FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ذرا انتظار کر

 

 

 

 

                فراغ روہوی

 

 

 

 

 

سوانحی اشارے

 

نام     :       محمد علی صدیقی

قلمی نام :       فراغ روہوی

والدین :       جناب محمد انعام الحق صدیقی(مرحوم) و محترمہ زینب خاتون

ولادت :       ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ ئ، بمقام: خلیفہ ٹولہ، موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار

تعلیم   :       بی۔ کام پارٹ – I

شغل   :       تجارت

آغاز شاعری    :       ۱۹۸۵ ء

شرف تلمذ     :       حضرت قیصر شمیم

تصانیف        :       (۱) چھیاں چھیاں       (ماہیے ) ۱۹۹۹ ء

(۲) ذرا انتظار کر (غزلیں ) ۲۰۰۲ ء

قدر شناسی       :       ’’چھیاں چھیاں‘‘ پر اُتر پردیش اور مغربی بنگال اُردو اکاڈمیوں کے                      انعامات برائے ۱۹۹۹ ء

ادارت :       سہ ماہی ’’ترکش‘‘کلکتہ، دوماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور، ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ اور           ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کلکتہ

انتخاب :       کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں

رابطہ   :       -67مولانا شوکت علی اسٹریٹ(کولوٹولہ اسٹریٹ) کلکتہ700073

موبائل :       9831775593 / 9830616464

E-mail : faraghrohvi@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

ضائع نہ ہو گی تیری نگاہوں کی جستجو

سچ ہوں گے تیرے خواب، ذرا انتظار کر

 

 

 

 

انتساب

 

دادا جان محترم محمد اکرم صدیقی

والد محترم انعام الحق صدیقی

والدہ معظمہ محترمہ زینب خاتون

استاذی محترم حضرت قیصر شمیم

کے نام

جنہوں نے میرے وجود کو نہ صرف اخلاقی محاسن سے آراستہ کیا ہے بلکہ

اپنی بے پناہ محبتوں،شفقتوں اور دعاؤں سے بھی نوازا ہے

 

 

 

 

صاحب کتاب

 

چہرہ گلاب کی طرح تر و تازہ، صبیح رنگ میں دل کشی بے اندازہ۔ پیشانی کشادہ و پُر نور، دل و دماغ شوق و شعور سے معمور۔ آنکھیں بادامی رنگ کی حامل، فطری ذہانت کے اظہار میں کامل۔ سیاہ ابرو بہ قدر ہلال، مظہرِحسن و جمال۔ آنکھوں کے حلقوں میں غور و فکر کے نشان،گھنے سیاہ بالوں میں پوشیدہ بزرگی کی پہچان۔ متناسب ہونٹوں پر پان کی لالی،قلب ریا کاری سے خالی۔ بڑے بڑے کان اور ستواں ناک،آواز بلند اور لہجہ بے باک۔ قد درمیانہ،اعتقاد موحدانہ۔ مختصر مونچھ، مردانگی کے تیور، داڑھی کی صفائی، ایک الگ منظر۔ خد و خال میں جاہ و جلال، شخصیت اوصاف حمیدہ سے مالا مال۔ حق گویوں سے محبت، فریب کاروں نفرت۔ اللہ کی نوازش پر شاکر،دنیا کی ہر آزمائش میں صابر۔ مشرقی و مغربی،دونوں لباس پسند،ہر لباس میں شخصیت بلند۔ فکر میں گیرائی،کلام میں گہرائی۔ فن میں آزادیِ اظہار کے قائل، طبیعت جدت طرازی کی طرف مائل۔ اوزان و بحور کی اچھی پہچان، نشستوں اور مشاعروں میں خاص الخاص مہمان۔ بیشتر قدیم و جدید اصناف کے طرف دار ہیں،ہر میدان میں مصروف کار ہیں۔ غزل،نظم،رباعی تینوں گھٹی میں پڑی ہیں،ہائیکو،ماہیا،دوہا جیسی صنفیں مٹھی میں پڑی ہیں۔ آپ ہیں کہیں غزلی،کہیں نظمی،کہیں دوہوی،یعنی شاعر، تبصرہ نگار اور مدیر فراغ روہوی۔

۱۹۵۶ ء میں ۱۶؍اکتوبر کو دنیا میں آئے، ضلع نوادہ(بہار) میں صدیقی خاندان کے چراغ کہلائے۔ گاؤں کے مکتب میں تعلیم کا پہلا مرحلہ طے ہوا، پھر والدین کے ساتھ کلکتے کا رُخ کیا۔ فراغ جناب انعام الحق صدیقی (مرحوم)کے خلفِ اکبر ہیں، محترمہ زینب خاتون کے لیے نورِ چشم مادر ہیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند دادی مرحومہ وجیہ النساء صاحبہ کی نظر میں ’’چندے ماہتاب‘‘ رہ چکے ہیں، لکھنوی تہذیب کے دلدادہ اور علم و ادب کے قدر دان دادا حضرت محمد اکرم صدیقی (مرحوم) انہیں ’’چندے آفتاب‘‘ کہہ چکے ہیں۔ فراغ،شوکت اور عطا الحق کے برادرِ اکبر ہیں،چھوٹی بہنیں آمنہ،غزالہ اور تبسم بھائیوں کے برابر ہیں۔ نیک اطوار و خدمت گزار شہزادی پروین صاحبہ ان کی رفیقۂ حیات ہیں، صدف،آفرین،درخشاں اور صالحہ ان کی کائنات ہیں۔

شادی سے پہلے بی۔ کام۔ (پارٹ I)تک کالج میں پڑھتے رہے،اس کے بعد اپنے طور پر علم کی سیڑھیاں چڑھتے رہے۔ ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کی ادارت کی پھر ’’تبصرہ‘‘ نکالنے کی جسارت کی۔ والد ماجد کے ’’گلستاں بک اسٹال‘‘میں تمام ادبی کتابوں کو کھنگالا،جلد ہی شوق مطالعہ نے بہر طور ان کی علمیت کو اُجالا۔ شاعری کی دھن سمائی تو غزل سے ابتدا کی،ابتدائی کلام پر قمر کونڈوی (مرحوم)اور جناب بازغ بہاری سے اصلاح لی۔ ۱۹۸۴ ء میں بنگلور کے پندرہ روزہ ’’خوب صورت‘‘ میں پہلی غزل کی اشاعت ہوئی،رفتہ رفتہ دیگر اصناف سخن سے انہیں رغبت ہوئی۔ قمر کونڈوی کی وفات کے بعد حضرت قیصر شمیم کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے،الحمد للہ،بہت جلد اپنے ہم عصروں میں انفرادیت و اہمیت کے حامل ہو گئے۔

مشہور مغنی جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے اپنے کیسیٹ ’’ہوپ‘‘ میں آپ کی غزل پیش کی پھر نامور گلوکار محمد عزیز،رفیق ساگر اور پرویز نے آپس میں ’’سمجھوتہ‘‘ کر کے ’’دردِ دل‘‘ کے ساتھ ’’تنہائی‘‘ میں آپ کے فکرو فن کو ’’صدا‘‘ دی۔ اجل،جینوا اور کیلاش کی مدھر آواز میں ’’ہے ماں‘‘ کے ذریعہ آپ کے بھجنوں نے اپنا جادو جگایا،ان فرمائشی بھجنوں نے شیرا والی ماں کے بھگتوں کو ان کا اپنا مارگ دکھایا۔

علاوہ ازیں درسی کتابوں نے کلام فراغ کا استقبال کیا،بچوں نے انہیں پڑھ کر اپنے ذہن کو مالا مال کیا۔

فراغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں،لیکن ماہیا نگاری میں بھی ماہر ہیں۔ اپنے ماہیوں کا پہلا مجموعہ ’’چھیاں چھیاں‘‘ شائع کر کے ادبی دنیا میں دھوم مچا دی،سچ تو یہ ہے کہ ہندو پاک کے ماہیا نگاروں کو ایک نئی راہ دکھا دی۔ کلکتے میں ماہیوں کا پہلا مشاعرہ آپ ہی کے زیر اہتمام ہوا،اس میں مناظر عاشق ہرگانوی اور مظہر امام وغیرہ کی شرکت سے ماہیوں کے حق میں بڑا کام ہوا۔ آپ نے دو ماہی ’’دستخط‘‘کی ذمہ داری قبول کی، رسالے کی کایا پلٹ کر ہر طرف سے داد و تحسین وصول کی۔ ’’دستخط‘‘ کا انتہائی دیدہ زیب اور ضخیم ’’رباعی نمبر‘‘ شائع کیا، تمام سابقہ رباعی نمبروں کا ریکارڈ بہ آسانی توڑ دیا۔ ان کامیابیوں نے اپنا ذاتی رسالہ نکالنے پر مائل کیا،آپ نے سہ ماہی ’’تر کش‘‘ شائع کر کے سب کو اپنی صلاحیتوں کا قائل کیا۔

’’چھیاں چھیاں‘‘ سے پہلے ’’ذرا انتظار کر‘‘ کی باری تھی،لیکن پیش نظر ماہیوں کی گرم بازاری تھی۔ گرم بازاری سے فائدہ اٹھا لیا،پیسے بھی کما لیے،نام بھی کما لیا۔ اب اپنی غزلوں کو پس پردہ رکھ کر ’’ذرا انتظار کر‘‘ نہیں کہیں گے، ’’تجھے دیکھنے کے بعد‘‘ کہتے ہوئے ہمارے درمیان نغمہ سرا رہیں گے۔ خوشی کے ساتھ بچوں کو کھٹے میٹھے پھلوں کی طرح اپنے ’’کھٹے میٹھے دوہے‘‘ چٹائیں گے،پھر ’’لفظوں کے رس گلے‘‘ کھلا کر انہیں ’’چاند کے رتھ پر‘‘ بٹھائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جشن ’’چراغاں‘‘ کا اہتمام ہو گا،جس میں ہر چراغ کی لو کا مکمل احترام ہو گا۔ انشاء اللہ فراغ کے شوق فتوحات کے قدم اور بھی آگے بڑھیں گے،نئے نئے قلعوں کے بلند سے بلند زینوں پر چڑھیں گے :

دعا یہ ہے کہ رہیں کامیاب دنیا میں

حیات ان کی رہے لاجواب دنیا میں

 

سید حسن

۷۷،فیئرس لین،(فرسٹ فلور)کلکتہ۔ ۷۰۰۰۷۳

 

 

 

 

حمد

 

 

 

تو خدا ہے خدا، تو کہاں، میں کہاں

میں ہوں بندہ ترا، تو کہاں، میں کہاں

 

تو ہی معبود ہے، تو ہی مسجود ہے

میں ہوں وقفِ ثنا، تو کہاں، میں کہاں

 

نور ہی نور ہے ذاتِ باری تری

خاک سے میں بنا، تو کہاں، میں کہاں

 

 

کیا حقیقت مری، میں فنا ہی فنا

تو بقا ہی بقا، تو کہاں، میں کہاں

 

خالق و خلق کے بیچ موجود ہے

اک بڑا فاصلہ، تو کہاں، میں کہاں

 

تیرے اوصاف کا کب احاطہ ہوا

تو گماں سے سوا، تو کہاں، میں کہاں

 

تیرے اسرارِ پنہاں سمجھنے سے ہے

ذہن عاجز مرا، تو کہاں، میں کہاں

 

تو مخاطب ہے شام و سحر اور میں

بے زباں، بے نوا، تو کہاں، میں کہاں

 

میری اوقات کیا، ہے نبیؐ بھی مرا

نام لیوا ترا، تو کہاں، میں کہاں

 

کیا ملائک ترے، کیا فراغِؔ حزیں

سب کی ہے یہ صدا، تو کہاں، میں کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

پردہ سیاہیوں کا ہٹا کر ہی رکھ دیا

سورج کو لا کے سب کے برابر کر ہی رکھ دیا

 

کندن مجھے نبیؐ بنا کر ہی رکھ دیا

اللہ رے پلٹ کے مقدر کر ہی رکھ دیا

 

ایسا لگا کہ میرے سلگتے وجود پر

شاہِ رسلؐ لگا کہ دامن اطہر کر ہی رکھ دیا

 

آنکھیں تھیں مری نور سے خالی تو آپ نے

آنکھوں میں ایک شہر منور کر ہی رکھ دیا

 

 

ایک بوند میں نے مانگی تو خیر الانامؐ نے

میری ہتھیلیوں پہ سمندر کر ہی رکھ دیا

 

کافی تھی خاکِ طیبہ ہمارے لیے، مگر

دامن میں اُس غنیؐ نے تو گوہر کر ہی رکھ دیا

 

نعت رسول پاکؐ جو کہنے لگا فراغؔ

لہجہ مرے نبیؐ نے بدل کر ہی رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حرفِ دعا

 

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

 

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

 

تونے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

 

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال دے

 

 

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یارب، تو ڈال دے

 

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یارب، اُسے صدف سے تو باہر نکال دے

 

ہو فیض یاب حرفِ دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اُس کی ڈال دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب زباں دی ہے شعورِ خوش بیانی دے خدا

مجھ کو بھی ملک سخن کی حکمرانی دے خدا

 

منکشف ہوتا نہیں ہے مجھ پہ اپنا ہی وجود

خود شناسی کی مجھے کوئی نشانی دے خدا

 

پیاس میری بجھ نہ جائے دیکھ کر دریا کہیں

قطرہ قطرہ ہی مرے حصے کا پانی دے خدا

 

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو بدل کر ایک دن

مہربانوں کو نجاتِ مہربانی دے خدا

 

پھر تعاقب میں ہمارے لشکر فرعون ہے

غرق اُس کو نیل کر دے حکم ثانی دے خدا

 

کر رہا ہے التجا تجھ سے فراغِؔ روہوی

رشک جس پر سب کریں وہ زندگانی دے خدا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ذرّے سے آفتاب بنایا گیا مجھے

اک دن یہ معجزہ بھی دکھایا گیا مجھے

 

دنیا نے جب سے نام دیا ہے چراغ کا

بے نور محفلوں میں جلایا گیا مجھے

 

جادو کی اک چھڑی جو مرے ہاتھ آ گئی

ہر سمت ہاتھوں ہاتھ اُٹھایا گیا مجھے

 

کچھ بھی دکھائی دیتا نہیں اپنے ماسوا

یہ کس نگار خانے میں لایا گیا مجھے

 

یارو، میں کوئی شہر تمنا نہ تھا، مگر

اُجڑا تو بار بار بسایا گیا مجھے

 

اک عمر میں نے خاک اُڑائی یہاں فراغؔ

تب مسند سخن پہ بٹھایا گیا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنی اوقات میں رہنا ہی مناسب تھا میاں

میں کوئی میر تقی میرؔ نہ غالبؔ تھا میاں

 

بھول جانے کا گماں غیر مناسب تھا میاں

وہ بچھڑ کر بھی مرے ذہن پہ غالب تھا میاں

 

میں اُترتا ہی گیا اُس کے نواحِ جاں میں

عام انسان تھا میں، سنت نہ راہب تھا میاں

 

ایک تو ہجر کی شب اُس پہ تصور اُس کا

رات بھر جاگتے رہنا مرا واجب تھا میاں

 

کس طرح چھپتا بھلا اُس کا تعلق مجھ سے

وہ تو تصویر میں بھی مجھ سے مخاطب تھا میاں

 

وہ جو روٹھا تو نظر پھیر لی سب نے مجھ سے

وہ مخاطب تھا تو ہر شخص مخاطب تھا میاں

 

وقت نے ڈال تو دی پاؤں میں زنجیر حسیں

دل مگر جانب آوارگی راغب تھا میاں

 

عمر کی آخری منزل پہ مقدر چمکا

جانے کس موڈ میں تقدیر کا کاتب تھا میاں

 

حاکم شہر سے تھے گہرے مراسم، لیکن

کب فراغؔ اُن کی عنایات کا طالب تھا میں

٭٭٭

 

 

 

 

نواحِ جاں میں کسی کے اُترنا چاہا تھا

یہ جرم میں نے بس اک بار کرنا چاہا تھا

 

جو بت بناؤں گا تیرا تو ہاتھ ہوں گے قلم

یہ جانتے ہوئے جرمانہ بھرنا چاہا تھا

 

بغیر اُس کے بھی اب دیکھئے کہ زندہ ہوں

وہ جس کے ساتھ کبھی میں نے مرنا چاہا تھا

 

شب فراق اجل کی تھی آرزو مجھ کو

یہ روز روز تو میں نے نہ مرنا چاہا تھا

 

کشید عطر کیا جا رہا ہے اب مجھ سے

کہ مشک بن کے فضا میں بکھرنا چاہا تھا

 

اس ایک بات پہ ناراض ہیں سبھی سورج

کہ میں نے اُن سا اُفق پر اُبھرنا چاہا تھا

 

لگا رہا ہے جو شرطیں مری اُڑانوں پر

مرے پروں کو اُسی نے کترنا چاہا تھا

 

اُسی طرف ہے زمانہ بھی آج محو سفر

فراغؔ میں نے جدھر سے گزرنا چاہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

میاں، دیکھا نہیں جاتا، کریں کیا دیکھ لیتے ہیں

یہ دنیا جو دکھاتی ہے تماشا دیکھ لیتے ہیں

 

وہی منظر، وہی مایوس چہرے گھر سے باہر تک

ہے عادت دیکھ لینے کی لہٰذا دیکھ لیتے ہیں

 

جو بس چلتا تو آنکھوں کو کبھی رسوا نہ کرتے ہم

عجب اک خواب ہے جو بے ارادہ دیکھ لیتے ہیں

 

فقیرانِ محبت ہر جگہ ٹھہرا نہیں کرتے

سکونت کرنے سے پہلے علاقہ دیکھ لیتے ہیں

 

مسافر ہیں، مگر ایسے مسافر ہم نہیں ہیں جو

سفر کرنے سے پہلے استخارہ دیکھ لیتے ہیں

 

اجازت دے ہی دی ہے جب اُنہوں نے لب کشائی کی

ذرا سچ بول کر ہم بھی نتیجہ دیکھ لیتے ہیں

 

میاں، اب تو ہمارے سر پہ بھی اُگنے لگی چاندی

ہمیں کیا دن دکھاتا ہے بڑھاپا دیکھ لیتے ہیں

 

فراغؔ اُس کے شکنجے میں ہماری جان ہے جب تک

کریں کیا زندگی کا ہر ڈراما دیکھ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی زوال پہ اپنے ہنسا کروں خود بھی

مزہ تو جب ہے کہ یہ حوصلہ کروں خود بھی

 

محاذِ زیست پہ بھیجے گئے ہیں سب تنہا

یہ جنگ کیوں نہ اکے لیے لڑا کروں خود بھی

 

بہت دنوں سے زمانہ مری تلاش میں ہے

میں کھو گیا ہوں کہاں، یہ پتا کروں خود بھی

 

دعائیں کر کے مرے حق میں تھک گئے احباب

اثر زباں کو ملے تو دعا کروں خود بھی

 

میں کشمکش میں ہوں، لیکن مرے بزرگوں کا

یہ فیصلہ ہے، کوئی فیصلہ کروں خود بھی

 

یہ نیک کام مرے دوستوں کا ہے، لیکن

جو عیب مجھ میں ہیں، اُن کو گنا کروں خود بھی

 

جو بک رہا ہوں جنوں میں، وہ ہوش آنے پر

سنوں کسی سے تو خود سے گلہ کروں خود بھی

 

تری طرح جو اے واعظ، غم زمانہ سے

فراغؔ پاؤں تو ذکر خدا کروں خود بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

تمہارے دل میں اُتر کر سکون پایا ہے

میں تھک گیا تھا، ٹھہر کر سکون پایا ہے

 

کھلی جو وقت کی مٹھی تو خوشبوؤں کی طرح

فضا میں میں نے بکھر کر سکون پایا ہے

 

اُڑان بھرنے کا نشہ مجھے بھی تھا، لیکن

بلندیوں سے اُتر کر سکون پایا ہے

 

مری اُڑانوں سے مرعوب ہوکے یاروں نے

مرے پروں کو کتر کر سکون پایا ہے

 

سکون ڈھونڈنے نکلا تو اپنی بانہوں میں

اُداس بچوں کو بھر کر سکون پایا ہے

 

خدا کا شکر ہے گمنامیوں کی دلدل سے

فراغؔ میں نے اُبھر کر سکون پایا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کڑواہٹ سے پاک کیا ہے اپنی رام کہانی کو

ورنہ صاحب، کون لگاتا منہ سے کھارے پانی کو

 

خوشبو اور ہوا کی فطرت میرے خون میں شامل ہے

ایک جگہ کیا روک سکو گے مجھ جیسے سیلانی کو

 

بچپن میں اک نام لکھا تھا دل کے کورے کاغذ پر

آج تلک میں جھیل رہا ہوں اپنی اُس نادانی کو

 

رنگ میں اپنے رنگ کے مجھ کو خود ہی وہ کیوں چونک پڑے

حیرانی سے دیکھ رہا تھا میں اُن کی حیرانی کو

 

ایک ہی قصہ روز سنا کر بچوں کو بہلاتا ہوں

کتنے قصے یاد رہا کرتے تھے بوڑھی نانی کو

 

ساری رات غزل کہنے کا خود ہی نتیجہ دیکھ فراغؔ

بے خوابی نے لوٹ لیا ہے چہرے کی تابانی کو

٭٭٭

 

 

 

 

تمام شہر سے دل میں کھنچاؤ کیا رکھنا

کسی کسی سے تو ملنے کا سلسلہ رکھنا

 

بچا بچا کے سدا دل کا آئینہ رکھنا

کسی رئیس کے آگے نہ مدعا رکھنا

 

ہے آسمان کو چھونے کی ضد بجا، لیکن

زمیں پہ گر کے بکھرنے کا حوصلہ رکھنا

 

سنبھال لیں گے تمہیں جب ہوا گرا دے گی

زمین والوں کا اتنا تو آسرا رکھنا

 

نظر ستاروں پہ رکھنا برا نہیں، لیکن

ہر ایک حال میں ذرّوں سے واسطہ رکھنا

 

کبھی ملیں تو ملیں ہم نہ اجنبی کی طرح

بچھڑتے وقت لبوں پر یہی دعا رکھنا

 

ہزار چہرے جو رکھتے ہیں ایک چہرے پر

فراغؔ ایسے ہی لوگوں سے فاصلہ رکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 اصولِ عشق سے ہٹ کر تو جی نہیں سکتے

تجھے نہ دیکھیں پلٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

یہ جانتے تو نہ اُڑتے ہم آسمانوں میں

کہ ہم زمین سے کٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

ہم اپنے آپ میں کچھ دن سمٹ تو سکتے ہیں

تمام عمر سمٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

ہمیں سنبھال کے رکھ اپنے خانۂ دل میں

ہزار خانوں میں بٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

ہمارے واسطے اک صندلی بدن ہے بہت

ہر اک بدن سے لپٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

ہمیں ملے نہ ملے راحت جہاں، لیکن

رہِ اصول سے ہٹ کر تو جی نہیں سکتے

 

فراغؔ درسِ محبت بھی یاد کر لینا

سبق عناد کا رٹ کر تو جی نہیں سکتے

٭٭٭

 

 

 

 

جو نرم چھونے کے وقت نکلا

اُسی کا لہجہ کرخت نکلا

 

میں چھوڑ دیتا یہ شہر، لیکن

ارادہ اُس کا ہی پست نکلا

 

ذرا سی برتی جو سرد مہری

رویہ اُس کا بھی سخت نکلا

 

دیا تھا تحفے میں جو کسی کو

وہ تیر میری ہی سمت نکلا

 

چراغِ امن و اماں جلانے

نہ کوئی سادھو نہ سنت نکلا

 

سکوتِ صحرا سے ڈر کے بھاگے

تو گھر کے اندر بھی دشت نکلا

 

بھلے دنوں میں ہر ایک گھر ہی

فراغؔ کا سر پرست نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

بس میں کہاں تک دل ہے سائیں

یہ کہنا مشکل ہے سائیں

 

عمر مری گزرے گی سفر میں

تلوے میں اک تل ہے سائیں

 

بے شک میری پروازوں میں

ماں کی دعا شامل ہے سائیں

 

بات کروں کیا اونچے سُر میں

بندہ کس قابل ہے سائیں

 

ہر آہٹ پر ڈر جاتا ہوں

کون سی یہ منزل ہے سائیں

 

شہر انا کا اک اک شہری

خود اپنا قاتل ہے سائیں

 

کام فراغؔ آیا تو جانا

وہ بھی دریا دل ہے سائیں

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں سورج، کہیں ذرّہ چمکتا ہے

اشارے سے ترے کیا کیا چمکتا ہے

 

فلک سے جب نئی کرنیں اُترتی ہیں

گہر سا شبنمی قطرہ چمکتا ہے

 

اُسے دنیا کبھی دریا نہیں کہتی

چمکنے کو تو ہر صحرا چمکتا ہے

 

ستارہ پھر ستارہ ہے مرے بھائی

کبھی تیرا، کبھی میرا چمکتا ہے

 

مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے

غریبی کا کھرا سونا چمکتا ہے

 

مشقت کی بدولت ہی جبینوں پر

پسینے کا ہر اک قطرہ چمکتا ہے

 

قرینے سے تراشا ہی نہ جائے تو

کسی پہلو کہاں ہیرا چمکتا ہے

 

یہ کیا طرفہ تماشہ ہے سیاست کا

کہیں خنجر، کہیں نیزہ چمکتا ہے

 

تصور میں فراغؔ آٹھوں پہر اب تو

کوئی چہرہ غزل جیسا چمکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا

تلوے میں میرے جیسے کوئی آبلہ نہ تھا

 

یہ کیا کہ دو قدم پہ ہی سانسیں اُکھڑ گئیں

پہلے تو چلتے چلتے کبھی ہانپتا نہ تھا

 

میں اُس کے نام پہلے بھی لکھتا تھا خط، مگر

کاغذ تو اس طرح سے کبھی بھیگتا نہ تھا

 

تدبیر کارگر نہ ہوئی ورنہ دوستو

لکھا مرے نصیب کا ہرگز برا نہ تھا

 

ٹھکرا دیا تھا میں نے جسے تمکنت کے ساتھ

یارو، وہ تخت میرے کسی کام کا نہ تھا

 

خم ہو گیا تھا ایک قلندر کے سامنے

جو سر کسی امیر کے آگے جھکا نہ تھا

 

ذلت کا زہر حلق سے اُترا نہیں کبھی

یارو، میں آدمی تھا، کوئی دیوتا نہ تھا

 

دامن متاعِ درد سے خالی نہ ہو کبھی

اس کے سوا میں کوئی دعا مانگتا نہ تھا

 

کیوں خوش لباس لوگوں کے چہرے اُتر گئے

دست فراغؔ میں تو کوئی آئینہ نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

چھو لیں گے ہم جب، سوچیں گے

پھول ہیں یا وہ لب، سوچیں گے

 

پھولوں جیسے لوگ ہیں کیسے

دل ٹوٹے گا تب سوچیں گے

 

دیکھ رہے تھے کیوں مجھ کو تم

دل ہی دل میں سب سوچیں گے

 

کیا کیا دنیا سوچ رہی ہے

اُس سے ہٹ کر اب سوچیں گے

 

ہم میں کتنے عیب بھرے ہیں

تنہائی میں اب سوچیں گے

 

فنکاروں کی اس بستی میں

ہم بھی کوئی کرتب سوچیں گے

 

رنگ بدلتے شہر میں ہم بھی

جینے کے کچھ ڈھب سوچیں گے

 

روٹھ نہ جائیں شہر کے حاکم

ہم جیسے یہ کب سوچیں گے

 

خوش رکھنا ہے آقاؤں کو

یہ اہل منصب سوچیں گے

 

چاند نگر نزدیک بہت ہے

یہ طفل مکتب سوچیں گے

 

میرے پیر ہیں مجھ سے خوش کیوں

سارے ہم مشرب سوچیں گے

 

شاد فراغؔ اس دور میں کیوں ہے

پل دو پل تو سب سوچیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

پا لیا ہے جنہوں نے سراغِ غزل

جل رہا ہے اُنہی کا چراغِ غزل

 

شہ نہ دیتے اگر میرؔ و غالبؔ اسے

آسماں پر نہ ہوتا دماغِ غزل

 

اک نہیں، دو نہیں، سو نہیں، بے شمار

چاند تاروں سے روشن ہے باغِ غزل

 

آندھیوں نے تو چاہا بجھانا، مگر

کب بجھائے بجھا ہے چراغِ غزل

 

کیوں جلے اُس کے آگے کسی کا چراغ

سب پہ حاوی ہے اب تک چراغِ غزل

 

ہاتھ میں آ گیا ہے تو پھر ہاتھ سے

گرنے دینا نہ ہرگز ایاغِ غزل

 

آبروئے غزل جن کے ہاتھوں لٹی

دھو رہے ہیں وہی آج داغِ غزل

 

میرے طرزِ سخن سے مجھے جان لو

میں فراغِؔ غزل ہوں، فراغِؔ غزل

٭٭٭

 

 

 

 

ہے فصل گل تو دل میں اُتر جانا چاہیے

ہر سمت خوشبوؤں کو بکھر جانا چاہیے

 

راہِ وفا میں جاں سے گزر جانا چاہیے

جب یہ نہ ہو تو شرم سے مر جانا چاہیے

 

گرداب سے بھی صاف گزر جانا چاہیے

یا کشتی انا سے اُتر جانا چاہیے

 

چلئے جدھر بھی چلنا ہو، لیکن کبھی کبھی

سن کر پکار دل کی ٹھہر جانا چاہیے

 

جس سمت جا کے لوگ کبھی لوٹتے نہیں

دل کہہ رہا ہے آج اُدھر جانا چاہیے

 

دیکھے سے جس کے اور بھی بڑھتا ہے اضطراب

اُس کی گلی میں شام و سحر جانا چاہیے

 

کچھ کم نہیں ہے لذتِ آوارگی، مگر

حالات کہہ رہے ہیں کہ گھر جانا چاہیے

 

ہر گام پر اجل کا گزرنے لگے گماں

اتنا بھی آدمی کو نہ ڈر جانا چاہیے

 

اب وہ کشیدگی ہے نہ پہلی سی دوریاں

پھر تو تمام زخموں کو بھر جانا چاہیے

 

آتا ہے راس میکدہ جب دل کو اے فراغؔ

مجھ اُدھر نہیں تو کدھر جانا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

دل ہی مائل نہیں ہوتا کبھی گوہر کی طرف

ورنہ ناچیز بھی جا بستا سمندر کی طرف

 

ہم تو انسان ہیں، اوقات ہماری کیا ہے

سنگ لوگوں نے اُٹھائے ہیں پیمبر کی طرف

 

روک لیتی ہے مجھے میری شرافت اے دوست

’’ورنہ میں ہاتھ بڑھا سکتا ہوں پتھر کی طرف‘‘

 

ساتھ ہیں ظل الٰہی کے فقط چند غلام

اور سب لوگ ہیں مجھ جیسے قلندر کی طرف

 

اتنی اونچی تو نہ رکھ اپنی اُڑانیں اے دوست

ہر نظر اُٹھنے لگی ہے ترے شہپر کی طرف

 

اب کے گلشن پہ وہ اُفتاد پڑی ہے کہ فراغؔ

آنکھ اُٹھتی ہی نہیں میری، گل تر کی طرف

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی حریف، کبھی ہم نوا ہمیں ٹھہرے

کہ دشمنوں کے بھی مشکل کشا ہمیں ٹھہرے

 

کسی نے راہ کا پتھر ہمیں کو ٹھہرایا

یہ اور بات کہ پھر آئینہ ہمیں ٹھہرے

 

جو آزمایا گیا شہر کے فقیروں کو

تو جاں نثارِ طریق انا ہمیں ٹھہرے

 

ہمیں خدا کے سپاہی، ہمیں مہاجر بھی

تھے حق شناس تو پھر رہ نما ہمیں ٹھہرے

 

دلوں پہ قول و عمل کے وہ نقش چھوڑے ہیں

کہ پیشواؤں کے بھی پیشوا ہمیں ٹھہرے

 

فراغؔ رن میں کبھی ہم نے منہ نہیں موڑا

مقام عشق سے بھی آشنا ہمیں ٹھہرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اللہ کبھی اُس کی حفاظت نہیں کرتا

’’جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا‘‘

 

سچ منہ پہ جو کہنے کی جسارت نہیں کرتا

میں ایسے منافق سے رعایت نہیں کرتا

 

کس دور کے بوڑھوں کو نصیحت نہیں آتی

کس گھر میں کوئی بچہ شرارت نہیں کرتا

 

ہم راز کوئی ہو یہ ضروری ہے، مگر میں

بھولے سے کبھی ایسی حماقت نہیں کرتا

 

دل کھول کے بھرتا ہے کسی اور کا دامن

اک ضد ہے کہ وہ مجھ سے سخاوت نہیں کرتا

 

کس درجہ فراغؔ آج وہ محتاط ہے مجھ سے

منہ سے کبھی اظہارِ عداوت نہیں کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گوہر ہوں، مگر کوئی بھی قیمت نہیں میری

شاید تری دنیا کو ضرورت نہیں میری

 

احسان تلے دب کے دکھاؤں اُسے آنکھیں

بے جان مری طرح تو غیرت نہیں میری

 

یہ سوچ کے اکثر مجھے ہوتی ہے ملامت

صورت کی طرح کچھ بھی تو سیرت نہیں میری

 

کیوں میرے لیے کوئی کمیں گاہ میں بیٹھے

دنیا میں کسی سے تو عداوت نہیں میری

 

کیوں لوگ لگانے لگے بولی مرے فن کی

یہ شوق تو ہے میرا، تجارت نہیں میری

 

مشہور ہوا ہوں تو کرم ہے یہ خدا کا

کچھ ورنہ فراغؔ اب بھی حقیقت نہیں میری

٭٭٭

 

 

 

 

جس دن سے کوئی خواہش دنیا نہیں رکھتا

میں دل میں کسی بات کا کھٹکا نہیں رکھتا

 

مجھ میں ہے یہی عیب کی اوروں کی طرح میں

چہرے پہ کبھی دوسرا چہرا نہیں رکھتا

 

کیوں قتل مجھے کر کے ڈبوتے ہو ندی میں

دو دن بھی کسی لاش کو دریا نہیں رکھتا

 

کیوں مجھ کو لہو دینے پہ تم لوگ بضد ہو

میں سر پہ کسی شخص کا قرضا نہیں رکھتا

 

احباب تو احباب ہیں دشمن کے تئیں بھی

کم ظرف زمانے کا رویہ نہیں رکھتا

 

یہ سچ ہے کہ میں غالب ثانی نہیں، لیکن

یارانِ معاصر کا بھی لہجہ نہیں رکھتا

 

بادل تو فراغ ؔاصل میں ہوتا ہے وہ بادل

جو پیاس صحرا کو بھی پیاسا نہیں رکھتا

٭٭٭

 

 

 

 

مانا کہ تیرے قد کے برابر نہیں ہوں میں

لیکن کھڑا ہوا کسی چھت پر نہیں ہوں میں

 

آ کر کبھی تو دیکھئے میری پناہ میں

ہو تنگ جس کا گھیر، وہ چادر نہیں ہوں میں

 

کیوں دیکھتے ہو مجھ کو ٹھٹک کر مسافرو

یوں ہی پڑا ہوں، راہ کا پتھر نہیں ہوں میں

 

تصویر میری کھینچ رہا ہے وہ کس لئے

گرتے ہوئے مکان کا منظر نہیں ہوں میں

 

یاروں نے نصب کر دیا مجھ کو صلیب پر

میں چیختا رہا کہ پیمبر نہیں ہوں میں

 

کیوں امتحان لیتے ہو ہر وقت صبر کا

انسان ہی تو ہوں، کوئی پتھر نہیں ہوں میں

 

رکھتا ہوں اے فراغؔ طبیعت فقیر کی

حالاں کہ دیکھنے میں قلندر نہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کی زلف کے سائے میں شام کیا کرنا

ہے دو ہی دن کا سفر تو قیام کیا کرنا

 

ابھی سے کل کے لئے انتظام کیا کرنا

اسی کی فکر میں نیندیں حرام کیا کرنا

 

کسی رئیس کو جھک کر سلام کیا کرنا

جسے ضمیر نہ چاہے، وہ کام کیا کرنا

 

اسی خیال نے رونے نہیں دیا مجھ کو

کہ اپنے غم کو زمانے میں عام کیا کرنا

 

مزاج سب سے الگ ہی سہی، مگر اے دوست

ہر ایک شخص سے ترکِ کلام کیا کرنا

 

تکلفات تو غیروں سے لوگ کرتے ہیں

ہو بات دوست کی تو اہتمام کیا کرنا

 

فراغؔ مجھ کو چٹائی پہ اپنی رہنے دو

بس ایک شب کے لیے اہتمام کیا کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

اک نہ اک دن واقف انجام ہونا تھا، ہوئے

تیری چاہت میں ہمیں بدنام ہونا تھا، ہوئے

 

مصلحت کچھ بھی ہو، لیکن مصر کے بازار میں

حضرتِ یوسف کو تو نیلام ہونا تھا، ہوئے

 

یوں تو نکلے تھے بلندی کو سبھی چھونے، مگر

جن پرندوں کو اسیر دام ہونا تھا، ہوئے

 

جن کو کھلنا تھا کھلے وہ پت جھڑوں کی گود میں

جن کو نذرِ گردشِ ایام ہونا تھا، ہوئے

 

یوں تو سب کو جگمگانے کا ہنر معلوم تھا

جن ستاروں کو یہاں گمنام ہونا تھا، ہوئے

 

ہم چمکنا چاہتے تھے مثل خورشید و قمر

اپنی قسمت میں چراغِ شام ہونا تھا، ہوئے

 

ہاتھ کس کا تھا نہ جانے سنگ باری میں فراغؔ

ہم کو لیکن موردِ الزام ہونا تھا، ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ٹلنا نہیں ہے یار کے مسکن سے کیا میاں

حالت جنون کی ہے یہ بچپن سے کیا میاں

 

تم بھی اِدھر اُداس ہو، وہ بھی اُدھر اُداس

پالا پڑا ہے عشق میں اُلجھن سے کیا میاں

 

چہرہ بھی زرد زرد ہے، دامن بھی تار تار

لوٹے ہو نامراد ہی گلشن سے کیا میاں

 

نس نس میں جو ہے آگ، جدائی کی آگ ہے

اس آگ کو بجھاؤ گے ساون سے کیا میاں

 

سچ بولنے پہ اُس کے خفا ہو رہے ہو کیوں

کچھ اور ہی امید تھی درپن سے کیا میاں

 

اب میرے شعر سن کے یہ کہتے ہیں سب فراغؔ

وابستگی ہے میرؔ کے دامن سے کیا میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں ایک ذرہ تھا، وہ آفتاب جیسا تھا

خیالِ وصل دِوانے کے خواب جیسا تھا

 

جسے سجانے کی خواہش تھی خانۂ دل میں

وہ خار دور سے یارو، گلاب جیسا تھا

 

جسے سمجھتے تھے آبِ حیات اہل جہاں

ہزار حیف! کہ وہ بھی سراب جیسا تھا

 

مرے سوالوں کے دیتا جواب وہ کیسے

ہر اک سوال ہی میرا جواب جیسا تھا

 

کہیں کہیں سے ہماری حیات کا قصہ

کسی کتاب کے دلچسپ باب جیسا تھا

 

خمار اُس کا نہ اترا تمام عمر فراغؔ

کہ شاعری کا بھی نشہ شراب جیسا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

راحت افزا موسم بھیج

پیاسے گل ہیں، شبنم بھیج

 

ہر سو اُڑتی ہے اب دھول

پانی کا پھر موسم بھیج

 

ناچ اُٹھے ہر اک دہقان

پھر بوندوں کی سرگم بھیج

 

جسم پہ پھولوں کے ہیں زخم

گلشن گلشن مرہم بھیج

 

یا سر سے ہٹ جائے دھوپ

یا پھر سائے پیہم بھیج

 

پروائی جب بھیج کبھی

اپنی خبر بھی ہمدم بھیج

 

ہر سو لاحق ہے اک جنگ

امن و اماں کا موسم بھیج

 

جن کی جیسی ہے اوقات

اُن کو ویسے ہی غم بھیج

 

لوگوں کے ہیں دل کمزور

بھیج خوشی تو کم کم بھیج

 

کہنے بیٹھا ہوں میں شعر

پھر آمد کا عالم بھیج

 

نقادوں کے پاس فراغؔ

رس گلے اور چم چم بھیج

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے ساتھ اُمید بہار تم بھی کرو

اس انتظار کے دریا کو پار تم بھی کرو

 

ہوا کا رُخ تو کسی پل بدل بھی سکتا ہے

اُس ایک پل کا ذرا انتظار تم بھی کرو

 

میں ایک جگنو اندھیرا مٹانے نکلا ہوں

ردائے تیرہ شبی تار تار تم بھی کرو

 

تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہو دکھاؤں گا

میں آئینہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی کرو

 

ذرا سی بات پہ کیا کیا نہ کھو دیا میں نے

جو تم نے کھویا ہے اُس کا شمار تم بھی کرو

 

مری انا تو تکلف میں پاش پاش ہوئی

دعائے خیر مرے حق میں یار، تم بھی کرو

 

اگر میں ہاتھ ملاؤں تو یہ ضروری ہے

کہ صاف سینے کا اپنے غبار تم بھی کرو

 

کوئی ضروری نہیں ہے کہ سب کی طرح فراغؔ

زمانے والی روش اختیار تم بھی کرو

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے دل کی خواہش کو کہاں پورا کراتی ہے

ضرورت ہر قدم پر ہم سے سمجھوتہ کراتی ہے

 

کبھی لالچ دلاتی ہے،کبھی توبہ کراتی ہے

تری دنیا میں ہم سے زندگی کیا کیا کراتی ہے

 

غریبی کے دنوں میں یومِ پیدائش کی فرمائش

ہمیں بچوں کی نظروں میں بہت رُسوا کراتی ہے

 

غریبی گھونٹ دیتی ہے گلا معصوم بچوں کا

مگر دولت ہوس والوں کا بھی بیمہ کراتی ہے

 

امیر شہر ہی پیروں میں گھنگھرو باندھ دیتے ہیں

طوائف سے تو مجبوری یہاں پیشہ کراتی ہے

 

خدا نے زندگی دی ہے،مگر یہ زندگی ہم سے

امیرِ شہر کی دہلیز کا سجدہ کراتی ہے

 

شریفوں کی طرح جینا کسے اچھا نہیں لگتا

شرافت سے مگر دنیا ہمیں توبہ کراتی ہے

 

فراغؔ اب کیا بتائیں ذائقہ ہم تر نوالوں کا

کہ ہم سے خواب میں بھی زندگی فاقہ کراتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خدا سے ذرا رابطہ کر کے دیکھیں

وہ دیتا ہے کیا، التجا کر کے دیکھیں

 

یہ کیسا نشہ ہے، نشہ کر کے دیکھیں

چلو، اب سیاست ذرا کر کے دیکھیں

 

اسے کب گوارہ ہے شاہی کسی کی

فقیری پہ ہی اکتفا کر کے دیکھیں

 

غلط راہ اکثر دکھائی خرد نے

جنوں کو نہ کیوں رہ نما کر کے دیکھیں

 

تجاوز نہ کر جائے حد سے خموشی

چلو، ختم یہ سلسلہ کر کے دیکھیں

 

ہم انساں ہیں، کوئی پیمبر نہیں ہیں

شرافت کی جو انتہا کر کے دیکھیں

 

بہت ہو چکا خاک ساری کا شہرہ

کسی دن تو پاسِ انا کر کے دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

ہمارا ہے کیا مول، نیلام گھر میں

کسی روز یہ تجربہ کر کے دیکھیں

 

ردا موم کی سر پہ تانے ہوئے ہم

ذرا آگ کا سامنا کر کے دیکھیں

 

بہت راستے ریت پر تو بنائے

چٹانوں میں بھی راستہ کر کے دیکھیں

 

نصیب آپ نے جگمگائے ہیں سب کے

کبھی میرے حق میں دعا کر کے دیکھیں

 

پرندے سبھی آج سہمے ہوئے ہیں

فراغؔ اب نشانہ خطا کر کے دیکھیں

٭٭٭

 

 

ہاتھ میں چاند ستارے دیکھے

ہم نے کیا کیا سپنے دیکھے

 

خواب میں ہم نے منزل دیکھی

آنکھ کھلی تو رستے دیکھے

 

پتھر جیسے لوگ تھے، لیکن

کانچ سے نازک رشتے دیکھے

 

اُڑنے کی آزادی کیا تھی

اپنے پروں پر پہرے دیکھے

 

خود پر ہم نے شہر اماں کے

بند سبھی دروازے دیکھے

 

حسن و جوانی کی باتیں کیا

رنگ سبھی کے کچے دیکھے

 

یار، فراغؔ اک اک چہرے پر

ہم نے سو سو چہرے دیکھے

٭٭٭

 

 

 

 

چلئے میں دیوانہ اچھا

آپ کا یہ فرمانا اچھا

 

گم صم گم صم رہنے سے تو

کھل کر کچھ فرمانا اچھا

 

غم تو غم ہے، لیکن غم میں

رونے سے مسکانا اچھا

 

دیر و حرم کے جھگڑے چھوڑو

اپنا یہ میخانہ اچھا

 

رہنا باہر دن بھر، لیکن

شام ڈھلے گھر آنا اچھا

 

ہوش میں آنے پر لگتا ہے

لوگوں کا سمجھانا اچھا

 

دیکھ فراغؔ اپنا یہ گھر ہے

اس سے تو ویرانہ اچھا

٭٭٭

 

 

 

 

اک اونچی حویلی سے صدا دی گئی مجھ کو

یہ کیسی خبر یارو، سنا دی گئی مجھ کو

 

دن رات جہاں آنکھ دکھاتے ہیں مسائل

دنیا وہی بچپن میں دکھا دی گئی مجھ کو

 

مانگا کبھی بچپن میں جو مٹی کا کھلونا

تصویر کھلونوں کی دکھا دی گئی مجھ کو

 

چاہا کبھی چھونا جو کسی چاند کو میں نے

پانی میں جھلک اُس کی دکھا دی گئی مجھ کو

 

پہلے تو مری سمت بڑھایا گیا ساغر

پھر توبہ مری یاد دلا دی گئی مجھ کو

 

اک شعلہ سا رگ رگ میں مری آج رواں ہے

کیا چیز خدا جانے پلا دی گئی مجھ کو

 

اک بار مرے جسم سے خوشبو جو اُٹھی تھی

صندل کی طرح آگ لگا دی گئی مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لب پر سجا کے حرفِ تمنا بھی دیکھنا

پھر دل کے ٹوٹنے کا تماشا بھی دیکھنا

 

تم پر ابھی ہے عشقِ جنوں خیز کا اثر

اُترے گا ایک روز یہ نشہ بھی دیکھنا

 

حد سفر نہیں ہیں یہ راہوں کے پیچ وخم

اب ان کے بعد آئے گا دریا بھی دیکھنا

 

تم نے تو شہر گل میں گزاری ہے زندگی

موقع ملے تو موسمِ صحرا بھی دیکھنا

 

آ، نور سے نکل کے ذرا تیرگی میں آ

کیسے فریب دیتا ہے سایہ بھی، دیکھنا

 

تم بھی کسی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوب کر

پڑتا ہے کیسے آنکھ پہ پردہ بھی، دیکھنا

 

تم جو فراغؔ سب کو دکھاتے ہو آئینہ

اُس آئینے میں اپنا سراپا بھی دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بے درد کی طرح، کبھی غم خوار کی طرح

ملتا ہوں آج خود سے اداکار کی طرح

 

میرے وجود پر تو حکومت اُسی کی ہے

بیٹھا ہوں جس کے تخت پہ سردار کی طرح

 

وہ سرنگوں ہے آج زمانے کے سامنے

اونچا تھا جس کا قد کبھی مینار کی طرح

 

ہجراں نصیب چشم کو ملحوظ ہے وقار

آنسو چھپائے جاتی ہے اسرار کی طرح

 

جلتے ہوئے مکان کے شعلوں کی اوٹ میں

جلتا تھا چاند بھی گل رخسار کی طرح

 

بدنام ہے فراغؔ زمانے میں اس لئے

رہتا نہیں کسی کے طرف دار کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا

خود سے نہ مل سکا تو مجھے سوچنا پڑا

 

اُس کا جو خط ملا تو مجھے سوچنا پڑا

اپنا سا وہ لگا تو مجھے سوچنا پڑا

 

مجھ کو تھا یہ گماں کہ مجھی میں ہے اک انا

دیکھی تری انا تو مجھے سوچنا پڑا

 

دنیا سمجھ رہی تھی کہ ناراض مجھ سے ہے

لیکن وہ جب ملا تو مجھے سوچنا پڑا

 

سر کو چھپاؤں اپنے کہ پیروں کو ڈھانپ لوں

چھوٹی سی تھی رِدا تو مجھے سوچنا پڑا

 

اک دن وہ میرے عیب گنانے لگا فراغؔ

جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا

٭٭٭

 

 

 

یارو، حدودِ غم سے گزرنے لگا ہوں میں

مجھ کو سمیٹ لو کہ بکھرنے لگا ہوں میں

 

چھو کر بلندیوں سے اُترنے لگا ہوں میں

شاید نگاہِ وقت سے ڈرنے لگا ہوں میں

 

پر تولنے لگی ہیں جو اُونچی اُڑان کو

اُن خواہشوں کے پنکھ کترنے لگا ہوں میں

 

آتا نہیں یقین کہ اُن کے خیال میں

پھر آفتاب بن کے اُبھرنے لگا ہوں میں

 

کیا بات ہے کہ اپنی طبیعت کے بر خلاف

دے کر زباں فراغؔ مکرنے لگا ہوں میں

٭٭٭

 

پلٹیں گے دن ہمارے یہ سمجھا رہے تھے سب

دے کر تسلیاں ہمیں بہلا رہے تھے سب

 

اُس بے ادب سے یار، کسی نے نہ کچھ کہا

اُلٹے ہمیں کو گھیر کے سمجھا رہے تھے سب

 

کس میں ہیں کتنے عیب، اسی ایک بات پر

اک دوسرے کو آئینہ دکھلا رہے تھے سب

 

لوٹے ہیں کامیاب اُنہی راستوں سے ہم

جن راستوں پہ چلنے سے گھبرا رہے تھے سب

 

جب تک فراغؔ تجھ سے مراسم نہ تھے کبھی

کیا کیا نہ تیرے بارے میں بتلا رہے تھے سب

٭٭٭

 

شبنم بھی نہیں ہے تو وہ شعلہ بھی نہیں ہے

کیا شخص ہے، اُس سے کوئی ملتا بھی نہیں ہے

 

چپ رہ کے ستم اور بھی ڈھاتا ہے وہ ظالم

اوروں کی طرح مجھ پہ جو ہنستا بھی نہیں ہے

 

کیوں زرد ہوئی جاتی ہے رنگت مری یارو

اُس نے تو مرا خون نچوڑا بھی نہیں ہے

 

وہ میری حمایت میں نکل آئے گا اک دن

حالاں کہ اُسے میں نے ٹٹولا بھی نہیں ہے

 

مانا کہ اثر اُس کی دلیلوں میں ہے، لیکن

کمزور فراغؔ اپنا عقیدہ بھی نہیں ہے

٭٭٭

 

چھائی ہوئی ہے کیسی اُداسی ہر ایک سمت

تازہ ہوا تو آئے ذرا سی ہر ایک سمت

 

کہہ کر خزاں گئی تھی کہ آئے گی رُت نئی

پھر کیوں ہے آج زرد لباسی ہر ایک سمت

 

کتنی ہی بار برسا ہے ابر کرم، مگر

خلق خدا ہے آج بھی پیاسی ہر ایک سمت

 

یہ شہر بھی وہی ہے، وہی اہل دل بھی ہیں

پھر کیوں نہیں وہ درد شناسی ہر ایک سمت

 

چھوڑا ہے جب سے آپ نے شہر وفا فراغؔ

آنکھوں سے جھانکتی ہے گھٹا سی ہر ایک سمت

٭٭٭

 

 

جس گھر سے وہ نکلا ہے، اُسی گھر سے ملے لگا

دریا ہے تو اک روز سمندر سے ملے گا

 

کچھ شہ سے ملے گا نہ قلندر سے ملے گا

ملنا ہے جو مجھ کو وہ ترے در سے ملے گا

 

یہ سوچ کے چل دو کہ چلو گے تو کسی دن

منزل کا پتہ میل کے پتھر سے ملے گا

 

ہم جیسے قلند کو بلاؤ نہ محل میں

دل اپنا کہاں شہر کے افسر سے ملے گا

 

سچ بول کے شرمندہ زمانے میں نہیں ہوں

انعام کسی کو تو مرے سر سے ملے گا

 

 

آنکھوں پہ گراں بار ہیں جب دن کے مناظر

کیا دل کو سکوں شام کے منظر سے ملے گا

 

’’غالبؔ در و دیوار پہ اُگ آیا ہے سبزہ‘‘

اب نقشہ مرے گھر کا ترے گھر سے ملے گا

 

کم کم جو نظر آتا ہے میدانِ ادب میں

وہ جب بھی ملے گا نئے تیور سے ملے گا

 

آغازِ جنوں ہی میں فراغؔ آپ سمجھ لیں

چھٹکارا نہ پھر عشق کے دفتر سے ملے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ جن کی لو سے اُمید ضیا زیادہ ہے

اُنہی چراغوں کی جانب ہوا زیادہ ہے

 

اسی لیے تو وہ ظالم عزیز ہے مجھ کو

کہ میرے منہ پہ وہ سچ بولتا زیادہ ہے

 

جنوں میں اُس سے میں آگے نکل گیا ہوں بہت

اسی خطا پہ وہ مجھ سے خفا زیادہ ہے

 

اکے لیے پن کا مرے اک یہی سبب ٹھہرا

کہ میرے لہجے میں تلخی ذرا زیادہ ہے

 

 

ہمارا سابقہ اُس سے پڑا نہ تھا جب تک

ہمیں گماں تھا کہ ہم میں انا زیادہ ہے

 

زمیں سے چاند کی دوری تو پاٹ دی تم نے

دلوں کے بیچ مگر فاصلہ زیادہ ہے

 

نہیں ہے اُس کی زباں پر، نہیں سہی، لیکن

کتابِ دل میں مرا تذکرہ زیادہ ہے

 

بھروسہ کیسے ہو اُس پر کہ اُس کی باتوں میں

خلوص دل کا بہت کم، ریا زیادہ ہے

 

ہم احترام کریں کیوں نہ ایسے دشمن کا

ہمارے بارے میں جو سوچتا زیادہ ہے

 

مرا بھی نام علی ہے اسی لیے شاید

مرے خمیر میں بوئے وفا زیادہ ہے

 

فقط کلامِ خدا وہ کلام ہے جو فراغؔ

ہمارے کانوں میں رس گھولتا زیادہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ شاعر کا تاریخی نام

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب شاعری میں کچھ نہیں تقریر کے سوا

کس کو کہیں خدائے سخن میرؔ کے سوا

 

پہنچا دیا ہے جس نے یقیں کے مقام تک

ہے کون راہبر، تری تنویر کے سوا

 

حاضر متاعِ دل بھی ہے، گرد بھی، جان بھی

جو چاہے مانگ لیجئے کشمیر کے سوا

 

شرمندہ کر کے ہم کو جو گزری ہے ایک شام

اب کچھ نہیں ہے دھندلی سی تصویر کے سوا

 

 

چپ چاپ ہم کھڑے تھے عدالت کے سامنے

دل پر نہ کوئی بوجھ تھا، تقصیر کے سوا

 

یہ تجربہ ہوا ہے ہمیں خواب دیکھ کر

سب کچھ ہمارے بس میں ہے تعبیر کے سوا

 

برسوں ہماری راہ میں دیوار کی طرح

حائل نہ کوئی اور تھا، تقدیر کے سوا

 

کیوں ہم سے کہہ رہے ہو کہ اُس گھر کو گھر کہیں

جس گھر میں آج کچھ نہیں، شہتیر کے سوا

 

دل کو نصیب درد ہے، آنکھوں کو رت جگے

ہم ان کو کیا کہیں تری جاگیر کے سوا

 

کوئی نہ کر سکے گا زمانے میں متحد

ہم مومنوں کو نعرۂ تکبیر کے سوا

 

اب باسبانِ قوم کے سینے میں اے فراغؔ

کیا کچھ نہیں ہے، جذبہ تعمیر کے سوا

٭٭٭

 

 

 

 

اشاروں پر کسی کے چل رہی ہے

ہماری زندگی بھی کیا زندگی ہے

 

اُفق سے نور کب چھلکے گا آخر

ابھی تک تیرگی ہی تیرگی ہے

 

جہان پر روشنی کا ہے منارہ

اُسی کے سامنے اندھی گلی ہے

 

دکھائی کچھ نہیں دیتا کسی کو

خدا جانے یہ کیسی روشنی ہے

 

پلٹ کر اب کسے تم دیکھتے ہو

حویلی کب کی اوجھل ہو چکی ہے

 

جو محو خواب رہتا تھا ہمیشہ

اُسی کی نیند غائب ہو گئی ہے

 

خدایا، اب نہیں کوئی مسیحا

یہاں ٹوٹا ہوا ہر آدمی ہے

 

زمیں اچھی نکالی ہے غزل کی

مگر اس میں تغزل کی کمی ہے

 

فراغؔ آرام کی ہو جستجو کیوں

مری قسمت میں آوارگی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا

یہ معجزہ مرے اندر ہوا تو کیسے ہوا

 

یہ بھید سب پہ اُجاگر ہوا تو کیسے ہوا

کہ میرے دل میں ترا گھر ہوا تو کیسے ہوا

 

نہ چاند نے کیا روشن مجھے نہ سورج نے

تو میں جہاں میں منور ہوا تو کیسے ہوا

 

نہ آس پاس چمن ہے نہ گل بدن کوئی

ہمارا کمرہ معطر ہوا تو کیسے ہوا

 

ذرا سی بات پہ اک غم گسار کے آگے

میں اپنے آپ سے باہر ہوا تو کیسے ہوا

 

سلگتے صحرا میں طوفاں کا سامنا تھا مجھے

یہ معرکہ جو ہوا، سر ہوا تو کیسے ہوا

 

وہ جنگ ہار کے مجھ سے یہ پوچھتا ہے کہ میں

بغیر تیغ مظفر ہوا تو کیسے ہوا

 

سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے

وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سرخرو ہونا دنیا میں اگر میری طرح

آپ کو چڑھنا پڑے گا دار پر میری طرح

 

شہر نا پُرساں میں آخر زندگی کی کھوج میں

کون بھٹکے گا خدایا، عمر بھر میری طرح

 

آبلہ پائی سے اپنی بے خبر ہو کر بھلا

کون دے امتحانِ رہ گذر میری طرح

 

یہ ہوائیں یہ فضائیں یہ حسیں شام و سحر

ہیں ازل سے آج تک محو سفر میری طرح

 

بانٹ کر اوروں کو سائے کہہ رہا تھا اک شجر

زندگی کرتا نہیں کوئی بسر میری طرح

 

عہد حاضر میں شراروں کو ہوا مت دیجئے

اب نہ دیکھے گا کوئی رقص شر ر میری طرح

 

پے بہ پے رسوائیوں اور تہمتوں کے باوجود

کون چاہے گا کسی کو عمر بھر میری طرح

 

دیکھ کر تجھ کو یہ جانا اے فراغِؔ روہوی

شہر بھر میں ایک بندہ ہے نڈر میری طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جنونِ خاص ہمارا نہ عام ہو جائے

جدھر سے گزریں وہ رستہ نہ عام ہو جائے

 

یہ سوچ کر ہی پلٹ آئے آسمان سے ہم

زمیں سے دور ہی رہنا نہ عام ہو جائے

 

اسی خیال سے میں سرگذشت لکھ نہ سکا

کہ خود نمائی کا نشہ نہ عام ہو جائے

 

فقیر وقت بھی خوش پوش اس خیال سے تھا

کہ اُس کا اپنا لبادہ نہ عام ہو جائے

 

اسی لیے تو ہمارے خلاف ہے دنیا

کہ حق نوائی کا جذبہ نہ عام ہو جائے

 

ہنسی لبوں پہ ہے، لیکن ہماری آنکھوں سے

تمہارے ظلم کا قصہ نہ عام ہو جائے

 

جنوں ہوا ہے نمایاں تو اس کے بعد کہیں

سرِ فراغؔ کا سودا نہ عام ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

راستہ کیا میں سمندر میں بنا دیتا نہیں

وہ مگر سب کو کرشماتی عصا دیتا نہیں

 

اپنے قدموں کے نشاں تم کو دکھا دیتا، مگر

سطح دریا پر دکھائی نقش پا دیتا نہیں

 

بے سبب تعریف کر کے میرے ہمسائے مجھے

جس طرح دیتے ہیں دھوکا، آئینہ دیتا نہیں

 

میں بھی مجرم ہوں زمانے کا، مگر میرے لیے

یہ سزا کیا کم ہے، وہ کوئی سزا دیتا نہیں

 

کمتری کا کس قدر احساس ہوتا ہے مجھے !

جب کوئی سائل مرے در پر صدا دیتا نہیں

 

اُس کو جو دینا تھا اُس نے خود ہی مجھ کو دے دیا

کون کہتا ہے کہ بے مانگے خدا دیتا نہیں

 

حکمرانی کا نہ ہرگز خواب دیکھو اے فراغؔ

ہر کسی کو عظمت شاہی خدا دیتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عکس اپنا دیکھنا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

آئینہ ہاتھ آ گیا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

آج خود کو جانچنا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

دل بہت گھبرا رہا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

ظالموں کا سامنا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

چپ مگر میرا خدا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

عزم کی اُنگلی پکڑ کر چل پڑا ہوں جس طرف

پُر خطر وہ راستہ ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

منہ اندھیرے ہی نکل جانا تھا صحرا سے مجھے

سر پہ سورج آ گیا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

موم جیسی میری ہستی اور میرے چار سو

آگ کا اک دائرہ ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

آئینہ جس کو دکھانے جا رہے ہیں ہم فراغؔ

آدمی وہ سرپھرا ہے، دیکھئے ہوتا ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی نہ سوچا تھا میں نے اُڑان بھرتے ہوئے

کہ رنج ہو گا زمیں پر مجھے اُترتے ہوئے

 

یہ شوقِ غوطہ زنی تو نیا نہیں پھر بھی

اُتر رہا ہوں میں گہرائیوں میں ڈرتے ہوئے

 

ہوا کے رحم و کرم پر چراغ رہنے دو

کہ ڈر رہا ہوں نئے تجربات کرتے ہوئے

 

نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا، جس میں

کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے اُبھرتے ہوئے

 

میں اُس گھرانے کا چشم و چراغ ہوں، جس کی

حیات گزری ہے خوابوں میں رنگ بھرتے ہوئے

 

میں سب سے ملتا رہا ہنس کے اس طرح کہ مجھے

کسی نے دیکھا نہیں ٹوٹتے بکھرتے ہوئے

 

فراغؔ ایسے بھی انسان میں نے دیکھے ہیں

جو سچ کی راہ میں پائے گئے ہیں مرتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

اُونچی اُڑان اتنی جو بھرتا نہ میں کبھی

گر کے زمیں پہ یوں تو بکھرتا نہ میں کبھی

 

گہرائیوں سے ڈرتا اگر کچھ بھی دوستو

تہہ میں سمندروں کی اُترتا نہ میں کبھی

 

آیا نہ راس مجھ کو مرا خواب دیکھنا

ورنہ پلک جھپکنے سے ڈرتا نہ میں کبھی

 

اوروں کو بھی تو رستہ دکھانا مجھی کو تھا

ہر موڑ پر وگرنہ ٹھہرتا نہ میں کبھی

 

جب جانتا کہ اس کی ملے گی سزا مجھے

اے دوست، اپنی حد سے گزرتا نہ میں کبھی

 

تپ کر جواں ہوا ہوں مصیبت کی آنچ میں

کندن کی طرح ورنہ سنورتا نہ میں کبھی

 

ملاح کے بھروسے پہ رہتا اگر فراغؔ

دریا میں غرق ہو کے اُبھرتا نہ میں کبھی

٭٭٭

 

 

 

 

بھلی ہے یا بری یارو، اُسی کا ساتھ دینا ہے

ہمیں تو زندگی بھر زندگی کا ساتھ دینا ہے

 

ہماری تشنگی کو جب ضرورت ہے سمندر کی

جدا دریا سے رہ کر تشنگی کا ساتھ دینا ہے

 

کہاں خاطر میں لاتی ہے یہ دنیا ہوش مندوں کو

ہمیں اب میکدے میں بے خودی کا ساتھ دینا ہے

 

اندھیروں میں جو اے سورج، تمہارے بعد چمکیں گے

ہمیں اُن جگنوؤں کی روشنی کا ساتھ دینا ہے

 

کھڑا ہے جو نہتا لشکر فرعون کے آگے

ہمیں ہر حال میں اُس آدمی کا ساتھ دینا ہے

 

سوا ظل الٰہی کے سبھی ہیں رحم کے قابل

ہمیں ہر موڑ پر مظلوم ہی کا ساتھ دینا ہے

 

زمانہ تو فراغ، اب مصلحت کوشی کا ہے، لیکن

جو حامی ہیں صداقت کے، اُنہی کا ساتھ دینا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ختم جب تنہائیوں کا سلسلہ ہو جائے گا

ٹھنڈی ٹھنڈی آہ بھرنا بے مزہ ہو جائے گا

 

جب کبھی سینہ سپر ہر آئینہ ہو جائے گا

پست خود ہی پتھروں کا حوصلہ ہو جائے گا

 

زندگی کی دھوپ سے جب سامنا ہو جائے گا

چاند جیسا اُس کا چہرہ سانولا ہو جائے گا

 

دشت ہجراں میں اُسے دو دن تو رہنے دیجئے

لذت گریہ سے خود ہی آشنا ہو جائے گا

 

چھوڑ دیں گے ہم اگر شہر وفا اے ہم نشیں

دیکھ لینا ہر دریچہ بے صدا ہو جائے گا

 

شہرتوں کی شمع روشن کو ذرا بجھنے تو دو

خود تمہارے جسم کا سایہ جدا ہو جائے گا

 

کیوں بھٹکتے پھر رہے ہو، تم تو کہتے تھے میاں

’’جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا‘‘

 

جب نئی نسلیں پڑھیں گی اے غزل والو تمہیں

کس میں کتنی تازگی ہے فیصلہ ہو جائے گا

 

زیر مژگاں ہی ذرا رکھئے بچا کر اے فراغؔ

ورنہ اک جنبش میں ہر موتی فنا ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اے دوست، مرے سینے پہ اک تیر چلا اور

زندہ ہوں ابھی مجھ کو یہ احساس دلا اور

 

ساقی، نہ ہٹا جام، مجھے اور پلا اور

اب میرے بہکنے کے بہانے نہ بنا اور

 

آنکھوں سے لگا کر تری تصویر جو دیکھی

پاکیزہ نظر آنے لگا عکس ترا اور

 

اللہ کرے تازہ رہے زخم جگر کا

اُٹھتی ہے کبھی ٹیس دیتا ہے مزا اور

 

انگشت نمائی کا سبب ڈھونڈ رہا ہوں

رہنے دے مقابل مرے آئینہ ذرا اور

 

کیسا ہی گنہگار کوئی شخص ہو، پھر بھی

شرمندہ نظر آئے تو لگتا ہے بھلا اور

 

کیوں آنکھ دکھائے ہمیں زنداں کی خموشی

اے پاؤں کی زنجیر، مچا شور ذرا اور

 

رُسوا تو فراغؔ اُس نے کیا تھا مجھے، لیکن

اس بات سے مشہور مرا نام ہوا اور

٭٭٭

 

 

 

 

اک تیری محبت کے سوا کام کسے ہے

اس راہ میں اندیشہ انجام کسے ہے

 

کیا مڑ کے یہاں دیکھنا ہر ایک صدا پر

اس شہر میں اب یاد مرا نام کسے ہے

 

شعلوں نے بدل ڈالی ہے رنگت مرے گھر کی

اب خواہش تزئین در و بام کسے ہے

 

اس سے تو کہیں اچھی تھیں تپتی ہوئی راہیں

سائے میں کسی پیڑ کے آرام کسے ہے

 

ایسا بھی نہیں، پیاس نے دم توڑ دیا ہو

مقصود مگر اپنے لیے جام کسے ہے

 

ہر روز مرے دل پہ گزرتی ہے قیامت

اے دوست، مگر عادتِ کہرام کسے ہے

 

ہم باز نہ آئیں گے کبھی ذکر چمن سے

صیاد کا اب خوف تہہ دام کسے ہے

 

روشن ہے فراغؔ آج مرا نام سخن میں

یہ سچ ہے مگر حسرتِ انعام کسے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اے شہر اضطراب، ذرا انتظار کر

آئے گا انقلاب، ذرا انتظار کر

 

ضائع نہ ہو گی تیری نگاہوں کی جستجو

سچ ہوں گے تیرے خواب، ذرا انتظار کر

 

مجھ کو یقین ہے کہ انہی بدلیوں سے پھر

اُبھرے گا آفتاب، ذرا انتظار کر

 

مانا کہ آج اُٹھتی نہیں شرمگیں نگاہ

مٹ جائے گا حجاب، ذرا انتظار کر

 

زیر نقاب کوئی بھی رہتا نہیں سدا

اُٹھ جائے گی نقاب، ذرا انتظار کر

 

کب تک رہے گا بند بھلا میکدے کا در

چھلکے گی پھر شراب، ذرا انتظار کر

 

ظالم سے اُس کے ظلم کا، دنیا میں ایک دن

لے گا کوئی حساب، ذرا انتظار کر

 

اک دن ترے جہان میں نامِ فراغؔ کا

چمکے گا آفتاب، ذرا انتظار کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہجر کا موسم آتا ہے تو اچھا لگتا ہے

پیار ترا تڑپاتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

گیت پپیہا گاتا ہے تو اچھا لگتا ہے

دل کو مرے برماتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

پھول کے بدلے یار، زمانہ ہم دل والوں پر

پتھر جب برساتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

سنگ ملامت پھینک کے ہم پر، اپنی خلوت میں

خود سے کوئی شرماتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

بن کے مسیحا رہ رہ کر جب کوئی خوابوں میں

زخموں کو سہلاتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

تنہائی کا درد ستاتا ہے جب بھی دل کو

یاد کوئی آ جاتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

ہنگاموں کے بعد تمہارے شہر کی گلیوں میں

سناٹا چھا جاتا ہے تو اچھا لگتا ہے

 

بزم غزل میں ہم سے فراغؔ اک شعر وہ سنتے ہی

گھبرا کر شرماتا ہے تو اچھا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نیل گگن پر آدھا چاند

لیکن چھت پر پورا چاند

 

ہونٹ کنول اور آنکھیں جام

زلف گھٹائیں، چہرا چاند

 

اکثر ایسی بات ہوئی

سوچا سورج، لکھا چاند

 

یادوں کی پھلواری میں

خوشبو کا اک جھونکا چاند

 

جانے کس کی کھوج میں ہے

جنگل، دریا، صحرا، چاند

 

دیپ جلائے آشا کے

دیکھ رہا ہے رستہ چاند

 

اپنے حصے میں کب ہے

پوری خوشبو، پورا چاند

 

ایک کہانی دونوں کی

تنہا میں ہوں، تنہا چاند

 

اُس کے آگے دل کو فراغؔ

بھائے نہ کوئی دوجا چاند

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اُس حسن کے پیکر کا بدل ہے کہ نہیں ہے

دیکھو تو حسیں میری غزل ہے کہ نہیں ہے

 

للہ نہ پھینکا کرو الفاظ کے پتھر

دل میرا بھی شیشے کا محل ہے کہ نہیں ہے

 

تدبیر کا تیشہ تو مرے پاس ہے، لیکن

تقدیر کا لکھا بھی اٹل ہے کہ نہیں ہے

 

جب ہوتا ہوں تنہا تو خیال آتا ہے اکثر

اچھا کوئی اپنا بھی عمل ہے کہ نہیں ہے

 

دیکھا کوئی پرچہ تو یہی سوچ کے دیکھا

اس میں بھی کہیں میری غزل ہے کہ نہیں ہے

 

مانا کہ فراغؔ آپ کو نسبت ہے سخن سے

لیکن یہ مسائل کا بھی حل ہے کہ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب سے نمایاں سب میں ہوا ہے لہجہ میری غزلوں کا

بھیڑ میں بھی رہتا ہے قامت اُونچا میری غزلوں کا

 

میری فکر کو میرے رب نے جب سے رفعت دے دی ہے

دیکھ رہے ہیں حیرت سے سب رُتبہ میری غزلوں کا

 

چھیڑ دیا کرتا ہے اچانک اک اک دل کے تاروں کو

کانوں سے جب ٹکراتا ہے جھونکا میری غزلوں کا

 

ریشمی زلفوں کے سائے میں دن جو گزارا کرتے تھے

لوگ وہی اب ڈھونڈ رہے ہیں سایہ میری غزلوں کا

 

دن وہ گئے جب شہر میں تیرے سُبکی میری ہوتی تھی

سات سمندر پار ہے اب تو شہرہ میری غزلوں کا

 

کیوں نہ فراغؔ اپنی غزلوں کو رکھوں چھپا کے سینے میں

آئے دن اب ہونے لگا ہے سرقہ میری غزلوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

کسی دن کرو یہ عمل پانیوں پر

لکھو بھیگی بھیگی غزل پانیوں پر

 

بکھر جائے بوئے غزل پانیوں پر

یوں لفظوں کے رکھ دو کنول پانیوں پر

 

انہی پانیوں میں ہوئے غرق کتنے

خدارا نہ اِترا کے چل پانیوں پر

 

نہ اتنا ملو ٹوٹ کر ناخدا سے

کہ کرنے لگے تم سے چھل پانیوں پر

 

کہیں بھی نہ رکتے تھے جو پاؤں میرے

وہ کیوں ہو گئے آج چھل پانیوں پر

 

قدم جن کے ساحل پہ بھی کانپتے ہیں

وہ کیسے رہیں گے اٹل پانیوں پر

 

فراغؔ اُس کی بنیاد کمزور ہو گی

جو تعمیر ہو گا محل پانیوں پر

٭٭٭

 

 

 

 

ہرگز نہ بے وقار نہ بوجھل غزل کہی

ہم نے غزل کہی تو مکمل غزل کہی

 

دیکھا کسی کو ہم نے جو بے کل، غزل کہی

جب بھی ہوئی وجود میں ہل چل، غزل کہی

 

جس نے کتابِ دل نہ پڑھی کھول کے کبھی

ہم نے اُسی کی یاد میں اوّل غزل کہی

 

شعروں میں تو ہی تو ہمیں آنے لگا نظر

تصویر تیری دیکھ کے جس پل غزل کہی

 

ہر وقت شعر کہنے کی عادت نہیں ہمیں

جب دل نے کچھ کہا تو اُسی پل غزل کہی

 

سمجھے ہمیں نہ کوئی فقط ماہیا نگار

ہم نے تو ایک عمر مسلسل غزل کہی

 

سن کے غزل ہماری سبھی رو پڑے فراغؔ

جب جب فراقِ یار میں جل تھل غزل کہی

٭٭٭

 

 

 

 

آسماں ٹوٹا تھا اُس پر، میرا چہرہ زرد تھا

کیوں نہ میں افسردہ ہوتا، وہ مرا ہمدرد تھا

 

اُس کے ہونٹوں پر جب اپنے ہونٹ میں نے رکھ دئیے

سانس اُس کی چل رہی تھی، جسم لیکن سرد تھا

 

ایک دن رکھا تھا اُس نے دل کی دنیا میں قدم

’’عمر بھر پیچھا نہ چھوڑا، جانے کیسا درد تھا‘‘

 

گرمیاں اخلاص کی رہتی تھیں جس کی بات میں

جانے کیوں اُس آدمی کا آج لہجہ سرد تھا

 

عمر بھر جیتا رہا وہ کرب کے ماحول میں

بدگماں جس آدمی سے گھر کا اک اک فرد تھا

 

کب نظر انداز کرتا تھا وہ میری خامیاں

آئینہ اپنا تھا، لیکن کس قدر بے دردر تھا

 

روکنے پر بھی نکل آئے تھے آنسو اے فراغؔ

رات کی خاموشیوں میں کس بلا کا درد تھا

٭٭٭

 

 

 

 

نہ ماہتاب کی صورت نہ کہکشاں کی طرح

مجھے عزیز وہ رکھتا تھا جسم و جاں کی طرح

 

حیا میں ڈوبی ہوئی وہ کسی کی پہلی صدا

اُتر گئی تھی مری روح میں اذاں کی طرح

 

کسی کی نظروں نے ایسا کیا تھا سحر کہ میں

زباں کے ہوتے ہوئے بھی تھا بے زباں کی طرح

 

رُکے تو کیسے رُکے آکے میرے پاس کوئی

مرا وجود ہے ویران گلستاں کی طرح

 

وہیں ہیں ہم بھی مکینوں کے درمیاں کب سے

کوئی مکاں ہی نہیں جس جگہ مکاں کی طرح

 

تمہارے شہر میں یہ کون سی جگہ ہے، جہاں

سجا ہوا ہے ہر اک جسم اک دکاں کی طرح

 

غریب خانے کو دیکھو نہ یوں حقارت سے

دلِ فراغؔ تو یارو، ہے آسماں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

رخصت وہ ہو گیا مجھے حیرت میں ڈال کر

رکھی تھی جس نے میری امانت سنبھال کر

 

وہ جس کو، کوئی شہر میں پہچانتا نہ تھا

مشہورہو گیا مری پگڑی اُچھال کر

 

بے شک میں تیرے قد کے برابر نہیں، مگر

تجھ سے بڑا ہوں عمر میں کچھ تو خیال کر

 

بوئے خلوص جزوِ مروّت نہیں، جہاں

اُس در پہ تو دراز نہ دست سوال کر

 

غوطے لگائے جب بھی گہر کی تلاش میں

شرمندگی اُٹھائی سمندر کھنگال کر

 

کشتی وہ غرق ہو گئی ساحل کے آس پاس

خوش ہو رہے تھے جس کو بھنور سے نکال کر

 

اُس نے فراغؔ در پہ مرے دی نہ پھر صدا

مایوس کر دیا تھا کبھی جس کو ٹال کر

٭٭٭

 

 

 

 

نفرت بری لگی نہ عداوت بری لگی

مجھ کو فقط دکھاوے کی چاہت بری لگی

 

جب ہوش میں نہ تھے تو نصیحت بری لگی

لیکن ہوئی دغا تو محبت بری لگی

 

سینے پہ رکھ کے ہاتھ جب اُس نے ہٹا لیا

پھر دل کو دھڑکنوں کی رفاقت بری لگی

 

تھوڑی بہت تو مجھ کو بھی اچھی لگی، مگر

جب حد سے بڑھ گئی تو شرافت بری لگی

 

سب کچھ خرید لیں گے سمجھتے تھے ہم، مگر

اُلجھن مٹا نہ پائی تو دولت بری لگی

 

کوٹھے پہ جس کے ناز اُٹھائے تمام شب

رستے میں مل گئی تو وہ عورت بری لگی

 

بچوں کو کیا کہوں کہ وہی عمر ہے فراغؔ

جس عمر میں مجھے بھی نصیحت بری لگی

٭٭٭

 

 

 

 

یوں تو ترے جہان میں کیا کیا نہیں ہوا

اک میرے ہی غموں کا مداوا نہیں ہوا

 

برسوں کے بعد نام تمہارا لیا، مگر

حیرت ہے اب کے شور شرابا نہیں ہوا

 

اک بار میں نے کی جو شب عیش کی دعا

وہ رات آ گئی کہ سویرا نہیں ہوا

 

جس کے سبب نکالا گیا شہر سے مجھے

تھوڑا سا بھی اُداس وہ چہرہ نہیں ہوا

 

سرزد ہوئی ہے مجھ سے خطائے وفا، مگر

کوئی بھی جرم اس کے علاوہ نہیں ہوا

 

سچ بولنے کو بول گئے ہم تو عادتاً

لیکن ہمارے حق میں یہ اچھا نہیں ہوا

 

چھپتی رہیں فراغؔ کی غزلیں بہت، مگر

شہر غزل میں کچھ بھی تو چرچا نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

اب اُس سے اُلجھنے کا ارادہ ہی نہیں ہے

وہ شخص کبھی طیش میں آتا ہی نہیں ہے

 

کیا جانئے کیا بات ہوئی ہے کہ وہ ظالم

اب آنکھ مری سمت اُٹھاتا ہی نہیں ہے

 

یہ رنگ محبت ہی تو اک رنگ ہے ایسا

چڑھ جائے جو دل پر تو اُترتا ہی نہیں ہے

 

وہ مجھ سے لپٹ جائے کبھی خوف کے مارے

ایسا تو کوئی حادثہ ہوتا ہی نہیں ہے

 

کچھ بوئے تن یار رہا کرتی تھی جس میں

اب راہوں سے وہ جھونکا گزرتا ہی نہیں ہے

 

اُس شخص کے بارے میں مری رائے نہ پوچھو

میں نے جسے نزدیک دیکھا ہی نہیں ہے

 

یہ کیسی نمی آج فراغؔ آنکھوں میں تیری

پتھر تو سنا تھا کہ پگھلتا ہی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دل پہ کس کے لگا ہے تیر نہ دیکھ

کون ہے عشق کا اسیر نہ دیکھ

 

جس کو کھونا تھا کھو دیا میں نے

اب مرے ہاتھ کی لکیر نہ دیکھ

 

میرے اندر تو جھانکتا کیا ہے

بھیک دے، مسلک فقیر نہ دیکھ

 

شاہ بھی آ چکا مری زد میں

تو فقط جانب وزیر نہ دیکھ

 

بے ضمیری کا بول بالا ہے

’’اب کسی شخص کا ضمیر نہ دیکھ‘‘

 

شعر اکیسویں صدی کا ہے

اب غزل میں زبانِ میرؔ نہ دیکھ

 

اپنے ہم عصر شاعروں میں فراغؔ

کون غالبؔ ہے، کون میرؔ نہ دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

میں جس کا ادنیٰ چراغ ٹھہرا

وہ گھر اُجالوں کا باغ ٹھہرا

 

جسے جنوں تم سمجھ رہے تھے

وہ منزلوں کا سراغ ٹھہرا

 

دیا سہارا ہمارے دل نے

کبھی جو بے بس دماغ ٹھہرا

 

شکستہ ہونا تھا اس کو اک دن

کہ دل تو نازک ایاغ ٹھہرا

 

قبائے طاؤس زیب تن تھی

مگر بالآخر وہ زاغ ٹھہرا

 

وہ ایک اُنگلی کی تھی کرامت

رُخِ قمر پر جو داغ ٹھہرا

 

نہ آ سکا جو لب عدو پر

وہ ایک نامِ فراغؔ ٹھہرا

٭٭٭

 

 

 

 

آئینہ آئینہ ہے، کیا کہئے

منہ پہ سچ بولتا ہے، کیا کہئے

 

آئینہ دیکھتے ہی، چہرے کا

رنگ کیوں اُڑ گیا ہے، کیا کہئے

 

وہ تو ملتے ہیں ٹوٹ کر مجھ سے

پھر بھی اک فاصلہ ہے، کیا کہئے

 

شاخ پر کوئی پھل نہیں، لیکن

پیڑ تن کر کھڑا ہے، کیا کہئے

 

اپنا دامن سمیٹتی ہی نہیں

’’زندگی بے حیا ہے، کیا کہئے‘‘

 

شعر کہنا نہ آ سکا، لیکن

شاعری کا نشہ ہے، کیا کہئے

 

آدمی آدمی تھا کل تو فراغؔ

اب خدا بن گیا ہے، کیا کہئے

٭٭٭

 

 

 

 

کیسے کیسے ٹھہرے لوگ

روکھے، پھیکے، تیکھے لوگ

 

پھول، دھنک، پونم کا چاند

ایسے بھی کچھ دیکھے لوگ

 

آنکھوں میں اک خواب لیے

کچھ سوئے، کچھ جاگے لوگ

 

دفتر کیا، تھے پارک میں بھی

گہری سوچ میں ڈوبے لوگ

 

چہرے پر مسکان تو تھی

اندر سے تھے بکھرے لوگ

 

جانے نکلی کیسی دھوپ

زرد ہوئے سب اُجلے لوگ

 

اُن میں ملا اخلاص فراغؔ

گرچہ تھے وہ اُجڑے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

گھروں میں پہلی سی وہ آن بان ہو تو کہو

کہیں بھی اگلے دنوں کا نشان ہو تو کہو

 

مکاں پہ اب بھی مکاں کا گمان ہو تو کہو

ہمارے سر پہ کوئی سائبان ہو تو کہو

 

ہر آدمی کو میسر ہے کچھ زمیں اب بھی

ہر ایک سر پہ مگر آسمان ہو تو کہو

 

اذانیں آج بھی ہر سمت گونجتی ہیں، مگر

کوئی اذان بلالیؓ اذان ہو تو کہو

 

وطن کی یاد ہمیں کھینچ لائی ہے، لیکن

یہاں ہمارا کوئی ہم زبان ہو تو کہو

 

ہمارے قتل کا سب نے تماشہ دیکھا ہے

مگر کسی کے بھی منہ میں زبان ہو تو کہو

 

ہوائے باغ ہے، خوشبو ہے، چاندنی ہے فراغؔ

مگر کسی میں وہ پہلی سی جان ہو تو کہو

٭٭٭

 

 

 

 

وہ بھی کیا دن تھے، بچا لیتے تھے گھر والے مجھے

جب میں گرتا تھا، اُٹھا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

جب اچانک کوندنے لگتی تھیں ظالم بجلیاں

اپنے دامن میں چھپا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

وہ زمانہ بھی نہ جانے کیا زمانہ تھا کہ جب

روٹھ جانے پر منا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

کوئی رنجش بھی اگر رکھتی تھی مجھ کو گھر سے دور

کس جتن سے گھر بلا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

میرے آنسو پونچھنے اب کوئی بھی آتا نہیں

کل تو سینے سے لگا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

میرے بچپن کی حسیں پرچھائیوں کی کھوج میں

کیا تصور میں بنا لیتے تھے گھر والے مجھے

 

لوگ کہتے ہیں کہ میرے اک اشارے پر فراغؔ

اپنے کاندھے پر بٹھا لیتے تھے گھر والے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ شرمناک تماشہ سحر کے بعد ہوا

تباہ اُس کا بھی گھر میرے گھر کے بعد ہوا

 

وہ میرا تاج اُٹھانا ہی چاہتا تھا، مگر

سرِ عدو بھی قلم میرے سر کے بعد ہوا

 

وہ کائنات کی ہر شے خرید سکتا ہے

اُسے یہ زعم مگر فرطِ زر کے بعد ہوا

 

یہ اور بات کی منزل مجھے ملی، لیکن

جو کھو چکا ہوں وہ ظاہر سفر کے بعد ہوا

 

کبھی تو ایسے بشر کو بھی یاد ہم کر لیں

شہید رن میں جو لخت جگر کے بعد ہوا

 

کبھی جو بات چلی ہم سخنوروں کی فراغؔ

تمہارا ذکر بھی اہل ہنر کے بعد ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کل ہزاروں مکاں تھے جہاں دور تک

اب دھواں ہی دھواں ہے وہاں دور تک

 

ٹوٹ کر آج بادل تو برسے، مگر

مٹ گئے بستیوں کے نشاں دور تک

 

کل وبائیں جب آتی تھیں اس گاؤں میں

گونجتی تھی صدائے اذاں دور تک

 

ساتھ اُس کا جو چھوٹا تو غم کیا کریں

کون چلتا ہے مل کر یہاں دور تک

 

ہم نظر آئینوں کے جو ہم ہو گئے

لوگ ہونے لگے بدگماں دور تک

 

لوٹ جاؤ فراغؔ آج اس شہر سے

کتنا بدلا ہوا ہے سماں دور تک

٭٭٭

 

 

 

 

انگڑائی لے رہے ہیں فسانے نئے نئے

شہروں میں آ بسے ہیں دِوانے نئے نئے

 

تبدیلی نظامِ حکومت کے نام پر

پھر سر اُٹھا رہے ہیں گھرانے نئے نئے

 

آتے رہیں گے ایسے ہی صیاد سامنے

زیر قفس جو ڈالیں گے دانے نئے نئے

 

یہ خوش نما پرندے تو موسم کے ساتھ ساتھ

عادی ہیں ڈھونڈنے کے ٹھکانے نئے نئے

 

قصداً ہمارا ساتھ سرِ راہ چھوڑ کر

ناحق بنا رہے ہو بہانے نئے نئے

 

ہم سخت جاں بہت ہیں، یہ کہہ دے کوئی اُنہیں

ہم پر نہ آزمائیں نشانے نئے نئے

 

یوں کھل رہے ہیں زخم نئے پا کے اہل دل

آئے ہوں جیسے ہاتھ خزانے نئے نئے

 

طرزِ سخن میں رنگ نیا لائے فراغؔ

یہ رُت نئی نئی ہے، ترانے نئے نئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہاں تک چہرۂ قاتل کو ہم اُترا ہوا دیکھیں

چلو مقتل میں اب اپنا ہی سر کٹتا ہوا دیکھیں

 

اسیرانِ وفا کے ساتھ کل کیا کیا ہوا دیکھیں

فصیل شہر پر وہ واقعہ لکھا ہوا دیکھیں

 

اُنہی لوگوں نے ہم کو دار ہنستے ہوئے دیکھا

یہ سوچا تھا جنہوں نے خوف سے سہما ہوا دیکھیں

 

میاں، اک دن جلا کر اپنے ہی ہاتھوں مکاں اپنا

’’یہ سوچا تھا کہ منظر شہر کا بدلا ہوا دیکھیں‘‘

 

یہی جذبہ لیے ہم آج شہر گل میں آئے ہیں

کہ اب اپنا بھی دامن خار سے اُلجھا ہوا دیکھیں

 

ملا ہے زخم تو دل کو مگر یارو، مزہ جب ہے

کہ اس کو عارضِ گل کی طرح دہکا ہوا دیکھیں

 

ہماری آنکھ میں جو موجزن ہر وقت رہتا تھا

یہ کب چاہا کہ اُس دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں

 

فراغؔ اب یہ دعائیں دے رہے ہیں قدر داں تیرے

کہ اک دن شہر فن میں قد ترا اُبھرا ہوا دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

آس کس بات کی ہو لگائے ہوئے

یہ سبھی لوگ ہیں آزمائے ہوئے

 

اپنا چہرہ کہاں ہے کسی شخص کا

خول چہروں پہ ہیں سب چڑھائے ہوئے

 

میرے حق میں بھلا کیا کہے گا کوئی

سارے توتے ہیں تیرے رٹائے ہوئے

 

دھوپ کیا، چھاؤں کیا، نیند کیا، خواب کیا

اک نہ اک موڑ پر سب پرائے ہوئے

 

اب جسے دیکھتا ہوں یہاں اے خدا

اپنا تابوت ہے خود اُٹھائے ہوئے

 

میری آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں، مگر

اک زمانہ ہوا مسکرائے ہوئے

 

ہم پڑوسی ہیں اک دوسرے کے، مگر

ایک دوجے سے ہیں خوف کھائے ہوئے

 

قتل کر کے مجھے، سارے قاتل مرے

جی رہے ہیں مگر سر جھکائے ہوئے

 

جن پہ چل کر فراغؔ اُن کو منزل ملی

راستے ہیں مرے ہی دکھائے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مجھ سے مری زمین، مرا آسماں نہ چھین

جو کچھ مجھے دیا ہے، مرے مہرباں نہ چھین

 

دنیا میں اک یہی تو اثاثہ ہے میرے پاس

جھولی میں میری ڈال کے نام و نشاں نہ چھین

 

کشتی رواں ہے آج ہواؤں کے رحم پر

پتوار میری چھن گئی، مرا بادباں نہ چھین

 

رہنے دے میرے پاس بزرگوں کی یادگار

تہذیب میری چھین کے، میری زباں نہ چھین

 

باہر جو آ گئی ہے کتابوں کی قبر سے

ِللہ عہد رفتہ کی وہ داستاں نہ چھین

 

کب چاہتا ہوں میں کہ وہ بے بس دکھائی دے

میرے عدو کے ہاتھ سے تیر و کماں نہ چھین

 

اس کے بغیر آگ کا ممکن نہیں وجود

اُٹھنے دے، اُٹھ رہا ہے جہاں تک، دھواں نہ چھین

 

کچھ تو سکون چاہیے شور و شغب کے بعد

خاموش میکدے کی فضائے اماں نہ چھین

 

سب اختیار چھین لے منصب کے ساتھ ساتھ

لیکن دلِ فراغؔ سے دردِ جہاں نہ چھین

٭٭٭

 

 

 

 

اس زمانے میں یہ اک بڑا جرم ہے

سو گئے تو پھر جاگنا جرم ہے

 

سر جھکانا صنم، میرا اک جرم تھا

سر اٹھانا مرا دوسرا جرم ہے

 

اے صنم، تیری زلفوں کے سائے تلے

دو گھڑی چین سے بیٹھنا جرم ہے

 

مڑ کے دیکھوں اُسے کیسے اے زندگی

اُس کے سائے کو بھی دیکھنا جرم ہے

 

پہلے تو خودکشی جرم تھی، اب یہاں

زندہ رہنے کا حق مانگنا جرم ہے

 

صرف دیر و حرم ہی میں اُلجھے رہو

اس کے آگے یہاں سوچنا جرم ہے

 

کیا ستم ہے کہ اب تیرے دستور میں

دست قاتل کو بھی روکنا جرم ہے

 

منصف وقت نے فیصلہ کر دیا

آپ سچے ہیں، یہ آپ کا جرم ہے

 

جو بھی چاہے کرے فیصلہ وہ فراغؔ

اپنے حق میں تو کچھ بولنا جرم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

روشن کوئی چراغ سرِ رہ گذر نہیں

میرے حسین خوابوں کا یہ تو نگر نہیں

 

شاید مرے حریف کو اس کی خبر نہیں

بھرتا ہوں میں اُڑان کہ بے بال و پر نہیں

 

سنسان راستہ تو مرے ساتھ ساتھ ہے

کیسے کہوں کہ میرا کوئی ہم سفر نہیں

 

اپنے ہی دوستوں میں منافق ہیں کون کون

اس بات سے ہماری نظر بے خبر نہیں

 

رکھئے زمیں پہ پاؤں تو قد کا چلے پتا

ایڑی اٹھا کے چلنا تو کوئی ہنر نہیں

 

ہیرے تراشنے کا ہنر جانتا ہوں میں

پھر بھی مرے نصیب میں لعل و گہر نہیں

 

دل کیوں شب فراق سے گھبرائے دوستو

’’ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہیں‘‘

 

زندانیوں سے کہہ دو کہ وہ جاگتے رہیں

زنداں کی کوئی شب بھی شبِ معتبر نہیں

 

شعروں میں اے فراغؔ مضامین نو بھی ہوں

یوں قافیہ ملانا تو کوئی ہنر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کس چیز کو اپنی خاطر میں لاتی ہے بھلا اُس وقت ہوا

جب جور و ستم پر آمادہ خود ہوتی ہے بدمست ہوا

 

جس آگ نے میرے خیمے کی ہر چیز جلا دی پل بھر میں

اُس آگ پہ قابو پالیتا، چلتی نہ اگر بے وقت ہوا

 

پتوار بنا بھی کشتی کو میں پار لگا دیتا، لیکن

طوفان اُٹھاتی رہتی تھی دریا میں سدا بدبخت ہوا

 

آکاش کو چھونے کی کوشش کرتا ہی نہیں اب کوئی بھی

کر بیٹھی پرندوں کے دل پر یہ کیسی دہشت ثبت ہوا

 

ہر شخص دکھائی دیتا ہے کچھ سہما سہما شام و سحر

گلیوں میں لگاتی رہتی ہے کیا جانے کیسی گشت ہوا

 

کیا گرم ہوا، کیا سرد ہوا، دونوں کو پرکھ کر دیکھ چکے

جس روپ میں بھی دیکھا ہے اسے، ٹھہری ہے مزاجاً سخت ہوا

 

کیا بات ہوئی ہے فراغؔ آخر، یہ حال نہ تھا اس کا پہلے

کیوں خاک اُڑاتی پھرتی ہے پاگل کی طرح ہر سمت ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

یارو، کچھ تو پھول کھلاؤ، ریت کا صحرا دیکھے کون

حدِ نظر تک ایک ہی منظر اب ہر لمحہ دیکھے کون

 

یا تو آنکھیں چھین لے یارب، یا دھرتی کو پھر سے سجا

بگڑی ہوئی ہر چیز جہاں ہو ایسی دنیا دیکھے کون

 

گاتا پھرتا رہتا تھا جو آزادی سے گلشن میں

آج اسی چنچل پنچھی کو سہما سہما دیکھے کون

 

ہر کوئی مصروف بہت ہے اپنی اپنی دنیا میں

بیٹھ کے اب دہلیز پہ یارو، میرا رستہ دیکھے کون

 

اب ایسے ماحول میں مجھ کو جبراً ہنستے رہنا ہے

نم دیدہ ہر شخص جہاں ہو، میرا رونا دیکھے کون

 

مجھ میں بھی ہوں عیب ہزاروں یارو، یہ ممکن ہے،مگر

جس درپن پر دھول جمی ہو اُس میں چہرہ دیکھے کون

 

کوئی نہیں ہے اُس کا ثانی، سب کو یہ خوش فہمی ہے

یار فراغؔ اب اپنے آگے میرا چہرہ دیکھے کون

٭٭٭

 

 

 

 

جو روشن نئی رت کے امکان کر دے

گھٹاؤں کو جاری وہ فرمان کر دے

 

ہماری کہانی ہے بے نام اب تک

عطا اک اچھوتا سا عنوان کر دے

 

نہیں میری کشتی میں پتوار کوئی

ہواؤں کو میرا نگہبان کر دے

 

پرکھ میرے عزمِ جوان کو خدایا

سفر زندگی کا نہ آسان کر دے

 

مداوائے درد محبت نہ ہو تو

مرے مضطرب دل کو بے جان کر دے

 

جو نفرت سے دیکھیں عبادت گھروں کو

خدا ایسی آنکھوں کو ویران کر دے

 

فراغؔ ایک ایسی غزل تو سناؤ

جو یارانِ محفل کو حیران کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

شریک غم کسی کو کیا بنائیں اے صنم، اپنا

ہمیں خود ہی اُٹھانا ہے یہاں بارِ الم اپنا

 

نکل آئے ہیں شہر سنگ میں شیشے کا دل لے کر

چلو اس بھول پر اب دیکھ لیں انجام ہم اپنا

 

مقفل ہو گئیں ساری کی ساری کھڑکیاں ہم پر

کہیں اس بے ہوا کمرے میں گھٹ جائے نہ دم اپنا

 

نکلنے کو نکل جائیں تری دنیا سے ہم، لیکن

کسے پھر تو دکھائے گا یہاں زورِ ستم اپنا

 

کہاں ہم لوٹنے پاتے مزہ اے گردشِ دوراں

ہمارے سر پہ جو رکھتا کوئی دستِ کرم اپنا

 

ہماری کامیابی کا اسی میں راز مضمر ہے

کہ مڑ کر خود نہیں دیکھا کبھی نقش قدم اپنا

 

سحر ہو، شام ہو یا روز و شب کا کوئی لمحہ ہو

فراغؔ آٹھوں پہر چلتا ہی رہتا ہے قلم اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

لٹے ہوئے ہیں جو ڈیرے، سوال کرتے ہیں

مٹیں گے کب یہ اندھیرے سوال کرتے ہیں

 

فضائے شہر میں کس نے یہ زہر گھولا ہے

بجا کے بین سنپیرے سوال کرتے ہیں

 

ہمارے بھیس میں کس نے یہ گھر کے گھر لوٹے

محافظوں سے لٹیرے سوال کرتے ہیں

 

ہمیں یہ دھوپ جلاتی رہے گی کیا یوں ہی

سبھی درخت گھنیرے سوال کرتے ہیں

 

کسے تلاش یہاں کر رہے ہو صدیوں سے

اداس گلیوں کے پھیرے سوال کرتے ہیں

 

جنہیں جواب مناسب کبھی نہیں ملتا

وہ طفل سانجھ سویرے سوال کرتے ہیں

 

کبھی جو دیر سے جاتا ہوں اپنے گھر تو فراغؔ

گداز بانہوں کے گھیرے سوال کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

شکستہ سہی، پھر بھی در منتظر تھا

مرے واسطے میرا گھر منتظر تھا

 

کہانی سنانی تھی بیتی رُتوں کی

ابھی ایک گل شاخ پر منتظر تھا

 

سفر کی تھکن سے ارادے تھے پسپا

مگر جادۂ برگ و بر منتظر تھا

 

وہیں رک گیا دھوپ کا قافلہ بھی

جہاں اک گھنیرا شجر منتظر تھا

 

نئی رت کی آمد غضب کی تھی آمد

بدن سے الگ ایک سر منتظر تھا

 

کوئی امن کی راہ نکلی نہیں تھی

ہر اک آنکھ میں ایک ڈر منتظر تھا

 

فراغؔ آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی

سنا ہے کوئی رات بھر منتظر تھا

٭٭٭

 

 

 

 

گلستاں میں گوشۂ آرام جاں کوئی نہیں

وہ پرندہ ہوں میں جس کا آشیاں کوئی نہیں

 

سن رہے تھے ہم کہ پھر برسیں گے بادل ٹوٹ کر

دور تک کیوں بادلوں کا کارواں کوئی نہیں

 

کس عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اے خدا

جس کی دنیا میں ہمارا ہم زباں کوئی نہیں

 

کچھ نہ کچھ تو مصلحت ہے جو یہاں چپ ہیں سبھی

ورنہ اس شہر ستم میں بے زباں کوئی نہیں

 

آئیے باہر نکل جائیں حصارِ خوف سے

راستہ اس کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں

 

یوں تو تیرے شہر میں ہیں جوہری کتنے، مگر

گوہر و یاقوت سے واقف یہاں کوئی نہیں

 

آسماں ہو یا مقدر یا تری دنیا کے لوگ

کب فراغِؔ روہوی سے بدگماں کوئی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

راستہ چننا پڑے گا کون سا، معلوم ہے

تم نہ سمجھاؤ ہمیں اچھا برا، معلوم ہے

 

کیا ہے ناکردہ گناہی کی سزا، معلوم ہے

تیری دنیا کا ہمیں ہر قاعدہ معلوم ہے

 

مطلبی ہیں لوگ سارے شہر کے، لیکن ہمیں

کس قدر رکھنا ہے کس سے فاصلہ معلوم ہے

 

اس سے بہتر ہے کہ خود ہی طے کریں ہر راستہ

کس طرف لے جائیں گے یہ رہ نما معلوم ہے

 

بے سبب گھر کے دریچے بند ہم رکھتے نہیں

چل رہی ہے شہر میں کیسی ہوا، معلوم ہے

 

یوں ہی چلنا ہے ہمیں اب چلچلاتی دھوپ میں

اک دکھاوا ہے یہ ٹکڑا ابر کا، معلوم ہے

 

اک نہ اک دن لوٹنا ہے اپنے ہی گھر اے فراغؔ

کوچۂ آوارگی کی انتہا معلوم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عبادت خاک ہے جب وجد کا عالم نہیں ہوتا

فقط چولا بدلنے سے کوئی گوتم نہیں ہوتا

 

حصارِ غم سے نکلوں بھی تو آخر کس طرح نکلوں

کہ غرقِ بادہ ہونے پر بھی غم کچھ کم نہیں ہوتا

 

خدایا، کس قدر پتھرا گئی ہیں ان دنوں آنکھیں

کہ اب ماتم کدے میں بھی کہیں ماتم نہیں ہوتا

 

کہاں دل میں لئے پھرتے ہو خواہش ابر باراں کی

یہ صحرا ہے یہاں برسات کا موسم نہیں ہوتا

 

وہ مجھ کو زیر کرنے پر تلا ہے اس لیے یارو

کہ اُس کم ظرف کے آگے مرا سر خم نہیں ہوتا

 

وہی میں ہوں، وہی تم ہو، وہی ہے رہ گذر، لیکن

ملاقاتوں میں اب پہلا سا وہ عالم نہیں ہوتا

 

بگڑتا ہے عدم موجودگی میں وہ فراغؔ اکثر

ہمارے رو برو لیکن کبھی برہم نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

ہر قدم پر نا مناسب فیصلہ کرتے رہے

ناسمجھ تھے، اپنے حق میں ہم برا کرتے رہے

 

لوگ اُڑ کر جا رہے تھے سوئے چرخِ نیلگوں

ہم چٹانوں میں ہی پیدا راستہ کرتے رہے

 

مشکلیں ہی مشکلیں تھیں ہر قدم پر راہ میں

راہ رو لیکن سفر کا حوصلہ کرتے رہے

 

کس کو کہتے ہیں منافق اور کس کو چاپلوس

دوستوں کے بیچ ہم یہ تجربہ کرتے رہے

 

ظرف تو دیکھو ہمارا، رنج و غم کے باوجود

زندگی بھر زندگی کا حق ادا کرتے رہے

 

ڈوبتی رہتی تھیں اکثر کشتیاں منجدھار میں

لوگ پھر بھی اعتبارِ ناخدا کرتے رہے

 

ہر نئی صنف سخن پر تجربہ کر کے فراغؔ

ناقدانِ شاعری کا سامنا کرتے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

خائف نہ ہوں پرند، شکاری نہیں ہوں میں

انسان ہوں، لہو کا پجاری نہیں ہوں میں

 

چیخوں کو سن کے کیسے نہ لرزے مرا وجود

پتھر کی طرح درد سے عاری نہیں ہوں میں

 

سر کر رہا ہوں آج ہر اک معرکہ، مگر

دہشت کی طرح ذہنوں پہ طاری نہیں ہوں میں

 

چہرے کی جھریوں کو چھپاؤں تو کس طرح

اے میرے خیر خواہ مداری نہیں ہوں میں

 

مانا کہ مجھ کو ورثے میں کچھ بھی نہیں ملا

لیکن کسی کے در کا بھکاری نہیں ہوں میں

 

تیور مری غزل کے بتائیں گے اے فراغؔ

کب لہجۂ حریف پہ بھاری نہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

روشن چراغ سے تم در کتنے دن رکھو گے

اتنا سجا سجایا گھر کتنے دن رکھو گے

 

دیکھو، یہاں کا موسم اب ہے بدلنے والا

سائے میں پیڑ کے تم سر کتنے دن رکھو گے

 

بارش جو ہو رہی ہے یہ کتنی دیر کی ہے

اپنے لبوں کو اس سے تر کتنے دن رکھو گے

 

خواہش جواں ہوئی ہے جب پھول توڑنے کی

کانٹوں کا اپنے دل میں ڈر کتنے دن رکھو گے

 

دفتر کی چھٹیاں ہیں اب ختم ہونے والی

زانو پہ اپنے میرا سر کتنے دن رکھو گے

 

لفظوں سے کھیلنے کی عادت فراغؔ ہے جب

ناقد کی دشمنی کا ڈر کتنے دن رکھو گے

٭٭٭

 

 

 

آخر ہوا کی زد سے بچاتے کہاں کہاں

بجھتے ہوئے چراغ جلاتے کہاں کہاں

 

دشت جنوں کہیں تھا تو شہر خرد کہیں

پتھر سے اپنے سر کو بچاتے کہاں کہاں

 

ناراض ہم نے کتنے خداؤں کو کر دیا

رکھتے تھے ایک سر تو جھکاتے کہاں کہاں

 

کس کس سے ملتے جھک کے، سبھی لوگ پست تھے

آخر ہم اپنے قد کو گھٹاتے کہاں کہاں

 

کوشش تو تم نے کی تھی، مگر کیا ہوا فراغؔ

چہرے کی بے بسی کو چھپاتے کہاں کہاں

٭٭٭

 

ہمیں اکثر یہاں ایسے کئی بونے نظر آئے

سیاست کی بدولت جو بہت اونچے نظر آئے

 

عدالت میں جو سننے والے ہی بہرے نظر آئے

زباں رکھتے ہوئے بھی ہم بہت گونگے نظر آئے

 

رکا تھا راستے میں جو وہی آگے نکل آیا

کہیں ٹھہرے نہیں لیکن ہمیں پیچھے نظر آئے

 

برے وقتوں میں اپنے ہی پرائے ہو گئے، لیکن

ہمارا دور جب آیا عجب رشتے نظر آئے

 

فراغؔ اُن سے گواہی کی کوئی اُمید کیا رکھتا

تمہارے شہر میں سب سہمے سہمے سے نظر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کا جو کبھی غور سے چہرہ دیکھا

یہ نہ پوچھو کہ مری آنکھوں نے کیا کیا دیکھا

 

ہم نے دنیا میں ترقی کا تماشہ دیکھا

آدمی کیا ہے، سمندر کو بھی پیاسا دیکھا

 

تم جسے شہر اماں کہتے تھے اے دوست، وہیں

ہم نے ہر سمت بھڑکتا ہوا شعلہ دیکھا

 

یہ الگ بات کہ تعبیر ہی کالی نکلی

ورنہ ہم نے تو ہر اک خواب سنہرا دیکھا

 

زندگی بیت گئی راہ میں چلتے چلتے

اپنی ہمت کو مگر ہم نے نہ پسپا دیکھا

 

ساتھ جب چھوڑ دیا دن کے اجالوں نے فراغؔ

اپنے سائے کو بھی اُس لمحہ پرایا دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

پیار سے جن کو دئیے ہم نے گل تر کتنے

منتظر اب اُنہی ہاتھوں میں ہیں پتھر کتنے

 

دیکھ کر شہر میں برسات کی بھیگی راتیں

یاد آتے ہیں ہمیں گاؤں کے منظر کتنے

 

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو یہاں پیاسے ہیں

نظر آتے ہیں ابھی تشنہ سمندر کتنے

 

تاج بنتا ہے یہاں ایک ہی سر کی زینت

مگر افسوس! کہ ہوتے ہیں قلم سر کتنے

 

تذکرہ زیست کا آتا ہے زباں پر جب بھی

کھلتے جاتے ہیں شکایات کے دفتر کتنے

 

دھوپ میں غم کی چلے آئے کہاں آپ فراغؔ

جھلسے جاتے ہیں یہاں پھول سے پیکر کتنے

 

تمہاری زلف کے سارے اسیر بیٹھے ہیں

جگر پہ کھا کے مگر کتنے تیر بیٹھے ہیں

 

خطا معاف! یہ جتنے وزیر بیٹھے ہیں

کسی لکیر کے بن کر فقیر بیٹھے ہیں

 

خودی کا درس جو دیتے ہیں خانقاہوں میں

امیر شہر کی صف میں وہ پیر بیٹھے ہیں

 

کب آسمان کی بولی لگائی جائے گی

زمیں پہ آس لگائے امیر بیٹھے ہیں

 

فلک سے اُترے گا کیا کوئی رہنما اک دن

یہ کس خیال سے کچھ راہ گیر بیٹھے ہیں

 

ترے دیار میں میرا شمار کیا ہو گا

یہاں تو مجھ سے بھی بڑھ کر فقیر بیٹھے ہیں

 

فراغؔ کچھ نہ سناؤ یہاں غزل کے سوا

اس انجمن میں طرف دارِ میرؔ بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر اک وادیِ پُر خطر جانتی ہے

میں رکھتا ہوں کیسا جگر، جانتی ہے

 

میں چلتا نہیں نقش پا کے سہارے

یہاں کی ہر اک رہ گذر جانتی ہے

 

یہاں کھا کے ٹھوکر سنبھلنا ہے کیسے

مری زندگی یہ ہنر جانتی ہے

 

میں مانگے کی چادر نہیں اوڑھ سکتا

یہ عریانیِ پا و سر جانتی ہے

 

میں پچھلے پہر کا ستارہ ہوں مجھ کو

نگاہِ نمودِ سحر جانتی ہے

 

چھپانے سے تیرے بھلا کب چھپے گی

حقیقت ہے کیا، یہ نظر جانتی ہے

 

فراغؔ اپنے کردار و گفتار ہی سے

یہ دنیا مجھے معتبر جانتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سورج تھا ہم رکاب، کھلا آسمان تھا

شوقِ جنوں کا سر پہ مگر سائبان تھا

 

آنکھیں دکھا رہے تھے سرِ رہ گذر وہی

جن حادثوں کا خوف نہ وہم و گمان تھا

 

ثابت قدم رہے تو ملیں کامیابیاں

مشکل ترین ورنہ ہر اک امتحان تھا

 

پہچانتا نہ کیسے کہ خوشبو وہیں کی تھی

جس گاؤں میں مقیم مرا خاندان تھا

 

خود اپنے ہی مکان میں دیوار و در کے بیچ

اک عالمِ سکوت مرا ہم زبان تھا

 

اُس کو معاف کیسے نہ کرتا بتائیے

دھوکا دیا تھا جس نے وہ بیٹا سمان تھا

 

لکھنا تو چاہتے تھے بہت کچھ، مگر فراغؔ

فرصت ملی تو شور و شغب درمیان تھا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ شوقِ جنوں جب مرا راہ بر ہے

ملے گی مقدر میں منزل اگر ہے

 

یہاں تم صدائیں نہ دو بادلوں کو

کہیں گر نہ جائیں مکاں اس کا ڈر ہے

 

ترقی نے در چاند کے بھی تو کھولے

پریشاں مگر اس جہاں کا بشر ہے

 

تمہارے لیے ہے زمیں پر سبھی کچھ

مگر آسماں پر تمہاری نظر ہے

 

بچائے جو شورش زدہ زندگی کو

وہ مشکل کشا، وہ مسیحا کدھر ہے

 

یہ چہرے پہ کیسی اُداسی ہے قاتل

لہو سے جو تر تھا وہ دامن تو تر ہے

 

فراغؔ اب نہ کھیلا کرو آگ سے تم

یہاں تو تمہارا بھی کاغذ کا گھر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی جب ہمارے قدم جاگتے ہیں

تو پھر راہ کے پیچ و خم جاگتے ہیں

 

ہر اک دل میں درد و الم جاگتے ہیں

یہ سچ ہے مگر بیش و کم جاگتے ہیں

 

جو بیدار رہتے تھے ہر پل مدد کو

کہاں اب وہ دستِ کرم جاگتے ہیں

 

جلے جا رہے ہیں مکاں سب کے، لیکن

نہ تم جاگتے ہو نہ ہم جاگتے ہیں

 

لہو چیخ اُٹھتا ہے جب بے کسوں کا

تبھی انقلابی علم جاگتے ہیں

 

فراغؔ آپ کو نیند آتی ہے کیسے

سنا تھا کہ اہل قلم جاگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حاکمِ دوراں ملے تو بر ملا کہہ دیجیے

ہم نہ مانیں گے اب اُس کا فیصلہ، کہہ دیجیے

 

اُس نے بال و پر ہمارے نوچ ڈالے ہیں تو کیا

ہم نے کب چھوڑا ہے اپنا حوصلہ، کہہ دیجیے

 

اب نہیں گنجائشِ جبر و تشدد کیوں کہ اب

ضبط کا لبریز ساغر ہو چلا، کہہ دیجیے

 

اب دبائے دب نہیں سکتی صدائے احتجاج

ہر دلِ مظلوم میں ہے ولولہ، کہہ دیجیے

 

پھر وہی دل دوز منظر، پھر وہی آہ و بکا

پھر وہی ہے خاک و خوں کا سلسلہ، کہہ دیجیے

 

پھر یزیدی لشکروں میں گھر گئے ہیں ہم فراغؔ

پھر نظر کے سامنے ہے کربلا، کہہ دیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس دور میں جیسے چلنا ہے اس طور سے چلنا سیکھ لیا

ٹھوکر تو بہت کھائی ہے مگر گر گر کے سنبھلنا سیکھ لیا

 

یہ شہر عداوت ہے لیکن اتنا تو ہوا ہے حق میں مرے

اب جان ہتھیلی پر لے کر میں نے بھی نکلنا سیکھ لیا

 

وہ آگ اُگلتا سورج بھی جب چاہے زمیں پر آ جائے

ہم اوس میں رہنے والے سہی اب دھوپ میں جلنا سیکھ لیا

 

میں زر کے نشیلے سائے میں کل تن کے چلا کرتا تھا، مگر

وہ سایہ ہٹا کیا سر سے مرے جھک جھک کے بھی چلنا سیکھ لیا

 

کل چاند ستاروں کی خاطر وہ ضد تو کیا کرتے تھے، مگر

صد شکر ہمارے بچوں نے وعدوں سے بہلنا سیکھ لیا

 

ہاتھوں کی لکیروں سے جس دم اُمید ہماری ٹوٹ گئی

تدبیر سے ہم نے فراغؔ آخر قسمت کو بدلنا سیکھ لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کون ہے جھوٹا کون ہے سچا یہ کس کو معلوم نہیں

خوف سے کس کا فق ہے چہرہ یہ کس کو معلوم نہیں

 

وقت نے جس کو سونپ دیا ہے آج تمہارے ہاتھوں میں

ڈوبنے والی ہے وہ نیا یہ کس کو معلوم نہیں

 

جن کے عیب گناتے تھے کل آج اُنہی کے عیبوں پر

تم کیوں ڈال رہے ہو پردہ یہ کس کو معلوم نہیں

 

رعب جماتا پھرتا ہے کیا سب پر اپنے قامت کا

کتنا اونچا قد ہے تیرا یہ کس کو معلوم نہیں

 

یوں تو بہت لگتا ہے شیریں آپ کا لہجہ سننے میں

لیکن اس میں زہر ہے کتنا یہ کس کو معلوم نہیں

 

یار فراغؔ اس محفل میں کب اپنی خوشی سے آیا ہوں

میں ہوں کس کے حکم کا بندہ یہ کس کو معلوم نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوں نکھرتا ہوں میں آہ وزاری کے بعد

جس طرح آسماں برف باری کے بعد

 

جب میں نادان تھا سب پہ غالب رہا

مات کھائی مگر ہوشیاری کے بعد

 

سر اُٹھانے کے قابل نہ تھا بزم میں

سر خمیدہ اُٹھا شرمساری کے بعد

 

اس کی زد میں کوئی شخص آیا نہ ہو

کیسے ممکن ہے یہ سنگ باری کے بعد

 

پھل بھی اپنے مقدر میں ہے یا نہیں

دیکھنا ہے یہی آبیاری کے بعد

 

جس بلندی پہ اب میں کھڑا ہوں فراغؔ

وہ ملی ہے مجھے خاکساری کے بعد

٭٭٭

تشکر: افتخار راغب جن کے توسط سے اس کی فائل موصول ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید