FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سورہ تحریم کا مختصر بیان

 

 

ابنِ آدم

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں:

ورڈ ڈاکیومینٹ

ای پب

 

سورہ تحریم،  مدنی سورت ہے۔ اس کے ۲ رکوع اور ۱۲ آیتیں ہیں۔ بظاہر اس سورت میں نبی اکرمﷺ کی ازدواجی زندگی کو لے کر بحث ہوئی ہے،  لیکن یہ سورت اس وقت کے عرب معاشرے کی ایک غلط رسم کے خاتمہ کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عام طور پر اس کا زمانہ نزول ۸ ہجری بتایا جاتا ہے جس کا کلی دار و مدار سورت کی پہلی آیت میں وارد لفظ ‘تُحَرِّمُ’ کو لے کر باہم متضاد شان نزول کی روایتوں پر ہے۔ یہ روایتیں ایک طرف جہاں آپس میں متصادم ہیں،  وہیں دوسری طرف خبرِ واحد کے درجہ میں بھی ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں سے کوئی ایک شان نزول بھی سورت کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں،  متعارض روایتوں کی بنیاد پر کی گئی تفسیر،  سورت کے صحیح مضمون کی نشاندہی اور وضاحت سے قاصر رہ جاتی ہے۔ تاہم نظم قرآن کی بنیاد پر اس سورت کے زمانہ نزول کا تعین اور پھر اس کی روشنی میں سورت کی تفسیر باآسانی ہو جاتی ہے۔

سورہ تحریم کی آیت نمبر ۵ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ یہ سورت،  سورہ احزاب سے پہلے نازل ہوئی ہے (حوالہ: سورہ احزاب آیت نمبر ۵۲)۱۔ سورہ احزاب کا نزول ذوالقعدہ ۵ ہجری جنگ خندق سے متصل ہے۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۲ میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۹ کا حوالہ۲ دیا گیا ہے۔ سورہ مائدہ درحقیقت سورہ نساء کے مباحث کا تتمہ ہے اور سورہ نساء غزوہ احد کے بعد ذوالقعدہ ۳ ہجری اور سورہ مائدہ ذوالقعدہ ۴ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر سورہ تحریم کا زمانہ نزول ۵ ہجری کا وسط بنتا ہے۔ جو لوگ محض روایات ہی کی بنیاد پر زمانہ نزول کے تعین کے قائل ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ صحاح ستہ میں سورہ احزاب آیت نمبر ۲۸-۲۹ کے حوالے سے یحییٰ بن سعید،  ابن شہاب زہری،  اور عکرمہ کی روایات بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ سورہ تحریم،  سورہ احزاب سے پہلے ہی نازل ہوئی ہے۔

سورہ تحریم کا محور اسی سورت کی پہلی آیت ہے،  جس میں بتایا گیا ہے کہ نبی پاکﷺ نے اپنی ازواج کی خوشی کے لئے اپنے اوپر کوئی ایسی چیز حرام کر لی تھی جو کہ الله تعالیٰ نے خاص آپﷺ کے لئے حلال کی تھی۔ اگرچہ قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد ہدایت انسانی ہے نہ کہ واقعہ بیانی،  لہٰذا اس آیت پر مجملاً ایمان بھی کافی تھا،  مگر جب ایسی روایات اس آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کی گئیں جو کہ نہ صرف سورت کے الفاظ سے میل نہیں کھاتیں بلکہ نبی پاکﷺ اور ازواج مطہراتؓ کی منفی تصویر کشی بھی کرتی ہیں،  تو واقعہ کی وضاحت ضروری ہو جاتی ہے۔ اصل واقعے کو جاننا چنداں مشکل کام نہیں ہے۔ مدنی سورتوں کا دور نزول اور اس زمانہ کے مدینہ کے حالات خود ہی اصل واقعہ کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔ اصل واقعہ کی نشاندہی سے پہلے مروجہ قصوں کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ اور یہ بیخ کنی اگر کتابُ اللہ کے پیمانہ پر کی جائے تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ روایات بہرحال دلیلِ ظنی ہیں اور کتابُ اللہ دلیلِ قطعی۔ مزید یہ کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نہ صرف مبین یعنی روشن کتاب۳  بتایا ہے بلکہ اس کو فرقان۴ بھی کہا ہے جس کے معنی کسوٹی کے ہیں،  یعنی سچ اور جھوٹ کو پرکھنے والی کتاب۔ لفظ ‘ تُحَرِّمُ ‘ کو لے کر مروجہ شان نزولوں کا کوئی ایک واقعہ بھی قرآن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔

 

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيمِ

آیات نمبر۱اور۲ کا بیان

 

یٰاَیهَا النَّبِىُّ۔۔۔۔ الۡعَلِیۡمُ الۡحَكِیۡمُ‏ ﴿۲﴾
اے نبیؐ،  تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ﴿۱﴾  اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے،  اور وہی علیم و حکیم ہے ﴿۲﴾

اس سلسلے میں مختلف واقعات بیاں کیے جاتے ہیں جن کو مختلف تفاسیر میں ان آیات کے شان نزول کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ ان واقعات کا احوال یہاں مختصراً ذکر کیا جائے گا۔ تفصیلات مختلف تفاسیر یا روایات کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

پہلا واقعہ حضرت ماریہؓ سے متعلق ہے۔ قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ  نبی اکرمﷺ کا معمول تھا کہ روزانہ عصر سے مغرب کے درمیان اپنی بیویوں کی طرف باری باری جاتے تھے۔ تو ایک روز معمول کے مطابق جب حضرت حفصہؓ کی طرف پہنچے تو حضرت حفصہؓ موجود نہیں تھیں اور اتنے میں حضرت ماریہؓ وہاں آ گئیں۔ اسی دوران میں حضرت حفصہؓ بھی واپس آ گئیں تو انہوں نے آپﷺ کو حضرت ماریہؓ کے ساتھ اپنے بستر پر دیکھ کر خفگی کا اظہار کیا۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت حفصہؓ کی دل جوئی کے لئے حضرت ماریہؓ کو خود پر حرام کر لیا اور حضرت حفصہؓ کو اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنے کی تاکید کر دی۵۔ یاد رہے کہ حضرت ماریہؓ نبی اکرمﷺ لونڈی تھیں نہ کہ حضرت حفصہؓ کی۔ لہٰذا حضرت حفصہؓ کی غیر موجودگی میں ان کے گھر میں حضرت ماریہؓ کے آنے کی کچھ وجہ نہیں بنتی۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت حضرت حفصہؓ نے حضرت ماریہؓ کو نبی پاکﷺ کے ساتھ اپنے بستر پر پایا تھا اس وقت وہ اپنے والد حضرت عمرؓ کے گھر سے واپس تشریف لائی تھیں۔ یہ بات اپنے اندر خود ایک سوال ہے کہ جب نبیﷺ کے آنے کا وقت متعین تھا تو حضرت حفصہؓ اپنے والد کے گھر کیوں گئی ہوئی تھیں اور ان کے والد حضرت عمرؓ نے بھی ان کو اس وقت کیوں بیٹھے رہنے دیا۔

اس قصہ میں صرف یہی سوالات نہیں بلکہ شدید نوعیت کے بھی کئی سقم موجود ہیں جو کہ براہ راست قرآن سے ٹکرا رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ آیت میں اَزۡوَاج کا لفظ آیا ہے۔ جو کہ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق تین یا تین سے زائد بیویوں کے لئے آ سکتا ہے۔ جبکہ یہاں صرف ایک بیوی کا ذکر ہے۔ روایت کو کچھ بہتر کرنے کے لئے بعض لوگوں نے اس کا ایک پس منظر بتایا کہ حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ نبی اکرمﷺ سے حضرت ماریہؓ کو علیحدہ کرنے کے لئے زور ڈالتی رہتی تھیں۶۔ لیکن اگر بالفرض اس پس منظر کو مان بھی لیا جائے تو بھی  بیویوں کی تعداد دو ہی بنتی ہے جو کہ تین سے کم ہے اور آیت میں بیان کی گئی کم از کم تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ واقعہ میں آتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ماریہؓ کو حرام قرار تو دیا لیکن حضرت حفصہؓ کو کہا کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔ تو اس کو چھپانے میں آخر کونسی حکمت پوشیدہ تھی؟ کیا یہ کہ حضرت ماریہؓ سن کر ملول نہ ہوں۔ اس حکمت کو اس صورت میں ہی تسلیم کیا جا سکتا تھا اگر آیاتِ قرآنی خود اس کی تردید نہ کر رہی ہوتیں۔ اگر حضرت ماریہؓ کو حرام کرنے میں صرف حضرت حفصہؓ کی خوشنودی مقصود تھی تو یہ بات خود آیت کے متن سے ٹکرا جاتی ہے کیونکہ آیت میں ازواج کی خوشنودی کا ذکر آیا ہے نہ کہ زوجہ کی۔ اور اگر تمام (یا متعدد) ازواج کی خوشنودی درکار تھی تو چھپانے کا کہنے سے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے،  کیونکہ جن بیویوں کی خاطر حضرت ماریہؓ کو حرام کیا گیا ہو اور ان بیویوں کو اس کا علم ہی نہ ہو سکے،  تو ان بیویوں کو کیا خوشنودی حاصل ہو گی۔

تیسری بات یہ کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۲ میں الله تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کو جہاں اپنی بیویوں کو طلاق دینے سے روک دیا ہے وہیں لونڈیوں کے سلسلے میں وہی قانون برقرار رکھا ہے جو عامۃ المسلمین کے لئے ہے۷۔ جس کے تحت ایک مسلمان مرد کو اپنی لونڈی کو حرام کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ واضح رہے سورہ احزاب ۵ ہجری میں نازل ہوئی ہے اور حضرت ماریہؓ ۷ ہجری میں حرم نبویؐ میں داخل ہوئیں۔ لہٰذا ایک ایسی معاملے میں،  جس کا اختیار دو سال پہلے خود الله ہی نے نبیﷺ کو تفویض کر دیا ہو،  اس کے استعمال پر الله کی طرف سے سرزنش ناقابل فہم ہے۔

یہ روایت قرآن کے ایک اور واضح حکم سے بھی متصادم ہے۔ الله تعالیٰ نے سورہ نور آیت ۵۸ میں خلوت کے اوقات۸ بیان کیے ہیں اور وہ ہیں عشا کے بعد،  فجر سے پہلے اور دوپہر کے وقت۔ جب کہ قصوں کے بیان کے  مطابق یہ وقوعہ عصر کی نماز کے بعد پیش آیا۔ واضح رہے کہ حضرت ماریہؓ حرم نبویؐ میں ۷ ہجری میں داخل ہوئی ہیں۔ اور سورہ نور ٦ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نبی پاکﷺ قرآن کریم کے ایک نازل شدہ حکم کی خلاف ورزی کا سوچیں بھی۔

اور ان سب  باتوں سے بڑھ کر یہ کہ سورہ تحریم ۵ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ حرم نبویﷺ تو درکنار،  حضرت ماریہؓ کا تو اس وقت مدینہ منورہ میں بھی وجود نہ تھا۔ حضرت ماریہؓ ۷ ہجری میں مصر کے فرماں روا مقوقس کی طرف سے دربار نبویؐ میں آئی تھیں۔ لہذا وہ تو ان آیات کی شانِ نزول کی وجہ بالکل نہیں ہو سکتیں۔

دوسرا قصہ جو عام طور پر بطور شانِ نزول پیش کیا جاتا ہے وہ شہد کا قصہ ہے۔ اصل میں یہ ایک نہیں بلکہ دو مختلف افسانے ہیں جو کتابوں میں درج ہیں۔ دونوں ہی کہانیاں حضرت عائشہؓ کی ‘چلتر بازیوں’ میں متفق ہیں،  مگر ایک کہانی میں حضرت حفصہؓ متاثرہ فریق ہیں تو دوسری میں وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ سازشوں میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے،  حضرت حفصہؓ ایک ہی واقعہ میں بیک وقت دونوں کردار تو ادا نہیں کر سکتیں۔ ہشام بن عروہ۹ کی روایت یہ بتاتی ہے کہ حضرت حفصہؓ کے گھر کہیں سے شہد آیا ہوا تھا اور جب نبی اکرمﷺ ان کے گھر جاتے تو وہ آپﷺ کو شہد پیش کرتیں اور آپﷺ شہد کھانے کی وجہ سے وہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہر جاتے،  جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ نے نبی کریمﷺ کو حضرت حفصہؓ کے ہاں زیادہ دیر گزارنے سے روکنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور اس منصوبے میں حضرت سودہؓ اور حضرت صفیہؓ کو بھی شامل کر لیا۔ طے یہ کیا گیا کہ نبی اکرمﷺ جب ان کی طرف تشریف لائیں گے تو وہ نبی اکرمﷺ کو کہیں گی کہ آپ کے منہ سے مغافیر(ایک قسم کا پھول،  جس کی مہک ناگوار ہوتی ہے) کی بو آ رہی ہے۔ نبی اکرمﷺ کو ہر قسم کی ناگوار بو شاق گزرتی تھی لہذا جب متعدد بیویوں (عائشہؓ،  سودہؓ،  صفیہؓ) نے ایک ہی بات کہی تو آپﷺ نے شہد کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا۔

دوسری جانب ابن جریج۱۰ کا بیان ہے کہ شہد حضرت زینبؓ کے گھر آیا تھا اور سازش حضرت عائشہؓ نے حضرت حفصہؓ کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اگرچہ دونوں ہی روایتیں سورت کے مضمون سے ٹکرا رہی ہیں مگر محدثین نے ہشام بن عروہ کو ابن جریج کے مقابلے میں زیادہ ثقہ راوی قرار دیا ہے،  لہٰذا اگر شہد ہی کی روایت پر مضمون کھڑا کرنا تھا تو ہشام  کی روایت کو فوقیت دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن بیشتر تفاسیر نے ابن جریج کی روایت کو ہشام کی روایت پر ترجیح دی ہے،  شاید اس لئے کہ ہشام کی روایت صرف حضرت عائشہؓ کو منصوبہ ساز بتا رہی ہے اور ابن جریج۱۱ کی روایت حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ حضرت حفصہؓ (دختر حضرت عمرؓ فاروق،  فاتح ایران) کو بھی مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔

بیان سے تو صاف ظاہر ہے کہ بیویوں کی خواہش شہد کو تو حرام قرار دلوانے کی ہرگز نہیں تھی،  بلکہ وہ تو چاہتی تھیں کہ آپ حضرت حفصہؓ (یا ابن جریج کے مطابق حضرت زینبؓ) کی طرف زیادہ وقت نہ گزاریں۔ بالفرض اگر شہد حرام قرار دینے کے بعد حضرت زینبؓ (یا ہشام کے مطابق حضرت حفصہؓ) کوئی اور مرغوب شے نبی اکرمﷺ کو پیش کرتیں تو کیا باقی بیویوں کا مقصد حاصل ہو جاتا؟ قرآن کی آیت تو واضح کر رہی کہ آپﷺ نے جو چیز حرام کی تھی وہ بیویوں کی خوشنودی کے لئے کی تھی،  گویا نبی اکرمﷺ کو بیویوں کی خوشنودی معلوم تھی اور روایات یہ بتا رہی ہیں کہ شہد حرام قرار دلوانا بیویوں کا مطمع نظر تھا ہی نہیں۔ اس قصہ میں تیسرا جھول یہ ہے کہ آیت کے مطابق کوئی چیز نبیﷺ کے لئے خاص حلال کی گئی تھی جو انہوں نے حرام کر لی،  جبکہ روایات یہ بتا رہی ہیں کہ ایک مطلق حلال شے (شہد) نبیﷺ نے اپنے اوپر حرام کر لی۔ اگر یہی قصہ اس آیت کا پس منظر ہوتا تو آیت کا متن یوں ہونا چاہیے تھا:

یٰاَیهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ لَـكَ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ

یعنی (اے نبی) تم اس شے کو اپنے اوپر کیوں حرام کر رہے ہو جو الله نے حلال کی ہے۔

جب کہ اصل آیت میں زور اس بات پر ہے کہ وہ شے کیوں حرام کی گئی ہے جو الله نے خاص (اے نبی) تمہارے لیے حلال کی ہے۔ دوسری بات سورہ تحریم ہی کی دوسری آیت کہہ رہی ہے کہ ‘خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے’ یعنی سورہ تحریم کے نزول سے پہلے ہی الله قسموں کے کفارے کے متعلق احکامات نازل کر چکا ہے اور یہ احکامات سورہ مائدہ میں وارد ہوئے ہیں۔ سورہ مائدۃ کی آیت نمبر ۸۹ میں الله تعالیٰ فرماتا ہے:

لَا یؤَاخِذُكُمُ  ۔۔۔ لَعَلَّكُمۡ    تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۸۹﴾

خدا تمہاری بلارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ﴿۸۹﴾

یہ آیت مختلف النواع قسموں کے کفارے کے بارے میں بنیادی حکم رکھتی ہے،  لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیت سے بالکل پہلے سورہ مائدہ میں جو مضمون چل رہا ہے وہ یہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

وَالَّذِیۡنَ كَفَرُوۡا ۔۔۔بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۸۸﴾

مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ﴿۸۷﴾  اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو ﴿۸۸﴾

آیت نمبر۸۷ مومنین سے کہہ رہی ہے کہ وہ پاکیزہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کریں۔ اور آیت نمبر ۸۸ میں کھانے کی حلال پاکیزہ چیزوں کو خصوصی وضاحت کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے کہ انہیں حرام نہ کیا جائے اور آیت نمبر ۸۹ میں (جس کا حوالہ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۲ میں بھی دیا گیا ہے) کہا گیا ہے کہ اگر قَسماً کوئی حلال شے اپنے اوپر حرام کر لی گئی ہے تو قسم کا کفارہ دے کر اس کو واپس حلال کر لیا جائے۔ اگرچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۹ کا حکم تو عمومی ہے مگر آیت نمبر ۸۸ کا زور حلال پاکیزہ خوردنی اشیاء پر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  صاحب قرآن،  مجسم قرآن،  سورہ مائدہ کے نزول کے بعد بھی کیسے ایک حلال اور پاکیزہ خوردنی چیز کو صرف اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے حرام قرار دے سکتے تھے؟ جبکہ روایات خود بھی اس بات میں واضح ہیں کہ بیویوں کی منشا اس خوردنی چیز کو حرام قرار دلوانے میں تھی بھی نہیں۔ کیا نبی اکرمﷺ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قرآن کے نازل شدہ احکام کی خلاف ورزی کریں اور وہ بھی شہد جیسی چیز کے لئے،  جس کو الله نے سورہ مائدہ اور تحریم دونوں کے نزول سے برسوں قبل،  ہجرت سے ۲ سال پہلے نازل ہونے والی سورت،  سورہ نحل کی آیت نمبر ۸۹ میں لوگوں کے لئے شفا قرار دے دیا تھا۔

فِیۡهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‌

اس (شہد) میں لوگوں کے لئے شفا ہے

شہد کے متعلق ان دونوں روایات کو اگر دور نزول کے مطابق پرکھا جائے تو بھی یہ صحیح ثابت نہیں ہوتیں۔ ہشام کی روایت میں حضرت صفیہؓ کو ان بیویوں میں بتایا گیا ہے جو حضرت عائشہؓ کے ساتھ سازش میں شریک تھیں۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۵ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اس سورت کا نزول سورہ احزاب (ذوالقعدہ ۵ ہجری) سے پہلے ہوا ہے۔ جب کہ حضرت صفیہؓ غزوہ خیبر (۷ ہجری) کے بعد حرم نبویؐ میں داخل ہوئی ہیں۔ دوسری طرف ابن جریج کی روایت کہتی ہے کہ شہد حضرت زینبؓ بنت جحش کے گھر میں نوش فرمایا تھا،  حضرت زینبؓ کی شادی غزوہ احزاب کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی اور سورہ تحریم کے نزول کے وقت وہ ام المومنین کے درجہ پر فائز ہی نہیں ہوئی تھیں۔

ان دونوں قصوں کے علاوہ ایک تیسرا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر۱۲ میں بھی درج کیا ہے وہ یہ ہے کہ الله نے نبی اکرمﷺ کے لئے ہبہ کو حلال قرار دیا تھا۔ ہبہ یہ ہے کہ کوئی عورت خود اپنے آپ کو نبی اکرمﷺ کی زوجیت میں (بلا مہر) پیش کرے۔ اور نبی اکرمﷺ بھی اس کی اس درخواست کو قبول کر لیں تو وہ عورت آپﷺ کی زوجیت میں آ جائے گی (حضرت میمونہ ؓ بنت حارث سے آنحضرتؐ کا نکاح عمرہ قضاء ۷ ہجری کے موقع پر  ہبہ ہی کے مطابق منعقد ہوا تھا ۱۳)۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ عورتیں امہات المومنین کے حجروں میں آ کر بھی ہبہ کے  اصول کے مطابق نکاح کی درخواست پیش کر دیتی تھیں۔ اور یہ بات انسانی فطرت کے تحت امہات المومنین کو پسند نہیں آتی تھی۔ لہٰذا نبی اکرمﷺ نے اپنی بیویوں کی خواہش کے احترام میں ہبہ کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا۔

اگرچہ مروجہ قصوں کے برعکس یہ قصہ سورہ تحریم کی پہلی دو آیتوں کے الفاظ  سے تو متصادم نہیں کیونکہ اس کے مطابق تمام بیویوں کی خوشنودی کے لئے یہ اقدام کیا گیا تھا اور مزید یہ کہ ہبہ کی اجازت صرف نبی اکرمﷺ کے لئے خاص تھی نہ کہ عام مسلمانوں کے لئے بھی۔ لہذا اگر آیات کے الفاظ کی بنیاد پر کسی قصے کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی تو وہ یہی قصہ ہونا چاہیے تھا مگر اردو تفاسیر میں شاذ و نادر ہی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن  سورت کے الفاظ سے عدم مطابقت نہ رکھنے کے باوجود بھی یہ قصہ اس سورت کی شانِ نزول کے طور پر قبول نہیں کیا   جا سکتا کیونکہ  پچھلے دونوں قصوں کی مانند یہ قصہ بھی سورہ تحریم کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتا،  اس لیے کہ ہبہ کی اجازت سورہ احزاب ۱۴ میں دی گئی ہے اور باعتبار نزول سورہ تحریم سورہ احزاب پر مقدم ہے۔

درحقیقت غزوہ احد کے بعد ذوالقعدہ ٣ ہجری میں عائلی قوانین بڑے تفصیل سے نازل ہوئے۔ سورہ نساء کی پہلی ١٨ آیات ۱۵ یٰـا ایهَا النَّاسُ کے صیغے کے ساتھ وارد ہوئیں۔ جن کا اطلاق نبی پاکﷺ کو چھوڑ کر بقیہ مسلمانوں پر تھا۔ انہی قوانین میں مالی وراثت کے احکامات بھی بیان کے گئے (واضح رہے کہ رسولوں کی مالی وراثت نہیں ہوتی)۔ مسلمان مرد کے لئے   مہر کے ساتھ نکاح کی شرط ہے (جبکہ نبی کے لیے سورہ احزاب میں  ہبہ جائز کیا گیا ہے)اور انہی آیات میں مسلمان مرد کے لئے ۴ بیویوں کی تحدید کر دی گئی۔ غزوہ احد میں ٧٠ مسلمان شہید ہوئے اور کئی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ رسول پاکﷺ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہؓ کی بیوہؓ سے نکاح کر لیا۔ تاہم اُن خاتونؓ کا تین ماہ بعد ہی انتقال ہو گیا۔ مدینہ منورہ کا یہ دور جہاں اندرونی اور بیرونی شورشوں کو لے کر بہت کٹھن تھا،  وہیں مسلمان معاشی طور بھی بہت پریشان تھے۔ مہاجروں کی صورتحال بہت زیادہ مخدوش تھی۔ خاندان نبویؐ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔

سن ۴ ہجری میں سریۃ بنو اسد وقوع پذیر ہوا۔ حضرت ابو سلمیٰ ؓ(حضورؑ کے ایک اور پھوپھی زاد بھائی) وہاں سے واپسی پر جمادی الثانی ۴ ہجری میں شہید ہو گئے۔ رسول پاکﷺ نے ان کی اہلیہ حضرت ام سلمیؓ سے شوال ۴ ہجری میں نکاح فرما لیا۔ حضرت ام سلمیٰؓ درمیانی عمر کی ایک عیال دار عورت تھیں۔ آپؓ کے پہلے نکاح سے ۴ بچے بھی تھے۔ اور اب وہ بچے بھی رسول پاکﷺ کے زیر کفالت آ گئے تھے۔

ربیع الاول ۴ ہجری میں غزوہ بنو نضیر کے بعد ‘مالِ فے’ کی صورت میں مسلمانوں میں کچھ معمولی مالی کشادگی آئی تھی،  مگر غزوہ احد کے شہداء کے اہل خانہ اتنی تعداد میں تھے کہ وہ مال مسلمانوں کی مجموعی حالت میں کوئی نمایاں فرق نہیں لا سکا۔ حضرت ام سلمیٰؓ سے نکاح کے بعد بیت نبویﷺ میں پانچ افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ اور اس  نکاح کے بعد وہ موقع آیا جب ازواج کرامؓ بشمول حضرت ام سلمیٰؓ نے (ازروئے روایات عکرمہ،  یحییٰ بن سعید،  زہری) نے رسول الله سے مزید نان نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں سورہ تحریم نازل ہوئی۔ اور اس کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اس میں ان چاروں ازواج کرامؓ کو یہ اختیار دیدیا گیا تھا کہ اگر وہ دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو بھلے طریقہ سے ان کو کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ الله،  رسول اور آخرت کی طلبگار ہیں تو الله نے ان کے لئے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۱۶۔ چاروں ازواجؓ (حضرت سودہؓ،  عائشہؓ،  حفصہؓ اور ام سلمیؓ) نے الله اور رسول کو ہی منتخب کیا اور دنیاوی رزق کی کشائش کے مطالبہ سے دستبردار ہو گئیں (احزاب ٢٨ .٢٩)۔ غالباً جس وقت آپﷺ کی ازواجؓ نے نان نفقہ کی کشائش کا مطالبہ کیا تھا اس وقت یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح آپﷺ بھی اپنے آپ کو ۴ بیویوں تک ہی محدود رکھیں گے۔ نبی کریمﷺ نے ازواجؓ کی خوشنودی کے لئے اس مطالبہ کو منظور کر لیا۔ لیکن ۵ ہجری میں کچھ ایسے واقعات مدینہ منورہ میں پیش آئے (جن کا ذکر آیات نمبر ٣ کی تفصیلات میں آئے گا)،  کہ الله تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو مزید شادی نہ کرنے کی اپنی قسم سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔ کیونکہ اب آپﷺ کو چار بیویوں کی موجودگی میں پانچواں نکاح کرنے کا حکم دیا جانے لگا تھا۔ اور اس نکاح سے پہلے ازواجؓ کو دنیا و آخرت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس اختیار کا ذکر سورہ احزاب میں ٢٨.٢٩ میں ہے۔ جبکہ پانچویں نکاح کا ذکر آیت ٣٧ میں ہے۔ ۱۷

سورہ تحریم کی آیت نمبر ایک میں جس چیز کا اشارہ دیا گیا ہے ‘یٰ اَیهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا  اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌ۚ’،  جو الله نے تمہارے لئے حلال کی،  اس کی تصدیق سورہ احزاب کی آیت نمبر ٥٠ میں کر دی گئی ہے ‘اَیهَا النَّبِىُّ اِنَّا  اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ’ یعنی ‘اے نبی ہم نے تم پر حلال کی ہیں تمہاری (پانچوں) بیویاں‘، پانچوں اس لئے،  کہ سورہ احزاب ہی میں اس آیت سے پہلے آیت ٣٧ میں پانچویں نکاح کے تصدیق کر دی گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس (پانچویں) نکاح کی اتنی اہمیت کیوں تھی۔ اور سورہ تحریم میں اس کا بالکل واضح ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ تو اس کا جواب آیت نمبر ٣ کی تفسیر میں آ جائے گا۔ لیکن کیونکہ یہ نکاح رسول الله کے لئے بھی ایک بہت بڑی آزمائش تھا،  جس کا مختصر ذکر سورہ تحریم کی آیت نمبر ٩ میں ہے اور سورہ احزاب کا پورا پہلا رکوع (آیت نمبر ١تا ٨ ) اسی سے متعلق ہے۔ سورہ تحریم کی دوسری آیت کے آخری دو الفاظ هُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَكِیۡمُ اسی  بات کی اہمیت واضح کر رہے ہیں یعنی کہ الله علیم ہے وہ سب کچھ جانتا ہے (جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی اور جو کچھ آیندہ ہونا ہے وہ بھی،  جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہے وہ بھی اور جو کچھ زبانوں پر ہے وہ بھی)،  لہٰذا اب الله کی یہی حکمت ہے کہ حضرت زینبؓ بنت جحش سے نبی پاک ﷺ کے نکاح کا وقت آ گیا ہے۔ (اور اسی حکمت کے تحت ابتداء  ہی میں جب سورہ نساء (۳  ہجری)  میں مسلمان مردوں کے لیے چار نکاح کی تحدید کی گئی تھی تو نبی اکرمﷺ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا)۔

غور کیا جائے تو کتنے واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کے بعد خود بھی اس بات کی وضاحت (اوپر پیش کی گئی) سورہ احزاب کی خط کشیدہ  آیت نمبر ٥٠  میں کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو مزید نکاح حلال رکھے تھے جو کہ رسولﷺ نے ازواج کی خوشی کے لیے خود اپنے اوپر حرام کر لیے تھے۔ قرآن کریم کی بہترین تفسیر قرآن خود ہی کر دیتا ہے- ایک جگہ ایک بات اگر مختصر الفاظ میں بیان کرتا ہے تو دوسری جگہ اسی بات کو کھول کر بیان کر دیتا ہے- سورہ نحل کی آیت نمبر ۸۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

وَنَزَّلۡنَا  ۔۔۔۔ لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ‏ ﴿۸۹﴾

اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے ﴿۸۹﴾

قرآن کریم کے اتنے واضح اور دو ٹوک بیان کے باوجود بھی،  اس نوعیت کی شان نزولوں کی بنیاد پر فیصلے صادر کرنا،  جو کہ نہ صرف آیات کے الفاظ کا احاطہ نہیں کر پاتیں بلکہ ان سے متصادم بھی ہوتی ہیں،  ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شانِ نزول کی روایتیں نہ ہوتیں تو قرآن کو سمجھنا ناممکن ہو جاتا- سورہ تحریم کے سلسلے میں تو کم از کم ایسا نظر نہیں آ رہا۔ ایک ہی آیت کے سلسلے میں اتنی متنوع اور متضاد روایتیں پیش کی گئی ہیں جو کہ ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب بیک وقت قبول بھی نہیں کی جا سکتیں۔ لہذا ہر مفسر نے اپنے ذوق کے مطابق بعض روایات کو ترجیح دیکر قبول کر لیا اور پھر انہی کے آئینے میں تفسیر کر دی۔ تطبیق کے قائل لوگوں نے کہا کہ تمام ہی روایتیں شان نزول کا باعث ہیں، اور جب تمام واقعات ہو گئے تبھی آیات نازل ہوئی تھیں-  یہی وجہ ہے کہ تفاسیر میں اتنا اختلاف نظر آ رہا ہے- جبکہ قرآن کا دعوی یہ ہے کا وہ اختلاف سے بالکل مبرا ہے ۱۸،  اور یہی بات اس کے کتابُ اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ ان روایات  نے تفاسیر میں اختلافات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ضرور کیا ہے،  وہ یہ کہ بیتِ نبویؑ کی ایک مکروہ منظر کشی کی ہے کہ وہاں صرف سازشیں بُننے والی عورتیں رہتی تھیں اور نعوذبااللہ حضور پاکﷺ ایک کوتاہ نظر اور عجلت پسند شخص تھے۔

 

آیات نمبر۳اور۴ کا بیان

 

وَاِذۡ اَسَرَّ  ۔۔۔ بَعۡدَ ذٰلِكَ ظَهِیۡرٌ‏ ﴿۴﴾

اور (یاد کرو) جب نبی نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اُس نے وہ بات نے دوسری کو بتا دی) ۔ جب اُس نے اس بات کو افشا کیا اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی،  تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی،  پس جب نبیؐ نے اُس کو وہ بات جتلا دی تووہ پوچھنے لگی کہ آپ کو کس نے بتایا؟ نبیؐ نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے ﴿۳﴾  اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اور اگر تم نبیؐ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں ﴿۴﴾

آیت نمبر ٣ یہ بتا رہی ہے کہ نبی پاکﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہؓ کو ایک بات بتائی اور وہ بات انہوں نے ایک دوسری زوجہؓ پر ظاہر کر دی تھی۔ جن لوگوں نے پہلی دو آیتوں کو حضرت ماریہؓ کے قصہ سے متصف کیا ہے،  انہوں نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ نبی پاکﷺ نے حضرت حفصہؓ کو حضرت ماریہؓ کو حرام کرنے کی بات کی تشہیر کرنے سے منع کر دیا تھا مگر وہ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں۔ یہ بات سورت کے نظم سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ جب بھی قرآن کریم میں ‘وَاِذۡ’ سے کلام شروع ہوتا ہے تو ایک نئی بات شروع کی جا رہی ہوتی ہے۔ حضرت ماریہؓ کو حرام کرنا اور حضرت حفصہؓ کو عدم ذکر کی تاکید کرنا ایک ہی مجلس کا واقعہ بنتا ہے۔ اگر یہی قصہ ان آیات کی شان نزول ہوتا تو تیسری آیت کے آغاز میں ‘وَاِذۡ’ کا استعمال نہ ہوتا۔

جن لوگوں نے ان آیتوں کا تعلق شہد سے جوڑا ہے ان کا کہنا ہے کہ حضرت حفصہؓ نے یہ بات حضرت عائشہؓ کو بتائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہشام کی روایت ہو یا ابن جریج کی،  دونوں نے حرام کروانے میں بنیادی کردار حضرت عائشہؓ کا ہی بیان کیا ہے،  لہٰذا اگر خوشنودی کے لیے ہی شہد کو حرام کیا گیا تھا تو کم از کم حضرت عائشہؓ کو تو مطلع کیا ہی جانا چاہیے تھا۔

ان دونوں روایات کی کمزوریوں کے پیشِ نظر شاہ ولی الله نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں تیسری اور چوتھی آیت کے سلسلے میں ایک اور شان نزول بھی بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے نبی پاکﷺ کو ان کے بعد حضرت ابو بکرؓ  اور حضرت عمرؓ کی خلافت کی خبر دی تھی۔ یہ بات نبیؐ نے حضرت حفصہؓ کو بتائی اور کسی کو نہ بتانے کی تاکید کی۔ حضرت حفصہؓ غالباً اس گمان میں کہ اس میں اگر میرے والد کا ذکر ہے تو حضرت عائشہؓ کے والد کا بھی ذکر ہے،  انہوں نے اس کی خبر حضرت عائشہؓ کو بھی دیدی۔ اگرچہ یہ بیان سورت کی ان دونوں آیتوں کے الفاظ سے نہیں ٹکرا رہا لیکن سورت کے عمومی ربط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ جن لوگوں کو نظم قرآن سے کوئی دلچسپی نہیں ان کو تو اس روایت کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن شاہ ولی الله کے لکھنے کے باوجود بھی کسی بھی نمایاں اردو تفسیر میں اس روایت کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو انتہائی ضمنی طور پر۔

اصل بات یہ تھی کہ غزوہ احد (۳ ہجری) کے بعد جب سورہ نساء نازل ہوئی تو اس میں تفصیلاً عائلی قوانین بھی بیان کیے گئے۔ انہی قوانین میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ حرمت کے رشتے اب صرف خون،  سسرال یا رضاعت کے واسطہ سے ہی ثابت ہو سکیں گے۔ انہی تفصیلات میں سورہ نساء کی آیت نمبر ٢٣ میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ:

وَحَلَا ٮِٕلُ اَبۡنَآٮِٕكُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ

(حرام ہیں تم پر) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی

یعنی اب وہ عورتیں جو کسی شخص کے سگے بیٹوں،  پوتوں یا نواسوں کی بیویاں رہ چکی ہیں وہ اس کے لیے ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی ہیں۔ اس وقت (۳ ہجری) کے مدنی معاشرے میں زبان کی بنیاد پر بھی رشتے قائم تھے جن کو متبنیٰ کہا جاتا تھا اور ان کی حرمت بالکل حقیقی رشتوں کی مانند ہوتی تھی-۔ گویا اس آیت کے ذریعے منہ سے بولے ہوئے رشتوں پر یہ پہلی ضرب لگائی گئی تھی      ۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ایک واقعہ ہوا،  انصارِ مدینہ سے تعلق رکھنے والی ایک صحابیہ حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کو ان کے شوہر نے ماں سے تشبیہ دے دی (فقہی زبان میں اس کو ظہار کہا جاتا ہے)۔ حضرت خولہؓ معاملہ کو لے کر نبی پاکﷺ کے پاس حاضر ہوئیں،  اور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگیں۔ اس پر سورہ مجادلہ (آیات ۱ تا ۴)۱۹ نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ منہ سے بول دینے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ نتیجتاً آپﷺ نے دوبارہ رجوع کروا دیا۔ کیونکہ قدیم زمانے سے عرب معاشرے کے رواج میں منہ سے بولے ہوئے رشتے کا تقدس بالکل حقیقی رشتے کے جیسا ہوتا تھا اور کوئی مرد اگر اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا تو وہ اس پر ہمیشہ کے لئے ماں کی طرح سے حرام ہو جاتی تھی،  جبکہ طلاق کی صورت میں دوبارہ رجوع کی گنجائش باقی رہتی تھی۔ لہٰذا بعض لوگوں کو حضرت خولہؓ کا یہ رجوع باآسانی قبول کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس معاملے سے کچھ ہی عرصہ پہلے،  یعنی ۴ ہجری میں ہونے والے دو واقعات،  غزوہ بنو نضیر (ربیع الاول ۴ ہجری) اور غزوہ بدرالصغری (شوال/ذوالقعدہ ۴ ہجری) میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی غیر معمولی برتری نے منافقین مدینہ اور یہودیوں(بنو قریظہ) کو پہلے ہی بہت جزبز کر رکھا تھا۔ حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کے واقعہ نے ان کو فتنہ پھیلانے کے لئے ایک نیا موقع فراہم کیا اور وہ معاشرے میں اس حکم کے خلاف باتیں پھیلانے لگے۔ سورہ مجادلہ کی اگلی آیات اسی فتنہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ آیت نمبر ٨ میں الله تعالیٰ انہی منافقین کی بابت فرماتا ہے:

اَلَمۡ  ۔۔۔ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ‏ ﴿۸﴾

کیا آپؐ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں سرگوشیوں سے منع کیا گیا تھا پھر وہ لوگ وہی کام کرنے لگے جس سے روکے گئے تھے اور وہ گناہ اور سرکشی اور نافرمانیِ رسولؐ سے متعلق سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب آپؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں تو آپؐ کو اُن (نازیبا) کلمات کے ساتھ سلام کرتے ہیں جن سے اللہ نے آپؐ کو سلام نہیں فرمایا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ رسول سچے ہیں تو) اللہ ہمیں اِن (باتوں) پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں؟ انہیں دوزخ (کا عذاب) ہی کافی ہے،  وہ اسی میں داخل ہوں گے،  اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے،  ﴿۸﴾

آگے چل کر سورہ مجادلہ ہی میں الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو سرگوشیاں کرنے اور ایسے لوگوں سے دوستیاں رکھنے سے منع فرمایا۔

منہ بولے رشتوں کی حرمت کی مکمل طور پر بیخ کنی کے لیے الله تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کے اس وقت (۵ ہجری) تک کے لے پالک بیٹے،  حضرت زیدؓ بن حارثہ (جو کہ اس وقت کے عرب قاعدے کے مطابق زیدؓ بن محمدؐ کہلاتے تھے) کی مطلقہ،  حضرت زینبؓ بنت جحش سے خود رسول پاکﷺ کو نکاح کرنے کا حکم دے دیا۔ اس بات کا ذکر آنحضرتﷺ نے اپنی ایک زوجہؓ محترمہ سے کیا کہ الله نے مجھے حضرت زینبؓ سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ مدینہ کا ماحول پہلے ہی حضرت خولہؓ کے واقعہ کو لے کر منافقین اور یہود نے آلودہ کیا ہوا تھا۔ نبی پاکﷺ نے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے اس حکم کو فی الوقت ظاہر نہ کرنے کی تاکید کی تھی۔ لیکن ام المومنینؓ یہ قیاس کرتے ہوئے کہ شاید نبیﷺ نے گھر سے باہر بتانے سے منع کیا ہے،  اس بات کو دوسری ام المومنینؓ کے آگے ظاہر کر بیٹھیں۔ یہ بات واضح رہے کہ دوسری زوجہؓ محترمہ نے اس بات کو کسی اور پر ظاہر نہیں کیا جس کی گواہی خود الله نے سورہ تحریم کی اسی آیت نمبر ۳ میں اپنے اور اپنے نبیﷺ کے الفاظ میں دو بار دی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘اَظۡهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیۡهِ’ یعنی یہ بات خود اللہ نے نبی پاکؐ پر ظاہر کی تھی،  اور پھر جب پہلی بیویؓ نے یہ پوچھا کہ آپؐ کو یہ بات کس نے بتائی (کیونکہ انؓ کو یہ خیال گیا کہ ممکن ہے کہ دوسری بیویؓ نے نبیؐ تک یہ بات پہنچائی ہو)،  تو رسول پاکﷺ نے فرمایا ‘نَـبَّاَنِىَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیْرُ’ یعنی ‘مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے’۔

اللہ تعالیٰ نے دونوں ازواجؓ کو توبہ کا حکم دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بیویؓ نے تو  ایک راز افشا کیا اس وجہ سے ان کو توبہ کا حکم دیا گیا۔ لیکن  دوسری بیویؓ نے تو وہ راز بشمول نبی اکرمﷺ  کسی  پر بھی ظاہر نہیں کیا تھا،  تو آخر دونوں بیویوںؓ سے توبہ کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم الله کی طرف سے اس کے رسولؐ کو دیا گیا تھا۔ اور اس وقت کے زمینی حقائق کے مد نظر کوئی معمول کی نوعیت کا حکم بھی نہیں تھا۔ اس لئے دونوں بیویوںؓ کو بتایا گیا کہ وہ اپنے آپ کو محض محمدؐ بن عبداللہ ہی کی بیویاں نہ سمجھیں بلکہ وہ محمدؐ رسول الله کی بیویاں ہیں،  اس لیے جب پہلی بیویؓ کو رسولﷺ نے ذکر کرنے سے منع کیا تھا تو انؓ کو یہ بات زبان سے نکالنی ہی نہیں چاہیے تھی- مگر پھر بھی جب انہوں نے دوسری بیویؓ کے سامنے اس بات کا ذکر کر ہی دیا تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللهﷺ نے یہ بات ابھی دوسری بیویؓ کو نہیں بتائی تو انؓ کو الله سے توبہ کرنی چاہیے تھی اور دوسری بیوی‌‌ؓ کو بات وہیں دفن کرنے کے ساتھ ساتھ پہلی بیویؓ کو متنبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ رسول اللهﷺ کے حضور معذرت کر لیں کہ وہ اس بات کو اپنے تک محدود نہیں رکھ سکیں۔ اب کیونکہ دونوںؓ ہی کسی درجہ میں خطا کر بیٹھی تھیں لہٰذا دونوںؓ ہی کو توبہ کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ الله نے توبہ کا حکم دینے کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ دونوں بیویوںؓ کے دل پہلے ہی حق کی طرف مائل تھے کیونکہ توبہ کے حکم کے فوری بعد ‘فقد صغت قلوبکما’ کے الفاظ آئے ہیں یعنی ‘تمہارے دل حق کی طرف (پہلے ہی) مائل ہیں’۔ اگر یہاں پر ‘صغت’  کی بجائے ‘زاغت’ کا لفظ آتا تو اس کا مطلب ‘تمہارے دل کج ہو گئے ہیں’ کے ہوتے۔ مگر آفریں ہے ان لوگوں پر جو کلام الله میں تو ‘صغت’ پڑھتے ہیں لیکن اس کا مفہوم ‘زاغت’ کا لیتے ہیں۔

توبہ کے حکم ساتھ ہی الله نے تنبیہ بھی کر دی ہے کہ گو ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی یقیناً اچھی بات ہے مگر رسولؐ کے صریح حکم کے مقابلے میں ایک دوسرے کی پردہ پوشی اچھا عمل نہیں ہے۔ اور یہ بھی وضاحت کر دی کہ اگر رسولؐ کے مقابلے میں تم دونوں ایک دوسرے کی یونہی مدد کرتی رہیں تو رسولؐ تنہا نہیں ہے اور اس حکم کی عمل درآمدگی کے بارے میں اس کے مددگار الله،  جبرائیل امین (کیونکہ یہ حکم بزبان جبرائیل امین آیا تھا)،  صالح المومنین (غالباً یہاں ان دونوں ازواجؓ کے والد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ مراد ہیں،  بروایت عکرمہ، زہری) اور فرشتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ سورہ نساء غزوہ احد کے بعد ۳ ہجری میں نازل ہوئی۔ سورت کا آغاز یٰـّا ایهَا النَّاسُ کے صیغے سے ہوا ہے اور اس کی ابتدائی ۱۸ آیات کے احکامات کا نفاذ نبیؐ کو نکال کر باقی مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اس لئے ہمیں معلوم ہے کہ نبیؐ کی وراثت بھی کوئی نہیں تھی اور چار شادیوں کے قانون کا اطلاق بھی نبیؐ پر نہیں تھا۔ لیکن نبی اکرمﷺ نے بیویوںؓ کی خوشنودی کے لئے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ۴ شادیوں سے زیادہ نہیں کریں گے۔ سورہ تحریم کے نزول کے وقت نبی اکرمؐ کی زوجیت میں ۴ بیویاں حضرت سودہؓ،  حضرت عائشہؓ،  حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ تھیں۔

اسلام کی دعوت کو الله نے آفاقی اور عالمی بنانا تھا اور اس مقصد کے لئے تمام سماجی اور معاشرتی رسمیں جو اسلام سے متصادم تھیں ان کا بھی سد باب لازمی تھا۔ اسی لئے سورہ مجادلہ جو سورہ تحریم سے پہلے نازل ہوئی ہے اس میں منہ سے بولے گئے رشتوں (بیوی کو ماں قرار دے دینا) پر ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ الله نے     چہ میگوئیاں،  سرگوشیاں اور سازشیں کرنے والوں کو سخت عذاب کی نوید بھی سنائی ہے۔ ہمارے آج کے معاشروں میں بھی اگر کوئی بات ہمارے رسم و رواج کے خلاف ہو تو سخت طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاروکاری،  ونی،  سوراہ جیسی رسمیں ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہیں،  لیکن ان کے ماننے والے ان کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں۔ عرب کا معاشرہ بھی اسی دنیا کا معاشرہ تھا وہاں بھی ظہار جیسی رسمیں معاشرے کے لیے زہرِ قاتل بنی ہوئی تھیں۔ اور ایسی رسومات کو معاشرے کی جڑوں سے اکھیڑنے کے لیے لازم تھا کہ منہ سے بولے ہوئے رشتوں پر ہی ضرب لگا دی جائے۔ اور اس کا موثر ترین عملی اظہار خود رسولؐ کا انہی کے متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کی صورت میں ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ فوری رد عمل کے طور پر یہودی (بنو قریظہ) اور منافقین مدینہ اس موقع سے  فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں رسول اکرم کے کردار کے خلاف شکوک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی دورِ جاہلیت کی معاشرتی حمیت کو اجاگر کر کے ان کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی کی وجہ سے سورہ مجادلہ ہی میں الله نے مسلمانوں کو سخت الفاظ میں تلقین کر دی تھی کہ وہ چہ میگوئیوں کا حصہ نہ بنیں۔ سورہ مجادلہ کی آیت نمبر ۹ میں کہا گیا کہ:

یٰاَیهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُو ۔۔۔ اِلَیۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾

مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکو کاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا ﴿۹﴾

 

آیت نمبر۵کا بیان

 

عَسٰى رَبُّهٗ اِنۡ ۔۔۔ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿۵﴾

بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں،  فرمانبردار،  باایمان،  اطاعت گزار،  توبہ گزار،  عبادت گزار،  روزہ دار،  خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواریاں ﴿۵﴾

 

آیات نمبر ۵ میں گفتگو کا رخ اس وقت کی موجود تمام ازواجؓ کی طرف پھیر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو مستقل یاد رکھیں کہ وہ محمدؐ رسول الله کی بیویاں ہیں اور الله اس بات پر قادر ہے کہ اگر رسولﷺ تم بیویوں کو (یا تم میں سے کسی کو) طلاق دے دیں تو وہ دوسری بیویاں عطا کر دے جو کہ اطاعت گزاری،  ایمان،  نماز،  توبہ،  عبادت و ریاضت میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ کلام اگرچہ سخت ہے مگر ساتھ ہی الله نے امت کے سامنے اس بات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ امہات المومنینؓ ان تمام خصوصیات سے متصف ہیں۔ مثلاً اگر کوئی مالک اپنے کسی ماتحت کو یہ کہے کہ اگر تم نے فلاں کام نہ کیا تو میں تم سے زیادہ قابل شخص کو وہ کام سونپ دوں گا تو یہاں یہ بات اپنے ایک اندر ایک تنبیہ تو ہے ہی مگر ساتھ ہی اس بات کی تصدیق بھی ہے کہ ماتحت ایک قابل شخص ہے۔ پچھلی آیات کے مطالعہ سے تو یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ امہات المومنینؓ کی ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا مگر تنبیہ کا انداز اتنا سخت اس لئے ہے کہ،  ‘جن کے رتبے ہیں سِوا،  ان کی سِوا مشکل ہے’۔ اگر الله نے ان کو اتنے بلند مقام پر فائز کیا ہے تو ان سے توقعات بھی اسی طرح زیادہ بھی ہونگی۔

سورہ تحریم کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اس کی آیات ٢٨- ٢٩ میں ازواج کرامؓ کو واضح الفاظ میں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ دنیا کی سہولتوں کی طلبگار ہیں تو ان کو کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جائے گا اور اگر وہ آخرت کی کامیابی کی امید رکھتی ہیں تو ان کے لئے بڑے اجر کا وعدہ ہے۔ تمام ازواجؓ نے آخرت کو ہی ترجیح دی اور الله تعالیٰ نے ازواج کے اس عمل سے راضی ہو کر نبی پاکﷺ سے طلاق کا حق سلب کر لیا۔۲۰

سورہ احزاب کی آیت نمبر ٥٢ میں بتا دیا گیا کہ مخصوص کلیہ کے باہر اب نبی پاکﷺ پر کوئی عورت حلال نہیں ہے۔ مزید یہ کہ موجود بیویوںؓ کو چھوڑ کراس کلیہ میں سے بھی کوئی شادی نہیں کی جا سکتی۔ تاہم لونڈیوں کے سلسلے کے قوانین وہی ہونگے جو عام مسلمانوں کے لئے ہیں۔ (یعنی حضرت ماریہؓ کو الگ کرنے کا اختیار تو ان کے حرم نبویؐ میں داخل ہونے سے دو سال پہلے،  ٥ ہجری میں ہی الله تعالیٰ نے تفویض بھی کر دیا تھا)۔

سورہ تحریم کی اس آیت میں دو ایسے الفاظ ایسے بھی ہیں جن کی ترتیب بہت غور طلب ہیں۔ ازواجؓ کو تنبیہ کے ساتھ جب نبیؐ کے لیے  جدید بیویوں کا ذکر ہوا تو   ثیبہ یعنی شوہر دیدہ کا ذکر باکرہ یعنی کنواری کے ذکر سے پہلے آیا ہے۔ نبی پاکﷺ کی اس وقت کی بیویوں میں تین شوہر دیدہ تھیں اور کنواری صرف ایک یعنی حضرت عائشہؓ تھیں۔ روایات بتاتی ہیں کہ ساری ‘چلتر بازیاں’ حضرت عائشہؓ (کنواری بیوی) کے ذہن کی پیداوار تھیں۔ لہٰذا جب الله کی طرف سے تنبیہ آ رہی ہے تو کنواری کا ذکر شوہر دیدہ کے ذکر سے پہلے آنا چاہیے تھا،  مگر ایسا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ کیونکہ شوہر دیدہ اکثریت میں تھیں اس لئے شوہر دیدہ کا لفظ پہلے آیا ہے،  تو اس بات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیویاں لگ بھگ برابر کی ہی خطاوار تھیں اور حضرت عائشہ ہرگز زیادہ خطاوار نہیں تھیں۔ ان کو اصلی ‘مجرم’ دکھا کر درحقیقت یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ سے سازشیں بُننے کی عادی تھیں اور جنگ جمل بھی ان کے اسی کردار کی غماز ہے۔ دراصل عراق اور ایران میں شروع سے ہی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی ہے جو کہ حضرت عائشہؓ،  حضرت عثمانؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے لئے اچھے جذبات نہیں رکھتے تھے۔ وہاں کے روایت ساز اپنی روایات بھی اسی طرح سے بناتے تھے کہ ان تینوں اصحاب کی بری تصویر کشی ہو۔ حضرت عثمانؓ،  حضرت عائشہؓ،  اصحاب بنو امیہؓ یا وہ صحابؓہ جو جنگ جمل یا جنگ صفیِن میں عراقیوں کے مدمقابل تھے،  ان کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا۔ عباسیوں کی پوری خلافت اسی پروپیگنڈے کی مرہونِ منت تھی۔ لہٰذا خلافت کے کوفہ/بغداد منتقل ہونے کے بعد ایرانیوں اور عراقیوں نے تاریخ نویسی کے نام پر اس پروپیگنڈے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیدیا۔ خلیفہ منصور عباسی کے دور میں ہشام بن عروہ عراق آئے۔ یہ ہشام کا دورِ اختلاط تھا۔ عراق کے روایت سازوں نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجانے کیا کیا روایتیں ان کے منہ میں ڈالیں اور وہ بیچارے ان روایات کو اپنے والد کی روایات سمجھ کر آگے بیان کرنے لگے- امام مالکؒ کو جب مدینہ میں ہشام کی عراقی روایات پہنچیں تو انہوں نے ہشام کو کذّاب قرار دیدیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں ہشام نے شہد والی روایت بھی بیان کی تھی۔ اسی دورِ اختلاط کی چند دیگر روایتوں میں نبی پاکﷺ پر جادو ہونے والی روایت ہے یا حضرت عائشہؓ کے کم سِنی میں نکاح کی روایت بھی ہے۔

عراق میں جہاں ایک طبقہ کو بنیادی بغض حضرت عائشہؓ اور بنو امیہ سے تھا،  وہیں ایک طبقہ اور بھی تھا جس کو جنگ قادسیہ کا زخم حضرت عمرؓ سے لگا تھا،  لہٰذا وہ طبقہ ان کو بھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عجمی شاعر نے اپنے جذبات کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے،  بر آل عمر کینه قدیم است عجم را!۲۱،  لہذا ابنِ جریج نے ہشام کی روایت (جس میں حضرت حفصہؓ کو متاثرہ فریق گردانا گیا تھا) میں تبدیلی کر کے حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ کو بھی سازشی ٹولے میں شامل کروا دیا۔ ان روایات کی تاریخی بحث سورت کی پہلی آیت کی تفسیر میں آ چکی ہے۔

 

آیات نمبر ٦ تا۸ کا بیان

 

یٰآَیهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۔۔۔  شَىۡءٍ قَدِیۡرٌ‏ ﴿۸﴾

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ الله کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے ﴿٦﴾ (اس دن کہا جائے گا) اے کافرو آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے ﴿۷﴾ اے ایمان والو الله کے سامنے خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جس دن الله اپنے نبی کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہیں کرے گا ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ﴿۸﴾

ان تینوں آیات میں تمام مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں اور اپنے متعلقین کو بھی۔ دراصل حضرت خولہؓ کے واقعہ کے بعد منافقین نے یہود کے ساتھ مل کر مدینہ کا ماحول خراب کر رکھا تھا۔ منافقین کوئی علیحدہ خاندانوں یا محلوں میں آباد لوگ تو تھے نہیں،  مومنین صادقین انصار کے گھروں میں کچھ افراد تھے جو خاندانی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر زبانی طور پر تو اسلام کو قبول کر چکے تھے مگر دل سے اس کے دشمن تھے۔ ایسے لوگ محفلوں میں اس واقعہ کو لے کر مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ سورہ مجادلہ میں مسلمانوں کو سرگوشیوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کر دی گئی تھی کہ قیامت کے دن الله کے عذاب سے بچانے کے لئے کسی کا مال یا (نیک صالح) اولاد کام نہیں آ سکے گی۔ اور اِس سورت ایمان والوں کو میں بتا دیا گیا ہے کہ اپنے بھائی بندوں کو اِسی دنیا میں ان کے برے اعمال سے روکنے کی سعی کریں جو کہ ان کو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔ کیونکہ بار بار کی تنبیہ کے بعد بھی اگر یہ لوگ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو یہ قیاس نہ کریں کہ فرشتے بھی ایسی ہی بے کہنا مخلوق ہیں۔ اُن تند خو فرشتوں کو جب عذاب کرنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ کوئی حکم عدولی نہیں کریں گے اور نہ ہی اس وقت ان لوگوں سے کسی نوعیت کی معذرتیں قبول کی جائیں گی کہ میں فلاں کے بہکاوے میں آ گیا تھا یا میں نے یہ بات بے سمجھی میں کر دی تھی یا میرا حقیقی مقصد ایسا نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔

سورہ مجادلہ کے بعد سورہ تحریم میں مزید سخت زبان میں اِنذار کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو خالص توبہ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ کیونکہ اب جو واقعہ ہونے کو تھا وہ حضرت خولہؓ کے واقعہ سے زیادہ شدید نوعیت کا تھا۔ کیونکہ بہرحال حضرت اوسؓ حضرت خولہؓ کے شوہر تو رہ ہی چکے تھے اور ان کا واقعہ صرف یہ تھا کہ ان کا رجوع اُس وقت کے معاشرتی روایات کے برعکس کرایا گیا تھا۔ رجوع ہونے کی صورت میں جو طوفان اٹھا تھا وہ سب کے سامنے تھا۔ لیکن حضرت زینبؓ تو رسول اللهﷺ کے (اس وقت کے قاعدے کے مطابق) غیر صلبی بیٹے کی مطلقہ تھیں۔ فتنہ پرداز اب کی بار زیادہ شدت کے ساتھ ہنگامہ اٹھانے والے تھے۔ لہذا پہلے ہی واضح کر دیا گیا کہ ایسے موقع پر جو مومنین صادقین الله اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے ساتھ کھڑے ہوں گے ان کے لئے قیامت کے دن بہترین اجر کا وعدہ ہے۔

 

آیت نمبر۹ کا بیان

 

یٰاَیهَا النَّبِىُّ  ۔۔۔  وَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ‏ ﴿۹﴾

اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا دوزخ  ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ﴿۹﴾

نبی پاک کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپﷺ (حضرت زینبؓ سے شادی کر کے) کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کریں۔ دیگر اقسام کے جہاد کے برخلاف،  یہ جہاد اپنے اندر ایک الگ نوعیت کی سنگینی رکھتا تھا۔ کیونکہ سیاسی اور بنیادی عقائد کے سلسلے میں ہونے والے معاملات میں لوگوں کی سوچ کے زاویے اور طرح کے ہوتے ہیں۔ لیکن معاشرتی اقدار بالخصوص نکاح کے سلسلے میں زاویے اور طرح کے ہوتے ہیں۔ مخالفین ان معاملات کو اخلاقی گراوٹ کا رنگ دے کر،  کردار کشی کی مہم شروع کر دیتے ہیں۔ رسول اللهﷺ کے سامنے مدینہ کے مکمل حالات تھے۔ انھیں پورا ادراک تھا کہ اس نکاح کے بعد منافقین مدینہ کیا طوفان اٹھانے کو ہیں اور انہوں نے وہ طوفان اٹھایا بھی (سورہ احزاب آیت ٥٧-٥٨)۔ واضح رہے اس طوفان میں منافقین مدینہ تنہا نہیں ہیں بلکہ منافقین عجم ان سے دو ہاتھ آگے ہی ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں ایران اور عراق کے راویوں نے حضرت زینبؓ کے ساتھ ہونے والے اس نکاح کو ‘دل کا معاملہ’ ہی قرار دیا ہے۔ جبکہ مورخ/مفسر طبری نے تو ساری حدیں ہی پار کر دیں،  ایک ایسا معاملہ جسکو قرآن نے ایک نہیں بلکہ دو سورتوں (تحریم ۲۲ اور احزاب ۲۳) میں جہاد قرار دیا،  اس کو خالص نفسانی معاملہ قرار دیدیا- اور نفس پرستی کی بھی وہ منظر کشی کی ہے کہ بےحیائی3 بھی شرما جائے۔۲۴ اور قرآن پر دست درازی اس طرح کی کہ سورہ احزاب کی آیت ۳۷ میں فعل مضارع (زمانہ حال) میں پیش کردہ نبی پاکﷺ اور حضرت زیدؓ کے مابین مکالمہ کے آدھے حصہ کو زمانہ ماضی میں لے جا کر اللہ اور نبیﷺ کے درمیان کا مکالمہ قرار دے دیا۔۲۵

لیکن ان سب کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اس نکاح کے بارے میں قطعی تھا۔ کیونکہ رسولوں کی آمد کا ایک مقصد اصلاح معاشرہ بھی ہے،  اور اس بات کا عہد اس نے اپنے تمام رسولوں سے لیا ہے(سورہ احزاب،  آیت ۷)۔ سورہ احزاب ہی کی آیت ٣٧ میں حضرت زینبؓ سے نکاح کی تصدیق کے بعد آیت ٣٨ میں الله نے واضح کیا ہے کہ یہ الله کا فیصلہ تھا کہ نبیﷺ حضرت زیدؓ کی مطلقہ سے شادی کریں۔ جبکہ آیت ٣٩ میں بتا دیا ہے کہ نبی دنیا والوں سے نہیں ڈرتے بلکہ صرف الله سے ڈرتے ہیں۔ آیت ۴٠ میں کہا گیا ہے وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیٖنَ .۔ مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ لہٰذا اگر نبی پاکﷺ بحیثیت آخری نبی،  خود بڑھ کر اس رسم پر چوٹ نہ لگاتے تو یہ طریقہ تم لوگوں کے دلوں سے پوری طرح محو نہ ہو پاتا اور اس کی کچھ نہ کچھ تقدیس باقی رہتی۔ اور اگر آج اس کی اس سختی سے بیخ کنی نہ کی جاتی تو بعد کی نسلوں میں دوبارہ جڑ پکڑ لیتی۔ سورہ تحریم کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اس کی ابتداء ہی اسی بات سے ہوئی کہ رسول کفار اور منافقین کی پرواہ نہ کریں بلکہ اس کام کو کر دیں جس کا اشارہ کیا جا رہا ہے۔ (سورہ احزاب آیت ١)۲۶

 

آیات نمبر۱۰تا۱۲ کا بیان

 

ضَرَبَ اللّٰهُ  ۔۔۔ وَكَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ‏ ﴿۱۲﴾

الله کافروں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے نوحؑ اور لوطؑ کی بیوی کی وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں نے ان کی خیانت کی سو وہ الله کے غضب سے بچانے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور کہا جائے گا دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ ﴿۱۰﴾ اور الله ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب اس نے کہا کہ اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے ﴿۱۱﴾  اور مریمؑ عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والوں میں سے تھی ﴿۱۲﴾

آیت نمبر ٦ میں وضاحت کر دی گئی تھی کہ یہ دنیا ہی دار العمل ہے لہذا اہلِ ایمان اسی دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ اپنے متعلقین کے انجامِ خیر کی بھی کوشش کریں،  کیونکہ آخرت میں تو جزا و سزا کا معاملہ ہونا ہے۔ اور ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اس لیے یہاں انکار کرنے والوں کے لیے دو عورتوں کی مثال دی جا رہی ہے،  کہ جن کو ان کے شوہروں،  حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ  کی صورت میں بہترین ماحول مہیا تھا مگر وہ پھر بھی زمانے کے ریت رواج کو سینوں سے لگائے رہیں تو ان کے پیغمبر شوہر بھی ان کی کچھ مدد نہ کر سکیں گے،  اور ان کا انجام اہل جہنم کے ساتھ ہوگا،  یہاں پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ نبیوں کے گھروں سے نسبت رکھنے کے باوجود بھی کیونکہ انہوں نے الله کے احکامات کے تابع اپنی زندگیوں کو نہیں کیا اور اسی راہ پر چلتی رہیں جس پر اس وقت اور جگہ کے لوگ چل رہے تھے تو ان پر کوئی رحم نہیں کیا گیا۔ تو اصل چیز نسبت یا خاندان نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو الله کے تابع کرنا ہے۔

دوسری طرف اپنے وقت کے طاغوت،  حضرت موسیٰؑ کے مدمقابل، اور ان کے سب سے بڑے دشمن فرعون کی بیوی تھی جس نے بدترین ماحول میں میں بھی اپنے ایمان کی شمع کو منور رکھا اور اپنی زندگی کو،  جس قدر ممکن ہو سکا،  الله کی تابعداری میں گزارا،  اور فرعون اور اس کی قوم کی بداعمالیوں میں حصہ دار نہیں بنی تو وہ ایک برے گھر میں ہوتے ہوئے بھی الله کے نزدیک قدر و منزلت پا گئی اور وہ جنت میں اپنے گھر کی حقدار ہے۔ اسی طرح الله حضرت مریمؑ کا ذکر کر رہا ہے۔ یہاں پر غور کی بات یہ ہے کہ الله ان کی اس زندگی کا ذکر کر رہا ہے جو حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔ حضرت مریمؑ کو ان کی والدہ نے اللہ کی نذر کر دیا تھا،  ایک ایسی لڑکی کے کیے اس معاشرے میں اپنی عصمت کی  حفاظت کرنا ایک بڑا کام تھا اور الله یہاں واضح کر رہا ہے کہ ان کی فضیلت کی اصل وجہ ان کے الله کے احکامات کی اطاعت شعاری ہے نہ کہ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ ماجدہ ہونا۔

 

حرف آخر

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس سورت کے اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جو بنیادی بات یہاں بیان کی گئی ہے،  یہ اوروں نے کہی بھی ہے کہ قرآن راجح ہے اور روایتوں کو اس کے آئینہ میں پرکھا جائے گا نہ کہ روایتوں کے مطابق قرآن کی تاویل کی جائے گی۔ بہت سے علماء نے ان روایتوں پر سند کے اعتبار سے بھی اعتراضات لگائے ہیں۔ اور دوسری رائے بھی دی ہیں۔ ۱۲ سو سال تک بنیادی طور پر ہمیں صرف انہی گروہوں سے سابقہ پڑا جو کہ نبیﷺ،  ان کی ازواجؓ و اصحابؓ کو لے کر نہ صرف بُری آراء رکھتے تھے بلکہ ان کو بدنام کرنے کے لیے روایت سازی کے ذریعے سے عملی میدان میں بھی سرگرم رہے (چند مثالیں پچھلے صفحات میں گزر چکی ہیں)،  اور جواباً ہم ان روایتوں کی بس تاویلیں ہی کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا ہے،  وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن آج کے حالات میں کئی مزید جہات پیدا ہو چکی ہیں۔ مغربی اقوام کے عروج کے بعد اب اُن قوموں کا بھی سامنا ہے۔ سائنسی تعلیم عام ہونے کے سبب اب بہت سے سوچنے والے افراد بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ جب وہ اِن تبرائی روایات کی روشنی میں دین اور حضورؐ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج نکل رہا ہے۔ ہمارا سوچنے والا دماغ دین سے برگشتہ ہے۔ جس دین کی بنیادی دعوت میں ہی غور و فکر کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی آج اس میں سوچنے پر ہی قفل لگا دیے گئے ہیں۔ اور جو پھر بھی سوچنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر و بیشتر مایوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کیوں!!!!!!! اس لیے کہ وہ دین کو،  اس کی تعلیمات کو،  اس سے وابستہ شخصیات کو قرآن کے آئینہ میں نہیں بلکہ اُنہی روایات کے آئینہ میں دیکھ رہا ہے جو کہ وضع ہی اس دین کو روکنے کے لیے کی گئی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا جو پھیلاؤ پہلے سو سالوں میں ہوا ہے،  بعد کے تیرہ سو سالوں میں اس کا چوتھائی بھی نہیں ہوا۔ کیوں!!!!!!! اس لیے کہ پہلے سو سالوں میں مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن تھا اور بعد میں روایات کی بنیاد پر قرآن کی تاویلات۔ کوئی یہاں یہ نہ سمجھے کہ یہاں روایات کا کلی انکار کیا جا رہا ہے،  صرف اتنا کہا جا رہا ہے کہ لاریب اور فرقان صرف اور صرف قرآن ہے،  لہذا کوئی بھی روایت قبول کرنے سے پہلے صرف اس کی سند کو نہیں بلکہ اس کے متن کو بھی قرآن کی کسوٹی میں پرکھا جائے،  اور یہ حکم خود قرآن دے رہا ہے،   اور قرآن ہی   محکم کتاب ہے،  باقی جو بھی کتب ہیں   وہ متشابہ ہیں(سورہ آل عمران ۔ آیت ۷)،۲۷  اور ان کتابوں کو قرآن پر راجح ماننے والوں کے دل درحقیقت کج ہیں۔

ایک اور نقصان جو صرف روایات کی تابع تفسیر کرنے کا ہوا ہے کہ قرآن کا نظم بری طرح مجروح ہوا ہے،  ایک آیت کا اپنی اگلی پچھلی آیات سے کوئی ربط ہی نہیں رہتا۔ وہ کتاب جس نے اپنے بارے میں مبین ہونے کا دعویٰ کیا ہے،  مبہم ترین کتاب بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجتاً اس کا پیغام اور اس کے اندر موجود ہدایت نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے اور قرآن کے سلسلے میں ہماری زیادہ کاوشیں اپنی روایت کو زیادہ صحیح ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ سورہ تحریم ایک چھوٹی سی سورت اپنے اندر بہت سے معاشرتی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر قبیلے،  علاقے کے کچھ رسم و رواج ہیں اور جیسے جیسے اسلام عرب سے نکل دوسرے علاقوں میں پھیلا ویسے ہی سے اس کا سامنا کچھ ایسی رسومات سے بھی ہوتا گیا جو اسلام کے منافی تھیں۔ تو یہ سورت مسلمانوں کو یہ درس دے رہی ہے کہ ان خلافِ اسلام معاشرتی بتوں کو توڑے بغیر ایمانیات کی تکمیل نہیں ہے۔ اور یہ معاشرتی جدوجہد بھی ایک جہادِ عظیم ہے۔ یہاں پر یہ بیان بھی ضروری ہے کہ دین کو اتنا تنگ نظر بھی نہ بنایا جائے کہ ہر ہی چیز پر فتویٰ لگا دیا جائے (جیسا کہ ایک طبقہ کر ہی رہا ہے)۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے یہ بھی پیغام ہے کہ الله اور رسول کا حکم معاشرتی عقائد اور’ لوگ کیا کہیں گے’ کی سوچ سے بالاتر ہونا بھی لازمی ہے۔

 

 

حواشی

۱۔   آیت نمبر ۵ کی تفصیل میں اس کی بحث آئے گی۔

 

۲۔   آیت نمبر ۲ کی تفصیل میں اس کی بحث آئے گی۔

۳۔    يٰـاَيُّهَا النَّاسُ  ۔۔۔ نُوۡرًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿۱۷۴﴾ (سورہ نساء)

لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی نازل کر دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے ﴿۱۷۴﴾

 

۴۔   تَبٰـرَكَ الَّذِىۡ  ۔۔۔ لِلۡعٰلَمِيۡنَ نَذِيۡرَا﴿۱﴾  (سورہ فرقان)

نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو﴿۱﴾

 

۵۔   تفسیر ابن جریر طبری

۶۔   أَنْبَأنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، نا أَبِي ، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ  ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَكَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا ، فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ , وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :  يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ سورة التحريم آية 1  , إِلَى آخِرِ الآيَةِ .

کہ حضورؐ کی ایک لونڈی (حضرت ماریہؓ) تھی، اور حضورؐ اس سے مجامعت فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ آپؐ کے پیچھے پڑ گئیں اور آپؐ نے اس کو اپنے اوپر حرام کر لیا، پس اللہ نے یہ آیت (سورہ تحریم آیت ۱) نازل کی آخر تک (سنن کبریٰ، کتاب التفسیر، سورہ تحریم)؛ درمیان کے چاروں ہی راویوں پر آئمہِ رجال نے کچھ کلام کیا ہوا ہے۔ سب کا تعلق عراق سے ہے)۔

 

۷۔   اَيُّهَا النَّبِىُّ  ۔۔۔ كُلِّ شَىۡءٍ رَّقِيۡبًا‏ ﴿۵۲﴾

اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں —- ﴿۵۰﴾  —– ﴿۵۱﴾  اس کے بعد (آیت ۵۰ میں پیش کردہ کلیہ کے علاوہ) تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کے سلسلے میں یہ بندش نہیں ہیں (جو آیت ۵۰ تا ۵۲ میں پیش کی گئی ہیں)،اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے ﴿۵۲﴾

 

۸۔    مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوةِ الۡفَجۡرِ وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ وَمِنۡ بَعۡدِ صَلٰوةِ الۡعِشَآءِ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّـكُمۡ‌  —– ﴿۵۸﴾

صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے اوقات ہیں —– ﴿۵۸﴾ (سورہ نور، نازل شدہ 6 ہجری)

 

۹۔  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ، فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ، فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: «لَا»، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: «سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ»، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَتْ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ: «سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ»، قَالَتْ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فَقَالَتْ بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ: «لَا حَاجَةَ لِي بِهِ»، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللهِ، وَاللهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَتْ: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِيقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، بِهَذَا سَوَاءً.

ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی ، انہوں نے اپنے والد ( عروہ ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تو اپنی تمام ازواج کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب ہوتے ، ( ایسا ہوا کہ ) آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو ان کے ہاں آپ اس سے زیادہ ( دیر کے لیے ) رکے جتنا آپ ( کسی بیوی کے پاس ) رکا کرتے تھے ۔ ان ( حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ) کو ان کے خاندان کی کسی عورت نے شہد کا ( بھرا ہوا ) ایک برتن ہدیہ کیا تھا تو انہوں نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا : اللہ کی قسم! ہم آپ ( کو زیادہ دیر قیام سے روکنے ) کے لیے ضرور کوئی حیلہ کریں گی ، چنانچہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا ، اور کہا : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاں تشریف لائیں گے تو تمہارے قریب ہوں گے ، ( اس وقت ) تم ان سے کہنا : اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ وہ تمہیں جواب دیں گے ، نہیں! تو تم ان سے کہنا : یہ بو کیسی ہے؟ ۔ ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات انتہائی گراں گزرتی تھی کہ آپ سے بو محسوس کی جائے ۔ ۔ اس پر وہ تمہیں جواب دیں گے : مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا ، تو تم ان سے کہنا ( پھر ) اس کی مکھی نے عرفط ( بوٹی ) کا رس چوسا ہو گا ۔ میں بھی آپ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلمس سے یہی کہنا! جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے ، ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! آپ ابھی دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہاری ملامت کے ڈر سے آپ کو بلند آواز سے وہ بات کہنے ہی لگی تھی جو تم نے مجھ سے کہی تھی ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قریب ہوئے تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "” نہیں ۔ "” انہوں نے کہا : تو یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "” مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا ۔ "” انہوں نے کہا : پھر اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا ۔ اس کے بعد جب آپ میرے ہاں تشریف لائے ، تو میں نے بھی آپ سے یہی بات کہی ، پھر آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے ، تو انہوں نے بھی یہی بات کہی ، اس کے بعد آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ( دوبارہ ) تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : کیا آپ کو شہد پیش نہ کروں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "” نہیں ، مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ "” ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : سودہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں ، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے آپ کو اس سے محروم کر دیا ہے ۔ تو میں نے ان سے کہا : خاموش رہیں ۔ ابواسحاق ابراہیم نے کہا : ہمیں حسن بن بشر بن قاسم نے حدیث بیان کی ، ( کہا : ) ہمیں ابواسامہ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (صحیح مسلم، کتاب الطلاق)

 

۱۰۔  حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يُخْبِرُ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، تُخْبِرُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، قَالَتْ: فَتَوَاطَأْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ»، فَنَزَلَ: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ} [التحريم: 1] إِلَى قَوْلِهِ: {إِنْ تَتُوبَا} [التحريم: 4] لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا} [التحريم: 3]، لِقَوْلِهِ: «بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، وہ بتا رہی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد نوش فرماتے تھے : کہا : میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( پہلے ) تشریف لائیں ، وہ کہے : مجھے آپ سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے ۔ کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟آپ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے یہی بات کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بلکہ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے ۔ اور آئندہ ہرگز نہیں پیوں گا ۔ ” اس پر ( قرآن ) نازل ہوا : ” آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ” اس فرمان تک : ” اگر تم دونوں توبہ کرو ۔ ” ۔ ۔ یہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کہا گیا ۔ ۔ ” اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی ” اس سے مراد ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ) ہے : ” بلکہ میں نے شہد پیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الطلاق)

 

۱۱۔   ابن جریج ابو خالد المکی کے متعلق  امام ذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ یہ متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اور یہ کہ اس نے ستر عورتوں سے متعہ کیا تھا، امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ ابن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے ابا جان کہا کرتے تھے کہ ابن جریج کی مرسل حدیثیں موضوع ہوتی ہیں ابن جریج کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کہ اس کو حدیث کس نے دی ہے وہ جب کہتا ہے کہ مجھے خبر پہنچی ہے یا مجھے فلاں نے حدیث بیان کی ہے تو کوئی اعتبار نہیں ہوتا کہ وہ فلاں کیسا ہے

۱۲۔     عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَة يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَك، فِي الْمَرْأَةِ الَّتِي وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم”، یہ آیت اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی جس نے اپنا نفس نبیؐ کے لیے ہبہ کیا تھا (تفسیر ابن ابی حاتم، سورہ تحریم، آیت 1)

 

۱۳۔   تاریخ ابن ہشام

۱۴۔   يّاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّا  اَحۡلَلۡنَا لَـكَ ۔۔۔۔امۡرَاَةً مُّؤۡمِنَةً اِنۡ وَّهَبَتۡ نَفۡسَهَا لِلنَّبِىِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنۡ يَّسۡتَـنۡكِحَهَا خَالِصَةً لَّـكَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۔۔۔۔ ﴿۵۰﴾ اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے حلال کر دیا ہے …… کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت (اے محمدﷺ) خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔۔۔۔۔۔ ﴿۵۰﴾

 

۱۵۔   يٰـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ … ﴿۱﴾  … فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‌ ‌ۚ …﴿۳﴾  وَاٰ تُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحۡلَةً‌  …﴿۴﴾  … لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ …‏ ﴿۷﴾  …يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡ  اَوۡلَادِكُمۡ‌ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ‌ … ﴿۱۱﴾ … تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ … ﴿۱۸﴾  يٰـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا …﴿۱۹﴾

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے …﴿۱﴾  …تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو … ﴿۳﴾  اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو، …﴿۴﴾ … مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، …﴿۷﴾…  تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے،  …﴿۱۱﴾  … یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں …﴿۱۸﴾  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، …﴿۱۹﴾ (آیت ۱۹ سے خظاب بشمول رسولؐ شروع ہو گیا ہے)

 

۱۶۔    يٰـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا‏ ﴿۲۸﴾  وَاِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَالدَّارَ الۡاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿۲۹﴾

اے نبیؐ، اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ﴿۲۸﴾  اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ﴿۲۹﴾ (سورہ احزاب، آیت ۲۸-۲۹)

 

۱۷۔   فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡ  اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآٮِٕهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا  وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ مَفۡعُوۡلًا‏ ﴿۳۷﴾

پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے اپنی حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے۔ اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا ﴿۳۷﴾

 

۱۸۔   اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ  اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا﴿۱﴾  (سورہ کہف، آیت ۱)

سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی ﴿۱﴾

 

۱۹۔    قَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّتِىۡ تُجَادِلُكَ فِىۡ زَوۡجِهَا وَ تَشۡتَكِىۡ  اِلَى اللّٰهِ ‌ۖ وَاللّٰهُ يَسۡمَعُ تَحَاوُرَكُمَا‌  اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ  بَصِيۡرٌ‏ ﴿۱﴾  اَلَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡكُمۡ مِّنۡ نِّسَآٮِٕهِمۡ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمۡ‌ اِنۡ اُمَّهٰتُهُمۡ اِلَّا الّٰٓـىِٔۡ وَلَدۡنَهُمۡ‌ وَاِنَّهُمۡ لَيَقُوۡلُوۡنَ مُنۡكَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَزُوۡرًا‌ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ‏ ﴿۲﴾

بے شک الله نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی اور الله کی جناب میں شکایت کرتی تھی اور الله تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا بے شک الله سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے ﴿۱﴾  جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہو جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور بےشک انہوں نے ایک بیہودہ اور جھوٹی بات منہ سے نکالی ہے اور بے شک الله معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ﴿۲﴾ (سورہ مجادلہ آیات ۱۔۲)

 

۲۰۔     لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡ بَعۡدُ وَلَا  اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ —– ﴿۵۲﴾

اس کے بعد (آیت ۵۰ میں پیش کردہ کلیہ سے باہر) تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ —– ﴿۵۲﴾ (سورہ احزاب آیت ۵۲)

 

۲۱۔   بشکست عمر پشت دلیران عجم را.

بر باد فنا داد رگ و ریشه جم را

این عربده از بهر خلافت ز علی نیست.

بر آل عمر کینه قدیم است عجم را

 

۲۲۔     طبری کے مطابق، سورہ تحریم حضرت ماریہؓ کی ‘بازیابی’ کے لیے نازل ہوئی، گویا سورہ تحریم کی اس آیت میں  پھر جہاد بھی انہی ‘کفار اور منافقین’ کے خلاف ٹھہرتا ہے، جن کی وجہ سے حضرت ماریہؓ  (بقول طبری) حرام قرار دی گئی تھیں، یعنی حضرت حفصہؓ (اور حضرت عائشہؓ) (نعوذبااللہ)

 

۲۳۔     يٰاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ‌  اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۙ‏ ﴿۱﴾  وَّاتَّبِعۡ مَا يُوۡحٰٓى اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ‌  اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ۙ‏ ﴿۲﴾ وَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌  وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ﴿۳﴾

اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے ﴿۱﴾  اور جو (کتاب) تم کو تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اُسی کی پیروی کئے جانا۔ بےشک خدا تمہارے سب عملوں سے خبردار ہے ﴿۲﴾  اور خدا پر بھروسہ رکھنا۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے ﴿۳﴾  (سورہ احزاب، آیات 1 تا 3)

 

۲۴۔     ملاحظہ ہو تفسیرِ طبری، سورہ احزاب، آیت 37

 

۲۵۔     بیشتر اردو تفاسیر نے یہاں طبری ہی کا تتبع کیا ہے (مکالمہ کی حد تک)

 

۲۶۔     يٰـاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ‌  اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۙ‏ ﴿۱﴾   اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے ﴿۱﴾   (سورہ احزاب، آیت 1)

 

۲۷۔   هُوَ الَّذِىۡ  اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‌ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚؔ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗ  اِلَّا اللّٰهُ—– ‏ ﴿۷﴾

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس کی آیات محکم (پکی) ہیں، یہی (آیتیں) اصل میں فیصل ہیں اور دوسری(کتاب کی آیتیں، مراد اصلی، توریت کی آیتیں) ان (آیاتِ قرآنی) سے متشابہ (ملتی جلتی) ہیں، پس جن لوگوں  کے دل ٹیڑھے ہیں (یعنی یہودی)، وہ اتباع کر رہے ہیں اُس (کتاب، مراد اصلی، توریت)  کی جو اِس (کتاب، قرآن) سے متشابہ (ملتی جلتی) ہے، وہ (مسلمانوں میں) فتنہ پھیلاتے ہیں اور اُس (کتاب، مراد اصلی، توریت)کی تاویلیں کرتے ہیں حالانکہ اُس (کتاب، مراد اصلی، توریت)کی تاویل (اب) سوائے الله کے اور کوئی نہیں جانتا—– ﴿۷﴾ (آل عمران آیت ۷)

اگرچہ یہاں تاویلِ خاص کے اعتبار سے توریت بطور متشابہ کتاب کے، اور کجی کا شکار سے یہودی مراد ہیں جو کہ  قرآن کی محکم آیات پر توریت کی متشابہ آیات کا خول چڑھا کر حق کو مبہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر کیا تاویل عام کے اعتبار سے اس آیت کا اطلاق تفسیرِ طبری سمیت ہر اس کتاب کی ان روایات پر نہیں ہوتا جو قرآن کی مبیں آیات کو مبہم بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس آیت میں توریت کا کلی انکار نہیں کیا گیا ہے، صرف یہ کہا گیا ہے کہ قرآن محکم ہے، لہذا قرآن کو توریت کے آئینہ میں نہیں بلکہ توریت کو قرآن کے آئینہ میں دیکھا جائے گا-  تاویل عام کے اعتبار سے قرآن کو تفسیر طبری کے آئینہ میں نہیں بلکہ تفسیر طبری کو قرآن کے آئینہ میں دیکھا جائے گا-

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں:

ورڈ ڈاکیومینٹ

ای پب