FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

خلیل الرحٰمن اعظمی

 

 

 

               پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

(کتاب ’ ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ‘ کا ایک حصہ جسے اصل برقی کتاب سے علاحدہ شائع کیا جا رہا ہے)

 

 

 

 

 

 

 

(۱)

 

 

خلیل الرحمن اعظمی مشرقی یوپی کے ایک ممتاز علمی اور دینی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کی پرورش و پرداخت گہرے مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی ذہنی نشو نما پر شدید مذہبی غلبے نے آگے چل کر ان کے اندر مذہب کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا کر دیا تھا انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :

’’میں ایک بہت ہی گھٹے ہوئے مذہبی ماحول میں پیدا ہوا تھا، اس لیے سب سے پہلے میری شعوری بیداری مذہب کے خلاف بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔ (۱)

خلیل الرحمن اعظمی کے والد مولانا محمد شفیع اپنے دور کے ایک جید عالم دین تھے۔ علوم اسلامی پر دسترس حاصل ہونے کے ساتھ انھیں عربی وفارسی پر بھی کامل عبور حاصل تھا انھیں مسلمانوں کی مذہبی اصلاح و ترقی کا بیحد خیال تھا۔ وہ ان کے اندر دینی بیداری کی فضا پیدا کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اسی مقصد کے حصول کی خاطر بیسویں صدی کے اوائل میں انھوں نے سرائے میر (ضلع اعظم گڑھ، یوپی) میں ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر علوم قرآنی، درس احادیث اور عربی وفارسی کی تدریس کا ایک عظیم الشان مرکز بن گیا۔ اس درسگاہ کے علامہ شبلی نعمانی جیسے اہل علم و ادب کی سرپرستی حاصل تھی کیونکہ بقول خلیل الرحمن اعظمی یہ درسگاہ ان کے والد نے علامہ شبلیؔ نعمانی ہی کی ایما پر قائم کی تھی۔ (۲) علامہ شبلیؔ سے مولانا محمد شفیع کے گہرے روابط تھے۔ مولانا محمد شفیع نے نہ صرف یہ کہ ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ کی بنیاد ڈالی بلکہ اس کی توسیع و ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ آج بھی اپنے نام کے ساتھ ’’اصلاحی‘‘ لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

خلیل الرحمن اعظمی کے مورث اعلیٰ پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور سلطان بہلول لودھی کے عہد میں افغانستان سے ہجرت کر  کا خالق سے لگتا ہے کہ مٹی بطعکے ہندوستان آئے تھے۔ خلیل صاحب کے جد امجد سالار خان تھے۔ یہ وہی سالار خاں ہیں جو جونپور کی مشرق سلطنت پر بہلول لودھی کے حملے کے وقت دوسرے سپاہیوں کے ساتھ داد شجاعت دینے میں پیش پیش تھے۔ انھیں اس کے صلے میں تیس (۳۰) گاؤں پیش کئے گئے تھے۔ (۳) تیس گاؤں کا یہ علاقہ فارسی میں ’’سی دہ‘‘ کہلایا پھر یہی بگڑ کر ’’سیدھا‘‘ بن گیا اور اس کے ساتھ سلطان پور کا اضافہ ہو گیا۔

خلیل الرحمن اعظمی اسی سیدھا سلطان پور گانو (ضلع اعظم گڑھ) کے ممتاز علمی و مذہبی گھرانے میں ۹ اگست ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے۔ خلیل صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو انھیں اپنے گھر اور باہر چاروں طرف مذہبی ماحول ملا۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھی مذہبی نہج پر ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ اور چوں کہ ’’سیدھا‘‘ کا عربی ترجمہ ’’مستقیم‘‘ ہے، لہٰذا اس میں یائے نسبتی لگا کر وہ اپنے نام کے ساتھ ’’مستقیمی ‘‘ بھی لکھنے لگے۔ چنانچہ اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں وہ مولانا خلیل الرحمن مستقیمی کے نام سے جانے جانے لگے۔ خلیل صاحب کے ایک ہم سبق اور عزیز دوست علی حماد عباسی لکھتے ہیں :

’’میں خلیل کو اس وقت سے جانتا ہوں جب خلیل الرحمن اعظمی نہ تھے بلکہ مولانا خلیل الرحمن مستقیمی تھے اور اسی نام سے بچوں کے پرچوں مثلاً ’’پیام تعلیم‘‘(دلی) ’’پھول‘‘ (لاہور)اور ’’غنچہ‘‘ (بجنور) میں چھوٹے چھوٹے لیکن دل چسپ مضامین لکھا کرتے تھے۔ مستقیمی وہ اس مناسبت سے تھے کہ ضلع اعظم گڑھ میں قصبہ سرائے میر کے نزدیک واقع ان کے گاؤں کا نام سیدھا سلطان واقع ان کے گاؤں کا نام سیدھا سلطان پور ہے۔ سیدھا کا ترجمہ عربی میں مستقیم ہوتا ہے، اور اس طرح وہ اپنے نام کے ساتھ ’’مستقیمی‘‘ لکھتے تھے۔ لیکن ہم لوگ یعنی ان کے ہم جماعت اور شناسا انھیں مستقیمی ایک اور لحاظ سے جانتے تھے۔ اور آدمی بڑے ہی سیدھے سادھے اور معصوم تھے۔ اس لیے مستقیمی ان کے نام کے ساتھ خوب جچتا تھا۔ ‘‘(۴)

بعد میں خلیل صاحب نے اپنے نام سے ’’مستقیمی‘‘ کا لفظ حذف کر دیا اور اعظم گڑھ کی مناسبت سے اعظمی لکھنے لگے۔ لیکن ’’مولانا‘‘ اُن کے نام کے ساتھ جڑا رہا۔ یہاں تک کہ جب وہ علی گڑھ آئے تو یہ لفظ بھی ان کے نام کے ساتھ لگا ہوا علی گڑھ پہنچا۔ چنانچہ ان کے قریبی دوست اور ساتھی انھیں بہت دنوں تک ’’مولانا‘‘ ہی کہا کرتے تھے۔

خلیل الرحمن اعظمی مولانا محمد شفیع کے سب سے چھوٹے اور پانچویں بیٹے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علمی و ادبی اور ذہنی اعتبار سے اپنے تمام بھائیوں میں خلیل صاحب ہی سب سے ممتاز ہوئے۔ خلیل صاحب کے حقیقی بھائی عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :

’’میرا چھوٹا بھائی خلیل الرحمن خاندان کا لعل، شب چراغ اور ہم لوگوں کے لیے باعث فخر و ناز تھا۔ اس نے اپنی غیر معمولی ذہانت، اعلیٰ صلاحیت، فطری نیکی اور اردو ادب میں اپنی گراں بہا خدمات سے ہم لوگوں کا سر اونچا رکھا۔ وہ میرے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ ذہین و فطین اور بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا‘‘۔ (۵)

خلیل الرحمن اعظمی کے چاروں بڑے بھائیوں نے دینی تعلیم پائی تھی اور سب اپنے اپنے طور پر علم و دین کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ خلیل صاحب کے دو بھائیوں عزیزالرحمن اور فیض الرحمن کا انتقال ان کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔ باقی دو بھائی حبیب الرحمن اور عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی خلیل صاحب کے انتقال کے بعد بھی زندہ رہے۔ لیکن اب یہ دونوں بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔

عزیز الرحمن، حبیب الرحمن اور عبدالرحمن (پرواز اصلاحی) یہ خلیل صاحب کے حقیقی بھائی تھے لیکن فضل الرحمن سوتیلے بھائی تھے جنھوں نے باپ (مولانا محمد شفیع ) کی زندگی ہی میں جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کیاتھا۔ مولانا محمد شفیع کا انتقال۱۹۴۵ء میں ہوا۔ اُسی سال خلیل صاحب نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا تھا۔ خلیل صاحب کی والدہ نے طویل عمر پائی اور دسمبر ۱۹۷۰ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں۔

 

(۲)

 

 

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی کا خاندان ایک دینی خاندان تھا مذہب سے لگاؤ ان کے خاندان کی ایک دیرینہ روایت تھی۔ بعد میں علمی و ادبی اختیار سے بھی اس خاندان نے بڑا نام پیدا کیا۔ خلیل صاحب کے والد کے چچا حافظ قادر بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے ایک جلیل المرتبت بزرگ تھے۔ ان کی خدا ترسی، زہد و تقویٰ اور ولایت و درویشی کی وجہ سے لوگ اُن کا نام نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ لیتے تھے۔ وہ اپنی فیاضی اور غرباء پروری کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے رفاہ عام کے لیے بھی بہت سے کام کیے۔ خلیل صاحب کے والد مولانا محمد شفیع بھی کچھ کم متقی و پرہیز گار نہ تھے۔ وہ اپنی خدا ترسی اور زہد و تقویٰ کے علاوہ اپنے علم و فضل وتحبر علمی کی وجہ سے بھی لائق احترام سمجھے جاتے تھے۔ وہ علوم اسلای کے منتہی اور عربی و فارسی کے جید عالم تھے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ ایک وسیع القلب اور معتدل مزاج انسان تھے۔ ان میں وہ مذہبی عصبیت اور تنگ نظری نہ تھی جو اکثر علماء کا شعار بن جاتی ہے۔ وہ اپنا ذہن گھلا رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ:

’’ایک طرف ان کے تعلقات قدیم طرز کے مشائخ سے تھے تو دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے سے بھی ان کے احباب میں علماء کے علاوہ ادباء و شعراء بھی تھے اپنی طالب علمی کے زمانے میں جہاں انھوں نے وقت کے جیداساتذہ مولانا فیض اللہ موی علماء صادق پور اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے کسب فیض کیا وہاں وہ عظیم آباد (پٹنہ)کے شعراء کی صحبتوں میں بھی بیٹھے۔ اس لیے اچھے اشعار کی پرکھ بھی رکھتے تھے‘‘۔ (۶)

اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مولانا محمد شفیع نے شعرو شاعری بھی کی لیکن شعر گوئی کا سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رکھ سکے۔ جس زمانہ میں وہ شعر کہتے تھے اس زمانے میں وہ شاہ محمد اکبر ابو العلائی دانا پوری سے مشورہ سخن بھی کیا کرتے تھے۔ اگر چہ انھوں نے اپنی کوئی تصنیف یاد گار نہیں چھوڑی لیکن شاعرانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کے اندر تصنیف و تالیف کے جوہر بھی موجود تھے۔ وہ دینی و فلاحی کاموں اور مدرستہ الاصلاح کی توسیع و ترقی کے کاموں میں اتنے سر گرم رہے کہ انھیں اپنی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا وہ کہا کرتے تھے کہ:

’’مجھے تو کتابیں لکھنے کا موقع نہ ملا لیکن میں نے ایک ایسا ادارہ قائم کر دیا ہے کہ اس سے بڑے بڑے مصنف اور صاحب کمال پیدا ہوں گے‘‘۔ (۷)

مولانا محمد شفیع کے ادبی ذوق کا اس امر سے بھی انداز ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے تمام بچوں کی تعلیم مذہبی نہج پر دینے کے علاوہ ادبی انداز پر بھی دی۔ اور ان کی دینی تربیت کے ساتھ ادبی تربیت کا بھی بطور خاص خیال رکھا خلیل صاحب کے حقیقی بھائی عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’وہ ہم لوگوں کو ہمیشہ ادبی کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دلاتے۔ اردو شاعری اور نثر کے اُسلوب میں ان کے زمانے میں جو انقلاب آ چکا تھا وہ اس سے اچھی طرح واقف تھے۔ غالب کے خطوط، محمد حسین آزادؔ نذیر احمد، سر سید، حالی، شبلی کی تصانیف سب سے پہلے پہل ہم لوگوں نے والد صاحب کے شوق دلانے پر پڑھیں۔ مسدس حالیؔ کے وہ بڑے دلدادہ تھے۔ نہ صرف اپنے مواعظ کے درمیان اس کے اشعار پڑھتے بلکہ اسے مدرستہ الاصلاح کے اردو نصاب میں شامل کیا۔ اور ہم تمام بھائیوں کو انھوں نے بذات خود سبقاً سبقاً پڑھائی۔ ہم نے خلیل الرحمن نے مسدس حالیؔ ساتھ ہی پڑھی اور اس کا تقریباً نصف حصہ ہم لوگوں کو زبانی یاد تھا‘‘۔ (۸)

وہ مزید لکھتے ہیں :

’’والد صاحب مثنوی مولانا رومؒ کے عاشقوں میں سے تھے اکثر اس کی حکایت اور تمثیلات سنایا کرتے۔ فارسی شعراء میں حافظؔ، نظامیؔ، سعدیؔ، عطارؔ، جامیؔ اور خسرو سے بڑی دلچسپی تھ۔ انھیں بے شمار شعر یاد تھے اور اکثر تنہائی میں گنگنایا کرتے تھے‘‘۔ (۹)

مولانا محمد شفیع کو شبلیؔ کی تصانیف سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ وہ ان کی ’’شعرالعجم‘‘ کے بڑے مداح تھے اور کہا کرتے تھے کہ:

’’مولانا نے اس میں فارسی شاعری کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے‘‘۔

وہ صوفی اور نعت گو شعرا کے کلام کو بھی پسند کرتے تھے اور اکثر خواجہ میر درد، محسنؔ کا کوروی، شاہ نیاز بریلوی اور غلام امام شہید کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ بعض نعتیہ قصائد انھیں پورے کے پورے یاد تھے اور وہ انھیں مزے لے لے کر سناتے تھے۔ ان کے ادبی ذوق کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ادبی ذوق کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شاعر ان سے ملاقات کے لیے آنا تو وہ اس سے فرمائش کر کے کلام سنتے تھے باپ کے اس علمی و ادبی ذوق کا اثر بیٹوں پر پڑنا لازمی تھا۔

خلیل الرحمن اعظمی کی والدہ رابعہ بیگم بھی ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں اور اردو لکھنا پڑھنا بخوبی جانتی تھیں۔ انھیں قصے کہانی کی کتابوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ گھریلو کاموں سے فرصت ملنے پر وہ اردو کی چھوٹی موٹی کتابیں پڑھ لیتی تھیں۔ ان کے والد مرزاسلیم اللہ بیگ کافی پڑھے لکھے تھے اور پیشے کے اعتبار سے مختار تھے۔ ان کے بھائیوں نے بھائیوں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور اہم عہدوں پر فائز تھے خلیل صاحب کے چچا حافظ عبدالغفار کا شمار بھی اہل علم میں ہوتا تھا۔ وہ فارسی ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انھیں فارسی شعراء کے بے شمار اشعار یاد تھے۔ اقبال سہیل سے ان کے نہایت دوستانہ مراسم تھے۔ وہ ان کے ہم جماعت بھی وہ چکے تھے۔ مولانا حمید الدین فراہی مصنف تفسیر نظام القرآن خلیل صاحب کے پھوپھا تھے جن کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب ’’ مضامین نو‘‘ کے دیباچے ’’کچھ نجی باتیں ‘‘ میں بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔

خلیل صاحب کے چاروں بھائیوں نے علمی و ادبی ذوق ورثے میں پایا تھا۔ ان کے بڑے بھائی عزیزالرحمن اصلاحی اردو کے ممتاز صحافی اور انشا پرواز تھے۔ وہ ایک عرصے تک حکیم برہمؔ گورکھ پوری کے مشہور اخبار ’’ مشرق‘‘ کی ذمہ داری سنبھالے رہے۔ پھر رسالے ’’کونین‘‘ کے مدیر ہوئے۔ اس کے بعد سرائے میرے سے شائع ہونے والے جریدے ’’الاصلاح‘‘ کے مدیر معاون مقرر ہوئے۔ گورکھپور کے قیام کے دوران ریاضؔ خیرآبادی سے ان کے علمی تعلقات پیدا ہوئے۔ وہ اکثر ریاضؔ خیرآبادی سے علمی و ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ خلیل کے منجھلے بھائی حبیب الرحمن اصلاحی بھی عربی کے عالم تھے اور کلکتہ کے عربی مدرسہ میں درس دیتے تھے۔ اُن سے چھوٹے بھائی عبدالرحمن پرواز اصلاحی بھی عربی و فارسی کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کا رچا ہوا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ اردو کے علمی و تحقیقی کاموں سے بھی انھیں غیر معمولی دلچسپی تھی۔ انھوں نے ملک کی مختلف دینی درس گاہوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

خلیل صاحب کے خاندان کی شاندار علمی روایت کا قدرے تفصیل کے ساتھ یہاں اس لیے ذکر کیا گیا کہ یہ واضح کیا جا سکے کہ انھیں علمی ذوق ورثے میں ملا تھا۔

 

(۳)

 

خلیل الرحمن اعظمی کی ابتدائی تعلیم سیدھا سلطان پور گانو کے ایک دینی مکتب میں ہوئی جوان کے گھر سے متصل تھا۔ یہاں انھیں سب سے پہلے قرآن پڑھایا گیا۔ اس مکتب کے حافظ حسام الدین صاحب نے خلیل صاحب کی بسم اللہ خوانی کرائی۔ ان کے چارو بڑے بھائیوں نے بھی اسی مکتب میں ابتدائی تعلیم پائی تھی اور ان کی بسم اللہ خوانی بھی انھیں حافظ صاحب نے کرائی تھی خلیل صاحب بچپن ہی سے بلا کے ذہین تھے۔ انھوں نے بہت کم مدت میں قرآن ختم کر لیا۔ حافظ صاحب مولانا محمد شفیع سے بیان کرتے تھے کہ:

’’آپ کے پانچوں صاحبزادوں میں سب سے کم مدت میں خلیل نے قرآن ختم کیا۔ آپ کا یہ چھوٹا بچہ تو غضب کا ذہین معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (۱۰)

اسی مکتب میں رہ کر خلیل صاحب نے درس قرآن کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی پھر قریب کے ایک گانو بیناپاڑہ کے پرائمری اسکول میں انھیں داخل کر دیا گیا۔ یہاں انھوں نے چوتھی جماعت تک تعلیم پائی یہاں کے جن اساتذہ سے انھوں نے کسب فیض حاصل کیا ان میں مولوی صفی اللہ اور مولوی محمد مصطفی کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں اساتذہ خلیل صاحب کی ذہانت اور شائستگی سے حد درجہ متاثر تھے اور اس کا تذکرہ وہ اکثر مولانا محمد شفیع سے کیا کرتے تھے۔ یہ دور بلاشبہ خلیل صاحب کی ذہنی اٹھان اور ادبی ذوق کی تربیت کا دور کیا جا سکتا ہے۔ یہیں کی تعلیم کے دوران ان کے اندر ادب کا چسکا پیدا ہوا اور شعری ذوق کی نشو و نما ہوئی۔ پھر دھیرے دھیرے یہ ذوق پروان چڑھا گیا۔ شعراء کا کلام وہ بڑے شوق سے سنتے اور ان کے دواوین کا مطالعہ بڑی دلچسپی سے کرتے۔ پرواز اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ خلیل صاحب کسی محفل یا جلسے میں جاتے اور اچھے شعرسن لیتے تو انھیں یاد ہو جاتا۔ گھر کے خالص دینی ماحول میں بھی علمی وادبی چرچا ضرور رہتا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ان کے والد مولانا محمد شفیع شبلیؔ کی شاعری کے دلدادہ تھے۔ ان کے مطالعے میں اکثر کلیات شبلیؔ رہا کرتی تھی۔ وہ شبلیؔ کی نظمیں انہی کی لے اور لہجے میں پڑھا کرتے تھے اور اکثر اپنے بچوں کو بھی سناتے تھے۔ شبلیؔ کی مشہور نظم ’’عدل جہاں گیری‘‘ خلیل صاحب نے پہلی بار اپنے بچپن میں اپنے والد ہی سے سنی تھی اور اس کے اشعار وہ اکثر گنگنایا کرتے تھے۔ پروازؔ اصلاحی لکھتے ہیں :

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جب میں علی گڑھ گیا تو ان کی چھوٹی بچی ہما فاطمہ کی زبان سے سنا کہ وہی اشعار اسی انداز سے پڑھ رہی ہے‘‘ تو بے اختیار خلیل الرحمن کا بچپن یاد آگیا۔ وہی آواز، وہی صاف و شستہ لب و لہجہ، وہی معصومیت وہی چلبلا پن اس میں تھا‘‘۔ (۱۱)

بینا پاڑھ کے پرائمری اسکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد خلیل صاحب کو سرائے میر کے مڈل اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ وہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم پائی اور اپنی محنت، ذہانت اور ذوق کی وجہ سے یہاں کے اساتذہ کا بھی دل جیت لیا اور ہمیشہ اول درجے میں امتیاز کے ساتھ امتحانات پاس کرتے رہے۔ سرائے میر پہنچ کر خلیل صاحب کا ادبی ذوق اور بھی زیادہ پروان چڑھا۔ یہاں انھیں شعر و ادب کے مطالعے کے زیادہ مواقع حاصل تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنی افق میں بھی وسعت پیدا ہوتی گئی۔ ادبی مطالعے کا شوق روز بروز بڑھتا گیا۔ ادبی جرائد اور رسائل نیز شعرو ادب کی کتب کے بہترین ذخیرے تک ان کی رسائی تھی۔ سرائے میر میں مدرستہ الاصلاح بھی تھا جس کی لائبریری ’’دارالمعلومات‘‘ سے انھیں ہر قسم کی علمی وادبی کتابیں پڑھنے کو مل جاتی تھیں اس دور میں انھوں نے اردو کے قدیم و جدید تمام شعراء کے دواوین اور مجموعہ کلام پڑھ ڈالے جن میں میرؔ و غالبؔ کے علاوہ اکبرؔ ، اقبالؔ، چکبست، جوشؔ، سیمابؔ، اصغرؔ، حفیظؔ، وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ خلیل صاحب کو شعری ادب کے علاوہ افسانوی ادب کے مطالعے سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں انھوں نے پریم چند کی تمام ادبی تخلیقات پڑھ ڈالیں۔ بقول پروازؔ اصلاحی ’’شاید ہی ان کے افسانے اور ناول میں کوئی ان سے چھوٹے ہوں ‘‘ خلیل صاحب نئے لکھنے والوں کی چیزیں بھی بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ چنانچہ جدید افسانوی اور شعری مجموعے بھی انھوں نے اس دور تک کے تقریباً سب پڑھ ڈالے تھے۔ خلیل صاحب مطالعے کے علاوہ علمی جلسوں اور ادبی نشستوں میں بھی برابر شریک ہوا کرتے تھے۔ یہ عادت انھیں اپنے بچپن میں گانو ہی سے پڑ گئی تھی جہاں آئے دن وعظ، مذہبی جلسے اور محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن میں علماء تقریریں کرتے تھے اور اکثر ترنم سے نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ خلیل صاحب کو نظمیں سننے کا زیادہ شوق تھا کیونکہ اس سے ان کے ادبی ذوق کی تسکین ہوتی تھی اور ایک قسم کا جمالیاتی خط حاصل ہوتا تھا۔ سرائے میر پہنچنے کے بعد بھی یہ دلچسپی برقرار رہی۔ نسبتہ بڑی جگہ اور علمی مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں انھیں علمی وادبی جلسوں میں شرکت کے اور بھی زیادہ مواقع حاصل تھے۔ بعض اوقات باہر کی بڑی بڑی شخصیتیں ان جلسوں میں شرکت کرتیں۔ خلیل صاحب ان سے بھرپور استفادہ کرتے۔ اس دور میں خلیل صاحب کا ادبی ذوق اتنا پروان چڑھ چکا تھا کہ وہ لکھنے کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ اسی زمانے سے ان کی مضمون نگاری کی ابتدا ہوتی ہے۔

سرائے میرے کے اسکول میں ’’مڈل اسکول‘‘ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد خلیل صاحب کو مزید تحصیل علم کے لیے ۱۹۴۱ء میں شبلی اسکول اعظم گڑھ بھیجا گیا۔ یہ انگریزی اسکول تھا۔ خلیل صاحب کے والد اگر چہ انگریزی تعلیم کے مخالف نہ تھے لیکن خود ایک عربی درس گاہ کے بانی اور ذمہ دار ہونے کی وجہ سے بیٹے کو انگریزی تعلیم کے لیے کسی دوسری جگہ بھیجنے میں انھیں ذرا تامل تھا۔ لیکن خلیل صاحب کے چچا عبدالغفار صاحب، بڑے بھائی عزیزالرحمن صاحب اور خود سرائے میر کے مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی بھی یہی رائے تھی کہ خلیل صاحب کو مزید تعلیم کے لیے انگریزی اسکول بھیجا جائے۔ جب سب کی یہی رائے ٹہھری تو مولانا محمد شفیع بھی خلیل صاحب کو شبلی اسکول (اعظم گڑھ) بھیجنے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن شرط یہ رکھی کہ ’’ کچھ دن مدرسۃ الاصلاح میں رہ کر تھوڑی سی عربی اور فارسی پڑھ لیں ‘‘ داخلے کی شرائط اور پیچدگیوں کی وجہ سے خلیل صاحب نے مدرسۃ الاصلاح میں کسی جماعت میں باقاعدہ داخلہ تو نہ لیکن وہاں کے اساتذہ مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا نورالہدیٰ نورؔ اصلاحی سے پرائیویٹ طور پر عربی اور فارسی کی چند کتابیں ضرور پڑھیں۔ پھر شبلی اسکول کے لیے روانہ ہو گئے۔ خلیل صاحب کو شبلی اسکول بھیجتے وقت مولانا محمد شفیع نے انھیں تاکید کی تھی کہ :

’’دار المصنفین کبھی کبھی جایا کرنا، وہاں بڑی بڑی شخصیتیں ہیں، شاندار کتب خانہ ہے، درسیات کے بعد وہاں اچھی کتابیں پڑھنا، وہاں ملک کے مقتدر رسائل و اخبارات بھی آتے ہیں، انھیں دیکھنے کا موقع ملے گا‘‘۔ (۱۲)

اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل صاحب کے اصل جوہر اعظم گڑھ ہی میں آ کر کھلے۔ مطالعے کا سچا شوق بلکہ چسکا انہیں یہیں آ کر پڑا۔ علمی و ادبی ذوق بھی صحیح معنوں میں یہیں پروان چڑھا۔ علمی شخصیتوں سے بھی فیض اٹھانے کا یہاں انھیں خوب موقع ملا۔ اسکول کے زمانے میں خلیل صاحب جن اساتذہ سے بہ طور خاص متاثر ہوئے ان میں بشیر احمد صدیقی صاحب بھی ہیں جو اس زمانے میں کالج کے پرنسپل تھے۔ مولوی عبدالباری صاحب (انچارج کتب خانہ دار المصنفین) سے تو اعظم گڑھ پہنچتے ہی ان کے روابط قائم ہو گئے تھے۔ انھیں کی کرم فرمائی سے خلیل صاحب کو دار المصنفین کے کتب خانے سے بر پور فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ مولوی عبدالباری صاحب کی شخصیت سے خلیل صاحب بیحد متاثر ہوئے۔ وہ ایک ذی علم انسان تھے اور ادب کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ’’ابو علی عظمی‘‘ کے نام سے انھوں نے بیشمار علمی و ادبی مضامین قلم بند کیے۔ وہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے فارغ التحصیل تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی شاگردی کا بھی انھیں شرف حاصل تھا۔ خلیل صاحب کے خاندان والوں سے ان کے خصوصی روابط تھے۔ اسی لیے وہ خلیل صاحب کا بیحد خیال رکھتے تھے خلیل صاحب نے اعظم گڑھ کے قیام کے دوران ان کی صحبتوں سے بہت کچھ فیض اٹھا یا اور آخر عمر تک انھیں یاد کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے آخری مجموعہ مضامین ’’ مضامین نو‘‘ کے دیباچے ’’کچھ نجی باتیں ‘‘ میں مولوی عبدالباری صاحب کا بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کے فیض تربیت کا بر ملا اعتراف کیا ہے۔ اپنی اسی عقیدت کی بنا پر خلیل صاحب نے ’’مضامین نو ‘‘ کا انتساب مولوی عبدالباری صاحب کے نام کیا اور یہ مصرعہ درج کیا   ع

’’بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو ‘‘

مولوی عبدالباری صاحب نے خلیل صاحب کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’اس لڑکے کے تیور صاف بتا رہے ہیں کہ آئندہ چل کر یہ علم و ادب کی دنیا میں بڑا نام کرے پیدا کرے گا۔ (۱۳)

خلیل الرحمن اعظمی نے ۱۹۴۵ء میں شبلی اسکول (شبلی نیشنل ہائی اسکول ) اعظم گڑھ سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اور اسی سال مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ آ گئے۔ گھر کے لوگ خلیل صاحب کو علی گڑھ بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے، کیونکہ اسی سال ان کے والد کا انتقال ہوا تھا جس سے گھر کی مالی حالت بگڑ چکی تھی۔ اس لیے علی گڑھ کی تعلیم کے مصارف برداشت کرنا گھر والوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ لیکن خلیل صاحب کا نہایت شدت کے ساتھ اصرار تھا کہ اگر وہ آگے پڑھیں گے تو علی گڑھ ہی جا کر پڑھیں گے ورنہ پڑھائی چھوڑ دیں گے۔ گھر والوں نے جب ان کا یہ اشتیاق دیکھا تو جیسے تیسے انھیں علی گڑھ بھیجنے کے لیے راضی ہو گئے۔ خلیل صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ

’’پروفسیر رشید احمد صدیقی کی تحریروں سے متاثر ہو کر میں ۱۹۴۵ء میں علی گڑھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا ‘‘۔ (۱۴)

لیکن علی گڑھ آنے کی تشویق ان کے گانو کے فاروق احمد صاحب کے علی گڑھ کے مسلسل تذکروں سے ہوئی پیدا ہوئی تھی۔ فاروق احمد صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور گانو کے لوگوں میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ خلیل صاحب ان سے برابر ملتے رہتے تھے۔ شبلی اسکول میں داخلے سے قبل خلیل صاحب نے ان سے پرائیوٹ طور پر انگریزی کی چند ابتدائی ریڈریں بھی پڑھی تھیں۔ (۱۵)

۱۹۴۵ء میں علی گڑھ پہنچ کر خلیل صاحب نے انٹر میڈیٹ میں داخلہ لیا۔ اس سلسلے میں انھیں مولانا حبیب الرحمن خاص صاحب شروانی صدریار جنگ سے کافی مدد ملی جن کے نام وہ سید سلیمان ندوی صاحب کا ایک تعارفی خط لائے تھے۔ (۱۶) صدر یار جنگ صاحب (۱۷) مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے بھی روح رواں تھے، لہٰذا ان کے توسط سے خلیل صاحب کو کونفرنس سے عربی کا ایک اسکالر شب بھی مل گیا لیکن اس سے ان کی کفالت نہیں ہو پاتی تھی۔ گھر سے بھی مدد کی کوئی امید نہیں تھی۔ چنانچہ وہ اکثر مقروض اور پریشان رہتے تھے۔ اپنی اس پریشانی کا ذکر اور مدد کی درخواست وہ صرف اپنے بڑے بھائی عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی سے کرتے تھے۔ ۱۹؍مارچ ۱۹۴۷ء کے خط میں وہ پروازؔ اصلاحی صاحب کو جوان دنوں لاہور میں تھے لکھتے ہیں :

’’اس وقت مجھے روپیوں کی سخت ضرورت ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ میں نے جو قرض لیے تھے وہ صاحب اس وقت سخت تقاضا کر رہے ہیں کیونکہ انھیں فیس داخل کرنی ہے۔ اس لیے آپ جتنی جلد ممکن ہو سکے روپے بھیج دیں تو میں از حد ممنون ہوں گا تاکہ میں قرض بھی ادا کر دوں اور اپنی ضرورت بھی پوری کر لوں۔ امید ہے کہ آپ ضرور خیال کریں گے‘‘۔ (۱۸)

خلیل الرحمن اعظمی نے ۱۹۴۷ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت تک وہ اپنے گھر والوں کو مالی امداد کے لیے کبھی کبھار لکھ دیا کرتے تھے لیکن گھریلو اختلافات نے خلیل صاحب کو بد دل کر دیا تھا۔ چنانچہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان دینے کے بعد چھٹیوں میں جب وہ گھر پہنچے تو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور بھی دل برداشتہ ہو گئے اور طئے کر لیا کہ وہ کچھ دنوں ملازمت کرنے کے بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے۔ چنانچہ ابھی چھٹیاں ختم بھی نہ ہو پائی تھیں کہ وہ گھر سے رخصت ہو کر بجائے علی گڑھ آنے کے سیدھے دہلی چلے گئے۔ اور وہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ دہلی سے اپنے بھائی پروازؔ اصلاحی صاحب کو ۸؍ جولائی ۱۹۴۷ء کے خط میں لکھتے ہیں :

’’میں گھر سے سیدھے دہلی چلا آیا۔ اور یہیں مجھے شیخ الجامعہ صاحب کے دفتر میں ایک ملازمت مل گئی۔ اب چھٹیوں میں یہیں رہوں گا۔ عید بعد میری یونیورسٹی کھل رہی ہے … … چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد میں بی۔ اے میں داخلہ لینے کی کوشش کروں گا۔ لیکن سب سے زیادہ اہم سوال داخلہ کے اخراجات کا ہے۔ امتحان کے زمانے میں میرے اوپر بہت ساقرض بھی ہو گیا تھا جس کو میں رفتہ رفتہ ادا کر رہا ہوں۔ اس کے بعد اگر کچھ روپے ادھر ادھر سے مل گئے اور آپ نے بھی اس سلسلے میں میری مدد کی تو میں اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ داخلہ ہو جانے کے بعد پھر کسی نہ کسی صورت سے میں بی۔ اے کر ہی لوں گا۔ تکلیفیں اٹھانی ہی پڑتی ہیں لیکن میں ہر تکلیف کا مقابلہ کرنے کا عادی ہو چکا ہوں ‘‘۔ (۱۹)

اس خط میں گھر کے حالات کا بھی ذکر انھوں نے بڑے کرب کے ساتھ کیا ہے:

’’ہمارے گھر کی حالت اب دن بدن جس درجہ پہنچتی جا رہی ہے اس کا تصور کر کے سخت تکلیف ہوتی ہے اس کا تصور کر کے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ شاید میں اپنی تعلیم کے دوران میں جلد گھر نہ آسکوں ‘‘۔

اسی دوران میں ملک تقسیم ہو گیا اور جگہ جگہ فسادات اور قتل و غارت گری کا ایک لا منتاہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ چاروں طرف عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ایسے میں خلیل صاحب نے دہلی سے علی گڑھ آنے کی ٹھانی۔ یہ ستمبر ۱۹۴۷ء کا زمانہ تھا۔ ٹرین سے ابھی دہلی سے باہر ہی نکلے تھے(۲۰) کہ بلوائیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور زخمی کر کے انھیں ٹرین سے باہر پھینک دیا۔ خلیل صاحب کے ساتھ ان کے دوست باقر مہدی بھی تھے۔ انھوں نے جب خلیل صاحب کی یہ حالت دیکھی تو وہ بھی چلتی ٹرین سے کود پڑے اور بڑی مشکل سے انھیں دہلی کے ایک ریلیف کیمپ تک لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ (۲۱) یہاں سے پھر انھیں جامعہ ملیہ میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں تین ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں وہ علی گڑھ واپس آ گئے اور وہاں سے پھر اپنے گانوں گئے جہاں کچھ دنوں قیام کرنے کے بعد پھر علی گڑھ واپس آ کر بی۔ اے میں داخلہ لیا۔ ٹرین کے اس الم ناک واقعے کا ذکر خلیل صاحب نے ۱۸سال بعد’’ نیا عہد نامہ‘‘ (۱۹۶۵ء) کے دیباچے میں ان الفاظ میں کیا:

’’ستمبر ۱۹۴۷ء میں دہلی سے علی گڑھ آتے ہوئے ٹرین میں میں نے اپنی موت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس منظر کی تاب نہ لا سکا۔ ہوش آیا تو اپنے آپ کو جامع مسجد کے ایک ریلیف کیمپ میں پایا اور پھر اس کے بعد جامعہ ملیہ میں تین مہینے تک حیات و مرگ کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ اس واقعے سے جانبر ہونے کے بعد نومبر ۱۹۴۷ء کے آخر میں پھر علی گڑھ واپسی ہوئی۔ یہاں آ کر مجھ پر کچھ دنوں تک عجیب کیفیت طاری رہی۔ راتوں کو گہری نیند میں چیخ چیخ اٹھتا مجھے ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی اسیبی قوت میرے سینے پر سوار ہو کر مجھے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ کیفیت کم ہوتی گئی لیکن اس کا اثر اب تک کسی نہ کسی صورت میں باقی ہے۔ روزانہ تو نہیں لیکن چھٹے چھ ماہے اب بھی یہ آسیب مجھے اپنی صورت دکھا جاتا ہے۔ ‘‘ (۲۲)

خلیل الرحمن اعظمی جس سال اپنے گانو سے علی گڑھ آئے اسی سال ان کی ملاقات معین احسن جذبیؔ صاحب سے ہوئی جنھیں دیکھنے اور جن سے ملنے کی انھیں بڑی آرزو تھی۔ اس ملاقات کا ذکر خلیل صاحب نے اپنے مضمون’’ علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ میں بڑے پر خلوص انداز میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’۱۹۴۵ء میں شعبۂ اردو میں لکچرر کی حیثیت سے اُن (جذبیؔ صاحب) کا تقرر ہو گیا۔ میں اسی سال علی گڑھ میں نیا نیا وارد ہوا تھا لیکن جذبی صاحب کی شاعری کا بہت دنوں سے پرستار تھا۔ اور انھیں دیکھنے اور ان سے ملنے کی بڑی آرزو تھی۔ کچھ دنوں تک اس کی کوئی سبیل نہ نکل سکی۔ کئی مہینوں کے بعد سید یوسف حسن کے تو سط سے میں جذبیؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جذبیؔ صاحب سے ملنے کے بعد تھوری دیر کے لیے میرے ذہن کو کچھ دھکا سا لگا کیوں کہ میں نے ان کو جو خیالی تصویر بنا رکھی تھی وہ اور ہی تھی۔ ان کی شخصیت اور ان کے طرز گفتگو نے پہلی بار کچھ مایوس کیا لیکن دو ہی چار ملاقاتوں میں یہ احساس ہونے لگا کہ جذبیؔ صاحب ایک سیدھے سادے ملنسار اور بے تکلف آدمی ہیں۔ وہ اپنے ملنے والوں پر اپنی شاعری یا اپنی قابلیت کا رعب نہیں جماتے اور نہ ہی اس پر اپنی شخصیت کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں جو آدمی اچھا اور معقول نظر آتا فوراً اس سے دوستانہ اور برابر کی سطح پر تعلقات پیدا کر لیتے ہیں۔ چاہے وہ طالب علم ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے چائے منگواتے ہیں اور سگریٹ پینے پر اصرار کرتے ہیں اور بے دھڑک پوچھ بیٹھتے ہیں ’’کہیے حضرت کوئی عشق وغیرہ بھی کیا ہے۔ ‘‘ ان کے اس طرز ادا نے بہت جلد علی گڑھ کے نوجوان کو جو ادب کو دیوی کے پجاری تھے، آہستہ آہستہ ان کے گرد جمع کر دیا‘‘۔ (۲۳)

جذبیؔ صاحب کے ساتھ بعد کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے خلیل صاحب لکھتے ہیں :

’’جذبیؔ صاحب بعض اوقات ہم لوگوں کے یہاں ہوسٹل میں پہنچ جاتے اور اس وقت جو بھی مل جاتا سب کو لے کر اسٹاف کلب کے کمرے میں جہاں اُن کا قیام تھا آتے اور اپنے نوکر نذر علی کو چائے بنانے کے لیے آواز دیتے اور پھر گپ شپ، شعر و شاعری اور شخصیات پر گفتگو چھڑتی۔ جذبیؔ صاحب شعر و ادب سے متعلق اپنے نظریات اور تخلیقی عمل سے متعلق اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے اور ہم لوگوں کو اپنی نثر و نظم کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور خوبصورت بنانے کے لیے مشورہ دیتے۔ ان کی گفتگو میں اکثر خواجہ منظور کے اقوال کو حوالہ ہوتا۔ کبھی کبھی مجازؔ، سردار جعفری، سبط حسن، مخدوم، اختر حسین رائے پوری، فیض تاثیر، راشد میراجی وغیرہ کا ذکر چھیر دیتے اور پچھلی صحبتوں کا ذکر لطف سے کرتے۔ ان شاعروں، ادیبوں کی پرائیوٹ زندگی، ان کی آپس کی چشمکیں، ان کا خلوص اور محبت اور ان کے ساتھ گذرے ہوئے لطیفے جذبیؔ صاحب کے خاص موضوع ہوتے۔ اب یہ اندازہ ہوا کہ جذبی صاحب دل چسپ اور باغ و بہار آدمی ہیں … جذبیؔ صاحب ہر طرح سے ہم لوگوں کو چاہتے۔ وہ صرف ادبی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ہر معاملہ میں رہبری کرتے، فیس اور مراعات کا مسئلہ، ڈائننگ ہال سے کھانا بند ہو جانے کا اندیشہ، یونیورسٹی کا اکاؤنٹ جمع نہ ہونے اور نام کٹ جانے کی فکر، امتحان آنے پر ہال ٹکٹ حاصل کرنے کا انتظام غرض جذبی صاحب ہمارے ہر دکھ سکھ کے ساتھی ہو گئے‘‘۔ (۲۴)

جذبیؔ صاحب کا یہاں قدرے تفصیل سے اس لیے ذکر کیا گیا کہ خلیل صاحب کی زندگی کے بعد کے نامساعد حالات میں انھوں نے نہ صرف ایک ہمدرد، غم گسار اور مربی کی حیثیت سے ان کا ساتھ دیا بلکہ ذہنی تربیت بھی کی اور شعر و ادب کے بہت سے مسائل میں بھی ان کی رہنمائی کی۔ خلیل صاحب نے ۱۹۴۹ء میں بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ جب وہ بی۔ اے میں داخل ہوئے تو دونوں سال ان کے ساتھ غیر معمولی واقعات پیش آئے۔ بی اے سال اول کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حرم میں انھیں ہوسٹل سے نکال دیا گیا، چنانچہ یہ جذبیؔ صاحب ہی تھے جنھوں نے انھیں سہارا دیا۔ اس واقعے کا ذکر خلیل صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’میں جب بی۔ اے میں پہنچا تو میری سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر مجھے ہوسٹل سے نکال دیا گیا۔ جذبیؔ صاحب فوراً مجھے اپنے گھر لے آئے اور کہا، آج سے تم میرے ساتھ اس طرح رہا کہ مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ میں کسی اور کے گھر پر پڑا ہوں اور اس کا ممنون احسان ہوں۔ اس گھر میں خاندان کے ایک ممبر کی حیثیت سے تھا۔ اسی زمانے میں جذبیؔ صاحب کی بھوپال میں شادی ہوئی۔ ان کی بیوی کے آنے کے بعد جذبی صاحب کے معمولات میں فرق یا دوست احباب سے تعلقات اور ملاقاتوں میں فرق نہیں آیا۔ اسی طرح محفلیں گرم ہوتیں چائے کا دور چلتا اور ہر طرح کے ادبی پروگرام بنائے جاتے‘‘۔ (۲۵)

اس واقعے کا ذکر خلیل صاحب کے ایک خط میں بھی ملتا ہے جو انھوں نے اپنے بھائی پروازؔ اصلاحی صاحب کو ۱۷؍مئی ۱۹۴۸ء کو لکھا تھا:

’’میری زندگی آج کل بہت اچھی گزر رہی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب میں اس قابل ہو گیا کہ بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی کی مدد کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں، میں نے اپنی بعض سہولتوں کی خاطر ہوسٹل بھی چھوڑ دیا ہے اور آج کل معین احسن جذبی کے ساتھ ان کے مکان میں رہتا ہوں۔ یہاں مجھے ہر طرح کا سکون اور اطمینان حاصل ہے‘‘۔ (۲۶)

خلیل الرحمن اعظمی جب بی۔ اے میں پہنچے تو وہ ترقی پسند ادبی تحریک سے گہرے طور پر وابستہ ہو چکے تھے۔ اسی زمانے میں میں وہ علی گڑھ کی ترقی پسند ادیبوں کی انجمن (انجمن ترقی پسند مصنفین) کے سکریٹری بھی چن لیے گئے۔ فروری ۱۹۴۹ء میں حکومت ہند کے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت اس انجمن کو اس کی سیاسی پالیسی کے پیش نظر غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ خلیل صاحب گرفتار کر لیے گئے اور چار مہینے جیل میں رہے۔ (۲۷) جیل سے ہی خصوصی اجازت سے (پیرول پر) انھوں نے بی۔ اے فائنل کا امتحان دیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لیکن آگے چل کر ترقی پسندوں سے ان کا نباہ مشکل ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی سکریٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس تحریک سے علیحدگی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں ’’انتہا پسندی‘‘ آگئی تھی اور ترقی پسندی کے دعوے دار ’’شدت‘‘ سے کام لینے لگے تھے۔ خلیل صاحب کے خیال میں یہ شدت اسی نوعیت کی تھی جو واعظوں اورمحتسبوں کی خصوصیت ہوتی ہے اور جس سے بیزار ہو کر انھوں نے اس تحریک میں پناہ لی تھی۔

۱۹۴۹ء میں بی۔ اے کرنے کے بعد خلیل صاحب نے اپنے احباب اور اساتذہ کے مشورے سے ایم۔ اے (اردو) میں داخلہ لیا اور دوسال بعد ۱۹۵۱ء میں ایم۔ اے بھی کر لیا۔ ایم۔ اے میں انھوں نے فرسٹ ڈویژن اور فرست پوزیشن حاصل کی۔ ایم۔ اے کے دوران پروفیسر رشید احمد صدیقی کی انھیں خاصی قربت حاصل ہو گئی جن کی عنایت سے وہ ’’علی گڑھ میگزین‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور جب ایم۔ اے کے امتحان سے فارغ ہوئے تو ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر ’’مسلم یونیورسٹی گزٹ‘‘ کے ایڈیٹر بھی وہ انھیں کی کی مدد سے مقرر ہوئے۔ لیکن اس ملازمت سے وہ زیادہ خوش نہیں تھے۔ چنانچہ ’’ نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :

’’مجھے عارضی طور پر ’’یونیورسٹی گزٹ‘‘ کی ایڈیٹری مل گئی تھی، یہ ملازمت اپنے اندر کچھ ایسی نزاکتیں رکھتی تھی جن سے عہدہ برآ ہونا میرے لیے آسان نہ تھا اور یہ رشتہ دن بدن ٹوٹتا نظر آتا تھا‘‘۔ (۲۸)

’’مسلم یونیورسٹی گزٹ‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے تقریباً دوسال کام کرنے کے بعد وہ ۱۹۵۳ء کے اوائل میں اس سے علاحدہ ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل صاحب نے اس گزٹ کو خوب سے خوب تر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چنانچہ اسے ’’خاص بلیٹن‘‘ کی حدود سے نکال کر ایک ’’علمی وادبی اخبار‘‘بنایا اور صرف ’’سرکاری گزٹ‘‘کے بجائے اس میں تھوری بہت ’’شے لطیف‘‘ کی آمیزش بھی کی جس کا اعتراف ہندوستان کے مشاہیر علم وادب نے جی کھول کر کیا۔ (۲۹)

یونیورسٹی گزٹ سے علیحدہ ہونے کے بعد خلیل صاحب کچھ دنوں تک تلاش معاش میں سرگرداں رہے۔ بمبئی اور مدراس کی خاک چھانی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، بالآخر اپنے ایک دوست ناشادؔ کے گھر (گانوبڑی کوٹھی، ضلع مظفر پور) جاکر بیٹھ رہے کہ اچانک ایک دن رشید احمد صدیقی صاحب کا خط ملا جس کا مفہوم تھاکہ ’’ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں عارضی طور پر ایک جگہ نکل آئی ہے، فوراً آجاؤ۔ (۳۰) چنانچہ خلیل صاحب فوراً علی گڑھ آگئے جہاں شعبۂ اردو میں استاد کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہو گیا۔ یہ ۱۹۵۳ء کی بات ہے۔ ۱۹۶۶ء میں اسی شعبے میں ان کا تقرر ریڈر کی حیثیت سے ہوا اور تا دم مرگ (۱۹۷۸ء) وہ یہی خدمت انجام دیتے رہے۔

آخری زمانے میں خلیل صاحب کی ادبی شہرت پوری اردو دنیا میں پھیل چکی تھی۔ شعر و ادب اور تنقید کے میدان میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ استاد کی حیثیت سے بھی خوب نام پیدا کیا تھا۔ ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ پر مقالہ لکھ کر اپنے انتقال سے بیس۲۰ سال قبل پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے تھے۔ انھیں شعبۂ اردو میں ریڈر مقرر ہوئے بھی بارہ سال ہو چکے تھے۔ اب وہ ہر طرح سے اس بات کے اہل تھے کہ انھیں پروفیسر بنا دیا جائے لیکن یونیورسٹی اور شعبے کی سیاست نے کچھ ایسا رنگ اختیار کیا کہ اردو کی پروفیسر شپ انھیں نہ مل سکی۔ حالانکہ وہ اس کے انٹرویو میں بہ نفس نفیس شریک ہوئے تھے۔ ان کے ایک دوست مظہر امام نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’پروفیسر شپ کے سلسلے میں ان کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی وہ محکمہ تعلیم پر ایک بدنما داگ ہے۔ (۳۱) پروفیسر بننے کی جو آرزو ان کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی وہ مرنے کے بعد پوری ہوئی۔ اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علی محمد خسرو نے جو خلیل صاحب کے مدح اور ان کی ادبی حیثیت کے بیحد معترف تھے انھیں پس از مرگ پروفیسر شپ کے اعزاز سے نوازا۔

 

(۴)

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لکچرر مقرر ہونے کے چار سال بعد ۱۹۵۷ء میں خلیل صاحب کی راشدہ بیگم سے شادی ہوئی (۳۲) یہ شادی سہیل عظیم آبادی نے طے کرائی تھی جنھیں خلیل صاحب اپنا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔ سہیل عظیم آبادی بھی خلیل صاحب سے بیحد محبت کرتے تھے اور انھیں اپنے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ راشدہ بیگم، جہان آباد (ضلع پیلی بھیت، یو۔ پی) کے ایک معروف طبیب سید محفوظ الدین صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ یہ شادی بہت کامیاب ثابت ہوئی۔ نیک سیرت بیوی اور اچھی سسرال ملنے سے خلیل صاحب بیحد مسرور شاداں تھے جس کا اظہار اکثر اپنے دوستوں سے بھی کرتے تھے۔ سہیل عظیم آبادی کے نام ایک خط مورخہ ۱۹؍ نومبر ۱۹۵۷ء میں اپنے جذبات کی ترجمانی وہ یوں کرتے ہیں :

’’مجھے بہت خوشی ہے کہ نہ صرف مجھے راشدہ ایسی بیوی ملی ہے جو میری زندگی کو سنوار دے گی بلکہ یہ پورا خاندان شرافت اور محبت کا ایسا نمونہ ہے جس کی اس دور میں مثال نہیں مل سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں آباد کی مٹی میں مجھے سکون ملا ہے جو مجھے اپنے وطن کی مٹی نہ دے سکی تھی اور عمر بھر کے پیاسے انسان کو ایک ایسا سرچشمہ مل گیا ہے جہاں ماں باپ اور بھائی بہن کا خلوص اپنے رسمی نہیں بلکہ اصلی معنوں میں موجود ہے‘‘۔ (۳۳)

شادی کے بعد خلیل صاحب کی زندگی میں ایک قسم کا نظم و ضبط پیدا ہو گیا تھا اور معمولات میں باقاعدگی آ گئی تھی۔ وہ بے ترتیبی اور لا ابالی پن جو متاہل زندگی سے پہلے اُن میں پایا جاتا تھا، (۳۴) شادی کے بعد بالکل ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ گھریلو ذمہ داریوں نے لے لی۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے۔ خلیل صاحب کی متاہل زندگی بڑے آرام وسکون اور فراغت سے گزر رہی تھی۔ ۱۹۶۶ء میں وہ اپنے شعبے میں ریڈر ہو گئے تھے اور انھیں یونیورسٹی کا مکان مل گیا تھا کہ معاً انھیں اپنا مکان بنوانے کا خیال آیا جو ان کے لیے سوہان روح بن گیا۔ مکان کی تعمیر کا سلسلہ ۱۹۷۰ء کے بعد سے شروع ہوا۔ ۱۹۷۲ء میں اس کی تعمیر کا کام اپنے عروج پر تھا بقول بیگم راشدہ خلیل :

’’مکان کی تعمیر کی نگرانی اور فراہمی سامان کی کل زحمت انھوں نے تن تنہا جھیلی۔ اس میں وہ شب و روز لگے رہے۔ اپنی صحت کی بالکل پرواہ نہ کی۔ اس قدر سخت جسمانی محنت سے شل ہو کر وہ بیمار پڑ گئے۔ اتنا بڑا مکان تین ماہ کے اندر تقریباً مکمل کرا لیا۔ اور یہی بیماری کا سبب بن گیا۔ ‘‘(۳۵)

مکان مکمل کراتے ہی وہ اس میں منتقل ہو گئے چنانچہ یہیں سے ان پر بیماری کا حملہ پھر اس کا سلسلہ شروع ہوا فروری ۱۹۷۴ء میں وہ پہلی بار شدید طور پر بیمار ہوئے اور یونیورسٹی کے میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل ہوئے۔  کچھ دنوں بعد رو بصحت ہو کر گھر آ گئے اور معمول کے مطابق سارا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد ۱۹۷۸ء تک درمیان میں کئی بار بیمار پڑے اور داخل ہسپتال ہوئے پھر اچھے ہو کر گھر آئے۔ اسی دوران میں تبدیلی آب ہوا کے لیے وہ کشمیر بھی گئے اور سری نگر میں اپنے ہم زلف کمال احمد صدیقی صاحب کے ہاں تقریباً چار ماہ قیام پذیر رہے۔ جب صحت بہتر ہو گئی تو واپس علی گڑھ لوٹے، لیکن انھیں دراصل لیوکمیا یعنی بلڈکینسر کی مہلک بیماری لگ گئی تھی جس سے شاید ہی کوئی جانبرہوسکا ہے۔ آخری بار انھیں ۲۹؍ مئی ۱۹۷۸ء کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انھیں خون دیا گیا۔ اُسی روز وہ وہاں سے واپس آ گئے لیکن ان کی قسمت میں صرف یکم جون ۱۹۷۸ء تک جینا لکھا تھا۔ اس روز انھیں بقول راشدہ بیگم :

’’ساڑھے بارہ بجے کے قریب سردی محسوس ہوئی۔ اپنی دوا مانگ کر پی۔ پھر انار کا عرق مانگا … اور سورۂ یسٰن پڑھنے کو کہا … بس تھوڑی دیر بعد آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا … آنکھیں عجیب سی ہو گئیں بس ختم ‘‘۔ (۳۶)

خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی علالت کے دوران ہسپتال میں شاید اسی دم کے لیے یہ شعر کہا تھا

بس اک سکوت صدا ہے جو مجھ سے رہ رہ کر

یہ کہہ رہا ہے کہ لو آ گئی ہے منزل شب

انتقال کے وقت خلیل صاحب کی عمر اکیاون(۵۱) سال کی تھی۔ ابن انشاؔ نے بھی اکیاون(۵۱)سال کی ہی عمر میں اس دنیا سے کوچ کیا تھا۔ اپنے انتقال سے تھوڑے ہی دنوں قبل خلیل صاحب نے اپنے مضمون میں ابن انشا کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اکیاون سال کی عمر بھی مرنے کی کوئی عمر ہوتی ہے، (۳۷) لیکن عجیب اتفاق ہے کہ وہ خود ہی اکیاون سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اس امر کا ذکر بیجا نہ ہو گا کہ خلیل صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں مذہب کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ جس کا بین ثبوت ان کی وہ نعمتیں، کتبے اور روحانی نظمیں ہیں جو انھوں نے انتقال سے قبل کہی تھیں اور جوان کے آخری مجموعہ کلام ’’زندگی اے زندگی‘‘ میں شامل ہیں۔

 

(۵)

 

خلیل الرحمن اعظمی کو ادب سے دلچسپی تو اسی زمانے سے پیدا ہو گئی تھی جب وہ سرائے میر کے مڈل اسکول میں داخل ہوئے تھے۔ جب وہ شبلی اسکول (اعظم گڑھ) پہنچے تو ادب سے ان کی دلچسپی اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے کر کے انھوں نے تمام ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کی چیزیں پڑھ ڈالیں اور اُردو کے ہر بڑے ادیب کے نام اور اس کے ادبی کارناموں سے واقف ہو گئے۔ ان کی مضمون نویسی کی ابتدا اسکول کے ہی زمانہ طالب علمی سی ہوتی ہے۔ شروع شروع میں انھوں نے بچوں کی دلچسپی کے مضامین لکھے جو ’’غنچہ‘‘ (بجنور) ’’پھول‘‘(لاہور)اور ’’ پیام تعلیم‘‘ (دہلی) میں چھپے۔ بعد میں انھوں نے بچوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں جو شفیع الدین نیر کی اصلاح کے بعد ’’ پیام تعلیم ‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ادب سے یہی دلچسپی انھیں ۱۹۴۵ء میں کشاں کشاں علی گڑھ لے آئی جہاں ان کی ملاقات رشید احمد صدیقی، معین احسن جذبیؔ، اخترؔ انصاری، خواجہ منظور حسین، ابواللیث صدیقی، مسعود حسین خان اور خورشید الاسلام جیسے ادیبوں سے ہوئی۔ علی گڑھ سے باہر کے اہل علم و ادب مثلاً مولوی عبدالحق، قاضی عبدالغفار، حیات اللہ انصاری اور اختر حسین رائے پوری وغیرہ سے بھی پہلی بار یہیں ملنے کا اتفاق ہوا۔ علی گڑھ میں خلیل صاحب کے نوجوان دوستوں کا بھی ایک حلقہ بن گیا تھا جو ’’ادب کی دیوی کے پجاری‘‘ ان میں اشعرؔ ملیح آبادی، سید یوسف حسن، قاضی سلیم، باقر مہدی، اصغر عباس زیدی، تصور حسین زیدی، فرید بخش قادری، سیدمنہاج الدین اور ریاض الدین قیصر خاص اہمیت رکھتے تھے۔ ان سب کی ادبی دلچسپیاں ایک جیسی تھیں یہ سب کچھ نہ کچھ لکھا کرتے تھے اور ’’بعض ایسے تھے جو کچھ لکھنے کے باوجود شعر و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھے اور اسی کی فضا میں سانس لیتے تھے۔ ادب کے جنون نے ان سب کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا تھا۔ خلیل صاحب نے انھیں دوستوں کے ساتھ مل کر ’’جذبیؔ صاحب کی ایماسے اور ان کی رہنمائی میں ‘‘ علی گڑھ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی جس کے جلسے صاحب باغ کے ایک ریستوراں ’’الحمراء‘‘ میں منعقد ہوتے تھے۔ اس زمانے میں یہ انجمن علی گڑھ میں اردو کا سب سے بڑا ادبی مرکز بن گئی تھی۔ اس کے تحت آئے دن ادبی جلسے ہوتے اور شعری نشستیں منعقد کی جاتیں۔ ان جلسوں میں پیش کی جانے والی تخلیقات اور مضامین پر کھل کر بحثیں ہوتیں جن کا ’’کئی کئی دن تک چرچا رہتا‘‘۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں ہر مکتب خیال کے لوگ شرکت کرتے تھے جن میں سے کچھ لوگ تو وہی ہیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ خلیل صاحب لکھتے ہیں :

’’وہ زمانہ واقعی عجیب زمانہ تھا۔ نئی نئی کتابوں اور نئے رسالوں کی تلاش رہتی… لکھنے کا جنون تھا، اناپ شناپ صفحے سیاہ کیے جاتے‘‘۔ (۳۸)

اس زمانے میں خلیل صاحب ایک عجیب قسم کے داخلی تجربے سے گزرے جس کا ذکر انھوں نے دلچسپ انداز میں ’’نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچے میں کیا ہے:

’’غالباً فروری ۱۹۴۶ء کی بات ہے۔ میں انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا ایک دن اچانک میں نے محسوس کیا جیسے مجھے کسی سے محبت ہو گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ محبوبہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ نہ تو اس کی کوئی شکل و صورت تھی اور نہ کوئی نام اور پتہ مگر ایک مبہم سی کسک نے میرے اندر ایک گوشہ تنہائی کی ضرورت ہے جہاں میرے ہم سبق اور عزیز ترین دوست بھی نہ ہوں۔ لیکن اس زمانے میں زندگی کچھ اس ڈھب سے گزر رہی تھی کہ جہاں اسی گوشے کی بیحد کمی تھی۔ میں ایک ایسے ہوسٹل میں رہتا تھا جہاں میرے ساتھ کئی اور ساتھی میرے کمرے میں مقیم تھے رات گئے تک ہم سب یا تو کتابیں پڑھنے یا گپ شپ اور لطیفے بازی ہوتی۔ گیارہ بارہ بجے جب کمرے کی روشنی گل کرے ہم سب اپنے اپنے بستروں میں چلے جاتے تو مجھے وہی بے نام صورت یاد آنے لگتی اور میں اس کے خیال میں رات کے پچھلے پہر تک جاگتا رہتا۔ کئی بار ایسا لگا کہ میں اس کو ایک لمبا چوڑا خط لکھنا چاہتا ہوں مگر پھر سوچتا کہ یہ کیا حماقت ہے۔ کس کو خط لکھوں گا اور کہاں بھیجوں گا۔ ‘‘ (۳۹)

اسی دیباچے میں انھوں نے اپنی پہلی نظم ’’نقش ناتمام‘‘ کے تخلیقی عمل کی روداد بھی بیان کی ہے:

’’انھیں کیفیتوں سے گذر رہا تھا کہ ایک روز کلاس میں بغیر کسی ارادے کے سب سے پچھلی بینچ پر جا بیٹھا۔ میں اس سے پہلے اس بینچ پر کبھی نہیں بیٹھا تھا کیونکہ عام طور پر وہاں میرے وہ ساتھی بیٹھتے تھے جنھیں نصاب کی کتابوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ یہ لوگ اپنی کاپیوں پر دوستوں کی تصویر یں کارٹون بناتے یاڈیسک کی اوٹ میں رکھ کر کوئی ناول یا افسانے کی کتاب پڑھا کرتے۔ میں اپنی نوٹ بک پر ساتھیوں کی نظریں بچا کر کچھ لکھنے لگا۔ بعض نے میری طرف توجہ کی لیکن یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ میں شاید استاد کے دیے ہوئے لکچرر کے نوٹس لے رہا ہوں کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے اپنے چند بے تکلف دوستوں سے یہ انکشاف کی کہ میں نے ابھی ابھی ایک نظم لکھی ہے۔ نظم کا عنوان تھا ’’نقش ناتمام ‘‘اور وہ اس طرح شروع ہوتی تھی:

پیکر حسن و حیا آہ یہ تصویر برتری

میری تخیل کا ہے ایک ادھورا شہکار

یہ نظم سب نے پسند کی اور سننے کے بعد اپنے جو تاثرات ظاہر کیے ان سے اندازہ ہوا کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اس نظم کے ایسے معنی و مفہوم نکالے ہیں جن کا علوم خود مجھے بھی نہیں تھا۔ خیر وہ نظم میں نے چپکے سے ایک لفافے میں رکھ کر ممتاز شیریں کو بھیج دی جو اس زمانے میں بنگلور سے ’’نیا دور‘‘ نام کا ایک دو ماہی رسالہ نکالتی تھیں۔ کوئی ایک ہفتے کے ان کا خط آیا کہ نظم انھیں بہت اچھی لگی ہے اور وہ ’’ نیا دور‘‘ کے شمارہ نمبر ۸ میں شائع ہو گئی‘‘۔ (۴۰)

خلیل الرحمن کے لیے یہ زمانہSpontaneous overflow of powerful feelings” ” کا زمانہ تھا ’’نقش ناتمام‘‘ کی تخلیق اور تحسین کے بعد ان کا کچھ ایسا معمول ہو گیا تھا کہ ’’ چلتے پھرتے نظموں کے خیال اور اُن کے عنوان ذہن میں گونجنے لگتے‘‘ اور وہ انھیں کاغذ پر منتقل کرنے کی فکر مین رہتے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جب ان روم پارٹنرز (کمرے کے ساتھی) روشنی گل کر کے سوجاتے تواس خیال سے کہ کہیں ان کی نیند میں خلل نہ پڑے وہ اندھیرے میں ہی پنسل سے نظم لکھ ڈالتے اور جب صبح دیکھتے تو تمام الفاظ ایک دوسرے سے گڈ مڈ نظر آتے۔ اس زمانے میں خلیل صاحب نے ’’زلیخا کی آنکھیں ‘‘ ’’آدرش‘‘ ’’اجنبی سائے‘‘ ’’تخیل کے دیوتا‘‘ ’’خیام کے نام ‘‘’’ جس دوام‘‘ جیسی نظمیں کہیں جو دوستوں کو سنانے اور داد تحسین پانے کے بعد رسائل میں چھپنے کے لیے بھیجیں۔

اسی زمانے کی بات ہے کہ امۃ الرؤف نسرینؔ کے اس شعر سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے جو رسالہ’’نگار ‘‘ میں ان کی نظر سے گذرا تھا:

آئینہ دیکھ کر خیال آیا

تم مجھے بے مثال کہتے تھے

جیسا کہ انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس شعچرنے انھیں نہ جانے کس عالم میں پہنچا دیا تھا۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ غزل کے ایک شعر نے ان پر ایسا جادو کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل صاحب کے ذہنی رویے کی تبدیلی میں اس شعر کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی کی زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا جب انھوں نے خود کو میرؔ کے ساتھ Identifyکر لیا۔ یہ ان کی ’’ذہنی تنہائی‘‘ اور ان کے ’’دل کی ویرانی‘‘ کا دور تھا۔ گذرے ہوئے حالات و واقعات اور حادثات نے انھیں بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس دور کے کرب کو یاد کرتے ہوئے وہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :

’’میری زندگی کا یہ دور میری تنہائی کا دور تھا میرے پرانے دوست اور ساتھی ایک ایک کر کے علی گڑھ سے جا چکے تھے اور میں اُن کو یاد کر کے اُداس ہو جاتا تھا ریستوراں میں، راستوں اور گذر گاہوں پر نگاہیں مانوس چہروں کو ڈھونڈا کرتیں اور ٹکرا کر واپس آ جاتیں۔ میری صبح و شام اب کاٹے نہیں کٹتی تھی اور ہر لمحہ یہ کیفیت کہ ع

اس آشیاں میں صدا دی ادھر پکار آئے

اس زمانے میں کئی مہینے ایسے گزرے جب میری زبان گنگ ہو گئی۔ مجھ پر جو کچھ بیت چکی تھی اور بیت رہی تھی اس کے اظہار سے مجھے خوف سا آنے لگا۔ اپنے جذبات و احساسات کو چھوتے ہوئے ڈر سا لگتا تھا۔ ادھر ادھر کی کتابیں لا کر پڑھتا تھا مگر اس سے بے چینی کا علاج ہونے کے بجائے دل کی ویرانی میں اور اضافہ ہو جاتا ‘‘۔ (۴۱)

ایسے میں میرؔ ان کے ’’غم گسار‘‘ بن گئے اور میرؔ کی صحبت میں بیٹھ کر وہ ’’تنہائی کے عذاب‘‘ سے نجات حاصل کرنے لگے۔ میرؔ کے مطالعے کے دوران انھیں محسوس ہوا کہ ان کی ’’داخلی دنیا‘‘ میں کچھ دریچے کھل گئے ہیں جن سے ہو ہو کر ایسی ہوائیں آ رہی ہیں جو انھیں ’’محبت و رفاقت، خلوص و ہمدردی اور دلدہی ودلآسائی کا پیغام دے رہی ہیں ‘‘۔ میرؔ کے کلام کے آئینے میں ’’اپنی ذات کا مشاہدہ کرنا‘‘ ان کا معمول بن گیا۔ میرؔ نے انھیں ’’ غم پرستی‘‘ کے بجائے ’’گم سے نبرد آزما ہونا‘‘ سکھایا۔ میرؔ کی زندگی اور اپنی زندگی میں انھیں بہت سی باتیں مشترک نظر آئیں :

’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ان کو بھی اپنے زمانے میں اسی نوع کی تنہائی سے واسطہ پڑا تھا۔ انھوں نے بھی اپنے سامنے ایک بساط کو الٹتے اور ایک بھری پری بزم کو درہم برہم ہوتے دیکھا تھا‘‘۔ (۴۲)

یہی وجہ ہے کہ ’’میرؔ کی آواز‘‘ کو وہ اپنی آواز سمجھنے لگے۔ لیکن ان کے لیے یہ محض غزل گوئی یا شاعری کا راستہ نہیں تھا، بلکہ یہ ان کی پوری زندگی کا مسئلہ تھا کیوں کہ جیسا کہ انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ :

’’ اس آواز کا سراغ مجھے نہ ملتا تو میری روح کا غم جو اندر سے مجھے کھائے جا رہا تھا نہ جانے مجھے کن اندھی وادیوں کی طرف لے جاتا‘‘۔

اسے میرؔ کی نقالی یا میر کے رنگ کا تتبع نہیں کہہ سکتے جو اس دور کے دوسرے شاعروں کے یہاں ملتا ہے، بلکہ ان کے یہاں میرؔ کا یہ رنگ یا لب و لہجہ یا طرز احساس میرؔ سے ان کی داخلی مناسبت اور ذہنی قربت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔

 

(۶)

 

خلیل الرحمن اعظمی کے کلام کے کل تین مجموعے شائع ہوئے۔ دو اُن کی زندگی میں اور ایک ان کے انتقال کے بعد۔ سب سے پہلا مجموعہ کلام ’’کاغذی پیرہن‘‘ ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا۔ اس کے دس سال بعد ’’نیا عہد نامہ‘‘ کے نام سے دوسرا مجموعہ ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ ان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ ’’زندگی اے زندگی‘‘ ان کے انتقال کے پانچ سال بعد ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔

’’کاغذی پیرہن‘‘ جب چھپ کر آیا تو اس پر میرؔ کے لہجے اور طرز احساس کی جھلک کو سبھی نقادوں نے محسوس کیا، لیکن ایک اور چیز جس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ تھی خلیل الرحمن اعظمی کی نئی اور منفرد آواز۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خلیل صاحب نے میرؔ کے رنگ کی اندھی تقلید یا نقالی نہیں کی تھی، بلکہ اسے Internalizeکر کے اپنے داخلی احساس کے روپ میں پیش کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ داخلی احساس میرؔ کے طرز احساس سے میل کھاتے ہوئے بھی ان کا اپنا ہے، جس کے لیے انھیں بڑی محنت کرنی پڑی ہے۔ شاذ تمکنت کے نام اپنے ایک خط مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۵۶ء میں وہ ’’کاغذی پیرہن‘‘ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’واقعہ یہ ہے کہ لکھنے لکھانے کا زمانہ تو اب آ رہا ہے۔ اب تک تو اپنی شخصیت کے عناصر کی چھان پھٹک کرنے اور انھیں ایک راہ پر لگانے میں مصروف رہا ہوں تاکہ اپنے اسلوب اور طرز فکر پر اپنا ٹھپہ لگا سکوں۔ انتخاب بھی بہت سخت کیسا ہے۔ موضوع کی اہمیت کو نظر انداز کر کے صرف انھیں نظموں کو میں نے اس مجموعے میں جگہ دی ہے جو خلیل الرحمن اعظمی نام کی شخصیت کو متعین کر سکیں اور اس کی انفرادیت و تھوڑا بہت اجاگر کر سکیں ‘‘۔ (۴۳)

یہاں معروف نقاد ممتاز حسین کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ خلیل الرحمن اعظمی کے یہاں میرؔ کی تقلید ایک ہم عصر رجحان کی صورت میں نمودار ہوئی ہے۔ (۴۴) اول تو یہ تقلید نہیں کیوں کہ تقلید میں شعوری کوشش کی کارفرمائی ہوتی ہے اور خلیل صاحب کا غم کسی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ان کا ذاتی اور داخلی مسئلہ ہے۔ اُن کا غم اتنا ہی فطری ہے جتنا فطری کہ میرؔ کا غم تھا۔ دوم میرؔ کا رنگ، طرز احساس یا سوز و گداز خلیل صاحب کے یہاں ہم عصر رجحان کے طور پر نہیں بلکہ ان کی داخلی ضرورت کے طور پر نمودار ہوا ہے جس نے انھیں داخلی احساسات کا شاعر بنا دیا ہے۔ ہم عصر رجحان کے طور پر میرؔ کی تقلید والی بات ممکن ہے ممتاز حسین نے ابن انشاء اور ناصر کاظمی کی شاعری کو دیکھ کر کہی ہو پھر اس کا اطلاق خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری پر بھی کر دیا ہو کیوں کہ ان تینوں شعراء کے مجموعے یعنی ’’ چاند نگر ‘‘ (ابن انشا) ’’برگ نے‘‘ (ناصر کاظمی) اور ’’کاغذی پیرہن‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی)ایک ہی زمانے (۱۹۵۵ء) میں شائع ہوئے تھے۔

خلیل الرحمن اعظمی کے سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی شاعری عام فضا کو ہم اضمحلال افسردگی اور غم پسندی ہے سے تو تعبیر کر سکتے ہیں لیکن اسے ’’غم پرستی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ غم پرستی انسان کو قنوطیت کی طرف لے جاتی ہے۔ خلیل صاحب کی شاعری اپنے تمام تر حزینہ لہجے اور محرومیوں کے اظہار کے با وصف قنوطی نہیں کہی جا سکتی، کیوں کہ اس میں حالات سے لڑنے اور غم سے نبرد آزما ہونے اور خود کو سنبھالنے کا حوصلہ پایا جاتا ہے۔

’’کاغذی پیرہن‘‘ کی اشاعت کے دس سال بعد ’’نیا عہد نامہ ‘‘ شائع ہوا۔ یہ واضح طور پر شاعر کے داخلی سفر کے ارتقا کی نشاندہی کرتا ہے۔ دس سال کے دوران شاعر کی ذاتی زندگی میں جو ’’خوشگوار تبدیلیاں ‘‘ رونما ہوئیں ان کا اثر بھی اس مجموعے کی نظموں کے لہجے پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ماضی کی تلخ یادیں اب بھی شاعر کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ خلیل الرحمن اعظمی کی ایک نظم ’’اپنے بچے کے نام‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

مجھ کو اجداد سے وراثت میں

وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا

عمر بھر پائمال و خاک بسر

میرا حصہ رہا گم فردا

مجھ کو میرے لہو میں نہلا کر

جس نے قید حیات میں رکھا

٭

اے مری روح فن کے عکس جمیل

تجھ کو میری سی زندگی نہ ملے

خلیل الرحمن اعظمی نے ’’نیا عہد نامہ‘‘ کر کے دیباچے میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ میری ذہنی تنہائی کسی نہ کسی صورت میں اب بھی برقرار ہے۔ اس کا تعلق اگر میری مادی ضرورتوں اور جبلی خواہشوں سے ہوتا تو اب تک اس سے نجات حاصل کر چکا ہوتا، لیکن اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں اور سماجی زندگی وانسانی قدر کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ میری نظر میں انسانی اقدار کا جو تصور ہے اور میں زندگی کا جو خواب دیکھا کرتا ہوں اس کا ٹکراؤ قدم پر میرے ماحول اور معاشرے سے ہوتا ہے۔

اس بیان کی روشنی میں اگر ’’نیا عہد نامہ‘‘ کی تخلیقات کا تجزیہ کیا جائے تو شاعر کا غم پورے معاشرے کا غم بن جاتا ہے، غم ذات غم کائنات کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور داخلی احساس میں آفاقیت کا پر تو نظر آنے لگتا ہے۔ کیونکہ شاعر اب انسانی اقدار کا تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ اور زندگی کا خواب صرف اُس کی زندگی کا خواب نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کا خواب ہے۔ اس تجربے کو شعری یا تخلیقی ارتقا کا نام دیا جا سکتا ہے جو اس مجموعے کا نمایاں وصف ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی کا تیسرا مجموعہ کلام ’’زندگی اے زندگی‘‘ ان کے انتقال کے بعد ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۸ء (جوان کے وفات کی تاریخ ہے)کے دوران کا کلام، لیکن اس مجموعے ی تصنیف سے زیادہ تخلیقات وہ ہیں جو ان کے انتقال سے صرف دو سال قبل یعنی ۱۹۷۶ء اور ۱۹۷۸ء کے دوران لکھی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن میں حزن و ملال، یاس وافسردگی اور غم کی کیفیات کا اظہار زیادہ شدت کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن زندہ رہنے اور موت سے لڑنے کا حوصلہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

دنیاداری تو کیا آتی، دامن سینا سیکھ لیا

مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا

٭

کیوں رو رو کر نیند گنوائیں، رونے سے کیا ہوتا ہے

سوجا اے دل تو بھی سوجا، سارا جگ ہی سوتا ہے

میں کہاں ہوں کچھ بتا دے، زندگی اے زندگی

پھر صدا اپنی سنادے، زندگی اے زندگی

٭

جانے کیوں اک خیال سا آیا

میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہو گی

آخر دور کی تخلیقات میں مذہبی جذبے کا بھی شدید رجحان پایا جاتا ہے۔ خلیل صاحب نے انتقال سے قبل بہت سے نعتیں، کتبے اور روحانی نظمیں لکھیں جن سے مذہب میں ان کے گہرے عقیدے اور ایقان کا پتا چلتا ہے۔ ’’کتبہ‘‘ کے نام سے انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی اور مخصوص صنف کا اضافہ کیا ہے جس میں وہ خود اپنے مرنے کا ذکر کرتے ہیں اور مرنے کے بعد خود اپنے تاثرات اور عزیز و اقارب اور احباب کے احساسات اور رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بڑی دل ہلا دینے والی نظمیں ہیں۔ ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے موت کو کتنے قریب سے اور کس کس طرح سے سرپر منڈلاتے دیکھا ہے۔ ان کے لیے یہ بڑی بے بسی اور بے چارگی کا عالم تھا وہ ایک ایک اپنے گھر کے تمام افراد کو یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ مکو، اجو، پی چو، ہما اور ان بچوں کی ماں پر نظمیں انھیں ایام کی یاد گار ہیں جو بہ ظاہر بیانہ نظمیں ہیں لیکن جذبے کی فراوانی اور ایک خاص صورت حال کی سچی ترجمانی نے ان نظموں کو نہایت پر درد اور پر اثر بنا دیا۔

 

(۷)

 

خلیل الرحمن اعظمی ایک منفرد اور بلند پایہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک معتبر نقاد بھی تھے۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ شاعر کی حیثیت سے ان کا مرتبہ زیادہ بلند ہے یا نقاد کی حیثیت سے، کیونکہ جس طرح انھوں نے شاعری میں اپنی ایک مخصوص جگہ بنا لی تھی اسی طرح تنقید میں بھی ان کا ایک اہم مقام تھا۔ خلیل صاحب نے بہ حیثیت نقاد لوگوں کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ ان کا سب سے پہلا تنقیدی کارنامہ جس کی وجہ سے انھیں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ’’ مقدمہ کلام آتش‘‘ ہے۔ یہ سب سے پہلے ۱۹۴۸ء میں ایک مقالے کی صورت میں شائع ہوا، پھر ۱۹۵۹ء میں کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے بعد ان کے تنقیدی مضامین کے تین مجموعے ’’فکر و فن‘‘ (۱۹۵۶ء) ’’زاویہ نگاہ‘‘ (۱۹۶۶ء) اور ’’مضامین نو‘‘ (۱۹۷۷ء) شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ‘‘ جوان کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ’’نوائے ظفر ‘‘کے نام سے بہادر شاہ ظفر کے کلام کا انتخاب مع مقدمہ ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا، اور ’’ نئی نظم کا سفر‘‘ کے نام سے ۱۹۳۶ء کے بعد کی نظموں کا انتخاب مع مقدمہ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ آخری دونوں کتابوں کا شمار خلیل صاحب کے مرتبات میں ہوتا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی کا تنقیدی رویہ عام اور مروجہ تنقیدی رویوں سے بالکل مختلف تھا۔ ان کی تنقید نگاری کے محرک کو سمجھنے کے لیے اس واقعے کا ذکر ضروری ہے جو امتہ الرؤف نسرینؔ کے اس شعر کو پڑھ کو پیش آیا تھا :

آئینہ دیکھ کر خیال آیا

تم مجھے بے مثال کہتے تھے

غزل کے بہ ظاہر اس سادہ سے شعر نے انھیں بیحد متاثر کیا تھا اور ان کے ذہنی رویے میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کر دی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کاسیکی شاعر کے ازہر نو مطالعے کی طرف مائل ہوئے جس نے ان کی تنقید نگاری کو جنم دیا۔ وہ لکھتے ہیں :

’’اس شعر نے مجھے نہ جانے کس عالم میں پہنچا دیا … یہ پہلا اتفاق تھا جب غزل کے ایک شعر نے مجھ پر ایسا جادو کیا۔ ان دنوں بعض تنقیدی مضامین اور نئے ادیبوں کی تحریریں پڑھ کر قدیم اردو شاعری بالخصوص غزل کی طرف سے میں بدگمان ہو گیا تھا اور نئی شاعری اور نئی نظم کے لیے نومسلم کو سا جو ش رکھتا تھا لیکن اس ایک شعر نے تو جیسے دنیا ہی بدل دی۔ میں نے پرانے شعراء کے دواوین اور کلیات پڑھنے شروع کیے اور کچھ دنوں کے لیے ان میں ڈوب ساگیا۔   مجھے ایسا معلوم ہوتا جیسے میں نے ان شعراء کو از سر نو دریافت کیا ہے، کیوں کہ میرے بعض تاثرات ایسے ہوتے جو عام اور مروجہ تنقیدوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اسی کیفیت نے میری تنقید نگاری کو جنم دیا۔ ‘‘ (۴۵)

خلیل الرحمن اعظمی کا سب سے پہلا تنقیدی کارنامہ ’’مقدمہ کلام آتش‘‘ ہے جس میں انھوں نے آتش کی شاعری کو مطالعہ ایک بالکل نئے زاویہ نگاہ سے پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ اس وقت لکھا گیا جب وہ بی اے کے طالب علم تھے اس مقالے کو نیاز فتحپوری نے اپنے خصوصی نوٹ کے ساتھ ۱۹۴۸ء میں رسالہ ’’نگار‘‘ میں بالا قساط شائع کیا۔ اس نوٹ کے الفاظ یہ تھے:

’’جناب اعظمی جس وقت نگاہ اور امعان نظر سے کام لے رہے ہیں وہ آتشؔ کے باب میں اس وقت تک کسی صاحب قلم کی طرف سے ظاہر نہیں ہوئی‘‘۔ (۴۶)

فراق گورکھپوری نے اسی زمانے میں خلیل الرحمن اعظمی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا :

’’پچھلے دس سال سے جو کچھ میں آتشؔ کے بارے میں سوچ رہا تھا ان خیالات کو آپ کے مضمون پاکر عجیب و غریب مسرت ہوئی‘‘۔ (۴۷)

مجنوں گورکھپوری نے مقدمہ کلام آتشؔ پر رسالہ ’’ساقی‘‘ (کراچی) میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے آتشؔ کا ’’نیا مطالعہ‘‘ قرار دیا اور لکھا:

’’بڑی بات یہ ہے کہ اعظمی نے آتشؔ کی شخصیت اور ان کے شاعرانہ مزاج کا اصل راز پا لیا ہے اور اس کو بڑے حسن اسلوب کے ساتھ سمجھایا ہے۔ ‘‘(۴۸)

ان کے علاوہ مولوی عبدالحق، سیدسلیمان ندوی، قاضی عبدالغفار، اثر لکھنوی، سیدعبداللہ، وحید قریشی، احتشام حسین اور میرزا ادیب وغیرہ نے بھی اسے بہ نظر تحسین دیکھا اور جی کھول کر داد دی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اس کتاب پر تبصرہ لکھا ’’جو ادبی دنیا‘‘ (کراچی) میں شائع ہوا۔ انھوں نے خلیل صاحب کے کام کی ان الفاظ میں داد دی :

’’ڈاکٹر اعظمی نے ’’مقدمہ کلام آتش‘‘ میں تنقید کی عام روش سے ہٹ کر اردو شاعری میں آتشؔ کا مقام متعین کرنے کی جو کوشش کی ہے، نہ صرف اس لحاظ سے قابل قدر ہے ہے کہ آتشؔ کو ’’دریافت ‘‘ کرنے کی پہلی بھرپور کوشش ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ڈاکٹر صاحب نے دریافت کے اس عمل میں ایک اجتہادی انداز نظر کا ثبوت پہنچا یا ہے‘‘۔ (۴۹)

اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل الرحمن اعظمی نے اس کتاب میں آتش کے حالات زندگی کی چھان بین اور ان کے بارے میں مختلف تنقیدی آراء کے بیان سے لے کر ان کے فن، عشقیہ شاعری، خمریات، تصوف اور مسائل حیات وغیرہ کا بڑی گہرائی کےساتھ مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے آتشؔ کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے، ان کے مزاج، ماحول اور ان کے مزاج، ماحول اور ان کی شاعری کی روح میں ’’ڈوب کر‘‘ لکھا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے، ورنہ اس سے پہلے آتشؔ پر جو کچھ بھی تنقیدی مواد ملتا ہے وہ محض ’’ سطحی اور سرسری‘‘ نوعیت کا ہے۔ اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آتشؔ پر خلیل الرحمن اعظمی کے مضامین کا علم جب پروفیسر رشید احمد صدیقی کو ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں خلیل صاحب کو ’’آتش پرست‘‘ کہنا شرو کیا (۵۰)

’’مقدمہ کلام آتشؔ‘‘ کے بعد خلیل الرحمن اعظمی کے تین تنقیدی مجموعے، فکر و فن‘‘ (۱۹۵۶ء ) زاویۂ نگار (۱۹۶۶ء) اور مضامین نو (۱۹۷۷ء) شائع ہوئے۔

’’فکر و فن کے دیباچے (معروضات) میں خلیل الرحمن اعظمی نے تخلیقی اور تنقید کے رشتوں اور اپنے بعض تنقیدی رویوں سے بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’میں نے مروجہ تنقیدی اصولوں اور نظریات کی پابندی کم کی ہے۔ اچھے ادب کا براہ راست مطالعہ کر کے ادب کی خصوصیات کو سمجھنے اور ان کا معیار اور سطح مقرر کرنے سے مجھے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں ان تنقیدی اصولوں سے ناواقف ہوں، لیکن ان نظریات اور اصولوں کے میکانکی استعمال سے جو نتائج نکلے ہیں اور شعر و ادب کی جس طرح مٹی پلید ہوئی ہے اور اس کی بنا پر ان کو برتنے میں میں نے احتیاط و اعتدال سے کام لیا ہے‘‘۔ (۵۱)

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خلیل صاحب کی ادبی زندگی میں تنقید نگاری (جسے انھوں نے ’’مضمون نگاری‘‘ سے منسوب کیا ہے) کو ثانوی حیثیت حاصل تھی۔ وہ شعری اظہار کو تنقید سے بالا تر سمجھتے تھے اور اسی کے پردے میں اپنی روح کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

’’فکر وفن‘‘ دس مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام مضامین شاعری کی تنقید پر مشتمل ہیں۔ اس مجموعے کا پہلا مضمون غالبؔ پر ہے جس میں غالبؔ کی شاعری کا مطالعہ عصر جدید کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک مضمون میں بہادر شاہ ظفر کی شاعری کا مطالعہ ایک نئے زاویے سے کیا گیا ہے۔ ایک اور مضمون میں خواجہ میرؔ درد کی عشقیہ شاعری کا تنقیدی تجربہ پیش کیا گیا ہے اس مجموعے کے دوسرے تنقیدی مضامین حسرتؔ داغؔ، مومنؔ، جوشؔ ملیح آبادی، جمیلؔ مظہری، مجازؔ اور جذبیؔ کی شاعری اور ان کے شاعرانہ مرتبے کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔

’’زاویہ نگاہ میں بھ شاعری کی تنقید کا حصہ زیادہ ہے۔ اس مجموعے میں جگرؔمرادآبادی، فراقؔ گورکھپوری اور اختر الایمان پر الگ الگ مضامین ملتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک مضمون میں دو نئے شعری مجموعوں ’’برگ نے (ناصر کاظمی)اور چاند نگر‘‘ (ابن انشا) کی شعری قدر و قیمت کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک اور مضمون ’’اردو نظم کا نیا رنگ و آہنگ میں ۱۹۱۴ء سے ۱۹۳۶ء تک کی نظم نگاری کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ باقی مضامین اردو تنقید کے مسائل سرسید کے ادبی تصورات اور ابو الکلام آزادؔ کے مکاتیب سے متعلق ہیں۔

خلیل الرحمن اعظمی کے تنقیدی مضامین کا تیسرا اور آخری مجموعہ ’’مضامین نو‘‘ ان کے انتقال سے ای سال قبل شائع ہوا۔ اس میں تنقیدی مضامین کے علاوہ ادبی مسائل و موضوعات اور شخصیت پر بھی مضامین شامل ہیں نیز کتابوں پر تبصرے بھی ہیں۔

خلیل الرحمن اعظمی کے تنقیدی مجموعوں کو پڑھ کر ذہن پر جو دیر پا تاثر قائم ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ان کا تنقیدی رویہ توازن اور اعتدال پسندی پر مبنی ہے۔ وہ اپنی تنقیدوں میں اعتدال اور معیار توازن کو حد درجہ قائم رکھتے ہیں اعتدال پسندی ہی ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔ انھیں شدت انتہاپسندی اور بے اعتدالی کبھی پسند نہیں آئی۔ بچپن میں مذہبی شدت پسندی سے بیزار ہو کر انھوں نے راہ فرار اختیار کی تھی اور ترقی پسندوں کے حلقے میں آ گئے تھے لیکن یہاں بھی انھیں انتہاپسندی اور بے اعتدالی کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ وہ ترقی پسند تحریک سے بیزار ہو گئے۔ اور بالآخر علاحدگی اختیار کر لی۔ ان کی تنقید کی دوسری اہم خصوصیت ان کا معروضی طرز فکر ہے۔ وہ ادبی مسائل و موضوعات پر معروضی غور فکر سے کام لیتے ہیں خلیل صاحب ادب میں جانب داری اور رواداری کے قائل نہیں وہ جو بات صحیح سمجھتے ہیں اس کے اظہار میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے، خواہ وہ بات صحیح سمجھتے ہیں اس کے اظہار میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے، خواہ وہ بات کسی بڑے ادیب محقق یا اہل علم کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ ’’مضامین نو‘‘ کے تبصرے خلیل صاحب کی بے لاگ تنقید کا بہترین نمونہ ہیں۔ انھوں نے وہی لکھا جو انھیں صحیح اور سچ معلوم ہوا۔ نہ کسی کی بے جا تعریف کی اور نہ کسی کی تنقیص و تذلیل۔ خلیل صاحب نے اپنی تنقیدوں میں نئے تجربوں، جدت و اختراع، آزادی فکر اور انفرادیت کی جا بجا وکالت کی ہے۔ خلیل صاحب کی تنقید کا زیادہ تر حصہ ان کی شعری تنقید پر مشتمل ہے جس میں وہ شاعر کے مزاج اور ماحول دونوں کو اہمیت دیتے ہیں جیسا کہ آتشؔ پر ان کے تنقیدی مطالعے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ خلیل صاحب کی تنقید میں ادب اور زندگی کے باہمی رشتے پر زور ملتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ شعر کے فنی محاسن اور جمالیاتی قدروں پر بھی زور دیتے ہیں۔

٭٭

 

حواشی

 

۱-        خلیل الرحمن اعظمی، ’’آئینہ خانہ میں ‘‘ (علی گڑھ، ۱۹۵۰ء) ص ۱۰

۲-       خلیل الرحمن اعظمی، ’’علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ مشمولہ نقوش‘‘ شخصیات نمبر۲ (لاہور، اکتوبر ۱۹۵۶ء) ص ۱۳۱۶

۳-       پروازؔ اصلاحی، ’’خلیل الرحمن اعظمی، میرا بھائی‘‘ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر)جلد۵۱، شمارہ ۴-۶(۱۹۸۰ء)ص۴۲۔

۴-       علی حماد عباسی، ’’خلیل الرحمن اعظمی: کچھ یادیں کچھ آنسو‘‘ ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر) جلد ۵۱شمارہ ۴-۶(۱۹۸۰ء)ص ۸۸-۸۹

۵-       پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۱۔

۶-       پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۲۔

۷-       پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۲

۸-       پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۲

۹-        پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۲

۱۰-      پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۳

۱۱-       پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۳

۱۲-      پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۵

۱۳-      علی حماد عباسی، بہ حوالہ سابق ص۸۹

۱۴-      ’’علی گڑھ میگزین‘‘ (انتخاب کلام شعرائے علی گڑھ )شمارہ خصوسی (۱۹۷۰ء) ص۱۲۷

۱۵-      پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۵

۱۶-      پروازؔ اصلاحی لکھتے ہیں کہ علی گڑھ جانے سے پہلے خلیل الرحمن اعظمی ’’اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے ملنے کے لیے اعظم گڑھ گئے۔ مولوی عبدالباری صاحب کو معلوم ہوا تو انھیں علامہ سید سلیمان ندوی کی خدمت میں لے گئے۔ سید صاحب یونیورسٹی کورٹ کے ممبر تھے۔ علی گڑھ جانے کا ذکر سن کر بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ اس سلسلے میں تمہارے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں کروں گا۔ سید صاحب نے پہلے ایک طویل خط صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام لکھا اور اس خط کو خلیل الرحمن کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ صدر یار جنگ کے پاس تم اسے خود لے کر جانا ‘‘۔ (پرواز اصلاحی، بہ حوالہ سابق، ص۴۷)

۱۷-     خلیل الرحمن اعظمی نے صدر یار جنگ صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر اپنے ایک مضمون ’’علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ (مشمولہ ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر۲) میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔

۱۸-      بہ حوالہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘(خلیل الرحمن اعظمی نمبر) جلد ۵۱، شمارہ ۴-۶ (۱۹۸۰ء) ص۴۷

۱۹-      بہ حوالہ ایضاً، ص۴۸

۲۰-     علی حماد عباسی کے مطابق بہ واقعہ جمنا برج کے پاس پیش آیا تھا(دیکھیے علی حماد عباسی، بہ حوالہ سابق، ص۸۹)

۲۱-      علی حماد عباسی نے اپنے مضمون ’’خلیل الرحمن : کچھ یادیں، کچھ آنسو‘‘ مشمولہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر ) میں لکھا ہے کہ دہلی سے علی گڑھ آتے ہوئے ٹرین میں جب خلیل صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت ان کے دوست باقر مہدی ان کے ساتھ تھے۔ لیکن خلیل الرحمن اعظمی نے ’’ نیا عہد نامہ ‘‘ کے دیباچہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے باقر مہدی کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔ باقر مہدی نے افتخار امام صدیقی کو ایک ادبی انٹرویو کے دوران بتا یا کہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ میں خلیل نے جان بوجھ کر میرا ذکر نہیں کیا ہے۔ ‘‘ (مذکورہ انٹرویو کے لیے دیکھے ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ خلیل الرحمن اعظمی نمبر، (ص۲۱۳)

۲۲-     خلیل الرحمن اعظمی دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ (علی گڑھ، ۱۹۶۵ء) ص۱۴

۲۳-     خلیل الرحمن اعظمی، علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ مشمولہ ’’نقوش‘‘ (شخصیات نمبر ۱۲ ص ۱۳۳۲)

۲۴-     خلیل الرحمن اعظمی، علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ مشمولہ ’’نقوش‘‘ (شخصیات نمبر ۱۲ ص ۱۳۳۲)

۲۵-     خلیل الرحمن اعظمی، علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ مشمولہ ’’نقوش‘‘ (شخصیات نمبر ۱۲ ص ۱۳۳۲)

۲۶-     بہ حوالہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر) جلد ۱۵۱ شمارہ ۴-۶ (۱۹۸۰ء) ص۴۹

۲۷-    خلیل الرحمن اعظمی دیباچہ ’’نیا عہد نامہ ‘‘ (علی گڑھ ۱۹۶۵ء) ص ۱۸

۲۸-     خلیل الرحمن دیباچہ ’’نیا عہد نامہ (علی گڑھ ۱۹۵۶ء) ص ۲۰

۲۹-     بہ حوالہ مکتوب خلیل الرحمن اعظمی بنام رشید احمد صدیقی، مورخہ ۲۷؍ اپریل ۱۹۵۲ء مشمولہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر) ص ۲۳۷۔

۳۰-     خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ (علی گڑھ، ۱۹۶۵ء) ص۲۱۔

۳۱-      دیکھے مظہر امام ’’خلیل صاحب اور میں ‘‘ ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی نمبر) ص۸۴

۳۲-     خلیل الرحمن اعظمی کا راشدہ بیگم کے ساتھ نکاح تو جولائی ۱۹۵۷ء میں ہوا لیکن بیوی کی رخصتی ۱۲؍ نومبر ۱۹۵۷ء کو ہوئی۔

۳۳-    شاذ تمکنت کے نام شادی سے پہلے اپنے ایک خط مورخہ ۷؍ فروری ۱۹۵۷ء میں خلیل الرحمن اعظمی اپنے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :

’’واقعہ یہ ہے کہ گھر بس جانے کے بعد … زندگی میں تھوڑی سی ترتیب آ جائے گی، اور یہ کبھی کبھی ’’خلا‘‘ کے جو دورے پڑتے ہیں وہ دور ہوسکیں گے۔ ویسے میں ادھر پوری کوشش میں ہوں کہ اپنے آپ کو سنبھال لوں اور ان وادیوں کی طرف جانے سے اپنے آپ کو روک لوں جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے‘‘۔ (بہ حوالہ سہ ماہی ’’تکمیل ‘‘ (بھیونڈی) شاذؔ تمکنت نمبر‘‘ جلد ۲۔ شمارہ ۵-۶ جنوری تا جون ۱۹۸۹ء ص ۲۳۔

۳۵-    یہ بات بیگم راشدہ خلیل نے حامدہ مسعود سے ایک انٹرویو کے دوران کہی (دیکھیے ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ خلیل الرحمن اعظمی نمبر، ص ۵۸)

۳۶-     یہ بات بیگم راشدہ خلیل نے حامدہ مسعود سے ایک انٹرویو کے دوران کہی (دیکھیے ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ خلیل الرحمن اعظمی نمبر، ص۶۲)

۳۷-    خلیل الرحمن اعظمی، چند لمحے ابن انشا کے ساتھ ‘‘ دو ماہی ’’الفاظ (علی گڑھ) مئی جون ۱۹۷۸ء ص ۲۶۔

۳۸-    خلیل الرحمن اعظمی ’’علی گڑھ کی چند شخصیتیں ‘‘ مشمولہ ‘‘نقوش (شخصیات نمبر ۲)   ص ۱۳۳۲۔

۳۹-     خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ ص۹

۴۰-     خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ ص۱۰-۱۱

۴۱-      خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ ص۱۴

۴۲-     خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ ص۱۵

۴۳-    بہ حوالہ سہ ماہی ’’تکمیل ‘‘ (بھیونڈی)، ’’شاذؔ تمکنت نمبر‘‘ جلد ۲، شمارہ ۵-۶۔ (جنوری تا جون ۱۹۸۹ء)، ص ۱۸

۴۴-    دیکھے ’’کاغذی پیرہن‘‘ خلیل الرحمن اعظمی) پر ممتاز حسین کا تبصرہ، مشمولہ ماہنامہ’’ تخلیق ‘‘ (کراچی) نومبر ۱۹۵۶ء۔

۴۵-    خلیل الرحمن اعظمی، دیباچہ ’’ نیا عہد نامہ‘‘ ص ۱۱-۱۲

۴۶-     خلیل الرحمن اعظمی، ’’مقدمہ کلام آتش‘‘ (علی گڑھ ۱۹۵۹ء) ص الف

۴۷-    خلیل الرحمن اعظمی، مقدمہ کلام آتشؔ‘‘ (علی گڑھ، ۱۹۵۹ ص الف۔

۴۸-    بہ حوالہ ماہنامہ شاعر(بمبئی)، خلیل الرحمن اعظمی نمبر ص۱۶۷۔

۴۹-     بہ حوالہ ماہنامہ شاعر ‘‘ (بمبئی) خلیل الرحمن اعظمی نمبر ص ۱۷۲۔

۵۰-     خلیل الرحمن اعظمی، مقدمہ کلام آتشؔ‘‘ (علی گڑھ، ۱۹۵۹ ص الف، ب۔

۵۱-      خلیل الرحمن اعظمی، ’’معروضات‘‘ فکر و فن (دہلی : آزاد کتاب گھر، ۱۹۵۶ء) ص ۱۶۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید