FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

بیاں ہونے لگا  ہوں

 

 

 

 

               حیدر قریشی

 

 

 

’’درد سمندر‘‘ کی غزلیں

 

 

 

عروج کیا ہے، زوال کیا ہے

خوشی ہے کیا اور ملال کیا ہے

 

یہ گردشِ ماہ و سال کیا ہے

زمانے! تیری یہ چال کیا ہے

 

بھلے ہو وقتی اُبال چاہت

مگر یہ وقتی اُبال کیا ہے

 

ہوس تو بے شک ہوس ہی ٹھہری

پہ جستجوئے وصال کیا ہے

 

ہے دل کوئی بے کنار صحرا

کہ آرزوؤں کا جال، کیا ہے

 

حقیقتیں تو فریب نکلیں

جہانِ خواب و خیال کیا ہے

 

سوال جو اتنے کر رہے ہو

تمہارا اصلی سوال کیا ہے

 

ہر ایک رنجش بھلا چکے ہو

تو دل کے شیشے میں بال کیا ہے

 

خدا ہے مشکل کُشا تو حیدر

کوئی بھی کارِ محال کیا ہے

٭٭٭

 

خود اپنے واسطے آزارِ جاں  ہونے لگا ہوں

کسی نا مہرباں  پر مہرباں ہونے لگا  ہوں

 

غزل کے روپ میں جو قصہ خواں ہونے لگا ہوں

تو یوں لگتا ہے تیری داستاں ہونے لگا ہوں

 

کچھ عرصہ خوش گمانی بھی رہی ہے اس سے بے شک

مگر اس شوخ سے اب بد گماں ہونے لگا ہوں

 

مجھے معلوم ہے سلطان جابر کیا کرے گا

مگر میں کلمۂ حق ہوں ،بیاں ہونے لگا  ہوں

 

کسی کی ناروا پابندیوں کو توڑ کر اب

دلوں میں گونجنے والی اذاں ہونے لگا ہوں

 

گھٹن کب دیر تک رستہ ہوا کا روک پائی

اسے کہہ دو کہ میں پھر سے رواں ہونے لگا ہوں

 

مجھے دھرتی پہ ہی رہنا تھا ہر حالت میں حیدر

مگر یہ کیا ہوا کہ آسماں ہونے لگا ہوں

٭٭٭

 

وصل کی شب تھی اور اُجالے کر رکھے تھے

جسم و جاں سب اُس کے حوالے کر رکھے تھے

 

جیسے یہ پہلا اور آخری میل ہوا ہو

حال تو دونوں نے بے حا لے کر رکھے تھے

 

کھوج رہے تھے رُوح کو جسموں کے رستے سے

طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے

 

ہم سے نادانوں نے عشق کی برکت ہی سے

کیسے کیسے کام نرالے کر رکھے تھے

 

وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں

بال اپنے ہم نے بھی کالے کر رکھے تھے

 

اپنے آپ ہی آیا تھا پھر مرہم بن کر

جس نے ہمارے دل میں چھالے کر رکھے تھے

 

حیدر اپنی تاثیریں لے آئے آخر

ہجر میں ہم نے جتنے نالے کر رکھے تھے

٭٭٭

 

 

 

موسم کی بے مہر فضا میں گرتے ہیں

سوکھے پتے سرد ہوا میں گرتے ہیں

 

رہتی ہے پرواز کی خوش فہمی اُن کو

جو اپنے اندر کے خلا میں گرتے ہیں

 

گرتے ہیں تو گرتے ہی جاتے ہیں پھر

اہلِ ستم جب مکر و ریا میں گرتے ہیں

 

گیت سناتے ہیں جھرنے کے گرنے کا

حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں

 

تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں ، جب

درد سمندر، دل دریا میں گرتے ہیں

 

یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدر

یا اب پیہم اَشک دُعا میں گرتے ہیں

٭٭٭

 

طے ہو گیا اک وصل سفر اور مکمل

یہ چوٹی بھی اب ہو گئی سَر اور مکمل

 

خِیرہ ہوئی تھیں آنکھیں ، خزانے کی دَمک سے

جب کھل گئے اُس حُسن کے دَر اور مکمل

 

آسیب بنے بیٹھے تھے مدت سے جو دل میں

خود اُس نے نکالے وہی ڈر اور مکمل

 

تردیدِ شبِ ہجر میں روشن سی کوئی شب

پھیلی رہی تا حدّ سَحر اور مکمل

 

اب تجھ سے بھی ملنا نہ میسر رہا اے دل

تجھ میں تو وہی کر گیا گھر اور مکمل

 

جتنے بھی تری ذات سے وابستہ ہیں پیارے

الزام لگا دے مِرے سَر اور مکمل

 

ہو جائے نہ مغرور کہیں اور وہ حیدر

اب اُس سے کرو صَرفِ نظر اور مکمل

٭٭٭

 

 

 

اب کے اُس نے کمال کر ڈالا

اک خوشی سے نڈھال کر ڈالا

 

چاند بن کر چمکنے والے نے

مجھ کو سورج مثال کر ڈالا

 

پہلے غم سے نہال کرتا تھا

اب خوشی سے نہال کر ڈالا

 

اک حقیقت کے رُوپ میں آ کر

مجھ کو خواب و خیال کر ڈالا

 

دُکھ بھرے دل سے دُکھ ہی چھِین لئے

اور جِینا وبال کر ڈالا

 

ایک خوش خط سے شخص نے حیدر

ہم کو بھی خوش خیال کر ڈالا

٭٭٭

 

 

 

 

جو بَس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے

تری چاہت میں مَر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر

نہیں جانا تھا، پر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

ستارا جب مِرا گردش سے باہر آ رہا ہے

تو پھر دل کا ٹھہر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

درختوں پر پرندے لَوٹ آنا چاہتے ہیں

خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

اندھیرا اِس قدر گہرا گیا ہے دل کے اندر

کوئی سورج اُبھر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

بہت مشکل ہوا اندر کے ریزوں کو چھپانا

سو اب اپنا بکھر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

تجھے میں اپنے ہر دُکھ سے بچانا چاہتا ہوں

ترے دل سے اُتر جانا ضروری ہو گیا ہے

 

نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اِس دل پہ حیدر

پُرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو میرے لکھے سے استفادہ بھی کر رہا ہے

خلاف باتیں وہی زیادہ بھی کر رہا ہے

 

کبھی نہ ہو تنگ حوصلہ اُس کا میرے مالک

جو زخم دے کر اسے کشادہ بھی کر رہا ہے

 

کبھی نہ ملنے کے فیصلے پر بھی ہے وہ قائم

دوبارہ ملنے کا کچھ ارادہ بھی کر رہا ہے

 

وہ جانتا ہے یقین مجھ کو نہیں ہے بالکل

تبھی تو اتنے یقیں سے وعدہ بھی کر رہا ہے

 

ضرور اس میں بھی پیچ حیدر کہیں پہ ہو گا

وہ ظاہراً چاہے بات سادہ بھی کر رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ جو ابھی تک خاک میں رُلنے والے ہیں

سچّے موتیوں میں اب تلنے والے ہیں

 

اپنی ذات کے دروازے تک آ پہنچے

بھید ہمارے ہم پر کھلنے والے ہیں

 

دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم

سو اب اُس کے عشق میں گھلنے والے ہیں

 

واقفیت ہے اِن سے اپنی برسوں کی

دُکھ تو ہمارے ملنے جلنے والے ہیں

 

آنکھیں اس کی بھی ہیں اب برسات بھری

حیدر مَیل دِلوں کے دھُلنے والے ہیں

٭٭٭

اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے

ورنہ کم از کم اپنی آواز ہی مدھم کرتے

 

اس کی انا تسکین نہیں پاتی خالی لفظوں سے

شاید کچھ ہو جاتا اثر، تم گریۂ پیہم کرتے

 

سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا

درد کو اپنی دوا بناتے، زخم کو مرہم کرتے

 

کام ہمارے حصے کے سب کر گیا قیس دوانہ

کونسا ایسا کام تھا باقی جس کو اب ہم کرتے

 

ہر جانے وا لے کو دیکھ کے رکھ لیا دل پر پتھر

کس کس کو روتے آخر،کس کس کا ماتم کرتے

 

دل تو ہمارا جیسے  پتھر سے  بھی سخت ہوا تھا

پتھر پانی ہو گیا،سوکھی آنکھوں کو نم کرتے

 

بن جاتا تریاق اسی کا زہر اگر تم حیدر

کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اس پر دَم کرتے

٭٭٭

 

اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لئے ہے

اک یاد کہ سینے میں چبھونے کے لئے ہے

 

اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے ہیں جس نے

اک غم کہ جو ، تا عمر بلونے کے لئے ہے

 

اک روح کہ سونا ہے مگر مَیل بھری بھی

اک آگ اسی مَیل کو دھونے کے لئے ہے

 

آنکھوں میں ابھی دھول سی لمحوں کی جمی ہے

دل میں کوئی سیلاب سا رونے کے لئے ہے

 

دل کو تو بہت پہلے سے دھڑکا سا  لگا تھا

پانا ترا  شاید  تجھے کھونے کے لئے ہے

 

کشتی کا یہ ہچکولا ، یہ ملّاح کا  چکّر

کشتی کو نہیں ، مجھ کو ڈبونے کے لئے ہے

 

تقدیر سے لڑ سکتا ہے کوئی کہاں حیدر

وہ حادثہ ہونا ہے جو ہونے کے لئے ہے

٭٭٭

تازہ ترین غزلیں

 

بہ فیضِ بلہے شاہ

رقص کناں ہے جس کے اندر ازل، ابد کا مور

وہ ہے اک بے انت خلا سا جس کی اور نہ چھور

 

اک دل کا پھیلا صحرا ، خاموشی سے معمور

اک کم ظرف سمندر ،جس میں خالی خولی شور

 

سارے حوالے برکت والے نور بھرے دربار

کوٹ مٹھن،اجمیر شریف اور دہلی ، اور لاہور

 

حال،دھمال سے تن من روشن،روشن ہو گئی جان

جگمگ کر اٹھی ہو جیسے ایک اندھیری گور

 

اپنی اڑانیں ، ساری شانیں ،تیرے دَم سے یار

تیرے ہاتھ ہوائیں ساری تیرے ہاتھ میں ڈور

 

رشتے ناطے اور تعلق کیسے میرے یار!

کب کچھ مان کسی پر اپنا، کب کچھ اپنا زور

 

مَن سے لے کر بُکل تک ہوں ویران و حیران

چوری کرنا چھوڑ گئے ہیں میرے سارے چور

 

سات سمندر سے تو اپنے پاپ نہیں دھُل پائے

تو ہی بھیج اب دل کے صحرا کوئی گھٹا گھنگھور!

 

حیدر نے پہچان کے تجھ کو جانا تیرا بھید

”بلہے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پئے کوئی ہور“

٭٭٭

 

 

 

اس نے تو اپنا سارا کچھ میرے ہی نام لکھ دیا

کیسے سیاہ بخت کو ، ماہِ تمام لکھ دیا

 

اندر کی جانب اور بھی اندر سفر کیا شروع

ازلی مسافروں کو جب اس نے قیام لکھ دیا

 

دل یہ سمجھ کے خوش ہوا،مزدوری ختم ہو چکی

قسمت نے عشق کا اسے،ایک اور کام لکھ دیا

 

آوارگی کو میری قید اُس نے کچھ ایسے کر لیا

ہونٹوں سے مہر ثبت کی،دل میں مقام لکھ دیا

 

حیدر ہمارے عہد میں ،اکیسویں صدی میں بھی

میرا نے اپنے ہاتھ سے رادھا کو شام لکھ دیا

 

٭٭٭

 

گزر نہیں کسی تلمیح،استعارے کا

یہاں تو عشق ہے جیسے بجٹ خسارے کا

 

عجیب لہر سی دونوں کے من میں اُٹھی تھی

رہا نہ فرق سمندر کا اور کنارے کا

 

کبھی تھا ہجر میں بھی وصل کا مزہ لیکن

ہے وصل ہجر زدہ آج ہجر مارے کا

 

تمہارے جوش بھی سب ٹھنڈے پڑ گئے پیارے

ہمارا پیار بھی بس رہ گیا گزارے کا

 

دُکھ آیتوں سے بھری اس کی ہر کہانی ہے

عجیب رنگ ہے اس دل کے ہر سپارے کا

 

گھِرا ہوا ہوں اندھیرے بھنور کے چکر میں

یقیں کیا تھا کسی ’’روشنی کے دھارے‘‘ کا

 

خدا پہ چھوڑ دو سارا معاملہ حیدر

نتیجہ جو بھی نکل آئے استخارے کا

٭٭٭

 

 

 

آنکھ سے گر کر ٹوٹے خواب کھلونے ہیں

اور اب دل کے ، بچوں جیسے رونے ہیں

 

عمرِ لا حاصل کا  جو حاصل ٹھہرے

کس نے ایسے داغِ ملامت دھونے ہیں

 

درد ہمارے تو انمول نکل آئے

گرچہ خرید ے ہم نے اونے پونے ہیں

 

صرف گناہوں کا ہی بوجھ نہیں سر پر

اپنے نیک اعمال بھی ہم کو ڈھونے ہیں

 

رادھے،میٹھے رادھے! کچھ پہچان ذرا

دیکھ ہمیں ہم تیرے شام سلونے ہیں

 

زخموں کی خیرات بھی کب مل پائے گی

حُسن سے کچھ احسان ہی ایسے ہونے ہیں

 

راس زمینِ دل کو غم ایسے آئے

غم کی فصلیں کاٹ کے،پھر غم بونے ہیں

 

یادوں کے پھولوں سے،اپنی پلکوں نے

اُس کی جیت پہ حیدر ہار پرونے ہیں

 

عشق میں حیدر باون سال کا ہو کے بھی

بیس برس کی عمر کے رونے دھونے ہیں

٭٭٭

 

8 اکتوبر2005 کے قیامت خیز زلزلہ کی خبریں دیکھ دیکھ کر15 اکتوبر کو ارتجالاً غزل کے یہ اشعار ہو گئے۔

 

 

ٹوٹتے،گرتے ہوئے گھر نہیں دیکھے جاتے

بد دعا جیسے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے

 

پھول چہروں پہ کھِنڈے ڈر نہیں دیکھے جاتے

آنکھ سے خوف کے پیکر نہیں دیکھے جاتے

 

ارضِ خوش رنگ کے سب کوہ و دمن لرزاں ہیں

خون روتے ہوئے پتھر نہیں دیکھے جاتے

 

گر گئے دستِ دعا گنبد و مینار کے ساتھ

خاک ہوتے ہوئے منبر نہیں دیکھے جاتے

 

زندگی رُلتی رہی کیسے قضا کے ہاتھوں

اور احوالِ ستم گر نہیں دیکھے جاتے

 

قہر برساتی ہے کہ چشمِ فلک روتی ہے؟

جو بھی ہے اس کے یہ تیور نہیں دیکھے جاتے

 

برفباری کا جہنم بھی چلا آتا ہے

منجمد ہوتے مقدر نہیں دیکھے جاتے

 

دیکھتے دیکھتے آنکھوں میں اُتر آتے ہیں

اور۔۔یہ غم کے سمندر نہیں دیکھے جاتے

 

دیکھتے رہتے ہیں ہر حال میں حیدر پھر بھی

گرچہ ٹی وی کے مناظر نہیں دیکھے جاتے

٭٭٭

 

 

 

فصلِ غم کی جب نو خیزی ہو جاتی ہے

درد کی موجوں میں بھی تیزی ہو جاتی ہے

 

پانی میں بھی چاند ستارے اُگ آتے ہیں

آنکھ سے دل تک وہ زرخیزی ہو جاتی ہے

 

اندر کے جنگل سے آ جاتی ہیں یادیں

اور فضا میں صندل بیزی ہو جاتی ہے

 

خوشیاں غم میں بالکل گھل مل سی جاتی ہیں

اور نشاط میں غم انگیزی ہو جاتی ہے

 

شیریں سے لہجے میں بھر جاتی ہے تلخی

حیلہ جوئی جب پرویزی ہو جاتی ہے

 

بے حد پاور جس کو بھی مل جائے،اس کی

طرز یزیدی یا چنگیزی ہو جاتی ہے

 

کو شش جتنی بھی بچنے کی کر لوں ، پھر بھی

اردو میں کچھ کچھ انگریزی ہو جاتی ہے

 

غزلوں میں ویسے تو سچ کہتا ہوں لیکن

کچھ نہ کچھ تو رنگ آمیزی ہو جاتی ہے

 

حسن تمہارا تو ہے سچ اور خیر سراپا

ہم سے ہی بس شر انگیزی ہو جاتی ہے

 

ظاہر کا پردہ ہٹنے والی منزل پر

سالک سے بھی بد پرہیزی ہو جاتی ہے

 

رومی کو حیدر جب بھی پڑھنے لگتا ہوں

باطن کی دنیا تبریزی ہو جاتی ہے

٭٭٭

کون انگڑائی سی لیتا ہے نفس کے اندر

لذتِ وصل مہکتی ہے ہوس کے اندر

 

پھر سے در پیش ہوا لگتا ہے باہر کا سفر

لہر سی اُٹھنے لگی ہے کوئی نَس کے اندر

 

رَس بنایا گیا  اس زندگی کو پہلے، پھر

موت کا زہر ملایا گیا رَس کے اندر

 

پھول نے صرف بکھیری ہے مہک بھینی سی

اصل خوشبو تو وگرنہ ہے سِرَس کے اندر

 

قافلے والے بہت خوش تھے دَمِ رخصت تو

سسکیاں کس کی تھیں آوازِ جرس کے اندر

 

کُن کا اک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا

آسماں ہو گئے تخلیق قفس کے اندر

 

حیدر اک اور ہی دنیا ہے یہ انٹر نیٹ کی

کیا سے کیا ہو گیا ہوں سات برس کے اندر

٭٭٭

یہ واقعہ ہوا اپنے وقوع سے پہلے

کہ اختتامِ سفر تھا ، شروع سے پہلے

 

نہیں تھی لذتِ سجدہ، رکوع میں لیکن

اک اور کیف تھا،کیفِ خشوع سے پہلے

 

نصوص کو بھی کبھی دیکھ لیں گے فرصت میں

ابھی نمٹ تو لیں ’’مومن‘‘ فروع سے پہلے

 

معافی مانگنا پھر بعد میں خلوص کے ساتھ

گناہ کرنا خشوع و خضوع سے پہلے

 

اُسی کے پاس تو جانا ہے لوٹ کر آخر

سو خوب گھومئے ، پھرئیے ، رجوع سے پہلے

 

سپاہِ شب نے تو اندھیر کر دیا تھا بہت

سو آگیا ہوں میں وقتِ طلوع سے پہلے

 

 

یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدر

سلام پھیر لیا ہے رکوع سے پہلے

٭٭٭

 

٭٭٭

مصنف کے مجموعے ’’درد سمندر‘‘ کی غزلوں کا  مجموعہ، تشکُّر مصنف

اردو تحریر میں تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید