FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

عکاس  انٹر نیشنل

 

شمارہ ۱۴، حصہ اول

اسلام آباد

 

               مدیر ارشد خالد

 

 

 

 

 

 

کوائفِ میرا جی

 

               مرتب کردہ: ڈاکٹر جمیل جالبی

 

نام:                محمد ثنا اللہ ثانی ڈار

والد کا نام:         منشی محمد مہتاب الدین          والدہ کا نام:       زینب بیگم عرف سردار بیگم

ولادت میرا جی:         ۲۵  مئی ۱۹۱۲ء

تخلص:           پہلے ’’ساحری‘‘  اور پھر  ’’میرا جی‘‘۔ ہزلیہ شاعری میں تخلص  ’’لندھور‘‘  آیا ہے۔

تصانیف:

شاعری:

میرا جی کے گیت              مکتبہ اردو لاہور          ۱۹۴۳ء

میرا جی کی نظمیں              ساقی بک ڈپو دہلی         ۱۹۴۴ء

گیت ہی گیت               ساقی بک ڈپو دہلی         ۱۹۴۴ء

پابند نظمیں                   کتاب نما، راولپنڈی       ۱۹۶۸ء

تین رنگ                    کتاب نما، راولپنڈی       ۱۹۶۸ء

سہ آتشہ                            بمبئی              ۱۹۹۲ء

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی  اردو مرکز لندن      ۱۹۸۸ء

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، نیا ایڈیشن۔لاہور   ۱۹۹۴ء

تنقید:

مشرق و مغرب کے نغمے:(تنقید و تراجمِ شاعری)                      اکادمی پنجاب (ٹرسٹ)لاہور     ۱۹۵۸ء

اس نظم میں :                   ساقی بک ڈپو۔دہلی      ۱۹۴۴ء

تراجم:

نگار خانہ  : (سنسکرت شاعر دامودر گپت کی کتاب ’’نٹنی مَتَم‘‘ کا نثری ترجمہ)۔

پہلے ماہنامہ خیال بمبئی میں شائع ہوا۔جنوری ۱۹۴۹ء۔ اور پھر کتابی صورت میں مکتبۂ جدید لاہور سے نومبر۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔

خیمے کے آس پاس:(عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ)۔مکتبۂ جدید لاہور۔۱۹۶۴ء(کلیاتِ میرا جی سے انتخاب)

 

 

 

بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی

(عمران شاہد کا عذرِ لنگ اور اس کی اصل حقیقت)

 

میرے مضمون  ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘  کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس کے جواب میں ابھی تک نام نہاد ’’ نوجوان فلسفی‘‘  کو پوائنٹ در پوائنٹ جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔البتہ اپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بد زبانی سے لبریز ایک تحریر ’’وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے‘‘ کے نام سے بعض ادیبوں کو بھیجی ہے۔اس میں ایک تو بات کو اصل موضوعات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔صرف ایک علمی نکتہ پر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور صفائی دیتے ہوئی بد زبانی کی انتہا کر دی ہے۔تاہم وہ صفائی صرف حیلہ جوئی ہے۔

میرے مضمون میں عمران شاہد بھنڈر کے سرقہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے مضمون کا پورا حوالہ دیا گیا ہے۔مضمون ’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘ میں آئیڈیالوجی‘‘  از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ  ’’دی نیشن‘‘۔ لندن۔22 مارچ 2007ء کا حوالہ۔بھنڈر صاحب کی جانب سے اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں کہیں بھی وہ وضاحتیں نہیں ہیں جو وہ اپنی کتاب کے حوالے سے دے رہے ہیں۔ میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دے کر سرقہ نشان زد نہیں کیا بلکہ ان کے ۲۰۰۷ء میں مطبوعہ مضمون پر ساری بات کی ہے۔اعتراض اخبار کے مضمون پر کیا گیا ہے، جواب میں تین سال کے بعد چھپنے والی کتاب کی بنیاد پر وضاحت کی جا رہی ہے۔

(اضافی نوٹ:) ’’یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی تین سال پہلے چوری کرے اور تین سال کے بعد سب سے آنکھ بچا کر چپکے سے مالِ مسروقہ کو واپس اسی جگہ رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘

اہلِ ادب نام نہاد نوجوان فلسفی سے پوچھیں کہ اخبار میں ۲۰۰۷ء میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ہوا ہے یا نہیں ؟۔۔۔تین سال کے بعد کتاب میں کیا لکھا اور کیا نہیں لکھا، اس سے مجھے غرض نہیں۔ دی نیشن لندن کے 22 مارچ 2007 ء کے شمارہ میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ثابت شدہ ہے۔

چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد!

جہاں تک نام نہاد نوجوان فلسفی کی دوسری باتوں اور غیر متعلقہ ہفوات کا تعلق ہے، اس کا جواب دینے کے لیے ان کی ’’ مادری زبان‘‘  میں بات کرنا پڑے گی جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔میرے مضمون میں درج ہر الزام، واقعہ اور بیان مبنی بر صداقت ہے۔نام نہاد نوجوان فلسفی ایک الزام سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو کئی اور الزامات بھی اُن پر آ پڑیں گے۔میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ باقی قانونی چارہ جوئی کی دھمکی عمران بھنڈر کی گیدڑ بھبکی ہے۔اور ان کے مذکورہ مضمون کی زبان خود ان کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہے۔

میں اپنے مضمون کا پارٹ ٹو دھیرے دھیرے لکھ رہا ہوں، اس میں عمران شاہد بھنڈر کے مزید سرقے پیش کروں گا۔انشاء اللہ!                           حیدر قریشی  (تحریر کردہ: ۹  اگست  ۲۰۱۱ء)

 

 

 

 

اپنی بات

 

عکاس انٹرنیشنل کی چودھویں ادبی کتاب پیشِ خدمت ہے۔

حیدر قریشی کا مضمون  ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ اپنے عنوان کی رنگینی کے باوجود ادب میں ایک سنگین صورت حال کی نشان دہی کر رہا ہے۔مضمون پڑھیے اور اپنی ایماندارانہ رائے سے آگاہ کیجیے۔اس مضمون پر جو ابتدائی ردِ عمل آیا ہے حیدر قریشی نے اس کا ایک انتخاب فراہم کر دیا ہے، اسے مضمون کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔اس نازک مسئلہ پر آنے والا ردِ عمل پوری طرح یک جا کیا جائے گا۔

کیا اردو ادب میں مسلسل زوال کی کیفیت ہے؟کچھ ناکام اور بے شناخت قسم کے لوگ ایسا ضرور سوچتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردو ادب کی مجموعی صورتحال عالمی ادبی صورتحال سے مختلف نہیں ہے۔اچھا برا دونوں طرح کا لکھا جا رہا ہے، وقت گزرنے کے بعد اچھا ادب کسی نہ کسی طور نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔عالمی ادبی منظر نامہ میں دیکھیں تو وہاں بھی ادبی چپقلشیں چلتی رہتی ہیں۔ جوڑ توڑ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ نوبل پرائز جیسا موقر ادبی انعام بھی اندرون خانہ جوڑ توڑ کے بغیر نہیں دیا جاتا۔سو بے شمار داخلی اختلاف اور لڑائی جھگڑوں کے باوجود اردو ادب کی اتنی ہی اہمیت، اتنی ہی وقعت اور اتنی ہی ادبی قوت ہے جتنی عالمی سطح پر کسی بھی دوسری زبان کے شعرو ادب کی ہے۔ ادب میں در اندازی کرنے والے بے شناخت لوگ البتہ اپنی کوئی شناخت مستحکم نہیں کر سکیں گے۔

اس بار ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، ڈاکٹر صابر آفاقی، ڈاکٹر رؤف امیر اور ڈاکٹر افتخار نسیم کی وفات پر تاثراتی مضامین شامل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی دوست رشید قیصرانی کے بارے میں مضمون لکھ سکیں تو اگلے شمارہ میں اسے بھی شامل کر لیا جائے گا۔

مختلف تعصبات کی بنا پر بعض شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ بھی ہمارے یہاں کچھ بڑھنے لگا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال میرا جی اور راشد ہیں۔ اگرچہ مقتدرہ نے فیض صدی کے ساتھ راشد صدی اور میرا جی صدی کے طور پر ان کے بارے میں بھی کتابیں مرتب کرائی ہیں، اور یہ ایک مثبت اشارا ہے۔راشد کے بارے میں نسبتاً بہتر توجہ کی جانے لگی ہے لیکن میرا جی کو عام طور پر ابھی بھی نظر انداز کیا رہا ہے۔اس رویے میں تبدیلی لانے کے لیے اس بار میرا جی کا مطالعۂ خاص پیش کیا جا رہا ہے۔امید ہے اس سے میرا جی کی تفہیم کے امکانات کھل سکیں گے اور ادبی دنیا سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کر سکے گی۔

شاعری کے حصہ میں جہاں اہم ترین سینئر لکھنے والوں کا ایک مطبوعہ انتخاب شامل کیا گیا ہے وہیں اس بار چھوٹے علاقوں کے نئے اور اچھا لکھنے والوں کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔

امید ہے عکاس کی یہ ادبی کتاب نمبر ۱۴ قارئینِ ادب کے لیے دلچسپی کا موجب بنے گی۔

ارشد خالد

 

 

 

 

 ’’فلسفی‘‘ کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی

(عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں، جعل سازیاں اور سرقہ)

 

               حیدر قریشی (جرمنی)

 

علم و ادب کی دنیا میں کبھی کبھار سامنے کی صورتحال کے عقب میں بھی بعض حقائق موجود ہوتے ہیں جن کے سامنے آنے کے بعد سامنے کی صورتحال کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔یہ مضمون اسی سلسلہ میں لکھا جا رہا ہے۔مضمون کا عنوان بے شک چٹ پٹا ہے لیکن کسی قسم کی سنسنی خیزی کے بغیر میں سیدھے سادے انداز میں اپنی بات کروں گا اورنفسِ مضمون سے منسلک مختلف حقائق کو، جہاں ان کے بیان کرنے کی ضرورت ہو گی بیان کرتا جاؤں گا۔عنوان چٹ پٹا ہونے کا سبب ہمارے فلاسفر صاحب خود ہیں جن کی مضحکہ خیزی کے باعث یہی عنوان مناسب لگا۔

میں ذاتی طور پر ادب میں سرقہ اور جعلسازی کے خلاف ایک عرصہ سے متحرک ہوں۔ لگ بھگ1999ء سے۔مغربی دنیا میں سرکاری امداد پر زندگی گزارنے والے لوگ بھی آمد و خرچ کی سطح پر خود کفیل اور پاکستانی حساب سے خوشحال ہوتے ہیں۔ چنانچہ وسائل کی دستیابی  و خوشحالی کے باعث یہاں کے جعلی اور سارق شاعروں اور ادیبوں کا ٹولہ ہمیشہ میرے خلاف متحد رہا ہے اور اپنی ذہنی پستی کے لحاظ سے جو کچھ میرے خلاف کر سکتا ہے کرتا رہا ہے۔ تمام تر مخالفت کے باوجود میں نے سرقہ اور جعل سازی کو بے نقاب کرنے کا اپنا کام جاری رکھا۔(اس وقت بھی انڈیا میں جوگندر پال کے افسانے کا سرقہ کرنے والے ایک کردار پر کام ہو رہا ہے)۔

اسی دوران مجھے کہیں سے بھنک پڑی کہ عمران شاہد بھنڈر نامی کسی صاحب نے  ’’پاکستان پوسٹ‘‘ انگلینڈ میں کوئی مضمون لکھا ہے جس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی بعض تحاریر کو مغرب سے ترجمہ بلا حوالہ قرار دیا گیا ہے۔میں نے مضمون اور مضمون نگار کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون ماہنامہ ’’نیرنگِ خیال‘‘ راولپنڈی کے سالنامہ2006ء میں بھی چھپ چکا ہے اور یہ کہ موصوف انگلینڈ میں کہیں پڑھتے ہیں۔ اس دوران مجھے  ’’نیرنگِ خیال‘‘  میں مطبوعہ مضمون ایک دوست نے فراہم کر دیا۔ مضمون بہ عنوان  ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں ‘‘  میں ترجمہ بلا حوالہ اقتباسات کے ساتھ ظاہر ہو رہا تھا اس لیے عنوان کے ڈھیلے پن کے باوجود مجھے مضمون مناسب لگا اور میں نے مضمون نگار عمران شاہد بھنڈر کو تلاش کر کے ان سے رابطہ کیا۔انہیں اسی مضمون کو کچھ مزید لکھ کر جدید ادب کے لیے بھیجنے کو کہا۔ انہوں نے اپنے مضمون کو اسی عنوان کے ساتھ نہ صرف چند مزید اقتباسات شامل کر کے دوگنا کر دیا بلکہ اپنے تعارف کے طور پر ایک خصوصی نوٹ بھی ساتھ بھیج دیا۔میں نے اپنے نوٹ میں اس میں سے صرف ایک حصہ شامل کیا جس کے مطابق موصوف برمنگھم یونیورسٹی سے Postmodern Literary Theory کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ (یہ اطلاع غلط تھی، تاہم اس کا انکشاف بعد میں ہوا اور اس پر مزید بات آگے چل کر ہو گی)۔جدید ادب کے شمارہ نمبر9 میں جیسے ہی موصوف کا مضمون شائع ہوا، علمی و ادبی حلقوں میں اس کا فوری نوٹس لیا گیا اور مختلف اخبارات و رسائل نے اس مضمون کے بلا حوالہ ترجمہ والے حصوں کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ (موصوف کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث میں عمومی طور پر کسی نے دلچسپی نہیں لی)۔

تب تک میرے ذہن میں اتنا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ صاحب اس مضمون کو پڑھ کر کچھ اس قسم کا خط لکھ دیں گے کہ اس مضمون میں جن حوالہ جات کی غیر موجودگی کا ذکر ہے میں انہیں دیکھتا ہوں اور کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس شکایت کا ازالہ کر دوں گا۔یہ ایک ادبی سلیقہ کی بات ہوتی اورمسئلہ بڑی حد تک یہیں پر ختم ہو جاتا۔ لیکن اس موڑ پر آ کر دو خرابیاں ہوئیں۔ ایک تو نارنگ صاحب نے اس قسم کی یا کسی بھی قسم کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔دوسرے میرے ایک دوست جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کی حمایت میں ایک مضمون لکھ ڈالا۔انہوں نے نارنگ صاحب کی محبت میں مضمون لکھا ہو گا لیکن یہ نادان دوستی کا نمونہ تھا۔اس کے جواب میں عمران شاہد بھنڈر سے مضمون لکھوانا پڑا۔اس بار پھر عمران شاہد نے اپنے مزید تعارف کے طور پر بہت کچھ لکھ بھیجا جس میں سے میں نے اتنا حصہ شامل کیا:

’’ انہوں نے 2004ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ،  برمنگھم سے  ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘  میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 2006ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے  ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘  میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ عمران بھنڈر نے اپنا مختصر مقالہ جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے فلسفہ جمالیات پر تحریر کیا اور فائنل مقالہ بیسویں صدی کی روسی تنقید پر لکھا جس میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریہ ادب کا ہیئت پسندوں کے نظریات سے تقابلی جائزہ لیا۔اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام کر رہے ہیں۔ ‘‘ (جدید ادب :10)۔۔۔(عمران شاہد بھنڈر صاحب کے فراہم کردہ اس تعارفی نوٹ کے بارے میں بھی آگے چل کر ایک ساتھ بات ہو گی)۔

جاوید حیدر جوئیہ کے مضمون کے جواب میں لکھتے ہوئے موصوف اتنے رواں ہوئے کہ مضمون چھپ جانے کے بعد بھی مزید اقتباسات تلاش کراتے رہے۔اس سلسلہ میں ایک شخصیت کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جس نے مغربی کتابوں کے اقتباسات اور نارنگ صاحب کی کتاب کے اقتباسات پر کافی کام کیا۔محنت میں کسی اور کا حصہ شامل تھا لیکن اس کا پھل بھنڈر صاحب اکیلے کھا رہے تھے۔خیر یہ ان دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔عمران بھنڈر نے اس شخصیت کی محنت کا فراخدلانہ اقرار نہیں کیا تو یہ ان کا اپنا ظرف ہے۔بات ہو رہی تھی ان کے رواں ہو جانے کی۔چنانچہ جدید ادب کے شمارہ نمبر10کے بعد شمارہ نمبر 11 کے لیے بھی انہوں نے سرقات کے تناظر میں ایک مضمون فراہم کر دیا۔اس مضمون سمیت ان کے ایسے سارے مضامین میں سرقات کی نشان دہی بہت کم ہوتی ہے اور دوسرا رطب و یابس بہت زیادہ ہوتا ہے۔میں ان کے اس انداز سے تنگ تھا۔پہلے تو میں نے شمارہ نمبر10میں ہی لکھ دیا تھا کہ:

’’جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے ذاتی طور پر میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔ لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون ’’ بلا حوالہ ترجمہ سرقہ‘‘  کی طرف سے توجہ ہٹا کر در حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے۔ ‘‘      (جدید ادب شمارہ نمبر10۔صفحہ نمبر206)

لیکن ان کی زود گوئی اور فضول گوئی کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا، چنانچہ ان کی بعض فضولیات کے جواب میں شمارہ نمبر گیارہ کا اداریہ بھی لکھنا پڑا جس میں ان کا نام لیے بغیر ان کے مادہ پرستانہ خیالات کا رد پیش کیا گیا۔میں انہیں شروع سے ہی سمجھاتا آ رہا تھا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا چاہیے۔بلکہ دوستانہ انداز میں انہیں یہ تک کہا تھا کہ بندہ اگر دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکتا تو کوزے میں سے دریا کا منظر دکھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہر حال شمارہ نمبر گیارہ ہی میں مطبوعہ عمران کی بعض طویل فضولیات کے جواب میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھا ہوا اپنا اداریہ یہاں بھی درج کیے دیتا ہوں۔

’’ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلز کی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن  تا حال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں، انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حد نہ سمجھیں۔  ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا 10 فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔اس10 فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو 90 فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے، اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اچھے تخلیق کاروں کو اس90 فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے، اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔ سو ماورائیت تو ہمارے باہر بے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا 90 فی صد خاموش حصہ بجائے خود ہمارے اندر ماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔

ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسندوں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہو جاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔‘‘

شمارہ نمبر 11 کے اداریہ میں جہاں میں نے ان کے خیالات سے اپنی بیزاری کو علمی سطح پر دلیل کے ساتھ ظاہر کیا، وہیں انہیں عملاً یہ بھی بتایا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں کہنے کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ایک اور خرابی جو بھنڈر صاحب میں تکلیف دہ حد تک تھی وہ یہ تھی کہ ایک مضمون کو تین سے چار بار تک اضافوں کے ساتھ بھیجتے چلے جاتے تھے۔ایک بار مضمون بھیجا۔میں نے محنت کر کے اسے رسالہ کے سائز میں سیٹ کر لیا تو پھر نئی فائل بھیج دی کہ پہلا ورشن رہنے دیں، یہ ورشن شامل کر لیں۔ ایسا تین سے چار بار تک ہو جاتا تھا۔چنانچہ میں نے طے کر لیا کہ ان کا یہ رطب و یابس شمارہ نمبر گیارہ کے بعد بالکل نہیں چھاپوں گا۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب موصوف نے مدیر جدید ادب کے نام ایک طویل مکتوب لکھا۔میں نے اسے مضامین کے حصہ میں شامل کر لیا۔حسبِ معمول اس میں بھی بار بار اضافہ کر کے نیا ورشن بھیجا جا رہا تھا۔ایک ہی نام کی ملتی جلتی فائلز میں سے جو مجھے تازہ ترین لگی میں نے شامل کر لی۔رسالہ چھپنے کے لیے نہ صرف جا چکا تھا بلکہ پبلشر کی طرف سے رسالہ چھپ کر بائنڈنگ کے مرحلہ سے گزرنے کی اطلاع بھی آ چکی تھی۔ اس دوران بھنڈر صاحب نے اپنے خط کا ذکر کیا تو میں نے بتایا کہ یہ خط انیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔تب موصوف چونکے اور کہنے لگے کہ یہ آپ نے پہلا یا دوسراورشن چھاپ دیا ہے۔نیا ورشن تو مزید بہت سارے صفحات پر مشتمل تھا۔ساتھ تقاضا کرنے لگے کہ انیس صفحات پر مشتمل خط کی بجائے اس کا اضافہ شدہ نیا ورشن شامل کیا جائے۔میں نے بتایا کہ رسالہ چھپ چکا ہے تو اصرار کرنے لگے کہ رسالہ دوبارہ چھپوا لیں۔ میں نے صاف انکار کر دیا، البتہ انہیں مضامین والے حصہ کی فائل بھیج دی کہ اسے دیکھ کر اطمینان کر لیں۔ میں نے یہ سب کچھ دوستانہ انداز سے کیا تھا لیکن یہاں ایک اور فتنہ کھڑا ہو گیا۔موصوف کو کسی کا مضمون اپنے خط سے پہلے دیکھ کر حفظ مراتب کا خیال آ گیا اور آگ سی لگ گئی۔خط کے ورشن کا مسئلہ بیچ میں رہ گیا اور اپنے خط کو آخر میں شامل کرنے پر نہ صرف شدید طور پر بگڑ گئے بلکہ ایک خاتون کے ای میل آئی ڈی سے مجھے غلیظ گالیوں کی میلز بھیجنا شروع کر دیں۔ میں وہ ساری ای میلز اشعر نجمی کو فراہم کر چکا ہوں۔ اس بارے میں مزید کچھ نہیں لکھتا بس اتنا کہ ان صاحب کی شخصیت اور کردار کا یہ رخ اتنا گھناؤنا اور مکروہ تھا کہ اب بھی سوچتا ہوں تو گھن آتی ہے۔حفظ مراتب کے حوالے سے البتہ یہ وضاحت کرنا چاہوں گا کہ جدید ادب میں مدیر جدید ادب کے نام کسی طویل خط کا انتخاب کر کے اسے مضامین کے حصہ میں عموماً آخر میں ہی لگایا جاتا ہے۔پھر ان مارکسسٹ مولانا کو تو میں نے  ویسے بھی ہمیشہ آخری حصہ میں چھاپا تھا۔ان کی ایک ہی اہمیت تھی کہ وہ ترجمہ بلا حوالہ کے اقتباسات آمنے سامنے لا رہے تھے۔اور بس!

بہر حال میں جوپہلے ہی ان کے رطب و یابس سے تنگ آیا ہوا تھا اب بالکل طے کر لیا کہ ان کے  ’’افکارِ عالیہ‘‘  کو جدید ادب میں شائع نہیں کرنا۔ان کے مضامین میں بار بار اضافہ سے مجھے ان کے اصل مسئلہ کا بھی اندازہ ہو گیا۔جب میں نے1972تا 1974ء کے دورانیہ میں ایم اے اردو کی تیاری کی تھی تب  ’’اقبال کا خصوصی مطالعہ‘‘ کے تحت اقبال کے فلسفۂ خودی اور اسی پس منظر میں  فلسفۂ زمان و مکان کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے کا موقعہ ملا۔مجھے یاد ہے اس وقت ایسے لگتا تھا کہ میں علم سے لبا لب بھر گیا ہوں اور مجھے خان پور میں ایسے دوستوں کی تلاش رہتی تھی جن کے ساتھ اپنے سارے پڑھے ہوئے پر گفتگو کر سکوں۔ یہ ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت ہوا کرتی تھی لیکن ایم اے کر لینے کے بعد جب ان موضوعات پر مزید مطالعہ کا موقعہ ملا تو اپنے لبا لب بھرنے کی بجائے خالی ہونے کا احساس ہونے لگا۔تب اندازہ ہوا کہ وہ نصابی نوعیت کی طالب علمی کا کرشمہ تھا، اپنا پڑھا ہوا چھلکنے کو بے تاب ہوا کرتا تھا۔اپنے ذاتی تجربہ کے حوالے سے میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر اپنی یونیورسٹی کے نصابی مطالعہ کے باعث ویسی ہی کیفیات سے گزر رہے تھے۔کسی نصابی مطالعہ کے بعد، کسی اسائنمنٹ کے بعد یا پروفیسرسے گفتگو کے بعد جو نئی باتیں ان کے سامنے آتی تھیں، وہ اس سارے پڑھے اور سنے ہوئے کو بھی اپنے مضمون میں کسی نہ کسی طور شامل کرنے لگتے تھے۔

ان کی ذات کی حد تک یہ معاملہ رہتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن جب وہ چھپے ہوئے رسالہ کو دوبارہ چھاپنے کا مطالبہ ’’غنڈہ گردی‘‘  کے انداز میں کرنے لگے اور وہ بھی اس لیے کہ ان کی ہفوات سے بھر پور باتوں کا اضافہ شاملِ اشاعت کیا جائے تو ان کے طرزِ عمل اور مکروہ ذہنیت کے بارے میں بڑے سخت الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔ میں تو آج تک خود کو طالب علم سمجھتا ہوں (یہ کوئی انکساری والی بات نہیں واقعتاً محض ایک طالب علم ہوں لیکن صرف کسی ایک فلسفے یا علم کے کسی ایک رُخ کا نہیں بلکہ اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ سامنے آتا ہے، اچھا لگتا ہے اور پلے پڑتا ہے اس کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں) اور ہمہ وقت علم کی دنیا میں کچھ نہ کچھ سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔  عمران شاہد بھنڈر کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں  نےاپنے ایم اے کے دوران جو کچھ پڑھا، وہ ان سے ٹھیک سے ہضم نہیں ہوا اور وہ پہلے ہلے میں ہی خود کو فلاسفر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو گئے۔ اس زعم کا حال ذرا آگے چل کر۔۔۔۔ابھی واقعات کو ان کے زمانی تسلسل میں ہی بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

شمارہ نمبر11کی اشاعت کے بعد اور شمارہ نمبر12 کی اشاعت کے دوران ڈاکٹر نارنگ صاحب نے اچانک شدید ردِ عمل ظاہر کر دیا۔میں اسے حالات و واقعات کے تناظر میں بد قسمتی کہوں گا کہ وہ تب متوجہ ہوئے جب میری طرف سے معاملہ مکمل طور پر سمیٹا جا چکا تھا۔تب انہوں نے غیر ضروری طور پر شمارہ نمبر ۱۲ پر ایک طرح سے سنسر شپ نافذ کرا دی۔مجھے اس کے نتیجہ میں جدید ادب کے شمارہ نمبر 12 کی کہانی لکھنا پڑ گئی۔اس کے بعد بھی میں ایک طرح سے صبر کر کے بیٹھ گیا تھا۔لیکن جب میرے مضمون کے ردِ عمل میں لندن کے ایک نازیبا شخص نے غلیظ قسم کا مضمون لکھا اور اسے ’’ادب ساز‘‘  جیسے معقول جریدے نے شائع کرنے کی نا معقولیت کی تو پھر میرے دوستوں نے اور میں نے طے کر لیا کہ اب پوری جوابی کاروائی کی جانی چاہیے۔عکاس کا ڈاکٹر نارنگ نمبر ہماری طرف سے اسی کا جواب تھا۔لیکن عکاس کی بات بعد میں۔

پہلے یہاں عمران شاہد بھنڈر کی شخصیت اور کردار کا ایک اور رُخ بھی سامنے لاتا چلوں۔ جن دنوں میں ہم لوگ ابھی مل کر چل رہے تھے، اور جدید ادب کے ذریعے موصوف کو خاصی پروجیکشن مل رہی تھی، عین انہیں دنوں میں موصوف کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لندن کے اس نازیبا شخص سے پینگیں بڑھا رہے ہیں جس کے مضمون کے شدید ردِ عمل میں ہم نے  بعد میں عکاس کا نارنگ نمبر چھاپا تھا۔یہ بات میرے لیے حیران کن ہی نہیں افسوس ناک بھی تھی۔بے شک ادبی معاملات میں کسی سے رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔لیکن جب معاملہ باقاعدہ جنگ و جدل جیسی صورت اختیار کر رہا تھا عین ان دنوں میں دوسری طرف ساز باز کرنا بجائے خود انسانی کردار میں غداری کی سرشت کی نشان دہی کرتا ہے۔یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ جس کو بھی عمران شاہد بہت زیادہ ٹیلی فون کالز کرتے ہیں بعد میں اسی کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ اس کی ایک نہیں،  دو نہیں، کئی مثالیں موجود ہیں۔ جو شخص اپنے استاد ابن حسن کے بارے میں بھی الٹی سیدھی بات کرنے پر آ جائے اس کے بارے میں مزید کیا کہا جائے۔بہر حال میرے سامنے ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ایک طرف عمران شاہد بھنڈر اپنی سرشت سے مجبور ہو کر ساز باز کر رہے تھے، دوسری طرف نارنگ صاحب کی طرف سے دباؤ پڑ گیا تھا۔  تیسری طرف نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے ان کی حمایت کے نام پر ایک طوفان کھڑا کر دیا جو بہر حال خود ان کے اور نارنگ صاحب کے خلاف ہی گیا۔ میں اس محاذ آرائی کے سارے کرداروں کو اور ساری صورتحال کو ممکنہ حد تک حکمت کے ساتھ نمٹ رہا تھا، جو اندر اور باہر دونوں طرح کے مخالفین کے ساتھ درپیش تھی۔خدا کا شکر ہے کہ وہ مرحلہ اپنے انجام کو پہنچا۔میں اپنے علمی و ادبی محاذ پر سرخ رو رہا۔

شہرت طلبی کے لیے اپنی دھوکہ باز سرشت کے باوجود عمران بھنڈر کو عکاس کے نارنگ نمبر میں ہماراساتھ دینا پڑا کیونکہ وہ لندن کے جس شخص کے ساتھ مل کر میرے خلاف ساز باز کر رہے تھے اسی نے اس سازباز کی بعض باتیں ظاہر کر کے ہمارے مارکسسٹ مولانا کے کردار کے دہرے پن کو ظاہر کر دیا تھا اور اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ عکاس کے نارنگ نمبر میں ہمارا ساتھ دیتے۔وہ جس حد تک ساتھ دے سکتے تھے دے رہے تھے اور ہماری طرف سے میرے دوستوں نے ان کے مصلحت پسندانہ ساتھ کے باوجود ان کی ادبی حیثیت کے بارے میں دو ٹوک اور کھلی باتیں اسی نمبر میں لکھ دیں۔

ڈاکٹر نذر خلیق جو عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کے مہمان مدیر تھے اور جن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ  ’’اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی‘‘  کے موضوع پر تھا، انہوں نے اپنے مہمان اداریہ میں عمران شاہد کی بہت ساری غلط فہمیوں (در اصل خوش فہمیوں )کے بارے میں برملا طور پر لکھا کہ:

’’یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہد اپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاں پر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر10 صفحہ نمبر206) میں حیدر قریشی نے بھی(نمبر ہذا ص 41پر) اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے۔  مثلاً فضیل جعفری صاحب نے دس سال پہلے سے یہ لکھ رکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ جن کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے وہ اصل کتابیں پڑھی نہیں ہیں۔ بعض دیگر ناقدین بھی یہ بات اپنے اپنے انداز میں کئی برس پہلے سے کہہ چکے ہیں۔ جیسے سکندر احمد نے انہیں ’’ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثال ‘‘  قرار دیا۔احمد ہمیش نے  ’’انگریزی متن کے ناقص تراجم ُ‘‘  سے موسوم کیا۔اسی طرح ہمارے بہت سارے ناقدین نے مابعد جدیدیت کی محض رپورٹنگ نہیں کی۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہد بھنڈر کے اردو میں مطالعہ کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں، اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے مابعد جدید مغربی تصورات سے بحث کرتے ہوئے محض رپورٹنگ نہیں کی۔’مصنف کی موت‘ کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا‘متن کی اہمیت کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔فضیل جعفری اور وزیر آغا وغیرہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت اور روشن مثالیں موجود ہیں۔ سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔ خصوصاً جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔  تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں اور کوئی کتنا اہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرنا ان کاسب سے اہم کام اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔‘‘

عمران بھنڈر کے ایسے دعوے کہ یہ کام صرف انہوں نے ہی سر انجام دیا ہے، اس اداریہ میں اسے رد کر دیا گیا تھا۔ان سے یہ سب کچھ اس لیے سرزد ہوا کہ یہ ان کے نصابی مطالعہ کا حصہ بنا تھا۔پھر اس سلسلہ میں ایک اور شخصیت نے اقتباسات کی تلاش میں ان کی بہت زیادہ مدد کی، جس کا فراخدلانہ اعتراف کرنے کی بجائے عمران نے اپنی روایتی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔تاہم ان کے بنیادی کام کے سلسلہ میں بھی یہ اضافہ کر دوں کہ ناصر عباس نیر کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں بھی اس موضوع کے مطابق نارنگ صاحب کے بعض اقتباسات اور حوالہ جات شامل تھے۔صرف نارنگ صاحب ہی کے نہیں ان کے مقالہ میں تو بیس سے زائد ناقدین کرام کے اس نوعیت کے ترجمہ بلا حوالہ کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں جبکہ ہمارے مارکسسٹ مولانا عمران بھنڈر صرف ایک نقاد کے حوالے پیش کر کے ہی اپنے آپے سے باہر ہو گئے اور پورے اردو ادب کو للکارنے لگے۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔عمران کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نذر خلیق نے بجا طور پر ان کے ہاں اردو میں مطالعہ کی کمی کا ذکر کیا۔صرف مطالعہ کی کمی ہی نہیں ان کی ادب فہمی پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔میں اس حوالے سے ذرا آگے چل کر بات کروں گا۔

عکاس کے اسی نمبر میں مدیر عکاس ارشد خالد نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی حمایت میں لکھے گئے ایک مکتوب نما مضمون ’’کرگس کا جہاں اور ہے۔۔۔۔‘‘ کو شائع کیا تھا۔یہ مضمون شمیم طارق کا لکھا ہوا تھا۔اس مضمون میں شمیم طارق نے عمران بھنڈر کے بارے میں بڑی عمدہ رائے دی تھی، ان کے بقول:

’’عمران شاہد بھنڈر کو آپ نے دونوں شماروں میں جگہ دی ہے مگر ان کے دونوں مضامین پڑھ کر آنکھوں میں اس بوڑھی عورت کی شبیہ گھوم جاتی ہے جو اپنی گٹھری سنبھالتی ہے تو خود گر جاتی ہے اور خود کو سنبھالتی ہے تو گٹھری گر جاتی ہے۔ موصوف موضوع پر قابو رکھنے کے بجائے موضوع کے سامنے بے قابو ہو گئے ہیں۔  ‘‘

اس مضمون کو شائع کرتے ہوئے ارشد خالد نے ترجمہ بلا حوالہ والے صرف ایک نکتے پر اختلاف کرتے ہوئے شمیم طارق کے باقی مضمون سے لفظ بلفظ اتفاق کیا اور اپنے نوٹ میں لکھ دیا:

’’اس مضمون میں علامہ اقبال پر عمران شاہد کے نامناسب اعتراضات کے جواب میں شمیم طارق نے بجا طور پر گرفت کی ہے۔میں اس معاملہ میں شمیم طارق سے لفظ بلفظ متفق ہوں، ‘‘

نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کسی حد تک توقع کے مطابق گھمسان کا رن پڑا۔ارشد خالد، ڈاکٹر نذر خلیق اور سعید شباب کی ہر ممکن مدد تو میرے ساتھ رہی، تاہم دوستوں کی اخلاقی اور تھوڑی بہت ممکنہ مدد کے باوجود بڑی حد تک مجھے یہ لڑائی چاروں طرف سے اکیلے ہی لڑنی پڑی۔ عمران بھنڈر نے اس معاملہ میں معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھی۔صرف ایک موقعہ پر عمران بھنڈر نے اقبال نوید کے نام سے ایک جوابی مضمون لکھا تھا جو ظفر اقبال کے کالم کا جواب تھا۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ اقبال نوید انگلینڈ میں مقیم شاعر ہیں لیکن انہیں مابعد جدید مباحث کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔ ان کے نام سے جو کچھ بھی چھپا ہے وہ سارے کا سارا عمران بھنڈر کا اپنا لکھا ہوا ہے۔اس کے باوجود وہ اپنی خوشی سے استعمال ہوتے ہیں تو ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی عمران بھنڈر کا ان کے نام سے لکھا ہوا انہیں کا مان لیتے ہیں۔ لیکن سلمان شاہد کے نام سے جو مضامین چھپے ہیں وہ سب عمران شاہد کے اپنے لکھے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجھے عمران بھنڈر نے بتایا تھا کہ سلمان شاہد میرا چھوٹا بھائی ہے اور جدید ادب بھیجنے کے لیے سلمان شاہد کا گوجرانوالہ کا ڈاک کا پتہ بھی دیا تھا لیکن جب ان کے آبائی شہر گوجرانوالہ میں ان کے قریبی احباب سے ذکر ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایڈریس تو ان کا ہے لیکن سلمان شاہد نام کا ان کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ہمیں ان کی ذاتی زندگی اور اس کے معاملات سے کوئی غرض نہیں۔ اس سے بھی غرض نہیں ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر حقیقت میں کون ہے؟ اس کا عمران شاہد بھنڈر سے در اصل کیا رشتہ ہے؟لیکن اس بات سے غرض ضرور ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے عمران کی حمایت یا ان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت کے طور پر لکھے گئے تمام مضامین عمران شاہد کے اپنے ہی لکھے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال اقبال نوید کے نام کو استعمال کرنے سے یکسر مختلف ہو جاتی ہے۔اقبال نوید بہر حال ایک شاعر ہے، جبکہ سلمان شاہد سرے سے کوئی لکھنے والا ہے ہی نہیں۔  سواقبال نوید کے نام کی طرح سلمان شاہد کے نام سے عمران بھنڈر کی حمایت اور ان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت والے مضامین بھی عمران بھنڈر نے خود لکھے ہیں۔ ایسے مضامین عمران بھنڈر کی تعریف تک محدود رہیں تو ان کی معصوم خواہش کا احترام کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ کسی کے خلاف ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں تو علمی و ادبی سطح پر یہ بات مناسب نہیں رہتی۔عظمت کے کسی مصنوعی سنگھاسن پر بیٹھ کر دوسروں کے نام سے لوگوں کے خلاف لکھنے سے بہتر ہے کہ عمران بھنڈر خود ایسے مضامین لکھا کریں۔

عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کی جنگ کا سارا حال میری کتاب ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘ میں شامل ہے اور وہ سب معاملات اب ادب کی تاریخ کے سپرد ہیں۔

2010ء میں عمران بھنڈر کی پہلی کتاب  ’’فلسفہ ما بعد جدیدیت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کا بنیادی سبب تو نارنگ صاحب کے ترجمہ بلا حوالہ کا موضوع ہی تھا لیکن حسبِ معمول اس میں دوسرا رطب و یابس زیادہ ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا تماشہ یہ ہوا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران شاہد بھنڈر نے باقاعدہ فلسفی ہونے کا دعویٰ کر ڈالا ہے۔فلسفہ کو اپنا موضوع قرار دے کر بندہ مشاعروں کے شاعروں جیسی حرکتیں کرے تو ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔موصوف نے کتاب چھپنے کے بعد اس کی رونمائی کا پورا اہتمام کرایا اس کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کی پوری داستان ہے۔اس تقریب کی روداد چھپنے لگی تو اپنے نام کے ساتھ  ’’نوجوان فلسفی‘‘ کا اضافہ کرایا۔ پاکستان گئے تو وہاں خاصی تگ و دو کے بعد اپنا ایک انٹرویو شائع کرایا، جو22 دسمبر2010ء کو ایک روزنامہ میں شائع ہوا۔اس میں بھی اپنے آپ کو خود ہی فلسفی قرار دے کر گفتگو فرمائی۔اخباروں میں ایک دو خبریں چھپوائیں تو ان میں اپنے نام کے ساتھ نوجوان فلسفی یا نوجوان اسکالر کے الفاظ اہتمام کے ساتھ لکھوائے۔اب ذہنِ جدید کے ایک حالیہ شمارہ(نمبر 58) میں بھی عمران شاہد بھنڈر کے بارے میں تعارفی طور پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں سے دو باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک تو یہی کہ۔۔نوجوان فلسفی۔۔ اور دوسری یہ کہ آپ انگلینڈ میں شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ پہلی بات مضحکہ خیز ہے اور دوسری بات یکسر جھوٹ۔

پہلے تو میں اپنے فلسفی کی نوجوانی کا ذکر کروں گا جس نے شیلا کی جوانی کو بھی مات دے دی ہے۔۴۰ سال کی عمر کے بعد خود کو نوجوان لکھنا جرأتِ رندانہ کی طرز پر جرأتِ فلسفیانہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ہر چند فلمی دنیا میں کم عمر اداکار کو بڑی عمر کا اور بڑی عمر کے اداکار کو کم عمر دکھایا جاتا ہے اور فلمی دنیا میں اس قسم کی رنگ بازی چلتی رہتی ہے، لیکن اس گانے کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ کترینہ کیف تو ابھی ۳۰ برس کے لگ بھگ ہی ہے اور اس مناسبت سے شیلا کی جوانی والی بات درست اور قابلِ فہم ہے لیکن40 سال سے اوپر ہو کر  ’’نوجوان فلسفی‘‘  کی یہ کمال کی فلسفیانہ نوجوانی ہے۔ فلسفی بن بیٹھنے پر بات بعد میں، پہلے شعبۂ تعلیم سے ان کی وابستگی کی حقیقت بھی بتا دی جائے۔ ’’ذہنِ جدید‘‘  میں چھپنے کی تاریخ تک آپ کہیں بھی نہ لیکچرر ہیں، نہ ٹیچر ہیں حتی ٰ کہ کسی پرائمری اسکول میں بھی نہیں پڑھا رہے۔اگر پرائمری اسکول کے طالب علموں سے لے کر کالج کے سٹوڈنٹس تک کو بطور طالب علم شعبۂ تعلیم سے وابستہ سمجھ لیا جائے تو ہمارے نوجوان فلسفی ابھی اس نوعیت کی بھی کوئی وابستگی نہیں رکھتے۔ڈبل ایم اے کر کے بیکار پھر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل براڈ کاسٹ جرنلزم میں ایم اے کیا ہوا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں نئے نئے چینل کھل رہے ہیں لیکن افسوس ہمارے فلسفی کو ابھی تک اس شعبہ میں جاب نہیں مل سکی۔اسی طرح انگلش لٹریری سٹڈیزمیں ایم اے کر کے انہیں کوئی لیکچرر شپ یا ٹیچنگ جاب بھی نہیں مل سکی تو اس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اندازہ ہوتا ہے اور افسوس ہوتا ہے۔لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہے تو جھوٹ بتا کر اور جعل سازی سے کام لے کر کیوں اپنا جعلی تاثر قائم کر رہے ہیں ؟

اور اب فلسفی بن بیٹھنے کا معاملہ!

مجھے عمران بھنڈر اپنے تعارف کے طور پر جو کچھ لکھ کر بھیجتے رہے اس میں بہت سارا جھوٹ شامل تھ اجو بعد میں ظاہر ہوا۔میں شروع میں شمارہ نمبر9 اور10میں دئیے گئے ان کے تعارف کے حوالے سے ذکر کرچکا ہوں۔ 2007ء میں ان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق Postmodern Literary Theory کے موضوع پر موصوف پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔نظام صدیقی نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ عمران بھنڈر ابھی تک پی ایچ ڈی نہیں کر سکے، جبکہ ہمارے ساتھ مذاق یہ ہوا ہے کہ موصوف تو ابھی تک پی ایچ ڈی شروع ہی نہیں کر سکے۔انہوں نے جھوٹی اطلاع فراہم کی تھی۔ابھی تک ان کی پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن ہی نہیں ہوئی۔سو ابھی تک، اس وقت تک موصوف کسی قسم کی کوئی پی ایچ ڈی نہیں کر رہے۔ایم اے کے سلسلہ میں جدید ادب شمارہ 10میں ان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق  ’’ 2004ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ،  برمنگھم سے  ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘  میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 2006ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے  ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘  میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔‘‘  سو ایم اے سے آگے ابھی موصوف نے کچھ نہیں کیا۔بس  ’’دس جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار‘‘  کی طرح ایم اے کر کے ’’ ڈائریکٹ فلسفی ‘‘ ہو گئے ہیں۔  M.A. English Studies  کو اردو میں  ’’ ایم اے فلسفۂ انگریزی ادب‘‘ کر کے وہ فلسفی بن سکتے ہیں تو پھر دنیا کا ہر ایم ایس سی سائنس دان ہے اور M.A. English Studies کرنے والا ہر طالب علم فلسفی۔موصوف کے فلسفی بن بیٹھنے سے بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔ایک تو اپنے بزرگوں سے سنے ہوئے ایک معروف کردار ’’بابافلاسفر‘‘ کے کئی جملے اور دلچسپ واقعات۔برمنگھم میں بھی کچھ دوست ایسے موجود ہیں جو ’’ نوجوان فلسفی‘‘  عمران بھنڈر کو بابا فلاسفر کے گفتنی و ناگفتنی قصے سنا سکتے ہیں۔ دوسرا اس نوجوان فلسفی کے برمنگھم یونیورسٹی میں استادڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کے وہ تاثرات یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے میرے افسانوں پر رائے دیتے ہوئے لکھے تھے۔ ’’نوجوان فلسفی‘‘  کے استاد لکھتے ہیں :

Haider Qureshi’s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany. His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full  of interest.

(Dr.  Derek Littlewood  (Birmingham, ENGLAND)

ڈاکٹر ڈیرک کے تاثرات سے مجھے خوشی ضرور ہوئی لیکن میں کسی ایسے خبط کا شکار نہیں ہوا کہ خود کو فلسفی افسانہ نگار سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاؤں۔ زندگی میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے جو مختلف اثرات خود پر مرتسم ہوئے ہیں،  جہاں جہاں داخلی طلب سامنے آئی ان کا اظہار ممکنہ حد تک سلیقے سے کر دیا۔ 1983ء میں شائع شدہ میرا افسانہ ’’روشنی کی بشارت‘‘ نیطشے کی تمثیل کے ایک اقتباس سے شروع ہوتا ہے اور اس افسانہ میں میری طرف سے نیطشے کے مشہور اعلان کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔لیکن یہ سب کچھ نہ کسی مولویانہ طریق سے کیا ہے نہ کسی نوجوانی سے بھرپور فلسفیانہ طریقے سے۔ بس اپنی حیثیت کے مطابق جتنی تخلیقی حد تھی اسی کے مطابق ایک افسانہ تخلیق کر دیا۔ادب کی دنیا میں ہر لکھنے والے کے اپنے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربات کی اپنی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ مشاہدات اور تجربات کے وسیع جہان ہیں تو مطالعہ کا جہان بھی بہت وسیع ہے۔ مطالعہ کے دائرہ میں ادب، مذہب (اپنے وسیع تر مفہوم میں )، سائنس(فلسفہ اسی کی ایک شاخ ہے)، تاریخ، اقتصادیات وغیرہا کا ایک ایسا جہان ہے جس میں کئی جہان آباد ہیں۔ اب کون کس حد تک کس خطہ تک جاتا ہے، یہ اس کے مزاج اور دلچسپی پر منحصر ہے۔لیکن کسی ایک یا ایک سے زائد جہانوں کی سیاحت کرنے والا اپنے  ’’حاصل سیاحت ‘‘ کی بنا پر کسی دوسرے کی سیاحت اور سفر کو کھوٹا قرار نہیں دے سکتا۔ہر کسی کا اپنا اپنا ادبی سفر ہے اور اس سفر کا حاصل وہ تحاریر ہیں جو لکھنے والے نے ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دی ہیں۔ لیکن کسی ایک خطے کی سیر کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس دیار میں نہ آنے والوں پر یا اس کے بارے میں جانکاری نہ رکھنے والوں پر زبانِ طعن دراز کرے۔

فلسفہ فی ذاتہ سائنس کے مختلف علوم میں سے ایک ہے۔تصوف، تاریخ، نفسیات، طبیعات، اقتصادیات، فلسفہ۔۔۔۔کوئی ادیب ان سے اور ایسے ہی دیگر علوم سے تھوڑا بہت بہرہ ور ہے اور اس کے اثرات اس کی تخلیقات میں دکھائی دیتے ہیں تو یہ اس کی اضافی خوبی ہے۔لیکن اگر کوئی ان میں سے کسی میں دلچسپی رکھتا ہے کسی میں دلچسپی نہیں رکھتا تو یہ اس کی ترجیحات کا معاملہ ہے۔کسی شعبہ سے عدم دلچسپی کو ادب کے دیار میں لاعلمی قرار دے کر جہالت سے جوڑنا بجائے خود ایک جاہلانہ رویہ ہے۔ اگر کوئی صوفیانہ خیالات کا تخلیقی اظہار کرتا ہے اور تصوف کے علم کی کتابیں لکھنے والے کوئی صاحب مقاماتِ تصوف کی اشکال و تشریحات میں بحث کو الجھانا چاہیں تو اس کا ادب سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔کوئی شاعری میں حساب کتاب کی بات کرے اور اقتصادیات کا کوئی طالب علم اس پر ٹیکنیکل اعتراض شروع کر دے اور پھر یہ طعنہ زنی کر دے کہ اسے تو اقتصادیات کی مبادیات کا بھی علم نہیں۔ جی ڈی پی کی شرح کا پتہ تک نہیں ہے تو اس نے حساب کے علم کو کیوں مَس کیا۔غالبؔ کی ایک ہی غزل میں دو مختلف جہانوں کی سیاحت موجود ہے:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ؟

ابر کیا  چیز  ہے،  ہوا کیا ہے؟

ایک شعر میں تصوف کی دنیا موجود ہے تو دوسرے شعر میں سائنس کے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اب کوئی مولانا جیسا بندہ تصوف اور سائنس کی دنیاؤں میں ہوتا تو یہاں بھی اعتراض کرتا کہ غالب کو نہ تو صوفیانہ تجربہ ہوا نہ ہی انہیں جملہ گیسز اور پانی کا فارمولا تک معلوم تھا۔پھر وہ کیوں بلا وجہ اس قسم کے شعر کہہ رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے اور آن ریکارڈ ہے کہ عمران بھنڈر کے ہاں مابعد جدیدیت کا نصابی نوعیت کا کچا پکا مطالعہ ہی بکھرا ہوا ہے۔اردو تنقید میں کسی فن پارے کی تفہیم کے انہوں نے کوئی اچھے نمونے پیش نہیں کیے۔اقبال کی نظم کا ایسا فضول مطالعہ پیش کیا جسے شمیم طارق نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ایک تقریب میں فیض احمد فیض پر مضمون پڑھ آئے اور بعد میں فیض کے اشعار ڈھونڈ کر مضمون میں فٹ کرتے رہے۔ یہ تنقید نہیں ہوتی  ’’منجی پیڑھی ٹھکا ؤ‘‘ قسم کی مضمون نگاری ہوتی ہے۔اور تو اور مغربی تنقید کے بارے میں بھی ان کی معلومات کا دائرہ بالکل محدود ہے۔مغربی تنقید کے پس منظر اور اس کے مختلف ادوار کے حوالے سے انہوں نے کوئی قابلِ ذکر معلومات تک فراہم نہیں کی۔بس اپنی نصابی حد کے  ’’کنویں ‘‘ کے اندر نصابی علم و فضل کی موٹر سائیکل چلا کر کرتب دکھا رہے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھ کر پوری اردو دنیا کو لعنت ملامت بھی کیے جا رہے ہیں۔  ریکارڈ میں لانے کے لیے بتا دوں کہ عمران شاہد بھنڈر کے نام سے سب سے پہلا مضمون لندن کے ایک مقامی اخبار میں 27 جنوری 2005ء میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون کے عنوان سے عمران کی نفسیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ منصور آفاق کے ساتھ کسی اختلاف کی بنا پر لکھا گیا مضمون تھا، اور ان کے نام میں آفاق کی مناسبت سے انہیں  ’’فاقے‘‘  کے نام سے للکارتے ہوئے ’’کم آن فاقے‘‘  کے زیر عنوان شائع کیا گیا تھا۔مجھے یہ مضمون رابطہ ہونے کے بعد موصوف نے بھیجا تھا۔میرا آج تک منصور آفاق سے کسی نوعیت کا رابطہ نہیں رہا، اس کے باوجود میں نے عمران بھنڈر کو شروع میں ہی کہا تھا کہ یہ عنوان بہت ہی نا مناسب ہے۔اور اس سے مضمون نگار کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔کسی اور شخصیت کے ساتھ ایک بار اسی مضمون کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے کہا تھا کہ عنوان سے ہی ایسا لگتا ہے جیسے گوجرانوالہ کا کوئی پہلوان لنگر لنگوٹ کے بغیر دھوتی کے ساتھ اکھاڑے میں اتر آیا ہو اور دھوتی کو آدھا اوپر کر کے، لنگوٹ جیسا باندھ کر اپنے مخالف کو للکار رہا ہو۔ اس میں ادب والی کوئی بات نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پہلے مضمون کے عنوان سے لے کر اب تک کے ان کے مستعار افکار تک میں یہی پہلوان گیری کا انداز نمایاں ہے۔

پہلوان گیری کے ساتھ خوشامدانہ توصیف میں غیر معمولی انداز اختیار کر جانا بھی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔انگلینڈ کے ایک مقامی اخبار کی31مارچ  2006ء کی اشاعت میں انور مغل کے بارے میں مضمون میں لکھتے ہیں : ’’گزشتہ دنوں زندگی اور موت کی پیکار میں برمنگھم کی ایک عظیم علمی و ادبی اور سماجی شخصیت موت کو کچھ ایسے ہی انداز میں شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔۔۔‘‘۔ اہلِ ادب بخوبی جانتے ہیں کہ عمران بھنڈر کے ممدوح کیسی ’’ عظیم علمی و ادبی‘‘ شخصیت ہیں۔  اس لطفِ ارزانی پر اب کیا کہا جا سکتا ہے۔

اگر انہیں ادب کی تفہیم کا اوسط درجہ کا شعور بھی نصیب ہے تو وہ اردو کے کلاسیکی ادب سے لے کر اب تک کے ادوار میں سے نظم و نثر کا کچھ ایسا انتخاب کر لیں جو ان کے نزدیک عمدہ ادب میں شمار ہوتا ہو۔پھر ان منتخب تخلیقات کا ادبی مطالعہ پیش کریں اور اس انداز سے پیش کریں کہ اردو ناقدین کی بازگشت معلوم نہ ہو۔ان کی تنقید نگاری کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔بطور نقاد ان کی حیثیت کا تعین بھی کسی نہ کسی حد تک ہو ہی جائے گا۔ورنہ اپنی نصابی حدود میں مابعد جدید فکر کی کچی پکی تشریحات پیش کر کے آپ فلسفی تو کیا اردو کے اچھے نقاد بھی نہیں کہلا سکتے۔احتشام حسین سے لے کر محمد علی صدیقی تک ترقی پسند نقادوں نے تنقید کے نام پر جو کچھ لکھا ان سے اختلاف کی کتنی ہی گنجائشیں ہوں لیکن ان سب کا ادب کی فہم کا اپنا اپنا ایک معیار تھا۔عمران بھنڈر کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پلے ابھی تک اردو ادب کی فہم کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے۔ان سے کہیں زیادہ تو سجاد ظہیر کے ہاں اردو ادب کی تفہیم کے بہتر معیار اور نمونے مل جاتے ہیں۔ اسی لیے میں اصرار کر رہا ہو ں کہ موصوف اردو ادب کا ایک اپنا پسندیدہ انتخاب کر کے ان کی تفہیم و تعبیر مضامین کی صورت میں پیش کریں۔ میں ابھی سے اندازہ کر سکتا ہوں کہ موصوف کیا گل کھلائیں گے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے مارکسسٹ مولانا اور بقلم خود فلسفی فی ذاتہ فلسفہ سے کس حد تک واقف ہیں۔ چونکہ انہوں نے ایم اے کا مختصر مقالہ کانٹ کے حوالے سے لکھا تھا سو ان کی اب تک کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں۔ کانٹ سے بات شروع ہو گی، ہیگل سے ہوتی ہوئی مارکس تک آئے گی۔(اپنے فائنل مقالہ کی مناسبت سے بیسویں صدی کی روسی تنقید کے کچھ اشارے بھی دیتے جائیں گے)وہاں سے دریدا تک پہنچیں گے اور پھر اردو ادب کے خلاف دریدہ دہنی شروع کر دیں گے۔دریدہ دہنی کی صرف ایک مثال:

’’اردو دنیا کے ادباء کی اکثریت بد دیانتی، بد اخلاقی اور بے ہودگی کے حصار میں ہے۔‘‘

کیا شاہانہ انداز ہے! قہر برپا کریں تو اردو ادباء کی اکثریت کو بد دیانت، بد اخلاق اور بے ہودہ قرار دے دیں اور لطفِ ارزانی پر آئیں تو امین مغل صاحب عظیم علمی و ادبی شخصیت قرار پا جائیں۔

مولانا نے اردو والوں کے بارے میں دعویٰ فرمایا ہے کہ

’’یہ لوگ فلسفۂ جدیدیت کو نہیں سمجھ سکے تو ما بعد جدیدیت ان کی سمجھ میں کیسے آ سکتی ہے۔‘‘

اس دماغی فتور پر موصوف کے ساتھ کسی قسم کی بحث کرنا وقت کا زیاں ہے لیکن انہیں ایک مشورہ ضرور دینا ہے کہ فلسفی بھائی صاحب! اردو دنیا تو بہت بری اور بے خبر ہے، آپ اپنی یہی شاہکار کتاب انگریزی میں ترجمہ کریں اور مغربی دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اہلِ مغرب کو علم ہو کہ آپ جیسے بقلم خود فلسفی نے فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں کیا گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ اور انہیں اندازہ ہو کہ ان کے درمیان ایک فلسفی پیدا ہو چکا ہے۔جب موصوف نے اردو کتاب چھاپنے کا ارادہ کیا تھا تو ان کے والد صاحب نے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ تمہیں انگلینڈ میں اردو کا ادیب بننے کے لیے بھیجا تھا؟۔سو جب وہ اپنی اسی کتاب کو انگریزی میں شائع کریں گے تو جہاں مغربی دنیا کو ایک نئے فلسفی کی بشارت ملے گی وہیں ان کے بزرگ بھی کچھ مطمئن ہو جائیں گے کہ چلو جو کچھ بھی لکھ رہا ہے انگریزی میں تو ہے۔

اردو کی حد تک عمران شاہد بھنڈر کا ایک ہی ادبی حوالہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے ترجمہ بلا حوالہ کو نشان زد کیا۔ یہ ادبی حوالہ پاکستان پوسٹ اور نیرنگِ خیال کے سالنامہ میں چھپا تو مضمون اور مضمون نگار دونوں ہی ان شماروں میں دفن ہو کر رہ گئے۔ ’’جدید ادب‘‘  نے اس مسئلہ کو جھاڑ پونچھ کر ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا تو اس کے بعد ادبی دنیا اس سے آگاہ ہوئی۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس معاملہ کو نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے غیر ضروری طول نہ دیا ہوتا تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم تھی۔اب جبکہ جنگ و جدل والی فضا نہیں ہے تو علمی و ادبی لحاظ سے مناسب ہو گا کہ اس سارے قضیہ کو اکیلے نارنگ صاحب پر فوکس کر کے دیکھنے کی بجائے ان سارے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے  جنہیں اردو ہی کے متعدد ادیب مختلف اوقات میں نشان زد کرتے رہے ہیں۔ جن کا ایک بڑا حصہ ڈاکٹر نذر خلیق اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں یکجا کر چکے ہیں اور ان سے بھی آگے جا کر بیس سے زائد نئے پرانے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں نشان زد کر چکے ہیں۔ سارے چھوٹے بڑے نام یکجا کر کے اور سب کے استفادہ شدہ اقتباسات کو سامنے رکھ کر پھر جو مجموعی فیصلہ کیا جائے بجا ہو گا۔کسی نام پر خاموشی، کسی نام پر معذرت خواہانہ رویہ، کسی کے لیے استثنیٰ اور کسی کو ملامت یہ منافقت نہیں چلے گی۔میری جو معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے وہ  نارنگ صاحب کے نادان دوستوں کی وجہ سے ہوئی ہے ورنہ علمی سطح پر جو نشان دہی ہونا تھی وہ ہو چکی۔اور تاریخ کے سپرد بھی ہو چکی۔سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کے موضوع  پر اردو میں مجموعی طور پر جو ڈھیروں ڈھیر کام ہو چکا ہے، اس کے مجموعی تناظر میں ہی عمران شاہد بھنڈر کی صرف ایک نقاد کے بارے میں نشان دہی کو جانچا جائے گا اور اس کی قدرو قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ سو عمران بھنڈر کا یہ کام حقیقتاً بہت ہی جزوی نوعیت کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی سے لے کر بعض انگریزی  اردو اخبارات میں چھپنے والے تبصروں تک میں تبصرہ نگاروں نے عمران کی کتاب پر لکھتے ہوئے ان کے  ’’ترجمہ بلا حوالہ ‘‘ کے کام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔

عمران بھنڈر کے واحد کام ’’ترجمہ بلا حوالہ‘‘ کی نشان دہی کو بھی اب شاید پہلے جیسی اہمیت نہ ملے، کیونکہ وہ خود بھی ترجمہ بلا حوالہ کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اگر ان کے نزدیک یہ سرقہ ہے تو کیوں ہے؟۔سرقہ نہیں ہے تو کیا ہے؟یہاں ایک وضاحت کو دہرا دوں کہ میری انگریزی کا خانہ خالی ہے اور میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا۔تاہم عمران بھنڈر کے ایک سرقہ کو نشان زد کرنے کے لیے میں نے جی کڑا کر کے نہ صرف انگریزی کے متعلقہ مضامین تلاش کر کے پڑھ ڈالے بلکہ اس سلسلہ میں عمران کے برمنگھم یونیورسٹی میں استاد ڈیرک لٹل ووڈ سے برقی خط و کتابت کر کے شواہد تک رسائی حاصل کر لی۔انگریزی مطالعہ کے اس دلچسپ تجربے کے دوران مجھے1972ء کا زمانہ یاد آ گیا جب اپنے بی اے کے امتحان کے لیے میں زورو شور سے اپنی ڈھیلی ڈھالی انگریزی کی تیاری کر رہا تھا۔خیر بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر کے سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی۔

رولاں بارت کا ایک مضمون  Soap-powders and Detergents پچاس کی دہائی میں اخبار میں چھپا تھا جو بعد میں ان کی کتاب Mythologiesمیں شامل کیا گیا۔اس پر Catherine Belsey نے اپنی کتاب Post structuralism: A Very Short Introduction  میں تبصرہ کرتے ہوئے جو نکتہ ابھارا تھا، کیتھرین بیلسی کے اسی نکتہ کو عمران شاہد بھنڈر نے اپنے افکارِ عالیہ کے طور پر پیش کر دیا ہے۔پہلے رولاں بارت کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کا ترجمہ بلا حوالہ یا سرقہ کردہ ایک اقتباس دیکھ لیں :

’’اپنے ایک اور مضمون Soap-powders and Detergents میں فرانسیسی معاشرے کی ایک انتہائی بنیادی نفسیاتی سرگرمی کو بورژوا آئیڈیالوجی کے ہاتھوں عجیب طریقے سے فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔۔۔بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میں جراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔بورژوا حکمران اس عمل کو آفاقی سطح پر استوار کرتا ہے۔وہ تیسری دنیا کے ان لوگوں کو جو خوراک کی کمی کی وجہ سے بدصورت بن چکے ہیں، انہیں اپنی جلد پر لگی ہوئی گندگی کی مانند تصور کرتا ہے۔جس کو مٹایا جانا معاشرتی حسن کے لیے از حد ضروری ہے۔‘‘ (مضمون ’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘ میں آئیڈیالوجی‘‘  از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ  ’’دی نیشن‘‘۔ لندن۔22 مارچ 2007ء)

اس مضمون میں عمران نے بارت کے متن کو خوب مسخ کیا ہے۔پہلی بات  تویہ صاف محسوس ہوتی ہے کہ عمران بھنڈر نے بارت کی کتاب Mythologies میں شامل مضمون Soap-powders and Detergentsکا مطالعہ ہی نہیں کیا۔وگرنہ وہ یہ نہ لکھتے کہ ’’اپنے ایک اور۔۔۔۔۔فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔‘‘

بارت نے اس مضمون کا آغازستمبر 1954ء میں پیرس میں ہونے والی پہلی ورلڈ ڈیٹرجنٹ کانفرنس کے ذکر سے کیا ہے، جس کے بعد پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کے اشتہارات نہایت کثرت سے سامنے آئے۔ اب وہ فرانسیسی معاشرے میں اس حد تک رائج ہو گئے ہیں کہ ان کا نفسیاتی تحلیلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔بارت کے اصل اقتباس کا انگریزی ترجمہ دیکھیے:

These products have been  in the last few years  the object of such  massive advertising that they now belong to a region of French daily life which the various types of psycho-analysis would do well to pay some attention to  if they wish to keep up date.

اصل میں عمران بھنڈرنے کیتھرین بیلسی کی تعارفی نوعیت کی کتابPoststructuralism: A Very Short Introduction  پر ہاتھ صاف کیا ہے۔اور خاصی صفائی سے کام لیا ہے(آخر سوپ پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کا معاملہ تھا!)اس پیرا گراف کا پہلا جملہ بیلسی کی کتاب کے صفحہ 31 کے بعض جملوں کا چربہ اور سرقہ ہے: دیکھیے:

Because the form of ownership that determines the nature of our society is bourgeois, Barthes says, and it is the particular property of bourgeois ideology to efface itself.

جہاں تک آئیڈیالوجی کے فطرت میں بدلنے کا ذکر ہے تو آپ بیلسی ہی کا وہ جملہ پڑھ لیں جو متھ کے فطرت میں بدلنے سے متعلق ہے جسے ہمارے  ’’نوجوان فلسفی‘‘  نے آئیڈیالوجی سے بدل دیا ہے۔  جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

Myth, Barthes  explains, converts history into nature .P 31

نتیجہ یہ ہے کہ اصل بات کچھ کی کچھ بن گئی ہے۔

اسی طرح عمران بھنڈر کہتے ہیں کہ ’’بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میں جراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کا ا ستعما ل کیا جاتا ہے۔‘‘

کسی متن کو مسخ کرنے کی اتنی سفاکانہ مثال شاید ہی کوئی ہو؟ بیلسی بے چاری نے واضح کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ  ’’مارنے‘‘  اور  ’’الگ‘‘  کرنے میں فرق پیش نظر رہے مگر عمران بھنڈر اگر ان نازک علمی مسائل کی تفہیم کا ملکہ رکھتے اور ان سب باتوں کو انگریزی میں لکھتے تو آج مغربی دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ خیر، پہلے بارت اور پھر اس کے خیالات کا خلاصہ کیتھرین کی زبانی سنیے:

Chlorinated fluids, for instance, have always been experienced as assort of liquid fire, the action of which must be carefully estimated; otherwise the object itself would be affected, ‘burnt’. The implicit legend of this type of product rests on the idea of a violent, abrasive modification of matter: the connotations are of a chemical or mutilating type: the product ‘kills’ the dirt. Powders, on the contrary, are separating agents: their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection: dirt is ‘forced out’ and no longer killed; in the Omo imagery, dirt is a diminutive enemy, stunted and black, which takes to its heels from the fine immaculate linen at the sole threat of the judgment of Omo

(Roland Barthes, Mythologies, Translated by Annette Lavers, 1972(1957),  The Noondaz Press, New York)

بارت کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ، Chlorinated fluids کے برعکس،  ’’مارتے ‘‘ نہیں، معروض(یعنی کپڑے) کو اس پر لگے داغ سے آزاد اور الگ کرتے ہیں۔ دیکھیے بیلسی کیا کہتی ہے۔

Traditional domestic cleaning products  that use bleach or ammonia  ‘make war’ on germs , or ‘kill’ dirt. By contrast what was new  in the imagery of  household detergents  available for the first time  just after the  Second World War, was that they separated  the dirt from the fabric  decisively but without ‘violence’..Their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection’, Roland Barthes proposes..

(Catherine Belsey, Post structuralism Avery Short Introduction, 2002, Oxford University Press, London)

عمران بھنڈر کے اقتباس کا آخری جملہ ان کا اپنا اخذ کیا ہوا نتیجہ ہے۔ بارت نے فقط فرانسیسی معاشرے میں بورژوا طبقے کا ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے یہ مارکسی اصطلاح ہے اور مارکسی مفہوم ہی میں ہے۔بیلسی کے مطابق بارت خود مارکسی نہیں تھا مگرپیرس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے اُس زمانہ میں کسی دانشور کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ مارکسیت کو ملحوظ رکھے بغیر بات کرسکے۔

یہاں برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے استادDr. Derek Littlewood جو عمران بھنڈر کے بھی استاد رہے ہیں، ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس اقتباس کی تلاش کے سلسلے میں انہوں نے ہی کیتھرین بیلسی کی طرف رہنمائی کی، وگرنہ میں جولیا کرسٹیو ا میں الجھا ہوا تھا۔ جولیا کرسٹیوا کی علمی سطح بہت بلند ہے جبکہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب انڈر گریجوایٹ  یا گریجوایٹ لیول کی چیز ہے۔اور عمران بھنڈر کی دوڑ بھی نصابی حدود یا انٹرنیٹ پربا آسانی دستیاب مواد تک ہی ہے۔میرے استفسار پر ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کی طرف سے 7  جولائی 2011ء کو جو ای میل آئی اس کا ایک حصہ بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔

Dear Haider,

It sounds more like Catherine Belsey than Julia Kristeva.  But I imagine that it is a paraphrase rather than the actual words.  You would be able to read Roland Barthes for yourself, perhaps. ‘Soap Powder and Detergent’ is a newspaper article from the 1950s reprinted in Barthes’s book Mythologies.

My best wishes     Derek

یہ میں نے صرف اپنے ’’ نوجوان فلسفی‘‘ عمران شاہد بھنڈر کے ایک مضمون کے ایک اقتباس کا سرقہ نشان زد کیا ہے اور اس پر اپنی غیر فلسفیانہ سوجھ بوجھ کے مطابق تھوڑی سی علمی بات کی ہے۔اگر انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے اہلِ ادب دلچسپی لیں تو عمران شاہد کی پوری کتاب سے ایسے بلا حوالہ ترجمہ کی متعدد مثالیں اور نوجوانی سے بھرپور ’’ فلسفیانہ‘‘  مضحکہ خیزیاں سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ اگر ہمارے  ’’نوجوان فلسفی‘‘  نے ایسی ہیرا پھیریاں نہیں کیں تو اپنی بات کو پھر دہراتا ہوں کہ اپنی کتاب کے پاکستانی ایڈیشن کو من و عن انگریزی میں ترجمہ کر کے منظرِ عام پر لائیں۔ انگریزی ادب والے یا تو ان کی قدر کرتے ہوئے ایک نئے اور نوجوان فلسفی کے ظہور پر خوشی کا اظہار کریں گے، یا پھر خود ہی ان سے نمٹ لیں گے۔

خلاصۂ کلام:

۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا، پی ایچ ڈی کے موضوع  Postmodern Literary Theory تک کو چھپوا کر اردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا،  اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ء سے لے کر جون 2011ء تک، انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔

۲۔خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔  کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟

۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود ’’ نوجوان فلسفی‘‘  کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔  فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔ اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں، مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اور اگر ہمیں اپنے  ’’نابغہ‘‘  کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔

۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کا تھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا۔ ان کے اس کام کو بھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گا جو متعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔ اور انہوں نے ایسی نشان دہی کر کے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے۔ اس داد پر جتنا خوش ہو سکتے ہیں، ہوتے رہیں۔

۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔  اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔

۶۔ ’’نوجوان فلسفی‘‘  ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں،  ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کر کے،  تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کر کے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے، وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔  ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔ (تحریر کردہ  ۱۱ جولائی ۲۰۱۱ء)

٭٭٭

 

(مطبوعہ روزنامہ عکاس کولکاتا، انڈیا۔۲۴ جولائی ۲۰۱۱ء)

(روزنامہ افکار جہاں گوجرانوالا ۴ اگست اور ۶ اگست ۲۰۱۱ء)

 

فضیل جعفری نے جن باتوں کی طرف اپنے مضمون میں اشارے کیے تھے، ان میں سے بعض کی تفصیل عمران شاہد بھنڈر کی طویل تحریر میں مل جاتی ہے لیکن حیدر قریشی کے مضمون میں بعض ایسی باتیں ہیں جنہیں ما بعد جدیدیت وغیرہ کے تعزیت نامے کا پُر زور ضمیمہ کہا جا سکتا ہے۔

(مکتوب شمس الرحمن فاروقی مطبوعہ   اثبات۔تھانے۔ شمارہ ۴۔۵، ص۲۹۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک بار پھر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون سرقہ کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ انہوں نے اس مضمون میں اس  سرقے کے بارے میں مزید شواہد پیش کئے۔ حالانکہ بات تو پہلے ہی مضمون کے ساتھ واضح ہو گئی تھی۔اور شاید عمران صاحب کو اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان اور بھارت میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں۔ یہاں تو شروع سے یہ کام چلا آ رہا ہے۔ آپ انیس جیلانی اور اس کے باپ کی مبارک اردو لائبریری کو تو جانتے ہیں۔ انیس جیلانی نے اپنے باپ کے نام نوازش نامے کے ساتھ جو خط چھاپے ہیں۔ اس میں نوح ناروی صاحب بھی اپنا ایک دیوان فروخت کرنے کی پیشکش لئے بیٹھے ہیں۔ اس طرح کی ادبی جعل سازی کے خلاف تو آپ نے ایک لمبی قلمی جدوجہد بھی کی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے کئی پر وفیسر و ں (لیکچرار نہیں ) کے پی۔ ایچ ڈی کے تھیسیزچوری کے نکلے ہیں۔ جو انہوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر سرکاری خرچوں پر چوری کئے تھے۔ایسے پروفیسروں میں کئی برطرف ہو گئے ہیں اور کئی کے خلاف کاروائیاں چل رہی ہیں۔ میں یہ بھی  ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے پرفیسروں کی کتابیں جن پر ان کے نام چھپے ہیں ان کے ایم۔ اے۔ ایم۔فل اور پی ایچ ڈی سٹودنٹس کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔

(اسلم رسول پوری کا مکتوب مطبوعہ  جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۲۔صفحہ نمبر۲۸۰، ۲۸۱)

 

ردِ عمل

 

اس مضمون پر بڑے پیمانے پر ردِ عمل موصول ہو رہا ہے۔چند اہم ترین تاثرات میں سے مختصر سا انتخاب یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔تفصیلی تاثرات الگ سے یکجا کیے جا رہے ہیں۔       حیدر قریشی

 

’’ذہنِ جدید‘‘  میں بھنڈر صاحب کو ’’نوجوان فلسفی‘‘ کہا گیا تھا، یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔ آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔ جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھا کہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر  کو زیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔

شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)

 

Thank you for sending this "ne’mat-e ghair mutaraqqiba.” I read the whole article right away and felt immense pity for the man. Much as I admire your zeal in exposing such impostors, I also feel that your time is far too precious to be wasted on such non-entities. When the controversy was hot, I frequently thought of joining the fray and throw in my two-cents worth, but something prevented me. In retrospect I feel I rightly saved myself from a wasteful undertaking. But I also think that such impostors need to be exposed and cut down to their size. Somebody has to do it, even if it is wasteful, even if the culprit is a non-entity, and you are doing it. We must all be grateful to you:

سب پہ جس بار نے گرانی کی        اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

But I cannot call you a "natavan.”So keep on with the good work  .  Warmly,   m u memon

محمد عمر میمن۔(امریکہ)

 

مضمون کی خبر ملنے پر:  بھئی آپ نے جو بھنڈر صاحب کے بارے میں لکھا ہے، اس نے خاصا پریشان کر دیا۔ظاہر ہے کہ آپ نے جو الزام لگائے وہ بے بنیاد نہ ہوں گے۔یہ تو بہت افسوسناک بات ہوئی۔لیکن آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے، اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔مضمون پڑھنے کے بعد:مضمون پڑھا، عبرت ہوئی۔اس سے زیادہ کچھ کہنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اردو پہ عجب آ کے برا وقت پڑا ہے۔

سی ایم نعیم(امریکہ)

 

آپ کا مضمون پڑھ کر کسی شاعر کے یہ دو شعر یاد آ گئے۔

ٹوٹیں اگر طنابیں،   رہ جائیں گے  سکڑ کے

کھنچ کر بڑے ہوئے ہیں  یہ آدمی  ربڑ کے

شوقِ قد آوری میں ٹانگوں سے بانس باندھے

بونے  بھی  پھر رہے ہیں بازار میں اکڑ کے

ڈاکٹر ریاض اکبر۔(Brisbane۔آسٹریلیا)

 

ایک ہی نشست میں سارا مضمون بغور پڑھ لیا ہے، بہت دلچسپ اور چشم کشا ہے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں  دھوکا  یہ  بازی گر کھلا

راجہ محمد یوسف خان(جرمنی)

 

آپ کا فکر انگیز مضمون "فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی” پڑھا۔ پہلے تومیں اسے ایک افسانہ سمجھا مگر پہلے جملے ہی نے مجھے پڑھنے کے لیے مستعدکردیا۔دراصل جو لوگ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ کے ممدوح کوئی پہلی مثال نہیں ہیں۔  پاکستان میں تو وہ لوگ بھی بیرون ملک سے آتے ہیں جو خود کو بہت مال دار بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ وہاں یا تو ریلوے کے پلیٹ فارم صاف کرتے نظر آتے ہیں اور یا محض حکومت کی خیرات پر پل رہے ہوتے ہیں۔ بہر صورت آپ کا مضمون چشم کشا ہے۔

خادم علی ہاشمی(ملتان)

 

I have studied your essay “Falsfi Ki Naujawani and Sheela Ki Jawani”, in first instance I was little wondered to read the heading of the essay , however, you cleared the facts in very second line of the essay. Also here in Pakistan, some people want to become popular in one go or just over night which in my views is not possible especially in the field of literature as it demands continuous reading and writing experience spread over years and years of time period and with no definite reward and remuneration in terms of so called popularity and acceptability………..As your good self discussed, the book launching ceremony in Pakistan was perhaps held at Gujranwala Bar but I did not go , however, my one or two friends told me that nothing was said regarding modernism and post modernism in literature rather the political conditions of the country remained the topic of the discussions of the ceremony, actually only the literary associations can arrange literary dialogue and discussions.

شاہد جمیل(گوجرانوالا)

 

آپ کا مضمون ملا، آج پورے دن میں اسی کو پڑھا، بہت غور سے پڑھا اور پڑھ کر بہت ہی افسوس ہوا کہ اردو ادب میں کیسے کیسے لوگ کس کس طرح سے بد دیانتی کرتے ہیں۔ کیسے کیسے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں اور کیسی کیسی چوریاں کرتے ہیں اور دوسروں کی محنت پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ میں تو یہ سب کچھ سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں۔۔۔۔آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ آپ نے کیسے کیسے کانٹوں سے الجھ کر اور کیسے کیسے لوگوں سے دشمنی مول لے کر عمران شاہد جیسے لوگوں کو بے نقاب کیا ہے۔آپ کا تخلیقی اور ادارتی کام اپنی جگہ، لیکن یہ جو ادبی چوروں کو آپ بے نقاب کر رہے ہیں، یہ اپنی طرز کا الگ ہی کام ہے۔

نذیر فتح پوری(مدیر اسباق، پونے)

 

آپ کی تازہ ترین تحریر  ’’ فلسفی کی نو جوانی اور شیلا کی جوانی ‘ ‘ پڑھی۔  اگر تحریر آپ سے منسوب نہ ہو تی تو میں اس کو نظر انداز کر دیتا۔ عمران شاہد بھنڈر اگر فلسفے کے طالب علم ہو تے تو انہیں اپنی طلب میں اضافہ کرتے رہنا پڑتا۔ اگر وہ فلسفی  کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں تو اپنی طلب میں اضافہ کرنے کی ضرو رت نہیں پڑے گی۔ اس کے بر خلاف ان کو اپنے فکری نظام کو مر بوط طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔  آپ نے اس کارِ خیر میں ان کا ہاتھ بٹانے سے اعلانیہ ہاتھ اٹھا لیا ہے۔  آپ نے فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ فلاسفر کی نوجوانی تو سمجھ میں آ رہی ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہو تی ہے۔  ’’ خالی چنا باجے گھنا گھنا ‘‘۔  کچھ عرصہ قبل آپ اس نو جوان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تھے۔  اب کیا ہو گیا ؟ اس کا شیلا کا ہو جانا غلط ہوا،  فلسفی ہو نا غلط ہوا،  یا اس کا سارق ہو نا۔ آپ چور سپاہی کا کھیل ترک کرنے والے بندے نہیں لگتے۔  یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر مرتبہ آپ سپاہی ہی بنتے ہیں۔ بھنڈر نے اگر چور کا رول اختیار کر لیا تو واقعی اس نے ایک غلط کار نوجوان چور کا کام کر بھی دکھایا۔ اللہ کرے جس سرقے کی جانب آپ نے اپنی تحریر میں توجہ دلا ئی وہ اس کا پہلا اور آخری سرقہ ہو۔  ڈاکٹر گوپی چند نارنگ دیکھئے آپ کی اس تحریر پر کیا ردِّ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ آپ نے جوکیا وہ آپ کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ آپ نے ضرور سوچا ہو گا پھر بھی آ پ نے اپنے فرض سے منہ نہیں مو ڑا۔  آ پ کا یہ رویہّ لائقِ تحسین ہے۔  کسی کو اچھا لگے نہ لگے مجھے بھی اوّل اوّل مشکوک سا لگا تھا، اب میں آپ کے قدر دانوں میں شامل ہوں۔

عبداللہ جاوید (کینیڈا )

 

آپ کا طویل مضمون پڑھا اور لطف اندوز ہوا۔آپ نے غیر شعوری طور پر بھنڈر کو زیادہ کوریج دے دی ہے۔ حالانکہ ان کا کام ’ترجمہ بلا حوالہ‘ کی حد تک ہے۔اور ان کے ’ادبی سرقہ‘نے اس کو بھی گہنا دیا ہے۔۔۔وہ کوئی علمی شخصیت نہیں اور ’خودساختہ نوجوان فلسفی‘ ہیں تو ان کو یہ شناخت مبارک۔علامہ اقبال پر ’تنقید‘ بھی بندے کو مشہور کر دیتی ہے۔جناب یہ شناخت کا المیہ بندے کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔میرا خاکہ ’تیمور کی اولاد‘ بھی ایسے ہی ایک کردار کے گرد گھومتا ہے۔تاہم بھنڈر صاحب ایک دلچسپ کردار لگے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالکریم(مظفر آباد)

 

معید رشیدی نے مضمون پر چند سوالات اٹھائے تھے، (تفصیلی تاثرات میں انہیں شامل رکھا جائے گا)میں نے ان کے جواب لکھ کر بھیجے تو انہوں نے لکھا:  ’’آپ کے تمام جوابات سے متفق ہوں ‘‘۔  معید رشیدی(دہلی)

 

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

حمیدہ معین رضوی(لندن۔انگلینڈ)

 

زبردست آرٹیکل!

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم، انگلینڈ)

 

زندہ باد! مزہ آ گیا۔بھنڈر کی اصلیت اب کھلنے لگی ہے۔

قاسم یعقوب(مدیر ’’نقاط‘‘  فیصل آباد)

 

کیا عمدہ ہے سر جی!واہ۔بہت اچھا لکھا ہے۔

سلیمان جاذب۔ (دبئی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

حلقۂ ارباب ذوق کی خدمات اور متعلقہ فنکار

 

               ڈاکٹر ہمایوں اشرف (ہزاری باغ )

 

اردو شعر و ادب کے عہد بہ عہد ارتقاء کے لئے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مد نظر رکھنا چاہئے جن سے اردو شعر و ادب کو مسلسل توانائی حاصل ہوتی رہی اور اس کی صنفیں ارتقائی سفر اختیار کرتی رہیں۔  ایسی تحریکوں میں دو تو خاص طور پر اہم ہیں جن پر نگاہ ڈالی جاتی رہی ہے۔ یعنی ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق۔ سبھی جانتے ہیں کہ ترقی پسندی سے پہلے شعر و ادب کا جو مزاج تھا وہ Elitism سے بہت قریب تھا۔ شعر و شاعری زیادہ تر ان کی چیز تھی جو طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ استثنائی صورتیں ملیں گی لیکن ایسی نہیں کہ جنہیں مرکزیت حاصل ہو۔ ضمنی طور پر لازماً شرفاء کے علاوہ دوسرے لوگ کلاسیکی ادب سے وابستہ ہوئے ہوں گے لیکن ان کی جگہ حاشیے پر ہی رہی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ۹۱ویں صدی سے پہلے تک اردو شاعری اور چند نثری صنفیں زندگی سے ٹکرانے سے گریز کرتی رہیں۔  لفظ و معنی کی بحث محدود رہی۔ خارجیت پر زور صرف کیا جاتا رہا۔ میر، غالب اور دوسرے ممتاز شعراء اور ادباء کی باتیں الگ ہیں لیکن ادب کا عمومی مزاج خارجیت کی طرف تھا اور خارجی عوامل ہی شعری اور نثری تخلیقات کا سبب تھیں۔  پھر مارکس، لینن اور اینگلز کے با شعور انقلابی تصورات نے دنیا کے بیشتر ملکوں کو Colonial System سے آزاد ہونے کا سبق دیا۔ بورژوا جس طرح حکمراں بنے ہوئے تھے، انہیں ایک طرح کے چیلنج سے مقابلہ کرنا پڑا۔ متذکرہ تینوں اذہان کی فکری اور عملی کاموں سے انقلاب کی لے تیز ہو گئی۔ بورژوائی ہر محاذ پر مات کھانے لگے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے بھی اپنی سی کوشش کی کہ وہ مارکسی تصورات کا رد کریں اور مزدور اور مزدوری پر قبضہ رکھیں لیکن مارکسی تصورات فلسفے کی صورت میں سامنے آ چکا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں تھا کہ اس کے متعلقات کی تفہیم سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔  آخرش روس کا عظیم اکتوبر انقلاب سامنے آیا تو زندگی کی نئی توجیہات بھی ابھریں۔  کسانوں،  مزدوروں اور پرولتاریوں کا مقدر اس طرح بدلا کہ ان کی سوچ نئے سانچے میں ڈھلنی شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں نو آبادیت کا جس طرح غلبہ تھا اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔  انگریزوں نے بظاہر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے کاروباری سلسلہ پھیلانا چاہا لیکن اس کے پیچھے دراصل ہندوستان کی دولت اور تخت پر قبضہ کرنا تھا۔ وہ اپنی پالیسی میں کامیاب ہوئے۔ ملک پر فاتح بن کر حکمراں بن گئے۔ آخرش ۱۸۵۷ء میں انہیں کئی جگہ کی فوجوں کے انقلابی تیور سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ گویا ۱۸۵۷ء کی بغاوت اصل میں حصول آزادی کی جنگ تھی۔ سربراہی کی کمی، انتظامات کا انتشار اور کئی دوسرے عوامل کی وجہ سے ابتدا میں ہندوستانی فوجی کامیاب نہیں ہو سکے لیکن شعلگی کم نہیں ہوئی۔ وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا۔ انگریزوں نے بے دردی سے بعض علاقوں میں ہندوستانیوں کا قتل عام کیا اور وہ سمجھتے رہے کہ آگ اب ہمیشہ کے لئے سرد ہو چکی لیکن ایسا ہوا نہیں۔

بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی ہمارا قومی ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشرتی اور ادبی منظرنامہ بھی بدل رہا تھا۔ اس صدی کی چوتھی دہائی، ہندوستانی معاشرہ میں انتشار، اختلال، افراتفری، پریشانی، بکھراؤ اور خلجان لے کر وارد ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز بلکہ اس سے کچھ قبل بھی دیکھیں تو حالات کچھ اور سمت، کچھ اور موڑ اور کچھ اور رنگ اختیار کرتے جا رہے تھے۔ راجہ رام موہن رائے، یورپ کے سفر پر گئے تو انہوں نے فرانسیسی جہاز سے جانے پر زور دیا کیونکہ وہ فرانسیسی انقلاب سے متاثر تھے۔ پھر ۱۹۰۵ء اور ۱۹۱۷ء میں روسی انقلاب برپا ہوا۔ بلقان کے ہنگامے بھی اسی زمانے کی بات ہیں جس میں ہندوستانیوں نے ترکوں سے عدم تعاون کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے اثرات پوری دنیا پر پڑے۔ ۱۹۳۳ء کی بات ہے کہ ہٹلر نے جرمنی میں فاشزم کی تحریک کی سرکردگی کی۔ ہونے والی دوسری جنگ عظیم کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔ سیاسی کشمکش کا دور تھا۔ اقتدار کے لئے آویزش تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی طاقتیں دنیا کے زیادہ سے زیادہ علاقے کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے سرگرم عمل تھیں۔  بین الاقوامی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا تھا اور اسلحہ کی دوڑ نے ترقی یافتہ ممالک کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ شعر و ادب کا ایسے معاملات میں اپنا ایک رول رہا ہے۔ لہٰذا ادیبوں،  شاعروں اور فنکاروں نے اس زمانے میں بھی آواز بلند کی۔ یورپ کے روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں میں فاشزم کے خلاف رد عمل ہوا۔ ہٹلر نے کئی شاعروں،  ادیبوں اور سائنس دانوں وغیرہ کو یا تو قتل کرا دیا یا جلا وطن۔ اس پس منظر میں ترقی پسند تحریک ابھری اور شعر و ادب نئے امکانات اور ممکنات کی طرف راجع ہو گیا۔

۱۹۳۵ء میں پیرس میں ادیبوں وغیرہ کی کانفرنس ہوئی۔ بعد ازاں لندن میں مقیم ہندوستانی طلباء جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی، کانفرنس کی اور ترقی پسند تحریک کا منشور تیار ہوا اور جب سجاد ظہیر ہندوستان واپس آئے تو لکھنؤ میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی باضابطہ کانفرنس ہوئی اور ترقی پسند تحریک کا آغاز ۱۹۳۶ء میں کافی زور و شور سے ہوا۔ ترقی پسندوں نے ادب برائے زندگی کا نعرہ مخلصانہ طور پر بلند کیا، انہوں نے فرد کے جذبات و احساسات کو نظر انداز نہ بھی کیا ہو، لیکن ان کی اہمیت ضرور کم کر دی۔ ویسے نثر اور شاعری میں ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں فرد کے جذبات و احساسات کی دلنواز تصویر کشی اور موثر ترجمانی کی گئی ہے لیکن یہ ترقی پسند تحریک نہیں ہندوستان کے عوامی مزاج اور ہندوستانی زبانوں کے ادب کی صدیوں پرانی روایات کا اثر تھا جو ادیبوں اور شاعروں کے ضمیر اور خمیر میں شامل تھیں۔  دوسری بات یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک ہندوستان کی نئی نسل کے ذہنوں کی نمائندگی کرتی ہو لیکن اس پر روس، پیرس اور لندن کی فضاؤں کا بھی اثر تھا۔ اس پس منظر میں ترقی پسند تحریک کی یہ زبردست کامیابی تھی کہ اس نے کئی دلوں کو مسخر کر لیا۔ اس کے نمائندہ شعراء اور ادباء ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے، مشہور ہوئے اور ان سے لوگ محبت بھی کرنے لگے۔ کچھ فنکاروں کی حیثیت تو لیجینڈ کی ہو گئی۔ ترقی پسندی کے تحت کسان، مزدور، دبے کچلے، مظلوم اور پرولتاری طبقات موضوعات بنے۔ داخلیت ختم نہیں تو کم ضرور ہوئی۔ اشرافیہ ادب کو بھی ایک دھچکا لگا اور محسوس ہوا کہ اب شعر و ادب زندگی کے ان مطالبات سے زیادہ قریب تر ہے جن سے روز ہی واسطہ پڑتا ہے۔

اسی زمانے میں علم نفسیات کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فرائڈ اور یونگ کے نظریات عام ہونے لگے۔ ترقی پسندوں نے فرد کے جذبات و احساسات کو کم اہمیت دی تھی بلکہ نظرانداز کر دیا تھا۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کی سرپرستی حاصل تھی اور وہ پارٹی لائن اور اس کی پالیسی پر چلنے کے لئے پابند تھے۔ ترقی پسند فنکاروں نے بالائی معاشرہ کو اہمیت دینی شروع کر دی تھی اور فرد کو معاشرہ کا آلہ کار بنا دیا تھا۔ اس کا رد عمل ہونا لازمی تھا۔ سو ہوا۔ چنانچہ درون کی سیاحت کا رجحان عام ہوا۔ فرد کے جذبات و احساسات کو پہچاننے اور ان کا احترام کرنے پر زور دیا گیا۔ اس حلقے کو ترقی پسندی کی خارجیت ناپسند نہیں تو گراں بار ضرور تھی۔ ایسی گراں باری نے نئے امکانات کی طرف رخ کرنے کی سبیل پیدا کی۔ یہ لوگ ترقی پسند تحریک کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ اظہار ذات، انفرادی جذبات اور احساسات کی ترجمانی، انسانی نفسیات کی تحلیل، واردات قلبی کا انکشاف اور اس کی ترسیل کے بغیر ادب کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ایسے فنکار جو ان میلانات کے حامل تھے، ترقی پسند تحریک میں ان کو نہ پاتے ہوئے حلقہ ارباب ذوق کے قیام پر مائل ہوئے۔ حلقہ ارباب ذوق کا قیام ۱۹۳۹ء میں عمل میں آیا۔ ابتدا میں کئی سال تک ترقی پسندوں اور حلقہ ارباب ذوق والوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ بلکہ کئی سالوں تک ترقی پسند ادیب اور شاعر، حلقے کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند مصنّفین میں ایک بنیادی اختلاف یہ تھا کہ حلقے کے ارباب  ’’ادب برائے ادب‘‘  کے علمبردار تھے اور ترقی پسند مصنّفین  ’’ادب برائے زندگی‘‘  کے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اختلاف کا دائرہ بڑھتا گیا۔

۹  اپریل ۱۹۳۹ء کو ایک معمولی سی انجمن کی داغ بیل ڈالی گئی تھی جس کا کام افسانے سننا اور سنانا تھا، پھر ان پر تفصیلی گفتگو بھی کرنی تھی اور اس کے حسن و قبح سے لوگوں کو آشنا کرنا تھا۔ ابتدا میں اس کا نام  ’’بزم داستاں گویاں ‘‘  رکھا گیا۔ اس کا پہلا جلسہ ۲۹  اپریل ۱۹۳۹ء کو لاہور میں سید نصیر احمد جامی کے مکان پر حفیظ ہوشیار پوری کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پہ جناب نسیم حجازی نے اپنا طبع زاد افسانہ  ’’تلافی‘‘  سنایا تھا۔ شیر محمد اختر، تابش صدیقی، عبدالغنی، محمد سعید، محمد فاضل صاحبان شریک جلسہ تھے۔ اس بزم کی ہر اتوار کو کسی نہ کسی رکن کے گھر پر نشستیں ہوتیں۔  شروع میں یہ انجمن افسانے سننے سنانے پر بس کرتی رہی، بعد میں جب قیوم نظر، میرا جی، یوسف ظفر اور ن۔ م۔ راشد جیسے شعراء اس میں شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی۔ اب صرف افسانہ نہیں بلکہ ناول کا کوئی باب، کوئی مضمون یا پھر نظمیں،  غزلیں سننے اور سنانے کا سلسلہ بھی قائم ہوا۔ پڑھے گئے تخلیقات، فن پارے یا مضامین پر کھلی فضا میں سیر حاصل تنقیدی گفتگو ہوتی اور سامعین ان مباحث سے استفادہ کرتے۔ حفیظ ہوشیار پوری کی تحریک پر اس کے نام میں بھی تبدیلی لائی گئی۔ ان کی تجویز پر  ’’بزم داستاں گویاں ‘‘  کا نام تبدیل کر کے  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  رکھا گیا۔ اب حلقہ کے ارباب تخلیقی جہات کے نئے امکانات سے لوگوں کو آشنا کرنے لگے۔ اس حلقے میں ن۔ م۔ راشد، میرا جی، یوسف ظفر، قیوم نظر، مختار صدیقی، ضیاء جالندھری، غلام مصطفیٰ صوفی تبسم، تصدق حسین خالد، محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، مخمور جالندھری، صفدر میر، الطاف گوہر وغیرہ جیسے ممتاز لوگوں کی شرکت نے اسے تقویت دی۔ اس کے ارتقائی سفر میں اختر شیرانی، اوپندر ناتھ اشک، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، سلام مچھلی شہری، شاد عارفی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، کنہیا لال کپور، ظہیر کاشمیری، ہنس راج رہبر، رام بابو سکسینہ جیسے لوگ بھی شامل رہے۔  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  کے قیام تک لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی کوئی شاخ نہیں تھی۔ لہٰذا ترقی پسند احباب حلقے کی نشستوں میں بے دریغ شامل ہوتے تھے۔ جہاں ترقی پسندوں کا زور تھا وہاں ارباب ذوق کے لوگ ان کے جلسوں میں شریک رہتے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ لوگ دو متوازی میلانات کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کے یکسر الگ ہو جانے کا بنیادی موضوع تھا  ’’ادب کیا ہے‘‘  اور  ’’کیا ہونا چاہئے؟‘‘  اس بحث و مباحثے سے ترقی پسندی کی احتجاجی فکر اور اجتماعی مسائل پر گہری ضرب پڑی۔ اب انفرادی فکر اور انفرادی تجربے کی اہمیت پر بھی زور دیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں پہلے خلیل الرحمن اعظمی کا وضاحتی بیان ملاحظہ فرمائیں :

’’فرسودہ اقدار سے بغاوت اور نئی اقدار کی جستجو میں نئے اور ترقی پسند ادب کا نقطہ آغاز تھا اور ابتدا میں ہر وہ شخص اس رجحان یا تحریک سے وابستہ سمجھا جاتا تھا جو کسی نہ کسی جہت سے باغی ہونے کا مدعی یا آرزومند ہوتا تھا اور نئی راہوں کی تلاش اس کا مدعا تھی۔ بعض سیاسی اور سماجی نظام سے باغی تھے۔ بعض اخلاقی قدروں سے بے زار تھے اور جنسی آزادی ان کی توجہ کا مرکز تھی۔ بعض جنگ خوردہ ادبی اقدار اور اسالیب سے بے زار تھے۔ ابتدا میں یہ سب میلانات کبھی ایک ادیب یا شاعر کے یہاں یکجا طور پر، کبھی الگ الگ اور کبھی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گڈمڈ ہوتے ہوئے دکھائی دیتے تھے لیکن بہت جلد ترقی پسند تحریک نے سیاسی بغاوت اور اشتراکی و عوامی انقلاب کو اپنا بنیادی مسلک قرار دیا اور اجتماعی فکر اور اجتماعی مسائل کو انفرادی فکر اور انفرادی تجربوں پر فوقیت دی۔ مارکس کے اثر کو تسلیم اور فرائڈ کے اثر کو رد کر دیا۔ انفرادیت کے میلان کو غیر صحت مند اور ہیئت و اظہار کے نئے سانچوں کی جستجو کو فرانس کے زوال پسندوں کی بے راہ روی سے تعبیر کیا۔ ترقی پسندی اب جن باتوں سے مشروط قرار دی گئی اس میں شاعری کے لئے وضاحت و صراحت، عوامی اپیل اور سانچوں کا استعمال زیادہ اہم تھا۔ اس لئے وہ شعراء جو سیاسی اور سماجی سطح پر فرسودہ اقدار سے بغاوت کے علاوہ گھسے پٹے اسالیب اور سانچوں سے بغاوت کرتے، اپنی انفرادیت کے اظہار کے لئے نئے اسالیب اور نئے سانچے وضع کرنا چاہتے تھے، وہ ترقی پسند دھارے سے الگ ہوتے گئے۔ بعض شعراء نے ادبی حلقوں اور جماعتوں سے وابستگی کو ہی اپنے لئے غیر ضروری قرار دیا لیکن میرا جی کی قیادت میں  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  کے نام سے لاہور میں ایک نئی جماعت کی تشکیل ہوئی جس سے وہ نوجوان وابستہ ہوئے جو نئی نظم لکھنے کی تمنا رکھتے تھے‘‘۔

( ’’نئی نظم کا سفر: ۱۹۳۶ء کے بعد‘‘،  ماہنامہ  ’’کتاب نما‘‘،  دہلی ۱۹۷۲ء)

خلیل الرحمن اعظمی کی ساری باتوں سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی آخری بات سے تو قطعی نہیں کہ حلقہ ارباب ذوق کے بنیاد گزار میرا جی تھے۔ بعض لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ میرا جی حلقہ ارباب ذوق کے بانی ہیں۔  جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس میں بعد میں شریک ہوئے بلکہ حلقے میں لائے گئے۔ قیوم نظر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ:

’’تابش صدیقی نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ میں اپنے دوستوں بالخصوص میرا جی اور یوسف ظفر کو بھی حلقے کے جلسے میں ساتھ لاؤں۔  یہ اس زمانے کی بات ہے جب میرا جی کے مضامین ماہنامہ  ’’ادبی دنیا‘‘  میں شائع ہو کر شہرت پا چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں میرا جی بسنت سہائے کے نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ میرا جی کو حلقے کے ایک جلسے میں،  میں ہی کھینچ لایا تھا۔ یہ ۱۹۴۰ء کے آغاز کے لگ بھگ کا زمانہ تھا‘‘۔                     (رسالہ  ’’ماہ نو‘‘،  لاہور، مئی۱۹۷۲ء، ص: ۸۱)

یہ بات تو بالکل درست ہے کہ میرا جی کو حلقہ ارباب ذوق کی طرف مائل کرانے والے قیوم نظر ہی تھے۔ لیکن یہ  ’’۱۹۴۰ء کے آغاز کے لگ بھگ‘‘  کی بات نہیں،  حلقے کی نشست میں پہلی بار میرا جی کی شمولیت ۲۵اگست ۱۹۴۰ء کو ہوئی تھی۔ تفصیل کے لئے یونس جاوید کی کتاب  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  دیکھئے۔ گویا میرا جی کے حلقہ کا بانی ہونے کی بات صحیح نہیں ہے۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ میرا جی کی شمولیت سے نہ صرف اس میں نئی جان آ گئی بلکہ یہ تحریک بامعنی ہو گئی۔ ن۔ م۔ راشد کے ساتھ سے اس میں مزید لہر اور نیرنگی پیدا ہوئی۔ اس باب میں ڈاکٹر منظر اعظمی وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ:

’’۱۹۸۷ء میں یہ بحث بھی اٹھی کہ  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  کا بانی کون ہے۔ اصل یہ تھی کہ ڈاکٹر محمد باقر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حلقے کے بانیوں میں سے ہیں جب کہ قیوم نظر کا جو حلقے کے جنرل سکریٹری بھی تھے، کہنا تھا کہ سید نذیر احمد اور تابش صدیقی نے سب سے پہلے ادبی حلقہ بنانے کے لئے آپس میں مشورہ کیا تھا۔ ان کے مطابق حفیظ ہوشیار پوری بھی حلقے کے بانیوں میں ہیں۔  ڈاکٹر محمد باقر کے دعوے کا ثبوت نہیں ملتا لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں کہ میرا جی اس کے بانی تھے۔ میرا جی کو لانے والے قیوم نظر تھے اور وہ کئی نشستوں کے بعد شریک ہوئے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حلقے کی شناخت انہی کی شخصیت کی مرہون منت ہے۔ ن۔ م۔ راشد اور بعد میں شامل ہوئے اور یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے حلقے کے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی ادبی رہنمائی کی۔ ان دو حضرات کے واسطے سے خصوصاً اور دوسرے شعراء کے واسطے سے عموماً دیکھنا یہ ہے کہ اس حلقے نے اردو شعر و ادب کو کیا دیا‘‘۔

( ’’اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ‘‘  از ڈاکٹر منظر اعظمی، ص: ۷۷۴)

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حلقہ میں میرا جی کی شمولیت کے بعد اس کا دائرۂ کار بڑھا اور ملک کے مختلف علاقوں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں۔  پابندی سے ہفتہ وار جلسے منعقد ہونے لگے۔ میرا جی نہ صرف ایک اچھے شاعر بلکہ ایک سلجھے ہوئے نقاد اور صحافی بھی تھے۔ حلقے کو متحرک اور فعال بنانے میں ان کی مختلف تجاویز نے بہت اہم رول ادا کیا۔ یہ ان کی ہی تجویز تھی کہ حلقے کی نشستوں میں جو تخلیقات پڑھی جائیں اس کی صرف تعریف و تحسین نہ ہو بلکہ اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کو بھی نشان زد کیا جائے۔ حلقہ اس پر عمل پیرا ہوا اور اس کے اثرات سودمند ثابت ہوئے۔ حلقہ ارباب ذوق نے میرا جی کی سرکردگی میں نظم نگاری کو خاص طور پر فروغ دیا۔ جدید نظم اس وقت بہت مقبول ہو رہی تھی اور جدید نظموں کے انتخاب بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جا رہے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق نے جدید نظموں کا ایک انتخاب  ’’۱۹۴۱ء کی بہترین نظمیں ‘‘  کے عنوان سے شائع کیا۔ یہ جدید شعراء کی صرف ۴۲ نظموں کا انتخاب تھا۔ اس کے مرتب میرا جی تھے۔ چند مشہور نظموں کے عنوانات اور شعراء کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں :

’’ازلی مسرتوں کی ازلی منزل‘‘  (احمد ندیم قاسمی)،  ’’انتباہ‘‘  (فیض احمد فیض)،  ’’خودکشی‘‘  (ن۔ م۔ راشد)،  ’’تو گر واپس نہ آئی‘‘  (جوش)،  ’’جواب تغافل‘‘  (عدم)،  ’’ننھا قاصد‘‘  (اختر شیرانی)،  ’’ڈرائنگ روم‘‘  (سلام مچھلی شہری)،  ’’تیرے ہی بچے، تیرے ہی بالے‘‘  (مطلبی فرید آبادی)،  ’’انوکھا پیار‘‘  (مخمور جالندھری)،  ’’دسہرا اشنان‘‘  (شاد عارفی)،  ’’دھوبی کا گھاٹ‘‘  (میرا جی)،  ’’نقش پا‘‘  (اختر الایمان)،  ’’جنت کی سیر‘‘  (مہدی علی خاں )،  ’’رقص‘‘  (یوسف ظفر)،  ’’خاکے‘‘  (وشوا متر)۔

’’۱۹۴۱ء کی بہترین نظمیں ‘‘  کے ابتدائیہ میں اس کے مرتب میرا جی نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے قبل کے مصنّفین اور شعراء کو میرا جی  ’’کل والے‘‘  اور ترقی پسندوں کو  ’’آج والے‘‘  کہتے ہیں۔  انہوں نے لکھا ہے کہ ترقی پسند مصنّفین اپنے سے قبل کے ادباء اور شعراء کو  ’’فن برائے فن‘‘  کا علمبردار سمجھتے تھے اور اس لحاظ سے ان کے ادب کو زندگی سے تعلق نہیں رکھنے والا باور کرتے ہیں۔  ان کا ایقان ہے کہ جس ادب کا زندگی سے تعلق نہ ہو وہ سودمند نہیں ہو سکتا۔ ترقی پسند  ’’فن برائے زندگی‘‘  کے قائل ہیں اور اسے ادب کے لئے مفید سمجھتے ہیں۔  میرا جی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی  ’’فن‘‘  اسی وقت  ’’فن‘‘  کہلائے گا جب وہ فنی تقاضوں اور فنی قدروں پر کھرا اترے گا۔ جب تک وہ فنی قدروں کو پورا نہیں کرے اس وقت تک اسے فن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور جب وہ فن ہی نہیں ٹھہرتا تو پھر اسے  ’’فن برائے حیات‘‘  کہنا بالکل غلط ہے۔ میرا جی اپنے دیباچہ میں خود کو یعنی حلقہ ارباب ذوق کو صحیح معنوں میں ترقی پسند قرار دیتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ:

’’صحیح اور صحت مند ترقی پسندی مختصر لفظوں میں ’خیال افروزی‘ کا دوسرا نام ہے‘‘۔

وہ مذکورہ انتخاب میں شامل تمام نظموں کو ترقی پسند باور کرتے ہیں خواہ وہ حلقہ ارباب ذوق والوں کی ہوں یا ترقی پسندوں کی یا کسی اور کی۔ موصوف لکھتے ہیں :

’’نثر اور نظم دونوں میں اصناف سخن کے متعلق اب تک حلقہ ارباب ذوق کا نقطہ نظر یہی رہا ہے اور اس نقطہ نظر کی وسعت بہ آسانی زندگی سے وہ ہم آہنگی حاصل کر سکی ہے جس کا اظہار آج کی نظموں کا انتخاب بھی ہے‘‘۔

جدید نظموں کا یہ انتخاب غیر جانبدارانہ رویے اور انصاف پسندی کے سبب ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ اس پذیرائی سے ان کے حوصلے بلند ہوئے اور متعلقہ ارباب نے ۲۴۹۱ء میں جدید نظموں کا پھر ایک انتخاب شائع کیا۔ اس میں بھی حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ شعراء کے علاوہ ترقی پسند شاعروں کی نظمیں شامل تھیں۔  ذیل میں ان شعراء کے نام اور ان کی تخلیقات کے عناوین درج ہیں :

’’فرار‘‘  (ڈی ایم تاثیر)،  ’’زنجیر‘‘  (ن۔ م۔ راشد)،  ’’اندھیر نگری‘‘  (شاد عارفی)،  ’’بھگوان‘‘  (عبدالمجید بھٹی)،  ’’برفانی چوٹیوں سے گزرتے ہوئے سپاہیوں کا راگ‘‘  (حفیظ جالندھری)،  ’’تفاوت راہ‘‘  (میرا جی)،  ’’فریاد‘‘  (مسعود پرویز)،  ’’خواب گراں ‘‘  (قیوم نظر)،  ’’شکاری‘‘  (احمد ندیم قاسمی)،  ’’بے بسی‘‘  (انجم رومانی)،  ’’بسنت‘‘  (شاد عارفی)،  ’’تصور کے دھندلکے میں ‘‘  (احتشام حسین)،  ’’فیصلہ‘‘  (اختر الایمان)،  ’’فردوس گوش‘‘  (یوسف ظفر)،  ’’بھینٹ‘‘  (سلام مچھلی شہری)،  ’’سکھ میں دکھ‘‘  (مختار صدیقی)،  ’’کلرک‘‘  (مسعود قریشی)،  ’’آدرش‘‘  (میرا جی)،  ’’فریب مجاز‘‘  (ماہر القادری)،  ’’آخری سجدہ‘‘  (احمد ندیم قاسمی)،  ’’ساون کا سپنا‘‘  (مسعود پرویز)،  ’’رسوائی‘‘  (مختار صدیقی)،  ’’موت‘‘  (یوسف ظفر)،  ’’مچلکے‘‘  (اختر الایمان)،  ’’طوائف‘‘  (معین احسن جذبی)،  ’’برسات‘‘  (ضیاء جالندھری)،  ’’بھوکی جوانیاں ‘‘  (مخمور جالندھری)،  ’’ساتھی‘‘  (مجید امجد)،  ’’سونے سے پہلے‘‘  (تصدق حسین خالد)،  ’’سر راہ‘‘  (مکین احسن کلیم)،  ’’جوانی‘‘  (قیوم نظر)،  ’’تسلی‘‘  (طالب شیرازی)،  ’’شہنائی‘‘  (فکر تونسوی)،  ’’سویرا‘‘  (محمد صفدر)۔

اس انتخاب کے مرتبین نے حلقہ ارباب ذوق کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  ’’جدلیاتی فلسفہ، سیاسی کشمکش، جنسی فشار‘‘  ان نظموں کا موضوع ہے اور یہ کہ ان تمام باتوں سے  ’’پیدا شدہ مسائل‘‘  لاشعوری دھندلکے سے ابھر کر شاعروں کی مخصوص انفرادیت میں ڈھل رہے ہیں۔

حلقہ ارباب ذوق والے صرف معاشرے کو ہی نہیں بلکہ فرد کو بھی یکساں اہمیت دیتے ہیں۔  انہوں نے مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ معاشرے کے اشرافیہ طبقات کے احوال کو بھی مثبت طریقے سے پیش کیا۔ وہ سماجی زندگی کی پابندیوں اور جکڑ بندیوں کا حل سماج سے بغاوت کو نہیں قرار دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی نگاہ میں اشتراکیت اس سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں وہ رومانیت کی پناہ میں جاتے ہیں یعنی وہ ایک ایسی دنیا کی تمنا کرتے ہیں جو ان مسائل سے پاک ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ پر آشوب زمانے کی وجہ سے وہ داخلیت اور جنسیت میں پناہ لے رہے ہیں۔  دراصل ان کے یہاں ادیبوں کو اس کی مکمل آزادی تھی کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو جس طرح چاہیں منظر عام پر لائیں۔  وہ ذات کے حوالے سے کائنات کو جس طرح جس رخ سے چاہیں پیش کریں لیکن شرط محض یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے انسانیت سے ہمدردی اور انسان سے محبت کے جذبے کو فروغ دیں۔

یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کے جمالی احساسات نے فکر و خیال کی اس طرح جہتیں قائم کیں کہ ترقی پسندی ضد میں آنے لگی۔ ظاہر ہے حلقہ والے جب ادب میں احساس جمال کی اہمیت، فرد کی داخلی کیفیت، ذہنی کشمکش اور خلفشار، جدید علوم نفسیات سے آگہی، رمز و اشارے کے ساتھ علامت اور تجربے، نئی تکنیک کی جستجو، دیو مالائی اور اساطیری امکانات کی تلاش اور انفرادی فکر پر زور دینے لگے تو اجتماعی احساسات لازماً گھائل ہوئے۔ اسی لئے ترقی پسندوں نے حلقہ والے کو رجعت پسند کہا۔ چونکہ حلقہ کا رویہ ترقی پسندوں کے نظریے کے منافی تھا اس لئے بہت سے ترقی پسند ادیبوں اور ناقدوں نے اسے طنز کا نشانہ بنایا۔ علی سردار جعفری نے اپنی تصنیف  ’’ترقی پسند ادب‘‘  میں حلقہ ارباب ذوق کے ادیبوں اور شاعروں کو ہیئت پرست، ابہام پرست اور جنس پرست قرار دیتے ہوئے انہیں یورپ کے انحطاطی ادب سے متاثر بتایا ہے۔ موصوف حلقہ ارباب ذوق کو یوں نشانہ بناتے ہیں :

’’۔۔۔۔۔۔۔اس زمانے میں ایک اور گروہ نے سر اٹھایا۔ یہ ہیئت پرست، ابہام پرست اور جنس پرست ادیب تھے جن کے مشہور نمائندے میرا جی، یوسف ظفر، ممتاز مفتی اور مختار صدیقی وغیرہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی بنیاد یہ تھی کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں۔  ان کی رومانیت مجہول اور گندی تھی۔ یہ خوابوں کو خارجی حقیقت سے الگ کر کے واہمے میں تبدیل کر دیتے تھے اور ان اندھے خوابوں سے ذاتی اور انفرادی تاثرات کی جو جنسی تجربوں تک محدود رہتے تھے، ایک داخلی دنیا بناتے تھے جس کے جغرافیے کا پتہ لگانا معمولی انسان کا کام نہ تھا۔ انہوں نے قدامت سے بچ کر جدت کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی اور فرائڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی آغوش میں پہنچ گئے‘‘۔         ( ’’ترقی پسند ادب‘‘،  ص: ۱۹۳-۱۹۴)

سجاد ظہیر نے بھی  ’’روشنائی‘‘  میں میرا جی کو انگلستان کے جدید رجعت پسندوں کا چربہ بتاتے ہوئے حلقہ ارباب ذوق کی مجہولیت کا ذکر کیا ہے۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء تک ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق دو متوازی میلانات کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف رائے زنی کرتے رہے۔ اس عمل میں دونوں نے ان کی خوبیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ان کی خامیوں کو آشکار کرنے کی پوری پوری کاوش کی۔

حلقہ ارباب ذوق کو یورپ اور انگلستان سے وابستہ کر دینا مناسب نہیں۔  خارجی اثرات کی اہمیت مسلم لیکن داخلی محرکات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔  ترقی پسندوں نے اگر روس کے اثرات قبول کئے تو حلقہ ارباب ذوق والے فرانس اور انگلستان کے اثرات کے زیادہ اسیر رہے۔ یہ درست ہے کہ زندگی اور ادب کے متعلق حلقہ والوں کا رجحان قدرے مختلف تھا۔ وہ بلاشبہ زندگی کی کشاکش اور خارجی حالات کی کشمکش میں ترقی پسندوں کی مانند سرگرم عمل نہ رہے ہوں لیکن انہوں نے ادبی اقدار کو ضرور ملحوظ رکھا اور اس امر پر زور دیا کہ ادب پہلے ادب ہو اور ادبی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں پہلے حلقہ کے ایک ترجمان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں :

’’ہمارے خیال میں اب ادب کی اوّلین خصوصیت یہی ہے کہ وہ اوّل اور آخر ادب ہو۔ ترقی پسندی اور رجعت پسندی بعد کی باتیں ہیں۔  جو چیز معیار پر پوری نہیں اتری حلقہ کے نزدیک درخور اعتنا نہیں ‘‘۔

( ’’ادبی دنیا‘‘  لاہور، جولائی ۱۹۴۵ء، ص: ۴۴)

یہ اوّل و آخر والی بات حلقہ کے بعض ارکان خصوصاً میرا جی کے یہاں انتہا پسندانہ حد تک ملتی ہے۔ ایسے لوگ ادب کے ساتھ زندگی کو حشو و زوائد میں شمار کرتے ہیں۔  اس انتہاپسندی کے سبب ہی حلقہ کو روشن خیال لوگوں میں مقبولیت نہیں مل سکی۔ میرا جی نے دو ٹوک انداز میں لکھا ہے کہ:

’’اگر دو ایک لمحوں کے لئے فن برائے حیات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو ہم کہیں گے کہ فن برائے فن کے بغیر فن ہی نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ برائے حیات کا دم چھلّا کیسا۔ حقیقت میں تہذیب و تمدن نے جن حشو و زوائد کو ہم پر طاری کر دیا ہے ان ہی میں سے برائے حیات کا تصور بھی ایک چیز ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کی باتیں زندگی کی ترجمان نہیں تھیں۔  یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ حال کے بعض سیاسی نظریے اور سماجی و اقتصادی نظام کے موجودہ رنگوں سے واقف نہ تھے‘‘۔

(میرا جی:  ’’دیباچہ‘‘،   ’’۱۹۴۱ء کی بہترین نظمیں ‘‘،  ص: ۱۱)

بہر طور اس حقیقت سے لوگ واقف ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق کی ادبی اقدار کو معاشرہ کے سرد و گرم سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا جو ادب برائے زندگی کے علمبرداروں کا رہا ہے۔ ن۔ م۔ راشد جن کی حلقہ سے گہری وابستگی تھی، حلقہ کے معتدل اور متوازن رویے کی وضاحت یوں کرتے ہیں :

’’جدید شاعری کی جس تحریک سے میں وابستہ ہوں،  اس کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ فارم کی جکڑ بندیوں سے اردو شاعری کو آزاد کرانا اور دوسرے معاصر زندگی کی حقیقتوں سے قریب لانا‘‘۔

اس سے حلقہ ارباب ذوق کے نصب العین کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے شعر و ادب اور معاصر زندگی کے رشتہ کو کس حد تک سمجھا اور اس پر زور دیا ہے۔ حلقہ کے احباب انفرادی احساس پر زور دینے لگے جس کی وجہ سے داخلیت یعنی درون بینی کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ حلقے نے شعور کو نظرانداز کیا ہو لیکن تحت الشعور اور لاشعور کی باتیں یہاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔  تحلیل نفسی اور تحت الشعور اور لاشعور کے رجحانات نے حلقہ والوں کو اپنے درون میں جھانکنے اور داخل ہونے کی ترغیب دی۔ انہوں نے اسی کے ساتھ اپنی ذاتی کیفیات اور واردات قلبی کو ظاہر کرنے کے لئے اسلوب میں نئے نئے تجربے کئے اور اوزان و بحور میں تبدیلیاں لائیں۔  چونکہ وہ اپنے تجربات اور واردات اور کیفیات کو تجریدی پیرایہ میں بیان کرنا چاہتے تھے اس لئے ان کو روایت کا سہارا لیتے ہوئے بھی روایت سے بغاوت کرنی پڑی۔ انہوں نے مروجہ اصطلاحات، استعارات، تشبیہات اور اشارات وغیرہ کو یا تو رد کیا یا ان کو نئے مفاہیم سے آشنا کیا۔ یہ تبدیلیاں اردو شاعری میں نئی ہی نہیں حیرت انگیز بھی تھیں۔  حلقہ ارباب ذوق نے افادیت اور مقصدیت سے اپنے رشتہ کو قطعی طور پر نہیں توڑا لیکن اس نے ترقی پسندوں کی طرح موضوع کو مقصدیت کی زنجیر بھی نہیں پہنائی۔ بلکہ عملی طور پر خود کو زندگی کے چند موضوعات تک محدود رکھا۔ میرا جی نے لکھا ہے کہ:

’’خیال یا موضوع کے اعتبار سے اس کی افادیت کو ملحوظ بھی رکھا گیا خواہ وہ افادیت انسانی کے کسی بھی پہلو یا شعبہ سے تعلق رکھتی ہو یعنی نظری ہو یا عملی‘‘۔

اس صراحت کے پیش نظر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حلقہ ارباب ذوق کے فنکاروں نے زندگی سے اپنا تعلق منقطع کر لیا۔ ہاں انہوں نے اپنی ذات کو اہمیت ضرور دی لیکن خارج اور سماج کو نظرانداز بھی نہیں کیا۔ انہوں نے باغیانہ روش اختیار کی لیکن روایت کے احترام اور سماجی رشتہ کی پاسداری سے بھی گریز نہیں کیا۔ میرا جی بھی  ’’ابوالہول‘‘  جیسی نظم لکھتے ہیں جس میں نہ صرف سماجی ورثہ کی تکریم پائی جاتی ہے بلکہ اس پر اظہار افتخار بھی۔

حلقہ ارباب ذوق کے ایک اہم رکن الطاف گوہر نے حلقہ کے شعری طریقہ کار کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

(۱)       اچھی شاعری وہ ہے جو اپنے ماحول سے آشنا ہوتے ہوئے ہمہ گیر تاثیر کی حامل ہو۔

(۲)      شاعری اگر شاعری نہیں تو پھر جدید ہو یا قدیم سوختنی ہے۔

(۳)     ہمارا احتجاج جمود کے خلاف ہے، روایات کے خلاف نہیں۔

(۴)     شاعر کا واحد مقصد اپنے شدید طور پر محسوس کئے ہوئے تجربات کا مکمل اظہار ہے۔

ان نکات سے حلقہ کے موقف کا پتہ چلتا ہے۔ واضح ہوا کہ حلقہ کے نزدیک ماحول سے آگہی، نفس شاعری، روایات کی پاسداری اور شدید احساسات کی اہمیت ہے۔ میرا جی نے بھی  ’’اس نظم میں ‘‘  کے دیباچہ میں ادب کو زندگی کا ترجمان قرار دیا ہے۔ وہ اپنے زاویہ سے ادب کو پیش کرنا چاہتے تھے اور ترقی پسند ادبی رجحانات سے فکری اختلاف کے باوجود ادب میں عصری زندگی کی عکاسی کے قائل تھے۔ البتہ وہ اس کے خواہاں ضرور تھے کہ عصری مسائل اس طرح نہ پیش کئے جائیں کہ ادب صحافت بن جائے۔ وہ اس بات کے متمنی تھے کہ ادب پہلے ادب ہو، فن پہلے فن ہو۔ شاعری میں شاعر کی ذاتی زندگی کے تجربات کی جھلک ہو۔ حلقہ ارباب ذوق نے تجربے پر خاصا زور دیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تجربہ نیا اور منفرد ہو۔ اسی طرح حلقہ نے موضوع کے انتخاب اور شاعر کے انداز نظر کو بھی اہمیت دی اور اس امر کی وضاحت کر دی کہ موضوع اچھوتا ہونا چاہئے اور اگر موضوع اچھوتا نہ بھی ہو تو کم از کم نظریہ جدید ہونا چاہئے۔ گویا حلقہ ارباب ذوق کے فنکار یہ رجحان رکھتے تھے کہ جدت یا انفرادیت ہو تو کوئی فن پارہ قابل قبول ہو سکتا ہے۔ چونکہ ترقی پسندوں نے ایسی کسی جدت پر زور نہیں دیا اس لئے میرا جی اس کمی کو ترقی پسند تحریک کا المیہ قرار دیتے ہیں۔  ان باتوں سے حلقہ ارباب ذوق کے اس میلان پر روشنی پڑتی ہے کہ تجربہ اور انفرادیت فن کے لئے بنیادی چیزیں ہیں۔  وہ اس معروف نکتہ سے اتفاق نہیں کرتے کہ شاعری نقل کی نقل کا نام ہے بلکہ وہ شاعری کو تخلیق قرار دیتے ہیں۔  حلقہ نے صرف تجربہ، جدت اور انفرادیت ہی پر زور نہیں دیا بلکہ اظہار اور ہیئت، اسلوب میں بھی ان چیزوں کو ضروری قرار دیا۔ اس طرح نئی ہیئت اور نئے اسالیب کی گنجائش خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔

نظم نگاری کا تصور پہلے بھی تھا اور ترقی پسندوں نے بھی اس طرف توجہ کی تھی لیکن حلقہ کے فنکاروں نے نظم کو  ’’عضویاتی وحدت‘‘  کی شکل دیتے ہوئے اس کو غزل سے آزاد رکھنے کی سعی کی اور اس کو ایک جمالیاتی تجربے کی حیثیت بھی دے دی۔ جہاں تک نظم کی ہیئت کا تعلق ہے اس بحث سے قطع نظر کہ آزاد نظم کو وسیلہ اظہار بنایا اور اس میں ایسے کئی تجربے کئے جن کی آزاد نظم متحمل ہو سکتی تھی چنانچہ قافیہ در قافیہ اور اندرونی قافیوں کا استعمال بھی عام ہوا، طویل اور مختصر نظموں کی طرف بھی توجہ دی گئی، جملوں،  سطروں اور اصوات کی تکرار ہوئی نیز موضوعات کے تعلق سے بھی حلقہ ارباب ذوق کا رجحان الگ رہا۔ جدید خیالات و رجحانات، ہیئت، اسلوب اور موضوعات میں نت نئے تجربے اور اختراعات حلقہ کی نظموں میں بہ آسانی مل جاتی ہیں۔  ان کا موضوع نہ گل و بلبل تھا اور نہ عارض و رخسار، نہ نیچرل اور فطری شاعری تھا اور نہ جنسی اور نفسیاتی طرز اظہار تھا۔ بلکہ یہ سارے موضوعات ایک ساتھ مل کر اپنے نئے طرز اور اسلوب میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔  ہیئت کے اعتبار سے بھی صرف پائیدار اور آزاد نظم کی ہی نہیں بلکہ پابند شاعری کے بھی کئی جہات نظر آتے۔ اور آزاد نظم میں بھی معری نظموں کی طرح کئی صورتیں ہمارے سامنے آئیں۔  اس طرح حلقہ کی شاعری میں ترقی پسندوں کے برعکس موضوع اور ہیئت کے لحاظ سے کافی تنوع، وسعت اور رنگا رنگی کا احساس ہوتا ہے۔

ترقی پسندوں کی طرف سے حلقہ کے شاعروں پر جنس پرستی کا الزام عائد کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ سماجی موضوعات کو رد کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ میرا جی، مختار صدیقی، قیوم نظر، ضیا جالندھری اور خاص طور پر ن۔ م۔ راشد کے یہاں سماجی اور سیاسی حالات کو نہایت اہتمام کے ساتھ موضوع بنایا گیا اور اس حد تک کہ سیاسی اور سماجی موضوعات سے بے توجہی کا الزام یکسر رد ہو جاتا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق یہ تسلیم کرتا ہے کہ ادب اپنے وقت کے نامساعد حالات سے متاثر ضرور ہوتا ہے لیکن اسے ادب ہی رہنا چاہئے۔ اسے کسی نظریے یا تحریک کا پابند ہو کر ادبی جمالیات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ادب کو اشاراتی اور رمزیاتی ہونا چاہئے۔ تکنیک کی اہمیت، نئے تجربے، داخلیت اور لاشعور کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ انہی خطوط پر حلقہ ارباب ذوق اپنا کام سرانجام دیتا رہا۔ ہند و پاک میں اس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے۔ پھر اس کی کارکردگی میں اتنی وسعت آ گئی کہ اس کے مختلف دور پر باضابطہ تجزیاتی نظر ڈالی جانے لگی۔ اس کا پہلا دور ابتداء سے میرا جی کی شمولیت تک ہے۔ دوسرا دور بھی اسی شخصیت کے ذریعہ اردو شاعری پر تنقید کے اجراء کا مرحلہ ہے۔ تیسرا ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کا عہد ہے۔ چوتھا اس کے بعد سے ۱۹۷۲ء تک کا سفر ہے اور آخری دور ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک کا ہے۔ واضح رہے کہ حلقہ کے مختلف ادوار کا یہ تعین ڈاکٹر انور سدید نے کیا ہے۔

اردو شاعری کو نئے افق سے روشناس کرانے، نئی جہات سے آشنا کرانے، نئی راہوں پر گامزن کرنے اور نئی بلندیوں کی سمت رواں کرنے میں حلقہ ارباب ذوق کا رویہ بھی ممتاز، نمایاں اور اہم ہے۔ اردو شعر و ادب میں اور کئی تحریکات، نظریات اور میلانات کی طرح حلقہ ارباب ذوق کی اہمیت بھی لائق ذکر ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں حلقہ کے نام اور کام کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بیسویں صدی کے تقریباً ساتویں دہائی میں جدیدیت وغیرہ کے جو رجحانات ابھرے، ان کی ساخت و پرداخت میں بھی حلقہ ارباب ذوق کے رجحانات اور شعری سرمایہ کا گراں قدر حصہ رہا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں :

’’لیکن اتنی بات تو سبھی جانتے ہیں کہ  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  کی دین وہ جدیدیت ہے جو ہندوستان میں ۰۶۹۱ء کے آس پاس ایک رجحان یا تحریک کی صورت میں ابھری۔  ’’شب خون‘‘  الٰہ آباد اس کا مرکزی آلۂ کار ٹھہرا اور بعد میں شمس الرحمن فاروقی اس کے سرخیل تصور کئے جانے لگے‘‘۔

( ’’تاریخ ادب اردو‘‘،  جلد دوم، ص: ۷۶۶)

لیکن جن شعراء اور ادباء سے حلقہ ارباب ذوق کو فروغ اور اہمیت حاصل ہوئی وہ ہیں غلام مصطفی صوفی تبسم، تصدق حسین خالد، محمد دین تاثیر، ن۔ م۔ راشد، میرا جی، حفیظ ہوشیار پوری، یوسف ظفر، قیوم نظر، مخمور جالندھری، ضیاء جالندھری اور مختار صدیقی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں پر تفصیل سے نہیں بلکہ اختصار کے ساتھ ایک سرسری نگاہ ڈالوں۔

غلام مصطفی صوفی تبسم کا تبحر علمی معروف ہے۔ پہلے وہ فارسی میں شعر کہتے رہے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا لہٰذا مغرب کے رجحانات پر نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے بڑی گہرائی سے شاعری تو نہیں کی لیکن دوسرے پہلوؤں سے حلقہ ارباب ذوق کی اس طرح خدمت کی کہ ان کا نام فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لوگوں سے Co-ordinate کرتے اور حلقہ کے لکھنے والوں کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام حلقے کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے۔

تصدق حسین خالد کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ وہ فرانسیسی ادبیات پر نگاہ رکھتے تھے۔ انگریزی کے شعراء پر بھی ان کی نگاہ تھی۔ وہ ان دونوں زبانوں کے انداز نقد سے بھی واقف تھے لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان سے استفادہ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے زیادہ تر آزاد نظمیں کہی ہیں۔  ان کے مجموعہ کلام کا نام  ’’سرود نو‘‘  ہے۔ پابند نظموں کو وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک سانیٹ بھی ان کے نام سے ملتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ عروضی پابندیوں کے قائل نہ تھے۔ لہٰذا وہ آزاد شاعری کے علمبردار رہے۔ ان کی کئی نظمیں شہرت رکھتی ہیں،  مثلاً  ’’ایک کتبہ‘‘،   ’’شہتوت کے سایوں کے نیچے‘‘،   ’’آخری تارا‘‘،   ’’بن غازی‘‘،   ’’میں ایک مجروح‘‘  وغیرہ۔ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ خالد کے یہاں علامت پسندی کے نشانات موجود ہیں۔  وہ نئی پیکر تراشی کا خاص ملکہ رکھتے تھے۔ خالد ہی کی راہ پر ن۔ م۔ راشد، فیضؔ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے آزاد نظم کو اپنانے کی سعی کی۔

دوسرے فنکار جن کی اہمیت ہے وہ محمد دین تاثیر ہیں۔  یہ حلقہ ارباب ذوق کے اہم رکن سمجھے جاتے ہیں۔  ان کی ذہنی بیداری کی لہریں محسوس کی جاتی رہی ہیں۔  تاثیر کے یہاں بھی آزاد نظموں کا ایک سرمایہ ہے لیکن وہ بعد میں تعطل کے شکار ہوئے۔ یہ سلسلہ ایسا رہا کہ وہ اپنے فن کو بہت زیادہ جلا نہیں بخش سکے۔

اب تک ن۔ م۔ راشد سامنے آ چکے تھے۔ راشد بھی مغربی زبان و ادب کے خوشہ چیں رہے تھے۔ فارسی ادب سے بھی ان کا گہرا ربط اور تعلق تھا۔ انہوں نے غیر ملکی سفر کے دوران شعر و شاعری کے باب میں بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے شعری مجموعے  ’’ماورا‘‘،   ’’ایران میں اجنبی‘‘،   ’’لا=انسان‘‘  اردو کا گراں مایہ سرمایہ ہیں۔  ن۔ م۔ راشد کا خیال تھا کہ بحروں اور قافیوں کی پابندی سے اچھی شاعری متاثر ہوتی ہے لہٰذا ان سے نجات پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ گویا ان کے یہاں بھی فرانسیسی شعراء کا طرز عمل ہے۔ انہوں نے آزاد نظم کو استحکام اور وقار بخشنے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ اس وقت تک کتنے ہی رسالے شائع ہونے لگے تھے۔ راشد کی نظمیں اپنی جدت اور روایت شکنی کی وجہ سے جلد معروف ہو گئیں۔  ان کی شاعری میں ندرت کے ساتھ جدت بھی ملتی ہے۔ جدید اردو نظم کے فروغ میں ان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگر میرا جی کو اپنے وطن ہندوستان سے، یہاں کی مٹی سے، یہاں کے زمین و آسمان سے، چاند تاروں،  جنگلوں،  پہاڑوں اور دریاؤں سے لگاؤ تھا تو اس کے برعکس ن۔ م۔ راشد ہندوستان کی سرزمین سے اٹھنے والی بغاوت کی ایک نمائندہ آواز تھے جس کی گونج ملک کے گوشے گوشے میں سنی گئی۔ راشد کو اپنے وطن کے مستقبل سے زیادہ بنی نوع انسان کے مستقبل کی فکر تھی۔ ان کے یہاں شعور کی گہرائی، فکر کی بلندی اور الفاظ کی بلند آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں وہ عناصر بھی موجود ہیں جو عظیم شاعری کی بنیاد بنتے ہیں۔  ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے آزاد نظم کو اردو میں اعتبار عطا کیا۔ انہوں نے ان نظموں میں نئی نئی جہات کا پتہ لگایا۔ جدید اردو نظم کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا اور اس میں تہہ داری پیدا کی۔ بطور مثال  ’’سبا ویراں ‘‘،   ’’آرزو راہبہ ہے‘‘،   ’’اے غزال شب‘‘،   ’’زنجیر‘‘،   ’’ایک رات‘‘،   ’’بے کراں رات کے سناٹے میں ‘‘،   ’’اتفاقات‘‘،   ’’گناہ‘‘،   ’’دریچے کے قریب‘‘،   ’’رقص‘‘،   ’’اجنبی عورت‘‘،   ’’خودکشی‘‘،   ’’حیلہ ساز‘‘،   ’’داشتہ‘‘،   ’’نمرود کی خدائی‘‘،   ’’ظلم رنگ‘‘،   ’’سایہ‘‘،   ’’کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم‘‘،   ’’پہلی کرن‘‘،   ’’اندھا کباڑی‘‘،   ’’انسان‘‘،   ’’زندگی سے ڈرتے ہو‘‘،   ’’اسرافیل کی موت‘‘  جیسی نظمیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اپنی فنی پختگی، ایمائیت، بے پایاں شعری حسن، تہہ در تہہ علامات اور منفرد اسلوب بیان کی وجہ سے اردو کی چند بہترین نظموں میں شمار ہوں گی۔

ن۔ م۔ راشد نے ترقی پسندی اور سماجی نقطہ نظر کو ہمیشہ ہیچ جانا۔ ان کی خصوصی وابستگی جنس سے رہی۔ نیز خواہش مرگ بھی ان کے یہاں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

ان کے بعد ہی میرا جی اپنے تمام تر کیف و کم کے ساتھ سامنے آ گئے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تو نہ تھے لیکن ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اس وقت کے اہم رسالوں میں ان کی تخلیقات بڑے لخلخے سے شائع ہوتیں۔  انہوں نے شاعری کے علاوہ تنقید بھی لکھی، ترجمے بھی کئے۔ ان کی نظموں،  غزلوں اور گیتوں کے کئی مجموعے یادگار ہیں مثلاً  ’’میرا جی کے گیت‘‘،   ’’میرا جی کی نظمیں‘‘،   ’’گیت ہی گیت‘‘،   ’’پابند نظمیں ‘‘،   ’’تین رنگ‘‘،   ’’سہ آتشہ‘‘۔  ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کا کلیات شائع کر دیا ہے۔ ان کی تنقیدی کتاب  ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘  میں تنقید تو ہے ہی تراجم شاعری بھی ہے۔ ان کی ایک اور تنقیدی کتاب  ’’اس نظم میں ‘‘  معروف ہے۔ ترجمے میں  ’’نگارخانہ‘‘  بہت مشہور ہے۔ دراصل یہ کتاب معروف سنسکرت شاعر دامودر گپت کی ہے۔ میرا جی نے اس کا نثری ترجمہ کیا ہے۔

میرا جی کی شاعری جنسی کہی جاتی ہے لیکن ان کا علامتی انداز بہت پرکشش ہے۔ دراصل ان کی نگاہ میں فرانس کے زوال پسند شعراء تھے۔ لگتا ہے کہ وہ ملارمے، ورلن اور بودلیئر وغیرہ سے خاصے متاثر رہے تھے۔ لیکن ان کا ذہن شاید Morbid تھا۔ میرا جی کی زندگی عجیب و غریب تھی۔ چال ڈھال، وضع قطع میں سب سے مختلف جیسے وہ حقیقتاً نراجی ہوں اور اس زمانے کی ساری کدورت کو اپنی شخصیت میں ضم کر کے ان کی تطہیر کرنا چاہتے ہوں۔  ایک بنگالی خاتون میرا سین سے ان کا عشق معروف ہے۔ انہوں نے میرا جی اسی بنیاد پر اپنا نام رکھ لیا، جس نے ان کے اصلی نام محمد ثناء اللہ ثانی ڈار کو معدوم کر دیا۔ حالانکہ یہ عشق یک طرفہ بھی تھا اور ان کہا بھی۔ پتہ نہیں اس کی خبر میرا سین کو تھی بھی کہ نہیں۔  ان کے ہاتھ کے تین گولے بھی معروف ہیں جو میرے خیال میں جنسی علامتیں ہیں۔  ویسے میرا جی بہت پڑھے جاتے ہیں۔  ان پر مسلسل مضامین لکھے جاتے رہے ہیں۔  میرا جی نہ صرف حلقہ ارباب ذوق کے روح رواں تھے بلکہ حلقے کے سب سے زیادہ نمائندہ اور اہم ترین شاعر بھی تھے۔ ان کے بعد ہی کسی اور کا نام لیا جا سکتا ہے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’اردو نظم میں میرا جی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم، عقائد اور مظاہر سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل کے طور پر اپنے وطن کے گن گائے ہیں بلکہ جس کی روح دھرتی کی روح سے ہم آہنگ اور جس کا سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز قدیم ملکی روایات، تاریخ اور اساطیر سے مملو ہے‘‘۔

( ’’نظم جدید کی کروٹیں ‘‘،  وزیر آغا، ص: ۹۴)

میرا جی کی نظمیں جنسی کج روی کی علامت بن گئی ہیں۔  جنسی مسائل کا عریاں اظہار، عشق و محبت کے جنسی لوازم اور ناجائز جنسی تعلقات کی تعریف و تحسین کا پہلو ان کے یہاں بہت نمایاں ہے۔ میرا جی چونکہ ہندوستانی اساطیر و روایات سے بڑی شدت کے ساتھ وابستہ تھے اس لئے انہوں نے یہ کج روی ویشنو عقائد کے زیر اثر اختیار کی ہے جس میں افزائش نسل کو دنیا کے دیگر اعمال پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ بطور مثال میرا جی کی نظم  ’’حرامی‘‘  کا مطالعہ کیجئے جس میں انہوں نے ناجائز تعلق کو زندگی کا ثمر سمجھتے ہوئے سماجی اقدار اور ان کے رد عمل کو بالکل نظرانداز کیا۔ سماجی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے ناجائز جنسی تعلقات کی تحسین ان کی دیگر نظموں میں بھی ملتی ہے۔ وہ رادھا اور کرشن کے جوڑے کے اسی لئے مداح ہیں کہ یہاں ناجائز رشتہ استوار ہے۔

میرا جی کی نظموں میں مسرت کی فضا خال خال ہے اور جہاں ہے وہاں مصنوعی سی لگتی ہے۔ وہ وصال کے وقت بھی اس لئے لطف اندوز نہیں ہو پاتے کہ ہجر کی آنے والی گھڑیوں کا تصور دم گھونٹتا رہتا ہے۔ ان کے یہاں اذیت پسندی کا رجحان بھی بہت واضح طور پر موجود ہے اور یہ رجحان بھی میرا جی نے بھکتی تحریک سے حاصل کیا ہے جہاں اذیت کوشی کار ثواب ہے۔ ان کے یہاں ہجر کی بالادستی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں :

ایک تو، ایک میں دور ہی دور ہیں

آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی

دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں

(نظم  ’’دو کنارا‘‘ )

جیسا کہ قبل لکھ چکا کہ میرا جی کی نظموں کی فضا ہندوستانی ہے۔ یہاں کے سماجی ڈھانچے میں جو مسائل پل رہے ہیں وہ ان کی نظموں کا موضوع بنتے ہیں لیکن ان کی نظمیں اس اخذ و قبول کے باوجود اندر سے باہر کی طرف سفر کرتی ہیں۔  ہندوستان کے شاندار ماضی سے بھی میرا جی خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔  مظاہر قدرت، درخت، جنگل، پہاڑ، پگڈنڈیاں،  چاند ستارے میرا جی کو بہت پسند ہیں۔  ان علامات کے ساتھ وہ اپنی نظموں کو سنوارتے ہیں۔  مثلاً:

کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے

لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے

مگر بوجھ پتوں کا اترے ہوئے پیرہن کی طرح سیج کے ساتھ ہی

فرش پر ایک مسلا ہوا

ڈھیر بن کر پڑا ہے                 (نظم  ’’اس کی انوکھی لہر‘‘ )

’’تفاوت راہ‘‘،   ’’نامحرم‘‘،   ’’تو پاربتی میں شو شنکر‘‘،   ’’دھوکا‘‘،   ’’دھواں کا گھاٹ‘‘،   ’’دور کرو پیراہن کے بندھن کو‘‘،   ’’کٹھور‘‘،   ’’برقع‘‘،   ’’کلرک کا نغمہ محبت‘‘  ایسی نظمیں ہیں جو اردو شاعری میں میرا جی کو بالکل منفرد بناتی ہیں۔

میرا جی کی شاعری کے دو نمایاں پہلو ہیں۔  پہلا ابہام و اشاریت اور دوسرا انتہائے جنس پرستی۔ میرا جی کی نظموں میں جنسی جنون اس حد تک دخیل ہے کہ اکثر وہ اپنی راہ بھول جاتے ہیں۔  ان نظموں میں ابہام کی پرتیں بھی اتنی دبیز ہیں کہ اکثر قاری اپنے اندر ان کے مفہوم کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں پاتا۔ دراصل میرا جی نے اقدار کے انتشار سے تنگ آ کر اپنے لئے ایک الگ دنیا تخلیق کر لی تھی۔ ابہام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعر کا ذہن ہندو دیو مالا سے عبارت ہے جب کہ قاری اس سے واقف نہیں۔  ابہام کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود شاعر کی زندگی نہایت پیچیدہ اور الجھی ہوئی رہی ہے۔ میرا جی کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں رمز و علامات اور رمزیہ تصاویر کے پیکر سے کام لیا ہے۔ بہر طور میرا جی نے جدید نظم کو جو نیا موڑ دیا اور اردو نظم میں جو نوع بہ نوع تجربے کئے اس کا اثر اردو شاعری کے ارتقاء پر بہت گہرا پڑا، جسے بہ آسانی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

حفیظ ہوشیار پوری بھی حلقے سے وابستہ تھے۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ لیکن انہوں نے کچھ آزاد نظمیں بھی کہی ہیں۔  ان کی ایک آزاد نظم  ’’بے وفائی‘‘  (یہ بائرن کی مشہور نظم "When We Two Parted” کا ترجمہ ہے) جو بحر ہزج میں ہے، اس میں بڑا تکلف ہے۔ انہوں نے ہر مصرعے کو مختلف حصے میں تقسیم کر دیا ہے۔ چند سالم مصرعے بھی تخلیق ہوئے ہیں۔  ہر بند کے آخری حصے میں مفاعیلن فعولن کا حصہ جوڑ دیا ہے۔ گویا حفیظ شاعری میں تجربے بھی کرتے رہتے تھے۔

حلقہ ارباب ذوق کے ایک اہم شاعروں میں یوسف ظفر کو بھی شمار کیا جاتا رہا ہے۔ یہ انسانی زندگی کی تلخیوں سے بے زار رہے تھے۔ ان کی جذباتیت معروف ہے۔  ’’زہر خند‘‘،   ’’زنداں ‘‘  اور  ’’صدا بصحرا‘‘  میں ان کی ساری کدورتیں شعر کا جامہ پہن لیتی ہیں اور  ’’پیش کش‘‘،   ’’سائے‘‘،   ’’طمانچہ‘‘،   ’’تغیر‘‘،   ’’تعمیر نو‘‘،   ’’پرانی قدریں ‘‘،   ’’منزلیں ‘‘،   ’’شہر قبور‘‘،   ’’قیامت‘‘،   ’’میراث‘‘  جیسی نظموں میں نہایت پرکشش انداز میں سامنے آتی ہیں۔

یوسف ظفر کی شاعری کا انداز بہت منفرد ہے۔ وہ نظم معریٰ کے ایک اچھے شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔  ان کی نظموں میں جذبات کی شدت اور گرمی ملتی ہے۔ پروفیسر حنیف کیفی کی رائے ہے کہ:

’’اپنی حیات کی محرومیوں کے ساتھ ساتھ عام انسانی زندگی کی تلخیوں کے خلاف بھی یوسف ظفر کا رد عمل ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے اور اس لئے اس میں شدید قسم کی جذباتیت پائی جاتی ہے۔ یوسف ظفر کا یہ مخصوص و منفرد جذباتی رد عمل ان کی نظموں کی تخلیقی توانائی ’حرکت و حرارت‘ کا باعث ہے اور اس نے ان کے اظہار کو انفرادیت عطا کی ہے‘‘۔

( ’’اردو میں نظم معریٰ اور آزاد نظم: ابتدا سے ۱۹۴۷ء تک‘‘،  حنیف کیفی، ص: ۵۳۸)

یوسف ظفر کی نظموں میں علامات و اشارات مبہم ہوتے ہیں لیکن بعض نظموں میں وہ بہت صاف اور واضح انداز میں اپنا مافی الضمیر پیش کرتے ہیں۔  بطور مثال نظم  ’’زنداں ‘‘  کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

اب مرا عزم ہے فولاد کی مضبوط چٹان

اب یہاں کانچ کی تلواریں نہیں رہ سکتیں

اب میں خود آگ ہوں ہر شئے کو جلا سکتا ہوں

مجھ سے اب ہاتھ اٹھا لو کہ میں جا سکتا ہوں

یوسف ظفر کی شاعری میں زندگی کے مختلف مسائل اور ان مسائل سے پیدا ہونے والے جذبات اور احساسات موجزن ملتے ہیں۔  وہ عام الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ان میں نئے معنی و مفاہیم پیدا کر لیتے ہیں۔  کوثر مظہری نے ان کی شاعری کی تفہیم ڈھنگ سے کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :

’’یوسف ظفر کی روح ایک شفاف آئینہ کے مثل ہے جس میں معاشرے کا حسن و قبح صاف نظر آتا ہے۔ انہوں نے علمی شاعری نہیں کی ہے بلکہ زندگی کو سمجھ کر اس کی تفسیر پیش کی ہے۔ جس تہذیب اور جس ماضی کی اقدار کو کسی زندہ معاشرے کی میراث تصور کیا گیا ہے۔ یوسف ظفر نے اس کی یافت اور بازیافت کی کوشش کی ہے۔  ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘  کے شعراء میں یوسف ظفر کا ایک اہم مقام رہا ہے۔ ان کی نظمیں اعلیٰ قدروں اور تہذیبی رویوں کو پیش کرتی ہیں ‘‘۔         ( ’’جدید نظم: حالی سے میرا جی تک‘‘،  کوثر مظہری، ص: ۴۰۰)

حلقہ ارباب ذوق کے ایک اہم رکن قیوم نظر بھی تھے۔ انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں اور گیت بھی۔ وہ اپنی شاعری میں داخلی واردات کو معنی خیز انداز میں سموتے ہیں۔  گو کہ ان کی شاعری کا محور و مرکز داخلی دنیا ہے لیکن وہ خارجی دنیا کے حالات اور ماحول کو داخلی احساسات میں ضم کر کے بیان کرتے ہیں۔  قیوم نظر کی شاعری میں استعارے اور کنائے کی بہتات ملتی ہے۔ ان کی ایک نظم ہے  ’’اپنی کہانی‘‘  جس میں ہندوستان کی غلامی کے دور کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ ہندوستان کی گویا قید کا زمانہ ہے۔ آزادی اگر حاصل نہ ہو تو زندگی قید ہی ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں ہندوستان کے لئے شیر کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ وہ شیر جو قید میں رکھا گیا ہے۔ یہ قیدی شیر لوہے کی سلاخوں کے پیچھے ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان قید کی دیواروں کو گرا دے گا اور لوہے کی سلاخوں کو تو ڑ ڈالے گا۔ نظم کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نظم کا ایک بند دیکھئے:

تنگ و تاریک ہے اب روزن زنداں کی طرح

تلخی جبر میں لپٹا ہوا پامال کچھار

جس میں وہ بھورا سا اک ڈھیر پڑا ہو جیسے

اس کی آنکھوں میں ایک اتر ہے احساس کا خون

سرد لوہے کی سلاخیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ گراں دیواریں

توڑ ہی ڈالے گا اب ٹھان چکا ہو جیسے

قیوم نظر کی شاعری میں معاشرہ اور معاشرے کی تہذیبی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔  بطور مثال  ’’کلرک کا نغمہ‘‘،   ’’اس بازار میں ایک شام‘‘،   ’’مجبوری‘‘،   ’’یہ راتیں یہ دن‘‘،   ’’قرطبہ کا پل‘‘،   ’’پرچم پاک‘‘،   ’’واپسی‘‘،   ’’جہلم کا بہتا پانی‘‘،   ’’وادیِ کشمیر‘‘،   ’’اکیلا‘‘،   ’’بے بسی‘‘،   ’’عشق گریزاں ‘‘  جیسی نظمیں پیش کی جا سکتی ہیں۔  قیوم نظر نے ہیئت کے تجربے بھی کئے ہیں لیکن ان کے یہاں عروض اور وزن کی پابندی بھی ملتی ہے۔

ضیاء جالندھری بھی حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والے ایک اہم شاعر ہیں۔  ان کے چار شعری مجموعے  ’’سر شام‘‘،   ’’نارسا‘‘،   ’’خواب سراب‘‘  اور  ’’پس حرف‘‘  منظر عام پر آ چکے ہیں۔  ان کے کلیات  ’’سرشام سے پس حرف تک‘‘  میں چاروں مجموعے شامل ہیں۔

ضیاء جالندھری خاص طور سے زندگی کے اس پہلو کو موضوع سخن بناتے ہیں جو حزن و یاس سے مملو ہے۔ چونکہ ان کے انداز فکر میں قنوطیت ہے اس وجہ سے وہ زندگی کے خوش گوار پہلوؤں کو وقتی اور نا پائیدار سمجھ کر اس کی طرف التفات نہیں کرتے البتہ وہ غم اور ملال کو جاوداں سمجھتے ہیں،  اس لئے اپنی شاعری میں ان ہی کی طرف توجہ کرتے ہیں۔  لیکن وہ ان ساری کیفیات کو حسن کارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔  ضیاء کی شاعری میں جو درد و کرب کی کیفیت ہے، اس باب میں وزیر آغا کا بیان ہے کہ:

’’یوں لگتا ہے جیسے یہ شاعر اپنے ہی کرب کی آگ میں جل کر کندن ہو گیا ہے اور اس کا داخلی نظام لمحے کے آشوب کی ماہیت کو پوری طرح پا گیا ہے۔ آغاز کار ہی میں اس کے سامنے روایتی عارفانہ تصورات کا ایک ڈھیر موجود تھا اور وہ چاہتا تو محض ہاتھ بڑھا کر اس سے اپنی پسند کی چیز اٹھا سکتا تھا۔ آخر آخر میں اس جزو اور کل، قطرہ اور بحر کا راز منکشف ہوا تو قیاس کہتا ہے کہ وہ ان واردات سے خود گزرا ہے‘‘۔

( ’’نظم جدید کی کروٹیں ‘‘،  وزیر آغا، ص: ۱۷۱)

’’زوال‘‘،   ’’ویرانے‘‘،   ’’نئی پود‘‘،   ’’بڑا شہر‘‘،   ’’زمستاں کی شام‘‘،   ’’زمہریر‘‘،   ’’ڈور دھوپ‘‘  جیسی نظموں کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ضیاء جالندھری نے بڑے شاعروں کے کلام کا مطالعہ تو ضرور کیا لیکن ان کی کورانہ تقلید نہیں کی بلکہ اپنے ہی تجربات اور واردات کو قلم بند کر کے اپنی انفرادیت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔

مختار صدیقی بھی حلقہ ارباب ذوق کے ایک قابل لحاظ شاعر تھے۔ ان کے کلام میں موسیقی کا خاص التزام ملتا ہے۔ ان کا مجموعہ  ’’منزل شب‘‘  اپنے وقت میں بہت مشہور ہوا۔ مختار صدیقی نے فطری نغمے سے بہت دلچسپی لی۔ انہوں نے تقابلی صورت واقعہ کو ایک خاص ادا سے پیش کیا اور تہذیب و معاشرت کو نئے تناظر میں سامنے لانے کی سعی کی۔ ان کے یہاں استغنا بھی ہے اور درویشی بھی۔  ’’باز یافتہ‘‘،   ’’قریۂ ویراں ‘‘،   ’’زوال‘‘،   ’’منزل شب‘‘،   ’’خیال چھایا‘‘،   ’’آج ملے— وصال‘‘  جیسی نظموں سے ان کے مزاج و شعور کا پتہ چلتا ہے۔ نظم  ’’باز یافتہ‘‘  میں ایک ایسی عورت کو موضوع بنایا گیا ہے جو فرقہ وارانہ فساد کے دوران اغوا کر لی گئی تھی اور اب اس ہنگامے سے متاثر ہو کر یکا و تنہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ بچ گئی لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس کی زندگی کی ناؤ کھینے والا کون ہو گا؟ یعنی اس کا ناخدا کون ہو گا؟ مختار صدیقی نے اس نظم میں اسی مسئلے کے حل کی طرف سماج کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے:

اچھا خاصا سبک سا نقشہ

چہرہ پیلا لباس سادہ

ماحول سے جیسے تھک چکی ہو         تنہا    تنہا  ،    بلا   ارادہ

آنکھیں جو کبھی رسیلی ہوں گی

اب ان کی اداسیوں کی تہہ میں

کیا کیا نہ تھے جاں گسل فسانے     ہم  آپ  تو بے سنے ہی سہمیں

طوفاں میں جو ناؤ کھو گئی تھی

پھر آن لگی ہے اس کنارے

یوں تو ہے خدا کا شکر واجب      لیکن  کسے  ناخدا  پکارے

انور سدید نے ان کے شعری امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’مختار صدیقی کا احساس جمال لفظوں کے بجائے سروں سے مرتب ہوا، انہوں نے شعر کی زبان میں فطرت کا نغمہ سننے اور پھر اسے لفظوں میں مجسم کرنے کی سعی کی ہے۔  ’’منزل شب‘‘  اور  ’’سہ حرفی‘‘  کی نظموں میں وہ درویش نغمہ مست کی صورت میں نمایاں ہیں۔  انہوں نے اشیاء اور مظاہر میں مماثلت قائم کرانے کے بجائے ان کے داخلی خواص کو تقابلی تصویروں میں پیش کیا ہے۔ ان کی نظمیں  ’’منزل شب‘‘،   ’’اناؤنسر‘‘  اور  ’’کیسے کیسے لوگ‘‘  میں شعر کی تہذیب ایک نئے تناظر میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ مختار صدیقی کی شاعری گزرے وقتوں اور گمشدہ ساعتوں کی رومانی سطح پر باریابی کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے غزل میں استغنا اور درویشی کی روایت کو میر کے انداز میں پیش کیا ہے‘‘۔

( ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘،  انور سدید، ص: ۴۳۰)

یہ وہ شعراء ہیں جنہوں نے حلقہ ارباب ذوق کا نہ صرف نام روشن کیا بلکہ ان ہی کے باعث اس حلقے کی اردو تاریخ میں جگہ ہے اور بڑی اہم جگہ ہے۔ ان کی کارکردگی سے نہ صرف اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا بلکہ شعر و ادب میں نئے رجحانات پیدا ہوئے جن کی تفصیل میں جانے کی فی الحال ضرورت نہیں۔  پھر کبھی۔ یہاں میں صرف یہ بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ حلقہ ارباب ذوق کی تحریک بھلے ہی ترقی پسند تحریک کی طرح بہت فعال اور سرگرم تحریک نہیں تھی لیکن اس نے آہستہ روی ہی سے سہی ادب کے ایک مخصوص طبقے کو متاثر ضرور کیا۔ لہٰذا اردو میں ادبی تحریکات کی گفتگو حلقہ ارباب ذوق کے ذکر کے بغیر یقیناً نامکمل رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

اِملا میں الفاظ کی جداگانہ حیثیت سے انحراف (ایک تجزیاتی مطالعہ)

 

               پروفیسر غازی علم الدین(میرپور)

 

اپنی تہذیب و ثقافت، زبان اور اعلیٰ روایات کو تاریخ میں محفوظ کرنا زندہ قوموں کی روایت ہے۔ زندہ قومیں اپنی اعلیٰ روایات اور زبان و بیان پر فخر کرتی ہیں اور انہیں اصلاح اور ارتقاء کی طرف گام زن رکھتی ہیں۔  ایک فرد  روح اور بدن کے باہمی ربط سے زندہ رہتا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں دیگر کئی عوامل کے علاوہ ’زبان‘ ایک توانا عامل ہوتی ہے۔ ہر متحرک قوم اپنی زبان کی تزئین و آرائش کرنے، اصول و قواعد اور لسانی سرمائے کو زندہ رکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ بولنے، پڑھنے اور لکھنے کا طے شدہ قواعد و ضوابط کو اختیار نہ کیا جائے تو زبان کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون}

(بے شک قرآن مجید کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اوراس کی حفاظت بھی ہم خود ہی کریں گے) (۱)

اس وعدۂ برحق کے مطابق جہاں قرآن مجید قیامت تک محفوظ ہو گیا، وہاں عربی زبان اور اس کے قواعد بھی محفوظ ہو گئے۔ آج عرب دنیا میں عربی زبان کے کئی لہجے اور بولیاں موجود ہیں لیکن بنیادی اصول و قواعد،  املا کے ضوابط اور رسم الخط میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مذکورہ ارشادِ ربانی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ استمرار زمانہ کے ساتھ ساتھ زبانوں کا ارتقائی سفر تو جاری رہتا ہے لیکن بنیادی قواعد اور طے شدہ اصول و ضوابط اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔

آج میڈیا کی برق رفتاری نے اُردو زبان کو کئی سارے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔  ایک گھناؤنی سازش کے تحت نژادِ نو کو رومن رسم الخط کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اخلاق اور زبان کے بگاڑ میں موبائل کمپنیوں کا کردار عوام اور حکومتِ وقت، ہر دو کے لیے کھیلا چیلنج ہے۔ بیسیوں حکومتی اور نجی ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز غلط بولنے اور لکھنے کے مسلسل عمل سے اردو زبان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔  تخریب زبان میں پرنٹ میڈیا بھی کسی سے کم اور پیچھے نہیں ہے۔ لفظی اور حرفی اختصار کی دوڑ میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کو ملا کر لکھنے کی وبا عام ہو گئی ہے۔ ہر لفظ جداگانہ لکھنے کی بجائے الفاظ کو ملا کر لکھنے سے ان کی ذاتی اور امتیازی حیثیت برقرار نہیں رہتی۔ خود مختار اور علاحدہ علاحدہ لفظوں کو جوڑ کر یا ملا کر لکھنے کی وبا نے پیکرِ معانی اور حُسنِ یکتا کو مجروح اور ان کی انفرادی حیثیت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ دو لفظوں کو بے جا طور پر ملا کر لکھنا بصری طور پر بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لفظی اور حرفی اختصار جو الفاظ کے حسن کو گہنا دے اور معنوی بگاڑ کا سبب بھی بنے، کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس رسمِ قبیح کا مظاہرہ بڑی دیدہ دلیری سے کر رہا ہے۔

لفظو ں کو ملا کر لکھنا جہاں نگاہ کو آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے وہاں طالب علم کو بھی ذہنی اُلجھن میں ڈالتا ہے۔ لکھنے اور پڑھنے کی آسانی اس میں ہے کہ لفظوں کو الگ الگ لکھا جائے۔ اُردو قواعد کے معروف عالم رشید حسن خان لکھتے ہیں  ’’زبان صرف اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں ہی کے لیے نہیں ہوتی۔  وہ طالب علموں اور کم خواندہ لوگوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔ ایک پڑھا لکھا آدمی  ’’نیکبخت‘‘  کے پڑھنے میں کوئی اُلجھن محسوس نہیں کرے گا مگر ابتدائی درجوں کے طلبہ اور معمولی سطح کے آدمیوں کو اس کے لکھنے اور پڑھنے میں،  اُلجھن سے آنکھیں چار کرنا پڑیں گی‘‘  (۲)

کچھ مثالوں سے اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ الفاظ کو ملا کر لکھنے سے کون کون سی قباحتیں اور اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معنوی بگاڑ کیا گُل کِھلاتا ہے۔

 

غلط طور پر ملا کر لکھے گئے الفاظ         درست طور پر الگ الگ لکھے گئے الفاظ         لفظی اور معنوی بگاڑ کی  تفصیل

کسمپرسی                                     کس مپرسی

ملا کر لکھے گئے دو لفظوں کے مرکب کسمپرسی کو عام لوگ کسم__پُرسی ادا کرتے ہیں جو بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس مرکب کو اگر علاحدہ علاحدہ’ کس مپرسی ‘کی صورت میں لکھا جائے تو اس کا معنی (ایسی حالت جس میں کوئی پرسانِ حال نہ ہو) خوب واضح ہو جاتا ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہتا ہے کہ ’کس ‘ الگ لفظ ہے  اور ’مپرسی‘ الگ۔

علمبردار                                                عَلَم بردار

ملا کر لکھے گئے اس مرکب کو سطحی استعداد رکھنے والے لوگ اور طلبہ علمبر__دار پڑھتے ہیں۔  عربی اور فارسی کی اس ذو لسانی ترکیب کو سمجھ نہیں پاتے۔ اگر عَلَم بردار کی صورت میں یہ ترکیب نظروں کے سامنے ہو تو اس کا معنی (جھنڈا اُٹھا کر چلنے والا، پیش پیش، مدّعی) بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

تندرست                                  تن درست

ملا کر لکھے گئے دو لفظوں کے مرکب تندرست کو عام طور پر تند__رُست پڑھا اور بولا جاتا ہے۔ ایسی غلطی محض ملا کر لکھنے سے ہوتی ہے۔ اگر دو الگ الگ لفظوں کی صورت میں ’ تن درست‘ نظروں کے سامنے ہو تو دیکھتے ہی تن (بدن) اور درست (ٹھیک) کا تصّور واضح ہو جاتا ہے۔  ان دونوں لفظوں کی امتیازی حیثیت برقرار رہتی ہے اور بصری طور پر بھی ناگوار محسوس نہیں ہوتا۔

سرخرو                           سُرخ رُو

اس ترکیب کو عام طور پر سَر __خَرو  اور  سُر__خَرو ہی بولا جاتا ہے جس سے لفظی اور معنوی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ سُرخ رُو کو اگر الگ الگ لکھا جائے تو اس کا معنی (سُرخ چہرے والا یعنی کامیاب و   کام ران) واضح ہو جائے گا۔ اس سے تلفظ کا بگاڑ بھی پیدا نہیں ہو گا۔

خوبرو                            خوب رُو

ملا کر لکھے گئے دو الفاظ کے مرکب خوبرو کی لفظی شناخت آسانی سے نہیں ہو پاتی۔ خُو__ بَرو کی صورت میں بولنے سے لا یعنی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور ایک خوب صورت لفظ اپنے خوب صورت معنی کے ساتھ مسخ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان دونوں لفظوں کو اگر توڑ کر خوب رُو (خوب صورت چہرہ) لکھا جائے تو بصری طور پر بھی خوب صورت لگے گا۔

رو برو                            رُو بہ رُو

رو برو کو بھی رُو۔ برو ادا کیا جاتا ہے۔ رُو بہ رُو (چہرہ بہ چہرہ۔ آمنے سامنے) کو الگ الگ لکھنے سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دو نہیں بلکہ تین الفاظ کا مرکب ہے۔

دانشور                           دانش ور

ملا کر لکھے ہوئے دو الفاظ کے مرکب دانشور کو عام طور پر دانش ور ہی بولا جاتا ہے لیکن راقم کے مشاہدے میں یہ بات آتی رہتی ہے کہ  بعض لوگ احمق اور بے وقوف کو از راہِ تفنن دانشُور  (Danshoor)کہہ دیتے ہیں۔   یہ دو الگ الگ لفظوں کو ملا کر لکھنے کا ہی شاخسانہ ہے۔  اگر ان دونوں لفظوں کی امتیازی حیثیت برقرار رکھی جاتی تو دانشُور  (Danshoor)کی اصطلاح وضع نہ ہو پاتی۔

عالیشان                         عالی شان

ملا کر لکھا ہوا یہ مرکب جہاں بصری طور پر ناگوار گزرتا ہے وہاں عالی کا  عُلُوِّ لفظی بھی مجروح ہو جاتا ہے۔

انشا اللہ                          ان شا ء اللہ

ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا تو) کا شمار شعائر اسلام میں ہوتا ہے۔ یہ تین لفظوں کا مرکب ہے۔ اِن (اگر) حرفِ شرط ہے۔ شَاء فعل ماضی ہے اور اللہ فاعل ہے۔ اسے جب انشا اللہ کی صورت میں ملا کر لکھا جاتا ہے تو جہاں اس مرکب کا لفظی تشخص ختم ہو تا ہے،  وہاں معنوی بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ انشا کا عربی میں معنی نشو و نما اور بڑھوتری ہے۔ شاء کا ہمزہ (ء) نہ لکھ کر ایک اور بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

راجولی                            شاہولی

راجہ ولی                         شاہ ولی

یہ دو مردانہ نام ہیں۔  جب یہ ملا کر لکھے جاتے ہیں تو مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ ملا کر لکھے گئے راجولی اور شاہولی پر نظر پڑتی ہے تو "Rajoli”اور "Shaholi” جیسے تلفظ کا گمان ہوتا ہے۔

چکلالہ                           چک لالہ

چک لالہ راول پنڈی کا ایک مقام ہے جو ہوائی اڈے کی وجہ سے معروف ہے۔ پنجابی زبان میں چک گاؤں کو کہتے ہیں۔  اس ترکیب میں لالہ مضاف الیہ ہے یعنی لالہ کا چک۔ لالہ بڑے بھائی کو کہا جاتا ہے۔ لالہ ایک معروف اور خوب صورت پھول کا نام بھی ہے۔  لالہ سے مراد یہ دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں یعنی بڑے بھائی کا گاؤں یا وہ گاؤں جس میں لالہ کے پھول کاشت کیے جاتے ہیں۔ چک اور لالہ کو ملا کر جب چکلالہ لکھ دیا جاتا ہے تو یُوں گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی  چکلال نامی لفظ سے مشتق ہے اور چکلال سے چکلالہ بنا دیا گیا ہے۔

دستخط                            دست خط

دست خط (اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا نام) ایک کثیر الاستعمال ترکیب ہے۔ یہ ترکیب اصل میں خطِ دست ہے۔  اس ترکیب میں مضاف الیہ پہلے جب کہ مضاف بعد میں آیا ہے۔ اس کی مثال پیرانِ پیر کی طرح ہے جو اصل میں پیرِ پیراں (یعنی پیروں کا پیر) ہے۔ اسے ملا کر دستخط کی صورت میں لکھا جائے تو اس ترکیب کا معنوی تصّور دھندلا ہو جاتا ہے۔

جلترنگ                        جل ترنگ

جل ترنگ (پانی کی لہر، ایک باجا) کو جلترنگ کی شکل میں ملا کر لکھنے سے جل کا معنی پانی اور ترنگ کا معنی لہر، موج اور جوش واضح نہیں ہوتا۔

نگہداشت                      نگہ داشت

نگہ داشت اصل میں نگاہ داشت ہے۔  نگہ کو اگر داشت کے ساتھ ملا کر لکھا جائے تو ان دونوں لفظوں کی انفرادی حیثیت کا تصّور دھندلا  جائے گا اور بالآخر ختم۔  الگ الگ لکھنے سے دونوں لفظوں کے معنی (نظر رکھنا، حفاظت کرنا) فوراً ذہن میں آ جائیں گے اور ان کی انفرادی اور جداگانہ حیثیت بھی برقرار رہے گی۔

اس طرح کے مزید کرشمے الف بائی ترتیب سے مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

آبدیدہ              آب دیدہ                       (دیدن مصدر سے) رونے پر آمادہ

آبیاری              آب یاری          (آرائیدان مصدر سے) کھیتوں کو سینچنا

آجکل               آج کل              (متعلق فعل) یعنی ان دنوں،  بہت جلد۔ عن قریب

اسکو                  اس کو

اسکی                  اس کی

افسوسناک          افسوس ناک       ناک کلمۂ نسبت ہے۔ اسماء کے ساتھ مل کر صفت بناتا ہے جیسے افسوس ناک یعنی قابلِ افسوس

انتھک               اَن تھک                        اَن حرفِ نہی ہے۔ کسی لفظ کے پہلے آ کر نفی (بغیر۔  بنا) کے معنی دیتا ہے جیسے ان تھک یعنی نہ تھکنے والا، بہت محنتی۔

انکا                    ان کا

انکو                   ان کو

انکی                   ان کی

انشاء اللہ                        ان شاء اللہ         تفصیل پچھلے صفحات پر بیان ہو چکی ہے۔

ایماندار             ایمان دار                       دار لاحقۂ  فاعلی ہے۔ مصدر داشتن کا صیغۂ امر جو کسی اسم کے بعد آ کر اُسے اسم فاعل بنا دیتا ہے اور رکھنے والا کے معنی دیتا ہے جیسے ایمان دار یعنی ایمان رکھنے والا

بانکپن               بانک پن                        پن مصدری علامت ہے۔ بعض صفات کے آخر میں آ کر انہیں اِسم کیفیت بنا دیتا ہے جیسے بانک پن یعنی ٹیڑھا پن، البیلا پن وغیرہ

بخوبی                 بہ خوبی               اچھی طرح، پوری طرح،  عمدگی سے

بدولت              بہ دولت                        (متعلق فعل) سبب سے، ذریعے سے، طُفیل سے وغیرہ

بشرطیکہ             بہ شرطے کہ                   تابع فعل ہے یعنی اس شرط پر

بلکہ                   بل کہ               (حرفِ عطف و تابع فعل) پھر بھی۔ اس سے بڑھ کر۔  شاید وغیرہ

بہر حال                        بہ ہر حال                       (تابع فعل) ہر حال میں، ہر طرح پر وغیرہ

بیباق                 بے باق             (اسم صفت) قرض سے سبک دوش

بیباک               بے باک                        ٍ (اسم صفت) بے خوف

بیتاب               بے تاب                       (اسم صفت)تاب تابیدن مصدر سے ہے یعنی بے طاقت،  بے چین وغیرہ

بیخبر                  بے خبر              (اسم صفت) غافل، ناسمجھ وغیرہ

بیخود                 بے خود              (اسم صفت) اپنے آپ سے بے خبر، از خود رفتہ

بیشتر                  بیش تر               (اسم صفت) بیش کی تفضیلِ بعض ہے یعنی اکثر، زیادہ تر

بیشک                بے شک                        (اسم صفت) بے شبہ، درست،  صحیح وغیرہ

بیشمار                 بے شمار              (اسم صفت) بے حساب، شمارسے باہر، بہت زیادہ وغیرہ

بیکار                  بے کار               (اسم صفت) نکمّا۔  ناکارہ۔  ناقص وغیرہ

بینوا                   بے نوا               (اسم صفت) بے کس، جس کی آواز نہ سنی جائے وغیرہ

بیوفا                  بے وفا               (اسم صفت) وعدہ پورا نہ کرنے والا۔ بد عہد۔ بے مروّت

بیوقوف             بے وقوف          (اسم صفت) بے عقل، احمق اور نادان

بیہوش               بے ہوش           (اسم صفت) بے خبر،  بے سُدھ اور غافل

پاسداری                       پاس داری          داری داشتن مصدر سے ہے یعنی لحاظ رکھنا۔ مروّت۔خیال رکھنا

پائمال               پائے مال                        مال مالیدن مصدر سے ہے یعنی پاؤں تلے روندنا

پہریدار             پہرے دار                     دار داشتن مصدر سے ہے یعنی سنتری۔ چوکیدار۔ محافظ اور دربان وغیرہ

پیشتر                 پیش تر               پیش کی تفضیلِ بعض یعنی بہت پہلے

پیشرفت            پیش رفت                      رفت رفتن مصدر سے ہے یعنی معاملے کا آگے بڑھنا

پیشرو                 پیش رو              رو رفتن مصدر سے ہے یعنی پہلے گزر جانے والا۔ آگے آگے چلنے والا

تابعدار                         تابع دار             دار داشتن مصدر سے ہے۔ لغوی معنی تابع رکھنے والا ہے لیکن مطیع اور فرماں بردار کے معنوں میں غلط العوام ہے۔

تابناک              تاب نا               (اسم صفت) روشن۔ تاب تابیدن مصدر سے ہے۔

تحصیلدار                       تحصیل دار                      دار داشتن مصدر سے ہے۔  ضلع کی کسی تحصیل کا حاکم جس کا کام مال گزاری وصول کرنا ہوتا ہے۔

تکبندی             تک بندی                       بستن مصدر سے ہے یعنی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بات

تندرستی                        تن درستی                       تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے

تندہی               تن دہی                          دہی دادن مصدر سے ہے یعنی جفا کشی

تنگدست                       تنگ دست                     مفلس

تنگدل              تنگ دل                        کم حوصلہ

تہبند                 تہ بند                             بند بستن مصدر سے ہے یعنی دھوتی، لُنگی وغیرہ

ٹیلیویژن                       ٹیلی وژن

جانبدار             جانب دار                       دارداشتن مصدر سے ہے یعنی طرف دار، مددگار

جاندار               جان دار                         جان رکھنے والا۔ مضبوط۔  قوی وغیرہ  دار داشتن مصدر سے ہے۔

جاں بلب           جاں بہ لب                     یہ اصل میں جان بر لب ہے یعنی قریب المرگ

جانفشانی             جاں فشانی                      فشانی افشا ندن مصدر سے ہے یعنی جان دینا۔ سرگرمی،  محنت

جائیگا                 جائے گا

جائیگی               جائے گی

جائینگے               جائیں گے

جسطرح             جس طرح

جسکو                  جس کو

جسکی                 جس کی

جسکے                 جس کے

جمعبندی                        جمع بندی                                    بندی بستن مصدر سے ہے یعنی مال گزاری کا بندوبست

جوابدہی                         جواب دہی                     دہی دادن مصدر سے ہے یعنی ذمہ داری

جہاندیدہ                        جہاں دیدہ                      دیدہ دیدن مصدر سے ہے یعنی جس نے دنیا بھر کو دیکھا ہو۔ آزمودہ کار

جہانگیر              جہاں گیر                                    گیر گرفتن مصدر سے ہے یعنی دنیا کو فتح کرنے والا

چنانچہ                چناں چہ                         (متعلق فعل) جیسا کہ،  اس طرح

چونکہ                چوں کہ                         چوں حرفِ شرط ہے یعنی اس لئے

حالانکہ              حال آں کہ                    (متعلق فعل)تین لفظوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی حالت تو یہ ہے کہ،  یہ حالت ہوتے ہوئے بھی۔

حرف بحرف       حرف بہ حرف                (متعلق فعل) ایک ایک حرف۔  لفظ بہ لفظ

خواہشمند                        خواہش مند                    (اسم صفت) آرزو مند، خواہاں اور شائق

خوبرو                خوب رو                         (اسم صفت) خوب صورت

خوبصورت         خوب صورت                 (اسم صفت) حسین۔ خوب رُو

خوشحال             خوش حال                      (اسم صفت) آسودہ حال

خوشخبری                       خوش خبری                     اچھی خبر۔ نوید۔ بشارت

خوشخط               خوش خط                                    (اسم صفت) عمدہ لکھا ہوا۔ عمدہ لکھنے والا

خوشگوار             خوش گوار                      (اسم صفت) خوش آیند۔ پسندیدہ

داغدار              داغ دار                         (اسم صفت) دار داشتن مصدر سے ہے یعنی جس پر کوئی داغ ہو

دانشمند              دانش مند                       (اسم صفت) صاحبِ عقل، زیرک

دانشور               دانش ور                         (اسم صفت) صاحبِ عقل، زیرک

درسگاہ               درس گاہ

دستخط                دست خط                                   تفصیل گزر چکی ہے

دسترس             دست رس                      پہنچ، رسائی، قابلیت،  حیثیت وغیرہ۔ رس رسیدن مصدر سے ہے

دستیاب            دست یاب                    (اسم صفت) میّسر یاب یافتن مصدر سے ہے

دلآزاری                        دل آزاری                     دل دُکھانا

دلچسپ              دل چسپ                      (اسم صفت)چسپ چسپیدن مصدر سے ہے۔  یعنی دل لبھانے والا۔ خوش نما

دلبر                  دل بر                (اسم صفت) بر بُردن مصدرسے ہے یعنی دل لینے والا۔  محبوب۔ معشوق

دلربا                 دل رُبا               (اسم صفت) رباربائیدن مصدر سے ہے یعنی دل لبھانے والا۔ محبوب۔ معشوق

دلکش                دل کش             (اسم صفت) کش کشیدن مصدر سے ہے یعنی دل کو کھینچ لینے والا۔      پسند یدہ۔ خوش نما

دلکشا                 دل کشا              (اسم صفت) کشاکشادن /کشودن مصدر سے ہے یعنی دل کو شگفتہ کرنے والا

دلنشیں               دل نشیں            (اسم صفت) نشستن مصدر سے ہے یعنی دل میں بیٹھ جانے والا۔  دل پر اثر کرنے والا

دم بخود              دم بہ خود                        (اسم صفت) چپ چاپ۔ ساکت و جامد

دم بدم               دم بہ دم             (متعلق فعل) ہر گھڑی۔  ہر وقت۔ متواتر۔ پے در پے

دیندار               دین دار             (اسم صفت) دار داشتن مصدر سے ہے یعنی دین کا پابند۔ متقی

دیانتدار                        دیانت دار          (اسم صفت) دار داشتن مصدر سے ہے یعنی ایمان دار۔ راست باز

ذیلدار              ذیل دار             ایک سرکاری عہدہ جس کے حلقے میں کئی گاؤں ہوتے ہیں۔  دار داشتن مصدر سے ہے

راجولی               راج ولی             تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے

راہداری                        راہ داری                        راستے پر چلنے کا اجازت نامہ۔راستے کا محصول۔  دار داشتن مصدر سے ہے

رو برو                رو بہ رو              (اسم صفت) آمنے سامنے۔ مقابل

روز بروز            روز بہ روز          (متعلق فعل) آئے دن۔ ہر روز۔ مسلسل

روبقبلہ              رو بہ قبلہ                       قبلہ کی طرف مُنْہ کر کے

راہبر                 راہ بر                 ہادی۔ راہ نما۔ پیش وا۔ بر بُردن مصدرسے ہے

رنگدار              رنگ دار                        (اسم صفت) رنگا ہوا۔ رنگین۔ دار داشتن مصدر سے ہے

رنگریز               رنگ ریز                        کپڑا رنگنے والا۔ ریز ریختن مصدر سے ہے

راہزن              راہ زن               لٹیرا۔ قاطع الطریق۔ زن زدن مصدر سے ہے

راہگزر                راہ گزر              گزر گزشتن مصدر سے ہے یعنی راستہ۔ سڑک

راہگیر                راہ گیر              گیر گرفتن مصدر سے ہے یعنی راستہ پکڑنے والا۔ مسافر

راہنما                راہ نما                نما نمودن مصدر سے ہے یعنی راستہ دکھانے والا

سر بسر               سر بہ سر             (متعلق فعل) سرا سر، اس سرے سے اُس سرے تک۔  تمام

سر بصحرا             سر بہ صحرا          (اسم صفت) دیوانہ وار۔ وحشیانہ

سربفلک            سر بہ فلک          (اسم صفت) بہت اُونچا۔  وہ چیز جس کا سر آسمان تک جا لگے

سربکف             سر بہ کف           (اسم صفت) سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے۔ جان دینے پر آمادہ

سر بگریباں          سر بہ گریبان      (اسم صفت) سوچ بچار کی حالت میں۔  نادم۔ شرمندہ

شاندار              شان دار                         (اسم صفت) دار داشتن مصدر سے ہے یعنی عالی شان۔ ذی رُتبہ

شرمساری          شرم ساری         سار سائیدن / سودن مصدر سے ہے یعنی شرمندگی، خجالت

شرمناک           شرم ناک            (اسم صفت) قابلِ شرم

ششماہی             شش ماہی           (اسم صفت) نصف سال۔ چھ ماہ۔ چھ ماہ کا

شوکت علیشاہ      شوکت علی شاہ    علی اور شاہ کو ملا کر لکھنا علی کے علُّوِ لفظی کے منافی ہے

صاحبزادہ           صاحب زادہ       شریف زادہ۔ رئیس زادہ۔ بیٹا

صبحدم              صبح دم               (متعلق فعل) علی الصبح۔  صبح سویرے

صورتحال          صورتِ حال       معاملہ،  کیفیت

طالبعلم              طالب علم           علم کا طلب گار

طلبگار                طلب گار                       (اسم صفت) خواہش مند

عالمگیر               عالم گیر             (اسم صفت) گیر گرفتن مصدر سے ہے۔ دنیا کو زیر کرنے والا۔ دنیا پر چھا یا ہوا

عالیجناب            عالی جناب          (اسم صفت) بڑے رُتبے والا۔ بلند شان والا

عالیشان             عالی شان            (اسم صفت) اعلیٰ رُتبے والا۔ بڑی شان والا

عقلمند                عقل مند                       (اسم صفت) عاقل۔ دانا۔ ہوش مند

عقیدتمند           عقیدت مند       (اسم صفت) معتقد۔ ارادت مند۔ دین دار

علیحدہ                علاحدہ               (اسم صفت) یہ اصل میں عَلیٰ حَدِّہٖ (اپنی حد پر) ہے یعنی الگ۔  جُدا

علمبردار                        علم بردار                        (اسم صفت) بردار برداشتن مصدر سے ہے یعنی جھنڈا اُٹھا کر چلنے والا

عنقریب            عن قریب         ( متعلّق فعل) پاس۔ نزدیک۔ جلد۔ فوراً

غمخوار               غم خوار             (اسم صفت) خوار خوردن مصدر سے ہے یعنی غم کھانے والا۔ دکھ درد کا شریک

کامیاب             کام یاب            (اسم صفت) یاب یافتن مصدر سے ہے یعنی فتح یاب

کجکلاہ                 کج کلاہ               (اسم صفت) ٹیڑھی ٹوپی والا۔ خود نمائی کرنے والا

کسمپرسی             کس مپرسی         تفصیل پچھلے صفحوں پر گزر چکی ہے۔ پُرسی پرسیدن مصدرسے ہے

کمزور                 کم زور               (اسم صفت) ناتواں۔ کم طاقت والا۔  ہلکا

کمیاب                کم یاب             (اسم صفت) یاب یافتن مصدر سے ہے۔ کم ملنے والا۔ نایاب

کونسا                 کون سا

کونسی                کون سی

کیلئے                  کے لئے

کیوجہ                کی وجہ               (تابع فعل) ا س لئے۔ اس طرح

کیونکہ               کیوں کہ            (تابع فعل) اس لئے۔ اس طرح

گرانقدر            گراں قدر          (اسم صفت) عالی مرتبہ۔  معزز

گرانمایہ            گراں مایہ           (اسم صفت) نفیس، قیمتی، بڑا آدمی جو صاحبِ قدر و منزلت ہو

گلبدن              گُل بدن                        (اسم صفت) پھول جیسے نازک بدن والا

گلکاری              گُل کاری                        کارکاریدن مصدر سے ہے یعنی نقاشی اور بیل بوٹے کا کام

گمراہ                 گم راہ                 (اسم صفت) راہ کو گم کر دینے والا۔ بے دین

گمنام                  گم نام                (اسم صفت) غیر معروف۔  جس کو کوئی نہ جانتا ہو

لیکر                   لے کر

لکھینگے                لکھیں گے

مالدار                مال دار               (اسم صفت) دار داشتن مصدرسے ہے۔ مال رکھنے والا۔ امیر آدمی

مالگزاری             مال گزاری         زمین کا لگان

مبارکباد             مبارک باد          لغوی معنی مبارک ہو۔ خوش خبری۔ تہنیت۔اشیر باد

مزیدار              مزے دار            (اسم صفت) دار داشتن مصدر سے ہے یعنی لذت والا۔ لذیذ

ملنسار                ملن سار              (اسم صفت) ہر ایک سے ملنے والا

منزل بمنزل       منزل بہ منزل     (تابع فعل) درجہ  بہ درجہ۔ ایک ایک پڑاؤ

موجزن             موج زن                        (اسم صفت) زن ردن مصدر سے ہے۔ موجیں یعنی ٹھاٹھیں مارنے والا

مہتاب              مہ تاب              ماہ تاب کا مخفف۔  تاب تافتن مصدر سے ہے یعنی چاند۔چاندنی

مہمانداری         مہمان داری       داری داشتن مصدر سے ہے یعنی مہمان رکھنا۔ مہمان نوازی

میخانہ                 مے خانہ             شراب خانہ

میخوار                مے خوار                        شرابی۔ خوار خوردن مصدر سے ہے

میکش                مے کش                        شرابی۔ کش کشیدن مصدر سے ہے

نامور                 نام ور                نام آور کا مخفف ہے۔ آور  آوردن مصدر سے ہے یعنی مشہور و معروف

نشاندہی             نشان دہی           ٹھکانہ پتا۔سراغ رسانی

نگہداشت          نگہ داشت          اصل میں نگاہ داشت ہے۔ داشت داشتن مصدر سے ہے۔ یعنی کسی کو نگاہ میں رکھنا۔ حفاظت کرنا وغیرہ

ہمدردی             ہم دردی            غم خواری۔در د مندی

ہمسر                ہم سر                برابر کا۔ ہم رُتبہ

ہوشمند              ہوش مند           عقل مند

یکجہتی                 یک جہتی                        اتحاد۔ اتفاق۔ دوستی

یکسوئی               یک سوئی                        اطمینان۔ فرصت۔ دل جمعی

 

مرکب شہروں کے نام جو ملا کر لکھے جاتے ہیں :

بھاگلپور              بھاگل پور

بہاولپور             بہاول پور

جونپور               جون پور

چکلالہ               چک لالہ

چندیگڑھ             چندی گڑھ

راولپنڈی           راول پنڈی

سیالکوٹ            سیال کوٹ

علیگڑھ               علی گڑھ

فتحپور                فتح پور

کانپور                کان پور

گورکھپور            گورکھ پور

گولکنڈہ             گول کنڈہ

مبارکپور            مبارک پور

ناگپور                 ناگ پور

نوابشاہ               نواب شاہ

 

حوالہ جات

۱۔        الحجر__۹

۲۔       رشید حسن خان،  اُردُو اِملا (مجلسِ ترقی ٔ ادب، کلب روڈ لاہور، ۲۰۰۷ء ) ص۴۶۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

لطف النساء امتیازؔ ۔۔  اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ

 

               مستبشرہ ادیب(علی گڑھ)

 

یہ حسن اتفاق ہے کہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر حسن شوقی(م-۱۶۳۳ء ؟) کی جائے پیدائش دکن ہے۔ اوراسی زرخیز خطۂ ہند پہ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء امتیازؔ بھی پیدا ہوئیں،  دکن کی شعری اور ادبی فضا میں ان کی شاعری پھلی پھولی، جس کا اندازہ شاعرہ کے مندرجہ ذیل شعر سے لگا یا جا سکتا ہے۔ جو بہرحال ان کے شہرت اور خود اعتمادی کا ترجمان ہے۔

جو لطف النساء سچہ ہے تیرا نام         ترے شعر کا شہرہ تاروم و شام ۱؎

امتیازؔ کی شہرت کا یہ عالم ہے مگر اس کے باوجود تذکرہ نگاروں کی ان کی طرف سے بے اعتنائی کی حد یہ ہے کہ صفا عبدالحئی ( تذکرہ شمیم سخن) فصیح الدین بلخی( تذکرہ نسواں ہند) محی الدین قادری زور( تذکرہ مخطوطات) جوہر بیدری (تجلیات ماہ لقاء)میں ماہ لقاء بائی چنداؔ کے متعلق لکھا ہے۔ لیکن ان کی ہمعصر شاعرہ کے طور پر بھی امتیازؔ  کا نام لینا گوارا نہ کیا۔ اس بے اعتنائی کے اسباب چاہے جو رہے ہوں، مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اٹھارویں صدی میں تمنا، تجلی، احسان، شوق، اور شاداں جیسے شعراء کے درمیان فن شعر میں جوہر دیکھا نے والی امتیازؔ کا شمار ایک مدت تک مرد شعراء میں ہوتا رہا۔ پروفیسر اشرف رفیع کی تحقیق کے مطابق نصیر الدین ہاشمی نے امتیاز کے دیوان کے آخر میں شامل دیوان کی تاریخ سے ان کے خاتون شاعر ہونے کی تصدیق کی ہے، یہ تاریخ دیکھیے۔

چواز کنیز حضرت خاتون دریں زماں

اشعار تازہ جمع شدہ دل شگفتہ شد

از روئے یمن سال ہمایوں ایں کتاب

دیوان امتیاز بخوانید و گفتہ شد ۲؎

مذکورہ تاریخ میں کنیز کا لفظ آیا ہے جس سے انہیں خیال ہوا کہ یہ عورت کا کلام ہو سکتا ہے، چنانچہ ہاشمی صاحب اپنی مرتب کردہ فہرست ’’ کتب خانہ سالار جنگ‘‘  میں لکھتے ہیں۔

’’امتیاز دکن کا ایک شاعر ہے مجھ کو نہیں معلوم اس کا نام کیا تھا اور کس کا شاگرد تھا۔کسی قدیم اور جدید تذکرے ہیں اس کا حال درج نہیں ہے اور اختتامی شعر میں لفظ کنیز آیا ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے امتیاز کوئی شاعرہ ہے‘‘ ۳؎

اس اعتبار سے نصیر الدین ہاشمی وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے لطف النساء امتیازؔ کے دکن کی شاعرہ ہونے کی حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ انہیں کے ایک اور مضمون سے یہ راز بھی منکشف ہوا کہ امتیازؔ ماہ لقاء بائی چنداؔ سے بڑی اور ان کی ہمعصر شاعر ہ تھیں۔  اور یہ کہ ان کا دیوان چنداؔ کے دیوان سے قبل مرتب ہوا تھا۔ نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں۔

’’… پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء امتیاز قرار دی جانی چاہیے کیونکہ ان کا دیوان ۱۲۱۳ھ میں یعنی چنداؔ کے دیوان سے ایک سال قبل مرتب ہوا تھا‘‘۔ ۲؎

نصیر الدین ہاشمی نے امتیازؔ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ایک جگہ اور دیوان کی سن ترتیب کی تصدیق ان الفاظ میں کی ہے۔

’’…چھتیس برس کی عمر میں دیوان مرتب ہوا،  چونکہ دیوان۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۶ئ میں ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس لیے امتیاز کی پیدائش ۱۷۶۲ء قرار دینا ہو گا‘‘۔ ۵؎

جب کہ تذکروں کے مطابق چنداؔ کی سن پیدائش۱۸۱۱ھ بحوالہ ’’ تجلیات ماہ لقاء ‘‘ اور دیوان کی تاریخ اشاعت ۱۷۹۹ء ہے۔ اس اعتبار سے دونوں کے قریب ترین ہمعصر ہونے میں کوئی شبہ نہیں،  مگر تذکرہ نگاروں کا چنداؔ کو پہلی صاحب دیوان شاعرہ قرار دینا، اور امتیازؔ سے بے اعتنائی غالباً اس وقت کے سماجی عوامل ہو سکتے ہیں۔  اشرف رفیع کی تحقیق کے لحاظ سے جب امتیاز سو اسال کی تھیں،  تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، وہ شفقت پدری سے بھی کچھ عرصے تک محروم رہیں۔  مگر ان کی پرورش ایک ایسے امیر گھرانے میں ہوئی جن کے یہاں اولاد نہیں تھی۔چنانچہ امتیازؔ کے بہت نازو نعم اٹھائے گئے۔ انہیں کی تحقیق یہ بھی ہے کہ دیوان میں شامل ایک مثنوی کا نصیر الدین ہاشمی کی کتاب ’’دکھنی ’قدیم اردو‘ کے چند تحقیقی مضامین ‘‘ میں حوالہ ملتا ہے۔ جس کے اشعار سے یہ تصدیق ہو ئی کہ امتیاز کو اسد علی خاں تمنا( سن وفات ۱۲۵۳ھ) جیسا استاد سخن شوہر ملا تھا۔ وہ انہیں سے ہی اپنے کلام کی اصلاح لیتی رہی ہوں گی، تو یہ کسی حد تک ممکن ہے کہ امتیاز کی شعری پرورش گھر کے اندر ہی ہوتی رہی ہو۔ بہرحال مثنوی کے یہ اشعار دیکھیے

نہایت شکیل و جمیل یک جواں

کہ تھا جسم آہو وہ ابر و کماں

اسی نے کیا شعر ہے آبدار

تھا عرصے میں شعراء کے چابک سوار

اسی نوجواں کا تمنا تھا نام

اسد تھا علی کا تھا رو ماہ رام

(دیوا ان مثنوی۶)

ظاہر ہے عوام کی زیادہ توجہ امتیازؔ کے شوہر تمناؔ کی طرف رہی ہو گی، دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چنداؔ ان کے بالمقابل گھر کی چہار دیواری میں قید نہ تھیں۔  گرچہ ان کا رتبہ طوائف ہونے کے باوجود بہت بلند تھا، ذی علم،  ذی ہنر ہونے کے علاوہ ان کے تعلقات امراء و نوابین سے تھے۔ یہ روابط بھی چنداؔ کے شعری ذوق اور شہرت عام کے اسباب میں شامل ہوں گے۔ جب کہ امتیازؔ کی ساری تخلیق سرگرمی درونِ خانہ تک محدود تھی۔ اس لیے لوگ ان کے شوہر تمنا کے کلام سے واقف تھے مگر امتیازؔ کی طرف ان کی توجہ نہ ہوسکی، یوں بھی شریف گھرانوں کی بیشتر خواتین کو بحیثیت شاعرہ مجلسوں میں اپنی شہرت پسند نہ تھی۔ لہٰذا جب کوئی شاعرات کا تذکرہ لکھنے کا خیال کرتا تو اُسے یہ اعتراف کرنا پڑتا تھا۔ کہ

’’… جب ہم تذکرہ لکھتے تھے تو باوجود کو شش بسیار کے بہت کم عورتیں با عفت و عصمت و ذی علم شاعرہ نظر آئیں،  اور اکثر عورات بازاری کو شاعر پایا‘‘ ۷؎

گرچہ یہ تحقیق تذکرہ ’’ شمیم سخن‘‘  (سن اشاعت۱۸۸۲ء )کے مطابق ۱۹ ویں صدی کے آخر کی ہے، اور امتیازؔ کا زمانہ اٹھارویں صدی کا آخری دور ہے، بہرحال اس زمانے میں شریف گھرانوں کی خواتین کے تخلیقی اظہار پر پابندی روایت کا حصہ تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے نام بدل کر دوسرے ناموں سے شاعری کرنے پر مجبور تھیں،  مگر یہ شاعرات مرد مرکزی شعری روایت کی پابند تھیں، ا متیاز کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔ جو دکنی کلاسیکی شعریات کا عمدہ نمونہ ہیں۔

عنقا مثال ہم تو بے نام و نشاں ہیں

گر چہ جہاں میں ہیں ہم نابود پر جہاں ہیں

آنسو کہ جگہ کو لوہو بر سے ہے ان آنکھوں سے

ڈرتا ہوں کے ان سے ہی طوفان نکلتے ہیں

مفت میں جان دیے ہم پس دیوار چمن

کسی نے پرسش نہ کی کون تھا بیمار چمن

امتیازؔ تخلیقی ہنر مندی کے لحاظ سے بھی چنداؔ پر فوقیت رکھتی ہیں۔  انہوں نے چنداؔ کے بالمقابل بیشتر اصناف سخن کو اپنے تخلیقی اظہار کا حصہ بنایا، جن میں غزل،  قصیدہ،  مثنوی،  رباعی، قطعہ، مخمس، مسدس، اور نعت مخصوص ہیں۔  جب کہ چند ا ؔ نے صرف صنف غزل میں ہی اپنے تخلیقی جو ہر دکھائے اور۱۲۵ غزلوں پر مبنی دیوان مرتب کیا۔ؔ علاوہ ازیں امتیاز نے چھ ہزار سے زیادہ اشعار پر مشتمل ’’ گلشن شعرا‘‘  کے عنوان سے ایک مثنوی بھی کہی تھی۔ جو سید یسٰین علی خان مرحوم کے کتب خانے میں موجود تھی۔ ان کی وفات کے بعد معلوم نہیں اس کتب خانے کا کیا ہوا۔ اشرف رفیع مذکورہ مثنوی کے متعلق لکھتی ہیں۔

’’… گلشن شعراء ایک ضخیم مثنوی ہے۔ جس میں اعلیٰ تخیل اور شاعرہ کی پر گوئی کا اندازہ ہوتا ہے۔امتیاز نے بتا یا کہ یہ قصہ فرضی ہے اور اسے عشق حقیقی کی تفصیل کہنا مقصود تھا، مثنوی حمد سے شروع ہو تی ہے۔ نعت کے بعد مناجات ہے، مناجات میں ہی مثنوی کے نام اور دیگر تفصیلات کا ذکر ہے۔ اس کے بعد عشق کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ جس میں دو ڈھائی سو سے زیادہ شعر لکھے گئے ہیں،  اس سلسلے میں اپنے بادشاہ آصف جاہ ثانی اور ارسطو جاہ ثانی کی تعریف ہے۔ پھر قصہ شروع کیا ہے۔ قصہ قدیم طرز کا ہے، سحر جادو دیو پری اور قالب کی تبدیلیاں وغیرہ جو داستانوں کے لوازم ہیں یہاں بھی ملتے ہیں ‘‘۔ ۹؎

نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب  ’’دکھنی’ قدیم اردو‘ کے چند تحقیقی مضامین ‘‘ میں اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ امتیاز کے دیوان اور مثنوی  ’’گلشن شعراء‘‘  کے چند اشعار سے شاعرہ کے نام اور تخلص کا بھی تعین کیا ہے۔ جس کی تصدیق اشرف رفیع نے کی ہے۔

جو لطف انساء سچہ کا تیرا نام

ترے شعر کا شہرہ تا روم و شام

تر اجو تخلص ہے اب امتیاز

ہے سب اہل ہنرو میں تو شاہ باز۱۰؎

جب کہ دیوان میں شامل ایک مثنوی میں بھی امتیاز نے اپنے نام اور تخلص کو برتا ہے۔ علاوہ ازیں اظہار کے لیے منتخب اصناف شعری، تعداد اشعار اور تاریخ اشاعت کا حوالہ بھی مثنوی کے اشعار میں موجود ہے۔

یہ لاویں فہم تئیں دانائے راز

کہ کیوں لطف سے بن گیا امتیاز

مناقب، قصائد،  مدح جو لکھا

مخمس،  دگر ریختہ جو ہوا

ہے تعداد ابیات دیوان جو

ہوئے دو ہزار ساٹھ اور ایک سو

کیا سن ہے ہجری کو جب میں عیاں

ہوئے یک ہزار دو سو پہ باراں جاں ۱۱؎

گویا یہ مثنوی ان کے تخلیقی اظہار کے متعلق ایک اہم دستاویز اور روئیداد زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب وہ اشعار ملاحظہ کیجیے جو امتیاز کے بچپن میں شعر گوئی کی ابتداء کا واضح بیان معلوم ہوتے ہیں۔

لڑکپن سے یہ شوق دل نے کیا

یہ کچھ شعر و اشعار کا مشغلہ

لیاقت تو کیا شعر کہنے کی تھی

ہو س یوں ہی چپ کہنے سننے کی تھی

امتیازؔ کی دیوان کلاسیکی شعریات کے بنیادی امتیازات کا ترجمان ہے۔ ان کی غزلوں میں روایتی تصور عشق کے مضامین کے علاوہ دیگر مسائل و مصائب،  اخلاقی اقدار اور تصوف کے مختلف پہلوؤں کو اہمیت حاصل ہے۔ جن اشعار میں امتیاز نے روایتی عاشق کی پیکر تراشی کی ہے، اور اس کی خاکساری اور جانثاری کو روایتی پس منظر میں نظم کیا ہے۔  ملاحظہ کیجیے۔

بہار آئی ہے ہم شور جنوں میں ہیں اے ناصح

کوئی اس وقت میں احمق گریباں کو سلاتا ہے

ہم تو سردے چکے اس راہ میں

خاکساری قبول بسم اللہ

چھوڑ دے صیاد ہم کو ورنہ توڑیں گے قفس

فصل گل یوں مفت جائے اور رہے باقی ہوس

میں تو شکوہ نہ کیا اپنی زباں سے یارو

دیکھ روتے ہیں سبھی حال پریشاں میرا

گر نہیں منظور جینا ہی مرا تو ذبح کر

ہے قیامت حق میں میرے آہ تیرا روٹھنا

ان اشعار کو صر ف ہم کلاسیکی شعری روایت کا پاسدار اور روایتی عاشق کے اوصاف کا بیاں یا پھر روایتی تصور عشق کی توضیح کہہ کر اپنی بات کو مکمل نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہ بلاواسطہ اس حقیقت کا انکشاف بھی ہیں۔  کہ اردو کی کلاسیکی شاعرات نے جب تخلیقی سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے فطری اظہار سے گریز کیا۔ اور مذکر کے صیغے میں وہی آداب تخلیق بر لائیں جو اس وقت کے مرد شعراء کے کلام کا امتیازات تصور کئے جاتے ہیں۔  امتیازؔ نے بحیثیت روایتی عاشق اپنے حسین و جمیل، محبوب کی بے اعتنائی، ستم ظریفی اور جفا کشی کے مضامین کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے جو روایتی شاعری کا مرکزی کردار ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے۔

ہوا ہوں مقتول از بس نیلی نگاہوں کا سر پٹکتا ہوں مانند مجنوں

سنا کرسرگزشت اپنی صحرا میں سارے غزالوں کو حیرت میں لا کر

جاتی ہے جان تن سے نکل اب تو آئیو

قاتل خدا کے واسطے ٹک منھ دکھا ئیو

کہاں تک مثل بسمل امتیاز آہ ہم تڑپیں

ہمیں تو ذبیح بھی کرتا نہیں جلا دیا قسمت

نہیں اعتبار اس کو ہر گز مری وفا کا

جس جا گرے پسینہ واں گرچہ خوں فشاں ہو

امتیازؔ نے غزلوں میں کلاسیکی شاعری کے عاشق کی وفاداری،  بے خطا، بے وفا، مغرور، جلاد، محبوب کے اوصاف کے علاوہ جو مضامین نظم کئے ہیں۔  ان میں زور فلک، ساقی، میخانہ، بہار، چاک گریباں،  ناصح اور محتسب سے متعلق مضامین بھی روایتی شعری فضا کے ترجمان ہیں۔  علاوہ ازیں بسنت بہار، موسم بہار، خصوصاً ہولی کے حوالے سے متفرق اشعار اور ایک نظم دکنی شعری فضا کی خوشبو سے معطر ہے امتیازؔ کے دیوان میں شامل بیشتر قطعات تصوف اور مذہبی عقیدت کے ترجمان ہیں۔  یہاں بھی ہم عصر شاعرہ چنداؔ کی طرح امتیازؔ نے نبی کریمؐ، حضرت علیؑ حضرت امام حسینؓ اور غوث اعظمؒ سے متعلق احترام اور والہانہ جذبہ کو نمایاں کیا ہے۔

امتیازؔ کا کلام محض کلاسیکی رنگ و آہنگ کا ایک نمونہ نہیں ہے دراصل یہ دکنی کلاسیکی شعریات کی وہ اہم دستاویز ہے جس میں شاعرہ نے روایت کی پاسداری کی، مقامی زبان کے اختصاص کے ساتھ تشبیہ استعارہ کنائے تضاد اور مناسبت کے استعمال سے بھی فنی تاثیر پیدا کی۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے جو امتیاز کے دکنی سادہ زبان میں برجستگی اظہار کی واضح مثال ہیں۔

زلف بلدار کو دل اپنا نہ دینا سو دیا

سر پہ کالی بلا ہائے نہ لینا سولیا

دوستوں ! دیکھو کیا آن پڑی ہے جی پر

عشق کا زہر بھرا جام نہ پینا سو پیا

ایسے پیجئے شراب اے رندو

مئے کشی کا بھی نام رہ جائے

اے امتیازؔ دشمن ترا فلک ہے

لازم تجھے ہے دل میں ہر گز نہ رکھیو کینہ

شیشۂ دل میں ہمارے جو میری رہتی ہے

عقل انساں کی جسے دیکھ دھری رہتی ہے

اوسکی توحید کسی سے نہ ادا ہوئے لکن

شعر و اشعار و شاعر کیا کن نے؟ اونے

لطف انساء امتیازؔ کو صرف پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہو نے کا شرف حاصل نہیں ہے۔ ان کا کلام شعری تخلیقی اظہار پر ان کی گرفت اور غزل کی روایت سے گہری واقفیت کا پتہ دیتا ہے۔ مزید یہ کہ امتیازؔ نے خود کو غزل کے حدود تک محدود نہیں کیا۔ دیگر اصناف میں بھی اپنے جو ہر دکھائے۔ خاصی طویل مثنوی بھی کہی اور اس طرح فن شعر گوئی پر اپنی قدرت کا ثبوت دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

 

۱-        بحوالہ:مضمون۔  لطف انساء، امتیازؔ، مشمولہ تلاش زبان و ادب، پروفیسر اشرف رفیع ۱، ص۱۷۴، ۲ص۱۷۵ص، ۳، ص۱۷۵، ۴ص، ۱۷۵، ۵ص، ۱۷۵، ۷، ص۱۵۱، ۸ص۱۹۴، ۹ص، ۱۹۴، ۱۰، ص۱۹۴، ۱۱ ص، ۱۹۴، ۱۲ص، ۱۹۴، ۶ ص

۲۔  تذکرہ شمیم سخن ص۵۵، صفا عبدالحئی۔

 

 

 

ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم کی حقیقی بیماری

 

               فصیح الدین (پی ایس پی)

 

جب کسی راہرو نے دم توڑا

اِک گھڑی جشن رہگزار رہا

بالآخر مشفق و مربی ڈاکٹر ظہور احمد اعوان بھی ہم سے منہ موڑ گئے۔  بیماریاں تو اُن کو آخر میں بہت ساری لگ گئی تھیں مگر جس بیماریِ دل نے اُن کا کام تمام کیا وہ ڈاکٹروں کے بس کی بات نہ تھی۔  ایک عرصے سے یہی کہہ رہے تھے کہ ہماری زندگی میں یہ چمن گل و گلزار نہ ہوسکا،  عوام کی جہالت نہ گئی،  گلیوں سے گندگی اور دلوں سے نفرتوں کا میل صاف نہ ہوا،  سیاست غلیظ کی غلیظ ہی رہ گئی،   مذہب کی افادیت عذاب و ثواب کے قصّے کہا نیوں سے آگے نہ بڑھی، انقلاب اور جمہوریت نعرے اور ڈھکوسلے ہی رہے،  کتاب کلچر گھروں سے کیا دانش کدوں سے بھی اُٹھ کر رہا۔  ڈاکٹر صاحب کو اس مایوس کن پسماندگی کا تصور لے ڈوبا۔ اس تصویر میں اُن کو جیسے ملک کے سربراہوں اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی ہی ناکامی نظر آتی تھی۔ ان کے خیال میں گویا وہ ملک و ملت کے لیے باوجود خواہش کے ‘ باوجود درجنوں کتابیں لکھنے اور ہزاروں لیکچر دینے کے کچھ بھی نہ کر سکے۔  ان کے جیتے جی عوام کی تقدیر بدل نہ سکی۔ یہ آرزو اُن کے سفرِ آخر ت کی سب سے بڑی وجہ بنی۔  میں ان کی وفات کو بجا طور پر حسرت آیات کہوں گا۔

غزالاں تم تو واقف ہو کہو  مجنوں کے مرنے کی

ِدوانہ  مر  گیا آخر  کو، ویرانے پہ کیا گزاری

تہہ خاک تماشا آسودہ گان خاک نے آج تک نہ بتایا،  گنج ہائے گرانمایہ آج تک کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ شہرِ  خموشاں کے باسی کبھی لوٹ کر آئے ہیں جو ڈاکٹر صاحب پلٹ کر دیکھیں گے کہ کسی دن تو یہ چمن سبزہ و گل سے مہک اُٹھے گا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم جیسے بے شمار ملک و قوم کے مونس و غمخوار کڑھتے کڑھتے اپنی زندگی کی گھڑیاں گزار جائیں گے مگر بے حسی میں ڈوبی،  قرضوں میں جکڑی،  جہالت میں اُلجھی،  بے سمت نشانوں میں اٹکی اور اپنے ہی راہنماؤں کے ہاتھوں لُٹی قوم اسی طرح ہی بیکسی اور پسماندگی میں سسکتی رہے گی۔  میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے فون پر اس بیماری کے ایّام میں بھی لمبی لمبی گفتگو کیا کرتا تھا،  گاہے بگاہے ملاقات کو بھی جاتا تھا۔ ان کے اہل خانہ کو معلوم ہے کہ میرے لیے وقت اور ذریعۂ ملاقات کی کوئی قید نہ تھی۔ میں ان کے آرام کی رعایت کرنا بھی چاہتا تھا تو منع کرتے تھے کہ مرد ان ِ آزاد کے ہاں رندانِ بے باک کے لیے شرائط نہیں ہوتیں۔  میں نے ڈاکٹر صاحب کو اسی ناکامیِ دل کے ہاتھوں بے حد غمزدہ پایا۔ ابھی چند ہفتے قبل کہا "ڈاکٹر صاحب یہ قوم نا قابِل اصلاح ہو چکی ہے،  میں تو اب اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔  یہ مُلا اور ملٹری کا اتحاد ایسے ہی رہے گا۔ یہ قوم خود پسماندگی پر خوش ہے تو ہم کیا کریں۔  یہ اقبال سے کچھ نہ سیکھ سکی، یہ جناح کی کوئی عزت نہ کر سکی،  یہ بھٹو کی بات کو نہ سمجھ سکی،  یہ عبدالقدیر خان کا احترام نہ کر سکی، انہوں نے ایران سے کچھ نہیں سیکھا،  یہ مغرب کی ترقی سے بیدار نہ ہوئے،  یہ جنگیں ہار کر سوئے رہے،  یہ ملک گنوا کر پڑے رہے،  یہ آمریت کے سامنے نہ ڈٹے،  جمہوریت ان کو راس نہ آئی،  کتاب آدھی قیمت پر دے دو تب بھی یہ علم دوست نہ بنی،  احسان فراموش ہے تو پرلے درجے کی،  عاقبت ناشناس ہے تو بے انتہا کی،  اس کا میں کیا کروں ؟ کب تک رو ؤ ں کب تک چیخوں کب تک چلّا ؤ ں ؟__”اور پھر 2اپریل کو یہ آواز خاموش ہو گئی ___افسوس کہ ایسے دردِ دل رکھنے والے صاحب ِ فکر و نظر انسان کے جنازے میں وہ لوگ خال خال ہی نظر آئے جنہوں نے "جشنِ ظہور اعوان "میں ڈاکٹر امجد حسین،  عتیق لالا اور ارشاد لالا اور دیگر رفقائے ظہور کے ہاتھوں پلیٹ بھر بھر کے تکّے کھائے اور لڈو پلاؤ اُڑائے۔  مرحوم کے لگ بھگ چالیس سال کے درس و تدریس میں چا ر پانچ سو شاگرد بھی نہ رہے ہوں گے۔  وہ اہل پشاور جن کی زبان کی ترویج اور جن کی تاریخ کو زندہ کرنے کے لیے مرحوم کے ہاتھ قلم ہوئے وہ ایک دو ہزار بھی نہ ہوں گے۔ روزنامہ آج میں ہر روز ان کا کالم پڑھ کر ان کو فون پر فون کرنے والوں کی تعداد کئی سو بھی نہ تھی۔ یہ سب مل ملا کر ہزاروں میں بنتے ہیں۔  مگر اُن کی نمازِ جنازہ میں بہر حال یہ اکثر لوگ غائب ہی رہے   ؎  مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔  میں نے اُن کی میت کو کاندھا دیا اور دل میں سوچا کہ کم از کم "جشنِ ظہور اعوان "کے دن کا کھانا تو حلال کر لو۔ میں اشکبار تو ویسے بھی تھا مگر جب سابق چیف سیکرٹری عبداللہ صاحب کو اس ضعف و ناتوانی میں دیکھا کہ ایک ہاتھ میں چھڑی سے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسرا ہاتھ بڑھا بڑھا کر چارپائی سے لگا رہے ہیں تو میرے اشکوں کی لڑ ی اور بھی تیز ہو گئی۔  اہل پشاور کی بے حسی اور بے حمیّتی سے مجھے ایسے ہی نا اُمیدی ہوئی جیسے ڈاکٹر صاحب مرحوم کو کشت ِ ویران کی عدم سیرابی پر ہوتی تھی۔

ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم کی خوبیاں بے شمار ہوں گی۔  ان کے بعض دوست اور کالم نویس چند دن تک اپنے غم کا اظہار کرنے اور بعض اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے ان پر لکھیں گے،  اخبارات میں تصاویر بنانے کے لیے شاید ہی کوئی اُن کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھے،  حکومتی عہدیداران پہلے سے تیار تعزیتی پیغامات میں نام و مقام کی تبدیلی کر کے دلی صدمے اور گہرے افسوس کے گھسے پھٹے بیانات جاری کریں گے،  چند بے وسائل اور مخلص دوست ان کی قبر پر پھول چڑھائیں گے اور ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کریں گے۔ یہی دستورِ زمانہ ہے اور ہمیں اتنا ہی آتا ہے۔  اس کے آگے و ہ لوگ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ اپنی عیاشیوں میں ہمیشہ کی طرح بدمست رہیں گے اور جو کچھ نہیں کر سکتے وہ کڑھتے کڑھتے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی طرح تاریخ کی دھول میں چھپ جائیں گے۔  مگر یہ بھی تاریخ ہی کی شہادت ہے کہ مستقبل کا مورخ جب اِس دور کی فتنہ سامانیوں پر لکھے گا تو یہ بھی ضرور لکھے گا کہ اس شہرِ پُر آشوب کو کس کس نے لُوٹا اور اس میں کون کون وہ اصحاب کہف تھے جو زمانے سے نباہ نہ کر سکے۔  کوئی سُنے یا نہ سُنے مگر یہ لوگ اپنی آواز اور اپنی انا کے ساتھ جیتے رہے اور خبرداری کی صدائے بے باک بلند کرتے رہے۔  اس فہرست میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کا نام بہت ساروں کے نام سے آگے لکھا جائے گا۔

ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم نے راقم کے بارے میں کبھی نام لے کر اور کبھی محبت کا اشارۂ خفیف دے کر لکھا۔  چند ایک کالم تو خالص ہمت افزائی کے لیے لکھ دیئے۔  پروفیسر اشرف بخاری مرحوم کے بعد مجھے ان کی تشنگی کے احساس سے بچایا،  میں سہ ماہی روشنائی (کراچی) میں ان کے خیالات اور ان کی خدمات پر تفصیل سے لِکھوں گا۔ یہ چند سطر ختم کرنے سے قبل اور ان کے لیے دُعائے مغفرت اور رفع درجات سے پہلے یہ بھی کہوں کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم سرتاپا ایک انسان دوست اور علم پرور شخصیت تھے، ان کی نظر علاقائی قسم کے تَعصُب میں کبھی بھی اُلجھی نہ رہی۔  وہ ایک بے کراں انساں دوستی اور آفاقی قدروں کے حامل انسان تھے۔ انہوں نے تو سینکڑوں بار علی شریعتی، پال فریری،  اقبال،  شی گویرا، احمد ندیم قاسمی،  فیض اور عبداللہ گلن اور ان کے افکار کا ذکر کیا ہے۔  ایسے مردِ آزاد کو ایک محدود زبان و نسل کا نمائندہ قرار دینا کسی طور بھی قرین انصاف نہیں ہے۔  وہ اپنے چاہنے والوں اور عوام کے لیے لکھتے تھے اور اُن کے چاہنے والے ہر جگہ اور ہر زبان میں ہیں۔   (fasih68@hotmail.com)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن جب میں ان کی میت کو کاندھا دینے پہنچا تو جیسے ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے بیتا ہوا سارا وقت افسردگی کی بکل مارے آن کھڑا ہوا۔ وہ زمانہ جب اخبارات میں گاہے گاہے ان کے مضامین شائع ہوتے، وہ زمانہ جب جمیل صدیقی کے ساتھ انہوں نے شام ہمدرد میں آنا شروع کیا، وہ زمانہ جب وہ پرانے پریس کلب میں حلقہ ارباب ذوق کی نشستوں میں آنا شروع ہوئے۔ جب جدت میں ان کا پہلا کالم چھپا، جب وہ میرے گھر گلشن رحمن اپنی کتاب امریکہ نامہ دینے آئے تھے، وہ دن یاد آیا جب وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر کی صدارت میں ہونے والی ایک تقریب کی نظامت ادھوری چھوڑ کر مجھے ایک اور اہم تقریب میں جانا تھا میں نے مرحوم ارباب جہانگیر سے اجازت مانگی انہوں نے کہا کہ میں نے بھی وہیں جانا ہے اسے جلد ختم کرو، میں نے کہا کہ آپ کو میں دعوت دے دیتا ہوں باقی کسی دوست کو کہتا ہوں کہ وہ اختتامی اعلان کر دے اور میں چلا جاتا ہوں۔ انہوں نے اجازت دے دی میں نے حاضرین میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر ظہور اعوان سے کہا کہ آپ سٹیج سنبھالیں کہ مجھے جانا ہے، انہوں نے خوشدلی سے حامی بھری اور ساتھ ہی کہا کہ آپ دلیپ کمار کی تقریب میں نظامت کرنے جا رہے ہیں نا، میرا بھی دل چاہتا ہے مگر۔۔۔ میں نے کہا کہ ابھی بہت سی تقریبات اور ہونی ہیں۔

(ناصر علی سید کے تعزیتی کالم سے اقتباس۔مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔۱۰ اپریل ۲۰۱۱ء)

 

 

 

ڈاکٹر صابر آفاقی وفات پا گئے

 

               پروفیسرعبدالکریم (مظفرآباد آزاد کشمیر)

 

اردو، گوجری اور فارسی کے ممتاز شاعر، محقق، استاد اور تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی ۷۸ سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد۱۰  اپریل کواسلام آباد میں وفات پا گئے اور ان کو۱۱ اپریل کو اسلام آباد ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔صابر آفاقی ۹ مارچ ۱۹۳۳ء کو مظفرآباد کے شمال میں واقع ایک گاؤں گوھاڑی لچھراٹ میں پیدا ہوئے۔آفاقی نے ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء تک ہزارہ اور پنجاب کا سفر کیا۔آفاقی نے دوسرا تعلیمی سفر ۱۹۶۹ء میں ایران کا کیا۔ ۱۹۷۲ء تک انہوں نے ایران میں قیام کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازے گئے۔آفاقی کے مطابق انہوں نے میٹرک، ایف اے اور بی اے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیے۔ مولوی فاضل کیا۔ بی اے آنرز بھی پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ آفاقی نے درس نظامی کا امتحان بھی پاس کیا۔ ایم اے فارسی درجہ اول میں پاس کرنے کی وجہ سے سفارت ایران نے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے سکالر شپ کی منظوری دی۔ یہ دور ایران میں شاہ کا تھا۔ پنڈت کلہن کی ’راج ترنگنی ‘کے قلمی نسخوں کی تصحیح اور مستند متن کی بازیافت ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا۔ آفاقی کے مطابق انہیں ۱۹۴۸ء میں اپنے شاعر ہونے کا احساس ہوا۔ شاعری میں ابراحسنی گنوری اور احسان دانش ان کے استادتھے۔

آفاقی کے اردو مجموعہ ہائے کلام میں ’ شعر تمنا ‘، ’ طلوع سحر، ’ ثنائے بہار ‘، ’زمزمۂ روح‘،   ’رشحات ابر‘،  ’ خندہ ہائے بے جا ‘، ’نئے موسموں کی بشارت ‘ اور ’سارے جہاں کا درد ‘شامل ہیں۔ آفاقی کے گوجری مجموعوں میں ’ آرتھروں ‘، ’ ہاڑا‘، ’ پھل کھیلی‘، ’ سانجھو کھلاڑو‘، ’پیغام انقلاب‘ اور’ کیسر کیاری‘ شامل ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں جب ایران سے واپس آئے تو ایک فارسی مجموعہ ’گلہائی کشمیر ‘کے نام سے شائع کیا۔  آفاقی کی فارسی غزلوں کا دوسرا مجموعہ’ در جستجوی سیارہ ای دیگر ‘کے نام سے شائع  ہوا۔ آفاقی نے غالب کے فارسی قصائد کا ترجمہ بھی کیا جو انجمن ترقی اردو پاکستان نے شائع کیا ہے۔آفاقی ایک اچھے مترجم بھی ہیں۔  آفاقی نے عربی، فارسی اور انگریزی کی بے شمار کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے ہیں جن کی تعداد درجن سے زیادہ  ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے آر کے پارلو کی انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ’ کشمیر اسلامی عہد ‘میں کے نام سے پیش کیا۔  آفاقی نے اردو زبان کو انگریزی کا جامہ بھی پہنایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری پرکنز کی انگریزی کتاب hour of the dawn  کا ترجمہ ’سوانح سید علی محمد باب ‘کے نام سے کیا۔  آپ نے قراۃ العین طاہرہ پر لکھا گیا انگریزی ناول جو امریکی خاتون کلارا اے ایچ نے tahira کے نام سے لکھا، کو اردو زبان میں ’ قرا ۃ العین طاہرہ ‘کے نام سے ۱۹۹۸ء میں مکمل کیا۔تنقید، تذکرہ اور لسانی موضوعات کا مرقع’ گوجری ادب‘ میں آفاقی نے ۷۸ شعراء کے تذکرے جمع کیے ہیں جنہوں نے گوجری زبان میں شاعری کی۔ یہ کتاب پنجابی زبان میں لکھی گئی ہے۔ آفاقی نے قراۃ العین طاہرہ پر ایک کتاب ’خاتون عجم ‘کے نام سے ترتیب دی ہے۔ ’اقبال اور کشمیر ‘کے عنوان سے آفاقی کی کتاب درسی حوالے سے مفید ہے۔  آفاقی نے اپنے ۱۸ مقالات کو کتابی شکل میں ’ جلوۂ کشمیر‘ کے نام سے شائع کروایا۔پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کشمیریات کے نصاب میں شامل کتاب’ عکس کشمیر‘ آفاقی کے پندرہ مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔

ڈاکٹر صابر آفاقی سفرنامہ نگار بھی تھے اور انھوں نے دوسفرنامے بھی تحریر کیے ہیں۔  ’کثرت نظارہ ‘۔’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘۔آفاقی کی ایک انگریزی تالیف Tahira in history  کو kalimat press los angles  نے ۲۰۰۴ء میں شائع کیا۔’مظفرآباد‘ ڈاکٹر صابر آفاقی کی ضخیم تصنیف ہے۔یہ مظفرآباد کی تاریخ ہے۔آفاقی نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر نگرانی ۱۹۸۰ء کی دہائی میں شروع کی۔ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر افتخار مغل بھی ان کے ساتھ ہی اس دار فانی کو ایک ہی دن چھوڑ گئے۔ آفاقی روزنامہ’ سیاست‘ مظفرآباد میں ’ آپ کا کام‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ اس کے علاوہ روزنامہ پاکستان میں ’ آئینہ کیوں نہ دوں ‘، جموں و کشمیر میں ’ جواز تحریر‘ کے عنوان سے بھی کالم لکھتے رہے۔آزاد کشمیر میں شعر کی روایت کے علاوہ پاکستان کے کشمیری الاصل تخلیق کار جو ہندوستان ہجرت کر گئے نیز شعراء پر کام بھی ان کا خواب تھا اور زندگی نے وفا ہی نہ کی۔پوری زندگی کا حاصل وہ ایوارڈ ہے جو حکومت آزاد کشمیر نے ۲۰۱۰ء میں ان کو دیا۔آفاقی کے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں۔

( urdu_writers@yahoogroups.com  سے یہ رپورٹ۲۹ اپریل ۲۰۱۱ء کو ریلیز کی گئی)

http://www.sherosokhan.com/id1157.html

 

 

 

ڈاکٹر رؤف امیرؔ :ایک منفرد تخلیق کار

 

               کاشفؔ بٹ(حویلیاں کینٹ)

 

ابھی ادبی حلقے ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کی وفات کے صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ آج صبح (۱۶ ستمبر ۲۰۱۰ء) الماتے (قازکستان) سے خبر پہنچی کہ پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیرؔ گزشتہ رات دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال فرما گئے ہیں،  انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر رؤف امیرؔ ۱۹۶۱ء کو گاؤں امیر خان، فتح جنگ، اٹک میں پیدا ہوئے، اصل نام عبدالرؤف تھا، میدانِ ادب میں قدم رکھا تو اپنے گاؤں کی نسبت سے امیرؔ تخلص کرنے لگے، گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی اور ایف جی ڈگری کالج واہ کینٹ میں طویل عرصہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے پھر الماتے یونیورسٹی (قازکستان) تشریف لے گئے۔

مجھے ہمیشہ اِس بات کا افسوس رہے گا کہ میری اُن سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہو پائی، لیکن اُن کی تحریروں سے میرا تعلق کافی عرصے سے ہے، ایسے شعراء جن کے کلام کا میں ہمیشہ سے منتظر رہا اُن میں رؤف امیرؔ صاحب بھی شامل ہیں اُن کی غزل ہمیشہ دوسرے شعراء سے منفرد نظر آئی اور انفرادیت کا ہونا ہی کسی بھی شاعر کی کامیابی کی علامت ہے، اُن کا شعری مجموعہ  ’’درِ نیم وا‘‘  شائع ہوا تو احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، محمد اظہار الحق اور دوسرے کئی شعراء و ادباء کی داد کا مستحق ٹھہرا، ادبی حلقوں میں اس مجموعہ کو خاصا سراہا گیا، تحقیق و تنقید کے حوالے سے  ’’پاکستانی غزل کے چند زاویے‘‘  اور  ’’اُردو غزل، مخالفت اور مدافعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘  اور کئی ایک اور کتابیں بھی اُن کی انتقادی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بطور غزل گو شاعر اُن کی انفرادیت کا سب سے اہم پہلو نئی ردیفوں کا استعمال ہے جسے اُن نے اپنے کلام میں جا بجا فروغ دیا ہے، بعض ردیفیں تو ایسی ہیں کہ جن میں دو چار شعر کہنا بھی مشکل ہوتا ہے مگر اُن نے قدرے آسانی سے کئی اشعار کہہ ڈالے ہیں،  چند شعر دیکھیے:

ادھر شکاری اور اس طرف جال غیر واضح

کہ ہے سمندر کی صورتِ حال غیر واضح

وہ آئنہ بنا ہی نہیں ہے ابھی امیرؔ

جس میں کہ دوست دوست لگے اور عدو عدو

اُن کے کلام میں  ’’عدو‘‘  کی بڑی اہمیت ہے اور اس کی چالیں بڑی  ’’غیر واضح‘‘  ہیں جن کا ذکر اُن کے اشعار میں موجود ہے مگر ادبیت اور دبیز پردوں کی تہوں میں،  یہ عدو اُن کی زندگی میں بھی مصروف کار نظر آئے اور شاید انہی کی کارستانی کی وجہ سے انہیں عدالتوں کے تکلیف دہ نظام سے بھی روشناس ہونا پڑا۔چھوٹی بحروں کی طرح طویل بحروں میں کہی گئی غزلیات میں بھی نئی اور اچھوتی ردیفیں دیکھنے کو ملتی ہیں،  ایسے ہی دو اشعار دیکھیں :

سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چکا تھا کڑا اور ہوا چل پڑی

پھر سے رنگِ فضا معتدل ہو گیا،  حبس حد سے بڑھا،  اور ہوا چل پڑی

کوئی ہوتا تو ہونے کی دیتا خبر،  گھر میں کوئی نہیں

دستکیں میں دیئے جا رہا ہوں مگر گھر میں کوئی نہیں

حبس کی انتہائی سطح پہ بھی اگر ہوا کے تازہ جھونکے میسر نہ ہوں تو حبس کے غالب ہو جانے کا امکان قوی ہو جاتا ہے، خزاں کے بعد بہار کا انتظار اور بھی شدت سے ہونے لگتا ہے کیونکہ چمن میں ویرانی کسی دل کو نہیں بھاتی اور شادابی کی دعا ہر لب کا ورد ہو جاتی ہے، اول الذکر شعر میں خزاں اور بہار کی کیفیات ساتھ ساتھ ایک ہی مصرعہ میں جلوہ گر ہیں جو شاعر کے تخیل کی تخلیق کردہ ہیں،   ’’اور ہوا چل پڑی‘‘  کی ردیف سے شعر میں بے ساختگی پیدا ہو گئی ہے جبکہ یہ مرتی ہوئی اُمیدوں کے پورا ہو جانے کا خوبصورت اظہار بھی ہے۔ مؤخر الذکر شعر میں  ’’گھر میں کوئی نہیں ‘‘  کی ردیف کا استعمال معنویت کے اعتبار سے بھی خوب ہے، ایک شاعر کی زندگی میں تنہائی کا ماحول بہت اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے تصورات اور محسوسات کی دنیا سے تعلق کے لیے تنہائی کی وادیوں سے گزرنا ناگزیر ہے اور جب یہ تعلق قائم ہو جائے تو جذبات اور تخیل ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور شاعر کی جھولی میں ایسے اشعار ڈال دیئے جاتے ہیں :

آج سوؤں گا میں بے خطر دن چڑھے تک بڑے ٹھاٹھ سے

آج روؤں گا میں خوب دل کھول کر گھر میں کوئی نہیں

رؤف امیرؔ کے کلام میں کائنات سے جڑے استعاروں اور کنایوں کا استعمال انہیں نہ صرف شعری روایت سے جوڑتا ہے بلکہ فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اُن کے ہاں باغ، پھول، ستارے، مٹی، ہوا، پانی، آئینہ، بہار، خزاں،  برسات، رنگ، خوشبو وغیرہ کا استعمال جا بجا نظر آتا ہے، چند ایسے ہی اشعار ملاحظہ ہوں :

یوں ہوا دھول میں پھول گم ہو گئے

اور برسات میں پات واضح ہوئے

ہوا سے،  آگ سے،  پانی سے،  دشمنی کیسی؟

تُو صرف خاک ہے،  مت بھول،  اور کچھ بھی نہیں

ان اشعار میں کچھ کچھ فلسفہ بھی شامل ہو گیا ہے مگر سلاست کا دامن بھی نہیں چھوٹا، رومانوی کیفیات اور احساسات کے اظہار میں جو اشعار اُن کے کلام میں ملتے ہیں اُن میں تو سلاست، برجستگی اور تازگی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے:

اُن کے الفاظ تھے خوش رہا کیجئے

میں نے ترمیم کی خوش رکھا کیجئے

وہ رنگ رنگ مرے گھر کی راہ سے گزرا

تو سنگ سنگ میں شیشہ جڑا نظر آیا

اول الذکر شعر میں  ’’خوش رہا کیجئے‘‘  سے  ’’خوش رکھا کیجئے‘‘  کے درمیان جو بات بنی ہے اُس کی مثال بین بین ہی دیکھنے کو ملتی ہے، ایسے موقعوں کے لیے ہی کہتے ہیں کہ  ’’بات سے بات نکلتی ہے‘‘  محبوب کہہ رہا ہے  ’’خوش رہو‘‘  اور جواب میں شاعر کہہ رہا ہے کہ  ’’خوش رکھو‘‘،  یعنی شاعر نے ایک لفظ کی ترمیم سے اپنا سب حال کہہ دیا، شاعر کی مسرت کا ہر پہلو محبوب کے ساتھ جڑ گیا ہے، اب یہ محبوب کا کام ہے کہ وہ شاعر کے تقاضے کو سمجھے اور اہمیت دے کیونکہ اُس کے مدح سراء شاعر کی خوشی اُسی کے ساتھ منسلک ہے، یہاں ردیف نے بڑا کام دیا ہے،  ’’کیجئے‘‘  کا استعمال شاعر اور اُس کے محبوب کے بیچ ادب کے مقام کی وضاحت بھی کر رہا ہے گویا دونوں احترام کے تعلق سے بندھے ہوئے ہیں کیونکہ  ’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ‘‘۔

وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات نے انسان کی مصروفیات میں گراں قدر اضافہ کیا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج کے انسان کے لیے اپنی ذات کو وقت دینا محال نہیں تو مشکل ضرور ہو گیا ہے، آج کا انسان تیز رفتار وقت کے ہمراہ سفر پہ آمادہ ہے اِس سفر میں تھکان تو ملتی ہے لیکن سستا لینے کا موقع قریب قریب ختم ہو چکا ہے، جو سستانے کو رُک گئے وہ تیز رفتار وقت کا ساتھ نہیں دے پاتے، رؤف امیرؔ جب خود کو آئینے میں دیکھتے ہیں تو اِسی اثر کے تحت اُنہیں اپنی عمر کے بڑھنے کا احساس ہوتا ہے:

یہ آئنہ مجھے کس رُخ پڑا نظر آیا

میں اپنی عمر سے کتنا بڑا نظر آیا

آئینہ کس رُخ پڑا تھا یہ سوال اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن چونکہ پورا شعر حیرانی کی موضوعیت لیے ہوئے ہے اِس لیے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی مصروفیات نے اُسے اتنا الجھا رکھا ہے کہ وہ خود سے انجان وقت کی ڈور کے ساتھ بندھا چلا جا رہا ہے اور جب کسی لمحے اُسے اپنی جانب متوجہ ہونے کا موقع ملا تو اُسے اپنی بڑھتی ہوئی عمر کا احساس ہوا۔ ایک اور شعر دیکھیں :

یوں لگ رہا ہے عمر مری بڑھ گئی امیرؔ

دیکھا ہے میں نے خواب میں خود کو مرا ہوا

خوابوں کی تعبیر کو لے کر ایک بات بہت مشہور ہے کہ خواب کی تعبیر ہمیشہ برعکس نکلتی ہے، اِسی موضوع کا اظہار مذکورہ بالا شعر میں کیا گیا ہے یعنی شاعر خواب میں اپنی موت دیکھ رہا ہے لیکن فی زمانہ رائج تشریحات کے تحت اسے اپنی طویل عمر سے تعبیر کر رہا ہے۔ مجھے رؤف امیرؔ کے کلام میں ایک شعر ایسا بھی میسر ہوا جو شیکسپیئر کی تھیوری کے بہت قریب قریب لگا، شعر دیکھیں :

کھلا یہ بھید بالآخر امیرؔ دنیا کا

ہے کوئی کھیل میں مشغول اور کچھ بھی نہیں

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر رؤف امیرؔ صاحب کی مغفرت فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر و جمیل سے نوازے (آمین)۔ انہی کا ایک شعر ہے:

میری نظریں بھی ہیں آسماں کی طرف

آپ بھی میرے حق میں دعا کیجئے

 

نوٹ: یہ تحریر ڈاکٹر رؤف امیرؔ کی وفات پہ لکھی گئی۔

٭٭٭٭٭٭

 

 

 

شاہراہِ ریشم کی جان(قزاقستان)

               مصنف:ڈاکٹر رؤف امیر

 

صفحات432:        قیمت:1695روپے،     ناشر:الوقار پبلی کیشنز۔۳۳۵۔کے ۲، واپڈا ٹاؤن، لاہور

 

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جو مختلف ریاستیں آزاد ہوئیں ان میں  ’’قزاقستان‘‘  بھی شامل ہے۔ڈاکٹر رؤف امیر کو تدریسی حوالے سے وہاں جانے کا موقعہ ملا تو انہوں نے وہاں کی تہذیب و ثقافت کو جاننے کی کوشش کی۔یہ کتاب ان کی اسی کاوش کا ثمر ہے۔۶ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں وسط ایشیا کے اس صدر دروازے کی قدیم تاریخ سے اب تک کی صورتحال تک کو سامنے لایا گیا ہے۔وہاں کی تہذیب و ثقافت، فنونِ لطیفہ، ادبی سرمایہ، شادی بیاہ اور معتقدات و رسومات کو نمایاں کیا گیا ہے۔قزاقستان میں زندگی کے مختلف رنگ کیسے کیسے ہیں، بدلتی ہوئی دنیا میں قزاقستان کا سیاسی و اقتصادی کردار کیا ہے۔اردو اور پاکستان کے تعلق سے کیا صورتحال ہے اور اسے کیسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ہندوستانی ثقافت وہاں کس حد تک چھائی ہوئی ہے اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔قزاقستان کے بارے میں ہر طرح کی بنیادی معلومات کے لیے اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ آخر میں اردو سے روسی اور روسی سے قزاقی زبان میں ترجمہ کردہ کچھ مواد شامل کیا گیا ہے۔۴۰۸ صفحات کی اس کتاب میں ۲۴ صفحات پر وہاں کی خوبصورت تصاویر شامل کی گئی ہیں۔  ’’سخن آغاز‘‘ ڈاکٹر رؤف امیر نے اور  ’’حرفِ محبت‘‘  ان کی اہلیہ عفت رؤف نے لکھا ہے۔اسے اپنے موضوع کے تعلق سے مستقل حوالے کی کتاب کہا جا سکتا ہے۔الوقار پبلی کیشنز نے یہ دیدہ زیب کتاب بڑی نفاست کے ساتھ شائع کی ہے۔

 

(حیدر قریشی کا تبصرہ۔ مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۷۔جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱ء)

 

 

 افتخار نسیم انتقال کر گئے

 

ابھی ابھی پاکستان سے ارشد خالد صاحب  (مدیر عکاس انٹرنیشنل، اسلام آباد)کی طرف سے موصولہ اطلاع کے مطابق شکاگو، امریکا میں مقیم اردو کے شاعر افتخار نسیم کل رات حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔سال ۲۰۰۹ء میں اپنی یادوں کے ایک باب میں افتخار نسیم کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا۔سرِ دست اسی یاد کے ساتھ ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔                          حیدر قریشی

 

اقتباس

 

’’افتخار نسیم کا ذکر ہوا ہے تو یہاں ان کا بھی کچھ بیان ہو جائے۔مجھے شروع میں ان کے جسمانی مسئلہ کا قطعاً کوئی علم نہیں تھا۔یہاں تک کہ وہ جرمنی میں میرے ہاں آئے تو انہیں میں نے شادی کی تقریب میں مردانہ حصہ میں ٹھہرایا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ انسانیت میں مرد اور عورت کی بجائے تیسری صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اس صنف میں بھی کہیں دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک مردانہ مخنث اور ایک زنانہ مخنث۔افتخار نسیم کا تعلق موخر الذکر سے ہے۔سو یوں خواتین شاعرات کے ذکر میں بھی انہیں شامل کیا جا سکتا ہے اور مرد شعرا کے ذکر میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر اس طبقہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میں اس طبقہ کے دوہرے استحقاق کا حامی ہوں۔ افتخار نسیم جو اَب افتی نسیم کے نام سے مقبول ہیں اس لحاظ سے بہت بہادر ہیں کہ اپنے پاکستانی ماحول کی سماجی گھٹن اور منافقت کے باوجود انہوں نے اپنی نام نہاد مردانگی کا بھرم رکھنے کی بجائے کھل کر اپنی جسمانی حقیقت کو بتا دیا۔اس پر ان کے خاندان میں کہرام برپا ہوا۔ان کی ماں جیسی بڑی بہن نے انہیں خط لکھا کہ مجھے بتاؤ کس نے تمہیں اس راہ پر ڈالا ہے میں اس کا گلا گھونٹ دوں گی۔تب افتی نے اپنی بہن کو جواب میں کچھ ایسا لکھا کہ مجھے جس نے ایسا بنایا ہے ہمارے ہاتھ اس کے گلے تک نہیں پہنچ سکتے، صرف اس کے سامنے دعا کے لئے اُٹھ سکتے ہیں۔

چونکہ مجھے شروع میں افتی کے مسائل کا اندازہ نہیں تھا اس لئے میں انہیں ایک عام مرد ادیب کی طرح لیتا تھا۔چنانچہ ان کے ساتھ کچھ نوک جھونک بھی رہی لیکن جیسے ہی مجھے اصل بات کا علم ہوا مجھے اپنی ساری نوک جھونک کا افسوس ہوا اور افتی سے کسی قسم کا لفظی الجھاؤ بھی اچھا نہ لگا۔ہاں ویسے میں ان کے ساتھ ہلکی پھلکی جملہ بازی کر لیتا ہوں لیکن دلی احترام کے ساتھ۔اپنے کڑے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی مسائل سے گزرتے ہوئے افتی نے تخلیقی اظہار سے اپنی شخصیت کو سنبھالا دیا ہے اور ایک بڑی، کڑوی سچائی کا اظہار کر کے معاشرتی منافقت کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔اپنے مخصوص موضوع کے حوالے سے افتی کو امریکہ کے بعض نصابوں میں بھی جگہ مل گئی ہے جو بہر حال اس کی کامیابی ہے۔ ‘‘      (یادوں کے باب ’’۔۔۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ‘‘  سے اقتباس)

(۲۳جولائی ۲۰۱۱ء کوurdu_writers@yahoogroups.comسے9:54 AM پر ریلیز کی گئی)

 

 

 

افتخار نسیم۔  ایک انوکھا سچ

 

               نوشی گیلانی(آسٹریلیا)

 

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جانِ حزیں پہلی ہجرت  کے تجربے سے گزر رہی تھی۔ ہجرت کا ایک تجربہ اپنے اندر کئی متضاد تجربات کا عجیب سا  تسلسل رکھتا ہے۔ جب ہم کسی نئی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو یقین و بے یقینی، شناسائی و نا شناسائی،  رنگ و بے رنگی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں استقبال کرتے ہیں کہ جسم و جان پر عہدِ اختیار میں بھی بے اختیاری کے سائے سے ٹھہر جاتے ہیں۔  دھوپ میں بارش کی سی کیفیت  بے درودیواراسیری میں لئی رکھتی  اور انسان جانے کس تذبذب  کے عالم میں بھیگتی  آنکھوں سے مسکرانے لگتا ہے۔ لیکن ایسا بھی تبھی ممکن ہوتا ہے جب انسان شعوری سطح پر ان تجربات کے رنگ ڈھنگ  جان لینے کی جرأت و بصیرت سے نوازا گیا ہو اُس نیلی چھتری والے کی طرف سے۔۔۔ ورنہ تو عمر گزر جاتی ہے اور آگہی کا در وا نہیں ہوتا،  ذات سے کائنات تک رائیگانی کی برف گرتی رہتی ہے اور حسّیات گرد و نواح سے ایک بے معنی تعارف کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھتیں اور لمحۂ موجود سے کبھی کوئی رشتہ نہیں بن پاتا۔

مگر اگست 1995 میں جب اِفتی نسیم نے اپنے مافوق ا لزمیں حلئیے یعنی موٹی موٹی زنجیروں سے لدی سیاہ جیکٹ، گلے میں مالا، کلائی میں موٹے سے کڑے  اور سر پر سیاہ ڈاربی ہیٹ کے ساتھ گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو میں،   انتہائی مسرت کے باوجود کھڑی  کی کھڑی رہ گئی اور پھر میری حیرانی کا لطف لیتے  ہوئی جب افتی نے بڑی شدید حیرت سے داہنے ہاتھ کی انگلی اپنے نچلے ہونٹ پر رکھ کر اِک خاص انداز کی مترنم چیخ مار تے ہوئے کہا ’’ ۔۔۔۔نوشی گیلانی؟؟؟ ایہہ تُوں ایں ؟؟؟‘‘ ،   تو میں جہاں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی وہاں میرے گرد برسوں کی بڑی محنت سے بنایا ہوا  احتیاط و تکلف کا حصار اچانک ٹوٹ گیا۔ اور  جیسے روایتی تعارف کی ضرورت ہی نہ رہی اور ایک رشتہ سا بن گیا۔۔۔ فطری،  براہِ راست اور سچا!

افتی جو میرا دوست بھی ہے، بھائی بھی اور سہیلی بھی! کسے سہولت  ہے آج کے دورِ مصلحت آمیز میں کہ اس کے پاس کوئی ایسا بھی ہو جس سے وہ پورا سچ بول سکے، پوری بات کر سکے اور وہ بھی مجھ ایسی شاعر عورت ! جو شاعری کے حوالے سے حادثاتی طور پر مروجہ نام آوری کی سزاوار بھی ہو کہ نام آوری یکتا کرتی ہویا نہیں تنہا ضرور کر دیتی ہے اور اس حقیقت کا ادراک تب ہوتا ہے جب عمر کا آدھا خزانہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ کسی اور کا تجربہ کچھ بھی رہا ہو مجھے افتی کے ساتھ احترام و طمطراق سے پورا سچ کہہ دینے کی سہولت پہلی ہی ملاقات میں میسر آ گئی۔ کتنے ہی ماہ و سال گزر گئی،  افتی  اور میں موقع بے موقع،  ملک بہ ملک، شہر بہ شہر  ذات سے کائنات تک جشنِ ملامت برپا کرتے  آرہے ہیں۔  ستائیشِ دنیا کے بالعموم اور ستائیشِ باہمی کے بالخصوص خیمے لگاتے چلے آرہے ہیں۔  اِس عمل کی مسیحائی کمال ہے۔ سو افتی میرے بھائی میری سہیلی! تمہاری خیر ہو! میری زندگی تک تو زندہ ہی رہنا! !!

افتی اور میں دونوں ہی بلا ارادہ  بس خوبیِ ِ قسمت سے لڑکپن میں ہی شہرت کے سلسلہِ من و تُو کا حصہ بن گئی۔ یوں بتدریج ذات سے باہر کی آوازوں کا شور اتنا بڑھ گیا کہ جیسے شعور سے لا شعور تک سنہرے ستاروں والی سیاہ اوڑھنی ڈال دی گئی ہو۔  جس کا لمس کبھی تو مست الست کرتا اور کبھی حوصلے پست۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے خاندانی پس منظر اور اپنی اپنی بستیوں کے تناظر میں رہتے ہوئے،  ریاضتِ روز و شب کا آغاز کیا بھرپور فخر و انبساظ کے ساتھ ساتھ تخلیقی و معاشرتی ذمہ داریاں ذہنی دباؤ کی حد تک بڑھتی گئیں۔  اور نو عمری کے اصل تقاضے وجود کے کسی کونے میں چھُپ کر بیٹھ گئی۔ میں نے گُڑیاں کھیلنے کی عمر امرتا پریتم کی رسیدی ٹکٹ، احمد راہی کی ترنجن، احمد ندیم قاسمی کی جلال و جمال کو پڑھتے اور گھر کی چھت پر چاند کی نرم روشنی میں چھُپ چھُپ کر نظمیں لکھتے گزار دی۔ اور افتی نے اپنے معروف والد کے ہمراہ اِن جید ہستیوں کی میزبانی کرتے، انکے مباحث کے اسرار و رموز پر غور کرتے اور چپکے چپکے غزل کہتے گزار دی۔بھلا دہائی بھی دیتے تو کس بات کی؟ستائیش و دشنام، دشنام و ستائیش۔ اللہ اللہ !

سان فرانسسکو میں جب جب ملاقات کا موقع ملتا رہا،  افتی اور میں وہاں کے مقبول کیفے Star Bucksمیں گھنٹوں بیٹھا کئی۔ یہ کیفے امریکہ کے دوسرے موالیوں کی طرح ہمارے لئی بھی لائیبریری کے ساتھ ساتھ ا یک طرح کاConfession Box   بھی رہا ہے۔ کڑوی کافی کے طویل القامت کپ پیتے ہوئے کتنی ہی باتیں ہوا کیں، بے شمار  یادوں کو تازہ کیا گیا، کیسی کیسی حیرتوں پر حیراں ہوئے، کیسے کیسے معجزوں پہ خوش گماں ہوئے،  کیا کیا نہ قصے دہرائے گئے،  اعترافات و  اعتراضات کے انبار لگائے گئے۔۔۔ اتفاقِ رائے کم کم اور اختلافات بے حدوحساب۔ ہم نے مل کر اپنے خوابوں کی عدم تکمیل پر قہقہے لگا لگا کر زنجیر زنی کی، فتوحات کے اعلان نامے جاری کرتے ہوئے بار بار اپنے آپ کو  ناز سے دیکھا۔ بعض اوقات تو جوشِ بیاں میں ہماری آوازیں اتنی اونچی ہو جاتیں کہ کیفے میں بیٹھے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتے۔ میں تو معذرت کیلئے مسکرا کر ہاتھ ہلا دیتی مگر افتی باقاعدہ اپنے گہرے سنہری بُت پر منڈھے ہوئے فر کے لمبے کوٹ کو ساڑھی کے پلّو کی طرح درست کرتا، گردن اور بازوؤں میں آویزاں جھلمل پتھر جڑے زیورات کی نمائش کرتے ہوئے اپنے سیاہ ہیٹ کو سر سے ذرا سا اوپر اٹھاتا اور زوردار قہقہہ لگاتا۔۔۔ یہی اس کی معذرت تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ معذرت کرتے ہوئے بھی کبھی سر کو خم نہیں کرتا۔ اول اول افتی کے اس انداز پر شبہ سا ہوا کہ کہیں اسے اپنے ہو نے کا احساس خودپرستی کی حد تک تو نہیں ؟ کہیں وہ اپنی میں کا اسیر تو نہیں ؟۔۔۔ پر نہیں !  کہ  وہ جب اپنے نام سے وابستہ تہمتیں،  گزرے ہوئے دکھ کی راتیں، ڈھلتی عمر کے خوف شمار کرتا ہے۔اور جب محبتوں کی بازیافت پر بھی بے سروسامانی کا نوحہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور پھر کہیں کسی مقام پر اچانک رک کر کہتا  ہے ’’رہے نام اللہ کا‘‘ ،  تو بس پھر اللہ کا نام ہی رہ جاتا ہے۔ لگتا ہے افتی کے ذوقِ محبت کی طرح اس کا طرزِ عبادت بھی جداگانہ ہے۔

افتی اور میں سمندر کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے کتنی ہی بار شام کی دبیز دھندکی چھاؤں میں بے تحاشا اداس ہوئے۔۔۔  وہ اک سڑک پر پیلے مکان کی یاد میں نڈھال ہوتا رہتا اور میں تتلیوں کے پروں پر لکھے خطوط دھندلے ہو جانے پر آزردہ،   اپنی اپنی ماؤں کے غم اک دوجے سے کہے جاتے، فاختاؤں کے جوڑے دیکھ کر مانگی جانے والی دعاؤں کے تذکرے ہوتے،  چوڑی توڑ کر نکالی جانی والی فال اور کسی انہونی کے ڈرسے پڑھے جانے والے نوافل پر ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتے۔گفتگو کے کتنے ہی گرداب کھینچے جاتے۔۔۔ گڑیا کی شادی پر انتظامی کمالات کے مظاہرے، پنجاب کی شادیوں میں گائے جانے والے گیتوں کی دلسوزی، سریندر کور کی بولیاں اور مٹی کے دکھ سکھ،  نصرت فتح علی کی قوالیوں میں سُر کے معجزے، ملکہ ترنم نُور جہاں سے افتی کی والہانگی، میں بابا جی بلہے شاہ جی کی کافیوں میں حال دھمال کی کیفیت کو تصوف کا حرفِ آخر قرار دیتی اور افتی حضرت شاہ حسین کی رمزِ عشق کو۔۔۔۔ فلسفہِ خودی سے لے کر فلسفہِ خیر و شر تک کونسا موضوع تھا جو ہماری Folk Wisdom سے محفوظ رہ سکا۔

افتی ایک منفرد انسان ہے اس کا وجود ایسی مٹی سے ڈھالا گیا ہے جس میں عورت کی حساسیت اور خود سپردگی اور مرد کا حوصلہ اور سرکشی کچھ یوں گھُل مل گئی ہیں کہ انہیں جدا کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے، یکجا کر کے دیکھنا اور بھی مشکل۔۔۔ ورثہ میں ملے کتنے ہی نظریات میں رد و بدل کرنا پڑتا ہے، آزمودہ روایات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے، مگر یہ سب کشمکش بے معنی ہو جاتی ہے جب افتی کسی سرپھرے یقین کے ساتھ کہتا ہے You have to love me   تو پھر کہاں کے نظریات اور کونسی روایات!

یہی حال میرے خدائے مجازی سعید خان کا  بھی ہے۔وہ بھی افتی کی محبت میں اس حد تک مبتلا ہو چکے ہیں کہ سڈنی کے مصروف ترین راستوں پر گاڑی  چلاتے سٹیرنگ سے تقریباً دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہاں وہاں فون تلاش کرنے لگتے ہیں،   یہ کہتے ہوئے  ’’ ۔ ۔۔۔ دیکھو ذرا رستوں کے کنارے کنارےJacaranda   کے کاسنی پھول کتنے بھلے لگ رہے ہیں چلو افتی کو بتاتے ہیں ‘‘۔   یا جب کبھی ہماری طبعِ شاعرانہ پر یاسیت کا حملہ ہوتا ہے  تو جھٹ افتی کا نمبر ملایا جاتا ہے۔  جیسے افتی نہ ہوا کوئی طبیب ہو گیا  ! اب تو افتی سے محبت میرے اور سعید کے درمیان ایک قدرِ مشترک بن چکی ہے۔۔۔۔  مولا ہی کرم کریں۔

افتخار نسیم کا اپنا ایک انوکھا سچ ہے اور اپنی ایک انوکھی جنگ۔۔۔ چند دہائیاں پہلے جب فنِ شعروسخن اس پر منکشف ہوا تو احمد ندیم قاسمی صاحب کی زیرِ ادارت جاری ہونے والے تاریخی جریدے فنون نے اُس کی تخلیقات کو اپنے دامن میں شفقت سے سمیٹ لیا۔ اس کی غزل کا دلربا  لہجہ قارئین کی خصوصی توجہ کا باعث بنا اور پھر اپنے پہلے شعری مجموعے  ’’۔۔ غزال‘‘  کی اشاعت سے ہی افتخار نسیم نے جمالِ فکر و فن سے اردو شاعری کے منظر نامے پر نمایاں مقام حاصل کر لیا۔

بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی

کھُل کے رو لو گے تو چہرے پر چمک آ جائے گی

آج  بھی  مجھ  کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر

جس  پہ  اک پیلا مکاں تھا وہ سڑک آ جائے گی

کچھ  نہیں  سمجھے گا کوئی  لاکھ تم کوشش کرو

جب  دلوں کے  درمیاں دیوارِ شک آ جائے گی

پھر وہ زمانہ آیا کہ افتخار نسیم عشق و رزق کے قافلوں کے ہمراہ امریکہ آ گیا۔ یہاں ایک نئی دنیا کی دریافت کا عمل شروع ہو گیا۔ کئے مقامات پر تاریکی نے اندر کی روشنی کو شکست د ی تو کئی موڑ آئے جہاں بصیرت نے روشنی کے کرشمے دیکھے۔ وہ ہجرت کی اس مسافت میں جب سفر کے گیت گاتا تو کبھی اس کی لے میں پُر جوش مسافر کی سی وارفتگی ہوتی اور کبھی اس کی آواز میں عزا داروں جیسا سوزو شکستگی۔ کتنی ہی مرتبہ روح پارہ پارہ ہوئے، کئے جگہ پاؤں پھسلا مگر بظاہراس کفر کے مجسمے نے دعا کی ڈور مضبوطی سے تھامے رکھی۔ بقول حضرت میاں محمد بخش؛

میں انہاں تیِلکن رستہ،  کِیویں کراں سنبھالا

دِھکے دیون والے بوہتے تُوں ہتھ پکڑن والا

افتی نے امریکہ میں قیام کے دوران تخلیقی سطح پر بھی فکرو بیاں کے کئے تجربے کئی۔ ناول،  افسانہ، انگریزی نظم او ر دیگر اصناف کو بڑی خوبی سے برتا۔ اگرچہ اردو غزل، جو افتی کا خاصہ ہے اس کی مہم جُو فطرت کی وجہ سے کسی حد تک نظر انداز ہوئی۔ افتی کے اہم کاموں میں عالمی امن کے قیام اور انسانی حقوق کی بحالی کی مسلسل جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ اس کی یہ لگن اسے شہر شہر کوچہ کوچہ لئی پھرتی ہے۔ اور وہ اپنے اس مشن کو سب سے مقدم سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک معتبر حیثیت بنا چکا ہے۔  سماجی اور سیاسی موضوعات پر اس کے لیکچرز نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔  معروف تعلیمی اور حکومتی ادارے اسے متعدد بارPeace Awards  سے نواز چکے ہیں اور یہ سلسلہ دیگر ممالک تک بھی پھیل گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں افتی سے کتنی ہی ملاقاتیں رہیں لیکن 2007  میں آسٹریلیا میں اردو کانفرنس میں شرکت کیلئے جب افتی اور میں آسٹریلیا  روانہ ہوئے تو تسلسل کے ساتھ تقریباًدس روز تک،  اس کی شخصیت کے رکھ رکھاؤ، مزاج کی وحشت اور ہر لمحہ شرارت کے بے شمار چھوٹے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔جیسا کہ حضرت علی کرم ا للہ وجہ فرماتے ہیں ’’ اگر کسی کہ پہچاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرو‘‘۔  ایک اور موقع پر تاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی کو جاننا ہے تو اسے عزت دے کر دیکھو۔۔۔ سو میں نے افتی کے ساتھ سفر بھی کیا،  دل سے اس کی عزت بھی کی لیکن مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ افتی ہمیشہ اصل زر کو سود کے ساتھ واپس کرتا رہا ہے۔

اور یہ جو آج میں اور سعید خان پردیس میں ایک پیاراسا گھر بسائے بیٹھے ہیں تو اس میں اللہ کی رضا کے بعد میرے بھائی عرفی کے چاؤ اور افتی کی دباؤ کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔ جب کبھی فضائے دل قدرے سازگار دیکھی تو افتی نے سعید خان کے وہ وہ فضائل بیان کئے کہ فیصلہ سہل ہوتا گیا۔ شادی کے اگلے روز جب میں ہزارہ کے روایتی انداز میں سجی سجائی  دلہن بنی، بھاری آنچل چہرے پر گرائے بیچ سسرال کے بیٹھی تھی کہ سعید نے یہ کہتے فون میرے ہاتھ میں لا تھمایا ’۔’ شکاگو سے افتی کی کال ہے‘‘۔  افتی نے خوشی سے چلاتے ہوئے مبارکباد دی اور ساتھ ہی ایک یادگار دعویٰ کیا،   ’’ نوشی یاد رکھنا میرے انکار کے بعد ہی سعید سے تمہاری شادی ممکن ہو سکی‘‘۔

اور پھر بہ اصرار پروین شاکر کا  شعر ذرا تبدیلی کے ساتھ بطور تحفۂ عروسی یوں پیش کیا؛

کمال ِ ضبط کو  میں خود بھی آزماؤں گا

میں اپنے ہاتھ سے اس کا دلھا سجاؤں گا

اندازہ کیجئے کہ نو بیاہتا نوشی گیلانی کا کیا حال ہوا  ہو گا۔ یہ ہے افتی  اور اس کی  افتی خیزیاں  !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

               میرا جی

 

یگانگت

 

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے یہ میں کہہ رہا ہوں

میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں، تسلسل کا جھولا نہیں ہوں

مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے، کیا زمانے میں ہے، اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا

کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے

برائی، بھلائی، زمانہ، تسلسل۔۔یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں

مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، ایک اجنبی ہوں

یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا

یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت

یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور

یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے، یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں ؟

یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور۔مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں !

(تین رنگ)

 

 

               میرا جی

ریل میں

 

’’گجرات کے ہو؟‘‘۔۔۔۔کیا تم سے کہوں، پردیسی کو دھتکارتے ہیں اس دیس میں

جس کے تم ہو امیں،

انگشت سے خاتم دور ہوئی، کیا تم سے کہوں، اب پہلی چمک باقی ہی نہیں، اب

ٹوٹ چکا وہ نقشِ حسیں، اوجھل ہے نگاہوں سے وہ نگیں

پربت سے دھارا بہتی ہے، ویسے ہی بہا ہے نورِ جبیں

دل کا امرت، آنکھوں کا لہو۔

 

یوں رستے میں گھل جاتے ہیں وہ رنگ نہیں کچھ جن کو خبر

جب چاند ڈھلے، جب تاروں کا آکاش سے مٹ جائے منظر

کالی راتوں سے بڑھ کے کہیں کالا دن کیسے ہو گا بسر؟

تم گھلتے ہو، میں گھل بھی چکا، اب آنکھ میں کوئی نہیں ہے اثر

تم دیکھتے ہو، میں دیکھتا ہوں اور کہتی ہے میری یہ نظر

جب راتیں تھیں، جب باتیں تھیں، اور ایک ہی دھیان تھا۔۔۔میں اور تو!

بے کار یہ باتیں کرتے ہیں، کیوں پوچھتے ہیں گجرات کے ہو؟

کیا اپنی بات کے دامن سے پونچھیں گے آنکھ کے آنسو کو؟

جو ہونی تھی وہ ہو بھی چکی اب چاہے ہنسو، چاہے رو لو،

بس یونہی کبھی آ جاتی ہے گھلتی گھلتی میٹھی خوشبو

آنکھوں کی چمک، بازو کی دمک ایسے ہے جیسے دودِ روا ں، باقی ہی نہیں  کچھ ان کا نشاں

لہنگے کا جھولا ٹوٹ گیا، اب سوکھی ہے وہ جوئے رواں جس میں بہتے بہتے میں نے دیکھا تھا سماں

اُس چاندنی کا جو آتی ہے اور جاتی ہے جیسے سورج کی کرن سے دھندلکا ہو پنہاں

جیسے جنگل میں پھسلتے پھسلتے پتوں پر ہو جائے نگاہوں سے اوجھل کوئی آہو!                  (۱۹۴۲ء)

 

 

 

               میرا جی

ابوالہول

 

بچھا ہے صحرا اوراُسمیں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے

پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

 

نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے

فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا

مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے

زمانہ ایوان ہے، یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے

میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی

فضائے صحرا کے گرم و ساکن، خموش لمحے

مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے

ابھی وہ آ جائیں گے سپاہی وہ تُند فوجیں

دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے

آ جائیں گی اُفق سے

ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں

ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟

خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے، میں خیال سے

دل میں ڈر گیا ہوں

مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے

زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

(۱۹۳۶ء)

 

 

 

               میرا جی

 

غزل

 

 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

 

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی اس کی کچھ پروا ہی نہیں

تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

 

تجھ سے دُوری دُوری کب تھی، پاس اور دور تو دھوکا ہیں

فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

 

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا

عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

 

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ

پاگل پن ہے ویسا ہی کچھ فرق نہیں دیوانے میں

 

خوشیاں آئیں ؟اچھا آئیں، مجھ کو کیا احساس نہیں

سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دُکھ کے گیت سنانے میں

 

اپنی بیتی کیسے سنائیں مد مستی کی باتیں ہیں

میراؔ جی کا جیون بیتا پاس کے اک مے خانے میں

٭٭٭

 

 

               ن۔م۔راشد

 

رات شیطانی گئی

 

رات شیطانی گئی

ہاں مگر تم مجھ کو الجھاؤ نہیں

میں نے کچل ڈالے ہیں کتنے خوف

ان پاکیزہ رانوں کے تلے

(کر رہا ہوں عشق سے دھوئی ہوئی

رانوں کی بات!)

رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

لاؤ جو کچھ بھی ہے لاؤ

یہ نہ پوچھو

راستہ کے گھونٹ باقی ہے ابھی

آج اپنے مختصر لمحے میں اپنے اُس خدا کو

رُو برو لائیں گے ہم

اپنے ان ہاتھوں سے جو ڈھالا گیا۔۔۔

 

آج آمادہ ہیں پی ڈالیں لہو۔۔۔۔

اپنا لہو۔۔۔۔

تابکے اپنے لہو کی کم روائی تابکے؟

سادگی کو ہم کہیں گے پارسائی تابکے؟

دست و لب کی نارسائی تابکے؟

لاؤ جو کچھ بھی ہے لاؤ

رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

صوت و رنگ و نور کا وہ رجز گاؤ

جو کبھی گاتے تھے تم

رات کے حجرے سے نکلو

اور اذانوں کی صدا سننے کی فرصت دو ہمیں۔۔۔

رات کے اس آخری قطرے سے جو اُبھری ہیں

اُن بکھری اذانوں کی صدا۔۔۔

رات۔۔۔شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

٭٭٭

 

 

 

               فیض احمد فیض

 

دلِ من مسافرِ من

 

مِرے دل،   مرے مسافر

ہوا  پھر  سے  حکم صادر

کہ وطن  بدر  ہوں ہم تم

دیں گلی  گلی   صدائیں

کریں  رُخ نگر نگر ،   کا

کہ  سراغ کوئی  پائیں

کسی   یارِ  نامہ  بر  کا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں

جو  پتہ  تھا اپنے  گھر کا

سرِ  کوئے    ناشناساں

ہمیں  دن سے رات کرنا

کبھی اِس  سے  بات کرنا

کبھی  اُس سے  بات کرنا

تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے

شب ِ  غم  بُری  بلا  ہے

ہمیں  یہ  بھی تھا غنیمت

جو   کوئی   شمار    ہوتا

ہمیں  کیا  برا  تھا   مرنا

اگر    ایک    بار   ہوتا

لندن۔۱۹۷۸ء

 

 

 

               فیض احمد فیض

 

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

 

نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں

نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

 

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو

نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہُو ہی سہی

 

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل

کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی

 

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی

تو فیضؔ  ذکرِ وطن اپنے رُوبرو ہی سہی

 

لاہور۔فروری۱۹۸۲ء

 

 

               ساحر لدھیانوی

 

تاج محل

 

تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزمِ  شاہی  میں  غریبوں  کا  گزر کیا معنی

ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں

اس  پہ  الفت روحوں  کا  سفر  کیا  معنی

 

میری   محبوب  پسِ  پردۂ  تشہیر ِ  وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو  دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر  سے  بہلنے والی

اپنے  تاریک  مکانوں  کو تو دیکھا ہوتا

 

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن  ان  کے  لیے تشہیر  کا سامان نہیں

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

 

یہ عمارات و مقابر،  یہ فصیلیں،   یہ  حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

دامنِ دہر  پہ  اس رنگ کی گل کاری ہے

جس میں شامل ہے ترے اور مرے اجداد کا خوں

 

میری  محبوب  انہیں  بھی تو  محبت ہو گی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل

اُن کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نشاں

آج تک ان پہ جلائی نہ  کسی  نے  قندیل

 

یہ  چمن زار،   یہ جمنا کا کنارا،  یہ محل

یہ منقش درو دیوار، یہ محراب،   یہ طاق

اک شہنشاہ نے  دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے  مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

               ساحر لدھیانوی

 

غزل

 

عقائد وہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے ساقی

ازل سے ذہنِ انساں بستۂ اوہام ہے ساقی

 

حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے

عروسِ آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی

 

مبارک ہو ضعیفی کو خرد کی فلسفہ دانی

جوانی بے نیازِ عبرت و انجام ہے ساقی

 

ہوس ہو گی اسیرِ حلقۂ نیک و بدی عالَم

محبت ماورائے فکرِ ننگ و نام ہے ساقی

 

ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے

مرا ذوقِ طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی

 

وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو

جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکسِ شام ہے ساقی

 

مرے ساغر میں مے ہے اور تیرے ہاتھوں میں بربط ہے

وطن کی سرزمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی

 

زمانہ برسرِ پیکار ہے پر ہول شعلوں سے

ترے لب پر ابھی تک نغمۂ خیام ہے ساقی

 

 

 

               مجید امجد

 

غزل

 

گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر

سینے پہ ایک درد کی سَل رکھ کے بات کر

 

یہ دوریوں کا سیلِ رواں، برگِ نامہ بھیج

یہ فاصلوں کے بندِ گراں، کوئی بات کر

 

تیرا دیار، رات، مِری بانسری کی لَے

اس خوابِ دل نشیں کو مری کائنات کر

 

میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے

ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر

 

آ، ایک دن مِرے دلِ ویراں میں بیٹھ کر

اِس دشت کو سکوتِ سخن جُو سے بات کر

 

امجد نشاطِ زیست اسی کشمکش میں ہے

مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر

 

 

 

               مجید امجد

 

دو دلوں کے درمیاں

 

شام کی بجھتی ہوئی ؤ، ایک اَن بوجھی کسک،

پانیوں، پگڈنڈیوں، پیڑوں پہ سونے کی ڈلک،

جامنوں کے بُور کی بھینی مہک میں دور تک

جسم اندر جسم سائے، لب بہ لب پرچھائیاں

انگ انگ انگڑائیاں۔۔۔۔،

 

ہائے یہ مدھم سے شعلے اُس مقدس آگ کے

جس کی لپٹوں میں سدا سمٹے رہے، پھیلے رہے

تیرے ہونٹوں اور مرے ہونٹوں کے جلتے فاصلے

ساتھ چلتی سنگتوں کے سنگ بہتی دوریاں

دو دلوں کے درمیاں

 

 

               وزیر آغا

 

غزل

 

 

عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا، رُکنا بھی کیا

کِرمکِ شب ہوں مِرا جلنا بھی کیا، بجھنا بھی کیا

 

اک نظر اُس چشمِ تر کا میری جانب دیکھنا

آبشارِ نور کا پھر خاک پر گرنا بھی کیا

 

زخم کا لگنا ہمیں درکار تھا، سو اُس کے بعد

زخم کا رِسنا بھی کیا اور زخم کا بھرنا بھی کیا

 

تیرے گھر تک آ چکی ہے دُور کے جنگل کی آگ

اب ترا اس آگ سے ڈرنا بھی کیا، لڑنا بھی کیا

 

در دریچے وا مگر بازار گلیاں مُہر بند

ایسے ظالم شہر میں جینا بھی کیا، مرنا بھی کیا

 

تجھ سے اے سنگِ صدا، اس ریزہ ریزہ دور میں

اک ذرا سے دل کی خاطر دوستی کرنا بھی کیا

 

 

 

               وزیر آغا

 

کتنی مشکل ہے!

 

تھکن

آنکھوں کی بھاری چلمنوں سے

لگ کے بیٹھی

دھند اوڑھے منظروں کو

دیکھتی۔۔۔کب دیکھتی ہے!

جھکی شاخوں سے چمٹے

سبز پتے

سکڑتی تتلیاں بن کر

ندی پر جھک گئے ہیں

ندی کا تہہ نشیں پانی

زمیں کی کوکھ میں ٹھہرا ہوا ہے

فلک۔۔۔اک گول برتن

خاک پر اوندھا پڑا ہے

سلو موشن میں ہر شے آ گئی ہے

تپائی سے میں خود کو

کتنی مشکل سے

تپائی کی نمی تک لے کے جاتا ہوں

مگر پھر لوٹنا میرے مقدر میں نہیں ہوتا!

 

 

 

               ایوب خاور

 

 

غزل

 

کیا نہیں ہے جو سدا رقص میں ہے

مستقل ارض و سما رقص میں ہے

 

رنگ سے رنگ جدا رقص میں ہے

شاخ در شاخ ہوا رقص میں ہے

 

فرصتِ جنشِ مژگاں ہے محال

کس کا دربار ہے، کیا رقص میں ہے

 

آئینہ خانۂ وحدت ہے کہ دل

ہر نفس شانِ خدا رقص میں ہے

 

بامِ دانائی سے فرشِ دل تک

مجھ میں کچھ میرے سوا رقص میں ہے

 

آب و گل، ابر و شرارہ، مہ و مہر

ہر کوئی اپنی جگہ رقص میں ہے

 

دیکھ کر ایک پرانی تصویر

یاد کی تیز ہوا رقص میں ہے

 

یہ ہتھیلی ہے کہ تختِ گُل ہے

لمس در لمس حنا رقص میں ہے

 

جسم تو ساکت و جامد ہے مگر

یہ دلِ درد نما رقص میں ہے

 

کون لَے کار ہے، کس کی لَے پر

ایک زنجیر بہ پا رقص میں ہے

 

یہ خزاں ہے جو مرے اندر تک

زرد پتوں کی طرح رقص میں ہے

 

صرف دیوار و در و بام نہیں

گھر میں بچوں کی دعا رقص میں ہے

 

ایک اِک غنچۂ گُل موج میں ہے

باغ کی ساری فضا رقص میں ہے

 

اک نظر خود کو بھی تو دیکھ ذرا

تیری ایک ایک ادا رقص میں ہے

 

تتلیاں ہیں کہ سرِ گل خاورؔ

رنگ در رنگ قضا رقص میں ہے

 

 

               ایوب خاور

 

اندیشہ

 

تم کہتے ہو

نظم لکھو

اور اپنی اس اک بات کو خاورؔ

مصرعوں میں زنجیر کرو

میں کہتا ہوں

درد میں لپٹی

سوگ میں ڈوبی

روگ کی روگی اس اک بات کے کتنے معنی نکلیں گے

کیا تم نے یہ سوچا ہے؟

٭٭٭

تشکر: مدیر ارشد خالدجنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید