FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

علامہ ابن عبد البر القرطبی اور ان کی  کتاب ، کتاب الدرر فی اختصار فی المغازی والسیر کا ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ

               پروفیسرڈاکٹر نور الدین جامی

Abstract

In this paper, the personality and works of Allama Ibn-e-Abdul Bar Qartabi have been discussed in order to assess and evaluate his contribution to Islamic literature. Of special significance is Allam Qartabi’s book on the life achievements of the Holy Prophet. In this book Allama Qartabi has  tried to be objective and comprehensive by not relying on any one source. He has brought together references from different books. He has also compared different writers at different points of narration. He has discovered and included many other sources of history, including the narration of his ‘sheikhs’ (spiritual leaders). Consequently Allama Qartabi’s book on the life and achievements of the Holy Prophet is authentic and comprehensive. This became a reference book for many followers. Ibn-e-Hazam in his "Jawamey- Al- Seerat” has mainly relied on Qartabi’s book. This shows Al-Qartabi’s greatness. Qartabi’s book and his original manuscript have been reserved in "Alarbiya library.”

 

            پانچویں صدی ہجری کی تاریخ کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو آسمان علم و حکمت پر بے شمار درخشندہ ستارے جلوہ گر نظر آئیں گے جو اپنے علم و ادب کی ضیاء پاشی سے جہاں بھر کی تاریکیوں اور ظلمتوں کو کافور کر دیتے ہیں۔تحقیق و  تدفیق کے نئے نئے زاویے روشناس کر ا دیتے ہیں اور جن کی ذات سے علم و ادب کے بے شمارسونتے پھوٹتے ہیں۔ انہیں تابندہ ستاروں میں اندلس کے علامہ عبد البر کی شخصیت آفتاب جہاں تاب بن کر ابھرتی ہے

نام و نسب

            آپ کا نام یوسف ، کنیت ابو عمرو، اور عرفیت ابن عبد البر ہے۔ آپ کا پورا نام یوسف بن عبد اللہ بن محمد عبد البر بن عاصم النمری القرطبی ہے   ۱؎

تاریخ پیدائش

            آپ کی پیدائش بروز جمعہ 25ربیع الثانی 368ھ کو قرطبہ میں ہوئی۔ ۲؎  ابو الحسن طاہر بن مغفور المغافری کہتے ہیں کہ مجھے ابو عمر و عبد البر نے اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں بتایا تھا کہ آپ کی تولید جمعہ کے روز اس وقت ہوئی جب جمعہ کا خطبہ ہو ر ہا تھا  ۳؎

خاندان

 

            آپ نے خالصتاََ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ کیونکہ آ پکا خاندان علمی لحاظ سے قرطبہ میں ممتاز تھا آپ کے والد محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبہ کے عالی مرتبہ فقہا و محدثین میں سے تھے اور علم و ادب سے گہر ا شغف رکھتے تھے۔ آپ کا وطن قرطبہ اور قبیلہ النمری تھا اور یہ نسبت النمر بن قاسط کی وجہ سے ہے جو اس خاندان کے مورث تھے۔  ۴؎

حالات زندگی

 

            جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کے والد کا شمار قرطبہ کے فقہا و محدثین میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد نے آپ کو ٹھوس بنیادوں پر تعلیم دلوائی۔ ابھی بمشکل آپ کی عمر تیرہ برس ہو گی کہ آپ کے والد عبد اللہ بن محمد عبد البر کا ربیع الثانی 380ھ میں وصال ہو گیا۔  ۵؎   تاہم آپ اس عظیم سانحہ کے باوجود بھی بڑے ذوق و جستجو کے ساتھ حصول علم میں مگن رہے اور قرطبہ میں ہی اس وقت کے جید علماء کرام سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔آپ نے قرطبہ میں جن علماء سے تعلیم حاصل کی ان میں ابو القاسم خلف بن القاسم، عبد الوارث بن سفیان ، عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن، محمد بن عبد المالک بن صیفوں ، عبد اللہ بن محمد بن الحسوار وغیرہ شامل ہیں۔  ۶؎

            ان نابغہ روزگار علماء کرام کے علاوہ ابن خلکان نے چند ایک اور حضرات کا بھی ذکر کیا ہے جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی ان مین ابو عمر الطمنکی ، ابو الولید ابن الفرضی وغیرہ شامل ہیں اور علوم حدیث کی اجازت اہل مشرق میں سے آپ کو ابو القاسم اسقطی الملکی ، عبد الغنی بن سعید الحافظ ، ابوذر الحروی ، ابو محمد ابن الخاس المصری وغیرہ نے دی ہے

            قاضی ابو علی الحسین بن احمد بن حمد الغسانی الاندلسی الجیانی کہتے ہیں کہ ابن عبد البر اہل قرطبہ میں سے ہمارے شیخ تھے آپ نے فقہ کا علم ابو عمر احمد بن  عبد المالک بن ہاشم الفقیہ الاشبیلی سے حاصل کیا اور علوم حدیث ابو الولید ابن الفرضی الحافظ سے حاصل کیا۔ آپ نے ان سے بہت کچھ اخذ کیا اور آپ علم کی طلب میں مگن رہے یہاں تک کہ آپ اندلس کے تمام علماء پر فائق تھے اور شہرہ آفاق بن گئے   ۷؎

            پانچویں صدی ہجری کی ابتدا میں جب قرطبہ سیاسی لحاظ سے خلفشار اور افرا تفری کا شکار تھا۔ اموی حکومت ختم ہو گئی تھی ہر طرف فتنہ و فساد پھیلنے لگا نتیجتاً قرطبہ کے بہت سے علماء و ادباء نے وہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دی۔ علامہ ابن عبد البر اپنی علمی منزلت کی وجہ سے اس وقت قرطبہ میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے تھے آپ قرطبہ سے بطلیموس چلے گئے جہاں بنو الافطس کی حکمرانی تھی۔ وہ بڑا علم دوست اور قدر دان شخص تھا۔ انہوں نے آپ کی بڑی عزت و توقیر کی اور آپ کو اپنی ریاست کے دو شہروں اشنوتہ اور شنتریں کا قاضی مقرر کر دیا پھر آپ مشرقی اندلس چلے گئے۔ بلنسیہ اور دانیہ میں اقامت گزیں ہو گئے۔ جہاں مجاہد حکمران تھا۔ مجاہد کو قرآن و حدیث میں خوب مہارت تھی۔ اس لیے ا س نے آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور بہت تھوڑے عرصہ میں دونوں کے درمیان دوستی اور اخوت کا مضبوط رشتہ استوار ہو گیا۔   ۹؎                                                       علامہ ابن عبد البر کا ایک بیٹا محمد عبد اللہ بن یوسف بہت بڑا ادیب و انشاء پرداز اور شاعر تھا اور فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کی کئی کتب، رسائل اور اشعار موجود ہیں ان کے اشعار میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیے لا تکثرن تا ملا واحبس علیک عنان طرفک فلر بما ارسلتہ فرماک فی میدان حتفک    ۱۰؎

            اس کی زبان دانی اور علم و ادب کی وجہ سے مجاہد نے ان کو اپنے ’’دواوین‘‘ میں ملازمت دی اور مجاہد کے بعد جب اس کا بڑا بیٹا علی بن مجاہد حکمران بنا تو اس نے انہیں دواوین اور کاتبین کا صدر مقرر کر دیا۔ اس کے بعد ایک            ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے۔ علی بن مجاہد نے علامہ ابن عبد البر کے اسی مذکور صاحبزادہ کو اشبیلیہ کے امیر معتضد کے پاس پیامبر بنا کر بھیجا۔ لیکن انہوں نے آپ کا خیر مقدم کرنے کی بجائے آپ کو قید کر دیا۔آخر کار علامہ ابن عبد البر نے خود معتضد کی شان میں قصیدہ لکھا اور رحم کی درخواست کی چنانچہ معتضد نے انہیں رہا کر دیا اور آپ واپس دانیہ آگئے   ۱۱؎

            لیکن رہائی کے تھوڑے عرصے بعد ہی وہ انتقال کر گیا ابن خلکان لکھتے ہیں قیل انہ مات سنۃ ثمان و خمسین و اربعمائۃ ’’ کہا جاتا ہے کہ آپ کی وفات 458ھ کو ہوئی ‘‘

            اپنے بیٹے کی وفات کے بعد آپ دانیہ سے شاطبہ تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی وہیں علم و تعلیم میں مگن رہے۔  ۱۳؎

وفات

 

            بقیہ زندگی آپ نے شاطبہ میں ہی گزاری۔آ پ ربیع الثانی 463ھ بروز جمعۃ المبارک کو اس دار فانی سے رحلت فرما گئے اورآپ کا جنازہ ابو الحسن طاہر بن مغفوز  المغافری نے پڑھایا۔ ۱۴؎   اس لحاظ سے وصال کے وقت آپ کی عمر 95سال تھی۔

آپ کی علمی خدمات

            علامہ ابن عبد البر ایک نہایت ہی جامع شخصیت تھے۔ آپ بلاشبہ عالم کل تھے۔ آپ تمام علوم و فنون خاص کر قرآن ، تفسیر ، حدیث ، اسماء الرجال، تاریخ ، سیر و مغازی، فصاحت و بلاغت ، معانی و بیان ، فقہ ، اصول فقہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ آپ نے ایک طرف تو درس و تدریس اور قضاء و افتاء کے ساتھ بیشمار تشنگان علم کو سیراب کیا تو دوسری طرف تصانیف و تالیف کا ایک ضخیم ذخیرہ بھی آپ کے علمی تبحر اور جلالت شان اور عظمت پر شاہد ہے اور ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس سے قبل کہ ہم آپ کے شعر و ادب اور تصانیف پر بحث کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے فقہی نظریات پر اختصار کے ساتھ کچھ رقم کر دیا جائے

فقہی مذہب

فقہ میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا ابو علی غسانی فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ ابن عبد البر قرطبی نے اپنے وطن میں رہ کر علم فقہ حاصل کیا اور اس میں نمایاں قابلیت اور بصیرت پید اکی اور مشہور فقیہہ ابو عمر احمد بن عبد المالک اشبیلی کی صحبت اختیار کی اور ان سے مسائل کی تحصیل کی۔ ابن خلکان اور ذہبی نے علم حدیث و اثر کی طرح فقہ میں بھی ان کے تقدم اور فقہی بصیرت کا ذکر کیا ہے   ۱۵؎

            علوم قرآن و حدیث میں گہرے تفکر و تدبر کی وجہ سے علامہ ابن عبد البر کسی خاص فقہی مسلک کے پیرو کار نہ تھے اور آپ کا مذہب ہر قسم کے تعصب اور اندھی تقلید سے پاک تھا ابتداََ آپ کا مسلک ظاہر ی مذہب کی طرف تھا اور اہل ظواہر قرآن و سنت پر ہی احکام کی بنیاد رکھتے تھے اور قیاس کو نا جائز سمجھتے تھے۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے مالکی مذہب اختیار کیا۔ تاہم ان کا میلان شافعی مذہب کی طرف بھی تھا اور بعض مسائل میں فقہ شافعیہ کو صحیح مانتے تھے۔

            شمس الدین محمد ذہبی تذکرۃالحفاظ میں آپ کے مذہب فقہی کے بابت لکھتے ہیں کہ

            ’’وکان دینا صینا ثقۃ حجۃ صاحب سنۃ و اتباع وکان اولا ظاہر یا اثر یا ثم صار مالکیا مع میل کثیر الی فقہ الشافعی ‘‘   ۱۶؎

امام حمیدی لکھتے ہیں۔ ابو عمر فقیہہ حافظ علم قرأت کے ماہر اور بلا اختلاف علوم حدیث اور اسما ء الرجال میں سب سے زیادہ ماہر تھے اور آپ کا میلان فقہ میں امام شافعی کے اقوال کی طرف تھا۔   ۱۷؎

شعر و ادب

ابن عبد البر کا میلان شعرو سخن کی طرف بھی بہت زیادہ تھا اگرچہ باقاعدہ آپ کا دیوان تو منظر عام پر نہیں ہے تاہم آپ کے اشعار آپ کی چند کتابوں میں ہمیں ملتے ہیں جن سے ان کے ذوق لطیف اور ادب و بلاغت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

                                    تذکرت من یبکی علی مداوما

                                    فلم ارا لا العلم بالدین والحبر

                                    علوم کتاب اللہ و السنن التی

                                    اتت عن رسو ل اللہ مع صحۃ الاثر

                                    علم الاولی من نا قدیہ وفھمنا

                                    لما اختلفو فی العلم بالرای و النظر

دیگر اشعار ملاحظہ ہوں

                                    مقالۃذی نصح و ذات فوائد!

                                    اذا من ذویالاحباب کان استماعھا

                                    علیکم باثار النبی فانہ

                                    من افضل اعمال الرشاد اتباعھا    ۱۸؎

            مختصراََ یہ کہ علامہ ابن عبد البر ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ قرأت و تفسیر ، تاریخ و انساب ، سیر و احبار اور ادب، فقہ و استنباط وغیرہ پر گہری ، بصیرت رکھتے تھے۔ اب اختصار کے ساتھ آپ کے چند مشہور تلامذہ اور آپ کی کتب و تصانیف کا تذکرہ ملاحظہ ہو۔

تلامذہ

            آپ کے تلامذہ کی تعداد حصر و شمار سے باہر ہے بے شمار تشنگاں علم نے آپ سے استفادہ کیا۔ چند ایک مشہور تلامذہ جو اپنے وقت کے بہت بڑے عالم گزرے ہیں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حافظ ذہبی نے آپ کے تلامذہ میں ابو العباس العلائی ، ابو محمد بن ابی قحافہ ، ابو الحسن ابن مغفوز ، ابو علی الغسانی ، ابو عبد اللہ الحمیدی، ابو بحر سفیان بن العاص، محمد بن فتوع الانصاری ، ابو داؤد سلیمان بن القاسم کو ذکر کیا ہے۔  ۱۹؎

تصانیف

 

            ابن خلکان لکھتے ہیں کہ تصنیف و تالیف میں توفیق الہٰی اور تائید ایزدی علامہ ابن عبد البر کے شامل حال تھی۔ علامہ ابن حزم کا بیان ہے کہ ان کی کتابیں مختلف حیثیتوں سے اہم اور بے مثال ہیں ان کی کتابوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہے ان کی جو کتابیں ہم تک پہنچی ہیں ان کے نام یہ ہیں

1۔علوم القرآن

            علوم القرآن پر درج ذیل کتب ہیں :۔

۱۔        البیاں عن تلاوۃ القرآن یا البیاں فی تاویلات القرآن

۲۔       کتاب المدخل فی القرآت یا کتاب التجوید و المدخل الی علم القرآت بالتجوید (دو جلدیں )

۳۔       کتاب الاکتفاء قراۃ نافع و ابی عمرو  ۲۰؎

2۔علوم حدیث و اسماء الرجال :۔

۱۔        الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب

۲۔       التمہید اللموطاء من المعانی والا سانید  ۲۱؎

۳۔       تجرید

۴۔       التغطاء بحدیث الموطاء

۵۔       التقصی بحدیث الموطاء  ۲۲؎

۶۔       کتاب الاستذکار

۷۔       الانباء علی قبائل الرواۃ  ۲۳؎

۸۔       کتاب الکنی

۹۔        الاجوبۃ الموعبۃ

۱۰۔      کتاب الشواہد فی اثبات خبر الواحد

۱۱۔       کتاب الاستظھار فی حدیث عمار

۱۲۔      کتاب اختلاف اصحاب مالک بن انس و اختلاف روایا تھم عنہ ( چوبیس جز)

۱۳۔      اختصار التمیز لمسلم  ۲۴؎

۱۴۔      اختصارالتحریر

۱۵۔      القصد والامھم  ۲۵؎

3۔سیرت و مغازی و تاریخ

۱۔        کتاب الاخبار الائمۃ الامصار (سات جلدیں )

۲۔       اختصار تاریخ احمد بن سعید

۳۔       فہرست الشیوخ

۴۔       کتاب جمھرۃ الانساب

۵۔       کتاب الدرر فی اختصار المغازی و السیر  ۲۷؎

ہماری بحث اس کتاب پر ہو گی اور اس کا تفصیلی تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔

4۔فقہ

۱۔        کتاب الفرائض

۲۔       کتاب الکافی   ۲۸؎

۳۔       الانصاف فیما فی بسم اللہ من الخلاف

۴۔       الانتقاء فی فضائل الثلاثہ الفقھا مالک والشافعی و ابی حنیفہ  ۲۹؎

5۔فلسفہ

۱۔        کتاب العقل و العقلاء

6۔شعر و ادب اور متفرق مضامین

۱۔        الاحتیال مما فی شعرا بی العتابیۃ من الامثال

۲۔       کتاب بہیۃ المجالس وانس المجالس

۳۔       جامع بیان العلم و فضلہ

۴۔       البستان فی الاخوان

ابن عبد البر جلیل القدر علماء کی نظر میں :۔

            علامہ ابن عبد البر کے معاصرین اور امت کے جلیل القدر علما ء نے آپ کی علمی خدمات، وجاہت و تبحر کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور آپ کے عظیم مرتبہ و مقام کا اعتراف کیا ہے ہم چند ایک آراء اختصار کے ساتھ درج کرتے ہیں۔

۱۔        ابو الولید الباجی فرماتے ہیں :۔ حدیث میں ابو عمر جیسا اندلس میں کوئی پیدا نہیں ہوا

۲۔       ابن حزم کہتے ہیں :۔ علوم حدیث کو سمجھنے کے لیے ہمارے صاحب ابو عمر ابن عبد البر  القرطبی کی کتاب ’’التمہید ‘‘جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور اس سے معیاری کتاب کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

۳۔       قال ابن سکرۃ سمعت ابا الولید الباجی یقول :۔ ابو عمر احفظ المغرب۔  ۳۱؎

            ابن سکرۃ کہتے ہیں میں نے ابو الولید الباجی سے سنا ہے وہ کہتے ہین کہ ابو عمر مغرب میں سب سے زیادہ ان کا حافظہ ہے۔

۴۔       علامہ الغسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عبد البر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ ہمارے ملک میں قاسم بن محمد اور احمد بن خالد الجباب جیسا کوئی نہیں ہے۔ غسانی کہتے ہیں کہ ان کا کہنا درست لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن عبد البر نہ تو اس سے کسی درجہ میں کم تھے اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنے والے تھے وہ نمر بن قاسط کی اولاد میں سے تھے اور انہوں نے علم حاصل کیا اور خوب حاصل کیا۔ انہوں نے ابو عمر احمد بن عبد المالک فقہی کی صحبت میں رہ کر فقہ اور ابو الولید ابن الفرضی کی صحبت میں رہ کر علم حدیث میں مہارت تامہ حاصل کی اور اس قدر محنت کی کہ تمام علماء اندلس سے ہر فن میں فائق ہو گئے    ۳۲؎

۵۔       ابن ابشکوال لکھتے ہیں کہ ابن عبد البر تصنیف و تالیف میں خوش اوقات اور صاحب توفیق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تصنیفات سے دنیا کو فائدہ پہنچایا۔ حدیث و فقہ میں گہری بصیرت کے ساتھ علم الانساب اور تاریخ میں بھی ان کا پایہ بہت بلند تھا۔  ۳۳؎

            طوالت کے خوف سے اس مضمون کے اب دوسرے حصے کی طرف توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے علامہ ابن البر کی کتاب الدرر، فی المغازی السیر پر اجمالی تبصرہ۔ مزید لکھنے سے پہلے اس بات کا اعتراف کر دینا مناسب ہے کہ کوشش بسیار کے باوجود اصل کتاب نہ مل سکی۔ تاہم دیگر کتب کے علاوہ نقوش رسول نمبر 1سے ہی زیادہ تر اس ضمن میں استفادہ کیا جائے گا۔

کتاب الدرر فی اختصار ا لمغازی و السیر

            دائرہ المعارف بزرگ اسلامی کا مقالہ نگار بھی اس کتاب کی بابت لکھتا ہے

            الدرر فی اختصار المغازی و السیرایں سیرہ نبوی و خلاصہ ای است از سیرہ ابن اسحاق۔ البتہ افزوں بر کتاب ابن اسحاق روایتھالی از کتابھای موسی بن عقبہ و ابن ابی حثیمہ ونیز از روایتھای استا دانش آور دہ است ابن حزم دوست یابہ تعبیری شاگرد ابن عبد البرنیز در جوامع السیرۃ از ایں کتاب بھرہ جستہ است۔   ۳۴؎

            ابن عبد البر نے الدرر کے خطبہ میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب آنحضرت ﷺ کی بعثت اور اس کے بعد کے واقعات و حالات پر لکھی ہے اور موسی بن عقبہ (م141ھ)اور محمد بن اسحٰق (م150ھ) کی سیرت النبی کو ماخذ بنایا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں کتابیں سیرت کی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں اور سیرت پر قلم اٹھانے والے تمام مصنفین ان سے استفادہ کرتے تھے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ بہت سی قدیم کتابوں کی طرح یہ دونوں کتابیں بھی نا پید ہو گئیں۔ اب سیرت ابن اسحٰق کا صرف ایک ٹکڑا کتب خانہ رباط میں محفوظ ہے۔ جہاں تک ابن ہشام کی روایت کا تعلق ہے تو وہ مکمل نہیں بلکہ اصل کتب کی تلخیص و تہذیب ہے اور وہ بھی ابن اسحاق سے براہ راست روایت نہیں بلکہ ان کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ سے منقول ہے

الدرر کے ماخذ

            جیسا کہ سابقہ گفتگو سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اس کتاب کے بنیادی طور پر تین ماخذ ہیں (۱)سیرت موسی ٰ بن عقبہ (۲)سیرت ابن اسحٰق(۳)سیرت بن ابی خیثمہ۔ لیکن ان کے علاوہ کئی دیگر کتابوں مثلاََ سیرت واقدی وغیرہ سے بھی استفادہ کیا ہے

ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی سیرت الدرر ابن اسحٰق کی کتاب سے مرتب کی ہے اور دوسرے راویوں کی روایت سے ان تک پہنچی ہے وہ حجۃ الوداع پر گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہیں۔

ابن اسحٰق کی سندات

ہماری اس کتاب میں ابن اسحاق سے جو روایتیں منقول ہیں ان میں ہماری ایک سند یہ ہے

عن عبد الوارث بن سفیان ، عن قاسم بن اصبع، عن محمد بن عبد السلام الخشی عن محمد بن البرقی ، عن ابن ہشام عن زیاد البکائی عن محمد بن اسحٰق۔

دوسرا ماخذ یونس بن بکیر کی روایت ہے جو میں نے عبد اللہ بن محمد بن یوسف کو پڑ ھ کر سنائی سند یہ ہے۔

عبد اللہ بن محمد بن یوسف بن ابن مغرج عن ابن الاعرانی، عن العطاری، عن یو نس بن بکیر ، عن ابن اسحٰق۔

تیسرا ماخذ ابراہیم بن سعد کا نسخہ ہے یہ بھی میں نے عبد الوارث بن سفیان کو پڑھ کر سنایا سند یہ ہے

            عبد الوارث بن سفیان ، عن قاسم بن اصبع ، عن عبید بن عبد الواحد  البزاز عن احمد بن محمد بن ایوب، عن ابراہم بن سعد عن ابن اسحٰق۔  ۳۵؎

سیرت موسیٰ بن عقبہ کی سند

 

اسی مقام پر ابن عبد البر نے موسٰی بن عقبہ کی کتاب کا ذکر کیا ہے کہ اس کتاب سے جو روایتیں لی ہیں۔ ان کا ماخذ وہ نسخہ ہے جو انہوں نے عبد الوار ث بن سفیان اور احمد بن محمد احمد بن الجسور کو پڑھ کر سنایا۔ مکمل سند یہ ہے

            عن قاسم بن اصبع عن مطرف بن عبد الرحمن بن قیس عن یعقوب ، عن ابن فلیح عن موسی بن عقبہ۔

الاستعیاب فی معرفۃالاصحاب میں موسیٰ بن عقبہ سے دوسری سند کا ذکر کیا ہے وہ سند یہ ہے۔

            عن خلف بن قاسم ، عن ابی الحسن ، عن ابی العباس بن محمد بن عبد الغفار المعروف بابن الوان المصری ، عن جعفر بن سلیمان النوفلی، عن ابراہیم بن المنذر الخرامی، عن محمد ابن فلیح عن موسی بن عقبہ۔   ۳۶؎

طبقات اور مغازی واقدی کی اسناد

 

            طبقات کی سند یہ ہے قراۃ علی احمد بن قاسم الناہرتی۔ عن محمد بن معاویہ القرشی عن ابراہیم بن موسی بن جمیل عن محمد بن سعد کاتب الواقدی عن الواقدی

مغازی کی سند ملاحظہ ہو۔اخبرنی بہ حلف، عن قاسم، عن ابی الحسن ، محسن ابی العباس بن الون ، عن جعفر بن سلیمان النوفلی، عن ابراہیم بن المنذر الخرامی عن الواقدی

ابن ابی خثیمہ کی سند

            الاستعیاب کے شروع میں ابن عبد البر نے تصریح کی ہے کہ میں نے ابی خثیمہ کی مکمل کتاب ابو القاسم عبد الوارث بن سفیان بن جروی کو پڑھ کر سنائی عبد الوارث نے ابو محمد قاسم بن یوسف شیبانی اور انہوں نے ابن ابی خثیمہ ابو بکر احمد بن فزھیر بن حرب سے روایت کی۔

            ابن عبد البر نے انہیں ماخذ کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ ماخذ ہیں جن کے ذکر کا اہتمام انہوں نے کیا۔ مثلاََ الدرر کی بیشتر احادیث وہ اب محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن سے روایت کرتے ہیں بعض واقعات میں سعید بن یحیٰ اموی کا نام بھی آیا ہے۔ بظاہر اموی کی کتاب ’’السیر‘‘ بھی ابن عبد البر کا ایک ماخذتھی کہیں کہیں ابن عبد البر حدیث کی سند مختصر کر دیتے ہیں اور اس کے راویوں کا مکمل سلسلہ درج نہیں کرتے بلکہ اس طرح کی عبارتوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ راوی عن عبادہ بن الصامت ، قال ابن شہاب الزہری، قال معمر ذکر ابن جریح وغیرہ

کتاب الدرر کی غرض و غایت

 

            اس کی اسناد کا تذکرہ کر دینے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مقاصدکے بارے میں کچھ ذکر کر دیا جائے۔ ابن عبد البر نے اس سلسلے میں الدرر کے مقدمہ میں لکھا ہے

            ’’اس کتاب میں نبی ﷺ کی بعثت، عہد رسالت کے ابتدائی حالات، غزوات اور ان میں آپ کے طریق عمل کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا ہے اس لیے آپ کی ولادت، پرورش اور اہم واقعات کا ذکر صحابہ کے حالات پر راقم اپنی کتاب کے شروع میں کر چکا ہے۔یہ کتاب صرف بعثت اور اس کے بعد کے بقیہ حالات کے لیے لکھی گئی ہے اس کی ترتیب مکمل طور پر ابن اسحق کی طرز پر ہے۔ آپ کے غزوات اور جہاد کے ذکر میں جو بات پیش نظر رہی ہے وہ یہ کہ اختصار سے کام لیا جائے واقعہ آسانی سے ذہن نشین ہو جائے اور خشوو زوائد اور مختلف بحثوں کو گڈمڈ کرنے کی بجائے صرف اہم اور نمایاں باتوں کے بیان پر اکتفا کیا جائے ‘‘

            ابن عبد البر خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے موسیٰ بن عقبہ اور سیرت ابن اسحٰق کے سلسلہ میں صرف ایک روایت پہ اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ ان کتابوں کی مختلف روایات کو سامنے رکھا اور موازنہ کیا اور ان کے ساتھ ساتھ واقدی اور ابن ابی خثیمہ کی تحریروں اور اپنے شیوخ کی روایات کا بھی اضافہ کیا اور ان سب کی روشنی میں سیرت نبوی ؐپر ایک مستند کتاب مرتب کی۔

ابن عبد البر کے کچھ منفرد اور اچھوتے افکار

 

ابن عبد البر کی سیرت کے ضمن میں کئی ایک منفرد خیالات بھی ملتے ہیں۔ یہ خیالات چونکہ فقہ و حدیث کے ایک بلند پایہ اور جلیل القدر عالم کے ہیں اس لیے عام اور مشہور رائے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ان کا بڑا وزن ہے مثلاََ اللہ اور اس کے رسول پر اول اول ایمان لانے والوں میں ابن عبد البر نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر صدیق کا بھی ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے کہ وہ کمسن تھیں۔ (وھی صغیرۃ)اس سے مشہور قول کی تردید ہوتی ہے جس کی رو سے آنحضرت ؐکا مدینہ میں حضرت عائشہ سے جب زفاف ہوا تو ان کی عمر نو سال تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبد البر کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ وہ اول بعثت میں یعنی ہجرت سے تقریباً تیرہ سال قبل اسلام لائیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ بعثت کے وقت ان کی عمر کم از کم چار سال رہی ہوتا کہ قبول اسلام میں ان کی اولیت کو تسلیم کیا جا سکے

            اسی طرح ابن عبد البر کے نزدیک رمضان کے روزے ہجرت کے پہلے سال فرض ہوئے جب کہ مشہور خیال یہ ہے کہ ہجرت کے اٹھارویں مہینے فرض ہوئے

            خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خیبر مکمل جنگ کے بعد فتح ہوا ہے۔

ابن عبد البر کی دقت تحقیق کا اندازہ غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مرسیع کے بارے میں اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے وہ لکھتے ہیں

اسی غزوہ میں اہل افک نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگایا پس اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور ان کی برات کے لیے قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں۔ یہ روایات کہ سعدبن معاذ نے اس بارے میں سعد بن عبادہ سے تکرار کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعد بن معاذ نے اس بارے میں بات سعد بن حضیر سے کی تھی ایسا ہی ابن اسحٰق نے زہری بن عبد اللہ وغیرہ سے نقل کیا ہے یہی صحیح ہے اس لیے کہ سعد بن معاذ کا انتقال بنو قریظہ سے آنحضرت ؐ کی واپسی میں ہو چکا تھا اس مین کسی کا اختلاف نہیں اور غزوہ مرسیع کے وقت نہ وہ زندہ تھے نہ و ہ شریک ہوئے

            اس مذکورہ بحث سے آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب کس قدر مہتم بالشان ہے اور کس قدر باریک بینی ، دست نظر اور ثقہ کتابوں سے اخذ کی گئی ہے مزید برآں اخبار و احادیث کے درمیان موازنہ ، صحیح نتیجہ تک رسائی، اشخاص کے ناموں میں پوری باریک بینی، توقف کی جگہ توقف اور موزوں رائے کا انتخاب ، حدیث اور رجال الحدیث کا وسیع علم، ضعیف اور قوی کا ا متیاز یہ ساری خصوصیات اس سیرت میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔

اس سیرت کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابن عبد البر کے شاگرد ابن حزم نے جب رسول اللہ ﷺ کی سیرت اپنی کتاب ’’جوامع السیرۃ ‘‘لکھنے کا ارادہ کیا تو الدرر کو مشعل راہ بنایا

سیرت ابن عبد البر کا مخطوطہ

 

کتاب الدرر کا مخطوطہ دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے یہ نسخہ عام قلم سے دو مختلف رسم الخط میں لکھا گیا ہے ایک تو خط نسخ ہے جو واضح اور روشن ہے اور اس میں بعض الفاظ کو حرکتوں کے ذریعہ ضبط کیا گیا ہے ابواب کے عنوانات خط ثلث میں لکھ گئے ہیں دوسرا عام خط ہے نقطے بہت کم لگے ہیں۔ لفظ کو ضبط بھی نہیں کیا گیا متن کے مقابلہ میں عنوانات جلی قلم سے لکھے گئے ہیں حاشیوں پر تصحیح اور استدراک ہے

٭٭٭

 

حوالہ جات و حواشی

۱۔        ابن خلکان ، ابی العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر: وفیات الاعیان ، دار الفکر، بیروت لبنان ، ج3ص66

۲۔       معلم بطرس البستانی :دائرۃ المعارف ، دار المعرفہ بیروت، ج1ص585

۳۔       ابن خلکان : وفیات الاعیان ، ج3ص71

۴۔                   ایضاََ

۵۔                   ایضاََ

۶۔       ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃ الحفاظ دار احیاء التراث الاسلامی 1374، ج3,4ص1128

۷۔       ابن خلکان :وفیات الاعیان، ج7ص660

۸۔       ڈاکٹر شوقی ضیف: الدروفی اختصار المغازی السیر محمد اجمل اصلاحی مترجم بحوالہ نقوش، مدیر محمد طفیل، ادارہ فروغ اردو، لاہور، ج1ص616

۹۔        دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ناشر دائرہ المعارف بزرگ الاسلامی، چاپ اول 1370تہران ،  ج4ص182

۱۰۔      ابن خلکان: وفیات الاعیان،             ج7ص72

۱۱۔       دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ،         ج9ص182

۱۲۔      ابن خلکان: وفیات الاعیان،           ج7ص72

۱۳۔      نقوش رسول نمبر، مدیر محمد طفیل مقالہ نگار ڈاکٹر شوقی ضیف، ص617

۱۴۔      ابن خلکان : وفیات الاعیان،           ج7ص71

۱۵۔      اصلاحی ضیاء الدین: تذکرۃ المحدثین مطبوعہ گرین وے پرنٹر لاہور ، طبع اول 1987ج2ص240

۱۶۔      دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی     ج4ص182

۱۷۔     ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃالحفاظ، ج3ص1130

۱۸۔      اصلاحی، ضیاء الدین : تذکرۃالمحدثین، ج2ص241

۱۹۔      ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃالحفاظ، ج3ص1130

۲۰۔     اصلاحی، ضیاء الدین : تذکرۃالمحدثین، ج2ص245

۲۱۔      ابن خلکان: وفیات الاعیان،           ج7ص67

۲۲۔     اصلاحی، ضیاء الدین:، تذکرۃالمحدثین، ج2ص245

۲۳۔     ابن خلکان : وفیات الاعیان،           ج7ص67

۲۴۔     ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃالحفاظ، ج 2ص245

۲۵۔     دائرۃ المعار ف بزرگ اسلامی     ج4ص183

۲۶۔     اصلاحی، ضیاء الدین:، تذکرۃالمحدثین، ج2ص245

۲۷۔    ابن خلکان : وفیات الاعیان،           ج7ص67

۲۸۔     اصلاحی، ضیاء الدین: تذکرۃالمحدثین، ج2ص246

۲۹۔     ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃالحفاظ، ج7ص1129

۳۰۔     اصلاحی، ضیاء الدین : تذکرۃالمحدثین، ج2ص245-248

۳۱۔      ابن خلکان : وفیات الاعیان،           ج7ص66

۳۲۔     ذہبی ، شمس الدین محمد: تذکرۃالحفاظ، ج 2ص

۳۳۔    نقوش سیرت رسول نمبر1ص618

۳۴۔    دائرۃ المعار ف بزرگ اسلامی     ج4ص183

۳۵۔    ابن عبد البر: کتاب الدرر، دار الفکر بیروت 1981ء ص450

۳۶۔                 ایضاََ

۳۷۔    ابن عبد البر: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، دارالعارف، مصر، 1972ء ص45

۳۸۔    ابن عبد البر: کتاب الدرر،             ص29

۳۹۔                 ایضاََ

۴۰۔     نقوش سیرت رسول نمبر1، مدیر محمد طفیل ، مقالہ کتاب الدرر فی اختصار المغازی والسیر، مقالہ نگار ڈاکٹر شوقی ضیف، ص618-633

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید