FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تلمیحاتِ فضاؔ اعظمی

 

(تحقیق و تنقید)

 

 

 

                شبیر ناقِدؔ

 

 

 

 

انتساب

 

اپنے آموزگارِ ادب

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ

کے نام

جو فی نفسہٖ علم و ادب کے ایک سیّال ادارے کا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور جن کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ہم جیسے تلامذۂ ادب خدمتِ شعر و سخن اور انتقادِ فن میں عزمِ جواں اور سعیِ پیہم کے اوصاف سے ہم کنار ہیں

 

 

 

 

 

 

 

افتتاحیہ

 

                ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ

 

تمام تر تعریفات اللہ رب اللعالمین کے لیے ہیں جس نے تمام جہان بنائے صانعِ ازل کی تخلیق شدہ ہر چیز ایک نادر نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُس نے تمام تر کارخانۂ قدرت ایک عظیم مقصد کے تحت تخلیق فرمایا ہے اور وہ مقصد ہے، اُس کی اطاعت و بندگی۔ یہی دراصل وہ معیار ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے اعمال کا احتساب کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ہم اپنا مقصدِ پیدائش بہ حسن و خوبی پورا کر رہے ہیں یا نہیں۔

یوں تو خالقِ کائنات کی ہر چیز لاجواب و لاثانی ہے لیکن اُس کی عظیم تخلیقات میں سے چند ایسی ہیں جن سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اِن میں سے ایک حضرتِ انسان ہے، گوشت پوست کا یہ پیکر ایک عجیب نظام کا حامل ہے جسے تقویمِ احسن اور اشرف المخلوقات کا منصب حاصل ہے۔ اِسے اگر شہزادۂ کائنات کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پروردگارِ عالم نے اِسے روغنی ظرف اور دل کش سراپا عطا کر کے نہ صرف جاذبِ نظر بنا دیا بلکہ عقل و شعور کی کیفیات سے بہرہ ور فرما کر ایک مخلوقِ وجیہہ و وسیم بنا دیا، پھر نطق و بیان کے خواصِ دل نشیں سے آراستہ فرما کر ایک ایسی بولنے والی مخلوق بنا دیا جس کی ہر بات دل میں گھر کرنے والی ہے۔ اِسی پر بس نہیں، حضرتِ انسان کو کچھ اور جواہر بھی ایسے عطا فرمائے جنھوں نے اِس انگارۂ خاکی کو چار چاند لگا دئیے۔ اِن میں سے ایک علم ہے جو تخلیق شدہ اشیا و جواہر میں سے مالکِ حقیقی کو بے حد پسند ہے اور اُس کی نگاہ میں بڑی قدر و منزلت رکھتا ہے، لہٰذا جو انسان عرفان و دانش کارسیا ہوا، اور اُس کا ایک ذخیرہ اپنے قلب و ذہن میں مجتمع کر لیا وہ اِسی قدر وقیع و معتبر ٹھہرا۔ ایک اور چیز جسے آلۂ علم ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ ہے قلم، جسے خامہ یا کلک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی گراں قدر ایجاد ہے کہ جس کو تفویض کر دی گئی اور اُس نے اِس کا حق ادا کرنے کی سعیِ بلیغ فرمائی وہ یقیناً درجۂ اعتبار کے اوج پر فائز ہو گیا۔ جیسے چودھویں کا چاند اپنی پوری بہار دکھا رہا ہوتا ہے۔ ایسا انسان جو اہلِ علم بھی ہو، اور صاحبِ قلم بھی۔ اُس پر مستزادیہ کہ اسے قرینۂ سخن سے بھی نواز دیا گیا پھر تو یوں کہیے کہ سونے پر سہاگہ ہو گیا۔

ایک اور جوہرِ ذات و صفات نقد و جرح ہے یہ وہ وصفِ جمیل ہے جو تخلیقِ علم کے لیے ناگزیر ہے۔ تلاشِ حق ابنِ آدم کے فرائضِ منصبی میں سے ہے۔ اِس کے لیے گہری جانچ پڑتال کی ضرورت ہوتی ہے جسے نقد یا تنقید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسا عام سطحی عمل نہیں ہے جیسے ایک معمولی سی یا رسمی سی کارروائی قرار دیا جائے بلکہ یہ تو ژرف نگاہی اور گہرے شعور کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے اور اِس کی بدولت بہت سے امکانات نمایاں ہوتے ہیں، بہت سے خواص اُجاگر ہوتے ہیں، بہت سے آفاق رونما ہوتے ہیں، کئی دقیقہ سنجیاں منظرِ عام پر آتی ہیں اور ساتھ ساتھ خام کاریوں کا پتا چلتا ہے۔ کچھ کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں، کچھ نادرست چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سچا ناقد وہ ہے جو منشورِ تنقید سے عیاں ہونے والے تمام رنگوں کو بلا کم و کاست دکھاتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا خوب سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو یا اپنی کسی تخلیق کو ہدفِ تنقید بنانا چاہیے، کیوں کہ اِس کے لیے چیتے کا جگر چاہیے ہے۔ عمومی رویہ ہے کہ ہم میٹھی میٹھی باتیں بصد جذب و شوق قبول کرتے ہیں اور کڑوی کسیلی ہمیں زہر لگتی ہیں اور اِس کے نتیجے میں بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم چیں بہ جبیں ہو جاتے ہیں۔ کبھی تنقید نگار کی خبر لینے کے لیے اتنی حرزہ سرائیاں شروع کر دیتے ہیں اور کبھی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ناقد غریب کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، لہٰذا ناقد و منقود دونوں کو کامل ہوشیاری اور حلم و بردباری سے کام لینا چاہیے، اگر ہمارا سماج تلخی برداشت کرنے کا عادی ہو جائے اور ناگوار چیزیں اُسے گوارا ہونے لگیں تو یہ خالص معاشرت کی طرف ہماری پیش رفت ہو گی، بقول اقبالؔ:

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

یہاں ہم اُن چند نقصانات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں جو تنقید کی عدم برداشت کے نتیجے میں ہوتے رہتے ہیں۔ اِن میں سب سے پہلا نقصان یہ ہے کہ تلاشِ حق کے کارِ مسعود میں رخنے پیدا ہوتے ہیں۔ ناقدین امرِ حق گوئی دشوار سمجھتے ہوئے اُس سے کنی کترانے لگتے ہیں جس کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ تنقیدِ خالص کے نتیجے جو راہبری احاطۂ امکان میں ہوتی ہے وہ پس و پیش کا شکار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا:

صدائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

زیرِ نظر کتاب ’’تلمیحاتِ فضاؔ اعظمی ‘‘ ایک پسندیدہ اور جدید کاوشِ نقد ہے ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں تلمیحات کے حوالے سے کسی سخن ور کے کلام پر اِس نوع کی ناقدانہ جسارت ہوئی ہو۔ بہ ہر حال یہ کام خود میں ایک گو نہ ندرت لیے ہوئے ہے جس میں تنقید نگار کے لیے خاصی کٹھنائیاں موجود ہیں۔ بہ ہر حال مطالعے کے طور پر یہ عرض کر دینا ناگزیر سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ خالی از افادہ نہیں ہے۔ فارسی کا مشہور شعر ہے :

تازہ خواہی داشتیں گر داغ ہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

یعنی: ’’اگر تو سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا چاہتا ہے تو اِس قدیم داستان کو دہرا لیا کر‘‘

یہ تلمیحات جو کئی اقسام پر مشتمل ہیں، ہمارے لیے دعوتِ فکر و عمل رکھتی ہیں۔ مولف نے کتابِ ہٰذا میں تلمیحات کی جو اقسام بیان کی ہیں، اِس طرح کی قسم بندی قبل ازیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ لہٰذا ہم اِسے اُن کی ناقدانہ اختراع قرار دے سکتے ہیں یا زیادہ صاف گوئی سے کام لیا جائے تو بدعت برنگِ جدت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً پہلے نمبر پر اُنھوں نے مختلف خطوں کی تلمیحات یا جغرافیائی تلمیحات متعارف کرائی ہیں جن میں مشہور و معروف ممالک، سمندر، دریا اور انہار و کہسار شامل ہیں اور وہ ادبِ قدیم سے علاقہ رکھتے ہیں۔ گویا اِن تلمیحات کی مدد سے آپ جغرافیائی و تاریخی مقامات کی سیر بھی کر لیتے ہیں اور اُن کی نسبت سے حالات و واقعات سے آشنائی بھی پا لیتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ تلمیحات دامنِ اُردو سے لی گئی ہیں۔ اِسی طرح دوسرے نمبر پر وہ اساطیری تلمیحات لائے ہیں جن کا قدیم قصے، کہانیوں، لوک داستانوں اور افسانوی ادب سے تعلق ہے جن کی پرچھائیں پڑتے ہی پوری کہانی دیدہ و دل میں گھوم جاتی ہے۔ اُن میں رومانی داستانوں کی تلمیحات بھی شامل ہیں اور رزمیہ کہانیوں کے کردار بھی متضمِّن ہیں۔ چناں چہ اُن کا مطالعہ بھی ذہن و دماغ کو ایک خوب صورت مشق کراتا ہے۔ تیسری قسم دیومالائی تلمیحات کی ہے۔ مختلف اقوام و ملل اپنے لیے جن معبودان کا وجود بنائے حیات سمجھتی ہیں، اِس قسم میں اُن دیویوں اور دیوتاؤں کے تذکرے ہیں جنھیں بطورِ خاص بدھ مت، ہندومت اور یونانی دیومالا سے متعلق مافوق الفطرت طاقتیں شامل ہیں۔ اِسی طرح اِن میں داستانوی کردار مثلاً جن، بھوت، پریت، عفریت، دیو اور پریاں وغیرہ شامل ہیں۔ اِن تلمیحات کا مطالعۂ فکر انسانی کی واژگونیوں کی نقاب کشائی کرتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ حضرتِ انسان اِس قدر مہان ہونے کے باوجود کتنی نیچ اور پوچ حرکتیں کرتا ہے اور کن کن فرضی طاقتوں کو اپنا خدا بنا بیٹھتا ہے۔ انکار پر اُترتا ہے تو اپنے سچے خدا کا انکار کر بیٹھتا ہے اور ناصیہ سائی کی نوبت آتی ہے تو اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے بتوں کو معبود مان بیٹھتا ہے۔ تلمیحات کی چوتھی قسم بہ قول مؤلف کتبِ آسمانی کی تلمیحات ہیں۔ یہ وہ معروف واقعات، کردار یا مقامات ہیں جن کا چاروں الہامی کتابوں سے کسی میں حوالہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً انبیا علیہ السلام، فرشتے، جن، ابلیس، نمرود، فرعون، شداد اور ہامان وغیرہ۔ اِن تلمیحات کے زیرِ نظر آتے ہی آسمانی کتب سے پڑھے اسباق تازہ ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح پانچویں قسم کی تلمیحات ناقد کے نزدیک ذخیرۂ احادیث سے اخذ ہونے والی تلمیحات ہیں جن میں مقاماتِ مقدسہ، بطورِ خاص حرمین شریفین، غزوات و مقامِ غزوات، اَسمائے صحابہ، رواۃ فرامین، پیغمبر( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) اور اَسمائے کتبِ احادیث شامل ہیں۔ اِس نوع کی تلمیحات ہمیں عہدِ رسالت مآب ( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) میں لے جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم رسولِ اکرم نورِ مجسم( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) سے ہم مجلس ہو رہے ہوں۔ تلمیحات کی چھٹی قسم ناقد جی شخصی تلمیحات کے حوالے سے لائے ہیں یعنی مشہور و معروف شخصیات۔ چاہے وہ کسی شعبے اور کسی دور سے وابستہ ہوں۔ ساتویں نوعِ تلمیح میں کتابی تلمیحات شامل کی گئی ہیں۔ اِن سے مراد وہ تلمیحات ہیں جو الہامی کتب کے علاوہ اور ذخیرۂ احادیث سے ہٹ کر دوسری کتب میں شامل ہیں۔ اِن میں کسی مذہبی کتاب کا حوالہ بھی ہو سکتا ہے اور کسی سائنسی یا تاریخی کتاب میں موجود تلمیحات بھی ہو سکتی ہیں۔ آٹھویں قسم اُن تلمیحات کی ہے جو اجرامِ فلکی سے نسبت رکھتی ہیں۔ جنھیں مؤلف نے جرمی تلمیحات کا نام دیا ہے جیسے سورج، چاند، مریخ وغیرہ۔ نویں قبیلِ تلمیحات میں زمانی تلمیحات شامل ہیں جو وقت کی اکائیوں مثلاً رات، دن، مہینے، سال وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

بہر حال کچھ تیقن سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ناقدینِ عصر ہمارے تنقید نگار کی آراء سے کسی حد تک متفق ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اُس کے بیان میں ایک حد تک منطقیت کا عنصر نمایاں ہے۔ علمِ بیان کی رو سے حسنِ بیان کے جو قرائن ہیں، اِن میں تلمیحات بھی ایک جُزو لاینفک کے طور پر متضمن ہیں جن سے شاعر کا سخن خاصا وقیع و معتبر ہو جاتا ہے اور قاری کے لیے سامانِ دبستگی پیدا ہو جاتا ہے۔ ذرا مولانا الطاف حسین حالیؔ کا یہ شعر دیکھیے :

آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

چناں چہ شعرائے کرام چاہے متقدمین سے تعلق رکھتے ہوں یا متوسطین سے یا پھر اُن کا علاقہ زمرۂ متاخرین سے ہو، کبھی تلمیحات کے استعمال سے بے نیاز نہیں رہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ کچھ کے ہاں اِن کا التزام وفور سے ہوا ہے اور چند ایسے بھی ہیں جن کے ہاں یہ سلسلہ برائے نام پایا جاتا ہے۔ کتابِ ہٰذا کو یہ شرف حاصل ہے کہ اِس میں معروف شاعر فضاؔ اعظمی کے سب کے سب تیرہ مجموعہ ہائے کلام کو باری باری زیرِ نظر لا کر اُن کے ہاں استخدامِ تلمیحات کا جائزہ لیا گیا ہے اور پھر حاصلِ مطالعہ کو سپردِ خامہ و قرطاس کر کے ہدیۂ قارئین کر دیا گیا ہے۔

اپنا خیال یہ بھی ہے کہ اِس موضوع کو اُجاگر کرنے یا اِس پر کام کرنے میں سچے خادمِ ادب افشائے شعر و سخن کے دل دادہ کراچی کے من موہنے شاعر، شاعر علی شاعرؔ کا بھی ضرور عمل دخل ہے۔ اِس نوع کی دل چسپ حرکات و سکنات کے ذمے دار اکثر پائے گئے ہیں۔ یہ اُن کی جدَّت طرازی ہے یا جودتِ طبع، وہ ناقدینِ عصر کو دعوتِ فکر و عمل دیتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں عموماً بڑی دل چسپ تالیفات منصہ شہود پر آتی رہتی ہیں۔ ہم اِس موقع پر اُنھیں یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتے، بلکہ کلماتِ آفرین و تحسین اُن کے نام ارسال کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہماری جانب سے شاعرِ مندوب فضاؔ اعظمی، ناقد جناب شبیر ناقدؔ اور ناشرِ دل نواز شاعر علی شاعرؔ تینوں ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں جن کی کاوشیں اِس کتاب کے منظرِ عام پر آنے میں شامل ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ مالکِ القدوس، بھی اصحابِ قلم کو نئے نئے آفاق و امکانات، اصحابِ تحقیق کی مدارات کے لیے واشگاف کرنے کی توفیقاتِ بلیغ عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

تلمیحاتِ فضاؔ اعظمی

 

 

 

 

تلمیح کی تعریف

 

اصطلاحی طور پر صنعتِ تلمیح کی تعریف یہ ہے کہ شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلۂ مشہورہ، کسی قصے، مثلِ شئے، اصطلاحِ نجوم اور قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے یہ سمجھے اس کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے گا بعض لوگ اسے تملیح بھی کہتے ہیں لیکن یہ مناسب نہیں ہے اس لیے کہ تملیح میم کی تقدیم کے ساتھل پر شئے ملیح کے لانے کے معنی میں ہے جیسے تشبیہ و استعارہ میں کسی چیز کی طرف نظر کرنے کو کہتے ہیں پر یہ معنیِ خاص ہیں اس لیے شئے ملیح کا لانا عام ہے کسی شعر یا قصے یا مثل کی طرف نظر کرنے سے ہے ’’تلخیص المفتاح‘‘ میں تلمیح کو ان چیزوں کے ضمن میں لکھا ہے جو سرکاتِ شعری سے اتصال رکھتی ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے ’’اطوال‘‘ میں جو بیان کیا ہے سرکاتِ شعری کے ساتھ اس کو جمع کیا ہے تو جامع ان میں یہ ہے دونوں ان چیزوں میں سے ہیں جن سے مزید احتیاط واجب ہے پس رائے اُن لوگوں کی درست ہے جنھوں نے اسے صنائعِ شعر میں شمار کیا ہے۔

تلمیح کے تناظر میں حیدر علی آتشؔ کا شعر پیشِ خدمت ہے :

عاشق اُس غیرتِ بلقیس کا ہوں میں آتشؔ

بام تک جس کے کبھی مرغِ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں اشارہ ہے قصۂ بلقیس کی طرف جو مفصل کلامِ الٰہی میں مذکور ہے ہُدہُد کا خبر دینا اور حضرتِ سلیمان کا خطِ بلقیس والیہ ملکِ صبا تک پہنچانا اور بلقیس کا حاضر آنا یہ ایک مشہور واقعہ ہے۔

تلمیح کے ضمن میں ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں :

حکمِ خدا سے حق ہے اُدھر ہے جدھر علی

کیا غم ثقیفہ بندیِ جمِ غفیر علی

(امام بخش ناسخ)

ثقیفہ کا واقعہ یہ ہے کہ جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تجہیز و تکفین کا ابھی سامان ہو رہا تھا کہ اسی اثنا میں انصار بنی سعدہ کے چبوترہ جس کو ثقفیہ کہتے ہیں سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو جمع ہو گئے اس امر کی اطلاع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوئی یہ دونوں بزرگ حضرات ثقیفہ کو روانہ ہوئے اور وہاں جا پہنچے اور جب یہ دلیل بیان کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تھا ’’الآئمۃ من القریش‘‘ کہ کل امام قریش سے ہوں گے تو تمام انصار نے اس کو تسلیم کیا اور سب کی رائے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی مگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر موجود نہ تھے کیوں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تجہیز و تکفین کا سامان کر رہے تھے مذکورہ بالا شعر اس تلمیحاتی تناظر کا حامل ہے۔

 

 

 

 

علمِ بیان کی روحِ رواں

 

شعر و سخن میں علمِ بیان کی بدولت جو محاسن پائے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خوبی صنعتِ تلمیح بھی ہے جس کے باعث شاعر کا بیان بہت دل چسپ اور خوب صورت ہو جاتا ہے اور مدّعا نگاری کا عمل سہل تر ہو جاتا ہے جس سے افہام و تفہیم کے تقاضے بہ خوبی پورے کیے جا سکتے ہیں جس کی بدولت سخن ور کا ادراکاتی کینوس بسیط و بلیغ ہو جاتا ہے ترفع اور تنوع کے خصائص آشکار ہوتے ہیں اگر تمثیل کو علمِ بیان کی جان کہا جاتا ہے تو تلمیح اِس کی روحِ رواں ہے جس کی بدولت فکر کا حصار مضبوط تر اور منضبط ہو جاتا ہے کیوں کہ سخن گستر کی سخن گستری ایک روایتی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی، تاریخی، مذہبی عمرانی اور عالم گیر فکری اثاثے کی حامل ہو جاتی ہے۔

در حقیقت صنعتِ تلمیح ایک وسیع و عریض میدان ہے جو بسیط انواع و اقسام پر مشتمل ہے تلمیح کی تعریف عرفِ عام میں یوں کی جاتی ہے کہ جب اشعار میں کوئی مشہور تاریخی واقعہ، آیت یا حدیث مذکور ہو تو اُسے صنعتِ تلمیح کہا جاتا ہے ہم یہاں پوری گہرائی و گیرائی سے صنعتِ تلمیح کے بارے میں معلومات بہم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میدانِ شعر و سخن کا شناور، علم البیان کارسیا تلمیحات کے گراں قدر ذخیرے سے پورے طور پر آگاہ و آشنا ہو جائے۔

 

 

 

 

تلمیح کی تاریخ اور ارتقا

 

اِس بارے میں کچھ قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا کہ کس زبان کے کس شاعر نے سب سے پہلے اپنے سخن میں صنعتِ تلمیح کو برتا ہو گا تاہم ایک اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ عربی زبان جو قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے اور جس کے تہذیبی ارتقا سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا ہوا ہے کہ اہلِ عرب بے پناہ قوتِ حافظہ کے مالک تھے اور لکھنے پڑھنے پر کم ہی بھروسہ کرتے تھے انھیں اپنے آباء و اجداد کے شجرے زبانی یاد تھے اور حالات ماقبل سینہ بہ سینہ آگے چلتے تھے اور وہ انھیں بہ حسن و خوبی یاد بھی رکھتے تھے صاف ظاہر ہے کہ وہ لوگ آباء و اجداد کے قصوں اور واقعات سے زیادہ باخبر تھے اس ناتے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخِ اجداد کے یہ امین صنعتِ تلمیح کے استعمال میں بھی گویا سبقت لے گئے ہوں گے۔

صاحبِ زین القصص اور ابنِ اثیر مصنف کامل التواریخ وغیرہ ناقل ہیں کہ جب ابنائے آدم میں عناد پھیلا اور قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا تو حضرت آدم علیہ السلام نے بطور مرثیہ چند اشعار تصنیف فرمائے تھے جن میں واقعۂ کربلا کا مذکور تھا جسے مرثیۂ اوّل اور تلمیحِ اوّل پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اکثر شعرا کے کلام میں اس شعر گوئی کی تلمیح بھی پائی جاتی ہے علاوہ ازیں ایک اور واقعہ بھی مختلف روایات کا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ ہابیل کے قتل کے بعد مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ اُس کی لاش کا کیا کیا جائے جس کے ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک کوّے کو مشاہدہ کیا گیا جس نے اپنی چونچ سے زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنایا جس سے قبر کے تصور نے جنم لیا یوں اس واقعے کو بھی ایک تلمیحی حیثیت حاصل ہوئی جسے تلمیحِ دوم شمار کیا جا سکتا ہے۔

 

 

 

تلمیحات کی اقسام

 

صنعتِ تلمیح ایک جامع اور جاج دار موضوع ہے فکری اعتبار سے اس کی کئی جہتیں اور زاویے ہیں ہر سخن ور اپنے میلانِ طبع اور تسکینِ طبع کے لحاظ سے تلمیحات کا استعمال کرتا ہے جس میں اس کے سوانحی حالات و واقعات اور اس کی ترجیحات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ہم نے اپنی مطالعاتی زندگی میں یہ محسوس کیا کہ ابھی تک صنعتِ تلمیح کے حوالے سے کوئی باضابطہ کام نہیں ہوا ادب کا قاری اور اہلِ ادب اس کی مبسوط تفہیم نہیں رکھتے جس کے باعث اس کی مختلف حوالہ جاتی پہچان سے عاری ہیں صرف اس کی تعریف تک محدود رہنا علمِ بیان اور علمِ بدیع سے صریحاً زیادتی ہے اور لسانی متقضیات کے برعکس ہے اسی مقصدیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اِس کی تعریف کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اور افراط و تفریط کی آلائشوں سے اپنے دامن کو محفوظ رکھتے ہوئے ہم نے اس کی درجہ بندی کے عمل کو مدِ نظر رکھا۔ اِس کی کچھ اقسام وضع کی ہیں تاکہ اس کی فکری جہتوں کے اعتبار سے بازیافت کے عمل کو سہل تر بنایا جا سکے۔

تلمیحات کی اقسام:

تلمیحات کی اقسام حسبِ ذیل ہیں :

۱۔      مختلف خطوں کی تلمیحات

مختلف خطوں کی تلمیحات کے ضمن میں ہم نے صرف لسانِ اُردو سے لسانی تعلق رکھنے و الے خطوں کو شامل کیا ہے ان سے منسوب زبانوں کو اُردو کی اشتراکی زبانیں بھی کہا جاتا ہے مختلف خطوں کی تلمیحات کے تناظر میں ہم نے صنعتِ تلمیح کی اس قسم کو مزید تین اقسام میں منقسم کیا ہے جو درج ذیل ہیں :

الف۔   اہلِ عرب کی تلمیحات

ب۔    اہلِ فارس کی تلمیحات

ج۔     اہلِ ہند کی تلمیحات

۲۔      اساطیری تلمیحات

اساطیری تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جو قصے، کہانیوں اور افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔

۳۔     دیومالائی تلمیحات

اس زمرے میں وہ تلمیحات شامل ہیں جن کا تعلق مافوق الفطرت قصے، کہانیوں اور داستانوں سے ہے جن میں مافوق الفطرت عوامل کی عمل داری ہوتی ہے ان کی نسبت جنوں اور بھوتوں کے قصوں سے ہوتی ہے جنھیں قرینِ حقیقت خیال نہیں کیا جاتا۔

۴۔     کتبِ آسمانی کی تلمیحات

صنعتِ تلمیح کی اس قسم میں وہ تلمیحات شامل ہیں جن کا تعلق کتبِ آسمانی سے ہے جن میں قرآن مجید، انجیل، تورات اور زبور شامل ہیں ان تلمیحات کو الہامی حیثیت حاصل ہے۔

۵۔     ذخیرۂ احادیث کی تلمیحات

ان تلمیحات کا تعلق احادیث سے ہے اس نوع کی تلمیح میں کسی نہ کسی حدیث کی طرف اشارہ یا اُس کا حوالہ شامل ہوتا ہے۔

۶۔      تلمیحاتِ شخصی

تلمیحِ شخصی سے مراد ایسی تلمیح ہے جس میں زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں معروف شخصیت کا حوالہ مذکور ہو جو اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہو۔

۷۔     تلمیحاتِ کتابی

تلمیح کتابی ایک ایسی تلمیح ہوتی ہے جس میں کتبِ آسمانی کے علاوہ کسی اور مشہور کتاب کا ذکر ہو۔

۸۔     جرمی تلمیحات

جرمی تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جن کا تعلق علم النجوم یا اس کی اصطلاحات سے ہو یا پھر ایسے امور سے ہو جن کا تعلق اجرامِ فلکی سے ہو۔

۹۔      تلمیحاتِ زمانی

یہ ایسی تلمیحات ہوتی ہیں جن میں کسی مشہور زمانے یا دور کا ذکر یا حوالہ موجود ہو۔

 

 

 

اسلاف شعرا کے ہاں تلمیحاتی سرمایہ

 

اگر ہم کلاسیکی، نیوکلاسیکی اور عہدِ جدید کے شعری ادب کا تلمیحاتی تناظر میں بہ نظرِ غائر مطالعہ کریں تو ہمیں متقدمین کے ہاں تلمیحات کا ایک بحرِ ذخائر ملتا ہے۔ ہر استاد شاعر نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق کشتِ تلمیح کی خوب آبیاری کی اس حوالے سے قدما صحیح معنوں میں لائقِ آفرین ہیں جب کہ متوسطین کے ہاں بھی تلمیحاتی شعری رویہ متقدمین کی نسبت انتہائی کم ہے گویا میدانِ تلمیح میں قدما بازی لے گئے ہیں ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ متقدمین اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن کے صحیح معنوں میں امین تھے اور تلمیحی حوالے سے وسیع تر سرمائے کے حامل تھے اگرچہ معاصر شعرا کے ہاں بھی تلمیحاتی شواہد ملتے ہیں مگر ان سے متقدمین و متوسطین کے دور کی یاد تازہ نہیں ہوتی ہمارے عہد کے شعرا کو چاہیے کہ علمِ بیان اور علمِ بدیع کی اِس جان دار و جامع شعری صنعت میں ا پنی کشیدِ جاں کے جوہر دکھائیں اور اپنے کلام میں وہ ابلاغیت و سلاست اور فصاحت و بلاغت پیدا کریں جو اساسی شعری مقتضیات کا حصہ ہیں یہاں ہم طوالتِ تحریر سے گریز کرتے ہوئے مشتے از خوروارے کے بہ مصداق اساتذہ کے اشعار تلمیحاتی سرمائے کے طور پر سپردِ قرطاس کرتے ہیں :

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے

ہے زلیخاؑ خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

(مرزا غالبؔ)

ابنِ مریمؑ ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

(مرزا غالبؔ)

یہ کس رشکِ مسیحا کا مکاں ہے ؟

زمیں جس کی چہارم آسماں ہے

(خواجہ حیدر علی آتشؔ)

آ رہی ہے چاہِ یوسفؑ سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

(الطاف حسین حالیؔ)

کہے ہے مانی سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا

لکھی ہے صورتِ مجنوں کی لاغری جس میں

(مصحفیؔ)

بیڑہ بچایا آپ نے طوفاں سے نوحؑ کا

اب رحم واسطہ علی اکبرؓ کی روح کا

(میر انیسؔ)

کب نوحؑ کو یہ پیاس کا طوفاں نظر آیا؟

ایوبؑ کو کب گنجِ شہیداں نظر آیا؟

یعقوبؑ کو کب یوسفِؑ کنعاں نظر آیا؟

شبّیرؓ کو سب آج یہ ساماں نظر آیا

(دبیرؔ)

میں اپنے یار کو یوسفؑ سے کیوں کر دوں تشبیہ

کہ یہ ہے مہرِ لقا وہ ہے ماہ کا ٹکڑا

(شاہ نصیرؔ)

مرا ہے شیشۂ دل وہ پری خانہ صفا کیشو

نہ آئینہ سکندر کا نہ پہنچنے جام اُسے جم کا

(شاہ نصیرؔ)

گر تیرے تشنہ کام کو بے خضر مرتے دم

پانی وہ خشک چشمہ ہے آبِ حیات کا

(غلام مصطفی خاں شیفتہؔ)

چشمِ حیواں بنا اُسی کے لبوں کی شرم سے

پانی پانی بس کہ اعجازِ مسیحا ہو گیا

(حکیم مومن خان مومنؔ)

ہو سدا ابنِ علیؓ کے کس کا ایسا حوصلہ

جو رضائے حق میں دے نیچے چھری کے دھر گلو

(بہادر شاہ ظفرؔ)

جو تھک کر ناقۂ لیلیٰ سرِ ہاموں نہ ٹھہرے گا

اگر سو کوس ہو گا نجد تو مجنوں نہ ٹھہرے گا

(ابراہیم ذوقؔ)

نام یوسفؑ سے ہوا یعقوبؑ کا

یوں تو حضرت کے بہت بیٹے ہوئے

(اکبرؔالہ آبادی)

آپ کے دم ہی سے تھی بات کوئے عیسیٰؑ کی

خضرؑ کا راہنما ہے با خدا کون، کہ آپ

(داغؔ دہلوی)

گرچہ اسکندر رہا محروم آبِ زندگی

فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش

(علامہ محمد اقبالؔ)

یہ سب تھے عقلِ جرأت میں ارسطو اور اسکندر

مگر آرام سے لیٹے ہوئے تھے ناؤ کے اندر

(ابوالاثر  حفیظؔ جالندھری)

منحصر وادیِ سینا پہ نہیں

جذبِ موسیٰ ہو اگر طور بہت

(تلوک چند محرومؔ)

ہے وہی عارضِ لیلیٰ وہی شیریں کا دہن

نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے

(فیض احمد فیضؔ)

مخزنِ کلامِ اساتذہ میں سے چند نمونے کے اشعار جن سے تلمیحات کے بارے میں روشنی پڑ سکے بہ طور مثال پیش کیے ہیں امید ہے کہ قارئین انھیں پڑھ کر اندازہ لگا سکیں گے کہ صنعتِ تلمیح عالمِ شعر و ادب میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کی شاعری کا اجمالی تعارف

 

عقیل احمد فضاؔ اعظمی نے ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ ء کو ڈاکٹر حفیظ اللہ (مرحوم) کے گھر مشرقی یوپی کے شہر اعظم گڑھ میں آنکھ کھولی گھر کا ماحول علمی و ادبی اور مذہبی نوعیت کا حامل تھا ابتدائی تعلیمی مدارج اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ میں ہی طے کیے اور اعظمی کہلائے۔ بی اے کا امتحان نیشنل شبلی کالج اعظم گڑھ سے پاس کیا بعد ازاں ایم اے اور ایل ایل بی الہ آباد یونی ورسٹی سے کیا علاوہ ازیں فوٹو گرافی کا ڈپلومہ بھی الہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کیا۔

فضاؔ اعظمی پر شاعر ہونے کا انکشاف اُن کی عمر کے نویں یا دسویں سال ہوا جس کا اظہار انھوں نے اپنے چوتھے شعری مجموعے ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ مطبوعہ ۲۔ ۔ ۲ء میں شامل مضمون ’’میری شاعری کا پس منظر‘‘ میں کچھ یوں کیا ہے :

’’ابتدا کچھ اس طرح سے ہوئی کہ عمر نو یادس سال تھی، لکھنؤ میں ’’حمید منزل‘‘ نادان محل روڈ، آغا میر پارک میں ہم لوگ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ گرمیوں کی تاروں بھری رات تھی۔ بڑے بھائی انیسؔ احمد نے کہا: ’’ شعر کہہ سکتے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں ‘‘۔ بولے : ’’محبت پر شعر کہو‘‘۔ میں نے برجستہ کہا:

محبت کی حقیقت دم بدم معلوم ہوتی ہے

محبت اب تو جزوِ زندگی معلوم ہوتی ہے ‘‘

شعرِ مذکور سے اُن کی فطری شعری صلاحیتوں کی غمازی ہوتی ہے جس سے اُن کی فکری بالیدگی اظہر من الشمس ہوتی ہے گویا اُن کو شعری ذوق فطرت سے ودیعت ہوا علامہ شبلی نعمانی اور فضاؔ اعظمی کی جنم بھومی اعظم گڑھ کو ایک علمی و ادبی گہوارے کی حیثیت حاصل تھی۔ علامہ سید سلیمانؔ ندوی، جگرؔ مراد آبادی، خلیلؔ الرحمن اعظمی اور انجمؔ اعظمی جیسی جَیّد علمی و ادبی شخصیات کی صحبت فضاؔ اعظمی کو بچپن ہی میں میسر آئیں جن کے اثرات اُن کی شخصیات اور فکر و فن پر مرتب ہوئے جن کی بدولت اُن کے فکر و فن کی نمو ہوئی۔

والد کی وفات کے بعد سوانحی حوالے سے مصائب و آلام کی ایک طویل داستاں شروع ہوئی ’’ غیر تو غیر ہوا کرتے ہیں اپنوں نے بھی منہ موڑ لیا‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے بھائی انیس احمد، رئیس احمد، دو بہنیں صفیہ اور حمیرا بھی گھریلو ذمہ داریاں انھیں سونپ کر پاکستان آ گئیں یوں اُن کی زندگی کا پُر ملال دور شروع ہوا بوڑھی ماں، چھوٹے بھائی جمیل احمد، جلیل احمد اور بہن ذکیہ کی کفالت کی ذمہ داری بھی انھیں نبھانی پڑی بھارتی حکومت نے بھی انھیں جائیداد کے حوالے سے طرح طرح کے مقدموں میں الجھائے رکھا تاہم وکالت اور صحافت کے پیشوں سے وابستہ رہے۔

پاکستان آمد کے بعد تجارت کے شعبے سے منسلک ہو گئے ان کے ابتدائی دور کا کلام ان کے سوانحی کرب و ابتلا کی ایک رقت انگیز کتھا کی حیثیت رکھتا ہے جسے حالات و واقعات کے بھرپور ردِ عمل کا درجہ حاصل ہے جب معاشی حوالے سے استحکام میسر آیا تو ان کا فکری کینوس وسعتوں سے ہم کنار ہوا غمِ ذات، غمِ جاناں اور روایتی موضوعات سے رُستگاری نصیب ہوئی ان کا وجدانِ شعر عصری مقتضیات سے آشنا ہوا یوں انھوں نے ایک ارتقائی انداز میں ذات سے کائنات تک کی مسافتِ خار زار طے کی انھوں نے اپنے آپ کو اعلیٰ افادی اور مقصدیت آمیز اصولوں کے تحت پروان چڑھایا اس لیے اُن کے ہاں فنی حوالے سے کچھ انحرافی پہلو بھی پائے جاتے ہیں جو اُن کی جدت آمیز سوچ کا منطقی نتیجہ ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا اوّلین شعری مجموعہ ’’جو دل پہ گزری ہے ‘‘ ۱۹۹۶ء میں منصہ شہود پر آیا جیسا کہ نام سے ظاہر ہے فکری حوالے سے مجموعہ ہٰذا میں اُن کے عہدِ ماضی کی پرچھائیاں واضح طور پر مشاہدہ کی جا سکتی ہیں اس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں غزلیات میں عمومی، روایتی موضوعات کے پہلو بہ پہلو تغزل کی حاشیہ آرائی اور سرشاری بھی کار فرما ہے کتابِ مذکور میں کچھ نظمیات و فردیات بھی شامل ہیں نظموں میں زیادہ تر معریٰ نظمیں شامل ہیں ان کی نظموں کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہیئت پر فکر کو فوقیت بخشی ہے جو اُن کے نزدیک جدید زاویۂ فن ہے۔

ان کے مذکورہ شعری مجموعے کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں رقم طراز ہیں :

’’فضاؔ اعظمی کی شاعری کا کینویس یوں تو خاصا وسیع اور خارجی اعتبار سے مذہب و اخلاق سے لے کر ریاست وسیاست تک اور سفروہجرت سے لے کر خلوت و جلوت تک، گرد و پیش کی زندگی کا شاید کوئی منظر ایسا ہو گاجو فضاؔ کی شاعری میں جگہ نہ پا گیا ہو، لیکن ان سارے مناظر پر فضاؔ اعظمی کے باطن کی مہر لگی ہوئی ہے، یعنی انھوں نے شعر میں جو کچھ کہا ہے اس پر خارجی حادثات و واقعات کے اثرات سے زیادہ وارداتِ قلب کا رنگ نمایاں ہے اور سچ بات ہے کہ اسی وارداتی غلبے نے ان کے مجموعۂ شعر کی پوری فضا کو خوش گوار و دل آویز بنا دیا ہے۔ چناں چہ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں دونوں پر شدید احساس اور جذبے کی خنک چادریں تنی ہوئی ہیں۔ کسی بھی صنف اور کسی بھی ہیئت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ جذبہ واحساس کے تموّج کید ست گیری میں کہی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری زبان و بیان کی سادگی اور عاشقانہ پاکیزہ خیالی کے اعتبار سے کلاسیکی غزل کا رنگ رکھتی ہے۔ خصوصاً وہ کلاسیکی شعراء جن کے ہاں فلسفہ و حکمت کے بجائے تصوف اور اس کے لوازمات کے اثرات بہت نمایاں ہیں اور بہ حیثیت مجموعی جن کی شاعری کا رخ عاشقانہ شاعری کی طرف ہے، ان سب کا پر تو فضاؔ اعظمی کی شاعری کی تہ میں نظر آتا ہے۔ جگرؔ مراد آبادی اور حسرتؔ موہانی کا رنگ تو اتنا غالبؔ ہے کہ جگرؔ کی طرح فضاؔ اعظمی کی شاعری بھی کسی تشریح و لغت کی مدد کے بغیر اپنے والہانہ پن کے سبب دل میں اُتر تی چلی جاتی ہے۔ ‘‘

اُن کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۸ء ہے جو ایک طویل نظم ہے اور آزاد نظم کی ہیئت کی حامل ہے نظمِ ہٰذا پاکستان کی گزشتہ پچاس سال کی تاریخی داستان ہے جسے پاکستان کے نشیب و فراز کی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے جس میں مقصدیت اور رجائیت کا غالب عنصر کار فرما ہے اس نظم کے حوالے سے شاعرِ موصوف کا نقطۂ نظر نذرِ قارئین ہے :

’’اس نظم کا طائرانہ پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ لکھنے کے لیے تو ہزاروں صفحے بھی ناکافی ہو سکتے ہیں ان چند صفحوں میں صرف اشارے ہی کیے جا سکتے ہیں اور صرف چیدہ چیدہ واقعات ہی کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو شاعر کی نظر میں اہم ترین ہیں یا جو مختلف ادوار میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘

نظمِ مذکورہ کے حوالے فضاؔ اعظمی کی رائے ملاحظہ کرنے کے بعد عشرتؔ رومانی کے تاثرات زیبِ قرطاس ہیں :

’’جناب فضاؔ اعظمی کی اس طویل نظم میں آبشار کی سی روانی ہے جو پاکستان کی تاریخ کو رواں رکھ کر صحیح تناظر میں ساحلِ اُمید دکھاتی ہے اس نظم میں رجائیت کے پہلو ہیں جس کا اختتام شاعرِ مشرق کے زریں افکار پر ہوتا ہے جس کے سبب دل میں روشنی ہوئی ہے امید اور نا اُمیدی کی کشمکش اور خیر و شر کی رسہ کشی کے پسِ پردہ عوامی بقا کی جنگ نظر آتی ہے جو گزشتہ پچاس سالوں سے زندگی کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے اس جنگ میں کرسی کی حیثیت حصولِ اقتدار کی علامت ہے جو وطنِ عزیز کی تاریخ پر مسلط ہے اس عرصے میں ایک نئی نسل جوان ہو کر ادھیڑ عمر کی جانب آ گئی ہے مگر حالات جوں کے توں اور عوامی سوچ پر دھند چھائی ہوئی ہے کوئی شک نہیں کہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے اس نظم میں سیاست دانوں اور عوام کے لیے بہت کچھ ہے بشرطے کہ ’’شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے مری بات۔ ‘‘

فضاؔ اعظمی کا تیسرا شعری مجموعہ ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ ہے جس کی طباعت ۲۰۰۱ء میں عمل میں آئی جو ایک آزاد نظم کی ہیئت میں ایک طویل نظم ہے جس کے تیرہ ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں جو ایک سو تیرہ بندوں پر مشتمل ہے جن کی بدولت نظم میں ایک ربط و ضبط کی بھرپور فضا قائم ہوئی ہے اور تفہیم کے تقاضے بھی سہل تر ہو گئے ہیں۔

یہ نظم درحقیقت عصری بے حسی کے حوالے سے صدائے خارا شگاف ہے جو خود میں تاثیرات کے فزوں تر تلازمات سموئے ہوئے ہے ایک بھرپور آدرش ہے جس کا تاثر لازوال و لا ابدی ہے۔ اجتماعی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی مؤثر کوشش کی گئی ہے۔

’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی کی رائے شاملِ شذرہ ہے :

’’فضاؔ اعظمی کے اسلوب میں خود داری اور خود اعتمادی کا جو عنصر ہے، وہ بالکل ان کا اپنا ہے۔ ان کے بیان میں رجائیت ہے۔ وہ ایک حقیقت پسند شاعر ہیں۔ وہ حقیقت کے اظہار میں کسی بھی طرح کے ذہنی پس و پیش کو روا نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا لہجہ راز داری کا لہجہ نہیں بلکہ عام اور برملا گفتگو کا لہجہ ہے۔ ان کی اس نظم میں معنی کی کوئی پیچیدگی نہیں، تخیل آفرینی ہے۔ فضاؔ اعظمی کی ایک خصوصیت ان کی سچائی ہے، دوسرے ان کی سادہ اور عام فہم طرزِ ادا ہے جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اخترؔ شیرانی کی نظمیں ہمیں رنگین وادیوں اور گنگناتے ہوئے لالہ زاروں میں پہنچا دیتی ہیں لیکن فضاؔ اعظمی اپنے شعور کی بنا پر اپنے سامنے پھیلی ہوئی کائنات کو بھی چھوتے ہیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے ان کے ہاں اندازِ بیاں کی تازگی ملتی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے فضاؔ اعظمی کی اس طویل نظم میں کوئی ڈرامائی عنصر یا حسن و عشق کی کہانی نہیں بلکہ شعور کی رو ہے جس میں مسلسل و مربوط احساسات و تخلیقات ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں تلخی، بے زاری اور خشونت نہیں، ان کے خیالات میں بلندی اور پاکیزگی ہے۔ وہ بنیادی طور پر انسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کے سینے میں انسانیت کا درد ہے۔ مجھے امید ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی نظم ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ خاطرخواہ داد و تحسین حاصل کرے گی۔ ‘‘

’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ فضاؔ اعظمی کا چوتھا مجموعۂ شعر ہے جو ۲۔ ۔ ۲ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے جس میں غزلیات و متفرقات شامل ہیں ان کی غزل خود میں عمومیت کا حسن سموئے ہوئے ہے جس میں روایت کی چاشنی بھی ہے اور تغزل کی سی سرشاری بھی ہے کہیں کہیں جدید فکری امکانات و رجحانات اور میلانات بھی آغوش کشا نظر آتے ہیں عصری روئیے بھی ہیں اور رجائی پیرایۂ اظہار بھی ہے اسلوب کی سادگی و شائستگی، سلاست و روانی ایک خاص فضا قائم کیے ہوئے ہے زبان و بیان کا اُجلا اور نکھرا ہوا معیار کارفرما نظر آتا ہے آسان شعبدوں کا استعمال بھاشا کی سندرتا اور کو ملتا کا آئینہ دار نظر آتا ہے ان کا پیرایۂ اسلوب کہیں بھی گنجلک نظر نہیں آتا بہت سے نازک مواقع پر انتہائی خوشی سلیقگی سے درویشانہ گزر جاتے ہیں گویا اُن کی غزل کو مدّعا نگاری کا حسین قرینہ کہا جا سکتا ہے۔

فضاؔ اعظمی کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں :

’’فضاؔ اعظمی کی غزل میں معاشرے کا خارجی وجود بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اس خارجی وجود پر وارد ہونے والے واقعات، حادثات اور سانحات کا ادراک بھی کیا ہے، اور انھیں اپنی ذات کے پاتال میں تجربات کی صورت میں اُترنے کا موقع بھی دیا ہے۔ وہ اپنے وقت کے نقاد بھی ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی تنقید ان کے اشعار میں داخل ہو کر کایا کلپ کر لیتی ہے، اور پھر ایک نئے پیکر کی صورت میں رونما ہوتی ہے۔ اس وقت یہ تنقید اس آنکھ کا کام دیتی ہے، جو دوبارہ زمانے کی طرف دیکھ رہی ہے، جب کہ زمانے کا عالم یہ ہے کہ وہ خود اپنے تجربات سے کچھ حاصل نہیں کرتا، اور تاریخ کا خونیں چکر ہر دور میں نئے انداز میں گھماتا اور خلقِ خدا کو پیستا چلا جاتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کے تجرباتِ زیست میں شکستگی کا عنصر موجود ہے، لیکن یہ شکستگی ایک نئے جمال سے آشکار ہوتی ہے، اور ان کا اندازِ کبریائی اس میں تعمیر کا نیا اسلوب شامل کر دیتا ہے۔ چناں چہ شکستگی کے خلاف جب ایک مثبت رویہ اُبھرتا ہے، تو فضاؔ اعظمی رزمِ حیات میں ’’جلال آرا‘‘ نظر آتے ہیں، اس قسم کے بیشتر مقامات پر ان کا رخ زمانے کی طرف ہے، اور ان کے تجربات کا حاصل بے دریغ تقسیم ہوتا، اور انتباہ کا مثبت زاویہ اُبھارتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘

فضاؔ اعظمی کا پانچواں مجموعۂ کلام ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۳ء ہے جو چودہ ذیلی عنوانات اور ایک سوچودہ بندوں پر مبنی ہے آزاد نظم کی ہیئت میں لکھی گئی یہ طویل نظم پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے جس میں تنقیدی رویہ بھی شامل ہے اور کچھ اصلاحی پہلو بھی مضمر ہیں بھارت قیادت کے لیے ایک بھرپور استفسار یہ بھی ہے جس میں تفہیم کے تقاضے بھی نبھائے گئے ہیں اور ایک مؤثر اشاریہ کے ذریعے مقصدیت کو اُجاگر کیا گیا ہے پاک بھارت عوام کو اپنی قیادتوں کو سمجھنے کی ایک سعیِ مشکور بھی کی گئی ہے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک سنگِ میل کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

مذکورہ بالا نظم کے حوالے سے معروف نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی رائے حسبِ ذیل ہے :

’’فضاؔ اعظمی کی نظم نے جہاں تک میں اس نظم کا مطالعہ کر سکا ہوں پُر امن بقائے باہمی کے اعلیٰ تر مقصد کی بڑی خوب صورت ترجمانی کی ہے اور وہ لائقِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے برِصغیر کی سیاست کے اس پُر آشوب دور میں امن اور سلامتی کے چراغ جلائے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی نظم ہر لحاظ سے ایک کامیاب کوشش ہے۔ ‘‘

اُن کا چھٹا مجموعۂ کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ مطبوعہ ۲۔ ۔ ۴ء ہے آزاد نظم کی ہیئت میں یہ ایک طویل نظم ہے جو بارہ ذیلی عنوانات اور دو سو بائیس بندوں پر مبنی ہے فضاؔ اعظمی عالمی تاریخ کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں قوموں کے نشیب و فراز کی داستانیں اُن کے شعور کا حصہ ہیں عالمی استعماری طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے بہ خوبی آشنا ہیں نظمِ ہٰذا کا تخاطب عالمی قیادت کا زعم رکھنے والا ملک امریکہ سے ہے امریکی کارستانیوں کو بیانیہ انداز میں منظوم کیا گیا ہے جہاں امریکہ کی عالمی نا انصافیوں اور زیادتیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے وہاں امریکی قیادت اور عوام کو ایک خوش آیند عالمی منشور سے بھی روشناس کیا گیا ہے اس لیے اُن کی یہ نظم عالمی اہمیت کی حامل ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی فلاح کے اجتماعی مقصد کو پیش کیا گیا ہے۔

اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم فرخی کی رائے پیشِ خدمت ہے :

’’فضاؔ کی یہ نظم بڑی پُر تاثیر ہے، الم انگیز حقائق پر مبنی ہے، بڑے غور و فکر کے بعد لکھی گئی ہے، تاریخِ عالم کے ماہرانہ مطالعے کے بعد لکھی گئی ہے۔ شاعر نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر ماہرانہ نظر ڈالی ہے۔ اِس نظم کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاریخ صرف سنہرے کارناموں کی تفصیل نہیں، پسپائی، ہزیمت اور اغلاط و زوال کا مرقع بھی ہے۔ اِس سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے اور مستقبل کا لائحۂ عمل بھی مرتب ہوتا ہے۔ ‘‘

’’خاک میں صورتیں ‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۶ء اُن کا ساتواں مجموعۂ کلام ہے جو مسدس کی ہیئت میں ہے جس کو صنفِ نازک کی زندگی کے سفر کی ایک تاریخی و ارتقائی دستاویز کی اہمیت و حیثیت حاصل ہے نظمِ ہٰذا چودہ ذیلی عنوانات پر مبنی ہے جنھیں اسباق کا نام دیا گیا ہے اس کے بندوں کی تعداد دو سو چونسٹھ ہے اس نظم میں تاریخی تناظر میں مختلف النوع، مذاہب اور تہذیبی و تمدنی اعتبار سے عورت کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے ازمنۂ رفتہ میں عورت کے ساتھ جو ناروا اور امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے اس کو رقت آمیز شعری پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اُن کے افکار کا رنگ مذہبی بھی ہے جدید اور روشن امکانات کا حامل بھی ہے جس میں انسان دوستی کا حسین آدرش پنہاں ہے اور عالمِ آب و گِل میں عورت کے مقام و مرتبے کو واضح کیا گیا ہے۔

کتابِ ہٰذا کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک کی مختصر رائے ملاحظہ کریں :

’’طویل مقصدی نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں مولانا الطاف حسین حالیؔ کی اصلاحی اور احیائی شاعری کا فیضان نمایاں ہے۔ یہ مماثلت صرف مسدس کی ہیئت تک محدود نہیں ہے، شاعر کے طرزِ فکر و احساس کی بدولت دل و دماغ میں ’’مسدس مدو جزرِ اسلام‘‘ کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ‘‘

فضاؔ اعظمی کا آٹھواں شعری مجموعہ ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۹ء ہے اس نظم میں تیئس ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اگرچہ اس نظم میں فنی حوالے سے کچھ انحرافی پہلو بھی ہیں مگر یہ نظم علوئے فکر کا حسین شاہکار ہے اس نظم کے ذیلی عنوانات کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ فضاؔ اعظمی مثبت اقدار کے نہ صرف علم بردار ہیں بلکہ مشعل بردار بھی ہیں اس نظم میں تاریخی و تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے بنی نوع انسان کے اجتماعی کردار کا فطری اور غیر جانب دارانہ تنقیدی جائزہ ملتا ہے جس میں انسان کے حقیقی کردار کی تصویر درد ناک اور دل دوز پیرایۂ بیان میں پیش کی گئی ہے ان کے فحوائے بیان میں سوز و گداز بھی ہے اور حقیقت پسندی کا غالب عنصر بھی کارگر نظر آتا ہے اس نوع کی نظمیں بنی نوعِ انسان کے لیے ذریعۂ اصلاح بھی ہیں اور سبیلِ فلاح بھی ہیں اس نظم نے مسدس مد و جزرِ اسلام اور شاہنامۂ اسلام جیسی عظیم الشان نظموں کی یاد تازہ کر دی ہے عصرِ حاضر کے مقصدی ادب میں یہ نظم گنجِ گراں مایہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے ہر عہد میں سراہا جاتا رہے گا۔

اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مختصر تاثرات سپردِ قرطاس ہیں۔

’’فضاؔ اعظمی نے آج کے زمانے کی نئی منظوم تاریخ لکھی ہے جس میں ماضی کا عکس ہے اور جو حال کا آئینہ ہے۔ لہولہان شخصیت، جذبات اور حالات کو پڑھ کر روح تک بلبلا اٹھتی ہے۔ یہ مثنوی قیامت خیز دھماکے کے مماثل ہے جسے پڑھ کر دل دہل اٹھتا ہے اور احساس کچو کے لگاتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کے اس شہ پارے میں کشاکش ہے، انکشاف ہے اور ماضی، مستقبل اور خصوصیت سے حال کی فکری وحدت ہے۔ ساتھ ہی دورِ حاضر کے انسان کے بہروپیے پن کی عکاسی ہے۔ لیکن اس میں شاعری کے سارے لوازمات بھی ہیں۔ الفاظ کا طنطنہ ہے، بندش کی چستی ہے، تازہ دم تشبیہات و استعارات ہیں۔ معنی کی تہوں میں تہ داری ہے، سادگی، راستی اور وابستگی ہے، ساتھ ہی امتزاجی کشید کے انفرادی روئیے ہیں، تنوع اور ترسیل کی کشادہ دامنی ہے، اور نئی جہت کے اضافے بھی ہیں۔ ‘‘

اُن کا نواں مجموعۂ کلام ’’شاعر، محبوب اور فلسفی‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۰ ء ہے جس میں کرداروں کی تثلیث ہے اور مکالماتی فضا ہے اور یہ مکالماتی انداز اقبالؔ کے ہاں بھی پایا جاتا ہے اس سہ کرداری نظم میں ہر کردار نے اپنے آپ کو بھرپور انداز میں باور کرانے کی کوشش کی ہے اس لیے ان کے مکالمات بھی تندرست و توانا ہیں جن میں تاثیرات کے فزوں تر کوائف ملتے ہیں بہر حال فضاؔ اعظمی کی یہ نظم ان کے تخیلاتی کینوس کا حسین مظہر ہے جس کے تاثرات لازوال و دائمی ہیں جن کی چکا چوند کبھی ماند نہیں پڑے گی۔

اس کتاب اور اس نظم کے حوالے سے سردار زیدی کی مختصر رائے طالبِ التفات ہے :

’’فضاؔ اعظمی کی شاعری عمومی طور پر غنائیت سے معمور ہے لیکن ان کی یہ طویل نظم خصوصی طور پر دل کش موسیقیت کی حامل ہے یہ ایک فکری نظم ہے جو روایتی دانش اور استعارات سے مربوط ہے نظم مجموعی طور پر رواں دواں اور خوش آہنگ ہے اور اس میں لہجے کے توازن اور نظم کی ہیئت کو آخر تک برقرار رکھا گیا ہے۔ ‘‘

فضاؔ اعظمی کا دسواں شعری مجموعہ ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ مطبوعہ ۲۔ ۔ ۳ء ہے جو تاریخِ عالم کے تناظر میں لکھی گئی ہے جس میں مختلف تہذیبوں کا تمدنی مطالعہ ملتا ہے نظمِ ہٰذا کو مختلف ذیلی عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے۔ ان کے طرزِ اظہار میں غم و سوز کی ایک شدید لہر موجزن ہے جس کا بھرپور تموّج قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اس خوبی سے اندازہ ہوتا ہے کہ فضاؔ اعظمی ایک درد مند دل رکھتے ہیں انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود کے جذبوں کے امین ہیں تاریخ کے تاریک اوراق کے مطالعے سے اُن کا دل کڑھتا ہے اس درد انگیز فضا میں وہ اپنے قاری کو بھی ہم نوا بنا لیتے ہیں یہ نظم ہر عہد میں مطالعاتی تقاضوں کی حامل رہے گی اور اس کا تاثر فزوں تر ہوتا رہے گا۔

اس نظم کے حوالے سے باقر نقوی کی مختصر رائے حسبِ ذیل ہے :

’’فضاؔ اعظمی نے بھی ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ لکھنے میں مثنوی کے مروجہ فارم کو اختیار نہیں کیا انھوں نے جان بوجھ کر اس میں دلیرانہ توڑ پھوڑ کی ہے اس مثنوی کو میں پچھلی صدی اور اس صدی کے کئی برسوں کا آشوب کہوں گا اس لیے کہ اس کے ہر مصرعے میں گزرتے ہوئے وقت اور واقعات کا نوحہ کہا گیا ہے اور حالات پر بددعا یا ملامت کی گئی ہے اس میں مجھے وہ امید پوشیدہ نظر آتی ہے جو مجبوروں کو اپنی زنجیریں توڑ کر اٹھ کر کھڑے ہونے کی ہمت دلاتی ہے۔ ‘‘

’’آئینہ امروز و فردا‘‘ مطبوعہ ۲۔ ۔ ۴ء فضاؔ اعظمی کا گیارہواں مجموعۂ کلام ہے جس میں غزلیات و نظمیات اور قطعات و متفرقات شامل ہیں نظموں میں پابند، معریٰ اور آزاد نظمیں شامل ہیں اُن کے اشعار عصری بے حسی کے خلاف ایک مؤثر آواز کا درجہ رکھتے ہیں جن میں عصری اور تنقیدی روئیے وفور سے ملتے ہیں نظموں میں انفرادیت گریز پا نظر آتی ہے اور اجتماعیت صحت مند و توانا معلوم ہوتی ہے ایک عالمی شعور ہے جو بین السطور ہے جن سے اُن کے عالمی نقطۂ نظر کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے تاریخی و تہذیبی ادراکات عند البیان کارگر نظر آتے ہیں۔

مجموعۂ مذکورہ کے حوالے سے مبین مرزا کے تاثرات قابلِ ذکر ہیں :

’’زندگی اور اس کے روزمرّہ تجربات میں بڑھتی ہوئی یاسیت اور افسردگی کا یہ ردِ عمل ہے جو فضا اعظمی کے فن میں شگفتگی کے اس عنصر کو راہ دے رہا ہے۔ اصل میں عصری زندگی اور اس کے مسائل و حقائق اُن کی توجہ کا مرکز ہمیشہ سے رہے ہیں اور یہی اُن کی شاعری کے بنیادی موضوعات متعین کرتے رہے ہیں۔ اُن کے ہاں اِن حقائق اور مسائل کے خلاف ردِ عمل تو بے شک ظاہر ہوا ہے لیکن اس ردِ عمل میں کبھی زندگی سے مایوسی اور بے زاری کا اظہار وہ نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو ان کا فن لایعنیت کے رد میں شگفتگی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو اُنھوں نے اپنی فکر کو بیان ہمیشہ سنجیدہ پیرایے میں کیا ہے، لیکن آج کی زندگی کا تجربہ اس درجہ اعصاب شکن ہے کہ اُس کو قابلِ قبول بنانے کے لیے فضا اعظمی نے ضرورت محسوس کی کہ اس میں شگفتگی سے کام لیا جائے۔ شاید اس لیے کہ انسانی ذہن و دل میں آکسیجن کی مطلوبہ سطح کو برقرار رکھنے کے لیے آج اس کی واقعی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں شگفتگی کا یہ عنصر فن میں اس بار نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ گویا اس روئیے سے بھی شاعر کے شعورِ زندگی اور اس کے مطالبات کے ادراک کا اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘

آئینہ امروز و فردا کے حوالے سے شاعر و نقاد جسارتؔ خیالی رقم طراز ہیں :

’’فضاؔ اعظمی کا شمار اُن نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے اُردو کلاسیکی شعری روایت کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے وہ فکری طور پر دردِ انسانیت رکھنے والے انسان ہیں اس لیے وہ زندگی کُش رویوں سے ہٹ کر انسان سے محبت کا دم بھرتے ہیں اور خزاں رسیدہ چمن زندگی میں فعل گل کے متمنی ہیں تاکہ زندگی پُر بہار نظر آئے حسرتؔ موہانی اور جگرؔ مراد آبادی سے متاثر ہونے کے باوجود شعری ادب میں اپنا منفرد اُسلوب اور شناخت رکھتے ہیں اُن کی شاعری میں ہجرت کا کرب اور موجودہ سلگتے ہوئے عہد کا نوحہ بھی ہے خیالات کی ندرت بھی، لطافت و نزاکت بھی، موسیقیت، شگفتگی اور نغمگی کے ساتھ ساتھ رومانویت کا رچاؤ بھی ہے جمالیاتی اور صوفیانہ پن کے ساتھ ساتھ رجائیت بھی نمایاں ہے زبان و بیان میں حلاوت اور لہجے میں نرماہٹ ہے اس لیے اُن کی شاعری پُر درد اور پُر اثر ہے۔ ‘‘

اُن کا بارہواں مجموعۂ شعر ’’خوشی کی تلاش میں ‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۶ء ہے نظمِ معرّیٰ کی ہیئت کی حامل اس طویل نظم کو مختلف ذیلی عنوانات میں پیش کیا گیا ہے فضاؔ اعظمی نے دراصل اس نظم میں خوشی کو عالمی منشور کے طور پر پیش کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے اور اسے عالمی مصائب و آلام کا مداوا قرار دیا ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی فلاح کے بسیط پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جس میں بہتر زندگی کی تلاش کا عملِ زرّیں مضمر ہے۔

اس نظم کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کی رائے ملاحظہ کریں :

’’آج انسان تباہی و بربادی کے جس ہول ناک جہنم کے دہانے کھڑا ہے وہ روایتی علم و فن کی حدود سے بہت آگے کی بات ہے اس کے لیے یقیناً ایسی پروازِ خیال، ایسی الہامی فکر کی ضرورت ہے جو وقتِ موجود کی فہم و دانش، فلسفہ و فن کو پس پشت ڈال کر نئے ڈھب سے ان مسائل کے حل کی راہ نکال سکے دوسرے الفاظ میں اس دشوار وادی میں سفر کرنے کے لیے شاعرانہ سرمستی اور آزاد خیالی کی اشد ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اس گمبھیر اور اچھوتے نقطۂ نظر کا پرچار کرنے کے لیے میں نے صنفِ شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے اس اعتبار سے اس کاوش کو اوّلیت کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۳ء فضاؔ اعظمی کا تیرہواں اور تا حال آخری مجموعۂ شعر ہے جو مسدس کی ہیئت میں ہے جس میں خوشی کو فلسفۂ حیات کے طور پر جدید تناظر میں پیش کیا گیا ہے اس نظم کو مزید ذیلی عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے جن میں زندگی کی مختلف حوالوں سے ترجمانی اور نمائندگی کی گئی ہے جس میں خوشی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جو روحِ رواں کا درجہ بھی رکھتی ہے اس نظم کے اجتماعی تاثر سے یہ حسیں انکشاف ہوتا ہے کہ بنی نوعِ انسان کے مسائل کا حل اور حقیقی سرشاری و سرمستی کا راز صرف خوشی میں ہی پنہاں ہے اس نظم میں ایک رجائی نقطۂ نظر اختیار کیا گیا ہے جو ہر عہد میں خوش آئند اور مستحسن رہے گا اور یوں ہی اس کی افادیت و فوقیت فزوں تر ہوتی رہے گی۔

اس حوالے سے پروفیسرڈاکٹرپیرزادہ قاسم رضا صدیقی کی رائے لائقِ اعتنا ہے :

’’فضا اعظمی کی دو نئی نظمیں ’’خوشی کی تلاش‘‘ اور ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ اس موضوع کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دیکھا جائے تو خوشی روزِ ازل سے آج تک انسانی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر فلسفیوں نے قلم اٹھایا اور دُنیا کی مختلف تہذیبوں اور مختلف ادوار میں الگ الگ انداز سے نظریات و تصورات کی بنیاد رکھی گئی ہے، لیکن یہ موضوع آج بھی اہم ہے، بلکہ شاید پہلے سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ خوشی وہ شے ہے جس کے لیے اس دور کا انسان پہلے کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سرگرداں ہے اور اُسے آج اس کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی ضرورت اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے فضا اعظمی نے اس خوشی کی تلاش اور اُس کے حصول کی کوشش کو ایک تحریک کے طور پر شروع کرنے کی بات کی ہے، یعنی یہ وہ کام ہے جس کے لیے تہذیبی، سیاسی اور سماجی سطح پر مقصد بنا کر جد و جہد کرنا چاہیے، اسی لحاظ سے وہ اپنی اس کاوش کو ایک تحریک کا نام دیتے ہیں۔ یہ تحریک کس حد تک چل سکتی ہے ؟ کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے اور اس کا فیصلہ بھی آنے والا وقت کرے گا۔ البتہ ایک فن کار کی حیثیت سے آج کے انسان کی زندگی کے لیے انھوں نے جو خواب دیکھا ہے اور جو خواہش کی ہے، وہ یقیناً قابلِ قدر اور لائقِ ستائش ہے۔‘‘

شذرہ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی کے شعری سرمائے کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا اور ان کے اب تک شائع ہونے والے تیرہ شعری مجموعوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے راقم کی آراء کے علاوہ دیگر ناقدینِ فن کی آراء بھی شامل کی گئی ہیں جو تنقیدی زاویوں کا حصہ ہیں کتابِ ہٰذا کا مقصدِ اولیٰ فضاؔ اعظمی کے کلام کے حوالے سے اُن کے تلمیحاتی افق پر روشنی ڈالنا ہے آمدہ شذرات میں اس حوالے سے مفصل انتقادی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

 

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کا سخن تاریخی تلمیحات کے تناظر میں

 

قبل ازیں ہم تلمیحات کی اقسام کی تعریفات کے ضمن میں لکھ چکے ہیں :

’’تلمیحاتِ تاریخی سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جن میں کسی مشہور تاریخی واقعے کو نقل کیا گیا ہو یا اس نسبت سے کوئی اشارہ یا حوالہ دیا گیا ہو۔ ‘‘

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو سخن ور تاریخِ عالمِ کے بسیط مطالعہ و ادراک کا حامل ہو گا اس کے فحوائے سخن میں تاریخی تلمیحاتی سرمایہ فزوں تر ہو گا اس حوالے سے شاعر کی اُفتادِ طبع کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ علمِ بیان کی روشنی میں صنائع بدائع کا استخدام سخن گستر کے شعری مزاج کا مرہونِ منت ہوا کرتا ہے لیکن اس حوالے سے موضوعاتی مقتضیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ایک فطری امر ہے کہ جس سخن دان کی موضوعاتی وسعت جتنی فزوں تر ہو گی اُس کے ہاں مدعا نگاری کا ایک بسیط قرینہ بھی ہو گا تو اُس کے ہاں تلمیحاتی شواہد وفور سے پائے جائیں گے کیوں کہ علمِ بیان کے مطابق تلمیحات کا بر موقع استعمال شاعر کی مدعا نگاری کو سہل تر بناتا ہے اور اسے تقویت بھی بخشتا ہے جن اہلِ سخن کی طبعِ شعر تاریخی و تہذیبی، سماجی و ثقافتی، عمرانی اور بین الاقوامی موضوعات سے ہم آہنگ ہو گی تو اس کے ہاں تاریخی تلمیحات کا سرمایہ وافر ہو گا۔

فضاؔ اعظمی کا کلام اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں کچھ عالم گیر فکری زاویے ملتے ہیں خصوصاً اُن کی نظم فکری اعتبار سے بین الاقوامی معیار و اعتبار کی حامل ہے وہ تاریخِ عالم کا عمیق مطالعہ رکھتے ہیں قوموں اور تہذیبوں کے نشیب و فراز کو بہ نظرِ غائر دیکھتے ہیں ان کی نگاہِ ژرف بیں کا کمال یہ ہے کہ اُن کے کلام میں ایک عالمی شعور کارفرما نظر آتا ہے اپنی دقتِ نظر کے باعث وہ تاریخ کے اہم حالات و واقعات سے نہ صرف واقفیت رکھتے ہیں بلکہ انھیں اپنے قاری کے لیے بھی پیش کر دیتے ہیں اس لیے اُن کی نظم میں تاریخی تلمیحات کا وفور نظر آتا ہے جن کی بدولت تاریخی تناظر تن درست و توانا معلوم ہوتا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے تیرہ مجموعہ ہائے کلام جن کا ذکر اُن کی شاعری کے اجمالی تعارف میں بھی آ چکا ہے کا صرف تاریخی تلمیحات کے حوالے سے تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے کوشش رہے گی کہ تلمیحات کے پہلو بہ پہلو اُن کے دیگر فکری و فنی زاویوں کو آشکار کریں تاکہ ایک جامع تنقیدی تاثر بہ خوبی پیدا کیا جا سکے تاہم صنعتِ تلمیح جسے موضوعی اہمیت حاصل ہے کو مقدم رکھا جائے گا یوں اس طرح موضوع کو فوقیت حاصل رہے گی۔

فضاؔ اعظمی کا اوّلین شعری مجموعہ ’’جو دل پہ گزری ہے ‘‘ جس میں بیشتر غزلیات شامل ہیں، میں سے تاریخی تلمیح کے ضمن میں اُن کی غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے :

رسوائی کسی کی تھی منصور کی حق گوئی

یوں رازِ محبت کے کہنے کی سزا پائی

شعرِ ہٰذا میں شاعرِ موصوف نے تاریخی تلمیح کا التزام فکری حوالے سے ایک فلسفیانہ قرینے سے کیا ہے جس سے اُن کی پیش کش کا اندازِ عمیق، حسیاتی اشارہ ثابت ہوا ہے۔ اس طرح اُن کا نقطۂ نظر سامنے آ گیا ہے چناں چہ اُن کے پیرایۂ شعر میں جدت و ندرت کا رنگ نمایاں ہوا ہے۔

مذکورہ بالا شعر میں منصور کی جو تاریخی تلمیح استعمال کی گئی ہے اسے کچھ شعرا نے منصوریت کے طور پر بھی باندھا ہے اگر جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہلِ عرب کی تلمیح ہے کیوں کہ اس تلمیح کی جنم بھومی خطۂ عرب ہے بعد ازاں اس تلمیح کو فارس اور ہند کے شعرا نے بھی اپنے کلام میں برتا۔ منصور جس کا اصل نام منصور بن حلاج تھا، سے ایک مشہور تاریخی واقعہ منسوب ہے۔ منصور بن حلاج تصوف سے وابستہ ایک شخصیت تھی جسے اہلِ تصوف اپنا پیشوا بھی مانتے ہیں ایک سالک کی طرح انھوں نے فنا فی الذات، فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنی فی اللہ کے مدارج طے کرنے کے بعد انا الحق کا نعرہ لگا دیا تھا جسے اہلِ تصوف نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر پاسبانِ شریعت نے اُسے زندیقا اور بدعتی قرار دیتے ہوئے گردن زنی ٹھہرایا۔ یوں پسِ قتل وہ اہلِ تصوف کے ہاں مشاہیرِ عشق کا سرخیل قرار پایا اور شعرا نے ایک شعار جرأت و بے باکی بعد میں اسے حق گوئی کا قرینہ قرار دیا اس سلسلے میں ایک افسانہ بھی مشہو رہے جس کا اجمال کچھ یوں ہے منصور نے جب صدائے انا الحق بلند کی تو یوں وہ مرتد قرار پایا تنبیہ کے باوجود جب وہ اپنے نعرے پر نظر ثانی کرنے پر تیار نہ ہوا تو اسے سزائے موت دے دی گئی چناں چہ اسے پھانسی دے دی گئی اور اس کی لاش کوجلا دیا گیا اس پر بس نہیں بلکہ اس کی خاکستر کو سمندر بُرد کر دیا گیا۔ زور دار طوفان آیا۔ منصور بن حلاج کی راکھ کا ذرّہ ذرّہ جہاں جہاں پہنچا، وہاں وہاں سے اَنا الحق کی صدا بلند ہونے لگی۔ اس طرح عوام و خواص پر منصور بن حلاج کا برحق ہونا باور ہوا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علمائے کرام نے اس کے مؤقف کے ظاہر پر غور کیا تھا اور اس کے باطنی معنی سے غافل رہے تھے اہلِ تصوف کا یہ مؤقف ہے کہ شریعت ظاہر پر مکلف ہے جب کہ اہلِ تصوف اُس کے باطن پر عمل پیرا ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ ہے جسے موضوعاتی اعتبار سے پاکستان کی گزشتہ پچاس سالہ تاریخی حیثیت حاصل ہے اس نظم کا ایک بند نذرِ قارئین ہے :

شبستانِ حکومت میں عوامی انقلاب آیا

بنامِ حاکماں پیغامِ شوریدہ سراں آیا

اتار و تاج اپنے تخت چھوڑو سرجھکاؤ سرنگوں ہو کر

سوئے بیرک روانہ ہو

یہ سیلابِ عوامی ہے

بہا لے جائے گا تم کو

یہ آتش، آتشِ نمرود ہے تم کو جلا کر خاک کر دے گی

کہ تم موسیٰ نہیں ہو بلکہ غاصب ہو امانت کے

نظم کے اس مختصر حصے میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کی یاد تازہ کی گئی ہے بعد ازیں پیپلز پارٹی کے عوامی دور کا مذکور ہے فکری اعتبار سے جذبات و احساسات کے تموج کی فضا ہے پیرایۂ اظہار کا انداز بھی انقلابی اور مزاحمتی اہمیت کا حامل ہے نظم کے اس بند کے آخری دو مصرعوں میں آتشِ نمرود اور موسیٰ کی دو تاریخی تلمیحات کا انصرام پایا جاتا ہے اگر تلمیحاتی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تلمیحات تہری حیثیت کی حامل ہیں یعنی تاریخی، شخصی اور کتبِ آسمانی کی تلمیحات کی نسبت ان سے جُڑی ہوئی ہے۔ ’’سوئے بیرک روانہ ہو‘‘ میں ایک عسکری نوعیت کا حوالہ مضمر ہے کیوں کہ عساکر بیرکوں میں رہتے ہیں یا عساکر کا مسکن بیرک ہوا کرتے ہیں یہ ایک عسکری نوعیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے بندِ ہٰذا میں جنرل یحییٰ کے مارشل لا کی بساط لپٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور بھٹو کے بھرپور عوامی دور کے آغاز کی شدت و حدت کی نمائندگی کے لیے آتشِ نمرود کی تلمیح استعمال کی گئی ہے آتشِ نمرود کی تلمیح کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بُت شکنی کی پاداش میں نمرود نے آگ تیار کرائی تھی تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس میں ڈالا جائے چوں کہ اس آگ کا اہتمام کثیر پیمانے پر کیا گیا تھا اور یہ ایک اہم تاریخی واقعہ بھی ہے اس لیے آتشِ نمرود کو تاریخی تلمیحی حیثیت حاصل ہے آتشِ دوزخ کے بعد شدت و حدت کی نسبت سے آتشِ نمرود کو ثانوی حیثیت حاصل ہے بند کے آخری مصرع میں موسیٰ کی تلمیح برتی گئی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تاریخ میں اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر گزرے ہیں یہاں حضرت موسیٰؑ کی تلمیح جنرل یحییٰ کے لیے استعمال کی گئی ہے دونوں تلمیحات مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا کمالِ فن یہ ہے کہ اُن کی نظم کا یہ بند خود میں ایک بھرپور نظم کا درجہ رکھتا ہے ابتدائیہ سے قبل اور اختتامیہ کے مابعد ایک عمدہ نوعیت کے کلائمکس کی حاشیہ آرائی ہے جس سے بند کی شعریت بھی اُجاگر ہوئی ہے اور شاعر کا فنِ خطابت بھی آشکار ہوا ہے خطابت کے حوالے سے معروف شاعر جوشؔ ملیح آبادی کی یاد تازہ ہو گئی ہے جن کا کلام سراپا خطابت تصور کیا جاتا ہے بند کا اختتام دو خوب صورت اور تاریخی نوعیت کی تلمیحات پر ہوتا ہے جس سے شاعر کی تلمیحاتی چابک دستی عیاں ہوتی ہے۔

اُن کے دوسرے شعری مجموعہ ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ سے ایک اور بند لائقِ التفات ہے :

یکایک قید سے چھوٹے تو ششدر تھے

بہت کم تھے کہ جن کی سوچ مثبت تھی

کوئی کھویا ہوا تھا زندگی کے گوشواروں میں

کہ ان سنگین سالوں کا مداوا چاہتا تھا وہ

حکومت ہاتھ میں آئی تو ہنگامہ ہوا برپا

بسوئے شجرِ ممنوعہ رواں ہونے کے دن آئے

بندِ مذکور کا تاریخی و سیاسی پسِ منظر یہ ہے کہ یہ تاریخ کا وہ دور ہے جب ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی اور بے نظیر کی حکومت کا دور آیا ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے جو عہدے داران اور کارکنان قید و بند کی صعوبتوں میں تھے سیاسی قیادت کی تبدیلی کے باعث اُنھیں زنداں سے رستگاری میسر آئی تھی شاعر نے یہاں تنقیدی رویہ بھی اختیار کیا ہے جو صحت مند غیر جانب داری کا مظہر ہے وہ تنقیدی زاویہ یہ ہے کہ جو لوگ قید سے رہا ہوئے ان میں بہت ہی کم لوگ تھے جن کی سوچ مثبت تھی ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسیری کی زندگی کا ازالہ چاہتے تھے اس حوالے سے وہ کسی معقول صلہ یا مداوا کے خواستگار تھے حکومت اُن کے لیے ایک شجرِ ممنوعہ کے بہ مصداق تھی عوامی اور سیاسی طاقت حاصل ہونے کی وجہ سے انھوں نے اس شجرِ ممنوعہ کی طرف پیش رفت کی بندِ مذکور میں شجرِ ممنوعہ کی تاریخی تلمیح برتی گئی ہے جو اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہے حقیقی معنوں میں شجرِ ممنوعہ سے مراد باغِ عدن جسے عرفِ عام میں بہشت بھی کہتے ہیں کا وہ درخت جس کے کھانے یا قریب جانے سے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو منع فرمایا گیا تھا یہاں شجرِ ممنوعہ کی تلمیح کا استعمال انتہائی خوب صورتی سے کیا گیا ہے تلمیحِ ہٰذا دہری اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ اسے کتبِ آسمانی کی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے چوں کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اور تاریخی حوالے کی حامل بھی ہے۔

اُن کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ سے تاریخی تلمیح کی نسبت سے ایک شعر پیشِ خدمت ہے :

وہ وقت تھا کچھ اور جب انسان بڑا تھا

اس دورِ ترقی میں ابوالہول بڑا ہے

شعرِ مذکور میں شاعرِ موصوف نے بنی نوعِ انسان کی عظمتِ رفتہ کے حوالے سے بات کی ہے ان کا پیرایۂ شعر جہاں تاریخی ہے وہاں تنقیدی اہمیت کا حامل بھی ہے اور اس شعر میں عصرِ حاضر پر بھرپور طنز بھی کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا شعر کے آخری مصرع میں ابوالہول کی تاریخی تلمیح کا استعمال بھی خوب صورت قرینے کا حامل ہے ابوالہول کا تعلق اہرامِ مصر سے ہے جس کے حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ عورت کی شبیہ کا ایک مجسمہ ہے جسے اظہارِ حسن، اظہارِ خوف اور اظہارِ طاقت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے اس تلمیح کو تہری اہمیت حاصل ہے کیوں کہ ابوالہول قدیم اساطیر کا حصہ بھی ہے مکانی اور تاریخی حیثیت کا حامل بھی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے پانچویں مجموعۂ شعر ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ جو پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے، میں سے ایک بند لائقِ توجہ ہے :

اگر طالب کہیں بدھا کا بت مسمار کرتا ہے

تو سنگھی بابری مسجد گرا کر شاد ہوتا ہے

یہ دونوں اختلافاتِ عقائد کو کہاں برداشت کر تے ہیں ؟

یہ دونوں کور چشمی میں برابر ہیں

یہ دونوں ہی مریضِ نفسیاتی ہیں

بندِ مذکور فکری اعتبار سے دہری مقصدیت کا حامل ہے جہاں عقائد کے اختلافات کی بدولت مذہبی عداوتوں کا مذکور ہے وہاں مذہبی رواداری کا با الواسطہ درسِ زریں بھی بین السطور ہے یہاں بدھا کو تاریخی تلمیح کے طور پر باندھا گیا ہے جو ایک تاریخی شخصیت ہو گزری ہے اور جسے مذہبی پیشوا ہونے کا شرف حاصل ہے اُس کے پیروکار اُس کے بت بنا کر اُس کی پرستش کرتے ہیں جو مہاتما بدھ یا گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہے۔

فضاؔ اعظمی کا تلمیحاتی حوالے سے قرینۂ فن یہ ہے کہ اُن کے ہاں تلمیحات کا انصرام فطری اور غیر شعوری طور پر ہوا ہے جس سے اُن کے کلام کی فطری لطافتیں دوبالا ہو گئی ہیں یہی کیفیت مذکورہ بالا بند میں بھی کارفرما ہے۔

اسی تلمیح کے استعمال کا اعادہ ایک اور بند میں نئے رنگ، نئے انداز میں ملاحظہ کریں ’’عذابِ ہمسائیگی‘‘ میں سے ایک اور بند پیشِ نظر ہے :

کرو تم یاد اس دن کہ جب تم نے

دھماکا ایٹمی بم کا کیا تھا اپنے صحرا میں

دیا تھا نام اس کو تم نے ’’بدّھا کے تبسم‘‘ کا

اور اس صورت سے تم نے جوہری یُدھ کی بِنا ڈالی

علاقے پر مُسلّط کر دیا سکراتِ پیہم کو

اس بند کا تخاطب بھارتی قیادت ہے اُن کے ایٹمی دھماکے اور جوہری طاقت کے حوالے سے بات کی گئی ہے جغرافیائی طور پر خطے میں خوف و ہراس کی صورتِ حال کو بیان کیا گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے چھٹے مجموعۂ کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ جسے عالمی تہذیبوں کے دل گداز نوحے اور مرثیے کی حیثیت حاصل ہے میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے :

مظالم توڑ کر اپنے غلاموں پر

برہنہ پشت ہائے خوں چکاں پر آگ برسا کر

کیے تعمیر فرعونوں نے اہرامِ گراں مایہ

کہ جن سے عقلِ انسانی محیّر ہے، ہراساں ہے

مگر جو درحقیقت کارنامے ہیں تھکے ہارے غلاموں کے

کہ جن کے نام سے تاریخ ناواقف ہے، خالی ہے

بندِ ہٰذا میں شاعرِ مذکور نے مصری تہذیب جسے دنیا کی قدیم تہذیب کی حیثیت حاصل ہے کو ہدف تنقید بنایا ہے اس کے غیر انسانی اور بہیمانہ مظالم کو بے نقاب کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے قاری اس بند کو پڑھنے سے قدیم مصری تہذیب کے کاموں میں چلا جاتا ہے یہاں شاعرِ موصوف نے تاریخی حوالے سے بھی کامیاب تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے جو شاعر کی غیر جانب داری اور انصاف پسندی کی علامت ہے اس بند میں اہرامِ مصر کی نسبت اہرامِ گراں مایہ کی تلمیح و ترکیب استعمال کی گئی ہے اور یہ تلمیح دہری حیثیت رکھتی ہے جہاں تاریخی حوالہ ہے وہاں نسبت مکانی تلمیح سے بھی ہے شاعر نے اپنے نقطۂ نظر اور حقیقت پسندی کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اہرامِ مصر کی تعمیر کی عدم مقصدیت اور لایعنیت کو تہذیبی تناظر کے لبادے میں انتہائی کامیابی سے پیش کیا ہے۔

’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک اور بند قابلِ ذکر ہے :

اگر جلیا نوالا باغ میں انگریز غارت گر

نہتے بھاگتے محصور انسانوں پہ مہلک وار کرتا ہے

بزرگوں، بچیوں کو، عورتوں کو قتل کرتا ہے

تو یہ ہے فعل ڈائر کا

نہ اس کا دین سے عیسائیت کے کچھ تعلق ہے

نہ یہ افرنگ کی تاریخ کا ناپاک حصہ ہے

اس بند میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کے ایک انسانیت سوز واقعے کی ایک تاریخی تلمیح کارفرما ہے واقعہ یہ ہے کہ جب جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں نہتے مسلمانوں پر گولی چلا کر سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا تاریخ میں جلیانوالہ باغ کے نام سے مشہو رہے فکری اعتبار سے شاعر نے جہاں ا پنی انسانی ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہاں انصاف کے تقاضے بھی نبھائے ہیں اور تنقیدی پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے کہا گیا ہے کہ استعماری طاقتوں نے انسانیت پر بے انتہا ظلم و ستم کیے ہیں بڑی قیادتوں کے ہاں انصاف اور انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اگر وہ کوئی جبر و جور کا مظاہرہ کریں تو اُسے کسی فردِ واحد سے منسوب کر دیا جاتا ہے اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو اُسے مذہب کے سر تھوپ دیا جاتا ہے پھر یہ کہاں کا انصاف ہے یہ بند فکر انگیز نوعیت کا حامل ہے جس میں تاریخی چیرہ دستیوں کا ذکرِ قبیح بھی ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ فضاؔ اعظمی کا آٹھواں مجموعۂ کلام ہے جو ایک طویل نظم پر مشتمل ہے جس میں اجتماعی انداز میں بنی نوع انسان کے اخلاقی، مذہبی اور تہذیبی زوال کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے :

کون سے دور میں چنگیز صف آرا نہ ہوا؟

کب ہلاکو نے زمانے کو نہ تاراج کیا؟

دراصل تاریخ حیاتِ انسانی کے طویل سفر کی روداد سے عبارت ہے اور انسانی افعال کے حسن و قبیح کو پیش کرتی ہے جس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے مذکورہ بالا شعر میں بھی تاریخ کے دو معروف کرداروں کا حوالہ دیا گیا جن کو دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کے نام سے جانتی ہے جنھوں نے دنیا کے مختلف خطوں پر حکومت کی اور ظلم و بربریت کی لازوال داستانیں چھوڑیں چنگیز اور ہلاکو کی تاریخی تلمیحات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جنھیں اُردو شعرا نے جبر و جور اور دہشت و وحشت کی علامت کے طور پر برتا ہے اسی قرینے کو فضاؔ اعظمی نے بھی بہ خوبی نبھایا ہے۔

ان تلمیحات کو ایک اور مقام پر انھوں نے ایک نئے فکری زاویے کے ساتھ باندھا ہے اسی تناظر میں دو اشعار نذرِ قارئین ہیں :

لوک شاہی کی عبا، جبر و تشدد کا مزاج

کل کے چنگیز سے مہلک ہے نمائندۂ حکومت کا راج

سامنے اس کے ہلاکو کا ہے زانوئے ادب

شاہِ افرنگ کے آگے وہ ہے طفلِ مکتب

مذکورہ بالا دو اشعار میں جہاں چنگیز و ہلاکو کی تاریخی تلمیحات کا ا ستخدام ہوا ہے وہاں عصری قیادتوں کو طنز و تنقید کی بدولت راہ نمائی کا پہلو بھی فراہم کر دیا گیا ہے جس سے اُن کے انسان دوست شاعر ہونے کے تاثر کو مزید تقویت ملی ہے اور عالمی استعماری و استحصالی طاقت کی فسطائی بالادستی کو بے نقاب کیا گیا ہے جسے کلبۂ جبر و فساد کی حیثیت حاصل ہے۔

مثنویِ مذکور میں تلمیحی حوالے سے ایک شعر حسبِ ذیل ہے :

فیصلہ اہلِ تفکر کا کہ آزاد ہے کون؟

کون مجبور ہے ابلیس کا ہمزاد ہے کون؟

شعرِ ہٰذا میں شاعر نے استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے جو بھرپور استفساریہ کا حامل ہے اور ایک فکر انگیز اشاریہ ہے جس میں مسئلہ جبر و قدر کی کارفرمائی ہے قدری عوامل کی نسبت جبری عناصر کو بالادستی حاصل ہے پیش کش کا انداز اتنا بصیرت آمیز ہے کہ جذبات و احساسات کی شدت و حدت فزوں تر ہوئی ہے یوں شعر کی گرفت قاری پر قوی تر ہو گئی ہے جس کی قرأت سے قاری کے حواس مستعدی سے ہم کنار ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے سرسری گزر جانے کا اذن معدوم ہو جاتا ہے ابلیس ایک ایسی جامع تاریخی تلمیح ہے جس سے ہر نوع کی برائیاں، خباثتیں اور قباحتیں وابستہ کی جا سکتی ہیں فکر کا یہی زاویہ اسے جامعیت سے ہم کنار کرتا ہے شعرائے کرام کے ہاں اس کے متبادل کے طور پر اہرمن کی تلمیح بھی برتی جاتی ہے جس کا جغرافیائی اعتبار سے اہلِ فارس سے تعلق ہے جسے تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے کیوں کہ زرتشتی مذہب میں خدا کا تصور ثنویت کا حامل ہے ایک کو یزدان کہا جاتا ہے جس سے تمام تر خیر کے معاملات وابستہ کیے جاتے ہیں جب کہ دوسرے کو اہرمن کہا جاتا ہے جسے تمام تر منفی معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اس لیے اسے ابلیس کی متبادل تلمیح کے طور پر بھی شعر کے پیمانے میں باندھا جاتا ہے :

نور برساتے ہوئے نور کے شہپر آئے

اسوۂ حسنہ کے آئینہ و مظہر آئے

عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و براہیم کے بعد

نوعِ انساں کے لیے شافعِ محشر آئے

مثنوی زوالِ آدم کے ان دو اشعار میں اسوۂ حسنہ، عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و ابراہیم اور شافع محشر کی تاریخی تلمیحات کا اہتمام پایا جاتا ہے یہ تلمیحات دہری حیثیت رکھتی ہیں انھیں بیک وقت تاریخی و شخصی تلمیحات کے زمروں میں رکھا جا سکتا ہے لیکن تاریخی حیثیت مقدم ہے اور شخصی اعتبار ثانوی درجہ رکھتا ہے شعرِ اولیٰ میں اسوۂ حسنہ کی نسبت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بات کی گئی ہے اور شافعِ محشر کی تلمیح بھی حضرت محمد صلی الہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حوالے سے لائی گئی ہے ان تلمیحات کے ضمن میں خالقِ موجودات و معدومات کے پانچ جلیل القدر انبیائے کرام کا مذکور پُر نور موجود ہے۔

عالمی آشوب کے تناظر میں فضاؔ اعظمی نے چنگیز کی تاریخی تلمیح کو وفور سے برتا ہے اور ہر بار فکری اعتبار سے ایک نیا قرینہ آشکار ہوا ہے جس کی بدولت تاریخ کے تاریک ابواب کی صحیح تر نمائندگی اور ترجمانی ہوئی ہے اسی حوالے سے ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے چند اشعار بہ طور تمثیل پیش کیے جاتے ہیں :

ہر صدی دوسری صدیو ں سے ہے زیادہ خو ں ریز

تب کے چنگیز سے خوں خوار ہے اب کا چنگیز

کل کا چنگیز تو لڑتا تھا بہ شمشیر و سناں

اب کے چنگیز کے ہا تھو ں میں ہے ایٹم کا دھواں

کل کے چنگیز سے محفوظ تھے معصوم عوام

اب جھلس دیتا ہے شہروں کو امیر الاقوام

آج چنگیز بھی زندہ ہو تو شرما جائے

ظلمِ امروز کو دیکھے تو پسینہ آ جائے

فضاؔ اعظمی کا کلام انسانیت آمیز اور انسانیت آموز اس لیے ہے کہ انھوں نے تاریخِ عالم کے خوں آشام مناظر کو منظوم کر کے انسانی ہمدردی کے جذبات اُجاگر کرنے کی سعیِ جمیل کی ہے اگر اعلیٰ افادی مقاصد کو مدِ نظر رکھا جائے تو وہ اس کاوش میں بھرپور انداز میں کامیاب ہوئے ہیں انھوں نے مختلف تہذیبوں کا شعری پیرایۂ اظہار میں منظوم منظر نامہ پیش کیا ہے اس لیے اُن کے ہاں تاریخی تلمیحات کا استعمال وفور سے ملتا ہے اسی نسبت سے ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے تین اشعار ہدیۂ قارئین ہیں :

رزمِ چنگیز ہو یا معرکۂ دار و صلیب

یورشِ لشکر تیمور سرِ وادیِ سندھ

نادری تیغ کی جھنکار سے سہمے ہوئے دل

بابری فوج کی ٹاپوں کے تلے گنگ و جمن

غزنوی شہر میں لوٹی ہوئی دولت کے مزار

ان کے اندر سے نکلتی ہوئی بے بس جھنکار

مذکورہ اشعار میں چنگیز، تیمور، نادری اور بابری جیسی تاریخی تلمیحات ملتی ہیں تیسرے شعر میں غزنوی کی تلمیح استعمال کی گئی ہے ان تلمیحات کو شخصی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن ان کا تاریخی حوالہ مقدم ہے۔

ایک اور شعر میں ہٹلر جو اٹلی کا حکمران تھا جو خود میں ظلم و ستم کا ایک حوالہ تھا، کی تاریخی تلمیح کا انتظام فضاؔ اعظمی نے کیا ہے اور مثنوی کے ہیئتی تقاضے نبھائے ہیں :

ہٹلری مقتلِ مسموم کی تصویر دکھاؤ

بے اماں قوم یہودی سر مذبح ششدر

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ اُن کا دسواں شعری مجموعہ ہے جس میں خیر و شر کی قوتوں کا انتقادی مطالعہ پیش کیا گیا ہے مذکورہ نظم فکری اعتبار سے بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے جس میں عالمی استعماری اور فسطائی طاقتوں کو بے نقاب کیا گیا ہے نظمِ ہٰذا انسانیت آمیز افکار کی حامل ہے خیر کی قوتوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور شر کی مذمت کی گئی ہے لعنت و ملامت اور بددعا بھی دی گئی ہے :

عذابِ ان بد دیانت بدنیت نامہ نگاروں پر

جو اس منہ بولتے نکتے پہ پردہ ڈال دیتے ہیں

کہ ہٹلر داعیِ اسلام تھا اور نہ مسولینی

وہ چرچل ہو کہ ٹوجو ہو کہ ہو وہ صدرِ امریکا

یہ سب تہذیبِ مغرب کے درخشندہ ستارے ہیں

یہ سب تہذیبِ مغرب کے نمائندہ جیالے ہیں

شعرِ ثانی میں تاریخی تلمیحات کے طور پر تین شخصیات کا مذکور ہے ہٹلر اور مسولینی سابقہ اٹلی کے حکمران تھے جب کہ چرچل کا تعلق سلطنتِ برطانیہ سے تھا جو نو آبادیاتی ہندوستان کا وزیر تھا جس کا پورا نام سرونسٹن چرچل تھا، شعرِ اول میں صحافت کے ٹھیکے داروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے جن کی صحافت حقیقت نگاری کے وصف سے عاری ہے جو ہٹلر، مسولینی اور چرچل کی اسلام دشمنی کی پردہ پوشی کرتے ہیں یہ سب مغربی تہذیب کے سفّاک نمائندے تھے ان تینوں ناموں کو شخصی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن ان کا تاریخی حوالہ زیادہ معتبر نوعیت کا حامل ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک اور شعر ہدیۂ قارئین ہے :

ثبوت اپنی بد اطواری کا اور بے جا تعصب کا

رسولِ پاک کی توہین کی صورت میں دیتے ہیں

فضاؔ اعظمی کے اشعار کی مقصدیت کو فوقیت حاصل ہے شعرِ مذکور میں رسول پاک( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم) کی تاریخی تلمیح کو برتا گیا ہے اور منکرانِ رسول کی مذمت کی گئی ہے اُن کے قبیح اعمال کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا عمیق ادراک رکھتے ہیں اور یہی شعور امتِ مسلمہ کو دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ایک شعر ملاحظہ کریں :

نظامِ مصطفی کا نام لے کر کفر پھیلایا

جنھوں نے انتخابی دھاندلی کے شاخسانے سے

شعرِ مذکور میں نظامِ مصطفی کی تاریخی تلمیح برتی گئی ہے جو عہدِ نبوی کی آئینہ دار ہے اور مکمل اسلامی نظامِ حیات کی پاس دار ہے جسے سراپا اسلام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا:

عذاب ان حکمرانوں پر، عذاب ان کج کلاہوں پر

جنھوں نے قائد اعظم کے مسلک کے حوالے سے

انھوں نے جو بنائے ان نمائندہ اصولوں پر

لگائی ضرب کاری اور حلیہ مسخ کر ڈالا

شعرِ اوّل کے مصرع ثانی میں قائد اعظم کی تاریخی تلمیح کا التزام پایا جاتا ہے دوسرے شعر کو فکری تاثر کی تکمیل کے لیے شامل کیا گیا ہے انھوں نے بابائے قوم کے اصولوں سے روگردانی کرنے والے قائدینِ حکومت کے لیے بددعا کا تاثر پیش کیا ہے جو ایک حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے اور قائد سے بے پایاں محبت و عقیدت کا اظہار بھی ہے کسی بھی شاعر کے اس نوع کے افکار قاری کے دیش بھگتی جذبے کو تقویت بخشتے ہیں جو ہر عہد کا عصری تقاضا بھی رہا ہے :

عذاب ان راہِ حق سے منحرف آوارہ جانوں پر

صدی اکیسویں کے ان ابوالہولی دماغوں پر

اس شعر میں منکرانِ اسلام کے حوالے سے عذابِ خداوندی کی التجا کی گئی ہے اور انھیں شیطان سے منسوب کر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے دماغ شیطانیت کی پیداوار ہیں ابوالہول کی تلمیح ابلیسی تناظر میں ہے۔

فضاؔ اعظمی فکری اور نظریاتی اعتبار سے ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اس لیے ان کا فکری کینوس بھی اسلامیت آمیز اور انسانیت آموز ہے۔ اس لیے وہ حب دارِ رسول( صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم) بھی ہیں اور طرف دارِ اصول بھی ہیں وہ اسلامی فلسفہ، اسلامی تشخص اور مبادیاتِ اسلام کو مقدم و مستحسن سمجھتے ہیں ان کے افکار میں ملتِ اسلامیہ کا فزوں تر درد پایا جاتا ہے ان کے دروں میں امتِ مسلمہ کے حوالے سے اک تڑپ موجود ہے :

اور اس کے رحمت للعالمینی فلسفے کی مرکزیت کو

گھٹا دیتے ہیں اس درجہ، بھلا دیتے ہیں اس حد تک

کہ اسلامی تشخص کا نشاں دنیا سے مٹ جائے

کہ بنیادی تصور دین کا برباد ہو جائے

شعرِ اوّل میں رحمت للعالمینی فلسفے کا مذکور ہے جس کی تاریخی حیثیت مسلمہ و مصدقہ ہے یوں اسے تاریخی تلمیح کا  اعتبار حاصل ہے۔ شعرِ ثانی فکری تاثر کی تکمیل کے لیے منقول ہے۔

’’آئینہ امروز و فردا‘‘ فضاؔ اعظمی کے گیارہویں مجموعۂ کلام کی نظم ’’یہ واقعہ کچھ نیا نہیں ہے ‘‘ میں سے تین اشعار تاریخی تلمیحات کی ذیل میں درج ذیل ہیں :

کہاں ہے تاتاریوں کی دہشت

کہاں ہے منگول کی صلابت

کہاں ہے برطانیہ کا سورج

غروب سے بے نیاز تھا جو

کہاں ہے عربوں کی استقامت

وہ جوشِ ایمان کی حرارت

شعرِ اوّل میں تاتاریوں اور منگولیوں کی تلمیحات استعمال ہوئی ہیں شعرِ دوم میں ہٹلر، قیصر، دارا اور سکندر کی تلمیحات کا التزام ہوا ہے تاریخی تلمیحات کا یہ بسیط سلسلہ تاریخ و تہذیب کے وسیع کینوس کا غماز ہے اگر عمیق فکری تناظر میں دیکھا جائے تو ان میں کائنات کی بے ثباتی کا مذکور ہے اور بات اس منطقی نقطے پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہر زوالِ را کمال، ہر کمالِ را زوال کسی ثبات کو دوام حاصل نہیں ہے بڑی عظیم الشان سلطنتیں ملیا میٹ ہو گئیں بڑے ہیبت ناک کردار نیست و نابود ہو گئے ہر کسی نے اپنی حقیقت اور اصل کی طرف مراجعت کرنی ہے۔

نظم ’’یہ دنیا اور ہی کچھ ہے ‘‘ میں ایک شعر لائقِ اِلتفات ہے :

یہ دنیا وہ نہیں جو آدم و حوا کا مہبط تھی

جو نامعلوم بشریت کا دشتِ بے نہایت تھی

شعرِ ہٰذا میں جہاں آدم و حوا کی تاریخی تلمیحات کا انصرام ہوا ہے وہاں دو کائناتی تصورات کا اہتمام بھی ملتا ہے جسے قدیم و جدید کے زمروں کا حامل کہا جا سکتا ہے سنسار کے تغیرات کو پیش کیا گیا ہے شاعر نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ وہ دنیا نہیں جہاں آدم و ہوا کو بہشت سے اتارا گیا تھا جو غیر دریافت شدہ بشریت کا دشتِ بے کنار تھی جب کہ عصرِ حاضر میں جہانِ ادراکات میں انقلابات بپا ہو چکے ہیں یہاں شاعر کا تخیلاتی کینوس، فلسفیانہ اور عمیق حسیّاتی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے بارہویں شعری مجموعہ ’’خوشی کی تلاش میں ‘‘ سے ایک شعر پیشِ نظر ہے :

فوجِ نمرود نے شعلوں کا سجایا بستر

چو مکھی کاٹ پہ مامور ہوئی فوجِ صلیب

شعرِ ہٰذا میں نمرود کی تاریخی تلمیح کارفرما ہے نمرودی سپاہ کی بربریت بیان کی گئی ہے صلیبی یا مسیحی فوج کی قتل و غارت گری کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ اُن کا تیرہواں مجموعۂ شعر ہے جس میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے :

نزولِ آدمِ خاکی میں ایک حکمت ہے

اسے جہان میں فکر و عمل پہ قدرت ہے

بشر ہے اپنے سیاہ و سفید کا مالک

اسے الٰہ سے انکار کی اجازت ہے

اسی کے واسطے یومِ حساب آنا ہے

اس امتحان کا پھر فیصلہ سنانا ہے

مسدس کے اس بند میں فضاؔ اعظمی نے آدم خاکی کی تاریخی و ترکیبی تلمیح کا انتظام کیا ہے اور مسئلۂ جبر و قدر کے قدری پہلو کو صحت مند و توانا انداز میں اجاگر کیا ہے جس سے انسان کے اختیاری پہلو کی نمائندگی کی گئی ہے بنی نوع انسان کی مقصدیت کو نمایاں کیا گیا ہے انسانی اختیارات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انسان کی خیر و شر پر قدرت کو عیاں کیا گیا ہے حتیٰ کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان خدا کی معبودیت سے بھی انکار کر سکتا ہے جو انسان کے اختیاری پہلوؤں کا حصہ ہے شعرِ آخر میں خیر کی اہمیت کے حوالے سے یومِ حساب کی بات کی گئی ہے اور ایک کڑے احتسابی عمل کی خبر بھی دی گئی ہے۔ فضاؔ اعظمی کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ تلمیحات کے فطری انصرام سے مدعا نگاری کے حسین قرینے نبھا جاتے ہیں جو اُن کی فکر کا حصہ ہے۔

مشمولہ اشتہادات و استخراجات سے یہ مبینہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی ہے کہ فضاؔ اعظمی تاریخِ عالم کا بسیط ادراک رکھتے ہیں جس کی نمائندگی اُن کے وجدانِ شعر میں تاریخی تلمیحات کے روپ میں بھی ملتی ہے جس کی بدولت وہ حالات و واقعات کو خصوصاً پیرایۂ نظم میں منظوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں معروف تاریخی حادثات و سانحات کی بازیافت کا عمل اُن کے نظمیاتی کینوس میں بہ طریقِ احسن پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے جو اہلِ سخن، ناقدینِ فن، محققین اور قارئین کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کا کلام مکانی تلمیحات کی روشنی میں

 

تاریخِ عالم مخصوص و معروف حالات و واقعات اہم شخصیات و مقامات سے عبارت ہے جس سے تاریخی و تہذیبی اور تمدنی و عمرانی ڈھانچہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے فضاؔ اعظمی کا نظمیاتی سخن اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں تلمیحات بہ کثرت پائی جاتی ہیں شذرہ ہٰذا میں اُن کی تیرہ شعری کتب سے مکانی تلمیحات کی اشتہادات تجزیاتی حاشیہ آرائی سے پیش کی جائیں گی اور وسیع تر انتقادی مقتضیات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا اُن کی شاعری کے بہ نظرِ غائر مطالعہ سے یہ مبینہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ اُن کی شعریات میں تلمیحاتی حوالے سے سب سے زیادہ مکانی تلمیحات کی تمثیلات موجود ہیں جس سے جہاں اُن کے تاریخی ادراکات کی جان کاری ملتی ہے وہاں اُن کے جغرافیائی کینوس کی وسعت کا اندازہ بھی ہوتا ہے فضاؔ اعظمی کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ انھیں دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ وقت گزارنے کا موقع میسر آیا ہے اُن کے ہاں مکانی تلمیحات کی بہتات کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے۔

اُن کی کتاب ’’جو دل پہ گزری ہے ‘‘ میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:

اہلِ نظر کو وادیِ سینا کی شرط کیا

جلوہ بقدرِ ظرفِ تمنا کہاں نہ تھا

شعرِ ہٰذا میں وادیِ سینا کی مکانی تلمیح برتی گئی ہے جس کا استعمال فطری خصوصیت کا حامل ہے وادیِ سینا مصر کی مشہور و معروف وادی ہے جس میں کوہِ طور واقع ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام جلوۂ حق کے لیے جایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل کیا کرتے تھے اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کلیم اللہ کا لقب پایا۔ فضاؔ اعظمی کی غزل میں بھی کہیں کہیں تلمیحاتی شواہد پائے جاتے ہیں شعرِ مذکور میں وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہلِ نظر یا چشمِ بینا رکھنے والوں کے لیے وادیِ سینا پر جانے کی شرط ضروری نہیں ہے بقدرِ ظرفِ تمنا جلوۂ حق کہاں موجود نہیں ہے یہاں شاعرِ موصوف نے عارفانہ اور صوفیانہ اندازِ فکر اختیار کیا ہے۔ اس میں ’’ہمہ اوست‘‘ کے فلسفے کی جھلک بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ جیسے خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا:

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

اُن کے مجموعۂ کلام ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ میں سے زندانِ ضمیر کے زیرِ عنوان ایک بند دیکھیے :

میں اس زنداں کا قیدی ہوں

نہیں جس کا کوئی ثانی

نہ یہ مینارِ لندن ہے

نہ اس کا کالے پانی سے تعلق ہے

کہ جو زندانیوں کے فرقِ سرکش پر

ہمیشہ کے لیے مہرِ ندامت ثبت کرتا تھا

نہ یہ ہے کوٹ لکھپت اور نہ یہ ہے قصرِ آغا خاں

نہ یہ نینی، نہ یہ تیہار کے جیلوں کا ہمسر ہے

کہ جن کی تنگ اور تاریک حجروں کی خموشی میں

بدیسی طاقتوں نے ظلم کی روداد یوں لکھی

کہ اس کے زخم اب بھی رِستے رہتے ہیں

ادھوری داستاں ہے اور تصادم اب بھی جاری ہے

بندِ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی نے زندانِ ضمیر کے لیے مختلف النوع مکانی تلمیحات استعمال کی ہیں جن میں صرف دو پُر شکوہ مکانی تلمیحات ہیں اور باقی سب عبرت انگیز ہیں مینارِ لندن اور قصرِ آغا خان شان و شوکت کی حامل مکانی تلمیحات ہیں قصرِ آغا خان پونا بھارت میں ہے۔ کالے پانے کی جیل کا شمار دنیا کی معروف جیلوں میں ہوتا ہے جہاں سنگین قسم کے مجرموں کو بھیجا جاتا تھا جو جزائر انڈی مان میں ہے اسے سیلولر جیل بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ کوٹ لکھپت جیل لاہور کو بھی مکانی تلمیح کے طور پر برتا گیا ہے علاوہ ازیں سینٹرل جیل نینی کا تذکرہ کیا گیا ہے نینی شہر الہ آباد کے قریب ہے جو صوبہ یوپی اتر پردیش میں ہے جہاں ہندوؤں کا آشرم بھی ہے مزید براں تیہار جیل کا ذکر کیا گیا ہے جو بھارت کے دارالخلافہ نئی دہلی میں ہے۔ انھوں نے زندانِ ضمیر کے لیے چار جیلوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں کالے پانی (جزائر انڈی مان) دوسری کوٹ لکھپت لاہور (پاکستان) تیسری نینی شہر (بھارت) اور چوتھی نئی دہلی (بھارت) میں ہے۔

فضاؔ اعظمی کے ہاں مکانی تلمیحات کے حوالے سے تنوع اس لیے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک جہاں دیدہ شخصیت ہیں اور انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع بھی ملا ہے مذکورہ بند میں اُن کا کمالِ فن یہ ہے کہ زندانِ ضمیر جو غیر مجرد اور تجسیم سے عاری حوالہ ہے کے لیے مجرد مکانی تلمیحات کا استعمال کر کے انھوں نے اُنھیں مجسم کر دیا ہے یوں مذکورہ بند کو تجریدی آرٹ کا شاہ کار بنا دیا ہے۔

اُن کے شعری مجموعہ ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ سے ایک شعر مکانی تلمیح کے حوالے سے پیشِ نظر ہے :

رہیں کہیں بھی غزالِ سبک کہیں بھی رہیں

یہ واقعہ ہے کہ آہو ختن سے باہر ہے

شعرِ ہٰذا میں آہوئے ختن کا مذکور ہے ختن کے خطے سے تعلق رکھنے والے ہرن دنیا بھر میں مشہور ہیں ختن کا علاقہ سابقہ روس اور موجودہ قزاقستان میں ہے ختن کے ہرن کی وجہِ شہرت اُس کی مشکِ نافہ کی بدولت ہے ختن کا علاقہ دریائے جیہوں کے کنارے ایک بہت بڑی سرسبز پٹی ہے جہاں کثرت سے ہرن پائے جاتے ہیں جن کی ناف میں ایک عمدہ درجے کی خوشبو پائی جاتی ہے جس سے کستوری بھی تیار کی جاتی ہے۔

اُن کی کاوش ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے :

تمہیں کیوں دوسروں کے مذہبوں سے اتنی نفرت ہے ؟

معابد دوسروں کے کس لیے مسمار کرتے ہو؟

تمہارے قائدینِ وقت کیوں اسلام دشمن ہیں ؟

گرا کر بابری مسجد کو حاصل کیا کیا تم نے ؟

طلائی گردوارے کا تقدس کیوں مٹاتے ہو؟

بندِ مذکور کا تخاطب ہندو قوم سے ہے جنھیں مذہبی رواداری کا درسِ زریں دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم دوسروں کے مذاہب سے کیوں نفرت کرتے ہو اور اُن کی عبادت گاہوں کو کیوں مسمار کرتے ہو تمھارے قائدینِ وقت اسلام دشمن کیوں ہیں بابری مسجد کو گرا کر تمھیں کیا حاصل ہوا ہے طلائی گردوارے کا تقدس کیوں مٹاتے ہو اس بند میں بابری مسجد اور طلائی گردوارے کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہے طلائی گردوارے کو گولڈن ٹیمپل بھی کہتے ہیں جو صوبہ مشرقی پنجاب کے شہر گرداس پور میں ہے جسے سکھوں کی اہم عبادت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند ملاحظہ کریں :

صدی ہے ساتویں، حضرتِ عمر خطّاب کا دورِ خلافت ہے

جہاں کے اک بڑے خطّے پہ اسلامی حکومت ہے

مدینہ، شام، مکہ، مصر، کوفہ، الجزائر اور بصرہ

فلسطین و خراساں، نجد اور بحرین اور فارس

یمن سے لے کے آذر بائیجانی کوہساروں تک

یہ چودہ انتظامی وحدتوں کی اک ریاست تھی

نظم کے اس بند میں حضرت عمر بن خطّاب خلیفۂ دوم کے دورِ خلافت اور اُن کی وسیع تر سلطنت کا تعارف کرایا گیا ہے جس میں مدینہ، شام، مکہ، مصر، کوفہ، فلسطین، نجد، بحرین اور فارس کی مکانی تلمیحات لائی گئی ہیں یہ وہ مکانی تلمیحات ہیں جن کے اجتماعی تاثر سے ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کا تصور اُجاگر ہوتا ہے۔

اُن کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے تین اشعار ہدیۂ قارئین ہیں جو امن کے ذیلی سرنامہ کے تحت ہیں :

خونِ ناحق سے شفق رنگ ہوا آبِ فرات

اندلس اور مراکش میں صدائیں گونجیں

مصر اور شام ہوئے زیرِ نگینِ شمشیر

لے کے نکلے تھے جو ہاتھوں میں ترقی کا عَلم

خون میں ڈوب گئی وادیِ دجلہ و فرات

نیزہ بازوں نے لہو رنگ کیا ساحلِ گنگ

اِن اشعار میں آبِ فرات، اندلس، مراکش، مصر، شام اور دجلہ و فرات کی مکانی تلمیحات کو بخوبی باندھا گیا ہے تاریخ کے مختلف ادوار میں ان علاقوں میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی اس کا پُرسوز شعری پیرائے میں اظہار کیا گیا ہے۔

اسی تناظر میں جمہوریت کے زیرِ عنوان دو اشعار لائقِ توجہ ہیں :

مصر پر کس نے کیا تین فریقی حملہ

کس نے ترکی کو تعصب سے گراں بار کیا

ملک بغداد کو بے دردی سے تاراج کیا

اک حکومت کے بدل دینے کا بے جا اقدام

مذکورہ اشعار فکری اور تلمیحاتی حوالے سے اہم ہیں۔ ان اشعار کا تخاطب بین الاقوامی استعماری طاقتیں ہیں۔ یہاں مصر، ترکی اور ملکِ بغداد کی مکانی تلمیحات کا استعمال کیا گیا ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ’’آزادی‘‘ کے ذیلی سرنامے کے تحت دو اشعار قابلِ ذکر ہیں :

اہلِ کشمیر کی آزادی کا دشمن بھی وہی

خطۂ کابل و قندھار کا رہزن بھی وہی

غاصبِ دجلہ وہی، قاتلِ چیچن بھی وہی

ملکِ سوڈان کی دولت کا نقب زن بھی وہی

اِن دو اشعار میں امنِ عالم کی پامالی کا ذمہ دار بین الاقوامی فسطائی طاقتوں کو قرار دیا ہے جسے کشمیر کی آزادی کا دشمن قرار دیا گیا ہے اور اسے خطۂ کابل و قندھار کا رہزن بھی گردانا گیا ہے جسے غاصبِ دجلہ اور قاتلِ چیچن بھی کہا گیا ہے اور اسے ملکِ سوڈان کی دولت کا نقب زن بھی بتایا گیا ہے۔ ان اشعار میں کشمیر، کابل، قندھار، دجلہ اور سوڈان کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں۔

فضاؔ اعظمی کی ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ایک شعر جو ’’سکراتِ مرگ‘‘ کے ذیلی سرنامے کے تحت ہے شعرِ ہٰذا دراصل ہندو قوم کی مکّاری و عیّاری اور خوں خواری کے تناظر میں ہے :

جو پرستارِ برہما بھی ہے مکار بھی ہے

جو اہنسا کا پجاری بھی ہے خوں خوار بھی ہے

مذکورہ بالا شعر میں برہما اور اہنسا کے دو معروف بتوں کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہے اور ہندو قوم کی مذموم ذہنیت کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے :

قائدِ عالمِ موجودہ کے کرتوت دکھاؤ

ہیروشیما کی تباہی کا اسے حال سناؤ

شعرِ ہٰذا کا تخاطب بین الاقوامی فسطائی طاقت امریکہ ہے جس نے ۱۹۴۵ء میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے تھے اور کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے جن کے اثرات اب بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا شعر میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ عالمی قیادت کا زعم رکھنے والے ملک امریکہ کو اس کے کالے کرتوت دکھانے چاہیے اور ہیروشیما کی تباہی کا حال بھی اُسے سنانا چاہیے اس شعر میں ہیروشیما کی مکانی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔

اُن کی ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک بند ہدیۂ قارئین ہے :

عرب کی معدنی دولت سے مملو ریگزاروں میں

فرات و دجلہ سے سیراب نخلستاں میں

عطائے رود بارِ نیل، تاریخی علاقوں میں

مراکش، الجزائر، لیبیا کی سر زمینوں میں

کہ جن کو چومتی ہیں بحرِ روما کی سبک لہریں

جنوبی بر افریقا کے معدنیات سے مملو خزانوں میں

شہنشاہانِ یورپ نے بڑے شب خون مارے ہیں

وہاں کے سادہ دل معصوم انسانوں کو لوٹا ہے

مذکورہ اشعار میں فضاؔ اعظمی نے مغربی استعماری طاقتوں کی بین الاقوامی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ یورپ کے شہنشاہوں نے دنیا کے وسیع و عریض خطوں کا استحصال کیا ہے۔ اس بند میں انھوں نے فرات و دجلہ، رود بارِ نیل، مراکش، الجزائر، لیبیا اور بحرِ روما کی مکانی تلمیحات استعمال کی ہیں۔

مثنوی عذاب و ثواب میں سے ایک شعر قابلِ غور ہے :

عذاب ان روسیوں کی ظالمانہ آمریت پر

جو لے کر لشکرِ خوں خوار افغانوں پہ چڑھ آئے

اس شعر میں روسیوں کی عسکریت پسندی اور ظالمانہ آمریت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے جنھوں نے نہتے افغانوں پر جنگ مسلّط کر دی تھی۔ اس شعر میں روسیوں اور افغانوں کی مکانی تلمیحات کو باندھا گیا ہے جو فطری نوعیت کی حامل ہیں جہاں روسیوں پر لعنت و ملامت کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے دو اور شعر دیکھیے :

یہودی جوہری طاقت تو دنیا کو گوارا ہے

سبب یہ ہے کہ اسرائیل جمہوری حکومت ہے

برہمن کو بھی حق ہے جوہری ہتھیار رکھنے کا

نہیں حاصل تو پاکستان کو یہ حق نہیں حاصل

ان دو اشعار میں مثنوی کی ہیئت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی رویوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جوہری پابندیاں نہ اسرائیل پہ عائد ہوتی ہیں کیوں کہ وہ ایک جمہوری حکومت ہے اور دنیا کو یہودی جوہری طاقت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس طرح بھارت جو برہمنوں کی راج دھانی ہے بھی جوہری پابندیوں سے ماورا ہے اگر جوہری پابندیاں ہیں تو صرف پاکستان کے لیے ہیں کیوں کہ یہ اسلامی ملک ہے مذکورہ اشعار میں اسرائیل، برہمن اور پاکستان کی مکانی تلمیحات کو خوش اسلوبی سے برتا گیا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک بند لائقِ التفات ہے :

اگر جلیانوالہ باغ کا انگریز غارت گر

نہتے بے سپر محصور انسانوں پہ مہلک وار کرتا ہے

بزرگوں، بچیوں کو عورتوں کا قتل کرتا ہے

تو یہ ہے فعل بس اک فردِ واحد کا

نہ اس کا دین سے عیسائیت کے کچھ تعلق ہے

نہ یہ افرنگ کی تاریخ کا ناپاک حصہ ہے

مگر غزنی کا حاکم گر شوالہ لوٹ لیتا ہے

تو ذمہ دار اس کا مذہبِ اسلام ہوتا ہے

اِس بند میں برطانوی دورِ حکومت کے نو آبادیاتی ہندوستان کا ایک انسانیت سوز واقعہ قلم بند کیا گیا ہے جب جنرل ڈائر نے مشرقی پنجاب کے شہر جلیانوالہ جو امرتسر کے قریب واقع ہے مسلمانوں پر گولیاں چلا دی تھیں اور سینکڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے تھے تو برطانوی حکومت نے اسے فعلِ فردِ واحد قرار دیا اور اس واقعہ کو مذہبی معاملات سے بے گانہ قرار دیا تھا نہ اس واقعہ کا عیسائیت سے تعلق ظاہر کیا گیا اور نہ اس معاملے کو ناپاک برطانوی تاریخ کا حصہ بنایا گیا۔

فضاؔ اعظمی نے ایک اور تمثیل بیان کی ہے وہ یہ کہ جب محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر حملہ کیا تھا تو اس واقعہ کا ذمہ دار مذہبِ اسلام کو ٹھہرایا گیا تو شاعر گویا ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی غیر مسلم سے کوئی غیر انسانی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا ذمہ دار فردِ واحد کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر کسی مسلم حکمران سے دیگر مذاہب کے معابد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس وقت فردِ واحد کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے مذہبِ اسلام کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ انصاف کا یہ دہرا معیار انصاف کی حقیقی متقضیات سے متصادم ہے۔ اس بند میں جلیانوالہ باغ کی مکانی تلمیح کا التزام فلسفۂ سادگی و سہولت سے کیا گیا ہے۔ اسی فکری تناظر میں ایک اور بند ملاحظہ کریں :

اگر دلّی کا حاکم مسجدیں مسمار کرتا ہے

اگر وہ امتِ مسلم کا قتلِ عام کرتا ہے

تو ہندو دھرم کی اقتدارِ اعلیٰ اور ارفع سے

یہ ہلکا سا تجاوز ہے یہ اک چھوٹی سی غلطی ہے

ہزاروں دخترانِ وادیِ کشمیر کی عصمت دری کر کے

برہمن حاکموں کی پاک دامانی نہیں جاتی

اگر بلقان کا حاکم مظالم توڑتا ہے اہلِ ایماں پر

ہزاروں بے سکت لوگوں کو اک جا جمع کرتا ہے

جہاں سے بچ نکلنے کا کوئی رستہ نہ مل پائے

انھیں اک اجتماعی قبر میں مدفون کرتا ہے

تو اس جرمِ بہیمانہ کے مجرم چند حاکم ہیں

لباسِ مذہب عیسائیت اس جرم سے میلا نہیں ہوتا

اِن اشعار میں شاعرِ موصوف نے مثنوی کی ہیئت کی پرواہ کیے بغیر اپنے فکری تسلسل کو جاری و ساری رکھا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے ہندو اور عیسائی قیادتوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے وہ گویا ہیں کہ اگر دلّی کی ہندو قیادت مسجدیں مسمار کرتی ہے تو ہندو مذہب کی رو سے اسے چھوٹی سے غلطی اور ہلکا سا تجاوز قرار دیا جاتا ہے۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عصمت دری کے باوجود برہمن حکمرانوں کی پاک دامنی معتبر ہوتی ہے۔ اگر بلقان کا مسیحی حاکم ہزاروں اہلِ ایماں پر مظالم توڑتا ہے اور بے شمار بے سکت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور اُن کی اجتماعی قبر بنا دیتا ہے تو اس جرم کے ذمہ دار چند حاکم ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اس جرم سے مسیحی مذہب کا لباس میلا نہیں ہوتا اور نہ اسے قصور وار سمجھا جاتا ہے اس بند میں دلی، کشمیر اور بلقان کی مکانی تلمیحات کا استخدام قرینہ کاری سے کیا گیا ہے۔

کتاب ’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ سے ایک بند پیشِ نظر ہے جو ’’دل یہ کہتا ہے … خالقِ کُل مجھے انساں نہ بنایا ہوتا‘‘ کے سرنامے کے تحت مرقوم ہے :

دل یہ کہتا ہے کہ اے کاش میں دریا ہوتا

پاپ کو دھونے کا اور پاکی کا ذریعہ ہوتا

پاٹلی پتر میں گنگا کا کنارہ ہوتا

یا تو پریاگ میں سنگم کا نظارا ہوتا

یہاں شاعر نے خالقِ کائنات سے اپنی ایک عجیب خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کاش مجھے دریا بنایا ہوتا جس سے پاپ اور ناپاکی دھلنے کا سامان ہوتا یا میں گنگا جو ہندوؤں کا مقدس دریا ہے کا کنارہ ہوتا جس کی بدولت پریاگ میں سنگم کا نظارہ ہوتا اس بند میں فضاؔ اعظمی نے گنگا کی مکانی تلمیح کا اہتمام کیا ہے اسی فکر تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے دو مزید اشعار لائقِ توجہ ہیں :

کاش میں گنبدِ خضرا کی عمارت کے لیے

ریگ اور خاک کا نایاب سا گارا ہوتا

بہرِ توسیعِ حرم اینٹ کا ٹکڑا ہوتا

میری تصویر سرِ بامِ تبرّک ہوتی

ان دو اشعار میں دو مختلف النوع خواہشات کا مذکور ہے شاعر گویا ہیں کہ یا مجھے گنبدِ خضرا یعنی روضۂ رسول( صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم) کی عمارت کے لیے ریت اور خاک کا نایاب گارا بنایا ہوتا اور یا مجھے ایک ایسی اینٹ کا ٹکڑا بنایا ہوتا جو حرم کے لیے باعثِ توسیع ہوتا اور میری تصویر بالائی مقام پر باعثِ تبرک ہوتی یہاں شاعرِ موصوف نے گنبدِ خضرا اور حرم کی مقدس مکانی تلمیحات کا التزام کیا ہے۔

قرطبہ نظم کا ابتدائی حصہ مکانی تلمیحات کے تناظر میں زیبِ قرطاس ہے :

قرطبہ مظہرِ سرگرمیِ تعمیر تو ہے

قرطبہ جلوۂ گہِ جذبۂ تسخیر تو ہے

قرطبہ معجزۂ فن کا دمکتا الماس حسیں

قرطبہ دستِ وفا پیشہ میں شمشیر تو ہے

قرطبہ عشقِ سراپا کا دوامی آہنگ

قرطبہ عظمتِ تہذیب کی تعبیر تو ہے

قرطبہ مردِ خدا ترس کا بیدار ضمیر

قرطبہ ولولۂ عاشقِ دلگیر تو ہے

قرطبہ اہلِ کرامات کا عزمِ پرواز

سنگ اور خشت میں عرفان کی تقریر تو ہے

قرطبہ فتحِ طرب ناک کی زندہ تصویر

سینۂ ارض پہ لکھی ہوئی تحریر تو ہے

اہلِ یورپ میں نمایاں ہیں خدوخالِ عرب

حسنِ بیمار تو ہے زلفِ گرہ گیر تو ہے

چشمِ آہوئے یمن، بوئے گلستانِ حجاز

اسپِ دَم دار تو ہے دستِ عناں گیر تو ہے

اندلس آج بھی ہے حاشیہ بردارِ عرب

جزوِ ایماں نہیں ایمان کی تعبیر تو ہے

نظم کا یہ حصہ جسے بھرپور ابتدائیہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اندلس کے مشہور شہر قرطبہ کی تاریخی شان و شوکت کی یاد دلاتا ہے اس حوالے سے اقبالؔ کی نظم ’’ مسجدِ قرطبہ‘‘ بھی بہت مشہور ہے جس پر تنقیدی و تحقیقی حوالے سے بہت زیادہ کام کیا گیا ہے۔ اس نظم میں فضاؔ اعظمی نے قرطبہ کی تاریخی فضیلت پر روشنی ڈالی ہے اور مسلمانوں نے اپنے عہدِ حکومت میں جو یادگار نقوش مرتب کیے ہیں اُن کا بیانِ عالی شان ہے جس میں مسلمانوں کے فنِ تعمیر کو سراہا گیا۔ اُن کے جذبۂ تسخیر کو بھی داد دی گئی ہے۔ فنی کارناموں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مسلم عہد کی یادگار تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں فضاؔ اعظمی نے مسلمانوں کے جذبۂ عشق، خدا ترسی اور کرامات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ قرطبہ کی فتحِ طرب ناک کو ایک زندہ تصویر کہا ہے اور سینۂ ارض پہ لکھی ہوئی تحریر کے بمصداق پیش کیا اور ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یورپ میں بھی عرب کے خد و خال نمایاں ہیں موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں اُسے حسنِ بیمار اور زلف گرہ گیر کی تمثیل دی ہے جس میں آہوئے یمن اور بوئے گلستانِ حجاز کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اسپ دم دار اور دستِ عناں گیر کے پُر عظمت الفاظ سے نوازا ہے۔

اس نظم میں فضاؔ اعظمی نے قرطبہ کی مکانی تلمیح کا استعمال وفور سے کیا ہے جو جذبے اور شدت کی علامت ہے جس کی بدولت زورِ بیان بھی فزوں تر ہوا ہے شعرِ آخر میں ایک متوازن فکری زاویہ سامنے آیا ہے جسے شاعر کی غیر جانب داری اور حقیقت پسندی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ قرطبہ کی مکانی تلمیح کے علاوہ چشمِ آہوئے یمن، بوئے گلستانِ حجاز اور اندلس کی مکانی تلمیحات کا استعمال قادر الکلامی کے پیرائے میں ہوا ہے۔

’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’میں نے یہ صدی دیکھی‘‘ میں سے دو اشعار مکانی تلمیحات کے حوالے سے ملاحظہ کریں :

آبِ نیل کے اندر

زہر گھولتے دیکھا

دجلہ کے کناروں پر

ظلم ٹوٹتے دیکھا

ان دو اشعار میں مسلم خطوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی روداد بیان کی گئی ہے جن میں آبِ نیل اور دجلہ کے کناروں کو مکانی تلمیحاتی حیثیت حاصل ہے۔

شعری مجموعہ ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ میں سے چند اشعار جن میں مکانی تلمیحات بھی شامل ہیں جو نظم ’’یہ واقعہ کچھ نیا نہیں ہے ‘‘ کا حصہ ہیں :

کہاں ہے روما کی شان و شوکت

کہاں ہے بابل کی قدر و قیمت

کہاں ہے سندھو کی جاہ و ثروت

کہاں ہے ہسپانیہ کی عظمت

کہاں ہے عثمانیہ خلافت

کہاں ہے تاتاریوں کی دہشت

کہاں ہے منگول کی صلابت

کہاں ہے برطانیہ کا سورج

غروب سے بے نیاز تھا جو

کہاں ہے یونان کا تمدّن

علوم و دانش کا باب تھا جو

عراق تاریخ کی ڈگر ہے

عراق تہذیب کا سفر ہے

اگر فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں فضاؔ اعظمی نے مکانی تلمیحات کے استعاروں کو بروئے کار لا کر کائنات کی بے ثباتی کو بیان کیا ہے۔ ان اشعار میں روما، بابل، سندھو، ہسپانیہ، عثمانیہ، برطانیہ، یونان اور عراق کی مکانی تلمیحات کارگر ہیں شعرِ آخر میں عراق کو تاریخ کی ڈگر اور تہذیب کا سفر گردانا گیا ہے جس سے عراق کی تاریخی و تہذیبی اہمیت واضح ہوتی ہے جو شاعر کا ایک منفرد زاویۂ فکر بھی ہے۔

’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’دوپہر کی دھوپ میں اندھیرا‘‘ میں سے ابتدائی بند ہدیۂ قارئین ہے :

دُکھی ہوں میں بہت گجرات کا عزمِ سفر کر کے

جہاں سے میں پلندے عرضیوں کے لے کے لوٹا ہوں

سدا ایساہی ہوتا ہے

کسی شامت زدہ خطّے کا دورہ جب میں کرتا ہوں

نظمِ ہٰذا دراصل فضاؔ اعظمی نے ایک صحافی کلدیپ نیئر کے حقائق پر مبنی مضمون انگریزی اخبار میں پڑھ کر اور اُس سے متاثر ہو کر اُس کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ نظمِ مذکور گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے ہے یہاں واقعات نگاری کے ضمن میں انھوں نے گجرات کی مکانی تلمیح کو بھی برتا ہے آگے چل کر شاعر نے طنز و تنقید کا پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے :

نئی دہلی کو سکتہ لگ گیا ہے کیا؟

وزیرِ داخلہ کو کیا کسی صورت سے جائز تھا

کہ صوبائی حکومت کو بچانے کا جتن کرتا

کہ ناجائز طرف داری کا جذبہ کیا نیا طرزِ حکومت ہے ؟

یہاں جہاں ایک تنقیدی رویہ کارفرما ہے۔ وہاں استفہامیہ انداز اختیار کر کے ایک بھرپور استفساریہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ایک واقعاتی تانے بانے کے ساتھ نئی دہلی کی مکانی تلمیح کا استعمال بھی ہوا ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’خوشی کی تلاش میں ‘‘ میں سے ’’اک نئے ضابطۂ کار کو ایجاد کرو‘‘ کے سرنامے کے تحت ایک شعر قابلِ توجہ ہے :

آج ایستادہ ہو تم دوزخِ دنیاوی میں

یہ بتاؤ تمھیں جنت سے نکالا کس نے

اس شعر کا عمومی تخاطب حضرتِ انسان اور خصوصی تخاطب ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ یہاں بھی ایک تنقیدی رویہ کارگر نظر آتا ہے اور کہا گیا ہے کہ آج تم دنیا کی دوزخ میں کھڑے ہو لیکن یہ بتاؤ کہ تمھیں جنت سے کس نے نکالا ہے۔ یوں استفہامیہ انداز اختیار کر کے انسان کو اس کی لغزشِ اوّل جو حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تھی جس کی پاداش میں اُسے جنت سے نکالا گیا تھا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ یہاں جنت کی مکانی تلمیح کو موضوعاتی مقتضیات کے تلازمے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اُن کے شعری مجموعہ ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ سے ایک شعر لائقِ التفات:

ہمیں تعصبِ دیر و حرم مٹانا ہے

خوشی کے نام کا سکہ ہمیں چلانا ہے

فضاؔ اعظمی نے مصرع اولیٰ میں مذہبی روداری کا حسیں آدرش دیا ہے اور بتایا کہ جو تعصبات دیر و حرم کی بدولت ہیں اُنھیں ہم نے مٹانا ہے اور مصرع ثانی خود میں ایک بھرپور تحریکی حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعر میں دیر و حرم کی مکانی تلمیحات خوب صورت قرینے کی حامل ہیں۔

’’مسائل کا اختراعی حل‘‘ کے زیرِ عنوان ایک بند زینتِ قرطاس ہے :

ازل سے آدمِ خاکی کو ہے خوشی کی تلاش

بہشت میں بھی تھی اس کو اسی خوشی کی تلاش

زمین پر بھی اتر کر رہی خوشی کی تلاش

کوئی نہیں کہ نہیں ہے جسے خوشی کی تلاش

مگر قرار میسر نہ ہو سکا اب تک

بشر رہے گا یونہی خوار و بے ردا کب تک

اس بند میں حضرتِ انسان کے ازل تا ابد پھیلے ہوئے مقصدِ حیات کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے خوشی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بہشت میں خوشی اس کا مقصود و منتہا تھی اور زمین پر پہنچنے کے بعد بھی خوشی کو سرچشمۂ حیات گردانا گیا روئے ارضی پر کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کے لیے خوشی مندوب و مستحسن قرار نہ پائی ہو مگر بنی نوعِ انسان کو اب تک سکون اور قرار میسر نہیں آ سکا۔

واللہ و اعلم انسان کب تک خوشی کی تلاش میں خوار و بے ردا رہے گا۔ اس بند میں حیاتِ انسانی کی اجتماعی اور اجمالی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں فضاؔ اعظمی بہ خوبی کامیاب و کامران ٹھہرے ہیں۔ اِس بند میں بہشت کی مکانی تلمیح کو عمدگی کے پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔

سلسلہ ہٰذا کی آخری کڑی کے طور پر ایک بند پیشِ خدمت ہے :

خدا کرے تجھے حاصل کمال ہو جائے

خدا کرے ترا رُتبہ بحال ہو جائے

خدا کرے کہ یہ دنیا ہو مثلِ خلدِ بریں

ترا جہان فقید المثال ہو جائے

رسا بہ بارگہِ حق تری دعا ہو جائے

خوشی کی نعمتِ ازلی تجھے عطا ہو جائے

اِس بند میں فضاؔ اعظمی نے استدعائیہ انداز اختیار کیا ہے۔ اُن کا تخاطب حضرتِ انسان سے ہے اور وہ اس کے کمال و رتبہ کے لیے ملتجی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ دنیا بہشت کی مثل ہو جائے جیسے ہر حقیقی تخلیق کار کے تصورات میں ایک مثالی بہشت کا تصور ہوتا ہے۔ اُن کے ہاں بھی استدعائی انداز میں ظاہر ہوا ہے وہ چاہتے ہیں کہ یہ جہاں بے مثال ٹھہرے بند کے آخر میں وہ دعا کی مقبولیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں آخری شعر کے آخری مصرع میں بند کے مقصود و منتہا کو ظاہر کیا گیا ہے یعنی انسان کو خوشی کی نعمت ازلی عطا ہو جائے اس بند میں خلدِ بریں کی مکانی تلمیح کا اہتمام کیا گیا ہے جو بے نظیر و منفرد نوعیت کی حامل ہے۔

مذکورہ تصریحات و تجزیات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ فضاؔ اعظمی نے اپنے فحوائے کلام میں مکانی تلمیحات کا انتظام وفور اور قرینے سے کیا ہے کسی بھی شاعر کے ہاں شاذ ہی مکانی تلمیحات کی اتنی تمثیلات مشاہدہ کی جا سکیں گی۔ ان کی تلمیحات کرشمہ کاری یہ ہے کہ وہ تاریخی حوالے کی حامل ہیں جن سے تاریخی حالات و واقعات جُڑے ہوئے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کا مکانی تلمیحاتی عمق اُن کے بسیط تجربات و مشاہدات کا غمّاز ہے۔

٭٭٭

 

 

 

فضاؔ اعظمی کا فن شخصی تلمیحات کے درپن میں

 

کرۂ ارض پر بنی نوعِ انسان کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ تاریخِ عالم اہم حالات و واقعات، مقامات و شخصیات اور اُن شخصیات سے متعلق افعال و اعمال سے عبارت ہے کیوں کہ سبب یہ ہے کہ حضرتِ انسان سنسار کے ایک حرکی حوالے کی علامت ہے۔ بہ ایں وجوہ تلمیحات کی دیگر اقسام کے پہلو بہ پہلو شخصی تلمیحات ایک جان دار و وقیع اہمیت رکھتی ہیں۔ تاریخِ عالم کے تمام تر معاملات اُن سے متعلق شخصیات سے منسوب ہیں۔ اگر ان شخصیات کے کردار کو نظر انداز کر دیا جائے تو تاریخ اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔ مضمونِ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی کے سخن میں موجود شخصی تلمیحات کا انتقادی مطالعہ پیش کیا جائے گا جس کی بدولت یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ تاریخی شخصیات کے حوالے سے اُن کے ادراکات کی صورت کس نوعیت کی حامل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ شعر ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ سے ایک بند شاملِ شذرہ ہے :

رہا تنقید کا قصہ

تو میں اس فن کا ماہر ہوں

غزل کی صنف میری کاوشوں کا نقشِ اوّل ہے

میں اس کی وجہِ تسمیّہ مزے لے کر بتاتا ہوں

مجازی اور حقیقی کی بھی میں تشریح کرتا ہوں

میں غالبؔ، میرؔ اور مومنؔ سے جب سرشار ہوتا ہوں

تو سب کو بھول جاتا ہوں

کوئی مجھ کو جگاتا ہے،

اُٹھ اے غافل!کہ یہ صنفِ تکلم نیم وحشی ہے

میں اُٹھ کر ایک بحثِ بے کراں میں ڈوب جاتا ہوں

زمانہ چاند پر پہنچا، ہماری بحث جاری ہے

غزل کی کم تری کو دور کر نے کے تجسس میں

اُن کی نظم ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ میں مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے سے تنقیدی رویہ اختیار کیا گیا ہے اور اُن کے مرگِ ضمیر کے حوالے سے اسباب و وجوہات کو بیان کیا گیا ہے۔ غیر تعمیری افکار کی نشان دہی بھی ہوئی ہے۔ مذکورہ بند میں ادب سے متعلق ناقدینِ فن کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے جس میں اسد اللہ خان غالبؔ، میر تقی میرؔ اور حکیم مومن خان مومنؔ جو کلاسیکی شعری ادب کے معتبر حوالے ہیں کی شخصی تلمیحات کو بروئے کار لایا گیا ہے۔

مذکورہ نظم سے ایک اور بند لائق، توجہ ہے :

مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو؟

جہاں اس کا ہے یا میرا!

مرے اسلافِ اعظم

عمر خیّام، رومی، ابنِ خلدون، ابنِ راشد اور ابنِ سینا ہیں

دمشقی، بوالحسن اور ابنِ ہیشم ہیں

مرے اجداد کی فہرست طولانی

اور ان کے کارنامے مظہرِ علم و ہدایت ہیں

بندِ ہٰذا تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ شاعر گویا ہیں کہ مجھے جہاں کی فکر کس لیے ہو، یہاں انھوں نے استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے کہ یہ جہاں خالقِ حقیقی کا ہے یا کہ میرا۔ میرے اسلاف عظیم ہیں جن میں عمر خیّام، رومی، ابنِ خلدون، ابنِ راشد، ابنِ سینا، دمشقی، ابوالحسن اور ابنِ ہیثم شامل ہیں۔ میرے اسلاف کی فہرست بہت طویل ہے اور اُن کے کارنامے مظہرِ علم و ہدایت ہیں۔ یہاں انھوں نے عمرِ خیّام، رومی، ابنِ خلدون، ابنِ راشد، ابنِ سینا، ابوالحسن اور ابنِ ہیثم کی شخصی تلمیحات کا اہتمام کیا ہے جن میں عمر خیّام اور جلال الدین رومی دنیائے شعر کی شخصیات ہیں جن کا شمار فارسی کے معتبر شعرا میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ابن خلدون معروف تاریخ دان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ مزید براں ابن سینا کی نسبت حکمت و طب سے ہے جب کہ دیگر شخصیات کا تعلق سائنس کی دنیا سے ہے۔ ان تمام شخصیات کے ذکر سے انھوں نے ایک عمومی فکری کینوس کی غمازی کی ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ جو پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے میں سے ایک بند سپردِ قرطاس ہے :

کرو تم یا داس دن کو کہ جب تم نے

ہماری اک رقم کو روکنے کا فیصلہ کر کے

ہمیں مشکل میں ڈالا تھا

تمھارے اس غلط اور غاصبانہ حکم کی تنسیخ کی خاطر

تمھارے قائدِ اوّل نے خود کش برتھ رکھا تھا

بندِ ہٰذا میں تقسیمِ ہند کے بعد ایک ابتدائی واقعے کو مرقوم کیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کی رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں گاندھی نے بھوک ہڑتال کے طور پر ایک خودکش روزہ بھی رکھا تھا۔ قائدِ اوّل کے الفاظ گاندھی کے حوالے سے لائے گئے ہیں جنھیں شخصی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے۔

اسی نظم سے ایک اور بند قابلِ ذکر ہے :

کرو تم یاد اس دن کو

کہ جب ہم غم زدہ تھے قائدِ اعظم کی رحلت پر

تو اس موقع کا پورا فائدہ تم نے اُٹھایا تھا

دکن کی سلطنت پر حملہ آور ہو گئے تھے تم

یہ اک فوجی مہم تھی، صاف اور واضح

مگر تم نے دیا تھا نام اس کو انتظامی نقل و حرکت کا

یہی طرزِ عمل تم نے کئی موقعوں پہ اپنایا

مسلسل جارحیت سے کئی حصوں کو ہتھیایا

مندرجہ بالا بند میں ۱۹۴۸ء کے ایک واقعہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جب قائدِ اعظم کی وفات ہوئی تو بھارت حکومت نے اس سانحہ سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے دکن کی آزاد ریاست پر حملہ کر دیا جو مسلم اکثریت کے باعث پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش مند تھی۔ حالاں کہ یہ ایک واضح فوجی مہم تھی مگر اس کو ہندو قیادت نے انتظامی نقل و حرکت کا نام دیا آخر میں شاعر گویا ہیں کہ بھارتی حکومت نے کئی موقعوں پر یہی طرزِ عمل کو اپنایا اور مسلسل جارحیت کے نتیجے میں کئی حصوں کو ہتھیایا۔ اس بند میں قائد اعظم کی شخصی تلمیح کا اہتمام پایا جاتا ہے جس کی تاریخی حیثیت بھی مسلمہ ہے یوں یہ تلمیح بیک وقت تاریخی اور شخصی زمروں میں رکھی جا سکتی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند دیکھیے :

حکومت، سروری اور ملک گیری کے نتیجے میں

خداوندی کا دعویٰ کر دیا فرعونِ سرکش نے

رعایا دست بستہ، پابجولاں ہو گئی تاریخِ انساں میں

اور اس کے بعد فرعوں مالک و مختارِ کل ٹھہرا

بندِ مذکور کی حیثیت تاریخی حوالے کی حامل ہے جس میں فرعون کے دورِ حکومت کی یاد تازہ کی گئی ہے۔ جب اُس نے خدائی دعویٰ کیا تھا اور انسانیت پر اپنے مظالم کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو مالک و مختارِ کل سمجھتا تھا۔ اس بند میں فرعون کی شخصی تلمیح کو دو بار استعمال کیا گیا ہے جو تاریخی و شخصی دہرے حوالے کی حامل ہے۔

مذکورہ بالا نظم سے ایک اور بند زیبِ قرطاس ہے جس میں مسلم عہدِ حکومت کی طب اور حکمت کے حوالے سے ایک یادداشت پیش کی گئی ہے :

مریضِ نفسیاتی کے لیے دار الاماں کھولے

ہلاکت آفریں امراض کی خاطر علاجِ منفرد ڈھونڈا

سکوں ایسوں کو آیا نشترِ جراح کے ذریعے

کتابیں سینکڑوں لکھی ہیں اس موضوع کے اوپر

مریضوں کی عیادت کے لیے کھولے شفا خانے

جہانِ طب کی تاریخی علامت ابنِ سینا ہے

اس بند میں مسلم عہدِ حکومت میں حکمت و طب کے حوالے سے ہونے والے انقلابات کی نسبت سے بیانِ ذیشان ہے جس میں نفسیاتی مریضوں کے لیے دار الاماں کھولے گئے، مہلک امراض کے لیے منفرد علاج دریافت کیے گئے، جراحت کے شعبے کو فروغ میسر آیا۔ اس حوالے سے متعدد کتب لکھی گئیں، مریضوں کی عیادت کے لیے شفا خانے بھی کھولے گئے، طب کے حوالے سے تاریخ میں ابن سینا کو ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ اس بند میں فضاؔ اعظمی کے تاریخی ادراکات کے حوالے سے جان کاری ملتی ہے اور ابنِ سینا کو شخصی تلمیح کے طور پر برتا گیا ہے جن کا مقام و مرتبہ تاریخی حوالے سے بھی مسلَّم ہے۔

’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند پیشِ خدمت ہے :

وفاقی سلطنت کا ناظمِ اعلیٰ خلیفہ تھا

یہ وہ تنظیم تھی جس پر عمرِ فاروق فائز تھے

غریبوں کو، غلاموں کو جو مسند پر بٹھاتے تھے

بدل کر بھیس جو راتوں کو بستی میں نکلتے تھے

جو لوگوں کے مسائل کا صحیح اندازہ کرتے تھے

فضاؔ اعظمی نے یہاں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انسانی بہبود کے حوالے سے خدمات کی جان کاری بھی دی ہے۔ دراصل انھوں نے با الواسطہ طور پر عہدِ حاضر کے حکمراں طبقہ کو حکومتی ضوابط سے بھی آشنا کیا ہے۔ اس بند میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصی تلمیح کا اہتمام کیا گیا ہے جو تاریخ کا ایک معتبر حوالہ بھی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے شعری مجموعہ ’’خاک میں صورتیں ‘‘ جسے صنفِ نازک کے تاریخی ارتقا کی دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔ حقیقتِ نسواں اور حقوقِ نسواں کی آئینہ دار بھی ہے میں سے ایک بند جو ’’حوا کا گناہ‘‘ کے زیرِ عنوان ہے قابلِ ذکر ہے :

کسی نے اہلِ تفکر کو معتبر مانا

اور ان کے قول و قیادت کو مستند جانا

نگارشاتِ ارسطو، خیالِ افلاطون

نکاتِ حکمتِ سقراط کو گہُر مانا

بڑے جتن سے بتایا کہ مرد بہتر ہے

نظامِ دہر میں عورت کا نام کم تر ہے

بندِ مذکور میں قدیم فلاسفۂ یونان ارسطو، افلاطون اور سقراط کے نظریات کی رو سے عورت کے مقام و مرتبے کے تعین کی کوشش کی گئی ہے اور استخراجی نتیجے کے طور پر بتایا گیا ہے کہ نظامِ کائنات میں مرد کو فوقیت حاصل ہے اور عورت کم درجے کی حامل ہے۔ بندِ ہٰذا میں ارسطو، افلاطون اور سقراط کی شخصی تلمیحات کا اہتمام ہوا ہے۔

اسی فکر کی توضیح کے لیے اسی نظم کا ایک اور بند پیشِ خدمت ہے :

بہ روئے قولِ ارسطو یہ شرحِ فطرت ہے

کہ مرد جنس کو حاصل مقامِ عظمت ہے

کہ مرد حارثِ اعلیٰ ہے باغِ گیتی کا

وہ بے ہنر بھی اگر ہو، اسے فضیلت ہے

وہ ہر لحاظ سے آقا ہے، زیر بار ہے زن

وہ جنسِ بہتر و افضل ہے، خاکسار ہے زن

اس بند کے آغاز میں فضاؔ اعظمی نے ارسطو کے قول کا حوالہ نقل کیا ہے جو مشہور دانش ور گزرے ہیں انھوں نے ارسطو کے نظریے کی تصریح کی ہے کہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ مرد جنس کو رفعت و عظمت حاصل ہے جسے گلشنِ جہاں میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اگر مرد بے ہنر بھی ہو تو اس کی اہمیت و فوقیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ہر لحاظ سے حاکم ہے اور عورت اُس کی محکوم ہے۔ وہ جنسِ بہتر و افضل ہے جب کہ عورت جنسِ ادنیٰ ہے۔ اس بند میں شاعر نے جہاں ارسطو کی شخصی تلمیح استعمال کی ہے وہاں عورت کے حوالے سے ارسطو کے کلاسیکی نظریہ کو بھی بیان کیا ہے جسے تاریخ کے ایک طویل دور میں دستور العمل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ عصرِ حاضر میں بھی دنیا کے قدامت پسند معاشروں میں عورت کے حوالے سے ارسطو کا نظریہ کارفرما ہے جو جدید نظریۂ حیات کے بالکل برعکس ہے۔

قبل ازیں بند میں ارسطو کا نظریۂ زن پیش کیا گیا ہے۔ اسی موضوعاتی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے معروف مفکر افلاطون کا عورت کے حوالے سے نظریہ آمدہ بند میں ملاحظہ کریں :

بروئے قولِ افلاطون واقعہ یہ ہے

گناہ گار ہو گر مرد تو سزا یہ ہے

نئے جنم میں وہ عورت کا روپ دھارے گا

ثبوت مرد کے اعلیٰ ضمیر کا یہ ہے

کہ نغمہ اس کے لیے روح کی غذا بن جائے

اناث میں یہ محض حظ کی آگ بھڑکائے

افلاطون کا شمار کلاسیکی فلاسفہ میں ہوتا ہے۔ عورت کے حوالے سے اُن کے افکار و نظریات جذبۂ خیر پر مبنی نہیں ہیں یعنی وہ بھی عورت دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اُن کے قول کے مطابق گناہ گار مرد کی سزا یہ ہے کہ وہ نئے جنم میں عورت کا روپ دھارے گا۔ یہ بھی عورت کو ملعون و مطعون کرنے کا ایک انداز ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مرد کی روح کی غذا موسیقی بن جائے جو مستورات میں جنسی حظ کی آگ بھڑکائے۔ اسی بند میں انھوں نے افلاطون کی شخصی تلمیح کا انصرام کیا ہے۔

آمدہ بند میں نپولین بونا پارٹ کا نظریۂ عورت ملاحظہ کریں۔

نپولین نے کہا ہے کہ نوعِ زن کا وجود

کیا ہے ذاتِ الٰہی نے اس کا حق محدود

وہ ہے غلام یا ہے مردہ چیز کے مانند

صفاتِ ذات کی راہیں تمام ہیں مسدود

نہ زندگی کی وہ حق دار ہے، نہ مرنے کی

وہ مستحق ہے فقط زیرِ خاک ہونے کی

نپولین بونا پارٹ فرانس کے مشہور حکمران تھے جنھوں نے اپنے عہد میں بہت سے علاقہ جات کو فتح کیا اور فرانس کی نوآبادیاں بھی قائم کیں۔ مذکورہ بند میں نپولین کی شخصی تلمیح کا انتظام کیا گیا ہے اور اُس کے نظریۂ عورت کو پیش کیا ہے۔ نپولین کے بہ قول قدرت نے عورت کے حق کو محدود رکھا ہے یا تو اس کی حیثیت غلام کی سی ہے یا پھر وہ کسی مردہ چیز کی مثیل ہے اس کی ذاتی صفات کی راہیں مسدود ہیں نہ زند رہنے کی حق دار ہے اور نہ مرنے کی وہ صرف زیرِ خاک ہونے کی مستحق ہے۔

فضاؔ اعظمی نے مختلف فلسفیوں کے عورت کے حوالے سے نظریات بیان کر کے عورت کی تاریخی و تہذیبی تصویر کو مکمل کر دیا ہے جس سے یہ بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ازمنۂ رفتہ میں عورت کو کیا حیثیت حاصل رہی ہے۔

اُن کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے تلمیحاتی حوالے سے ایک شعر قابلِ ذکر ہے جو ’’آزادی‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت ہے :

جنگِ آزادی میں مصروف ہیں درماندہ عوام

فیضؔ و حسرتؔ ہوں کہ ہو حالیؔ و غالبؔ کا کلام

شعرِ مذکور میں جہاں درماندہ عوام کی فطری ضرورت آزادی کی بات کی گئی ہے وہاں مصروف عمل رہنے کا تذکرہ بھی ہے۔ اس نسبت سے انھوں نے چار معروف شعرا کا ذکر بھی کیا ہے جن میں فیض احمد فیضؔ، حسرتؔ موہانی، الطاف حسین حالیؔ اور مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے اسمائے گرامی شامل ہیں جو شخصی تلمیحاتی حوالے کے حامل بھی ہیں اور اُن کے کلام کو بھی آزادی سے منسوب کیا گیا ہے یعنی اُن کے سخن کا حاصل فکر آزادی ہے۔

کتابِ ہٰذا میں سے ’’آزادیِ افکار و اظہار‘‘ کے زیرِ عنوان شخصی تلمیح کی ذیل میں ایک شعر پیشِ خدمت ہے جس میں غالبؔ کی شخصی تلمیح کو بروئے کار لایا گیا ہے :

اک طرف جمع ہے غالبؔ کے طرف دا روں کی بھیڑ

دست بستہ سرِ دربار قدامت کے اسیر

مصرعِ اولیٰ سے مرزا غالبؔ کی مقبولیت و پسندیدگی کا اندازہ ہوتا ہے جب کہ مصرع ثانی میں انھیں دست بستہ سرِ دربار قدامت کا اسیر کہا گیا ہے یوں ایک منفرد زاویۂ فکر سامنے آیا ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ’’فتح‘‘ کے زیرِ عنوان ایک شعر پیشِ نظر ہے :

بربریت کے نئے دور کا آغاز ہے بُش

آمریت کے نئے طور کا غماز ہے بُش

اس شعر میں بُش کی شخصی تلمیح استعمال کی گئی ہے جو امریکہ کے سابقہ صدر کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اُس کے دورِ حکومت کو بربریت و آمریت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں ایک تنقیدی رویہ اختیار کیا گیا ہے جو اُن کی انصاف پسندی کی دلیل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ کلام ’’شاعر، محبوب، فلسفی‘‘ سے ایک بند قابلِ ذکر ہے۔ نظمِ ہٰذا سہ مکالماتی نوعیت کی ہے جس کے تین مرکزی کردار ’’شاعر، محبوب اور فلسفی‘‘ ہیں مرقومہ بند فلسفی کے حوالے کا حامل ہے :

جگہ دلاؤں گا بزمِ ہنر وراں میں تجھے

یوں بسائیں گے ذی ہوش اس جہاں میں تھے

وہ سب تجھے نظر آئے گا اپنے قدموں میں

نصیب ہو گا نہ جو پردۂ نہاں میں تجھے

ترے نصیب کو رشکِ ایاز کر دوں گا

درج شدہ بند دراصل فلسفی کا مکالمہ ہے جس کا تخاطب محبوب ہے۔ یہاں فلسفی نے اپنے محبوب سے کچھ دعوے بھی کیے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے فلسفی گویا ہیں کہ میں تجھے اہلِ ہنر میں مقام و مرتبہ دلاؤں گا اور اہلِ خرد تیری عزت و تکریم کریں گے جو تجھے مخفی پردوں میں میسر نہیں ہے وہی تجھے اپنے قدموں میں نظر آئے گا اور تیرے نصیب پر ایاز کو بھی رشک آئے گا ایاز محمود غزنوی کے معتبر غلام اور وزیر و مشیر کا نام ہے یہاں ایاز کی شخصی تلمیح کا استخدام ہوا ہے۔

اسی نظم میں سے فلسفی کے زیرِ عنوان ایک اور بند ملاحظہ کریں :

جہاں میں تیری طرح ایک آدمی ہوں میں

مگر تو زندہ ہے اور ننگ زندگی ہوں میں

مرے اصولِ طلب کی تجھے تمنا ہے

تو سن لے ہمدمِ دمساز فلسفی ہوں میں

بگیر دستِ من و خضر راہ ما بر خیز

مندرجہ بالا بند میں فلسفی اپنا تعارف اپنے محبوب کو باوَر کرا رہے ہیں کہ میں بھی جہاں میں تیری طرح کا انسان ہوں فرق صرف یہ ہے کہ تو زندہ ہے اور زندگی میرے لیے عار ہے، مرے اصولِ طلب کی تجھے خواہش ہے۔ اے مرے دوست مرا دم بھرنے والے میں فلسفی ہوں میرا ہاتھ تھام اور جو ہمارے راستے کا خضر ہے اُسے پہچان اس بند میں انھوں نے خضر کی تلمیح استعمال کی ہے جس کا تصور یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ فرشتہ ہے جو روزِ ازل سے بھولے بھٹکے انسانوں کو راستہ دکھانے پر مامور ہے خضر کی تلمیح کو شخصی تلمیح میں رکھنے کی غرض و غایت یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا روپ شخصی ہے یعنی وہ انسان کے روپ میں انسان کی راہ نمائی کرتے ہیں۔

اُن کے شعری مجموعہ ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے دو اشعار سپردِ قرطاس ہیں :

ضیا ہو دخترِ مشرق ہو بھٹو ہو، لیاقت ہو

کبھی ہو سیج پھولوں کی کبھی پھانسی کا پھندا ہو

کبھی صدَّام کو بٹھلائیں لا کر قصرِ عالی میں

کبھی لے جا کے اس کو پھینک دیں قعرِ تباہی میں

اِن میں ضیا، دختر مشرق (بے نظیر بھٹو)، بھٹو، لیاقت کی شخصی تلمیحات استعمال ہوئی ہیں۔ جنرل ضیا الحق، بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور لیاقت علی خان پاکستانی سیاست اور تاریخ کی معروف شخصیات ہیں۔ اس شعر میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مغربی لادینی استعماری طاقتیں اپنے مقاصد کی بار آوری کے لیے مختلف شخصیات کو آلۂ کار بناتی ہیں۔ مقصد کی تکمیل کے لیے انھیں پھولوں کی سیج عطا کرتی ہیں مگر حصول مقصد کے بعد اُنھیں تختۂ دار پر چڑھا دیتی ہیں کبھی صدام کو قعرِ عالی میں مسند نشین کرتی ہیں تو کبھی قعرِ تباہی میں پھینک دیتی ہیں۔ دوسرے شعر میں صدام کی شخصی تلمیح کو باندھا گیا ہے جسے عراقی تاریخ و سیاست میں صدام حسین کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو ایک فوجی آمر تھے جو امریکی فوج کشی کے نتیجے میں برطرف کر دئیے گئے تھے۔

فضاؔ اعظمی کے مذکورہ مجموعۂ کلام سے دو اور اشعار نذرِ قارئین ہیں :

یہ وہ ناپاک ناہنجار امریکی ادارے ہیں

جو صدام و اسامہ اور ضیا الحق بناتے ہیں

جو شاہوں کو کھڑا کرتے ہیں آپس میں لڑاتے ہیں

نکل جاتا ہے کام اپنا تو پھانسی پہ چڑھاتے ہیں

شعرِ اوّل میں انھوں نے سخت تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہوئے سخت اور بلند بانگ لہجہ روا رکھا ہے اور امریکی بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مصرع ثانی میں صدام، اسامہ اور ضیا الحق کی شخصی تلمیحات کا اہتمام کیا گیا ہے شعرِ ثانی جو فکری تاثر کی تکمیل کے لیے شامل ہے جس میں امریکی مؤقف کو واشگاف الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

اُن کی شعری کاوش ’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ کی ایک غزل میں سے شخصی تلمیحاتی تناظر میں ایک شعر حسبِ ذیل ہے :

خود اپنے بازوؤں میں نہ طاقت اگر رہے

پردے پہ فلم رستم و سہراب دیکھیے

شعرِ مرقومہ میں جہاں تنقیدی طرزِ اظہار موجود ہے وہاں ایک خوش فہمی کا پہلو بھی رکھا گیا ہے مصرع ثانی میں ایران کے دو مشہور پہلوان رُستم و سہراب کی بات کی گئی ہے جو شخصی حوالے سے تلمیحی اعتبار کے حامل ہیں۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’امن کی فاختہ اور انصاف کا ترازو‘‘ میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے :

ابھی فی الحال دہشت گرد کو دشمن بناتے ہیں

یہ مقصد غیر مرئی بھی ہے مبہم بھی ہے بے حدّ و نہایت بھی

تو اس صورت ہمارا دشمنِ جانی اوسامہ ہے

صدی کی جنگِ اوّل کے لیے وہ خوب موزوں ہے

پرانا دوست بھی ہے اور ساتھی بھی

لگے ہاتھوں سمرقند و بخارا، کابل و بغداد کو نرغے میں لے لیں گے

ہمیں تو جنگ کرنی ہے بہر قیمت، بہر صورت

ہمیں اس جنگ کی پہلی مہم کا نام دینا ہے

یہ انصافِ حقیقی ہے !

اگر اُن کی اس نظم کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی واضح جھلکیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں جسے حتمی اور منطقی شکل دینے کے لیے امریکی قیادت نے مختلف پالیسیاں اور طریقہ ہائے کار وضع کیے ہیں۔ مذکورہ بند میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی جان کاری کے پہلو بہ پہلو اُس کے مضموم مقاصد کا انکشاف بھی موجود ہے۔ اسامہ کی آڑ میں دراصل کئی امریکی مقاصد پنہاں تھے جنھیں عالمی سیاست کا بسیط ادراک رکھنے والے بہ خوبی سمجھتے ہیں اس بند میں اسامہ جسے ہر عہد میں دہشت گردی کا استعارہ سمجھا جاتا رہے گا کو شخصی تلمیح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے شعری مجموعہ ’’خوشی کی تلاش میں ‘‘ میں سے دو شعر لائقِ توجہ ہیں :

ہر مؤرخ کا قلم اپنے مفادوں کا نقیب

کہیں پابندِ سلاسل کہیں پابندِ صلیب

حامیِ رام کہیں اور کہیں گوتم کا مرید

کہیں محبوسِ روایت کہیں جدَّت کی خرید

شعرِ اوّل فکری حوالے سے تفہیم کے عمل کو سہل تر بنانے کے لیے شامل کیا گیا ہے جس میں مورخین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہیں پابندِ سلاسل اور کہیں پابندِ صلیب کہہ کر اس کی مجبوریوں کا انکشاف ہوا ہے جس کے باعث وہ منصفانہ متقضیات کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھ سکتا۔ دوسرے شعر میں اُسی فکری تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے قاری کے سامنے کچھ مزید فکری زاویے رکھے گئے ہیں۔ کہیں اُسے رام کا طرف دار کہا گیا ہے اور کہیں اُسے گوتم کا مرید گردانا گیا ہے۔ محبوسِ روایت اور جدَّت کے تناظر میں اُس کی مختلف مصلحتوں کو آشکار کیا گیا ہے۔ یہاں فضاؔ اعظمی کا پیرایۂ شعر غیر جانب داری کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے جو اُن کے اجتماعی طرزِ سخن کا خاصا ہے۔ شعرِ ثانی میں گوتم کی شخصی تلمیح استعمال ہوئی ہے جنھیں دنیا گوتم بدھ کے نام سے جانتی ہے انھیں سکھ مَت کے پیشوا کی حیثیت بھی حاصل ہے۔

اُن کے مجموعۂ کلام ’’خوشی کے نام کا سکّہ‘‘ سے ایک بند قابلِ ذکر سے جو ’’مسائل کے اختراعی حل‘‘ کے زیرِ عنواں ہے :

مکالماتِ فلاطون و حجتِ سقراط

نگارشاتِ ارسطو خطابتِ بقراط

تصورات جو سر چشمۂ علوم ہیں آج

وہ ناتمام ہیں اکثر ہیں ماخذِ اغلاط

تخیّلات سبھی زیرِ بحث لائے جائیں

ملاحظات پہ نکتے نئے اٹھائے جائیں

اس بند میں افلاطون، سقراط، ارسطو اور بقراط کی شخصی تلمیحات کارفرما ہیں جنھیں یونان کے فلاسفۂ قدیم میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بند دراصل عصری ارتقا اور تحقیق کے تناظر میں ہے اس لیے فضاؔ اعظمی نے تمام تر ماخذات و تخیلات اور ملاحظات کو ازسرِنو مطالعہ کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے فحوائے بیاں کی سیر حاسل سیر سے اس احساس کو بہ خوبی تقویت ملتی ہے کہ انھوں نے اپنے شعری کینوس میں شخصی تلمیحات کا استخدام بہ حسن و خوبی اور بہ کثرت کیا ہے۔ اُن کے شخصی تلمیحاتی زاویوں میں مختلف شعبۂ حیات سے منسوب شخصیات شامل ہیں جن میں تنوع اور ترفع کے دونوں تلازمے کار فرما ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کا بیان اور کتبِ آسمانی کی تلمیحات

 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو اہلِ سخن مذاہبِ عالم کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور مختلف اقوام کا تہذیبی و تمدنی شعور اُن کے ہاں وافر پایا جاتا ہے۔ اُن کے فحوائے کلام میں الہامی کتب کی تلمیحات بھی بہ کثرت پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے فضاؔ اعظمی ایک فرخندہ نصیب شاعر ہیں جو مختلف مذاہب کی جان کاری رکھتے ہیں۔ اس لیے اُن کے ہاں کتبِ آسمانی کی تلمیحات کے استعمال کا ایک قرینہ کارفرما ہے۔ مضمونِ ہٰذا میں ہم اُن تلمیحات کو زیرِ نظر لا رہے ہیں جو، اس حوالے سے اُن کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ تاہم دیگر فکری و فنی زاویوں کی استخراجی ترسیل کو بھی قاری کے لیے یقینی بنایا جائے گا تاکہ ایک اجتماعی تنقیدی تاثر کے اہتمام کو یقینی بنایا جا سکے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ میں سے کتبِ آسمانی کی تلمیحات کے تناظر میں ایک بند شاملِ شذرہ ہے :

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ قابیلی کہانی ہے

یہ پہلا واقعہ ہے آدمی کی لغزشِ پا کا

حسد کا اور رقابت کا

ہوائے نفس کا اور بربر ّیت کا

عوام الناس کے مابین نفسانی عداوت کا

مصرعِ اولیٰ تکراری حیثیت کا حامل ہے جس کی بدولت فکری وحدت کے تاثر کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جسے ہر بند کے آغاز میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں ایک تاریخی تاثر بھی پنہاں ہے۔ مصرعِ ثانی میں یہ قابیلی کہانی ہے۔ میں قابیل کی تلمیح استعمال کی گئی ہے جس کا ذکر قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں بھی ہے۔ اگلے مصرعوں میں ایک تاریخی واقعہ کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قابیل نے جذبۂ رقابت کے تحت ایک خوب رو دوشیزہ سے شادی کی غرض سے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تھا۔

بہ قول راقم الحروف:

ہیں مروائے کتنے ہی ہابیل اس نے

ہے آغاز جرمِ بغاوت کا عورت

تاریخِ انسانی میں ہوائے نفس کی تکمیل کے ضمن میں اور بربرّیت کے حوالے سے یہ اوّلین واقعہ ہے۔ یوں بنی نوعِ انسان کے مابین نفسانی عداوت کا آغاز ہوا۔

اِس نظم کا دوسرا بند جو قومِ نوح کے تعارف کے حوالے سے ہے۔ لائقِ التفات ہے :

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ قومِ نوح کی گمراہیوں کی داستانِ عبرت آگیں ہے

سراسر، مستقل انکارِ حق جن کا وتیرہ تھا

صنم جن کے خدا تھے، بت پرستی جن کا شیوہ تھا

جنھوں نے آتشِ باطل کے شعلوں کو ہوا دے کر

عذابِ ایزدی کے قہرِ جبروتی کو للکارا

اِس بند میں قومِ نوح کی الہامی تلمیح کا اہتمام ہوا ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ یہاں قومِ نوح کے افعال و اعمال کی اجمالی انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ انکارِ حق قومِ مذکور کا وتیرہ تھا جو بتوں کو خدا مانتی تھی اور بُت پرستی کا شیوہ اختیار کیے ہوئے تھی جس نے اپنی آتشِ باطل کو ہوا دے کر عذابِ ایزدی اور قہر جبروتی کو دعوت دی تھی۔ یہاں فضاؔ اعظمی کا طرزِ بیان واعظانہ اور مقصدیت کا حامل ہے۔ موضوعاتی متقضیات کا پاس دار بھی ہے۔

اس سے آگے جو بند ہے اس میں فرعونِ مصر کی داستان کا اجمالی پیرائے میں بیان ہے :

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ فرعونی کہانی ہے

وہ فرعوں جس کو دعویٰ تھا زمیں پر حاکمیت کا

خدا کی حاکمیت کی نفی کر کے

جو سحرِ سامری کی شعبدہ بازی کا خالق تھا

جو غرقِ موجِ دریا ہو گیا، اس کے نتیجے میں

نظمِ ہٰذا کے بند مذکور میں جہاں فرعون کی تلمیح کو بروئے کار لایا گیا ہے، وہاں فضاؔ اعظمی نے فرعونِ مصر جو مصر کا حکمران تھا اور خدائی کا دعویٰ کا حامل بھی تھا، کی حیات و وارداتِ زیست کو انتہائی قرینے سے صرف چھ مصرعوں میں سمو دیا ہے جو اُن کی فنی چابک دستی کا مظہر بھی ہے۔ اس موقع پر مجھے داستانِ یوسفؑ کا وہ خلاصہ یاد آ رہا ہے جو ایک نوجوان نے کچھ یوں رقم کیا تھا:

پیرے بود

پسرے دارد

گم کرد

بازیافت

عصرِ حاضر اور ازمنۂ فردا کے حوالے سے مذکورہ بالا نظم کا ایک اور بند دیکھیے :

کہانی بے ضمیرکی شروع روزِ ازل سے ہے

فقط اب فرق اتنا ہے

مگر یہ فرق بیّن ہے

صحیفے اب نہ اُتریں گے

ہدایت کے لیے کوئی پیمبر اب نہ آئے گا

حمایت کو ابابیلوں کا لشکر اب نہ آئے گا

نظم کے اس بند میں عالمگیری تناظر میں ایک فکری زاویے کو آشکار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ بے ضمیر کی کہانی روزِ ازل سے رو بہ ارتقا ہے مگر جس زمانے سے ہم تعلق رکھتے ہیں اس کی ایک محرومی یہ بھی ہے کہ اب نہ آسمان سے صحیفے اُتریں گے اور نہ ہدایتِ انسانی کے لیے کسی پیغمبر کو بھیجا جائے گا۔ نیز انسانوں کی امداد کے لیے ابابیلوں کے جھنڈ بھی نہیں اُتریں گے مگر اقبالؔ نے اس زاویۂ فکر سے انحراف کرتے ہوئے رجائی انداز اختیار کیا ہے :

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

دراصل دینِ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم) یعنی اسلام مکمل ترین صورت میں انسانیت کی دست گیری کے لیے موجود ہے۔ اس بند کے آخر میں ابابیلوں کے لشکر کا حوالہ قرآن مجید کی سورت فیل سے عبارت ہے۔ یوں اسے کتبِ آسمانی کی تلمیحی حیثیت حاصل ہے۔

اُن کی کتاب ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ سے غزل کا مطلع قابلِ ذکر ہے :

راز ہم اُس وقت بھی تھے آج بھی ہم راز ہیں

ہم حریمِ خُلد سے نکلی ہوئی آواز ہیں

شعرِ ہٰذا میں بنی نوعِ انسان کے اسراری پہلوؤں کو اجمالی انداز میں اجاگر کرنے کی سعیِ جمیل کی گئی ہے۔ حضرتِ انسان کی اسراریت کو ہر سخن ور نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ اس شعر میں ایک عالمگیریت کا پہلو بھی ہے جو ہمہ گیریت سے مملو ہے جس میں گیرائی و گہرائی کے فلسفے کارفرما ہیں شعرِ مذکور میں خُلد کو الہامی تلمیح کے طور پر باندھا گیا ہے جو فطری اور غیر شعوری کاوش کا حامل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ شعر ’’خاک میں صورتیں ‘‘ سے ایک بند ہدیۂ قارئین ہے :

کسی نے حکمتِ انجیل کی گواہی دی

کسی نے قصۂ تخلیق کی دہائی دی

کسی نے کام کی تقسیم کا فریب دیا

کسی نے فلسفۂ بیش و کم کی چال چلی

مراد ایک تھی، عورت کا سرنگوں ہو جائے

اور اس کی مرد سے محکومیت فزوں ہو جائے

مصرعِ اولیٰ میں انجیل کی الہامی تلمیح کا استخدام ہوا ہے۔ اس بند کے مختلف مصرعوں میں فکر کے مختلف زاویے متعارف کرائے گئے ہیں۔ ’’خاک میں صورتیں ‘‘ سے معنون یہ نظم صنفِ نازک کے تاریخی و تہذیبی سفر کی رودادِ حیات ہے۔ جس میں ازمنۂ رفتہ کے حوالے سے عورت کی ہزیمت کا پہلو ہے اور مرد کی بالا دستی کا اظہار ہے۔

اُن کی نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں سے ایک اور بند قابلِ ذکر ہے :

یہ کیا سچ ہے کہ تم قرآن سے شادی رچاتے ہو؟

اور اِس صورت سے تم اپنی زمینداری بچاتے ہو

تم اپنی عاقبت اِس طرح سے برباد کرتے ہو

کلام اللہ کی تم اِس طرح تحقیر کرتے ہو

کہاں نورِ الٰہی اور کہاں قرآن کی عظمت

کہاں یہ ملحدانہ سوچ، یہ افرادِ بد طینت

اس بند میں قرآن کی الہامی تلمیح کو دوبارہ بروئے کار لایا گیا ہے۔ فکری حوالے سے اس بند میں زمانۂ جاہلیت کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔ عورت کے حوالے سے مردانہ حیلہ کاریوں کا مذکور ہے جیسے عورت کی قرآن سے شادی کر دی جاتی تھی تاکہ عورت جائیداد میں شریک ہونے کے ناتے اپنا ورثہ دستِ دیگراں میں منتقل نہ کر دے۔ آخری شعر ایک بھرپور استفہامیہ ہے جس میں شدتِ احساس کا پہلو فطری طور پر در آیا ہے جو فضاؔ اعظمی کی جودتِ طبع کا غمّاز ہے۔

اُن کی کتاب ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے دو اشعار لائقِ التفات ہیں :

فرقِ مختوم پہ پُر پیچ عمامہ بھی ہے

روبرو وید بھی انجیل بھی گیتا بھی ہے

لیکن اطوار ہیں کچھ مطمحِ اطوار کچھ اور

لفظ کچھ اور ہیں اور مقصدِ گفتار کچھ اور

شعرِ اوّل میں انجیل کی الہامی تلمیح کا اہتمام پایا جاتا ہے جب کہ شعرِ ثانی کو موقف کی توضیح کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ ان دو اشعار میں مذہبی ٹھیکے داروں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے جن میں مولوی، پروہت اور پادری شامل ہیں۔ ان کے قول و فعل کے تضاد کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے جو براہِ راست انداز میں تو ایک تنقیدی زاویہ ہے لیکن با الواسطہ طور پر ایک اصلاحی پہلو بھی رکھتا ہے جسے فضاؔ اعظمی کے کمالِ فن پر مشیر سمجھا جا سکتا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک شعر قابلِ غور ہے :

ترقی کو جو اپنی زندگی کا مقصدِ اولیٰ سمجھتے ہیں

جو تحقیق و تبحر کو ید بیضا سمجھتے ہیں

شعرِ ہٰذا صاحبانِ کمال کے حوالے سے ہے جو ترقی کو زیست کی اوّلین ترجیح گردانتے ہیں اور تحقیق و تبحر کو یدبیضا کا مثیل سمجھتے ہیں۔ یدِ بیضا کا شمار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ہوتا ہے جس کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہاتھ اپنے بغل میں لے جاتے اور پھر نکالتے تو وہ براق و روشن ہوتا، اس معجزے کو قرآن مجید میں یدِ بیضا کا نام دیا گیا ہے۔ یوں اسے الہامی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر یدِ بیضا کا استعمال فضاؔ اعظمی کے کمالِ فکر و فن کی علامت ہے۔

اُن کی کتاب ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’میں نے یہ صدی دیکھی‘‘ میں سے عصری آشوب کے تناظر میں ایک بند درج ذیل ہے :

اژدہامِ آدم سے

شورِ الاماں اٹھا

درد سے بھری چیخیں

کچھ کرخت آوازیں

ہائے باپ ہائے ماں

کچھ گرنتھ کے اشلوک

کچھ قرآن کی آیات

لا اِلٰہ اِلآَ اللہ

ہائے آدم، ہے بھگوان

یا مسیح، یا ممدوح

یا مدد علی مولیٰ

نعرۂ فغاں اٹھا

شورِ بے کراں اٹھا

اس بند میں فضاؔ اعظمی نے آشوبِ عصر کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ واردات و کیفیات کا بیان حقیقت نگاری کے رنگ کا حامل ہے۔ اس بند میں قرآن، لا الہ الا اللہ اور مسیح کے الفاظ بھی قرآنی حوالے کے حامل ہیں۔ ان کا تعلق کتبِ آسمانی کی تلمیحات سے ہے۔ اس بند کی خوبی یہ ہے کہ یہاں شاعرِ موصوف نے بنی نوعِ انسان کو بلا تخصیص مذہب نمائندگی دی ہے جس میں سکھ، مسلمان، ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے ایک حقیقی تخلیق کار ہونے کے ناتے غیر جانب داری کے تقاضے بھی نبھائے ہیں۔

مذکورہ نظم میں سے دو اور اشعار قابلِ توجہ ہیں :

بک چکا بخارا تھا

موسوی عصا ڈھونڈا

جو سرے سے غائب تھا

آبِ نیل کے اندر

شعرِ اوّل میں موسوی عصا کو الہامی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے کیوں کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ دوسرا شعر موضوعاتی تاثر کی تکمیل کے لیے نقل کیا گیا ہے۔

’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’نیرنگیِ طبع‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ کریں :

درونِ قلبِ مضطر صبرِ ایّوبی کا گوشہ ہے

اسی مجموعۂ اضداد کا اعجاز دنیا ہے

بین النظم فضاؔ اعظمی نے ضمیر نوعِ آدم اور مزاجِ نوعِ آدم پر سیر حاصل بحث کی ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی حیاتِ عمومی کی عکاسی ہوئی ہے۔ مرقوم شعر کو نظم کے تتمہ کی حیثیت حاصل ہے جس پر نظم اپنے منطقی اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ متضاد و متنوع موضوعات کا استعمال شاعرِ مذکور نے ایک شعر کے مختصر پیمانے میں کمال چابک دستی سے کیا ہے۔ قلبِ مضطر کے پہلو بہ پہلو صبرِ ایوبی کا تذکرہ جو الہامی تلمیح کی حیثیت رکھتا ہے لائقِ تحسین ہے۔ مصرع ثانی میں مجموعۂ اضداد اور اعجاز جیسے مترادف المزاج الفاظ کا انصرام دنیا کے لیے کرنا بھی لسانی کرشمہ کاری کی دلیل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مؤخر الذکر مجموعۂ کلام کی نظم ’’بت گری شیوۂ انسانی ہے ‘‘ میں سے ایک شعر زینتِ قرطاس ہے :

عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و براہیم کے بعد

جلوہ گر جلوہ کناں شافع محشر آئے

اس شعر میں باری تعالیٰ کے پانچ جلیل القدر انبیا کا ذکر خیر کیا ہے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور شافع محشر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم) کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان تمام انبیا کا ذکر کتبِ آسمانی میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ الہامی تلمیحات کے درجے کی حامل ہیں۔

فضاؔ اعظمی کی الہامی تلمیحات کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ سے امر پایۂ تیقن کو پہنچا ہے کہ اُن کے ہاں قرآنی تلمیحات کا استعمال سب سے زیادہ ہے جس سے اُن کی مذہبِ اسلام سے والہانہ محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے انجیل و تورات کی تلمیح کو بھی مختلف موقع پر استعمال کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کی شاعری اساطیری تلمیحات کے حوالے سے

 

جہانِ شعر و ادب میں افسانوی ادب اور اساطیری ادب کی اہمیت تسلیم شدہ ہے جس کا انکار کسی طور ممکنات کا حصہ نہیں ہے۔ اساطیری ادب جسے لوک ادب بھی کہتے ہیں۔ ہماری کئی سو سالوں کی تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کا علم بردار ہے۔ اس کے اساطیر ہماری عملی زندگی سے جُڑے ہوئے ہیں اور ثقافتی و عمرانی مقتضیات کے آئینہ دار بھی ہیں جن کا کردار عمرانیات میں کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ جیسا کہ شروعاتِ کتاب میں تلمیحات کی مبادیات میں تلمیحات کی اقسام کے ضمن میں مرقوم ہے کہ اساطیری تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جو قصے، کہانیوں اور افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ فضاؔ اعظمی کے ہاں اساطیری تلمیحاتی سرمایہ بہت کم ہے مگر انھوں نے اسے نظر انداز نہیں کیا۔ شذرہ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی کے کلام میں موجود اساطیری تلمیحات کو موضوعِ بحث بنایا جائے گا۔ تمثیلات کے فقدان کے باعث لیکن درجہ بندی کے امتیاز کو روا رکھتے ہوئے دیگر متفرق تلمیحات جن میں کتابی تلمیحات اور ذخیرۂ احادیث کی تلمیحات شامل ہیں، کو بھی مضمونِ ہٰذا کا حصہ بنایا جائے گا۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ کی فردیات و متفرقات میں سے ایک شعر شاملِ تحریر ہے :

لیلیٰ کبھی محمل سے زمیں پر نہیں اُتری

مجنوں نے کبھی گوشۂ محمل نہیں چھوڑا

اس شعر میں لیلیٰ اور مجنوں کی دو اساطیری تلمیحات موجود ہیں جو مشرقی اساطیری ادب کے دو نمایاں کردار ہیں جنھیں معروف عشقیہ داستان کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ مجنوں جس کا پورا نام قیس عامری تھا اس لیے بعض شعرا نے قیس کو مجنوں کی متبادل تلمیح کے طور پر بھی برتا ہے۔ مذکورہ شعر میں عشق و محبت کے ایک زاویۂ فکر کو آشکار کیا گیا ہے۔ شاعر گویا ہیں کہ لیلیٰ کبھی محمل سے نہیں اُتریں، محمل اونٹ کے باپردہ رنگین کجاوے کو کہتے ہیں۔ یہاں لیلیٰ کی جسمانی نزاکت کا اظہار کیا گیا ہے۔ مصرع ثانی میں مجنوں کے جذباتِ عشق کی شدت و حدت کو بیان کیا گیا ہے کہ مجنوں نے اُس کجاوے جس میں لیلیٰ متمکن تھیں کبھی نہیں چھوڑا۔ یہاں فضاؔ اعظمی نے احساسِ قرب کے موضوع کو بھی اُجاگر کیا ہے۔

اُن کے شعری مجموعہ ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں سے ایک بند آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے :

یہ شہزادی ہے خوابوں کی، خیالوں کی یہ ملکہ ہے

چمن زاروں کی ہے یہ ہیر، صحراؤں کی لیلا ہے

دریچوں سے اُترتی ہے کہیں یہ جولیٹ بن کر

کہیں پر تیشۂ فرہاد میں مرنے کا سودا ہے

زمانے اور تھے وہ، اب نظامِ عشق درہم ہے

نئی دنیا کے محبس میں مزاجِ حسن برہم ہے

اس بند کے دو ابتدائی شعروں میں مختلف تلمیحاتی حوالوں سے صنفِ نازک کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اُس کے ناز و انداز کی توضیح و تصریح ہے۔ شعرِ آخر میں عصری صورتِ احوال کو بیان کیا گیا ہے۔ اس بند میں ہیر، لیلیٰ، جولیٹ اور تیشۂ فرہاد کی اساطیری تلمیحات کا اہتمام ہوا ہے۔ تیسرے شعر میں فضاؔ اعظمی نے یہ کہا ہے کہ وہ زمانے اور تھے جو گزر گئے لیکن اب نظامِ عشق درہم برہم ہے۔ نئی دنیا کی قید میں مزاجِ حسن بھی برہم ہے۔ شعرِ آخر موجودہ صورتِ حال کا حقیقی منظر نامہ پیش کرتا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے دو شعر قابلِ ذکر ہیں جو ’’محبت‘‘ کے زیرِ عنوان ہیں :

کون کہتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ہے عشق

حسنِ بیمار کہاں عاشقِ دل گیر کہاں

آہِ دل سوز کہاں نالۂ شب گیر کہاں

دشت میں قیس نہیں کوہ میں فرہاد کہاں

ان اشعار میں فکری حوالے سے انھوں نے استفہامیہ انداز میں تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے جس کی بدولت زورِ بیان فزوں تر ہوا ہے۔ عشق کو جدید تناظر میں پیش کیا ہے جس کی بدولت تصورِ عشق مفقود ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخری مصرع میں قیس و فرہاد کی اساطیری تلمیحات کا انتظام کیا گیا ہے جو لوک عشقیہ داستان کے معروف کردار ہیں۔

علاوہ ازیں فضاؔ اعظمی نے چند کتابی تلمیحات بھی استعمال کی ہیں جو مذہبی حوالے سے معروف ہیں لیکن اُن کی حیثیت الہامی کتب کی نہیں ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے ایک بند سپردِ قرطاس ہے جو ’’وحدانیت‘‘ کے سرنامے کے تحت ہے :

خود سری خود غرضی اس کی رگ وپے میں ہے

اس نے ہر دور میں پیدا کیے اصنام نئے

اس کا مذہب سے تعلق ہے نہ تہذیب سے ہے

سلسلہ اس کا نہ گیتا سے نہ زرتشت سے ہے

مذکورہ اشعار کا مرکزی موضوع ’’بُت گری روز افزوں شیوۂ انسانی ہے ‘‘ آخری مصرع میں گیتا کی کتابی تلمیح کو شامل کیا گیا ہے جس کا تعلق ہندومت سے ہے مزید براں زرتشت کا نام بہ طور مذہبی پیشوا آیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایک اور مقام پر سکھ مت کی کتاب گرنتھ کا ذکر بھی کیا ہے جسے گرو نانک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب گُر مکھی رسم الخط میں ہے جس میں مثنوی کی ہیئت میں منظومات شامل ہیں جنھیں اشلوک کہا جاتا ہے۔ مزید براں ہندومت کی کتاب وید کا تذکرہ بھی فضاؔ اعظمی کے ہاں پایا جاتا ہے۔

فضاؔ اعظمی نے ذخیرۂ احادیث میں سے بھی ایک تلمیح کو اپنے شعری کینوس کا حصہ بنایا ہے۔ اُن کی نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ سے ایک بند قابلِ ذکر ہے :

رسولِ مجتبیٰؐ کا قول ہے، یہ غور سے سن لو

کہ وہ ماں باپ جن کے گھر میں دختِ نیک اختر ہو

اور اس کی پرورش وہ شفقت و الطاف سے کر لیں

جو اس کی تربیت، پرداخت کا حامی و ضامن ہو

وہ بیٹی، باپ اور ماں کو عقوبت سے بچائے گی

وہ ان کے واسطے جنت کی کنجی لے کے آئے گی

یہاں انھوں نے حدیثِ مقدسہ کو بہ خوبی منظوم کیا ہے اور کسی نوع کی افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوئے جسے اُن کا کمالِ فن گردانا جا سکتا ہے۔

اگر اُن کی شاعری کو بہ حیثیت مجموعی عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی نظمیات میں بحرِ ہزج کو بہ کثرت برتا ہے۔ طبعی اعتبار سے یہ اُن کی پسندیدہ بحر ہے۔ دوسرے نمبر پر بحرِ رمل کو استعمال کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر مرکب و محذوف بحور کو بھی وہ بروئے کار لائے ہیں۔ نظم کی نسبت غزل میں انھوں نے زیادہ بحور استعمال کی ہیں جن میں بحرِ مضارع، بحرِ رمل، بحرِ ہزج، بحرِ رجز، بحرِ متدارک اور دیگر مرکب و محذوف بحور کا اہتمام کیا ہے۔ اُن کے فنی معاملات کو بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انھوں نے فنی مقتضیات کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی مقصدیت کو ترجیح دی ہے۔

فضاؔ اعظمی نے تلمیحات کو اپنی اُفتادِ طبع کے لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ موضوعاتی مقتضیات کے تحت کچھ تلمیحات کا استعمال بہ کثرت ہوا ہے جب کہ کچھ تلمیحات بہت کم پیمانے پر استعمال ہوئی ہیں اور کچھ کے استعمال کی نوبت بھی نہیں آئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

حاصلِ کلام

 

فضاؔ اعظمی کی شخصیت اور فن کا بہ نظرِ غائر جائزہ لینے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ۱۹۳۰ ء میں تولد پذیر ہونے والا یہ سخن ور اپنی ذات میں بہت سے پہلو رکھتا ہے اور اِس کی زندگی کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ البتہ ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ موصوف ابتدا سے آخر تک مستقل مزاجی سے شعر و سخن سے وابستہ رہے۔ تاریخ نے کئی کروٹیں بدلیں۔ بچپن، لڑکپن اور عنفوانِ شباب ہندوستان میں بسر کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں قیام پذیر ہوئے۔ چوں کہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی، لہٰذا فطری طور پر وکالت کی طرف متوجہ ہوئے مگر اُفتادِ طبع اِس سے مطابقت پیدا نہ کر سکی اور کچھ عرصہ بعد اِس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ صحافت کو بہ طور پیشہ اختیار کیا اور زیادہ عرصہ اسی سے وابستہ رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صحافت کے ڈانڈے ایک حد تک شعر و ادب سے جا ملتے ہیں۔ صحافت کے علاوہ انھوں نے تجارت کا پیشہ بھی اپنایا اور اسی کے دامن میں آخری پناہ میسر آئی۔ انھیں بیرونِ ملک جانے اور مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ و جغرافیہ کا جائزہ لینے کا موقع ملا جس کے حوالے اُن کی مختلف کتب میں بھی پائے جاتے ہیں۔

فضاؔ اعظمی بہ حیثیت شاعر ایک مسلم حیثیت رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کا شمار بہت زیادہ کہنہ مشق، پختہ کار اور عصر آفرین اساتذہ میں کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے تجربات اور فنی ریاضت نیز وسیع تر مطالعہ کے باعث ادبی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر بیسیوں شذرے لکھے گئے۔ خصوصاً ایم اے اور ایم فل کے پیمانے پر ان کی نسبت تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ عصری حوالے سے بھی پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ خصوصاً قومی و ملی شعور وافر پایا جاتا ہے۔ ظلم جہاں بھی ہوتا ہے اُن کی روح تلملا اُٹھتی ہے، نا انصافی جہاں بھی ہوتی ہے ان کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ دہرے رویے جہاں بھی کارگر نظر آتے ہیں، وہیں اُن کی صدائے احتجاج بلند ہو جاتی ہے۔ بہ طورِ خاص اسلامیانِ عالم کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، چاہے وہ یہود و نصاریٰ کی طرف سے ہوں یا ہنود کی طرف سے ہوں، اُن کا تعلق اہلِ اشتراکیت سے ہو یا اہلِ اشتمالیت سے ہو، وہ کسی بھی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو مسترد کرتے ہیں بلکہ دیگر اقوام پر بھی ظلم و ستم کو رد کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جتنا بڑا ذخیرۂ سخن ایک شاعر چھوڑتا ہے اُس میں کسی قدر انتقادی احتمالات وسیع پیمانے میں پائے جاتے ہیں۔ تلمیحات کے حوالے سے کسی شاعر کے کلام پر ہونے والا کام یقیناً ژرف نگاہی کا متحمل ہے اور اس میں مختلف اقسام کی تلمیحات دریافت کرنا اور انھیں اُجاگر کر کے منظرِ عام پر لانا، جہاں راقم کے لیے خصوصاً مشقت طلب رہا، وہاں فضاؔ اعظمی کے شعری تبحر کا بھی امتحان ٹھہرا اور بہ فضلہٖ تعالیٰ دونوں اس میں سرخ رو ٹھہرے۔ ہماری دعا ہے کہ رب العزت ہماری اِس کاوش، اور فضاؔ اعظمی کی فکر اور دانش کو اہلِ عالم کے لیے مفید ٹھہرائے۔ آمین

٭٭٭

تشکر: حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید