FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سنن ابو داؤدؒ

 

 

جلدسوم

 

(نماز کا بیان)

 

 

                   امام ابو داؤدؒ

 

 

 

 

 

 

 

نماز کا بیان

 

 

                   نماز کی فرضیت کا بیان

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابو سہیل بن مالک، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نجد کا ایک رہنے والا ایک شخص آیا اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز میں گنگناہٹ تھی جس کی بنا پر اس کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی یہاں تک کہ وہ قریب آ گیا اور وہ اسلام کے متعلق دریافت کرنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں اس نے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اور نماز مجھ پر فرض ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں، مگر نفل پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو ماہ رمضان کے روزوں کے متعلق بتایا اس نے پھر پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی اور روزہ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں مگر نفل، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو صدقہ (زکوٰۃ) کے متعلق بتایا اس نے پھر پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی اور صدقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں مگر نقل راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد وہ شخص یہ کہتا ہوا اٹھ کر چل دیا کہ خدا کہ قسم میں اس میں نہ کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کمی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ سچ کہتا ہے تو اس نے مراد پائی۔

 

سلیمان بن داؤد، اسماعیل، بن جعفر، ابو سہیل نافع بن مالک بن عامر نے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے میرے باپ کی وہ با مراد ہوا قسم ہے میرے باپ کی وہ جنت میں جائے گا اگر وہ سچ کہتا ہے۔

 

                   نماز کے اوقات کا بیان

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، عبد الرحمن بن فلاں بن ابی ربیعہ، حکیم بن حکیم، نافع بن جبیر بن مطعم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے جبرائیل علیہ السلام نے دو مرتبہ خانہ کعبہ کے پاس میری امامت کی ہے ایک دن تو انہوں نے ایسے وقت میں مجھے ظہر کی نماز پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور ہر چیز کا سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا اور عصر کی نماز ایسے وقت میں پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا اور مغرب کی نماز ایسے وقت میں پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے اور عشاء کی نماز ایسے وقت میں پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی اور فجر کی نماز اس وقت میں پڑھائی جب روزہ دار کے لیے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے پھر دوسرے دن ظہر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس سے دوگنا ہو گیا اور مغرب کی نماز پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھائی تہائی رات پر اور فجر کی نماز پڑھائی روشنی پھیلنے پر، اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ ہے تم سے پہلے انبیاء کی نمازوں کا وقت اور مستحب وقت انہی دو وقتوں کے درمیان ہے۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، اسامہ بن زید، ابن شہاب، عمرو بن عبد العزیز، حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز مسجد میں منبر پر بیٹھے ہوئے تھے عصر کی نماز میں قدرے تاخیر ہو گئی تو حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کے اوقات سے باخبر کر دیا تھا؟ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ سوچ سمجھ کر بولو حضرت عروہ رضی اللہ عنہ جواب میں کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ان کا بیان ہے کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور مجھے نمازوں کے اوقات سے باخبر کیا میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، پھر پڑھی، پھر پڑھی، پھر پڑھی، اور پھر پڑھی اس طرح آپ نے اپنی انگلیوں پر پانچ نمازوں کو شمار کیا پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج ڈھلتے ہی ظہر کی نماز پڑھی اور گرمی کی شدت کے وقت تاخیر کے ساتھ پڑھی اور عصر کی نماز پڑھی اس حال میں کہ سورج بلند اور سفید تھا زردی بالکل نہ تھی اور آدمی نماز سے فارغ ہو کر سورج غروب ہونے سے پہلے ذوالحلیفہ میں پہنچ جاتا (جو مدینہ سے تقریباً  چھ میل کے فاصلے پر ہے) (اور میں نے دیکھا کہ) آپ سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز ادا فرماتے اور جب آسمان کے کناروں سیاہی چھا جاتی تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز پڑھتے اور جبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے جمع ہونے کی خاطر عشاء کی نماز میں تاخیر کرتے تھے اور فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی اور ایک مرتبہ روشنی میں اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر اندھیرے پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پا گئے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روشنی نہیں پڑھی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو زہری سے معمر، مالک، ابن عیینہ، شعیب بن حمزہ اور لیث بن سعد وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اس وقت کو ذکر نہیں کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی اور نہ ہی انہوں نے اس کی تفسیر کی اسی طریقہ سے ہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے عروہ سے روایت کیا ہے جس طرح معمر نے اور ان کے اصحاب نے روایت کیا ہے مگر حبیب نے بشیر کو ذکر نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ وہب بن کیسان نے بواسطہ جابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وقتِ مغرب ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام دوسرے کے دن مغرب کے لیے سورج غروب ہونے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا گیا ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر جبرائیل علیہ السلام نے دوسرے دن بھی مغرب کی نماز اسی وقت میں پڑھائی۔ اسی طرح عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی جانب سے حسان بن عطیہ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، بدر بن عثمان، ابو بکر بن ابی موسی، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوقات نماز کے متعلق سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (زبانی) جواب نہیں دیا بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا پھر طلوع صبح صادق کے وقت فجر کی نماز پڑھی جبکہ کوئی ایک دوسرے کا چہرہ نہ پہچان سکتا تھا یا جو شخص اپنے پہلو میں ہوتا اس کو نہ پہچان سکتا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کیا اور انہوں نے ظہر کو قائم کیا جبکہ سورج ڈھل چکا تھا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا کیا دوپہر ہو گئی؟ اور آپ خوب جانتے تھے پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کیا اور انہوں نے عصر کو قائم کیا جبکہ سورج بلند اور روشن تھا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا اور انہوں نے مغرب کو قائم کیا جب کہ سورج غروب ہوا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا اور انہوں نے عشاء کو قائم کیا جبکہ شفق کا نشان غروب ہو چکا تھا پھر جب دوسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی نماز پڑھی اور فراغت کے بعد ہم لوگ کہنے لگے کہ کیا سورج نکل آیا؟ اور ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب جس وقت پہلے روز عصر کی نماز پڑھی تھی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سورج زرد ہو گیا تھا یا شام ہو گئی تھی اور مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات میں پڑھائی پھر فرمایا کہاں ہے اوقات نماز کے متعلق دریافت کرنے والا؟جان لو وقت مستحب ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ سلیمان بن موسیٰ نے بواسطہ عطاء عن جابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مغرب کے متعلق اسی طرح روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ پھر آپ نے عشاء کی نماز پڑھی بعض نے کہا تہائی رات میں اور بعض نے کہا کہ آدھی رات میں اسی طرح ابن بریدہ بواسطہ بریدہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے۔

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، قتادہ ابو ایوب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک عصر کا وقت نہ آ جائے اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج ماند نہ پڑ جائے اور مغرب کا وقت تب تک ہے جب تک شفق کی سرخی زائل نہ ہو جائے اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا وقت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک سورج نہ نکل آئے۔

 

                   نبی کی نماز کی کیفیت اور ان کے اوقات کا بیان

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، سعد بن ابراہیم، محمد بن عمرو، ابن حسن، بن علی بن ابو طالب، حضرت محمد بن عمرو بن حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت جابر (بن عبد اللہ انصاری) رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس وقت نماز پڑھتے تھے انہوں نے کہا کہ ظہر کی نماز سورج ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے جب سورج میں جان ہوتی تھی (یعنی اس کی چمک اور گرمی باقی ہوتی تھی) اور مغرب کی نماز سورج غروب ہوتے ہی پڑھ لیتے تھے اور عشاء کی نماز جب آدمی زیادہ ہوتے تو جلدی پڑھتے اور اگر کم ہوتے تو دیر میں پڑھتے اور صبح کی نماز ہمیشہ غلس (یعنی اندھیرے) میں پڑھتے

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابی منہال، حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر کی نماز آفتاب ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے کہ ہم میں سے ایک شخص مدینہ (کی آبادی) کے ایک سرے پر ہو کر واپس آ جاتا اور آفتاب زندہ و تابندہ ہوتا اور میں نماز مغرب کا وقت بھول گیا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک موخر کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی بال نہ تھا (یعنی اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تہائی رات میں پڑھتے تھے) اور راوی کہتے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نصف شب تک نماز عشاء کو موخر کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عشاء سے قبل سونے کو اور نماز عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے اور فجر کی نماز ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ آدمی اپنے اس ساتھی کو بھی (اندھیرے کی بنا پر) نہ پہچان سکتا تھا جس کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہوتا تھا اور فجر کی نماز میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔

 

                   نماز ظہر کا وقت

 

احمد بن حنبل، مسدد، عباد بن عباد محمد بن عمرو، سعید بن حارث، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ظہر کی نماز رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھا کرتا تھا اور مٹھی بھر کنکریاں ہاتھ میں اٹھا لیتا تاکہ وہ قدرے ٹھنڈی ہو جائیں اور ان کو اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لوں جن پر میں سجدہ کر لوں ایسا میں گرمی کی شدت کی بنا پر کرتا تھا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، عبیدہ بن حمید ابو مالک، سعد بن طارق، کثیر بن مدرک، اسود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز ظہر کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور سردی میں پانچ قدم سے سات قدم تک ہوتا تھا۔

 

ابو ولید، شعبہ، ابو حسن، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے موذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان کہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ذرا خنکی ہونے دے کچھ دیر بعد موذن نے اذان کہنے کا ارادہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر یہی فرمایا ذرا خنکی ہونے دے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ ٹیلوں کا سایہ زمین پر پڑ نے لگا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے لہذا جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔

 

یزید بن خالد بن موہب، قتبیہ بن سعید، لیث، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان اس وقت دیا کرتے تھے جب آفتاب ڈھل جاتا تھا۔

 

                   نماز عصر کا وقت

 

قتیبہ بن سعید، لیث ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے کہ آفتاب بلند، زندہ اور تابندہ ہوتا اور جانے والا نماز پڑھ کر عوالی تک پہنچ جاتا اور آفتاب اس وقت بھی بلند ہوتا۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، زہری سے روایت ہے کہ عوالی مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر ہے (اس حدیث کے راوی معمر) کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے زہری نے چار میل بھی کہا ہے۔

 

یوسف بن موسی، جریر، منصور، خثیمہ نے کہا کہ سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرارت اور گرمی محسوس کی جائے۔

 

قعنبی، مالک بن انس، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ دھوپ ان کے کمرہ میں (زمین پر) ہوتی تھی (دیوار پر) چڑھنے سے قبل۔

 

محمد بن عبد الرحمن، ابراہیم بن ابی وزیر، محمد بن یزید بن عبد الرحمن بن علی، علی ابن شیبان سے روایت ہے کہ ہم مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے (ہم نے دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز میں تاخیر کرتے تھے آفتاب کے سفید اور صاف رہنے کی حد تک۔

 

                   صلوٰۃ وسطی کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، یحیٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، عبیدہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ خندق کے دن فرمایا ان کافروں نے ہمیں صلوٰۃ وسطی یعنی عصر کی نماز سے روک دیا اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے۔

 

قعنبی، مالک، زید بن اسلم قعقاع بن حکیم، ابو یونس، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو یونس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ کو اپنے لیے کلام اللہ لکھنے کا حکم دیا اور فرمایا جب تو اس آیت یعنی حَافِظُوا عَلَی الصلوٰۃ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی ، پر پہنچے تو مجھے بتا دینا پس جب میں لکھتے لکھتے اس آیت تک پہنچا میں نے اس کو مطلع کر دیا پس آپ نے مجھے یوں لکھوایا، (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ) 2۔ البقرۃ:238) (یعنی محافظت کرو تمام نمازوں کی اور بطور خاص درمیانی نماز کی اور عصر کی نماز کی) پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح سنا تھا۔

 

محمد بن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن ابی حکیم، زبیر، عرو بن زبیر، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر کی نماز دوپہر کو پڑھا کرتے تھے اور یہ نماز اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تمام نمازوں سے زیادہ سخت ثابت ہوتی تھی (شدید گرمی کی بنا پر) تب یہ آیت نازل ہوئی کہ محافظت کرو تمام نمازوں کی اور بطور خاص صلوٰۃ وسطی کی حضرت زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ (ظہر) صلوٰۃ وسطی اس لیے ہے کہ اس کے پہلے دو نمازیں ہیں (عشاء اور فجر) اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں (عصر، اور مغرب)۔

 

                   جس نماز کی ایک رکعت پائی تو اس نے گویا پوری نماز پائی

 

حسن بن ربیع، ابن مبارک، معمر، ابن طاؤس، ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت بھی پائے تو گویا اس نے عصر کی نماز پائی اور جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پائے تو گویا اس نے فجر کی نماز پائی۔

 

                   نماز عصر کو سورج کے زرد ہونے تک مؤخر کرنے پر وعید

 

قعنبی، مالک، حضرت علاء بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز ظہر پڑھ کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے (جب ہم پہنچے تو) وہ عصر کے لیے کھڑے ہو رہے تھے جب آپ نماز سے فارغ ہو چکے تو ہم نے جلدی نماز پڑھنے کا سبب پوچھا یا خود آپ ہی نے اس کا ذکر کیا کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منافقوں کی نماز ہے یہ منافقوں کی نماز ہے یہ منافقوں کی نماز ہے یعنی تم میں سے ہر شخص بیٹھا رہتا ہے یہاں تک کہ سورج زرد ہو جاتا ہے اور وہ یعنی سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ میں آ جاتا ہے یا یہ فرمایا کہ وہ شیطان کے سینگوں پر آ جاتا ہے تب وہ کھڑا ہوتا ہے اور چار ٹانگیں مار لیتا ہے وہ اپنی نماز میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتا ہے۔

 

                   عصر کی نماز فوت ہو جانے پر وعید

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کی عصر کی نماز جاتی رہی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کا مال لٹ گیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اتر کہا ہے اور اس میں ایوب پر اختلاف ہے اور زہری نے سالم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور ان کو والد نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وتر نقل کیا ہے۔

 

محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو  اوزاعی سے روایت ہے کہ نماز عصر میں تاخیر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پڑنے والی دھوپ سے زمین کی چیز زرد معلوم ہونے لگے۔

 

                   مغرب کا وقت

 

داؤد بن شبیب، حماد، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مغرب کی نماز ہم پڑھا کرتے تھے پھر ہم تیر اندازی کرتے تھے اور ہم کو تیر گرنے کی جگہ دکھائی دیتی تھی۔

عمرو بن علی، صفوان، بن عیسیٰ، یزید، بن ابی عبید، سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کی نماز سورج غروب ہوتے ہی پڑھ لیتے تھے یعنی جوں ہی اس کا اوپر کنارہ غروب ہو جاتا۔

 

عبید اللہ بن عمر، یزید بن زریع، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، حضرت مرثد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کی تیاری کی غرض سے آئے تو ان دنوں عقبہ بن عامر مصر کے حاکم تھے انہوں نے مغرب کی نماز دیر سے شروع کی تو ابو ایوب نے کھڑے ہو کر کہا کہ اے عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ (جو اتنی دیر سے ادا کی جا رہی ہے) حضرت عقبہ نے جواب دیا ہم کام میں مشغول تھے انہوں نے کہا کیا تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میری امت اس وقت تک تاخیر پر باقی رہے گی یا یہ کہا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک کہ لوگ تارے چمک آنے تک مغرب میں تاخیر نہ کریں گے۔

 

                   عشاء کی نماز کا وقت

 

مسدد، ابو عوانہ، ابو بشر بن ثابت، حبیب بن سالم، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے تھے کہ میں اس نماز یعنی عشاء کی نماز کا وقت سب سے زیادہ جانتا ہوں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس نماز کو اتنی تاخیر سے پڑھتے تھے جتنی تاخیر سے تیسری تاریخ کا چاند غروب ہوتا ہے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، حکم، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتظار میں بیٹھے رہے پس جب تہائی رات یا اس سے کچھ زائد رات بیت گئی تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ تاخیر کسی کام میں مشغولیت کی بنا پر کی یا کسی اور وجہ سے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حجرہ سے باہر) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ہی اس نماز کا انتظار کرتے ہو (پھر فرمایا) اگر مجھے اپنی امت پر اس نماز کے بار ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اس نماز کو ہمیشہ اس وقت پر پڑھایا کرتا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مؤذن کو حکم دیا پس اس نے نماز قائم کی (یعنی تکبیر کہی)۔

 

عمرو بن عثمان، جریر، راشد بن سعد، عاصم بن حمید، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیر ہو گئی یہاں تک کہ کسی نے سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حجرہ سے) باہر تشریف نہ لائیں گے اور کسی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے ہیں ابھی ہم اسی مخمصہ میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرہ سے باہر تشریف لائے لوگ جیسا آپس میں کہہ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی کہہ دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نماز میں تاخیر کرو کیونکہ تمام امتوں پر تم کو اسی نماز کی بنا پر فضیلت بخشی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔

 

مسدد، بشر، بن مفضل، داؤد بن ابی ہند، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھنے کا ارادہ کیا لیکن آپ اپنے حجرہ سے باہر تشریف نہ لائے یہاں تک کہ تقریباً آدھی رات بیت گئی۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پس ہم اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا لوگ نماز سے فارغ ہو گئے اور سو گئے۔ مگر تم (اجر و ثواب کے اعتبار سے) نماز ہی میں رہے جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے اگر مجھ کو کمزور کی کمزوری کا اور بیمار کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کیا کرتا۔

 

 

                   نماز فجر کا وقت

 

قعنبی، مالک، یحیٰ بن سعید، عمرہ بنت عبد الرحمن، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز (ایسے وقت میں) پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہو کر جب عورتیں چادریں لپیٹے ہوئے واپس ہوتیں تو اندھیرے کی بنا پر پہچانی نہ جاتی تھیں۔

 

اسحاق بن اسماعیل، سفیان، ابن عجلان، عاصم بن عمر بن قتادہ بن نعمان، محمود بن لبید، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ صبح کو روشن کرو۔ اس میں زیادہ ثواب ہے (صبح کی نماز روشنی میں پڑھو)۔

 

                   نماز کی پا بندی کا بیان

 

محمد بن حرب، یزید، ابن ہارون، محمد بن مطرف، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت عبد اللہ صنا بحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو محمد نے کہا کہ وتر واجب ہے اس پر عبادہ بن صامت نے کہا کہ ابو محمد کا خیال غلط ہے۔ (عبادہ بن صامت) کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوے سنا ہے کہ اللہ نے (صرف) پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو ان کے لیے اچھی طرح وضو کر لے گا اور مستحب وقت میں نماز ادا کرے گا۔ اطمینان سے رکوع کرے گا اور نماز میں خشوع خضوع اختیار کرے گا تو اس کے لیے اللہ تعالی کا و عدہ ہے کہ وہ اس کی مغفرت فرمائے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ چاہے تو بخش دے گا اور چاہے گا تو عذاب دے گا۔

 

محمد بن عبد اللہ، عبد اللہ بن مسلمہ، عبد اللہ بن عمر، قاسم بن غنام، حضرت ام فردہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اول وقت نماز پڑھنا اور خذاعی نے اپنی حدیث میں یوں بیان کیا ہے کہ ان کی پھوپھی جن کو ام فردہ کہا جاتا ہے اور جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی تھی ان سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا۔

 

عمرو بن عون، خالد، داؤد، بن ابی ہند، ابو حرب، بن ابی اسود، فضالہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو دینی احکام سکھاتے تو اس میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نمازوں کی محافظت (پابندی) کر میں نے عرض کیا کہ ان اوقات میں مجھے بہت سے کام ہوتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے کہ جو میرے لیے کافی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو عصرین پر محافظت کر (فضالہ کہتے ہیں) یہ لفظ ہماری زبان میں رائج نہ تھا میں نے پوچھا عصرین کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (یہ دو نمازیں ہیں) ایک سورج نکلنے سے پہلے (یعنی فجر) اور ایک سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی عصر)

 

مسدد، یحییٰ، اسماعیل بن ابی خالد، ابو بکر، حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بصرہ کے ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا سنا ہے؟ کہا میں نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا کہ جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہو اس شخص نے پوچھا کہ کیا تم نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سنا ہے (اور یہی سوال اس نے) تین مرتبہ دہرایا اور انھوں نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں۔ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا پھر اس شخص نے کہا میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسا ہی سنا تھا.

 

                   حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟

 

مسدد، حماد، بن زید، ابو عمران، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا۔ اے ابو ذر، تم اس وقت کیا کرو گے جب تم پر ایسے حاکم مسلط ہو جائے گے جو نماز کو فنا کر دیں گے یا یہ فرمایا کہ نماز میں تاخیر کریں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسی صورت میں آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وقت پر نماز پڑھ لینا اور اگر ان کے ساتھ بھی نماز مل جائے تو وہ بھی پڑھ لینا اس طرح یہ نماز تمھارے لیے نفل ہو جائے گی۔

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، ولید، حسان، ابن عطیہ، عبد الرحمن بن سابط، عمرو بن میمون اودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد بن کر معاذ بن جبل ہمارے پاس یمن میں آئے میں نے فجر کی نماز میں ان کی تقریر سنی وہ موٹی آواز والے ایک آدمی تھے مجھے ان سے ایک گنا قلبی تعلق ہو گیا اور میں نے ان کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ وہ انتقال کر گئے اور ملک شام میں دفن ہوئے پھر میں نے جستجو کی کہ زیادہ فقہ جاننے والا کون ہے پس میں عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اور ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہا۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا (اے ابن مسعود) تم کیا کرو گے جب تم پر ایسے حاکم مسلط ہوں گے جو نماز کو غیر وقت میں پڑھیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب ایسا وقت آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ بھی نفل سمجھ کر شریک ہو جانا۔

 

محمد بن قدامہ، اعین، جریر، منصور، ہلال بن یساف، ابی مثنی، ابن اخت، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد تم پر ایسے لوگ حکمران ہوں گے جن کی مشغولیات ان کو وقت پر نماز کی ادائیگی سے روک دیں گے یہاں تک کے وقت نکل جائے گا پس تم اپنے وقت پر نماز پڑھنا ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں ان کے ساتھ (جماعت میں شریک ہو کر دوبارہ) نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے اور سفیان کی روایت میں یوں ہے کہ اس شخص نے پوچھا کہ اگر میں ان کے ساتھ جماعت پاؤں تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو؟ فرمایا ہاں۔ اگر تو چاہے۔

 

ابو ولید، ابو ہاشم، صالح، بن عبید، قبیصہ بن و قاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد تم پر ایسے لوگ حکمران ہوں گے جو نماز میں تاخیر کریں گے پس (ان کے ساتھ دوبارہ پڑھی ہوئی نماز) تمھارے لیے باعث و خیرو برکت ہو گی اور ان کے لیے موجب خسران۔ پس جب تک وہ قبلہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں تم ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا۔

 

                   بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات میں سفر کیا یہاں تک کہ ہم کو نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخر شب میں آرام کے لیے ایک جگہ اتر گئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا ہماری حفاظت کرنا آج رات (جا گتے رہنا) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی بھی آنکھ لگ گئی اس حالت میں کہ وہ اپنے اونٹ سے سہارا لگا کر بیٹھ گئے تھے پس نہ تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیدار ہوئے، نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جاگے اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی کی آنکھ کھلی یہاں تک کہ ان پر دھوپ آ گئی۔ تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھبرا کر بیدار ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو (غصہ سے) آواز دی۔ انھوں نے (معذرت کرتے ہوئے) جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں مجھ پر بھی نیند غالب آ گئی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر غالب آ گئی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے تھوڑے فاصلہ تک اونٹوں کو لے گئے پھر اتر کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا انھوں نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ یونس کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس حدیث میں یہ آیت اسی طرح پڑھتے تھے اور احمد کہتے ہیں کہ عنبہ نے بسند یونس اس حدیث میں لذکری کے بجائے) کہا ہے احمد کہتے ہیں کہ الکری کا مطلب نیند ہے۔

 

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث میں یوں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس جگہ سے چل نکلو جہاں ہم پر غفلت طاری ہوئی پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انھوں نے اذان دی اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مالک۔ سفیان بن عینیہ۔ او زاعی۔ عبد الرزاق اور ابن اسحاق نے معمر سے روایت کیا ہے مگر زہری کی اس حدیث میں کسی نے بھی اذان کا ذکر نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی نے اس حدیث کو معمر سے مسند روایت کیا ہے علاوہ اوزاعی اور ابان عطار نے معمر سے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، عبد اللہ بن رباح، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم راستہ سے ہٹ کر ایک طرف کو چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اسی طرف کو چلا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دیکھوں۔ (یہ کون ہے؟) میں نے عرض کیا یہ ایک سوار ہے۔ یہ دو سوار ہیں اور یہ تین سوار ہیں یہاں تک کے ہم سب ملا کر سات ہو گئے۔ آپ نے فرمایا ہماری نماز کا خیال رکھنا یعنی فجر کی نماز کا ۔ وہ سب سو گئے اور ان کو دھوپ کی گرمی ہی نے جگایا۔ پس وہ اٹھے اور تھوڑی دور چلے پھر اترے اور وضو کیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ پھر دو رکعت فجر کی سنت پڑھیں، پھر فجر کی نماز ادا کی اور سوار ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ نماز کے معاملہ میں ہم سے بڑی کوتاہی ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نیند میں (نماز کا ترک) قصور نہیں ہے بلکہ جاگنے کی حالت میں ہے پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور دوسرے دن (بھی احتیاطاً دو بار) اپنے وقت پر پڑھ لے۔

علی بن نصر، وہب بن جریر، اسود بن شیبان، خالد بن سمیر، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا۔ اور پھر یہی واقعہ بیان کیا۔ اس میں یوں ہے کہ ہم کو کسی چیز نے بیدار نہیں کیا مگر یہ کہ جب سورج نکل آہا تو ہم نماز کے لیے گھبرا کر اٹھے پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھہرو۔ ٹھہرو جب سورج بلند ہو گیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سے جو شخص فجر کی دو رکعت سنت پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ (کیونکہ لوگ حالت سفر میں تھے۔ سفر میں صرف فرض کی ادائے گی واجب ہے) پس جو پڑھتے تھے وہ بھی کھڑے ہوئے اور سنت ادا کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اذان کہنے کا حکم دیا پس اذان کہی گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے فرمایا۔ سنو۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں کسی دنیاوی کام نے نماز سے نہیں رو کا بلکہ ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں پس جب اس نے چاہا ان کو آزاد کیا پس تم میں سے جو شخص کل صبح کی نماز وقت مستحب میں پائے تو وہ اس کے ساتھ اس جیسی نماز اور پڑھ لے۔

 

عمرو بن عون، خالد، حصین، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ نے۔ جب تک چاہا تمھاری روحوں کو رو کے رکھا اور جب چاہا چھوڑ دیا۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھائی۔

 

ہناد، عبثر، حصین، عبد اللہ بن ابی قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے حوالہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آفتاب بلند ہو گیا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور نماز پڑھائی۔

 

عباس، سلیمان بن داؤد، سلیمان، ابن مغیرہ، ثابت، عبد اللہ بن رباح، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سونے میں کوئی قصور نہیں ہے بلکہ قصور تو جاگنے میں ہے کہ نماز میں تاخیر کرے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے

 

محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔

 

وہب بن بقیہ، خالد، یونس بن عبید بن حسن، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں تھے سب لوگ سوئے تو نماز فجر کے لیے نہ اٹھ سکے اور اس وقت بیدار ہوئے جب دھوپ نکل آئی اس کے بعد لوگ (وہاں سے روانہ ہو کر) کچھ دور چلے یہاں تک کہ سورج بلند ہو گیا اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مؤذن کو حکم دیا اس نے اذان دی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت سنت فجر سے پہلے پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور فجر کی نماز پڑھائی۔

 

عباس، احمد بن صالح، عباس، عبد اللہ بن یزید، حیوہ بن شریح، عمر بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو رہے اور نماز فجر کے لیے نہ اٹھ پائے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت بیدار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہاں سے چل نکلو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا پھر سب لوگوں نے وضو کیا اور دو رکعت سنت فجر ادا کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی۔

 

ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن محمد، حریز، عبید بن ابی وزیر، مبشر، خادم رسول ذی مخبر حبشی رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں یوں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اس طرح کہ زمین پر کیچڑ نہ ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر دو رکعت سنت اطمینان سے ادا فرمائیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اطمینان و سکون کے ساتھ نماز پڑھائی حجاج نے بواسطہ یزید بن صلیح کہا کہ حدیث بیان کی ذو مخبر نے جو حبشہ کے ہیں اور عبید نے یزید بن صلیح کہا ہے۔

 

مومل بن فضل، ولید، حریز، ابن عثمان، یزید بن صالح، نجاشی کے بھتیجے ذو مخبر سے اس قصہ میں یوں روایت ہے کہ حضرت بلال نے اذان دی بغیر جلدی کیے یعنی اطمینان سے اذان دی۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، جامع بن شداد، عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا (نماز فجر کے لیے) ہمیں کون جگائے گا؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں پس سب لوگ سوتے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیدار ہوئے اور فرمایا تم ویسا ہی کرو جیسا کرتے تھے (یعنی حسب معمول نماز پڑھو) پس ہم نے ایسا ہی کیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سو جائے یا بھول جائے تو ایسا ہی کرے۔

 

                   مسجد بنانے کا بیان

 

محمد بن صباح بن سفیان، بن عیینہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اونچی اونچی مسجدیں بنا نے کا حکم نہیں دیا گیا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم مسجدوں کو اسی طرح آراستہ کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے (اپنے اپنے معبودوں کو) آراستہ کیا ہے۔

 

محمد بن عبد اللہ، حماد بن سلمہ، ایوب، ابو قلابہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر نہ کریں گے۔

 

رجاء بن مرجی، ابو ہمام، محمد بن محبب، سعید بن سائب، محمد بن عبد اللہ بن عیاض، عثمان بن ابی علص، حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو شہر طائف میں اس مقام پر مسجد بنانے کا حکم دیا جہاں (مشرکین کے) بت رکھے رہا کرتے تھے۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، مجاہد بن موسی، یعقوب بن ابراہیم، صالح نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مسجد (مسجد نبوی) کچی اینٹوں کی بنی ہوئی تھی اور اس کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی تھی مجاہد کہتے ہیں کہ اس کے ستون کھجور کی لکڑیوں کے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (اپنے زمانہ خلافت میں) اس میں اضافہ کیا مگر اس کو اسی طریقہ پر بنایا جس طریقہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بنی ہوئی تھی یعنی کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے۔ مجاہد کا بیان ہے کہ اس کے ستون لکڑی کے بنائے البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے (دور خلافت میں) اس کو بدل ڈالا اور اس میں غیر معمولی اضافہ کیا یعنی اس کی دیواریں چونے اور منقش پتھروں سے بنوائی اور اس کے ستونوں میں نقش و نگار والے پتھر لگوائے اور چھت ساگوان کی ڈلوائی ابو داؤد کہتے ہیں کہ قصَّہ چونے کو کہتے ہیں۔

 

محمد بن حاتم، عبید اللہ بن موسی، شیبان، فراس، عطیہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کے ستون کھجور کے تنوں کے تھے جن پر کھجور کی شاخیں سایہ کئے ہوئے تھیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ گل گئیں تو انہوں نے کھجور کے نئے تنے لگوائے اور (چھت پر) کھجور کی نئی شاخیں ڈلوائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب وہ بھی گل گئیں تو انہوں نے مسجد کو پکی اینٹوں سے تعمیر کرایا جو اب تک قائم ہے (یعنی روایت حدیث کے وقت تک)۔

 

مسدد، عبد الوارث، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مکہ سے ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک محلہ میں اترے جو مدینہ میں بلندی پر واقع تھا اور وہاں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے لوگ رہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں میں چودہ راتیں بسر کیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنو نجار کو بلایا تو وہ آئے اس شان سے کہ ان کے کاندھوں سے تلواریں لٹک رہی تھیں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (وہ منظر مجھے اس طرح یاد ہے) گویا میں اب بھی (اپنی آنکوں سے) دیکھ رہا ہوں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اونٹ پر سوار ہیں اور ان کے پیچھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارد گرد بنو نجار کے لوگ حلقہ ڈالے چل رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ صحن میں اترے (اس وقت صورت یہ تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوتا وہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرما لیتے اور بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم فرمایا اور بنی نجار کے پاس قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور کہا کہ تم اپنے باغ کی قیمت لے لو انہوں نے جواب دیا بخدا ہم قیمت نہ لیں گے مگر اللہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تم کو بتائے دیتا ہوں کہ (اس وقت) اس باغ میں کیا کیا چیزیں تھیں اس میں مشرکین کی قبریں تھیں گڑھے تھے اور چند کھجور کے درخت تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں گڑھے برابر کر دئے گئے اور درخت کاٹ ڈالے گئے اور ان کی لکڑیاں مسجد کے سامنے لگا دی گئیں اس دروازوں کے چوکھٹے پتھر سے بنائے گئے صحابہ کرام پتھر ڈھوتے جاتے تھے اور یہ پکڑتے جاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ان کے ساتھ کام میں شریک تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار و مہاجرین کی مدد فرما۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد بن سلمہ، ابو تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں) مسجد نبوی کی جگہ بنو نجار کا ایک باغ تھا جس میں ایک کھیت تھا چند کھجور کے درخت تھے اور مشرکین کی قبریں تھیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے ان کی قیمت لے لو انہوں نے کہا کہ ہم قیمت کے طلب گار نہیں ہیں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ویسے ہی لے لیجئے) پس اس کے درخت کاٹ دئیے گئے کھیت برابر کر دیا گیا اور مشرکین کی قبر منہدم کر دی گئیں آگے پوری حدیث بیان کی مگر اس میں دعا کے کلمات میں بجائے مدد کرنے کے بخش دینے کا ذکر ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یوں دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ انصارو مہاجرین کی بخشش فرما) موسیٰ کہتے ہیں عبد الوارث نے بھی ہم سے اسی طرح حدیث بیان کی ہے اس میں خَرِبَ ہے اور عبد الوارث نے کہا یہ حدیث انہوں نے حماد کو سکھائی ہے۔

 

                   گھروں میں مسجد بنانے کا بیان

 

محمد بن علاء، حسین بن علی، زائدہ، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکانات میں مسجد بنانے ان کو پاک صاف رکھنے اور معطر رکھنے کا حکم فرمایا۔

 

محمد بن داؤد بن سفیان، یحییٰ، ابن حسان، سلیمان بن موسی، جعفر، بن سعد بن سمرہ، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں گھروں میں مسجدیں بنانے ان کو درست رکھنے اور پاک صاف رکھنے کا حکم فرماتے ہیں

 

                   مسجد میں چراغ جلانے کا بیان

 

نفیلی، مسکین، سعید بن عبد العزیز، زیاد، بن ابی سودہ، خادمہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت المقدس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو (اور یہ اس زمانہ کا ذکر ہے کے جب) ان علاقوں میں جنگ ہو رہی تھی (اس بنا پر وہاں جانا دشوار تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہاں نہ جا سکو اور نماز نہ پڑھ سکو تو اس کی قندیلوں اور چراغوں کو روشن رکھنے کے لئے تیل ہی بھیج دو۔

 

                   مسجد کی کنکریوں کا بیان

 

سہل بن تمام بن بزیع، عمر بن سلیم ابو ولید، ابن عمر، حضرت ابو ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی کنکریوں کے متعلق دریافت کیا جو مسجد میں (بچھی ہوئی) تھیں انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک رات بارش ہوئی تو (مسجد کی) زمین گیلی ہو گئی پس ایک شخص اپنے کپڑے میں کنکریاں بھر کر لاتا اور اپنے نیچے بچھا لیتا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا) تو فرمایا اس نے اچھا کام کیا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، وکیع، اعمش، حضرت ابو صالح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی کنکریوں کو مسجد سے نکالتا ہے تو وہ کنکریاں اس کو قسم دیتی ہیں کہ (خدارا ہم کو یہاں سے نہ نکالو۔

 

محمد بن اسحاق ، ابو بکر، ابو بدر، حصین، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بدر کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے انہوں نے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرفوعاً بیان کیا ہے کنکریاں قسم دیتی ہیں اس شخص کو جو ان کو مسجد سے نکالتا ہے۔

 

                   مسجد میں جھاڑو دینے کا بیان

 

عبدالوہاب بن عبد الحکم، عبد المجید، بن عبد العزیز، بن ابی رواد، ابن جریج، مطلب، بن عبد اللہ بن حنطب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے کاموں کے ثواب میرے سامنے پیش کئے گئے یہاں تک کہ کسی شخص کا مسجد سے کوڑا کرکٹ نکالنے کا ثواب بھی اور اسی طرح میری امت کے گناہ بھی میرے سامنے پیش کئے گئے تو ان گناہوں میں سے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہ تھا کہ کوئی شخص قرآن کی صورت یا آیت پڑھ کر بھلا دے۔

 

                   مسجد میں عورتوں کا مردوں سے الگ رہنا

 

عبد اللہ بن عمرو ابو معمر، عبد الوارث، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم اس دروازہ کو عورتوں کے لئے چھوڑ دیں تو بہتر ہے حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہے کہ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہ مرتے دم تک اس دروازہ سے مسجد میں نہ گئے عبد الوارث کے علاوہ دیگر راویوں کا بیان ہے کہ (یہ ابن عمر سے نہیں بلکہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور یہی صحیح ہے۔

 

إمحمد بن قدامہ، بن اعین، اسماعیل ایوب، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا پہلی حدیث کی طرح اور یہی صحیح ہے۔

 

قتیبہ، ابن سعید، بکر، ابن مضرہ، عمرو بن حارث، بکیر، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (مردوں کو) النساء سے ہو کر (مسجد میں) جانے سے منع فرماتے تھے۔

 

                   مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا

 

محمد بن عثمان، عبد العزیز، ربیعہ، بن ابی عبد الرحمن، عبد الملک بن سعید بن سوید، ابو حمید یا ابو اسید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام بھیجے پھر یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ افتَح لِی اَبوَاَب رَحمَتِک (اے اللہ میرے لئے رحمت کے دروازے کھول دے) اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰہمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ مَن فَضلِکَ (اے اللہ میں تیرا فضل طلب کرتا ہوں)

 

اسمعیل بن بشر، بن منصور، عبد الرحمن بن مہدی، عبد اللہ بن مبارک، حیوۃ بن شریح سے روایت ہے کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے آپ سے کسی نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے تھے کہ مردود شیطان سے میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں جو بزرگ و برتر ہے اس کی ذات کتیم ہے اور اس کی قدرت قدیم ہے عقبہ نے کہا بس اتنا ہی میں نے کہا ہاں عقبہ نے کہا جب کوئی یہ کلمات کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اب یہ میرے شر سے تمام دن کے لئے محفوظ ہو گیا۔

 

                   مسجد میں داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے کا بیان

 

قعنبی، مالک، عامر بن عبد اللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں جائے تو وہاں بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھ لے۔

 

مسدد، عبد الواحد بن زیاد، ابو عمیس، عتبہ بن عبد اللہ، عامر بن عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایسی ہی ایک اور حدیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے اس میں اضافہ ہے جب وہ دو رکعت پڑھ چکے تو چاہیے کہ اس بعد وہیں بیٹھا رہے چاہے تو اپنے کام سے چلا جائے

 

                   مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت

 

قعنبی، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص نماز پڑھنے کی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس کی بخشش فرمائے اے اللہ اس پر رحم فرما اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو یا وہاں سے اٹھ کر چلا نہ جائے

 

قعنبی، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے وہ شخص نماز ہی کی حالت میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے جب تک نماز کا خیال اس کو اپنے اہل عیال میں جانے سے روکے رہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندہ نماز ہی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نماز کی جگہ بیٹھا ہوا نماز کے انتظار میں رہتا ہے اور فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اس کی بخشش فرما اے اللہ اس پر رحم فرما یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے اور لوٹ جائے یا اس کو حدث ہو جائے۔ لوگوں نے پوچھا حدث سے کیا مراد ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے جواب دیا کہ ریح خارج ہو۔

 

ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، عثمان بن ابی عاتکہ، عمیر بن ہانی، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص جس نیت سے مسجد میں آئے گا اسی کے مطابق اس کو بدلہ ملے گا۔

 

                   مسجد میں گم شدہ چیز ڈھونڈنے کے لیے اعلان نہ کرے

 

عبید اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، حیوہ ابن شریح، ابو اسود، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی کو گم شدہ چیز بآواز بلند ڈھونڈتا ہوا پائے تو کہے خدا کرے تیری چیز کبھی نہ ملے کیونکہ مسجدیں اس واسطے نہیں بنی ہیں۔

 

                   مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، شعبہ، ابان، قتادہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مسجد میں تھوکنا غلط ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو چھپا دے۔

 

مسدد، ابو عوانہ، قتادہ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس کو دبا دینا ہے

 

ابو کامل، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ناک یا منہ سے بلغم نکال کر مسجد میں ڈالنا گناہ ہے پھر سابقہ حدیث کی طرح بیان کیا۔

 

قعنبی، ابو مودود، عبد الرحمن بن ابی حدرد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص مسجد میں جائے اور اس میں تھوکے یا حلق سے بلغم نکال کر ڈالے تو اس کو چاہیے کہ مٹی کھود کر اس کو دبا دے اگر ایسا نہ کرے تو پھر اپنے کپڑے میں تھوکے۔ پھر اس کو لے کر (مسجد سے) نکلے۔

 

ہناد بن سری، ابو احوص، منصور، ربعی، طارق بن عبد اللہ محاربی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہو یا نماز پڑھے تو اپنے آگے اور داہنی سمت نہ تھوکے بلکہ بائیں طرف تھوکے بشرطیکہ جگہ ہو یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے اور پھر اس کو مسل دے۔

 

سلیمان بن داؤد، حماد ایوب، نافع، ابن عمر، یسار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ قبلہ کی دیوار پر لگے بلغم پر پڑی آپ لوگوں پر ناراض ہوئے پھر اس کو کھرچ ڈالا۔ اور نافع کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن عمر نے یہ بھی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زعفران منگوا کر اس پر مل دیا اور فرمایا۔ اللہ تمھارے چہروں کے سامنے ہوتا ہے پس جب تم سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے۔

 

یحیٰ بن حبیب، بن عربی، خالد ابن حارث، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کی شاخوں پسند فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک کھجور کی شاخ رہتی تھی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے تو قبلہ کی سمت بلغم لگا دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کھرچ ڈا لا پھر غصے کے عالم میں لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ پر تھوکنا پسند کرے گا؟ کیونکہ جب وہ قبلہ کی طرف رخ کرتا ہے تو وہ اپنے بزرگ و برتر رب کی طرف رخ کرتا ہے اور اس کی داہنی طرف فرشتے ہوتے ہیں لہذا نہ تو وہ اپنی داہنی طرف تھوکے اور نہ قبلہ کی طرف بلکہ اگر اس کو جلدی ہو تو بائیں طرف تھوکے یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے اور پاؤں سے مسل دے اور ابن عجلان نے بھی اس کو یوں بیان کیا ہے کہ اپنے کپڑوں میں تھوک کر اس کو الٹ پلٹ کرے۔

 

یحیٰ بن فضل، ہشام بن عمار، سلیمان بن عبد الرحمن، حضرت عبادہ بن ولید سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبد اللہ کے پاس آئے۔ وہ اپنی مسجد میں تھے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ابن طالب نامی کھجور کی ایک شاخ تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم لگا ہوا دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر گئے اور اس کو کھجور کی شاخ سے کھرچ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ بات پسند کرے گا کہ اللہ تعالی اس کی طرف سے منہ پھیر لے۔ پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے اس لیے سامنے کی طرف نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف تھوکے بلکہ بائیں جانب بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے اگر جلدی ہو تو اپنے کپڑے میں لے کر یوں مسل دے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کپڑے کو منہ پر رکھا اور اس کو مل دیا۔ اس کے بعد فرمایا۔ عبیر لاؤ قبلہ کا ایک جوان اٹھا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے کر آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ خوشبو اس سے لے کر کھجور کی لکڑی کے سرے پر لگائی اور جہاں بلغم لگا تھا وہاں مل دیا۔ جابر کہتے ہیں کہ اسی بنا پر تم اپنی مسجدوں میں خوشبو لگایا کرتے ہو۔

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، عمرو، بکر بن اسودہ، صالح بن خیوان، ابو سہلہ سائب بن خلاد، احمد، ابو سہلہ سائب بن خلاد (احمد کہتے ہیں کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک قوم کی امامت کی اس نے قبلہ کی طرف تھوکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی طرف دیکھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آئندہ سے وہ امامت نہ کرے۔ اس کے بعد اس نے پھر امامت کا ارادہ کیا تو لوگوں نے منع کر دیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول سے مطلع کیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں میں نے منع کیا ہے) ابو سہلہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سعید، ابو علاء، مطرف اپنے والد کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے۔ پس آپ نے اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکا

 

مسدد، یزید بن زریع، سعید، ابو علاء اپنے والد سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اپنے جوتے سے رگڑ ڈالا۔

 

قتیبہ بن سعید، فرج بن فضالہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ میں نے دمشق کی جامع مسجد میں واثلہ بن اسقع کو دیکھا کہ انھوں نے بوریے پر تھوک دیا۔ پھر اس کو اپنے پاؤں سے مسل ڈالا۔ لوگوں نے کہا تم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا۔ کیوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

 

                   مشرک مسجد میں داخل ہو سکتا ہے

 

عیسی بن حماد، لیث، سعید، شریک، بن عبد اللہ بن ابی نمر، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اپنا اونٹ مسجد (کے صحن) میں بٹھا یا۔ اور اس کو باندھ دیا۔ اس کے بعد پوچھا۔ تم میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون ہیں؟ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (اصحاب کے درمیان سہار لگائے ہوئے بیٹھے تھے ہم نے اس شخص سے کہا کہ جو سفید رنگ ہیں اور ٹیک لگائے ہوئے ہیں (وہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں) پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخاطب ہوا کہا اے عبد المطلب کے بیٹے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا میں سن چکا ہوں (تو کہہ کیا کہنا چاہتا ہے) پھر وہ شخص بولا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تم سے پوچھتا ہوں اس کے بعد راوی نے کہا آخر تک حدیث بیان کی۔

 

محمد بن عمرو، سلیمہ محمد بن اسحاق ، سلمہ بن کہیل، محمد بن ولید، کریب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ بنی سعد نے ضمام بن ثعلبہ کو اپنا قاصد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا وہ آئے، انھوں نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھایا پھر اس کو باندھا اور مسجد میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد سابقہ حدیث کا مضمون ذکر کیا راوی حدیث کہتے ہیں کہ انھوں نے (مسجد آ کر) پوچھا تم میں عبد المطلب کے بیٹے کون ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں ہوں عبد المطلب کا بیٹا۔ انھوں نے کہا کہ اے عبد المطلب کے بیٹے راوی نے حدیث آخر تک بیان کی۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، عبد الرزاق، معمر، زہری، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے درمیان مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابو القاسم (اور یہ کہہ کر) اپنوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جنھوں نے زنا کیا تھا۔

 

                   وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، مجاہد، عبید بن عمیر، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لیے روئے زمین کو پاک کرنے والا اور نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔

 

یمان بن داؤد، ابن وہب، ابن لیعہ، یحیٰ ابن، ازہر، عمار بن سعد، حضرت ابو صالح غفاری سے روایت ہے کہ حضرت علی شہرل کے قریب سے گزرے اور آپ جا رہے تھے اتنے میں مؤذن عصر کی اذان دینے کے لیے آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سر زمین سے نکل گئے تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موذن کو حکم دیا اس نے تکبیر کہی۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو منع فرمایا ہے قبرستان میں نماز سے اور منع فرمایا سرزمین بابل میں نماز پڑھنے سے کیونکہ کہ وہ لعنت کی گئی ہے۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یحیٰ بن ازہر، ابن لہیعہ، حجاج بن شداد، ابو صالح، حضرت علی سے اسی طرح روایت کرتے ہیں مگر اس میں لفظ برز کے بجائے خرج ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، مسدد، عبد الواحد، حماد، مسدد، عمرو بن یحییٰ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اور موسیٰ نے اپنی حدیث میں کہا۔ عمرو کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پوری زمین نماز کی جگہ ہے سوائے حمام اور مقبرہ کے۔

 

                   اونٹوں کے رہنے کی جگہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، عبد اللہ بن عبد اللہ عبد الرحمن بن ابی لیلی، حضرت بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اونٹوں کے رہنے کی جگہ پر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اونٹوں کے رہنے کی جگہ پر نماز مت پڑھو کیونکہ وہ شریر اور سرکش ہوتے ہیں پھر بکریوں کے رہنے کی جگہ کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا وہاں نماز پڑھ سکتے ہو کیونکہ وہ برکت کی جگہ ہے۔

 

                   لڑ کے کو نماز پڑھنے کا کب حکم کیا جائے

 

محمد بن عیسیٰ ابن طباع، ابراہیم بن سعد، عبد الملک، بن ربیع بن سبرہ، سبرہ بن معبد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب لڑکا سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز پڑھنے کی تاکید کرو اور جب دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو مارو۔

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، سواد، ابو حمزہ، ابو داؤد، سوار، بن داؤد ابو حمزہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں اور جب دس برس ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو۔ اور ان کے بستر بھی الگ کر دو۔ بستر الگ کرنے کا حکم نماز نہ پڑھنے پر سزا کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل حکم ہے

 

زہیر بن حرب، وکیع، داؤد، بن سوار، ابو حمزہ، عمرو بن شعیب، داؤد بن سوار مزنی اسی سند و معنی کے ساتھ روایت کرتے ہیں اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی باندی کا نکاح کسی غلام یا اجیر سے کر دے تو پھر اس کی ناف کے نیچے اور گھٹنے سے اوپر تک کے حصہ پر نگاہ نہ ڈالے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ وکیع کو داؤد بن مسوار کے نام میں مغالطہ ہو گیا ہے (صحیح سوار بن داؤد ہے) اور ابو داؤد طیالسی نے یہ حدیث اس سے روایت کی ہے تو اس نے کہا ابو حمزہ سوار صیرفی۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، ہشام بن سعد، معاذ بن عبد اللہ بن خبیب، حضرت ہشام بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم معاذ بن عبد اللہ بن خبیب جہنی کے پاس گئے انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ لڑکے کو کب نماز پڑھنی چاہیئے؟ تو وہ بولے ہم میں سے ایک شخص بیان کرتا تھا کہ یہی سوال رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ جب بچہ اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنے لگے تو اس کو نماز پڑھنے کا حکم دو۔

 

                   اذان کی ابتداء

 

عباد بن موسی، زیاد بن ایوب، عباد، ہشیم ابو بشر، حضرت ابو عمیر بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کا اہتمام کیا یعنی اس بات کا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے اس نے کہا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا بلند کر دیا جائے جو اس کو دیکھے گا وہ دوسرے کو خبر کر دے گا لیکن یہ تجویز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پسند نہ آئی کسی نے کہا کہ ایک نرسنگھا بنوا لیجئے جیسے یہودیوں کے یہاں ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بھی پسند نہ کیا اور فرمایا یہ تو یہودیوں کا طریقہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ناقوس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ نصاریٰ کا طریقہ ہے (اس غور و فکر میں مجلس ختم ہو گئی) اور عبد اللہ بن زید گھر واپس ہو گئے لیکن وہ بھی اس فکر میں رہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے پس خواب میں ان کو اذان سنادی گئی راوی کہتے ہیں کہ اگلے دن صبح کو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے خواب سے باخبر کیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں خواب اور بیداری کی سی حالت میں تھا ایک شخص آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی راوی کہتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اس سے پہلے اذان کو خواب میں دیکھ چکے تھے پھر بیس دن تک وہ چھپائے رہے اور (عبد اللہ بن زید کے بعد) اپنا خواب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تمہیں خواب بیان کرنے سے کس چیز نے روک رکھا تھا انہوں نے جواب دیا کہ عبد اللہ بن زید نے مجھ سے پہلے خواب بیان کر دیا اس لیے اس کے بعد بیان کرنے میں مجھے شرم محسوس ہوئی تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال رضی اللہ عنہ اٹھو اور جس طرح عبد اللہ بن زید بتاتے جائیں تم اس طرح کرتے جاؤ پس حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ابو بشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو عمیر نے نے بیان کیا کہ انصار کا خیال یہ تھا کہ اگر اس دن عبد اللہ بن زید بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں کو مؤذن مقرر فرماتے۔

 

                   اذان کا طریقہ

 

محمد بن منصور، یعقوب، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم بن حارث، محمد بن عبد اللہ بن زید، بن عبد ربہ، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے لیے جمع کرنے کی خاطر ناقوس بنانے کا حکم دیا تو میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا میں نے اس سے پوچھا اے بندہ خدا تو اسے بیچے گا؟ اس نے کہا تو اس کا کیا کرے گا؟ میں نے کہا ہم اس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے لیے بلایا کریں گے اس نے کہا تو کیا میں تم کو وہ طریقہ نہ بتا دوں جو اس سے بہتر ہے میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا کہو اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پھر وہ شخص پیچھے ہٹ گیا مگر دور نہیں گیا اور کہا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو یہ کہے اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ قَد قَامَتِ الصلوٰۃ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ پس جب صبح ہوئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو خواب میں نے دیکھا تھا بیان کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلا شبہ یہ خواب سچا ہے انشاء اللہ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو تم نے خواب میں دیکھا اور سنا ہے وہ بتاتے جاؤ بلال اذان دیں گے کیونکہ ان کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے پس میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں ان کو بتاتا جاتا تھا اور وہ اذان دیتے جاتے تھے راوی کا بیان ہے کہ جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یہ اذان سنی تو وہ اپنے گھر میں تھے وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گھر سے باہر نکلے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنا کر مبعوث فرمایا ہے میں نے بھی خواب میں ایسا ہی دیکھا ہے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شکر اللہ ہی کے لیے ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ایسی ہی روایت زہری کی بواسطہ سعید بن المسیب عبد اللہ بن زید سے ہے اور اس میں ابن اسحاق نے زہری کے حوالہ سے نقل کیا اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اور معمر و یونس نے زہری کے حوالہ سے نقل کیا اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اور اس کو نہیں دہرایا۔

 

مسدد، حارث بن عبید، محمد بن عبد الملک بن ابی محذورہ، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سر پر آگے کی جانب ہاتھ پھیرا اور فرمایا پہلے بآواز بلند اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر پھر آہستہ سے دو مرتبہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اور دو مرتبہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اور پھر بلند آواز سے دونوں کلمے دہراؤ اور حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃ دو مرتبہ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ دو مرتبہ کہو اور اگر صبح کی اذان ہو تو دو مرتبہ الصَّلوٰۃُ خَیرُ مِّنَ النَّوم کہو پھر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔

 

حسن بن علی، ابو عاصم عبد الرزاق، ابن جریج، عثمان بن سائب، ام عبد الملک بن ابی محذورہ، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے یہی روایت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک دوسری سند سے مروی ہے اس میں ہے الصَّلوٰۃُ خَیرُ مِّنَ النَّوم (دو مرتبہ) صبح کی پہلی اذان میں ہے (یعنی یہ الفاظ اقامت میں نہیں بلکہ اذان ہی میں کہے جائیں گے) ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسدد کی روایت زیادہ واضح ہے اس میں ابو محذورہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر دو مرتبہ کہنا سکھایا اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ دو مرتبہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ دو مرتبہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃ دو مرتبہ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ دو مرتبہ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبد الرزاق نے کہا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہے تو تمام کلمات کو دو دو مرتبہ پڑھ اور دو مرتبہ قد قامت الصلوٰۃ کہہ کیا تو نے اچھی طرح سن لیا؟ (ساحب کہتے ہیں) کہ ابو محذورہ اپنے پیشانی کے بال نہ کترواتے تھے اور نہ مانگ کرتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی جگہ ہاتھ پھیرا تھا۔

 

حسن بن علی، عفان، سعید، بن عامر، حجاج، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اذان میں بیس کلمے سکھائے اور اقامت کے سترہ اذان کے کلمات یوں تھے اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَراَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کلمات اقامت اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ قَد قَامَتِ الصلوٰۃ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اسی طرح ان کی کتاب میں حدیث ابو محذورہ کے ذیل میں موجود ہے۔

 

محمد بن بشار، ابو عاصم، ابن جریج، ابن عبد الملک بن ابی محذورہ، عبد العزیز، ابن محریز، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ بذات خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اذان سکھائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہہ اَللہ اَکبَر (چار مرتبہ) اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ (دو مرتبہ) اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ (دو مرتبہ) ان کلمات کو دوبارہ بلند آواز سے پھر دہیرا (یعنی شہادتین چار مرتبہ) حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ (دو مرتبہ) حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ (دو مرتبہ) اَللہ اَکبَر (دو مرتبہ) لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ (ایک مرتبہ)۔

 

نفیلی، ابراہیم بن اسماعیل بن عبد الملک بن ابی محذورہ، عبد الملک ابی محذورہ، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک ایک حرف کر کے اذان سکھائی ہے یعنی اَللہ اَکبَر (چار مرتبہ) اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ (دو مرتبہ) اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ (دو مرتبہ) اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ (دو مرتبہ) اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ (دو مرتبہ) حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ (دو مرتبہ) حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ (دو مرتبہ) اور فجر میں الصَّلوٰۃُ خَیرُ مِّنَ النَّوم (دو دو مرتبہ) کہتے تھے۔ ان تمام روایت میں شہادتیں چار مرتبہ مذکور ہے یہ شوافع کا مستدل ہے ان کے یہاں ترجیع افضل ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ شہادتیں پہلے آہستہ اور پھر بلند آواز سے ادا کیے جائیں احناف کے نزدیک عبد اللہ بن زید کی حدیث پر مسئلہ کا مدار ہے جس میں ترجیع نہیں ہے اختلاف افضلیت میں ہے جواز میں نہیں اور ابو محذورہ کی روایت میں جو ترجیع کا ذکر ہے وہ ان کے ساتھ مخصوص ہے۔

 

محمد بن داؤد، زیاد بن یونس، نافع، بن عمر، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اذان سکھائی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر۔ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پھر حدیث ابن جریح عن عبد العزیز بن عبد المالک کے مثل اذان ذکر کی ابو داؤد کہتے ہیں کہ مالک بن دینار کی حدیث میں یہ ہے کہ میں نے ابو مجاذہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سے کہا کہ تم مجھے اپنے والد کی اذان سناؤ انہوں نے اذان سنائی اور کہا اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر۔۔۔ جعفر بن سلیمان کی روایت میں عن ابن ابی محذرہ عن عمہ عن جدہ بھی اسی طرح ہے مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر ترجیح کرو پس اپنی آواز بلند کرو اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر میں۔

 

عمرو بن مرزوق، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نماز ایک جماعت کے ساتھ مل کر ہوا کرے اور میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ لوگوں کو گھروں پر بھیج دیا کروں جو یہ پکار آیا کریں کہ نماز کا وقت آ گیا ہے اور ارادہ کیا اس بات کو کچھ لوگ ٹیلوں پر چڑھ کر نماز کے وقت کا اعلان کر دیا کریں یہاں تک کہ لوگ ناقوس بجانے لگے یا بجانے کے قریب ہو گئے اتنے میں ایک انصاری شخص آ کر بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جب سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گیا مجھے اسی کا خیال رہا جس کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہتمام کر رہے تھے تو میں نے ایک شخص کو دیکھا گویا وہ سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ہے اس نے مسجد میں کھڑے ہو کر اذان کہی پھر وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھا اور جو کلمے اس نے اذان میں کہے تھے وہی پھر دہرائے البتہ اس میں لفط قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کا اضافہ کیا گیا اگر لوگ مجھے جھوٹا نہ کہیں تو میں یہ کہ سکتا ہوں کہ میں جاگ رہا تھا سویا ہوا نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حق تعالی نے تجھے بہتر خواب دکھایا ہے (یہ جملہ ابن المثنیٰ کا ہے عمرو بن مرزق نے اس کو ذکر نہیں کیا) پس تو بلال سے کہ وہ اذان دے اتنے میں حضرت عمر نے کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے لیکن چونکہ وہ مجھ سے پہلے بیان کر چکے تھے اس لیئے میں نے بیان کرنے میں شرم محسوس کی۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا کہ جب کوئی شخص مسجد میں آتا (اور دیکھتا کہ جماعت ہو رہی ہے) تو پوچھتا کہ کتنی رکعتیں ہو گئیں ہیں؟ سو جتنی رکعتیں ہو چکی ہوتیں اس کو بتا دیا جاتا اور وہ اس قدر نماز میں آ کر شریک ہو جاتا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے لوگ مختلف حالتوں میں ہوتے تھے کوئی کھڑا ہے کوئی رکوع میں ہے کوئی قعدہ میں ہے تو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھ رہا ہے ابن المثنیٰ کہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ نے کہا کہ یہ مجھ سے حصین نے بواسطہ ابن ابی لیلیٰ بیان کیا ہے یہاں تک کہ معاذ آ گئے شعبہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے حصین سے براہ راست بھی سنا ہے یعنی فقال اراہ سے (کَذَالِکَ فَافعَلُوا تک) ابو داؤد کہتے ہیں کہ پھر میں عمرو بن مرزق کی حدیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاذ آئے اور ان کو اشارہ سے بتایا گیا کہ (اتنی رکعتیں ہو چکی ہیں) شعبہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے حصین سے سنا ہے حضرت معاذ نے کہا کہ میں تو جس حال میں آپ کو دیکھوں گا وہی کروں گا (یعنی آتے ہی نماز میں شریک ہو جاؤں گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا معاذ نے تمھارے واسطے ایک سنت جاری کر دی ہے لہذا تم بھی اسی طرح کیا کرو ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں تشریف لائے تو لوگوں کو (ہر ماہ) تین دن روزے رکھنے کا حکم فرمایا اس کے بعد رمضان شریف کے روزے فرض ہو گئے ان لوگوں کو روزہ کی عادت نہ تھی اس لے روزہ ان پر بہت شاق گزرتا تھا تو جو شخص روزہ نہ رکھ پاتا وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم میں سے جو شخص رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے پس رخصت ختم ہو گئی مگر مسافر اور مریض کے لئے باقی رہی باقی سب لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہوا ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء اسلام میں اگر کوئی شخص روزہ افطار کر کے سو جاتا اور کھانا نہ کھاتا تو پھر دوسرے روزے کے افطار تک اس کو کھانا جائز نہ رہتا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے صحبت کرنا چاہی وہ بولی میں سو گئی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ بہانہ کر رہی ہے اس لئے ان سے صحبت کر لی ایک اور انصاری شخص نے افطار کے بعد کھانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ ذرا ٹھرو ہم کھانا گرم کر لیں اتنے میں وہ سو گیا جب صبح ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی کہ تمھارے لیے روزہ کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا حلال ہے۔

 

محمد بن مثنی، ابو داؤد، نصر بن مہاجر، یزید بن ہارون، مسعودی بن مرہ، ابن ابی لیلی، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روزے اور نماز میں تین تین تبدیلیاں ہوئی ہیں نصر نے تفصیل سے حدیث بیان کی ہے جبکہ ابن المثنیٰ نے اس میں سے کم کر کے صرف بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا تذکرہ کیا تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے تیرہ مہینوں تک نماز پڑھی پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آسمان کی طرف نظر اٹھانا دیکھتے ہیں پس ہم تبدیل کر کے قبلہ وہ کر دیتے ہیں جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند کرتے ہیں پس اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کر لیجئے لہذا اب تم جہاں بھی ہو اسی کی طرف رخ کیا کرو اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا ابن المثنیٰ کی حدیث پوری ہوئی اور نصر بن مہاجر نے خواب دیکھنے والے کا نام لیا تو کہا عبد اللہ بن زید ایک انصاری شخص تھے اس روایت میں یہ ہے کہ اس شخص نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الصَلوٰۃِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ اس کے بعد وہ شخص تھوڑی دیر ٹھیرا رہا پھر کھڑا ہوا اور ایسا ہی کہا مگر حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ کے بعد قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کہا راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ یہ بلال کو سکھا دو پس بلال نے اذان دی اور روزہ کے متعلق بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مہینہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے اور ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھا کرتے تھے تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی! اختیار کرو (اور یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں پس جب تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ روزوں کو اور دنوں میں اسی حساب سے رکھ لے اور جو لوگ طاقت رکھتے ہیں (اگر اس کے باوجود روزہ نہ رکھیں تو) وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں پس ہر شخص کو اختیار تھا چاہتا تو روزہ رکھ لیتا تھا اور نہ چاہتا تھا تو روزہ نہ رکھتا تھا بلکہ فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا تھا اور یہ اس کے لیے کافی ہوتا تھا یہ حکم ایک سال تک رہا اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا کہ رمضان کا مہینہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن پاک (لوح محفوظ سے) آسمان دنیا پر اتارا گیا اس میں لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی دلیلیں ہیں اور (حق و باطل میں) فرق کرنے والی (دلیلیں ہیں) پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے تو وہ اس مہینہ کے روزے رکھے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اتنے ہی دنوں کے حساب سے دوسرے دنوں میں ان کی قضا کر لے پس ہر اس شخص پر روزہ فرض قرار دے دیا گیا ہے جو اس مہینہ کو پائے اور مسافر کے لیے قضاء کا حکم ہوا اور ان بوڑھے مردوں اور عورتوں پر فدیہ قائم رہا جو روزہ نہ رکھ سکتے ہوں۔ اور نصر مہاجر نے آخر تک حدیث بیان کی۔

 

                   اقامت کا بیان

 

سلیمان بن حرب، عبد الرحمن بن مبارک، حماد، سماک، عطیہ، موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ایوب، ابی قلابہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان جفت جفت کہنے کا اور اقامت (تکبیر) طاق مرتبہ کہنے کا حکم ہوا تھا اور حماد ابن زید نے اپنی حدیث میں اضافہ کیا ہے سوائے قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کے۔

 

حمید بن مسعدہ، اسماعیل، بن حذائ، ابو قلابہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث مروی ہے اسماعیل نے کہا میں نے یہ حدیث ایوب کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ سوائے اقامت کے تکبیر میں تمام کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں سوائے اقامت یعنی ( قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کے)

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو جعفر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اذان دو دو مرتبہ ہوتی تھی اور تکبیر ایک ایک مرتبہ سوائے قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کے (یہ دو مرتبہ ہوتی تھی) تو جب ہم یہ تکبیر سنتے تو وضو کرتے اور نماز کے لئے جاتے شعبہ نے کہا کہ میں نے ابو جعفر سے اس حدیث کے علاوہ کوئی بھی اور حدیث نہیں سنی۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، ابو عامر، عبد الملک، بن عمرو، شعبہ، ابو جعفر سے روایت ہے کہ میں نے مسجد اکبر کے موذن ابو المثنی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے ابن عمر سے سنا اور پھر یہی حدیث بیان کی۔

 

                   ایک شخص اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے

 

عثمان بن ابی شیبہ، حماد بن خالد، محمد بن عمرو، محمد بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اذان میں چند چیزوں کا ارادہ کیا (مثلاً ناقوس وغیرہ کا) مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے کچھ نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر عبد اللہ بن زید کو خواب میں اذان کا طریقہ دکھایا گیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ آپ نے فرمایا یہ اذان بلال کو سکھا دو پس انھوں نے سکھا دی اور بلال نے اذان دی حضرت عبد اللہ بن زید نے کہا کہ چونکہ اذان کو خواب میں میں نے دیکھا تھا اس لیے میری یہ خواہش تھی کہ اذان بھی میں ہی دوں مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم تکبیر کہو۔

 

عبید اللہ بن عمر، عبد الرحمن بن مہدی، محمد بن عمرو سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ بن محمد سے سنا کہ عبد اللہ بن زید میرے دادا تھے جو اس حدیث کو بیان کرتے تھے۔ انھوں نے تکبیر کہی۔

 

                   جو اذان دے وہی اقامت بھی کہے

 

عبد اللہ بن مسلمہ، عبد اللہ بن عمر بن حاتم، عبد الرحمن بن زیاد، زید بن حارث صدائی سے روایت ہے کہ جب صبح کی اذان کا اول وقت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا پس میں نے اذان دی (اور جب اذان دے چکا تو) میں تکبیر کہنا چاہتا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرق میں فجر کی روشنی دیکھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابھی نہیں یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی (یعنی روشنی ہو گئی) پھر سواری سے اترے اور قضا حاجت کے لیے تشریف لے گئے جب آپ فارغ ہو کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آملے۔ تب آپ نے وضو کیا حضرت بلال نے تکبیر کہنی چاہی تو آپ نے فرمایا اخی ! صدائی نے اذان دی ہے اور جو اذان دے وہی تکبیر بھی کہے۔ صدائی کہتے ہیں کہ پھر میں نے تکبیر کہی۔

 

                   بلند آواز سے اذان دینے کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، موسیٰ بن ابی عفان، ابی یحییٰ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا موذن بخش دیا جاتا ہے۔ جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے اور اس کے لیے تمام تر اور خشک چیزیں گواہ بن جاتی ہیں اور نماز میں آنے والے کے لیے پچیس نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز تک کے لیے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

 

قعنبی، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز کے لیے پکارا جاتا ہے (یعنی اذان دی جاتی ہے) تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے (اور دہشت سے) اس کی ہوا خارج ہو جاتی ہے تاکہ وہ اذان نہ سن پائے اور جب اذان ہو چکی ہوتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے یہاں تک کہ تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر پلٹ آتا ہے (اور نمازی کے دل میں) ایسے ایسے خیالات ڈالتا ہے اور وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس کو پہلے کبھی یاد نہ تھیں یہاں تک کہ وہ آدمی کو اس حد تک غافل کر دیتا ہے کہ اس کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

 

                   موذن وقت کی پا بندی کرے

 

احمد بن حنبل، محمد بن فضیل، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اے اللہ۔ تو اماموں کو (علم و عمل کی) توفیق عطا فرما اور موذن کی بھول چوک معاف فرما۔

 

حسن بن علی، ابن نمیر، اعمش ایک دوسری سند سے حضرت ابو ہریرہ سے اسی طرح مروی ہے۔

 

                   مینار کے اوپر چڑھ کر اذان دینے کا بیان

 

احمد بن محمد بن ایوب، ابراہیم بن سعد، محمد بن اسحاق بن محمد، ایوب، ابراہیم، بن سعد، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر بن زبیربنی نجار کی ایک عورت سے روایت ہے کہ میرا گھر مسجد کے آس پاس کے تمام گھروں سے اونچا تھا اس لیے حضرت بلال اس پر چڑھ کر فجر کی اذان دیا کرتے تھے اور اس غرض کے لیے وہ آخر شب میں میرے گھر کی چھت پر آ کر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کا انتظار کیا کرتے تھے۔ جب وہ صبح صادق دیکھتے تو انگڑائی لے کر اٹھتے اور دعا کرتے اے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد کا طالب ہوں قریش کے معاملہ میں تاکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔ وہ عورت بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد حضرت بلال اذان دیتے اور بخدا ہم نے کبھی نہ دیکھا کہ کسی رات انھوں نے اس دعا کو چھوڑا ہو۔

 

                   موذن اذان میں گردن دائیں بائیں گھمائے

 

موسیٰ بن اسماعیل، قیس، ابن ربیع، محمد بن سلیمان، وکیع، سفیان، وکیع، سفیان، عون بن ابی جحیفہ، حضرت ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس مکہ میں آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چمڑے کے بنے ہوئے ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ پس بلال نکلے اور اذان دی۔ وہ اپنا منہ دائیں بائیں کر رہے تھے اور میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے خیمہ سے) باہر تشریف لائے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سرخ (دھاریوں والا) لباس پہنے ہوئے تھے جو ملک یمن کے علا قہ قطر کا بنا ہوا تھا۔ اور موسیٰ بن اسماعیل کی روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے دیکھا بلال ابطح کی طرف گئے اور اذان دی۔ جب حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح پر پہنچے تو انھوں نے اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی مگر پورے نہیں گھومے پھر بلال خیمہ میں گئے اور ایک نیزہ لے کر آئے اس کے بعد راوی نے آخر حدیث تک بیان کیا۔

 

                   اذان اور اقامت کے درمیان دعا کرنا

 

محمد بن کثیر، سفیان، زید، ابو ایاس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی ہوئی دعا رد نہیں کی جاتی۔

 

                   جب اذان سنو تو اس کا جواب دو

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک بن شہاب، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم اذان سنو تم بھی ویسا ہی کہو جیسا کہ مؤذن کہتا ہے۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، ابن لہیعہ، حیوہ، سعید بن ایوب، کعب بن علقمہ، عبد الرحمن بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو تم بھی ویسا ہی کہو جیسا وہ کہتا جائے اس کے بعد مجھ پر درود بھیجو اس لیے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ اپنی رحمت نازل فرمائے گا پھر میرے لیے وسیلہ طلب کرو اور وسیلہ جنت میں ایک مرتبہ کا نام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک ہی بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جو شخص میری لیے وسیلہ طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گی۔

 

ابن سرح، محمد بن سلمہ، ابن وہب، حیی، ابو عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مؤذنوں کو ہم پر فضیلت حاصل ہے (لہذا ہم کو بھی کوئی ایسا کام بتایئے جو ہماری فضیلت کا سبب ہو) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جیسا کہ مؤذن کہے اور جب تو (اذان کے جواب سے) فارغ ہو جائے تو (اللہ سے جو چاہے) مانگ تجھے دیا جائے گا۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث حکیم، بن عبد اللہ بن قیس، عامر بن سعید، ابو وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص مؤذن کی (شہادتین) سنے اور اس کے جواب میں کہے کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور راضی ہوں میں اللہ کو رب مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول مان کر اور اسلام کو دین مان کر تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

 

ابراہیم بن مہدی، علی بن مسہر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مؤذن کو شہادتین کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے میں بھی اس پر گواہ ہوں۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جہضم، اسماعیل بن جعفر، عمارہ بن غزیہ حبیب بن عبد الرحمن بن اساف، حفص بن عاصم بن عمر، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مؤذن کہے اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر تو سننے والا بھی اس کے جواب میں کہے ،اَللہ اَکبَر ، اَللہ اَکبَر، اور جب وہ کہے اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ، تو وہ بھی اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ، کہے جب وہ کہے اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ، تو سننے والا بھی کہے اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ، جب وہ حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ کہے تو یہ کہے لَاحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا اللہ، اور جب وہ حَیَّ عَلَی الفَلَاح کہے تو یہ پھر لَاحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا اللہ کہے اور جب وہ اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر کہے تو یہ بھی کہے اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اور جب وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہے تو یہ بھی کہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ (اور یہ اذان کا جواب) حضور قلب سے ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔

 

                   جب اقامت سنے تو کیا کہے؟

 

سلیمان بن داؤد، محمد بن ثابت، ابو امامہ یا (یہاں راوی کو شک ہوا ہے) اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے کسی سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنی شروع کی جب انہوں نے قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اَقَامَہا اللہُ وَاَدَامَہا (یعنی اللہ تعالی نماز کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے) اور تکبیر کے باقی کلمات میں اس طرح جواب دیا جیسا کہ ابھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اذان کے متعلق گزرا ہے۔

 

                   اذان کے بعد کی دعا

 

احمد بن محمد بن حنبل، علی بن عیاش، شعیب بن ابی حمزہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَعوَۃِ التَّامَّۃ الخ یعنی اے اللہ اس دعوت تامہ کے رب اور قائم و دائم نماز کے مالک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مقام وسیلہ اور فضیلت عطاء فرما اور مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وعدہ فرمایا ہے تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت ہو گی۔

 

                   مغرب کی اذان کے وقت کی دعا

 

مومل بن اہاب، عبد اللہ بن ولید، قاسم بن معن، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو سکھایا کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھا کروں اے اللہ یہ وقت ہے تیرے دن کے جانے کا اور تیری رات کے آنے کا اور وقت ہے تیری طرف بلانے والی آوازوں کا (یعنی اذانوں کا) پس تو میری مغفرت فرما دے۔

 

                   اذان پر اجرت لینے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سعید، ابو علاء، مطرف بن عبد اللہ، حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ٹھیک ہے) تم ان کے امام ہو لیکن کمزور مقتدیوں کا خیال رکھنا۔ اور موذن ایسا شخص مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے۔

 

                   اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو کیا کرنا چاہیئے

 

موسیٰ بن اسماعیل، داؤد، بن شبیب، حماد، ایوب نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا کہ جاؤ آواز لگا کر کہو کہ بندہ سو گیا تھا (اس بنا پر وقت کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا اور غلط وقت پر اذان دے دی گئی) موسیٰ نے اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ لوٹے اور انہوں نے یہی آواز لگائی کہ بندہ سو گیا تھا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ایوب سے حماد بن سلمہ کے علاوہ اور کسی نے روایت نہیں کیا۔

 

ایوب بن منصور، شعیب بن حرب، عبد العزیز بن ابی راود، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے مؤذن جس کو مسروح کہا جاتا تھا اس نے صبح صادق سے قبل اذان کہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو حکم کیا پھر پہلی حدیث کی طرح ذکر کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے حماد بن زید نے بواسطہ عبید اللہ بن عمر حضرت نافع یا کسی اور سے روایت کیا ہے، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مؤذن تھا جس کا نام مسروح تھا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو دراوردی نے بروایت عبید اللہ بواسطہ نافع حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مسعود نامی مؤذن تھا پھر اسی طرح ذکر کیا اور یہ اس سے زیادہ صحیح ہے۔

 

زہیربن حرب، وکیع، جعفر بن برقان، شداد، عیاض بن عامر، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اذان مت کہا کرو جب تک تجھ کو فجر کی روشنی اس طرح معلوم نہ ہو جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرضاً ہاتھ پھیلا کر اشارہ کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ شداد نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یحیٰ بن عبد اللہ بن سالم بن عبد اللہ بن عمر، سعید بن عبد الرحمن ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔

 

                   اذان کے بعد مسجد سے جانے کا بیان

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابراہیم بن مہاجر، ابو شعثاء سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم لوگ مسجد میں تھے ایک شخص مسجد سے باہر چلا گیا جبکہ مؤذن عصر کی اذان دے چکا تھا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس نے حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی۔

 

                   مؤذن (تکبیر کہنے لیے) امام کا انتظار کرے

 

عثمان بن ابی شیبہ، شبابہ، اسرائیل، سماک، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے پھر (اذان دے کر) ٹھہر جاتے جب دیکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لا رہے ہیں تو نماز کے لیے تکبیر کہتے۔

 

                   تثویب کا بیان

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابو یحییٰ، قتات، مجاہد سے روایت ہے کہ میں (عبد اللہ) ابن عمر کے ساتھ تھا ایک شخص نے تثویب کہی راوی کو شک ہے کہ ظہر میں کی یا عصر میں حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہاں سے چل نکلو کیونکہ بدعت ہے۔

 

                   نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کر امام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں

 

مسلم بن ابراہیم موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، عبد اللہ بن ابی قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز کے لیے تکبیر ہو تو جب تک مجھے نہ دیکھ لو اس وقت تک کھڑے نہ ہو ابو داؤد کہتے ہیں کہ ایوب اور حجاج صواف نے بھی اس کو یحیٰ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ہشام دستوائی نے یوں کہا ہے کہ مجھے یحیٰ نے لکھا تھا اور اس کو معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے بھی یحیٰ سے روایت کیا ہے ان کے الفاظ یہ ہیں حَتّیٰ تَرُونِی وَعَلَیکُمَ السَّکِینَۃ۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، معمر نے بسند یحیٰ سابق سند کے ساتھ اسی کے مثل روایت کیا ہے اس میں یوں ہے کہ یہاں تک کہ تم مجھ کو دیکھ لو کہ میں (نماز کے لیے حجرہ سے) نکل چکا ہوں ابو داؤد کہتے کہ لفظ قد خرجت معمر کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا اور اس کو ابن عیینہ نے بھی معمر سے روایت کیا ہے مگر انہوں نے بھی قد خرجت روایت نہیں کیا۔

 

محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو، داؤد بن رشید، ولید، اوزاعی، زہری، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نماز کی تکبیر ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کے وقت لوگ اپنے مقام پر جم جاتے قبل اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ پر آئیں۔

 

حسین بن معاذ، عبد الاعلی، حضرت حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ثابت بنانی سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص تکبیر کے بعد گفتگو کرے تو کیا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے مجھ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور تکبیر کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روکے رہا (یعنی گفتگو کرتا رہا)۔

 

احمد بن علی بن سوید، بن منجوف، عون بن کہمس، حضرت کہمس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منیٰ میں ہم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور اس وقت تک امام (نماز کے لیے) نہیں نکلا تھا اس لیے ہم میں سے کچھ لوگ بیٹھ گئے (ان میں میں بھی شامل تھا) تو کوفہ کے ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم کیوں بیٹھ گئے میں نے کہا کہ ابن بریدہ کا بیان ہے کہ یہ (یعنی امام کے انتظار میں کھڑا رہنا) سمود ہے (اور یہ ممنوع ہے) تو ان صاحب نے مجھ سے کہا کہ عبد الرحمن بن عوسجہ نے براء بن عازب کے واسطہ سے مجھ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ہم لوگ تکبیر کہے جانے سے پہلے کافی دیر تک صفوں میں کھڑے رہا کرتے تھے عبد الرحمن بن عوسجہ کہتے ہیں کہ براء بن عازب کا بیان ہے کہ جو لوگ پہلی صف سے قریب ہوتے ہیں ان پر اللہ تعالی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک اس قدم سے بڑھ کر کوئی قدم محبوب نہیں ہے جو صف میں جانے کے لیے اٹھے۔

 

مسدد، عبد الوارث، عبد العزیز، بن صہیب، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (عشاء کی) نماز کی تکبیر ہوئی اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کے ایک گوشہ میں ایک شخص سے گفتگو فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ بیٹھے بیٹھے سو گئے۔

 

                   مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان

 

سلیمان بن حرب، حماد، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عوام بن حوشب، حبیب، بن ابی ثابت، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو، البتہ (نماز پڑھنے کے لیے) ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، ابو معاویہ، اعمش، مجاہد سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عورتوں کو رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت دو۔ (یہ سن کر) ان کے ایک بیٹے نے کہا کہ بخدا ہم تو ان کو اجازت نہ دیں گے کیونکہ اس طرح وہ ّگھر سے باہر نکلنے کا) بہانہ تراش لیں گی پس بخدا ہم ان کو اس کی اجازت نہ دیں گے مجاہد کہتے ہیں کہ (معارضہ حدیث پر) عبد اللہ بن عمر سخت ناراض ہوئے اور بیٹے کو بہت برا بھلا کہا اور فرمایا کہ میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کر رہا ہوں کہ عورتوں کو اجازت دو اور تو کہتا ہے کہ ہم اجازت نہ دیں گے۔

 

                   مسجد میں عورتوں کو نماز کے لیے نہ جانے دینے کا بیان

 

قعنبی مالک، یحیٰ بن سعید، حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتوں کا یہ حال دیکھ لیتے جواب عورتوں نے بنا رکھا ہے تو بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ یحیٰ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو (مسجد میں جانے سے) روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔

 

ابن مثنی، عمرو بن عاصم، ہمام، قتادہ، مورق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے یعنی عورت جس قدر بھی پردہ اختیار کرے گی اسی قدر بہتر ہے صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھری میں نماز پڑھنا افضل ہے۔

 

ابو معمر، عبد الوارث، نافع، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر ہم اس دروازہ کو عورتوں کے لیے چھوڑ دیں (تو مناسب ہے) حضرت نافع کا بیان ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کے بعد) ابن عمر زندگی بھر اس دروازہ سے داخل نہیں ہوئے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اسماعیل بن ابراہیم نے بواسطہ ایوب نافع سے روایت کیا ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور یہی صحیح ہے۔

 

                   نماز میں شامل ہونے کے لیے اطمینان و سکون سے جانا چاہیے دوڑنا نہیں چاہیے

 

احمد بن صالح، عنبسہ، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان سے چلتے ہوئے آؤ جس قدر نماز مل جائے اس کو (جماعت کے ساتھ) پڑھ لو اور جتنی چھوٹ جائے اس کو پورا کر لو ابو داؤد کہتے ہیں کہ زبیدی، ابن ابی ذئب، ابراہیم بن سعد، معمر اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے لفظ فاتمو روایت کیا ہے اور زہری سے صرف اب عیینہ نے فاقضوا روایت کیا ہے اور محمد بن عمرو نے بواسطہ ابو سلمہ ابو ہریرہ سے اور جعفر بن ربیعہ نے بواسطی اعرج حضرت ابو ہریرہ سے فاتموا ذکر کیا ہے نیز ابو مسعود، ابو قتادہ، اور حضرت انس، ان سب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لفظ فاتموا ہی روایت کیا ہے۔

 

ابو ولید، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ آؤ اور جتنی پاؤ اس کو پڑھ لو اور جتنی جاتی رہے اس کو بعد میں پورا کر لو ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن سیرین نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، ، وَلیَقضِ، ، روایت کیا ہے اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابو رافع نے ذکر کیا ہے اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فَاَتِمُّوا اور وَاقضُوا دونوں مروی ہیں یعنی اس لفظ میں ابو ذر کی طرف سے اختلاف واقع ہوا ہے۔

 

                   مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرنے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، سلیمان اسود، ابن متوکل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا کوئی شخص نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے؟ یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے۔؟

 

                   اگر کوئی شخص گھر پر تنہا نماز پڑھ لے اور پھر مسجد میں جا کر جماعت ملے تو پھر سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے

 

حفص بن عمر، شعبہ، یعلی بن عطاء، جابر، حضرت یزید بن اسود سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی اس وقت وہ نو جوان لڑکے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے تب وہ آدمی مسجد کے ایک کونہ میں بیٹھے رہے اور انھوں نے نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بلایا تو وہ ڈرتے ہوئے آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ بو لے ہم اپنے گھر میں پڑھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو جب تم میں سے کوئے شخص گھر میں نماز پڑھ لے اور پھر امام کے پاس آئے اس حال میں کہ امام نے نماز نہیں پڑھی ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھ لے یہ نماز اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔

 

ابن معاذ، شعبہ، یعلی، عطاء، حضرت جابر بن یزید کے والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے منی میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ باقی مضمون پہلی حدیث کی طرح ہے۔

 

قتیبہ، معن بن عیسیٰ، سعید بن سائب، نوح بن صعصعہ، حضرت یزید بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ تو آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں بیٹھ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوا (کیونکہ میں نماز پڑھ چکا تھا) راوی کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یز ید عامر کو بیٹھا ہوا دیکھا تو بلا کر اسے پوچھا کہ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ راوی کا بیان ہے کہ اس پر حضرت یزید بن عامر نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو اسلام لا چکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ پھر تم لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل کیوں نہی ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے گھر پر نماز پڑھ چکا تھا اور میرا خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم لوگوں کے پاس آؤ اور ان کو نماز پڑھتا ہوا پاؤ تو ان کے ساتھ بھی نماز میں شریک ہو جاؤ اگرچہ تم پہلے نماز پڑھ چکے ہو تو یہ نفل ہو جائے گی اور وہ فرض شمار ہو گی۔

 

احمد بن صالح، علی بن وہب، عمرو بن بکیر، حضرت عفیف بن عمرو بن مسیب رضی اللہ عنہ بنی اسد بن خزیمہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی شخص گھر پر نماز پڑھ لے پھر مسجد میں آئے اور وہاں نماز ہو رہی ہو تو ایسی صورت میں اگر میں نماز میں شریک ہو جاتا ہوں تو میرے دل میں ایک خلجان سا رہتا ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا (یہی سوال) ہم نے بھی نبی و سے کیا تھا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ اس کے لیے بھی غنیمت کا ایک حصہ ہے (یعنی نماز میں دوبارہ شریک ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ ثواب ملتا ہے)

 

                   ایک مرتبہ جماعت سے نماز پڑھنے کے بعد دوسری مرتبہ جماعت میں شرکت

 

ابو کامل، یزید بن زریع، حسین، عمرو بن شعیب، سلیمان بن یسار، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت سلیمان سے روایت ہے کہ میں بلاط میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس وقت نماز ہو رہی تھی (اور ابن عمر نماز میں شریک نہیں تھے) میں نے پوچھا کہ آپ جماعت میں کیوں شریک نہیں ہیں فرمایا میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک نماز کو دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو۔

 

                   امامت کی فضیلت

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، عبد الرحمن بن حرملہ، ابی علی، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی وقت پر امامت کرے گا تو اس کا ثواب امام کو بھی لے گا اور مقتدی بھی محروم نہ رہیں گے اور جو امام اس معاملہ میں کوتاہی کرے اس کا گناہ اس پر ہو گا اور مقتدیوں پر نہ ہو گا۔

 

                   امامت کے مسئلہ پر جھگڑنا نہیں چاہیئے

 

ہارون بن عباد، مروان، طلحہ، ام غراب، عقیلہ خرشتہ بن حرفزاری کی بہن سلامہ بنت حر سے روایت ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ نشانی یہ بھی ہے کہ اہل مسجد آپس میں لڑیں گے اور ان کو کوئی نماز پڑھانے والا نہیں ملے گا۔

 

                   امامت کا مستحق کون ہے؟

 

ابو ولید، شعبہ، اسماعیل، بن رجاء، اوس بن ضمجع، حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے وہ شخص قوم کی امامت کرے جو قرآن پاک کا اچھا اور پرانا قاری ہو اگر قرأت قرآن میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے جس نے ان میں سب سے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرے جو عمر میں سب سے بڑا ہو۔ اور کوئی شخص دوسرے کے گھر پر (اس کی ایماء و اجازت) کے بغیر امامت نہ کرے اور نہ ہی اس کی حکومت کی جگہ پر۔ اور نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اسماعیل سے پوچھا کہ عزت کی (مخصوص) جگہ سے کیا مراد ہے تو انھوں نے کہا اس کا بستر۔

 

ابن معاذ، شعبہ حدیث شعبہ سے اس طرح بھی مروی ہے کہ’’ لَا یَومَہٗ الرَّجُل الرَّجُل‘‘ یعنی کوئی شخص دوسرے کے یہاں امامت نہ کرے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یحیٰ قطان نے بھی شعبہ سے یہی روایت کیا ہے کہ قرأت میں مقدم ہو اسے آگے کیا جائے گا۔

حسن بن علی، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، حضرت ابو مسعود سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر سب لوگ قرأت میں برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے جو حدیث زیادہ جانتا ہو اور اگر اس میں بھی برابر ہوں تو وہ امامت کرے جس کی ہجرت پہلے۔ اس حدیث میں فَاَقدَمَھُم قِرَاۃ نہیں ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ایوب، حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں پر لوگ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتے جاتے ٹھہرتے تھے پس جب وہ لوگ واپس ہوتے تو بھی ان کا گزر ہمارے پاس سے ہوتا۔ لہذا وہ ہمیں بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا اور ایسا فرمایا ہے اور میں قوی حافظہ والا لڑکا تھا اس لیے میں نے (ان لوگوں سے سن سنا کر) قرآن پاک کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا ایک مرتبہ میرے والد صاحب اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نماز کی تعلیم دی اور فرمایا۔ امامت وہ شخص کرے جو قران کو زیادہ جانتا ہو اور میں قرآن کو بہت زیادہ جانتا تھا (کیونکہ میں نے پہلے ہی سے قرآن کو یاد کر رکھا تھا) لہذا ان لوگوں نے مجھے امام بنا دیا پس میں ان کی امامت کرتا تھا اور میں زرد رنگ کی ایک مختصر سی چادر اوڑھے رکھتا تھا جس کی بنا پر جب میں سجدہ کرتا تو (امیر) ستر کھل جاتا۔ یہ دیکھ کر) ایک عورت بولی اپنے قاری کا ستر ہم سے چھپاؤ تو انھوں نے مجھے عمان کا بنا ہوا ایک کرتہ خرید کر دیا اور اسلام کے بعد مجھے اس کرتہ سے زیادہ خوشی کسی چیز کی نہیں ہوتی تھی۔ پس میں ان کی امامت کرتا تھا اور اس وقت میں سات یا آٹھ سال کا لڑکا تھا۔

 

نفیلی، زہیر، عاصم، حضرت عمر بن سلمہ سے یہی حدیث (ایک دوسری سند سے) مروی ہے اس میں ہے کہ میں ایک چادر اوڑھ کر امامت کرتا تھا جس میں شگاف تھا اور جوڑ لگا ہوا تھا جب میں سجدہ میں جاتا تو میری سرین کھل جاتی۔

 

قتیبہ، وکیع، مسعر بن حبیب، حضرت عمرو  بن سلمہ بواسطہ سلمہ روایت ہے کہ ان کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہماری امامت کون کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو قرآن زیادہ یاد ہو عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ میرے برابر کسی کو قرآن یاد نہ تھا۔ انھوں نے امامت کے لیے مجھے آگے بڑھا دیا جبکہ میں بچہ تھا اور ایک تہبند باندھے ہوئے تھا۔ پھر میں قبلہ حرم کے کسی مجمع میں نہ ہوتا مگر میں ہی ان کا امام ہوتا اور آج تک میں ان کے جنازوں کی نماز پڑھتا رہا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو یذد بن ہارون نے بواسطہ مسعر بن حبیب بسند عمرو بن سلمہ روایت کیا ہے اس میں یوں ہے۔ کہ جب میری قوم کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور اس روایت میں ان کے والد کا ذکر نہیں ہے۔

 

قعنبی، انس، ابن عیاض، ہیثم بن خالد، ابن نمیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد سے قبل مہاجرین۔ عصبہ۔ میں آئے تو ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم، لوگوں کی امامت کرتے تھے اور ان کو سب سے زیادہ قرآن یاد تھا۔ ہیثم نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ان مہاجرین میں عمر بن خطاب اور ابو سلمہ بن الاسد بھی تھے۔

 

                   سلام پھیرنے کے بعد امام قبلہ سے رخ پھیر لے

 

محمد بن رافع، ابو احمد، مسعر، ثابت بن عبید، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو کوشش کرتے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے داہنی طرف ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (نماز کے بعد) ہماری طرف رخ کر کے بیٹھتے تھے۔

 

                   امام اپنے مصلے سے ہٹ کر نوافل پڑھے

 

ابو توبہ، ربیع بن نافع، عبد العزیز، بن عبد الملک، عطاء، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام اس مقام پر (نفل یا سنت) نماز نہ پڑھے جہاں وہ (فرض) نماز پڑھا چکا ہے بلکہ اس جگہ سے ہٹ کر نماز پڑھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ عطاء خراسانی نے مغیرہ بن شعبہ کو نہیں پایا (یعنی یہ حدیث منقطع ہے)

 

                   آخری رکعت کے سجدہ کے بعد حدث پیش آ جانا

 

احمد بن یونس، زہیر، عبد الرحمن بن زیاد بن انعم، عبد الرحمن بن رافع، بکر بن سواد، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام نماز (کے ارکان) مکمل کر کے (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھ جائے اور پھر اس کو گفتگو کرنے سے پہلے یعنی سلام سے پہلے حدث پیش آ جائے تو اس کی نماز پوری ہو گئی اور مقتدیوں میں سے ان مقتدیوں کی بھی نماز پوری ہو گئی جو نماز پوری کر چکے ہیں (اور جن کی نماز ابھی پوری نہیں ہوئی تھی بلکہ نماز کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا ان کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

 

                   نماز کی تحریم و تحلیل کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابن عقیل، محمد بن حنفیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کی کنجی طہارت ہے اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام ہے۔

 

                   مقتدی کو امام کی پوری پوری اطاعت کرنی چاہیے

 

مسدد، یحییٰ، ابن عجلان، محمد بن یحی، بن حبان، ابن محریز، حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رکوع و سجود میں مجھ سے آگے مت نکلو کیونکہ میں تم سے پہلے جس قدر بھی جلدی رکوع میں جاؤنگا تم اتنا پا لو گے جب میں سر اٹھاؤں گا کیونکہ میں موٹا ہو گیا ہوں۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، عبد اللہ بن یزید، حضرت براء سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو فورا کھڑے ہو جاتے اور جب دیکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جا رہے ہیں تو وہ بھی سجدہ میں چلے جاتے۔

 

زہیر بن حرب، ہارون بن معروف، حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے پس ہم میں سے کوئی پیٹھ نہ جھکاتا تھا جب کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رکوع میں نہ دیکھ لیتا۔

 

ربیع، بن نافع، ابو اسحاق ، محارب بن دثار، عبد اللہ بن یزید، حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع کرتے تو وہ بھی رکوع کرتے اور جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ دیکھ لیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیشانی مبارک (سجدہ کے لیے) زمین پر رکھ دی ہے پھر وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اتباع کرتے (یعنی سجدہ میں جاتے)۔

 

                   جو شخص امام سے پہلے سجدہ سے سر اٹھائے یا رکھے

 

حفص بن عمر، شعبہ، محمد بن زیاد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص امام سے پہلے سجدہ سے سر اٹھائے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالی اس کا سر گدھے کا سر کر دے یا اس کی شکل گدھے کی بنا دے۔

 

                   امام سے پہلے اٹھ کر چلے جانے کا بیان

 

محمد بن علاء، حفص بن بغیل، زائدہ، مختار بن فلفل، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو (جماعت سے) نماز پڑھنے کی رغبت دلائی اور منع کیا اس بات سے کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر ان سے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے) پہلے چل دیں۔

 

                   کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا کیا تم میں سے ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہوتے ہیں؟ (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا درست ہے۔)

 

مسدد، سفیان، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کچھ حصہ نہ ہو (یعنی کندھا برہنہ ہو)

 

مسدد، یحییٰ، اسماعیل، ہشام بن ابی عبد اللہ، یحیٰ بن ابی کثیر، عکرمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اس کے داہنے پلے کو بائیں کندھے پر ڈال لے اور بائیں پلے کو دائیں کندھے پر۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، یحیٰ بن سعید، ابو امامہ بن سہل، حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس طرح کے آپ نے اس کپڑے کو لپیٹ رکھا تھا۔ اس طرح کے اس کا داہنا کنارہ بائیں کندھے پر تھا اور بایاں کنارہ داہنے کندھے پر تھا۔

 

مسدد، ملازم، بن عمر، عبد اللہ بن بدر، قیس بن طلق، حضرت طلق بن علی سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے پس ایک شخص آیا اور بو لا۔ اے اللہ کے نبی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کیا خیال ہے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر اور تہبند کو ڈبل کر کے اوڑھ لیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر ہم لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک پاس دو کپڑے ہوتے ہیں؟ (یعنی ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہونا ضروری نہیں تو پھر ایک کپڑے میں نماز کیوں درست نہ ہو گی)

 

                   کپڑے کو گردن کے ارد گرد لپیٹ کر نماز پڑھنا

 

محمد بن سلیمان، وکیع، سفیان، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنی ازاریں (تہبند) اپنی گردنوں پر باندھے ہوئے تھے۔ تنگ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بچوں کی طرح، پس کسی نے کہا کہ اے عورتوں اپنے سر نہ اٹھانا جب تک کہ مرد نہ اٹھ جائیں۔

 

                   ایسے کپڑے پر نماز پڑھنا جس کا ایک حصہ کوئی دوسرا اوڑھے ہوئے ہو

 

ابو ولید، زائدہ، ابی حصین، ابو صالح، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ایسے کپڑے پر نماز پڑھی جس کا ایک حصہ میں اوڑھے ہوئے تھی۔

 

                   صرف ایک کرتہ پہن کر نماز پڑھنا

 

قعنبی، عبد العزیز، ابن محمد موسیٰ بن ابراہیم، حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک شکاری آدمی ہوں تو کیا میں ایک کرتہ میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں لیکن اس کو باندھ لو اگرچہ ایک ہی کانٹے سے (باندھو تاکہ ستر نہ کھولے)

 

محمد بن حاتم بن یزیع، یحیٰ بن ابی بکیر، اسرائیل، ابی حومل، ابو داؤد، حضرت عبد ا لرحمن سے روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے ہم کو صرف ایک کرتہ پہن کر نماز پڑھائی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن پر چادر بھی نہ تھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قمیص (کرتہ) میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔

 

                   چھوٹے کپڑے میں نماز پڑھنا

 

ہشام بن عمار، سلیمان بن عبد الرحمن یحیٰ بن فضل، حاتم، حضرت عبادہ بن سا مت سے روایت ہے ہم جابر بن عبد اللہ کے پاس آئے انھوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد میں گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا میں اس کے کناروں کو الٹنے لگا لیکن اس میں گنجائش نہ تھی پر اس میں کنارے لگے ہوئے تھے میں نے الٹ کر استعمال کیا اور جھک گیا اور گردن سے اس کو روکے رہا۔ تاکہ وہ گر نہ پڑے پھر میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ پھر ابن صخرا آئے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں طرف کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم دونوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا یہاں تک کہ ہم کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے لیکن میں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اشارہ) سمجھ نہیں پا رہا تھا پھر میں سمجھ گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے تہبند باندھنے کا اشارہ کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے جابر میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب چادر کشادہ ہو تو اشتمال (داہنا کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ داہنے کندھے پر ڈالنا) کر لیا کرو اور جب چادر تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لو۔

 

                   نماز میں اسبال (کپڑا لٹکانے) کا بیان

 

زید بن اخزم، ابو داؤد، ابو عوانہ، عاصم، ابو عثمان، حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص نماز میں اپنا تہبند (ٹخنوں سے نیچے تک) ازارہ تکبر لٹکائے اللہ اس پر نہ جنت حلال کرے گا اور نہ جہنم حرام۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو عاصم سے ایک جماعت نے حضرت ابن مسعود پر موقوف کیا ہے جن میں حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابو الاحوص اور ابو معاویہ ہیں

 

موسیٰ بن اسماعیل، یحییٰ، ابو جعفر، عطاء بن یسار، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا۔ جا کر وضو کر اس نے جا کر وضو کیا اور جب وہ وضو کر کے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا کہ جا کر وضو کر اس نے جا کر وضو کیا جب وہ آیا تو ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ۔ آپ نے وضو کرنے کا حکم کیوں دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جو تہبند لٹکا کر نماز پڑھتا ہو۔

 

                   کپڑا چھوٹا ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھنا چاہئیے

 

سلیمان بن حرب، حماد، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (یا یہ کہا کہ حضرت عمر نے فرمایا) کہ اگر تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو ان دونوں کپڑوں میں نماز پڑھے اور اگر اس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو تو اس کا تہبند بنا کر باندھ لے اور یہودیوں کی طرح نہ لٹکائے۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، سعید بن محمد، ابو تمیلہ یحیٰ بن واضح، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چادر اوڑھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اس طرح پر کہ اس کا داہنا کنا رہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ داہنے کندھے پر نہ ہو اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چادر کے بغیر محض ایک پائجامہ میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے

 

                   عورت کو کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی چاہیئے؟

 

قعنبی، مالک، محمد بن زید بن قنفذ کی والدہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا کہ عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ فرمایا۔ ہم نماز پڑھتے تھے ایک دوپٹہ اور ایک لمبا کرتہ میں جو پاؤں کے اوپر والے حصہ کو ڈھک لیتا تھا۔

 

مجاہد بن موسی، عثمان بن عمر، عبد الرحمن بن عبد اللہ ابن دینار، محمد بن زید نے اس حدیث کو حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ کیا عورت صرف ایک کرتہ اور ایک دوپٹہ میں بغیر ازار کے نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ جب کہ کرتہ پورا ہو اور اس کو پاؤں تک چھپا لے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، عن امہ ام سلمہ، روایت کیا ہے کسی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ذکر نہیں کیا بلکہ سب نے حضرت ام سلمہ پر موقوف کیا ہے

 

                   دوپٹہ کے بغیر عورت کی نماز درست نہیں

 

محمد بن مثنی، حجاج، بن منہال، حماد، قتادہ، محمد بن سیرین، صفیہ بنت حارث، حضرت عائشہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی بالغ عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو سعید بن ابی عروبہ نے بروایت قتادہ بواسطہ حسن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے۔

محمد بن عبید، حماد بن زید، ایوب، محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صفیہ ام طلحہ طلحات کے پاس گئیں ان کی لڑکیوں کو دیکھا تو کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے حجرہ میں تشریف لائے۔ میرے پاس ایک لڑکی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی لنگی مجھے دی اور کہا اسے پھاڑ کر دو ٹکڑے کر کے اس لڑکی کو دے دو اور ایک اس کو جو ام سلمہ کے پاس ہے کیونکہ میں اس کو (یا یہ فرمایا کہ ان دونوں کو) بالغ سمجھتا ہوں ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ہشام نے بھی محمد بن سیرین سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

 

                   سدل کر نے کی ممانعت

 

محمد بن علاء، ابراہیم بن موسی، ابن مبارک، حسین بن ذکوان، سلیمان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح دوران نماز چہرہ ڈھانپ لینے سے بھی منع فرمایا ہے۔

 

محمد بن عیسیٰ بن طباح، حجاج، ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے عطاء کو اکثر بحالت سدل نماز پڑھتے دیکھا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ پہلی حدیث کو عسل نے بو اسطہ عطاء حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 

                   بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، ابن جریج، عمران بن موسی، سعید بن ابی سعید، حضرت سعید بن ابی سعید مقبری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ابو رافع کو دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہ وہ حضرت علی کے بیٹے حسن کے پاس سے گزرے وہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور انھوں نے اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر گردن کے پیچھے ڈال رکھا تھا۔ ابو رافع نے اس کو کھول دیا۔ حضرت حسن نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا۔ ابو رافع نے ان سے کہا کہ اپنی نماز پڑھو اور غصہ مت کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بالوں کا جوڑا شیطان کی جائے نشست ہے۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، حضرت عبد اللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام کر یب سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباس نے عبد اللہ بن حارث کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ان کے سر میں پیچھے کی طرف جوڑا بندھا ہوا تھا۔ عبد اللہ بن عباس ان کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کا جوڑا کھولنے لگے وہ اس وقت خاموش رہے مگر جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ ابن عباس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تم نے میرا جوڑا کیوں کھولا؟ عبد اللہ بن عباس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوں اور وہ نماز پڑھ رہا ہو۔

 

                   جوتوں سمیت نماز پڑھنا

 

مسدد، یحییٰ، ابن جریج، محمد بن عباد بن جعفر، ابن سفیان، حضرت عبد اللہ بن سائب سے روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جوتے اپنی بائیں طرف رکھے ہوئے تھے

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، ابو عاصم، ابن جریج، بن عبد اد بن جعفر، ابو سلمہ، بن سفیان، عبد اللہ بن مسیب، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن سائب سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ مومنون پڑھنی شروع کی جب حضرت موسیٰ و ہارون کا ذکر آیا (یا یہ کہا کہ حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ کا تذکرہ آیا یعنی محمد بن عباد کو شک ہوا یا عباد کے شیوخ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کر نے میں اختلاف کیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانسی آئی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرأت چھوڑ دی اور رکوع کر دیا اور اس وقت عبد اللہ بن سائب موجود تھے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد بن سلمہ، ابو نعامہ، حماد بن نضرہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جوتے اتارے اور اپنی بائیں طرف رکھ لیے جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے جوتے نکال ڈالے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ لوگوں نے جواب دیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور بتایا کہ تمھارے جوتوں میں نجاست لگی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دیکھ لے۔ اگر جوتوں میں گندگی یا نجاست لگی ہو تو ان کو زمین پر رگڑ دے اس کے بعد (ان کو پہن کر) نماز پڑھے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابو نعامہ، سعدی، ابو سعید، بکر بن عبد اللہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں اس میں بجائے لفظ، قذر، کے لفظ، خبث، ہے اور دونوں ہی جگہ خبث استعمال ہوا ہے۔

 

قتیبہ بن سعید، مروان، بن معاویہ، ہلال، بن میمون، یعلی بن شداد، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہودیوں کے خلاف (عمل) کرو کیونکہ وہ جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔

 

مسلم بن ابراہیم، علی بن مبارک، حسین، عمروبن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔

 

                   نمازی اگر اپنے جوتے اتارے تو کہاں رکھے؟

 

حسن بن علی، عثمان بن عمر، صالح، بن رسم، ابو عامر، عبد الرحمن، قیس، یوسف بن ماہک، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے جوتے اتار کر نہ داہنی طرف رکھے اور نہ بائیں طرف، کیونکہ وہ دوسری نمازی کے لیے داہنی طرف ہے ہاں اگر کوئی بائیں طرف نہ ہو (تو بائیں طرف رکھ لے) (اور بہتر یہ ہے کہ) اپنے جوتوں کو اپنے دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے۔

 

عبدالوہاب بن نجدہ، بقیہ، شعیب بن اسحاق محمد بن ولید، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے جوتے اتار لے اور کسی کو جوتوں کی وجہ سے تکلیف نہ دے بلکہ ان کو یا تو اپنے دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے یا پھر جوتے پہنے پہنے نماز پڑھے۔

 

                   چھوٹے بوریے میں نماز پڑھنے کا بیان

 

عمرو بن عون، خالد، عبد اللہ بن شداد، حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر ہوتی تھی حالت حیض میں اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کپڑا میرے بدن سے چھو جاتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدے میں جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بوریے پر نماز پڑھتے تھے۔

 

                   چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، انس بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں موٹا آدمی ہوں اور اپنے موٹاپے کی بنا پر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھانا تیار کرایا اور اپنے گھر بلا کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں نماز پڑھیے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ نماز معلوم کر سکوں اور اس کی پیروی کر سکوں پس لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک چٹائی کا کنارہ دھویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا فرمائی ابن جارود نے انس بن مالک سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلوٰۃ الضحی پڑھا کرتے تھے؟ حضرت انس نے کہا کہ اس دن کے سوا تو میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پڑھتے نہیں دیکھا۔

 

مسلم بن ابراہیم، مثنی بن سعید، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے جایا کرتے تھے اگر کبھی وہیں نماز کا وقت آ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے فرش پر نماز پڑھ لیتے تھے جو ایک بوریہ تھا اور ام سلیم اس کو پانی سے دھو دیتی تھیں۔

 

عبید اللہ بن عمرو بن میسرہ، ابو عثمان بن ابی شیبہ، ابو احمد، یونس بن حارث، ابو عون، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چٹائی پر اور دباغت شدہ چمڑے پر نماز پڑھ لیتے تھے۔

 

                   کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان

 

احمد بن حنبل، بشر بن مفضل، غالب، بکر بن عبد اللہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم شدید گرمی میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اگر ہم میں سے کوئی (گرمی کی شدت کی بنا پر) زمین پر سجدہ نہ کر سکتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کر لیتا۔

 

                   صفیں برابر کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن نفیلی، زہیر، سلیمان، اعمش، مسیب بن رافع، تمیم بن طرفہ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور باندھتے ہیں ہم نے پوچھا کہ فرشتے اپنے رب کے حضور کس طرح صفیں باندھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پہلے وہ آگے کی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔

 

                   امام کو رکوع میں جاتے ہوئے دیکھ کر صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کرنا

 

موسیٰ بن اسمعیل، حماد، زیاد، حضرت حسن سے روایت ہے کہ ابو بکر مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہوئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں تھے تو انہوں نے صف سے پہلے ہی رکوع کر لیا پھر (اسی حالت میں) صف کی طرف چلے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے پوچھا تم میں سے کس نے صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کیا تھا اور پھر چل کر صف میں شامل ہوا تھا؟ اس پر ابو بکرہ نے کہا میں نے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالی تمہیں (عبادت کے معاملہ میں) مزید حرص عطا فرمائے مگر آئندہ ایسا نہ کرنا۔

 

                   سترہ کا بیان

 

محمد بن کثیر، اسرائیل، سماک، موسیٰ بن طلحہ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب تو (نماز پڑھتے وقت) اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی لکڑی رکھ لے (یعنی گاڑھ لے) تو تیرے سامنے سے کسی کا گزرنا تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائے گا۔

 

حسن بن علی، حضرت عطاء نے فرمایا پالان کی پچھلی لکڑی ایک ہاتھ کے برابر یا اس سے کچھ زائد ہوتی ہے۔

 

حسن علی، ابن نمیر، عبید اللہ بن نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب عید کے دن نماز کے لیے نکلتے تو برچھا لانے کا حکم فرماتے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا سفر میں کرتے مگر اب حاکموں نے اسی بنا پر برچھا رکھنا اختیار کر لیا ہے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ بن عون بن جحفیہ، حضرت ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطحاء، میں نماز پڑھائی، ظہر کی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک برچھی تھی، اور برچھی کے اس طرف عورتیں بھی جاتی تھی اور گدھے بھی گزرتے تھے۔

 

                   جب سترہ کے لیے لکڑی نہ ہو تو زمین پر لکیر کھینچ لیں

 

مسدد، بشر، بن مفضل، اسماعیل، بن امیہ ابو عمرو بن محمد بن حریث، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے۔ اگر کوئی چیز دستیاب نہ ہو تو (اپنے سامنے) ایک لکڑی ہی کھڑی کر لے اور اگر اس کے پاس لکڑی بھی نہ ہو تو پھر (زمین پر سجدہ گاہ کے سامنے) ایک خط ہی کھینچ لے پھر جو بھی سامنے سے گزرے گی اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، ابن مدینی، سفیان بن اسماعیل بن امیہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (اس کے بعد راوی نے) خط (یعنی لکیر کھینچنے) والی حدیث ذکر کی سفیان کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جس سے اس حدیث کو مضبوط کریں اور حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے علی ابن المدینی نے سفیان سے کہا کہ ابو محمد کے متعلق محدثین اختلاف کرتے ہیں تو انھوں نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ مجھے تو ابو محمد بن عمرو ہی یاد ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ اسماعیل بن امیہ کی وفات کے بعد ایک شخص کوفہ میں آیا اور اس نے شیخ ابو محمد کو تلاش کیا وہ اسے مل گئے اس نے ان سے سوال کیا تو ان پر خلط ہو گیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد ابن حنبل سے متعدد مرتبہ خط کی یہ کیفیت سنی ہے کہ وہ عرضاً ہونی چاہیے اور ہلال کی طرح ہونی چاہیے ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے مسدد سے سنا ہے انھوں نے ابن داؤد کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ خط لمبائی میں کھینچنا چاہیے۔

 

عبد اللہ بن محمد، سفیان بن عیینہ سے روایت ہے کہ میں نے شریک کو دیکھا انھوں نے جنازہ میں شرکت کرتے ہوئے عصر کی نماز پڑھائی اور اپنی ٹوپی اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لی یعنی نماز عصر میں۔

 

                   اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وہب بن بقیہ، ابن ابی خلف، عبد اللہ بن سعید، عثمان، ابو خالد، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔

 

                   جب نماز پڑھے تو سترہ کو کس چیز کے مقابل کرے

 

محمود بن خالد علی بن عیاش، ابو عبیدہ ولید بن کامل، حضرت مقداد بن اسود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی لکڑی، ستون یا درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے تو اس کو اپنی دائیں یا بائیں ابرو کے مقابل رکھتے دونوں آنکھوں کے درمیان نہ رکھتے۔

 

                   گفتگو کر نے والے یا سونے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، عبد الملک، بن محمد بن ایمن، عبد اللہ بن یعقوب بن اسحاق ، محمد بن کعب، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کے پیچھے نماز مت پڑھو جو سو رہا ہو یا باتیں کر رہا ہو۔

 

                   سترہ سے نزدیک ہو کر کھڑے ہونے کا بیان

 

محمد بن صباح بن سفیان، عثمان بن ابی شیبہ، حامد بن یحییٰ، ابن سرح، سفیان، صفوان، بن سلیم، نافع، جبیر، حضرت سہیل بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سترہ کی آڑ میں نماز پڑھے تو اسے سترہ سے قریب تر ہو جانا چاہیے تاکہ شیطان اس کی نماز نہ توڑے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو واقد بن محمد نے بطریق صفوان عن محمد سہل عن ابیہ۔ یا عن محمد بن سہل عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روایت کیا ہے اور بعض نے یوں کہا ہے عن نافع بن جبیر عن سہل بن سعد۔ بہر حال اس کی اسناد میں اختلاف ہے۔

 

قعنبی، عبد العزیز بن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جائے قیام اور قبلہ (یعنی سجدہ گاہ) کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے لائق جگہ رہتی تھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ نفیلی کے ہیں۔

 

                   اگر کوئی نماز کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئیے

 

قعنبی، مالک، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن ابی سعید، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے نہ گزرنے دے اور جہاں تک ممکن ہو اسے روکے اگر وہ نہ مانے تو اس سے قتال کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

 

محمد بن علاء، ابو خالد، ابن عجلان، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن ابی سعید، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی آڑ میں پڑھے اور اس کے قریب تر کھڑا ہو اس کے بعد سابقہ مفہوم والی حدیث بیان کی۔

 

احمد بن ابی سریج، ابو احمد، مسرہ بن معبد، حضرت ابو عبید سے روایت ہے کہ میں نیعطاء بن یزد لیثی کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا میں ان کے سامنے سے گزرنے لگا تو انھوں نے مجھے گھما دیا پھر (نماز کے بعد) فرمایا مجھ سے ابو سعید خدری نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے یہ کر سکے کہ کسی کو اپنے اور سجدہ گاہ کے درمیان سے نہ گزرنے دے تو ایسا ضرور کرے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، سلیمان، مغیرہ، حمید، ابن ہلال، حضرت حمید بن بلال ابو صالح سے روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید مردان کے پاس گئے اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی آڑ میں نماز پڑھے اور کوئی شخص اس کے سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے سینہ پر مارے اور اگر وہ تب بھی نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

 

                   نمازی کے سامنے سے گزرنے کی ممانعت

 

قعنبی، مالک، ابی نضر، عمر بن عبید اللہ، بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے ان کو ابو الجہیم کے پاس یہ معلوم کر نے کے لیے بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کے متعلق کیا فرمایا ہے جو نمازی کے سامنے سے گزرے؟ ابو جہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس پر اس کا کیا گناہ ہو گا تو وہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کے مقابلہ میں چالیس دن کھڑا رہنا بہتر سمجھے۔ ابو النضر کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔

 

                   کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟

 

حفص بن عمر، شعبہ، عبد السلام، بن مطہر، ابن کثیر، سلیمان بن مغیرہ، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے جبکہ اس کے سامنے کوئی چیز پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر نہ ہو اور اس کے سامنے سے گدھا، کالا کتا اور عورت گزر جائے میں نے کہا کالے رنگ کی کیا خصوصیت ہے؟ اگر وہ سرخ زرد یا سفید ہو تو کیسا ہے؟ فرمایا اے بھتیجے جو بات تم نے مجھ سے پوچھی ہے وہی بات میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، قتادہ، جابر بن زید، حضرت ابن عباس سے مروی ہے (شعبہ نے اسے مرفوعا روایت کیا ہے) کہ بالغ عورت اور کتے (کانمازی کے سامنے سے گزرنا اس کی نماز کو) توڑ دیتا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ سعید ہشام اور ہمام نے بروایت قتادہ بواسطہ جابربن زید اس کو حضرت ابن عباس پر موقوف کیا ہے۔

 

محمد بن اسماعیل، بنی ہاشم، معاذ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے عکرمہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابن عباس نے مرفوعا بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سترہ کے بغیر نماز پڑھے تو کتے گدھے، سور یہودی، مجوسی اور عورت (کا اس کے سامنے سے گزرنا) اس کی نماز کو توڑ دیتا ہے البتہ اگر یہ چیزیں ایک پھینکے ہوئے ڈھیلے کی زد سے پرے ہو کر نکل جائیں تو نماز ہو جائے گی۔

 

محمد بن سلیمان، وکیع، سعید بن عبد العزیز، حضرت یزید بن نمران سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو تبوک میں دیکھا جو لُنجا تھا اس کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے میں ایک گدھے پر سوار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے اللہ اس کے پاؤں کاٹ دے اور پھر میں اس کے بعد چل نہیں سکا۔

 

کثیر بن عبید، ابو حیوہ، حضرت سعید سے بھی سندا و متنا اسی طرح مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے ہماری نماز کو کاٹ دیا ہے اللہ اس کے پاؤں کاٹ دے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے ابو مسہر نے سعید سے روایت کرتے ہوئے، قَطَعَ صَلَاتَنَا، کہا ہے۔

 

احمد بن سعید، سلیمان بن داؤد، ابن وہب، معاویہ، سعید بن غزوان، حضرت غزوان سے روایت ہے کہ وہ مقام تبوک میں اترے۔ وہ حج کے ارادہ سے نکلے ہوئے تھے انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جو لنجا تھا انھوں نے اس سے اس کے متعلق دریافت کیا اس نے کہا میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں لیکن تم اس بات کو اس وقت تک بیان نہ کرنا جب تک میں زندہ ہوں (وہ بات یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام تبوک پر ایک درخت کے پاس اترے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ہمارا قبلہ ہے (اور یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی، میں بچہ تھا میں دوڑتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور درخت کے درمیان سے ہوتا ہوا نکل گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے ہماری نماز کاٹ دی اللہ اس کے قدم کاٹ دے بس اس دن سے میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکا۔

 

                   امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے

 

مسدد، عیسیٰ بن یونس، ہشام بن غاز، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اذاخر کی گھاٹی سے اترے نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دیوار کو قبلہ بنایا اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے (نماز پڑھ رہے تھے) اتنے میں ایک چوپایہ آیا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزرنے لگا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو روکے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے شکم مبارک کو دیوار سے لگا دیا (تا کہ وہ گزر نہ سکے) آخر کار وہ پیچھے سے چلا گیا۔

 

سلیمان بن حرب، حفص بن عمر، شعبہ، عمرو بن مرہ، یحیٰ بن جزار، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں ایک بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزر کر جانے لگا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو (گزرنے سے) روکے رہے۔

 

                   نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوٰۃ نہیں

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، سعد بن ابراہیم، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قبلہ کے درمیان تھی۔ شعبہ کہتے ہیں میرا خیال ہے حضرت عائشہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں حائضہ تھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو زہری، عطاء، ابو بکر بن حفص، ہشام بن عروۃ، عراق بن مالک، ابو الاسود اور تمیم بن سلمہ سب ہی نے بواسطہ عر وۃ، ابراہیم نے بواسطہ اسود، ابو الضحی نے بواسطہ مسروق اور قاسم بن محمد اور ابو سلمہ نے بلا واسطہ حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی حضرت عائشہ کا یہ قول کہ میں حائضہ تھی، ذکر نہیں کیا۔

 

احمد بن یونس، زہیر، ہشام، بن عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی رات کی نماز پڑھتے تھے اور میں اس بستر پر جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی رہتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھتی۔

 

مسدد، یحییٰ، عبید اللہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تم نے برا کیا جو ہمیں کتے اور گدھے کے مساوی کر دیا میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لیٹی رہتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جاتے تو میرا پاؤں ہلا کر اشارہ کرتے میں اپنے پاؤں سکیڑ لیتی اور آپ سجدہ میں چلے جاتے۔

 

عاصم بن نضر، معتمر، عبید اللہ، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عائشہ سے روایت ہے میں سوئی ہوئی ہوتی تھی اور میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ہوتے تھے درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز پڑھ رہے ہوتے تھے جب آپ مسجد میں جاتے تو میرے پاؤں پر (ہاتھ) مارتے میں اپنے پاؤں سکیڑ لیتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں چلے جاتے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، قعنبی، عبد العزیز، ابن محمد، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں سوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قبلہ کی سمت میں لیٹی رہتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے ہوتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کا ارادہ فرماتے تو مجھے اٹھنے کا اشارہ فرماتے کہ اٹھ جاؤ۔

 

                   نمازی کے سامنے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی

 

عثمان بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہیر، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں قریب البلوغ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منی میں نماز پڑھا رہے تھے میں بعض صف کے سامنے سے گزر کر گدھی پر سے اترا اور چھوڑ دیا وہ چرتی رہی اور میں صف میں شریک ہو گیا اور کسی نے مجھ پر انکار نہیں کیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ الفاظ قعنبی کے ہیں اور مکمل ہیں امام مالک فرماتے ہیں کہ نماز کھڑی ہونے کے وقت میں اس کو جائز سمجھتا ہوں۔

 

مسدد، ابو عوانہ، منصور، حکم، یحیٰ بن جزار، ابو ا لصہباء سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت ابن عباس کے پاس ان چیزوں کا ذکر کر رہے تھے جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ایک مرتبہ میں اور بنی عبد المطلب کا لڑکا ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم دونوں گدھے سے اترے اور اسے صف کے آگے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی پرواہ نہ کی اس کے بعد بنی عبد المطلب کی دو لڑکیاں آئیں اور صف کے درمیان سے گزر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، داؤد بن مخراق، جریر، منصور سے سا بقہ سند کے ساتھ اس حدیث میں یوں مذکور ہے کہ بنی عبد المطلب کی دو لڑکیاں لڑتی ہوئی آئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو پکڑ لیا (ایک روایت میں یوں ہے ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا) اور پھر کچھ پرواہ نہ کی۔

 

                   نمازی کے سامنے سے کتا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی

 

عبدالملک بن شعیب بن لیث، یحیٰ بن ایوب، محمد بن عمر بن علی، فضل بن عباس سے روایت ہے کہ ہم لوگ جنگل میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت عباس بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ میں نماز پڑھی اور آپ کے سامنے کوئی ستر بھی نہ تھا اور ہماری گدھی اور کتیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اچھلتی کودتی پھر رہی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی پرواہ نہ کی۔

 

                   دو ران نماز کسی بھی چیز کے سامنے سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی

 

محمد بن علاء، ابو اسامہ، مجالد، ابو وداک، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ جہاں تک ممکن ہو اس کو ہٹا دو۔ کیونکہ وہ شیطان ہے۔

 

مسدد، عبد الواحد بن زیاد، مجالد، ابو الوداک سے روایت ہے کہ ایک قریشی نوجوان ابو سعید خدری کے سامنے سے جانے لگا اس وقت وہ نماز پڑھ رہے تھے اس لیے انھوں نے اس کو روکا (مگر وہ رکا نہیں) وہ پھر جانے لگا اس طرح حضرت ابو سعید خدری نے اس کو تین مرتبہ روکا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو (گزرنے والے کو) روکو کیونکہ وہ شیطان ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی احادیث متعارض ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کے عمل کو دیکھا جائے گا۔

 

                   رفع یدین کا بیان

 

احمد بن حنبل، سفیان، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے (اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے) پھر دو سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

 

محمد بن مصفی، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے پھر ہاتھ اٹھاتے ہوئے رکوع کی تکبیر کہتے اس کے بعد رکوع کرتے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ۔ کہتے مگر سجدوں میں ہاتھ نہیں اٹھاتے بلکہ ہر رکعت میں رکوع میں جانے کے لیے جب تکبیر کہتے تب دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز پوری ہو جاتی۔

 

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، عبد الوارث بن سعید، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب تکبیر کہی تو دونوں ہاتھ اٹھائے پھر چادر اوڑھی داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا اور دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر کر لیے جب رکوع کر نے کا ارادہ کر لیا تو دونوں ہاتھوں کو باہر نکال کر ان کو اٹھایا اسی طرح جب رکوع سے سر اٹھا نے لگے تو پھر ہاتھ اٹھائے اور اس کے بعد سجدہ کیا اور (سجدہ میں) پیشانی کو دونوں ہاتھوں کے درمیان میں رکھا اور جب سجدہ سے سر اٹھایا تب پھر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہو گئے۔ محمد کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حسن بن اب الحسن سے ذکر کی تو انھوں نے فرمایا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز ہے جس نے چاہا اس نے نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ہمام نے ابن حجارہ سے روایت کیا ہے مگر اس میں سجدہ سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں۔

 

مسدد، یزید، ابن زریع، عبد الجبار بن وائل، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، حسن بن عبید اللہ عبد الجبار، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ہاتھ مونڈھوں تک اٹھائے اور انگوٹھے کانوں کے برابر کیے پھر تکبیر کہی۔

 

مسدد، بشر بن مفضل، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے تو قبلہ کی طرف رخ کیا اور اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا۔ جب آپ نے رکوع کا ارادہ کیا تو اسی طرح پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور (رکوع میں) دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ اٹھائے جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو دونوں ہاتھوں کے بیچ میں رکھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے تو بائیں پیر کو بچھایا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور داہنے ہاتھ کی کہنی داہنی ران سے الگ رکھی اور دونوں انگلیوں کو بند کر لیا اور ایک حلقہ بنا لیا اور میں نے ان کو دیکھا کہ وہ کہتے تھے کہ اس طرح اور بشر نے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا حلقہ بنایا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔

 

حسن بن علی، ابو ولید، زئداہ، حضرت عاصم بن کلیب سے سندا و معنی اسی طرح روایت ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت، پنجے اور کلائی پر رکھا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ (وائل کہتے ہیں) اس واقعہ کے بعد جب میں دوبارہ سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت کپڑے پہنے ہوئے دیکھا اور کپڑے کے نیچے ان کے ہاتھ حرکت کرتے تھے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، شریک، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب نماز شروع کی تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے۔ وائل کہتے ہیں کہ میں دوبارہ آیا تو میں نے دیکھا کہ لوگ نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ سینہ تک اٹھاتے تھے اور وہ جبے اور کمبل اوڑھے ہوئے ہوتے تھے۔

 

                   نماز شروع کر نے کا بیان

 

محمد بن سلیمان، وکیع، شریک، عاصم بن کلیب، علقمہ بن وائل، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سردی کے زمانہ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کو دیکھا کہ وہ چادر کے اندر ہی رفع یدین کرتے تھے (یعنی سردی کی وجہ سے ہاتھ باہر نہیں نکالتے تھے)

 

احمد بن حنبل، ابو عاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبد الحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابو قتادہ بھی تھے ابو حمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت میں آئے تھے ابو حمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابو حمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آ جاتی اس کے بعد قرأت شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آ جاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔

 

قتیبہ بن سعید، ابن لہیعہ، یزید، ابن ابی حبیب، محمد بن عمرو بن حلحلہ محمد بن عمرو، حضرت عمرو عامری سے روایت ہے کہ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مجلس میں تھا وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا تذکرہ کر رہے تھے ابو حمید نے کہا اس کے بعد (تھوڑے اختلاف کے ساتھ) اوپر والی حدیث بیان کی اور کہا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو اپنی ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر جمایا اور انگلیوں کو کھلا رکھا پھر پیٹھ کو جھکایا لیکن سر کو اونچا نہ رکھا اور نہ منہ کو دائیں بائیں موڑا جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھے اور داہنے پاؤں کو کھڑا کیا جب چوتھی رکعت کے بعد بیٹھے تو بائیں کولھے کو زمین پر رکھا اور دونوں پاؤں کو ایک طرف نکال دیا۔

 

عیسی بن ابراہیم، ابن وہب، لیث بن سعد، یزید بن محمد یزید بن ابی حبیب، محمد بن عمرو بن حلحلہ، حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے بھی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے اس میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا تو نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھوں کو زمین پر بچھایا اور نہ ان کو سکیڑا۔ اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف رکھا۔

 

علی بن حسین بن ابراہیم، ابو بدر، زہیر ابو خیثمہ، حسن بن حز، عیسیٰ بن عبد اللہ بن مالک، محمد بن عمرو بن عطاء، حضرت عباس یا عیاش بن سہل ساعدی سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں ان کے والد بھی موجود تھے جو اصحاب رسول میں سے تھے اس کے علاوہ اس مجلس میں ابو ہریرہ، ابو حمید ساعدی اور ابو اسید بھی موجود تھے پھر کچھ کمی بیشی کے ساتھ سابقہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا کر سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ اَللّٰھُمَّ رَبَّناَلَکَ الحَمَد، کہا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ کیا اور ہاتھ کی ہتھیلیوں، گھٹنوں اور پاؤں کی انگلیوں کو زمین پر اچھی طرح جمایا، پھر تکبیر کہی جب بیٹھے تو کولھے پر بیٹھے اور دوسرے پاؤں کو کھڑا کیا، پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا اس کے بعد پھر تکبیر کہی اور کھڑے ہو گئے اور کولھے پر نہ بیٹھے اس کے بعد راوی نے حدیث کو آخر تک بیان کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھ گئے اور جب تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو تکبیر کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور آخر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں (مگر راوی نے اس مرتبہ) تشہد میں (تورک) کا ذکر نہیں کیا۔

 

احمد بن حنبل، عبد الملک بن عمرو، فلیح، حضرت عباس بن سہل سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلم جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا تذکرہ کرنے لگے، ابو حمید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ پس ان میں سے ایک نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا اور دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا ان کو پکڑ رکھا ہو اور ہاتھوں کو سیدھا اور پہلوؤں سے جدا رکھا پھر سجدہ کیا اور اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر لگایا، دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھا اور ہتھیلیوں کو مونڈھوں کے برابر رکھا پھر سر اٹھایا یہاں تک کہ ہر ایک ہڈی اپنے مقام پر آ گئی (پھر دوسرا سجدہ کیا) اور فارغ ہو گئے اور جب بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھایا اور داہنے پاؤں کو کھڑا کیا اور اس کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف کیا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں گھٹنے پر رکھی اور انگلی سے اشارہ کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عتبہ بن ابی حکیم نے بواسطہ عبد اللہ بن عیسیٰ بسند عباس بن سہل روایت کیا ہے اور اس میں تورک کا ذکر نہیں ہے (البتہ عتبہ نے) حدیث فلیح کی طرح ذکر کی (جس میں مطلقاً تورک کا ذکر نہیں ہے) اور حسن ابن حر نے جلسہ کی کیفیت فلیح اور عتبہ کی ماند ذکر کی۔

 

عمرو بن عثمان، بقیہ، عتبہ، عبد اللہ بن عیسیٰ، عباس بن سہل، حضرت ابو حمید سے بھی اسی طرح مروی ہے ان کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا تو دونوں رانوں کو کشادہ رکھا اور پیٹ کو رانوں سے نہ لگایا ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اسے ابن مبارک نے بواسطہ فلیح، عباس بن سہل سے روایت کیا ہے جو انھیں اچھی طرح محفوظ نہیں رہا۔ خیال یہ ہے کہ انھوں نے بسند عیسیٰ بن عبد اللہ، عباس بن سہل سے روایت کیا ہے کہ میں ابو حمید ساعدی کے پاس گیا تھا۔

 

محمد بن معمر، حجاج بن منہال، ہمام، محمد بن جحادہ، عبد الجبار بن وائل، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جاتے تو زمین پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھوں سے پہلے لگتے اور جب سجدہ میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی پیشانی دونوں ہاتھوں کے بیچ میں رکھتے اور اپنی بغلیں کھلی رکھتے اور حجاج نے بسند ہمام بروایت شفیق بحوالہ عاصم بن کلیب بطریق بواسطہ والد، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی حدیث کے مانند روایت کیا ہے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کے بعد کھڑے ہوتے تو گھٹنوں کے بل کھڑے ہوتے اور رانوں پر زور ڈا لتے۔

 

مسدد،، عبد اللہ بن داؤد، فطر، عبد الجبار بن وائل، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے آپ نماز میں تکبیر کے لیے ہاتھ کے انگوٹھوں کو کان کی لو تک اٹھاتے تھے۔

 

عبدالملک، بن شعیب، بن لیث، یحیٰ بن ایوب، ابن شہاب، ابو بکر بن جریج، ابن شہاب، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب (رکوع سے فارغ ہو کر) سجدہ کے لیے کھڑے ہوتے تب پھر ایسا ہی کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔

 

قتیبہ بن سعید، ابن لہیعہ، ابو ہریرہ، میمون سے روایت ہے کہ انھوں نے عبد اللہ بن زبیر کو دیکھا ہے اس حال میں کہ انھو نے (عبد اللہ بن زبیر نے) ان کو نماز پڑھائی ہے اس طرح پر کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی رفع یدین کرتے تھے) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب سجدہ میں جاتے اور جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو تے۔ (میمون مکی کہتے ہیں کہ) میں ابن عباس کے پاس گیا اور عرض کیا کہ (میں نے عبد اللہ بن زبیر کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح میں نے کسی (صحابی) کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور ان سے ان کے رفع یدین کا ذکر کیا اس پر عبد اللہ بن عباس نے فرمایا اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دیکھنا چاہتے ہو تو عبد اللہ بن زبیر کی نماز کی پیروی کرو۔

 

قتیبہ بن سعید، محمد بن ابان، نضر بن کثیر، سعد، عبد اللہ بن طاؤس، حضرت نضر بن کثیر سعدی سے روایت ہے کہ مسجد خیف میں عبد اللہ بن طاؤس نے میرے برابر نماز پڑھی ہے جب انھوں نے پہلا سجدہ کیا اور سر اٹھایا تو انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ کی طرف اٹھائے میں نے اس کا انکار کیا اور وہیب بن خالد سے اس کا ذکر کیا وہیب بن خالد نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ایسا کرتے ہو جو میں نے کسی کو کرتے نہیں دیکھا؟ اس پر عبد اللہ بن طاؤس نے کہا کہ ایسا میں نے اپنے والد کو کرتے دیکھا ہے اور میرے والد نے کہا کہ میں نے ابن عباس کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نہیں جانتا کہ انھوں نے یہ کہا ہو کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

نصر بن علی، عبد الاعلی، عبید اللہ بن نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فعل قرار دیتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر کا قول ہے مرفوع روایت نہیں ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ بقیہ نے اس حدیث کے ابتدائی حصہ کو بسند عبید اللہ مرفوعاً روایت کیا ہے اور ثقفی نے بواسطہ عبید اللہ ابن عمر پر موقوف کیا ہے جس میں یوں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ چھاتیوں تک اٹھاتے اور یہی صحیح ہے ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس روایت کو لیث بن سعد، مالک، ایوب اور ابن جریج نے موقوفاً روایت کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے ایوب کے حوالہ سے اور ایوب اور مالک نے سجدتین سے اٹھنے کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا لیکن لیث نے اس کو اپنی حدیث میں ذکر کیا ہے اس میں ابن جریج کا یہ قول مذکور ہے کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا ابن عمر صرف پہلی مرتبہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے؟ انھوں نے کہا نہیں۔ بلکہ ہر مرتبہ اٹھاتے تھے۔ میں نے کہا مجھ کو بتاؤ کہاں تک اٹھاتے تھے؟ انھوں نے اشارہ کیا چھاتیوں تک یا اس سے بھی نیچے تک۔

 

قعنبی، مالک، نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر جب نماز شروع کرتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو اس سے کچھ کم اٹھاتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ کسی نے ذکر نہیں کیا کہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت پہلے سے قدرے کم ہاتھ اٹھاتے تھے سوائے مالک کے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن عبید، محمد بن فضیل، عاصم بن کلیب، محارب بن دثار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔

 

حسن بن علی، سلیمان بن داؤد، عبد الرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبد اللہ بن فضل بن ربیعہ، بن حارث بن عبد المطلب، عبد الرحمن بن اعرج، عبید اللہ بن ابو رافع، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فرض نماز کو کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جب قرأت سے فارغ ہوتے اور رکوع کا ارادہ کرتے تو پھر اسی طرح ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح ہاتھوں کو اٹھاتے مگر بیٹھنے کی حالت میں ہاتھوں کو نہ اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو پھر دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور تکبیر کہتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو حمید ساعدی کی حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو تکبیر کہ نماز کے شروع میں تکبیر کہی تھی اور دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے تھے

 

حفص بن عمر، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، حضرت امام مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی تکبیر تحریمہ کہتے، رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے تو دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھاتے۔

 

ابن معاذ ، موسیٰ بن مروان، شعیب ابن اسحاق ، عمران ابن اسحاق ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگر میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغل دیکھ لیتا ابن معاذ نے یہ زیادتی نقل کی ہے کہ لاحق کا قول ہے کہ نماز میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کس طرح آگے ہو سکتے ہیں؟ اور موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابن ادریس، عاصم بن کلیب، عبد الرحمن بن اسود، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو نماز سکھائی تو تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ اٹھائے جب رکوع کیا تو دونوں ہاتھوں کو ملا کر گھٹنے کے بیچ میں رکھ لیا جب یہ خبر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا کہ میرے بھائی (عبد اللہ بن مسعود) نے صحیح کہا پہلے ہم ایسا ہی کرتے تھے پھر بعد میں ہم کو گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا۔

 

                   رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، عاصم، ابن کلیب، عبد الرحمن بن اسود، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں تم کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو صرف ایک مرتبہ ہاتھ اٹھائے (یعنی صرف تکبیر تحریمہ کے وقت)۔

 

حسن بن علی، معاویہ، خالد بن عمرو، ابو حذیفہ، حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سے سابقہ سند و متن کے ساتھ پہلی حدیث کی طرح مروی ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھایا اور بعض نے کہا ایک مرتبہ ہاتھ اٹھایا۔

 

محمد بن صباح، شریک، یزید بن ابی زیاد، عبد الرحمن بن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھاتے اور دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھاتے۔

 

عبد اللہ بن محمد، سفیان، یزید کے واسطہ سے شریک کی مانند روایت بیان کی ہے اس میں ثم لا یعود کی زیادتی نہیں ہے سفیان کہتے ہیں کہ یزید نے یہ روایت ہم سے کوفہ میں بیان کی تو، لایعود، کا اضافہ کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ہشیم، خالد اور ابن ادریس نے یزید کے واسطہ سے ذکر کیا ہے مگر اس میں ثم لا یعود، نہیں ہے۔

 

حسین بن عبد الرحمن وکیع، ابن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز شروع کی تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور پھر نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھائے ابو داؤد نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، ابن ابی ذئب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ لمبے کر کے اٹھاتے۔

 

                   نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکنے کا بیان

 

نصر بن علی، ابو احمد، علاء بن صالح، حضرت زرعہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا کہ وہ فرماتے تھے (قیام کی حالت میں) قدموں کا برابر رکھنا اور (داہنے) ہاتھ کو (بائیں) ہاتھ پر رکھنا سنت ہے۔

 

محمد بن بکار بن ریان، ہشیم بن بشیر، حجاج بن ابی زینب، ابو عثمان ابن مسعود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اس طرح پر کہ انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا تو ان کا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔

 

                   نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا

 

"عبید اللہ بن معاذ، عبد العزیز، بن ابی سلمہ، ماجشون بن ابی سلمہ، عبد الرحمن، اعرج، عبید اللہ بن ابو رافع، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھتے۔ وَجَّھتُ وَجْھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ اللَّھمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لَا إِلَہ لِی إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُکَ ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا إِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاھدِنِی لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا یَھدِی لِأَحْسَنِھا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَھا لَا یَصْرِفُ سَیِّئَھا إِلَّا أَنْتَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ کُلُّہ فِی یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ

اور جب رکوع کرتے تو یہ دعا پڑھتے

اللَّہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَمُخِّی وَعِظَامِی وَعَصَبِی

اور جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو یہ پڑھتے

سَمِعَ اللَّہ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا بَیْنَھمَا وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ

اور جب سجدہ میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے۔

اللَّھمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْھی لِلَّذِی خَلَقَہ وَصَوَّرَہ فَأَحْسَنَ صُورَتَہ وَشَقَّ سَمْعَہ وَبَصَرَہ وَتَبَارَکَ اللَّہ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ

اور جب نماز سے فراغت کے لئے سلام پھیرتے تو یہ پڑھتے

اللَّھمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہ مِنِّی أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ لَا إِلَہ إِلَّا أَنْتَ”

 

حسن بن علی، سلیمان بن داؤد، عبد الرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبد اللہ بن فضل بن ربیعہ، بن حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے مونڈھوں تک ہاتھ اٹھاتے اور جب قرأت سے فارغ ہوتے تب پھر اسی طرح کرتے (یعنی تکبیر کہتے اور رفع یدین کرتے) جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب پھر اسی طرح کرتے (یعنی ان مواقع پر بھی تکبیر کہتے اور رفع یدین کرتے) مگر قعدہ کی حالت میں رفع یدین نہ کرتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے پھر دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور تکبیر کہتے اور کم و بیش وہی دعا پڑھتے جو سابقہ حدیث میں (تکبیر تحریمہ کے بعد والی دعا) گزری ہے البتہ اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ وَالْخَیْرُ کُلُّہُ فِی یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ۔ بلکہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِی لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ

 

عمرو بن عثمان، شریح بن یزید، حضرت شعیب بن ابی حمزہ سے روایت ہے کہ مجھ سے ابن مکندر، ابن ابی فردہ اور ان دو حضرات کے علاوہ دیگر فقہائے مدینہ نے بیان کیا ہے کہ جب تو اس دعا کو پڑھے تو بجائے وَاَناَ اَوَّلَ المُسلِمِین کے، وَاَنَا مِنَ المُسلِمِین پڑھا کرو۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، قتادہ، ثابت، حمید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نماز میں اس حال میں شریک ہوا کہ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اس نے کہا اَللہ اَکبَر اَلحَمدُ ِللہِ حَمدًا کَثِیرًا طَیِّباً مُبَارَکاً فِیہِ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ، یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ اور اس نے کوئی نامناسب بات نہیں کی پس وہ شخص بولا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کلمات میں نے کہے تھے جب میں آیا تو میری سانسیں پھولی ہوئی تھی پس یہ کلمات میں نے پڑھے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے بارہ فرشتے دیکھے جو ان کلمات کو عرش پر لے جانے کے لیے ان کی طرف لپک رہے تھے اس روایت میں حمید نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے آئے تو درمیانہ چال چل کر آئے نماز کا جس قدر حصہ ملے پڑھ لے اور جو رہ جائے اس کو بعد میں پوار کر لے۔

 

عمرو بن مرزوق، شعبہ، عمرو بن مرہ، عاصم، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک نماز پڑھتے ہوئے دیکھا عمرو بن  مرزوق کا بیان ہے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی نماز تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا وَسُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا ثَلَاثًا أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ الشَّیْطَانِ مِنْ نَفْخِہِ وَنَفْثِہِ وَہَمْزِہِ نَفَثَہ سے مراد شعر و شاعری اور، نفخہ سے مراد غرور اور گھمنڈ اور، ہمزہ سے مراد وسوسہ اور جنون ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، مسعر، عمرو بن مرہ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نفل نماز میں یہ پڑھتے ہوئے سنا ہے اس کے بعد اوپر والی دعا ذکر کی۔

 

محمد بن رافع، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ازہر بن سعید، حضرت عاصم بن حمید سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے نوافل کس دعا سے شروع فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی ہے جو اب تک کسی نے نہ پوچھی تھی فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے تو دس مرتبہ تکبیر کہتے دس مرتبہ اَلحَمدُ ِللہ کہتے دس مرتبہ سُبحَانَ اللہ کہتے دس مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہتے اور دس مرتبہ استغفار پڑھتے اور پھر فرماتے ۔ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی۔ اور پناہ مانگتے تھے قیامت کے دن کھڑے ہونے کی تنگی سے ابو داؤد کہتے کہ خالد بن معدان نے بھی بواسطہ ربیعہ جرشی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔

 

ابن مثنی، عمر بن یونس، عکرمہ، یحیٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رات میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کس دعا سے نماز کا آغاز فرماتے؟ انہوں نے فرمایا، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنی نماز اس دعا سے شروع کرتے تھے ۔ اللَّہُمَّ رَبَّ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ إِنَّکَ أَنْتَ تَہْدِی مَنْ تَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ۔

 

محمد بن رافع، ابو نوح، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔

 

حضرت قعنبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سے روایت ہے کہ امام مالک کا کہنا ہے کہ نماز فرض ہو یا نفل اس کے اول، اوسط اور آخر میں دعا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 

قعنبی، مالک، نعیم بن عبد اللہ، علی بن یحییٰ، حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو آپ نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا ایک شخص نے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑا تھا اس نے کہا ربنا لک الحمد حمدا ً کثیرا ً طیبا ً مبارکاً فیہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ اس شخص نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے کہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا جو اس دعا کو لکھنے کے لیے لپک رہے تھے کہ دیکھیں کون پہلے لکھتا ہے۔

 

"عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابو زبیر، طاؤس، مالک، ابو زبیر، طاؤس ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ درمیان شب میں جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے یے اٹھتے تو فرماتے۔

 

اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اللَّہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِی لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ ۔”

 

ابو کامل، خالد، عمران بن مسلم قیس بن سعد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز تہجد میں اللہ اکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہی دعا ذکر کی جو اوپر گزر چکی ہے۔

 

قتیبہ بن سعید بن عبد الجبار، قتیبہ، رفاعہ بن یحیٰ بن عبد اللہ، رفاعہ بن رافع سے روایت کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھ کو چھینک آ گئی میں نے کہا الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ نماز میں یہ کلمات کس نے کہے تھے پھر ویسی ہی حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزر چکی ہے اور اس سے بھی زیادہ۔

 

عباس بن عبد العظیم، یزید بن ہارون، شریک، عاصم بن عبید اللہ، حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری نوجوان کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے چھینک آ گئی اس نے کہا الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ حَتَّی یَرْضَی رَبُّنَا وَبَعْدَمَا یَرْضَی مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ کہنے والا کون تھا؟ وہ نوجوان خاموش رہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ دریافت فرمایا اور کہا اس نے کچھ برا نہیں کیا تب وہ نوجوان بولا یا رسول اللہ میں نے محض خیر کی نیت سے کہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کلمہ رحمن کے عرش سے پہلے کہیں نہیں رکا۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھنا

 

عبدالسلام بن مطہر، جعفر، علی بن علی، ابو متوکل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رات میں نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اولا تکبیر کہتے اس کے بعد یَقُولُ سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرَکَ۔ پڑھتے پھر تین مرتبہ لَا اِلٰہَ اِللہ کہتے۔ پھر تین مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ثَلَاثًا أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ پڑھتے اور پھر قرأت فرماتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ محدثین نے اس حدیث کو عن علی بن علی عن الحسن مرسلا ً روایت کیا ہے (یعنی اس نے ابو سعید خدری کا حوالہ نہیں ہے) اس میں وہم جعفر کی طرف سے ہے۔

 

حسین بن عیسیٰ، طلق بن غنام، عبد السلام، بن حرب، بدیل بن میسرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز شروع فرماتے تو سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرَکَ پڑھتے، ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث عبد السلام بن حرب کے واسطہ سے مشہور نہیں ہے عبد السلام کے واسطہ سے اس کو صرف طلق بن غنام نے روایت کیا ہے اور بدیل سے ایک جماعت نے نماز کا قصہ روایت کیا ہے مگر کسی نے بھی یہ دعا سوائے عبد السلام کے کسی نے ذکر نہیں کی۔

 

                   نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان

 

یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل، یونس، حضرت حسن بصری نے روایت کیا ہے کہ حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ مجھے نماز میں دو جگہ سکتے یاد ہیں ایک تکبیر تحریمہ کے بعد قرأت تک، دوسرے فاتحہ اور سورت سے فراغت کے بعد رکوع کے وقت، عمران بن حصین نے اس کا انکار کیا ہے لوگوں نے اس مسئلہ کے متعلق مدینہ میں حضرت ابی بن کعب کو لکھا آپ نے حضرت سمرہ کی تصدیق کی ابو داؤد نے کہا کہ حمید نے بھی اس حدیث میں قرأت سے فارغ ہونے پر سکتہ کا ذکر کیا ہے۔

 

ابو بکر بن خلاد، خالد بن حارث، اشعث، حضرت حسن، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو جگہ سکتہ کرتے تھے ایک نماز کے آغاز میں (یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد) دوسرے جب قرأت سے پوری طرح فارغ ہو جاتے (یعنی رکوع سے قبل) اس کے بعد کا مضمون، اشعث، نے حدیث یونس (مذکورہ بالا) کی طرح ذکر کیا۔

 

مسدد، یزید، سعید، قتادہ، حسن، سمرہ، بن جندب، عمران بن حصین، حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ سمرہ بن جندب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمران بن حصین رضی اللہ عنہ آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے سمرہ نے کہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دو سکتے یاد کیے ہیں ایک سکتہ تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسرا سکتہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غَیْرِالْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ پڑھ چکتے عمران بن حصین نے اس کو نہ مانا انہوں نے (اپنے اختلاف کو) ابی بن کعب کے پاس لکھا حضرت ابی بن کعب نے جواب میں فرمایا کہ سمرہ نے ٹھیک یاد رکھا۔

 

ابن مثنی، عبد الاعلی، سعید، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دو سکتے مجھے یاد ہیں سعید کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ دو سکتے کون سے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک جب نماز میں داخل ہو دوسرا جب قرأت سے فارغ ہو اس کے بعد کہا یعنی جب وہ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کہہ چکے۔

 

احمد بن ابی شعیب، محمد بن فضیل، عمارہ، ابو کامل، عبد الوحد، عمارہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو تکبیر اور قرأت کے درمیان کچھ دیر کے لیے سکوت فرماتے میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، بتائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر اور قرأت کے درمیان سکتہ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں یہ دعا پڑھتا ہوں اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّہُمَّ أَنْقِنِی مِنْ خَطَایَایَ کَالثَّوْبِ الْأَبْیَضِ مِنْ الدَّنَسِ اللَّہُمَّ اغْسِلْنِی بِالثَّلْجِ وَالْمَائِ وَالْبَرَدِ۔

 

                   بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ سے قرأت شروع فرماتے تھے۔

 

مسدد، عبد الوارث، بن سعید، حسین، بدیل بن میسرہ، ابو جواز، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کو شروع فرماتے اللہ اکبر کہہ کر اور قرأت شروع فرماتے تھے الحمد للہ رب العالمین سے اور جب رکوع کرتے تھے تو سر کو نہ تو اونچا رکھتے تھے اور نہ نیچا بلکہ درمیان میں رکھتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو سجدہ نہ کرتے تھے جب تک کہ سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے اور اسی طرح جب ایک سجدہ کے بعد سر اٹھاتے تھے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے تھے جب تک کہ سیدھے نہ بیٹھ جاتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور جب بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے شیطان کی طرح بیٹھنے سے اور منع فرماتے تھے (سجدہ میں) درندے کی طرح ہاتھ بچھانے سے اور نماز کو سلام سے ختم فرماتے تھے۔

 

ہناد بن سری، ابن فضیل، مختار بن فلفل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ نازل ہوئی ہے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھا بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورت ختم فرما دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو، کوثر، کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، کوثر، ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے جنت میں مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

 

قطن بن نسیر، جعفر، حمید اعرج، ابن شہاب، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے قصہ تہمت روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے، اپنا چہرہ مبارک کھولا اور أَعُوذُ بِا اللہِ بِالسَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ کہ بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں إِنَّ الَّذِینَ جَائُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اس کو زہری سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے لیکن کسی نے یہ کلام اس طرح ذکر نہیں کیا میں ڈرتا ہوں کہ أَعُوذُ بِا اللہِ الخ شاید حمید کا قول ہے۔

 

عمرو بن عون، ہشیم، عوف، یزید، حضرت یزید فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان سے پوچھا کہ آپ نے سورۂ برات کو جو مئین میں سے ہے اور سورہ انفال جو مثانی میں سے ہے سات لمبی سورتوں میں کیوں شامل کر دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ کیوں نہ لکھی؟ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آیات نازل ہوتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کاتب کو بلا کر فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں رکھ جس میں فلاں قصہ مذکور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک ایک دو دو آیات نازل ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی فرمایا کرتے تھے سورہ انفال مدینہ میں آنے کے بعد ابتداء میں نازل ہوئی اور سورہ برات آخر میں اور ان دونوں کا قصہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے اس لیے مجھے گمان ہوا کہ شاید سورہ برات سورہ انفال کا ہی حصہ ہو اس لیے میں نے ان دونوں کو ملا کر سات لمبی سورتوں میں شامل کر دیا اور اسی وجہ سے میں نے ان کے درمیان بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ نہیں لکھی۔

 

زیاد بن ایوب، مروان، ابن معاویہ، عوف، یزید فارسی نے حضرت ابن عباس سے اسی کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پا گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بیان نہیں کیا کہ سورت برات انفال میں سے ہے، ابو داؤد کہتے ہیں کہ شعبی، ابو مالک، قتادہ اور ثابت بن عمارہ نے کہا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ لکھی یہاں تک کہ سورہ نمل نازل ہوئی۔

 

قتیبہ بن سعید، احمد بن محمد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک سورت کا دوسری سورت سے جدا ہونا نہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بسم اللہ نازل ہوئی اس حدیث کے الفاظ ابن سرح کے ہیں۔

 

                   دوران نماز کوئی حادثہ پیش آ جانے پر نماز میں تخفیف کی جا سکتی ہے

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، عمرو بن عبد الوحد، بشر، بن بکر، اوزاعی، یحیٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نماز میں اس ارادے سے کھڑا ہوتا ہوں کہ لمبی قرأت کروں گا مگر پھر کسی بچے کا رونا سن کر قرأت مختصر کر دیتا ہوں تاکہ اس کی ماں پر اس کا رونا شاق نہ گزرے۔

 

                   نماز میں ثواب کم ہونے کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، بکر، ابن مضر، ابن عجلان، سعید، عمر بن حکم، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی نماز پڑھ کر اس حال میں لوٹتا ہے کہ کبھی اس کے لیے نماز کا دسواں، نواں، آٹھواں سا تواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تہائی اور آدھا اجر لکھا جاتا ہے۔

 

                   نماز کو ہلکا کرنے کا بیان

 

احمد بن حنبل، سفیان، نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے سنا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے اور پھر واپس آ کر ہماری امامت کیا کرتے تھے (عمر بن دینار نے) کبھی یوں روایت کیا کہ پھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے (ایک مرتبہ) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رات کی نماز تاخیر سے پڑھی اور کبھی (عمر بن دینار نے بجائے رات کی نماز کے) عشاء کی نماز کہا، پس حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی اور واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں سورہ بقرہ پڑھی پس ایک شخص جماعت سے الگ ہو گیا اور اپنی نماز الگ پڑھ لی لوگوں نے کہا تو منافق ہو گیا ہے اس نے کہا نہیں میں منافق نہیں ہوں پس وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ معاذ رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور پھر واپس آ کر وہی نماز ہمیں پڑھاتے ہیں اور ہم لوگ دن بھر اونٹوں کے ذریعہ سے دن بھر پانی سینچتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں (اس لیے ہم تھک جاتے ہیں) آج ان صاحب نے ہمیں نماز پڑھائی تو سورہ بقرہ پڑھی (یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) اے معاذ تم لوگوں کو فتنہ میں ڈال دو گے تم لوگوں کو فتنہ میں ڈال دو گے تمہیں چاہیے کہ یہ اور یہ سورتیں پڑھا کرو (سفیان نے کہا) کہ ابو الزبیر کی روایت میں (ان سورتوں کے نام بھی مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں) سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَی پس ہم نے عمر بن دینار سے اس کی وضاحت چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ (جابر بن عبد اللہ نے) ان سورتوں کا ذکر کیا تھا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، طالب بن حبیب، عبد الرحمن بن جابر، حضرت حزم بن کعب سے روایت ہے کہ وہ حضرت معاذ بن جبل کے پاس آئے وہ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اس حدیث میں (نماز مغرب کا ذکر ہے جبکہ پہلی روایت میں نماز عشاء کا ہے قول راجح عشاء کا قول ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے معاذ (لمبی قرأت کر کے) لوگوں کو فتنہ میں نہ ڈال کیونکہ تیرے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بوڑھے بھی ہیں، کمزور بھی ہیں کام کاج کرنے والے اور مسافر بھی ہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، سلیمان بن ابو صالح، ابو صالح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے پوچھا کہ تو نماز کے قعدہ اخیرہ میں کیا کہتا ہے؟ (یعنی کیا دعا کرتا ہے؟) اس نے کہا پہلے میں تشہد پڑھتا ہوں پھر یہ دعا کرتا ہوں اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے تیری پناہ میں آتا ہوں، لیکن میں ٹھیک سے آپ کی آواز نہیں سن پاتا ہوں اور نہ ہی معاذ کی (جو ہماری امامت کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم بھی اس جنت کے گرد گھومتے ہیں (یعنی ہماری دعائیں بھی جنت کی طلب پر مشتمل ہوتی ہیں)۔

 

یحیٰ بن حبیب، خالد بن حارث، محمد بن عجلان، حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ اے بھتیجے جب تو نماز پڑھتا ہے تو کیا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں اور جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ چاہتا ہوں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہیں سن پاتا اور نہ معاذ کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اور معاذ دونوں انہیں دونوں کے گرد پھرتے ہیں (یعنی ہماری دعاؤں کا حاصل بھی جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ ہے) یا اسی کی ماند کچھ کہا۔

 

قعنبی، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو قرأت ہلکی کرے کیونکہ (مقتدیوں میں) کمزور بھی ہوتے ہیں بیمار بھی اور بوڑھے بھی اور جب تنہا نماز پڑھے تو جس قدر چاہے لمبی پڑھے۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بیمار بھی ہیں بہت بوڑھے بھی اور ضرورت والے بھی۔

 

                   ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، قیس، بن سعد، عمارہ، بن میمون، حبیب، عطاء، بن ابو رباح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر نماز میں قرأت کرتے تھے پس جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو قرأت سنائی (یعنی بلند آواز سے قرأت کی) ہم نے بھی تم کو سنا دی اور جس نماز میں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم پر قرأت کو مخفی رکھا (یعنی آہستہ پڑھی) ہم نے بھی تم پر مخفی رکھا۔

 

مسدد، یحییٰ، ہشام، بن ابی عبد اللہ، ابن مثنی، ابن ابی عدی، حجاج، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت بھی پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہم کو ایک آیت (زور سے پڑھ کر) سنا بھی دیتے تھے اور ظہر کی پہلی رکعت دوسری کی بہ نسبت لمبی پڑھتے تھے اور ایسا ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کی نماز میں بھی کرتے تھے (یعنی پہلی رکعت طویل اور دوسری ذرا مختصر) ابو داؤد کہتے ہیں کہ (ابن مثنیٰ نے سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کا ذکر کیا ہے مگر) مسدد نے فاتحہ الکتاب اور سورت کا ذکر نہیں کیا۔

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، ہمام، ابان بن یزید، عطار، یحییٰ، عبد اللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ سے (مندرجہ بالا حدیث کا) بعض حصہ اسی طرح مروی ہے (البتہ حسن بن علی نے) یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ کی آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے تھے (اور یزید بن ہارون نے) بسند ہمام یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت کو جتنا طویل کرتے تھے اتنا دوسری رکعت کو نہیں کرتے تھے اور ایسا ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر اور فجر کی نماز میں کرتے تھے

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، یحییٰ، عبد اللہ بن ابی قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پہلی رکعت کو طویل کرنا اس غرض سے تھا تاکہ لوگ پہلی رکعت میں شامل ہو جائیں

 

مسدد، عبد الواحد بن زیاد، اعمش، عمارہ، بن عمیر، حضرت ابو معمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم نے پوچھا یہ تم کس چیز سے سمجھتے تھے؟ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ریش مبارک کی حرکت کرنے سے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، عفان، ہمام، محمد بن جحادہ، حضرت عبد اللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر کی پہلی رکعت میں (اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ نماز میں آنے والوں کے) قدموں کی آواز آنا بند ہو جاتی۔

 

                   آخر کی دو رکعتوں میں مختصر قرأت کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، محمد بن عبید اللہ ابی عون، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے فرمایا لوگ تمہاری ہر معاملہ میں شکایت کرتے ہیں یہاں تک کہ نماز کے سلسلہ میں بھی، حضرت سعد رضی اللہ نے فرمایا میں پہلی دو رکعتوں میں لمبی قرأت کرتا ہوں اور آخری دو رکعتوں میں مختصر، اور میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اتباع میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا ہوں (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بارے میں میرا ایسا ہی خیال تھا۔

 

عبد اللہ بن محمد ہشیم، ابو منصور، ولید بن مسلم، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے اندازہ لگایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں کتنی دیر کھڑے ہوتے تھے تو ہم نے اندازہ کیا کہ آپ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں اتنے دیر قیام فرماتے تھے جتنی دیر میں تیس آیتیں پڑھی جا سکتی ہیں جیسے سورہ الم اور آخر کی دو رکعتوں میں اس کے نصف کے بقدر قیام فرماتے تھے اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے بقدر، اور عصر کی آخری دو رکعتوں میں اس کا آدھا قیام فرماتے تھے۔

 

                   ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں سورہ طارق اور سورہ بروج اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھتے تھے

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، سماک، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر کی نماز پڑھتے اور اس میں وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَی جیسی سورتیں پڑھتے اور اس جیسی سورتیں عصر اور دیگر نمازوں میں بھی پڑھتے مگر فجر میں طویل قرأت فرماتے

 

محمد بن عیسیٰ، معتمر بن سلیمان، یزید بن ہارون، ہشیم، سلیمان، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز میں سجدہ کیا (یعنی سجدہ تلاوت) پھر کھڑے ہوئے اور رکوع کیا اس سے ہم سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ الم تنزیل پڑھی ہے (امام ابو داؤد کے شیخ) ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ امیہ کا ذکر سوائے معتمر کے کسی نے نہیں کیا۔

 

مسدد، عبد الوارث، موسیٰ بن سالم، حضرت عبد اللہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ میں بنی ہاشم کے چند نوجوانوں کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ ہم نے ایک نوجوان سے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں نہیں! اس کے بعد پوچھا شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دِل دِل میں پڑھتے ہوں گے۔؟ انھوں نے کہا یہ بات تو پہلی سے بھی زیادہ بری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو خدا کی طرف سے مامور بندے تھے۔ جو بھی حکم ہوا لوگوں تک پہنچا دیا اور ہم نے بنی ہاشم کو بطور خاص کوئی حکم نہیں دیا۔ سوائے تین چیزوں کے۔ ایک خوب اچھی طرح وضو کرنے کا ۔ دوسرے زکوٰۃ نہ لینے کا، تیسرے گدھے کو گھوڑی سے جفتی نہ کرنے کا ۔

 

زیاد بن ایوب، ہشیم، حصین، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت کرتے تھے یا نہیں۔

 

                   نماز مغرب میں قرأت کی مقدار

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حارث کی بیٹی ام ِفضل نے ان کو سورہ والمرسلات عرفا پڑھتے سنا تو کہا اے بیٹے یہ سورت پڑھ کر تم نے مجھے یاد دلا دیا۔ یہ سورت میں نے سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سورت نماز مغرب میں پڑھی تھی۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، محمد بن جبیر، حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، عروہ بن زبیر، حضرت مروان بن حکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت نے مجھ سے کہا کہ کیا بات ہے تم مغرب کی نماز میں صرف چھوٹی سورتیں ہی پڑھتے ہو؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز مغرب میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (ابن ابی ملیکہ) کہتے ہیں کہ میں نے (حضرت عروہ) سے پوچھا لمبی سورتوں سے مراد کونسی سورتیں ہیں؟ انھوں نے کہا سورہ اعراف اور سورہ انعام۔ (ابن جریح) کہتے ہیں کہ میں نے (ابن ابی ملیکہ) سے یہی سوال کیا تو انھوں نے اپنے شیخ سے روایت کیے بغیر اپنے طور پر کہا کہ لمبی سورتوں سے مراد) سورۃ مائدہ اور سورۃ اعراف ہے۔

 

                   مغرب کی نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (عروہ بن زبیر) مغرب کی نماز میں ویسی ہی سورتیں پڑھتے تھے۔ جیسی کہ تم پڑھتے ہو یعنی والعادیات اور اس جیسی دوسری سورتیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ (حضرت عروہ کا عمل) اس بات کی دلیل ہے کہ (مغرب میں طوال مفصل کی قرات) منسوخ ہے۔ اور ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہی صحیح ہے۔

 

احمد بن سعید، وہب، بن جریر، محمد بن اسحاق ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کہ ایسی نہیں ہے جو میں نے رسول اللہ کو فرض نمازوں کی امامت کے دوران پڑھتے ہوئے نہ سنا ہو۔

 

عبید اللہ بن معاذ، قرہ، نزا، بن عمار، حضرت ابو عثمان نہدی سے روایت ہے کہ انھوں نے عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے مغرب کی نماز پڑھی جس میں انھوں نے سورہ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھی تھی۔

 

                   دو رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کا بیان

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو، ابن ابی ہلال، حضرت معاذ بن عبد اللہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینیہ کے ایک شخص نے ان کو بتایا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں سورہ إِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ پڑھتے ہوئے سنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (دو بار ایک ہی سورت) بھول کر پڑھی ہے یا جان بوجھ کر۔

 

                   نماز فجر میں قرأت کا بیان

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ بن یونس، اسماعیل، حضرت عمرو بن حریث سے روایت ہے کہ مجھے اس طرح یاد ہے گویا میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز فجر میں فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِی الْکُنَّسِ آیت والی سورت یعنی سورہ تکویر) پڑھتے ہوئے سن رہا ہوں۔

 

                   نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان

 

ابو ولید، ہمام، قتادہ، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں ہم کو سورہ فاتحہ پڑھنے اور جو آسان ہو۔ اس کے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، جعفر، بن میمون، ابو عثمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا جا مدینہ میں یہ اعلان کر دے کہ۔ قرآن کے بغیر نماز درست نہیں اگرچہ سورہ فاتحہ ہی ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور۔

 

ابن بشار، یحییٰ، جعفر، ابو عثمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ نماز درست نہیں بغیر سورہ فاتحہ کے اور کچھ زیادہ۔

 

قعنبی، مالک، علاء، بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔ راوی نے کہا میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ اللہ تعالی فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ اللہ تعالی فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) الفاتحہ) اللہ تعالی فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔

 

قتیبہ بن سعید ابن سرح، سفیان، زہری، محمود، بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہو گی۔ جس نے سورہ فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔ سفیان نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔

 

عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمودبن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرأت شروع کی مگر لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے قرأت کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

 

ربیع بن سلیمان، عبد اللہ بن یوسف، ہیثم، بن حمید، زید بن واقد، حضرت نافع بن محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت نے نماز فجر کے واسطے نکلنے میں تاخیر کی تو ابو نعیم نے تکبیر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کر دی۔ اتنے میں عبادہ بھی آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف باندھ لی۔ ابو نعیم با آواز بلند قرأت کر رہے تھے۔ انھوں نے جواب دیا ہاں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بآواز بلند قرأت فرما رہے تھے (مگر مقتدیوں کی قرأت کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب نماز ختم ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا۔ جب میں بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہوں تو کیا تم جب بھی (میرے پیچھے) قرأت کرتے ہو؟ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا۔ ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا مت پڑھا کرو۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھ سے قرآن چھینے لے جا رہا ہے۔ لہذا جب میں زور سے پڑھا کروں تب تم سوائے سورہ فاتحہ کے قرآن مت پڑھا کرو۔

 

علی بن سہل، ولید بن جابر سعید بن عبد العزیز، عبد اللہ بن علاء، حضرت مکحول نے حضرت عبادہ سے سابقہ حدیث کی طرح ایک روایت اور بیان کی ہے۔ (مکحول کے شاگرد) کہتے ہیں کہ حضرت مکحول مغرب، عشاء اور فجر کی ہر رکعت میں ستراً سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ مکحول نے کہا جہری نماز میں جب امام سورہ فاتحہ پڑھ کر سکتہ کرے تو اس وقت مقتدی کو ستراً سورہ فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اگر وہ سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لے چھوڑے نہیں۔

 

                   جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابن اکیمہ، لیثی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک نماز سے فارغ ہوئے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہری قرأت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ساتھ قرأت کی تھی؟ ایک شخص نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے قرأت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تبھی تو میں سوچ رہا تھا کہ آخر مجھ کو کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھ سے قرآن چھینے لے رہا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد سے لوگ جہری نماز میں قرأت کرنے سے رک گئے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زری سے مالک کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے۔

 

مسدد، احمد بن محمد، بن ابی خلف، عبد اللہ بن محمد، ابن سرح، سفیان، ابن اکیمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نماز پڑھائی شاید وہ فجر کی نماز تھی۔ پھر، ، ما ان زع القرآن، تک اسی طرح روایت کیا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسدد نے اپنی حدیث میں معمر کا قول ذکر کیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر لوگ پڑھنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہرًا قرأت کرتے تھے اور ابن السرح نے اپنی حدیث میں بواسطہ معمر زہری سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کیا ہے کہ لوگ رک گئے اور عبد اللہ بن محمد زہری نے سفیان کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ امام زہری نے ایک کلمہ ذکر کیا جو میں ان سے براہ راست نہ سن سکا تو معمر نے بتایا کہ وہ کلمہ مالی انا زع القران پر ختم ہے اور اس کو اوزاعی نے بھی زہری سے روایت کیا۔ اس میں زہری کا یہ قول ہے کہ پھر مسلمان نے اس سے نصیحت حاصل کی اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ان نمازوں میں قرأت نہیں کرتے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہراً قرأت فرماتے تھے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحیٰ بن فارس سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ فانہتی الناس زہری کا کلام ہے۔

 

                   غیر جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت کا بیان

 

ابو ولید، شعبہ، محمد بن کثیر، شعبہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے سبح اسم ربک الاعلی پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا تم میں سے کس نے قرأت کی تھی؟ لوگوں نے کہا فلاں شخص نے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں سمجھ گیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے قرآن میں جھگڑ رہا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو الولید کی حدیث میں ہے کہ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ سے کہا کہ کیا یہ سعید کا قول نہیں ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کر انھوں نے کہا یہ اس وقت ہے جب پکار کر پڑھا جائے اور ابن کثیر کی روایت میں یوں ہے کہ شعبہ نے قتادہ سے کہا شاید آپ نے قرأت کو ناپسند فرمایا قتادہ نے کہا اگر ناپسند فرماتے تو منع فرما دیتے۔

 

ابن مثنی، ابن عدی، سعید، قتادہ، زرارہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو پوچھا تم میں سے کس نے سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی پڑھی تھی۔؟ ایک شخص نے کہا میں نے پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں سمجھا گویا مجھ سے کلام اللہ چھینا جا رہا ہے۔

 

                   امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے

 

وہب بن بقیہ، خالد، حمید، اعرج، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور ہم قرآن پڑھ رہے تھے۔ ہم میں اعرابی بھی تھے اور عجمی بھی (یعنی ان کی قرأت درست نہ تھی اور وہ درست پڑھنے میں معذور تھے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (تم جس طرح بھی پڑھ سکتے ہو) پڑھو۔ تمھارا پڑھنا ٹھیک ہے عنقریب ایسے لوگ ہوں گے جو قرأت قرآن کو اس طرح درست کریں گے جیسے تیر کو درست کیا جاتا ہے۔ (یعنی تجوید میں مبالغہ کریں گے۔) اور اس سے ان کا مقصد دنیا ہو گی دین نہ ہو گا۔

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، عمرو ابن لہیعہ بکر بن سوادہ، وفاء بن شریح، حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے (یہ دیکھ کر (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اَلحَمدُ ِللہِ! اللہ کی کتاب ایک ہے اور تم پڑھنے والوں میں سرخ بھی ہیں، سفید بھی ہیں اور کالے بھی۔ قرآن پڑھو اس سے پہلے کہ وہ لوگ پیدا ہوں جو قرآن کو اس طرح درست کریں گے جس طرح تیر درست کیا جاتا ہے مگر اس سے ان کی غرض دنیا ہو گی آخرت نہ ہو گی۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، سفیان، ابو خالد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں کچھ بھی قرآن یاد نہیں کر سکتا اس لیے مجھ کو کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جو اس کے بدلہ میں میرے لئے کافی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ پڑھا کر سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کلمات تو اللہ تعالی کی تعریف کے لئے خاص ہیں میرے فائدہ کے لئے اس میں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ پڑھا کر اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی وَاہْدِنِی۔ پس جب وہ جانے لگا تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا (کہ میں نے اتنی دولت پائی) (یہ دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس نے خیر سے اپنا ہاتھ بھر لیا۔

 

ابو توبہ، ربیع، نافع، ابو اسحاق ، حمید، حسن، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نفل نماز میں کھڑے اور بیٹھے دعا کرتے تھے۔ اور رکوع و سجود میں تسبیح پڑھتے تھے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد نے بھی حمید سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ مگر اس میں حماد نے نفل نماز کا ذکر کیا۔ حمید نے کہا کہ حسن بصری ظہر اور عصر کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے تھے امام ہونے کی حالت میں یا امام کے پیچھے، اور سورہ ق اور سورہ والذاریات کے بقدر تسبیح و تکبیر و تہلیل کرتے تھے۔

 

                   نماز میں تکبیرات کی تکمیل کا بیان

 

سلیمان بن حرب، حماد، غیلان بن جریر، حضرت مطرف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے اور ایسے ہی جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔ جب ہم نماز سے فارغ ہو گئے تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا انھوں نے (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے) ایسی نماز پڑھی یا یہ کہا کہ ایسی نماز پڑھائی جیسے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھائی تھی۔

 

عمرو بن عثمان، ابو بقیہ، شعیب، زہری، حضرت ابو بکر بن عبد الرحمن اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے۔ خواہ وہ فرض ہوتی یا غیر فرض، وہ تکبیر کہتے تھے جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پھر وہ تکبیر کہتے تھے جب رکوع میں جاتے تھے پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعدسَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے پھر سجدہ سے پہلے ربنا ولک الحمد کہتے پھر جب سجدہ میں جاتے تو تکبیر کہتے پھر جب پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے پھر جب دوسرا سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے پھر جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے پھر جب دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکیبر کہتے اور پھر ایسا ہی ہر رکعت میں کرتے، یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے پھر جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو کہتے۔ بخدا نماز کے معاملہ میں میں تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشابہ ہوں۔ بیشک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابو اؤد کہتے ہیں کہ یہ آخری کلام مالک اور زبیدی وغیرہ نے بطریق زہری علی بن حسین سے روایت کیا ہے اور عبد الاعلی نے بواسطہ معمر زہری سے روایت کرتے ہوئے شعیب بن حمزہ کی موافقت کی ہے۔

 

محمد بن بشار، ابن مثنی، ابو داؤد، شعبہ، حسن بن عمران، ابن بشار، ابو داؤد، ابو عبد اللہ بن ابزی، حضرت عبد الرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے آپ تکبیر تمام نہیں کرتے تھے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے اور سجدہ کا ارادہ کرتے تو تکبیر نہیں کہتے تھے اور جب سجدہ سے اٹھتے تب بھی تکبیر نہیں کہتے تھے۔

 

                   سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنوں کو رکھے یا ہاتھوں کو

 

حسن بن علی، حسین بن عیسیٰ، یزید بن ہارون، شریک، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے تو زمین پر پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھٹنے رکھتے اور بعد میں ہاتھ اور جب سجدہ سے اٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو اٹھاتے۔

 

محمد بن معمر حجاج، بن منہال، ہمام، محمد بن جحادہ، حضرت عبد الجبار بن وائل رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنے زمین پر پڑتے۔ ہمام نے شفیق، عاصم بن کلیب، ان کے والد سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے ان دونوں کی حدیث میں سے کسی ایک میں، اور گمان غالب یہ ہے محمد بن حجادہ کی حدیث میں، یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ سے رکعت کے لئے اٹھتے تو رانوں کے سہارے گھٹنوں کے بل پر کھڑے ہوتے۔

 

سعید بن منصور، عبد العزیز، بن محمد بن عبد اللہ بن حسن، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔

 

قتیبہ بن سعید، عبد اللہ بن نافع، محمد بن عبد اللہ بن حسن ابو زناد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص نماز میں اس طرح بیٹھتا ہے جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے۔

 

                   پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان

 

مسدد، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو سلیمان مالک بن الحویرث ہماری مسجد میں آئے اور فرمایا بخدا میں نماز پڑھوں گا اور اس نماز کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ تم کو دکھلاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح نماز پڑھتے تھے۔ ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ مالک بن حویرث نے کس طرح نماز پڑھی؟ انھوں نے کہا جس طرح ہمارے یہ شیخ یعنی عمرو بن سلمہ پڑھتے ہیں انھوں نے بیان کیا۔ کہ جب وہ پہلی رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔

 

زیاد بن ایوب، اسماعیل، ایوب، ابو قلابہ، ابو سلیمان مالک بن حویرث، حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث ہماری مسجد میں آئے اور فرمایا میں نماز پڑھوں گا لیکن میری نیت نماز کی نہیں ہو گی بلکہ یہ ہو گی کہ میں تم کو دکھلادوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے راوی کہتے ہیں کہ جب انھوں نے آخری سجدہ سے سر اٹھایا تو دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہونے سے پہلے ذرا دیر کے لئے بیٹھ گئے۔

 

مسدد، ہشیم، خالد ابو قلابہ، حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ پہلی یا تیسری رکعت سے اٹھتے تو کھڑے نہ ہوتے جب تک کہ سیدھے نہ بیٹھ جاتے۔

 

                   دو سجدوں کے بیچ میں اقعاء کرنے کا بیان

 

یحیٰ بن معین، حجاج، بن محمد، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سجدہ میں اقعاء کے متعلق دریافت کیا انھوں نے فرمایا یہ سنت ہے ہم نے کہا ہم تو اس کو پاؤں پر ظلم سمجھتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت ہے۔

 

                   آدمی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے

 

محمد بن عیسیٰ، عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، وکیع، محمد بن عبید، اعمش، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تو فرماتے سمع اللہ لحمن حمدہ۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری اور شعبہ بن حجاج نے اس حدیث کو عبید اور الحسن سے روایت کیا ہے مگر اس حدیث میں بعد الرکوع نقل نہیں کیا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو شعبہ نے بو اسطہ ابو عصمہ، بسند اعمش عبید سے روایت کیا ہے۔ اس میں بعد الرکوع ہے۔

 

مومل بن فضل، ولید، محمود بن خالد ابو مسہر، ابن سرح، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ اللَّہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَاءِ (مؤمل نے بجائے السماء کے السموت نقل کیا ہے۔ ) ِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ محمود نے یہ اضافہ کیا وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ اس کے بعد کے الفاظ پر سب کا اتفاق ہے وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔ اور بشر نے کہا رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔ محمود نے اَللَّہُمَّ نہیں کہا۔ کہا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابو صالح، سمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ۔ کہے تو تم اللَّہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے مطابق ہو گا اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

 

بشر بن عمار، مطرف، عامر نے کہا کہ امام کے پیچھے کھڑے ہونے والے لوگ سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ نہ کہیں۔ بلکہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہیں۔

 

                   دو سجدوں کا درمیان کی دعا

 

محمد بن مسعود، زید بن حباب، کامل ابو علاء، حبیب بن ابی ثابت، سعید، بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَعَافِنِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی۔ (یعنی اے اللہ میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر، مجھے عافیت دے، ہدایت دے اور رزق دے۔

 

                   عورتیں جب جماعت میں شامل ہوں تو مردوں کے بعد سجدہ سے سر اٹھائیں

 

محمد بن متوکل، عبد الرزاق، معمر، عبد اللہ بن مسلم، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھائے جب تک کہ مرد اپنا سر نہ اٹھا لیں تاکہ مردوں کے ستر پر نگاہ نہ پڑے۔

 

                   رکوع کے بعد اور سجدوں کے درمیان وقفہ کی مدت

 

حفص بن عمر، شعبہ، حکم بن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سجدے، رکوع اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مدت تقریباً برابر ہوتی تھی۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، حمید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز پڑھتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ۔ کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم خیال کرتے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور دو سجدوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں۔

 

مسدد، ابو کامل، ابو عوانہ، ہلال، بن ابی حمید، عبد الرحمن بن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں بطور خاص دیکھا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قیام کو رکوع و سجود کی طرح، اسی طرح قومہ کو سجدہ کی طرح اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ اور رکوع سجدہ اور پھر سلام تک بیٹھنا سب کو قریب قریب برابر کے پایا۔ ابو داؤد نے کہا کہ مسدد کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اعتدال اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ اور پھر دوسرا سجدہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جلسہ اور سلام کے بعد لوگوں کی طرف پھرنے تک، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام ارکان کو اعتدال و اطمینان کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔

 

                   جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی

 

حفص بن عمر، شعبہ، سلیمان، عمارہ بن عمیر، حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی کی نماز درست نہیں ہوتی جب تک کہ اپنی پیٹھ رکوع و سجود میں سیدھی نہ کرے۔

 

قعنبی، انس، ابن عیاض، ابن مثنی، یحیٰ بن سعید، عبید اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے اتنے میں ایک شخص مسجد میں آیا اور اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی وہ شخص واپس گیا اور دوبارہ نماز پڑھی جیسا کہ پہلے نماز پڑھی تھی پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور دوبارہ جا اور پھر سے نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ تب وہ شخص بولا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچاّ نبی بنا کر بھیجا ہے مجھے نماز پڑھنا سکھا دیجئے کیونکہ میں اس سے بہتر نماز پڑھنا نہیں جانتا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تو نماز کے لیے اٹھے تو تکبیر کہہ، پھر جس قدر تجھ سے ہو سکے قرآن میں سے پڑھ، پھر اطمینان سے رکوع کر۔ پھر سیدھا کھڑا ہو جا، پھر اطمینان سے سجدہ کر، پھر اطمینان سے بیٹھ اور ساری نماز میں ایسا ہی کر۔۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ قعنبی نے بسند سعید بن ابو سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اس کے آخر میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تو ایسا کر چکا تو تیری نماز پوری ہو گئی اور تو نے جو کچھ اس میں سے کم کیا تو اپنی نماز میں سے کم کیا، نیز اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو وضو کو پورا کر۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، علی بن یحییٰ کے چچا سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں آیا (اس کے بعد سابقہ حدیث کا مضمون ذکر کیا) اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی کی نماز نہیں ہوتی جب تک کہ اچھی طرح وضو نہ کرے پھر تکبیر کہے اور اللہ تعالی کی حمدو ثنا کرے اور قرآن مجید میں سے پڑھے جس قدر چاہے، پھر اللہ اکبر کہے، اور رکوع کرے اطمینان سے اس طرح پر کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسرا سجدہ کرے اطمینان کے ساتھ اس طرح پر کہ سب جوڑا اپنی جگہ پر آ جائیں پھر سر اٹھائیں اور تکبیر کہے اور جب وہ ایسا کر چکے تو اس کی نماز ہو گئی۔

 

حسن بن علی، ہشام بن عبد الملک، حجاج بن منہال، ہمام، اسحاق بن یحیٰ بن خلاد، حضرت رفاعہ بن رافع سے بھی اسی طرح مروی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وضو کو پورا نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کو کرنے کا حکم دیا ہے یعنی وہ اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، سر کا مسح کرے اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے اس کے بعد اللہ کی بڑائی بیان کرے اور اس کی حمد و ثناء کرے۔ پھر قرآن مجید میں سے پڑھے جس قدر آسان ہو۔ اس کے بعد حماد کی حدیث کے مثل بیان کیا۔ اس کے بعد فرمایا پھر تکبیر کہہ کر سجدہ کرے تو اپنا منہ اطمینان سے زمین پر رکھ دے یہاں تک کہ جوڑ آرام پائیں اور ڈھیلے پڑ جائیں پھر تکبیر کہے اور اپنی سرین پر بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ جائے اور پیٹھ کو سیدھا کرے اسی طرح نماز کی چاروں رکعتوں کے متعلق بیان فرمایا فارغ ہونے تک۔ فرمایا تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ ایسا نہ کرے۔

 

وہب بن بقیہ، خالد، محمد، ابن عمرو، علی بن یحیٰ بن خلاد، حضرت رفاعہ بن رافع سے یہی قصہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ جس میں یہ ہے کہ جب تو کھڑا ہو تو قبلہ کی طرف منہ کر، تکبیر کہہ اور سورہ فاتحہ پڑھ اور جو اللہ چاہے قرآن میں سے پڑھ اور جب تو رکوع کرے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھ اور پشت کو سیدھا رکھ اور جب تو سجدہ کرے تو اپنے سجدے میں ٹھر جا اور جب تو سر اٹھائے تو اپنی بائیں ران پر بیٹھ۔

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، محمد بن اسحاق ، علی بن یحیٰ بن خلاد بن رافع، حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ ایک اور سند سے بھی مذکور ہے اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو اللہ عزوجل کی تکبیر کہہ پھر جہاں سے تیرے لئے آسان ہو قرآن میں سے پڑھ۔ اور جب تو نماز کے بیچ میں یعنی پہلے قعدہ میں بیٹھے تو اطمینان سے بیٹھ اور بائیں ران کو بچھا پھر تشہد پڑھ۔ اور جب تو دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو پھر ایسا ہی کر یہاں تک کہ تو نماز سے فارغ ہو جائے۔

 

عباد بن موسی، اسماعیل، ابن جعفر، یحیٰ بن علی، بن یحیٰ بن خلاد بن رافع، حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ تعالی عنہ سے یہی قصہ ایک اور سند کے ساتھ بھی مذکور ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کر جس طرح اللہ تعالی نے تجھ کو حکم دیا ہے پھر تشہد پڑھ۔ اس کے بعد تکبیر کہہ۔، اگر تجھے قرآن یاد ہو تو وہ پڑھ اور اگر تجھے قرآن یاد ہو تو پڑھ اور اگر یاد نہ ہو تو اَلحَمدُ ِللہِ، اَللہ اَکبَر، اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ اگر تو نے اس میں سے کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں سے کم کیا۔

 

ابو ولید، لیث یزید بن ابی حبیب، جعفر بن حکم، قتیبہ، لیث، جعفر بن عبد اللہ، حضرت عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے منع فرمایا ہے کوّے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، درندے کی طرح بازو بچھانے سے اور مسجد میں ایک جگہ مقرر کر لینے سے جس طرح اونٹ مقرر کر لیتا ہے یہ الفاظ قتیبہ کے ہیں۔

 

ہیر بن حرب، جریر عطاء بن سائب، سالم، براد، عقبہ بن عمرو ابو مسعود، حضرت سالم براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے فرمائش کی کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق بتائیے تو وہ مسجد ہی میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی جب رکوع کیا تو ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا اور انگلیوں کو ان سے نیچے رکھا اور کہنیوں کو جدا رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر جم گیا۔ پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر عضو تھم گیا پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور کہنیوں کو پہلو سے الگ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو قرار پایا گیا۔ پھر سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر جم گیا پھر دوبارہ بھی ایسا ہی کیا۔ اور چاروں رکعتیں پہلی رکعت کی طرح پڑھیں اور نماز کے بعد فرمایا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

                   نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان کہ فرائض کا نقصان نوافل سے پورا کر لیا جائے گا

 

یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل، یونس، حسن، حضرت انس بن حکیم صنبی زیاد یا ابنِ زیاد سے بچ کر مدینہ میں آئے وہاں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے نسب معلوم کیا تو میں نے نسب بیان کر دیا۔ ایک دن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے جوان کیا میں تجھ سے ایک حدیث بیان کر نہ دوں؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں، ضرور بیان کرو اللہ تم پر رحم فرمائے۔ یونس نے کہا میرا خیال ہے انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حدیث بیان کی فرمایا قیامت کے دن تمام اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہو گا تو ہمارا پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، دیکھو! میرے بندہ کی نماز کامل ہے یا ناقص؟ اگر وہ کامل ہو گی تو کامل ہی لکھ دی جائے گی۔ (یعنی اس کا ثواب پورا لکھا جائے گا) اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی ہو گی تو اللہ فرشتوں سے فرمائے گا دیکھو میرے بندہ کے پاس نفل بھی ہیں؟ اگر نفل ہوں میرے بندہ کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح لیا جائے گا۔ (یعنی فرض کی کوتاہی کو نفل سے پورا کر لیا جائے گا)

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، حمید، حسن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح مروی ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، داؤد بن ابی ہند، حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے ہم معنی حدیث بیان کرتے ہیں۔ اس میں یوں ہے کہ پھر زکوۃ کا بھی اسی طرح حساب کیا جائے گا اور پھر تمام اعمال کا حساب بھی اسی طور پر ہو گا۔

 

                   رکوع و سجود کے احکام اور رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو یعفور، حضرت معصب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد کے برابر میں نماز پڑھی تو میں (رکوع میں) اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے بیچ میں رکھ لیا۔ اس پر انھوں نے مجھے اس سے منع فرمایا، میں پھر دوبارہ ایسا ہی کیا تو فرمایا ایسا نہ کیا کر۔ ہم بھی پہلے ایسا ہی کیا کرتے تھے لیکن بعد میں ہمیں اس سے روک دیا گیا اور ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنے کا حکم دیا۔

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے دونوں ہاتھ رانوں سے لگا لے اور دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں ملا لے میں اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگلیوں کے اختلاف کو چشمِ تصور سے دیکھ رہا ہوں۔

 

                   رکوع اور سجدہ کی تسبیح

 

ربیع بن نافع، ابو توبہ، موسیٰ بن اسماعیل، ابن مبارک، موسی، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ آیت، (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ) 56۔ الواقعہ:74)۔ اتری تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس تسبیح (یعنی سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیم) کو اپنے رکوع کے لئے کر لو۔ اور جب آیت سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اتری تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس تسبیح (یعنی سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلیٰ) کو اپنے سجود میں اختیار کر لو۔

 

احمد بن یونس، لیث، ابن سعد، موسیٰ بن ایوب کی قوم کے ایک شخص نے عقبہ بن عامر سے سابقہ حدیث کی طرح روایت کیا ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع کرتے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ کہتے اور سجدہ کرتے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ کہتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ہم کو خوف ہے کہ یہ اضافہ محفوظ نہ ہو۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، سلیمان، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن مہران سے پوچھا کہ جب میں کسی خوف دلانے والی آیت پر پہنچوں تو دروان نماز دعا کر سکتا ہوں؟ تو انھوں نے مجھ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل سند کے ساتھ ذکر کی۔ عن سعید بن عبیدہ، عن مستورو، عن صلہ بن زفرعن حذیفہ۔ روایت ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی پس جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں ہوتے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ کہتے اور سجدہ میں ہوتے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ کہتے۔ اور جب کسی آیت رحمت پر پہنچتے تو وہاں بھی رک جاتے اور اللہ سے خیر طلب فرماتے اسی طرح جب عذاب والی آیت پر پہنچے تو وہاں بھی رک جاتے اور اللہ سے پناہ طلب فرماتے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ مطرف، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ اور رکوع میں سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ پڑھتے تھے۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، معاویہ، بن صالح، عمرو بن قیس، عاصم بن حمید، حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں کھڑا ہوا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور (پہلی رکعت میں) سورہ بقرہ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی رحمت والی آیت پر پہنچتے تو وہاں ٹھہرتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب عذاب والی آیت پر پہنچتے تو وہاں بھی ٹھہرے اور اللہ سے پناہ طلب کر تے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا قیام کے مطابق اور رکوع میں یہ پڑھتے تھے۔ سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالْعَظَمَۃِ، اس کے بعد قیام کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی وہی دعا پڑھتے تھے جو رکوع میں پڑھی تھی۔ پھر (دوسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوئے اور سورہ آل عمران پڑھی۔ پھر (باقی دو رکعتوں میں بھی) ایک ایک سورت پڑھی۔

 

ابو ولید، علی بن جعد، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابو حمزہ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رات کی نماز یعنی تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہا اور ذُو الْمَلَکُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالْعَظَمَۃِ ، پڑھا پھر ثناء پڑھی اور (پہلی رکعت میں) سورۃ البقرہ پڑھی پھر رکوع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رکوع بھی قیام کے مطابق تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ کہتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور اتنی دیر تک کھڑے رہے تقریباً جتنی دیر تک رکوع کیا تھا اور لربی الحمد کہتے رہے پھر سجدہ کیا اور سجدہ بھی تقریباً اتنا ہی طویل تھا جتنا کہ قیام۔ اور سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی پڑھتے رہے پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور دو سجدوں کے درمیان تقریباً اتنی ہی دیر بیٹھے رہے جتنی دیر تک سجدہ کیا تھا۔ اور رِبِّ اغفِرلِی کہتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح چار رکعات پڑھیں جس میں (پہلی رکعت میں) سورۃ البقرہ اور (دوسری رکعت میں) سورۃ الِ عمران اور (تیسری رکعت میں) سورۃ النساء اور (چوتھی رکعت میں) سورۃ مائدہ یا سورۃ الانعام اس میں شعبہ کو شک ہوا ہے۔

 

                   رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان

 

احمد بن صالح، احمد بن عمرو، بن سرح، محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو ابن حارث، عمارہ بن غزیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندہ اپنے رب سے سب زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ لہذا سجدہ میں خوب دعا کیا کرو۔

 

مسدد، سفیان، سلیمان بن سحیم، ابراہیم، بن عبد اللہ بن معبد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخر حیات میں بیمار ہو گئے۔ اور نماز کے لئے اپنے حجرہ سے مسجد میں نہیں آ سکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دروازہ کا پردہ اٹھایا۔ دیکھا سب لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف باندھے کھڑے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے لوگو نبوت کی خوشخبری دینے والی چیزوں میں سے اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے ان سچے خوابو ں کے جو مسلمان اپنے لئے دیکھے یا دوسرا اس کے لئے دیکھے۔ اور مجھ کو رکوع و سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کر دیا گیا ہے پس رکوع میں اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیا کرو اور سجدہ میں خوب دعائیں کیا کرو امید ہے قبول کی جائیں گی۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابو ضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدہ میں کثرت سے سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی پڑھتے تھے اور قرآن کی آیت (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ) 15۔ الحجر:98) کا یہی مفہوم مراد لیتے تھے۔

 

احمد بن صالح، وہب، احمد بن سرح، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، عمارہ، بن غزیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں یہ دعا پڑھتے تھے اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہُ دِقَّہُ وَجِلَّہُ وَأَوَّلَہُ وَآخِرَہُ اور ابن سرح نے دعا کے آخر میں ان کلمات کا اضافہ نقل کیا ہے علا نیہ وسرہ۔

 

محمد بن سلیمان، عبد ہ، بن سلیمان، محمد بن یحییٰ، بن حباب عبد الرحمن، اعرج، ابو ہریرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے (حجرہ میں) نہ پایا۔ مسجد میں تلاش کیا تو اس حال میں پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے اور آپ کے پاؤں اٹھے ہوئے تھے اور یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک پر جاری تھے۔

 

                   نماز میں دعا مانگنے کا بیان

 

عمرو بن عثمان بقیہ بن شعیب، زہری، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں (تشہدّ کے بعد سلام سے پہلے) یہ دعا پڑھتے تھے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ(اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں دجّال کے فتنہ سے اور پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں گناہ سے اور قرض سے) ایک شخص نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر قرض سے پناہ کیوں مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا جب آدمی مقروض ہو جاتا ہے تو باتیں بناتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرتا ہے۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، ابن ابی لیلی، ثابت، حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کے والد سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلو میں نفل نماز پڑھی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ النَّارِوَیْلٌ لِأَہْلِ النَّارِ

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ، عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے ایک اعرابی نے نماز میں یہ دعا پڑھی اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا الخ) یعنی اے اللہ مجھ پر رحم کر اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر) جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا تو نے اللہ تعالی کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا دعا کو محدود کرنے کی بجائے عام کرنا چاہیے اس میں قبولیّت کی زیادہ امید ہے۔

 

زہیر بن حرب، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی پڑھتے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی کہتے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وکیع کے خلاف کہا گیا ہے اس کو ابو وکیع اور شعبہ نے بطریق ابو اسحاق بواسطہ سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے موقوفاً روایت کیا ہے (یعنی شعبہ نے اس کو ابن عباس کا قول نقل کیا ہے)

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت موسیٰ بن ابی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا تھا جب وہ اس آیت پر پہنچا۔ أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی (یعنی کیا اللہ تعالی مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟) تو وہ کہتا سبحان فبلی (پاک ہے تیری ذات، تو بلاشبہ قادر ہے) لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کہتے سنا ہے۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ امام احمد ابن حنبل کا قول ہے کہ فرض نمازوں میں مجھے وہ دعائیں پڑھنا پسند ہیں جو قرآن پاک میں وارد ہوئی ہیں۔

 

                   رکوع اور سجود میں قیام کی مقدار

 

مسدد، خالد بن عبد اللہ، سعید، حضرت سعدی رضی اللہ عنہ اپنے والد یا چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدہ میں اتنی دیر ٹھہرتے تھے جتنی دیر میں تین مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ کہا جا سکتا ہے۔

 

عبدالملک بن مروان، ابو عامر، ابو داؤد، ابن ابی ذئب، اسحاق بن یزید، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اس کو چاہیے کہ کم از کم تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ کہے اور جب سجدہ کرے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی کہے، اور کم سے کم درجہ ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ عون کی یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ عون نے عبد اللہ بن مسعود کو نہیں پایا۔

 

عبد اللہ بن محمد، سفیان، اسماعیل بن امیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص سورۃ وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ پڑھے اور اس کی آخری آیت أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ تک پہنچے تو اس کو بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنْ الشَّاہِدِینَ کہنا چاہیے۔ اور جو شخص لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ پڑھے اور پھر أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی تک پہنچے تو کہنا چاہیے بلی (ہاں کیوں نہیں اور جو شخص سورۃ والمرسلات پڑھے اور اس کی آیت فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ تک پہنچے تو اس کے بعد کہے آمَنَّا بِاللَّہِ قَالَ إِسْمَعِیلُ بن امیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے ایک اعرابی سے سنی تھی۔ میں اس کے پاس دوبارہ گیا تاکہ اس حدیث کو مکرر سنوں اور اس کی غلطی کو آزماؤں۔ وہ بولا بھتیجے! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھے یہ حدیث ٹھیک سے یاد نہیں! حالانکہ میں نے ساٹھ حج کیے ہیں اور جس حج میں جس اونٹ پر میں سوار ہوا ہوں میں اس کو پہچان سکتا ہوں۔

 

احمد بن صالح، ابن رافع، عبد اللہ بن ابراہیم بن عمر بن کیسان، وہب بن مانوس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس نوجوان یعنی عمر بن عبد العزیز کے سوا کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے ان کے رکوع و سجود کا دس تسبیحات کے بقدر اندازہ قائم کیا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ احمد بن صالح نے عبد اللہ سے پوچھا کہ (اس حدیث کی سند میں آئے راوی کا نام) وہب بن مانوس ہے یا وہب بن مابو س؟ تو انھوں نے کہا کہ عبد الرزاق نے تو مانوس نقل کیا ہے لیکن جہاں تک میری یاد کا تعلق ہے تو ان کا نام وہب بن مانوس ہے اور یہ ابن رافع کے الفاظ ہیں اور احمد نے بواسطہ سعید بن جبیر حضرت انس بن مالک کہا ہے۔

 

                   جب امام کو سجدہ کی حالت میں پائے تو کیا کرے؟

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، سعید بن حکم، نافع بن یزید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں شریک ہو جاؤ مگر اس کو رکعت میں شمار نہ کرو اور جس شخص نے رکوع پالیا اس نے رکعت پا لی۔

 

                   سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے

 

مسدد، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (یعنی چہرہ، دو ہاتھ، دو گھٹنے اور دو پاؤں) اور مجھے منع کیا گیا ہے دوران نماز کپڑے اور بالوں کے سمیٹنے سے۔

 

محمد بن کثیر، شعبہ، عمرو بن دینار، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمھارے نبی کو حکم دیا گیا ہے ساتھ اعضاء پر سجدہ کرنے کا ۔

 

قتیبہ بن سعید، بکر، ابن مضر، ابن ہاد، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے سات اعضاء بھی سجدہ کرتے ہیں یعنی چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔

 

                   نماز میں کسی طرف دیکھنا

 

عثمان بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں کچھ نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان نقوش نے مجھے مشغول کر لیا۔ اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس سے اس کا کمبل لے آؤ (یہ چادر ابو جہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔

 

عبید اللہ بن معاذ، عبد الرحمن، ابن ابی زناد، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی روایت یوں بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کروستان کی بنی ہوئی ابو جہم کی ایک چادر لی تھی لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ چادر اس سے بہتر تھی۔

 

                   نماز میں اِدھر ادھر دیکھنے کی اجازت

 

ربیع بن نافع، معاویہ ابن سلام، زید، حضرت سہل بن حنظلیہ سے روایت ہے کہ نماز صبح کی تکبیر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے جاتے تھے اور گھاٹی کی طرف دیکھتے جاتے تھے ابو داؤد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گھاٹی کی طرف نگہبانی کے لیے ایک سوار بھیجا تھا۔

 

                   نماز میں کوئی کام کرنا

 

قعنبی، مالک، عامر، بن عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے اور اپنی لختِ جگر زینب کی بیٹی امامہ کو اٹھائے ہوئے ہوتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے تو اس کو بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے اس کو پھر اٹھا لیتے۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امامہ بنت ابی العاص کو اٹھائے ہوئے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی زینت کی بیٹی تھیں اور وہ اس وقت بچی تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاندھے پر سوار تھیں اسی حال میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو ان کو بٹھا دیا اور جب کھڑے ہوئے تو پھر اٹھا لیا نماز کے ختم ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کرتے رہے۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، مخرمہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس حال میں نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے کہ امامہ بنت ابی العاص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاندھے پر سوار ہوتیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے ان کو بٹھا دیتے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ مخرمہ نے اپنے والد سے صرف ایک حدیث سنی ہے (اور یہ حدیث وہ نہیں ہے لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے۔

 

یحیٰ بن خلف، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، سعید، بن ابی سعید، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ہم ظہر یا عصر کی نماز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کر رہے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کے لئے بلا چکے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاندھے پر سوار تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جائے نماز پر کھڑے ہوئے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے لیکن امامہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاندھے ہی پر رہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو ہم نے بھی تکبیر کہی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں جانا چاہا تو امامہ کو اتار کر نیچے بٹھا دیا اس کے بعد رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوئے تو امامہ کو پھر سے اٹھا کر کاندھے پر بٹھا لیا اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے۔

 

مسلم بن ابراہیم، علی بن مبارک، یحیٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو کالی چیزوں کو نماز میں مار ڈالو یعنی سانپ اور بچھو کو۔

 

احمد بن حنبل، مسدد، بشر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا میں آئی اور دروازہ کھولنے کے لئے کہا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (اپنی جگہ سے) چلے اور دروازہ کھول دیا اور اپنی مصلی پر واپس لوٹ گئے۔ (یعنی نماز میں مشغول ہو گئے) اور دروازہ قبلہ کی طرف تھا نماز میں بوقت ضرورت بقدر ضرورت تھوڑا سا چلنا جائز ہے۔

 

                   نماز میں سلام کا جواب دینا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابن فضیل، اعمش، ابراہیم، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حالت نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو سلام کا جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم (شاہِ حبشہ) نجاشی کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے (حسب معمول) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا جواب نہیں دیا (نماز کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز میں ایک شغل ہوتا ہے (اور سلام اس میں مانع ہوتا ہے)

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، عاصم، ابو وائل، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور ضرورت کی باتیں بھی کر لیا کرتے تھے۔ میں (حبشہ سے) آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں مشغول تھے۔ میں نے سلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب نہیں دیا مجھے نئی اور پرانی باتوں کی فکر ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی جب چاہتا ہے نیا حکم اتارتا ہے۔ اب اللہ تعالی کا نیا حکم یہ ہے کہ نماز میں باتیں نہ کیا کرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سلام کا جواب دیا۔

 

یزید بن خالد بن موہب، قتیبہ بن سعید، لیث، بکیر، نابل، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں مشغول تھے۔ میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا جب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کہنی چاہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا اور سن رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن پڑھ رہے تھے اور سر سے اشارہ کر رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم نے اس بارے میں کیا کیا جس کے لیے میں نے تم کو بھیجا تھا اور میں نے تم سے اس لئے گفتگو نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔

 

حسین بن عیسیٰ، جعفر، بن عون، ہشام، بن سعد، نافع سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد قباء میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ انصار آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کی حالت میں سلام کیا۔ میں نے بلال سے پوچھا۔ کہ حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیسے سلام کا جواب دیتے تھے؟ انھوں نے کہا اس طرح! اور جعفر بن عون نے بتلایا اس طرح کہ ہاتھ کو پھیلایا اور ہتھیلی نیچے کی جانب کی اور پشت کی طرف۔

 

احمد بن حنبل، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، ابی مالک، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز میں نہ غرار ہونا چاہیے اور نہ سلام، امام احمد نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں نہ تو کسی کو سلام کرے اور نہ کوئی دوسرا تجھے سلام کرے اور غرارنی الصلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہو ایسی حالت میں کہ اس کے دل میں شبہ باقی رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔

 

محمد بن علاء، معاویہ بن ہشام، سفیان، ابو مالک، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غرار نہیں ہونا چاہیے سلام میں اور نہ نماز میں۔ ابو داؤد نے کہا کہ ابن فضیل نے عبد الرحمٰن مہدی کی روایت کو بیان کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔

 

                   نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے

 

مسدد، یحییٰ، عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج، صواف، یحیٰ بن ابی کثیٰرہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت معاویہ بن حکم سُلَمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی (دورانِ نماز) ایک شخص کو چھینک آ گئی اور میں نے (دورانِ نماز ہی) یرحمک  اللہ کہہ دیا اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے۔ میں نے کہا تیری ماں تجھ کو روئے تمھیں کیا ہو گیا ہے جو میری طرف اس طرح سے دیکھ رہے ہو؟ (مجھے نماز میں گفتگو کرتا دیکھ کر بطور تنبیہ) اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے تب میں سمجھا کہ وہ مجھ کو خاموش کرانا چاہتے ہیں۔ عثمان کی روایت یوں ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ کو خاموش ہونے کو کہہ رہے ہیں تب میں خاموش ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے تو۔ فدا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر میرے ماں باپ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ مجھ کو مارا، نہ ڈانٹا اور نہ برا بھلا کہا، بس اتنا فرمایا کہ یہ نماز ہے اس میں گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور قراتِ قرآن ہوتی ہے اور بس! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی سے ملتی جلتی کوئی بات فرمائی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نیا نیا مسلمان ہوا ہوں اور اب اللہ نے ہمیں دین اسلام عطا فرما دیا ہے لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ابھی کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو مت جایا کر میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ شگون لیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ محض ان کے دلوں کا وہم ہے پس (یہ شگون) ان کو (کام سے) نہ روکے (یعنی وہ اپنے ارادہ پر عمل کریں) میں نے کہا ہم میں سے کچھ خط کھینچتے (اور اس سے مستقبل کا حال معلوم کرتے) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے (اور اس سے مستقبل کا حال معلوم کرتے تھے۔ مگر یہ علم ان کو بطور معجزہ عطا ہوا تھا) پس جس کا خط اس کے موافق ہے وہ درست ہو سکتا ہے (اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ تو ایک نبی کا معجزہ تھا) اس کے بعد میں نے عرض کیا میرے پاس ایک باندی ہے جو احد پہاڑ اور مقام جوانیہ کے پاس بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں پہنچا تو اس نے بتایا کہ ایک بکری کو بھیڑیا لے گیا ہے۔ آخر میں بھی انسان تھا مجھے غصہ آ گیا جیسا کہ ایسے مواقع پر لوگوں کو آ جایا کرتا ہے پس میں نے اس کو ایک ہی مرتبہ میں دھن کر رکھ دیا میرا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر گراں گزرا اس لیے میں نے عرض کیا کیا میں اس کو آزاد کر دوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے کر آ۔ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا۔ خدا کہاں؟ اس نے جواب دیا آسمان پر! پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا۔ میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دے کیونکہ یہ مومن ہے۔

 

محمد بن یونس، عبد الملک بن عمرو، فلیحہ لال بن علی عطاء بن یسار، حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا مجھے اسلام کے چند احکام و آداب سکھائے گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب تجھے چینک آئے تو اَلحَمدُ ِللہ کہہ اور جب کسی دوسرے کو چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللَّہُ کہہ۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا ایک شخص کو چھینک آئی، اس نے الحمدللہ کہا تو میں نے زور سے یَرْحَمُکَ اللَّہُ کہا اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے یہ بات مجھے بری لگی میں نے (نماز ہی میں) کہا آخر کیا بات ہوئی جو مجھے اس طرح دیکھ رہے ہو؟ (یہ دیکھ کر کہ میں دورانِ نماز گفتگو کر رہا ہوں) انھوں نے سبحان اللہ کہا (یعنی مجھے اشارہ سے سمجھایا کہ نماز میں گفتگو مت کرو) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو پوچھا (یہ نماز میں) گفتگو کرنے والا کون تھا؟ لوگوں نے (میری طرف اشارہ کر کے) کہا کہ یہ اعرابی! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اپنے قریب بلایا اور کہا کہ نماز میں صرف قرآن کی قرأت ہوتی ہے اور اللہ کا ذکر ہوتا ہے پس جب تو نماز میں ہو تو تجھے بھی یہی کرنا چاہیے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ مہربان اور مشفق معلم کسی کو نہیں پایا۔

 

                   امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا

 

محمد بن کثیر، سفیان، سلمہ، حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ولا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔

 

مخلد بن خالد، ابن نمیر، علی بن صالح، سلمہ بن کہیل، حجر، بن عنبس، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے زور سے آمین کہی (اور ختم نماز پر) دائیں بائیں سلام پھیرا۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار کی سفیدی دیکھی۔

 

نصر بن علی، صفوان بن عیسیٰ، بشر بن رافع، ابو عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب پڑھتے تو (اس کے بعد) آمین کہتے۔ یہاں تک کہ صف اول کے نزدیک والے لوگ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمین) سن لیتے۔

 

قعنبی، مالک، سمی، ابو صالح سمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام والضالین کہے تو تم کہو آمین۔ کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے مل جائے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، سلمہ بن عبد الرحمن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جائیں گے۔ ابن شہاب کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی آمین کہا کرتے تھے۔

 

اسحاق بن ابراہیم، بن راہویہ، سفیان، عاصم، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آمین کہنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے۔

 

ولید بن عتبہ، محمود بن خالد، صبیح، بن محرز ابو مصبح سے روایت ہے کہ ہم ابو زُ ہیر نُمَیری کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہم میں سے ایک شخص نے دعا کی۔ انھوں نے کہا اپنی دعا کو آمین پر ختم کر کیونکہ آمین (دعا کے لیے) ایسی ہی ہے جیسے ختم کتاب پر مہر۔ ابو زہیر نے کہا میں تم کو اس کے متعلق ایک واقعہ سناتا ہوں ایک روایت کی بات ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے۔ پس ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو انتہائی عاجزی کے ساتھ دعا کر رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر اس کی دعا سننے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ مہر لگا وے تو اس کی دعا قبول ہو گی۔ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا تھا وہ دعا کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے کہا تو اپنی دعا پر آمین کی مہر لگا اور (قبولیت پر) خوشی منا یہ الفاظ محمد بن خالد کے روایت کردہ ہیں۔۔ ابو داؤد نے کہا مقرائی حمیر کا ایک قبیلہ ہے

 

                   نماز میں تالی بجانا

 

قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

 

قعنبی، مالک، ابو حازم، بن دینار، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ بنی عمرو بن عون کے پاس۔ ان میں صلح کرانے کی غرض سے گئے ہوئے تھے (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عدم موجودگی میں) نماز کا وقت ہوا تو مؤذن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں تکبیر کہوں؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں کہو، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لے آئے مگر لوگ نماز شروع کر چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد کی اطلاع دینے کی غرض سے) لوگوں نے تالی بجائی اور ابو بکر نماز میں ادھر ادھر دھیان نہیں دیتے تھے (اس لیے تالی نہیں سن سکے) جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مڑ کر دیکھا تو پایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اپنی جگہ کھڑے رہنے (اور نماز پڑھاتے رہنے) کا اشارہ کیا اپنی اس سعادت پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے اور پہلی صف میں شامل ہو گئے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب میں نے تم کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو تم پیچھے کیوں ہٹ آئے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو قحافہ کے بیٹے کا یہ مقام نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا تم کو کیا ہوا کہ میں نے تم کو بہت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا اگر کسی کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہو اس سے توجہ ہو جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ صرف فرض نماز میں ہے۔

 

عمرو بن عون، حماد بن زید، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی جب اس لڑائی کی خبر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلح کرانے کی غرض سے ظہر کے بعد ان کے پاس تشریف لے گئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرما گئے کہ اگر عصر کی نماز کا وقت آ جائے اور میں اس وقت تک واپس نہ آ سکوں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ نماز پڑھائیں جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے نماز پڑھانے کے لیے کہا پس (وہ نماز پڑھانے کے لیے وہ آگے بڑھے) (حماد بن یزید نے) اس حدیث کے آخر میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔

 

محمود بن خالد، ولید، عیسیٰ بن ایوب، عیسیٰ بن ایوب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول کا مطلب کہ عورتیں تالی بجائیں یہ ہے کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ کی دو انگلیاں بائیں کی ہتھیلی پر ماریں۔

 

                   نماز میں اشارہ کرنے کا بیان

 

احمد بن محمد بن شبویہ، محمد بن رافع، عبد الرزاق، معمر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں اشارہ کرتے تھے۔

 

عبد اللہ بن سعید، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، یعقوب بن عتبہ، بن اخنش، ابو غطفان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز میں (کوئی بات پیش آنے پر) مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنا ہے اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے اور جو اس طرح اشارہ کرے جس سے کوئی مفہوم اخذ کیا جاس کے تو وہ اپنی نماز لوٹائے ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث وہم ہے۔

 

                   دوران نماز کنکریاں ہٹانا

 

مسدد، سفیان، ابو احوص، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو (اپنے سامنے سے) کنکریاں نہ ہٹائے کیونکہ اللہ کی رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحییٰ، ابو سلمہ، معقیب سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حالت نماز میں کنکریاں نہ ہٹا اگر کوئی مجبوری ہی ہو تو ایک مرتبہ ہٹا لے۔

 

                   کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے

 

یعقوب بن کعب، محمد بن سلمہ، ہشام، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اختصار سے منع فرمایا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اختصار کا مطلب ہے کوکھ پر ہاتھ رکھنا۔

 

                   لکڑی سے ٹیک لگا کر نماز پڑھنے کا بیان

 

عبدالسلام بن عبد الرحمن، شیبان، حصین بن عبد الرحمن، حضرت ہلال بن یساف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مقام رقہ میں آیا تو میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں کسی صحابی سے ملنے کا اشتیاق ہے؟میں نے کہا یہ تو بڑی سعادت ہے پس ہم وابصہ بن معبد کے پاس گئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ پہلے ہم ان کی وضع قطع دیکھیں تو ہم نے دیکھا کہ وہ ایک ٹوپی اوڑھے ہوئے ہیں جو سر سے چپکی ہوئی تھی اور دو طرف کنارے نکلے ہوئے تھے اور اس پر ایک خاکی رنگ کی خزکی بنی ہوئی برساتی پہن رکھی تھی اور وہ اپنی نماز میں ایک لاٹھی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو) ہم نے ان کو سلام کیا اور (نماز میں) سہارا لگانے کے متعلق دریافت کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے ام قیس بنت محصن نے بیان کیا کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور جسم کا گوشت بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مصلے پر ایک ستون بنوایا اور اس سے ٹیک لگا کر نماز پڑھنے لگے۔

 

                   نماز میں گفتگو کی ممانعت

 

محمد بن عیسیٰ، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، حارث بن شیب، ابو عمر، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ابتداء میں) ہم میں سے ایک آدمی اپنے برابر والے سے نماز میں (ضرورت کی) بات کر لیتا پس یہ آیت نازل ہوئی وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ یعنی اللہ کے آگے خاموش کھڑے رہو پس اس طرح ہمیں سکوت کا حکم ہوا اور گفتگو کی ممانعت ہوئی۔

 

                   بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان

 

محمد بن قدامہ، اعین، جریر، منصور، ہلال، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حدیث بیان کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیٹھ کر نماز پڑھنا (کھڑے ہو کر پڑھنے کی بنسبت) نصف ثواب رکھتا ہے اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں میں نے اپنے سر پر ہاتھ مارا (یعنی تعجب کا اظہار کیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا اے عبد اللہ بن عمرو کیا ہوا؟میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا تھا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا نماز ( میں ثواب) آدھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں (میں نے ایسا ہی کہا تھا) لیکن میں تم لوگوں کی طرح نہیں ہوں (یہ حکم عامۃ الناس کے لیے ہے میری ذات اس سے مستثنیٰ ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، حسین، عبد اللہ بن بریدہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا بیٹھ کر نماز پڑھنا سے افضل ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی بنسبت آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹ کر نماز پڑھنے میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بنسبت آدھا ثواب ملتا ہے۔

 

محمد بن سلیمان، وکیع، ابراہیم بن طمہان، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے ناسور ہو گیا تھا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (ایسی حالت میں نماز پڑھنے کے متعلق) دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھ اگر کھڑا نہیں ہو سکتا تو بیٹھ کر نماز پڑھ اور اگر بیٹھ نہیں سکتا تو پھر کروٹ سے لیٹ کر نماز پڑھ۔

 

احمد بن عبد اللہ بن یونس، زہیر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رات کی نماز (تہجد) کبھی بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ضعیف ہو گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں بیٹھ کر قرأت کرتے جب تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو تو ان باقی ماندہ آیات کو کھڑے ہو کر پڑھتے اس کے بعد رکوع سجدہ کرتے۔

 

قعنبی، مالک، عبد اللہ بن بریز نضر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو بیٹھے بیٹھے قرأت کرتے تھے اور جب تیس یا چالیس آیات کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو جاتے اور باقی ماندہ قرأت کو کھڑے ہو کر پڑھتے پھر رکوع کرتے اور اس کے بعد سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اس طرح کرتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو علقمہ بن عباس نے بواسطہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح روایت کیا ہے

 

مسدد، حماد بن زید، بدیل بن میسرہ، ایوب، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور دیر تک بیٹھ کر نماز پڑھتے البتہ جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، کہمس بن حسن، حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رکعت میں ایک سورت پڑھتے تھے؟ فرمایا ہاں مفصلات میں سے پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے؟ فرمایا ہاں جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بوڑھا کر دیا۔

 

                   تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت

 

مسدد، بشر بن مفضل، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح پڑھتے ہیں؟ پس (میں نے دیکھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور قبلہ کی طرف رخ کر کے تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کا ارادہ کیا تو حسب سابق (کانوں تک) ہاتھ اٹھائے پھر جب بیٹے تو بایاں پاؤں بچھایا اور بائیں ران پر بایاں ہاتھ رکھا اور داہنی کہنی کو داہنی ران سے اٹھا ہوا رکھا اور دو انگلیوں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی) کو بند کیا اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنایا اور میں نے ان کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا، پھر بشر نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنایا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔

 

                   چوتھی رکعت میں تورک کا بیان

 

احمد بن حنبل، ابو عاصم، ضحاک بن مخلد، عبد الحمید، ابن جعفر، مسدد، یحییٰ، عبد الحمید، ابن جعفر، محمد بن عمرو، حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق میں تم سب سے زیادہ واقف ہوں تو وہ سب بولے تو پھر بیان کرو اس پر ابو حمید نے یہ حدیث ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو ٹیڑھا کر کے اس پر بیٹھتے پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا، ابو حمید نے کہا جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بائیں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے اور بائیں سرین پر زور دے کر بیٹھتے امام احمد بن حنبل کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر صحابہ نے کہا کہ تم نے صحیح بیان کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے لیکن ان دونوں (یعنی احمد و مسدد) نے یہ بیان نہیں کیا کہ دو رکعت کے بعد جو قعدہ ہوتا ہے اس میں کس طرح بیٹھتے تھے۔

 

عیسی بن ابراہیم، ابن وہب، لیث، یزید بن محمد، یزید بن ابی حبیب، محمد بن عمرو بن حلحلہ محمد بن عمرو بن عطاء چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے بھی یہی حدیث بیان کی مگر انہوں نے ابو قتادہ کا ذکر نہیں کیا محمد بن عمرو نے کہا جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت کے بعد بیٹھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھے اور جب اخیر رکعت کے بعد بیٹھے تو بائیں پاؤں کو باہر نکال لیا اور سرین پر بیٹھے (یعنی تورک کیا)

 

قتیبہ، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، محمد بن عمرو بن حلحلہ، حضرت محمد بن عمرو عامری اسی طرح روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت پڑھ کر بیٹھے تو بائیں قدم کے تلوے پر بیٹھے اور داہنے پاؤں کو کھڑا کیا اور جب چوتھی رکعت پڑھ کر بیٹھے تو اپنی بائیں سرین کو زمین پر لگایا اور دونوں پاؤں ایک طرف کو نکالیے۔

 

علی بن حسین، بن ابراہیم، ابو بدر، زہیر، ابو خثیمہ، حسن بن حر، حضرت عباس یا عیاش بن سہل ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں ان کے والد بھی تھے پھر یہی حدیث بیان کی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا تو اپنی ہتھیلیوں، گھٹنوں اور پاؤں کے سروں پر اعتماد کیا (یعنی ان اعضاء کے سہارے سجدہ کیا) اور جب بیٹھے تو سرین پر بیٹھے اور دوسرے (یعنی دائیں) پاؤں کو کھڑا کیا پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا اس کے بعد تکبیر کہہ کر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا اسی طرح تکبیر کہی اور پھر دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گئے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھنے لگے تو تکبیر کہہ کر اٹھے پھر آخری دو رکعتیں پڑھیں اور جب سلام پھیرنے کا ارادہ کیا تو دائیں بائیں سلام پھیرا ابو داؤد کہتے ہیں کہ (عیسی بن عبد اللہ نے) سرین پر بیٹھنے اور دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا جیسا کہ عبد الحمید نے ذکر کیا ہے

 

احمد بن حنبل، عبد الملک، بن عمرو، فلیح، حضرت عباس بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے پھر راوی نے یہی حدیث بیان کی لیکن اس میں دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی (آخری تشہد کے لیے دوسری مرتبہ) بیٹھنے کا بلکہ راوی نے یہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (دونوں سجدوں سے) فارغ ہو کر بیٹھ گئے اس طرح پر کہ بایاں پاؤں بچھایا اور داہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی طرف رکھیں

 

                   تشہد کا بیان

 

مسدد، یحییٰ، سلیمان اعمش، شقیق، بن سلمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو ہم کہتے السَّلَامُ عَلَی اللَّہِ قَبْلَ عِبَادِہِ السَّلَامُ عَلَی فُلَانٍ وَفُلَانٍ (یعنی سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے اور سلام ہو فلاں پر اور فلاں پر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ نہ کہو کہ سلام ہو اللہ پر کیونکہ سلام تو اللہ ہی ہے، جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ کہے التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ جب تم یہ کہو گے تو اس کا ثواب ہر نیک بندہ کو ملے گا خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا اس کے درمیان میں ہو پھر یہ کہو أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ پھر جو دعا تمہیں سب سے زیادہ پسند ہو وہ اللہ سے کرو۔

 

تمیم بن منتصر، اسحاق ، ابن یوسف، شریک، ابو اسحاق ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ جب ہم نماز میں بیٹھیں تو کیا پڑھیں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سکھایا پھر سابقہ حدیث کی مانند ذکر کیا اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور بھی کلمات سکھائے مگر اس اہتمام کے ساتھ نہیں سکھائے جس اہتمام کے ساتھ تشہد سکھایا تھا وہ کلمات یہ ہیں اللَّہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِینَ بِہَا قَابِلِیہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، حسن بن حر، حضرت قاسم بن مخیمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ سے حدیث بیان کی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بتایا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی میرا ہاتھ پکڑا تھا اور نماز میں تشہد کی تعلیم دی تھی پھر سابقہ حدیث کی طرح ذکر کیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تو یہ تشہد پڑھ چکا تو تیری نماز مکمل ہو گئی (یعنی اس کے ارکان پورے ہو گئے) اب تو کھڑا ہونا چاہے تو کھڑا ہو جا اور بیٹھنا چاہے تو بیٹھا رہ۔

 

نصر بن علی، ابو شعبہ، ابی بشر، مجاہد، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان الفاظ میں تشہد کی تعلیم دی (ابن عمر کا بیان ہے کہ وبرکاتہ میں نے اضافہ کیا ہے) ابن عمر نے فرمایا وَحدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ میں نے اضافہ کیا ہے)

 

عمرو بن عون، ابو عوانہ، قتادہ، احمد بن حنبل، یحییٰ، بن سعید، ہشام، حضرت حطان بن عبد اللہ رقاشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابو اشعری نے ہم کو نماز پڑھائی جب نماز کے اختتام پر (یعنی قعدہ اخیرہ میں) بیٹھے تو ایک شخص (نماز ہی میں بولا) نماز نیکی اور پاکی کے ساتھ مقرر کی گئی ہے جب ابو موسیٰ نماز سے فارغ ہوئے تو مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ یہ کلمات بولنے والا کون تھا؟ سب لوگ خاموش رہے دوبارہ سوال کیا تو سب لوگ خاموش رہے تیسری مرتبہ کہا اے حطان شاید تو بولا تھا حطان نے کہا میں نہیں بولا تھا پر میں ڈرتا ہوں کہ آپ مجھے کہیں سزا نہ دیں تب وہ شخص بولا میں نے کہا تھا مگر میری نیت بھلائی کے سوا کچھ نہ تھی اس پر ابو موسیٰ نے کہا تم نہیں جانتے تم نماز میں کیا کہتے ہو؟ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو بتایا اور تعلیم دی ہمیں دین کی باتیں سکھائیں اور نماز کا طریقہ بتایا فرمایا جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے صفوں کو درست کر لو پھر تم میں سے کوئی ایک شخص امامت کرے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کہے تو تم آمِین کہو اللہ تعالی قبول فرمائے گا اور وہ جب رکوع کی تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرے گا اور رکوع سے سر اٹھائے گا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اس کا بدل ہو جائے گا (یعنی تمھارا رکوع کے بعد دیر سے سر اٹھانا اس کی تلافی کر دے گا جو امام کے عبد رکوع کرنے کی صورت میں ہوئی تھی) اور جب امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہو اللہ تمھاری حمد سن لے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہے اللہ اس کی سن لے گا جو اس کی حمد کرے گا اور جب وہ تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اس کا بدل ہو جائے گا اور جب بیٹھے تو تم میں سے ہر ایک پہلے یہ پڑھے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ (یہ عمرو بن عون کے روایت کردہ الفاظ ہیں) احمد (بن حنبل) کی روایت میں لفظ وبرکاتہ اور اشہد نہیں ہے اور بجائے اشہد کے۔۔۔۔۔

 

عاصم بن نضر، معمتر، قتادہ، ابی غلاب، حضرت حطان بن عبد اللہ رقاشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دوسری سند سے) یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب (امام) قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور تشہد میں أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کے بعد وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ  کا اضافہ ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ لفظ فَأَنْصِتُوا محفوظ نہیں ہے اور اس کو اس حدیث میں صرف تیمی نے ذکر کیا ہے۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث ابو زبیر، سعید بن جبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں تشہد کی تعلیم اس طرح دیتے تھے جس طرح قرآن کی (یعنی تشہد سکھانے میں قرآن جیسا اہتمام فرماتے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشہد یوں پڑھتے تھے التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ

 

محمد بن داؤد، بن سفیان، بن موسی، ابو داؤد، جعفر، بن سعد، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعلیم دی کہ جب نمازی درمیان میں بیٹھے (قعدہ اولی میں) یا نماز مکمل کر کے بیٹھے (قعدہ اخیرہ میں) تو سلام سے پہلے تشہد پڑھے جو یہ ہے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْکُ لِلَّہِ اس کے بعد داہنی طرف سلام پھیرو (اور پھر بائیں طرف) اور پھر سلام پھیر کر اپنے امام پر اور اپنے اوپر۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ سلیمان بن موسیٰ نے جو اصلاً کوفی ہیں دمشق میں رہتے ہیں ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ صحیفہ (جو سمرہ بن جندب نے اپنے بیٹوں کو لکھا تھا) بتا رہا ہے کہ حسن نے سمرہ سے سنا ہے۔

 

                   تشہد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود پڑھنے کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، حکم بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے (یا لوگوں) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام پڑھیں سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن درود کا طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

 

مسدد، یزید بن زریع، حضرت شعبہ اس حدیث کو یوں روایت کرتے ہیں کہ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ (یعنی لفظ اَللّٰھُمَّ کے بغیر اور لفظ عَلیٰ اٰلِ کے اضافہ کے ساتھ)

 

محمد بن علاء، ابن بشر، حضرت حکم رضی اللہ عنہ اسی سند کے ساتھ یوں روایت کرتے ہیں اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ، ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے زبیر بن عدی نے ابن ابی لیلی سے اسی طرح روایت کیا ہے جس طرح مسعر نے مگر انہوں نے یوں روایت کیا کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ جیسا کہ پہلے گزرا (یعنی لفظ آل کے اضافہ کے ساتھ اور لفظ اللھم کے بغیر)

 

 

قعنبی، مالک، ابن سرح، ابن وہب، مالک، عبد اللہ بن ابی بکر، بن محمد بن عمرو بن حزم، حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود کیونکر بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یوں کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَیمُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

 

قعنبی، مالک، نعیم بن عبد اللہ، محمد بن عبد اللہ بن زید، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ سعد بن عبادہ کی مجلس میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے تو بشیر بن سدع نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی نے ہم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو بتائیے ہم درود کس طرح بھیجیں؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے سوچا کہ کاش ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ سوال نہ کیا ہوتا پھر کچھ دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یوں پڑھا کرو، پھر کعب بن عجرہ کی حدیث کی طرح (یعنی سابقہ حدیث کی طرح بیان کیا) مگر اس نے اپنی حدیث کے آخر میں کہا فِی الْعَالَمِینَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ، (یعنی فی العالمین کا اضافہ کیا ہے)

 

احمد بن یونس، زہیر، محمد بن اسحاق ، حضرت عقبہ بن عمرو سے بھی اسی طرح مروی ہے اس میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حبان بن یسار، ابو مطرف، عبید اللہ بن طلحہ بن علی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو ہم اہل بیت پر درود بھیجنے کا پورا پورا ثواب پانے کا خواہش مند ہو تو اس کو چاہیے کہ یوں کہا کرے اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ وَذُرِّیَّتِہِ وَأَہْلِ بَیْتِہِ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

 

                   تشہد کے بعد کیا دعا پڑھے

 

احمد بن حنبل، ولید بن مسلم، اوزاعی، حسان بن عطیہ، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے ایک جہنم کے عذاب سے، دوسرے قبر کے عذاب سے، تیسرے زندگی اور موت کے فتنہ سے، اور چوتھے مسیح دجال کے فتنہ سے۔

 

وہب بن بقیہ، عمر بن یونس، یمانی، محمد بن عبد اللہ بن طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشہد کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔

 

عبد اللہ بن عمرو، معمر، عبد الوارث، حسین، عبد اللہ بن بریدہ، حنظلہ بن علی، حضرت محجن بن اور ع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے تو ایک شخص کو دیکھا جس کی نماز ختم کے قریب تھی اور وہ اس طرح تشہد پڑھ رہا تھا اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ یَا أَللَّہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ، محجن بن اور ع کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا اس کو بخش دیا گیا اور یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ دہرایا

 

                   تشہد آہستہ پڑھنا چاہیے

 

عبد اللہ بن سعید، یونس، ابن بکیر محمد بن اسحاق ، عبد الرحمن بن اسود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھنا چاہیے

 

                   تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا

 

قعنبی، مالک، مسلم بن ابی مریم، حضرت علی بن عبد الرحمن معاوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مجھ کو نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ تو بھی نماز میں وہی کیا کر جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے تھے، میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے تھے؟ فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں بیٹھتے تو دائیں ران پر دایاں ہاتھ رکھتے اور سب انگلیوں کو بند کر لیتے اور انگوٹھے سے ملحق انگلی سے (شہادت والی انگلی سے) اشارہ کرتے اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے

 

                   تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا

 

محمد بن عبد الرحیم، بزار، عفان، عبد الواحد بن زیاد، عثمان بن حکیم، عامر، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں داہنی ران اور داہنی پنڈلی کے نیچے کر لیتے اور داہنا پاؤں بچھا لیتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے اور انگلی سے اشارہ کرتے، عفان کہتے ہیں کہ عبد الواحد نے عملی طور پر کر کے دکھایا اور انگلی سے اشارہ کیا۔

 

ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، زیاد، محمد بن عجلان، عامر، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تشہد پڑھتے تھے تو انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اس کو حرکت نہیں دیتے تھے، ابن جریج نے کہا عمرو بن دینار نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھے عامر نے اپنے والد کے حوالہ سے خبر دی کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح اشارہ کرتے تھے (یعنی حرکت نہ کرتے تھے) اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے تھے۔

 

محمد بن بشار، یحییٰ، ابن عجلان، عامر، حضرت عبد اللہ بن زبیر اسی طرح روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کی نگاہ اشارہ سے آگے نہ بڑھتی تھی اور حجاج کی حدیث یحیٰ کی حدیث سے زیادہ مکمل ہے۔

 

عبد اللہ بن محمد، عثمان، ابن عبد الرحمن، عصام بن قدامہ، بن بجیلہ مالک بن نمیر، حضرت نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا داہنی ران پر داہنا ہاتھ رکھے ہوئے اور شہادت والی انگلی اٹھائے ہوئے قدرے جھکی ہوئی۔

 

                   نماز میں ہاتھ ٹیکنے کی کراہت کا بیان

 

احمد بن حنبل، احمد بن محمد، بن شبویہ، محمد بن رافع، محمد بن عبد الملک، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے نماز میں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے، یہ امام احمد بن حنبل کی روایت ہے اور ابن شبویہ کی روایت یوں ہے کہ منع فرمایا نماز میں ہاتھ پر ٹیک لگانے سے (یعنی اس میں بیٹھنے کی صراحت نہیں ہے) اور ابن رافع کی روایت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہاتھ پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنے سے مگر ابن رافع نے اس ممانعت کو سجدہ سے اٹھتے وقت کے لیے بیان کیا ہے اور ابن عبد الملک نے یہ روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے نماز میں ہاتھوں  پر ٹیک لگانے سے جبکہ وہ (سجدہ سے) اٹھے۔

 

بشر بن ہلال، عبد الوارث، حضرت اسماعیل بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نافع سے ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر (یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے) نماز پڑھے تو حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ یہ المغضوب علیھم (یہود) کی نماز ہے (لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے)

 

ہارون بن زید بن ابی زرقا، محمد بن سلمہ، ابن وہب، ہشام بن سعد، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا (ہارون بن یزید کی روایت ہے کہ بائیں کروٹ پر پڑا ہوا دیکھا) تو اس سے کہا اس طرح مت بیٹھ اس لیے کہ یہ ان لوگوں کی نشست ہے جن کو عذاب دیا جائے گا

 

                   قعدہ اولی میں تخفیف کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابو عبیدہ نے اپنے والد یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی دو رکعتوں کے بعد (قعدہ میں) اس طرح ہوتے گویا گرم پتھر پر بیٹھ گئے ہوں (یعنی بہت جلد کھڑے ہو جاتے) شعبہ کہتے ہیں کہ ہم نے (اپنے استاذ سعد بن ابراہیم) سے پوچھا کہ (کیا آپ یہ کہتے ہیں) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو جاتے تو (سعد بن ابراہیم نے) کہا ہاں یہاں تک کہ کھڑے ہو جاتے۔

 

                   نماز میں سلام پھیرنے کا بیان

 

محمد بن کثیر سفیان، احمد بن یونس، زائدہ مسدد، ابو احوص، محمد بن عبید زیاد بن ایوب، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بائیں اور دائیں طرف سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار کی سفیدی نظر آتی تھی (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان الفاظ کے ساتھ سلام پھیرتے تھے) السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ، ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ الفاظ سفیان کی بیان کردہ حدیث کے ہیں اور اسرائیل نے اپنی حدیث میں اس کی تصریح نہیں کی ہے (یعنی السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ کا ذکر نہیں کیا) ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو زہیر نے ابو اسحاق سے  اور یحیٰ بن آدم نے بواسطہ اسرائیل ابو اسحاق سے یوں روایت کیا ہے عن عبد الرحمن بن الاسود عن ابیہ وعلقمۃ عن عبد اللہ، ابو داؤد کہتے ہیں کہ شعبہ ابو اسحاق کی اس حدیث کے مرفوع ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

 

عبدہ بن عبد اللہ یحیٰ بن آدم، موسیٰ بن قیس، سلمہ بن کہیل، علقمہ بن وائل، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم داہنی طرف سلام پھیرتے تو کہتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہ اور بائیں طرف سلام پھیرتے تو کہتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ (یعنی بائیں طرف سلام پھیرتے وقت وبرکاتہ نہیں کہتے تھے

 

عثمان بن ابی شیبہ، یحیٰ بن زکریا، وکیع، مسعر، عبید اللہ بن قبطیہ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے جب ہم میں سے کوئی سلام پھیرتا تو اپنے ہاتھ کے دائیں والے اور بائیں والے آدمی کی طرف اشارہ کرتا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا بات ہے تم نماز میں بھی ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہو گویا وہ ہاتھ پھرے ہوئے گھوڑوں کی دموں کی طرح ہیں تمھارے لیے بس اتنا کافی ہے (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلی سے اشارہ کیا (یعنی تشہد میں اس طرح انگلی اٹھائے) اور پھر اپنے دائیں اور بائیں والے بھائی کو سلام کرے

 

محمد بن سلیمان، ابو نعیم، حضرت مسعر رضی اللہ عنہ اسی سند و متن کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہے کہ وہ اپنا ہاتھ ران پر رکھے اور پھر سلام کرے اپنے بھائی کو جو دائیں طرف ہے اور جو بائیں طرف ہے

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، اعمش، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں لوگوں کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے (زبیر کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اعمش نے فی الصلوٰۃ کہا تھا) یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں تمھارے ہاتھ اس طرح اٹھے ہوئے ہیں گویا وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں نماز میں سکون اختیار کرو

 

                   امام کو سلام کا جواب دینا

 

محمد بن عثمان، ابو جماہر، سعید بن بشیر، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم فرمایا کہ ہم امام کے سلام کا جواب دیں آپس میں دوستی رکھیں اور ایک دوسرے کو سلام کیا کریں

 

                   نماز کے بعد تکبیر کہنے کا بیان

 

احمد بن عبد ہ، سفیان عمرو، ابو معبد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا ختم ہونا تکبیر سے معلوم ہوتا تھا۔

 

یحیٰ بن موسی، عبد الرزاق، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابو معبد مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں فرض نمازوں سے فراغت کے بعد بآواز بلند ذکر ہوتا تھا اور ابن عباس کہتے ہیں کہ میں اس ذکر جہری سے ہی سمجھتا تھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہو گئے ہیں اور میں اس کی آواز سنتا تھا۔

 

                   سلام مختصر کرنے بیان

 

احمد بن محمد بن حنبل، محمد بن یوسف، اوزاعی، قرہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سلام کا مختصر کرنا سنت ہے (یعنی اس میں مد نہ کرے)

 

                   نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرے

 

عثمان بن ابی شیبہ جریر بن عبد الحمید، عاصم بن سلام، حضرت علی بن طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے اگر کسی کی نماز میں ریح خارج ہو جائے تو چلا جائے اور وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

 

                   جس جگہ فرض پڑھے ہوں اس جگہ نفل نہ پڑھے

 

مسدد، حماد، عبد الوارث، لیث حجاج بن عبید، ابراہیم بن اسماعیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم ایسا نہیں کر سکتے کہ نفل نماز پڑھنے کے لیے آگے بڑھ جاؤ یا پیچھے ہٹ جاؤ یا دائیں بائیں ہو جاؤ۔

 

عبدالوہاب بن نجدہ، اشعث بن شعبہ، منہال بن خلیفہ، حضرت ارزق بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے امام نے ہم کو نماز پڑھائی جن کا نام ابو رمثہ تھا انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نے یہی نماز (یا یہ کہ ایسی ہی نماز) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھی تھی انہوں نے مزید کہا کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پہلی صف میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے داہنی جانب کھڑے تھے اور ایک شخص اور تھا جس نے تکبیر اولی پائی تھی جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے تو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے داہنی اور بائیں طرف سلام پھیرا یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخساروں کی سفیدی دیکھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے جس طرح ابو رمثہ (یعنی میں) کھڑا ہوا اس کے بعد وہ شخص جس نے تکبیر اولیٰ پائی تھی کھڑا ہو کر دوگانہ پڑھنے لگا یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف جھپٹے اور اس کو جھنجوڑ ڈالا اور کہا بیٹھ جا، کیونکہ اہل کتاب اسی لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے ایک نماز کو دوسری نماز سے الگ نہ کیا (یہ سن کر) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نگاہ اٹھائی اور فرمایا اے خطاب کے بیٹے اللہ نے تجھے ٹھیک بات کہنے کی توفیق عطاء فرمائی۔

 

                   سجدہ سہو کا بیان

 

محمد بن عبید حماد بن زید، ایوب، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر یا عصر کی نماز میں سے کوئی ایک نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دو رکعت پڑھانے کے بعد سلام پھیر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس لکڑی کے پاس گئے جو سجدہ گاہ کے پاس لگی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر ایک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے اور چہرے سے غصہ کے آثار جھلک رہے تھے جلدی جانے والے لوگ چلے گئے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ نماز کم ہو گئی نماز کم ہو گئی وہاں موجود لوگوں میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے وہ دونوں کچھ پوچھتے ہوئے دوڑ رہے تھے اتنے میں ایک شخص جس کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذوالیدین کہتے تھے بول اٹھایا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھول ہو گئی یا نماز ہی کم ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ مجھ سے بھول ہوئی ہے اور نہ ہی نماز کم ہوئی ہے اس شخص نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا کیا ذوالیدین سچ کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے اشارہ کیا ہاں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھانے کی جگہ پر آئے اور دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیرا اور سلام کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا جیسا کہ نماز میں ہوتا ہے یا اس سے کسی قدر لمبا پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور اللہ اکبر کہا پھر تکبیر کہہ کر سجدہ کیا جیسا کہ نماز میں ہوتا ہے یا اس سے کسی قدر لمبا، پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، ایوب کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا؟ انہوں نے کہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تو مجھے ایسا یاد نہیں ہے البتہ مجھے خبر دی گئی کہ عمران بن حصین نے (اپنی حدیث میں) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (سجدہ سہو کے بعد) پھر سلام پھیرا۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ایوب، محمد، حماد، محمد بن سیرین سے ان کی سند کے ساتھ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی (مالک نے) لفظ بنا اور لفظ فَائَمَنُوا نہیں کہا بلکہ اس کی جگہ یہ کہا فقَالَ الناَسُ نَعَم، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اٹھایا (یہاں مالک نے) کبر ذکر نہیں کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا جیسا کہ نماز میں ہوتا ہے یا اس سے کسی قدر لمبا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (سجدہ سے) سر اٹھایا یہاں تک مالک کی حدیث پوری ہو گئی اور انہوں نے اس کے بعد کا ذکر نہیں کیا اور اشارہ کا ذکر حماد بن یزید کے علاوہ اور کسی نے نہیں کیا۔

 

مسدد، بشر، ابن مفضل، سلمہ، ابن علقمہ، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو نماز پڑھائی (سلمہ بن علقمہ نے) حماد کی حدیث کا پورا مضمون بیان کیا ہے بشمول، محمد بن سیرین کے اس قول کے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران حصین نے اپنی حدیث میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا (سلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے (محمد بن سیرین سے) پوچھا کہ تشہد (یعنی حدیث میں اس کے متعلق کیا مذکور ہے) کہا کہ میں نے تشہد کے بارے میں ( ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے) کچھ نہیں سنا البتہ میرے نزدیک یہ بات پسندیدہ ہے کہ تشہد پڑھا جائے اور اس حدیث میں (یسمیہ ذوالیدین) کا ذکر نہیں ہے اور نہ اشارہ سے جواب دینے کا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غصہ کے متعلق کچھ مذکور ہے اور حماد کی حدیث سے زیادہ مکمل ہے۔

 

علی بن نصربن علی، سلیمان بن حرب، حماد، بن زید، ایوب، ہشام، یحیٰ بن عتیق، ابن عون، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ذوالیدین کے قصہ کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی اور سجدہ کیا اور ہشام بن حسان نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک تکبیر کہی اور اس کے بعد پھر دوسری تکبیر کہی اور سجدہ کیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حبیب بن شہید، حمید، یونس اور عاصم احول نے بواسطہ محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا جیسا کہ حماد بن زید نے ہشام سے روایت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور حماد بن سلمہ و ابو بکر بن عیاش نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے لیکن انھوں نے بھی اِنَّہٗ کَبَّرَ ثُمَّ کَبَّرَ روایت نہیں کیا جیسا کہ حماد بن زید نے ذکر کیا ہے۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، محمد بن کثیر، اوزاعی، زہری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو نہ کیا جب تک کہ آپ کو اپنی بھول کا یقین نہیں ہو گیا۔

 

حجاج بن ابی یعقوب، ابن ابراہیم، صالح، ابن شہاب، ابو بکر بن سلیمان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان کو ابو بکر بن سلیمان بن ابی حتمہ نے خبر دی کہ مجھ کو یہ حدیث اس طرح پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو نہیں کیے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کیا ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بواسطہ سعید بن المسیب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پہنچی ہے اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو بکر بن الحارث بن ہشام اور عبید اللہ بن عبد اللہ نے مجھے اس کی خبر دی ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے یحیٰ بن ابی کثیر اور عمران بن ابی انس نے بواسطہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کیے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے زبیدی نے بطریق زہری بواسطہ ابو بکر بن سلیمان بن ابی حشمہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وَلَمْ یَسْجُدْ سَجْدَتَیْ السَّہْو۔

 

ابن معاذ، شعبہ، سعد، سلمہ بن عبد الرحمن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کم کر دی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو سجدے کئے۔

 

اسمعیل بن اسد، شابہ، ابن ابی ذئب، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرض نماز کی دو رکعتیں پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! نماز گھٹ گئی یا آپ بھول گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ نے ایسا کیا تو ایسا کچھ نہیں کیا ہے (یعنی آپ نے دو رکعت چھوڑ دی ہیں) پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور اٹھ کھڑے ہوئے اور سجدہ سہو نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ داؤد بن حصین نے بطریق ابو سفیان مولیٰ ابی احمد بواسطہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی قصہ روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔

 

ہارون بن عبد اللہ ہاشم، بن قاسم، عکرمہ بن عمار، ضمضم بن جوس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ بھی مروی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کے بعد دو سجدے کیے۔

 

احمد بن محمد بن ثابت، ابو اسامہ، محمد بن علاء حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا (اس کے بعد ابو اسامہ نے) حدیث ابن سیرین عن ابو ہریرہ والا مضمون ذکر کیا جس میں یہ ہے کہ آپ نے سلام پھیر اور اس کے بعد دو سجدے سہو کیے۔

 

                   جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟

 

مسدد، یزید بن زریع، مسدد، مسلمہ، بن محمد، خالد، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی تین رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرہ تشریف لے گئے پس ایک شخص کھڑا ہوا جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ لمبے تھے بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا نماز کم ہو گئی؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ کے عالم میں چادر گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں! پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ آخری رکعت پڑھی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا اور دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا۔

 

حفص بن عمرو مسلم بن ابراہیم، حفص، شعبہ، حکم، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھ لیں۔ لوگوں نے عرض کیا کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا وہ کیوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کے بعد دو سجدے کیے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں زیادتی کی تھی یا کمی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کیا نماز کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ کیوں؟ لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا اور ایسا کیا ہے (یعنی جو بھول ہوئی تھی اس کو بتایا) پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا پاؤں جھکایا اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدہ سہو کیے اور پھر سلام پھیرا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر نماز کے سلسلہ میں کوئی حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تم کو ضرور مطلع کر دیتا لہذا جب میں بھول جاؤں تو تم یاد دلا دیا کرو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمھیں نماز میں شک ہو جائے تو ذہن پر زور ڈال کر سوچو کہ ٹھیک کیا ہے؟ پھر اسی حساب سے نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے، پھر دو سجدے کرے۔

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے اس میں یہ اضافہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو دو سجدے کرے (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پلٹے اور دو سجدے کیے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے حصین نے اعمش کی طرح نقل کیا ہے۔

 

نصر بن علی، جریر، یوسف بن موسی، جریر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن ہمیں (بجائے چار کے) پانچ رکعتیں پڑھا دیں جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بجائے چار کے) پانچ رکعات پڑھا دی ہیں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (قبلہ کی طرف) مڑے اور دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا اس کے بعد فرمایا میں بھی انسان ہوں پس جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن سعد بن ابی حبیب، سوید بن قیس، حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا اس حال میں کہ نماز کی ایک رکعت باقی رہ گئی تھی پس ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں (یہ جان کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں واپس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کیا پس انھوں نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی (حضرت معاویہ بن خدیج کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد) میں نے لوگوں سے یہ قصہ بیان کیا تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں! ہاں اگر دیکھ لوں تو پہچان لوں گا۔ تبھی وہ شخص میرے قریب سے گزرا میں نے کہا یہ ہے وہ شخص لوگ بولے یہ طلحہ بن عبید اللہ ہیں۔

 

                   شک چھوڑنے اور یقین پر عمل کرنے کا بیان

 

محمد بن علاء، ابو خالد، عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کسی کو نماز میں شک پڑ جائے (کہ رکعات تین ہوئیں یا چار) تو شک کو چھوڑ دے اور یقین پر عمل کریں (یعنی تعداد کی زیادتی کو قابل لحاظ نہ رکھے بلکہ کم والی تعداد کو مدار بنا کر اس کے مطابق عمل کرے) جب اس کو یقین ہو جائے کہ نماز پوری ہو گئی ہے تو دو سجدے کرے اب اگر اس کی نماز پوری ہو چکی تھی تو یہ رکعت اور دونوں سجدے نفل ہو جائیں گے اور اگر اس کی نماز پوری نہیں ہوئی تھی تو اس رکعت سے پوی ہو جائے گی اور وہ دو سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا سبب بن جائیں گے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ہشام بن سعد اور محمد بن مطرف نے بطریق زید بروایت عطاء بن یسار بواسطہ ابو سعید خدری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو خالد کی حدیث مکمل ہے۔

 

محمد بن عبد العزیز، ابی رزمہ، فضل بن موسی، عبد اللہ بن کیسان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو کا نام مرغمتین رکھا تھا (یعنی شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث)

 

قعنبی، مالک، زید بن اسلم، حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور یہ یاد نہ رہے کہ کتنی رکعات ہوئیں تین یا چار تو اس کو چاہیے کہ ایک رکعت پڑھ لے اور بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر کے سلام پیھر لے اگر پڑھی جانے والی رکعت پانچویں ہو گی تو یہ دو سجدے مل کر ایک دوگانہ ہو جائے گا اور اگر وہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعت چوتھی ہو گی تو یہ دو سجدے شیطان کے لیے باعث ذلت و رسوائی ہوں گے۔

 

قتیبہ، یعقوب بن عبد الرحمن، حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے باسناد مالک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شک کرے اور پھر (شک کے بعد) یقین حاصل ہو جائے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں تو کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت سجدہ کے ساتھ پڑھ کر بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے پھر جب فارغ ہو جائے اور سلام کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے تو سجدے کرے اور سلام پھیر دے اس کے بعد حدیث مالک کی طرح بیان کی ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسی طرح ابن وہب نے مالک حفص بن میسرہ داؤد بن قیس اور ہشام بن سعد سے روایت کیا ہے مگر ہشام نے اس کو ابو سعد خدری تک پہنچایا ہے۔

 

                   شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے

 

نفیلی، محمد بن سلمہ، حصیف، ابو عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تو نماز میں ہوا اور تجھے اس بارے میں شک ہو جائے کہ رکعتیں تین ہوئیں یا چار مگر ظن غالب یہ ہو کہ چار ہوئیں تو تشہد پڑھ اور دو سجدے کر بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے اور (سلام کے بعد) پھر تشہد پڑھ اور سلام پھیر۔ ابو داؤد نے کہا عبد الواحد نے یہ حدیث بواسطہ خصیف موقوفاً روایت کی ہے اور سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبد الواحد کی موافقت کی ہے اور متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اس کو مسند نہیں کیا۔

 

إمحمد بن علاء، اسماعیل، بن ابراہیم، ہشام، یحیٰ ہلال، بن عیاض، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور یہ یاد نہ رہے کہ زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھ کر دو سجدے کرلے اور جب شیطان آ کر کہے کہ تیرا وضو ٹوٹ گیا تھا تو کہہ دے کہ تو جھوٹا ہے مگر یہ کہ جب تو ناک سے بو سونگھے یا کان سے آواز سے (تو تیرا وضو ٹوٹ جائے گا) یہ ابان کی بیان کردہ حدیث کے الفاظ ہیں ابو داؤد کہتے ہیں کہ معمر اور علی بن مباک نے عیاض بن ہلال کہا ہے اور اوزاعی نے عیاض بن ابی زہیر

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس بھول میں مبتلا کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں جب تم میں سے کسی کے ساتھ یہ صورت پیش آئے تو اس کو چاہیے کہ بیٹھ کر سجدے کر لے ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ابن عینیہ معمر اور لیث نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔

 

حجاج بن ابی یعقوب، ابن اسحاق ، محمد بن مسلم اس حدیث کو اپنی اسناد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سلام سے پہلے بیٹھ کر

 

حجا ج، یعقوب، ابن اسحاق ، محمد بن مسلم زہری اسی سند و متن کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پس وہ دو سجدے کرے سلام سے پہلے اور اس کے بعد سلام پھیرے۔

 

                   سجدہ سہو سلام کے بعد ہے

 

احمد بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، عبد اللہ بن مسافح، مصعب عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو سلام کے بعد دو سجدے کرے

 

                   دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر اٹھ جانا

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، عبد الرحمن اعرج، حضرت عبد اللہ بن بجینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی (دو رکعت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے نہیں بلکہ کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو گئے جب نماز پوری ہو گئی اور ہم سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ اکبر کہہ کر دو سجدے کیے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے اس کے بعد سلام پھیرا۔

 

                   دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر اٹھ جانا

 

عمرو بن عثمان، بقیہ، شعیب نے زہری سے اسی طرح روایت کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کھڑے کھڑے تشہد پڑھا ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن الز بیر نے بھی سلام سے پہلے اسی طرح دو سجدے کیے تھے جب وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے تھے اور یہی زہری کا قول ہے۔

 

                   جو شخص قعدہ اولیٰ بھول جائے وہ کیا کرے؟

 

حسن بن عمرو، عبد اللہ بن ولید، سفیان، جابر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور اس کو سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو بیٹھ جائے اور اگر سیدھا کھڑا ہو چکا تھا تو پھر نہ بیٹھے اور دو سجدہ سہو کر لے۔

 

عبید اللہ بن عمر، یزید بن ہارون، حضرت زیاد بن علاقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ نے نماز پڑھائی تو وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے (بیٹھے نہیں) ہم نے سبحان اللہ کہا تو انھوں نے بھی سبحان اللہ کہا اور نماز جاری رکھی جب نماز پوری کر لی اور سلام پھیرا تو دو سہو کے سجدے کیے اور جب نماز سے فارغ ہو گئے تو کہا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا جیسا کہ میں نے اس وقت کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ابن ابی لیلیٰ نے بھی بواسطہ شعبی حضرت مغیرہ بن شعبہ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابو عمیس نے اس کو ثابت بن عبیدہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کو مغیرہ بن شعبہ نے نماز پڑھائی زیاد بن علاقہ کی طرح ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو عمیس مسعودی کا بھائی ہے اور سعد بن ابی وقاص نے بھی ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ مغیرہ، عمران، حصین، ضحاک بن قیس اور معاویہ بن ابی سفیان نے کیا ابن عباس اور عمر بن عبد العزیز نے اس پر فتویٰ دیا ہے ابو داؤد نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو دو رکعت پڑھ کر بیٹھے نہیں پھر سلام کے بعد سجدہ کیا۔

 

عمرو بن عثمان، ربیع، نافع، عثمان بن ابی شیبہ، شجاھ بن مخلد، ابن عیاش حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر سہو (بھول) کے لیے دو سجدے ہیں بعد سلام کے اور عمرو کے سوا کسی نے بھی عن ابیہ روایت نہیں کیا۔

 

                   سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھ پھر سلام پھیرے

 

محمد بن یحییٰ، فارس، محمد بن عبد اللہ بن مثنی، اشعث، محمد بن سیرین، خالد حضرت عمر ان بن حصین سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ بھول گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کیے اس کے بعد تشہد پڑھا اور پھر سلام پھیرا۔

 

                   نماز سے فراغت کے بعد پہلے عورتوں کو مسجد سے جانا چاہیے

 

محمد بن یحییٰ، محمد بن رافع، عبد الرزاق، معمر، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سلام پھیرتے تو تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جاتے لوگ اس کی وجہ یہ تصور کرتے تھے کہ عورتیں مردوں سے پہلے (مسجد سے) چلی جائیں۔

 

                   نماز سے فارغ ہو کر کس طرف اٹھنا چاہیے

 

ابو ولید، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت قبیصہ بن ہلب کے والد سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی (نماز سے فراغت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں جانب گھوما کرتے تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فراغت کے بعد کبھی داہنی طرف رُخ کر کے بیٹھتے اور کبھی بائیں طرف رُخ کر کے یا اس کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی داہنی طرف سے اٹھ کر جاتے اور کبھی بائیں طرف سے)۔

 

مسلم بن ابراہیم، شعیبہ، سلیمان عمارہ، بن عمیر، اسود، بن یزید، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا ایک حصہ شیطان کو نہ دے یعنی نماز سے اٹھ کر جانے کو داہنی طرف متعین کر لے۔ حالانکہ میں نے اکثر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بائیں طرف اٹھ کر جاتے دیکھا ہے عمارہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث سننے کے بعد میں مدینہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کی ازواج) کے مکانات بائیں طرف بنے ہوئے ہیں۔

 

                   نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر ہے

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کچھ نمازیں اپنے گھر میں بھی پڑھا کرو اور یہ کہ گھروں کو قبریں نہ بنا لو۔

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، سلیمان بن بلال، ابراہیم بن ابی نضر، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرض کے علاوہ (دیگر نوافل) گھر میں پڑھنا، میری اس مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔

 

اگر کوئی شخص (شبہ یا غلط فہمی کی بنا پر) قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں نماز پڑھ رہا ہوا اور اسی دوران اس کو قبلہ کا علم ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ پس جب یہ آیت (فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ وَحَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ ) 2۔ البقرۃ:150) (یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! تم نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کرو اور اے مومنو! تم جہاں کہیں ہو اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو) نازل ہوئی تو یہ حکم سن کر ایک شخص بنی سلمہ کے پاس سے گزرا۔ اس وقت وہ لوگ نماز فجر کے رکوع میں تھے اس نے ان کو پکار کر کہا کہ سنو! قبلہ (بیت المقدس سے) کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا ہے اس نے یہ اعلان دو مرتبہ کیا حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم سن کر وہ لوگ رکوع کی حالت ہی میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔

٭٭٭

نوٹ: کچھ متن اصل ایکسل فائل میں ہی نا مکمل ہے، اس کی معذرت۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

مائکرو سافٹ ایکسل  سے تبدیلی، باز تدوین ، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید