FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سنن نسائی

 

 

               امام ابو نسائی

 

 

جلد نہم

 

 

 

 

 

گھوڑوں سے متعلقہ احادیث

 

گھوڑ دوڑ اور تیر اندازی سے متعلق احادیث

 

احمد بن عبدالواحد، مروان، خالد بن یزید بن صالح بن صبیح، ابراہیم بن ابو عبلہ، ولید بن عبدالرحمن، جبیر بن نفیر، حضرت سلمہ بن نفیل کندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! لوگوں کے نزدیک گھوڑوں کی قدر و قیمت ختم ہو گئی ہے انہوں نے اسلحہ رکھ دیا ہے اور کہتے ہیں کہ جہاد کا تو خاتمہ ہو گیا۔ اس لیے کہ جہاد تو موقوف ہو گیا ہے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا چہرہ مبارک اس کی طرف کر دیا اور فرمایا یہ لوگ تو جھوٹے ہیں جہاد تو اب ختم ہو گیا ہے اور میری امت میں سے ایک جماعت تو حق کے واسطے ہمیشہ جہاد کرے گی۔ خداوند قدوس ان کے قلوب کو ایمان سے کفر کی جانب پھیر دیں گے اور ان کو قیامت تک (لوگوں ) میں سے رزق عنایت فرمائیں گے یہاں تک کہ خداوند قدوس کا کیا ہوا وعدہ پورا ہو گا نیز ان گھوڑوں کی پیشانی میں خداوند قدوس نے قیامت تک خیر لکھ دیا ہے پھر مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلایا گیا ہے کہ جلد میری روح قبض کر لی جائے گی اور تم متفرق جماعتوں میں تقیسم ہو کر میری تابع داری کرو گے نیز آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے (پھر فتنوں کے دور میں ) مؤمنین شام میں جمع ہوں گے (اور وہ ان فتنوں سے پاک ہو گا)۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب بن موسی، ابو اسحاق، سہیل بن ابو صالح، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں خیر (اور برکت) تاقیامت لکھ دی گئی ہے اور گھوڑوں کی تین قسم ہیں ایک تو وہ ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان کو ثواب ملتا ہے دوسرے وہ ہیں جو کہ انسان کے واسطے ستر کا کام دیتے ہیں جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو وہ گھوڑے ہیں جو کہ راہ خدا میں جہاد کرنے کے واسطے رکھ لیے جاتے ہیں اور ان کے پیٹ میں جو غذا بھی جاتی ہے اس کے عوض اس انسان کے واسطے اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے چاہے وہ چرانے کے واسطے چراگاہ میں ہی چھوڑ دیئے گئے ہیں اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث شریف نقل کی۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، زید بن اسلم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑے انسان کے واسطے اجر و ثواب کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور وہ انسان کے لیے ستر کا کام بھی دیتے ہیں۔ جہاں تک اجر و ثواب کا تعلق ہے تو وہ وہ گھوڑے ہیں کہ جس کو کسی شخص نے جہاد کرنے کے واسطے رکھا ہو اور ان کے چرنے کے واسطے کسی چراگاہ یا باغ میں چھوڑتے ہوئے ایک لمبی رسی باندھے چنانچہ وہ اس لمبی رسی کی وجہ سے جس قدر فاصلہ تک جا کر گھاس کھائیں گے تو اسی قدر اس آدمی کے واسطے نیک اعمال لکھ دئیے جائیں گے پھر اگر وہ رسی کو توڑ کر ایک یا دو اونچی جگہ پر چڑھے گا تو اس کے ہر ایک قدم دوسری روایت ہے اور اس پر نیک اعمال لکھ دیئے جائیں گے اگر وہ کسی نہر سے گزریں گے اور وہاں سے وہ پانی پی لیں گے حالانکہ ان کے مالک کا ارادہ ان کو وہاں سے پانی پلانے کا نہیں تھا جب بھی اس کے واسطے نیک اعمال لکھ دئیے جائیں گے اس قسم کے گھوڑے رکھنا انسان کے لیے اجرو ثواب کا باعث ہوتا ہے پھر اگر کوئی شخص تجارت اور کاروبار کرنے کے واسطے اور سواری سے بچنے کے واسطے گھوڑے رکھتا ہے اور وہ ان کی زکوٰۃ نکالتا ہے تو ایسے شخص کے واسطے گھوڑوں کا رکھنا درست ہے اور وہ اس کے واسطے ستر کا کام دیتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ریاکاری فخر یا اہل اسلام کے ساتھ عداوت کی وجہ سے گھوڑے رکھتا ہے (یعنی پالتا ہے ) تو اس کو اس پر گناہ ہوتا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گدھوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان کے بارے میں مجھ پر کسی قسم کی کوئی وحی نازل نہیں ہوئی البتہ ایک ایسی منفرد اور جامع آیت کریمہ ضرور ہے کہ جس میں تمام خیر اور شر داخل ہیں (اور وہ آیت ہے )

 

گھوڑوں سے محبت رکھنا

 

احمد بن حفص، ابیہ، ابراہیم بن طہمان، سعید بن ابو عروبہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عورتوں کے بعد گھوڑوں سے زیادہ کسی سے محبت نہیں تھی۔

 

کون سے رنگ کا گھوڑا عمدہ ہوتا ہے ؟

 

محمد بن رافع، ابو احمد بزازہشام بن سعید، محمد بن مہاجر، عقیل بن شبیب، حضرت ابو وہب رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ (بچوں کے نام) حضرت انبیا علیہ السلام کے نام پر رکھو اور خداوند قدوس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبد اللہ، عبدالرحمن ہیں نیز تم لوگ گھوڑے رکھا (یعنی پالا) کرو اور ان کی پیشانی اور رانوں پر ہاتھ پھیرا کرو اگر تم ان پر سوار ہو تو خدا کے دین کی سر بلندی کے واسطے سوار ہوا کرو نہ کہ دور جاہلیت کے انتقام لینے کے واسطے (جیسا کہ عرب کی عادت تھی) اگر تم جس وقت گھوڑے لے لو تو کمیت (یعنی جس کا رنگ سرخ اور سیاہ کے درمیان ہو) اور اس کی پیشانی اور پاؤں سفید ہوں یا لال رنگ کے ہوں جس کی پیشانی اور چاروں پاؤں سفید ہوں یا پھر سیاہ رنگ کا لو کہ جس کی پیشانی اور جس کے چاروں پاؤں سفید ہوں۔

 

اس قسم کے گھوڑوں کے بارے میں کہ جس کے تین پاؤں سفید اور ایک پاؤں دوسرے رنگ کا ہو

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن جعفر، شعبہ ، ح، اسماعیل بن مسعود، بشر، شعبہ، عبداللہ بن یزید، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کے گھوڑے پسند نہیں فرماتے تھے کہ جس کے تین پاؤں سفید اور ایک کسی دوسرے رنگ کا ہو یا ایک سفید اور تین دوسرے رنگ کے ہوں۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی، سفیان، سلم بن عبدالرحمن، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شکال گھوڑا پسند نہیں فرماتے تھے امام نسائی فرماتے ہیں کہ شکال اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کے تین پاؤں سفید ہوں اور چوتھا نہ ہو یا ایک پاؤں سفید ہو اور باقی تین پاؤں سفید نہ ہوں نیز شکال ہمیشہ پاؤں میں ہوتا ہے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے۔

 

گھوڑوں میں نحوست سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید و محمد بن منصور، سفیان، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورت گھوڑے اور مکان میں۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حمزہ، سالم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورت گھوڑے اور مکان میں۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر نحوست (نام کی چیز) کسی شئی میں ہے تو عورت مکان اور گھوڑے میں ہے۔

 

گھوڑوں کی برکت سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، نصر، شعبہ، ابو تیاح، انس، ح، محمد بن بشار، یحیی، شعبہ، ابو تیاح، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں برکت ہے۔

 

گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کو (ہاتھوں سے ) بٹنے سے متعلق

 

عمران بن موسی، عبدالوارث، یونس، عمرو بن سعید، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دو انگلیوں سے گھوڑے کی پیشانی کو بل دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر و برکت لکھ دی گئی ہے اور وہ اجر اور غنیمت ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر لکھ دی گئی ہے

 

 

٭٭ محمد بن علاء، ابو کریب، ابن ادریس، حصین، عامر، عروہ بارقی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر لکھ دی گئی ہے

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن ابی عدی،شعبہ، حصین،شعبی، عروہ بن ابی جعد، عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر لکھ دی گئی ہے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، محمد بن جعفر،شعبہ، عبداللہ بن ابی سفر،شعبی، عروہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر لکھ دی گئی ہے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، شعبہ، حصین، عبداللہ بن ابی سفر،شعبی، عروہ بن ابی جعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیر لکھ دی گئی ہے

 

گھوڑے کو تربیت دینے سے متعلق

 

حسن بن اسماعیل بن مجالد، عیسیٰ بن یونس، عبدالرحمن بن یزید، بن جابر، ابو سلام، حضرت خالد بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ جس وقت میرے پاس سے گزرتے تھے تو فرماتے اے خالد! تم آ جاؤ اور چل کر ہم دونوں تیر اندازی کریں۔ میں نے ایک دن آنے میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے کہ خالد تم آ جاؤ میں تم کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک سناتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا تو کہنے لگے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس ایک تیر انداز کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ ایک تو اس کا بنانے والا جس کی نیت تیر کے بنانے سے خیر اور بھلائی کی اور دوسرا اس کو پھینکنے والا اور تیسرا اس کو تیر دینے والا۔ پس تم لوگ تیر اندازی کرو اور (گھوڑے پر) سواری کیا کرو پھر میرے نزدیک تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے اور تین قسم کے کھیل کے علاوہ کوئی کھیل کھیلنا درست نہیں ہے ایک تو کسی شخص کا اپنے گھوڑے کو تربیت دینا (یعنی تفریح کرنا) اور تیسرے تیر کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا اور اس کے علاوہ جس کسی شخص نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو چھوڑ دیا تو دراصل اس نے نعمت خداوندی کی ناشکری کی۔ بشرطیکہ اس نے اس کو ناشکری کی وجہ سے چھوڑا ہو۔

 

گھوڑے کی دعا

 

عمرو بن علی، یحیی، عبدالحمید بن جعفر، یزید بن ابو حبیب، سوید بن قیس، معاویہ بن حدیج، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی اعلی قسم کا گھوڑا جو کہ جہاد کے لیے رکھا گیا ہو اس قسم کا نہیں اس کو سحری کے وقت دو دعائیں کرنے کی اجازت نہ دی جاتی ہو ایک یہ کہ ایک خدا مجھ کو انسانوں میں سے جس کسی کہ سپرد کرے اور جس کو تو مجھ کو عنایت کرے اس کے نزدیک اس سے اہل و مال میں سے سب سے زیادہ عزیز کر دے۔

 

گھوڑوں کو خچر پیدا کرانے کے لیے گدھوں سے جفتی کرانے کے گناہ سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو خیر، ابن زریر، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خچر بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہوئے تو میں نے عرض کیا اگر ہم گدھوں کو گھوڑوں پر چھوڑ دیں گے تو یہ خچر پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو کہ گھوڑوں کے فائدوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعدہ، حماد، ابو جہضم، عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر اور نماز عصر میں قرات فرمایا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔ اس شخص نے عرض کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دل دل میں پڑھتے ہوں۔ انہوں نے فرمایا تمہارا جسم اور چہرہ چھل جائے یہ تو تم نے پہلے سے بری (اور غلط) بات کہہ دی ہے۔ اس لیے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بندے (اور ایک انسان تھے ) خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جس بات کا حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہنچا دیا اور خدا کی قسم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم اہل بیعت کے واسطے تین چیز کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا کہ تم اچھی طرح سے وضو کرو اور تم صدقہ خیرات کی شئی نہ کھایا کرو اور گدھوں کو گھوڑوں پر نہ چھوڑا کرو۔

 

گھوڑوں کو چارہ کھلانے کے ثواب سے متعلق

 

حارث بن مسکین، ابن وہب، طلحہ بن ابو سعید، سیعد مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایمان کی حالت میں دعووں کی تصدیق کرتے ہوئے جہاد کے واسطے گھوڑا رکھے گا تو اس کو گھوڑے کا کھانا پینا پیشاب اور لید کرنا تمام کے بدلہ میں اس کے نامہ اعمال میں نیک اعمال لکھ دیئے جائیں گے۔

 

غیر مضمر گھوڑوں کی گھڑ دوڑ

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن ابو ذئب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھڑ دوڑ گھوڑوں کو (مقام) حیفاء سے روانہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی (دوڑنے کی حد) ثنیتہ الوداع (نامی جگہ) تک مقرر فرمائی پھر اسی طریقہ سے غیر مضمر گھوڑوں کو روانہ فرمایا تو ثنیتہ الوداع سے مسجد بنو زریق تک دوڑایا۔

 

گھوڑوں کو دوڑنے کے لیے تیار کرنے سے متعلق

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھڑ دوڑ کرائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مضمر گھوڑے کو حیفا سے لے کر ثنیتہ الوداع تک دوڑنے کا حکم فرمایا پھر غیر مضمر گھوڑوں کے درمیان مقابلہ کرایا تو ثنیتہ الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک دوڑنے کا حکم فرمایا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی گھوڑ دوڑ میں شامل تھے۔

 

شرط کے مال سے متعلق

 

اسمعیل بن مسعود، خالد، ابن ذئب، نافع بن ابو نافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شرط کا مال لینا صرف تین چیزوں میں جائز ہے تیراندازی میں یا اونٹ اور گھوڑوں کی دوڑ میں۔

 

 

٭٭ سعید بن عبدالرحمن، نافع بن ابو نافع، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، ابن ابی مریم، لیث، ابن ابو جعفر، محمد بن عبدالرحمن، سلیمان بن یسار، ابو عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بازی اور شرط کا مال لینا صرف گھوڑ دوڑ یا اونٹ کی دوڑ میں جائز ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، خالد، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک عضا نامی اونٹنی تھی۔ وہ (شدید محبت کے باوجود) ہارتی نہیں تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص ایک قعود (اونٹ) پر حاضر ہوا اور وہ شخص اس اونٹنی سے آگے نکل گیا۔ یہ بات مسلمانوں پر ناگوار گزری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے چہروں کے تاثرات دیکھے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! عضاء (اونٹی تو) ہار گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس دنیا کی ہر ایک بلندی والی چیز کو رسوا کرتے ہیں۔

 

 

٭٭ عمران بن موسی، عبدالوارث، محمد بن عمرو، ابو حکم، لیث، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شرط اور بازی لگانا صرف دو چیزوں میں جائز ہے گھوڑے اور اونٹوں کی دوڑ میں۔

 

جلب کے بارے میں

 

محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، حمید، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسلام میں نہ تو جلب ہے اور نہ ہی جنب ہے اور نہ شغار ہے پھر جس شخص نے لوٹ مار کی تو اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

جنب سے متعلق حدیث

 

محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو قزعہ، حسن، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمون بن عثمان بن سعید، کثیر، بقیہ بن ولید، شعبہ، حمید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن ایک دیہاتی شخص سے مقابلہ فرمایا تو وہ شخص جیت گیا۔ گویا کہ یہ بات حضرات صحابہ کرام کو ناگوار گزری اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ خداوند قدوس کے ذمہ حق ہے کہ جس وقت کوئی چیز از خود سربلند ہونے لگ جاتی ہے تو خداوند قدوس اس کو گٹھا دیتے ہیں۔

 

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

 

حارث بن مسیکن، ابن وہب، سعید بن عبدالرحمن، ہشام بن عروہ، یحیی بن عباد بن عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو مال غنیمت میں حصہ دیا تو چار حصے دئیے۔ ایک تو ان کے واسطے اور ایک رشتہ داروں کے واسطے یعنی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے واسطے اور دو حصے گھوڑوں کے واسطے۔

 

 

 

راہ الٰہی میں وقف سے متعلقہ احادیث

 

مال غنیمت میں گھوڑوں کے حصہ کے بارے میں

 

قتیبہ بن سعید، ابو الاحوص، ابو اسحاق، حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو دینار چھوڑے نہ درہم نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلام اور نہ باندیاں چھوڑیں البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سفید خچر کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوتے تھے وہ چھوڑا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہتھیار اور زمین جو کہ راہ خدا میں وقف کر دی تھیں وہ چھوڑے۔ حضرت قتیبہ رضی اللہ عنہ نے دوسری مرتبہ حدیث نقل کرتے ہوئے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اشیاء صدقہ کر دی تھیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سفیان، ابو اسحاق، حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علاوہ سفید خچر ہتھیاروں اور زمین کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا وہ زمین بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیرات کر دی تھی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو بکرحنفی، یونس بن ابو اسحاق، ابیہ، عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث جیسا ہے۔

 

وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان

 

اسحاق بن ابراہیم، ابو داؤد ، عمر بن سعد، سفیان ثوری، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو خیبر میں سے کچھ زمین ملی تو میں ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو ایسی چیز ملی ہے یعنی ایسی زمین ملی ہے کہ مجھ کو اس سے زیادہ عمدہ اور اعلی مال آج تک حاصل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر چاہو تو صدقہ کر دو اس پر میں نے اس کو اس طرح سے خیرات کر دیا کہ نہ تو یہ فروخت ہو سکتی ہے اور نہ ہبہ کی جا سکتی ہے بلکہ اس کو فقیروں رشتہ داروں غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرانے اور کمزور افراد کی امداد کرنے اور مسافروں کی ضروریات کے واسطے خرچہ کیا جائے اس کے علاوہ اس کے متولی کو بھی اس میں سے کھانے (اور استعمال) کرنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ معروف مقدار (یعنی جس قدر مقدار کو گراں نہ سمجھا جائے ) اس قدر کھائے (یا استعمال کرے ) نہ کہ مال دولت اکٹھا کرنے کے واسطے بلکہ اس میں سے لوگوں کو کھلائے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، معاویہ بن عمرو، ابو اسحاق، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی الہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مذکور حدیث نقل کرتے ہیں جس کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعدہ، یزید، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! مجھ کو اس قسم کی زمین ملی ہے کہ آج تک اس قدر پسندیدہ مال مجھ کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بارے میں مجھ کو کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو وہ زمین اپنے پاس رکھ لو اور اس کے منافع کو تم صدقہ خیرات کو دو اس بات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کے منافع کو اس طریقہ سے صدقہ فرما دئیے کہ وہ زمین نہ تو فروخت کی جا سکتی تھی اور نہ ہی ہبہ کی جا سکتی تھی اور نہ وہ وراثت میں کسی کو تقسیم کی جا سکتی تھی بلکہ اس کو غرباء فقراء رشتہ داروں اور غلاموں وغیرہ کو آزاد کرانے مہمان کا اعزاز کرنے اور راہ خدا میں دینے اور مسافر کی مد د کرنے میں خرچ کیا جائے۔ اس طریقہ سے اگر اس وقف کا ناظم بھی عرف کے مطابق مقدار میں اس میں سے کچھ کھائے پیے یا اپنے کسی دوست وغیرہ کو کھلا دے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اس میں سے دولت اکٹھا نہ کرنے لگ جائے۔

 

 

٭٭ اسمیعل بن مسعود، بشر، ابن عون، حمید بن مسعدہ، بشر، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ سند کے ساتھ یہ حدیث منقول ہیں البتہ اس حدیث کے الفاظ اسماعیل نے نقل کیے ہیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ازہر سمان، ابن عون، نایع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون بھی سابقہ حدیث شریف جیسا ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس میں لفظ مسکین کا اضافہ ہے۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن نافع، بہز، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی آخر تک تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! خداوند قدوس ہمارے مال و دولت میں سے کچھ خیرات چاہتا ہے اس وجہ سے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین راہ خدا میں وقف کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس زمین کو اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو یعنی حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے واسطے۔

 

مشترک جائیداد کا وقف

 

سعید بن عبدالرحمن، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو خیبر میں جو ایک سو حصے ملے ہیں اس قسم کا مال و دولت آج تک مجھ کو نصیب نہ ہو سکا اور وہ مال و دولت مجھ کو بہت پسندیدہ بھی ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ اس کو صدقہ خیرات کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کی اصل اپنے پاس رکھو اور پھل راہ خدا میں دے دو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ، سفیان، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس قسم کی دولت مل گئی ہے کہ آج تک اس قسم کا مال و دولت کبھی حاصل نہیں ہوا۔ میرے پاس سو اونٹ وغیرہ تھے جن کو دے کر میں نے اہل عرب سے کچھ زمین خریدی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اس سے اللہ کا تقرب حاصل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زمین کو اپنے پاس رکھو اور اس کے منافع کو راہ خدا میں وقف کر دو۔

 

 

٭٭ محمد بن مصفی بن بہلول، بقیہ، سیعد بن سالم، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے تمغ (نامی جگہ) پر کچھ مال کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کی اصل اپنے پاس رکھو اور اس کا نفع راہ خدا میں وقف کر دو۔

 

مسجد کے واسطے وقف سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، معتمر بن سلیمان، ابیہ، حضرت حصین بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو بن جاوان سے دریافت کیا کہ حضرت احنف بن قیس کے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کا ساتھ چھوڑ دینے کی کیا وجہ سے ہے ؟ وہ فرمانے لگے کہ میں نے حضرت احنف کو نقل کرتے ہوئے سنا کہ جس وقت میں حج کے واسطے جانے کے وقت مدینہ منورہ حاضر ہوا تو ابھی ہم لوگ اپنی قیام کرنے کی جگہ سامان اتارتے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں وہ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت زبیر حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔ خداوند قدوس ان پر رحم فرمائے چنانچہ جس وقت میں وہاں پر پہنچا تو کہنے لگے کہ حضرت عثمان تشریف لے آئے انہوں نے زدر رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ٹھہر جا میں دیکھ لوں کہ حضرت عثمان کیا بات فرما رہے ہیں ؟ انہوں نے آ کر دریافت کیا کہ کیا اس جگہ حضرت طلحہ حضرت علی حضرت سعد رضی اللہ عنہم ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا میں تم کو اس خدا کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے کہ کیا تم واقف ہو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کو کوئی فلاں مربد خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی مغفرت فرمائے گا۔ چنانچہ میں نے وہ مربد خرید لیا اور میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو خرید لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو ہماری مسجد میں شامل کر دو۔ تم کو اس کا ثواب مل جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر فرمانے لگے کہ میں تم کو اس خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے کہ کیا تم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رومہ کا کنواں خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی بحشش فرما دیں گے۔ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے رومہ کا کنواں خرید لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس کو مسلمانوں کے پانی پینے کے واسطے وقف کر دو تم کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر فرمانے لگے کہ میں تم کو اسی خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ کیا تم لوگ اس بات سے واقف ہو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو شخص غزوہ تبوک کے واسطے لشکر کا سامان مہیا کرے گا تو خداوند قدوس اس کی بخشش فرما دے گا۔ میں نے ان کی ہر ایک چیز کا انتظام کر دیا یہاں تک کہ ان کو کسی رسی یا نکیل تک کی ضرورت نہ رہی۔ وہ فرمانے لگے اے خدا تو گواہ رہنا اے خدا تو گواہ رہنا اے خدا تو گواہ رہنا (تین مرتبہ فرمایا)

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، حصین بن عبدالرحمن، عمر بن جاوان، حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حج کے واسطے نکلے تو ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے وہاں پر ہم لوگ اپنے ٹھہرنے کے مقام پر سامان اتارنے لگے تو کوئی آدمی آیا اور عرض کرنے لگا کہ لوگ گھبرائے ہوئے مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں ہم لوگ بھی پہنچ گئے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ کچھ حضرات کے چاروں طرف اکٹھا ہو رہے ہیں جو کہ مسجد کے درمیان میں ہیں وہ حضرت علی حضرت زبیر حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔ اس دوران حضرت عثمان بن عفان بھی ایک زرد رنگ کی چادر سے سر ڈھکے ہوئے تشریف لائے اور دریافت کیا کیا حضرت علی حضرت زبیر حضرت سعد رضی اللہ عنہم اس جگہ موجودہ ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ وہ فرمانے لگے کہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کا لائق نہیں کہ کیا تم کو علم ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی فلاں لوگوں کو مربد خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی بخشش فرما دے گا۔ میں نے اس کو اہزار میں خریدا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو تم لوگوں کی مسجد میں شامل کر دو تم کو اس کا ثواب ملے گا۔ وہ کہنے لگے کہ جی ہاں۔ اے خدا تو گواہ ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں تم کو خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے کہ کیا تم کو اس کا علم ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی رومہ کا کنواں خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی بخشش فرما دے گا اور میں نے اس کو اس قدر رقم ادا کر کے خریدا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں نے اس کو خرید لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو مسلمانوں کے پانی پینے کے واسطے وقف کر دو تم کو اس کا ثواب ملے گا۔ وہ فرمانے لگے جی ہاں۔ اے خدا تو گواہ ہے۔ فرمانے لگے میں تم کو اس خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے کیا تم کو علم ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے چہروں کی جانب ملاحظہ فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ جو کوئی ان کو (جہاد کرنے کے واسطے ) سامان مہیا کرے گا تو خداوند قدوس اس کی بخشش فرما دیں گے (مراد غزوہ تبوک) چنانچہ میں نے ان کو ہر ایک چیز مہیا کی یہاں تک کہ وہ نکیل یا رسی (یعنی معمولی سے معمولی شئی) تک کے واسطے محتاج نہ رہے۔ وہ کہنے لگ گئے کہ اے خدا تو گواہ ہے اس پر حضرت عثمان نے فرمایا اے اللہ! تو گواہ رہنا اے اللہ! تو گواہ رہنا۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، سعید بن عامر، یحیی بن ابو حجاج، سعیدجریری، حضرت ثمامہ بن حزن قشیری بیان فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ چھت پر چڑھ گئے تو میں اس جگہ موجود تھا۔ انہوں نے فرمایا اے لوگو! میں تم کو اللہ اور مذہب اسلام کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کیا تم کو علم ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس جگہ بئر رومہ کے علاوہ میٹھا پانی کسی جگہ پر موجود نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے واسطے وقف کر دے گا تو اس کو جنت میں بہترین بدلہ عطا کیا جائے گا۔ اس پر میں نے اس کو خالص اپنے مال سے خریدا اور اس کو مسلمانوں کے واسطے وقف کر دیا اور تم لوگ آج مجھ کو ہی پانی پینے سے روک رہے ہو؟ سمندر کا پانی پینے پر مقرر کر رہے ہو۔ یہ بات سن کر لوگ کہنے لگے کہ جی ہاں اے خدا تو گواہ ہے۔ فرمانے لگے کہ میں تم لوگوں کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر یہ بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات سے واقف ہو کہ میں نے اپنے ذاتی مال سے غزوہ تبوک کے واسطے لشکر سجایا تھا اس پر وہ کہنے لگے کہ جی ہاں۔ اے خدا تو گواہ ہے۔ فرمانے لگے کہ میں تم کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر معلوم کرتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات سے واقف ہو کہ جس وقت مسجد تنگ پڑ گئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص فلاں لوگوں کی زمین خرید کر اس مسجد میں شامل اور داخل کر دے گا تو اس کو جنت میں زیادہ عمدہ صلہ عطا کیا جائے گا۔ میں نے اس کو اپنے ذاتی مال سے خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور آج تم لوگ مجھ کو اسی مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنے سے منع کر رہے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ جی ہاں خدا تو اس کا گواہ ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ اے لوگو! میں تم کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر معلوم کرتا ہوں کہ کیا تم کو علم ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ کے ثبیرنامی پہاڑ پر کھڑے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا۔ اچانک پہاڑ میں حرکت ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو ٹھوکر مار کر فرمایا اے (پہاڑ) ثبیر تم ٹھہر جاؤ تم پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ یہ سن کر کہنے لگے کہ جی ہاں خداوند قدوس اس سے واقف ہیں اس بات پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اکبر لوگوں نے گواہی دے دی۔ ان لوگوں نے گواہی دے دی۔ ان لوگوں نے گواہی دے دی اور خانہ کعبہ کے پروردگار کی قسم میں شہید ہوں۔

 

 

 

 

وصیتوں سے متعلقہ احادیث

 

ایک تہائی مال کی وصیت

 

عباس بن عبدالعظیم، عبدالکبیر بن عبدالمجید، بکیر بن مسمار، عامر بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت وہ مکہ مکرمہ میں بیمار پڑ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو وہ رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میرا انتقال اسی جگہ ہو رہا ہے کہ جس جگہ میں نے ہجرت کی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہیں انشاء اللہ ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں اپنا تمام کا تمام مال دولت اللہ کے راستے میں صدقہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ (یعنی ایسا قدم نہ اٹھا) اس پر انہوں نے عرض کیا پھر دوتہائی دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں نہیں۔ پھر عرض کیا آدھا مال دولت کی وصیت کر دیتا ہوں اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تہائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وصیت کر دو لیکن ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے اس لیے کہ تم اپنے وارثوں کو دولت والا یعنی خوشحال چھوڑ دو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو یعنی ان کو محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، عطاء بن سائب، عبدالرحمن، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن ولید، محمد بن ربیعہ، ہشام بن عروہ، ابیہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کی بجائے ایک چوتھائی مال کی وصیت کریں تو یہ زیادہ مناسب ہے اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، حجاج بن منہال، ہمام، قتادہ، یونس بن جبیر، محمد بن سعد، حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی بیماری کے دنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میری صرف ایک لڑکی ہے میں تمام دولت کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا آدھے مال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا ایک تہائی مال کی وصیت کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک تہائی حالانکہ وہ بھی زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، عبید اللہ، شیبان، فراس، شعبی، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے موقعہ پر میرے والد شہید ہو گئے اور انہوں نے چھ لڑکیاں چھوڑیں ان پر کچھ قرض بھی تھا۔ چنانچہ جس وقت کھجور کے کاٹنے کا وقت آیا تو میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو علم ہے کہ میرے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ انہوں نے بہت قرضہ لیا ہوا تھا اس لیے میں چاہتا ہوں قرض خواہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میرے مکان میں دیکھ لیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وجہ سے مجھ کو کچھ رعایت کریں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اور تم ہر قسم کی کھجوروں کا الگ الگ ڈھیر لگا دو۔ چنانچہ میں نے اسی طریقہ سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا۔ جس وقت قرض خواہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو وہ مجھ سے اور زیادہ سختی سے مطالبہ کرنے لگ گئے۔ چنانچہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب سے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکر لگائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر بیٹھ گئے پھر ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے قرض خواہوں کو بلا لو اور پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برابر وزن فرماتے یعنی تولتے رہے یہاں تک کہ خداوند قدوس نے میرے والد ماجد کی تمام کی تمام امانت ادا فرما دی اور میری بھی یہی خواہش تھی کہ کسی طریقہ سے میرے والد کا قرضہ ادا ہو جائے خداوند قدوس کا حکم بھی اسی طریقہ سے ہوا کہ ایک کھجور بھی کم نہ پڑی۔

 

وراثت سے قبل قرض ادا کرنا اور اس سے متعلق اختلاف کا بیان

 

عبدالرحمن بسن محمد بن سلام، اسحاق، زکریا، شعبی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد کی وفات ہو گئی تو ان کے ذمہ قرض باقی تھا میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد ماجد کی وفات اس حالت میں ہوئی ہے کہ ان کے ذمہ قرضہ تھا اور ترکہ میں کھجوروں کے باغ کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا اور وہ قرضہ کئی سال سے قبل نہیں ادا ہو سکتا اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ساتھ چلیں تاکہ وہ قرض خواہ مجھ سے بدزبانی نہ کر سکیں اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک ڈھیر کے چکر کرنے لگے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا مانگی اور وہاں پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرض خواہوں کو بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک آدمی کو اس کا قرضہ ادا فرما دیا اور ہر ایک شخص کے قرضہ ادا کر نے کے بعد بھی اس قدر باقی رہ گیا کہ جس قدر وہ لے گئے تھے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، جریر، مغیرہ، شعبی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن حرام لوگوں کا قرضہ چھوڑ کر فوت ہو گئے تھے تو میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے قرض خواہوں سے میری سفارش کر کے قرض میں کمی کرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے گفتگو فرمائی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم فرمایا کہ تم جاؤ اور تم اپنی ہر ایک قسم کی کھجوروں یعنی عجوہ عذق بن زید اور اسی طریقہ سے ہر قسم کی کھجوروں کا علیحدہ علیحدہ ڈھیر لگا کر تم مجھ کو بلا لینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طریقہ سے کیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ان میں سب سے اونچے ڈھیر یا درمیان والے ڈھیر پر بیٹھ گئے پھر مجھ کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں کو ناپ دینا شروع کر دو میں ناپ ناپ کر دینے لگا۔ یہاں تک کہ میں نے تمام کا قرض ادا کر دیا اور اب بھی میرے پاس میری کھجوریں باقی رہ گئیں گویا کہ ان میں بالکل کمی نہیں ہوئی۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یونس بن محمد، ابیہ، حماد، عمار بن ابی عمار، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والد نے ایک یہودی شخص سے کھجوریں بطور قرض لے رکھیں تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر وہ شہید ہو گئے اور اس نے ترکہ میں دو کھجوروں کے باغ چھوڑے۔ اس یہودی کی کھجوریں اس قدر تھیں کہ دونوں باغ سے نکلنے والی کھجوریں اسی کے واسطے کافی ہو گئیں۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس یہودی سے ارشاد فرمایا کیا تم اس طریقہ سے کر سکتے ہو کہ آدھی اس سال لے لو اور تم آدھی آئندہ سال لے لینا۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم اس طریقہ سے کرو تم کھجوریں کاٹ ڈالو تو تم مجھ کو بلا لو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے۔ ہم نے نیچے سے نکال کر ناپ ناپ کر قرض دینا شروع کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برکت کی دعا مانگتے رہے۔ یہاں تک کہ قرض چھوٹے والے باغ سے ہی ادا ہو گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھجوریں اور پانی لے کر حاضر ہوا اور وہ تمام کے تمام لوگوں نے کھائیں اور پانی پیا۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ نعمت ان نعمتوں میں سے ہے کہ جن کے متعلق تم لوگوں سے سوال ہو گا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالوہاب، عبید اللہ، وہب بن کیسان، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد کی وفات ہو گئی تو ان پر لوگوں کا قرض تھا میں نے ان قرض خواہوں کو پیش کش کی کہ اپنے قرض کے عوض ہماری تمام کی تمام کھجوریں لے لیں۔ لیکن انہوں نے وہ کھجوریں لینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ یہ بات دکھلائی دے رہی تھی کہ وہ کھجوریں کم مقدار میں ہیں۔ اس پر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس طریقہ سے کرو کہ جس وقت ان کو اکھٹا کر کے مربد میں رکھو تو تم مجھ کو بتلا دینا۔ چنانچہ جس وقت میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل کر دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ساتھ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو لے کر تشریف لائے اور ان کے نزدیک بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برکت کی دعا مانگی پھر مجھ کو حکم فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلا لو اور تم ان کو ادا کرنا شروع کر دو۔ میں نے اس قسم کا کوئی شخص نہیں چھوڑا کہ جس کا میرے والد صاحب کے ذمہ قرض باقی ہو اور میں نے وہ قرضہ ادا نہ کیا ہو اور اس کے بعد بھی میرے پاس تیرہ وسق کھجور باقی رہ گئی ہو پھر جس وقت میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسی آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بھی جاؤ اور تم ان کو بتلاؤ۔ میں دونوں حضرات کے پاس گیا تو فرمانے لگے کہ ہم لوگ واقف تھے کہ جو کچھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا ہے اس کا انجام یہی ہو گا۔

 

وارث کی حق میں وصیت باطل ہے

 

قتیبۃبن سعید، ابو عوانہ، قتادہ، شہر بن حوشب، عبدالرحمن بن غنم، حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قوم سے خطاب میں ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے ہر ایک حقدار کے واسطے اس کا حق مقرر فرمایا ہے اس وجہ سے اب وارث کے واسطے وصیت کرنا جائز نہیں۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، قتادہ، شہر بن حوشب، ابن غنم، حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر خطبہ دے رہے تھے وہ سواری (اونٹنی) جگالی کر رہی تھی اور اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوران خطبہ فرمایا کہ خداوند قدوس نے ہر ایک انسان کے واسطے وراثت میں سے ایک حصہ مقرر فرما دیا ہے اس وجہ سے اب وارث کے واسطے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عتبہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن مبارک، اسماعیل بن ابو خالد، قتادہ، حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر خطبہ دے رہے تھے وہ سواری (اونٹنی) جگالی کر رہی تھی اور اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوران خطبہ فرمایا کہ خداوند قدوس نے ہر ایک انسان کے واسطے وراثت میں سے ایک حصہ مقرر فرما دیا ہے اس وجہ سے اب وارث کے واسطے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

 

اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، عبدالملک بن عمیر، موسیٰ بن طلحہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! اپنے قریب کے خاندان کو ڈرائیں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریش کو بلایا وہ لوگ اکٹھا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے عام طور سے سب کے سب کو بلایا اور پھر خاص طریقہ سے اپنے رشتہ داروں کو ڈراتے ہوئے فرمایا۔ اے بنوکعب بن مولی! (یہ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے ) اور اے بنو عمرو بن کعب (یہ بھی ایک قبیلہ کا نام ہے ) اے بنو عبد ثمن اے بنو عبد مناف! اے بنوہاشم! اور اے بنو عبدالمطلب! اپنے نفسوں کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے فاطمہ! تم اپنے نفس کو دوزخ سے بچا کیونکہ میں قیامت کے روز تم لوگوں کو خداوند قدوس کی گرفت سے بچانے میں کسی کام نہیں آ سکتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان رحم کا تعلق ہے جس کا حق میں ادا کروں گا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، معاویہ، حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے بنوعبد مناف! تم لوگ اپنی جانوں کو نیک اعمال کر کے اللہ سے خرید لو اس لیے کہ میں تم کو قیامت کے روز عذاب خداوندی سے بچانے میں کوئی بھی کام نہیں آ سکتا۔ میرے اور تمہارے لوگوں کے درمیان صلہ رحمی کا واسطہ ہے جس کا حق میں دنیا ہی میں ادا کروں گا۔

 

 

٭٭ سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے قریش کے لوگو! تم لوگ اپنے نفوس کو خداوند قدوس سے خرید لو۔ اس لیے کہ میں تم لوگوں کے بالکل کسی کام نہیں آ سکتا ہوں۔ اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم جو چاہتی یعنی جس چیز کی خواہش رکھتی ہو تم اس کو مانگ لو لیکن میں قیامت کے دن خداوند قدوس کی گرفت سے بچانے میں کوئی کام نہیں آ سکتا۔

 

 

٭٭ محمد بن خالد، بشر بن شعیب، ابیہ، زہری، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبیدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے قریش کے لوگو! تم لوگ اپنے نفوس کو خداوند قدوس سے خرید لو۔ اس لیے کہ میں تم لوگوں کے بالکل کسی کام نہیں آ سکتا ہوں۔ اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم جو چاہتی یعنی جس چیز کی خواہش رکھتی ہو تم اس کو مانگ لو لیکن میں قیامت کے دن خداوند قدوس کی گرفت سے بچانے میں کوئی کام نہیں آ سکتا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، ہشام، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت رسول کریم نے ارشاد فرمایا اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اے صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا! میں قیامت کے روز تم لوگوں کو خداوند قدوس کی پکڑ سے بچانے میں کام نہیں آ سکتا اس وجہ سے دنیا میں میری دولت میں سے تم جو دل چاہے مانگ لو۔

 

 

اگر کوئی شخص اچانک مر جائے تو کیا اس کے وارثوں کے واسطے اس کی جانب سے صدقہ کرنا مستحب ہے یا نہیں ؟

 

محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ کی اچانک وفات ہو گئی ہے مجھ کو یقین ہے کہ اگر وہ گفتگو کر سکتیں تو لازمی طریقہ سے وہ صدقہ کرتیں۔ اس وجہ سے کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں کر دو۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، سعید بن عمرو بن شرجیل بن سعید بن سعد ، ابیہ، جدہ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کسی جنگ کے واسطے نکلے تو ان کی والدہ ماجدہ جو کہ مدینہ منورہ میں تھیں ان کی وفات ہو گئی وفات کے وقت ان سے کہا گیا کہ وہ وصیت کریں وہ فرمانے لگیں کہ کس چیز میں وصیت کروں مال دولت تو حضرت سعد کاہے میں کس طریقہ سے وصیت کروں۔ چنانچہ وہ حضرت سعد کے مدینہ منورہ واپس آنے سے قبل ہی وفات پا گئیں جس وقت وہ مدینہ منورہ آئے تو ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ فلاں فلاں باغ اپنی والدہ کی جانب سے صدقہ کرتا ہوں۔

 

مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل

 

علی بن حجر، اسماعیل، علاء، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت کوئی انسان مر جاتا ہے ان تین اعمال کے علاوہ باقی تمام اعمال موقوف ہو جاتے ہیں (اور وہ اعمال ہیں ) ایک تو صدقہ جاریہ دوسرے وہ علم کہ جس سے لوگوں کو نفع حاصل ہو اور تیسرے نیک اولاد جو کہ اس کے واسطے دعا مانگتی رہے (مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے باقی تمام اعمال کا ثواب بند ہو جاتا ہے۔)

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، علاء، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے والد دولت چھوڑ کر مرے لیکن انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی اگر میں ان کی جانب سے خیرات کروں تو کیا ان کی وصیت نہ کرنے کا کفارہ ہو سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔

 

 

٭٭ موسیٰ بن سعید، ہشام بن عبدالملک، حماد بن سلمہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میری والدہ ماجدہ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی جانب سے ایک باندی آزاد کر دوں۔ میرے پاس ایک کالے رنگ کی باندی ہے اگر میں اس کو آزاد کر دوں تو کیا میری والدہ کی وصیت مکمل ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو میرے پاس لے کر آ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا تمہارا پروردگار کون ہے ؟ اس نے جواب دیا خداوند قدوس۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں کون ہوں ؟ اس نے جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو آزاد کر دو یہ خاتون مومنہ ہے۔

 

 

٭٭ حسین بن عیسی، سفیان، عمرو، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ وصیت کے بغیر وفات کر گئیں ہیں کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! کر دو۔

 

 

٭٭ احمد بن ازہر، روح بن عبادہ، زکریا بن اسحاق، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میری والدہ صاحبہ کی وفات ہو گئی ہے اگر میں ان کی جانب سے وصیت کر دوں تو کیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ وہ کہنے لگا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنا باغ ان کی جانب سے صدقہ کر دیا ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، عفان، سلیمان بن کثیر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ نے ایک نذر مان لی تھیں جس کو پورا کیے بغیر ان کی وفات ہو گئی اب اگر میں ان کی جانب سے کوئی غلام یا باندی آزاد کر دوں تو کیا یہ کافی ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔

 

 

٭٭ محمد بن احمد بن ابو یوسف، عیسی، اوزاعی، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس، سعید بن عبادہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ ان کی والدہ نے ایک نذر مانی تھی جس کے پورا کرنے سے قبل ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی والدہ کی نذر پوری کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن صدقہ، محمد بن شعیب، اوزاعی، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عباس بن ولید بن مزید، اوزاعی، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث جیسا ہے۔

 

حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق

 

حارث بن مسکین، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کی نذر مان لینے سے متعلق فوت ہونے کے متعلق فتوی طلب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کی جانب سے نذر پوری کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی اور انہوں نے منت پوری نہیں کی تھی۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم دیا کہ میں ان کی جانب سے نذر پوری کروں۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن بعاس، سعد بن عبادہ، اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن اسحاق، عبدہ، ہشام، ابن عروہ، بکر بن وائل، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے ان کے ذمہ ایک نذر تھی جس کو وہ پوری نے کر سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کی جانب سے نذر پوری کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، ہشام، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے۔ کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون ساصدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پانی پلانے والا۔

 

 

٭٭ ابو عمار، وکیع، ہشام، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے۔ کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون ساصدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پانی پلانے والا۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، شعبہ، قتادہ، حسن، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے۔ کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پانی پلانے والا۔

 

 

یتیم کے مال کا والی ہونے کی ممانعت سے متعلق

 

عباس بن محمد، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابو ایوب، عبید اللہ بن ابو جعفر، سالم بن ابو سالم، ابیہ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے ابو ذر! میں تم کو کمزور محسوس کر رہا ہوں اور میں تمہارے واسطے وہ ہی پسند کرتا ہوں جو کہ اپنے واسطے پسند کرتا ہوں کہ تم کبھی دو شخص کی امارت یا یتیم کے مال کی ولایت قبول نہ کرنا (یعنی امیر بننا اور یتیم کے مال کا ولی بن جانا ذمہ داری کا اور مشکل کام ہے )

 

اگر کوئی آدمی یتیم کے مال کا متولی ہو تو کیا اس میں سے کچھ وصول کر سکتا ہے ؟

 

اسمعیل بن مسعود، حسین، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے واسطے کچھ بھی (مال وغیرہ) موجود نہیں ہے اور ایک یتیم بچے کا میں ولی بھی ہوں۔ آپ نے فرمایا تم اپنے یتیم کے مال میں سے کچھ کھا لیا کرو لیکن تم فضول خرچی نہ کرنا اور تم حد سے زیادہ نہ کھانا اور نہ تم دولت اکٹھا کرنا۔

 

 

٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم، محمد بن صلت، ابو کدینہ، عطاء، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں آخر تک اور آخر تک (یعنی تم لوگ یتیم کے مال دولت کے پاس صرف اس کی خیر خواہی کے واسطے جاؤ اور جو لوگ یتامی کا مال ناحق اور باطل طریقہ سے کھاتے ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ) تو لوگوں نے یتامی کے مال دولت سے پرہیز کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ جس وقت یہ بات ناگوار محسوس ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی گئی اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عمران بن عیینہ، عطاء بن سائب، سیعد بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو جن لوگوں کے پاس (یعنی جن کی سرپرستی میں ) یتیم بچے تھے تو انہوں نے ان کا کھانا پینا اور برتن سب کے سب الگ کر دیئے ) جس وقت یہ بات مسلمانوں پر ناگوار گزری تو خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور اس طریقہ سے ان کے ساتھ شامل ہونا حلال کر دیا۔

 

مال یتیم کھانے سے پرہیز کرنا

 

ربیع بن سلیمان، ابن وہب، سلیمان بن بلال، ثور بن زید، ابو غیث، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی اشیاء سے تم لوگ پرہیز کرو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! وہ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (1) خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا (2) جادو کرنا (3) کسی کو ناحق قتل کرنا جس کو خداوند قدوس نے حرام فرمادیا ہو (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) جہاد کے میدان سے بھاگ جانا (7) پاک دامن خواتین پر زنا کی تہمت لگانا۔

 

 

 

 

عطیہ اور بخشش سے متعلق احادیث مبارکہ

 

نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، حمید، محمد بن منصور، سفیان، زہری، حمید بن عبدالرحمن ، محمد بن نعمان، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد نے عطیہ اور بخشش سے ان کو ایک غلام عنایت کیا پھر حضرت نعمان بن بشیر کے والد ماجد خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے عطیہ اور بخشش پر گواہ بنائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے لڑکوں کو عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں . چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پس اس عطیہ کو واپس لے لو اور مصنف کے اس حدیث کے دواستاذ ہیں اس وجہ سے اس حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ الفاظ راوی محمد کے ہیں حضرت قتیبہ (راوی) کے نہیں ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن ، محمد بن نعمان، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد ماجد ان کو ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اپنا غلام اس لڑکے کو بطور عطیہ کے دیا ہے ؟ (یا صرف تم نے اس ایک ہی لڑکے کو عطیہ میں غلام دیا ہے ؟) اس نے عرض کیا نہیں (باقی تمام لڑکوں کو میں نے کچھ نہیں دیا) اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم اپنے اس عطیہ کو واپس لے لو۔

 

 

٭٭ محمد بن ہاشم، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، حمید بن عبدالرحمن ، محمد بن نعمان، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد ماجد بشیر بن سعد حضرت نعمان کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطیہ کر دیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کیا اپنے دوسرے بیٹوں کو بھی کچھ (غلام) دیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم اس کو واپس لے لو۔ (یعنی اگر بخشش کرنا ہے تو سب کو بحشش کرو)۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید، ولید، اوزاعی، زہری، محمد بن نعمان، حمید بن عبدالرحمن ، حضرت بشیر بن سعد سے روایت ہے کہ وہ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حضرت نعمان بن بشیر کو لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بخشش کر دیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرمائیں تو میں اپنے اس عطیہ کو باقی رکھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو عطیہ کیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو تم اس غلام کو اس سے واپس لے لو (یعنی جس کو تم نے بخشش کیا ہے تم وہ بخشش واپس لے لو)

 

 

٭٭ احمد بن حرب، ابو معاویہ، ہشام، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کو کچھ عطیہ کے طور پر عنایت کیا۔ اس پر حضرت نعمان بن بشیر کے والد سے کہا کہ تم نے میرے بیٹے کو جو کچھ دیا ہے تم اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنا لو۔ چنانچہ وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر گواہ بن جانے کو مکروہ خیال فرمایا (کیونکہ یہ حق تلفی پر گواہ ہونا تھا)۔

 

 

٭٭ محمد بن معمر، ابو عامر،شعبہ، سعد یعنی ابراہیم، عروہ، حضرت بشیر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے لڑکے کو ایک غلام بخشش میں عنایت کیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں وہ اس ارادہ سے حاضر ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اس پر) گواہ بنائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے تمام لڑکوں کو اسی طریقہ سے عطا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پس اس کو رد کر لے (یعنی تم اس کو وہ غلام نہ دو)

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، ہشام بن عروہ، حضرت ابن عروہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت بشیر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کی نبی (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! میں نے نعمان کو کچھ بطور عطیہ کے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اس کے بھائیوں (یعنی اپنے دوسرے لڑکوں ) کو بھی کچھ دیا ہے ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو واپس لے لو (یعنی بخشش نہ کرو)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالملک بن ابی شوارب، یزید، ابن زریع،داؤد،شعبی، حضرت نعمان سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو گود میں لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر گواہ رہیے کہ میں نے نعمان کو اپنے مال سے بطور بخشش کے فلاں فلاں چیز دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو اسی مقدار میں ادا کیا ہے (جتنا حضرت نعمان کو دیا ہے )؟

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالوہاب،داؤد، عامر، حضرت نعمان سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر گئے تاکہ جو کچھ انہوں نے بخشش کی تھی اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے دوسرے لڑکوں کو اسی مقدار میں دیا ہے جتنا کہ ان (نعمان) کو دیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس پر گواہ نہیں بنتا (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت نعمان کے والد سے فرمایا) کیا تم کو یہ بات پسندیدہ نہیں کہ تمہارے ساتھ سب کے سب لڑکے احسان کا ایک جیسا معاملہ کریں ؟ انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم پھر ایسا کام نہ کرو۔

 

 

٭٭ موسیٰ بن عبدالرحمن ، ابو اسامہ، ابو حبان،شعبی، حضرت نعمان بن بشیر انصاری سے روایت ہے کہ حضرت نعمان کی والدہ جو کہ رواحہ کی بیٹی تھیں نے حضرت نعمان کے والد سے عرض کیا کہ تم اپنے مال میں سے ان کے لڑکے نعمان کو کچھ دے دو لیکن حضرت نعمان کے والد نے اس مسئلہ کو ایک سال تک التواء میں ڈالے رکھا۔ پھر خود ہی ان کے دل میں خیال ہوا تو انہوں نے بخشش کی چیز حضرت نعمان کو دے دی۔ حضرت نعمان کی والدہ نے عرض کیا میں نہیں مانتی جس وقت تک تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات پر گواہ نہ بنا لو تو حضرت نعمان کے والد نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس لڑکے کی والدہ یعنی رواحہ کی لڑکی مجھ سے جھگڑا کر رہی ہے اس پر جو میں نے اس (لڑکے ) کو بخشش کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بشیر! کیا تمہارا اس کے علاوہ اور لڑکا بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے ان سب کو بھی اسی طریقہ سے عطیہ کیا ہے جس طریقہ سے اپنے اس لڑکے کو عطیہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تب تم مجھ کو اس مسئلہ میں گواہ نہ بنا کیونکہ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا ہوں۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، یعلی، ابو حبان،شعبی، حضرت نعمان سے روایت ہے کہ میری والدہ محترمہ نے میرے والد ماجد سے میرے لیے کچھ عطیہ اور بخشش کے طور پر مانگا۔ اس نے ہبہ کیا اور مجھ کو کچھ دینا چاہا۔ اس وقت میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی کہ جس وقت تک اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گواہ نہ بن جائیں۔ اس پر حضرت نعمان نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے میرے ہاتھ پکڑ کر مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملایا اور ان دنوں میں لڑکا (یعنی کم عمر) تھا اور آ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس لڑکے کی والدہ روحہ کی لڑکی کچھ ہبہ اور بخشش کے طور پر مانگ رہی ہے اور اس کی خوشی اور رضا مندی اس میں ہے کہ میرے بخشش کر نے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گواہ بن جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بشیر! کیا تمہارا اس کے علاوہ کوئی لڑکا نہیں ہے ؟ (یعنی کیا صرف تمہارا ایک ہی لڑکا ہے ) حضرت بشیر نے عرض کیا جی ہاں ! ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بشیر! کیا تم نے اس کو بھی اسی طریقہ سے عطیہ دیا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر ایسا ہے تو تم اس سلسلہ میں میری گواہی نہ لو۔ اس لیے کہ میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا ہوں۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، محمد بن عبید، اسماعیل، حضرت عا مر سے روایت ہے کہ حضرت بشیر بن سعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری اہلیہ عمرہ نامی روحہ کی لڑکی کہتی ہے کہ تم میرے لڑکے نعمان کے لیے کچھ صدقہ (یعنی بخشش) کر دو اور وہ کہتی ہیں تم اس دئیے ہوئے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنا لو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بشیر سے دریافت فرمایا کیا تمہارے اور بھی لڑکے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں میرے اور لڑکے بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے ان کو بھی اسی مقدار میں بخشش کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس سلسلہ میں مجھ کو گواہ نہ بنا اس ظلم پر۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو نعیم، زکریا، عامر، حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور محمد جو کہ مصنف کے استاذ ہیں ان کی روایت میں جاء کا لفظ نہیں ہے بلکہ لفظ آتی مذکور ہے اور معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور اس شخص نے آ کر عرض کیا میں نے دیا ہے اپنے لڑکے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گواہ رہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے کیا اور اولاد بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اس کو بھی اسی طریقہ سے بخشش کی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو تم کیا ظلم پر گواہ بناتے ہو؟

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، فطر، مسلم بن صبیح، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ مجھ کو میرے والد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر گواہ بنا لیں جو کہ مجھ کو دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا اس کے علاوہ تمہارے کوئی اور لڑکا بھی ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ! ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تمام لڑکوں کو برابر رکھنا چاہیے۔ (ایک لڑکے کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا ظلم ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، فطر، مسلم بن صبیح، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے اور وہ خطبہ دے رہے تھے انہوں نے نقل فرمایا کہ میرے والد صاحب مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے گئے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے عطیہ پر (جو کہ انہوں نے مجھ کو دیا تھا) اس پر گواہ بنائے اور وہ عطیہ میرے والد نے مجھ کو دیا تھا اور مجھ پر میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے والد سے فرمایا کیا تمہارے اور بیٹے بھی ہیں ؟ والد نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سب کے ساتھ برابری اور انصاف کا معاملہ کرو۔

 

 

٭٭ یعقوب بن سفیان، سلیمان بن حرب، حماد بن زید،جابر بن مفضل بن مہلب، حضرت جابر بن مضفل سے مروی ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر سے خطبہ کے دوران سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اولاد کے سلسلہ میں انصاف سے کام لو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے دو مرتبہ فرمایا۔

 

 

 

 

ہبہ سے متعلق احادیث مبارکہ

 

مشترکہ چیز میں ہبہ کرنے کا بیان

 

عمرو بن یزید، حماد بن سلمہ، محمد بن اسحاق، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے کہا ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نزدیک تھے۔ جس وقت (قبیلہ) ہوازن کے نمائندے حاضر ہوئے تھے اور کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ سب کے سب ایک ہی اصل اور ایک ہی خاندان کے فرد ہیں اور ہم لوگوں پر جو بھی آفت اور مصیبت نازل ہوتی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے ساتھ احسان فرمائیں۔ خداوند قدوس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر احسان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کرو یا تم دولت لے یا تم اپنی عورت کو چھڑا لو۔ انہوں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو اختیار دیا ہماری تمام کی تمام خواہش یعنی عورتیں اور مال میں ہم دونوں میں سے اختیار کرتے ہیں اپنی عورتوں اور بچوں کو (یعنی خیر اگر مال دولت حاصل نہ ہو سکے تو نہ سہی ہماری عورتیں اور بچے مل جائیں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس قدر میرا اور عبدالمطلب کی اولاد کا حصہ ہے (مال غنیمت میں سے جو مشاع تھا) وہ میں تم کو دے چکا لیکن جس وقت میں نماز ظہر ادا کروں تو تم سب کھڑے رہو اور اس طریقہ سے کہو کہ ہم لوگ مد د چاہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سبب تمام مومنین سے یا مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور مال میں۔ راوی نقل کرتے ہیں کہ جس وقت لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ نمائندے کھڑے ہو گئے اور ان نمائندوں نے وہ ہی بات کہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کچھ میرا اور عبدالمطلب کی اولاد کا حصہ ہے وہ تمہارے واسطے ہے۔ یہ بات سن کر مہاجرین نے بھی یہی کہا اس پر اقرع بن حابس نے کہا ہم اور قبیلہ بنی تمیم دونوں اس بات میں شامل نہیں ہوئے اور حضرت عیینہ بن حصین نے کہا ہم اور قبیلہ بنو فرازہ کے لوگ دونوں کے دونوں اس بات کا اقرار نہیں کرتے اور حضرت عباس بن مرواس نے اسی طرح سے کہا اور اپنے ساتھ قبیلہ بنی سلیم کے لوگوں کو شامل کیا جس وقت انہوں نے علیحدگی کی بات کہی تو قبیلہ بنی سلیم نے اس کی بات پر انکار کر دیا اور کہا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے اور ہمارا جو کچھ بھی ہے وہ تمام کا تمام رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! تم لوگ ان کی خواتین اور بچوں کو واپس کر دو اور جو شخص مفت نہ دینا چاہے تو میں اس کے واسطے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو چھ اونٹ دئیے جائیں اس مال میں سے جو کہ پہلے خداوند قدوس نے عطا فرمائے (یعنی ان خواتین اور بچوں میں جو اس کا حصہ تھا اس کے عوض) یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہو گئے اونٹ پر۔ لیکن لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے ہی رہ گئے اور کہنے لگا واہ واہ ہم لوگوں کا مال غنیمت ہمارے ہی درمیان تقسیم فرما دیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چاروں طرف سے گھیر کر ایک درخت کی جانب لے گئے۔ وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر مبارک درخت سے علیحدہ ہو کر الگ ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگو! مجھ کو میری چادر اٹھا دو خدا کی قسم اگر تہامہ (جنگل) کے درختوں کے برابر بھی جانور ہوں تو تم لوگوں پر ان کو تقسیم کر دوں پھر تم لوگ مجھ کو کنجوس اور بخیل نہیں قرار دو گے اور نہ ہی مجھ کو بزدل قرار دو گے اور نہ ہی میرے خلاف کرو گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اونٹ کے نزدیک تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی پشت کے بال اپنے ہاتھ کی چٹکی میں لے لیے پھر فرمانے لگے کہ تم لوگ سن لو میں اس فئی میں سے کچھ بھی نہیں لیتا مگر پانچواں حصہ اور وہ پانچواں حصہ بھی لوٹ کر تم لوگوں کے ہی خرچہ میں آ جائے گا۔ یہ بات سن کر ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک آ کر کھڑا ہو گیا اور اس کے پاس ایک گچھا تھا بالوں کا اور اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں نے ہی یہ چیز لی ہے تاکہ میں اس چیز سے اپنے اونٹ کی کملی درست کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شے میرے واسطے اور عبدالمطلب کی اولاد کے واسطے ہے بس وہ تمہاری ہے۔ اس پر اس شخص نے عرض کیا جس وقت یہ معاملہ اس حد کو پہنچ گیا اب اس کی مجھ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور پھر اس نے وہ بالوں کا گچھا پھینک ڈالا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اور لوگوں کو حکم فرمایا (اگر کسی نے ) سوئی اور دھاگہ لے لیا ہو تو وہ بھی اس تقسیم میں داخل کرو کیونکہ غنیمت کے مال میں چوری شرم اور عیب ہو گا چوری کرنے والے شخص کے واسطے قیامت کے دن۔

 

اگر والدہ اپنے لڑکے کو ہبہ کرنے کے بعد ہبہ واپس لے لے ؟

 

احمد بن حفص، ابراہیم، سعید بن ابی عروبہ، عمرو بن شعیب کوئی شخص کسی کو کوئی شے ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس نہ لے مگر باپ اپنے بیٹے کو اگر دینے کے بعد واپس لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ ہبہ کی ہوئی شے واپس لینے والا شخص قے کر کے اس کو چاٹنے والا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، حسین، عمرو بن شعیب، طاؤس، ابن عمر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی شخص کو یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ ہبہ کرنے کے بعد وہ شے واپس لے لے لیکن والد اپنے لڑکے کو کوئی شے ہبہ کر نے کے بعد واپس لے لے تو درست ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینے کی ایسی مثال ہے کہ جس طریقہ سے کوئی کتا کھائے چلا جاتا ہے لیکن جس وقت اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ قے کر دیتا ہے پھر وہ اپنی قے کو واپس کر لے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ خلنجی مقدسی المقدسی، ابو سعید، مولی بنی ہاشم، وہب، ابن طاؤس، ابن عباس ترجمہ سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبداللہ ابراہیم بن نافع، حسن بن مسلم، حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی شخص کے واسطے یہ بات جائز نہیں ہے کہ ہبہ کرے اور ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لے علاوہ والد کے وہ اپنے لڑکے کو ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لے سکتا ہے۔ اور حضرت طاؤس نقل فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات سنی تھی اور میں ان دنوں کم عمر تھا اور وہ جملہ میں نے سنا تھا وہ جملہ تھا (یعنی اپنی قے کر نے کے بعد اس کو خود واپس لینا تھا) اور نامعلوم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ مثال اس شخص کے واسطے بیان فرمائی تھی یا نہیں اور وہ یہ ہے پھر جو شخص یہ کام کرے اس کی مثال کتے کی طرح ہے جو کہ کھاتا ہے اور پھر قے کر دیتا ہے اور پھر اس قے کو کھا لیتا ہے۔

 

حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں اختلاف

 

محمود بن خالد، عمر، اوزاعی، محمد بن علی بن حسن، سعید بن مسیب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا صدقہ خیرات کرنے کے بعد اس کو واپس لینے والا شخص کتے کی مانند ہے اس لیے کہ کتا اپنے کھانے کو اگل دیتا ہے پھر اس کو کھاتا ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالصمد، حرب، ابن شداد، یحی، ابن ابی کثیر، عبدالرحمن بن عمر، اوزاعی، محمد بن علی بن حسین بن فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص صدقہ کر کے اس کو واپس لیتا ہے تو اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسی کتے کی مثال ہے جو کہ (پہلے ) قے کرتا ہے پھر اس کو کھا لیتا ہے۔

 

 

٭٭ ہیثم بن مروان بن ہیثم بن عمران، محمد، ابن بکار بن بلال، یحیی، اوزاعی، محمد بن علی بن حسین، سعید بن مسیب، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا صدقہ کر کے اس کو واپس لینے والا شخص کتے کی مانند ہے کتے کی عادت ہے قے کر کے چاٹ لینا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن ،شعبہ، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہبہ کر کے اس کو واپس لینے والا قے کر کے چاٹ لینے والا ہے۔

 

 

٭٭ ابو الاشعث، خالد،شعبہ، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینے والا شخص قے کر کے چاٹنے والے شخص جیسا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن علاء، ابو خالد، سلیمان بن حبان، سعید بن ابی عروبہ، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بری مثال ہمارے واسطے نہیں ہے۔ ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینے والا شخص قے کر کے چاٹ لینے کی مانند ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن زرارہ، اسماعیل، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بری مثال ہمارے واسطے نہیں ہے۔ (دراصل) ہبہ کرنے کے بعد اپنی شئی کو واپس لینے والا شخص قے کر کے چاٹ لینے والے کی مانند ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم بن نعیم، حبان، عبد اللہ، خالد، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمارے واسطے بری مثال کی مشابہت کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی شئی کو واپس لینے والا شخص کتے کی مانند ہے جو کہ قے کر نے کے بعد اس کو کھا لے۔ یعنی جس طریقہ سے کتا قے کی ہوئی شئی کھا لیتا ہے اس طریقہ سے ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینے والا شخص بھی ہے۔

 

اس اختلاف کا تذکرہ جو راویوں نے طاس کی روایت میں بیان کیا

 

زکریا بن یحی، اسحاق، مخزومی، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہبہ کر کے اس کو واپس لینے والا شخص کتے کی طرح ہے جس طریقہ سے کتا قے کرتا ہے اور پھر اس کو وہ کھا لیتا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، ابو معاویہ، حجاج، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے ہبہ کیے ہوئے مال کو ہبہ کرنے کے بعد واپس لینے والا شخص کتے کی عادت والا ہے جو کہ قے کرتا ہے اور پھر اس کو کھا لیتا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق ازرق، حسین، عمر بن شعیب، طاؤس، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کے واسطے ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینا حلال نہیں فرمایا لیکن والد اپنے لڑکے کو کوئی شئی دے کر واپس لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے اس کو اس کے واسطے اور اس شخص کی مثال جو کہ ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لیتا ہے اس کتے کی طرح ہے جو کہ قے کر کے اس کو کھا لیتا ہے جس وقت اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ قے کر دیتا ہے اس کھائے ہوئے کی اور پھر کھا لیتا ہے اس قے کو۔

 

 

٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد، ابن جریج، حسن بن مسلم، حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی شخص کے واسطے حلال نہیں ہے کہ وہ ہبہ کرنے کے بعد اس کو لے لیکن والد کے واسطے درست ہے کہ اپنے بیٹے سے ہبہ کرنے کے بعد ہبہ کی ہوئی شئی واپس لے لے۔ حضرت طاؤس (راوی) بیان فرماتے ہیں کہ میں لڑکوں سے یہ بات سنا کرتا تھا کہ قے کر کے چاٹنے والا الخ لیکن مجھ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مثال میں اس مثال کو بیان فرمایا تھا آخر مجھ کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ ہبہ کر کے اس کو واپس لینے والا شخص کتے کی طرح ہے جو کہ اپنی قے کو کھا لیتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم بن نعیم، حبان، عبد اللہ، حضرت حنظلہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ حدیث شریف طاؤس سے سنی اور طاؤس نقل فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے شخص سے یہ حاصل کی کہ جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت حاصل ہوئی تھی اور وہ خبر اور حدیث شریف یہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد فرمایا اس شخص کی مثال جو کہ ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لے لے اس کتے کی طرح ہے جو کہ قے کرتا ہے اور پھر اس قے کو دوبارہ کھا لیتا ہے۔

 

 

 

 

رقبی سے متعلق احادیث مبارکہ

 

حضرت زید بن ثابت کی روایت میں ابن ابی نجیح پر اختلاف

 

ہلال بن علاء، عبید اللہ، ابن عمر، سفیان، ابن ابی نجیح، طاؤس، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رقبی جائز ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن میمون، محمد، ابن یوسف، سفیان، ابن ابی نجیح، طاؤس، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رقبی کا مالک اسی کو بنایا کہ جس کو مالک نے وہ چیز عطا فرمائی تھی۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، عبدالجبار بن علاء، سفیان، ابن ابی نجیح، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا رقبی نہیں کرنا چاہیے پھر جس شخص نے رقبی کیا تو اس کا راستہ میراث کاہے۔

 

 

اس حدیث میں ابو زبیر پر جو اختلاف کیا گیا ہے اس کا تذکرہ

 

محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے مال دولت کا رقبی نہ کیا کرو پھر جو شخص کسی شئی کا رقبی کرے تو وہ چیز جس کے واسطے رقبی کیا گیا ہے اسی کی ہو گی۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، ابو معاویہ، حجاج، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ جائز ہے اور جو شخص اس کے واسطے جاتا ہے کہ جس کو دیا جاتا ہے اور رقبی جائز ہے اس کو کہ جس کے واسطے رقبی کیا گیا اور ہبہ کرنے کے بعد اس کو واپس لینے والا شخص ایسا ہے کہ جیسے کہ قے کھانے والا۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحی، سفیان، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ عمریٰ اور رقبی (جائز ہے ) اور دونوں برابر ہیں۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یعلیٰ، سفیان، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رقبی درست نہیں ہے کسی کو مکان یا زمین دینا اس شرط سے کہ اگر دینے والا پہلے مر جائے تو وہ اس دوسرے کی ملک ہو جائے گا اور اگر لینے والے شخص کا پہلے ہی انتقال ہو جائے تو دینے والا شخص اس کو واپس لے لے گا اور رقبی اس کو اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں ہر ایک دوسرے کے مرنے کا منتظر رہتا ہے۔ اس طرح سے عمریٰ بھی جائز نہیں ہے کہ عمریٰ بھی پھر فرمایا جو شخص کسی چیز کو عمریٰ کے طور پر دے دے اور اس کی ہے کہ جس کو کہ عمریٰ دیا گیا اور جس نے رقبی میں کوئی شئی دی تو وہ رقبی لینے والے کی ہو گی۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، محمد بن بشر، حجاج، ابی زبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ عمریٰ یا رقبی کرنا مصلحت کی بات نہیں ہے پھر جس شخص کو کوئی شئی دی گئی عمریٰ یا رقبی میں سے تو وہ شئی اسی کی ہو گی زندگی میں اور موت میں بھی۔ حضرت حنظلہ نے اس روایت کو مرسل فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، حضرت حنظلہ سے روایت ہے کہ حضرت طاؤس فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رقبی کرنا حلال نہیں ہے۔ پھر جس شخص کو رقبی کے طور سے شئی دی گئی تو اس کا میراث کا راستہ ہے۔

 

 

٭٭ عبدہ بن عبدالرحیم، وکیع، سفیان، ابن ابی نجیح، طاؤس، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ یعنی زمین یا مکان لینے والے ورثہ کی میراث ہو جاتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابن طاؤس، حجر مدری، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ وارثوں کی وراثت ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید، عبد اللہ، بن مبارک، معمر، ابن طاؤس، حجر مدری، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ درست ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید، ابن مبارک، معمر، عمرو بن دینار، طاؤس، زید بن ثابت مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، معمر، عمرو بن دینار، طاؤس، زید بن ثابت مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد،شعبہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ وارث کا حق ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو داؤد،شعبہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حجر مدری، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ وارث کا ملکیت ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، عمرو، طاؤس، زید بن ثابت مضمون حسب سابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید اللہ بن یزید بن ابراہیم، علی معقل، عمر بن دینار، حجر مدری، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وارث کے واسطے عمریٰ کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحی، زید بن اخزم، معاذ بن ہشام، ابی قتادہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ جائز ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن محمد بن بکار بن بلال، سعید، ابن بشیر، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ جائز ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، محمد بن اسحاق، حضرت مکحول، طاؤس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمریٰ اور رقبی کو جائز اور ثابت رکھا۔

 

 

 

 

عمری سے متعلق احادیث مبارکہ

 

تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا اور رکھ چھوڑنا ممنوع ہے

 

عمرو بن علی، ابو داؤد، بسطام بن مسلم، مالک بن دینار، حضرت عطاء سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ کے وقت ارشاد فرمایا عمریٰ درست ہے یعنی عمریٰ کے بعد وہ نافذ ہو جاتا ہے۔

 

جابر نے جو خبر اور حدیث عمری کے باب میں نقل کی اور ناقلین نے اس میں اختلاف کیا

 

احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، عبدالکریم، حضرت عطاء سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمریٰ اور رقبی کرنے سے منع فرمایا۔ حدیث شریف کے راوی نے اپنے استاذ یعنی حضرت جابر سے دریافت کیا رقبی کیا شئی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کوئی شخص دوسرے شخص سے کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہارے واسطے ہے اور تم ہی اس کے مالک ہو اس طریقہ سے دینے کو منع فرمایا پھر اگر کسی شخص نے کسی کو اس طریقہ سے کہہ کر دیا تو وہ چیز اس کی ہو جاتی ہے کہ جس کو اس طریقہ سے کہا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، محمد، شعبۃ، قتادۃ، حضرت عطاء، حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عمریٰ کرنا درست ہے (یعنی عمریٰ کے بعد وہ نافذ اور جاری ہو جاتا ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، عبدالملک بن ابی سلیمان، حضرت عطاء سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی کو کوئی شئی دی زندگی میں اس کو استعمال کرنے کو تو وہ شئی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد اسی کی ہو گی۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابن جریج، حضرت عطاء نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رقبی نہ کیا کرو اور عمری کرنا اچھا کام نہیں ہے پھر جس شخص کو رقبی دیا جائے گا یا عمریٰ کسی شئی میں تو وہ شئی اس کے ورثہ کی ہو جائے گی۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، حبیب ابن ثابت، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو عمریٰ کرنا چاہیے اور نہ ہی رقبی کرنا اچھا کام ہے پھر جس کسی شخص نے عمریٰ یا رقبی کیا تو پھر وہ شئی ہمیشہ کے لئے اس شخص کی ہو گی چاہے وہ شخص زندہ رہے یا اس کا انتقال ہو جائے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، محمد بن بکر، ابن جریج، عطاء، حبیب بن ابی ثابت، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ تو رقبی ہے اور نہ عمریٰ پھر جس شخص نے کسی شئی میں عمریٰ یا رقبی کیے پھر وہ اسی کا ہو گیا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔

 

 

٭٭ عبدۃ بن عبدالرحیم، وکیع، یزید بن زیاد بن ابی الجعد، حبیب بن ابی ثابت، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رقبی اور عمریٰ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی کو کوئی شئی رقبی میں دے تو وہ شئی اسی کی ہو جاتی ہے جس کو وہ شئی دی گئی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو عاصم، ابن جریج، ابو الزبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رقبی کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ جو شخص کسی شئی کو رقبی میں دے تو وہ شئی اسی کی ہو جاتی ہے جس کو وہ شئی دی گئی۔

 

 

٭٭ محمد بن ابراہیم بن صدران، بشر بن المفضل، حجاج الصواف، ابو زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے انصاری لوگو! تم لوگ اپنے مال دولت کو اپنے پاس رکھو اور تم لوگ اپنے مال میں عمریٰ نے کرو۔ پھر جو شخص عمریٰ کرے گا کسی شئی میں دوسرے کی جو کہ زندگی میں کی جائے اور مرنے کے بعد۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، ابو زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! تم سنبھال رکھو اپنے مال میں اور عمریٰ نہ کیا کرو ان مالوں میں پھر جو شخص عمریٰ کرے گا کسی شئی میں دوسرے کے واسطے تو اس کی زندگی بھر کے لیے وہ شئی ہو جائے گی جب تک کہ وہ شخص زندہ رہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی وہ شئی اس شخص کی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، داؤد بن ابی ہند، ابو زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رقبی اس شخص کاہے کہ جس شخص کے واسطے رقبی کیا گیا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، ہشیم، داؤد، ابو زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ ان لوگوں کا ہو جاتا ہے کہ جن کو دیا گیا ہے اور رقبی کے مالک بھی اس کے لوگ (جن کے واسطے رقبی کیا گیا) ہوتے ہیں۔

 

اس اختلاف کا تذکرہ جو کہ زہری پر اس خبر میں نقل کیا گیا ہے

 

محمود بن خالد، عمر، اوزاعی، ابن شہاب، عمرو بن عثمان، بقیۃ بن ولید، اوزاعی، حضرت زہری، عروہ، حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی کے واسطے عمریٰ کیا تو وہ شئی اس شخص کی ہو گی اور اس کے بعد اس کے ورثاء کی ہے جو کہ اس کے پیچھے رہ گئے ہیں۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن مساور، ولید، ابو عمرو، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ اس شخص کے واسطے ہے کہ جس کے واسطے عمریٰ کیا گیا اور اس کے پہلے لوگوں کے واسطے وارث اس عمریٰ کا وہ ہے جو کہ وارث اس کے مال کا ہو گا اس کے مرنے کے بعد۔

 

 

٭٭ محمد بن ہاشم بعلبکی، ولید، اوزاعی، زہری، عروۃ وابی سلمۃ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ اس شخص کے واسطے ہے کہ جس کے واسطے عمریٰ کیا گیا ہے اور عمریٰ میں سے جو شئی اس کو ملی ہے وہ اس کی ہے اور اس کے بعد اس کی ہے جو وارث پیچھے رہ جائے گا اور جو شخص اس کے مال کا وارث ہو گا وہ ہی شخص اس عمریٰ کا بھی وارث ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم، عمرو بن ابی سلمہ دمشقی، ابو عمر صنعانی، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی شخص کو عمریٰ میں کوئی چیز دے اس کے پیچھے رہنے والے کو تو وہ بخشش میں آئی ہوئی شئی اس کی ملکیت ہے کہ جس کو مالک نے دی اور پھر اس کی ہے جو شخص اس عطیہ کے وصول کرنے والے کا ہو گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے عمریٰ میں اپنی شئی دی کسی دوسرے شخص کو اور اس کے ورثوں کو اس نے اپنی گفتگو سے اپنے حق کو مٹایا اس کے کہنے سے وہ شئی اس کی ہو گی اور اس کے پہلے لوگوں کی۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمۃ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی کے واسطے عمریٰ کرے اور اس کے پیچھے رہنے والوں کے واسطے یعنی اس کے ورثاء کے واسطے البتہ اس دی ہوئی شئی کا مالک ہو جاتا ہے وہ لینے والا شخص واپس نہیں لے سکتا اور وہ چیز دینے والے کی طرف واپس نہیں ہو سکتی کیونکہ اس نے ایسی شئی کا عطیہ کیا ہے کہ اس میں لینے والے ورثہ کی وراثت ہو گی۔

 

 

٭٭ عمران بن بکار، ابو الیمان، شعیب، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا جس شخص نے کسی شئی کو دیا کسی کو کچھ عمریٰ کے طور سے اور مالک بنا دیا اس کو اور پچھلے ورثاء کو اس عمریٰ کا تو مالک ہو گیا وہ آدمی اس چیز کا اب اس کے وارث اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصوں کو اس عمریٰ کو لے لیں گے اور دینے والے کو کچھ نہ ملے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، ابن ابی فدیک، ابن ابی ذئب، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آدمی کے مقدمہ میں جس نے عمریٰ میں دی اپنی چیز دوسرے آدمی کو اور اس آدمی کے وارثوں کو اس کے مرنے کے بعد حکم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ ایسی بخشش اور عطیہ ہے جو کہ دینے والے کو نہیں مل سکتا اور دینے والے کو جائز نہیں کسی قسم کی شرط لگانا اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا استثناء کرنا درست ہے۔ حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ عطیہ اس وجہ سے واپس نہیں ہو سکتا کہ اس دینے والے شخص نے اس طریقہ سے بخشش کی ہے کہ اس میں لینے والے شخص کے ورثاء کی وراثت ثابت ہوئی ہے پھر ورثاء نے اس شرط کو منقطع کر دیا۔

 

 

٭٭ ابو داؤد سلیمان بن یوسف، یعقوب، ان کے والد، صالح، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی دوسرے کے واسطے عمریٰ کیا اور اس کے ورثاء کے واسطے عمریٰ کیے۔ (یعنی اس طرح سے کہا کہ یہ مکان وغیرہ تمام زندگی تمہارے لیے ہے اور تمہارے مرنے کے بعد تمہارے ورثاء کے لیے ہے اور اس دینے والے شخص نے کہا کہ میں نے وہ مکان یا کچھ اور شئی تمہارے پچھلے کے واسطے بخشش دی۔ جب تک کہ ان میں سے کوئی باقی رہا۔ تو اب وہ مکان اس کے واسطے ہو گیا کہ جس کو کہ اس دینے والے شخص نے بخشش کی اب وہ مکان وغیرہ دینے والے (یعنی بخشش کرنے والے کی جانب) واپس نہیں لوٹ سکتا ہے کیونکہ اس دینے والے (یعنی ہبہ کرنے والے نے اس طریقہ سے ہبہ کیا ہے کہ اس میں ورثاء کے لیے وراثت قائم ہو گئی۔ یعنی تمام زندگی اس کے واسطے کہ جس کو دیا ہے اور اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء کے لیے دیا ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید بن ابی حبیب، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمریٰ سے متعلق فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو عطیہ کرے اور اس کو اس چیز کا مالک بنا دے اور استثناء کرتے ہوئے اس طریقہ سے کہے اگر تمہارے اوپر کسی قسم کا حادثہ پیش آ جائے تو وہ شئی میری ہے اور میرے بعد رہنے والوں (یعنی میرے ورثاء) کی ہے تو اس پر اور اس قسم کی شرط لگانے والوں سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص عطیہ میں دی گئی سے کا مالک ہو گیا (اور اس کے مرنے کے بعد) اس دوسرے شخص کے ورثاء مالک ہو گئے۔

 

اس حدیث میں یحیی بن کثیر اور محمد بن عمرو کا حضرت ابو سلمہ پر اختلاف کی بیان

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد بن الحارث، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ اس شخص کا ہوتا ہے کہ جس کو بخشش کی گئی۔

 

 

٭٭ یحیی بن درست، ابو اسماعیل، یحیی، ابو سلمہ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ اس شخص کا ہو جاتا ہے کہ جس کو بخشش کیا گیا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، محمد، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ کرنا بہتر نہیں ہے لیکن جس کسی شخص نے عمریٰ میں دے دی کوئی چیز تو وہ اسی شخص کی ہو گی کہ جس کو وہ شئی عطیہ کی ہے (یعنی ہبہ کیا ہے )۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ عبدۃ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی شئی میں عمریٰ کیے تو وہ شئی اس کی ہو گئی کہ جس کو وہ شئی مالک نے بخشش کی۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، محمد، شعبہ، قتادۃ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی شئی میں عمریٰ کیے تو وہ شئی اس کی ہو گی کہ جس کو مالک نے بخشش کی۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، معاذ بن ہشام، ان کے والد، قتادۃ، سلیمان بن ہشام، محمد بن سیرین،شریح ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتادۃ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت زہری نے بیان کیا کہ جس وقت عمریٰ دیا جائے کسی شخص کو اس کی زندگی بھر اور اس کے بعد اس کے ورثاء تو پھر وہ دینے والے شخص کی جانب واپس نہیں ہو گا اور جو شخص اس کے ورثاء کے واسطے نے کہے تو شرط کے موافق عمل ہو گا یعنی دینے والے کو مل سکتا ہے۔ قتادہ سے ہی روایت ہے کہ کسی شخص نے عطاء بن ابی رباح سے دریافت کیا انہوں نے نقل کیا کہ جابر بن عبداللہ نے مجھ کو حدیث سنائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمریٰ جائز ہے۔ حضرت ابو قتادہ کو حضرت زہری سے سن کر بیان کرتے ہیں کہ خلفاء نے اس کے موافق حکم نہیں کیا (یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے عمریٰ کے جواز کا حکم نہیں فرمایا۔ لیکن حضرت عطاء نقل فرماتے ہیں کہ عبدالمطلب بن مروان نے اس کے موافق حکم فرمایا۔

 

 

بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ دے سکے اس کے بیان میں

 

محمد بن معمر، حبان، حماد بن سلمۃ، ابراہیم بن یونس بن محمد، ان کے والد، حماد بن سلمہ، داؤد بن ابی ہند وحبیب معلم، عمرو بن شعیب، ان کے والد، اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مال سے کسی خاتون کو ہبہ اور بخشش کرنا جائز نہیں ہے یعنی جس وقت مالک ہو گیا مرد اس کی عصمت کا (مطلب یہ ہے کہ نکاح ہونے کے بعد شوہر کی بغیر اجازت کسی عورت کو کسی کو ہبہ کرنا جائز نہیں ہے )۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، حسین معلم، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے خطبہ پڑھنے کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا کہ کسی خاتون کے واسطے جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر وہ کسی کو کچھ بخشش کرے۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو بکر بن عیاش، یحیی بن ہانی، ابو حذیفہ، عبدالملک بن محمد بن بشیر، حضرت عبدالرحمن بن علقمہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ثقیف کے نمائندے ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ تحفہ بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ہدیہ ہے یا صدقہ وخیرات ہے اگر یہ تحفہ اور ہدیہ ہے تو اس میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضامندی ہے اور یہ ضرورت پوری ہونے کی چیز ہے اور اگر صدقہ و خیرات ہے تو اس میں رضامندی ہے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی۔ ان نمائندوں نے سن کر عرض کیا نہیں یہ صدقہ نہیں ہے بلکہ ہدیہ اور تحفہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت اس کو قبول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لوگوں کے پاس بیٹھ گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گفتگو کرنے لگے اور سوال کرنے لگ گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر اور نماز عصر ایک ساتھ ملا کر پڑھیں۔

 

 

٭٭ ابو عاصم خشیش بن اصرم، عبدالرزاق، معمر، ابن عجلان، سعید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری خواہش ہے کہ میں کسی کا ہدیہ اور تحفہ قبول نہ کروں لیکن قریشی یا انصاری کا۔ یا ثقفی کا یا دوسی کا۔ (یہ قبائل کے نام ہیں )۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع،شعبہ، قتادۃ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک دن گوشت پیش کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیسا ہے یہ گوشت؟ لوگوں نے یعنی گھر والوں نے عرض کیا حضرت بریرہ کو کسی شخص نے صدقہ دیا تھا یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدقہ حضرت بریرہ کے واسطے تھا اور ہمارے واسطے ہدیہ اور تحفہ ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان رہاوی و موسیٰ بن عبدالرحمن ، محمد بن بشیر، سفیان، موسیٰ بن عقبہ، سالم بن عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہہ کر قسم کھایا کرتے تھے۔ یعنی قسم ہے مجھ کو اس (اللہ عزوجل) کی جو کہ دلوں کا پھیرنے والا ہے۔

 

 

 

 

قسموں اور نذروں سے متعلق احادیث مبارکہ

 

مصرف القلوب کے لفظ کی قسم

 

محمد بن یحیی بن عبد اللہ، محمد بن الصلۃ ابو یعلی، عبداللہ بن رجاء عباد بن اسحاق، زہری، حضرت سالم اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قسم لاء تصرف القلوب کے جملہ کے ساتھ تھی یعنی اس طریقہ سے کہ قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی دلوں کو پھیرنے والا اللہ ہے۔

 

خداوند قدوس کی عزت کی قسم کھانے کے بارے میں

 

اسحاق بن ابراہیم، فضل بن موسی، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت خداوند قدوس نے جنت کو پیدا فرمایا اور آگ کو پیدا فرمایا تو حضرت جبرائیل امین کو جنت کی جانب بھیجا اور ارشاد فرمایا تم اس کو دیکھ لو کہ ہم نے کیا کچھ تیار کیا ہے اس میں اہل جنت کے لیے چنانچہ جبرائیل امین نے آ کر دیکھا پھر بارگاہ خداوندی میں عرض کی کہ تیری عزت کی قسم ہے کہ وہ ایسی چیز ہے جو شخص اس کا حال سنے گا تو وہ اس کے بغیر نہ رہ سکے گا یعنی ہر شخص اس میں داخل ہو گا پھر اس کے واسطے حکم ہوا تو وہ ڈھانپ دی گئی مشکل اور ناپسند باتوں سے۔ پھر حضرت جبرائیل کو حکم ہوا کہ تم پھر جا کر جنت کو دیکھو اور اس چیز کو دیکھو کہ جو جنت میں تیار کی گئی اہل جنت کے واسطے۔ چنانچہ حسب الحکم پھر جبرائیل نے جنت کو جا کر دیکھا تو دیکھا کہ وہ ڈھانپ دی گئی ہے ناپسند اور ناگوار چیزوں سے۔ پھر حضرت جبرائیل امین نے دربار الٰہی میں حاضر ہو کر عرض کیا تیری عزت کی قسم اب تو اس کی حالت یہ ہے کہ مجھ کو اس کا اندیشہ ہوا کہ شاید جنت میں کوئی بھی داخل نہ ہو گا پھر حضرت جبرائیل امین کو حکم ہوا کہ تم جا کر دوزخ کی آگ کو دیکھو اور اس تیاری کو دیکھو کہ جو اہل دوزخ کے واسطے تیار کی گئی ہے چنانچہ حضرت جبرائیل نے وہاں جا کر دیکھا کہ دوزخ تو ایک پر ایک چڑھی جاتی ہے حضرت جبرائیل نے آ کر عرض کیا اے میرے پروردگار تیری عزت کی قسم اس میں کوئی بھی داخل نہ ہو گا پھر جناب باری تعالیٰ کا حکم ہوا تو فوراً ڈھانپ دی گئی پسندیدہ اشیاء سے پھر حضرت جبرائیل نے اس کو دیکھا اور عرض کیا جناب باری تعالیٰ قسم ہے تیری عزت کی اب اس کی حالت کو دیکھ کر یہ خوف ہوا مجھ کو اس میں بغیر داخل ہوئے ایک بھی باقی نہ بچے گا۔

 

اللہ تعالیٰ کے سوا قسم کھانے کی ممانعت کا بیان

 

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قسم کھایا کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ خداوند قدوس کے نام کے علاوہ کسی کی قسم نے کھایا کرے اور قریش کی عادت تھی کہ وہ اپنے باپوں کے نام پر قسم کھایا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ باپوں کی قسم نے کھایا کرو۔

 

 

 

جنگ کے متعلق احادیث مبارکہ

 

مذکورہ بالا حدیث شریف میں حضرت اعمش پر اختلاف

محمد بن مثنی، ابو داؤد، عفان، یزید بن زریع، یونس بن عبید، حمید بن ہلال، عبداللہ بن مطرف بن شخیر، ابو برزۃ اسلمی سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے کسی کو سخت سست کہا تو اس نے بھی وہی جواب دیا میں نے عرض کیا کیا میں اس شخص کی گردن اڑا دوں ؟ یہ سن کر انہوں نے مجھ کو ڈانٹ دیا اور فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی شخص کے لیے یہ کام جائز نہیں ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا ابو نضر کا نام حمید بن ہلال ہے اور اس روایت کو یونس بن عبید نے مسنداً روایت کیا وہ روایت یہ ہے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، عفان، یزید بن زریع، یونس بن عبید، حمید بن ہلال، عبداللہ بن مطرف بن شخیر، ابو برزۃ اسلمی سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران وہ ایک مسلمان پر غصہ ہوئے اور بہت زیادہ سخت غصہ ہوئے میں نے جس وقت یہ دیکھا تو عرض کیا اے خلیفہ رسول! اگر آپ فرمائیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ جس وقت میں نے اس شخص کو قتل کرنے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ تذکرہ چھوڑ دیا اور گفتگو میں مشغول ہو گئے ہم جس وقت وہاں سے روانہ ہو گئے اور وہاں سے علیحدہ ہو گئے تو انہوں نے مجھ کو بلایا اور فرمایا ابو برزہ! تم نے ابھی کیا کہا تھا میں تو بھول گیا؟ میں نے کہا کہ مجھ کو یاد دلائیں ۔انہوں نے فرمایا جو تم نے ابھی کہا تھا کیا وہ تم کو یاد نہیں ہے۔ میں نے کہا نہیں خدا کی قسم انہوں نے کہا جس وقت تم نے مجھ کو ایک آدمی پر غصہ ہوئے دیکھا تھا تو کہا تھا کہ میں اس شخص کی گردن اڑا دوں اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! انہوں نے پوچھا کیا تم (واقعی) ایسا کرتے ؟ میں نے عرض کیا بلاشبہ اور اگر حکم فرمائیں تو میں وہ کام انجام دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم کسی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کسی کو یہ حق نہیں ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت تمام روایت سے زیادہ عمدہ اور اعلی ہے۔

 

جادو سے متعلق

 

محمد بن العلاء، ابن ادریس، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عبداللہ بن سلمہ، صفوان بن عسال سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ چلو اس نبی کے پاس چلیں (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس چلیں )۔ دوسرے شخص نے کہا اس کو نبی نہ کہو کیونکہ اگر اس نے (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) سن لیا تو ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی (یعنی حد سے زیادہ خوش ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ لو اب مجھ کو یہود بھی نبی تسلیم کرنے لگے۔ بہر حال) پھر وہ دونوں حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ وہ نو آیات کیا ہیں (جو کہ خداوند قدوس نے حضرت موسیٰ کو عطا فرمائی تھیں جیسا کہ فرمایا گیا (وَلَقَد اٰتَینَا مُوسیٰ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرو اور زنا نہ کرو اور خداوند قدوس نے جس جان کو حرام کیا ہے (یعنی جس کا خون حرام قرار دیا ہے ) اس کو ناحق قتل نہ کرو اور تم بے قصور آدمی کو حاکم یا بادشاہ کے پاس نہ لے جا (اس کو ناحق سزا دلانے کے لیے ) اور تم جادو نہ کرو اور سود نہ کھاؤ اور پاک دامن خاتون پر تہمت زنا نہ لگا اور جہاد کے دن راہ فرار اختیار نہ کرو (بلکہ دشمن کا جم کر مقابلہ کرو) یہ احکام نو ہیں اور ایک حکم خاص تم لوگوں کے لیے ہے کہ تم ہفتہ والے دن ظلم زیادتی نہ کرو (مراد یہ ہے کہ وہ دن حرمت کا دن ہے اس کی پوری طرح عظمت برقرار رکھو) اور اس روز مچھلیوں کا شکار نہ کرو (کیونکہ ہفتہ کا دن یہود کے شکار کرنے کے واسطے مقرر کیا گیا تھا کتب تفسیر میں اس کی صراحت ہے ) یہ باتیں سن کر ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے ؟ انہوں نے جواب دیا حضرت داؤد نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت داؤد کی اولاد میں سے نہیں ہیں یہ صرف ایک بہانہ تھا حضرت داؤد نے خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نبی ہونے کی خوش خبری دی ہے اور ہم کو اندیشہ ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع کریں گے تو یہود ہم کو قتل کر دیں گے۔

 

 

جادو گر سے متعلق حکم

 

عمرو بن علی، ابو داؤد، عباد بن میسرۃ منقری، حسن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص گرہ ڈال کر اس میں پھونک مارے (جس طرح سے کہ جادوگر کرتے ہیں ) تو اس نے جادو کیا اور کسی نے جادو کیا تو وہ شخص مشرک ہو گیا اور جس نے گلے میں کچھ لٹکایا تو وہ اس پر چھوڑ دیا جائے گا یعنی خداوند قدوس اس کی حفاظت نہیں فرمائے گا۔

 

اہل کتاب کے جادو گروں سے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

ہناد بن سری، ابو معاویۃ، الاعمش، ابن حیان، یعنی یزید، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک یہودی نے جادو کیا (کہ جس کا نام لبید بن عاصم تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جادو کی وجہ سے چند روز تک مریض رہے پھر حضرت جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جادو کر دیا ہے اور فلاں کنویں میں گرہیں ڈال کر رکھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو وہاں پر بھیجا وہ لوگ جادو کی گرہیں نکال کر لائے اس کے لاتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح سے کھڑے ہو گئے کہ جس طرح سے رسی میں بندھے ہوئے ہوں اور کوئی شخص وہ رسی کھول دے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا تذکرہ اس یہودی (یعنی جادو کر نے والے شخص سے ) نہیں فرمایا اور نہ ہی اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر اس کا کچھ بھی اثر محسوس کیا۔

 

 

اگر کوئی شخص مال لوٹنے لگ جائے تو کیا کیا جائے ؟

 

ہناد بن سری، ابو احوص، سماک، قابو س بن مخارق سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور دریافت کرنے لگا کہ اگر کوئی شخص میرا مال دولت مجھ سے چھین لینے کے واسطے آ جائے تو اس وقت مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا تم کو چاہیے کہ اس کو خدا کا خوف دلانا چاہیے۔ اس نے کہا کہ اگر وہ شخص خوف خداوندی اختیار نہ کرے یعنی نہ ڈرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اردگرد کے مسلمانوں کی مد د حاصل کرنا چاہیے۔ اس نے پھر کہا کہ اگر اس جگہ مسلمان موجود نہ ہوں تو کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی صورت میں حاکم وقت سے کہنا چاہیے۔ یہ بات سن کر اس شخص نے کہا اگر وہاں سے حاکم بھی فاصلہ پر ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی صورت میں اپنے مال و جان کے لیے تم کو جنگ کرنا چاہیے اگر تم حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے تو تم شہید ہو جاؤ گے ورنہ تم اپنا مال دولت بچا لوگے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابن ہاد، عمرو بن قہید غفاری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کوئی شخص ظلم سے میرا مال لینے کے واسطے آ جائے تو مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو خدا کی قسم دینا چاہیے۔ اس نے کہا اگر وہ شخص یہ بات نہ مانے تو کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو دوبارہ اللہ کی قسم دینا چاہیے۔ اس نے پھر عرض کیا اگر وہ جب بھی نہ مانے تو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی صورت میں اس شخص سے جنگ کرو اگر تم قتل کر دیئے گئے تو تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے اور اگر وہ (ظالم) مارا گیا تو وہ دوزخ میں جائے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب بن لیث، لیث، ابن ہاد، قہید بن مطرف غفاری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کوئی ظلم سے میرا مال دولت لینے آئے تو مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو اللہ کی قسم دے دو۔ اس نے عرض کیا اگر وہ نہ مانے تو مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اس کو خدا کی قسم دے دو۔ اس نے کہا اگر وہ یہ نہ مانے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم اس کو ایسی صورت میں اس سے جھگڑا کرنا چاہیے (بشرطیکہ کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو) اور ایسی صورت میں اگر تم قتل کر دیئے گئے تو تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے اور اگر وہ شخص قتل ہو گیا تو وہ دوزخ رسید ہو گا۔

 

اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، حاتم، عمرو بن دینار، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا مال دولت بچانے کے واسطے لڑے تو وہ شہید ہے

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، بشر بن مفضل، ابو یونس قشیری، عمرو بن دینار، عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا مال دولت بچانے کے واسطے جنگ کرے تو وہ شہید ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم نیسابو ری، عبد اللہ، سعید، ابو اسود محمد بن عبدالرحمن، عکرمۃ، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا مال دولت بچانے کے واسطے ظلم سے مارا جائے تو اس کے واسطے جنت ہے۔

 

 

٭٭ جعفر بن محمد بن ہذیل، عاصم بن یوسف، سعیر بن خمس، عبداللہ بن حسن، عکرمۃ، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا مال دولت بچانے کے واسطے مارا جائے وہ شہید ہے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سفیان، عبداللہ بن حسن، ابراہیم بن محمد بن طلحہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی شخص کا مال دولت کوئی شخص باحق طریقہ سے حاصل کرنا چاہے اور وہ شخص (یعنی مال کا مالک مال کی حفاظت کے لیے ) مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت میں غلطی ہوئی ہے اور ٹھیک پہلی روایت ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ، سفیان، زہری، طلحہ بن عبداللہ بن عوف، سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا مال بچانے (یعنی مال دولت کے تحفظ) میں شہید ہو گیا تو وہ شخص شہید ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدۃ، محمد بن اسحاق ، زہری، طلحہ بن عبداللہ بن عوف، سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا مال(کی حفاظت) کے لیے لڑے تو وہ شہید ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن نصر، مومل، سفیان، علقمۃ بن مرثد، سلیمان بن بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا مال کے لیے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، علقمۃ، ابو جعفر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ظلم سے مارا (قتل کیا) جائے تو وہ شہید ہے۔ امام نسائی نے فرمایا یہ روایت درست ہے اور پہلی روایت جس کو راوی مومل نے روایت کیا ہے خطاء ہے۔

 

جو شخص اہل و عیال کی حفاظت میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، ابراہیم بن سعد، وہ اپنے والد سے ، ابو عبیدۃ بن محمد، طلحہ بن عبداللہ بن عوف، سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مال کے واسطے لڑے پھر وہ (مال وجان کی حفاظت کرتے کرتے ) قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے اسی طریقہ سے جو شخص اپنی جان بچانے کے واسطے مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کے واسطے لڑے تو بھی شہید ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع و محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، سلیمان، یعنی ابن داؤد ہاشمی، ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، ابو عبیدۃ بن محمد بن عمار بن یاسر، طلحہ بن عبداللہ بن عوف، سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مال کے واسطے (یعنی مال کی حفاظت کرتے کرتے ) قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے جو شخص اپنے بال بچوں یعنی اپنے اہل و عیال(کی حفاظت) کے لیے قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے دین کے لیے مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنی جان (بچانے ) کے لیے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔

 

جو شخص ظلم دور کرنے کے واسطے جنگ کرے ؟

 

قاسم بن زکریا بن دینار، سعید بن عمرو الاشعثی، عبشر، مطرف، سوادۃ بن ابو جعد، ابو جعفر سے روایت ہے کہ حضرت سوید بن مقرن کے پاس بیٹھا ہوا تھا انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ظلم سے قتل کر دیا وہ شہید ہے (یعنی اس پر ظلم کوئی کرے اور وہ ظلم دور کرتے کرتے جان دے دے تو وہ شہید کے حکم میں ہے )۔

 

جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، فضل بن موسی، معمر، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن زبیر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میان سے تلوار نکالے پھر اس کو لوگوں پر چلائے تو اس کا خون ہدر (یعنی ضائع) ہے (یعنی ایسی صورت میں کوئی شخص اس کو قتل کر دے تو دیت یا قصاص کچھ لاگو نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭ حدیث کا مفہوم سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، ابو عاصم، ابن جریج، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن زبیر نے فرمایا جو شخص ہتھیار اٹھائے پھر تلوار چلائے تو اس کا خون ہدر (یعنی ضائع) ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، مالک و عبداللہ بن عمرو اسامۃ بن زید و یونس بن یزید، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے وہ ہمارے میں سے نہیں ہے (مطلب یہ ہے کہ مسلمان پر ہتھیار اٹھانے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو گا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، ثوری، وہ اپنے والد سے ، ابن ابو نعم، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت علی نے ملک یمن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں سونا بھیجا جو کہ مٹی کے اندر تھا (مطلب یہ ہے کہ وہ سونا ابھی تک میلا تھا اس کی صفائی نہیں ہوئی تھی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو تقسیم فرما دیا اقرع بن حابس اور قبیلہ بنی شجاع میں سے ایک شخص کو اور حضرت عنبہ بن بدر فزاری اور حضرت علمقہ بن علامہ عامری اور قبیلہ بنی کلاب کے ایک آدمی کو اور حضرت زید خیل طائی اور قبیلہ بنی نبھائی کے ایک شخص کو یہ دیکھ کر قریش اور انصار کے حضرات غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نجد کے حضرات کو تو عطاء فرماتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں ان کے دلوں کو ملاتا ہوں کیونکہ وہ نو مسلم ہیں اور تم تو پرانے مسلمان ہو۔ اس دوران ایک آدمی حاضر ہوا اس کی آنکھیں اندر کو تھیں اور اس کے رخسار بھرے ہوئے تھے اور ڈاڑھی گھنی تھی اور اس کا سر منڈا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کی کون فرماں برداری کرے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ خداوند قدوس نے مجھ کو زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے ہو اس دوران ایک شخص نے گزارش کی جو کہ ان ہی لوگوں میں سے تھا (اور وہ شخص حضرت عمر تھے ) اس کے قتل کرنے کی۔ جس وقت وہ شخص پشت موڑ کر چل دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی نسل میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو کہ قرآن کریم کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلق کے نیچے تک نہیں جائے گا۔ (مطلب یہ ہے کہ قرآن ان کے اوپر ہی اوپر رہے گا اس کا معمولی سا اثر بھی نہ ہو گا) وہ لوگ دین سے اس طریقہ سے نکل جائیں گے کہ جس طریقہ سے تیر جانور میں سے نکل جاتا ہے اور تیر جانور کے آر پار ہو جاتا ہے اس میں کچھ نہیں بھرتا۔ اسی طریقہ سے ان لوگوں میں بھی دین کا کچھ نشان ہو گا وہ لوگ مسلمان کو قتل (تک) کریں گے اور وہ لوگ بت پرست لوگوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو ان کو اس طریقہ سے قتل کر دوں کہ جس طریقہ سے قوم و عاد کے لوگ قتل ہوئے (مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے کسی ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑوں )۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، الاعمش، خیثمۃ، سوید بن غفلۃ، علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ آخر زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو کہ نو عمر اور احمق ہوں گے وہ لوگ ظاہر میں آیات قرآنی تلاوت کریں گے (یا مراد یہ ہے کہ وہ لوگ دوسروں کی خیر خواہی کی باتیں کریں گے ) لیکن ان کے حلق سے ایمان نیچے نہیں اترے گا اور وہ لوگ دین سے اس طریقہ سے نکل جائیں گے جس طریقہ سے نشانہ سے تیر آر پار نکل جاتا ہے جس وقت ان لوگوں کو دیکھو تو تم ان کو قتل کر دو کیونکہ ان کے قتل کرنے میں قیامت کے دن اجر و ثواب ہے۔

 

 

 

 

زینت (آرائش) سے متعلق احادیث مبارکہ

 

سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق

 

عیسیٰ بن حماد ، لیث ، یزید بن ابی حبیب، ابراہیم بنحنین ، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو منع فرمایا سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور قرآن کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں پڑھنے سے اور ریشمی کپڑا پہننے سے اور کسم کا رنگ پہننے سے

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، وہ اپنے والد سے ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبداللہ، عبدالصمد بن عبدالوارث، حرب، یحییٰ، عمرو بن سعد سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، حسن بن موسی،شیبان، خالد بن معدان، ابن حنین، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد،شعبہ، قتادہ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ممانعت فرمائی سونے کی انگوٹھی پہننے سے

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت

 

علی بن حجر، اسماعیل، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہن لیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس کو پہنتا ہوں لیکن میں کبھی اب اس کو نہیں پہنوں گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اس کو اتار دیا لوگوں نے بھی وہ انگوٹھیاں اتار دیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی پر یہ عبارت نقش تھی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

 

 

٭٭ عباس بن عبدالعظیم، عثمان بن عمر، یونس، زہری، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اس کا نگینہ عقیق تھا کالے رنگ کا اور اس پر یہ نقش تھا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، بشر، ابن مفضل، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شاہ روم کو کچھ تحریر فرمانا چاہا لوگوں نے عرض کیا اہل روم اس تحریر یا مکتوب کو نہیں پڑھتے جس پر مہر نہ ہو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی ایک مہر بنوائی کہ گویا میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں اور اس میں یہ تحریر اور نقش کرایا محمد رسول اللہ۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابن وہب، یونس، زہری، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس کا نگینہ حبشی تھا (یعنی وہ نگینہ بالکل سیاہ رنگ کا تھا یا اس کا بنانے والا شخص حبشی تھا)

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا، عبید اللہ، حسن، ابن صالح، عاصم، حمید، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم و علی بن حجر، اسماعیل، عبدالعزیز بن صہیب، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم نے انگوٹھی بنوائی اور اس پر یہ عبارت کندہ تھی کہ اب کوئی شخص اس قسم کا (مضمون) نقش نہ کرائے۔

 

کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے ؟

 

عمران بن موسی، عبدالوارث، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگوٹھی بنوائی اور فرمایا ہم نے انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر یہ عبارت کندہ کرائی ہے کہ اب کوئی شخص اس طریقہ سے (یعنی اس مضمون کو) نقش نہ کرائے اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چھنگلی انگلی میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں

 

 

٭٭ محمد بن عامر، محمد بن عیسی، عباد بن عوام، سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔

 

 

٭٭ حسین بن عیسیٰ بسطامی، سلم بن قتیبہ، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ گویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی کی سفیدی دیکھ رہا ہوں آپ کے بائیں (مبارک) ہاتھ میں۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن نافع، بہز بن اسد، حماد، ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی کے متعلق لوگوں نے حضرت انس سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا گویا میں اس انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک انگوٹھی بہت زیادہ چمک دار تھی) جو کہ چاندی کی تھی اور انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی انگلی کو اونچا کیا یعنی وہ اس انگلی میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عاصم بن کلیب، ابو بردۃ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی مرتضی سے سنا وہ فرماتے تھے کہ مجھ کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگوٹھی پہننے سے یعنی شہادت کی انگلی اور درمیان کی انگلی میں۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، عاصم بن کلیب، ابو بردۃ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا انگوٹھی پہننے سے اس انگلی میں یعنی شہادت کی انگلی میں اور درمیان کی انگلی میں اور جو انگلی اس کے نزدیک ہے (اس میں بھی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا)

 

نگینہ کی جگہ

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ایوب بن موسی، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا اور چاندی کی انگوٹھی پہن لی اور اس پر یہ نقش کرایا محمد رسول اللہ پھر فرمایا کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنی انگوٹھی پر یہ نقش کرائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا۔

 

انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا

 

محمد بن علی بن حرب، عثمان بن عمر، مالک بن مغول، سلیمان شیبانی، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کو پہن لیا پھر فرمایا اس انگوٹھی نے میری توجہ ہٹا دی میں کبھی انگوٹھی کو دیکھتا ہوں اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ انگوٹھی اتار دی۔

 

تہہ بند لٹکانے سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، موسیٰ بن عقبہ، سالم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی اپنا کپڑا تکبر سے لٹکائے قیامت کے دن خداوند قدوس اس شخص کی جانب نہیں دیکھے گا اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا (غیر اختیاری طریقہ سے ) میرے تہہ بند کا کونہ نیچے لٹک جاتا ہے لیکن اگر میں اس کا خیال رکھوں تو وہ نہ لٹکے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو کہ تکبر اور غرور کی وجہ سے یہ حرکت کرتے ہیں (یعنی تکبر کی وجہ سے تہہ بند لٹکاتے ہیں )۔

 

خواتین کس قدر آنچل لٹکائیں ؟

 

نوح بن حبیب، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی تکبر سے کپڑا نیچے لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہ دیکھے گا (یہ سن کر) حضرت ام سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! پر خواتین اپنے دامن کو کیا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ اپنے اپنے دامن ایک بالشت لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہ نے اس پر عرض کیا (اس طرح) تو ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو وہ ایک ہاتھ لٹکائیں اس سے زیادہ نہ کریں۔

 

 

٭٭ عباس بن ولید بن مزید، وہ اپنے والد سے ، الاوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، نافع، ام سلمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خواتین کے دامن سے متعلق عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ اپنے دامن ایک بالشت لٹکائیں انہوں نے عرض کیا (اس طرح تو) وہ کھل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک ہاتھ لٹکائیں اس سے اضافہ نہ کریں۔

 

 

٭٭ عبدالجبار بن العلاء بن عبدالجبار، سفیان، ایوب بن موسی، نافع، صفیۃ، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت تہہ بند کا تذکرہ فرمایا تو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا پھر خواتین کیا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ ایک بالشت (دامن) لٹکائیں۔ انہوں نے عرض کیا اتنے میں تو ان کے پاؤں کھل جائیں گے

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، نضر، معتمر، ابن سلیمان، عبید اللہ، نافع، سلیمان بن یسار، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کوئی خاتون اپنا دامن کتنا لٹکائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک بالشت۔ انہوں نے کہا اس قدر تو کھل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک ہاتھ سے اضافہ نہ کریں۔

 

تمام جسم پر کپڑا لپیٹنے سے متعلق اس طریقہ سے کہ ہاتھ باہر نہ نکل سکیں ممنوع ہے۔

 

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تمام جسم پر کپڑا لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ کر بیٹھنے سے جبکہ شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔

 

 

٭٭ حسین بن حریث، سفیان، زہری، عطاء ابن یزید، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تمام جسم پر کپڑا لپیٹنے سے باقی مضمون سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

ایک ہی کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے کی ممانعت سے متعلق

 

قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تمام جسم پر ایک کپڑا لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔

 

سیاہ رنگ کا عمامہ باندھنا

 

عبد اللہ بن محمد، عبدالرحمن، سفیان، مساور الوراق، جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے دیکھا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، معاویہ بن عمار، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس روز مکہ فتح ہوا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہوئے سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، فضل بن دکین، شریک، عمار الدہنی، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے بغیر احرام کے سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے۔

 

دونوں کندھوں کے درمیان (عمامہ کا) شملہ لٹکانے سے متعلق

 

محمد بن ابان، ابو اسامۃ، مساور الوراق، جعفر بن عمرو بن امیہ سے روایت ہے گویا میں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر دیکھ رہا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اور اس کا شملہ دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹک رہا تھا۔

 

تصاویر کے بیان سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے کہ جہاں پر کتا یا تصویر ہو

 

 

٭٭ محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، یزید، معمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے کہ جہاں پر کتا یا تصویر ہو۔

 

 

٭٭ علی بن شعیب، معن، مالک، ابو نضر، عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابو طلحہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو اس وقت انہوں نے ان کے پاس حضرت سہل بن حنیف کو پایا۔ حضرت ابو طلحہ نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ وہ ان کے نیچے سے بچھونا نکال دے۔ حضرت سہل نے عرض کیا کس وجہ سے ؟ حضرت ابو طلحہ نے فرمایا اس میں تصاویر ہیں۔ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا ہے اس سے تم واقف ہو۔ حضرت سہل نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ اگر کسی کپڑے میں تصاویر کے نقش ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت ابو طلحہ نے فرمایا جی ہاں لیکن مجھ کو اچھی طرح سے علم ہے کہ کسی بھی قسم کی تصویر نہ رکھو۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، بکیر، بسر بن سعید، زید بن خالد، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے کہ جس میں تصویر ہو (راوی) بسر جو کہ اس حدیث شریف کے روایت کرنے والے ہیں انہوں نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت زید بن خالد بیمار پڑ گئے تو ہم لوگ ان کی مزاج پرسی کے لیے گئے ان کے (مکان کے ) دروازہ پر ایک پردہ لٹک رہا تھا کہ جس پر کہ تصویر تھی میں نے حضرت عبید اللہ سے عرض کیا حضرت زید نے تصویر کے متعلق ہم سے کہا کہ پہلے دن حضرت عبید اللہ نے کہا کیا تم نے نہیں سنا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭ مسعود بن جویریۃ، وکیع، ہشام، قتادۃ، سعید بن مسیب، علی سے روایت ہے کہ میں نے (ایک روز) کھانا بنایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدعو کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو آپ نے ایک پردہ دیکھا کہ جس پر تصاویر تھیں آپ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا فرشتے اس مکان میں نہیں داخل ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم ابو معاویہ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے اور پھر اندر تشریف لائے میں نے ایک پردہ لٹکایا تھا کہ جس میں گھوڑوں کی تصاویر تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا تم اس کو نکال ڈالو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید بن زریع، داؤد بن ابو ہند، عزرعۃ، حمید بن عبدالرحمن، ابن ہشام، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کے پاس ایک پردہ تھا کہ جس پر کہ چڑیوں کی تصاویر تھیں جس وقت کوئی اندر داخل ہوتا تو پردہ سامنے کی طرف ہوتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ صدیقہ تم اس کو پلٹ دو اس لیے کہ جس وقت میں اندر داخل ہوتا ہوں اور اس کو دیکھتا ہوں تو مجھ کو دنیا یاد آتی ہے اور ہم لوگوں کے پاس ایک چادر تھی کہ جس پر نقش تھے ہم لوگ اس کو پہنا کرتے تھے ہم نے اس کو نہیں کاٹا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میرے مکان میں ایک کپڑا تھا کہ جس پر تصاویر تھیں میں نے اس کو (ایک دن) روشن دان پر لٹکا دیا اس طرف حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرماتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ تم اس کو ہٹا دو میں نے اس کو اتار کر اس کے تکیے بنا لیے۔

 

 

٭٭ وہب بن بیان، ابن وہب، عمرو، بکیر، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اندر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کو کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا لیے۔ مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا جس کا نام ربیعہ بن عطاء تھا اس نے کہا میں نے ابو محمد یعنی حضرت قاسم سے سنا انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سہارا لگائے ہوئے تھے۔

 

 

 

کتاب الا شربۃ

 

ان احادیث کا تذکرہ جن سے لوگوں نے یہ دلیل لی کہ نشہ آور شراب کا کم مقدار میں پینا جائز ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، ابو عامر و نضر بن شمیل و وہب بن جریر، شعبہ، سلمہ بن کہیل، ابو حکم، ابن عباس نے فرمایا جس شخص کو اچھا لگے حرام کہنا اس شے کو جسے حرام کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے تو وہ حرام کہے نبیذ کو۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، عیینہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا کہ میں خراساں کا باشندہ ہوں اور ہم لوگوں کا ملک بہت سرد ہے۔ ہم لوگ ایک قسم کی شراب تیار کرتے ہیں۔ انگور خشک تر اور پھلوں سے۔ مجھ کو یہ معاملہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ پھر اس نے کئی طرح کی شراب کی اقسام بیان کیں اور بہت زیادہ قسمیں بیان کیں۔ یہاں تک کہ میں نے گمان کر لیا کہ حضرت ابن عباس نے ان کو نہیں سمجھا۔ آخر حضرت ابن عباس نے فرمایا تم اس شراب سے بچو جو کہ نشہ پیدا کرے چاہے کھجور کی ہو انگور کی ہو یا اور کسی بھی چیز سے تیار کی ہوئی ہو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، قواریری، حماد، ایوب، سعید بن جبیر، ابن عباس نے نقل کیا کہ گدری کھجور کی نبیذ ہرگز حلال نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو جمرۃ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس اور دیگر لوگوں کے درمیان ترجمہ کی خدمت انجام دیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک خاتون ان کے پاس آئی اور وہ لاکھی گھڑے کے نبیذ کے بارے میں دریافت کرنے لگی۔ انہوں نے اس سے منع کیا۔ میں نے کہا کہ ابن عباس! میں ہرے رنگ کے گھڑے میں نبیذ بھگوتا ہوں میٹھی میٹھی۔ پھر میں اس کو پیتا ہوں تو میرے پیٹ میں ہلچل سی ہوتی ہے (یعنی نبیذ سے میرے پیٹ میں ریاح پیدا ہوتی ہے ) انہوں نے کہا تم اس کو نہ پیو اگرچہ شہد سے زیادہ میٹھی ہو۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، ابو عتاب، سہل بن حماد، قرۃ، ابو جمرۃ سے روایت ہے جن کا نام نصر تھا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ میری دادی نبیذ تیار کرتی ہیں اور وہ میٹھی ہوتی ہے۔ اگر میں اس کو بہت پیوں پھر لوگوں میں بیٹھ جاؤں تو مجھ کو یہ اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ذلیل و خوار ہو جاؤں (یعنی بہکی بہکی باتیں کر کے کیونکہ اگر نشہ ہو گا تو انسان ضرور بہک جائے گا) تو انہوں نے فرمایا مرحبا! ان لوگوں کو یہ نہ رسوا ہوئے اور نہ ہی شرمندہ ہوئے۔ پھر ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان مشرکین کی ایک جماعت ہے (جو کہ ہم لوگوں کو نہیں آنے دیتی) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہم لوگ نہیں آ سکتے لیکن حرام مہینوں میں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو فرما دیں ایک ایسی بات کہ اگر ہم لوگ وہ کام کریں تو جنت میں داخل ہو جائیں اور ہم لوگوں کو اسی بات کی جانب بلائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم کو تین باتوں کا حکم کرتا ہوں اور تم کو چار باتوں سے منع کرتا ہوں۔ میں تم کو حکم کرتا ہوں اللہ پر ایمان لانے کا اور تم لوگ واقف ہو کہ ایمان کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خوب واقف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس بات پر یقین کرو دل اور زبان سے اقرار کرو کہ علاوہ اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا اور جو کچھ تم غنیمت کا مال کفار سے جہاد کر کے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ داخل کرو اور میں تم کو منع کرتا ہوں چار اشیاء سے۔ (1) کدو کے تونبے سے (2) چوبین (3) لاکھی اور (4) روغنی برتنوں کی نبیذ سے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سلیمان تیمی، قیس بن دہبان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ میرے پاس ایک چھوٹا سا گھڑا ہے۔ میں اس میں نبیذ تیار کرتا ہوں۔ جس وقت وہ جوش مار کر ٹھہر جاتا ہے تو میں اس کو پیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کتنے دنوں سے یہ پی رہے ہو؟ میں نے عرض کیا بیس سال یا چالیس سال سے۔ اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کافی دن تک تیری رگیں ناپاکی سے سیراب ہوتی رہیں یعنی تمہارے جسم میں ناپاک خون دوڑتا رہا)۔

 

جو لوگ شراب کا جواز ثابت کرتے ہیں ان کی دلیل حضرت عبدالملک بن نافع والی حضرت ابن عمر سے مروی حدیث بھی ہے

 

زیاد بن ایوب، ہشیم، عوام، عبدالملک بن نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا میں نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس دیکھا کہ وہ شخص نبیذ کا ایک پیالہ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیالہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو منہ لگایا تو وہ تیز لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پیالہ اس شخص کو واپس دے دیا۔ اسی دوران ایک دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص پیالہ لے کر آیا تھا اس کو بلاؤ۔ پھر وہ شخص حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیالہ اس شخص سے لے لیا اور پانی منگا کر اس میں پانی ملا دیا۔ پھر اس کو منہ سے لگایا (اور اس کی شدت کی وجہ سے ذائقہ اب بھی کڑوا محسوس ہوا) اور پانی منگوایا اور اس میں (مزید) پانی ملایا پھر فرمایا جس وقت ان برتنوں میں شراب تیز ہو جائے تو تم اس کی تیزی پانی سے ہٹا ( کم کر) دو۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ابو معاویہ، ابو اسحاق شیبانی، عبدالملک بن نافع، ابن عمر سے ایسی ہی روایت منقول ہے۔ امام نسائی نے فرمایا اس حدیث کی اسناد میں عبدالملک بن نافع سے جو کہ مشہور ہیں اور اس کی روایت دلیل پیش کرنے کے لائق نہیں بلکہ حضرت ابن عمر سے اس کے خلاف مشہور ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ابو عوانۃ، زید بن جبیر، ابن عمر سے ایک آدمی نے شرابو ں سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا جو چیز نشہ کرے اس سے بچو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، زید بن جبیر نے فرمایا میں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا جو مشروب نشہ کرے اس سے بچو۔

 

 

٭٭ سوید، عبداللہ، سلیمان تیمی، محمد بن سیرین، ابن عمر نے فرمایا میں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا جو مشروب نشہ کرے اس سے بچو۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر نے فرمایا جو چیز نشہ کرے وہ خمر (شراب ہے ) اور جو شے نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، شیبہ، ابن عبدالملک، مقاتل بن حیان، سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے حرام فرمایا ہے خمر کو اور ہر ایک نشہ لانے والی شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ حسین بن منصور، ابن جعفر نے سابو ری، یزید بن ہارون، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ پیدا کرنے والی شے حرام ہے اور نشہ لانے والی شئی خمر ہے۔ امام نسائی نے فرمایا یہ لوگ معتبر اور عادل ہیں اور مشہور ہیں صحت کے ساتھ (یعنی ان کی شہرت صحیح روایات نقل کرنے کی ہے ) اور عبدالملک بن نافع ان لوگوں میں سے ایک کے بھی برابر نہیں اگرچہ عبدالملک کی تائید اسی جیسے دیگر لوگوں نے بھی کی۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عبید اللہ بن عمر سعدی، رقیۃ بنت عمرو بن سعید سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی گود میں تھی ان کے واسطے خشک انگور بھگوئے جاتے تھے پھر وہ اس کو دوسرے روز پیتے تھے پھر انگور خشک کر لیے جاتے تھے پھر وہ اس کو اگلے دن پیتے تھے پھر اس کو پھینک دیتے تھے اور ان لوگوں نے دلیل حضرت ابو مسعود کی حدیث شریف (اگلی حدیث) سے حاصل کی ہے۔

 

 

٭٭ حسن بن اسماعیل بن سلیمان، یحیی بن یمان، سفیان، منصور، خالد بن سعد، ابو مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کعبہ شریف کے نزدیک پیاس محسوس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگوایا۔ لوگ مشک میں نبیذ لاتے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو سونگھا اور منہ بنایا پھر فرمایا میرے پاس آب زمزم کا ایک ڈول لے کر آؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر پانی ڈالا پھر اس کو پی لیا۔ ایک شخص نے عرض کیا وہ تو حرام ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ امام نسائی نے فرمایا یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں یحیی بن یمان ہے جس نے کہ تنہا اس کو روایت کیا سفیان سے اور یحیی بن یمان کی روایت دلیل پکڑنے کے لائق نہیں ہے اس لیے کہ اس کا حافظ برا ہے اور وہ بہت غلطی کرتا ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، عثمان بن حصن، زید بن واقد، خالد بن حسین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مجھ کو علم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس دن روزہ رکھتے ہیں (اور کس دن نہیں رکھتے )۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزہ افطار کرنے کے واسطے نبیذ تیار رکھی جس کو میں نے تونبے میں (یعنی کدو کے تونبے میں ) بنایا تھا۔ جس وقت شام ہو گئی تو میں اس کو لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ کو علم تھا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ دار ہیں تو میں آج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی افطاری کے وقت یہ نبیذ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے پاس لاؤ اے ابو ہریرہ! چنانچہ میں اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا تو وہ جوش مار رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لے جاؤ اور اسے دیوار پر مار دو۔ اس کو تو وہ شخص پیے گا جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین نہ رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی ایک دلیل حضرت عمر کا فعل بھی ہے۔ (جو کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے )۔

 

 

٭٭ سوید، عبدالل، سری بن یحییٰ ابو حفص، ابو رافع، سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: وقت تم لوگ نبیذ کی شدت سے ڈرو تو تم اس کی تیزی توڑ ڈالو پانی سے۔ حضرت عبداللہ نے کہا یعنی تیزی سے قبل۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، عبدالاعلی، سفیان، یحیی بن سعید، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ (قبیلہ) ثقیف کے لوگوں نے حضرت عمر کے سامنے شراب رکھی۔ انہوں نے شراب منگائی جس وقت اس کو منہ سے لگایا تو برا لگا پھر پانی منگا کر اس کی تیزی توڑ دی اور کہا اس طریقہ سے کر لو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، ابو خیثمہ، عبدالصمد، محمد بن جحادہ ، اسمعیل بن ابو خالد، قیس بن ابو حازم عتبہ بن فرقد سے روایت ہے کہ حضرت عمر جو نبیذ پیتے تھے وہ سرکہ ہوتا تھا۔ امام نسائی نے فرمایا اس کی صحت پہ یہ روایت دلالت کرتی ہے۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا میں نے فلاں شخص کے منہ سے شراب کی بدبو محسوس کی ہے وہ عبداللہ تھے (ان کے لڑکے ) پھر ان سے کہا یہ طلاء شراب ہے لیکن تحقیق کروں گا اس نے کیا پیا ہے ؟ اگر نشہ لانے والی شراب ہوئی تو میں اس کو حد لگاؤ گا۔ پھر حضرت عمر نے اس کو پوری حد لگائی۔

 

اس ذلیل کر دینے والے عذاب کا بیان جو کہ اللہ عز و جل نے شرابی کے لیے تیار کر رکھا ہے

 

قتیبہ، عبدالعزیز، عمارۃ بن غزیۃ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک آدمی (قبیلہ) جیشان کا حاضر ہوا اور جیشان (ملک) یمن کا ایک قبیلہ ہے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اس شراب کے متعلق کہ جو اس کے ملک میں لوگ پیتے ہیں اور وہ شراب جوار سے تیار ہوتی ہے اس کو مزر کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شراب نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے اور اللہ عز و جل نے یہ بات مقرر فرما دی ہے کہ جو شخص نشہ پیے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ طینۃ الخبال پلائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! طینۃ الخبال کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوزخیوں کا پسینہ یا ان کے جسم کی پیپ ہے

 

جس شے میں شبہ ہو اس کو چھوڑ دینا

 

حمید بن مسعدۃ، یزید، ابن زریع، ابن عون، شعبی، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض کام ایسے ہیں کہ جس میں شبہ ہو کہ وہ حلال ہیں یا حرام اور میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اللہ عز و جل نے ایک باڑھ مقرر فرمائی ہے اور اس کی باڑھ حرام ہے تو جو شخص باڑھ کے نزدیک اپنے جانوروں کو گھاس چرائے وہ کبھی باڑھ کو بھی پار کر جائیں گے۔ اسی طرح جو شخص شبہ کے کام کرتا رہے وہ جرات کرے گا اور حرام کا بھی مرتکب ہو جائے گا۔ اس لیے شبہ و شک کے کاموں سے باز رہنا چاہیے۔

 

 

٭٭ محمد بن ابان، عبداللہ بن ادریس، شعبہ، برید بن ابو مریم، ابو حوراء فرماتے ہیں کہ سعدی نے حسن سے دریافت کیا کہ تم نے کونسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سن کر یاد کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا میں نے یہ بات یاد رکھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز تم کو شک و شبہ میں ڈالے اس کو چھوڑ دو اور غیر مشکوک کو اختیار کرو۔

 

جو شخص شراب تیار کرے اس کے ہاتھ انگور فروخت کرنا مکروہ ہے

 

جارود بن معاذ، باوردی، ابو سفیان، محمد بن حمید، معمر، ابن طاؤس جو کہ تابعین میں سے ہیں اس شخص کو جو شراب تیار کرتا ہو انگور فروخت کرنا مکروہ سمجھتے تھے کیونکہ اس میں گناہ پر مد د ہے اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے ایک دوسرے کی گناہ کی بات پر اور ظلم پر مد د کرو۔

 

انگور کا شیرہ فروخت کرنا مکروہ ہے

 

سوید، عبد اللہ، سفیان بن دینار، مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت سعد کے باغ میں انگور بہت ہوتے تھے اور ان کی جانب سے باغ میں ایک شخص داروغہ تھا۔ ایک مرتبہ بہت زیادہ انگور لگے تو داروغہ (باغ کے نگران) نے حضرت سعد کو لکھا کہ مجھ کو اندیشہ ہے انگور کے ضائع ہونے کا تو اگر تم اجازت دو تو میں اس کا شربت نکال لوں۔ حضرت سعد نے تحریر فرمایا جس وقت میرا یہ خط تم کو پہنچے تو تم باغ چھوڑ دو۔ اللہ کی قسم! میں آج سے کسی بات پر تمہارا اعتبار نہیں کروں گا۔ پھر اس کو باغ سے معطل کر دیا۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ہارون بن ابراہیم، ابن سیرین سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (انگور کا) شیرہ اس کے ہاتھ فروخت کرو جو کہ طلاء تیار کرے لیکن شراب نہ تیار کرے۔

 

اللہ تعالیٰ کے سوا قسم کھانے کی ممانعت کا بیان

 

زیاد بن ایوب، ابن علیہ، یحیی بن ابو اسحاق، غفار کے ایک آدمی سے ، سالم بن عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس تم کو منع کرتا ہے باپوں کی قسم کھانے سے۔

 

باپوں کی قسم کھانے سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید و قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ یہ جملہ سنا وابی وابی! یعنی والد کی قسم! مجھ کو باپ کی قسم! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا خداوند قدوس منع کرتا ہے تم کو والد کی قسم کھانے سے۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم یہ مسئلہ سننے کے بعد میں نے پھر کبھی والد کی قسم نہیں کھائی نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اور سے ایسی بات نقل کرتے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید و سعید بن عبدالرحمن ، سفیان زہری، سالم، حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس تم کو منع فرماتا ہے اپنے باپوں کی قسم کھانے سے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ خدا کی قسم جس وقت سے میں نے یہ بات سنی تو پھر میں نے قسم نہیں کھائی باپوں کی۔ نہ اپنی جانب سے اور نہ ہی کسی دوسرے کی بات نقل کر کے (یعنی میں نے قسم کھانا ہی چھوڑ دیا)

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

 

٭٭ ابو بکربن علی، عبید اللہ بن معاذ، معاذ، عوف، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قسم نہ کھایا کرو باپوں اور ماں اور شرکاء یعنی بت کی اور خداوند قدوس کے علاوہ کسی کی قسم نے کھایا کرو اور تم خداوند قدوس کی قسم بھی کھا تو سچی قسم کھایا کرو۔

 

اسلام کے علاوہ اور کسی ملت کی قسم کھانے سے متعلق

 

قتیبہ، ابن ابی عدی، خالد۔ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، خالد، ابو قلابہ، حضرت ثابت بن ضحاک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی ملت اور دین کے علاوہ اسلام کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ شخص ایسا ہی ہو گا کہ اس نے جیسی قسم کھائی اور جس شخص نے اپنی جان کو کسی چیز سے ہلاک کیا (خود کشی کر لی) تو خداوند قدوس اس شخص کو اسی شئی سے عذاب دے گا کہ جس چیز سے اس نے خود کو ہلاک کیا تھا۔

 

 

٭٭ محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو، یحیی، حضرت ثابت بن الضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

اسلام سے بے زار ہونے کے واسطے قسم کھانا

 

حسین بن حریث، فضل بن موسی، حسین بن واقد، عبداللہ بن بریدہ، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کہے کہ میں اسلام میں سے بری ہوں تو اگر وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے تو وہ شخص ویسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود کو اپنے بارے میں ظاہر کیا (یعنی جس چیز کا اپنے واسطے اقرار کیا) اور اگر وہ شخص سچا ہے تو وہ شخص اسلام کی جانب سلامتی کے ساتھ رخ نہیں کرے گا۔

 

خانہ کعبہ کی قسم سے متعلق

 

یوسف بن عیسیٰ، فضل بن موسی، مسعر، معبد بن خالد، عبداللہ بن یسار، قتیلہ قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون روایت نقل کرتی ہیں کہ ایک یہودی ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ تم خداوند قدوس کے ساتھ شریک مقرر کرتے ہو اور تم لوگ شرک کرتے ہو اور کہتے ہو کہ تم لوگ یعنی چاہے اللہ اور چاہو تم اور تم لوگ کہتے ہو یعنی قسم ہے خانہ کعبہ کی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا لوگوں کو کہ جب تم قسم کھانے کا ارادہ کرو تو تم لوگ کہا کرو یعنی قسم ہے خانہ کعبہ کے پروردگار کی اور اگر کوئی شخص کہنا چاہے تو ماشاءاللہ کہے۔ اس کے بعد کہا کرے اور لفظ شئت نہ کہا کرے۔

 

جھوٹے معبودوں کی قسم کھانا

 

احمد بن سلیمان، یزید، ہشام، حسن، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے باپوں اور جھوٹے معبودوں کی قسمیں نے کھایا کرو

 

لات (بت کی قسم) سے متعلق

 

کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبید، زہری، حمید بن عبدالرحمن ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص لات کی قسم کھائے (لات عرب کے ایک مشہور بت کا نام ہے ) تو اس کو چاہیے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہے اور جو شخص اپنے ساتھی کو کہے کہ آ جوا کھیلیں گے تو اس کو چاہیے کہ وہ کچھ صدقہ کرے۔

 

بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ دے سکے اس کے بیان میں

 

ابو داؤد، حسن بن محمد زہیر، ابو اسحاق ، حضرت مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نقل کیا کہ ہم لوگ لوگوں کے درمیان گفتگو کر رہے تھے اور میں ان دنوں نیا نیا مسلمان ہوا تھا کہ میرے منہ سے نقل گیا لات اور عزی ٰکی قسم۔ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی نے کہا کہ تم نے ایک بری بات کہہ ڈالی تم میرے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس چلو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں جا کر عرض کریں اور انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں تم نے کفر کے جملے بولے ہیں۔ حضرت مصعب کے والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور جا کر ہم نے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم کلمہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وحدہ تین مرتبہ کہو اور تم اَعُوذُ بِاللہِ پڑھو اور تین مرتبہ جس وقت پڑھ کر فارغ ہو جاؤ تو تم تین مرتبہ بائیں جانب تھوک دو اور تم پھر کبھی اس طرح کی قسم نہ کھانا۔

 

لات اور عزی کی قسم کھانا

 

عبدالحمید بن محمد، مخلد، یونس بن ابی اسحاق ، اسحاق ، حضرت مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نقل کیا کہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھائی۔ میرے ساتھی نے سن کر کہا تم نے بری بات کہی اور تم نے فحش اور بیہودہ کلام کیا پھر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے یہ حال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھ کر تم اپنے بائیں جانب تھوک دو اور تم پڑھو اور آنئدہ اس طرح نہ کہنا۔

 

حضرت براء بن عازب

 

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد ،شعبہ ، اشعث بن سلیم ، معاویہ بن سوید بن مقرن ، براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات چیزوں کا حکم فرمایا جنازوں کے پیچھے چلنا بیماروں کی مزاج پرسی کے واسطے جانا چھینک کا جواب دینا یعنی جس وقت کوئی چھینکنے والا شخص چھینک کر الحمد اللہ کہے تو اس وقت یرحمک اللہ کہے اور جب کوئی شخص دعوت کرے تو اس کو قبول کرنا اور جس شخص پر ظلم ہوا ہو یا ظلم ہو رہا ہو تو اس کی امداد کرنا جس طریقہ سے ممکن ہو سکے اور قسموں کو سچا کرنا (جائز قسم کھانے کے بعد اس کو پورا کرنا) سلام کا جواب دینا۔

 

کسی شخص نے کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانے کے بعد عمدہ اور بہتر پایا تو وہ شخص کیا کرے ؟

 

قتیبہ ، ابن ابی عدی، سلیمان ابو سلیل، زہدم، حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زمین پر کوئی ایسی قسم نہیں ہے کہ اگر میں اس پر قسم کھاں تو میں پھر اس کو بہتر خیال کروں اس کے علاوہ تو وہ ہی کام میں انجام دوں جو کہ بہتر ہے۔

 

قسم توڑنے سے قبل کفارہ دینا

 

حماد، غیلان بن جریر، ابو بردہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا یعنی تنہا نہیں بلکہ اپنی جماعت میں شامل ہو کر حاضر ہوا تھا اور ہم سب اسی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سواری مانگ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں سے فرمایا خدا کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا اور میرے پاس سواری چیز تمہارے واسطے نہیں ہے۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ اس قدر دیر تک ٹھہرے رہے کہ جس قدر دیر خداوند قدوس کی مرضی ہوئی اس دوران کچھ اونٹ آئے پھر حکم ہوا ہمارے واسطے تین اونٹ دینے کا۔ پس جس وقت ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوئے تو لوگ آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ یہ سواریاں ہم کو مبارک نہیں ہوں گی اس لیے کہ جس وقت ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آنے کے بعد سواریاں مانگیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھائی اور فرمایا کہ تم کو سواری نہیں دیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا جو کہ ہم لوگوں نے آپس میں کہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو سواری نہیں دی بلکہ خداوند قدوس نے دی ہے اور یہ بات ارشاد فرمائی۔ خدا کی قسم میں جو قسم کھاتا ہوں اور پھر میں بہتر دیکھتا ہوں اس کے غیر کو اس سے تو کفارہ دیتا ہوں اپنی قسم کا اور میں وہ کام انجام دیتا ہوں جو کہ اس قسم سے بہتر ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ بن الاخنس، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے سنا۔ انہوں نے اپنے دادا سے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قسم کھائے کسی شے کی پھر وہ شخص اس کے غیر میں خیال کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے پھر اس کو چاہیے کہ وہ شخص اس کام کی جانب رجوع کرے جو بہتر نظر آیا ہے اس کو اس چیز سے کہ جس پر قسم کھائی تھی۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالعلی، معتمر، ان کے والد، حسن، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے جو شخص قسم کھائے کسی بات پر اور وہ شخص اس کے خلاف میں خیر اور بھلائی سمجھے تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص کفارہ ادا کرے اپنی قسم کا اور غورو فکر کرے اس کو جو کہ بہتر ہے اس سے اور اس کام کی جانب آئے جو کہ بہتر ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عفان، جریر بن حازم، حسن، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم کسی چیز پر قسم کھا تو پہلے کفارہ ادا کرو اپنی قسم کا پھر اس کام کو کرو جو بہتر ہو اس چیز سے کہ جس پر تم نے قسم کھائی تھی۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی قطعی، عبدالاعلی، سعید، قتادۃ، حسن، عبدالرحمن بن سمرۃ۔ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن ،شعبۃ، عمرو بن مرہ، عبداللہ بن عمرو مولیٰ حسن بن علی، حضرت عدی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی شے پر قسم کھائے پھر وہ اس کے علاوہ (کسی اور چیز) میں بھلائی تصور کرے تو پہلے کام کو انجام دے جو کہ بہتر ہو اور پھر کفارہ ادا کرے اپنی قسم کا۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

قسم ٹوٹنے کے بعد کفارہ دینا

 

عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبہ، عبدالعزیز بن رفیع، تمیم بن طرفۃ، حضرت عدی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی بات پر قسم کھائے پھر وہ دیکھے کہ خیر اس کے علاوہ میں ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص اسی کام کو انجام دے جو کہ خیر ہے اور اپنی قسم چھوڑ دے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، حضرت ابو زعراء اپنے چچا ابو الاحوص سے روایت کرتے ہیں اور اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے نقل کیا کہ میں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے چچا کے لڑکے کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بات دیکھی میں جب اس کے پاس جا کر سوال کرتا ہوں تو وہ مجھ کو کچھ نہیں دیتا اور وہ تو رشتہ داری کا بھی لحاظ نہیں کرتا اور جب اس کو کچھ کام کرنا پڑتا ہے تو وہ میرے پاس آ کر سوال کرنے لگتا ہے اس وجہ سے میں نے قسم کھائی کہ میں کبھی اس کو کچھ نہ دوں گا اور میں رشتہ داری کا بھی خیال نہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم فرمایا کہ تم وہ کام انجام دو جس میں خیر ہو۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، منصور و یونس، حسن، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم قسم اور عہد کرو تو کسی شے پر دیکھو اس کے علاوہ میں بھلائی تو تم اس کام کی جانب آ جا کہ جس میں بھلائی ہے اور تم اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔

 

 

٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

انسان جس شے کا مالک نہیں تو اس کی قسم کھانا

 

ابراہیم بن محمد، یحیی، عبید اللہ بن الاخنس، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے اپنے دادا سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نذر اور قسم اس شے کی نہیں ہو سکتی کہ انسان جس شے کا مالک نہیں ہے اور گناہ کی بات اور رشتہ ختم کرنے میں بھی قسم نہیں ہو سکتی۔

 

قسم کے بعد انشاء اللہ کہنا

 

احمد بن سعید، حبان، عبدالوارث، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قسم کھا کر انشاءاللہ کہے تو چاہے قسم پوری کرے یا نہیں تو اس کا کفارہ واجب نہ ہو گا۔

 

قسم میں نیت کا اعتبار ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، سلیم بن حیان، یحیی بن سعید، محمد بن ابراہیم، علقمہ بن وقاص، حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی کام ہو تو اس میں نیت کا اعتبار ہے اور انسان کو وہ ہی شے ملے گی جس کی اس کی نیت ہو گی جس وقت یہ بات معلوم ہوئی تو جو شخص خدا اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کرے گا یعنی مکان اور دنیا کو خداوند قدوس کی رضامندی کے واسطے چھوڑے تو اس کا یہ عمل خداوند قدوس کے واسطے ہو گا اور جو شخص دنیا کے واسطے ہجرت کرے یعنی اس خیال سے ہجرت کرے کہ میں اگر ہجرت کروں گا تو مال دولت مجھ کو حاصل ہو گا یا عورت کے واسطے کہ اس سے شادی کروں گا تو اس کی ہجرت ان ہی اشیاء کے واسطے ہو گی یعنی عورت کی اور دنیا کی طرف تو اب اس کو کچھ ملنے والا نہیں ہے بہر حال عمل میں خالص نیت کا ہونا ضروری ہے ایسا ہی قسم میں نیت معتبر ہے کیونکہ قسم بھی ایک عمل ہے۔

 

حلال شے کو اپنے لیے حرام کرنے کا بیان

 

حسن بن محمد زعفرانی، حجاج، ابن جریج، عطاء، عبید اللہ بن عمیر، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت زینب بنت جحش کے پاس تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے مکان میں کچھ وقت تک قیام فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے پاس شہد نوش فرمایا میں نے اور حضرت حفصہ نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا کہ جس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم دونوں میں سے کسی کے پاس تشریف لائیں تو اس طریقہ سے کہنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغافیر یعنی گوند وغیرہ (یا کسی بدبو دار پھل وغیرہ کی) بو آ رہی ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغافیر کھایا ہے ؟ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے وہی بات فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو جواب ارشاد فرمایا میں نے مغافیر نہیں کھا رکھا ہے لیکن شہد ضرور پیا ہے اور حضرت زینب بنت جحش کے گھر میں نے شہد پیا ہے اور فرمایا کہ پھر دوبارہ اس شہد کو نہیں پیوں گا پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی آخر تک۔ یعنی اے نبی! تم کس وجہ سے حرام کرتے ہو جو حلال فرمایا خداوند قدوس نے۔ تم اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہو اور خداوند قدوس مغفرت فرما نے والا مہربان ہے۔ خداوند قدوس نے تم کو اپنی قسموں کا کھول ڈالنا ضروری قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ مالک ہے اور تمہارا مولی ہے وہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے اور جس وقت نبی نے چھپا کر اپنی بیوی سے ایک بات کہی پھر جس وقت خبر اور اطلاح کر دی اس نے دوسری بیوی کو اور خداوند قدوس نے ظاہر فرما دی اس میں سے کچھ اور ٹال دی پھر جس وقت ظاہر ہوا تو عورت نے کہا کس نے بتلایا کہا کہ مجھ کو بتلایا اس خبر والے نے اگر تم دونوں توبہ کرتی تو دل جھک جاتے۔ راوی نقل فرماتے ہیں آیت کریمہ میں دونوں کے توبہ کرنے کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے مراد حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ ہیں اور آیت کریمہ میں جو فرمایا گیا ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوشیدہ طریقہ سے فرمائی اپنی کسی زوجہ محترمہ سے وہ بات فرما دی اس پوشیدہ بات سے مراد ہے کہ تم نے شہد پیا ہے یعنی میں نے کچھ نہیں پیا علاوہ شہد کے۔

 

اگر کسی نے قسم کھائی کہ میں سالن نہیں کھاؤں گا اور سرکہ کے ساتھ روٹی کھا لی تو اس کے حکم کے بیان میں

 

عمرو بن علی، یحی، مثنی بن سعید، طلحۃ بن نافع، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں روٹی کا ایک ٹکڑا اور سرکہ موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سرکہ بھی کتنا عمدہ سالن ہے (چلو) کھا۔

 

جو شخص دل سے قسم نہ کھائے بلکہ زبان سے کہے تو اس کا کیا کفارہ ہے ؟

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن ، سفیان، عبدالملک، ابو وائل، حضرت قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے کہ ہم کو لوگ سم سار یعنی دلال کہا کرتے تھے ایک مرتبہ ہم لوگ بیج فروخت کر رہے تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا ہمارا نام اس نام سے بہتر ہے اس لیے کہ سودا اگر فروخت کرنے میں قسم بھی کھاتے ہیں اور جھوٹ بھی بولتے ہیں اگر دل سے جھوٹ نہ بو لو تو ملا دیا کرو اپنی خرید و فروخت میں صدقہ و خیرات کو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، عبدالملک وعاصم وجامع، ابو اوائل، حضرت قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ بقیع میں فروخت کیا کرتے تھے باقی ترجمہ اوپر کی حدیث کے مطابق ہے۔

 

اگر خرید و فروخت کے وقت جھوٹی بات یا لغو کلام زبان سے نکل جائے

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر،شعبہ، مغیر، ابو اوائل، حضرت قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ہم لوگ بازار میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بازار ہے اس میں بیہودہ کلام اور جھوٹی بات بھی ہوتی ہے تو تم لوگ اس میں صدقہ شامل کر لو۔

 

 

٭٭ علی بن حجر و محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ابو وائل، حضرت قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں خرید فروخت کیا کرتے تھے اور ہم لوگ اوساق (یعنی کھجوروں وغیرہ) کی بیع کرتے تھے اور ہم لوگ اس کو سماسرہ کہتے تھے اور لوگ بھی ہم کو سماسرہ یعنی دلال کہتے تھے۔ ہم جب مکان سے روانہ ہوئے تو ہماری جانب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن تشریف لائے اور نام لیا ہمارا ایسے نام کے ساتھ کہ جو کہ بہتر تھا اس نام سے جو ہم نے رکھا تھا اپنے واسطے اور اس سے بہتر تھا کہ جو لوگ ہم کو کہہ کر پکارتے تھے اور ارشاد فرمایا اے تاجروں کے گروہ! تم لوگوں کے کاروبار میں جھوٹ اور قسمیں بھی ہوتی ہیں تم لوگوں کے واسطے صدقہ کا اس تجارت و کاروبار میں شامل کرنا ضروری ہے۔

 

 

 

کتاب الاستعاذۃ

 

ایسی دعا سے پناہ مانگنے سے متعلق جو (اللہ عز و جل کے ہاں ) قبول نہ کی جائے

 

واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، عاصم بن سلیمان، عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ زید بن ارقم جس وقت یہ کہتے تم نقل کرو جو تم نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے۔ وہ فرماتے تھے میں نہیں بیان کروں گا تم سے مگر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان کرتے تھے ہم سے اور حکم دیتے تھے ہم کو یہ کہنے کا اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں اور سستی اور کنجوسی اور نامردی اور ضعیفی اور عذاب قبر سے۔ یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما دے اور اس کو پاک فرما دے تو بہترین پاک کرنے والا ہے تو مالک اور مختار ہے اس کا اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دل سے جس میں کہ خوف خداوندی نہ ہو اور اس دعا سے جو کہ قبول نہ ہو۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، شعبی، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت اپنے مکان سے نکلتے تو فرماتے نکلتا ہوں اللہ کا نام لے کر اے میرے پالنے والے ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری پھسلنے سے اور گمراہ ہونے سے اور ظلم کرنے سے یا مجھ پر ظلم ہونے سے یا جہالت کرنے سے یا مجھ پر جہالت ہونے سے۔

 

شراب کی حرمت سے متعلق خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا اے اہل ایمان! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (کے تیر) یہ تمام کے تمام ناپاک ہیں شیطان کے کام ہیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان میں دشمنی اور لڑائی پیدا کرا دے شراب پلا اور جوا کھلا کر اور روک دے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے تو تم لوگ چھوڑتے ہو یا نہیں

 

ابو بکر احمد بن محمد بن اسحاق سنی، ابو عبدالرحمن، احمد بن شعیب نسائی، ابو داؤد، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، ابو اسحاق ، ابو میسرہ، عمر سے روایت ہے کہ جس وقت شراب کے حرام ہونے کی آیت کریمہ نازل ہوئی تو انہوں نے دعا فرمائی اے اللہ! شراب کے متعلق ہم لوگوں کے لیے کوئی واضح حکم ارشاد فرما دیں تو وہ آیت کریمہ جو سورہ بقرہ میں ہے یعنی آخر تک نازل ہوئی۔ یعنی لوگ کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما دیں کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور نفع بھی ہے لیکن (ان کا) نفع سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر کو طلب کیا گیا اور ان کو وہ آیت کریمہ سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا اے اللہ! ہم کو صاف صاف ارشاد فرما دے پھر وہ آیت کریمہ نازل ہوئی جو کہ سورہ نساء میں ہے۔ اے ایمان والو! تم نماز کے پاس نہ جا (یعنی نماز نہ پڑھو) ایسی حالت میں کہ جب تم نشہ میں ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرف سے منادی کرنے والا جس وقت نماز کے لیے کھڑا ہوتا تو وہ آواز دیتا کہ نہ نماز پڑھو جس وقت نشہ میں ہو تو حضرت عمر کو بلایا گیا اور ان کو یہ آیت کریمہ سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا ہم کو شراب کے متعلق صاف صاف بیان فرما دے پھر وہ آیت کریمہ نازل ہوئی جو کہ سورہ مائدہ میں ہے پھر (تیسری مرتبہ) حضرت عمر کو بلایا گیا اور ان کو یہ آیت کریمہ سنائی گئی جس وقت ( آیت کریمہ کے جزو) پر پہنچے تو حضرت عمر نے فرمایا ہم نے چھوڑا ہم نے چھوڑا۔

 

جس وقت شراب کی حرمت نازل ہوئی تو کس قسم کی شراب بہائی گئی

 

سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، سلیمان تیمی، انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں اپنے قبیلہ میں کھڑا ہوا تھا اپنے چچاؤں کے پاس اور میں سب سے زیادہ کم عمر تھا اس دوران ایک آدمی آیا اور اس نے کہا شراب حرام ہو گئی اور میں کھڑا ہوا ان کو فضیخ پلا رہا تھا انہوں نے کہا تم اس کو پلٹ دو۔ میں نے وہ الٹ دی۔ حضرت سلیمان نے کہا وہ شراب کس چیز کی تھی؟ حضرت انس نے فرمایا گدری کھجور اور خشک کھجور کی۔ حضرت ابو بکر بن انس نے کہا کیا ان دنوں لوگ وہی شراب پیا کرتے تھے ؟ حضرت انس نے یہ سنا اور اس کا انکار نہیں فرمایا۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، سعید بن ابو عروبۃ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ میں ابو طلحہ ابی بن کعب ابو دجانہ کو قبیلہ انصار کی ایک جماعت میں شراب پلا رہا تھا کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا ایک نئی خبر ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ یہ بات سن کر ہم لوگوں نے شراب کا برتن پلٹ دیا۔ ان دونوں میں فضیخ (نامی شراب عام) تھی۔ (تشریح گزر چکی) یعنی گدری اور خشک کھجور کی شراب یا صرف گدری کھجور کی شراب۔ اس نے کہا شراب تو حرام ہو گئی ہے اس وقت لوگ عام طور پر فضیخ (نامی شراب) پیا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، سعید بن ابو عروبۃ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ میں ابو طلحہ ابی بن کعب ابو دجانہ کو قبیلہ انصار کی ایک جماعت میں شراب پلا رہا تھا کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا ایک نئی خبر ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ یہ بات سن کر ہم لوگوں نے شراب کا برتن پلٹ دیا۔ ان دونوں میں فضیخ (نامی شراب عام) تھی۔ (تشریح گزر چکی) یعنی گدری اور خشک کھجور کی شراب یا صرف گدری کھجور کی شراب۔ اس نے کہا شراب تو حرام ہو گئی ہے اس وقت لوگ عام طور پر فضیخ (نامی شراب) پیا کرتے تھے۔

 

گدری اور خشک کھجور کے آمیزہ کو شراب کہا جاتا ہے

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، محارب بن دثار، جابر ابن عبداللہ نے بیان فرمایا گدری (تر) اور خشک کھجور کو ملا کر جو آمیزہ بنایا جائے وہ شراب ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، محارب بن دثار، جابر بن عبد اللہ، نے فرمایا گدری اور کھجور کی شراب خمر ہے۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا، عبید اللہ، شیبان، الاعمش، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انگور اور کھجور کی شراب خمر ہے۔

 

خلیطین کی نبیذ پینے کی ممانعت سے متعلق حدیث مبارکہ کا بیان

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، شعبہ، حکم، ابن ابو لیلی ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی گدری کھجور انگور اور کھجور سے۔

 

کچی اور پکی کھجور کو ملا کر بھگونا

 

واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، حبیب بن ابو عمرۃ، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ( کدو کے تونبے اور) لاکھی برتن اور روغن والے برتن اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بھگونے سے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا پختہ کھجور اور کچی کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، حبیب بن ابو عمرۃ، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے تونبے سے منع فرمایا اور روغنی رال کے باسن سے اور روایت میں دوسری مرتبہ یہ اضافہ فرمایا اور چوبی باسن سے اور کھجور کو انگور کے ساتھ اور کچی کھجور کو خشک کھجور کے ساتھ ملانے سے۔

 

 

٭٭ حسین بن منصور بن جعفر، عبداللہ بن نمیر، الاعمش، حبیب، ابو ارطاۃ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کچی اور خشک کھجور اور انگور اور کھجور کو ملا کر بھگونے سے

 

کچی کھجور اور تر کھجور کو ملا کر بھگونے سے ممانعت

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، الاوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ جمع کرو کھجور اور انگور کو اور نہ ہی کچی کھجور اور نہ تر کھجور کو۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی ابن مبارک، یحیی، ابو سلمہ، ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ بھگو کچی اور تر کھجور کو ایک ساتھ اور نہ ہی انگور اور کھجور کو ایک ساتھ بھگو۔

 

کچی اور خشک کھجور کا آمیزہ

 

محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی ابن مبارک، یحیی، ابو سلمہ، ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ بھگو کچی اور تر کھجور کو ایک ساتھ اور نہ ہی انگور اور کھجور کو ایک ساتھ بھگو۔

 

گدری اور خشک کھجور ملا کر بھگونا

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن سعید، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور اور گدری اور تر کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن سعید، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور اور گدری اور تر کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے

 

کچی اور تر کھجور کو ملا کر بھگونے سے ممانعت

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن سعید، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور اور گدری اور تر کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے

 

 

٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، ابو اسحاق ، حبیب بن ابو ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کدو کے تونبے لاکھی برتن اور روغنی برتن سے اور گدری اور خشک کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے ایسی طریقہ سے انگور اور کھجور کو ملا کر بھگونے سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مقام) ہجر کے لوگوں کو تحریر فرمایا نہ ملا انگور اور کھجور کو۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یزید، حمید، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کدو کے تونبے لاکھی برتن اور روغنی برتن سے اور گدری اور خشک کھجور کو ایک ساتھ ملا کر بھگونے سے ایسی طریقہ سے انگور اور کھجور کو ملا کر بھگونے سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مقام) ہجر کے لوگوں کو تحریر فرمایا نہ ملا انگور اور کھجور کو۔

 

کھجور اور انگور ملا کر بھگونے کی ممانعت

 

محمد بن آدم و علی بن سعید، عبدالرحیم، حبیب بن ابو عمرۃ، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور کو اور خشک کھجور اور گدری کھجور کو ملانے سے

 

 

٭٭ قریش بن عبدالرحمن باوردی، علی بن حسن، حسین بن واقد، عمرو بن دینار، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممنوع فرمایا گدری کھجور اور خشک کھجور کو ملا کر بھگونے سے (یعنی ان کی نبیذ بنانے سے۔)

 

گدری کھجور اور انگور ملانا

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ بھگو کچی اور تر کھجور کو اور نہ بھگو تر کھجور اور انگور کو ملا کر۔

 

گدری کھجور اور انگور ملانے کی ممانعت

قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی انگور اور گدری کھجور کو ملا کر بھگونے سے۔

 

دو چیزیں ملا کر بھگونے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ایک شے سے دوسری شے کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس طرح نشہ جلدی پیدا ہونے کا امکان ہے

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، وقاء بن ایاس، مختار بن فلفل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی دو اشیاء کو ملا کر بھگونے سے کیونکہ ایک دوسری پر قوت بڑھانے اور میں نے دریافت کیا فضیخ (شراب سے متعلق) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اس سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برا سمجھتے تھے اس گدری کھجور کو جو کہ ایک جانب سے فروخت ہونا شروع ہو گئی اس اندیشہ سے کہ وہ دو کھجور ہیں ہم ایسی کھجور کو اگر بھگوتے تو اس جانب سے کاٹ دیتے جو کہ پک جاتی۔

 

ان برتنوں سے متعلق کہ جن میں نبیذ تیار کرنا ممنوع ہے۔ مٹی کے برتن (اس میں تیزی جلدی آتی ہے ) میں نبیذ تیار کرنے کے ممنوع ہونے سے متعلق حدیث کا بیان

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، سلیمان تیمی، طاؤس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹی کے برتن سے نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! اس پر حضرت طاؤس نے بیان کیا خدا کی قسم! میں نے یہ حضرت عبداللہ بن عمر سے سنا ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ تونبے کی نبیذ سے بھی منع فرمایا۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عیینہ بن عبدالرحمن، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جر کی نبیذ (یعنی مٹی کے گھڑے میں ) بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حسین، امیۃ، شعبہ، جبلۃ بن سحیم، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا حنتم سے میں نے عرض کیا حنتم کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جر۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، ابو مسلمہ، عبدالعزیز یعنی ابن اسید سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر سے کسی نے دریافت کیا جر کی نبیذ کے متعلق تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عبداللہ بن علی بن سوید بن منجوف، عبدالرحمن بن مہدی، ہشام بن ابو عبد اللہ، ایوب، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا جر کی نبیذ کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ بات سن کر میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا میں نے آج ایک ایسی بات سنی ہے کہ جس کو سن کر تعجب ہوا۔ اس پر انہوں نے فرمایا وہ کیا بات ہے ؟ میں نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے جر کی نبیذ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے حرام قرار دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا سچ کہا۔ میں نے کہا جر کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جو برتن مٹی کا ہو۔

 

 

٭٭ عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، رجل، سعید بن جبیر، ابن عمر ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔ حضرت سعید نے کہا جس وقت میں نے حضرت ابن عمر سے سنا تو مجھ پر گراں ہوا پھر میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا حضرت ابن عمر سے ایک بات دریافت کی گئی مجھ کو وہ بات بہت بڑی (عجیب) لگی آخر تک۔

 

ہرے رنگ کے لاکھی برتن

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، شیبانی، ابن ابو اوفی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہرے رنگ کے لاکھی کے برتن کے نبیذ سے۔ میں نے عرض کیا اور سفید برتن سے۔ انہوں نے فرمایا میں واقف نہیں ہوں۔

 

 

٭٭ ابو عبدالرحمن، محمد بن منصور، سفیان، ابو اسحاق شیبانی، ابن ابو اوفی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہرے رنگ اور سفید رنگ کی جر سے (اس لفظ کے معنی گزر چکے ہیں )۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو رجاء سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسن سے دریافت کیا جو کی نبیذ حرام ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا جی ہاں ! حرام ہے۔ مجھ سے اس شخص (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بیان کیا جو کہ جھوٹ نہیں بولتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی لاکھی کے برتن اور تونبے اور روغنی برتن سے اور چوبی برتن سے۔

 

کدو کے تونبے کی نبیذ کی ممانعت

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، ابراہیم بن میسرہ، طاؤس، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی تونبے کی نبیذ سے۔

 

 

٭٭ جعفر بن مسافر، یحیی بن حسان، وہب، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تونبے کی نبیذ سے منع فرمایا۔

 

تو نبے اور روغنی برتن کی نبیذ کی ممانعت

 

محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، سفیان، منصور و حماد و سلیمان، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے تونبے اور روغنی برتن میں نبیذ ڈالنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے تونبے اور روغنی برتن میں نبیذ ڈالنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ حضرت عبدالرحمن بن یعمر سے بھی اسی مضمون کی روایت مذکور ہے۔

 

 

٭٭ حضرت انس سے سابقہ مضمون کے مطابق روایت منقول ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابو ہریرہ سے سابقہ مضمون کے مطابق روایت منقول ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی روغنی برتن اور کدو کے باسن میں (نبیذ بنانے سے )۔

 

کدو کے تونبے اور لاکھی اور چوبی برتن میں نبیذ پینے کی ممانعت

 

احمد بن عبداللہ بن حکم بن فروۃ، ابن کر دی بصرب، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالخالق شیبانی، سعید، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کدو کے تونبے اور لاکھی کے برتن اور چوبی برتن یعنی نقیر سے

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مثنی بن سعید، ابو متوکل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی لاکھی اور (کدو کے ) تونبے اور چوبی باسن میں (نبیذ) پینے کی۔

 

تونبے لاکھی اور روغنی برتن کی نبیذ کی ممانعت

 

سوید، عبد اللہ، شعبہ، محارب، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کدو کے تونبے اور لاکھی برتن سے (یعنی ان برتنوں میں نبیذ تک پینے سے منع فرمایا)۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، الاوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹکوں سے اور کدو کے تونبے سے اور ان برتنوں سے منع فرمایا جن پر رال بھری ہوئی ہو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عون بن صالح بارقی، زینب بنت نصر و جمیلۃ بنت عباد، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے اس شراب سے جو تیار کی جائے (کدو کے ) تونبے یا لاکھی یا روغنی برتن میں (نبیذ پینے سے ) علاوہ زیتون کے تیل یا سرکہ کے۔

 

کدو کے تونبے اور چوبی برتن اور روغنی برتن اور لاکھی کے برتن کی نبیذ کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

قریش بن عبدالرحمن، علی بن حسن، حسین، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تونبے اور لاکھی کے اور چوبی اور روغنی برتن سے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، قاسم بن فضل، ثمامۃ بن حزن قشیری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا (کہ قبیلہ) عبدالقیس کے لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور تو نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا پوچھا؟ کہا (پوچھا) کہ ہم لوگ کون سے برتن میں نبیذ تیار کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ( کدو کے ) تونبے چوبیں اور روغنی لاکھی کے برتن میں نبیذ بنانے سے۔

 

نذر اور منت ماننے کی ممانعت

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، منصور، عبداللہ بن مرۃ، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نذر اور منت ماننے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا نذر سے انسان کی کچھ بھلائی اور بہتری نہیں ہوتی بلکہ نذر اس وجہ سے ہے کہ بخیل شخص کے ہاتھ سے کچھ صدقہ و خیرات نکلے۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، ابو نعیم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا منت ماننے سے اور فرمایا کہ وہ نذر رد نہیں کرتی ہے کسی شے کو لفظ نذر اس واسطے ہے کہ کنجوس شخص کے مال میں سے کچھ خرچہ کیا جائے۔

 

منت آنے والی چیز کو پیچھے اور پیچھے کی چیز کو آگے نہیں کرتی اس سے متعلق احادیث

 

عمرو بن علی، سفیان، منصور، عبداللہ بن مرۃ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا منت کسی شے کو آگے پیچھے نہیں کرتی اور (دراصل) منت کنجوس شخص کا مال خرچ کرانے کے واسطے ہے۔

 

منت آنے والی چیز کو پیچھے اور پیچھے کی چیز کو آگے نہیں کرتی اس سے متعلق احادیث

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن ، سفیان، ابو الزناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نذر انسان کے واسطے کوئی چیز نہیں لاتی اور نذر انسان کو کسی شے کا مالک نہیں بناتی کہ جو شے اس کے مقدر میں نہیں لیکن نذر ایک (ایسی) شے ہے جو کہ کنجوس آدمی کا مال خرچ کراتی ہے۔

 

نذر اس واسطے ہے کہ اس سے کنجوس شخص کا مال خرچ کرائے

 

قتیبہ ، عبدالعزیز، علاء، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ منت اور نذر نہ مانا کرو اس لیے کہ نذر اور منت مقدر کے لکھے ہوئے میں کام نہیں آتی اور جو بات پیش آنے والی ہے وہ بات پیش آ کر رہتی ہے وہ تو اس واسطے ہے کہ کنجوس آدمی کا مال دولت خرچ کرائے۔

 

کسی عبادت کے واسطے منت ماننا

 

قتیبہ ، مالک، طلحۃ بن عبدالملک، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی نذر مانے کہ میں خداوند قدوس کی اطاعت کروں گا تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور جو شخص نذر مانے کہ میں خداوند قدوس کی نافرمانی کروں گا تو اس کو چاہیے کہ وہ خداوند قدوس کی نافرمانی نہ کرے (کیونکہ گناہ کے کام میں قسم اور نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کو توڑ دینا لازم ہے )۔

 

گناہ کے کام میں منت سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی، مالک، طلحہ بن عبدالملک، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خداوند قدوس کی فرمانبرداری کی نذر مانے تو اس کو چاہیے کہ وہ خداوند قدوس کی فرمانبرداری کرے اور جو کوئی اس بات کی نذر مانے کہ وہ خداوند قدوس کا گناہ کرے گا یعنی اس کی نافرمانی کرے گا تو اس کو لازم ہے کہ وہ اس نذر کو پورا نہ کرے یعنی خداوند قدوس کی نافرمانی نہ کرے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

منت پوری کرنا

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، ابو جمرۃ، زہدم، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام لوگوں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو کہ میرے دور میں ہیں پھر اس کے بعد وہ لوگ ہیں جو کہ میرے زمانہ سے قریب ہیں پھر وہ لوگ بہتر ہیں جو کہ اس زمانہ سے قریب ہوں گے یعنی تیسرے زمانہ کے لوگ پھر راوی نقل فرماتے ہیں مجھ کو یاد نہیں رہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ یہ جملے ارشاد فرمائے یا تین مرتبہ ارشاد فرمائے پھر ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا جو کہ خیانت کرتے ہیں اور امانت داری سے کام نہیں لیتے اور جو کہ گواہی دیتے ہیں اور گواہی کو بلائے نہیں جاتے اور جو کہ منت مانتے ہیں لیکن منت کو پورا نہیں کرتے۔

 

نذر کے کفارہ سے متعلق

 

محمد بن عبدالمبارک، یحیی بن آدم ، ابن مبارک، یونس، زہری ، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور ، عثمان بن عمر ، یونس، زہری ، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو صفوان، یونس، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے

 

 

٭٭ ہارون بن موسی، ابو ضمرہ، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل ترمذی ، ابو ب بن سلیمان ، ابو بکر بن ابی اویس ، سلیمان بلال ، محمد بن ابی عتیق ، موسیٰ بن عقبہ ، ابن شہاب ، سلیمان بن ارقم ، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے

 

 

٭٭ ہناد بن سری، وکیع، ابن مبارک علی، یحیی بن ابی کثیر، محمد بن زبیر حنظلی، ان کے والد، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے غضب میں نذر اور منت نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، مسد د، عبدالوارث، محمد بن زبیر حنظلی، ایک آدمی، حضرت عمران بن حصین نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جائز نہیں نذر خداوند قدوس کے کام میں اور کفارہ نذر کا وہ ہے جو کہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ ہلال بن علاء، ابو سلیم عبید بن یحیی، ابو بکر نہشلی، محمد بن زبیر، حسن، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور نہ (خداوند قدوس) کے غضب کے کام میں نذر جائز ہے اور کفارہ اس کا وہی ہے جو کفارہ قسم کاہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، منصور، حسن، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہے کہ جس چیز کا وہ مالک نہیں ہے اور اس کام کی نذر بھی صحیح نہیں ہے کہ جس کام میں نافرمانی ہو اللہ بزرگی عزت والے کی۔ واضح رہے کہ منصور کے خلاف حضرت علی بن زید نے حضرت حسن سے روایت نقل کی ہے اور حضرت حسن نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت کی ہے۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی، خلف بن تمیم، زائدہ، علی بن زید بن جدعان، حسن، عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہے کہ جس چیز کا وہ مالک نہیں ہے اور اس کام کی نذر بھی صحیح نہیں ہے کہ جس کام میں نافرمانی ہو اللہ بزرگی عزت والے کی۔ واضح رہے کہ منصور کے خلاف حضرت علی بن زید نے حضرت حسن سے روایت نقل کی ہے اور حضرت حسن نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت کی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب، ابو قلابہ، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہے کہ جس چیز کا وہ مالک نہیں ہے اور اس کام کی نذر بھی صحیح نہیں ہے کہ جس کام میں نافرمانی ہو اللہ بزرگی عزت والے کی۔

 

اگر کوئی اپنے مال و دولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

 

عمرو بن عثمان، بقیہ، ابو عمرو اوزاعی، یحیی بن ابی کثیر، محمد بن زبیر حنظلی، اپنے والد سے ، وہ عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے غضب میں نذر اور منت نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ علی بن میمون، معمر بن سلیمان، عبداللہ بن بشر، یحیی بن ابی کثیر، محمد حنظلی، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے غضب میں نذر اور منت نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، حسن بن موسی، شیبان، یحیی، محمد بن زبیر، اپنے والد سے ، عمران سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے غضب میں نذر اور منت نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، محمد، عمران سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے غضب میں نذر اور منت نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن وہب، محمد بن سلمۃ، ابن اسحاق ، محمد بن زبیر، ان کے والد، اہل بصرہ کا ایک آدمی، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نذریں دو قسم کی ہوتی ہیں جو نذر خداوند قدوس کی فرماں برداری کے لیے ہو بس وہ ہی نذر خداوند قدوس کے واسطے ہے اور اس نذر کے پورا کرنے کا حکم ہے اور جو نذر ایسی ہو کہ جس میں گناہ ہے وہ نذر شیطان کے واسطے ہے اور اس کا پورا کرنا کچھ لازم نہیں ہے اور منت کا کفارہ دیا۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، ابو داؤد، سفیان، محمد بن زبیر، حسن، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور نہ (خداوند قدوس) کے غضب کے کام میں نذر جائز ہے اور کفارہ اس کا وہی ہے جو کفارہ قسم کاہے۔

 

اس شخص پر کیا واجب ہے کہ جس نے نذر مانی ہو ایک کام کے کرنے کی اور پھر وہ شخص اس کام کی انجام دہی سے عاجز ہو جائے

 

اسحاق بن ابراہیم، حماد بن مسعدہ، حمید،ثابت، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ وہ دو شخصوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اس کی کیا وجہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا اس شخص نے خانہ کعبہ تک پیدل چلنے کی منت مانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس اس کی جان کو تکلیف میں ڈالنے سے بے نیاز ہے تم اس شخص سے کہو کہ وہ سوار ہو جائے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوار ہونے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ محمدبن مثنی ، خالد ، حمید ،ثابت ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ وہ دو شخصوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اس کی کیا وجہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا اس شخص نے خانہ کعبہ تک پیدل چلنے کی منت مانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس اس کی جان کو تکلیف میں ڈالنے سے بے نیاز ہے تم اس شخص سے کہو کہ وہ سوار ہو جائے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوار ہونے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ احمد بن حفص، حفص، ابراہیم بن طہمان، یحیی بن سعید، کی حمید طویل، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص کے پاس تشریف لائے جو کہ اپنے دو لڑکوں کے درمیان چل رہا تھا یعنی اس کو اس کے دو لڑکے پکڑ کر چل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی کیا حالت ہے ؟ یعنی یہ شخص اس طریقہ سے کس وجہ سے چل رہا ہے ؟ کسی شخص نے عرض کیا اس نے نذر مانی ہے خانہ کعبہ تک پیدل جانے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس اس قسم کے عذاب اور تکلیف دہ عذاب اٹھانے کی قدر نہیں فرماتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو حکم فرمایا سوار ہونے کا۔

 

انشاء اللہ کہنے سے متعلق

 

نوح بن حبیب، عبدالزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر وہ شخص انشاءاللہ کہہ دے تو دراصل اس نے استثناء کیا اور وہ شخص حانث نہ ہو گا۔

 

 

٭٭ عباس بن عبدالعظیم، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت سلیمان نے قسم کھائی کہ آج کی رات میں اپنی نو بیویوں کے پاس جاؤں گا جن میں سے ہر ایک سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ راہ خدا میں مجاہد ہو گا تو آپ سے کہا گیا کہ تم انشاءاللہ کہہ لو تو وہ یہ جملہ نہ کہہ سکے تو وہ عورتوں کے پاس گئے (یعنی تمام بیویوں سے ہمبستری کی) لیکن کسی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا لیکن ایک بیوی نے آدھا بچہ جنا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر وہ انشاءاللہ کہتے تو حانث نہ ہو تے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید