FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

خواب کی ہتھیلی پر

 

 

 

 

                گلناز کوثر

 

 

 

 

 

نظم اور میں

 

نظم نے پہلے پہل آنگن کے ایک کونے سے ننھی کونپل کے جیسے سر اٹھایا تو میں اس کے وجود سے یکسر انجان رہی ۔۔۔۔۔ پھر آنگن بدلتے رہے لیکن وہ کونپل ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی۔۔۔ ہمیشہ کونوں میں سمٹی ہوئی، دیواروں سے لگی ہوئی ۔۔۔۔ پھر ایک روز میں نے اسے دیکھ بھی لیا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر حیرت رہی ۔۔۔ دلچسپی بھی ۔۔۔ اور پھر میں بھول گئی ۔۔۔۔ سفر بہت کڑا تھا ۔۔۔۔ اور درد اپنی بساط سے بھی باہر ۔۔۔۔۔ سارا وقت رشتوں کا ریشم بُنتے نکل جاتا لیکن ہر بار ساری بُنت کھل کر پھر ایک ڈھیر کی صورت اختیار کر جاتی سو یہ کوشش ہی ترک کر دی ۔۔۔۔ اوندھے ، سیدھے دن بے آہٹ بیت جاتے اور کھڑکیوں پر نئے پرانے موسم اپنی تصویریں دھرتے گزر جاتے ۔۔۔ تب نظم آنگن سے نکل کر میرے کمرے میں آنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ دکھتی رگیں سہلاتی ۔۔۔۔ ادھر ادھر کونوں میں سمٹے وجود سے گرد جھاڑتی ۔۔۔۔ سرگوشیاں کرتی ۔۔۔۔ پھر کوئی بارہ برس پہلے جب کھڑکی پر چلچلاتے موسم کی تصویر دھری تھی اور میرا وجود درد سے دہرا ہوا جاتا تھا تو نظم نے مجھے اپنا دوست بنا لیا ۔۔۔۔ یہ بہت محفوظ رشتہ تھا ۔۔۔۔ ایسا ریشم جس کی بُنت کبھی واپس ڈھیر کی صورت اختیار نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔ اب کی بار باہر کی دنیا کو ایک مدت بعد دوبارہ دیکھا تو میری یہ دوست میرے ساتھ تھی ۔۔۔ بھیڑ میں کھو جانے کا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ اسے سب راستے پتہ تھے ۔۔۔۔ بادلوں ، پیڑوں ، پھولوں ، ہواؤں اور موسموں ، رنگوں اور خوشبوؤں کی باتیں ہمیں اچھی لگتیں ۔۔۔ لیکن اکثر یہ باتیں اندر چھپے کسی خوف یا درد کی ملاوٹ سے بھیگ جایا کرتی تھیں ۔۔۔۔ یہ کچھ ایسے دن تھے جب کبھی کبھی مجھے لگتا کہ نظم میرے وجود سے پھوٹی ہو گی اور کبھی میں سوچتی کہ دراصل میں نے ہی اس کے بطن سے زندگی تلاش کی ہوگی ۔۔۔۔ اس مرحلے پر ہم دونوں شاید ایک ہی تھے ۔۔۔۔ ہمارے پاس کہنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔ بس روز مرہ کی زندگی تھی ۔۔۔ حقیقی زندگی ۔۔۔ جہاں ہم دونوں سارا دن کام کاج کی مشقت میں گزارا کرتے اور رات دیر تک پتوں سے لپٹی ہواؤں کی سرگوشیوں میں چھوٹی چھوٹی سوچیں بنا کرتے ۔۔۔۔ اس لیے کہ ہم چھوٹے لوگ تھے جنہیں جو کرنا تھا خود ہی کرنا تھا ۔۔۔۔ ہم تنہا تھے ۔۔۔۔ پورے شہر میں یا کائنات میں یا کائنات سے ادھر ادھر کے سارے زمانوں میں تنہا ۔۔۔۔۔ ہم اداس تھے ۔۔۔۔ زندگی ہمارے لیے درد کا سب سے بڑا استعارہ تھی ۔۔۔۔ ہم خوشیاں نہیں ڈھونڈا کرتے تھے صرف یہ کوشش رہتی کہ درد کی شدت کسی طرح کم ہو جائے اور جس روز ایسا ممکن ہو جاتا ہم دونوں سیلیبریٹ کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ زندگی فضول لگتی اور اس کا نظام اس سے بھی فضول ۔۔۔۔۔اور اپنے وجود کا مسئلہ یکسر لاینحل ۔۔۔۔ کئی گتھیاں کھل کر ہی نہیں دیتی تھیں ۔۔۔۔ کتابوں میں محبت اور جذبوں کی باتیں پڑھنا عجیب لگتا تھا ۔۔۔۔ محبت ایسا پھیلا ہوا ، بہتا ہوا جذبہ کیسے قید کرتے ہوں گے لوگ۔۔۔۔ ہم دونوں نے تو اسے جب بھی گرفت میں لینا چاہا یہ ادھر ادھر پھسل جایا کرتا تھا ۔۔۔۔ اور ہمیں تو فورا ہی محبت ہو جاتی ۔۔۔ خزاں رسیدہ پتوں سے لے کر ہنستے ہوئے چہروں تک ہر شے سے ۔۔۔۔ مگر یہ کام اور بھی دردیلا تھا ۔۔۔۔ پتے پیروں تلے مسلے جاتے اور چہروں کی مسکراہٹوں میں تضحیک ابھر آتی ۔۔۔۔ ایسے میں ہم اپنی تکمیل کے لیے اندر کا رخ کیا کرتے ۔۔۔۔ وجود کے اندر کی دنیا کیسی پراسرار لگا کرتی ۔۔۔۔ سوچوں کی شکلیں بنتی بگڑتی رہتیں اور ہم بیٹھے ان سے کہانیاں بُنتے ۔۔۔۔ شعور اور نیم شعور کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے ۔۔۔۔ جسم کی سطح پر جیتے ہوئے۔۔۔۔ روح کے اندر گہرا اترتے ہوئے ۔۔۔۔۔ سب تجربے نظم نے کرنے سکھائے تھے ۔۔۔۔ ڈھیر سا درد سہنا اوربس چلتے رہنا بھی ۔۔۔۔ فضول باتوں پر ہنسنا اور چھوٹے چھوٹے سہارے ڈھونڈنا بھی ۔۔۔۔ نظم کبھی کبھی مجھ سے روٹھ بھی جایا کرتی تھی ۔۔۔ اس کا جی چاہتا بادلوں سے پرے ایک خاص زاویے سے دنیا کو دیکھنے کا لیکن میں زیادہ تر اندر کے سناٹے سے الجھی رہتی ۔۔۔۔ درد رگوں میں گرہیں لگاتا اور میں بیٹھی انہیں کھولتی رہتی ۔۔۔۔۔ نظم کہتی کہ میں لاعلاج ہوں اور ضرورت سے زیادہ قنوطیت پسند بھی۔۔۔۔ لیکن مجھے یہ سب پسند تھا ۔۔۔۔ میرے لیے یہی محفوظ راستہ تھا ۔۔۔۔ نظم اپنا آہنگ بلند کرنا چاہتی تھی آسمانوں میں پرواز کے لیے مچلا کرتی اور میں زمین میں اور گہرا دھنسنے کی کوشش کیا کرتی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ دراصل زندگی گزارنے کا کوئی نظریہ یا ڈھنگ میرے پاس تھا ہی نہیں ۔۔۔۔ بس یونہی جیسے خود رُو پودے ہواؤں کے تھپیڑے اور بارشوں کے شور سہتے سہتے پلتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ رہتے نظم کا نصیب بھی یہی تھا سو یہ بھی بغیر نظریے کے پلتی رہی ۔۔۔۔۔ سارے تھپیڑے سہتی اور شور سنتی ہوئی۔۔۔۔۔ نظم خوبصورت نہیں تھی لیکن اس کی آنکھوں میں سچائی کی چمک تھی ۔۔۔۔ ظالم کا اپنا سحر تھا۔۔۔۔ چپکے چپکے دل پر ہاتھ رکھ دینے والا۔۔۔۔ بے خواب چاندنی راتوں میں رقص کرتے کرتے ۔۔۔ خود فراموشی کے لمحات میں اس کا چہرہ زندگی کی تمتماہٹ سے جگمگا اٹھتا ۔۔۔ ایسے میں مجھے یہ بہت اچھی لگا کرتی تھی۔۔۔۔ پھر کبھی کبھی اس کے طفیل خودفراموشی کے چند لمحات مجھے میسر آ جاتے تو اور بھی اچھا لگتا۔۔۔ بس ہماری یہی کائنات رہی ہے ۔۔۔ سادہ اور چھوٹی ۔۔۔ دنیا کی پیچیدہ سیاست اور بڑے لوگوں کے کارناموں سے شاید ہمیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔۔۔۔ ہاں گلیوں ، محلوں ، دفتروں ، پارکوں ، سینما ہالوں اور سڑکوں پر بہتی ہوئی زندگی سے بارہا متاثر ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ حاشیے کے اس طرف جینے میں زیادہ مزہ تھا۔۔۔۔ یوں بارہ برس کی اس بے پناہ رفاقت کے صلے میں نظم کو دینے کے لیے میرے پاس اس سے علاوہ کیا ہے کہ میں اسے ایک جسم دے دوں یعنی یہ کتابی شکل ۔۔۔۔ ان سب چھوٹے بڑے خوابوں میں سے ایک خواب جو میں نے دیکھا نظم نے دیکھا اور ہمارے ساتھ کچھ اور آنکھیں بھی تھیں جنہوں نے بجھ جانے میں عجلت سے کام لیا۔۔

گلناز کوثر

 

 

 

 

دھند میں رکھا دیا

 

 

نرم نرم جذبوں کی کومل سی چادر کو کسی دھند سے بھری صبح یا سگریٹ کے دھوئیں کی طرح مرغولے کھاتی ہوئی خاموشی بھری رات کے ستاروں سے پروتی گلناز کوثر نہ صرف میری سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر ہے بلکہ بہت قریبی اور بےحد عزیز دوست بھی ہے۔ عجیب پاگل لڑکی ہے، کبھی چڑیوں کے درد میں تڑپتی نظر آتی ہے تو کبھی خواہشوں کے گمنام اور بے آباد جزیروں میں پھول کھلاتی نظر آتی ہے، کہیں ساعتوں کی رفتار پر کفِ افسوس ملتی ہے اور کبھی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے اڑتے کبوتروں کی طرف دیکھتی ہے، کبھی کہتی ہے کہ دنیا چلتی چلی جائے، اجالے دھند کے حصار سے گزرتے جائیں ، پرندے اپنے دم سادھے گھونسلوں کے در بند کئے بیٹھے رہیں ، اور وہ خود بھی کسی کونے میں خاموشی کی چادر کی بکل مارے بیٹھی رہے ، کبھی شام کا گلہ کرتے کرتے ایک طوفان مچا ڈالتی ہے اور کہیں رات کے دو پہروں پر لڑکھڑاتے اندھیروں کو کندھا دیتے تو کہیں کسی برفیلی صبح میں کسی بچی کو اپنی کتابیں دیتے ہوئے نظر آتی ہے کہ شاید ان کو جلا کر اس ننھی جان کو دو بوند حرارت نصیب ہو جائے۔ قصہ مختصر کہ بہت ہی حساس طبیعت کی مالک یہ لڑکی نہ صرف حساس ہے بلکہ ڈیڑھ پاگل بھی ہے، سنا کرتے تھے کہ بڑے شاعر ایسے ہی ہوتے ہیں، گل کو دیکھ کر یقین آ گیا۔

کوئی بیس پچیس برس پہلے میرے عزیز دوست اختر عثمان شعر لکھنے والوں کے لئے ورسیفائیر کی ترکیب استعمال کیا کرتے تھے، کہتے تھے کہ آج کے لکھنے والوں میں سے ننانوے فیصد لوگ صرف ورسیفائیر ہیں، انہیں شاعری سے کوئی مطلب نہیں، جو آدمی اندر سے شاعر ہو وہ اپنی شاعری کی پہلی سطر سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ یہ بات آج کے شاعروں پر بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے، مصرعے گھڑنے کی نشے میں ڈوبے لوگ اپنی اپنی غزلوں کی بوتلیں منہ سے لگائے لنگڑاتے ہوئے اور غل غپاڑہ مچاتے ہر طرف نظر آتے ہیں لیکن گلناز کو دیکھیں تو وہ کسی مغرور کوئل کی طرح اپنی اڑان میں مصروف نظر آتی ہے، اپنی ایک الگ آواز لئے، اپنا ایک الگ لہجہ لئے، اپنے گیت اپنی دھن میں گنگناتی ۔۔۔ اپنے شعری سفر میں اتنا الگ اور اتنا پر اثر لہجہ بنا لینا کسی عام شاعر کے بس کی بات نہیں، لوگ عمریں لگا دیتے ہیں اور پھر بھی اپنی کوئی شناخت نہیں بنا پاتے اور ادھر گلناز ہے کہ ہر نئی نظم کے ساتھ اپنے جداگانہ انداز کی مہر کو گہرے سے گہرا کئے چلی جاتی ہے۔

اگر گلناز گلناز نہ ہوتی تو یقیناً ایک ایسی بیل ہوتی جس کی بقا اسی میں ہوتی کہ وہ اپنے آپ میں الجھے چلی جائے اور اس الجھنے کے عمل میں پہلے سے زیادہ نکھرتی اور بڑھتی چلی جائے، اپنے گرد و پیش کو حسن کی خیرات دیتی چلی جائے، یا شاید کسی درخت پر نکلا ایک پتا ہوتی اور خزاں کے وقت پیڑ سے جدا ہونے سے انکاری ہو جاتی اور اگلی بہار آنے تک پیڑ کے ساتھ چمٹی رہتی، جب تک کہ اس پیڑ کے نئے پتوں کو اپنا وجدان نہ دے جاتی، یا شاید ہوا کی مدھم لہروں میں ترنگ سے بہتی ہوئی ایک ندی یا نہر ہوتی جو دریا کے پاس پہنچ کر سر جھٹک کر واپس مڑ آتی، کیونکہ اسے اپنی شناخت عزیز ہے، یا ہو سکتا ہے کہ کوئی پیارا سا بادل ہوتی اور صحراؤں میں بھٹکتے ہوئے خشک ریت پر اپنے آنسو برساتی رہتی۔

گل کا تخلیقی وفور حیران کن ہے، اس کی نظموں کا انداز جدا ہے، اس کی امیجری خوبصورت اور اس کی نظموں کا اختتام ہمیشہ چونکا دیتے والا ہوتا ہے۔ اس کی نظمیں پڑھتے ہوئے پہلا احساس یہی ہوتا ہے کہ ساختیاتی حوالے سے اس شاعر کو اپنے فن پر مکمل عبور حاصل ہے۔ گل کی کتاب خواب کی ہتھیلی آنے سے پہلے اس کی ایک نظم نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کوئی بھی شاعر بیان پر ایسی دسترس کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے، اس نظم میں استعمال کئے گئے الفاظ کوئی کم ہمت شاعر اپنی شاعری میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، اور اگر کوئی ایسی ہمت کر بھی بیٹھے تو یہ سلیقہ کہاں سے لائے جو خدا نے شاید صرف گل کو ہی ودیعت کیا ہے

نائٹ میئر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت کالی راتوں کے گرداب سے

ایک آہٹ نکل کر

دبے پاؤں بڑھتی ہے

کھڑکی سے لگ کر

کوئی اجنبی شکل رونے لگی ہے ۔۔۔۔

مجھے وہم ہے

میں اگر اس کے رونے پہ

رونے لگوں تو

یہ فورا پگھل کر مرے ساتھ

بہنے لگے گی

کوئی لجلجاتی ہوئی چیز

سہمے حلق سے اترتی ہے

اور تھرتھراتی ہوئی سانس

جمنے لگی ہے

یہ پتھرائی دھڑکن کی

آواز ہے یا کوئی دھپ سے

بستر میں کُودا ہے

اور خرخراتی ہوئی ایک مدھم صدا

یہ صدا ہے یا  پھر  میری سوئی

نگاہوں کو دھڑکا لگا ہے

لرزتی ہوئی رات کی آنکھ

کھلتی  نہیں  ہے

کسی طور پتھرائی ساعت

پگھلتی نہیں ہے

مجھے وہم ہے پھر اگر یہ

پگھلنے لگی تو مرے ساتھ

بہنے لگے گی

اچٹتی ہوئی سسکیاں

لے رہا ہے کوئی

جیسے میں اپنے بستر میں

تنہا نہیں ہوں

ابھی میں نے چاہا تو ہے

چیخ کر اٹھ پڑوں

پر کسی نے

مری سانس باندھی ہوئی ہے

مرے پاؤں جکڑے ہوئے ہیں

کوئی اجنبی چیز ہے جو

مرے ایسے بے جان تن کو

دھُنکنے لگی ہے

مری سانس رُکنے لگی ہے

کسی زمانے میں گلناز کوثر کی ایک نظم پڑھی تھی جس میں اس نے دیے کی لو کی بات کی تھی، وہ کہتی تھی کہ ادیب ایک ایسا دیا ہوتا ہے جس کے در سے روشنی دان میں ملتی ہے اور اس کے الفاظ سے سیہ گھنگھور اندھیرے راستوں میں اجالے پھوٹ پڑتے ہیں۔ مجھے اب یقین آ چکا ہے کہ گل نے جون ایلیا کے بہانے یہ بات اپنے بارے میں ہی کہی تھی۔

یاور ماجد

 

 

 

مرے پڑاؤ سے پرے

 

رُکے ہوئے ہیں قافلے

کوئی لپک سی دُور سے

جگا رہی ہے خوف کے

پرانے زرد سلسلے

پکارتی ہیں اُس طرف سے

وحشتوں کی بدلیاں

بچی کھچی رفاقتوں کی

جھلملاتی تتلیاں

مرے پڑاؤ سے پرے

مری حدوں کے اُس طرف

بہت اندھیری رات میں

کھلی ہوئی ہیں غم گسار

ساعتوں کی ڈوریاں

الم نواز دھڑکنوں کے درمیاں

عجیب سی لکیر ہے

تو حاشیے کے اُس طرف

رُکی ہوئی،

جھکی ہوئی،

دُکھی ہوئی …

پکارتی ہے دُور سے

مجھے مرے وجود کی

صدا …!!! …نہیں

نہیں یہ میرا وہم ہے …

٭٭٭

 

 

 

رخصت

 

 

صبح کی دستک

وال کلاک نے

آنکھیں ملتے ملتے سنی تھی

کمرے کے ساکت سینے میں

آخری منظر

قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا

جلتی ہوئی سانسوں کے سائے

دیواروں سے لپٹے ہوئے تھے

میز کی چکنی سطح پہ رکھی

دو آوازیں پگھل رہی تھیں

دو خوابوں کی گیلی تلچھٹ

خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی

وقت کی گٹھڑی سے کھسکائے

سارے لمحے

اِک اِک کر کے

بیت چکے تھے

چپ تھے دونوں

لیکن پھر بھی

سادہ سی خاموش نظر کے

پیچھے کہیں ہیجان چھپا تھا

سینے کی مدھم لرزش میں

مانو کوئی طوفان بپا تھا

رُوح کے اندر جیسے کوئی

جاتے لمحے کو

جتنوں سے روک رہا تھا

اور پھر اس نے رخصت چاہی

آخری پل کی آخری مہلت میں

جب بھری بھری نگہ سے

ایک ستارہ چھلک رہا تھا

میں نے بھی پھر رخصت چاہی

٭٭٭
 

 

 

شب ڈوب گئی

 

پھر گھور اماوس

رات میں کوئی

دِیپ جلا

اِک دھِیمے دھِیمے

سناٹے میں

پھول ہلا

کوئی بھید کھلا

اور بوسیدہ

دِیوار پہ بیٹھی

یاد ہنسی

اِک ہوک اُٹھی

اِک پتا ٹوٹا

سَر سَر کرتی ٹہنی سے

اِک خواب گرا

اور کانچ کی

درزوں سے

کرنوں کا

جال اُٹھا

کچھ لمحے سرکے

تاروں کی

زنجیر ہلی

شب ڈوب گئی …

وہم ہے یا

وہم ہے یا کل رات تمہاری

گہری آنکھوں کے پیچھے

اک جال تنا تھا

درد کے دھاگے کھنچتے تھے

شفاف فضا میں

لمحہ بھر کو

مرغولہ سا چکراتا تھا

کرب کا بادل

سسکی لے کر اُٹھتا تھا

اور پتھر کی دِیوار کو چھُو کر

لوٹ آتا تھا

خالی خالی ہاتھوں کو

تکتے تھے …

اور تنہا لگتے تھے

وہم ہے …یا

کل رات

کوئی کرچی سی حیراں پور پہ آ کے

ٹھہر گئی تھی

سانسوں کی زنجیر سے کٹ کے

مدھم سی اِک ہچکی

بوجھل رات کے دل میں اُتر گئی تھی

دیکھو تو کل رات کا منظر

کمرے کی خاموش فضا میں

گڑا ہوا ہے

وہم ہے یا کچھ اور ہے

کیا ہے …

خمار اُترے گا تو کھلے گا

ابھی تو لہروں پہ

بہتے جاؤ

سلگتے رنگوں کے زاویوں سے

بھنور اُٹھاؤ

حیات کے دوسرے سرے سے

بس ایک لمبا سا کش لگاؤ

دھواں اُڑاؤ

ابھی تو گہرے سنہرے پانی میں

کھنکھناتی ہنسی ملاؤ

نشہ بڑھاؤ

دہکتے غنچوں پہ

سبز جھیلوں پہ نظم لکھو

ابھی بہاروں کے گیت گاؤ

خمار اُترے گا تو

بلا خیز ساعتوں کی خبر ملے گی

خزاں نصیبوں کے قافلوں سے

گلاب لمحے گزر گئے تو پتہ چلے گا

اُجاڑ صحرا ہے زندگی کا

سفر کڑا ہے

خمار اُترے گا تو کھلے گا

الم زدہ، دلگداز لمحہ وہیں پڑا ہے

چاند بُجھ گیا لیکن

پورے چاند کی شب تھی

آج بھی شبستاں کے

راہ رو بھٹکتے تھے

چاندنی درختوں پر

نم گزیدہ جھونکوں کی

آہٹیں سجاتی تھی …

بہتے بہتے خوابیدہ

وقت کی نگاہیں جو

خواب کی ہتھیلی پر

اِک سوال بُنتی تھیں

اور تڑپ کے سردیلی

موج کپکپاتی تھی

دیر تک دریچوں سے

اِک صدا اُبھرتی تھی …

اِک صدا اُبھرتی تھی

اور ڈوب جاتی تھی

چاند بجھ گیا لیکن

بے نوا صداؤں کا

کھیل اب بھی جاری ہے

رات ڈھل گئی لیکن

دُور کے درختوں پر

درد کے ہیولوں کا

رقص اب بھی جاری ہے …

٭٭٭
 

 

 

حیاتِ رواں

 

بظاہر کہیں کوئی ہلچل نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

بہت عام، بیکار، اُلجھے دنوں کی

ملائم سی گٹھڑی میں رکھی ہوئی

یہ فقط ایک بے نام سی دوپہر ہے

ہوا چل رہی ہے

نہ جانے کہاں

گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے

اُڑے جا رہے ہیں

پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے

فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبارِ مسلسل

ذرا پل دو پل کو

بہت دُور پتوں پہ ہنستا ہوا

تیز سورج

مگر پھر چمکتی ہوئی اِک کرن پر

جھپٹتے ہوئے گدلے بادل

کھلے آسماں پر ٹھہرتے نہیں ہیں

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

درختوں پہ شاخیں

اِدھر سے اُدھر ڈولتی ہیں

اِدھر سے اُدھر

میری چشم تصور میں اڑتے ہوئے چند ٹکڑے

لپکتے، جھپکتے خیالات کے میلے بادل

کہیں سطح دل پر ٹھہرتے نہیں ہیں

بظاہر جہاں کوئی ہلچل نہیں ہے

مگر یہ غبارِ مسلسل اُڑائے چلی جا رہی ہے

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

مگر ایک بے نام سی دوپہر کے

سکوت نہاں میں

عجب بے کلی ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

تپش

 

تپش ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے

رگوں میں لہو کی بلا خیز رفتار کیسے سنبھالے

بھلا ایسی مشکل گھڑی کون ٹالے

بہت تیز جلتی ہوئی ایک ساعت

مری سانس جھُلسا رہی ہے

کٹیلی گھڑی شام سے

بھولے بسرے زمانوں کا اندھا بدن

میرے سینے پہ دھرتی چلی جا رہی ہے

مرا جسم بے معنی حرفوں تلے

پگھلے لاوے بھرا ایک پتھر

مسلسل مری جان دہکا رہا ہے

مرا دل مگر کن زمانوں کی

ٹھنڈک کی جانب

کھنچا جا رہا ہے

سپیدی بھری، آخری، نرم ٹھنڈک

اُدھر ایک کونے میں چکرا رہی ہے

تپش ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے …

٭٭٭

 

سفر

 

تھکے تھکے سے پاؤں

دُور منزلوں کے سلسلے عجیب سے

وہ سامنے پڑاؤ بھی

مگر نہ جانے کیوں ہر ایک بار پھیلتے رہے ہیں

سامنے نگاہ کے

یہ رنگ ہیں کہ راستے

بڑھی ہے لہر کاٹتی ہے کلبلاتی ڈوریاں

یہ لہر درد کی ہے یا کچھ اور ہے

عجیب ہے

تھکے تھکے سے پاؤں

اندھے راستوں پہ بیکراں مسافتیں

بڑھاؤ ہمتیں، کوئی بھی گیت چھیڑ دو مگر رکو نہیں

کٹے پھٹے وجود کو کسی بھی تال پر چڑھاؤ

دھڑکنوں کو جوڑ لو

یہ گیت، تال، دھڑکنیں

یہ تیرگی کا، روشنی کا فرق اور فاصلہ عجیب ہے

یہ میں ہوں میری منحنی پکار سن کے

ڈولنے لگا ہے یہ جہان کہ رہا ہے وہم دیر سے

پکارتے رہے ہیں میرے ساتھ

میرے لوگ میرے ساتھ ہیں

کہ چل رہے ہیں گرد رنگ راستے

اُمڈ رہی ہیں بدلیاں

یہ گاڑھے گاڑھے بادلوں کے غول

گرد راستوں کا میل بھی عجیب ہے

میں قید ہوں کسی گھڑی کی پھیلتی خلاؤں میں

کہ تیرتا ہے وقت ڈولتا رہا ہے زندگی کے ساتھ ساتھ جسم کی گپھاؤں میں

عجیب ہے

یہ وقت، درد، راستہ

یہ جسم بھی یہ جان بھی

یہ زندگی کا سلسلہ

عجیب ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

انتظار

 

 

بوڑھے پیپل پہ بیٹھی ہوئی

ملگجی شام نے

جھک کے انگڑائی لی

ڈگمگائی ہوا

سر اُٹھایا کسی مُردہ پتے نے

شاخوں سے چمٹی ہوئی

ننھی چڑیوں کا ہنگام

تھمنے لگا

تم نہیں آئے تھے

وقت چلتا رہا

قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی چاندنی

اور گرتے رہے

چاند کی زرد آنکھوں سے

اُلجھی ہوئی آس کے پیلے سکے

پگھلتی ہوئی رات کے …دو …پہر

لمحہ لمحہ منڈیروں پہ جمتے رہے

کچھ سلگتے ہوئے سائے

یادوں کی گدلائی الگن پہ

لٹکے رہے

ایک آہٹ تھی کیا

بڑھ کے دیکھا مگر

تم نہیں آئے تھے

کرچیوں سے بھری

دو نگاہیں لگی ہی رہیں

موڑ کے اس طرف

اَن چھوئے، اَدھ کھِلے

خواب رکھے رہے

رات ڈھلنے لگی

تم نہیں آئے تھے

٭٭٭

 

 

 

یاد نہیں ہے

 

دھیرے دھیرے بہنے والی

ایک سلونی شام عجب تھی

اُلجھی سلجھی خاموشی کی

نرم تہوں میں

سلوٹ سلوٹ بھید چھپا تھا

سردیلی مخمور ہوا میں

میٹھا میٹھا لمس گھُلا تھا

دھیرے دھیرے

خواب کی گیلی ریت پہ اُترے

درد کے منظر پگھل رہے تھے

خواہش کے گمنام جزیرے

ساحل پر پھیلی خوشبو کے

مرغولوں کو نگل رہے تھے

دھیرے دھیرے

جانے کون سے موسم کے

دو پھول کھلے تھے

شہد بھری سرگوشی سن کر

جھکے جھکے سے

ہونٹ ہنسے تھے

بڑھنے لگا تھا ایک انوکھا

سَن سَن کرتا

بے کل نغمہ

یاد نہیں ہے

کہاں گرے تھے

میری بالی

اس کا چشمہ

٭٭٭

 

 

 

 

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

 

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو حیرت زدہ شام کی زرد کرنیں

کسی گمشدہ روشنی والے لمحے کو

پلٹا کے لانے کی دھُن میں

اندھیری گُپھا کو

بڑھی جا رہی تھیں

المناک پیڑوں کے سائے

سمٹ بھی چکے تھے

سبھی سلسلے، رسم وعدہ و رخصت

نمٹ بھی چکے تھے …

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو لہرا کے اُٹھتے تھے گمنام جھونکے

بہت اُلجھی شاخوں پہ رکھا ہوا

بوجھ جھڑنے لگا تھا

کسی شوق رفتہ، کسی رنج تازہ کا

اُس شام کے سانولے، سرد چہرے پہ

کوئی نشاں تک نہیں تھا

وہ لمحہ تھا جب

اُس گراں بار، دیرینہ خواہش کا دل میں

گُماں تک نہیں تھا …

پھسلتی نگاہوں میں بے تابیوں کا

دھواں تک نہیں تھا

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو معمول کی ایک ساعت تھی

پر یہ ابھی تک کہیں ان زمانوں

کی آغوش میں جھولتی ہے …

٭٭٭

 

فیصلہ تو کرنا ہے

 

نم زدہ نگاہوں میں

آہنی لکیروں کے

ڈولتے ہوئے سائے

پھیلتے ہوئے منظر

ڈگمگاتے قدموں سے

ٹوٹتے ہوئے تختے

سرسراتی سانسوں میں

تھرتھراتے ہونٹوں پر

ان کہی کی آہٹ ہے

جسم کے سمندر کی

موج موج کٹتی ہے

اور لہو اُچھلتا ہے

اور لہو تو اُچھلے گا

دلگداز لمحے سے

وقت کی طنابوں کو

تھام کر گزرنا ہے

زندگی کٹھن ہو گی

زندگی سے لڑنا ہے

دیر سے سہی لیکن

فیصلہ تو کرنا ہے
٭٭٭

 

 

 

 

ایک سوال (رقیب سے)

 

کبھی تم سسکتی صداؤں کو سُن کر

بہت زرد، مدھم سی اُمید پر

درد کی گہری دلدل میں اترے؟

تپکتے ہوئے گرد رستوں

کٹھن، سرد لمحوں سے گزرے؟

دہکتی ہوئی رات کی کروٹوں میں

کسی خواب کی دھیمی دھن پر

سلگنے کی حسرت رہی ہو

کبھی ایک چبھتی ہوئی یاد دِل کو

حزیں کر گئی ہو

کسی سرپھرے جذب نے

اندھی راتوں میں پاگل کیا ہو؟

فقط ایک پل کے لیے

جیسے روتے ہوئے دل کو

دھڑکا لگا ہو

کبھی کالی راتوں کو

مدھم سُروں سے اُجالا

کبھی ٹوٹے بالوں، بچے سگرٹوں کو

چُنا اور سنبھالا

کبھی اُن نگاہوں کو تتلی لکھا ہو؟

کبھی اُن لبوں پر فسانہ کہا ہو؟

کڑی جان لیوا جدائی کا

بس ایک موسم سہا ہو

کبھی تم نے تھاما

بہت سہمے ہاتھوں کو

جیون کی

مشکل گھڑی میں

کسی ان کہی کو سنا ہو

گزرتے ہوئے وقت کی راکھ سے

کوئی موتی چُنا ہو

کبھی عمر بھر ایک رشتہ بُنا ہو

مگر پھر بھی اُتری ہیں

کیسی حسیں، دلربا ساعتیں

تُم پہ ساتوں جہاں مہرباں ہیں

اِدھر زخمی قدموں میں اب بھی

وہی درد کی بیڑیاں ہیں

وہی خشک صحرا،

وہی پیاسے، بھٹکے، بلکتے ہوئے

دل کی زخمی صدا ہے

میں حیران ہوں گر یہی ماجرا ہے

تو پھر مجھ سے میرا خدا ہی خفا ہے

٭٭٭

 

 

وہم نہیں ہے

 

ڈھلتے ڈھلتے

ایک رُوپہلے منظر نے کچھ سوچا …پلٹا

پگڈنڈی سنسان پڑی تھی

مٹیالی اور سرد ہوائیں

ہاتھ جھُلاتی شاخیں

رُوکھے سوکھے پتے

تنہا پیڑ پہ بیٹھے بیٹھے

چٹخ رہے تھے

ٹوٹ رہے تھے

خاک اُڑاتی پگڈنڈی پر

شام سمے کا دھندلا بادل

جھکنے لگا تھا

ڈھلتے ڈھلتے

ایک رُوپہلے منظر کی اُن بھید بھری

آنکھوں میں کوئی

جگنو چمکا …تارا ٹوٹا …وہم نہیں ہے

آج اُن کھوئی کھوئی

بوجھل آنکھوں میں

کوئی جگنو چمکا

تارا ٹوٹا

لحظہ بھر کو

وہم نہیں ہے …

٭٭٭

 

 

 

راہ آشوب

 

رخت جاں باندھنے سے پہلے کچھ

بے نشاں، سرمئی مناظر نے

ڈبڈبائی اُداس آنکھوں سے

آخری بار مڑ کے دیکھا ہے

شام کی سرخ رُو حسیں دلہن

کاسنی رات کی پیالی میں

گھولتی جا رہی ہے رنگِ فراق

چل پڑے سست رو، تھکے ماندے

نیم خوابیدہ بادلوں کے مزار

اُن کے سائے میں اک دلِ ناسُود

لمبی، ویراں، کڑی مسافت سے

آرزو کی شکستگی سے چُور

ڈوب جائیں گے یونہی کچھ پل میں

پھر سے اِک دن کی روشنی کے سراغ

بادلوں کے سیہ مزاروں پر

ٹمٹمائیں گے ننھے ننھے چراغ

اور ہر بار کی طرح پھر سے

وقت کے تیرہ بخت سینے میں

گھُٹ کے رہ جائے گی صدائے نجات

راہ آشوب سے تنِ خستہ

چاہ کر بھی کبھی نہ لوٹے گا …

٭٭٭

 

 

 

 

سلِیپ ڈِس آرڈر

 

تو پھر سے سرد رات نے

پٹخ دیا ہے نیند کو

پھٹی پھٹی نگاہ میں

خمار کا

ذرا بھی شائبہ نہیں

نہ گرد خواب کا گماں

کسی خیال کا دھواں

یہ میں ہوں اور

وقت کی منڈیر سے

تھکے تھکے خموش پل

پھسل رہی ہیں ساعتیں

سکوتِ دل کو راحتیں

نہ رنج کی شکایتیں

سمیٹتی ہے رات کچھ

مسافتوں کی بے بسی

بہت سپاٹ زندگی

اُچاٹ دل میں خیمہ زن

کوئی ملال بھی نہیں

شب سیاہ کی نظر سے جھانکتا

کوئی سوال بھی نہیں

ملال کوئی ہے اگر

پسِ شعور

وقت کی صلیب پر

جھکا ہوا

سوال کوئی ہے اگر

برونِ سطح آب کو

ابھی سے اس کی کیا خبر …

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

کیسا حیلہ کروں

رات کٹتی نہیں

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

اندھی اُلفت کی بے تاب سی سرخوشی

دوڑتی ہے مرے جسم میں

بے بیاں وصل کی لذتیں

میرے احساس میں گل کھلاتی ہیں

شب کچھ ڈھلکتی ہے

اور ساتھ ہی

میری پلکیں بھی

خواب اور خواہش کی آغوش میں

ڈھلکی ڈھلکی سی ہیں

پر اچانک کہیں جاگتی ہے کوئی کپکپی

خوف کی زد میں آئے ہوئے

جان و دل

اِک کماں ایسے کھنچتے چلے جاتے ہیں

ایک سایہ کھرچتی ہوں اپنے بدن سے مگر

ایسا ممکن نہیں

کیسا حیلہ کروں

رات کٹتی نہیں

مجھ سے آ کے یہ کہتی ہے

اترو مری تیرگی میں جہاں

کوئی روزن نہیں

کوئی رستہ نہیں

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

رات کٹتی نہیں

کیسا حیلہ کروں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لائبریری میں

 

خاک آلود جلدوں میں رکھی ہوئی زرد رُو پُتلیاں

مجھ کو حیرت سے تکتی ہیں جیسے کہ میں

جیسے میں ان کے غرفوں میں اُمڈے ہوئے

خواب کا کوئی حصہ نہیں

پیلے اوراق کے مُردہ خانوں کے پیچھے

کہیں کوئی خواہش چھپی ہے …

جو … اب چاہنے پر مرے ہاتھ آتی نہیں

مجھ سے کہتی ہے اے اجنبی کون ہو

اب میں کیسے کہوں

میں انہی زرد آنکھوں سے دیکھے ہوئے

خواب کی ایک تعبیر ہوں

کیسے جوڑوں میں اوراق کے

کند حرفوں سے کوئی تعلق کہ میں تو فقط

میں فقط اک تسلسل کی

موجودہ کڑیوں سے اُلجھی ہوئی

کوئی تحریر ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

فون کال

 

دھوپ اور میں

یہاں دیر سے

یونہی چُپ

اوندھے لیٹے ہوئے

کہ اچانک ہوا اپنے ہاتھوں پہ

لائی ہے مانوس دستک

مہکتا ہوا دھیما لہجہ

بس اِک آن میں کھل اُٹھے

پھول سے خواب

خالی نگاہوں میں

اُترے ہیں رنگین منظر

کھنکتی ہوئی

ایک مدھم ہنسی

دل مرا رقص کرنے لگا

دل مرا رقص کرنے لگا

اور میں نے کہا

آج تو چھو ہی لوں گی

بہت نرم لفظوں میں

بہتے ہوئے ایک احساس کو

میں نے چاہا

بڑھی میں

مگر کچھ نہ تھا

٭٭٭

 

 

شام سے ذرا پہلے

 

شام سے کہیں پہلے

اضطراب کی کلیاں

شاخِ جاں سے پھوٹی تھیں

آرزو کے ہرکارے

دلفریب بستی سے

رنگ اور مستی کے

سب پیام لائے تھے

شوق سے لدی ڈالی

جھوم جھوم چلتی تھی

کیسی اجنبی خواہش

خون میں مچلتی تھی

اور رگوں میں ہر لحظہ

اک فشار رہتا تھا

دُور کے مسافر کا

انتظار رہتا تھا

شام سے ذرا پہلے

صحن گل میں خوشبو نے

دھوم کیا مچائی تھی

سرخ سرخ پھولوں نے

دلگداز راہوں میں

آگ سی لگائی تھی

ڈھلتی دھوپ کا سایہ

شاخ سے لپٹنے کو

بے قرار رہتا تھا

اجنبی مسافر کا انتظار رہتا تھا

شام کے دریچوں سے

دلفریب بستی کا

رنگ اور مستی کا

کچھ نشاں نہیں ملتا

رخصتی کے سب منظر

در بہ در اترتے ہیں

ٹنڈ منڈ شاخوں پر

لمحے بین کرتے ہیں

شام ڈھلتی رہتی ہے

پھیلتے اندھیرے سے

چپکے چپکے کہتی ہے

دل نہ جانے کیوں ہر دم

سوگوار رہتا ہے

دُور کے مسافر کا

انتظار رہتا ہے

آفٹر بلاسٹ

نہیں نہیں

یہ جھوٹ ہے

دھڑک رہے تھے ہم یہاں

یہیں کہیں

یہیں کہیں پہ ان حسین پتیوں سے

کھیلتی رہی تھیں شوخ تتلیاں

اسی جگہ جھکی ہوئی تھی شاخ گل

کہ کھولتی ہو پیچ و خم

ہوائے مشک بار پر

ابھی ابھی تو بُن رہے تھے خواب ہم

حسین زندگی کے خواب

تیرتے تھے دیر تک

فضاؤں میں ، ہواؤں میں

یقیں نہ ہو

یقیں نہ ہو تو نیلگوں

ہوا کو چھو کے دیکھ لو

دھڑک رہے تھے ہم یہاں

یہیں کہیں …

٭٭٭

 

 

 

اجل کے لمحو

 

یہ کِشت اُلفت کی زرد مٹی

یہ سہمی شب کے اُداس تارے

سوال دستِ اجل کی جانب

ہزار حیرت سے تک رہے ہیں

ابھی لہو سے کسی بھی چہرے کا

نقش بننے میں دن پڑے تھے

زمیں کے آنچل سے بیج باندھے ہی تھے صبا نے

کہ جن سے زندہ دھڑکتی کونپل کو پھوٹنا تھا

سنہری ، نوخیز ، نرم کونپل

جو دلبری کے حسیں مناظر کا آئینہ تھی

جو چاند راتوں سے گزرے لمحوں کا نقش پا تھی

وہ ننھی ، معصوم ، بند پلکیں

کسی بھی روشن ، حسین ساعت

کسی بھی تیرہ ، اداس لمحے

سے بے خبر تھیں …

ادھورے ہونٹوں کی نغمہ گہ سے

نکلتی بے صوت ان صداؤں سے

گیت بننے میں

دن پڑے تھے

بہ نوکِ نشتر ہیں

آرزوؤں کے سارے ریشے

ستم نوازی کی داستاں بھی

بدن کی سلوٹ سے پھوٹتی

شاخِ بے اماں بھی

کہ جس پہ چاہت کے پھول آنے میں

دن پڑے تھے

اجل کے لمحو

بدن کی گٹھڑی سے

زندگی کا سراغ پانے

میں دن پڑے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

صبح بس میں …

 

 

ڈھیلے فیتوں والے نیلے سینڈلوں میں ننھے پیر

بیٹھے ہیں یہ سانولے قیدی بڑے چُپ چاپ سے

اِن سے کیا جانے ہوئی ایسی خطا

لازمی ہے اِن پہ گردش میں رہیں

جانے کیسے جُرم کی پاداش میں

پل دو پل کا یہ سفر اور چلچلاتی زندگی

اُونگھتے ہیں دو کبوتر بس ذرا سی دیر کو

ایک جھپکی اور صدیوں کی تھکن کے کارواں

صف بہ صف اترے چلے آتے ہیں سُونی راہ پر

جانتے ہیں بس ابھی رُک جائے گی

اور سڑکوں ،راستوں ، فٹ پاتھ پر

شام تک چلتے رہیں گے گردشوں کے سلسلے

پھر بھی خوابوں کو بلانے سے

یہ باز آتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مردہ کبوتر

 

اُونچی شاخوں سے اُلجھی ہوئی ڈور

کچھ مردہ تنکوں کے

اندھے سہارے پہ

لٹکا ہوا یہ کبوتر

خدا جانے کب سے

ہواؤں کے دھارے پہ

بہنے لگا ہے

ادھ کھلے پر میں جکڑی ہوئی

ڈور کا یہ سرا ہی

کبوتر کا اس پیڑ سے

آخری واسطہ ہے

پر یہ ننھی خمیدہ سی گردن جھکائے

بڑی بے نیازی سے بس

ڈولتا جا رہا ہے

نیچے جلتی ہوئی اِک سڑک پر

وہ ہنگام ہستی ہے جس کو بھی دیکھو

وہی اپنے پیروں کے چھالے چھپائے

پریشاں نگاہوں میں خوابوں کی

بے تابیوں کو سجائے

کسی اندھی منزل کی جانب

بڑھا جا رہا ہے

جو دیکھو تو سانسوں کا تاوان

خلق خدا پر کڑا ہے

بصد شکر معصوم، ننھے سے دل کو

قرار آ گیا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

 

دو دِیے

 

ظلمت شب کی چشم پریشان میں

کسمساتے ہوئے

دو دِیے

ایک سہمے ہوئے طاق پر

ٹمٹماتے ہوئے

ملگجی ، ماند پڑتی ہوئی روشنی

زرد رُو ، بے اماں

ایستادہ ستوں سے

الجھتا ، لپٹتا

لرزتا دھواں

دو نگاہیں مگر

آنچ دیتی ہوئی

بے زباں سسکیاں

روح میں دفعتاً

تھرتھراتی ہوئی

سانس کی ڈوریاں

تیرتی ہیں کسی ڈبڈبائی ہوئی

آنکھ میں

دو لَویں … مستقل

اور کہیں تیز جھونکوں کی آہٹ پہ بھی

کانپ اٹھتا ہے دل …

٭٭٭

 

 

 

یہی بہت ہے

 

 

یہی بہت ہے

آج وہ مدھم چاپیں

اس رستے سے اُبھری تھیں

تم جس پر

لحظہ بھر کو

رُک سے گئے ہو

پیڑ سے لپٹا جھونکا

گھاس میں اُلجھی خوشبو

اور دِیوار پہ

نادیدہ سا دھبہ

جس کو تم نے اپنی

پور پہ اب محسوس کیا ہے

جل تھل ایک ہوا ہو جس میں

ایسی مست، نرالی رُت کا

ذکر ہی کیا ہے

یہی بہت ہے

آسمان پر اُڑتا بادل

دھرتی کے شانوں کو

چھو کر

گزر گیا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

چوراہے کا ڈھولچی

 

بے یقینی کے بے کل سمندر میں اُتری ہوئی

دو سیہ کشتیاں

موج در موج پھیلے ہوئے پانیوں میں

سلگتی ہوئی

دو عجب بستیاں

سُونی آنکھوں میں دو

ڈولتی پُتلیاں

ڈولتی پُتلیاں

عکس لہروں پہ محروم سی آس کا

خشک چہرے کی اُن سلوٹوں میں مچلتا ہوا

بے کراں انتظار

شہر کے اس حسیں موڑ پر

سانولی سوکھی ٹانگوں پہ رکھا ہوا

اک زمانے کا بار

خشک ہاتھوں میں تھامی ہوئی ایک امید

گاڑی کی آواز

جیسے کہیں

کوئی آ کے رُکا

اور تصور میں مہکی ہوئی

سوندھی روٹی کا چہرہ سا لہرا گیا

ڈھول پر تھاپ دیتے ہوئے کانپتے ہاتھ

اور اس طرف جھومتے لوگ آسودہ تن

رنگ اور روشنی میں نہائے بدن

کوئی کیسے سُنے

ڈھول کی تھاپ میں

لڑکھڑاتی، تڑپتی ہوئی سسکیاں

روشنی میں نہاتی ہوئی

بھوک سے بلبلاتی ہوئی

جان کی

آخری ہچکیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاعرِ وقت

 

جگمگاتے ہوئے خواب سب

تیری بے تاب پلکوں پہ سایہ کریں

حرف کی جھلملاتی ہوئی تتلیاں

تیری انمول پوروں کو چھو کر چلیں

پھوٹتی ہی رہیں

شاعرِ وقت تیرے کسی

نخلِ احساس سے کونپلیں

اپنی مٹی کی نمناک خوشبو میں

سمٹا ہوا

تُو مہکتا رہے

زندگی کے کسی بحر ظلمات میں

ایک دل کی طرح

تُو دھڑکتا رہے

شعر کہتا رہے

گیت لکھتا رہے

شعر کہتا رہے

گیت لکھتا رہے

گیت ایسے لکھے

کہ نہ صرف اس صدی کا ہی

حصہ بنے

شاعر وقت تُو

آنے والے زمانوں کا حصہ بنے

٭٭٭

 

 

 

 

کرسمس ٹری کو سجاتے ہوئے بچے سے

 

دِیے جل رہے ہیں

تمہاری چمکدار

ننھی نگاہوں میں

روشن ہے خوشیوں بھرا ایک لمحہ

دمکتی ہوئی نقرئی گیند ان سبز پتوں میں

ہلکی سی لرزاں ہے

جس کو ابھی چھو کے تم نے

الُوہی مسرت کے رنگین پل کو جیا ہے

مگر ننھے بچے

تمہیں یہ پتہ ہے

یہاں سے بہت دور

نیلے سمندر سے آگے

یہی ایک لمحہ ہے جس میں کسی نے

اُدھڑتے ہوئے جسم کے

کانپتے چند ریشوں سے

کیسے ابھی زہرِ جاں کو پیا ہے

دھڑکتی ہوئی سانس لیتی زمیں پر

تمہاری طرح کتنے روشن دِیے تھے

جنہیں چند سفاک ہاتھوں نے گُل کر دیا ہے

مری سوہنی دھرتی کی

شفاف پیالی میں قدرت نے جیسے

بس اک پل میں تازہ لہو بھر دیا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

بس ایک بوند زندگی

 

سو چپ رہو، سو مان لو

وہ کہہ رہے ہیں تم سے گر

تمہاری نرم سانس

اُن کی زندگی پہ بوجھ ہے

تو اپنی سانس گھونٹ لو

ابھی تمہارے ان بُنے وجود میں

دھرا بھی کیا ہے

ننھی ننھی دھڑکنیں

چلیں تو کیا

رُکیں تو کیا

سو چپ رہو، سو مان لو

ٹھہر نہیں سکے گی

تیز آندھیوں کے سامنے

یہ جگنوؤں سی روشنی

اٹل چٹان فیصلوں کی زد میں

ایک پھوٹتی ہوئی کلی

پکارتے ، چنگھاڑتے کڑے بھنور

کی راہ میں

بس ایک بوند زندگی

مجھے پتہ ہے ظلم ہے

مگر تمہیں خبر نہیں

تمہیں ابھی سے کیا خبر

کسی بھی ظلم ، درد ، گھاؤ،

موت اور زندگی کے ذائقے

تمہاری نرم دھڑکنوں نے

کچھ بھی تو سہا نہیں

حسین تتلیاں ، بہار ، پھول ، پیڑ ،

چھاؤں ، دھوپ،

پتیوں کے ، پانیوں کے سلسلے

تمہاری کوری سانس نے

کسی کو بھی چھوا نہیں

سو چپ رہو، سو مان لو

یہی وہ چاہتے ہیں گر

تمہیں مٹانے کے سوا

کوئی بھی راستہ نہیں

تو اُن کی بات مان لو …

٭٭٭

 

 

 

 

 

نائٹ میئر

 

بہت کالی راتوں کے گرداب سے

ایک آہٹ نکل کر

دبے پاؤں بڑھتی ہے

کھڑکی سے لگ کر

کوئی اجنبی شکل رونے لگی ہے

مجھے وہم ہے

میں اگر اس کے رونے پہ

رونے لگوں تو

یہ فوراً پگھل کر مرے ساتھ

بہنے لگے گی

کوئی لجلجاتی ہوئی چیز

سہمے حلق سے اُترتی ہے

اور تھرتھراتی ہوئی سانس

جمنے لگی ہے

یہ پتھرائی دھڑکن کی

آواز ہے یا کوئی دھپ سے

بستر میں کُودا ہے

اور خرخراتی ہوئی ایک مدھم صدا

یہ صدا ہے کہ پھر میری سوئی

نگاہوں کو دھڑکا لگا ہے

لرزتی ہوئی رات کی آنکھ

کھلتی نہیں ہے

کسی طور پتھرائی ساعت

پگھلتی نہیں ہے

مجھے وہم ہے پھر اگر یہ

پگھلنے لگی تو مرے ساتھ

بہنے لگے گی

اُچٹتی ہوئی سسکیاں

لے رہا ہے کوئی

جیسے میں اپنے بستر میں

تنہا نہیں ہوں

ابھی میں نے چاہا تو ہے

چیخ کر اُٹھ پڑوں

پر کسی نے

مری سانس باندھی ہوئی ہے

مرے پاؤں جکڑے ہوئے ہیں

کوئی اجنبی چیز ہے جو

مرے ایسے بے جان تن کو

دھُنکنے لگی ہے

مری سانس رُکنے لگی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عید

 

 

بھیڑ میں مکانوں کی

ایک بند دروازہ

سُونے سُونے آنگن میں

ڈھیر سوکھے پتوں کا

خشک پیڑ سے لپٹی

بے حساب تنہائی

سرد، خالی کمروں میں

سانس لیتا سناٹا

منتظر ہیں مدت سے

بے پناہ شدت سے

پر اُجاڑ سے گھر کے

بے چراغ آنگن میں

ٹوٹ کر شبستاں سے

عید کس طرح اترے

٭٭٭

 

 

 

کیا لگتا ہے

 

 

دیکھو کیا لگتا ہے

جیسے کبھی کبھی

ان ہری بھری آنکھوں کے پیچھے

جالا بننے لگتا ہے

کچھ کڑوے منظر

پتھر کی پتلی پر یونہی

پھدک پھدک کر

رہ جاتے ہیں

کیا لگتا ہے

آخر کسی بھی شے سے

میری کیا نسبت ہے

جیسے دو ٹانگوں پر چلنے والے پُتلے

جن کا چہرہ

میرے اپنے چہرے سے

ملتا جُلتا ہے

اس سے علاوہ کیا ہے

جو اِک دھیرے دھیرے

بننے والے

جالے کے اس پار سے

دل کو چھونے لگا ہے …

٭٭٭

 

 

 

ایندھن

 

ایک ٹھٹھرتی صبح کا منظر

کہرے کی وادی سے چل کر

شہر کے برفیلے چہرے پر …

آن رُکا ہے

سرد ہوائیں

پیڑوں کی گیلی باہوں سے

پھوٹ رہی ہیں

ایسے عالم میں کم سن ، محنت کش لڑکی

ناکافی کپڑوں میں سُکڑی بیٹھی ہے

قدموں میں تنکوں کی ڈھیری

ڈھیری پر اٹھلاتے شعلے

اکڑے ہاتھوں کو اِک بوند حرارت دیں گے

پر یہ سَن سَن کرتا لمحہ

پل دو پل میں تھم جائے گا

قطرہ قطرہ خون رگوں میں جم جائے گا

ایک ٹھٹھرتی صبح کا منظر

شب خانے کی اس کھڑکی سے دیکھ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

میرے اپنے کمرے میں بھی

صدیوں سے برفیلا موسم رُکا ہوا

جمی ہوئی اک سوچ کی ڈھیری

برسوں سے حرفوں کا ایندھن نگل رہی ہے

سوچ رہی ہوں

جمی ہوئی ڈھیری سے چنگاری نہ نکلی

تو بھی کیا ہے

یہ انبار کتابوں کے ایندھن کی خاطر

کم سن لڑکی کو دے ڈالوں

٭٭٭

 

 

 

قیدی چڑیاں

 

 

سائیکل کے پیچھے

اِک پنجرے میں چکراتی

نازک چڑیو

صبح کے گم صم سناٹے میں

کیسا شور اُٹھاتی ہو

اُونگھتے اور ٹھٹھرتے

رہ گیروں کے دل میں

چیخ چیخ کر

برسوں سے سوئے ، سمٹے

اِک درد کا تار ہلاتی ہو

چڑیو! ایسے ہمک ہمک کر

غُل کرتی تو ہو پر دیکھو

ان کانوں میں

لوؤں تلک سیسہ بہتا ہے

اور پلکوں کے پیچھے پتھر

اور قدموں کے نیچے تختے

ہر دم ڈولتے رہتے ہیں

تم تو پنجرے میں بھی اپنے

پر پھیلائے رکھتی ہو

تم اچھی ہو

کم سے کم

اِک ہوک اُٹھائے رکھتی ہو

٭٭٭

 

 

 

سن رائیگاں

 

وہی رنجشیں، وہی رغبتیں

وہی سلسلہ کسی یاد کا

وہی راستے ، وہی فاصلے

وہی رفتگان گریز پا

کبھی جذب و شوق کے درمیاں

کبھی رنج و درد کے امتحاں

وہی رنگ و رقص حیات و جاں

وہی ابتلا، وہی مبتلا

کسی رات چاند کو پا لیا

تو اُداس گھر کو سجا لیا

کسی شام دردِ فراق نے

یونہی دل سے ہاتھ اُٹھا لیا

پس حرف اب بھی رُکی رہی

مرے دل کی سہمی ہوئی ندا

وہی التفات کی التجا

وہی بے نوا ، وہی بے صدا

اُسی التماس کے ماسوا

سن رائیگاں سے ملا ہے کیا …

٭٭٭

 

 

 

درد

 

سرسراہٹ ہے

نہ آہٹ ہے

نہ ہلچل ،

نہ چبھن

درد چپ چاپ

کسی دھیمی ندی کے جیسے

سانس لیتی ہوئی

گانٹھوں میں

اُتر آیا ہے

کتنے برسوں کی

ریاضت سے

ہنر مندی سے

ایسے بکھرے ہوئے

ریشوں کو سمیٹا ہے مگر

اور ہر بار

ہر اِک بار

بہت جتنوں سے

جسم کو جان سے

جوڑا ہے مگر

گانٹھ در گانٹھ

کہیں سانس کی کٹتی ڈوری

کب سے تھامے ہوئے

بیٹھے ہیں مگر

آج نہیں …

یا کہیں درد تھمے

اور سکوں مل جائے

یا کوئی گانٹھ کھلے

اور قرار آ جائے …

٭٭٭

 

 

کون رُکے گا

 

دیکھو دُور ہرے بھرے

اُن پیڑوں کے چمکیلے پتے

ہولے ہولے ،

لچک لچک کر

اُچک اُچک کر

کوری اُجلی کرنوں کو

تکتے ہیں

کیسے حیرانی سے

چاہو تو چھو لو

ان نازک پتوں کی

آغوش میں

ایسا پھول کھلا ہے

دیکھو تو یہ سارا منظر

کتنا بھلا ہے

تمہیں پتہ ہے؟

منظر کے پیچھے

اِک منظر

چھپا ہوا ہے

جیسے نیچے بہنے والی

گدلی نہر میں

گھومتی لہریں

جنگلی گھاس کی نوکیں

چھدرے پیڑوں میں

اِک حبس بھری خاموشی

مریل کرنیں

اُونچی گھاس کے اندر

سڑتے ہوئے پانی میں

کچھ بے صورت پودے

ہمیں پتہ ہے

کون اُن اُجلے پیڑوں کو

دیکھے گا

اور پھر کون جھکے گا

گھاس کی تیز نکیلی دھار کے پیچھے

اِن بے صورت پودوں

کو تکنے کی خاطر

آخر کون رُکے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی نہیں ہے

 

ادھر آج کوئی نہیں ہے

تھکا ہارا منظر

یونہی بے خیالی سے

بہتے ہوئے وقت کو

دیکھتا ہے

کبھی کوئی لمحہ

بہاؤ میں اٹکے ہوئے

خشک پتے کو چھو کر

ذرا دیر تھمتا ہے تو

جاگتی ہے کہیں کوئی دھڑکن

مگر وہم ہے یہ

ادھر آج کوئی نہیں ہے

دسمبر کی ساکت فضا میں

فقط سرسراتا ہے بے سمت، الجھا ہوا

اِک بہاؤ یا پھر ایک جانب دھرا

یہ تھکا ہارا منظر

٭٭٭

 

 

 

اسے میں بھول جاؤں گی

 

کسی کی یاد کا چہرہ

مرے ویران گھر کی ادھ کھلی کھڑ کی سے

جو مجھ کو بلاتا ہے

سمے کی آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارا

جو اکثر رات کی پلکوں کے پیچھے جھلملاتا ہے

اُسے میں بھول جاؤں گی

ملائم کاسنی لمحہ

کہیں بیتے زمانوں سے نکل کر مسکراتا ہے

کوئی بھولا ہوا نغمہ فضا میں چپکے چپکے پھیل جاتا ہے

بہت دن سے کسی امید کا سایہ

کٹھن راہوں میں میرے ساتھ آتا ہے

اسے میں بھول جاؤں گی

پرانی ڈائری کی شوخ تحریروں میں

جو اِک نام باقی ہے

کسی منظر کی خوشبو میں رچی

جو راحتِ گمنام باقی ہے

ادھورے نقش کی تکمیل کا

جتنا بھی ، جو بھی کام باقی ہے

یہ جتنے دید کے لمحے

یہ جتنی شام باقی ہے

اسے میں بھول جاؤں گی

کسی کی یاد کا چہرہ

اسے میں بھول جاؤں گی

اسے میں بھول جاؤں گی

میں اکثر سوچتی تو ہوں

مگر وہ یاد کا چہرہ

مگر وہ ادھ کھلی کھڑکی

٭٭٭

 

 

 

اِقرار

 

کہو جب ایک ڈولتی پکار نے

دبیز آسمان کی

خموش، خشک سلوٹوں کو چھُو لیا

گھنیری سبز شاخ سرد رات کی منڈیر پر

جو جھُک گئی

تو کائنات رُک گئی

کبھی کسی اُداس دل کی

دھڑکنیں مچل گئیں

تو کیسی اندھے فیصلوں کی ساعتیں

بھی آہنی گرفت سے پھسل گئیں

کہو سمے کی آنکھ میں رُکے ہوئے

لہو نے سرسراتے سوکھے بادلوں سے کیا کہا

کہ حبس رات میں کہیں سے جھوم کر گھٹا چلی

گھٹا چلی تو دیر سے

تپکتے گرد راستے مہک اُٹھے

وہ حرف تھے کہ تتلیوں کے قافلے

رُکے کسی اجاڑ زرد پیڑ پر

سسکتے سرد راستوں سے

اِک کرن گزر گئی

تو رنگ پھیلتے رہے

تو رنگ پھیلتے رہے تھے دیر تک

ہواؤں میں ، فضاؤں میں

کوئی صدا رُکی رہی

کہو وہ کوئی

گنگناتے ساز تھے

کہ روشنی کے سلسلے

کہ پتھروں سے پھوٹنے لگی تھی

کوئی آبجُو

وہ رنگ تھے کہ پھول تھے

کہ چاندنی کی نرم لَو

کہو کہو …

٭٭٭

 

 

 

 

رات کے دو …پہر

 

لڑکھڑائی ہوئی رات کے دو …پہر

جیسے بیکار لمحوں کی

اُجلی گزرگاہ سے

آج گزرے نہیں

جھینگروں کی سَنن سَن کے آگے

کسی یاد کا قافلہ

جیسے ٹھہرا نہیں

چاند بس دو فریبی سی

شاخوں کی باہوں میں

ہلکورے لیتا رہا

اور تارے کسی

غیر ممکن تصور کو تکتے رہے

دھیمی سرگوشیوں سے بھرے

سبز پتے یوں جیسے ہلے ہی نہیں

لمبی ویران سڑکوں پہ

جھونکوں کی آہٹ کا کچھ

شائبہ تک نہ تھا

اور کھوئی ہوئی

سوچ کے کارواں

دل کی خالی فصیلوں پہ

اُترے نہیں

رات کے دو … پہر

زندگی کی کسی رہ سے

گزرے نہیں …

٭٭٭

 

 

 

 

بارش

 

 

یہ بوندیں ہتھیلی پر

رہ رہ کے لرزتی ہیں

تھم تھم کے مچلتی ہیں

اور آہنی ریکھائیں

گم نام حرارت سے

جلتی ہیں ، سنبھلتی ہیں

چپ چاپ پگھلتی ہیں

نمناک فضاؤں کے

حیران دریچوں سے

کرنیں سی جھلکتی ہیں

کچھ کہہ کے دبے قدموں

یکبار پلٹتی ہیں

آوازوں کے جنگل سے

کچھ کانچ بھری کلیاں

کچھ سر بفلک شاخیں

کھڑکی کے بدن تک بھی

مشکل سے پہنچتی ہیں

آوازوں کے جنگل سے

خاموشی کی بیلیں جو

اِک دل سے نکلتی ہیں

اِک دل میں اترتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

یاد رُکتی نہیں

 

یاد رُکتی نہیں

ٹوٹتی ہے بجھی آنکھ سے

قطرۂ آب بن کر پھسلتی ہے

رخسار کی نرم ڈھلوان پر

سسکیوں کی صدا سے

اُلجھتی ہے

گاتی ہے

دل کے حسیں تار کو

چھیڑتی ہے

مچلتے ، سلگتے ہوئے

گرم جذبوں کو چھوتی ہے دھیرے سے

لیکن کبھی یاد رُکتی نہیں

مجھ سے کہتی ہے

چھو لو مجھے ، تھام لو ،

میں کہیں گُم زمانوں کے اندھے تسلسل

سے لپٹی ہوئی

ایک زنجیر ہوں

اور میں حیرت سے تکتی ہوں

کیسے مرے سرد پہلو میں

ہر پل دھڑکتی ہے

بہتی ہے سانسوں کے دھارے میں

رہتی ہے جیون سفر میں مرے ساتھ

میں جو کبھی رُک بھی جاؤں مگر

یاد رُکتی نہیں

سرسراتی ہے پتوں کے پیچھے

حسیں چاند کی اوٹ سے

جھانکتی ہے ، جھلکتی ہے

شبنم کی شفاف بوندوں میں

جھونکوں کی باہوں میں

ہلکورے لیتی ہوئی

ڈولتی ہے ، مچلتی ہے

چھو لے گی جیسے

کسی ان کہی کو

مچلتے ہوئے درد کے

ایک سیلاب میں

بہتی جاتی ہے ان دیکھے

برفیلے رستوں پہ

پلکوں کے پیچھے

کہیں جھلملاتی ہے

بجھتی ہوئی راکھ سے

اِک دھواں بن کے اٹھتی ہے

اور تیرتی ہے کہیں

ڈبڈبائی ہوئی آنکھ کے پانیوں میں

سلگتی ہوئی پتلیوں کے تلے

ڈگمگاتی ہے

دُکھ کی کوئی موج

اندھا تلاطم ہو

طوفاں ہو، جھکتی نہیں

یاد رُکتی نہیں …

٭٭٭

 

 

 

 

 

رقص گریہ

 

 

ابھی ابھی تو کھُلا تھا اِک بھید آئینوں پر

لرزتی شبنم کے پاؤں ٹھہرے ہی تھے گلوں پر

ابھی کہیں گہری شام کا اِک حسین جھونکا

سجل سی خوشبو کو رمز نغمہ سکھا رہا تھا

ابھی تو خوابوں کادر بھی دل پر نہیں کھلا تھا

ابھی تو ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا بکس

یونہی دھرا ہوا تھا

ستم گروں نے یہ کیا کیا ہے

کہ آرزو کی سجیلی موجوں کو

رقص گریہ سکھا دیا ہے

وہ دل وفا کا دیا تھا جس کو

چراغ محفل بنا دیا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

سنبل

 

سنبل اُجلے شانوں والی کومل تتلی

پیڑوں کی شاخوں سے ہاتھ چھڑا کے یوں نکلی ہے جیسے

برف کے گالے

رات کی خوابیدہ پلکوں پر

بے آواز اُتر آتے ہیں

جھونکوں کے رتھ پر سے دنیا

کیسی سندر دِکھتی ہے

کھیتوں کے یہ ہرے سمندر

شیتل جھرنے

کھَن کھَن کرتے پیتل کی چمکیلی

گاگر جیسی دھرتی

پر دیکھو یہ جگمگ سونے جیسی دھرتی

مٹی کے بے صورت لَوندوں

خاک کے بے مایہ تودوں سے

اٹی پڑی ہے

سنبل

اُجلے شانوں والی کومل تتلی

کل تک جو آوارہ جھونکوں کی باہوں میں

ڈول رہی تھی

اب اس سڑک کنارے خاک سے اٹی پڑی ہے

سنبل ریشم کی شہزادی

میرے دل میں

دو کومل لچکیلے ہاتھوں

کا اِک لمس جگا جاتی ہے

پر یہ گدلے ، بے مایہ، بے صورت لَوندے

پر یہ میرے تن کی خاک اُڑاتی دھرتی …

٭٭٭

 

 

ڈھلمل قطرہ

 

بارش کب سے تھمی ہوئی ہے

سرد ہوا سے ٹھٹھری بیلیں

سن سن کرتی دیواروں سے چپک رہی ہیں

پیپل کا یہ پیڑ پرانا

پیڑ کے چوڑے چوڑے پتے

تیز ہوا سے تھراتے ہیں

اور پھر پچھلی جانب جھک کر

لہراتے ہیں

اور اِدھر اِک ننھا پتا

حیراں حیراں ، ساکت، گم صم

تیز ہوا کے آگے کیسی خاموشی سے

ڈٹا کھڑا ہ

جھومتے اور لہراتے چوڑے پتو

تم جو غور کر و تو

اِس کی چونچ پہ

بارش کا اک ڈھلمل قطرہ

رُکا ہوا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

میں نہیں ہوں مگر

 

میں نہیں ہوں مگر

اب بھی کھلتے ہیں کھڑکی کے دائیں طرف

پھول بل کھائی، اُلجھی ہوئی بیل پر

زندگی کے اہم فیصلے کی گھڑی سے الجھتے ہوئے

میں کھرچتا رہا تھا یہ روغن

جمی ہے یہاں آج تک

ننھے دھبے میں اِک بے کلی میرے احساس کی

اور قالین پر میری پیالی سے چھلکی ہوئی

چائے کا اِک پرانا نشاں

اب بھی تکتا ہے مٹیالی آنکھوں سے

چھت کی طرف

آج بھی ہیں پڑی شیلف پر

جو کتابیں خریدی تھیں

میں نے بہت پیار سے

آج بھی ہیں جڑے

کاغذوں کے حسیں آئینوں میں

مری سوکھی پوروں سے پھوٹے ہوئے

کالے حرفوں کے چہرے عجب شان سے

میں تو حیران ہوں …

مجھ سے منسوب ہر ایک شے

جوں کی توں ہے تو کیا ایک میں ہی تھا جو

ایک میں ہی تھا پانی کے سینے پہ رکھا ہوا نقش جو

پل دو پل کو بنا اور مٹ بھی گیا …

٭٭٭

 

 

 

ڈر لگتا ہے

 

تم کیسے سمجھو گے

لیکن

ہم نے تو

دیکھا ہے

جیون بھر کا حاصل

ایک یہی لمحہ ہے

پل ہے

تارے جیسا

جھلمل جھلمل،

شیتل،کومل

ورنہ اس بے کار

سفر میں رکھا کیا ہے

وقت کے سینے پر

بے مقصد بہتے جاؤ

ہچکولے اور تنہا کشتی

ہاں تو …

ایک یہی پل ہے جو

لیکن …

جیسے …

ہاں پر تم

کیا جان سکو گے؟

کیسی کیسی گانٹھیں

دھول، نکیلے پتھر

ہچکولے اور تنہا کشتی

کومل پل بھی

جھوٹ نہیں ہے

اس سے پہلے

لمحے کے

چھونے سے پہلے

تم تو نہیں سمجھو گے لیکن

آؤ کہیں چھپ جائیں

کتنا ڈر لگتا ہے …

٭٭٭

 

 

 

ستارہ

 

ستارہ سر شام پھر بند کھڑکی کے پیچھے

پرانے درختوں کی ناکارہ شاخوں پہ سجنے لگا تھا

بہت ننھے روزن سے کرنوں کا ہالہ

کسی ویراں ، آسیب تن سے

اُلجھنے لگا تھا

ستارہ رُوپہلے شبستاں کے منظر سے

آنکھیں چرائے

لُٹے گھر کے تنہا و تاریک کمرے کی

بوسیدہ کھڑکی پہ

کرنیں بچھائے

بہت خشک وحشت بھری

اُس کی بے بس نگاہوں کو چھونے لگا تھا

وہ روزن سے پھوٹی ہوئی

تیز کرنوں سے بچتا بچاتا

اسی اُونچی دِیوار کے ایک کونے میں

بیٹھا رہا تھا

وہ بیٹھا رہا تھا

وہ اپنے بہت میلے ہاتھوں کی

ادھڑی رگوں کو چھپائے

پریشاں نگاہوں سے

کرنوں کے ہالے کو

تکتا رہا تھا

ستارہ کہیں بند کھڑکی کے پیچھے

بہت منتظر تھا

٭٭٭

 

 

پاگل عورت کے لیے ایک نظم ؎

 

انجانی بے درد مسافر

بارہ برسوں سے سڑکوں پہ بھٹک رہی ہے

جیسے ہوش کے آخری لمحے

اُس نے سفر کی ٹھانی ہو

پھر اِک اندھی بہری منزل

اُس کی آنکھ سے چپک گئی ہو

پھر اِک گم صم گونگا رستہ

اُس کے پیڑ سے لپٹ گیا ہو

پھر اِک پتھر جیسا وعدہ

اُس کی رُوح پہ آن دھرا ہو

اور وعدے کی سل پر جیسے

بارہ برس کی گرد کے نیچے

سہما سا اِک خواب پڑا ہو

روکھے سوکھے بالوں میں اب

وقت کی چاندی پھیل رہی ہے

بوسیدہ کپڑوں کی درزیں

روزن بنتی جاتی ہیں

لیکن دھول بھری آنکھوں سے

آس کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں

لیکن میل بھرے ہاتھوں نے

زادِ سفر کو تھام رکھا ہے

اور خالی دل سوچ رہا ہے

آج تو اُس کو آنا ہو گا …

؂(بارہ طویل برسوں تک لاہور کی سڑکوں پر مال روڈ، جی پی او اور سکرٹریٹ کے بس سٹاپس پر اکثر ایک پاگل عورت کاندھے پر بیگ لٹکائے انتظار میں کھڑی نظر آیا کرتی تھی … سنا ہے شاید کالج کے زمانے میں اسے کسی ایسے لڑکے سے محبت ہوئی جس سے شادی ممکن نہ تھی … نتیجتاً دونوں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا … کسی بس سٹاپ پر ملنا طے تھا مگر لڑکا نہیں آیا … اور وہ بھی لوٹ کر گھر نہیں گئی … بارہ برسوں نے اس عورت کے ظاہری حلیے کو کافی حد تک بدل دیا لیکن آنکھوں میں ٹھہرا انتظار ویسے کا ویسا ہی رہا ۔)

٭٭٭

 

 

 

ابھی کچھ دن

 

اداسی آج بھی …

بے صَوت حرفوں کے

گھنے جنگل سے

خاموشی کی بس اِک

کنکری چُن کر

ہمارے دِل کے

ساکت ساحلوں پر

پھینک جائے گی

دُبکتی چاندنی

آنکھیں نہ کھولے گی

سُلگتی موج سے اب بھی

تلاطم کی کوئی صورت

نہ نکلے گی

ابھی کچھ دن اُجالے دھند کے

صحرا سے گزریں گے

پرندے اپنے دم سادھے رہیں گے

گھونسلوں کے در نہ کھولیں گے

ابھی کچھ دن …

ابھی کچھ اور دن ہم بھی

کسی سے کچھ نہ بولیں گے …

٭٭٭

 

 

 

 

سوکھا پتا

 

ہریالی کی قید میں اکثر

یوں لگتا ہے

میں بھی سوکھا پتا ہوتا

ہوا کی ہلکی سی تھپکی پر

زنداں کا دروازہ کھلتا

دھوپ کے اُجلے منظر

میرا تن سہلاتے

رنگ مہکتی ، کچی مٹی کا میری بھی

روح میں گھُلتا

ہوا کی مدھم لہروں پر

ہلکورے لیتا بہتا جاتا

سوکھی چٹخی آنکھیں کوئی

خواب نہ بُنتیں

مُرجھانے کا، جھڑ جانے کا

دل میں کوئی خوف نہ ہوتا

ننھی ننھی جگمگ آنکھیں،

مڑی مڑی سی پلکیں

چھوٹے چھوٹے پاؤں

حیرانی سے بڑھتے میری جانب

اور میں بہتا جاتا

آتے جاتے قدموں کی

آوازیں سنتا

قدموں کی آوازیں

جیسے دَھڑ دَھڑ کوئی

دھرتی کُوٹے

اور پھر وہ آوازیں

جن میں سُر گاتے ہوں

یا کچھ جھجکی ، گرتی پڑتی ،

مدھم چاپیں

دن بھر جاگتی گلیوں میں

یوں خاک اُڑاتا

رات گئے پھر سُونی، ویراں

سڑکوں پر آوارہ پھرتا

اور پیڑوں کی اوٹ میں

ملنے والوں کی سرگوشی سنتا

ہریالی کی قید میں اکثر

یوں لگتا ہے

آزادی کا اِک دن

ساری عمر کی قید سے

اچھا ہوتا

میں بھی سوکھا پتا ہوتا …

٭٭٭

 

 

 

 

تمہاری آنکھوں کے لیے ایک نظم

 

 

کھوئی کھوئی سبک تتلیاں

دھیرے دھیرے بہت کپکپاتے ہوئے

اور لرزتے ہوئے

اُجلے حیراں کٹوروں کے نمناک گوشوں کو

چھُوتی ہیں … ڈرتی ہیں … ڈر کے پلٹتی ہیں

بے تاب … دھڑ دھڑ دھڑکتی ہوئی

جھالروں کے تلے

لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی … بدلیاں

کھوجتی ہیں نئے آسماں … تتلیاں

کھوئی کھوئی، پریشان، گُم صُ، بھٹکتی ہوئی

قطرہ قطرہ پگھلتی ہوئی کرچیاں

وقت کی راکھ سے

ادھ بُنے خواب چُنتی ہیں

چپکے سے لکھتی ہیں … سہمی ہوئی … درد کی داستاں

اُلجھی اُلجھی ہوئی بے زباں تتلیاں

سوچتی ہیں بہت

کچھ بھی کہتی نہیں

ڈوبتی ہیں، اُبھرتی ہیں

برفاب ساحل پہ ٹوٹی ہوئی … کشتیاں

تیز سرکش ہواؤں کے دھارے پہ بہتی ہوئی

پر شکستہ، بہت ہولے ہولے سنبھلتی ہوئی … تتلیاں

چوری چوری اُترتی ہیں گمنام رستوں پہ

کب سے بھڑکتے ہوئے اِک الاؤ کو چھوتی ہیں

جلتے ہوئے سرد، بے چین دل پر مرے

ہاتھ رکھتی ہیں پر

کچھ بھی کہتی نہیں

دھیرے دھیرے … بہت کپکپاتے ہوئے

اور لرزتے ہوئے

کھوئی کھوئی سبک تتلیاں

٭٭٭

 

 

 

 

بہ جانب دل حزیں

 

یہ سن رسیدہ مکڑیوں

کے کُلبلاتے قافلے

لچکتے ، رینگتے ، لپکتے

آ رہے ہیں دُور سے

کراری سبز پُتلیاں

اِک آنچ سے تپی ہوئی

لبوں میں تیز دھار کے

مہین بے قرار تار

بڑھے ہیں کیسے شوق سے

بُنیں گے آج واہموں کے

دل نشیں حسین جال

سو گرد بے حساب سے

اُٹھے گی آج پھر صدا

وہ اپنی خلدِ بے رخی میں

تا بہ سر گڑا ہوا

تُو آگ میں گھرا ہوا

تُو خاک پر پڑا ہوا

اسے کوئی سُنے گا کیا؟

٭٭٭

 

 

 

 

کلاس فیلو

 

بڑی مدتوں میں ملے ہیں تو

مجھے یوں لگا تجھے دیکھ کر

کہیں ڈھلتی شام کی اوٹ سے

ابھی جھانکتی ہے کرن کوئی

ابھی خیمہ زن ہیں

مرے وجود میں راحتیں

مہ و سال کے

کسی پھیر میں

جو گنوائیں میں نے

وہ لذتیں

مجھے یوں لگا

وہی ذائقے

مرے دل میں پھر سے مہک اُٹھے

کسی تمتماتے خیال سے

مرے سرد جمتے لہو میں

نغمے لہک اُٹھے

مرے جسم کے

سبھی برف زار دہک اُٹھے

مجھے یوں لگا

ابھی دوڑ کر

تُو کہے گی آؤ

گداز لمحوں سے

پیڑ کی

کسی شاخ پر

کوئی خواب لکھیں

بہار کا یونہی گنگنائیں

حسین سا کوئی گیت

فصل خزاں کے آنے میں

دیر ہے

ابھی دیر ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

لوٹ آؤ

 

 

رُکو دوست … کہاں چلے

سرما کی نرم دھوپ کو پیڑوں پر کھیلتا نہ دیکھو گے

رنگ بدلتے پیڑ ، دھوپ ، بارش اور کہرے سے کبھی خالی نہ ہوں گے

تمہارا پسندیدہ گیت تمہارے لیپ ٹاپ پر بجتا رہے گا

تمہارے سر پھرے دوست نفاست سے سجے تمہارے کمرے کو

بکھیرنے کے لیے ہر دم تیار رہیں گے

قہقہے گونجتے رہیں گے

چائے کے کپ بجتے رہیں گے

سب کچھ ویسا ہی رہے گا

جیسا کہ تم چاہتے رہے ہو

بس تم ان سب کو ایک آخری موقع دو

اپنی خوابوں ، کتابوں سے بھری دنیا میں

لوٹ آؤ …

٭٭٭

 

 

 

تِیتری

 

تُو نے کیا بات کی

تِیتری …

تُو نے کیا بات کی

اَدھ کھِلی پنکھڑی کا نویلا بدن

یک بیک چونک کر کپکپانے لگا

رات سے پھول کے

نرم بستر پہ مدہوش

شبنم کے قطرے

جواں سال پتوں کی ڈھلوان پر سے

لُڑھکنے لگے …

غُل مچاتے پرندے

ٹھٹک کر

بڑی دیر تک

گول ، حیران آنکھیں گھماتے رہے

اُجلے جھونکے

لچکتے ، لپکتے ہوئے

اجنبی پیڑ کے

سبز آنچل میں

چہرہ چھپانے لگے

تِیتری …

تُو نے ایسی بھی کیا بات کی

اِک عجب سنسنی سی

ہواؤں کے ہونٹوں پہ

ٹھہری رہی

اور چمن کا چمن

خوف کے کالے، خاموش

پنجوں میں جکڑا رہا

پر اِدھر

ایک معصوم ، سہما ہوا

زرد غنچہ

بڑی دیر تک

مسکراتا رہا …

٭٭٭

 

 

 

کیوں آئے ہو

 

 

کیوں آئے ہو

بجھتے ہوئے تاروں کی

چھاؤں میں دھیرے دھیرے

گیت سناتے

خواب جگاتے

لفظوں سے تصویر بناتے

ابھی پرانے درد کا ماتم بپا ہے

دِل میں

شور بہت ہے

جان بھی الجھی ہے

کچھ منظر پگھلانے میں

جیون کا بوسیدہ ریشم

سلجھانے میں

پچھلی یاد بھلانے میں

کیوں آئے ہو

نینوں میں تاروں کو سجائے

پھول اُٹھائے

من دہکائے

وقت کہاں باقی ہے

چاند کے بجھنے میں،

ڈھل جانے میں

خواب ڈھونڈنے جانا پڑے گا

ذہن کے مردہ خانے میں …

٭٭٭

 

 

 

قوس

 

قوس پھوٹی ہے یوں

شاعر وقت کے دست تخلیق سے

جیسے تپتے ، جھلستے تھپیڑوں کے

آنچل سے لپٹی ہوئی

دھیمے احساس کی نرم کونپل کہ جو

سر اُٹھاتے ہی موسم کا رُخ پھیر دے

جذب کے ایک مدھم بہاؤ پہ احساس کی ڈولتی ناؤ

اور وقت کی تال پر رقص کرتی ہوئی

اپسرا کے بدن سے اُمڈتی ہوئی کوئی انمٹ ادا

قوس پھوٹی ہے یوں

جیسے سانسوں کی تازہ حرارت تلے

پھر سے سہمے ہوئے دل دھڑکنے لگیں

خواب پلکوں کے گیلے کناروں پہ

چپکے سے آ کے بسیرا کریں

تو نگاہوں میں پھر سے وہی

زندگی کی چمک جاگ اُٹھے

کھو گئی جو زمانے کے اس پھیر میں

قوس تیرے مرے جذب کی ترجماں

خواہشوں کا بیاں

آرزو کی زباں

دوستو ہم تو لمحوں کی دیوار پر

شام سرما کی ڈھلتی ہوئی دھوپ ہیں

جانے کل ہوں نہ ہوں

پر ہماری سبک چاہتوں کے نشاں

قوس کے زندہ حرفوں میں سمٹے ہوئے

دُور تک جائیں گے

آنے والے زمانوں کے احساس کا

رنگ کہلائیں گے!!!

٭٭٭

 

 

عافیت

 

 

اسی میں عافیت ہے ہم

صبح سے شام تک پتلے ورق

ان پتلیوں میں گاڑتے جائیں

اُچٹتی کوری تحریریں

ادق حرفوں کو دہرائیں

سویرے سے ہی اپنے خالی چہرے پر

کسی بھی تمتماتے جوش کو کس کے چڑھائیں

اور لکڑی سے بنے تختے کے نیچے ٹانگیں جوڑیں

سر جھکائیں

اجنبی بے صوت سی دنیا میں کھو جائیں

اسی میں عافیت ہے جو وہ کہتے ہیں

ہم اپنے آپ کی جانب

کبھی بھی لوٹ نہ پائیں …

٭٭٭

 

 

 

 

شام

 

سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے

دھیرے دھیرے

دور اُفق پر

سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے

نارنجی بل کھاتی لہریں

کب سے ساکت پیڑوں پر

دم توڑ چکی ہیں

پنچھی کب کے لوٹ گئے ہیں

گہرے نیلے مرغولوں نے

سرد فضا کو گھیر لیا ہے

تنہائی کا گم صم سایا

سناٹے میں گونج رہا ہے

سینے میں اِک پیاس کا صحرا

جاگ اُٹھا ہے

دیر سے پچھلی یاد کے جھونکے

دل کی خالی دِیواروں کو

چھید رہے ہیں

سانس کا ریشم الجھ گیا ہے

اور کسی بے چین گھڑی نے

رات کا رستہ روک لیا ہے

بنجر آنکھ میں شام کا منظر

ٹھہر گیا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

رات ہر بار لیے

 

 

رات ہر بار لیے

خوف کے خالی پیکر

خوں مرا مانگنے

بے خوف چلی آتی ہے

اور جلتی ہوئی آنکھوں کے

تحیر کے تلے

ایک سناٹا

بہت شور کیا کرتا ہے

کچھ تو کٹتا ہے،

تڑپتا ہے

بہاتا ہے لہو

اور کھل جاتے ہیں

ریشوں کے پرانے بخیے

رات ہر بار مری

جاگتی پلکیں چُن کر

اندھے ، گمنام دریچوں پہ

سجا جاتی ہے

اور دھندلائے ہوئے

گرد زدہ رستوں میں

ایک آہٹ کا سرا ہے

کہ نہیں ملتا ہے

آسماں گیلی چٹانوں پہ

ٹکائے چہرہ

سسکیاں لیتا ہے

سہمے ہوئے بچے کی طرح

اور دریچوں پہ دھری

کانپتی پلکیں میری

گل زمینوں کے نئے

خواب بُنا کرتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاک زادوں کے بس میں کہاں

 

اِس سے پہلے تو ہر سُو جھلستی ہوئی زندگی

ظلمتوں کے بدن میں دھڑکتی تھی اور دُور گرتی تھیں

سہمے ہوئے وقت کے تھال پر سسکیاں

اُٹھ رہا تھا کہیں ضبط گر آنکھ کی پُتلیوں سے دھواں

کانپتی تھی زمیں، زرد تھا آسماں

اور فضاؤں پہ چھایا ہوا خوف کا سائباں

اس سے پہلے کہیں گُل مہکتے نہ تھے، دل چہکتے نہ تھے

اور بھٹکتے تھے صحرا نوردوں کے بے سمت و در کارواں، الاماں، الاماں

پھر مگر اِس تپکتے ہوئے آسماں کے تلے ایک جھونکا چلا

ایک جھونکا چلا تو بدلنے لگا ہے سماں

چھٹ گئیں ظلمتیں، مٹ گیا گدلی ، بے رنگ آنکھوں سے سہمے ہوئے

خوف کا ہر نشاں …

خاک زادوں کے بس میں کہاں

چھو سکیں رفعت بندگی

کہہ سکیں حرف بھی ذات ارفع کے شایان شاں، لڑکھڑاتی زباں

ہم خطاکار، بے دست، بھٹکے ہوئے

خاک زادوں کے بس میں کہاں

ریگ زاروں پہ کھُل کے برستی ہوئی … رحمتوں کا بیاں

خاک زادوں کے بس میں کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بم دھماکہ

 

سرما کی بے رحم فضا میں

سرخ لہو نے بہتے بہتے

حیرانی سے

تپتی ہوئی اس خاک کو دیکھا

ابھی تو میں ان نیلی، گرم رگوں میں

کیسے دوڑ رہا تھا

بجھتی ہوئی اِک سانس کی لَو نے

اپنے ننھے جیون کی

اس آخری تیز، کٹیلی ہچکی کو جھٹکا

دو خالی نظریں

دُور دھوئیں کے پار

کہیں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں

ابھی ابھی تو نیلا امبر

باہیں کھولے تنا کھڑا تھا

مندی مندی سی دھوپ

یہاں کونے میں آ کر لیٹ گئی تھی

پھر کس نے اس جیتے جاگتے

منظر میں یہ آگ بھری ہے

کالی فضا میں اُڑتے ریشے

آدھی اُدھڑی بے بس لاشیں

سرخ لہو نے حیرانی سے

جلے ہوئے منظر کو دیکھا

آخری تیز، کٹیلی ہچکی

ٹوٹ رہی تھی …

٭٭٭

 

 

 

سالگرہ

 

تن کی مٹی

اور بھی کومل

اُلجھے سلجھے

ریشم میں

چاندی کے ڈورے

اور نمایاں

اور بھی گہری

سوچ کی سلوٹ

نینوں میں

سپنوں کا سایہ

ہلکا ، مدھم

اندر پھیلا

درد کا بادل

اور بھی میلا

اور بھی گہرا

چلتے چلتے

دُور کہیں اِک

منظر پگھلا

تارا نکلا

وقت کے ہاتھ سے

دھیرے دھیرے

ایک برس کا

سکہ پھسلا

شام اترتی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شام اترتی رہی

 

چپ کھڑی سامنے والی دِیوار پر

سانولے سرد ہاتھوں سے

رخنوں میں دبکی حرارت کھرچتی،

سبک ، سرمئی پیرہن کو لیے

کیاریوں کے شفق رنگ منظر نگلتی

کھُلے آنگنوں اور ستونوں ، درختوں

دریچوں پہ

گہرے سیہ رنگ خوابوں کی دستک لیے

جھانکتی ، تاکتی بند دروازوں ،درزوں سے ہوتی ہوئی

میز پر چائے کے خالی مگ سے اُلجھتی ، سرکتی

کسی گم شدہ سوچ کے زرد مرغولوں کو

تھپتھپاتی ہوئی

شام اُترتی رہی

ایک بے جان چہرے پہ

خالی نگاہوں کے خاکوں کو چھوتی، لرزتی

کسی خوف کی ان چھوئی ساعتوں سے

ذرا کانپتی ، کپکپاتی

بہت دیر سے بند دھڑکن پہ بے سُود

آہٹ کو دھرتی ہوئی

شام اترتی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

رات کے بعد …

وقت کی سرمئی نگاہوں میں

گھُل رہی ہیں بڑی خموشی سے

رات کی ڈوبتی ہوئی سانسیں

اُلجھے اُلجھے ہوئے مرے دل سے

دھُل رہی ہیں نشاط کی گھڑیاں

کھڑکیوں سے پرے لرزتی ہے

چاپ اِک ملگجے اُجالے کی

گرم کمرے سے رات کی مہماں

دل رُبا ساعتیں پلٹتی ہیں

سازِ جاں تھک کے سو گیا ہے کہیں

تھم چکی کب سے آرزوئے حیات

دیر سے چُپ، اُداس ، رنجیدہ

پھر کسی سوچ سے گریزاں ہوں

ڈوبتا چاند اِک تسلسل سے

ذہن کے آہنی دریچوں پر

سہمے سہمے خیال دھرتا ہے

اور بکھرا ہوا یہ شب خانہ

مجھ سے ڈھیروں سوال کرتا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

کیا رکھا ہے

 

چھوڑو کیا رکھا ہے … اب یہ چھوٹی چھوٹی

چبھنے والی … نوکیلی سی باتیں

تم کیا ڈھونڈ رہے ہو

نہیں یہاں اب کچھ بھی نہیں ہے

سچ کہتے ہو درد بڑا تھا

لیکن اب تو کچھ بھی نہیں ہے

آخری منظر کیا دیکھا تھا

اندھی رُت اور گہرے سائے

ارے ذرا نرمی سے

نازک پھول سا لمحہ

کیا ہے جو اَب شاخ سے ٹوٹ کے گرنے لگا ہے

پھول تو پھول ہے … لیکن دل کچھ بھول رہا ہے

پلکوں کے پردوں کے پیچھے … کیا ہے … کیا ہے

آہ … یہاں اب کچھ بھی نہیں ہے

تم جو کل آتے تو … لیکن

سچ کہتے ہو

خاک اُڑاتے کمرے میں رکھا بھی کیا ہے

یونہی خالی بیٹھے بیٹھے دیر ہوئی ہے

دیکھو سورج ڈھلنے لگا ہے

کہاں چلو گے

شہر میں چاروں جانب سورج ڈھلنے لگا ہے

لیکن تم کیا دیکھ رہے ہو

دیر ہوئی ہے

میرے پتھر قدموں کے نیچے یہ دھرتی

رُکی ہوئی ہے

ہاں پر تم کہہ کر تو دیکھو

لیکن چھوڑو … کیا رکھا ہے

بس تم ہنستی کھیلتی ، چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہو گے

سورج ڈھلتے ڈھلتے آخر ڈھل جائے گا

اور پرے دو پیڑ ہیولے بن جائیں گے …

٭٭٭

 

 

 

 

دِیا وہ بجھ گیا ہے

 

 

ہواؤ … !!!

کس دِیے کی لَو پہ تم نے

ہاتھ رکھا ہے

سسکتے ، ڈولتے ، تاریک منظر کو

ہماری نم گزیدہ آنکھ نے مشکل سنبھالا ہے

یہ کیا کہ ننھے جھونکے نے

شبستاں پھونک ڈالا ہے

دِیا وہ جس کے در سے

روشنی جب دان میں ملتی

تو حرفوں کے سیہ اندھیر رستوں سے

اُجالے پھوٹ پڑتے تھے

دِیا وہ بجھ گیا ہے

دِیا وہ بجھ گیا ہے اور دھواں

اِک سیدھی ، سوکھی شاخ کے جیسے

چٹختا ہے

ذرا سوچو

دھوئیں کی شاخ سے

بل کھا کے ٹوٹے

ننھے مرغولے کا جیون

کتنا ہوتا ہے

تو ہم بھی روشنی کے سارے چہرے

کاغذوں کے خالی خاکوں میں

سجا کر بھول جائیں گے

مگر پھر یوں کسی تاریک شب میں

جب کوئی روشن ستارہ

ٹوٹ جائے گا

ہمیں یہ دھند میں رکھا

دِیا بھی

یاد آئے گا …

٭٭٭

 

 

 

 

 

سانحہ کراچی کی وڈیو فوٹیج دیکھ کر

 

 

خدایا …

مری زندگی میں

یہ خونخوار لمحہ

اذیت بھری لہر

کٹتی رگیں

جیسے میرا لہو

اس کے بہتے لہو میں

دھڑکنے لگا ہو

وہ دلدوز چیخیں

کہیں میرے

سوکھے گلے میں

اٹکنے لگی ہیں

مری ٹوٹتی سانس نے

آخری بار

بے رحم سی اس سڑک کو

چھوا ہے

مری زرد ، بجھتی نگاہوں

میں بس ڈولتی ایک حیرت

خدایا …

نہیں …

٭٭٭

 

 

 

 

یہ وہ دھرتی نہیں ہے

 

نہیں یہ وہ دھرتی نہیں ہے

نہیں یہ وہ دھرتی نہیں ہے جہاں میرا بچپن

مرا تتلیوں ، پھولوں ، رنگوں سے لبریز بچپن

کسی شاہزادی کی رنگیں کہانی کی حیرت میں گم تھا

نہیں یہ وہ دھرتی نہیں ہے

جہاں میری آنکھوں …

بہت خواب بُنتی ہوئی میری شفاف آنکھوں

میں اوّل جوانی کا احساس ہلکورے لینے لگا تھا

وہ گوشہ جہاں بیٹھ کر میں نے پہروں

کتابیں پڑھی تھیں

درختوں پہ، پھولوں پہ، چڑیوں پہ

نظمیں کہی تھیں

نہیں یہ وہ دھرتی نہیں ہے

جہاں میرے دل پر

مرے کورے ، معصوم دل پر

کسی شرمگیں اُجلی ساعت نے

اِسم محبت لکھا تھا

جہاں زندگی کو برس در برس

میں نے کھل کر جیا تھا

٭٭٭

 

 

 

لہو سے بھری اس سڑک پر

 

خدایا لہو سے بھری اس سڑک پر

مرا دل مری پہلی پہچان کو ڈھونڈتا ہے

لہو سے بھری اس سڑک پر

خدایا لہو سے بھری اس سڑک پر

تڑپتی، بلکتی ہوئی میری فریاد

کٹتے ، سسکتے ہوئے دل سے اُٹھتی صدائیں

مری زخمی چیخیں

کوئی آج سنتا نہیں ہے

مرے ساتھ دم توڑتی میری معصوم خواہش کی

بجھتی نگاہوں میں خوابوں کی، رنگوں کی آواز

سنتا نہیں ہے کوئی آج لیکن

کہیں وقت کے اگلے اندھے پڑاؤ پہ

اِس جلتی دھرتی کی راکھ

ان فضاؤں میں اُڑنے لگے گی

کسی تُند ریلے کے

سرکش بہاؤ میں سب

ٹوٹ کر بہتا ہو گا

تو لہروں ، ہواؤں میں میری

صدا بھی ملے گی …

٭٭٭

 

 

 

 

تتلی سے

 

 

                TO A BUTTERFLY by William Wordsworth

 

Stay near me – do not take thy flight

A little longer stay in sight!

Much converse do I find in thee،

Historian of my infancy!

Float near me: do not yet depart!

Dead times revive in thee:

Thou bring’st، gay creature as thou art!

A solemn image to my heart

My father’s family!

Oh! pleasant، pleasant were the days،

The time when in our childish plays،

My sister Emmeline and I

Together chased the butterfly!

a very hunter did I rush

Upon the prey؛ — with leaps and springs

I followed on from brake to bush;

But she، God lover her! feared to brush

the dust from off its wing

 

 

ذرا رُکو میری خالی آنکھوں

کے آئینوں میں

تمہی سے روشن ہوئے ہیں

گزرے حسیں دنوں کے چراغ

ٹھہرو، ابھی نہ جاؤ

تمہی وہ خوش رُو ہو

جس سے ماضی کی

مُردہ شاخیں ہری ہوئی ہیں

ہمارے گاتے، لُبھاتے بچپن

کا شوخ منظر

انہی ہواؤں میں ڈولتا ہے

یہ تم سے بڑھ کر

کسے پتہ ہے

کہ کیسے رنگوں کے لہریوں پر

ہم اپنی حیراں نظر جمائے

تمہارے پیچھے نکل پڑے تھے

میں ایک معصوم دل شکاری

جو اپنی ننھی بہن کی خاطر

یوں جھاڑیوں سے الجھتا کیسے

ہزار جتنوں سے پہنچا تم تک

خدا کی اُلفت میں

ننھی کیسی گداز دل تھی

یہ ریشمی رنگ جھڑ نہ جائیں

تمہیں وہ چھونے سے ڈر رہی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

پُل پر سے …

 

                Composed upon Westminister Bridge by William Wordsworth

 

Earth has not anything to show more fair:

Dull would he be of soul who could pass by

A sight so touching in its majesty:

This City now doth,  like a garment,  wear

The beauty of the morning؛ silent,  bare,

Ships,  towers,  domes,  theatres,  and temples lie

Open unto the fields,  and to the sky؛

All bright and glittering in the smokeless air۔

Never did the sun more beautifully steep

In his first splendor, valley,  rock,  or hill؛

Ne’er saw I never felt  a calm so deep!

The river glideth at his own sweet will:

Dear God! The very houses seem asleep;

And all that mighty heart is lying still!

 

 

پُل پر سے …

اس سے سندر پَل دھرتی کے

جیون میں کب آیا ہو گا

بھور سمے کی اُجلی چادر

اوڑھ کے شہر تو چُپ بیٹھا ہے

کوئی اِس پل میں اُترے بِن

دھرتی سے اب کیسے گزرے

گم صُم اونچے مندر،

گول سے گنبد

اور چمکیلے منبر

سجی ہوئی تماشا گاہیں

ساگر کے سینے پر

ٹھہرے ہوئے سفینے

کرنوں کے جھرنے کے نیچے

آنکھیں موندے

گیان دھیان میں کھوئے ہوئے ہیں

ہولے ہولے ہوا کی کوری باہیں

جن کو سہلاتی ہیں

اور جھرنے کی شیتل بوندیں

کب یوں پربت، ٹیلوں اور وادی کے تن پر

سَر سَر کرتی اتری ہوں گی

دل میرا کب اس سے پہلے

ایسے شانت سمے کو چھو کر

گزرا ہو گا

دریا من مانی موجوں کے

دھیمے سُروں میں

کھویا ہوا ہے

شہر کا گیانی من

اِک مدھم سناٹے میں

سویا ہوا ہے …

٭٭٭

 

 

 

 

سوسن کا سپنا

                 THE REVERIE OF POOR SUSAN by William Wordsworth

 

At the corner of Wood Street, when daylight appears,

Hangs a Thrush that sings loud, it has sung for three years:

Poor Susan has passed by the spot, and has heard

In the silence of morning the song of the Bird۔

‘Tis a note of enchantment; what ails her? She sees

A mountain ascending, a vision of trees;

Bright volumes of vapour through Lothbury glide,

And a river flows on through the vale of Cheapside۔

Green pastures she views in the midst of the dale,

Down which she so often has tripped with her pail;

And a single small cottage, a nest like a dove’s,

The one only dwelling on earth that she loves۔

She looks, and her heart is in heaven: but they fade,

The mist and the river, the hill and the shade:

The stream will not flow, and the hill will not rise,

And the colours have all passed away from her eyes!

 

گلی کی نکڑ سے جھانکتا

صبح نو کا چہرہ

اسی جگہ پر چہک رہا ہے

قفس میں گاتا ہوا پرندہ

بلند آہنگ میٹھی تانوں میں

تین برسوں سے مست طائر

غریب سوسن کے راستے میں

حسین نغمے بچھا رہا ہے

مہکتی اور نیم باز صبحوں

کی خامشی میں

پیام خنداں سنا رہا ہے

پر آج سوسن کو کیا ہوا ہے

کھلی نگاہوں میں کسمساتا دبیز منظر

نویلے سپنے جگا رہا ہے

اُدھر کہیں گوشۂ وطن میں

بلند ہوتی ہوئی پہاڑی

یہ پیڑ، یہ بے لباس کہرے کی سرسراہٹ

یہ وادیوں کے گداز سینوں

میں بہتے دریا

یہ سبز ٹکڑے

اور ان کے قدموں میں

ایک تنہا سی زرد کُٹیا

کہ آشیاں ننھی فاختہ کا

فقط یہی دلنواز کُٹیا

اسے جہاں سے عزیز تر ہے

وہ گُم ہے اپنے وطن کے جنت نظیر

سپنے میں کھو چکی ہے

مگر کہیں عکس ڈھل رہے ہیں

یہ دھند، دریا پگھل رہے ہیں

پہاڑی کیا سر اُٹھا سکے گی

ندی کو بہنے میں عار ہو گا

کہ اس کی بے بس کھلی نگاہوں

سے رنگ سارے پھسل رہے ہیں …

٭٭٭

ماخذ:

https://sukhansara.com/category/%d8%b4%d8%b9%d8%b1%d8%a7%d8%a1/%da%af%d9%84%d9%86%d8%a7%d8%b2-%da%a9%d9%88%d8%ab%d8%b1/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید