FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کہاوتوں کی کہانیاں

                   سرور عالم راز

آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی

  اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں  ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اُس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں  تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں  کرنی چاہئے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں  ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے جس سے لوگ نا واقف ہوں۔

آپ سے آتی ہے تو آنے دو

  یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک مولوی صاحب کے گھر میں  پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں  سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انھوں  نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں  کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’ سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں  کا بنا ہوا ہے۔اس میں  کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں  یہ بات آ گئی  اور انھوں  نے بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں  آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں  نہیں  ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘  مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً  بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں  مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔

آپ کی جوتیوں  کا صدقہ ہے

   یعنی  جو کچھ بھی ہے وہ آپ کی ہی بدولت ہے اور اس میں  میرا کوئی ہاتھ نہیں  ہے۔ ’’جوتیوں  کا صدقہ‘‘ سے مراد ہے کہ آپ کے لئے یہ سب کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔اس کہاوت سے ایک لطیفہ منسوب ہے۔ ایک شخص نے کچھ دوستوں  کی دعوت کی۔ جب سب مہمان دسترخوان پر بیٹھ چکے تو اُس نے نوکر کو الگ لے جا کر حکم دیا کہ سب کے جوتے بازار میں  چپکے سے لے جا کر بیچ دے اور اس رقم سے کھانا خرید لائے۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔  لوگوں  کے سامنے جب کھانا آیا تو انھوں  نے اُس کی تعریفوں  کے پل باندھ دئے۔ وہ شخص ہنستا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ’’حضور! بھلا میں کس لائق ہوں۔ یہ سب آپ کی ہی جوتیوں  کا صدقہ ہے۔‘‘  جب کھانا ختم ہوا اور مہمان جانے لگے تو انھیں  اپنے جوتے غائب ملے۔ اُس ستم ظریف نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ  ’’بھائی! میں  تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ سب آپ کی جوتیوں  کا صدقہ ہے۔‘‘

آپ کا نوکر ہوں ، بینگن کا نہیں

    مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دربار کے نو رتنوں  میں  ایک بیربلؔ بھی تھے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک دن بادشاہ کے کھانے میں  بینگن آئے۔ ان کو کھا کر شہنشاہ اکبر نے بینگن کی بہت برائی کی کہ ’’یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے،نہ صورت اچھی اور نہ ہی مزا۔‘‘  وہ جیسے جیسے بینگن کی برائیاں  بیان کرتے جاتے خوشامدی درباری ان کی ہاں میں  ہاں  ملاتے جاتے تھے۔ ان میں  بیر بلؔ سب سے پیش پیش تھے کہ’’ حضور! بالکل صحیح فرمایا، بینگن سے زیادہ ناکارہ تو کھانے کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔‘‘ اس کے کچھ دن بعد پھر بینگن بادشاہ کے سامنے آئے لیکن اب کی بار اُس نے بینگنوں کی خوبیوں  کے پل باندھ دئے۔بادشاہ کی ہاں  میں  ہاں ملانے والوں  میں  اس بار بھی بیربلؔ سب سے آگے تھے۔ بادشاہ نے اُن سے اِس منافقت کا سبب پوچھا تو بیربلؔ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ’’ جہاں  پناہ! میں  آپ کا نوکر ہوں، کوئی بینگن کا نوکر تھوڑی ہوں۔‘‘

آنکھوں  کی سوئیاں  رہ گئی ہیں

   یہ کہاوت ایک کہانی سے ماخوذ ہے۔ ایک شہزادہ کے جسم میں  جادو کی بے شمار  سوئیاں چبھو دی گئیں  اور وہ ان کے اثر سے بے ہوش ہو گیا۔ اس کو جگانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ جسم کی ساری سوئیاں  نکال لی جائیں ۔ اتفاق سے ایک شہزادی کا گزر وہاں  سے ہوا اور وہ شہزادہ کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گئی۔شہزادے کو جگانے کے لئے شہزادی نے اُس کے جسم سے سوئیاں  نکالنی شروع کیں۔ ہر روز وہ کچھ سوئیاں  نکال دیتی یہاں  تک کہ صرف آنکھوں  کی سوئیاں  رہ گئیں۔ اس دن شہزادی کو کسی ضرورت سے کہیں  جانا پڑا تو اس کی خادمہ نے موقع دیکھ کر شہزادے کی آنکھوں  کی سوئیاں  نکال دیں۔ شہزادہ پر سے جادو کا اثر زائل ہو گیا اور وہ جاگ گیا۔خادمہ کو دیکھ کر وہ سمجھا کہ یہ احسان اسی نے کیا ہے۔چنانچہ اُس نے خوش ہو کر خادمہ سے شادی کر لی۔ جب شہزادی واپس آئی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی۔کہانی کے آخر میں  شہزادہ کو اصل صورت حال معلوم ہو جاتی ہے اور وہ شہزادی سے شادی کر کے اسے اپنی ملکہ بنا لیتا ہے اور خادمہ کو سزا ملتی ہے۔ اسی حوالہ سے یہ کہاوت ایسے موقع پراستعمال ہوتی ہے جب کسی کام کے پورے ہونے میں  ذرہ بھر ہی کسر رہ جائے۔

آنکھ کے آگے ناک، سوجھے کیا خاک

  یعنی آنکھوں  پرتو پردہ پڑا ہوا ہے،پھر نظر کیسے آسکتا ہے؟ ایک لطیفہ اس کہاوت سے منسوب ہے۔ ایک نکٹے نے لوگوں  کے طعنوں  سے عاجز ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ اس کو اللہ نظر آتا ہے۔لوگوں  نے جب پوچھا کہ ’’ہمیں  کیوں  نظر نہیں  آتا؟‘‘ تو اس نے جواباً کہا کہ ’’تمھاری آنکھوں کے آگے ناک کی آڑ لگی ہوئی ہے جو اللہ کو دیکھنے کی راہ میں  حائل ہے۔‘‘ کچھ بے وقوف لوگوں  نے اس کی باتوں  میں  آ کر اپنی ناک کٹوا لی لیکن اللہ پھر بھی نظر نہیں آیا۔ نکٹے نے ان سے کہا کہ ’’بہتر یہ ہے کہ تم بھی میری ہاں  میں  ہاں  ملاؤ ورنہ دُنیا تمھاری حماقت پرہنسے گی۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور چند اور لوگوں  نے ناکیں  کٹوا لیں۔

ابھی دلّی دور ہے

  یعنی ابھی منزل مقصود بہت دور ہے، کامیابی کی صورت نظر نہیں  آ رہی ہے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں  یہ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ بادشاہ دہلی غیاث الدین تغلق کو حضرت نظام الدین اولیاء  سے بغض تھا۔جب وہ بنگال کی مہم سے واپس آ رہا تھا تو اس نے ایک قاصد کے ذریعہ حضرت نظام الدین کو یہ پیام بھیجا کہ وہ بادشاہ کے دہلی پہنچنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں  اور چلے جائیں۔ حضرت موصوف نے فرمایا کہ ’’بابا ! ہنوز دلی دُور است‘‘۔ یعنی ایسی بھی کیا جلدی ہے، پہلے دہلی پہنچ لے پھر دیکھا جائے گا کہ اللہ کا کیا حکم ہے۔ شومیِ قسمت سے بادشاہ راستہ ہی میں  محل کی ایک دیوار سے دب کر مر گیا اور اسے دہلی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

  ابھی مونڈے مانڈے سامنے آئے جاتے ہیں

  ایک شخص بال کٹوانے کے لئے حجام کے سامنے بیٹھا اور اس سے پوچھا کہ ’’میرے سر پر کتنے بال ہیں ؟‘‘  حجام نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’’ججمان جی! گھبراتے کیوں  ہو۔ ابھی مونڈے مانڈے سامنے آئے جاتے ہیں۔‘‘  کوئی شخص اپنے کاموں  کے انجام سے باخبر نہ ہو تو تنبیہ کے طور پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔

  اَگاڑی تمھاری، پچھاڑی ہماری

  یعنی اگلا حصہ تمھارا اَور پچھلا ہمارا۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ دو بھائیوں  نے مل کر ایک بھینس خریدی۔ بڑا بھائی بہت چالاک اور فریبی تھا جب کہ چھوٹا سادہ لوح اور بھولا بھالا تھا۔ بڑے بھائی نے کہا کہ’’ کیوں  نہ بھینس کی خدمت ہم دونوں  برا  بر برابر بانٹ لیں۔ تم اس کا اگلا حصہ لے لو اور میں  پچھلا لئے لیتا ہوں۔‘‘  چھوٹا بھائی راضی ہو گیا ۔چنانچہ وہ بھینس کو چارہ دینے لگا اور بڑا بھائی اُس کے فضلے کی صفائی کے علاوہ اُس کا دودھ بھی ہڑپ کر نے لگا۔ یہ کہاوت ایسی تجاویز پر بولی جاتی ہے۔

  اندھے کے کندھے لنگڑا چڑھا، بن گیا دونوں  کا کام

   مل جل کر عقل مندی سے کیا جائے تو کم اہل آدمیوں  کے لئے بھی مشکل کام آسان ہو جاتا ہے۔  اس کو یہ کہاوت یوں  واضح کرتی ہے کہ ایک گاؤں  میں  آگ لگ گئی اور لوگوں  میں  بھگدڑ مچ گئی۔ دو آدمی پیچھے رہ گئے۔ان میں  ایک لنگڑا تھا جو بھاگ نہیں  سکتا تھا اور دوسرا اندھا جس کو دکھائی نہیں  دیتا تھا۔ ایسی مصیبت کے وقت لنگڑا آدمی اندھے کے کندھے پر بیٹھ گیا اور اُسے راستہ بتا کر خطرہ سے نکال لایا اور اس طرح دونوں  کی جان بچ گئی۔

اندھیر نگری، چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا

  یعنی ایسی جگہ جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو یا ایسی حکومت جہاں  ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہو، حاکم وقت نا اہل اور کارندے نالائق ہوں۔  یہ فقرہ ایک لوک کہانی سے لیا گیا ہے۔ ایک گرو اپنے چیلے کے ساتھ سفر کو نکلے تو ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کا نام اندھیر نگری تھا اور جہاں  کا حاکم چوپٹ راجاؔ کہلاتا تھا۔ اندھیر نگری کے بازاروں میں  چھوٹی بڑی ہر چیز بھاجی (ترکاری) سے لے کر کھاجا  (اعلیٰ قسم کی ایک مٹھائی)  تک ایک ٹکے (نہایت چھوٹا سکّہ)  میں  ایک سیر (تقریباً آدھا کلو گرام)ملتی تھی۔چیزوں  کی ایسی ارزانی دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اور اس نے گروجی کے سمجھانے کے باوجود وہیں  ٹھہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ کھا پی کر موٹا تازہ ہو گیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک دوکان کی دیوار اچانک کسی طرح گر گئی اور ایک راہ گیر دب کر مر گیا۔چوپٹؔ راجا کو خبر ہوئی تو اس نے اُس راج کی پھانسی کا حکم دے دیا جس نے دیوار بنائی تھی۔ راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مہاراج، قصور میرا نہیں  اِس بھشتی کا ہے جس نے گارے میں  پانی زیادہ ڈال کر اس کو کمزور کر دیا تھا۔ ‘‘  راجا کی سمجھ میں  یہ بات آ گئی اور اس نے راج کے بجائے بھشتی کی پھانسی کا حکم صادر کر دیا۔ اتفاق سے بھشتی بہت دُبلا پتلا تھا۔ اس نے عرض کی کہ ’’حضور میری گردن اتنی پتلی ہے کہ پھندا اُس کے لئے بہت بڑا ہو گا۔بھلا مجھ کو پھانسی دینے سے کیا ملے گا۔ پھانسی تو کسی موٹے آدمی کو ملنی چاہئے۔ ‘‘  راجا چوپٹؔ نے فوراً کسی موٹے آدمی کی تلاش کا حکم دے دیا۔اتفاق سے شہر میں وہی چیلہ سب سے زیادہ موٹا تھا  چنانچہ اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے کی طرف لایا گیا۔ یہ دیکھ کر گروجی نے کوتوال سے کہا کہ ’’میرے چیلے کے بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ میری گردن بھی موٹی ہے۔‘‘  کوتوال نے حیرت سے پوچھا  ’’گروجی! بھلا آپ کیوں  پھانسی چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ گروجی نے کہا  ’’بیٹا! آج کا دن اتنا مبارک ہے کہ جو پھانسی چڑھے گا وہ سیدھا جنت میں  جائے گا۔ ‘‘  یہ سن کر کوتوال کہنے لگا کہ ’’یہ بات ہے تو پھر میں  ہی کیوں  نہ جنت میں  جاؤں۔ پھانسی مجھ کو دی جائے گی۔ ‘‘  راجا کا وزیر وہیں  کھڑا تھا۔اُس نے یہ سُن کر کہا کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے پہلے جنت میں  داخل ہو جاؤ۔ پھانسی میں  چڑھوں  گا۔ ‘‘  چوپٹؔ راجا صاحب نے یہ سب دیکھا تو غصہ میں  آ گئے اور فرمایا کہ ’’میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ جنت میں  پہلے داخل ہو جائے۔ پھانسی پر میں  خود چڑھوں  گا۔‘‘  چنانچہ چوپٹؔ راجہ کو پھانسی دے دی گئی۔ گرو جی نے اس چال سے اپنے چیلے کی جان بچا لی اور اس کو سمجھایا کہ  ’’بیٹا اندھیر نگری رہنے کی جگہ نہیں  ہے۔ا س کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘  چنانچہ دونوں  وہاں  سے کہیں  اور چلے گئے۔

انگور کھٹے ہیں

   یہ کہاوت ایک لوک کہانی سے لی گئی ہے۔ ایک لومڑی نے انگور کی بیل پر انگور دیکھے تو ان کو کھانے کے لالچ میں  اس نے چاہا کہ کسی طرح ان تک پہنچ جائے۔ بہت کودی اور اُچھلی لیکن انگوروں  تک نہ پہنچ سکی۔ جب ہر طرح سے کوشش کر کے ہار گئی تو کھسیانی ہو کر بولی کہ ’’اونھ! یہ انگور تو یوں  بھی کھٹے ہیں۔ان کو کیا کھاؤں۔‘‘  چنانچہ اگر کوئی چیزکسی شخص کو ہزار کوشش پر بھی نہ مل سکے اور وہ اس میں  اپنے نفس کی تسکین کے لئے کوئی فرضی برائی ڈھونڈ نکالے تو اس کہاوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اندھوں  نے ہاتھی کو چھوا، سب نے الگ الگ دیکھا

   قصہ مشہور ہے کہ چار اندھوں  نے پوچھا کہ’’ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔‘‘ ان کو ایک ہاتھی کے پاس کھڑا کر دیا گیا۔ ایک نے سونڈ چھوئی اور کہا کہ’’ ہاتھی تو ایک موٹے سانپ کی طرح ہوتا ہے‘‘۔ دوسرے نے اس کے دانت چھوکر اس کو سخت اور خطرناک بھالے کی طرح بتایا۔  تیسرے نے ہاتھی کے پیروں  پر ہاتھ پھیرے اور  اس کو ستون کی شکل کا سمجھا جب کہ چوتھے نے اُس کا بدن چھوا اور کہا کہ ’’ہاتھی تو ایک دیوار کی طرح ہوتا ہے۔‘‘  ہاتھی پوری طرح کسی کی بھی سمجھ میں  نہ آیا۔ یہی حال ایسے لوگوں  کاہے جو مسئلہ کو پوری طرح نہیں  سمجھ سکتے بلکہ اس کے کسی حصے کو ہی پورا مسئلہ سمجھ کر اس پر خیال آرائی کیا کرتے ہیں۔

  اونٹ سستا ہے، پٹا مہنگا ہے

  اگر کوئی چیزخودتوسستی ہو لیکن اس کے لوازمات مہنگے ہوں  تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اگر کسی اچھی چیز کے ساتھ کوئی کم درجہ چیز بھی لینی پڑ جائے تب بھی کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ کہاوت کا پس منظر ایک کہانی ہے۔ایک شخص کا اونٹ بھاگ گیا۔ جب وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہو گیا تو اس نے غصہ میں  قسم کھا لی کہ’’ اگر اونٹ مل گیا تو کم بخت کو اپنے پاس نہیں  رکھوں گا اور اسے پانچ روپے میں  فروخت کر دوں  گا۔‘‘ اتفاق سے دوسرے ہی دن اونٹ مل گیا۔اس کے دل میں  لالچ آئی کہ کسی طرح قسم بھی پوری ہو جائے اور اونٹ بھی بچ جائے۔ اس نے اونٹ کے گلے میں  ایک خوبصورت پٹّا ڈال دیا اور بازار میں  لوگوں  کو بتایا کہ’’ اونٹ کی قیمت پانچ روپے ہی ہے لیکن پٹّا پانچ سو روپے کا ہے۔‘‘ کوئی شخص اس قیمت پر یہ سوداکر نے کو تیار نہیں ہوا اور اس طرح اس کا اونٹ بچ گیا۔

بخشو بی بلی، چوہا  لنڈورا ہی جئے گا

  لنڈورا یعنی بغیر دُم کے۔  قصہ مشہور ہے کہ ایک بلی نے ایک چوہے پر لپک کر حملہ کیا۔ چوہا بھاگ کر اپنے بِل میں  گھس گیا لیکن اس کی دُم بلی کے پنجوں  میں  کٹ کر رہ گئی۔ بلی نے چاپلوسی سے کام نکالنا چاہا اور چوہے سے بولی ’’میاں  چوہے! تم باہر آ جاؤ تو ہم دونوں  مل کر کھیلیں گے اور تم اپنی دُم بھی مجھ سے لے لینا۔‘‘چوہا اس کی چال سمجھ گیا۔ اس نے بلی کو جوا ب دیا کہ ’’ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی جی لے گا۔‘‘  اگر کسی کام میں  کوئی معمولی سی کمی رہ جائے تو کام کی تکمیل کی خاطر بڑا خطرہ مول لینے کی سفارش یا  تنبیہ پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔

بدھیا مری بلا سے، آگرہ تو دیکھ لیا

   بدھیا یعنی بھینس۔ ایک دھوبی اپنی بھینس پر بیٹھ کر آگرہ تاج محل دیکھنے گیا۔ واپسی میں اس کی بھینس مر گئی۔لوگوں  نے پوچھا تو اس نے یہ کہاوت دہرا دی۔ یعنی نقصان تو بہت ہوا لیکن دلی آرزو تو پوری ہو گئی۔

بلّی پہلے دن ہی ماری جاتی ہے

  یعنی جھگڑے یا فساد کے انسدا د کی فکر اوّل روز ہی کی جاتی ہے۔ دیر لگ جائے تو معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اس کہاوت سے ایک قصہ منسوب ہے۔ دو بھائیوں  کی ساتھ ساتھ ہی شادی ہوئی۔ کچھ دنوں  کے بعد دیکھا گیا کہ چھوٹے بھائی کی بیوی تو نہایت فرمانبردار اور خدمت گزار ہے لیکن بڑے بھائی کی بیوی نہایت نک چڑھی اور جھگڑالو ہے اور شوہر کی جان ضیق میں  ڈال رکھی ہے ۔ ایک دن بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ ’’ کیا بات ہے کہ تمھاری بیوی ایسی خاموش اور نیک بخت ہے جب کہ میری بیوی ایسی ناکارہ اور بد زبان ہے؟‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا کہ ’’بھائی صاحب ! شادی کے بعد جب میں  حجلۂ  عروسی میں  داخل ہوا تو اُسی وقت کہیں  سے ایک بلی کمرہ میں  گھس آئی۔ قریب ہی کونے میں  ایک ڈنڈا  رکھا ہوا تھا۔ میں  نے انتہائی غضب ناک ہو کر ڈنڈا گھما کر جو بلی کو رسید کیا تو وہ وہیں  جاں  بحق ہو گئی۔ بیوی کے دل پر میرے غصہ کی دہشت ایسی بیٹھی کہ وہ اب کسی بات پر مجھ سے اختلاف نہیں  کرتی ہے۔‘‘ بڑے بھائی نے یہ باتیں  غور سے سنیں۔ اُسی رات جب وہ اپنے کمرہ میں  گیا تو اتفاق سے ایک بلی وہاں  گھس آئی۔ اُس نے کونے میں کھڑا ایک ڈنڈا اُٹھا کر بلی کو ایسا رسیدکیا کہ وہ وہیں  گر کر مر گئی۔ یہ دیکھ کر بیوی کو غصہ آ گیا اور اُس نے اپنے خاوند کی اچھی خاصی مرمت کر ڈالی۔ دوسرے دن بڑے بھائی نے چھوٹے سے بتایا کہ اُس کا بتایا ہوا نسخہ تو کسی کام نہ آیا۔ چھوٹے بھائی نے مسکرا کر کہا ’’بھائی صاحب! بلی پہلے ہی روز ماری جاتی ہے!‘‘  محل استعمال کا اسی سے قیاس کر لیجئے۔

بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا

  کہاوت کے ساتھ ایک فرضی قصہ منسوب ہے۔  ایک بلی مستقل چوہوں  کا شکار کئے جا رہی تھی۔ چوہوں  کی سمجھ میں  نہیں  آتا تھا کہ اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کی جائے۔ آخر سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک چوہے نے تجویز پیش کی کہ بلی کے گلے میں  گھنٹی باندھ دی جائے تو اس کے آنے کی ٹَن ٹَن سُن کر چوہے بھاگ کر اپنی جان بچا سکیں  گے۔ تجویز کو سب نے بہت پسند کیا۔  اتنے میں  ایک چوہے نے پوچھا کہ’’ لیکن بلی کے گلے میں  گھنٹی باندھے گا کون؟‘‘  یہ سن کر چاروں جانب سناٹا چھا گیا۔ گویا کسی مشکل کا حل تجویز کرنا جس قدر آسان ہوتا ہے اسی قدر اس پر عمل در آمد دشوار بلکہ نا ممکن ہو سکتا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ تجویز کے ہر پہلو پر غور کر لیا جائے اور پھر اس کو پیش کیا جائے۔

بندر بانٹ کرنا

  یعنی دو اشخاص کے درمیان کسی شے کی ایسی تقسیم کرنا جس سے فریقین کو تو کچھ نہ ملے لیکن تقسیم کرنے والا سارا مال ہڑپ لے۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک بار دو کووّں  کو ایک روٹی مل گئیا ور اس کی تقسیم میں  ان میں  جھگڑا ہونے لگا۔  وہ دونوں  ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہو گیا۔ کوّوں  نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑ ے میں  سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہو گیا۔  کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا یہاں  تک کہ آخر میں  بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں  سکتے۔‘‘   یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منھ میں  رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہ گئے۔ اسی کو’’ بندر بانٹ‘‘ کہتے ہیں ۔

بہت ٹیڑھی کھیر ہے

   قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے ایک اندھے سے پوچھا کہ’’ کھیر کھاؤ گے؟‘‘ اُس نے جواباً پوچھا کہ ’’کھیر کیا ہوتی ہے‘‘۔ اُس شخص نے کہا کہ ’’حلوہ کی طرح میٹھی اور رنگ میں  سفید‘‘۔  اندھے نے دریافت کیا کہ ’’سفید کا کیا مطلب ہے؟‘‘۔ اُس شخص نے کہا ’’جیسے بگلا۔‘‘  اندھے آدمی نے حیرانی سے پوچھا کہ ’’یہ بگلا کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ اُس شخص نے ہاتھ کو بگلے کی شکل میں  ٹیڑھا کر کے اندھے کے سامنے کر دیا۔ اندھے نے ٹٹول کر اس کا ہاتھ چھوا اور بولا ’’بھائی یہ تو بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ ہم سے نہیں  کھائی جائے گی۔‘‘  اسی مناسبت سے اگر کوئی کام مشکل اور پیچیدہ ہو تو اس کو ٹیڑھی کھیر کہتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔

پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ گے

  جب کوئی شخص ضد میں  کسی کام سے انکار کر دے لیکن بعد میں  مجبور ہو کر اس پر بصد اکراہ راضی ہو جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے کہ ایک پنڈت جی کو چنے کی روٹی اور دال سخت ناپسند تھے۔ ایک دن جب بیوی نے ان کے سامنے چنے کی دال اور روٹی رکھی تو پنڈت جی نے کھانے سے انکار کر دیا۔بیوی نے سمجھایا کہ ’’گھر میں  اس وقت اور  کچھ پکا نے کو نہیں  ہے۔‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور غصہ میں  بھنائے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ شام تک بھوک نے اتنا برا حال کر دیا کہ ہار کر گھر واپس آئے اور  خاموشی سے کھانے کی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ بیوی مطلب سمجھ گئی اور اس نے دال روٹی ان کے سامنے رکھ دی۔ پانڈے جی نے بحالت مجبوری اسی سے پیٹ کی آگ بجھائی۔

پنچ کہیں  بلّی تو بلّی ہی سہی

  پنچ یعنی پنچایت کے اراکین۔اگر لوگوں  کی اکثریت کسی بات پر متفق ہو جائے تو غلط بات بھی سچ ہو جاتی ہے اور اس کو ماننا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کے گھر میں رات کو چور گھس آیا اور کمرے میں  چوری کرنے گیا۔ اس شخص کی آنکھ کھل گئی اور  اس نے چپکے سے کمرہ کی کنڈی باہر سے لگا دی کہ چور نکل کر بھاگ نہ سکے۔ چور نے گھبرا کر اس اُمید پر بلی کی طرح طرح میاؤں  میاؤں کہنا شروع کیا کہ وہ شخص اسے بلی سمجھ کر دروازہ کھول دے گا اور وہ بھاگ نکلے گا۔لیکن اُس شخص نے بلی کی آواز سن کر کہا کہ ’’پنچ کہیں  بلّی تو بلّی ہی سہی‘‘ یعنی صبح ہونے دو تو پنچوں  کو بلا لوں  گا۔ اگر وہ کہتے ہیں  کہ تو بلّی ہی ہے تو میں  مان کر تجھ کو چھوڑ دوں  گا۔

جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں  ہو جائے

  تیرھویں  یعنی کسی کے مرنے کے تیرھویں  دِن ہونے والی رسم۔جاٹ بہت سخت جان اور جفا کش مشہور ہیں اس لئے ان کا نام لیا گیا ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ جب تک کسی معاملہ کی اچھی طر ح تصدیق نہ ہو جائے اس پر یقین نہیں کر نا چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں  ایک حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ایک جاٹ نے ایک بنئے سے قرض لیا۔وقت کے ساتھ سود کی وجہ سے قرض کی رقم بڑھتی گئی اور جاٹ کسی طرح اسے ادا نہ کر سکا۔ جب بنئے کے تقاضے بہت بڑھ گئے تو اس نے عاجز آ کر اپنی فرضی موت کی خبر بنئے تک پہنچا دی۔ بنیا کف افسوس ملتا رہ گیا۔حادثہ کی تصدیق کے لئے وہ جاٹ کے گاؤں  گیا اور اس کے گھر والوں  سے تعزیت بھی کر آیا۔سب نے اپنے عزیز کی موت پر بہت رنج کا اظہار کیا۔ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد بنئے کو ایک قریبی گاؤں  میں  کسی کام سے جانا پڑا۔وہاں  اس نے بازار میں  اُس جاٹ کو گھومتے پھرتے دیکھا تو بھوچکا رہ گیا۔لوگوں  سے گھبرا کر پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’’ شاہ جی ! جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں  ہو جائے۔‘‘

جدھر مولا،اُدھر آصف الدولہ

  اَودھ کے نواب آصف الدولہ اپنی داد و دہش کے لئے بہت مشہور تھے۔ ان کے لئے ایک اور کہاوت مستعمل ہے کہ ’’جسے نہ دے مولا، اُسے دے آصف الدولہ۔‘‘ اِس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ آصف الدولہ بھی اللہ کی مرضی کا پابند ہے اور جتنا کسی کی قسمت میں  لکھا ہے اس سے زیادہ وہ بھی نہیں  دے سکتا۔ اس سلسلہ میں  ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک غریب آدمی دربار میں  حاضر ہوا اور نواب صاحب سے مدد کا خواستگار ہوا۔انھوں  نے حکم دیا کہ ایک تھیلی میں  روپے اور دوسری میں  پیسے بھر کر اس آدمی کے سامنے رکھ دئے جائیں۔ اُس شخص سے ایک تھیلی منتخب کرنے کو کہا گیا۔اس نے جو تھیلی چُنی اس میں  پیسے تھے۔نواب صاحب نے کہا کہ ’’بھائی،یہ تمھاری قسمت کہ تم کو پیسے ملے۔ میں  کیا کر سکتا ہوں۔جدھر مولا،اُدھر آصف الدولہ۔‘‘

جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس

  بھینس کی ملکیت کے جھگڑے میں  بھینس ہمیشہ وہ شخص ہی لے جاتا ہے جس کے ہاتھ میں  لاٹھی ہوتی ہے۔ یہ دُنیا طاقت کی دُنیا ہے، کمزوروں  کا یہاں  گزر نہیں۔ اس کہاوت کے بارے میں  ایک قصہ مشہور ہے۔ایک شخص اپنی بھینس لئے جنگل میں  سے گزر رہا تھا کہ ایک چور اس کے سامنے آ گیا اور لٹھ تان کر بھینس وہیں  اس کے حوالے کر دینے کا حکم دیا۔ اُس شخص نے ڈر کر بھینس کی رسّی چور کے حوالے کی اور گڑ گڑا کر بولا کہ ’’راستہ خطرناک ہے۔ اگر اپنا لٹھ مجھ کو دے دو تو میں  خیریت سے گھر چلا جاؤں۔‘‘ بے وقوف چور نے لاٹھی اُس کو دے دی۔ لاٹھی لیتے ہی وہ شخص اُسے تان کر چور پر لپکا کہ ’’یہ بھینس یہیں  رکھ دے ورنہ تیرا سر پھاڑ دوں  گا۔‘‘ چور نے گھبرا  کر بھینس اس کے مالک کے حوالے کر دی اور  وہاں  سے بھاگ لیا۔

جُلاہا کیا جانے جَو کاٹ

  یعنی جُلاہے کو کیا خبر کہ جَو کی فصل کیسے کاٹی جاتی ہے۔ جب کسی آدمی کے ذمہ ایسا کام کیا جائے جس کا اسے کوئی تجربہ نہیں  ہے تب یہ کہاوت بولتے ہیں۔ اس کہاوت سے ایک حکایت منسوب ہے۔ ایک جولاہے نے ایک ساہوکار سے قرض لیا۔وقت گزرتا گیا لیکن وہ اس کو ادا نہ کر سکا اور سود پر سود چڑھتا رہا۔ جب رقم بہت بڑھ گئی تو ساہوکار نے عاجز آ کر اس سے کہا کہ وہ قرض کی ادائیگی میں  کچھ کام کر دے۔ چنانچہ جولاہا راضی ہو گیا اور ساہوکار نے اُس کو اپنے کھیت میں  جَو کاٹنے کے کام پر بھیج دیا۔ جولاہے نے بھلا جَو کا کھیت کب دیکھا تھا جو وہ فصل کاٹتا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا تھا کہ سوت کی طرح کی کوئی چیز نظر آ جائے تو اپنا کام کرے۔ کسی نے اس کی یہ کس مپرسی کا عالم دیکھ کر یہ کہاوت کہی۔

جہاں  مرغ نہیں بولتا وہاں کیا صبح نہیں ہوتی

 

  قصہ مشہور ہے کہ ایک گاؤں میں  ایک ہی شخص کے پاس مرغ تھا جو روز صبح اذان دیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ گاؤں والوں  کی کسی بات سے وہ شخص خفا ہو گیا اور اپنا مرغ بغل میں  دبا کر یہ کہتا ہوا  وہاں  سے چلتا بنا کہ جب کل سے میرا مرغ اذان نہیں دے گا تو گاؤں میں  صبح ہی نہیں ہو گی۔کہاوت کا مطلب ہے کہ کوئی کام کسی پر موقوف نہیں  ہے اور بہرکیف ہوہی جاتا ہے۔

جیسے کو تیسا

  جو شخص جیسا ہوتا ہے ویسا ہی اُس کے سامنے آتا ہے۔ اس کوجیسی کرنی ویسی بھرنی بھی کہتے ہیں۔اس کہاوت سے متعلق ایک حکایت ہے۔ ایک راجا کا ہاتھی پانی پینے کے لئے روزانہ صبح تالاب پر لے جایا جاتا تھا۔راستہ میں  ایک درزی کی دوکان پڑتی تھی۔ ہاتھی روزانہ اس کی دوکان میں  اپنی سونڈ بڑھا دیتا اور درزی اسے کیلا یا کھانے کی کوئی اور چیز دے دیتا تھا۔ یہ دوستی کچھ دن ایسے ہی چلتی رہی۔ ایک دن دَرزی کے بجائے اس کا لڑکا دوکان پر بیٹھا تھا۔ ہاتھی نے ہمیشہ کی طرح جب دوکان میں  سونڈ بڑھائی تو لڑکے نے شرارت سے کیلا دینے کے بجائے اس میں  سوئی چبھو دی۔ ہاتھی تالا ب سے لوٹا تو اپنی سونڈ میں  بہت سا پانی بھر لایا اور دوکان میں  سونڈ ڈال کر درزی کے لڑکے پر زور سے دھار مارکر اسے شرابور کر دیا۔اس طرح جیسااس لڑکے نے کیا تھا ویساہی اس کے ساتھ ہوا۔

جیسے کو تیساملا

یہ کہاوت ایک فرضی قصہ پر مبنی ہے۔  ایک لومڑی اور ایک سارس کی دوستی تھی۔ ایک دن لومڑی نے سارس کو اپنے گھر کھانے پر بلایا اور جب وہ آیا تو اس کے سامنے ایک رکابی میں  گوشت کا شوربہ رکھ دیا۔ خود تو اپنی رکابی وہ زبان سے لپ لپ کر کے چاٹ گئی لیکن غریب سارس کو ایک بوند شوربہ بھی نصیب نہ ہوا۔ اُس نے لومڑی کا شکریہ ادا کیا اور دوسرے دن اُسے اپنے گھر کھانے پر آنے کی جوابی دعوت دی۔ جب لومڑی وہاں  پہنچی تو سارس نے ایک لمبی گردن کی صراحی میں  گوشت کا شوربہ اُس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ خود تو اپنی صراحی کا شوربہ اپنی لمبی چونچ ڈال ڈال کر پی گیا لیکن لومڑی کو ایک بوند شوربہ بھی نہ ملا۔اسی کو جیسے کو تیساکہتے ہیں ۔

چراغ تلے اندھیرا

 

  پرانے زمانے میں  گھروں میں  رات کو چراغ جلائے جاتے تھے۔ چراغ کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے جب کہ وہ سارے گھرکو روشن کرتا ہے۔اسی رعایت سے اگرکسی شخص سے ساری دُنیا کو فیض پہنچے لیکن اس کے قریب کے لوگ محروم رہیں  تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔اس کا پس منظر ایک حکایت بیان کرتی ہے۔ ایک سوداگر سفر کرتا ہوا ایک بادشاہ کے قلعہ کے پاس پہنچا تو رات ہو چکی تھی اور قلعہ کا دروازہ بند کیا جا چکا تھا۔ا س نے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں  رات گزارنے کی ٹھانی کہ بادشاہ کے ڈر سے یہاں کوئی بدمعاش ہمت نہیں کرے گا۔رات کو چور اس کا سارا سامان چرا کر رفو چکر ہو گئے۔ صبح سوداگر اٹھا تو اپنی بدحالی کی فریاد لے کر بادشاہ کے سامنے گیا۔بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ ’’تم قلعہ سے باہر کھلے میدان میں  آخر سوئے ہی کیوں ؟‘‘ اُس نے عرض کیا کہ ’’حضور! مجھ کو اطمینان تھا کہ آپ کا اقبال میری حفاظت کرے گا اور کسی کو مجھے لوٹنے کی ہمت نہ ہو گی۔ مجھے خبر نہیں  تھی کہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘

چور اور لٹھ دو جَنے، ہم باپ پوت اکیلے

  جَنے یعنی لوگ۔ جب کوئی شخص اپنے دفاع میں  فضول اور بے تکی تاویل پیش کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اس کہاوت سے ایک قصہ منسوب ہے۔ ایک شخص اپنے بیٹے کے ہمراہ کہیں  جا رہا تھا۔ایک سنسان جگہ میں  اچانک ایک لٹھ بند چور سامنے آ گیا اور دھمکی دے کر اُ س کا سارا سامان چھین لیا۔جب وہ شخص اپنے گاؤں  پہنچا اور لوگوں  کو قصہ سنایا تو انھوں  نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایسا کیسے ہو گیا۔اس آدمی نے یہ کہاوت کہی یعنی ’’چور اور اُس کا لٹھ تو دو تھے اور ہم باپ بیٹے اکیلے۔ پھر بھلا دو کے آگے ہم ایک کیا کر سکتے تھے۔‘‘

چور کی داڑھی میں  تنکا

  روایت ہے کہ ایک قاضی صاحب کے سامنے چوری کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ حاضرین میں  سے کسی نے چوری کی تھی لیکن کوئی اقبال جرم کے لئے تیار نہیں  تھا۔ قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ ’’میں  ایک ایسی دُعا جانتا ہوں  جس کے اثر سے چور کی داڑھی میں  خود بخود ایک تنکا پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کو پہچانا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں  نے بظاہر نہایت خضوع و خشوع سے کوئی دُعا پڑھنی شروع کی۔ اس دوران میں  سب کی نظریں  بچا کر ایک شخص چپکے چپکے اپنی داڑھی میں  انگلیوں  سے کنگھی کرنے لگا جیسے تنکا نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ قاضی صاحب تو تاک میں تھے ہی لہٰذا فوراً اس شخص کو  پکڑ لیا گیا اور اس نے اقبال جرم کر لیا۔  کہاوت کے معنی یہ ہوئے کہ مجرم کے دل کا چور کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔

خواب خرگوش کے مزے

یعنی مکمل غفلت اور  بے حسی۔ اس کہاوت سے ایک کہانی وابستہ ہے۔ ایک کچھوے اور خرگوش میں دَوڑ کا مقابلہ ہوا۔  دَوڑ شروع ہوتے ہی خرگوش چھلانگیں  لگاتا ہوا کہیں سے کہیں نکل گیا جب کہ کچھوا آہستہ آہستہ منزل کی جانب چلا۔ کچھ دور جا کر خرگوش نے سوچا کہ’’ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ بھلا کچھوا اپنی جوں  کی سی چال سے مجھ کوکیسے شکست دے سکتا ہے۔ کیوں  نہ ہیں کہیں  ذرا سا لیٹ کر آرام کر لوں۔‘‘  چنانچہ وہ گھاس میں  پڑ کر گہری نیند سو گیا۔ کچھوا اپنی رفتار چلتا رہا اور اُس کو پیچھے چھوڑ گیا۔  خرگوش کی آنکھ کھلی تووہ گھبرا کر بے تحاشہ منزل مقصود کی جانب بھاگا لیکن وہاں  پہنچ کر دیکھا کہ کچھوا کبھی کا وہاں  پہنچ چکا تھا۔

دانہ دانہ پر مہر لگی ہے

  عقیدہ ہے کہ جوجس کی تقدیر میں ہے وہ اُسے مل کر رہے گا گویا رزق کے دانے دانے پر اللہ نے اس کے نام کی مہر لگا دی ہے۔ اس کہاوت سے ایک لطیفہ بھی منسوب ہے۔ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ایک دن اپنے آموں  کے باغ کی سیر کر رہے تھے۔ مرزا غالبؔ بھی ہمراہ تھے۔ مرزا نوشہؔ  ہر درخت کے قریب جا کر آموں  کو بہت غور سے آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ ظفرؔ نے دریافت کیا ’’مرزا نوشہ، کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘  مرزا غالبؔ نے کہا ’’حضور! بزرگوں  نے کہا ہے کہ دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ میں  دیکھ رہا ہوں  کہ کسی آم پر میرا نام بھی لکھا ہوا ہے کہ نہیں۔‘‘  بادشاہ یہ سن کر ہنس پڑے اور ملازم کو تاکید کی کہ آموں  کا ایک ٹوکرا  مرزا نوشہ کے گھر پہنچا دیا جائے۔

دودھ کا دودھ اور  پانی کا پانی

  بازار میں  دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے اس میں بے ایمان دوکاندار پانی ملا دیتا ہے۔ اگر کسی طرح اس مرکب سے دودھ اور پانی الگ الگ کر دیے جائیں تو اصل اور اس کی ملاوٹ ظاہر ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی معاملہ میں  سچ اور جھوٹ  ملے ہوں اور انھیں  الگ الگ کر دیا جائے تو اصل حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ ایک دوسری کہاوت میں اسے  ’’ڈھول کا پول کھولنا ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ ایک کہانی اس کہاوت سے وابستہ ہے۔ ایک دودھ والا دودھ میں بہت پانی ملا کر گاہکوں  کو دھوکا دیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک بندر اس کی دوکان میں گھس آیا اور اس کے پیسوں  کا ڈبہ اٹھا کر ندی کنارے ایک درخت پر جا بیٹھا۔ دوکاندار نے بہت بہلایا پھسلایا لیکن بندر نے ڈبہ واپس نہ کیا بلکہ اس میں  سے روپے نکال نکال کر ندی میں  پھینکنے لگا اور پیسے دوکاندار کی طرف۔ ایک شخص یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔اس نے دوکاندار سے کہا کہ ’’بندر ٹھیک تو کر رہا ہے۔ دودھ کے دام تمھاری طرف پھینک رہا ہے اور پانی کے روپے پانی میں۔ یعنی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔‘‘

دو میں  تیسرا، آنکھوں  میں  ٹھیکرا

 آنکھوں  میں  ٹھیکرا  یعنی کھٹکنے والی چیز۔ اگر دو اشخاص بیٹھے ذاتی گفتگو کر رہے ہوں  تو کسی اور کا وہاں  آ بیٹھنا مناسب نہیں  ہے۔اس کہاوت سے متعلق مرزا غالبؔ  کا ایک لطیفہ مشہور ہے جو مرزا نوشہ کے منھ بولے بیٹے زین العابدین خاں  عارفؔ کی بہو معظم زمانی بیگم (عرف بُگا بیگم)نے بیان کیا ہے۔بگا بیگم نے مرزا غالبؔ کی زندگی کا آخری دَور دیکھا تھا۔  فرماتی ہیں  کہ’’ برسات کے دن تھے، مینہہ بہت برسنے لگا۔ مرزا صاحب  بیٹھے بیوی سے باتیں  کر تے تھے، میں  یوں  بیٹھی تھی گاؤ تکیہ کے کونے سے لگی ہوئی۔ کہنے لگے ’’ایک بیوی،دو میں ، تیسرا آنکھوں میں  ٹھیکرا۔ بہو !  میں  اور میری بیوی بیٹھے ہیں  تم کیوں  بیٹھی ہو؟‘‘  اس پر میری ساس بولیں  ’’ارے توبہ توبہ ! بڈھا دیوانہ ہے۔ اسے تو ٹھٹھے کے لئے کوئی چاہئے۔ اب بہو ہی مل گئی۔‘‘  میں  اتنے میں  اُٹھ کر کونے میں  جا چھپی۔ اب اُنہیں یہ فکر کہ برسات کا موسم اور  کیڑے پتنگے کا عالم۔ مجھے ڈھونڈتے پھریں  اور کہتے جائیں ’’ مجھے کیا خبر تھی کہ بہو اس بات کا اتنا برا  مان جائے گی۔‘‘

دولت اندھی ہوتی ہے

  یہ ضروری نہیں  ہے کہ دولت صرف مستحق لوگوں  کو ہی ملے۔ وہ کسی کو بھی مل سکتی ہے اور ملتی بھی ہے۔ اس کہاوت سے ایک حکایت منسوب ہے۔ مغل بادشاہ تیمورؔ لنگڑا تھا اور اسی لئے تاریخ میں  اسے تیمورؔ لنگ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ ایک بار اس کے دربار میں  ایک اندھا آدمی حاضر ہوا جس کا نام دولتؔ  تھا۔ تیمورؔ نے از راہ تمسخر کہا کہ ’’کیا دولت بھی اندھی ہوتی ہے؟‘‘ اُس اندھے نے دست بستہ عرض کی کہ ’’حضور! اگر اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے کے پاس کیسے آتی؟‘‘ تیمورؔ اس کی حاضر جوابی سے محظوظ ہوا اور اس کو انعام و اکرام سے نوازا۔

دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

  اونٹ بہت بے ڈھب جانور ہے اور اس کہاوت میں مشکل مسئلہ کا استعارہ ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے بظاہر مسئلہ نہایت ٹیڑھا ہے۔اب دیکھئے کہ یہ کس طرح سے حل ہوتا ہے۔ایک حکایت اس کہاوت کے بارے میں  مشہور ہے۔ ایک کمھار اور ایک سبزی فروش نے مل کر ایک اونٹ کرایے پر لیا۔ سبزی فروش نے اونٹ کے ایک طرف اپنی سبزی ترکاری لاد دی اور کمھار نے اپنے برتن دوسری جانب باند ھ دئے۔ بازار کی طرف جاتے ہوئے اونٹ بار بار منھ گھما کر سبزیوں میں  سے کچھ نہ کچھ کھاتا رہا اور سبزی فروش کے نقصان پر کمھارہنستا رہا۔ سبزی فروش بار بار یہی کہتا تھا کہ ’’دیکھئے اونٹ کس کرو ٹ بیٹھتا ہے۔‘‘ جب وہ بازار پہنچے تو اونٹ برتنوں  کی کروٹ بیٹھ گیا کیونکہ اُس جانب بوجھ زیادہ تھا اور اس کے لئے اُ س کروٹ بیٹھنا آسان۔کمھار کے بہت سے برتن دب کر ٹو ٹ گئے اور وہ سبزی فروش کا منھ دیکھتا رہ گیا۔

ڈھائی دن کی بادشاہت

  یعنی ایک مختصر مدت کی نمود و نمائش اور نام آوری۔ یہ کہاوت ایک تاریخی واقعہ سے وابستہ ہے۔

 جب مغل بادشاہ ہمایوںؔ  کو شیر شاہؔ کے مقابلہ میں  شکست ہوئی تو اس نے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے جمنا میں  اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ شومئی قسمت سے گھوڑا ڈوبنے لگا اور بادشاہ کی جان خطرہ میں  آ گئی۔ اس وقت نظامؔ نامی ایک سقہ نے اپنی ہوا سے بھری ہوئی مشک کا سہارا دے کر ہمایوںؔ  کو حفاظت سے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔ جب ہمایوںؔ  کی بادشاہت دوبارہ بحال ہوئی تو اس نے نظامؔ سقہ کو منھ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا۔  نظامؔ نے ڈھائی دن کی بادشاہت کی خواہش ظاہر کی اور ہمایوں  نے اسے تخت پر بٹھا دیا۔ اپنی اِس مختصر سی حکومت کے دَوران میں  اُس نے شہر میں  چمڑے کے سکّے چلوا دئے تھے جن کے بیچ میں  سونے کی کیل جڑی ہوئی تھی۔

سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں پوچھیں

 

  ایک حکایت ہے کہ ایک عورت نے قیمتی اور خوبصورت چوڑیاں  خریدیں ۔ اسے شوق ہوا کہ لوگ اس کی چوڑیاں  دیکھیں  اور ان کی تعریف کریں۔ چنانچہ وہ بہانے سے لوگوں  کے سامنے جا کر ہاتھ نچا نچا  کر باتیں  بنانے لگی۔ اتفاق سے کسی نے چوڑیوں  پر غور نہیں  کیا۔ کھسیا کر اُس نے اپنے گھر میں  آگ لگا لی اور ہاتھ پھیلا پھیلا کر شور مچانے لگی۔ لوگ آگ بجھانے دوڑ پڑے۔ اس افراتفری میں  بھی کسی نے اس عورت کی چوڑیاں  نہیں  دیکھیں۔ گھر جل کر خاک ہو گیا تو ایک شخص کی نگاہ چوڑیوں  پر پڑی اور اس نے اُن کی خوبصورتی کی تعریف کی۔ عورت جھلا کر بولی کہ ’’سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں  پوچھیں۔‘‘کہانی کی مناسبت سے کوئی شخص اپنی بے جا تعریف کرانے کی خاطر اپنا ہی نقصان کر نے سے بھی باز نہ آئے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔

سوت نہ کپاس، جُلاہے سے لٹھم لٹھا

  لٹّھم لٹّھا یعنی مار پیٹ، جھگڑا، بے تحاشہ لاٹھی چلانا۔ مطلب یہ ہے کہ سوت اور کپاس تو پاس ہے نہیں  اور جلاہے سے جھگڑا ہو رہا ہے۔ جب کوئی شخص بلا وجہ بحث یا دنگا فسادکرے تب یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اس کے پس منظر کے طور پر کئی حکایتیں  بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہاں دَرج کی جاتی ہے۔ ایک ٹھاکر صاحب ایک جلاہے کے گھر پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’میرے لئے ایک کرتے کا کپڑا بُن دو۔‘‘ جُلاہے نے کہا کہ ’’ میرے پاس سُوت نہیں  ہے۔ آ پ سوت دے دیں  تو کپڑا بن  دوں  گا۔‘‘ ٹھاکر نے جھلا کر کہا کہ ’’ سوت نہیں  ہے تو کپاس لے کر کات کیوں  نہیں  لیتے۔‘‘ جلاہے نے جواب دیا کہ ’’ کپاس بھی نہیں  ہے۔میں  کیا کروں۔‘‘ ٹھاکر صاحب غصہ میں  لاٹھی تان لی، جلاہے نے بھی جواب میں  ڈنڈا اُٹھا لیا اور دونوں  میں  خوب لاٹھی چلی۔

فارسی ہے تو واہ واہ

  کوئی شخص بغیر سمجھے بوجھے کسی بات کی خواہ مخواہ تعریف کرے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی بزرگ کے مزار پر قوالیاں  ہو رہی تھیں۔ عقیدت مندوں  اور مریدوں  کا ہجوم تھا اور لوگ بڑھ چڑھ کر قوالوں  سے طرح طرح کی قوالی سنانے کی فرمائش کر رہے تھے۔ ایک جاہل اور کم عقل مرید نے سوچا کہ اگر میں نے کوئی فرمائش نہیں کی تو میری بڑی سبکی ہو گی۔ چنانچہ اس نے بڑھ کر قوال سے فارسی کی کوئی چیز سنانے کی فرمائش کی۔ قوال نے کہا کہ ’’حضور! ابھی میں جو قوالی سنا رہا تھا وہ فارسی کی ہی تو تھی۔‘‘ اس پر اُس مرید نے جیب سے روپے نکال کر قوال کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’فارسی ہے تو واہ واہ۔‘‘

کمبل نہیں  چھوڑتا

 

  یعنی کسی طرح چھٹکارہ نہیں  مل رہا ہے،جان نہیں  چھوٹ رہی ہے۔ اس کے پس منظر میں  ایک کہانی ہے۔ ایک شخص دریا کے کنارے کھڑا تھا کہ اس کے سامنے سے ایک کالا کمبل بہتا ہوا گزرا۔مفت کا کمبل حاصل کرنے کی لالچ میں وہ دریا میں   کود پڑا اور چاہا کہ کمبل کو کھینچ لائے۔ وہ دراصل ایک کالا ریچھ تھا جو دور سے کمبل کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ریچھ نے اُس شخص کو دبوچ لیا تو اُس نے شور مچانا شروع کیا۔کنارے سے لوگوں  نے پکار کر کہا کہ ’’تو کمبل کو کیوں  نہیں  چھوڑ دیتا ہے؟‘‘ جواباً اس نے چلا کر کہا کہ ’’بھائی میں  تو کمبل کو چھوڑ دوں  لیکن کمبل مجھ کو نہیں  چھوڑ رہا ہے۔‘‘

کنواں  بیچا ہے، کنویں  کا پانی نہیں  بیچا

  اس کہاوت کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ایک شخص نے دوسرے آدمی کے ہاتھ اپنا کنواں  فروخت کر دیا۔ جب وہ آدمی کنویں  سے پانی کھینچنے آیا تو اُس شخص نے اُس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ’’ میں  نے کنواں  بیچا ہے،کنویں  کا پانی تو نہیں  بیچا‘‘۔  جھگڑا بڑھا تو کنویں  کا خریدار قاضی ٔ  شہر کے پاس فریاد لے کر گیا۔ قاضی نے مقدمہ کی رُوداد سُن کر کہا کہ ’’کنویں  کا سابق مالک بات تو صحیح کہہ رہا ہے۔ اس نے واقعی کنویں  کا پانی نہیں  بیچا۔ چنانچہ اس کو عدالت کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ وہ دو دن کے اندر کنویں  میں  سے اپنا پانی نکال لے ورنہ دوسرے کے کنویں  میں  اپنا پانی رکھنے کا کرایہ دینا ہو گا۔‘‘  یہ سُن کر کنویں  کے سابق مالک کے ہو ش اُڑ گئے اور اُس نے اُسی وقت ہاتھ جوڑ کر عدالت اور  کنویں  کے مالک سے معافی مانگی،کنواں  مع پانی کے اس کے سپرد کیا اور اس طرح گلو خلاصی حاصل کی۔ کہاوت ایسی ہی فضول دلیل کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔

گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

  ہندوؤں  کی مقدس کتاب رامائنؔ کے مطابق رام چندؔر جی کی بیوی سیتاؔ کو لنکا کا راجا راونؔ اغوا کر کے لے گیا تھا۔ اس کی تلا ش میں  رامؔ کے ایک سیوک ہنومان جیؔ بھیجے گئے تھے جن کی شکل بندر کی سی تھی۔ ان کو بھی راونؔ نے پکڑ لیا تھا اور سزا کے طور پر ان کی دُم میں  تیل سے بھیگا ہوا کپڑا لپیٹ کر اُس میں آگ لگا دی تھی۔ ہنومانؔ نے اسی جلتی ہوئی دُم سے لنکا میں  جا بجا آگ لگا کر تباہی کا سامان پیدا کر دیا تھا۔ اسی حوالے سے یہ کہاوت ہے کہ اگر اندرون خانہ راز کسی گھر والے کو معلوم ہوں  تو وہ  بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی لئے بزرگوں  نے کہا ہے کہ راز کی بات راز ہی رہنی چاہئے کیونکہ دیواروں  کے بھی کان ہوتے ہیں۔

مونچھ نیچی ہو جانا

  اونچی مونچھ عزت و افتخار کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔مونچھ نیچی ہو جانا یعنی بے عزتی ہو جانا۔ اس سلسلہ میں  ایک کہانی مشہور ہے۔ ایک خان صاحب کی بڑی شاندار تلوار مارکہ مونچھیں  تھیں  جن کو وہ ہر وقت تاؤ دیتے رہتے تھے۔ ایک دن ان کو  بازار میں ایک بنیا نظر آیا جس کی مونچھیں  بھی اُنھیں  کی طرح تاؤ دار تھیں۔ بھلا ایک میان میں  دو تلواریں  کس طرح رہ سکتی تھیں ؟ خان صاحب نے غصہ میں  آکراُس بنئے سے کہا کہ وہ اپنی مونچھ نیچی کر لے لیکن بنئے نے بلا قیمت ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر خان صاحب نے اس کو منھ مانگے پیسے بطور رشوت دئے اور بنئے نے اپنی ایک طرف کی مونچھ نیچی کر لی۔ خان صاحب نے جاتے جاتے مُڑ کر دیکھا کہ اُس کی دوسری جانب کی مونچھ پہلے کی طرح ہی اینٹھی ہوئی تھی تو چراغ پا ہو گئے۔ بنئے نے ہاتھ جو ڑ کر عرض کی کہ’’ سرکار ! ہمارا معاہدہ تو مونچھ نیچی کرنے کا تھا۔ اس میں  دونوں  طرف کی مونچھوں  کی شرط تو نہیں  تھی۔ اس کو نیچا کرنے کے لئے الگ سے کچھ عنایت کیجئے ‘‘۔ خان صاحب نے اُس کو مزید پیسے دئے اور بنئے نے دوسری مونچھ بھی نیچی کر لی۔ خان صاحب اب مطمئن ہو کر مونچھوں  پر تاؤ دیتے ہوئے اپنی راہ چل دئے۔

میرے بیل نے وکالت نہیں  پڑھی

  فضول باتوں  میں  پڑ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے آدمی کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ اس کہاوت سے منسوب ایک لطیفہ ہے۔ ایک تیلی کے بیل کی ملکیت کا مقدمہ عدالت میں  پیش ہوا۔مخالف وکیل نے تیلی سے جرح کے دوران پوچھا کہ ’’تم کولھو کے بیل کی گردن میں  گھنٹی کیوں  باندھتے ہو؟‘‘ تیلی نے جواب دیا کہ ’’جب ہم اپنے کسی کام سے اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں تو گھنٹی کی آواز سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ بیل اپنے کام سے لگا ہوا ہے۔‘‘ وکیل نے پوچھا کہ ’’اگر بیل رُک کر کھڑا ہو جائے اور یونہی گردن ہلاتا رہے تو تم کو کیسے پتہ چلے گا؟‘‘ تیلی نے مسکرا کر کہا کہ ’’حضور! میر ے بیل نے وکالت نہیں  پڑھی ہے۔‘‘

ناچ نہ آئے، آنگن ٹیڑھا

  قصہ مشہور ہے کہ ایک رقاصہ محفل میں  ناچ رہی تھی۔ جب لوگوں  نے اس کے ناچ کو ناپسند کیا تو اس نے جواباً کہا کہ ’’ میں  کیا کروں، اس گھر کا آنگن ہی ٹیڑھا ہے۔ بھلا اچھا ناچ یہاں  کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘  چنانچہ اب یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے جب کوئی اپنی نا اہلیت کی وجہ ایسی بتائے جس کا اُس کام سے مطلق کوئی واسطہ نہ ہو۔

وہی مرغے کی ایک ٹانگ

  کوئی اپنی ضد پر اَڑ جائے اور کسی طرح بات نہ سنے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ اس سے ایک دلچسپ کہانی وابستہ ہے۔ کسی بادشاہ کے دسترخوان پر مرغ پک کر آیا تو باورچی نے للچا کر ایک ٹانگ ہڑپ کر لی۔ بادشاہ کے سامنے جب ایک ہی ٹانگ پہنچی تو اس نے باورچی سے وجہ دریافت کی۔اُس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ’’حضور! اس مرغ کی ایک ہی ٹانگ تھی۔‘‘ بادشاہ نے کہا کہ’’ کہیں  مرغ کے ایک ٹانگ بھی ہو ا کرتی ہے؟ مجھے بھی ایسا مرغ دکھانا‘‘۔کچھ دنوں  کے بعد بادشاہ سلامت کہیں  جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے ایک مرغ ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا تھا۔ باورچی نے عرض کی کہ’’ دیکھئے حضور! وہ رہا ایک ٹانگ کا مرغ۔‘‘ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسی وقت ڈھول بجایا جائے۔ ڈھول کی آواز سے گھبرا کر مرغ نے اپنی دوسری ٹانگ پروں  سے نکالی اور بھاگ لیا۔ بادشاہ نے باورچی کی طرف دیکھا تو اس نے عاجزانہ کہا کہ ’’حضور! اُس دن میرے پاس ڈھول نہیں  تھا ورنہ میں  بھی بجوا دیتا اور مرغ کی دوسری ٹانگ بر آمد کر لیتا‘‘۔ بادشاہ اُس کی حاضر جوابی پر ہنس پڑا اور اس کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ کہاوت اب ہٹ دھرمی پر بولی جاتی ہے۔

یہ منھ اور مسور کی دال

 

  اس کہاوت سے ایک قصہ وابستہ ہے۔ مغلیہ حکومت کی آخری سانسیں  تھیں ۔  بادشاہ وقت کا خزانہ خالی تھا اور سلطنت فقط نام کی ہی رہ گئی تھی۔ شاہی باورچی بھی اِدبار کا شکار ہو کر قسمت آزمانے شہر سے باہر چلا گیا اور ایک راجہ صاحب کے دربار میں  جا کر ملازمت کا خواستگار ہوا۔ جب راجہ صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شخص شاہی باورچی رہ چکا ہے تو امتحان کی غرض سے اس کو مسور کی دا ل پکانے کو کہا۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ کو حکم دیا کہ باورچی اخراجات کے لئے جتنی رقم مانگے اس کو فراہم کر دی جائے۔ شام کو جب راجہ صاحب کے سامنے مسور کی دا  ل آئی تو وہ  اتنی لذیذ تھی کہ راجہ صاحب تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ یک لخت ان کو یاد آیا کہ باورچی کبھی شاہان مغلیہ کی خدمت میں  رہ چکا تھا۔ گھبرا کر پوچھا کہ’’ اس دال پر کتنے روپئے خرچ ہوئے ہیں ؟‘‘۔ باورچی نے دست بستہ عرض کی’’ حضور!  دو پیسے کی دال تھی اور بتیس روپے کے مصالحے‘‘۔ راجہ صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ فرمایا’’ دو پیسے کی دال میں  بتیس روپے کے مصالحے؟ بھلا ایسے کیسے کام چلے گا؟‘‘۔ باورچی نے شاہی آنکھیں  دیکھی تھیں۔ اس نے کب ایسی بات سنی تھی۔ اسی وقت جیب سے بتیس روپے اور دو پیسے نکال کر راجہ صاحب کے سامنے رکھے دئے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ’’صاحب یہ رہے آپ کے پیسے۔ یہ منھ اور  مسور کی دال!‘‘۔ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی کنجوسی نہ دے۔

٭٭٭

ماخذ: مصنف کی کتاب ’کہاوتیں‘ سے انتخاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید