھی ہو گی ( کیونکہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ہے )۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جو قوانین اپنے پیروکاروں کے لیے لاگو کیے اپنے آپ کو بھی قوانین سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ اس کے برعکس جس قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیروکاروں سے عمل کی توقع ہو سکتی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کی، روزے رکھے اور رب تعالیٰ جل شانہ، کی راہ میں خیرات کی۔

آپ ﷺ انصاف پسند تھے اور حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کیساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آتے تھے چاہے وہ امن کا زمانہ یا جنگ کا دور ہو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں یعنی عقائد، روحانی عبادت، اخلاقیات، معاشیات، سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کا تعلق انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل و عمل کی مثال چھوڑی ہے۔ چنانچہ دنیا میں کسی بھی فرد کو حضرت محمد ﷺ کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا بغور اور غیرجانبداری کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے ۔۔

٭٭٭

 

تعمیرِ اخلاق اور سیرتِ نبویﷺ

حکمت الٰہی کا تقاضہ ہے کہ انسان، اجتماعی اور معاشرتی زندگی بسر کرے….؟ اپنے بنی نوع انسان سے استفادہ بھی کرے اور اپنے فکر و نظر کے چراغ روشن کر کے شبستان وجود کو منوّر بھی کرے۔ وہ ماں باپ کا بیٹا بھی ہو اور اپنے بیٹے بیٹیوں کا باپ بھی۔ اس کے خاندان کے افراد اس کے لیے تقویت کا باعث ہوں  ضرورت کے وقت وہ ان کا سہارا بنے حتیٰ کہ اس کے تعلقات کا حلقہ سارے ملک اور ساری قوم کو اپنے احاطہ میں لے لے۔

ان معاشرتی تعلقات کے باعث حقوق و فرائض کا معرض وجود میں آنا نا گزیر ہے۔ معاشرے کا ہر فرد جب تک اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا نہیں کرے گا نیز جب تک اسے اپنے حقوق کی بازیابی کا یقین نہ ہو گا اس وقت تک صحت.مند معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے حقوق و فرائض میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنا اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو قانون کی طاقت سے اس توازن کو برقرار رکھا جائے اور جو شخص بھی اس توازن کو بگاڑنے کا مرتکب ہو اس کی سرکوبی کر دی جائے اور یا اس کی اخلاقی قوتوں کو بیدار کیا جائے اور ایسے خطوط پر ان کی نشو و نما کر دی جائے کہ پھر ہر قسم کے حالات میں وہ راہ اعتدال پر ثابت قدمی سے چلتا رہے۔

قانون کی عمل داری انسانی زندگی کے صرف چند گوشوں تک ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے ایسے گوشے ہیں جہاں قانون کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ نیز ہر کام اگر قانون کے زور سے کرایا جائے تو خلوص و ایثار اور محبت و پیار کے غنچے کھل کر پھول نہیں بن سکیں گے۔

اسلام نے حقوق و فرائض میں توازن پیدا کرنے، پھر اسے برقرار رکھنے کے لیے اور معاشرہ کو ہر قسم کی بےراہروی سے بچانے کے لیے اخلاقی تربیت پر اسی لیے بہت زیادہ توجہ دی ہے۔

علامہ ابن منظور لغت کی مشہور کتاب لسان العرب میں لکھتے ہیں:

(خلق اور خلق کا معنی فطرت اور طبیعت ہے۔ انسان کی باطنی صورت کو مع اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے خلق کہتے ہیں۔ جس طرح اس کی ظاہری شکل صورت کو خلق کہا جاتا ہے)۔

امام غزالیؒ جو دانش ایمانی اور دانش برہانی دونوں سے مالا مال ہیں جو حکمت و فلسفہ کے علاوہ نفسیات انسانی کے بھی ماہر ہیں خلق کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ترجمہ: یعنی خلق، نفس کی اسی راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لیے سوچ بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ (احیاء العلوم)

اس تشریح سے معلوم ہوا کہ وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً صادر ہوتے ہیں یا کسی وقتی جذبہ اور عارضی جوش سے ان کا ظہور ہوتا ہے وہ خواہ کتنے اعلیٰ اور عمدہ ہوں انہیں خُلق نہیں کہا جائے گا۔

خلق کا اطلاق انہی خصائل و عادات پر ہو گا جو پختہ ہوں، جن کی جڑیں قلب و روح میں بہت گہری ہوں۔ کسی ترنگ میں آکر اگر کوئی شخص غریبوں اور محتاجوں کی امداد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دے تو ہم اسے سخی نہیں کہیں گے۔ جو شخص کسی وقتی جوش کے ماتحت اپنے دشمن پر حملہ کر کے اسے مار گرائے اسے ہم شجاع نہیں کہیں گے۔اس لیے نیک اور عمدہ خصال کو بیدار کرنا پھر ان  کو اس طرح پختہ اور استوار کرنا کہ وہ ان سے مطلوبہ اعمال کا ظہور اس طرح بے تکلفی سے ہو جس طرح چشمہ سے پانی ابلتا ہے، یا آنکھ اپنے گرد و پیش کو دیکھتی ہے، یا کان آواز سنتے ہیں۔ یہ کیفیت افراد و اقوام کی صحت مند ترقی کے لیے جس قدر اہم اور ضروری ہے اسی قدر مشکل اور کٹھن بھی ہے۔ اسی کٹھن اور خطرناک مہم کو سر کرنے کے لیے حکماء و فلاسفہ نے بڑی کوششیں کیں لیکن ان کے باہمی اختلافات اور ان کی نظریاتی کشمکش نے ان کی محنت کو بے ثمر کر دیا۔ وہ یہ طے نہ کر سکے کہ خیر و شر کا معیار کیا ہے….؟ افلاطون استاد ہے اور ارسطو شاگرد۔ اقلیم دانش و حکمت کے دونوں تاجر ہیں، دونوں کی عبقریت شک و شبہ سے بالاتر ہے، دونوں کا زمانہ بھی ایک ہے لیکن یہ دو بھی متفقہ طور پر فیصلہ نہ کرسکے کہ خیر و شر کا معیار کیا ہے….؟ استاد مثل علیا اور غیر محسوس جہاں کے طواف میں سرگرداں ہے اور اس کا شاگرد.ارسطو، عالم محسوسات سے باہر قلم رکھنا پسند نہیں کرتا۔

یہ ذہنی خلفشار صرف اسی زمانہ کی خصوصیت نہیں جبکہ حکمت و فلسفہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھے بلکہ آج بھی جبکہ فکر انسانی کی یلغار سے خلاء میں کہرام برپا ہے۔ بے یقینی کی وہی کیفیت ہے۔ ہر برٹ سپنسر، جان لوک اور ہیگل وغیرہ جن فلسفیوں نے علم اخلاق کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی گنجلک تحریریں پڑھ کر آپ کا سر چکرانے لگے گا۔ انہوں نے روحوں کو اضطراب، دلوں کو بے چینی اور عقلوں کو بے یقینی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے کسی ایسی راہ کی نشاندہی نہیں کی جو مسافر کو منزل تک پہنچا دے۔ترجمان حقیقت حضرت اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔

    ہیگل کا صدف گہر سے خالی

    ہے اس کا طلسم سب خیالی

    انجام خود ہے  بے حضوری

    ہے فلسفۂ زندگی سے دوری

    افکار کے نغمہ ہائے بے صورت

    ہیں ذوق عمل کے واسطے موت

ان کے علاوہ وہ دوسرا گروہ جس نے اپنی قوم کے اخلاق کو درست کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں وہ انبیاء کرام کا گروہ تھا۔ ان کی باتیں سادہ اور واضح تھیں۔ ان کی تعلیمات میں الجھاؤ نہیں تھا۔ ان کے ہاں پیچیدہ علمی اصطلاحات کی بھرمار نہیں تھی۔ بلکہ ان کے ارشادات عام فہم اور دلوں میں گھر کر جانے والے تھے۔ انہوں نے خیر و شر کا معیار لذت و الم، نفس پرستی یا نفس.کشی کو قرار نہیں دیا۔بلکہ اس جدوجہد کی غرض و غایت رضائے الٰہی کو قرار دے کر تمام فکری الجھنوں کو ختم کر دیا۔اس سے بھی زیادہ جس چیز نے گروہ انبیاء کی تعلیمات کو قبول عام بخشا اور ان کے لیے دلوں کے دریچے کھول دیے، وہ ان نقوش قدسیہ کے قول و عمل کی ہم آہنگی اور یکسانیت تھی۔

وہ دوسروں کو جس کام کے کرنے کا حکم دیتے پہلے خود اس پر کاربند ہوتے۔ مزید یہ کہ ان کے یہ اعمال کسی ذاتی غرض اور منفعت سے وابستہ نہ تھے۔

انبیاء سابقین کا دائرہ کار محدود تھا۔ ان کی نصیحت کا مقصد کسی ایک قوم کی یا کسی ایک ملک کے باشندوں کی اصلاح تھا اور وہ بھی محدود وقت تک کے لیے۔ بارگاہ الٰہی سے یہ شرف اور یہ اعزاز فقط عبد مکرم، رسول معظم محمد رسول اللہﷺ کو ارزانی ہوا کہ آپؐ کی رسالت ہر اسود و احمر، عربی و عجمی، شرقی و غربی کے لیے تھی۔ ارشاد الٰہی ہے۔ وما ارسلنک الا کآفتہ للناس بشیرا و نذیرا۔ ہم نے آپ کو تمام اولاد آدم کی طرف بشیر  و نذیر بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں آپ کا آفتابِ نبوت تا قیامت کے لیے طلوع ہوا ہے۔

اصلاح اخلاق کا فریضہ جو ہر نبی نے اپنے مقام اور حیثیت کے مطابق انجام دیا اس مقصد کی تکمیل کے لیے حضورﷺ نے اپنے آپ کو وقف فرمایا۔ ارشاد ہے:

بعثت لاتمم مکارم الاخلاق

مجھے اس لیے مبعوث کیا گیا ہے کہ میں  مکارم اخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دوں۔ تکمیل اخلاق کا یہ فریضہ حضور سرور عالمﷺ نے جس حسن و خوبی سے انجام دیا اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

اخلاقی تعلیم کی جامعیت

سابق انبیاء کرام کی تعلیمات جو ہم تک پہنچی ہیں ان سے صرف زندگی کے چند گوشوں میں راہنمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام مہجور و متروک گوشوں کو نور ہدایت سے منور کرنے کے لیے اپنے حبیب  مکرمﷺ کو رحمت اللعالمین کی خلعت زیبا عطا فرما کر اپنی مخلوق کی چارہ گری کے لیے مبعوث فرمایا۔

حضورﷺ کی سیرت طیبہ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے، ہمیں وہاں زندگی کی بوقلمونیوں کا ایک حسین و جمیل مرقع نظر آتا ہے۔ وہاں جنگ کی شعلہ سامانیاں بھی ہیں اور صلح کی رافت و رحمت بھی، دشمن نفرت کے انگارے بھی برساتے ہیں  اور عقیدت مند اپنی محبت و مؤدت کے رنگین پھول بھی نچھاور کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے محبوب خدا کو حلقہ یاخداں میں بھی دیکھا ہے اور حملہ.آوروں کے نرغہ میں بھی۔ ہم نے ان کی کاروباری مصروفیتوں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور غار حرا کی خلوتوں میں ان کے سوز و گداز کا جائزہ بھی لیا ہے۔ ہم نے انہیں اپنے وطن سے بظاہر انتہائی بے بسی اور بے کسی میں ہجرت کرتے بھی دیکھا ہے اور پھر چند سال بعد اسی شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل  ہونے کا منظر بھی ملاحظہ کیا ہے۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ ان کے برتاؤ کا ریکارڈ بھی ہمارے سامنے ہے اور اپنے جاں نثار اور وفادار شعار ساتھیوں سے حسن سلوک کی تفصیلات بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔ الغرض زندگی کے وسیع و عریض میدان کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں حبیب کبریاﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ کے حسین و جمیل نقوش نہ چھوڑے ہوں۔ یہ جامعیت ، یہ ہمہ گیری اسوۂ محمدیؐ کے علاوہ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر آدمی اسی آب.زلال سے اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔ اس دار شفا میں انسانیت کے ظاہری و باطنی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی ہر قسم کے ناقابل علاج روگوں کے لیے اکسیر موجود ہے۔

                   انداز تعلیم

قرآنی آیات میں اخلاق حسنہ کی اہمیت اور افادیت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے کوئی سلیم الطبع متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضور نبی کریمﷺ کے وہ ارشادات جن میں اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ وہ بھی بڑے دلنشین اور روح پرور ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ سرور کائنات علیہ التحیات و التسلیمات نماز میں اکثر یہ دعا مانگا کرتے:

ترجمہ: اے اللہ بہترین اخلاق کی طرف میری راہنمائی فرما تیرے سوا بہترین اخلاق کی طرف کوئی راہنمائی نہیں کرسکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ تو ہی برے اخلاق کو مجھ سے دور کرسکتا ہے۔

یہ اس پاک ہستی کی دعا ہے جس کے اخلاق حسنہ کی گواہی عالم الغیب و الشہادہ نے یوں دی ہے۔ وانک لعلی خلق عظیم۔ یہ اس پیکر حمیدہ کی دعا ہے جس کا دامن ہر قسم کی نازیبا حرکات کے داغ سے پاک ہے۔ ایسی ہستی جب عجز و نیاز سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ التجا کرتی ہو گی تو خود سوچیے صحابہ کرام ؓ کے دلوں پر اخلاق حسنہ کی اہمیت کے نقوش کس طرح ثبت ہوتے ہوں گے۔

اہل ایمان کے نزدیک ایمان سے بڑھ کر کوئی قیمتی دولت نہیں۔ حضورﷺ نے اپنے ماننے والوں کو جب یہ ارشاد فرمایا ہو گا تو اخلاق کریمہ کی اہمیت ان کی نگاہوں میں کتنی بڑھ گئی ہو گی۔ ارشاد نبویؐ ہے:

اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقاً

ترجمہ: جس شخص کا خلق بہترین ہو گا تمام مومنین میں سے اس کا ایمان اعلیٰ اور اکمل ہو گا۔

ہر نیک دل انسان عبادت الٰہی  میں لذت و سرور محسوس کرتا ہے۔ ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص کثرت عبادت پر ناز کرنے لگے اور اخلاق حسنہ کی اہمیت اس کی نگاہوں میں کم ہو جائے۔ اس افتاد سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے محبوب نے تنبیہ فرما دی:

ان الرجل لیدرک بحسن خلقہ درجتہ قائم الیل وصائم النھار

انسان اپنے اخلاق کے باعث اس درجہ پر فائز ہو جاتا ہے جو رات بھر ذکر الٰہی میں کھڑے رہنے والے اور عمر بھر روزہ رکھنے والے کو نصیب ہوتا ہے۔ کون بندہ ہے جس کے دل میں اپنے پروردگار کی رضا اور محبت کی تمنا چٹکیاں نہ لے رہی ہو۔ اس کا طریقہ بتا دیا۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہوتا ہے جس کے اخلاق پسندیدہ ہوں۔ ہر مومن کی یہ خواہش ہو گی کہ اس کے ہادی و مرشد ﷺ کی اس پر نگاہ لطف و کرم ہو اور قیامت کے روز اسے اپنے آقا کے قرب میں جگہ ملے۔ چنانچہ اپنے مشتاقان جمال کو یہ فرما کر بشارت دی۔

ترجمہ: تم میں سے مجھے سب سے پیارا اور آخرت میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو خوش.خلق ہے اور تم میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور روز قیامت مجھ سے دور وہ شخص ہو گا جو بد خلق ہے۔

بے شمار ارشادات نبویؐ میں سے یہ چند اقوال پیش خدمت ہیں۔ اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تڑپ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ موثر اور دلنشین اسلو ب کوئی کہاں سے لائے گا۔

جن چیزوں کو اخلاق حسنہ کہا گیا ہے وہ کیا ہیں….؟

انسانی معاشرہ کا فرد ہوتے ہوئے معاشرہ کے دوسرے افراد کے جو حقوق انسان پر واجب ہیں ان کو حسن و خوبی سے انجام دینا ہی حسن خلق کہلاتا ہے۔ ماں باپ، بیوی، بچے، پڑوسی، یتیم، بیوہ، سائل، بیمار، مسافر، مجاہد، سب کے ساتھ مروت و احسان کرنے کی تاکید حضرت محمد رسول اللہﷺ کی مقدس ارشادات نبوت میں موجود ہے۔ یہ تعلیم اتنی جامع اور ہمہ گیر ہے کہ انسان تو انسان حیوانات و نباتات بھی اس میں داخل ہیں۔ پھل دار درختوں کو کاٹنے، لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو ویران کرنے، بستے ہوئے گھروں کو اجاڑنے، ان سب چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔ اسلوب تخاطب اتنا شیرین ہے کہ اس کی مٹھاس روح کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی ہے۔

ارشاد نبویؐ ہے:

بیوہ اور غریب کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے اوراس عابد کی مانند ہے جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نماز پڑھتا ہے۔(بخاری)

‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں ساتھ ساتھ ہوں گے (جس طرح ہاتھ کی یہ دو انگلیاں)۔ (بخاری)

                   معلم کی شخصیت

بے شک معلم اخلاق کی تعلیمات ہمہ گیر اور عالمگیر ہیں اور اس کا اسلوب بیان بھی دلنشین اور لذیذ ہے۔ لیکن معلم کریمﷺ کی شخصیت میں جو دلربائیاں اور رعنائیاں ہیں وہ قلب و نظر کو مسحور کر رہی ہیں۔ اس کی ایک جھلک دیکھ کر دل دیوانہ اور روح سرشر ہو جاتی ہے۔

کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جس پر خود عمل کر کے نہ دکھایا ہو۔ لوگوں کو سچ بولنے اور امانت میں دیانت کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کی تو خود راست گفتاری اور امانت داری کا وہ بلند معیار پیش کیا کہ خون کے پیاسے بھی صادق اور امین کہنے پر مجبور  ہو گئے۔ لوگوں کو وعدہ پورا کرنے کی تلقین کی تو خود اس پر یوں کاربند ہوئے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے۔ جب قیصر روم نے ابو سفیان کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ حضورﷺ کے اخلاق و کردار کے بارے میں دریافت کرے، ابو سفیان اس وقت اسلام اور رسول اللہ ﷺ کا بدترین دشمن تھا، لیکن اس کو بھی مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ آپﷺ کے اخلاق بڑے بلند ہیں، وہ قول کے پکے اور بات کے سچے ہیں۔

مسجد نبویؐ کی تعمیر کا وقت آتا ہے۔ صحابہ کرامؓ اس کی بنیادیں کھود رہے ہیں۔ پتھر اور گارا اٹھا اٹھا کر لا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا حبیب بھی ان کے ساتھ کام میں برابر کا شریک ہے۔ غزوہ احزاب  کے موقع پر جب عرب کے سارے مشرک قبائل نے مدینہ منورہ پر دھاوا بول دیا، اسلام کے اس مرکز کے دفاع کے لیے خندق کھودنے کا منصوبہ طے ہوا، صحابہ کرامؓ کی طرح حضورﷺ ہاتھ میں کدال لیے خود بھی خندق کھودنے میں مصروف ہیں۔

لشکر اسلام میدان بدر کی طرف کوچ کر رہا ہے۔ تین تین سپاہیوں کے لیے ایک سواری کا انتظام ہو سکا ہے۔ حضورﷺ نے بھی اپنی سواری میں سیدنا علیؓ اور مرثدؓ بن ابی مرثد کو شریک کر لیا ہے۔ مدینہ طیبہ سے جب قدسیوں کا یہ لشکر نکلتا ہے تو حضورﷺ اونٹنی پر سوار ہیں، مقررہ مسافت طے کرنے کے بعد حضورﷺ اتر جاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان میں سے ایک سوار ہو جائے۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ ان کی باری میں بھی حضورﷺ ہی سوا رہیں اس سے انہیں روحانی مسرت ہو گی۔ حضورؐ جانتے ہیں کہ یہ پیش کش صدق دل سے کی جا رہی ہے لیکن حضورؐ کو اچھی طرح علم ہے کہ حضورﷺ کا مقام اقدار عالیہ کے معلم اور استاد کا ہے۔ حضورؐ ان کی اس مخلصانہ پیش کش کو قبول نہیں فرماتے بلکہ انہیں یوں جواب دیتے ہیں۔

ما انتما باقوی منیِ ولا انا اغنیٰ عنکما من الاجر

کہ نہ تم مجھ سے طاقتور ہو اور نہ یہ بات ہے کہ تمہیں مجھ سے زیادہ اجر و ثواب کی ضرورت ہے۔(مسند احمد)

یہی وہ اسوۂ حسنہ ہے جس نے سب کے دلوں کو موہ لیا، یہی وہ اخلاق کریمانہ تھے جنہوں نے سب کو حضورﷺ کی محبت کا اسیر بنا لیا۔ یہی وہ سیرت کا بلند معیار تھا جس نے عرب جیسی وحشی درندہ صفت اور درشت قوم کو کاروان انسانیت کا امام بنا دیا۔

اس معلّم اخلاق کی تربیت سے وہ اُمت تیار ہوئی جس کے بارے میں خالق دو جہاں نے فرمایا:

کنتم خیرامتہ اُخرجت للناس

٭٭٭


نبی کریم ﷺ غیر مسلموں کی نظر میں

مقالات سیرت شائع کردہ ادارہ تحقیقات اسلامی میں شامل اشاعت ایک اور مضمون بعنوان ‘‘نبی کریم ﷺ غیر مسلموں کی نظر میں ’’ مرتبہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔

یہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی عظمت ہے کہ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی آپؐ کی تعریف میں رطب.اللسان ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں نعت کی شکل میں نبی کریمؐ کو جو خراجہائے عقیدت پیش کیے گئے ان میں ہندو شعراء کا حصہ کافی نمایاں ہے۔ ان نعتوں میں رسول اللۂ سے جس عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے وہ آپؐ کی ذات کی ہمہ گیری کا واضح ثبوت ہے۔ مثال کے طور پر ہم جناب گوپی ناتھ امن کے چند نعتیہ اشعار پیش کرتے ہیں۔

شفیع امم رحمت عالمیں ہے

فقط وہ متاع مسلماں نہیں ہے

عقیدت کے اس اظہار میں جناب گوپی ناتھ امن تنہا نہیں۔ ہندو نعت گو حضرات میں تلوک چند محروم، لالہ دھرم پال صاحب گپتا وفا، لالہ لال چند فلک، رگھو پتی سہائے فراق گورکھ پوری، امر چند قیس جالندھری، پربھو دیال عاشق لکھنوی، چمن لال چمن لاہوری اور ہری چند اختر جیسے مشہور شعراء کے نام آتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند تو صدیوں سے اسلام کا وطن رہا ہے۔ یہاں کے غیر  مسلموں کو تو اسلام کا بہت قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن مغربی یورپ میں اسلام اس قدر مانوس نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ تاریخی حالات بھی ایسےرہے کہ یورپ کے مذہبی مفاد پرست طبقے نے اسلام کے بارے میں نہ صرف لوگوں کو ناواقف رکھا بلکہ یورپ کے عوام میں نبی کریمؐ کے خلاف بغض و عناد کی جڑیں گہری کرنے میں پورا زور صرف کر دیا۔ اس طبقے نے رسول اللۂ کی تصویر بالکل خلاف حقیقت اور گھناؤنے طریقے سے پیش کی۔ تاہم ن کی کوششیں اس وقت تک کامیاب رہیں۔ جب تک یورپ میں علم کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ جب علم کلیساؤں  کے تنگ و تاریک حجروں اور تنگ نظر عیسائی علماء کے ہاتھوں سے آزاد ہوا تو یورپ کے لوگوں میں بھی رسول اللۂ کی تاریخ کا بے لاگ مطالعہ کرنے کا شوق جاگ اٹھا۔رسول اللۂ کی پر شکوہ شخصیت، آپؐ کا خلق عظیم اور آپؐ کی سیاسی اور تاریخی عظمت ایسے حقائق ہیں جن کا علم ہونے پر کوئی غیر مسلم بھی اپنے تعصبات میں قید نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں سیاسی اور مذہبی مفاد پرستوں سے ہٹ کر علمی سطح پر مغربی یورپ کا رابطہ اسلام سے ہوا تو رسول اللۂ کی عظمت کے اعتراف، آپؐ کی ذات سے عقیدت کے اظہار کے جذبے نے یہاں کے علماء کی تحریروں کو بھی تعصبات کی زنجیروں سے رہائی دلائی۔

ایسی تحریروں کا آغاز فرانسیسی مصنف بولیں دی ای.یے، کی تصنیف لاوی وماہومیت (حیات محمدؐ) سے ہوتا ہے۔ جو 1830ء میں شائع ہوئی۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت کا رلائل کے ایک مقالے ‘‘دی ہیرو از پرافٹ’’ کو ملی جو 1841ء میں شائع ہوا۔ اس زمانے کی ایک عالمانہ کتاب باسورتھ سمتھ کی محمڈ اینڈ محمڈنزم کو سمجھا جاتا ہے جو 1873ء میں لندن سے چھپی۔

یورپی مؤرخین کے لیے تعصبات سے قطعی  آزاد ہونا ابھی ناممکن تھا کیونکہ ان میں سے اکثر عربی زبان سے اچھی طرح آگاہ نہیں تھے اور اس طرح اصلی ماخذ تک ان کی دسترس نہیں تھی جو لوگ عربی زبان جانتے تھے اور اسلامی تاریخ کے اصلی ماخذ سے استفادہ کرسکتے تھے۔ وہ اپنی علمی بے تعصبی کو مذہبی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔   ان  میں سے ایک واضح مثال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم ولیم میور کی ہے۔ جس نے حضورؐ کی سوانح حیات کو اسی طرح مسخ کر کے پیش کیا جس کا خاطرخواہ محاکمہ سرسید احمد خان نے خطبات احمدیہ میں کیا ہے۔یہ تعصبات ابھی تک ختم نہیں ہوئے لیکن علمی حلقوں میں ان کی موجودگی کا احساس ضرور جاگ اٹھا ہے۔ برنارڈ لیوس انہی تعصبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘مغرب کے مذہبی تعصب کے آخری اثرات بعض جدید مصنفین کے ہاں اب بھی ملتے ہیں جو ان کے عالمانہ طرز تحقیق کے دندانہ دار حواشی کی کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھے رہتے ہیں۔

رائسٹن پائک نے بھی اپنے ایک حالیہ مقالے میں اعتراف کیا ہے۔ ‘‘غالباً دنیا میں سب سے زیادہ جو ہستی بے بنیاد اتہامات کا نشانہ  بنی وہ حضرت محمدؐ ہیں۔’’

تاہم وہ مغربی مصنفین جنہوں نے مذہبی تعصب کو چھوڑ کر رسول اللۂ کا علمی سطح پر مطالعہ کیا ہے وہ آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں مذہبی تعصب کی گرفت کا فی کمزور ہوئی ہے اور رسول.اللۂ کی شخصیت کے بہت سے غیر جانب دار مطالعے سامنے آئے ہیں۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مستشرقین کے ہاں رسول اللۂ کی عظمت کا جو اعتراف ملتا ہے اس کے اقتباسات تو پاک و ہند کے علمی رسائل میں اکثر و بیشتر شائع ہوتے رہے ہیں اور اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی موجود ہیں۔ تاہم بیسویں صدی میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں لکھا گیا۔ حال کے مستشرقین کی تمام تحریروں کا جائزہ تو ناممکن ہے تاہم ذیل میں ان کی تحریروں سے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔

پروفیسر لیونارڈ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘(حضرت) محمدؐ سے بڑھ کر کوئی  مخلص اور سچا آدمی پیدا نہیں ہوا۔ آپؐ ذکاوت اور اخلاص کے پیکر تھے۔’’

ہملٹن گب نے آپؐ کی پر اثر شخصیت اور اخلاقی برتری کا اعتراف اس طرح کیا ہے ‘‘ہمارے نزدیک یہ بات محتاج بیان نہیں کہ (حضرت) محمدؐ کے صحابہؓ نے اپنے ارادے اور جذبات جس طرح (حضرت) محمدؐ کی مرضی کے تابع کر دیے تھے اس کی تمام تر وجہ آپؐ کی شخصیت کا اثر تھا۔ اگر یہ اثر نہ ہوتا تو وہ رسول اللۂ کے دعاوی کو کبھی اہمیت نہ دیتے۔ آپؐ کی دینی تعلیمات سے بڑھ کر آپؐ کی اخلاقی عظمت تھی جس نے اہل مدینہ کو انصار بنا دیا۔’’

اقوام مشرق کے افکار و عادات میں رسول اللۂ کی سیرت اور تعلیمات نے جو حیرت انگیز انقلاب برپا کیا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے باسورتھ سمتھ لکھتے ہیں۔

‘‘صبح دم مؤذن کی آواز الصلوۃ خیر من النوم، الصلوۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے) ہر روز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جہاں جہاں بھی رسول عربیؐ کا پیغام پہنچا اس کا مشرق کی روایتی سستی اور آرام پرستی پر گہرا اثر پڑا۔  یہ دعوت آج بھی گواہی دیتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللۂ کو دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام پر اور انسان کی آزادی.فکر پر کتنا گہرا یقین تھا۔

منٹگمری واٹ نے آپؐ کی سیرت کے اس پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ‘‘حضرت محمدؐ کی سوانح حیات اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں۔ اتنا ہی آپؐ کی کامیابیوں کی وسعت پر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ آپ کی حکمت سیاست اور انتظامی صلاحیتوں کے طفیل ہے کہ انسانیت کی تاریخ کو ایک اہم باب نصیب ہوا۔

ولیم میکنیل نے حال میں دنیا کی تاریخ لکھی ہے جو یورپ اور امریکہ کے علمی حلقوں میں علمی تحقیق کے بلند معیار کی وجہ سے بےحد مقبول ہوئی ہے۔ وہ رسول اللۂ کے بارے میں لکھتے ہیں:

‘‘آپؐ سے پہلے یا بعد میں کسی بھی نبی کو کبھی اتنی جلد اور اتنی عظیم کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں نہ ہی کسی ایک انسان کے کارناموں سے دنیا کی تاریخ کا رخ اتنی تیز رفتاری سے اور اتنے انقلابی پیمانے پر بدلا۔ اپنے الہامی کلام، اپنی مثالی ذاتی زندگی اور انتظامی ڈھانچہ کے قیام سے (حضرت) محمدؐ نے ایک ممتاز نئے طرز زندگی کی بنیاد ڈالی۔ جس نے دو صدیوں کے مختصر عرصے میں نسل انسانی کی کثیر تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آج بھی بنی نوع انسانی کا ساتواں حصہ ان کا اطاعت گزار اور نام لیوا ہے۔’’

اکثر مستشرقین نے رسول اللۂ کی کامیابیوں کو تاریخی اسباب سے منسوب کرتے ہوئے آپؐ کی ذات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ سویڈن کے ایک مستشرق ٹور آندرے نے اس نقطہ ٔنظر  کے برعکس آپ کی ذاتی کامیابیوں کو تحقیق کا موضوع بنایا۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘نبوت محمدیؐ کے ابتدائی سالوں میں جب قبول اسلام یہودیوں کے نزدیک راستے کا پتھر تھا اور مشرکین عرب کے نزدیک محض حماقت تھی۔ جن لوگوں نے رسول اللۂ کی دعوت پر لبیک کہا ان میں بے حد اہم اور باصلاحیت افراد بھی تھے۔ یہ لوگ اخلاقی احساس ذمہ داری اور صحت مند شعور حقیقت کے مالک تھے۔

یہ تھے چند اقتباسات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی رسول اللۂ کی سیرت کا بے تعصبی سے مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگتا ہے۔

وہ دن دور نہیں جب مذہب و ملت کی تقسیموں اور تفریقوں سے بلند ہو کر ساری دنیا حضرت محمدؐ کی رسالت کو کسی ایک مذہب یا علاقے سے مخصوص کرنے کی بجائے ساری انسانیت کے رسول کی حیثیت سےآپؐ کے اسوۂ.حسنہ کا مطالعہ کرے گی اور اس عظیم پیغام کی طرف متوجہ ہو گی۔ جس میں ساری انسانیت کی فلاح ہے۔

٭٭٭


رسول اللہﷺ کا اندازِ تعلیم و تربیّت

ڈاکٹر شرف الدین ساحل

اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات ہیں۔ اس نے اس ارضی کائنات میں ایک آبرومندانہ زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو لاتعداد نعمتیں عطا کیں لیکن انسان اس کی رنگ رلیوں میں غرق ہو کر ہمیشہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھولتا رہا۔ ایسے عالم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایک عظیم احسان یہ بھی کیا کہ ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے کتاب اور صحیفے نازل کرتا رہا اور درس وتدریس کے ذریعے ان کو سمجھانے کے لیے رسول بھی بھیجتا رہا تاکہ لوگ اپنا فراموش کردہ حقیقی سبق یاد کرسکیں، ہدایت یافتہ ہوسکیں اور ظلمت سے روشنی کی طرف آ سکیں۔

اس سچائی کی روشنی میں یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ آسمانی کتابیں نصابِ الٰہی اور ان کی تعلیم دینے والے انبیا و رسل معلمین ہیں۔

جب دنیا سچائی اور صداقت سے مسلسل روگردانی کرتی رہی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل کی دُنیوی و اخروی فلاح و سعادت کے لیے حق تعالیٰ سے تعمیرِ کعبہ کے وقت یہدعامانگی :

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ (البقرہ:129)

ترجمہ: ‘‘اے ہمارے پروردگار! (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر دے کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو۔ وہ تیری آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔ کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔ اور (اپنی پیغمبرانہ زینت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے۔’’

حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی دعا قبول کر لی گئی ۔ اس دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد  حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوئے۔ قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 164 اور سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے ، جو الفاظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں موجود ہیں۔ یہ اس حقیقت کی شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺ کی بعثت میں دعائے ابراہیمی شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کہا کرتے تھے کہ ’انا دعوۃ ابراھیم‘ (میں ابراہیم کی دعا ہوں) سورہ ٔ آل عمران کی مذکورہ ایت میں ارشاد ہوتا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰ یَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ (آل عمران:164)

ترجمہ: ‘‘بلاشبہ یہ اللہ کا مومنوں پر بڑا ہی احسان تھا کہ اس نے ایک رسول ان میں بھیج دیا جو انہی میں سے ہے۔ وہ اللہ کی آیتیں سناتاہے۔ ہر طرح کی برائیوں سے پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (اس نے ہدایت کی راہ ان پر کھول دی) حالانکہ اس سے پہلے وہ گمراہی میں مبتلا تھے۔’’

اس حقیقت کو اس طرح منکشف کیا گیا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ        (الجمعہ:2)

آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت کی افادیت و اہمیت کو واضح کرتے ہوئے تقریباً یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں:

کَمَآ أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْْکُمْ اٰیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ (البقرہ:151)

ترجمہ: ‘‘ہم نے تم میں سے ایک  ہستی  کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا۔ وہ ہماری آیتیں تمھیں سناتاہے (اپنی پیغمبرانہ تربیت) سے تمہارے دلوں کو صاف کرتا ہے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ باتیں سکھلاتاہے جن سے تم یکسر ناآشنا تھے۔’’

ان آیاتِ بینات سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تعلیم و تربیت صاف ظاہر ہے۔ آپﷺ امت کے سامنے کلامِ الٰہی کی تلاوت فرماتے، اس کی شرح و ترجمانی فرماتے، امت کو حکمت و دانائی سے تلقین کرتے، احکام ومسائل اور آداب و اخلاق سکھاتے، ظاہری نجاستوں سے پاک کرتے اور باطن کو کفر و شرک ، فاسد اعتقادات، تکبر وحسد بغض اور حب دنیا وغیرہ سے منزہ و مصفّا کرتے۔ گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلم اعظم کی بھی تھی اور مصلح اعظم کی بھی۔ آپﷺ نے  خود فرمایا ہے  : ’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ اخلاقی اچھائیوں کو تمام و کمال تک پہنچاؤں۔‘ آپﷺ کی تعلیم و تربیت وحی الٰہی کے عین مطابق اور حکم الٰہی کے دائرے میں تھی۔ توحید، رسالت، آخرت، خلافتِ ارض، اخوت ومساوات، وحدتِ بنی آدم، آزادی، عقیدہ اور کائنات پر غور و فکر اس کے موضوعات تھے۔ آپﷺ پوری ذمّے داری ، لگن، محنت اور انہماک کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیتے۔ آپﷺ کی سیرت گواہ ہے کہ اپنے حقیقی مشن کی تکمیل کے لیے آپﷺ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور تعلیم و تربیت کے اس فرض کو بہ خوبی انجام دیتے رہے۔حالانکہ اس راہ میں آپﷺ کو شدید ترین مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔

آپﷺ کا طریقۂ تعلیم و تربیت، گفتگو، سوال جواب، اطلاعات اور خطابت پر مشتمل تھا جس کو موجودہ اصولِ تعلیم کی انگریزی اصطلاح میں اس طرح مماثلت دی جا سکتی ہے:

1-Conversational Methodبات چیت کا طریقہ

2-Q&A Methodسوال و جواب کا طریقہ

3-Narrative Descriptive Method اخباری یا اطلاعی طریقہ

4-Lecture Methodخطابت کا طریقہ

رسول اکرم ﷺ کی تعلیم و تربیت کے ان طریقوںسے سیرت اور احادیث کی کتابیں آراستہ ہیں۔ آپﷺ اپنے متعلمین کو جو کچھ بتانا چاہتے تھے اس کا بنیادی مقصد آپﷺ کےسامنےمتعین تھا۔ آپﷺ کسی بھی حالت میں ہوتے، جلوت میں، خلوت میں،گھر میں، مسجد میں یا میدانِ جنگ میں ، تعلیم و تربیت کے مواقع ہاتھ آتے ہی ان سے پورا فائدہ اٹھاتے تھے اور باتوں باتوں میں ضروری معلومات بہم پہنچا دیا کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ اکثر کوئی سوال کر کے پہلے اپنے متعلمین کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور ان کے تجسس کو ابھارتے پھر ان کے سامنے اپنی بات پیش کرتے۔ کبھی کچھ کہنا ہوتا تو اسے سوالات کی شکل میں رکھتے اور پھر صحیح جواب ارشاد فرماتے اور دوسروں کو بھی آزادی سے پوچھنے کا موقع دیتے ۔جب نبی کریم ﷺ کو کسی سلسلے میں  لوگوں کو کچھ معلومات دینا ہوتی تو اطلاعی اندازِ بیان اختیار کرتے۔ اس  میں اختصار کو ملحوظ رکھتے۔ اس کو واضح کرنے کے لیے برمحل تشبیہات و تمثیلات سے بھی کام لیتے اور اس کی ایسی موثر لفظی تصویر کھینچتے کہ حقائق آنکھوں کے سامنے آ جاتے۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں بس ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔ (مسلم)

جو شخص دنیا دار ہوتا ہے وہ گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے فرماتے ہیں:

کیا کوئی شخص ایساہے کہ پانی پر چلے اور اس کے پاؤں نہ بھیگیں؟ عرض کیاگیا: حضرت ﷺ ایسا نہیں ہوسکتا۔ آپﷺ نے فرمایا:

اسی طرح دنیا دار گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ (صاحب الدنیا لایسلم من الذنوب۔ البیہقی فی شعبالایمان)

جسم کی طہارت صحت وتندرستی کی ضامن ہے۔ اس کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:

تمہارے جسم کا بھی تمھارے اوپر حق ہے (مسلم) اسی طرح طبی تعلیم کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کا علاج ممکن نہ ہو۔ البتہ اس کو کچھ لوگوں نے سیکھا اور کچھ لوگوں نے نہیں سیکھا۔‘(ابن ماجہ ونساء ی)

تعلیم و تربیت کے عمل میں معلم کی شخصیت اور اس کی سیرت اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ متعلم شعوری یا غیر شعوری طور پر معلم سے متاثر ہوتا ہے اور یہ تاثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اسے متعلم  کی  زندگی میں ہمیشہ  محسوس کیا جا سکتاہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و شخصیت جامع و اکمل تھی۔ وہ تمام اخلاقی خوبیوں اور اچھائیوں کا مجموعہ تھی۔ آپﷺ کی شخصیت اس قدر دلکش اور محبوب تھی کہ آپﷺ کو جو بھی دیکھتا فوراً متاثر ہو جاتا۔ آپ کے شخصی رعب کا یہ حال تھا کہ حضرت علیؓ کے قول کے مطابق جو آپﷺ کو دیکھتا مرعوب ہو جاتا، جو آپﷺ کے ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔

آپﷺ بے انتہا نرم و شیریں گفتار تھے۔ آواز نہ بہت بلند تھی نہ پست بلکہ متوازی تھی جو کانوں کو بہت خوشگوار لگتی تھی، اس میں فطری بے ساختہ پن تھا، تکلف و تصنع بالکل نہیں تھا۔ آپﷺ آواز میں حسبِ ضرورت اتار چڑھاؤ بھی لاتے تھے، بولتے وقت جملے بالکل صاف اور واضح ادا کرتے تھے، مخارج و تلفظ کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس میں وضاحت و بلاغت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کوئی بھی بات اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ فرماتے تھے۔ مثلاً یہ چند حدیثیں دیکھیے جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں:

الحیاء  من الایمان (متفق علیہ)

حیا ایمان کا جز ہے۔

کلمۃ الحکمہ ضالۃ المومن (ابن ماجہ)

دانائی کی بات مومن کا گم شدہ مال ہے۔

ان من الشعر حکمہ ومن البیان سحراً(بخاری)

بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض باتیں جادو

لایلدغ المومن من جحر مرتین (متفق علیہ)

مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈساجاتا۔

خیر کم خیرکم لاہلہٰ(ترمذی)

تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے۔

انماالاعمال بالنیات(متفق علیہ)

اعمال نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں

لکل امری مانویٰ(متفق علیہ)

ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتا ہے

یہ اور اس قسم کی سیکڑوں حدیثیں آپﷺ کی فصاحت و بلاغت اور اختصار گوئی کا درخشاں نمونہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی مقدس ذات میں سچائی، معاملہ فہمی، حسنِ سلوک، جذبۂ قربانی، صبر، شکر، عفو و درگزر، قناعت، توکل اور تحمل حد درجہ پایا جاتا تھا۔ آپﷺ کی شخصیت ذکاوتِ احساس، قوتِ برداشت، قوتِ فیصلہ اور قوتِ عمل سے مزین تھی۔ آپﷺ کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ ایسا ہی معلم، معلم خیر کے زمرے میں آتا ہے اور ترمذی شریف میں محفوظ رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے مطابق معلم خیر کے لیے کائنات کی تمام چیزیں دعائے مغفرت کرتی ہیں:

معلم الخیر یستغفرلہٗ کلُّ شیِٔ

رسول اللہ ﷺ نے معلمین کے لیے جو حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں یہاں ان میں سے چند نقل کی جاتی ہیں:

من سُئِلَ عن علمِ علمہٗ کتمہٗ الجمہ یوم القیامۃ بلجامِ من النار (ترمذی، ابو داؤد)

جس شخص سے علم کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کو وہ جانتا ہے اور وہ اس کو چھپائے (یعنی نہ بتائے) تو قیامت کے دن اس کے منھ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔

علموولاتعنفوافان المعلم خیرمن المعنف (بیہقی)

علم سکھاؤ اور سختی نہ کرو۔ معلم سختی کرنے والے سےبہتر ہے۔

کلموالناس علی قدرعقولہم (بیہقی)

لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو۔

یسرّوولاتعسروا وبشروا ولاتنفروا (بیہقی)

آسانیاں بہم پہنچاؤ، شدائد میں مبتلا نہ کرو۔ خوش خبری دو،متنفر نہ کرو۔

اگر ہمارے معلمین صرف ان چاروں احادیث پر ہی عمل کر لیں تو ہمارے معاشرے کی تعلیمی پسماندگی دور ہوسکتی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://roohanidigest.net/?cat=6

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید