FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

تفسیر سورۂ فاتحہ

 

 

               آیت  اللہ ہاشمی رفسنجانی

(ماخذ: تفسیر راہنما، جلد اول)

 

 

 

 

 

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (1)

 

               عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے ۔

 

1۔  قرآن ایسی کتاب ہے جو اسم”اللہ”سے تحقق پذیر ہوئی یا وجود میں آئی۔

 

بسم اللہ

 

قرآن کریم کے آغاز میں بسم اللہ کے ذکر کو دو اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے

1۔  ایسا کلام جو پروردگار متعال نے انسانوں کے لئے بیان فرمایا ہے۔  اس اعتبار سے ”بسم اللہ” لوگوں کے لئے ایک حکم ہے کہ کس طرح اپنے کاموں کا آغاز کرو۔

2۔  اس کا متکلم خود خداوند متعال ہو۔  اس صورت میں قرآن کریم کے آغاز میں ”بسم اللہ ” اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسم ”اللہ” کے ساتھ قرآن کریم کو ظہور بخشا ہے گویا قرآن اسم ” اللہ” کا مظہر ہے۔

2۔  قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس کا آغاز اللہ کے نام اور بندگان خدا پر رحمت کے اعلان سے ہوا۔

 

3۔  کاموں کا آغاز اللہ کے نام سے کرنا چاہیئے اور ”بسم اللہ”کہنا ضروری ہے۔  قرآن کریم چونکہ کتاب ہدایت ہے اور قرآن نے اپنی گفتگو کا آغاز ”بسم اللہ” سے کیا ہے لہذا یہ نکتہ اپنے مخاطبوں کو القا فرماتا ہے کہ اپنے کاموں کا آغاز” بسم اللہ” سے کرو ۔

4 ۔  اللہ تعالی رحمان ( انتہائی وسیع رحمت کا مالک) اور رحیم (مہربان) ہے ۔

5 ۔  تمام تر موجودات اور مخلوقات اللہ تعالی کی وسیع رحمت سے بہرہ مند ہیں ۔

”رحمان” صیغہ مبالغہ ہے جو رحمت کی شدت اور وسعت پر دلالت کرتا ہے۔

6۔  اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے۔  رحمانیت اور رحیمیت کی صفت آگے پیچھے کیوں آئی ہیں جبکہ دونوں ہی اللہ کی رحمت ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں نکتہ نظریہ ہے۔  قرآن کریم کا دو صفات کا استعمال کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رحمانیت کی صفت تمام تر مخلوقات کے لئے ہے جبکہ رحیمیت کی صفت صرف انسان اور دیگر مکلف مخلوق کے لئے ہے۔

7۔ بندوں پر اللہ تعالی کی وسیع رحمت و مہربانی اس بات کی دلیل ہے کہ سب کاموں کو اس کے نام سے انجام دینا چاہیئے۔ ”اللہ”کی رحمان و رحیم سے توصیف و ثنا کرنا اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ تمام کام اللہ کے نام سے کئے جائیں بالفاظ دیگر اس حکم کی حکمت یہ ہے۔  یعنی چونکہ اللہ رحمان و رحیم ہے اسی لئے اس کے نام سے امور کا آغاز کرو۔

8 ۔  امور کی انجام دہی اللہ کے نام سے کرنا اس کی رحمت کا باعث ہے ۔

امور کو اللہ کے نام سے انجام دینے کی نصیحت کرنا اور اس کی حکمت کے طور پر رحمانیت اور رحیمیت کا ذکر اس مطلب کا بیان ہے کہ کاموں میں اللہ کا نام رحمت الہی کا موجب ہوتا ہے جبکہ اس طرح کام پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں ۔

9۔ قرآن کریم اللہ تعالی کی رحمانیت اور رحیمیت کا ایک جلوہ ہے ۔

عمومی طور پر متکلم آغاز سخن میں اپنے پروگرام کے کلی اہداف بیان کرتا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کے آغاز میں ان دو صفات کا انتخاب در حقیقت اسیلئے کیا گیا ہے کہ قرآن کریم بشریت کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کا ایک جلوہ ہے۔

10۔  عبداللہ بن سنان کہتے ہیں میں نے امام صادق (ع) سے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم” کا معنی پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا ” الباء بہاء اللہ و السین سناء اللہ و المیم مجد اللہ و روی بعضہم ملک اللہ و اللہ الہ کل شیء (و) الرحمن لجمیع العالم و الرحیم بالمؤمنین خاصۃ” (1) بسم اللہ کی باء سے مراد اللہ کا حسن و جمال اور خوبیاں ہیں سین سے مراد رفعت و بلندی ہے اور میم اللہ کی عظمت و بزرگی کی طرف اشارہ ہے ۔  بعض نے روایت کی ہے کہ میم اللہ کے ملک و سلطنت کی طرف اشارہ ہے۔  اور اللہ ہر چیز کا معبود ہے۔  رحمان کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رحمت ساری کائنات کیلئے ہے ۔ اور رحیم یعنی مومنین کے لئے اس کی خصوصی رحمت ہے۔

11۔  اسماعیل بن مہران کہتے ہیں :امام رضا (ع) نے فرمایا : ان بسم اللہ الرحمن الرحیم اقرب الی اسم اللہ الاعظم من سواد العین الی بیاضہا(2) آنکھ کی سیاہی سے اس کی سفیدی جتنی نزدیک ہے اس سے کہیں زیادہ بسم اللہ الرحمن الرحیم،اللہ تعالی کے اسم اعظم کے نزدیک ہے۔

12۔  حسن بن فضال کہتے ہیں میں نے امام علی ابن موسی الرضا (ع) سے بسم اللہ کے بارے سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا ”معنی قول القائل ”بسم اللہ” اسم علی نفسی سمۃ من سمات اللہ عزوجل و ہی العباد …(3) جب کوئی کہتا ہے بسم اللہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی بندگی و عبادت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اپنے لئے قرار دیتا ہوں ۔

13۔  ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ”قال عیسی(ع) … ”الرحمان” رحمان الدنیا و الآخرۃ و”الرحیم” رحیم الآخرۃ (4)

حضرت عیسی (ع) نے فرمایا رحمان اللہ تعالی کی دنیا و آخرت کے لئے وسیع رحمت ہے ۔  اور رحیم اللہ تعالی کی آخرت میں خصوصی رحمت ہے ۔

 

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (2)

 

               ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔

 

1۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ۔

 

الحمدللہ

 

”الحمدللہ” میں ”ال” جنس کے لئے ہے جو استغراق کا مفہوم دیتا ہے یعنی تمام حمد اللہ کے لئے ہے۔

2۔  تمام تر کمالات رعنائیوں اور خوبیوں کا سرچشمہ اللہ تعالی ہے۔

اللہ تعالی کی حمد حسن و جمال اور کمالات کے مقابلے میں ہے۔  ”الحمدللہ” کے مطابق ہر توصیف و تعریف اللہ کے لئے ہے پس ہر حسن و کمال اس کی ذات اقدس سے ہے۔

3۔  صرف اللہ تعالی ہی لائق حمد و ثنا ہے اور اسی کی ستائشے ہونی چاہیئے۔

4۔  اللہ تعالی جہان ہستی کے عالمین کا مالک اور تدبیر کرنے والا ہے۔

 

رب العالمین

 

عالمین کا مفرد عالم ہے ۔  موجودات کے ایک مجموعہ یا گروہ کو ”عالَم” کہتے ہیں ۔  پس عالمین یعنی تمام تر موجودات کے گروہ ۔

5۔  جہان خلقت متعدد عالموں سے تشکیل پایا ہے ۔ بیہ مطلب”عالمین”کے جمع ہونے سے سمجھاجاتا ہے۔

6۔  عالم ہستی تمام کا تمام خوبصورت اور اس میں موجود تدبیر و حکمت حسین و جمیل ہے۔

”رب العالمین” الحمدللہ کے لئے دلیل کے طور پر ہے یعنی چونکہ عالم ہستی کی تدبیر کرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور تعریف و توصیف ہمیشہ کمال و جمال کے لئے ہوتی ہے پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارے کا سارا جہاں ہستی خوبصورت اور اس میں موجود تدبیر حسین و جمیل ہے۔

7۔  کائنات کی تدبیر و حکمت پروردگار عالم کے اختیار سے ہے اس کے انتظام و انصرام میں جبر یا اضطرار نہیں پایا جاتا ۔

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحیح ہے جب فعل و صفت حسین اور زیبا ہونے کے علاوہ اختیاری بھی ہوں یعنی اگر فعل یا صفت حسین و جمیل ہوں تو فاعل کی حمد و ثنا کی جا سکتی ہے کیونکہ اس نے اپنے اختیار سے اس کو انجام دیا ہے۔

8۔  عالم ہستی کمال کی طرف گامزن ہے۔  ”رب” کا معنی تربیت کرنا ہے۔  تربیت کا مفہوم پہلی حالت سے ایک نئی حالت پیدا کرنا ہے تا کہ کمال تک پہنچ جائے (مفردات راغب ) ۔  یہ معنی ایک تکاملی تحرک پر دلالت کرتا ہے۔  اس بات کی جانب اشارہ مناسب ہے کہ لفظ”رب” صفت اور مصدر کے درمیان مشترک لفظی ہے اور اس آیت میں اس کا وصفی معنی آیا ہے۔

9۔  اس جہان ہستی کے عالمین کی تدبیر و حکمت کا پروردگار عالم کی طرف سےہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر تعریفیں مخصوص ہیں اس کی ذات اقدس کے ساتھ۔

10۔  عن ابی عبداللہ (ع) فی قولہ : ”الحمدللہ” قال: الشکر للہ و فی قولہ ”رب العالمین” قال: خالق المخلوقین …”(5)

امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: ”الحمدللہ” یعنی شکر ، خدا کی ذات سے مخصوص ہے اور ”رب العالمین” یعنی اللہ تمام عالمین و مخلوقات کا خالق ہے۔

 

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (3)

 

               وہ عظیم اور دائمی رحمتوں والا ہے۔

 

1۔  اللہ تعالی رحمان ( وسیع رحمت کا مالک) اور رحیم (مہربان) ہے۔

2۔  تمام تر موجودات خداوند متعال کی وسیع رحمت سے بہرہ مند ہیں ۔

 

الرحمن

 

3۔ اللہ تعالی تمام انسانوں پر مہربان ہے۔

 

الرحیم

4۔  عالم ہستی کے انتظام اور انصرام کی بنیاد اللہ کی رحمت پر ہے۔

عالم ہستی کی تدبیر یا انتظام و انصرام کے بعد اللہ تعالی کی رحمانیت اور رحیمیت کے ذکر سے یہ بات سامنے آتی ہے۔

5۔  اللہ کی رحمانیت اور رحیمیت اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر تعریفیں اس کی ذات اقدس سے مختص ہیں ۔

 

الحمدللہ رب العالمین ۔  الرحمن الرحیم

 

”الرحمن الرحیم”،”رب العالمین” کی طرح ” الحمدللہ” کے لئے دلیل کا درجہ رکھتی ہے۔  یعنی چونکہ خداوند متعال رحمان و رحیم ہے اس لئے تمام تر تعریفیں اس کی ذات اقدس کے لئے سزاوار ہیں ۔

6۔ انتظام و انصرام اور تربیت کو مہربانی اور لطف و کرم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیئے۔

 

مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ (4)

 

               روز قیامت کا مالک و مختار ہے ۔

 

 

1۔  اللہ تعالی روز قیامت کا مالک اور فرمانروا ہے۔

”مالک یوم الدین” میں ملکیت حقیقی ہے یعنی وجودی وابستگی جسکا لازمی نتیجہ یہ ہے مالک ملکیت پر کامل اور ہر طرح کا تسلط رکھتا ہے۔ ”یوم الدین” ممکن ہے مالک کے لئے مفعول ہو اورممکن ہے ظرف ہو۔  اگر ظرف ہوتو اس صورت میں مفعول ممکن ہے لفظ ”الامور” یا اس کی مثل کوئی اور لفظ ہو اس صورت میں جملے کی ترکیب یوں ہوگی” مالک الامور فی یوم الدین” بہر حال یہ مفہوم اس آیہ مجیدہ سے نکل سکتا ہے۔

2۔  قیامت کے دن حساب و کتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال کے اختیار میں ہے۔

3۔  قیامت کا برپا کرنا اور اہل دنیا کے لئے روز جزا کا قرار دینا اللہ تعالی کی رحمت کا ایک جلوہ ہے۔

 

الرحمن الرحیم ۔  مالک یوم الدین

 

رحمت الہی کے بیان کے بعد قیامت کا ذکر کرنا اس مطلب کی طرف اشارہ ہے۔

4۔ قیامت کا برپا کرنا اللہ تعالی کی جہان ہستی پر ربوبیت کا ایک جلوہ ہے۔

 

رب العالمین … مالک یوم الدین

 

مذکورہ بالا مفہوم ”مالک یوم الدین” کے ”رب العالمین” کے ساتھ ارتباط سے استفادہ کیا گیا ہے۔

5۔  قیامت کا دن جزا و سزا کا دن ہے۔

 

مالک یوم الدین

 

” دین” کا معنی یہاں جزا و سزا یا حساب و کتاب ہے یعنی ہر دو کی بازگشت ایک معنی کی طرف ہے۔

6۔  روز جزا میں خداوند متعال کی مالکیت اور اس دن اس کی فرمانروائی اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر تعریفیں اسی کی ذات سے مختص ہیں ۔

 

الحمدللہ … مالک یوم الدین

 

گذشتہ صفات کی طرح”مالک یوم الدین”، ”الحمدللہ” کے لئے دلیل ہے۔

 

إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِین ُ(5)

 

               پروردگار، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔

 

 

1۔  فقط اللہ کی ذات اقدس لائق عبادت و بندگی ہے۔

 

ایاک نعبد

 

”ایاک” مفعول ہے اور اس کا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت کرتا ہے۔

2۔  جہان ہستی پر اللہ کی ربوبیت، اس کی رحمانیت اور رحیمیت قیامت کے دن اس کا مالک ہونا یہ دلائل ہیں اس امر کے کہ صرف وہی لائق عبادت و بندگی ہے۔

 

رب العالمین ۔  الرحمن الرحیم ۔  مالک یوم الدین۔  ایاک نعبد

 

3۔ اللہ کی ربوبیت کا یقین، اس کا رحمت نازل کرنا، روز جزا کا مالک ہونا یہ امور انسان کو اللہ کی پرستش کی ترغیب دلاتے ہیں ۔

 

رب العالمین ۔  الرحمن الرحیم۔  مالک یوم الدین۔  ایاک نعبد

 

4۔  اللہ اور اس کی صفات کی معرفت توحید عبادی کے حصول کا ذریعہ ہے ۔

 

الحمدللہ رب العالمین … ایاک نعبد

 

5۔  انسانی افکار و عقائد اس کے اعمال و کردار کی بنیاد ہیں ۔

 

الحمدللہ رب العالمین۔  الرحمن الرحیم۔  مالک یو م الدین ۔  ایاک نعبد

 

6۔  خدا کے حضور خود کو ناچیز تصور کرنا اس کی بندگی کے آداب میں سے ہیں ۔

 

ایاک نعبد

 

”میں ” کی جگہ ” ہم” کا استعمال بعض اوقات بڑائی کے اظہار کے لئے ہوتا ہے اور کبھی انانیت، تکبر و خودپرستی سے اجتناب کے لئے آتا ہے۔  گفتگو کے قرینے سے مراد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  یہاں بندگی و عبودیت کی مناسبت سے تکبر و انانیت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ”نعبد ” جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

7۔  اللہ اور اس کی صفات پر ایمان اس یقین کا باعث ہے کہ سب اس کی بارگاہ اور اس کے حضور میں ہیں ۔

 

الحمدللہ رب العالمین … ایاک نعبد

 

سورہ حمد میں اسلوب کلام کو تبدیل کیا گیا ہے یعنی غائب سے خطاب کی طرف التفات ہوا ہے اور یہ امر بعض نکات کا حامل ہے۔  ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان جہان ہستی پر اللہ کی ربوبیت جیسی صفات خدا جاننے سے قبل گویا احساس نہیں کرتا کہ اللہ تعالی ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے لیکن جب وہ ربوبیت الہی اور دیگر صفات پر ایمان و یقین حاصل کر لیتا ہے تو خود کو اور دوسروں کو اللہ کے حضور پاتا ہے اسی طرح اللہ کو تمام تر حالات میں حاضر جانتا ہے۔

8۔  خود کو خدا کے حضور تصور کرنا عبادت کے آداب میں سے ہے ۔

 

ایاک نعبد

 

غائب سے خطاب کی التفات کے نکات میں سے ایک اور نکتہ سورہ حمد میں عبادت اور دعا کے آداب ہیں یعنی شائستہ یہی ہے انسان کے لئے کہ عبادت و دعا کے وقت احساس کرے کہ میں خدا کے حضور ہوں ۔

9۔  عبادت کی خاطر خدا کی حقیقی معرفت اور اس کی رحمتوں پر امید اللہ کی بندگی کے لئے ترغیبات ہیں ۔

 

الحمدللہ رب العالمین۔  الرحمن الرحیم … ایاک نعبد

 

اللہ کی ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت، مالکیت روز جزا جیسی صفات کے بیان کے بعد اللہ کی عبادت کو بیان کرنا اس کی عبادت کی ترغیبات ہیں یعنی چونکہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگی ہے۔  لوگ چونکہ اس کی رحمت کے محتاج ہیں اس لئے عبادت کریں اور اس لئے کہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہیں اس کی پرستش کریں ۔

10۔  عذاب آخرت کا خوف اور جہان آخرت میں جزا کی امید انسان کے لئے خدا کی عبادت کے محرّک ہیں ۔

 

مالک یوم الدین ۔  ایاک نعبد

 

11۔  اللہ تعالی اور اس کی صفات کی معرفت خود کو اس کی بارگاہ میں ناچیز سمجھنے کا باعث ہے۔

الحمدللہ … ایاک نعبد و ایاک نستعین

12۔  توحیدپرستوں کی آرزو ہے کہ سب لوگ یکتا پرست، خدا پرست ہو جائیں ۔

 

ایاک نعبد

 

” اعبد ۔  میں عباد ت کرتا ہوں ” کی جگہ ” نعبد ۔  ہم عبادت کرتے ہیں ” کا استعمال ہوسکتا ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ ہر توحید پرست کی خواہش ہے۔  یعنی وہ اس جملہ ” ہم عبادت کرتے ہیں ” کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ سب انسان ایسے ہی ہوں ۔

13۔  فقط وہ حقیقت یا ذات جس سے مدد طلب کی جا سکتی ہے وہ اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے۔

 

و ایاک نستعین

 

 

14۔  اللہ کی بندگی اور اس میں خلوص کے لئے انسان امداد الہی کا محتاج ہے۔

 

ایاک نعبد و ایاک نستعین

 

” نستعین” کا متعلق تمام تر فرائض ہیں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہیں ان میں ایک یکتاپرستی یا توحید پرستی کا واجب و ضروری ہونا ہے جو ”ایاک نعبد”سے سمجھ میں آتا ہے یعنی ”نستعینک علی عبادتک وخلوصہا”

15۔  باوجود اس کے کہ انسان اللہ کی بندگی پر اختیار رکھتا ہے اللہ کی مدد کے بغیر عبادت کرنے کی توانائی نہیں رکھتا ۔

 

ایاک نعبد و ایاک نستعین

 

16۔  اللہ کی حمد و ثنا اس کی امداد و نصرت سے ہی امکان پذیر ہے۔

 

الحمد للہ … ایاک نستعین

 

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہیں ان میں سے ایک اللہ کی توصیف و ثنا کا واجب و ضروری ہونا ہے ۔ بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ یہ معنی بھی نستعین سے متعلق ہے یعنی ” نستعینک علی ان نحمدک”

17۔  تمام جہان ہستی پر اللہ کی ربوبیت کی معرفت، اس کی رحمانیت و رحیمیت کا یقین اور اس کا روز جزا کے مالک ہونے کا یقین یہ سب اللہ کی امداد سے ہی ممکن ہے۔

 

الحمد للہ رب العالمین … ایاک نستعین

 

اللہ کی ربوبیت کی معرفت اور … ان شرعی فرائض میں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے لہذا یہ بھی نستعین سے متعلق ہیں یعنی ”نستعینک علی ان نعرف ربوبیتک و …”

18۔  انسان اپنے تمام امور میں اللہ کی مدد و نصرت کا محتاج ہے۔

 

ایاک نستعین

 

بعض کی رائے یہ ہے کہ نستعین کا متعلق یا استعانت کا مورد ذکر نہیں کیا گیا تا کہ تمام تر امور مراد ہوں یعنی ”نستعینک علی امورنا کلہا”

19۔ اللہ تعالی بندوں کی تمام دعاؤں کو پورا کرنے کی مکمل توانائی رکھتا ہے۔

 

و ایا ک نستعین

 

اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں ۔

20۔  اللہ تعالی اور اس کی صفات (رب العالمین، …) کی معرفت انسان کو توحید افعالی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ” ایاک نستعین ” اللہ تعالی کی ” رب العالمین” کے ساتھ توصیف کے بعد آیا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ان صفات کے ساتھ اللہ تعالی کی معرفت انسان کو اس مرحلے تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ غیر اللہ کو ناتواں سمجھے اور نتیجتاً توحید افعالی تک پہنچ جائے۔

21۔  توحید پرستوں کی آرزو ہے کہ سب انسان توحید افعالی کے قائل ہو جائیں ۔

”استعین ۔  میں مدد مانگتا ہوں ” کی جگہ ”نستعین ۔  ہم مدد مانگتے ہیں ” کا استعمال مندرجہ بالا مطلب کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔

22۔  امام رضا (ع) سے روایت ہے: ایاک نعبد رغبۃ و تقرب الی اللہ تعالی ذکرہ و اخلاص لہ بالعمل دون غیرہ و ” ایاک نستعین” استزادۃ من توفیقہ و عبادتہ و استدامۃ لما انعم اللہ علیہ ونصرہ …(6) ”ایاک نعبد” یعنی بندے کا خدا کی طرف رغبت کا اظہار اور تقرب کی تلاش اسی طرح اللہ کے لئے عمل میں خلوص جو کہ غیر خدا کے لئے نہ ہو ۔  ” ایاک نستعین ” اللہ کی بارگاہ میں بہت زیادہ توفیق اور عبادت کی درخواست اسی طرح خدا کی نعمتوں میں تسلسل اور اس کی مدد کی درخواست کرنا ہے۔

 

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیمَ (6)

 

               ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔

 

1۔  صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست ایک عارف و سالک الی اللہ انسان کی اہم ترین درخواست و دعا ہے۔

 

الحمد للہ … ایاک نستعین ۔  اہدنا الصراط المستقیم

 

اگر ”اہدنا الصراط المستقیم ” کے ”الحمدللہ رب العالمین ” کے ساتھ ربط کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ پیغام ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی معرفت کے بعد انسان کا ہدف صراط مستقیم پر گامزن رہنا ہے یعنی وہ راستہ جسکا منتہائے مقصود اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے۔

2۔  اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں دعا کرنے کا لازمی نتیجہ صراط مستقیم کا حصول ہے۔

 

اہدنا الصراط المستقیم

 

3۔ اللہ تعالی کی تعریف اور اس کی بارگاہ میں بندگی کا اظہار دعا کے آداب میں سے ہے۔  چونکہ خداوند قدوس کی حمد و ثنا اوراس کی عبودیت کے اظہار کے بعد اس کی بارگاہ میں دعا اور ” اہدنا الصراط المستقیم” کی درخواست کی گئی ہے اس سے مذکورہ بالا مطلب نکلتا ہے۔

4۔  انسان ہمیشہ کے لئے اللہ تعالی کی ہدایت و راہنمائی کا محتاج ہے ۔

5۔  صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کرنا پروردگار متعال سے مدد طلب کرنے کا انتہائی شائستہ اور زیبا مورد ہے۔

 

ایاک نستعین ۔  اہدنا الصراط المستقیم

 

اگر ” اہدنا …” کو ”ایاک نستعین” سے مربوط کر کے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت وہ اعلی ترین مورد ہے جسکے حصول میں انسان خدائے متعال کی امداد کا محتاج ہے۔

6۔ اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے بغیر انسان صراط مستقیم کو نہیں پا سکتا۔

 

اہدنا الصراط المستقیم

 

7۔  یکتاپرستی اور فقط خدا سے مدد طلب کرنا ” صراط مستقیم ” ہے۔

 

ایاک نعبد و ایاک نستعین ۔  اہدنا الصراط المستقیم

 

لفظ الصراط میں الف لام عہد ذکری ہوسکتا ہے اور یہ ان حقائق کی طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آیت میں گذرچکے ہے اور ان میں یکتاپرستی اور صرف خدا سے مدد طلب کرنا ہے۔

8۔  اللہ تعالی پر اور اس کی صفات پر ایمان لانا ” صراط مستقیم ” ہے۔

 

الحمدللہ رب العالمین … اہدنا الصراط المستقیم

 

”الصراط المستقیم” کا جن حقائق کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالی اور اس کی ربوبیت پر ایمان لانا ان میں سے ہے۔  ان کی طرف اشارہ ”الحمدللہ ” سے ”مالک یوم الدین” تک کیا گیا ہے۔

9۔  ایک توحید پرست انسان کی آرزو ہے کہ سب انسان صراط مستقیم کی ہدایت پالیں ۔

 

اہدنا الصراط المستقیم

 

اس مطلب کی طرف راہنمائی اسطرح ہوتی ہے کہ ” اہدنا ہمیں ہدایت فرما” استعمال ہوا ہے نہ کہ ” اہدنی مجھے ہدایت فرما ”۔

10۔  ہدایت کے بہت سارے درجات اور مراحل ہیں ۔

گذشتہ آیات کے بعد ”اہدنا” کا استعمال اس امر کی طرف نشاندہی کر رہا ہے کہ یہ دعا کرنے والا انسان ہدایت یافتہ ہے۔  بنابریں یہ کہنا چاہیئے کہ ہدایت کے بہت سارے مراحل ہیں اور یہ کہنا صحیح ہے : ہر وہ شخص جو ہدایت پا چکا ہے اس کو بھی انتہائی سنجیدگی سے ہدایت کی دعا کرنی چاہیئے۔

11۔  ہدایت کے حصول کے لئے بارگاہ رب العزت میں دعا کا بہت موثر کردار ہے۔

12۔  امام رضا (ع) سے روایت ہے :”اہدنا الصراط المستقیم استرشاد لدینہ واعتصام بحبلہ و استزادۃ فی المعرفۃ لربہ عزوجل … (7)

”اہدنا الصراط مستقیم” اللہ کے دین کی طرف ہدایت، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ کی معرفت میں اضافے کی دعا ہے۔

13۔  امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: ”الصراط المستقیم” صراط الانبیاء و ہم الذین انعم اللہ علیہم (8)

” صراط مستقیم ” سے مراد انبیاء (ع) کا راستہ ہے یہی وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ تعالی نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں ۔

14۔  عن رسول اللہ (ص) انہ قال ( فی قول اللہ عزوجل)۔ اہدنا الصراط المستقیم دین اللہ الذی نزل بہ جبرئیل (ع) علی محمد (ص) … (9) ۔ ۔رسول اللہ (ص) سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے اہدنا الصراط المستقیم کے بارے میں فرمایا اس سے مراد اللہ کا دین ہے جو جبرائیل (ع) کے ذریعے محمد (ص) پر نازل ہوا ۔

15۔  عن رسول اللہ(ص) وعن علی (ع) فی معنی ”الصراط المستقیم ” انہ کتاب اللہ (10)

پیامبر اسلام (ص) اور حضرت علی (ع) سے روایت ہے کہ صراط مستقیم سے مراد اللہ کی کتاب ہے۔

16۔  امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

”الصراط المستقیم امیرالمومنین علی(ع) ” (11)

صراط مستقیم امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں ۔

 

صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمْتَ عَلَیهِمْ غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ (7)

 

               جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں ۔

 

1۔  قرآن کریم میں انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے ایک وہ ہیں جو ہدایت پر ثابت قدم ہیں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ایزدی میں غضب کا شکار ہیں ۔

 

صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین

 

”انعمت علیہم” سے پہلے اور بعد والی آیات کے قرینے کی بنا پر  انعمت سے مراد ہدایت کی نعمت ہے نہ کہ مادی نعمتیں ۔  ان نعمات سے تمام مخلوقات حتی کافر بھی بہرہ مند ہیں ۔

2۔  بعض انسان اللہ تعالی کی خصوصی ہدایت سے بہرہ مند ہیں اور ہدایت کے اعلی مراتب و مراحل کے حامل ہیں۔

 

صراط الذین انعمت علیہم

 

جیسا کہ بیان ہوا ہے ”نعمت” سے مراد ہدایت کی نعمت ہے جبکہ ہدایت کی دعا مانگنے والے خود ہدایت یافتہ ہیں لہذا یہاں مراد خاص ہدایت ہے۔

3۔  صراط مستقیم کی ہدایت اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔

یہاں نعمت مطلق بیان ہوئی ہے پس اس سے ہدایت کی نعمت کا ارادہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ متکلم ہدایت کی نعمت کے مقابل دیگر نعمتوں کو نعمت تصور نہیں کرتا اور یہ چیز حکایت کرتی ہے کہ ہدایت کی نعمت بہت ہی عظیم ہے۔

4۔  بعض ہدایت یافتہ لوگ ہدایت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اور گمراہ افراد میں سے قرار پائے۔

 

صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین

 

مذکورہ مطلب اس بنا پر ہے کہ”غیر المغضوب” ،”الذین انعمت” کے لئے ایک احترازی صفت ہے۔  بنابریں جن کو نعمت دی گئی یعنی ہدایت یافتہ افراد کے تین گروہ ہیں:

۱ ۔  وہ ہدایت یافتہ افراد جو ہدایت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ”مغضوبین” میں سے قرار پائے

۲۔  وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہو گئے اور ” ضالین” میں سے قرار پائے

۳۔  وہ ہدایت یافتہ انسان جو صراط مستقیم پر آخر تک ثابت قدم رہے۔

 

5۔  ہدایت یافتہ افراد کے لئے یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ بھی غضب شدہ اور گمراہ افراد کے زمرے میں آ جائیں ۔

 

صراط الذین انعت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین

 

6۔  اللہ تعالی کی یکتائی کے قائل خداپرست انسان چاہتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ثابت قدم انسانوں میں سے ہوں ۔

 

الحمدللہ … اہدنا الصراط المستقیم ۔  صراط الذین انعمت علیہم

 

7۔  ” صراط مستقیم” خدا کی طرف جانے والا راستہ ہے جس میں کجی اور انحراف ہرگز نہیں پایا جاتا۔

 

اہدنا الصراط المستقیم ۔  صراط الذین انعمت علیہم

 

” غیر المغضوب …” سے” الذین …” کی صفت بیان کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ” صراط الذین …” ایسا راستہ ہے جس میں انحراف اور کجی ہرگز نہیں ہوسکتی اور اسی راستے کو صراط مستقیم کہتے ہیں کیونکہ”صراط الذین”، ”الصراط المستقیم” کے لئے عطف بیان ہے۔

8۔  ہدایت یافتہ انسانوں کے عملی نمونے صراط مستقیم کے حصول اور اس پر گامزن رہنے میں انتہائی اہم کردار کے حامل ہیں ۔  صراط مستقیم کو چونکہ ہدایت یافتہ انسانوں کی راہ سے تفسیر و تعبیر کیا گیا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ صراط مستقیم کے حصول کے لئے انسان عملی نمونوں کا محتاج ہے۔  پس ضرورت ہے کہ ان سالکان راہ کی تلاش کرے اور ان کی پیروی کرے۔

9۔ جن کو نعمات سے نوازا گیا ہے( ہدایت یافتہ انسان) وہ ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کا غضب نہیں ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے۔

 

صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین

 

یہ مطلب اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ اگر ” غیر المغضوب” ، ”الذین” کے لئے توضیحی صفت ہو یا بدل اور یا عطف بیان ہو۔

10۔  عن جعفر بن محمد (ع) قال: قول اللہ عزوجل فی الحمد”صراط الذین انعمت علیہم” یعنی محمداً وذریتہ صلوات اللہ علیہم (1) امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: ”صراط الذین انعمت علیہم” سے سورہ حمد میں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) کی ذریت (ع) ہیں ۔(12)

11۔  امام رضا (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: …

 

غیر المغضوب علیہم

 

استعاذۃ من ان یکون من المعاندین الکافرین المستخفین بہ و بامرہ و نہیہ …(13)

غیر المغضوب علیہم سے مراد اللہ کی پناہ طلب کرنا اس سے کہ انسان دشمنوں اور کافروں میں سے ہو جو اللہ کو اہمیت نہیں دیتے اور اللہ کے امر و نہی کو ہلکا سمجھتے ہیں ۔

 

حواشی

 

1) معانی الاخبارص3ح1،نورالثقلین ج/1 ص12ح46۔

2) تفسیر عیاشی ج/1 ص21 ح 13 ، نورالثقلین ج/1 ص8 ح23 ، 25۔

3) معانی الاخبارص3 ح1،نورالثقلین ج/1ص11ح41۔

4) الدرالمنثور ج/1 ص23۔

5) تفسیر قمی ج/1 ص 28 ، نورالثقلین ج/1 ص 15 ح 60۔

6) من لایحضرہ الفقیہ ج/1 ص 204 ح12، نورالثقلین ج/ 1 ص 19 ح 81۔

7) من لا یحضرہ الفقیہ ج/ 1 ص 204 ح 12 ، نورالثقلین ج/ 1 ص 20 ح 85۔

8) تفسیر عیاشی ج/ 1 ص 22ح17 ، نورالثقلین ج/ 1 ص 20 ح 86۔

9) تفسیر فرات کوفی ص 51،بحارالانوار ج/36 ص128 ح 71۔

10) مجمع البیان ج/1ص104، نورالثقلین ج/ 1 ص20 ح 87۔

11) معانی الاخبار ص 32 ح 2 ، نورالثقلین ج/ 1 ص 21 ح 94۔

12) معانی الاخبار ص 36 ح 7 ، نورالثقلین ج/1 ص 23 ح 101۔

13) من لا یحضرہ الفقیہ ج/1 ص204 ح 12 ، نورالثقلین ج/ 1 ص 24 ح 108۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.maaref-foundation.com/urdu/quran/tafsir۔ rahnama/tafsir۔ 01/001/01.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید