FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

غبار ایام

 

                فیض احمد فیضؔ

ترتیب اور ٹائپنگ: فرخ منظور

 

 

 

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں

یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے

 

 

 

 

 

 

تُم ہی کہو کیا کرنا ہے

 

جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے

جیون کی ناؤ ڈالی تھی

تھا کتنا کس بل بانہوں میں

لوہُو میں کتنی لالی تھی

یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے

اور ناؤ پُورم پار لگی

ایسا نہ ہُوا ، ہر دھارے میں

کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں

کچھ مانجھی تھے انجان بہُت

کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں

اب جو بھی چاہو چھان کرو

اب جِتنے چاہو دوش دھرو

ندیا تو وہی ہے ، ناؤ وہی

اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے

اب کیسے پار اُترنا ہے

جب اپنی چھاتی میں ہم نے

اِس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے

تھا ویدوں پر وشواس بہت

اور یاد بہت سےنسخے تھے

یُوں لگتا تھا بس کچھ دِن میں

ساری بپتا کٹ جائے گی

اور سب گھاؤ بھر جائیں گے

ایسا نہ ہُوا کہ روگ اپنے

کچھ اِتنے ڈھیر پُرانے تھے

وید اُن کی ٹوہ کو پا نہ سکے

اور ٹوٹکے سب بیکار گئے

اب جو بھی چاہو چھان کرو

اب جتنے چاہو دوش دھرو

چھاتی تو وہی ہے ، گھاؤ وہی

اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے

یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے

 

لندن ۱۹۸۱

٭٭٭

 

 

 

 

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا

 

دار کی رسیوں کے گلو بند گردن میں پہنے ہوئے

گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے

پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے

ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے

ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے

راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے

رشک کرتے رہے

اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے

 

لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ

جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے

اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا

دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے

گلو میں کبھی طوق کا واہمہ

کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر

اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح

رسن در گلو، پابجولاں ہمیں

اسی قافلے میں کشاں لے چلا

 

بیروت، جولائی ۱۹۸۱

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

 

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں

نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

 

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو

نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی

 

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل

کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی

 

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی

تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی

 

لاہور، فروری 82ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

میجر اسحاق کی یاد میں

 

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے

باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور

 

یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے

رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور

 

ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہوا خالی

باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور

 

ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی

کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور

 

آنے میں تامّل تھا اگر روزِ جزا کو

اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور

 

بیروت۔ 3 جون 1982

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے

 

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

بیروت بدیلِ باغِ جناں

بچوں کی ہنستی آنکھوں کے

جو آئنے چکنا چور ہوئے

اب ان کے ستاروں کی لَو سے

اس شہر کی راتیں روشن ہیں

اور رخشاں ہے ارضِ لبنان

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

جو چہرے لہو کے غازے کی

زینت سے سوا پُر نور ہوئی

اب ان کے رنگیں پرتو سے

اس شہر کی گلیاں روشن ہیں

اور تاباں ہے ارضِ لبنان

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

ہر ویراں گھر، ہر ایک کھنڈر

ہم پایۂ قصرِ دارا ہے

ہر غازی رشکِ اسکندر

ہر دختر ہمسرِ لیلیٰ ہے

یہ شہر ازل سے قائم ہے

یہ شہر ابد تک دائم ہے

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

بیروت بدیلِ باغِ جناں

 

بیروت ۔ جون 82ء

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے

 

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

بالآخر اِک دن جیتیں گے

کیا خوف ز یلغارِ اعداء

ہے سینہ سپر ہر غازی کا

کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا

صف بستہ ہیں ارواح الشہدا

ڈر کاہے کا!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

قد جاء الحق و زَہَق الباطِل

فرمودۂ ربِّ اکبر

ہے جنت اپنے پاؤں تلے

اور سایۂ رحمت سر پر ہے

پھر کیا ڈر ہے!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

بالآخر اِک دن جیتیں گے

بیروت۔ 15 جون 83ء

٭٭٭

 

 

 

 

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا

یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا

 

گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے

ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا

 

منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی

ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا

 

تھک کر یونہی پل بھر کے لئے آنکھ لگی تھی

سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا

 

واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت

فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا

 

لاہور۔ فروری 83ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس وقت تو یُوں لگتا ہے

 

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے

مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا

 

آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن

اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

 

ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو

گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا

 

شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید

اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

 

اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ

تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا

 

مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے

لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

 

میو ہسپتال، لاہور

4، مارچ 82ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت

درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے

 

آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت

تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے

 

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں

یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے

 

جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں

یہ خونِ شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے

 

حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو

کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

 

 

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں

ہم پرو کر ترے خیال کے پھول

 

ترکِ الفت کے دشت سے چن کر

آشنائی کے ماہ و سال کے پھول

 

تیری دہلیز پر سجا آئے

پھر تری یاد پر چڑھا آئے

 

باندھ کر آرزو کے پلے میں

ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔

 

نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا

کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن

نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے

کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا

جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے

نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی

جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا

بنائے لطف و محبت، رواجِ مہر و وفا

یہ کس دیارِ عدم میں مقیم ہیں ہم تم

جہاں پہ مژدۂ دیدارِ حسنِ یار تو کیا

نویدِ آمدِ روزِ جزا نہیں آتی

یہ کس خمار کدے میں ندیم ہیں ہم تم

جہاں پہ شورشِ رندانِ میگسار تو کیا

شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی

 

(ناتمام)

٭٭٭

 

 

 

 

 

نذرِ مولانا حسرت موہانی

 

مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے

احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے

 

کیا کچھ نہ ملا ہے جو کبھی تجھ سے ملے گا

اب تیرے نہ ملنے کی شکایت نہ کریں گے

 

شب بیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی

ہر لحظہ جو گزری وہ حکایت نہ کریں گے

 

یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے

شاہی نہیں مانگیں گے ولایت نہ کریں گے

 

ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی

جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے

٭٭

 

ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے

بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

 

کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم

ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے

 

جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن

ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے

 

نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے

لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے

 

شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر

ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے

 

فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام

آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم

رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم

 

سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے

کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم

 

کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا

ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم

 

ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا

ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم

 

فیض جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا

ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو میرا تمہارا رشتہ ہے

 

میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے

وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں

لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق

مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں

یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال

یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال

اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے

"گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے”

٭٭٭

 

 

 

 

آج شب کوئی نہیں ہے

 

 

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی

خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی

اور مکیں کوئی نہیں ہے،

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت”

کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت

کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں

کوئی نہیں ہے

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم

ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم

اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شام دھندلانے لگی اور مری تنہائی

دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی

چاند ابھرنے لگا یک بار تری یاد کے ساتھ

زندگی مونس و غم خوار نظر آنے لگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اُسی کا

پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا

اِک عمر سے اِس دھُن میں کہ ابھرے کوئی خورشید

بیٹھے ہیں سہارا لیے شمعِ سحری کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترک شاعر ناظمِ حکمت کے افکار

 

جینے کے لیے مرنا

یہ کیسی سعادت ہے

مرنے کے لیے جینا

یہ کیسی حماقت ہے

 

۔۔۔۔۔۔

اکیلے جیو ایک شمشاد تن کی طرح

اور مل کر جیو

ایک بَن کی طرح

۔۔۔۔۔۔

 

ہم نے امّید کے سہارے پر

ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے

جس طرح تم سے عاشقی کی ہے

۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

اِدھر نہ دیکھو

 

اِدھر نہ دیکھو کہ جو بہادر

قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے

جو عزم و ہمت کے مدعی تھے

اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی

آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے

جو کج کلہ صاحبِ حشم تھے

جو اہلِ دستار محترم تھے

ہوس کے پر پیچ راستوں میں

کلہ کسی نے گرو رکھ دی

کسی نے دستار بیچ دی ہے

 

اُدھر بھی دیکھو

جو اپنے رخشاں لہو کے دینار

مفت بازار میں لٹا کر

نظر سے اوجھل ہوئے

اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،

اُدھر بھی دیکھو

جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر

جہاں سے رخصت ہوئے

اور اہلِ جہاں میں اس وقت تک نبی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

رفیقِ راہ تھی منزل ہر اِک تلاش کے بعد

چھُٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی

ملُول تھا دلِ آئنہ ہر خراش کے بعد

جو پاش پاش ہُوا اِک خراش بھی نہ رہی

٭٭٭

 

 

 

3

1

 

 

پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے

پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے

 

صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر

اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے

 

خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا

اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے

 

دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں

جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے

 

یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں

مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے

 

21، نومبر 1983ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر

رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر

 

بزم برپا کرے جس کو منظور ہو

دعوتِ رقص، تلوار کی دھار پر

 

دعوتِ بیعتِ شہ پہ ملزم بنا

کوئی اقرار پر، کوئی انکار پر

 

(ناتمام)

23، فروری 1984ء

٭٭٭

 

 

 

 

بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے

اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

 

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا

اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے

 

ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے

اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے

 

دل میں وہ آگ فروزاں ہے عدو جس کا بیاں

کوئی مضموں کسی عنواں نہیں‌کرنے دیتے

 

جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے

اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے

 

30 اکتوبر، 1984ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت مِلا نہ مِلا، زندگی سے غم کیا ہے

متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے

 

ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ

کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں، ستم کیا ہے

 

کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف

کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا ہے

 

لحاظ میں کوئی کچھ دور ساتھ چلتا ہے

وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے

 

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ

نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

 

سجاؤ بزم، غزل گاؤ، جام تازہ کرو

"بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے”

 

نومبر، 1984ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

شامِ غربت

 

دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے

غم کے سنسان بیابانوں پہ رات آئی ہے

نورِ عرفان کے دیوانوں پہ رات آئی ہے

شمعِ ایمان کے پروانوں پہ رات آئی ہے

بیت شببر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے

درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے

ایسی تنہائی کہ پیارے نہیں دیکھے جاتے

آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے

درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے

ضعف سے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے

ایسا سنّاٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے

دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نعت

 

اے تُو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تُو

آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تُو

 

خواجہ بہ تخت بندۂ  تشویشِ مُلک و مال

بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تُو

 

آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر

اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لقائے تُو

 

آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ

از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تُو

 

باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُند

روزے بسُوئے عدل و عنایت صَدائے تُو

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%BA%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%91%D8%A7%D9%85-%DB%94-%D9%81%DB%8C%D8%B6-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D9%81%DB%8C%D8%B6.81219/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید