FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بھیڑ یا  بھیڑیا

(ناول)

               ڈاکٹر سلیم خان

 

 من جعل قاضیاً بین النّاس فقد ذبح بغیر سکّین

جس کسی کو لوگوں کا قاضی بنا دیا گیا اس کو بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا (حدیث)

 

انتساب

شبنم کی مانند نرم و نازک، صاف و شفاف اور

 تر و تازہ طبیعت کے حامل شفیق بزرگ

مرحوم ڈاکٹر عبدالباری شبنم سبحانی صاحب

کے نام

 

باعث تو مرے قتل  کا حالات ہیں میرے

قاتل مرا دشمن  ہے کہ، دنیا ہے کہ، میں ہوں

 

ٹھاکرسکھدیو سنگھ

 بلدیو کہاں ہے ماسی؟ منیشا نے پوجا گھر سے باہر آتے ہوئے پوچھا۔

 سرسوتی عرف سرجو نے سر جھکائے ہوئے جواب دیا۔ ہو گا!اپنے کمرے میں۔

 لیکن اس کی کو ئی کھڑل پڑل سنائی  نہیں دے رہی۔ سو گیا ہے کیا؟

سو گیا؟کیسے سوال کرتی ہو بہو جی؟ وہ ننھا شیطان اتنی جلدی سونے لگے تو پرلیہ (قیامت) آ جائے گا

وہ تو صحیح ہے ماسی لیکن اس کا خاموش بیٹھ جانا بھی کسی قیامت سے کم نہیں ہے

جی ہاں بیٹی تمہاری بات درست ہے۔ دراصل آج باغ سے آنے میں کافی تاخیر ہو گئی اس لئے میں رسوئی گھر میں ایسی مصروف ہوئی کہ اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ اب مجھے بھی حیرت ہے یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں ہے ؟تم کھانا شروع کرو میں اسے دیکھ کر آتی ہوں۔

دیکھ کر نہیں بلکہ اپنے ساتھ لیتی آنا۔ میں اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہوں۔ آج پوجا کے دوران بھی نہ جانے کیوں بار بار اس کا خیال من میں آتا رہا۔

ٹھیک ہے بیٹی میں ابھی آئی۔ تم سوچتی بہت ہو۔ یہ کہہ کر سرجو ماسی نے سوچا اگر منیشا بلدیو کے بارے میں نہیں تو کس کے بارے سوچے گی؟  اس دنیا میں بلدیو کے علاوہ اس کاہے بھی کون؟ حویلی میں اس کا ایک پتی تھا اور ایک سسر۔ ان دونوں کا سورگ واس ہو گیا۔ اب رہ گئے منیشا، بلدیو، سرجواور کچھ نوکر چاکر۔ ویسے سرجو اس گھر میں بلدیو کے پتا سچدیو سنگھ کی دائی بن کر آئی تھی۔ یہ تو حویلی والوں کاظرف تھا کہ انہوں نہ کبھی اسے حقیر سمجھا اورنہ غیر، ورنہ حقیقت یہی تھی کہ ابتداء میں  سرجو کی  حیثیت ایک خادمہ کی سی تھی لیکن پھر حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ وہ حویلی کی نہ صرف ایک فرد بلکہ معزز ترین شخصیت بن گئی۔ یہ اور بات ہے کہ اس مسافت میں سرجو نے ایک چوتھائی صدی کا طویل عرصہ گذار دیا۔ اس کی عمر کا بہترین حصہ  حویلی کی نذرہو چکا تھا  اور اس دوران نہ جانے کب اور کیسے وہ سرسوتی دیوی سے سرجو ماسی میں تبدیل ہو گئی تھی۔

سرجو ماسی کا معمول یہ تھا کہ صبح سویرے بلدیو کو جگاتی۔ اسے نہلا دھلا کر ناشتے کے لئے منیشا کے پاس حاضر کرتی اور پھر اسکول لے جاکر چھوڑ آتی۔ کوسی کلاں نامی اس گاؤں میں صرف ایک سرکاری  اسکول تھا جس میں سیکنڈری تک کی تعلیم کا انتظام تھا۔ گاؤں کے سارے امیر غریب بچے اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان میں چند جو بورڈ کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے انہیں اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لئے شہر جانا پڑتا تھا لیکن ایسے خوش قسمت کم ہی ہوتے تھے۔

کوسی کلاں دراصل ایک ٹھاکروں کا گاؤں تھا۔ اس میں رہنے والے سارے لوگ  ٹھاکر تھے۔ ان میں ایک استثناء مندر کا پجاری بھولا بھگت تھا جس کا گھر گاؤں کی سرحد پر واقع مندر کے احاطے میں تھا۔ اس طرح یہ گھر گاؤں میں ہونے کے باوجود باہر تھا۔ سرسوتی کا جنم اسی گھر میں ہوا تھا  اور اس کا بچپن اپنے بھائی بھولا بھگت کے ساتھ مندر کے آس پاس  گزرا تھا۔ والد مندر کے مہنت ہوا کرتے تھے۔ جب ان  کا انتقال ہو گیاتو گاؤں والوں نے سرسوتی کے بھائی بھولا بھگت کو مندر کا پجاری بنا دیا گیا  اور ایک حادثہ سرسوتی کو بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ کی حویلی میں لے آیا۔ اس طرح کوسی کلاں گاؤں کے اندر رہنے کا شرف ایک غیر ٹھاکر برادری کے فرد کو حاصل ہو گیا لیکن یہ اس قدر پرانی بات تھی کہ اب دیگر لوگوں  کے ساتھ ساتھ سرسوتی بھی اسے بھول چکی تھی۔ خود اسے یاد نہیں تھا کہ وہ ٹھکرائن نہیں بلکہ پنڈتائن ہے۔

مندر سے آگے ایک اور گاؤں تھا جس کا سرکاری نام تو پنچ کوسی  تھا لیکن وہ بورکلاں کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہاں کوئی ٹھاکر نہیں رہتا تھا بلکہ دیگر ذاتوں کے مزدور آباد تھے۔ یہ لوگ دن کے وقت ٹھاکروں کے کھیتوں اور گھروں میں محنت مزدوری کا کام کرتے تھے اور شام ڈھلے اپنی بستی میں روانہ ہو جاتے تھے۔ مندر سے متصل ایک چھوٹا سا بازار اور پولس تھانہ تھا۔ اسی کے پاس اسکول اور ایک کشادہ باغ  بھی واقع تھا  جس میں ایک قدرتی جھرنا بہتا تھا۔

 کوسی کلاں اور بور کلاں کی سرحد پر موجود تمام سہولیات دونوں گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے لئے مشترک تھیں۔ سارے لو گ وہیں سے اپنی مادی، روحانی، اور تعلیمی ضروریات فراہم کر لیاکرتے تھے سوائے باغ  کے کہ جس میں صرف ٹھاکروں کو داخلے کی اجازت تھی۔ اس تفریق کی وجہ غالباً یہ تھی کہ سیرو تفریح کا شمار زندگی کی بنیادی ضروریات میں نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے ٹھاکروں کے علاوہ دوسروں کو اس کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔

 سرجو ماسی جب بلدیو کو چھوڑنے اسکول جاتی تو واپس آتے آتے کبھی کبھار اپنے بھائی اور ان کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کر لیتی۔ یہ اس کاپرانا معمول تھا۔ جب وہ بلدیو کے والد سچدیو سنگھ کو اسکول چھوڑنے جایا کرتی تھی تب بھی یہی کیا کرتی تھی۔ درمیان میں جب  سچدیوکے اسکول سے فارغ ہو جانے پراس کا تعلیمی سلسلہ ختم ہو گیاتو سرجو کا اپنے بھائی کے یہاں آنا جانا بھی تقریباً بند ہو گیا لیکن اب بلدیو کی مدرسے میں آمدورفت نے اس روایت کو بحال کر دیا تھا۔ گو کہ اس گھر کو چھوڑے سرجو کو کئی سال ہو گئے تھے لیکن اب تک وہ گھر آنگن اس کے لئے اجنبی نہیں ہوے تھے۔ وہ جب تک ان سے دور رہتی سو رہتی لیکن جب ایک بار اس پر نظر پڑتی تو اس کیلئے اپنے دل پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ یہ اپنائیت سرجو کو ہر ہفتہ کم از کم ایک یا دو بار یہاں لے آتی تھی۔

بلدیو کو اسکول سے واپس لانے کے بعداس بے چین روح کوکھلا پلا کر سلانے کانہایت مشکل کام  سرجو ماسی کو کرنا پڑتا تھا۔ یہ اس قدر دقت طلب مہم تھی کہ اس پرسرجو ماسی کے علاوہکسی کا زور نہیں چلتا تھا۔ خود منیشا بھی اس کوشش میں ناکام ہو جاتی تھی لیکن وہ سرجو ماسی کی ہی  خداداد مہارت تھی جو بلدیو کو نیند کی آغوش میں پہنچا کر خوداسے بھی پلک جھپک لینے کا موقع عنایت کر دیتی۔ دو چار گھنٹہ سو لینے کے بعد جب بلدیو بیدار ہوتا تو اس کے توانائی کا آتش فشاں کھول رہا ہوتا تھا۔ اب اسے تیار کر کے باغ کی جانب لے کرجانا سرجو ماسی کے ذمہ تھا تاکہ وہ وہاں کھیلے کودے ، بھاگے دوڑے اور واپس آکر پھر ایک بار سونے کے قابل ہو جائے  لیکن بلدیو کا معاملہ بھی عجیب تھا کہ واپس آنے بعد بھی وہ دیر تک گھر میں کھیلتا کودتا رہتا۔ مختلف چیزوں کو توڑنے پھوڑنے میں لگا رہتا اور بالآخر سرجو ماسی سے ایک نئی کہانی سن کر سوجاتا۔ بلدیو کو ہر رو ز ایک نئی کہانی سنانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن سرجو ماسی بلا ناغہ اپنی اس ذمہ داری کو بخیر و خوبی ادا کرتی اور بلدیو کو سلاکر خود بھی سوجاتی

سرجو کے بر عکس منیشا کے معمولات بالکل ہی مختلف تھے۔ اس کے پاس بلدیو کے لئے بہت ہی کم وقت تھا لیکن اس کا نہ بلدیو کو گلہ تھا اور نہ ہی منیشا کو ملال تھا اس لئے کہ سرجو کے ہوتے ہوئے بلدیو کسی محرومی اورپریشانی کا شکار نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹھاکروں کی اس بستی میں ویسے تو عورتیں سخت پردے میں رہتی تھیں اور چولہا چوکی کے علاوہ دنیا کے کسی معاملے میں دلچسپی نہیں لیتی تھیں مگر منیشا کا معاملہ استثنائی تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک اس کے سسر بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ زندہ تھے کسی  پرائے مردنے اس کا ناخنتک نہیں دیکھا تھا۔ دوسری عورتیں بھی اس سے فاصلہ رکھ کر بات کرتی تھیں  لیکن سچدیو کی موت کے بعد جب بڑے ٹھاکر کی صحت خراب ہونے لگی تو ان کی بہو منیشا نے ان کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ منیشا کے تعاون سے بڑے ٹھاکر کو بہت راحت ملی۔ وہ ان کو نہ صرف مشورہ دیتی بلکہ خواتین کے مسائل ازخود حل بھی کر دیا کرتی تھی۔ بڑے ٹھاکر اپنی بہو کی ذہانت و متانت سے کافی متاثر تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے چھوٹے ٹھاکر بلوندرسنگھ سے منیشا کا تعارف کروا دیا۔ بلوندر سنگھ یوں تو سکھدیو کے نائب تھے لیکن عمر میں منیشا کے باپ جیسے تھے ا ور منیشا کو اپنی بیٹی مانتے تھے۔

بڑے ٹھاکر سکھدیو نے موت سے قبل ٹھاکر بلوندر کو اپنے پاس بلایا اور پنچایت کی نشست طلب کرنے کی گزارش کی۔ جب سارے ارکان جمع ہو گئے تو ٹھاکر سکھدیو نے کہا اب میرا وقت قریب آپہنچا ہے۔ نہ جانے کب سے کوسی کلاں کے سرپنچ کا عہدہ ہمارے خاندان میں پشت درپشت چلا آ رہا ہے لیکن اب جیسا کہ تم لوگ جانتے ہو میرے بیٹے سچدیو سنگھ کا انتقال ہو چکا ہے اورپوتا بلدیو بہت چھوٹا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم سب مل کر اتفاق رائے سے کسی اور کو نیا سرپنچ منتخب کر لو۔ بڑے ٹھاکر کی دردانگیز گفتگو نے سارے لوگوں کی آبدیدہ کر دیا۔ کسی کو کچھ سوجھ نہیں رہا  تھا۔ کوئی سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا بولے ؟

بڑے ٹھاکر نے کہا تم سب لوگ اس قدر سوگوار کیوں ہو؟ میں ابھی مرا نہیں ہوں زندہ ہوں۔ لیکن موت تو ہر فردِ بشر کا مقدر ہے۔ آج نہیں تو کل ہم سب کو موت کے گھاٹ اترنا ہے اس لئے اس قدر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں فیصلہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ بعدمیں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ کوسی کلاں کی قوت کا اصل سرچشمہ ہمارا اتحادہے۔ ہم فیصلے سے قبل لاکھ اختلاف کریں لیکن فیصلے کے بعد اس پر متحد ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے سارا علاقہ ہماری طاقت کا لوہامانتا ہے اور کوئی ہماری جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری موت ہمارے درمیان کسی انتشار کا سبب بنے اسی لئے آج کا یہ خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے۔

بڑے ٹھاکر کی تقریر پر سارے ارکان یوں تو خاموش تھے مگر ان کی نگاہیں بار بار چھوٹے ٹھاکر بلوندر کی جانب اٹھتی رہیں۔ وہ چاہتے تھے ٹھاکر بلوندر سنگھ ان سب کی نمائندگی کرتے ہوے جواب دیں۔ بغل والے کمرے میں بیٹھی منیشا بھی بڑے ٹھاکر کی بات سن رہی تھی۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے بلدیو کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کے سر سے باپ سچدیو کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا ہے اور  اب  ایسا لگ رہا تھا کہ جلد ہی وہ دادا کی شفقت سے بھی محروم ہو جائے گا۔  اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس معصوم سی جان کا مستقبل کیا ہو گا ؟  نیزمنیشا کے سامنے خود اس کی اپنی  پہاڑ جیسی زندگی منہ کھولے کھڑی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی بڑے ٹھاکر کی موت کے بعد وہ کہاں جائے گی ؟ کیا کرے گی ؟ ان کا گزر اوقات کیسے ہو گا؟ کھیت کھلیان اور زمین جائیدادکو کون اور کیسے سنبھالے گا؟منیشا کا ذہن اس  طرح کے انگنت سوالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔

 اس بیچ چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ نے اجازت طلب کی اور بولے۔ ٹھاکر صاحب کوسی کلاں کے باشندوں پر آپ کے اور آپ کے خاندان کے بے شمار احسانات ہیں۔ سچ تو یہ ہے ہمارے اتحاد کی بنیاد ہی آپ لو گوں کی مشفقانہ اور منصفانہ قیادت پر ہے جس نے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا اور ہم سب امن و آشتی  کے ساتھ صدیوں سے مل جل کر  زندگی گزارتے رہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ روایت برقرار رہے۔ ٹھاکر سچدیو ہمارے درمیان نہیں ہیں تو کیا ہوا۔ ان کا چشم و چراغ بلدیو سنگھ تو موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ابھی نوعمر ہے اس لئے سربراہی کی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتا لیکن ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہم اس کے ذی شعور ہونے کا انتظار کریں گے اور جب وہ اس قابل ہو جائے گا تو اسے اپنا سردار بنا لیں گے۔

ٹھاکر سکھدیو نے جب یہ بات سنی تو مسکرائے اور بولے بلوندر تم تو انتظار کر لو گے لیکن مسائل کسی کاانتظار نہیں کرتے۔ ان کے آنے کا نظام الاوقات طے ہے اور اس پرہم میں سے کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ اس لئے یہ فیصلہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کا سبب بنے گا اور ایک حد کے بعد بحران میں بدل جائے گا جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا اس لئے جذبات کے بجائے عقل سے کام لو اور کوئی ایسی بات کرو جو قابلِ عمل ہو۔ مجھے تمہارے اس فیصلے میں صدمہ کی بو آ رہی ہے۔ حسرت و یاس کی کیفیت میں کئے جانے والے فیصلے آگے چل کر شرمندگی کا سبب بنتے ہیں۔ ہم ٹھا کر لوگ ہیں جو  مارنے مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اس لئے کوئی ایسی تجویز سجھاؤ جس سے سارے کام  اسی حسن خوبی کے ساتھ چلتے رہیں جیسے کہ اب تک چلتے چلے آئے ہیں۔

ٹھاکر بلوندر سنگھ نے کہا بڑے ٹھاکر ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں کہ آپ اس ناز ک گھڑی میں بھی ہمارے لئے فکر مندہیں لیکن میرے پاس ایک عملی تجویز ہے۔ پچھلے چھے ماہ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ بہو جی آپ کے تمام  کاموں میں تعاون کرتی ہیں۔ خواتین کے مسائل کو تو انہوں نے اس خوبی سے نبٹانا شروع کر دیا ہے کہگاؤں بھر کی عورتیں بہو جی پر جان چھڑکتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ٹھاکر بلدیو کے ہوش سنبھالنے تک وہ ان کی نمائندگی فرمائیں۔ پنچایت کے وہ معاملات جن پر ہمارا اتفاق رائے ہو جایا کرے گا ہم لوگ فیصلہ کر لیا کریں گے لیکن جس پر تنازعہ ہو جائے گا اس کے لئے ہم بہو جی سے رجوع کر لیا کریں گے۔ اس طرح وہ بار  بارکی  زحمت سے بچ جائیں گی۔ ویسے بھی ا ٓپ کی ہدایت کے مطابق وہ ہماری کارروائی دوسرے کمرے میں بیٹھ کر سنتی ہی ہیں۔ آگے بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے حسبِ ضرورت رابطہ رکھوں گا۔ وہ میری بیٹی جیسی ہیں۔

منیشا نے یہ سنا تو گھبرا گئی  لیکن بلا اجازت زبان کھولنا آدابِ محفل کے خلاف تھا اور اجازت طلب کرنا روایت کی خلاف ورزی تھی۔ وہ تو خاموش رہی لیکن پنچایت کے سارے ارکان نے ایک آواز ہو کر کہا۔ بڑے ٹھاکر صاحب یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔ ہم چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ کے ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے ہماری بات اس قدر احسن انداز میں پیش فرمادی۔ اب ہماری استدعا ہے کہ آپ اس تجویز کو شرفِ قبولیت عطا فرمائیں ہمارے خیال میں کوسی کلاں کے باشندوں کے حق میں اس سے بہتر کوئی اور مشورہ نہیں ہو سکتا۔ ٹھاکر سکھدیو نے کہا اگر تم سب کی یہی رائے ہے تو میں ایک مرتبہ منیشا سے پوچھوں گا اگروہ رضامند ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں  ہے۔

پنچایت کا اجلاس ختم ہو گیا۔ سبھی کو یقین تھا کہ منیشا مان جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ٹھاکر سکھدیو کی موت کے بعد منیشا کی مصروفیت میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ اس کے پاس نہ اپنے لئے وقت تھا اور نہ اپنے بیٹے بلدیو سنگھ کے لئے۔ دن ہفتوں اور مہینے سالوں میں بدلنے لگے۔ بلدیواسکول جانے لگا سب کچھ بدل گیا لیکن ایک چیز نہیں بدلی۔ وہ سنسکار جو اس کے والد بھولا بھگت نے اس کی گھٹی میں پلا دئیے تھے۔ منیشا اپنی ساری مصروفیات کے باوجود غروبِ آفتاب کے وقت اپنے گھر میں بنے پوجا گھر میں چلی جاتی اور جب تک کہ رام چرت مانس کا پاٹھ نہیں کر لیتی باہر نہیں آتی۔ کبھی کبھار وہ اس کے بعد بھی مندر میں بیٹھی اپنی آتما اور پر ماتما کے بارے میں سوچتی رہتی۔

منیشا جب اپنی حویلی  کے مندر سے باہر آتی تو اس کی آہٹ سن کر سرجو ماسی کھانا پروسنے لگتی۔ اس دوران کبھی تو بلدیو سنگھ دوڑ کر اپنی امی کے پاس آ جاتا تو کبھی اس کے ہنگامے کا شور و غل اس کے کانوں سے ٹکراتا رہتا۔ اس روز جب یہ دونوں باتیں نہیں ہوئیں تو اس نے سرجو ماسی سے کہا کہ بلدیو کو اپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ اسے دیکھ کر اپنی ممتا کی پیاس بجھا سکے۔

٭٭

ویدجی

سرسوتی دیوی بلدیو کے کمرے میں آئی تو وہاں ویرانی سی ویرانی تھی۔ سرجو کا دماغ ٹھنکا یہ کیا؟ کہاں چلا گیا یہ ننھا شیطان؟ سرجو نے اپنے دماغ پر زور ڈالا تو اسے یاد آیا کہ بلدیو کو اس نے آخری مرتبہ حویلی کے اندر نہیں بلکہ باغ میں دیکھا تھا جبکہ وہ اپنے اسکول کے ٹیچر شیکھر سمن کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ سرجو ماسی نے اسے لاکھ سمجھایا کہ سورج غروب ہوا چاہتا ہے۔ اسے گھر پہنچ کر منیشا کے کھانے کا انتظام کرنا ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ بس تھوڑی دیر اور کی رٹ لگائے رہا۔ ویسے گھر میں کھانا بنانے والے باورچی موجود تھے جو سب کے لئے رسوئی بناتے تھے لیکن بلدیو اور منیشا کے کھانے کی نگرانی سرجو بذاتِ خود کرتی تھی۔ انہیں کیا پسند ہے کیا پسند نہیں وہ جانتی تھی۔ وہ کیسا پکوان پسند کرتے ہیں اور کیسا پسند نہیں کرتے اس کا بھی اسے پورا خیال تھا۔ کس چیز کے ساتھ کیا ہو اور کیا نہیں ہو اس کا اہتمام بھی وہ بخیر وخوبی کیا کرتی تھی۔ وہ ہر چیز کو دسترخوان پر پروسنے سے قبل خود چکھ کر دیکھنا نہیں بھولتی تھی۔ اسی لئے سرجو بلدیو کو باربار گھر چلنے کے لئے کہہ رہی تھی اوربلدیو کا تاخیر کرنا اس پر گراں بار تھا۔ بالآخر اس نے تنگ آکر کہا بلدیو میں تم سے آخری بار پو چھتی ہوں کہ اب میرے ساتھ چلنا ہے یا میں اکیلی چلی جاؤں ؟

بلدیو نے جیسے ہی یہ جملہ سنا بلا توقف بول پڑا سرجو ماسی آپ ایسا کریں کہ اکیلی چلی جائیں۔ میں ماسٹر صاحب کے ساتھ کچھ دیر بعد گھر آ جاؤنگا۔

کیا اکیلی چلی جاؤں ؟ سرجو نے بگڑ کر کہا بلدیو نے اس کی جانب منہ بسور کر دیکھا تو وہ مسکرا کر بولی مجھے اکیلے جانے میں ڈر لگتا ہے۔

بلدیو کو ماسی کی اس بات پر ہنسی آ گئی۔ ڈر لگتا ہے ؟ آپ کو ڈر لگتا ہے ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟

کیوں نہیں ہو سکتا ؟ سرجو نے سوال کیا

بلدیو بولا ڈر تو بچوں کو لگتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو ؟

اچھا تو تمہیں نہیں لگتا ؟

جی نہیں مجھے ڈر نہیں لگتا۔ میں چھوٹا بچہ تھوڑے ہی ہوں ؟ اور پھر میں کنورسچدیو سنگھ کا بیٹا ہوں۔ بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ کا پوتا ! لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں میں کسی سے نہیں ڈرتا کیا سمجھیں سرجو ماسی۔

بلدیو کی خوداعتمادی پر شیکھر سمن کو بھی ہنسی آ گئی۔ وہ بولا بلدیو تمہیں ڈرنے کی ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں میں جو تمہارے ساتھ ہوں۔ میں تمہیں حویلی تک چھوڑ کر اپنے گھر واپس آؤنگا۔ یہ کہہ کر اس نے گیند کو اچھال دیاا اور بلدیو اس کی جانب چیتے کی مانند لپکا

سرجونے  دیکھا بلدیو دور نکل گیا ہے تو وہ  بولی ماسٹر جی ویسے بھی یہ خود سر ہے اور آپ کے لاڈ پیار نے اس کا اور بھی دماغ خراب کر رکھا ہے۔ میں  ڈرا دھمکا کر اسے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آپ نے وہ دروازہ بھی بند کر دیا۔

دیکھو سرجوماسی شیکھربولابچوں کو ڈرادھمکاکر خوفزدہ کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ شخصیت کی تعمیر کے لئے یہ سمِ قاتل ہے۔

اس بیچ بلدیو گیند لے کر واپس آچکا تھا وہ بولا اچھا تو ماسی کیا آپ ماسٹر جی کو ڈرا رہی ہیں۔ یہ آپ کی طرح ڈرپوک نہیں ہیں۔ بہت بہادر آدمی ہیں بالکل میری طرح۔

ہاں ہاں  میں دونوں گرو چیلا کی سیاست خوب اچھی طرح جانتی ہوں لیکن سچ یہی ہے بیٹا کہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ سرجو نے گھگیا کر کہا

بلدیو اب کی بارسنجیدہ ہو گیا اور بولا ماسی آپ کو کس سے ڈر لگتا ہے۔ بتائیے نا مجھے آپ کو کس سے ڈر لگتا ہے۔ میں اسے دادا جی کی بندوق سے گولی مار دوں گا۔

نہیں بیٹے مار کاٹ کی بات نہیں کرتے۔ مجھے ۰۰۰۰۰۰ مجھے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ اپنے آپ سے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔

اپنے آپ سے ! بلدیو نے حیرت سے جملہ دوہرایا۔ اپنے آپ سے بھی کوئی ڈرتا ہے بھلا ؟

سرجو لاجواب ہو گئی وہ بولی میں کسی اور کے بارے میں نہیں جانتی لیکن اپنے بارے میں جانتی ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے بہت ڈر لگتا ہے۔

بلدیو بولا لیکن کیوں ماسی کیوں ؟آپ کو اپنے آپ سے کیوں ڈر لگتا ہے ؟ مجھے بتاؤ آپ کواپنے آپ سے ڈر کیوں لگتا ہے ؟

سرجو کو پریشان دیکھ کر شیکھر بیچ میں بول پڑا۔ اس نے بلدیو کی جانب دیکھ کر کہا بیٹے یہ بتاؤ کہ انسان کو دوسروں سے ڈر کیو ں لگتا ہے ؟

اس سوال کا کوئی جواب بلدیو کے پاس نہیں تھا اس نے سرجو ماسی کی جانب دیکھا تو وہ بولی دوسروں سے اس لئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔

بالکل صحیح شیکھر نے تائید کی اسی لئے انسان اپنے دشمن سے ڈرتا ہے دوست سے نہیں ڈرتا۔

سرجو نے تائید کی اور بولی جی ہاں انسان اپنے دشمن سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اسے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔

شیکھر بولا لیکن انسان کو سب سے زیادہ خطرہ اس کی اپنی ذات سے ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو جس قدر نقصان پہنچا سکتا ہے کوئی اور اس کا عشر عشیر نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا۔ سچ تو یہ ہے انسان جس قدر اذیت خود اپنے آپ کو دیتا ہے کوئی اور دے ہی نہیں سکتا۔

سرجو ماسی  اور ماسٹر جی کی یہ گفتگو بلدیو کے سر سے اوپر جا رہی تھی۔ اس نے کہا سرجو ماسی کیا آپ کو اب دیر نہیں ہو رہی ہے۔ آپ ایسا کریں کہ ماسٹر جی کا وقت خراب نہ کریں اور انہیں میرے ساتھ کھیلنے دیں۔ میں کچھ دیر بعد ان کے ساتھ گھر آ جاؤنگا۔

سرجو ماسی کو خیال ہوا کہ اس گفتگو میں واقعی کافی وقت نکل گیا تھا اور بلدیو کسی صورت چلنے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے وہ بولی ماسٹر جی اب اس کو پہنچانے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ میں چلتی ہو ں۔ راستے میں سرجو سوچتی رہی یہ شیکھر سمن نہ جانے کہاں سے فرشتہ بن کر بلدیو کی زندگی میں آ گیا۔ اس عمر میں بلدیو کو ایک ایسے دوست اور مربی کی ضرورت ہے جو کھیل کھیل میں اس کی شخصیت کو سنوار تا رہے۔ شاید اسی کام کے لئے اس نئے ماسٹر کو قدرت نے کوسی کلاں گاؤں میں بھیجا ہے۔ یہ ماسٹر نہیں ایشور کا وردان ہے۔ سرجو ماسی کو اس کے بعد کی کوئی بات یاد نہیں کہ وہ کب گھر پہنچی اور کس طرح کام میں مصروف گئی کہ اسے بلدیو کا خیال اسی وقت آیا جب منیشا نے بلایا  لیکن اب کیا کرے ؟ بلدیو کا تو کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ اس سے قبل کئی مرتبہ سرجو بلدیو کو ماسٹر جی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی لیکن ایسی تاخیر کبھی نہیں ہوئی تھی۔ شیکھر نے اس طرح بلدیو کو حویلی تک پہنچایا کہ منیشا کو اس کا پتہ ہی نہیں چلا کہسرجو تنہا واپس لوٹی تھی بلدیو کو کوئی اور ہی گھر لے کر آیا تھا۔ چونکہ منیشا کے پوجا پاٹ سے فارغ ہونے سے قبل بلدیو لوٹ آتا تھا اس لئے اس کا شیکھر کے ساتھ واپس آنا کبھی ظاہر ہی نہیں ہوا تھا۔ بلدیو کی غیر موجودگی نے سرجو ماسی کو فکر مند کر دیا تھا جب وہ  واپس آئی توکیا دیکھتی ہے کہ ابھی تک منیشا نے ایک نوالہ بھی منہ میں نہیں رکھا وہ خلاء میں نہ جانے کیا کھوج  رہی تھی ؟

سرجو نے کہا بیٹی بلدیوکمرے میں نہیں ہے ؟

نہیں ہے ؟ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟ اتنی رات گئے وہ اکیلے کہاں نکل گیا ؟

وہ! وہ اکیلے نہیں بلکہ ماسٹر جی کے ساتھ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰سرجو کا جملہ ادھورا رہ گیا

مسٹر جی! کون ماسٹر جی ؟ اتنی رات گئے کسی ماسٹر جی کا کیا کام ؟وہ یہاں کیوں آئے اور اس کو اپنے ساتھ کیوں لے گئے ؟ کہاں لے گئے وہ میرے معصوم بچے کو؟

سرجو ایک ساتھ اتنے سارے سوالات کو سن کر گھبرا گئی۔ اس کے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ وہ بولی ماسٹر جی۔ وہی اسکول کے نئے ماسٹر شیکھر سمن جی۔ وہ بلدیو کو یہاں سے لے کر نہیں گئے بلکہ وہ اسے اپنے ساتھ یہاں لانے والے تھے اور لگتا ہے وہ اسے لے کر آئے ہی نہیں۔ لیکن فکر کی بات نہیں۔ وہ ابھی بلدیو کے ساتھ آ ہی رہے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنا بلدیوجلدہی ہمارے پاس آ جائے گا۔

منیشااپنی جگہ سے اٹھی اور جھروکے میں آکر کھڑی ہو گئی۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ اماوس کی اس کالی رات میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ بلدیو کے اچانک غائب ہو جانے سے وہ اس قدر حواس باختہ ہو گئی کہ نرمل اور اس کی گفتگو کو بھی پوری طرح بھول گئی۔ اب اسے اپنے چاروں جانب بلدیو ہی بلدیو نظر آتا تھا اور سچ یہی تھا کہ بلدیو کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ تاریکی کی چادر تانے آسمان میں دور منیشا کو قطب تارہ نظر آیا۔ اسے لگا گویا بلدیو مسکرا رہا ہے۔ لیکن بلدیو اس قدر دور کیسے پہنچ گیا؟ اس سوال نے منیشا کو چونکا دیا۔ وہ کانپ اٹھی۔ کیا بلدیو بھی سچدیو اور سکھدیو کی مانند اس کو چھوڑکر کہیں دور نکل گیا ہے ؟ اس خیال کو وہ برداشت نہ کر سکی اورایک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔

منیشا کی بے ہوشی سرجو کے لئے ایک نئی آفت تھی۔ بلدیو کے واپس نہ آنے کا صدمہ ہی کیا کم تھا کہ اس پر منیشا کی یہ نفسیاتی کیفیت۔ سرجو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔  اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کاش وہ بھی غائب ہو جاتی یا کم از کم اپنے حواس گنوا بیٹھتی تاکہ اس کرب و اذیت سے تو نجات حاصل ہو جاتی جس میں فی الحال  مبتلا تھی۔ سرجو نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ایک نوکر وید جی کی جانب دوڑایا اور ایک خادمہ کی مدد سے منیشا کو لاکر بستر پر دراز کر دیا۔

وید جی  کچھ دیر میں دوڑے دوڑے آئے انہوں نے منیشا کی نبض دیکھ کر کہا چنتا کی کوئی بات نہیں ، انہیں بس صدمہ کا جھٹکا لگا ہے۔ یہ بہت جلد اپنے آپ ہوش میں آ جائیں گی۔ جب تک ہوش نہیں آتا انہیں کچھ کھلانا پلانا مناسب نہیں ہے۔ بس کروٹ پر لٹائے رہیے تاکہ اگر خدا نا خواستہ قہ آئے تو لوٹ کر واپس نہ جائے۔ قہ کا لوٹ کرسانس کی نالی میں جانا خطرناک  ہوتا  ہے اور جان لیوہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔  ہوش میں آنے کے بعد کھلانے کے لئے وید جی جڑی بوٹی کاایک نسخہ لکھ کر دے دیا۔

اس بیچ گھر کے دوسرے نوکر چاکر وید جی کے لئے ناشتہ وغیرہ لے آئے تو انہوں نے سرجو ماسی سے کہا اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کسی غیر کا گھر تھوڑے ہی ہے۔ ہمارے بڑے ٹھاکر کی حویلی ہے۔ اس کے رہنے والوں کی خدمت ہمارا سب سے بڑادھرم کرتویہ(مذہبی فریضہ) ہے۔ جب نوکر چاکر باہر چلے گئے تو سرجو ماسی نے وید جی سے کہا مجھے حیرت ہے کہ آپ نے یہ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا کہ بہو جی کو کس چیز کے صدمے نے بے ہوش کر دیا؟

وید جی بولے پوچھنا تو میں ضرور چاہتا تھا لیکن پھر سوچا نہ جانے کوئی ایسی بات ہو جسے آپ لوگ بتانا مناسب نہیں سمجھتے ہوں۔ اس حویلی کی اپنی پر مپرا (روایات)ہے۔ اس کے اپنے سنسکار(اقدار) ہیں  اور ہم ان کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جس سے اناقدار پر آنچ آئے۔

جی ہاں وید جی میں آپ کی بات سمجھتی ہوں۔ بہو جی فی الحال ایک  زبردست نفسیاتی تناؤ سے گزر رہی ہیں اس کے باوجودوہ ایسے آہنی اعصاب کی مالک ہیں کہ سب کچھ برداشت کرجاتی ہیں لیکن آج ایک ایسا حادثہ رونما ہو گیا جس کو برداشت کرنا ان کے لئے ناممکن ہو گیا۔

کیا آپ مجھے اس حادثہ کی تفصیل بتانا مناسب سمجھتی ہیں

جی ہاں اسی لئے میں نے آپ کو روکا ہے۔ اس مشکل کی گھڑی میں آپ کے علاوہ کوئی اور ہمیں درست مشورہ نہیں دے سکتا۔

جی دھنیا باد(شکریہ) فرمائیے آج ایسا کیا ہو گیا کہ جس نے بہو جی کے آتم وشواس (خوداعتمادی) کومسمار کر دیا۔

دراصل جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے صرف اور صرف میں ذمہ دار ہوں۔ یہ کہہ کر سرجو ماسی نے شام کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔

وید جی نے تمام گفتگو کو غور سے سننے کے بعد کہا یہ تو بہت ہی گمبھیرسمسیاّ           (سنجیدہ معاملہ) ہے۔ ٹھاکر بلدیو سنگھ کوسی کلاں گاؤں کا ہونے والا سرپنچ ہے۔ اس کے اس طرح غائب ہو جانے کی وجوہات معاشی بھی ہو سکتی ہیں اور سیاسی بھی۔

میں آپ کی بات سمجھی نہیں وید جی ؟

دھنوان لوگوں  کااغوا عام طورپر پھروتی وصول کرنے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن بلدیو کوئی عام بچہ تو ہے نہیں وہ  نہ صرف یہ کہ ایک خوشحال خاندان کا فرد ہے بلکہ کوسی کلاں گاؤں کا ہونے والا سرداربھی ہے۔ اس لئے اس کے پسِ پشت کوئی سیاسی مقصد بھی کارفرما ہوسکتا ہے

لیکن میں نے تو سنا ہے بلدیو کا انتخاب پنچایت کے سبھی ارکان نے اتفاق رائے سے کیا ہے ؟جی ہاں یہ درست ہے۔ میں خود اس امر کا چشم دید گواہ ہوں لیکن کئی مرتبہ دل اور زبان کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ جاتا ہے اور ان دونوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ وید جی آپ کی یہ حکمت کی باتیں ہم جیسوں کے سمجھ سے بالاترہیں۔ سرجو بولی۔ جی نہیں سرجو یہ تو ایک عام تجربہ ہے جس سے ہم سب گزرتے ہیں۔ کئی بار ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ گوں ناگوں وجوہات کی بنا ءپر انسان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے لیکن زبان کچھ اور کہتی ہے۔ ممکن ہے ٹھاکر سکھدیو کو بسترِ مرگ پر دیکھ کر کسی نے اپنی سرداری کی خواہش کو سرد خانہ میں ڈال دیا ہولیکن  اب وہ پھر اپنے مقصد کی بر آوری میں سر گرم ہو گیا ہو۔

لیکن ایسا کون ہو سکتا ہے اور کیاوہ شخص اس حد تک گر سکتا ہے کہ بلدیو جیسے معصوم  بچے کا اغوا کرو ادے۔ سرجو ماسی نے پوچھا۔ دیکھو سرجو ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ انسان ہی تو ہے کہ جوکبھی احسن الخلق  ہو جاتا ہے تو کبھی اسفل السافلین کی صف میں جا بیٹھتا ہے۔ سرجو بولی مجھے نہیں لگتا وید جی اس لئے کہ پنچایت کے سارے ارکان آپ کی ہماری عمر کے ہیں کون جانے بلدیو کے جوان ہونے تک ان میں سے کون زندہ رہے یا مر کھپ جائے ؟ایسے میں کسی کے ساتھ بلدیو کی مسابقت ناقابلِ فہم ہے۔

ویدجی بولے جی ہاں سرجو تمہاری منطق درست ہے لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کوئی اپنے بیٹے یا پوتے کو سرپنچ بنانا چاہتا ہو۔ اسے لگتا ہو اس کے ونشج( اولاد) بلدیو کی بنسبت بہتراورزیادہ مستحق ہے۔ اس لئے ممکن ہے وہ بلدیو کا کانٹا نکال کراپنی اولاد کے لئے راستہ صاف کرنا چاہتا ہو۔ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں سرجو، ان میں سے کوئی ایک بات صحیح ہو سکتی ہے اورباقی غلط، نیز یہ بھی ہوسکتا کہ ساری کی ساری غلط ہوں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

وید جی سرجو کی الجھن گھٹا نے کے بجائے اسے بڑھائے جا رہے تھے۔ اس نے زچ ہو کر پوچھا وید جی اب جو ہو نا تھا سو ہو چکا۔ اس کی وجہ جو بھی ہو لیکن یہ بتلائیے کہ آگے کیا کیا جائے ؟رات کافی ہو چکی ہے۔ بلدیو ابھی تک گھر نہیں آیا ہے۔ اس لئے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے۔

وید جی نے کہا تمہاری یہ بات نہایت معقول ہے۔ میری تو یہ رائے ہے کہ  ہمیں اس صورتحال میں تھانیدار سے رجوع کر کے اس سے مدد لینی چایئے۔ اس کے  علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

 پولس تھانے کا نام سن کر سرجو ڈر گئی۔ وہ بولی کیا ایسا کرنا جلدبازی نہیں ہے ؟  مجھے لگتا ہے بلدیو جلد ہی آ جائے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ اگر وہ لوٹ آتا ہے تب بھی ہمارے اس اقدام سے کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔

کیا مطلب ؟میں سمجھی نہیں ؟ سرجو نے چونک کر کہا

میرا مطلب ہے بلدیو کے لوٹنے میں تاخیر ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارا تھانیدار کو اطلاع دینے میں تاخیر کرنا شکوک و شبہات پیدا کر سکتا ہے۔

شک شبہ ! لیکن کس پر شک کیا جا سکتا ہے ؟ میں خود اسے اسکول ماسٹر شیکھر سمن کے پاس باغ میں چھوڑ کر آئی تھی۔ ہم دونوں کے علاوہ کسی تیسرے کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

جی ہاں وہی تو میں کہہ رہا تھا پولس کو بھی انہیں پر شک ہو گا۔

ماسٹرجی پر؟؟؟ آپ کیسی بات کرتے ہیں ۰۰۰۰وہ تو بڑے سجّن پوروش (نیک آدمی)ہیں سارا گاؤں اس کا ساکشی(گواہ) ہے  اور میں ؟ میں اپنے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتی  لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اس سنسار میں اب میرا بہو جی یا بلدیو کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اور میں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰یہ کہہ کر سرجو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

وید جی نے سرجو کو سمجھایا اور بولے سرجو ہمیں تمہارے بارے میں سب  پتہ ہے تم نے اس پریوار کی خاطر جو قربانی دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کل یگ میں یہ سب کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں کرسکتا۔ یہ سلسلہ دو نسلوں پر محیط ہے۔ ایک زمانہ اس کا شاہد ہے لیکن میں پولس کی بات کر رہا تھا۔ وہ لوگ انسانوں کی طرح نہیں مشین کی مانند کام کرتے ہیں خیر اگر تمہیں لگتا ہے کہ اس معاملے میں فی الحال توقف کیا جائے تو میں اصرار نہیں کروں گا۔ میں منیشا یا  تمہاری اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کروں گا۔

سرجو بولی وید جی اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں کہ آپ اس خاندان کے بہی خواہ ہیں۔ میں تو بس یہی چاہتی ہوں کہ بلدیو جلد از جلد واپس لوٹ آئے۔ اس کی خاطر آپ جو بھی مناسب سمجھیں کریں۔ میں اجازت دینے والی یا روکنے والی کون ہوتی ہوں ؟

وید جی اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے سرجو! اب اس حویلی میں سب سے بڑی تم ہو اس لئے دھیرج(حوصلہ) رکھو۔ بہو جی کو سنبھالو۔ میں تھانیدار سے بات کرنے کے بعد جو بھی پیش رفت ہو گی اس سے تم دونوں کو آ گاہ کر دوں گا۔

 ٭٭

رنجیت سنگھ

گاؤں کا تھانیدار رنجیت سنگھ نہایت خوش طبع اور سعادتمندقسم کا نوجوان تھا۔ وہ خود راجپوت تھا اور  اس بات پر نازاں تھا اسے ٹھاکروں کے ایک گاؤں میں تعینات کیا گیا ہے۔ کوسی کلاں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں دیگر سرکاری ملازم مثلاً منیم جی یا اساتذہ وغیرہ تو دوسری ذاتوں سے آتے تھے لیکن تھانیدار اور سپاہی سب کے سب ٹھاکر ہی ہوتے تھے۔ اس لئے کہ راجپوت اپنے سامنے کسی اور کے ہاتھ میں لاٹھی دیکھنا باعثِ عار سمجھتے تھے۔ رنجیت سنگھ اس لئے بھی بہت خوش تھا کہ اس گاؤں میں جرائم کی شرح نہیں کے برابر تھی۔ بور کلاں میں کبھی کبھار تنازعہ ہو جاتا تو پولس کی مدد طلب کی جاتی وگرنہ کوسی کلاں کے اکثر معاملات پنچایت ہی میں سلجھ جاتے۔ پولس تھانے کی نوبت کم ہی آتی۔

 وید جی جب تھانے میں داخل ہوئے تو رات کا وقت تھا۔ ڈیوٹی پر موجود سپاہی اونگھ رہا تھا۔ وید جی کی آواز سن کر وہ جاگ گیا۔ حوالدار ویدجی کو تھانیدار کے کمرے میں بٹھا کر خود منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے کے لئے حمام کی جانب چل پڑا۔ سپاہی جب واپس آیا تو اس کے ساتھ چائے والا اور اس کے ہاتھ میں چائے کی دوگرم گرم پیالیاں بھی تھیں۔ وید جی نے مسکرا کر چائے کی پیالی اٹھائی اور پوچھا تھانیدار صاحب کہاں ہیں ؟

 سپاہی بولا جناب اتنی رات گئے وہ اپنے مکان میں ہوں گے۔ کیوں خیریت تو ہے ؟ آپ اس وقت یہاں تھانے میں ۰۰۰۰۰۰۰۰؟

وید جی بولے ویسے تو کوئی خاص بات نہیں اگر تھانیدار صاحب سے ملاقات ہو جاتی تو اچھا تھا ورنہ پھر میں صبح آؤنگا۔ دیکھئے کوئی اور ہوتا تو اس کی بات اورتھی لیکن آپ کے لئے تو مجھے حکم ہے کہ اگر آدھی رات کو بھی ضرورت پیش آئے ۰۰۰۰۰۰

وید جی نے جملہ کاٹ دیا اور بولے تم سپاہی کم اور نیتا زیادہ ہو۔ اب ایسا کرو کہ جلدی سے انہیں خبر کر دو۔ جی جناب ابھی آیا یہ کہہ کر سپاہی تھانیدار کے گھر کی جانب لپکا جو پولس اسٹیشن کے احاطے میں واقع تھا۔ دو منٹ بعد واپس آ کرسپاہی نے بتلایا کہ صاحب ابھی آ رہے ہیں اور چائے کی پیالیاں سمیٹنے لگا۔ پانچ منٹ بعد ہشاش بشاش تھانیدار رنجیت سنگھ اپنے دفتر میں داخل ہوا۔ پرنام(سلام) کے لئے ہاتھ جوڑے اور وید جی کے چرن(قدم) چھوکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔

وید جی نے کہا بے وقت زحمت دینے کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ رنجیت نے جواب دیا آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ ہماری ڈیوٹی تو ۲۴ گھنٹہ کی ہے فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟وید جی بولے بڑے ٹھاکر سکھدیو کے پوتے سے تم واقف ہی ہو ؟جی ہاں کوسی کلاں میں اسے کون نہیں جانتا ؟ وہ ہم سب کی آنکھوں کا تارا راج دلارا ہے۔ جی ہاں تم نے صحیح کہا لیکن وہ آج شام سے غائب ہے۔

وید جی کا جملہ رنجیت پر بجلی بن کر گرا  وہ بولا کیا ؟کس کی مجال ہے جو اس کی جانب نگاہِ غلط اٹھائے۔ میں اس کی آنکھیں نکال لوں گا۔ یہ راجپوت خون تھا جو جوش ماررہا تھا۔

وید جی مسکرائے اور بولے ٹھیک تم اس کی آنکھیں نکالو یا کان کاٹو لیکن پہلے یہ تو پتہ لگاؤ کہ آخر وہ ہے کون ؟ کہاں چھپا رکھا ہے اس نے اپنے بلدیو کو؟ فی الحال سب سے بڑا مسئلہ بلدیو کی واپسی ہے۔ اس کی امی منیشا کی حالت خراب ہے۔ میں اسے دیکھ کر آ رہا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر بلدیو کی بازیابی میں تاخیر ہو ئی تو منیشا کے ساتھ کوئی اونچ نیچ نہ ہو جائے۔  اس کی نبض خطرے کے نشان سے اوپر چل رہی ہے۔

رنجیت نے کہا میں معافی چاہتا ہوں وید جی جو جوش میں آ گیا تھا۔ ہمارا کام سزا دینا نہیں ہے بلکہ ملزم کو عدالت میں حاضر کرنا ہے۔ میں اپنے فرض کی ادائے گی کے لئے حتی المقدور کوشش کروں گا۔ آپ برائے کرم مجھے یہ بتائیں کہ آخر وہ کہاں سے ، کب اور کیسے لاپتہ ہوا؟ ویدجی نے سرجو سے حاصل ہونے والی ساری تفصیل من و عن دوہرا دیں۔

وید جی کی گفتگو کو نہایت انہماک سے سننے کے بعد رنجیت بولا مجھے تو یہ اغوا کا معاملہ لگتا ہے۔ اس طرح کے واقعات آس پاس کے علاقہ میں ہوتے رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ گاؤں محفوظ تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ بلا اب یہاں بھی پہنچ گئی۔ خیر کوئی بات نہیں مجھے یقین ہے کہ اغوا کار جلد ہی تاوان وصول کرنے کی خاطرحویلی سے رابطہ کریں گے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ سادہ لباس میں کچھ سپاہی نگرانی پر تعینات کر دیتا ہوں جو چوبیس گھنٹہ وہاں آنے جانے والوں پر نظر رکھیں گے۔ حویلی کے فون کو بھی ٹیپ کرنا ضروری ہے تاکہ مجرم کی آواز اور اس کے پیغام کو سنا جا سکے۔ آپ فکر نہ کریں میں ان بدمعاشوں کو ایک ایسا مزہ چکھاؤں گا کہ وہ پھر کبھی ایسی جرأت نہیں کریں گے بلکہ  کوسی کلاں کا تصور تک اپنے حاشیہ خیال سے نکال دیں گے۔

وید جی نے کہا وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن سب سے اہم کام بلدیو کی بحفاظت رہائی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مجرم کو سزا دینے کے چکر میں ننھا بلدیوبے موت مارا جائے۔ رنجیت بولا ایسا ہر گز نہ ہو گا وید جی میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ اپنی جان پر کھیل کر میں بلدیو کاتحفظ کروں گا۔ یہ ایک راجپوت کا وچن ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں ۰۰۰۰۰۰۰

وید جی نے مسکرا کہا جی ہاں ’’جگ کل ریت سدا چلی آئی پران جائی پر وچن نہ جائی‘‘۔ رنجیت نے سوال کیا آپ نے چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ کو اس سانحہ کی خبر دی ؟ جی نہیں میں تو حویلی سے سیدھے تمہارے پاس آیا ہوں۔ اب گھر جاتے ہوئے ٹھاکر بلوندر سے ملتا ہوا جاؤں گا۔ بہت خوب آپ چلیں اور ان کو حالات سے واقف کرائیں تب تک میں کچھ ابتدائی کارروائی کر کے ان کے پاس حاضر ہوتا ہوں۔

وید جی نے اجازت لی اور رنجیت سنگھ کا دماغ تیزی سے چلنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے اوراس سازش میں شیکھر سمن شریک ہے۔  اس لئے سب سے پہلے اس پر ہاتھ ڈالنا ضروری تھا۔ رنجیت نے ڈیوٹی پر موجود سپاہی کو ہدایت کی کہ وہ حویلی کے فون پر نگاہ رکھے اور تین سپاہیوں کو فوراً ڈیوٹی پر طلب کرے جب تک میں ایک ضروری کام نمٹا کر لوٹتا ہوں۔ سپاہی نے پیر پٹخ کر سلامی دی اور رنجیت باہر نکل گیا۔

اسکول سے آگے بور کلاں کی جانب مدرسین کے لئے سرکاری رہائش گاہیں بنی    ہوئی تھیں۔ ٹھاکر اساتذہ تو کوسی کلاں گاؤں کے اندر رہتے تھے۔ غیر راجپوت اساتذہ  کو وہاں رہنا پڑتا تھا۔ ویسے یہ مکانات گاؤں سے باہر ہونے کے باوجود کشادہ اور پر تعیش تھے۔ اس کمپاؤنڈمیں ایک طرف فیملی کوارٹرتھے جہاں لوگ مع اہل و عیال رہتے تھے۔ دوسری جانبتنہا رہنے والے اساتذہ اورعملہ کے لئے رہائش کا بندوبست تھا۔ یہ سارے مکانات گو کہ ایک ہی احاطہ میں  وقوع پذیر تھے لیکن دونوں کے لئے دروازے مختلف تھے۔ درمیان میں ایک لکشمن ریکھا تھی جسے پار کرنے کی اجازت فیملی والوں کو تو تھی لیکن دیگر لوگ اس کے قریب نہ پھٹکتے تھے۔ یہ قوانین و ضوابط کسی کتاب میں لکھے ہوئے تو نہیں تھے لیکن ان پر عملدرآمد بڑی پابندی سے ہوتا تھا۔ شیکھر سمن چونکہ نیا تھا اور اس کے اہل خانہ ابھی آئے  نہیں تھے اس لئے وہ تنہا اہلکاروں کے ساتھ رہتا تھا۔ رنجیت نے کمپاؤنڈ کے گیٹ پر موجود چوکیدار کو اپنا تعارف کرایا اور اس سے نام پوچھا تو وہ بولا صاحب میرا نام ویر بہادر ہے۔

رنجیت نے کہا ویر بھی اور بہادر بھی  بڑا زبردست نام ہے تمہارا ۰۰۰۰۰۰

چوکیدار نے دانت نکال دئیے صاحب ہم کا کریں ہمارے ماتا پتا نے ہمارا نام ہم سے پوچھ کر تو نہیں رکھا اور ویسے بھی ہمارے گاؤں میں ایسے ہی نام رکھے جاتے  ہیں۔ ویر بہادر، سوریہ کرن اور چندر پرکاش  وغیرہ وغیرہ۔

رنجیت نے جھنجلا کر کہا اچھا خیر مجھے شیکھر کا گھر بتاؤ۔ آپ شیکھر سمن جی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں آئیے میرے ساتھ چلئے۔ چوکیدار ایک جانب چل پڑااوررنجیت کو شیکھر دروازے تک لے آیا۔ راستے میں چوکیدار نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی شام پانچ بجے سے صبح پانچ بجے تک ہے اور اس نے آج شیکھر سمن کو واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جبکہ اس کے دو دوست سات بجے کے آس پاس اس کو کھوجتے ہوئے (تلاش میں ) آئے تھے۔

رنجیت کا ما تھا ٹھنکا۔ اس نے پوچھا کون تھے وہ لوگ ؟ کیا تم انہیں جانتے ہو ؟ جی نہیں سرکار ہم نے تو انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ تو کیا وہ ہمارے گاؤں کے نہیں تھے ؟ لگتا تو ایسا ہی تھا کہ وہ دور کا سفر کر کے آئے ہیں۔ باہر کے لوگ معلوم ہوتے تھے۔

تم نے ان کا نام نہیں پوچھا ؟ پوچھا تو تھا لیکن ان میں سے ایک بڑا بدزبان تھا اس نے گالی دے کر کہا تھانیدار نہ بنو اپنا کام کرو۔ یہ سن کر ہم ڈر گئے۔

رنجیت سنگھ ہنس کر بولا ارے ویر بہادر ڈر گیا اس سے بڑی حیرت کی کیا بات ہو سکتی ہے ؟دیکھئے صاحب ہم بھی انسان ہیں اور آپ بار بار ہمارے نام کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ ہمیں اچھا نہیں لگتا۔

رنجیت نے کہا اچھا بابا غلطی ہو گئی ہم کا معافی دے دیو اور یہ بتاؤ کہ عام طورپر شیکھر کا معمول کیا ہے ؟ ویسے شیکھربابو آٹھ بجے کے قریب باغ کی سیر سے واپس لوٹتے ہیں اورہم  سے سلام دعا کر کے ہی اندر جاتے ہیں لیکن آج ایسا کچھ نہ ہوا۔ رنجیت نے پوچھا اسے شیکھر کے نہ آنے پر حیرت نہیں ہوئی ؟دربان بولا جی نہیں میں نے سوچا ممکن کسی طالب علم کے والدین نے یا کسی ہم شغل استاد نے انہیں اپنے یہاں کھانے پر بلا لیا ہو۔ شیکھرجی کا شمارچونکہ مقبول و معروف اساتذہ میں ہوتا تھا اس لئے اکثر لوگ انہیں اپنے یہاں دعوت پر بلا لیا کرتے تھے۔

رنجیت نے سوال کیا تمہارے خیال میں شیکھر کی مقبولیت کا کیارازہے ؟ دربان مسکرا کر بولا اس کا سوبھاؤ(مزاج)! وہ اپنی ملنسارطبیعت کے سبب بہت جلد ہر کسی کے دل میں گھر بنا لیتے ہیں۔ گفتگو کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ دربان کے قدم رک گئے۔ ان دونوں کے سامنے جو دروازہ تھا وہ حسبِ توقع بند تھا۔ دربان نے تالہ کو دیکھ کر کہا دیکھئے جناب میں نے کہا تو تھا کہ ماسٹرشیکھر سمن ابھی نہیں آئے میرا اندازہ درستنکلا۔

رنجیت کو بھی شیکھر سمن کے اپنے کمرے ملنے کی توقع ہر گز نہیں تھی اس کے باوجود  وہ محض گمان کے بجائے یقین کی بازیابی کے لئے یہاں  آیا تھا۔ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ بلدیو کا غنیم کوئی اور نہیں بلکہ صرف اور صرف شیکھر سمن ہے۔ شیکھر کے بارے میں دربان کی جانب سے کہے جانے والے کلماتِ خیر کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

رنجیت دوبارہ پولس تھانے میں آیا۔ اس نے وہاں موجود سپاہیوں کو مختلف مقامات پر تعینات کیا۔ ایک کا کام حویلی پر نگاہ رکھنا تھا۔ دوسرے کو شیکھر سمن کے گھر کی نگرانی کرنی تھی تاکہ اس کی آمد کی اطلاع فوراً بہم پہنچائی جا سکے۔ تیسرے کو فون پر  لگا دیا گیا تھا اور سب کو سخت ہدایت تھی کہ وہ اپنی جگہ اس وقت تک خالی نہیں کریں گے جب تک کہ ان کا نعم البدل  وہاں آن موجود نہیں ہوتا۔ چاروں سپاہیوں نے سلامی دی۔ اب رنجیت کا رخ چھوٹے ٹھاکر کے مکان کی جانب تھا جہاں ویدجی اور ٹھاکر بلوندر اس کا انتظار کر رہے تھے۔

رنجیت سنگھ نے بلوندر سنگھ کو پرنام کیا اور اب تک کی ساری کارروائی سے انہیں مطلع کرتے ہوئے کہا جیسے ہی وید جی تفصیلات بتلائیں مجھے یقین ہو گیا کہ اصل مجرم شیکھر سمن ہے جس نے بلدیو کو اغوا کیا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ اپنے کمرے پر نہیں ملے گا اس کے باوجودمیں وہاں گیا  اور اسے ندارد پایا لیکن چنتا( متفکر ہونے ) کی کوئی بات نہیں میں نے اپنا جال پھیلا دیا ہے اور شکار کا منتظر ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں بہت جلد مجرم کو آپ کے قدموں میں حاضر کر دوں گا۔

ٹھاکر بلوند رسنگھ بولے بیٹا میں تمہاری ذہانت اور محنت دونوں کی قدر کرتا ہوں لیکن کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ تم کچھ جلد بازی کر رہے ہو۔ ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت تمہارے پاس نہیں ہے اس کے باوجود تم نے سارے معاملے کو شرلاک ہومز کی مانند بیٹھے بٹھائے حل کر دیا ہے۔ میں نے تو سنا ہے شیکھر سمن ایک نہایتسلیم الطبع  ملنسارانسان ہے۔ لوگ اس کی شرافت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ ایسے شخص  پر بلا جواز اس قدر سنگین الزام لگا دینا مجھے حیرت انگیزمعلوم ہوتا ہے۔

 تاؤجی آپ کی بات بجا ہے لیکن ہم پولس  والوں کی ایک چھٹی حس بھی ہوتی ہے جو مجرم کی جانب کا اشارہ کرتی رہتی ہے اور ایسا شاذو نادرہی ہوتا ہے کہ وہ اشارہ غلط ہو جائے۔ ویسے میں ایک بات تسلیم کرتا ہوں کہ اس بار میرا ایک نہایت ہی ذہین مجرم سے سابقہ پڑا ہے۔ جس نے اپنے جرم کا منصوبہ نہایت چالاکی سے بنایا۔ اس کے لئے بڑی خوبی سے فضا ہموار کی اور کوسی کلاں گاؤں کی سب سے قیمتی اسامی پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ٹھاکر بلدیو سنگھ سے کسی کا قریب ہو جانا۔ سرجو ماسی کا اس کو اس قدر اعتمادمیں لے لینا کہ وہ بلدیو کو اس کے حوالے کر کے تنہالوٹ آئے کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن اس مشکل کام کو اس نے بحسن و خوبی  انجام دے دیا۔

وید جی بولے لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ وہ بلدیو کو شیکھر کے پاس چھوڑ آئی ہو۔ ماضی میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ اگر اسے اغوا ہی کرنا ہوتا تو وہ اپنے گھناؤنے مقصد کو کبھی کا عملی جامہ پہنا چکا ہوتا۔

دیکھئے وید جی کسی کو اغوا کرنا بہت آسان ہے لیکن مغوی کو محفوظ مقام پراپنی شرائط کے منوانے تک  چھپا کر رکھنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کے لئے بڑی منصوبہ بندی اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممکن ہے شیکھر سمن نے ضروری  انتظامات کے تکمیل کامنتظر رہا ہو  اور اب جبکہ لوہا گرم ہو گیا اس نے ہتھوڑا ماردیا۔

ٹھاکر بلوندر نے کہا رنجیت مجھے تمہاری خوداعتمادی پر رشک آتا ہے۔ ایک ایسی بات جس کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا تھا اسے تم نے اپنے یقین کی قوت سے  حقیقت بنا کر میرے سامنے پیش کر دیا۔ خیر اب آگے تمہارا کیا منصوبہ ہے ؟

رنجیت بولا ویسے تو میرا اصلی  کام اس وقت شروع ہو گا جب شیکھر سمن خود یا اس کے گروہ کا کوئی فرد منیشا سے رابطہ قائم کرے گا۔ اس سلسلے میں میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ منیشا کواس بات پر راضی کر لیں کہ وہ اغوا کاروں سے معاملات طہ کرنے کی ذمہ داری آپ دونوں میں سے کسی ایک کو سونپ دے۔

ٹھاکر بلوندر نے کہا دیکھو میں ازخود یہ تجویز نہیں رکھ سکتا اس لئے کہ ایسا کرنامیرے وقار کے منافی ہے دوسرے اس بات کا  خطرہ بھی ہے کہ اگر خدا ناخواستہ کوئی گڑبڑ ہو جائے تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں۔

وید جی نے بھی ٹھاکر بلوندر کی تائید کی اور بولے جی ہاں ٹھاکر صاحب کی جانب سے یہ پیش کش کسی طور پر مناسب نہیں ہے لیکن میں منیشا کو اس کے لئے تیار کر سکتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے ٹھاکر صاحب کا تعاون حاصل کرے لیکن اس کے لئے تمہیں  اس  حکمتِ عملی کی افادیت  مجھ پر واضح  کرنی ہو گی تاکہ میں اسے اعتماد میں لے سکوں۔

رنجیت نے کہا اس کا فائدہ یہ ہے کہ میں یا میرا کوئی ساتھی اس گفتگو کے دوران موجود رہ سکے گا اور حسبِ ضرورت مشورہ دے سکے گا۔ بہو جی چونکہ عورت ذات ہیں اس لئے ان کے ساتھ موجود رہنا ان کے اور ہمارے دونوں کے لئے باعثِ  زحمت ہوسکتا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں جذبات کے بجائے عقل کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے غوروفکر کے بعد فیصلہ کرنا نہایت اہم ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے چونکہ بہو جی خود بلدیو کی والدہ ہیں   ممتا آڑے آ جائے گی اور ان کے لئے اپنے جذبات پر قابو رکھنا بے حد مشکل ہو گا۔ شیکھر سمن جیسا چالاک مجرم ایک ماں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے اغواکار میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیں اور صرف منیشا سے گفتگو پر اصرار کریں ؟ٹھاکر بلوندر نے اعتراض کیا۔ رنجیت نے تائید کی اور بولا جی ہاں ابتدا میں تو یقیناً اسی طرح  ہو گی۔ منیشا ان کے لئے نرم چارہ ہے اور وہ اسی کے ساتھ معاملہ کرنے پر مُصر ہوں گے لیکن ہمیں اس مرحلہ میں ذرا سختی دکھانی ہو گی ورنہ بازی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

لیکن اس بیچ اگر بازی ہی الٹ جائے تو۰۰۰۰۰۰۰ ؟ وید جینے پھر اندیشہ ظاہر کیا۔ رنجیت نے کہا وید جی آپ کے شکوک و شبہات درست ہیں  لیکن ایک بات یادرکھیں بازی الٹنے کے لئے نہیں سجائی جاتی بلکہ اسے جیتنے کے لئے بچھایا جاتا ہے۔ اغوا کی واردات کا بنیادی مقصد قتل نہیں بلکہ تاوان وصول کرنا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں قتل کی دھمکی دی جاتی ہو اور کبھی کبھار کھلاڑیوں کی نادانی کے باعث قتل وغارتگری ہو بھی جائے لیکن وہ کامیابی نہیں کہلاتی۔ یہ ایسا ہی جیسے قتل کے پیچھے بھی مالی فائدہ کارفرما ہوتا ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی اور ہلاکت کو بنیادی  اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

ٹھاکر بلوندر نے کہا تورنجیت تمہاری ساری گفتگو سے میں نے جو کچھ سمجھا ہے وہ یہ کہ ہم لوگ اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے جب تک کہ وہ لوگ رابطہ قائم نہیں کرتے ؟

جی ہاں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کے لئے ہمیں زیادہ انتظار کرنا ہو گا  اس لئے کہ مجرم جانتے ہیں خوف  اور غم کے اثرات وقت کے ساتھ زائل ہوتے جاتے ہیں اس لئے کہ یرغمال کے معاملاتمیں تاخیر کو نقصان دہ اور پھرتی کو فائدہ بخش مانا جاتا ہے۔  اس لئے کوئی دیوانہ ہی ہو گا جو اس قیمتیوقفہ کو ضائع کر دے۔ میں آپ کو یقین دلادوں کہ جرم کی دنیا میں دیوانے نہیں بلکہ صرف اور صرف فرزانے پائے جاتے ہیں وہ تو ہمارا آپکا شرافت کاجہاں  ہے جہاں دیوانے اور فرزانے سب کھپ جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر رنجیت سنگھ نے اجازت طلب کی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وید جی بھی اٹھ کھڑے ہوئے  اور اپنے گھر کی جانب بوجھل قدموں کے ساتھ چل پڑے۔

٭٭

منیشا

گردشِ ایام کے الٹ پھیر نے تھانیدار رنجیت سنگھ کے سارے اندازوں اورتوقعات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ بلدیو سنگھ کو غائب ہوئے دس دن کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ نہ صرف بلدیو بلکہ شیکھر سمن کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔ اس صورتحال سے تھک ہار کر وید جی اور چھوٹے ٹھاکر نے کوتوالی جانے کا فیصلہ کیا اور رنجیت کے دفتر میں پہنچ گئے جہاں  رنجیت خود اپنا احساسِ جرم  دبائے بیٹھا تھا۔ اسے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا ؟کوئی ایسا سراغ ہاتھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ٹھاکر بلوندر نے رنجیت سے پوچھا بیٹے اب تم کیا سوچتے ہو ؟ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان دونوں کا کیا بنا؟ انہیں زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا؟

رنجیت بولا جی ہاں تاؤ اب تو میرا دماغ بھی کام نہیں کر رہا ہے ؟ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے گویا میں کسی بند گلی میں کھڑاہوا ہوں جہاں اس قدر اندھیر اپھیلا ہوا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس  عجیب و غریب کیفیت کی کوئی معقول وجہ تو نظر نہیں آتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس د لدل  سے نکلنے کی جتنی بھی کوشش کرتا ہوں مزید دھنستا چلا جاتا ہوں۔

وید جی نے کہا میری سمجھ میں اس کی ایک وجہ آتی ہے لیکن میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ جو بھی ہو آپ اپنی تشخیص بتلائیں ممکن ہے وہ درست ہی ہو رنجیت بولا۔ میرے خیال میں رنجیت تم خود پسندی کا شکار ہو گئے ہو۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے اندر کبر و غرور جیسا کوئی عیب پیدا ہو گیا ہے بلکہ تم نے جو بھی اندازہ لگایا اسے حقیقت سمجھ بیٹھے حالانکہ اندازہ تو اندازہ ہی ہوتا، وہ کبھی کبھار حقیقت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ اس لئے کہ قیاس آرائی بہر حا ل قیاس آرائی سے زیادہ کچھ اور نہیں ہوتی۔

رنجیت سنگھ وید جی کے اس کڑوے کسیلے تنقید کے پیالے کوخندہ پیشانی کے ساتھ نگل گیا اور بولامیں آپ سے صد فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ وید جی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا اگر انسان اپنے اندازوں کے حدود و قیود کا خیال رکھے تو ان کے غلط نکل جانے پراسے کسی قسم کی مایوسی لاحق نہیں ہوتی لیکن تمہارا معاملہ اس سے مختلف ہے تم نے اپنے آپ کو توقعات کی بند گلی میں محصور کر لیا ہے اس لئے حزن و یاس کا شکار ہو گئے ہو۔

ٹھاکربلوندر سنگھپرویدجی کی تنقید گراں گزری وہ بولے اب جو ہو چکا سو ہو چکا اس کا ماتم کرنے سے کیا حاصل۔ آپ یہ بتائیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے ؟ ویدجی بولے ٹھاکر صاحب میں اپنا نسخۂ کیمیا بتلانے ہی جا رہا تھا کہ آپ درمیان میں بول پڑے۔ میری رائے یہ ہے کہ رنجیت اس بند گلی سے باہر  نکل کر سوچے تو اسے روشنی کی کرن آپ سے آپ نظر آ جائے گی۔

رنجیت نے کہا لیکن اس سے باہر نکلنے کی کوئی ترکیب بھی آپ سجھا دیں تو مہربانی ہو گی اس لئے کہ میرا دماغ اس بھول بھلیاں سے نکل ہی نہیں پارہا ہے اور اب تو وہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ وید جی بولے بیٹے رنجیت تم کچھ دیر کے لئے شیکھر سمن کو بھول جاؤ اور بالکل خالی ذہن کے ساتھ از سرِ نو غوروفکر کا آغاز کرو مجھے یقین ہے کہ بہت ساری  نئی راہیں اپنے آپ کھل جائینگی۔

رنجیت نے ایک آہ بھر کر کہا شاید آپ صحیح کہہ رہے ہیں وید جی۔ میں آپ کے مشورے پر عمل کرنے کی کو شش کروں گا۔ شکریہ۔ چھوٹے ٹھاکر نے رنجیت کی حوصلہ افزائی کے لئے کہا بیٹے تم سے ہماری بہت ساری توقعات وابستہ ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ تم ان پر پورا اتروگے۔ رنجیت بولا مجھے آپ جیسے شفیق بزرگوں کا آشیرواد اور رہنمائی درکار ہے۔ ہماری دعائیں اور اور نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔  وید جی اور ٹھاکر بلوندر  نے رنجیت سے الوادعی مصافحہ کیا اور کوتوالی سے باہر آ گئے۔

سڑک پر آنے کے بعد چھوٹے ٹھاکر نے وید جی سے پوچھا منیشا کا کیا حال ہے ؟منیشا۰۰۰۰۰۰۰ منیشا کا حال نہ پوچھیں ٹھاکر صاحب، کوئی ایسی ماں جس کا نونہال اس سے چھن گیا ہو اس کی جو حالتِ  زار  ہو سکتی ہے وہی منیشا کا حال ہے بلکہ اس سے سے بھی برا۔ جی ہاں مجھے احساس ہے    بلوندر نے کہا۔ کئی مرتبہ میرے من میں آیا کہ اس سے مل کر مزاج پرسی کر وں لیکن پھر ہمت نہیں ہوئی۔ سوچا اگر ملوں گا بھی تو کیا بولوں گا ؟

وید جی بولے دراصل منیشا کا معاملہ مختلف وجوہات کے بناء پر سنگین ہو گیا ہے۔ ایک تو اس بڑی حویلی میں اس کی تنہائی۔ نوکر چاکر ایسے نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ اپنا غم ہلکا کیا جا سکے۔ سرجو ماسی ہے تو اس سے بھی رشتہ داری کے سبب ایک  فاصلہ ضرور ہے۔ اس کا اپنا میکہ بھی ایسا ہے کہ گھر میں کوئی ہم عمر نہیں ہے۔ والد اور والدہ کے علاوہ کوئی اور تیسرا فرد گھر کے اندر نہیں ہے۔ چھوٹا بھائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر گیا ہوا ہے۔ شوہر کا انتقال پہلے ہوا اس کے بعد خسر بھی پرلوک سدھار گئے۔ بڑے ٹھاکر کے سارے قریبی رشتہ دار فوج میں ہیں یا شہر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں سے رابطہ نہ جانے کب سے منقطع ہے۔ اب لے دے کر ایک بلدیو تھا جس کے ساتھ منیشا کا دل بہل جاتا تھا لیکن اب اس کا بھی اغوا ہو گیا ہے۔ گاؤں برادری کے مسائل تھے جن کو سلجھانے میں منیشا اپنے آپ کو مصروف کر لیتی تھی اور اس کا وقت کٹ جاتا تھا لیکن جب سے یہ حادثہ ہوا گاؤں والی خواتین بھی اپنے مسائل لے کر اس کے پاس جانا مناسب نہیں سمجھتیں۔ ایسے میں وہ کرے بھی تو کیا کرے ؟ پہاڑ جیسی سنگلاخ زندگی اس بیچاری ابلہ ناری کو چہار جانب سے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔

ٹھاکر بلوندر نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا جی ہاں وید جی آپ نے بالکل درست کہا ویسے آپ بہو جی کے علاج کی غرض سے کس وقت حویلی میں جاتے ہیں ؟ ویدجی نے جواب دیاکوئی مقرر وقت تو ہے نہیں جب سرجو کی جانب سے بلایا جاتا ہے میں دیکھ آتا ہوں ورنہ کبھی صبح یا شام کے وقت  اپنے سے بھی مل آتا ہوں۔

ابھی کیا خیال ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے اگر آپ چل رہے ہوں تو میں بھی ہمت جٹا کر آپ کے سنگ ہو لوں۔ میرے من کا بوجھ ہے ہلکا ہو جائے گا۔  وید جی نے حامی بھری اور بولے کیوں نہیں چلو چلتے ہیں۔ ویسے بھی منیشا آپ کو اپنے پتا سمان مانتی ہے۔ آپ سے ملنے پر اس کی بڑی ڈھارس بندھے گی۔

حویلی کے دروازے پر چوکیدار نے جب ان بزرگوں کو دیکھا تو لپک کر دروازہ کھولا اور جھک کر سلام کیا۔ وہ لوگ اندر کی جانب بڑھے تو سرجو کا سامنا ہو گیا۔ اس نے پرنام کیا تو ٹھاکر صاحب نے پو چھا بیٹی کیسی ہے ؟آپ خود دیکھ ہی لیجئے۔ سرجو نے مختصر سا جواب دیا۔ لیکن وہ ہے کہاں ؟اس بار وید جی نے سوال کیا

ابھی کچھ خواتین مزاج پرسی کے لئے آئی تھیں جن سے ملاقات کے لئے منیشا مہمان خانے میں آئی تھی تو وہیں بیٹھی رہ گئی۔ آپ لوگ بھی وہیں چلیں میں جل پان (چائے ناشتے ) کا بندوبست کر کے آتی ہوں۔

مہمان خانے کے اندر منیشا کھڑکی کے پاس کھڑی خلاء میں گھور رہی تھی اور دنیا و ما فیہا سے بے خبر اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔ بلدیو میرا بلو ّ تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلا گیا ؟ تو مجھ سے یہ آنکھ مچولی کا کھیل کیوں کھیل رہا ہے ؟ کب تک یہ کھیل تو مجھ سے کھیلتا رہے گا ؟ یہ میرے آنکھوں پر بندھی پٹی تو کھولتا کیوں نہیں ؟ دیکھ مجھے کچھ بھی دکھلائی نہیں دے رہا۔ میں تجھے بھی نہیں دیکھ پارہی ہوں میرے لال۔ میرے چاروں جانب اندھیرا چھاتا جا رہا ہے۔ گہرا اندھیرا۔ میں اس اندھیرے میں اگر کھو گئی تو کیا ہو گا ؟ پھر تو مجھے کہاں تلاش کرے گا ؟ بتا پھر تو مجھ تک کیسے پہنچے گا۰۰۰۰  بول ؟ تو چپ کیوں ہے ؟ تو بولتا کیوں نہیں ؟ تو میری آنکھوں پر بندھی اس پٹی کو کھولتا کیوں نہیں ؟

اس طرح کے نہ جانے کتنے بے معنیٰ جملے وہ بڑبڑاتی رہی اورٹھاکر صاحب کے ساتھ وید جی  بھی حیران پریشان خاموش کھڑے ان کو سنتے رہے۔ سرجو جب ناشتہ کی کشتی لیکر کمرے میں آئی تو اس نے اس منظر کو حیرت سے دیکھا۔ کشتی ایک جانب تپائی پر رکھنے کے بعدمہمانوں کو اشارے سے  بیٹھنے کی گزارش کی۔ اس کے بعد وہ منیشا کے قریب آئی اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر نہایت نرمی کے ساتھ کہا بیٹی دیکھو آپ سے ملنے کی خاطر کون آیا ہے ؟ وید جی کے ساتھ آج تاؤ  جی بھی تشریف لائے ہیں۔

اوہو تاؤ جی آپ کہاں چلے گئے تھے ؟ دیکھئے نا ہر کوئی مجھے چھوڑ کر چلا جاتا ہے ؟ پہلے وہ گئے منیشا نے زمین کی جانب نگاہ کر کے کہا اور پھر بڑے ٹھاکر اس کے بعد ایک بلدیو بچا تھا  میر ا لاڈلہ بلو ّ  تو اب وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ مجھے بتائیے کہ ایسا کیا ہے مجھ میں جو سب مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ؟

بیٹی ایسا کچھ بھی نہیں اور پھر بلدیو گیا کہاں ہے۔ ٹھاکر بلوندر نے بے ساختہ  کہا وہ تو یہیں کھیل رہا ہے۔ ابھی آئے گا اور تم سے لپٹ جائے گا۔ جی ہاں تاؤ جی میں بھی یہی کہتی ہوں لیکن یہ میری ماسی ہے نا سرجو ماسی یہ نہیں مانتیں اور پھر آپ ہی بتلائیں کہ کیا میں اپنے بلو ّکوبھول سکتی ہوں بھلا؟

جی نہیں کون کہتا ہے تمہیں ایسا کرنے کیلئے ؟ چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ نے کہا۔ وہی سرجو ماسی مجھ سے کہتی ہیں کہ اب تم بلدیو کو بھول جاؤ اب وہ آنے کا نہیں۔ آپ انہیں سمجھا ئیے نا کہ ایسا نہ کہے۔ ٹھیک ہے بیٹی میں اسے سمجھاؤں گا اور نہیں مانے گی تو ڈانٹوں گا تم اس کی بالکل چنتا نہ کرو۔

منیشا بالکل ناسمجھ بچے کی طرح بولے جا رہی تھی اور چھوٹے ٹھاکر بھی بالکل بچہ بن کر اس کے معصوم سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ منیشا کو پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ کوئی اس کے جذبات کو سمجھتا ہے۔ کوئی اس کے کرب کو محسوس کرتا ہے  ورنہ ابھی تک تو یہ ہوتا تھا کہ لوگ یا تو اسے بے وقوف سمجھ کر بہلاتے پھسلاتے تھے یا پندو نصیحت کر کے اپنی راہ لیتے تھے۔ سرجو اور وید جی کو بھی ٹھاکر بلوندر کا ایسا کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے تپائی پر رکھیطشتری میں سے انگور کا ایک خوشہ اٹھا یا اور منیشا کی جانب بڑھا کر کہا لو بیٹی اسے کھاؤ۔ منیشا اس کی جانب معنی خیز نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

 سرجو ماسی نے کہا لو بیٹی تاؤ جی دے رہے ہیں اسے بزرگوں کا پرشاد سمجھ کر کھا جاؤ۔ اس میں ان کا آشیرواد اور دعائیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب جلد ہی تمہارا بلو ّ واپس لوٹ آئے گا۔ منیشا نے یہ سنا تو زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔ یہ ہوئی نا بات ماسی۔ تم تاؤ جی سے ڈر گئیں اور تم نے سچ کہہ دیا۔ میرا بلو ّ ضرور آئے گا۔ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔ وہ ابھی آہی رہا ہو گا۔ یہ کہہ کر اس نے سرجو کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ  لیا اور اچھلتی پھدکتی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

سرجو بولی معاف کیجئے ٹھاکر صاحب منیشا کا ذہنی توازن کچھ بگڑ سا گیا ہے۔ وہ خود نہیں جانتی کہ کیا بول رہی ہے اور کیا کر رہی ہے۔ مجھے تو اس کی چنتا ہو رہی ہے۔

ٹھاکر صاحب بولے تم فکر نہ کرو سرجو۔ وہ جو اندیشہ تھا کہ بلدیو کو اغوا کر لیا گیا ہے پوری طرح غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اگر اغوا ہوا ہوتا تو اتنے دنوں تک خاموشی نہیں رہتی۔ میرا نترآتما کہتی ہے کہ وہ محفوظ ہے اور جلد ہی لوٹ آئے گا۔

آپ کے منہ میں گھی شکر چھوٹے ٹھاکر صاحب۔ دس دنوں کے بعد آج نہ جانے کیوں  مجھے بھی یقین ہو چلا ہے کہ بلدیو جہاں بھی ہے محفوظ و مامون ہے اور وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔ کاش کہ اس وقت تک منیشا کی حالت اور نہ بگڑے ورنہ ایسا نہ ہو کہ بلو ّ  تو لوٹ آئے اور اس کی اپنی ماں ہی اسے پہچان نہ سکے۔ بھگوان نہ کرے اگر ایسا ہو گیا تو بہت بڑا انرتھ ہو جائے گا۔

نہیں سرجو ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ وید جی بولے۔ منیشا کی ساری پریشانی بلدیو کے چلے جانے سے ہے۔ جیسے ہی وہ اپنے بیٹے کو دیکھے گی چشمِ زدن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ منیشا بالکلمعمول پر آ جائے گی۔ سرجو بولی وید جی آج آپ جس طرح کا حوصلہ بڑھارہے ہیں ایسی بات تو آپ نے پچھلے دس دنوں میں کبھی نہیں کی تھی۔ ویسے آج مجھے اور منیشا دونوں کو بہت اچھا لگا۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گویا امید کا ایک چراغ روشن ہو گیا۔

چھوٹے ٹھاکر بلوندر نے کہا مجھے آج اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ آزمائش کی اس نازک گھڑی میں میرا تم لوگوں سے اس طرح کنارہ کش ہو جانا ایک غیر دانشمندانہ حرکت تھی۔  اس کے لئے میں نادم و شرمندہ ہوں۔ سرجو ٹھاکر صاحب کی احسانمندی کے بوجھ تلے دب کر گنگ ہو گئی تھی اس کی زبان شکریہ کے الفاظ تک ادا کرنے سے قاصر تھی۔

ٹھاکر بلوندر سنگھ اور وید جی کے چلے جانے کے بعد دیر تک رنجیت بلدیو اور شیکھر سمن کے بارے میں سوچتا رہا لیکن چونکہ دونوں نگاہوں سے اوجھل تھے اس لئے ان سے ملاقات اور آگے کی پیش رفت ممکن نہیں تھی۔ اسی ادھیڑ بن میں اسے سرجو ماسی کا خیال آیا۔ سرجو ماسی جو ان دونوں کے درمیان کی کڑی تھی۔ جس سے دونوں نے آخری ملاقات کی تھی۔ جو بلدیوکو ایک اجنبی ماسٹر کے پاس باغ میں چھوڑ کر اکیلی  لوٹ آئی تھی۔  وہ کچھ نہیں تو سرجو سے ملاقات تو کرہی سکتا تھا۔

رنجیت اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ یہ معمولی سا خیال ابھی تک اس کے کند ذہن میں کیوں نہیں آیا ؟ اس نے فوراً سرجو ماسی سے ملاقات کا ارادہ کیا اورحویلی کی نگرانی پر تعینات اپنے آدمی سے رابطہ قائم کیا۔ اس سے دن بھر کے حالات دریافت کئے۔ اسے بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر قبل چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ اور وید جی حویلی سے ہو کر گئے ہیں۔ وہ دونوں تقریباً ایک گھنٹہ حویلی کے اندر تھے۔ اس سے پہلے گاؤں کی چند خواتین آئی تھیں جن کی ملاقات بھی مختصر ہی تھی۔ اس کے علاوہ  سب کچھ حسبِ معمول ہے کوئی انوکھا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔

رنجیت نے اپنے آدمی کو بتایا کہ وہ کچھ دیر بعد سرجو ماسی سے ملاقات کے لئے آ رہا ہے اس لئے چوکنا رہے۔ ملاقات کے دوران یا بعدمیں حویلی کے آس پاس کسی بھی اجنبی کی نقل و حرکت پر نظر رکھے۔ وہ ایک اضافی آدمی روانہ کر رہا ہے تاکہ اگر پیچھا کرنا پڑے تو ایک جائے اور دوسرا وہیں موجود رہے۔ ملاقات کے بعد سرجو ماسی اور حویلی کے دیگر نوکروں کے آنے جانے پر کڑی نظر رکھی جائے۔ رنجیت کو یقین تھا کہ اس پتھر سے جو وہ تالاب میں پھینکنے جا رہا ہے یقیناً کچھ نہ کچھ ارتعاش پیدا ہو گا اور لہروں کی سمت سے اسے کوئی نہ کوئی سراغ ضرورملے گا۔ اب اس کے اعصاب پر سرجو ماسی اسی طرح سوار ہو گئی تھی جیسا کہ کبھی شیکھر سمن تھا۔ وہ ماسی کے آس پاس اپنے خیالات کے تانے بانے بننے لگا تھا۔

رنجیت سنگھ اپنی سرکاری وردی کے بجائے سادہ لباس میں حویلی کے صدر دروازے پر پہنچا تو اتفاق سے چوکیدار اسے نہیں پہچان سکا۔ اس نے سرجو ماسی کے بارے میں دریافت کیا تو اسے بتلایا گیا کہ وہ گھر میں موجود ہیں۔ رنجیت نے اپنا تعارف کرایا اور کہا سرجو ماسی سے ہمارا سلام کہو اور ان سے پوچھوکہ اگر وقت ہو تو تھانیدار ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ذاتی ملاقات ہے اگر فی الحال ممکن نہ ہو تو کوئی بات نہیں تھانیدار کسی اور وقت آ جائے گا۔ رنجیت نہایت محتاط انداز میں قدم بڑھا رہا تھا۔ وہ نہ تو سرجو کو ناراض کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی اسے سوچنے کا موقع دینا چاہتا تھا۔ سچائی کو باہر نکالنے کے لئے یہ دونوں باتیں اشد ضروری تھیں۔ اسی لئے اس نے سرجو کو دفتر میں بلانے کے بجائے حویلی پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سرجو نے جب یہ سنا کہ تھانیدار اس سے ملاقات کرنے کے لئے آیا ہے تو خوش ہو گئی۔ اس نے سوچا یقیناً بلدیو کے بارے میں کوئی اچھی خبر دینے کے لئے تھانیدار نے حویلی آنے کا قصد کیا ہو گا ورنہ ابھی تک تو ان کے درمیان وید جی کے توسط سے رابطہ تھا اور معلومات کا آنا جانارہتا تھا۔  سرجو نے مہمان خانہ پر نظر ڈالی اسے ٹھیک کروا کر رنجیت کو بلوا بھیجا۔ رنجیت نے بڑے احترام سے سلام کیا اور ایک جانب بیٹھ گیا۔ سرجو ماسی بھی دوسری جانب بیٹھ گئیں  اور رسمی خیریت و عافیت کے دوران چائے ناشتہ آ گیا۔ رنجیت بولا ماسی اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ؟ میں کوئی مہمان تو نہیں ہوں۔

اس میں تکلف کی کیا بات ہے۔ یہ سب تو گھر والوں کے لئے بھی ہوتا ہے اور پھر وید جی تمہارے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتے ہیں اکثر تمہاری تعریف و توصیف کرتے رہتے ہیں۔ بلدیو کی بازیابی کے بارے میں تمہاری کوششوں سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ ہم اس کے لئے آپ کے شکر گزار ہیں۔ سرجو ماسی نہایت پروقار انداز میں گفتگو فرما رہی تھیں۔

رنجیت بولا اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ماسی یہ تو ہمارا فرض۔ ویسے مجھے تو توقع تھی کہ دو تین دن کے اندر ہم بلدیو کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن  افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور ایک  طویل عرصہ گزر گیا۔ مجھے وید جی نے اس آخری شام کی تفصیل تو ضرور بتلائی لیکن میں کچھ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے لائحہ عمل کو آخری شکل دے سکوں  اس لئے میں براہِ راست رابطہ کی زحمت دینے کے لئے حاضر ہو گیا۔

اس میں زحمت کی کیا بات ہے تھانیدار صاحب۔ آپ ہمارے  بچے کو واپس لانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ اس بارے ہم سے جو بھی تعاون درکار ہو گا اسے پیش کرنا ہماری سعادت ہے۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ بلدیو جلد از جلد لوٹ آئے۔ اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ دراز ہو گیا۔ رنجیت سوالات کرتا رہا  اور سرجو ان کے جواب دیتی رہی۔ رنجیت نے کئی سوالات کو گھما پھرا کر دوہرانے کی کوشش کی تاکہ کوئی تضاد بیانی سامنے آ جائے لیکن  مایوسی ہی اس کے ہاتھ لگی۔ سرجو ماسی میں نہ تو کوئی خوف و گھبراہٹ تھی اورنہ ان کے بیان میں کسی قسم کا تضاد تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملاقات سے رنجیت کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اسے اب یہ دیکھنا تھا کہ اس کے بعد حویلی میں کیا ہلچل ہوتی ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس بار سراغ کا کوئی نہ کوئی دروازہ ضرور کھلے گا جو اسے بالآخر مجرم تک پہنچا دے گا۔

سرجو ماسی کو رنجیت کی آمد سے جو توقعات تھیں وہ سب خاک میں مل گئیں۔ رنجیت بلدیو کے بارے میں تو کوئی اچھی یا بری خبر نہیں دے سکا بلکہ اوٹ پٹانگ سوالات کرتا رہا جن کا نہ کوئی سر تھا اور نہ پیر۔ سرجو ماسی کو یکبارگی ایسا لگا گویا اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے اسے تھانے بلانے کی جرأت تو نہیں کی گئی لیکن پھر بھی تفتیش تو آخر تفتیش ہے۔ یہ گھر پر کی جائے یا تھانے میں ، اس کے اندر پوشیدہ توہین  کا عنصریکساں درجہ کا ہوتا ہے۔ سرجو کو اچانک ایسا لگا کہ وہ اپنے مقام سے گر گئی ہے۔ ایک ایسا محل جس کے تعمیرمیں عمر عزیز کابیشتر حصہ کھپ گیا اچانک زمین بوس ہو گئی۔ اس نے سوچا کاش کے آج بڑے ٹھاکرحیات ہوتے  یا کم ازکم سچدیو زندہ ہوتا بلکہ اگر بلدیو بھی موجود ہوتا تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ شدید مایوسی کے عالم میں سرجو نے مندر جانے کا فیصلہ کیا اور ماضی کی جانب نکل کھڑی ہوئی۔

رنجیت کاجو آدمی سرجو ماسی کا تعاقب کر رہا تھا۔ اس نے رنجیت کو اطلاع دی کہ اس کے جانے کے آدھ گھنٹے بعد سرجو ماسی اپنی حویلی سے نکل کر مندر میں آئی ہیں۔ اس خبر کو سنتے ہی رنجیت کی باچھیں کھل گئیں۔ اس کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ گاؤں کا  مندر کوسی کلاں اور بور کلاں کے درمیان میں تھا۔ مندر کا پجاری بھولا بھگت دونوں بستی کے لوگوں سے رابطے میں تھا۔ یقیناً شیکھر سمن اور اس کے ساتھی بھی اس کے ربط میں رہے ہوں گے اور اب سرجو کا اس سے ملاقات کرنا  اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ان کے درمیان پجاری کے توسط سے ربط ضبط ہے۔

رنجیت نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کی توجہ کا مرکز  سرجو ماسی اور بھولا بھگت ہوں گے اور بالآخر یہی لوگ اغوا کاروں کا سراغ لگانے میں معا ون و  مددگار ثابت ہوں گے۔

 رنجیت نے فوراً اپنے دو سپاہیوں کو بھولا بھگت کی نگرانی پر تعینات کر دیا اور ہدایت کی کہ اس سے ملنے جلنے والے ہر شخص پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ہر اجنبی یا مشکوک آدمی کا تعاقب کیا جائے اور پتہ لگایا جائے کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کس سے ملتا ہے ؟  گاؤں کے پجاری بھولا بھگت  کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے رنجیت وید جی کی خدمت میں حاضرپہنچ گیا اور انہیں خوشی خوشی دن بھر میں رونما ہونے والے واقعات سے روشناس کرادیا۔

رنجیت کی گفتگو سن کر وید جی کا دماغ ٹھنکا انہیں حیرت ہوئی کہ وہ تو رنجیت کو بڑا ذہین انسان سمجھتے تھے لیکن یہ تو نرا گھامڑ کندۂ ناتراش نکلا۔ وید جی کو یقین ہو گیا کہ  اگر بلدیو کا معاملہ اس احمق کے ہاتھ میں رہا تو وہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جائے گا۔ وہ بولے رنجیت کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ تم سرجو ماسی پر شک کر رہے ہو ؟ رنجیت بولا اس میں کیا شک ہے وید جی۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ میری ملاقات کے صرف آدھے گھنٹے بعد سرجو اپنی حویلی سے نکل کر مندر کے پجاری کے پاس پہنچ گئیں اور اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ اس زنجیر کو دوسری اہم کڑی کوئی اور نہیں بلکہ مندر کا پجاری بھولا بھگت ہے  جس کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ مجھے یقین۰۰۰۰۰۰

وید جی کے لئے رنجیت کی بکواس کو سننا ناقابلِ برداشت ہو گیا انہوں نے رنجیت کا جملہ کاٹتے ہوئے بگڑ کر کہا رنجیت مجھے تو لگتا ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔    تم شاید اس بات سے بھی واقف نہیں ہو  کہ بھولا بھگت کوئی اور نہیں بلکہ سرجو کا سگا بھائی ہے۔ وہ اگر اس مشکل کی گھڑی میں اپنے بھائی کے پاس جاتی ہے تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے ؟  تھانیدار رنجیت سنگھ میں چا ہتا ہوں کہ تم احمقوں کی جنت سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آؤ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ سرجو کون ہے ؟ افسوس کہ  تم سرجو کو نہیں جانتے۔ اس کی قربانیوں سے واقف نہیں ہو۔ بلدیو کے بارے میں سرجو پر شک کرنا ایسا ہی ہی جیسے بڑے ٹھاکر پر شک کیا جائے۔ کیا سمجھے ؟ وید جی کا پارہ چڑھ گیا تھا وہ رنجیت کو کھری کھری  سنا رہے تھے  اور اسی کے ساتھ رنجیت کا ایک اور خیالی قلعہ زمین بوس ہورہا تھا۔

٭٭

سرجوماسی

دوپہر کے وقت مندر کا احاطہ سنسان پڑا تھا۔ سرجواندر آئی تو پتہ چلا کہ اس کا بھائی بھولا بھگت اپنی اہلیہ کے ساتھ بور کلاں میں کسی کے شرادھ (چہلم) میں گیا ہوا ہے۔ سرجو آنگن میں لگے گھنے پیپل کے پیڑ تلے بیٹھ گئی۔ وہ پیپل کا پیڑ جو سورج کی ساری تپش کو خود پی  جاتااورسسکتی بلکتی انسانیت کو سایہ بہم پہنچاتا تھا۔ جو تند اور تیز ہواوں کو اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کے لئے خوشگواربنا دیتا تھا۔ جس کے کڑوے کسیلے پھل انسانوں کو مختلف  قسم کی بیماریوں سے شفایاب کر دیتے تھے۔

یہ وہی پیپل کا صدا بہار درخت تھا جس کے نیچے اس نے اپنے بچپن کا زمانہ گزارا تھا۔ پیڑ کے نیچے بیٹھنے کے بعد وہ سوچ رہی تھی کہ برسوں پہلے بھی یہ اسی طرح لہلہا رہا تھا جیسا کہ اب ہے۔ بہارو خزاں کے موسم  آتے  جاتے رہے۔ لیکن یہ درخت ہر صورتحال کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کر تا چلا گیا۔ نہ تو موسمِ بہار میں یہ انسانوں کی مانند اکڑ کر تن جاتا اور نہ ہی خزاں کے دوران کسی حزن و ملال کا شکار ہوتا۔ اس کا معاملہ تو یہ تھا کہگمراہ انسانی فطرت  کے برعکس یہ بہار کی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد شکر سے جھک جایا کرتا تھا اور خزاں کا مقابلہ سینہ تان کر کیا کرتا تھا۔ سرجو نے سوچا شاید یہی اس کی طویل العمری اور صحتمندی کا راز ہے  ورنہ اس کے سامنے پیدا ہونے والے بھولا اور سرسوتی تو دیکھتے دیکھتے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے جبکہ یہ تو اب بھی جواں سال ہے۔

سرجو کو خیال آیا کاش کہ وہ اپنے والدپنڈت  جگت پر شاد سے اس درخت کی تاریخ کے بارے میں استفسار کرتی۔ مبادہ انہوں نے ہی مندر کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے اسے لگایا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پیڑ پہلے سے موجود رہا ہو اور انہوں نے اس کے پاس مندر بنوایا ہو؟  نہ جانے کیوں اس نے اس پیڑ کے بارے میں اپنے والد سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا تھا حالانکہ ننھی سرسوتی بچپن میں اپنے والد سے بے شماراوٹ پٹانگ سوالات کیا کرتی تھی اور پنڈت جی نہایت شفقت کے ساتھ اس کے سارے سوالات کے جواب دیا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اس کی حوصلہ شکنی نہیں کی تھی  لیکن  ایک سوال ایسا بھی تھا جس کا جواب دینے سے قبل انہوں نے کہا تھا پہلے اپنے اس بھولے بھگت بھائی کو بلا لاؤ پھر میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ احمق اس طرح کے سوالات کرے جو تم لڑکی ہو کر کرتی ہو لیکن اس بے وقوف کو لفنگے لڑکوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے سے فرصت ملے تب نا کچھ سوچے اور پوچھے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو سوچ نہیں سکتا وہ پوچھ بھی نہیں سکتا۔

سرسوتی اپنے والد کا حکم سن کر باہر کو لپکی اور اپنے چھوٹے بھائی بھولا بھگت کو ڈانٹ کر کہا چلو یہاں کیا کر رہے ہو ؟ بھولا  بڑے بزرگوں کے انداز میں بولا میں اپنا کام کر رہا ہوں تمہارا یہاں مردانے میں کیا کام جاؤ اندر چولہا چوکی کرو۔ سرسوتی تنک کر بولی بڑے آئے مجھے نصیحت کرنے والے۔ اندرچلو پتا شری بلا رہے ہیں جلدی چلو ورنہ وہ تمہیں چولہے میں جھونک دیں گے۔

والد کا نام سن کر بھولا گھبرا گیا۔ کہیں کوئی نئی شکایت تو ان تک نہیں پہنچ گئی مبادہ پھر پٹائی کی نوبت آ گئی ہو۔ وہ بگڑ کر بولا تم چلو میں آتا ہوں۔ جلدی آنا ورنہ تو تم جانتے ہی ہو ؟ سرسوتی نے چڑِھاتے ہوئے کہا اور واپس لوٹی تو کیا دیکھتی ہے کہ بابا خود باہر آ رہے ہیں ، اس نے سوچا شاید ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور بھولا کی پھر شامت آ گئی  لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنڈت جگت پرشاد مسکراتے ہوئے پیپل کے اس درخت کی جانب جا رہے تھے۔ سرسوتی بھی اپنا راستہ بدل کر ان کی جانب بڑھی اوران کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ اس کے والد پیڑ کے تنے سے ٹیک لگائے اسی طرح بیٹھے تھے جیسے کہ اب وہ  بیٹھی انہیں یاد کر رہی تھی

سرسوتی نے دیکھا بھولا سر جھکائے اندر کی جانب منہ بسور کر جا رہا ہے۔ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ والدصاحب پیڑ کے نیچے براجمان ہیں۔ سرسوتی نے زور سے چلا کر کہا میرے بھولے بھیا  اُدھر نہیں اِدھر۰۰۰۰۰۰۰۰۰ بھولا بھگت نے دائیں جانب پیڑ کو دیکھا تو پتا شری بھی نظر آ گئے لیکن ان کے ہاتھ میں  نہ چھڑی تھی اور  نہ چہرے پر غم و غصہ کے کوئی آثار۔ بھولا خوشی خوشی پیڑ کے قریب آ کراپنی بہن کے بغل میں بیٹھ گیا۔

پنڈت جی نے مسکرا کر کہا تو آ گئے چھوٹے سرکار بہت خوب۔ ذرا اپنا منہ بھی دھو آتے لیکن چھوڑو تمہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟تمہاری بہن سرسوتی نے ایک سوال کیا ہے جو تمہیں کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے تم سے امید نہیں ہے کہ ایسا کبھی ہو گا اس لئے میں نے تمہیں بلا لیا تاکہ تم بھی اس بہانے اپنے ماضی سے تھوڑے بہت واقف ہو جاؤ۔ ویسے ممکن ہے تمہیں اس میں کوئی دلچسپی نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم اسے ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو لیکن پھر بھی بتا دینے میں کیا حرج ہے۔

اپنے والد کی اسی لعن طعن کے سبب بھولا ان سے دور بھاگتا تھا وہ ہمیشہ سرسوتی کی تعریف کرتے اس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ بھولا کچھ نہ بولا چپ چاپ سر جھکائے منھ پھلائے بیٹھا رہا سوچا بول بچن سے کیا ہوتا ہے مارپیٹ سے جان بچ گئی یہی بہت ہے۔

پنڈت جی بولے ہاں تو بیٹی سرسوتی تم اپنا سوال بھولا کے لئے ایک بار پھر دوہرا دو تو اس کے بعد میں جواب دیتا ہوں۔ اس ہنگامہ کے دوران سرسوتی اپنا سوال بھول چکی تھی۔ پنڈت جی نے اس کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا اور اسے خجالت سے بچانے کے لئے کہا لیکن پہلے ایسا کرو کہ میرے لئے اندر سے پانی لے آؤ بہت پیاس لگی ہے۔ انہیں توقع تھی اندر آتے جاتے سرسوتی کو اپنا سوال یاد آ جائے گا اور ایسا ہی ہوا سرسوتی پانی کے ساتھ ساتھ اپنا سوال بھی یاد کر کے لے لائی۔ پانی کا لوٹا اپنے والد کو تھماتے ہوئے بولی اگر اجازت ہو تو میں سوال پیش کروں۔ پنڈت جی کا چہرہ کھل اٹھا انہوں نے مسکرا کر کہا ضرور۔ بیچارے بھولا بھگت کی سمجھ میں باپ بیٹی کی یہ سیاست نہیں آئی۔ وہ اپنے آپ میں مگن سر جھکائے بیٹھا  تھا۔

سرستوی نے کہا تو پتا شری میں یہ پوچھ رہی تھی کہ ٹھاکروں کے اس گاؤں میں جہاں کوئی براہمن نہیں رہتا آپ کیونکر آن بسے ؟ بھولا بھگت نے سوچا یہ بھی کوئی سوال ہے۔ کیا ٹھاکر، کیا براہمن سب انسان ایک سمان ہیں اور کیا یہاں ، کیا وہاں ساری دھرتی ایک مکان ہے۔ بھولا بھگت کے لئے یہ ایک فضول اور لایعنی سوال تھا جس کا کرنا اور جواب سننا سب وقت کا ضیاء تھا لیکن اپنے والد سے یہ کہنے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی اس لئے وہ خاموش بیٹھارہا۔

پنڈت جی نے کہا بیٹی یہ بہت پرانی بات ہے جب میں یہاں سے ۵۰ کوس دورمونگیر نامی گاؤں میں رہتا تھا  میرے والد وہاں کے مندر میں مہنت تھے لیکن اکثر پروچن کے لئے وہ مجھے اپنی جگہ بٹھا دیا کرتے تھے۔ میں نوجوان تھا جب لوگ شوق سے میرا بھاشن سنتے تو مجھے بڑا اچھا لگتا اور جب وہ تقریر کے بعد آکر میرے چرن چھوتے تو میرا دل بھر آتا اس لئے کہ ایسا کرنے والے کئی بزرگ میرے والد کی عمر کے ہوتے تھے۔ میرے والد بھی میرے اندازِ بیان سے بہت خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے کہ بیٹا جس عمر میں تم پروچن کر لیتے ہو مجمع میں میری زبان بھی نہیں کھلتی تھی اور اس کم عمری میں  تم جو آتم گیان (معرفتِ ذات) کی باتیں بیان کرنے لگے ہو وہ اب بھی میرے مستکش(ذہن) میں نہیں آتیں۔ یہ ایشور کی تم پر ویشیش کرپا(خاص مہربانی) ہے۔ اپنے والدِ ماجد کی زبان سے اپنی تعریف سن کر میں جھوم اٹھتا تھا۔

 وقت کے ساتھ میرا چرچا بڑھنے لگامونگیر کے بڑے مندر میں لگنے والے سالانہ میلے کے موقع پر دور دور سے شردھالو(معتقد) میرے درشن کے لئے آنے لگے۔ اسی دوران کوسی کلاں سے بھی چند افراد پر مشتمل ایک  وفد بھی وہاں آن پہنچا  جس میں بڑے ٹھاکر سکھدیو کے والد ٹھاکرمہادیو بھی شامل تھے۔ وہ بڑی وضعدار شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے مجھے دسہرہ کے موقع پر کوسی کلاں میں آکر رامائن کا پاٹھ کرنے کی دعوت دی اور یقین دلایا کہ وہ اس موقع پر آس پاس کے گاؤں والوں کو بھی بلائیں گے۔ پورے دس دن تکمیرے رہنے اور کھانے کی ویوستھا(انتظام)  خود ان کی حویلی میں ہو گا نیز آمدورفت کے لئے خصوصی سواری کا اہتمام کیا جائے گا۔ میرے لئے مونگیرسے باہر جانے کی یہ پہلا اتفاق تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب سے اجازت لے کر ٹھاکر مہادیو سنگھ جی  سے وعدہ کر دیا اور اپنے پروچن کی تیاری کے لئے مطالعہ میں غرق ہو گیا۔

بھدر پد کی آخری تاریخ کو صبح ہمارے گھر کے دروازے پر کوسی کلاں سے  ایک بیل گاڑی  پہنچ گئی۔ گاڑی بان نے پیغام دیا کہ سارا انتظام ہو چکا ہے۔  آس پاس کے گاؤں سے شردھالو( عقیدتمند) وشال پنڈال میں جمع ہونے لگے ہیں لنگر لگ گیا ہے اب بس سوامی جی کا انتظار ہے۔ میرے والد صاحب نے یہ آؤ بھگت دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور مجھے آشیرواد دے کر روانہ کیا۔ مونگیر سے اتنی دور کا یہ میرا پہلا سفر تھا۔ بہار کا زمانہ تھا چہار جانب کھیت لہلہا رہے تھے۔ میں نے یہ سب دیکھا تو طبیعت خوش ہو گئی۔ دوپہر کے بعد میں کوسی کلاں پہنچ گیا جہاں جشن کا ماحول تھا۔ ایک وسیع و عریض خیمہ میں سیکڑوں لوگ جمع تھے۔ یہی ان کی قیام گاہ اور طعام گاہ تھی۔ شام کے وقت اسی میں انہیں میرا پروچن بھی سننا تھا۔ میرے لئے الگ سے حویلی میں خصوصی اہتمام تھا۔ براہمن باورچی کو خاص طور سے میرے لئے بلوایا گیا تھا۔ کئی رضا کار  نوجوان  میری خدمت پر متعین تھے جو میرے اشارے پر بجلی کی مانند دوڑتے پھرتے تھے۔

سورج کے غروب ہوتے ہی اشونی ماس کا چندرما آسمان پر نمودار ہوا اور سارے لوگ کھا پی کر پروچن سننے کے لئے پنڈال میں جمع ہو گئے۔ ٹھاکر مہادیو سنگھ نے میرا سواگت کیا اور تعارف  کے بعد بھاشن کی دعوت دی۔ لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ میں بھی عام پجاریوں کی طرح رام لیلا کے موقع پر رامائن سناؤں گا اور رامچندرجی کے ان واقعات کو بیان کروں گا جنھیں وہ برسوں سے سنتے چلے آئے ہیں اور جن سے بچہ بچہ واقف ہے  لیکن میرا رادہ کچھ اور تھا۔

 میں نے شروع ہی میں حاضرین سے سوال کیا کہ مریادا پرشوتم رام کے بارے میں تو تم بہت کچھ جانتے لیکن یہ بتاؤ کہ کیا راون کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ لوگوں کو میرا انداز کچھ عجیب لگا کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر کسی نے کہا جی ہاں سوامی جی راون کے بارے میں بھی ہم کچھ کچھ جانتے ہیں۔ میں نے مسکرا کر ایک اور سوال کر دیابہت خوب اب یہ بتاؤ کہ تھوڑا بہت یا بہت کچھ ؟ لوگ اب کھلنے لگے تھے۔ کسی نے کہا تھوڑا بہت کوئی بولا بہت کچھ۔ محفل کا ماحول خوشگوارہو چکا تھا۔ لوگ بے تکلف ہو کر ہنس بول رہے تھے۔ میں بھی یہی چاہتا تھا۔

 اب میں نے تیسرا سوال کیا کہ راون کے کتنے سر تھے ؟اس سوال پر سارے لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا دس تھے صاحب دس۔ پنڈال میں عجب شور بپا  تھا۔ میں نے پوچھا اصلی یا نقلی ؟اب مجمع چپ ہو گیا۔ میں نے پوچھا کیا کسی آدمی کے سر پر دس سر آپ لوگوں نے دیکھے ہیں ؟ مجمع میں خاموشی رہی لیکن ایک طرف سے آوازآئی جی نہیں سوامی جی ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ تو کیا کسی کی گردن پر دس سر ہو سکتے ہیں ؟ اب مجمع کی رائے منقسم ہو گئی کوئی بولا ہو بھی سکتے ہیں کسی نے کہا نہیں ہوسکتے۔

 میں نے پھر سوال کیا کہ کیا کسی ایک سر میں دس برائیاں یا دس دس خوبیاں  ہو سکتی ہیں ؟ اس بار پھر مجمع متفق ہو گیا اور ایک آواز ہو کر بولا بالکل ہو سکتی ہیں شریمان جی دس کیا سو بھی ہو سکتی ہیں۔ جی ہاں میں آپ سے متفق ہوں تو اب آپ لوگ مجھے یہ بتائیے کہ رامائن کے انوسار(مطابق) راون کے مستکش(دماغ) میں کون کون سی دس برائیاں  اور خوبیاں تھیں ، جس کی وجہ سے اسے دس سر والا کہا جاتا ہے ؟ اس سوال پر مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو کسی ایک برائی  یا ایک خوبی کا نام بتا سکے حالانکہ ان میں سے کئی ایسے تھے جنھوں نے رام لیلا دیکھتے دیکھتے اپنی عمرکا ایک طویل عرصہ گزار دیا تھا۔

میں نے کہا تو دوستو میں تمہیں وہ واقعات پھر ایک بار نہیں سناؤں گا جن کے بارے میں آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہو بلکہ میں آپ لوگوں کو راون کے دماغ  میں پائی جانے ان چھے خرابیوں کے بارے میں بتلاؤں گا جس کی وجہ سے میری اپنی بر اہمن جاتی کا اتنا مہان گیانی اور تپسوی  (عالم اور ریاضت کرنے والا)مہاراجہ تباہ و برباد ہو گیا۔ اس کی سونے کی لنکا خاک میں مل گئی تاکہ ہم اپنا جائزہ لیں اور اگر ان خرابیوں کو اپنے اندر پائیں تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ورنہ جو انجام راون کا ہوا ہے وہی انجام ہمارا بھی ہو گا۔

مجمع کے لئے یہ بالکل نئی بات تھی۔ حاضرین کی دلچسپی میں بے شمار اضافہ ہو چکا تھا۔ ایک جانب سے آواز آئی مہنت جی آپ دس سے چھے پر آ گئے باقی چار سروں میں کیا تھا اس کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ میں مسکرا کر بولا کیوں نہیں۔ راون کے چھے سروں میں جہاں چھے خرابیاں تھیں وہیں اس کے چار سروں میں چار بڑی خوبیاں بھی تھیں۔ میں ان چار خوبیوں کے بارے میں بھی تمہیں بتاؤں گا تاکہ ہم  لوگ اپنے اندران خوبیوں کو پروان چڑھا سکیں جنہوں نے اسے ایک ایسا وکرمی گیانی اور مہاپوروش بنادیا تھا جو بھولے شنکر کو کیلاش پربت سے اپنے کندھوں پر اٹھا کر لنکا نگری میں استھاپت(قائم ) کرنے کے لئے لے جا رہا تھا۔

دوستو میں اپنا پروچن آرمبھ(آغاز) کرنے سے پورو(قبل) معذرت کے ساتھ ایک بات آپ لوگوں کے گوش گزار کر دینا چاہتا ہوں۔ یاد رکھیے آپ سب  صرف کشتری جاتی کے ہونے کے کارن(سبب)  رام کے ونشج نہیں بن سکیں گے۔ اگر رام کا سچا بھکت بننا ہے تو وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی جن سے مریادا پرشوتم رام لیس تھے اور ان برائیوں سے اپنی انتر آتما کوپوِ تر( پاک) کرنا ہو گا جو راون کے اندر تھیں۔ کیا آپ لوگ میری اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں ؟ اس بار سب نے ایک زبان ہو کر میری تائید کی اور کہا جی ہاں ہم شت پتی شت (صد فیصد)سہمت  ہیں۔

تو ٹھیک ہے آج کے لئے یہی کافی ہے لیکن واپس جانے قبل یہ سنتے جائیں کے کل سے آئندہ دس دنوں تک کن موضوعات پر بیا ن ہو گا۔ سب سے پہلے دن کام واسنا(ہوائے نفس)، اس کے بعد کرودھ(غصہ)، پھرموہ(وہم یا فریب)، لوبھ (لالچ)، مدا(غرورو استکبار)، متسرا(حسد)، مانس(ذہن و دماغ)، بدھی(عقل و فہم)، چت ّ(عزم و ارادہ) اور آہنکار(خودی )۔ ہر روز ان میں سے کسی  ایک پر پہلے پروچن ہو گا پھرپرپشن کال( سوال و جواب کا وقفہ)۔ آپ لوگوں  میں سے جو کوئی بھی جو بھی سوال کرنا چاہتا ہو نسنکوچ(بلاتکلف) پوچھ سکتا۔ آپ لوگ جس قدر سوال کریں گے مجھے خوشی ہو گی اور اگر کوئی کچھ نہیں پوچھے گا تو کیا ہو گا آپ جانتے ہیں ؟ لوگ حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے میں نے ہنس کر جواب دیا تو میں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنے گاؤں مونگیر چلا جاؤں گا۔ ایک زبردست قہقہہ بلند ہوا۔ میں نے سبھا کی سماپتی(اختتام)کا اعلان کر دیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے بستر میں جاکر سو جائیں۔

مجمع چھٹنے لگا تھا اس بیچ ایک نوجوان منچ کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ مجھ سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اسے اوپر اپنے پاس بلا کر مصافحہ کیا اور کہا پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو؟ نوجوان نے کہا آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں ؟ میں نے جواب دیا بیٹے پیاس اپنے اظہار کے لئے زبان کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ آنکھوں سے چھلکتی ہے۔  اگر ایسا ہے تو اسے صرف آپ نے کیوں دیکھا اوروں نے کیوں نہیں ؟ اس کے لئے بصارت کافی نہیں ہے بلکہ بصیرت کی نگاہ چاہئے۔ میں نے کہا اپنا سوال کرو۔

نوجوان بولا گروجی رام کے بارے میں جاننے کی ضرورت سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن آج آپ نے راون کے بارے کیونکر جانا جائے ؟ سوال دلچسپ تھا۔ میں بولا بیٹے بات دراصل یہ ہے کہ ست یگ بیت گیا اور اپنے ساتھ رام، راون، سیتا، لچھمن سب کو لے گیا۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اس کل یگ میں ان سب کے بارے میں جاننے کی ضرورت و اہمیت کیا ہے ؟  جی نہیں میں نے نہیں سوچا میں تو صرف راون کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ نوجوان نے اعتراف کیا۔ اس بیچ مجھے اس کے سوال پر سوچنے کا موقع مل گیا تھا۔ میں بولا دیکھو بیٹے۔ نہ جانے میں اسے بیٹا کیوں کہہ رہا تھا جبکہ میں بھی اسی کی طرح نوجوان تھا اور ابھی میری شادی تک نہیں ہوئی تھی۔

سرسوتی نے سوال کیا پتا شری آپ نے اس نوجوان کو کیا  جواب دیا مجھے بتائیے۔ جی ہاں بیٹی میں نے اس سے کہا ہم سب اپنے جیون کال(عرصۂ حیات) میں دانستہ یا نادانستہ کبھی راون کا بھیس بدل کر کسی کی سیتا کا اغواء کر لیتے ہیں اور کبھی رام کے اوتار میں کسی کی لنکا کو جلاکر خاکستر کر دیتے ہیں۔  ہم یہ کیوں کرتے ہیں ؟ ایسا کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ یہ سب جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم رام کے ساتھ ساتھ راون کے بارے میں جانیں اور سچ تو یہ ہے کہ راون کے بغیر رام کتھا ادھوری ہے۔ اس نوجوان نے میرے چرنوں کو چھو کر کہا  دھنیاباد (شکریہ) گرو ور آپ مہان ہیں۔

کوسی کلاں میں موجود رام کے بھکتوں کے لئے میرا یہ نیاانداز ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے بھی ایسا پروچن کبھی نہیں دیا تھا۔ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کا میرا پہلا تجربہ نہایت کامیاب رہا تھا  اور اگلے دس دنوں تک اس کامیابی میں چار چاند لگتے رہے۔ گیارہویں دن میری  واپسی سے قبل ٹھاکر مہادیو سنگھ نے اپنی حویلی  میں میرے ساتھ  معززین شہر کی خاص دعوت کا اہتمام کیا اور مجھ سے پرارتھنا (گزارش)کی کہ اب میں واپس نہ جاؤں۔ ان کا کہنا تھا میں نے ان کے دل میں گھر کر لیا ہے اور میری واپسی کے بعد یہ من مندر سونا ہو جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کوسی کلاں گاؤں کے لوگوں نے مجھے جو آدر اورپریم (احترام و محبت) دیا تھا اس کا میں کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میرا دل بھی یہیں لگ گیا تھا پھر بھی میں بولا دیکھئے اس وشئے (معاملہ)میں کوئی فیصلہ میں اپنے والد کی آگیہ (رضامندی) کے بغیر نہیں کر سکتا۔

 ٹھاکر صاحب نے کہا آپ ان کی فکر نہ کریں ہم انہیں منالیں گے۔ میں بولا یقیناً میں اس سے آپ کو نہیں روک سکتا لیکن  یہ بتلادوں کہ وہ کیا اعتراض کریں گے۔ ٹھاکر صاحب بولے جی ہاں اگر آپ یہ بتلادیں تو اچھا ہے تاکہ ہم اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیں۔ بہت خوب میں نے کہا وہ کہیں گے سال بھر تو پروچن ہوتے نہیں ہیں۔  اب جس گاؤں میں مندر نہ ہو اس میں براہمن کیا کرے گا ؟

 اس وقت کوسی کلاں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا بور کلاں نامی کسی بستی کا وجود نہیں تھا ایکبے نام سی جھگی جھونپڑیوں کی بستی  ضرورتھی۔ کوسی کلاں میں کوئی مندر نہیں تھا۔ یہاں کے باشندوں نے اپنے گھروں میں ذاتی پوجا گھر بنا رکھے تھے کبھی کبھارآس پاس کے گاؤں میں پوجا پاٹ کے لئے نکل جایا کرتے تھے۔ میرے سوال کا جواب دینے کے لئے ٹھاکر مہادیو اٹھے اور انہوں نے کہا ہمارے گاؤں کا مسئلہ مرغی اور انڈے کا ہے۔ مندر اس لئے نہیں ہے کہ براہمن نہیں ہے اور براہمن اس لئے نہیں آتا کہ مندر نہیں ہے۔ تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ ابھی یہاں سے اٹھ کر جاتے ہوئے سوامی جگت پرشاد  کے ہاتھوں مندر کا سنگِ بنیاد رکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں آپ کے والد کو سمجھانے میں  مدد ملے گی۔ ہم کہیں گے کہ سوامی جگت پرشاد کے بغیر ہمارے گاؤں کا مندر ویران  ہے۔ اب آپ انہیں آگیہ (اجازت )دیں تاکہ وہ اس مندر کو آباد کرسکیں۔

یہ منصوبہ  کامیاب رہا اوراس طرح میں مونگیر کو خیرباد کہہ کر کوسی کلاں آ گیا لیکن روانگی سے قبل میرے والد نے  ساوتری دیوی سے میرا وواہ(نکاح) اس خوف سے کر دیا کہ کہیں میں کسی راجپوت لڑکی  سے شادی نہ کر لوں۔ تو بیٹی سرسوتی اب تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ یہ اکلوتا براہمن  پریوار کوسی کلاں میں کیسے آیا؟ اب تم یہ کرو کہ اپنے بھولے بھائی کو جگاؤ اور اس سے کہو کہ اندر جاکر بستر پر سو جائے۔ نہ جانے کب سے یہاں سر جھکائے  سو رہا ہے۔ پتا شری مسکرا کر وہاں سے چل دئیے اور میں بھولا بھگت کو جگا کر اپنے ساتھ  ماتا جی کے پاس لے گئی۔

سرجوما ضی کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس نے اپنے کندھوں پر دباؤ محسوس کیا اور چونک دیکھا تو اس کا بھائی بھولا بھگت کھڑا مسکرا رہا تھا۔ وہ بولا میری اچھی بہنا یہاں باہر پیڑ کے نیچے بیٹھی کیا کر رہی ہے اورآج اچانک  ہمیں کیسے یاد کیا؟ مجھے پتہ ہوتا تو تمہیں بھی اپنے ساتھ شرادھ میں لے جاتا۔ سرجو بولی بھیا تم تو جانتے ہو کہ ہم بور کلاں میں نہیں جاتے۔ اوہو میں تو بھول ہی گیا تھا کہ میری بہن اب سرسوتی دیوی نہیں بلکہ ٹھاکرائن سرجو ماسی ہیں خیر کوئی بات نہیں اندر چلو جیجمان (میزبان) نے بہت کچھ خوردونوش کا سامان اپنے نوکر کے ہاتھ بھجوا دیا ہے۔ آج  ہمارے گھر میں تو چولہا جلا نہیں ہے اور اگلے دو دن بھی صرف اس کو گرمانے کے لئے جلے گا اس لئے آؤ اور اسی میں سے کچھ کھا پی لو۔  وشواس کرو بڑا سوادشٹ بھوجن (ذائقہ دار پکوان)ہے۔ بھولا کی بات سرجوٹال نہ سکی اور اندر آئی تو دیکھابھابی پہلے ہی کھانا پروس  چکی ہے۔

٭٭

بھولا بھگت

سرجو کھانا کھا رہی تھی اور بھولا بھگت اس سے کہہ رہا تھا کہ نہ جانے کس بے وقوف نے یہ افواہ اڑا دی کہ براہمن کو جتنازیادہ کھلایا جائے اتنا ہی زیادہ پونیہ (ثواب )ملتا ہے۔ سرجو نے ہنس کر کہا کسی براہمن ہی نے اڑائی ہو گی۔ کیوں راجپوت نے کیوں نہیں ؟ آج کل آپ براہمنوں کا بہت مذاق اڑانے لگی ہو دیدی۔ بھولا کی بیوی سنگیتا نے کہا۔

سرجو مدافعت میں آ گئی اس نے کہا نہیں بہن ایسی بات نہیں۔ اب دیکھو نا اس افواہ سے فائدہ کس کا ہے ؟ براہمنوں کا۔ خوب اچھاکھان پان بڑی مقدار میں انہیں کو حاصل ہوتا ہے تو بھلا  ایسی خبر کوئی اور کیوں اڑا سکتا ہے ؟ لیکن پونیہ تو انہیں نہیں ملتا کسی اور کو ملتا ہے سنگیتا نے کہا۔ سرجو بولی ایسا لگتا ہے کہ تم نے اس افواہ پر وشواس کر لیا ہے جب کہ میرا بھولا بھائی اسے سچ نہیں مانتا۔ سنگیتا نے ہنس کر کہا سرجو بھابی آپ نے ٹھاکروں کی مدافعت میں بات کو گھما دیا۔ سرجو بولی جی نہیں ایسی بات نہیں اب تم ہی بتاؤ کہ یہ دھارمک شردھا کا معاملہ ہے یا نہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ صدیوں سے بھارت ورش میں دھارمک مارگ درشن(مذہبی رہنمائی) براہمنوں کے ذمہ رہی ہے۔ عام لوگ مذہبی  امور میں براہمنوں ہی سے پرامرش(مشورہ) کرتے ہیں اور انہیں کے نرنیہ پر پر وشواس (فیصلے پراعتماد) بھی کرتے ہیں۔

سنگیتا سمجھ گئی سرجو سے بحث کرنا کارِ دارد ہے اس لئے ہار مان کر بولی آپ کی مؤخر الذکر دونوں باتیں درست ہیں لیکن فائدے والی گلے سے نہیں اترتی۔ اس مفت  میں ملنے والے  بھوجن سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ بسیار خوری کے نتیجے میں توند نکل آتی ہے اور انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔ سرجو نے پھر منطق لڑا دی اور بولی اری بہن براہمن کو پوجا پاٹ کے علاوہ اور کرنا بھی کیا  ہوتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس شبھ کاریہ(کام) میں توند کسی طورپر رکاوٹ بنتی  ہے۔

اپنی بہن اور بیوی کی بے مطلب گفتگو سے بیزار ہو کر بھولا نے کہا سرجو اب جلدی جلدی کھانا کھاؤ مجھے نیند آ رہی ہے۔ دیکھا آپ نے یہ ایک اور نقصان ہے کہ اس قدر کھا لینے کے بعد نیند کے سوا کچھ اور نہیں سوجھتا۔ سنگیتا نے پھر طنز کیا۔ سرجو بھولا کو مخاطب کر کے بولی ہاں تو ٹھیک  ہے ، تم جاکر سو جاؤ تمہیں کون روکتا ہے ؟ہم دونوں آپس میں باتیں کرتی رہیں گی۔ اس سے تمہیں کیا سروکار۔ سنگیتا نے کہا دیدی بات دراصل یہ ہے کہ مجھے بھی نیند آ رہی ہے آخر میں بھی تو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سرجو بولی جی ہاں جانتی ہوں تم بھی چت پاون براہمن ہو جس کی ۱۴ نسلوں میں کوئی ملاوٹ نہیں پائی جاتی۔ ویسے سرجو میں نے تمہارے لئے بھی بستر لگا دیا ہے تم بھی فی الحال سو جاؤ جب دو چار گھنٹے بعد اٹھیں گے تو بات ہو گی۔ شبھ راتری (شب بخیر)۔ بھولا بولا۔ کیا ! شبھ راتری ابھی تو دوپہر ہے ؟ سرجو نے حیرت سے کہا۔ جی نہیں ان کا تو یہ نیم(دستور)ہے کہ جب بھی سونا ہو شبھ راتری پھر صبح ہو یا شام اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سنگیتا نے بھولا پر ایک اور طنز کا تیر چھوڑا۔ اچھا بابا شبھ راتری اب تم دونوں گھوڑے بیچ کر سوجاؤ میں تو کھانے سے فارغ ہو چکی ہوں۔

سرجوکا بستراسی کمرے میں لگا ہوا تھا جو کسی زمانے میں اس کے لئے مختص ہوا کرتا تھا  لیکن جب وہ  حویلی میں منتقل ہو گئی تو یہ خالی ہو گیا اور اب اسے بھولا بھگت کے بیٹے راکیش کا کمرہ بنا دیا گیا تھا۔ راکیش  فی الحال  پڑھائی کی خاطر شہر گیا ہوا تھا۔

سرجو کی آنکھوں میں نیند کانام و نشان نہیں تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو پھر ایک بار اپنے ماضی کے نہاں خانے میں کھو گئی۔ اپنے والد کی موت کا منظر اس کے سامنے آ گیا۔ وہ نازک لمحہ کا جب اس کے اپنے اور بھائی بھولا کے سرسے اچانک برگد کا وہ عظیم سایہ اٹھ گیا جس نے بچپن سے انہیں اپنی پناہ میں لے رکھا تھا  اوراس طرح دونوں بھائی بہن  اچانک کھلی دھوپ میں آ گئے۔ پنڈت جی کی شدید خواہش تھی کہ ان کے جیتے جی دونوں بچوں کی شادی ہو جائے اور وہ ٹھکانے لگ جائیں لیکن اس خواہش میں ان کی اپنی پسند رخنہ بن گئی۔ سرسوتی انہیں اس قدر اچھی لگتی تھی کہ اس کے لئے کوئی لڑکا انہیں جچتا ہی نہیں تھا اس لئے ہر رشتہ کووہ ٹھکرا دیتے تھے۔ بھولا انہیں ایسا بے وقوف لگتا تھا کہ ہر لڑکی انہیں اس سے بہتر لگتی اور وہ سوچتے کہ اگر ودھو (بیوی) ور ( شوہر ) سے بہتر ہو تو آخر ان میں نباہ کیونکر ہو سکے گا؟

پنڈت جی کوپورن وشواس (پورا یقین) تھا کہ گاؤں والے ان کے بعد بھولا بھگت کو کبھی بھی مندر کا پروہت نہیں بنائیں گے لیکن گاؤں والوں کا خیال ان سے مختلف تھا حالانکہ وہ جانتے تھے بھولا بھگت کی شخصیت پنڈت جگت پرشاد سے یکسر مختلف ہے۔ علم و معرفت کے جہان میں وہ ان کی پائے خاک کے برابر بھی نہیں لیکن اس کا سوبھاؤ (مزاج)سب کو بہت بھاتا تھا۔ پنڈت بڑے پر وقار انسان تھے وہ لوگوں سے بہت کم بات کرتے تھے اور لوگ بھی ان سے بس کام کی بات کر کے اجازت لے لیتے تھے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے میں صرف کرتے تھے۔ اسی لئے ان کے پروچن میں علم و عرفان کے ہیرے موتی جڑے ہوتے تھے جبکہ بھولا بھگت کو دھیان گیان سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ  ہر کس و ناکس سے  دل کھول ملتا تھا اور ان سے جی بھر کے باتیں کرتا  تھا۔

 درد مندی تو صاحب بھولا بھگت کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تو کوئی بیمار ہویا کسی کو یہاں کوئی درگھٹنا(حادثہ) ہو جائے سب سے پہلے پہنچنے والوں میں یقیناً بھولا بھگت  شامل ہوتا تھا۔ رشتہ داروں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر وہ لوگوں کی خدمت کرتا۔ شادی بیاہ کے موقع پر کام میں ایسے جٹ جاتا گویا اس کے کسی سگے سمبندھی(اعزہ و اقارب) کی تقریب ہے۔ اس کا کہنا یہ تھا چونکہ یہاں اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اس لئے ساراگاؤں ہی اس کا پریوارہے۔ بھید بھاؤ اونچ نیچ تو جیسے اس کو چھو کر نہیں گئے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہنس بول لینا۔ سب کے ساتھ مل بیٹھ کر کھا پی لینا اس کی عادتِ ثانیہ تھی۔ براہمنوں کے نزدیک اس نے اپنا دھرم بھرشٹ کر لیا تھا لیکن کوسی کلاں اور بور کلاں کے لوگ اس میں اپنا ایک ہمدرد اور بہی خواہ دیکھتے تھے اس لئے نسنکوچ (بلاتوقف) انہوں نے بھولا بھگت کو مندر کا مہا مہنت گھوشت(اعلان) کر دیا۔

بھولا تو خیر بھولا تھا مگر سرسوتی بالکل اپنے باپ کی فوٹو کاپی تھی۔ وہی مزاج وہی انداز، وہی آچاروہی وچار۔ سب کچھ وہی اسی لئے اسے بھی کوئی رشتہ جلد پسند نہ آتا تھا۔ دوچار جو اسے پسند آئے تو لڑکے والوں کی نامعقول شرائط کی بناء پرسرجو نے انہیں ٹھکرا دیا۔ اس  زمانے میں لڑکیوں کا بیاہ بہت کم عمری میں ہو جایا کرتا تھا اس لئے  نا نکر میں سرجو کی شادی کی عمر  نکل سی گئی تھی۔ بھولا بھگت کے لئے اس بیچ جو پیغامات آئے تو اس نے یہ کہہ کر انہیں التواء  میں ڈال دیا کہ بڑی بہن سے پہلے خود بیاہ رچا لینے کو وہ مہا پاپ سمجھتا ہے۔

اس بیچ کوسی کلاں گاؤں میں ایکبھیانک حادثہ رونما ہوا۔ بڑے ٹھاکر سکھدیو  سنگھ کے یہاں طویل انتظار کے بعد ایک بچے کا جنم ہوا۔ سارا گاؤں انہیں مبارکباد دینے کی خاطر حویلی پہنچ گیا۔ بھولا بھگت بھی ان میں پیش پیش تھا اور وہ اپنی بہن سرسوتی کے ساتھ حویلی گیا تھا تاکہ زنانے میں سرسوتی ان کے پریوار کی نمائندگی کرسکے۔ بڑے ٹھاکر کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات جو تھے  لیکن اس  سے پہلے کہ بچے کی پیدائش کا جشن شروع ہوتا اچانک غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا اور چہار جانب  صفِ ماتم  بچھ گئی۔ بڑے ٹھاکر کی بیوی نے بچہ کو جنم دینے کے فوراً  بعد دم توڑ دیا تھا۔  یہ اندوہناک  خبر سب  سے پہلے سرسوتی نے اپنے بھائی بھولا بھگت کو دی۔ اس لئے کہ دیگر عورتوں میں سے کوئی بڑے ٹھاکر کو یہ منحوس اطلاع دینے کی ہمت نہیں جٹا پارہی تھی۔  بھولا بھگت نے جب یہ سنا تو اس کا دل بھر آیا۔

بھولا بھگت نے ٹھاکر صاحب کو کسی ضروری کام کے لئے دوسرے کمرے میں آنے کی گزارش کی۔ ٹھاکر صاحب نے سوچا کوئی مذہبی کرم کانڈ (رسم و رواج) کا معاملہ ہو گالیکن جب وہ وہاں تنہائی میں آ گئے تو اس نے انہیں یہ بتا یا کہ آپ کا بچہ تو ایشور کی کرپا سے سوستھ (صحتمند) ہے مگر دھرم پتنی کا سورگ باس ہو چکا ہے اور یہ بھی ایشور کی اِچھاّ(مرضی) ہے جس کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا ہے ایسے میں ہمارے لئے صبر و ضبط کے ساتھ نتمستک(سرِ تسلیم خم) ہو جا نے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ ویسے میں آپ کے غم پوری طرح شریک ہوں۔ جب بھولا بھگت نے یہ جملہ کہا تو اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے۔

بڑے ٹھاکر آ ہنی اعصاب کے مالک تھے۔ کسی نے آج تک ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر اس اندوہناک خبر سے ان کے پتھر دل  میں بھی دراڑ پڑ گئی اور آنسوؤں کا  چشمہ جاری ہو گیا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا برسوں کی ساکھ کو محفوظ رکھنا ایک مشکل کام تھا لیکن اپنے دل پرقابو رکھنا اس سے بڑی مشکل تھی۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا بڑے ٹھاکر کے لئے دشوار گزار مرحلہ تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ بھولا بھگت نے انہیں پانی کا گلاس پیش کیا اور خود سر جھکا کر چپ چاپ بیٹھ گیا۔

بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ نے کچھ دیر میں اپنے آپ کو سمیٹا اور بھولا بھگت سے بولے بیٹا تم سچ کہتے ہو۔ ایشور کے آگے ہمارا کوئی بس نہیں چلتا اور یہ بھی صحیح ہے کہ جو ہونا تھا ہو چکا اب ہم کال چکر کو پیچھے کی جانب نہیں گھما سکتے لیکن میں آگے بھی اندھیارا ہی اندھیارا دیکھتا ہوں۔ میری زندگی تو جیسے تیسے گزر چکی ہے۔ میری دھرم پتنی رکمنی کے بغیر اندھیرا کیااجالاکیا سب میرے لئے سمان ہے لیکن یہ نوزائیدہ بچہ جس نے سنسار میں ابھی اپنی آنکھیں کھولی ہیں۔ میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں جس کا نام خوداس کی مرحوم ماں نے سچدیو تجویز سے کیا تھا۔ اس بدقسمت کی زندگی میں پیدا ہوتے ہی گھٹا ٹوپ تاریکی چھا گئی۔  میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب یہ ننھی سی کونپل کس طرح پنپے گی۔ میں تو کامیابی کی منزل پر آکرناکام ہو گیا بھولا! ناکام ہو گیا۔ یہ کہتے ہوئے بڑے ٹھاکر کی آواز رندھ گئی۔

بھولا نے کہا ٹھاکر صاحب آپ کے والد صاحب ٹھاکر مہادیو سنگھ اورخود آپ کے ہمارے خاندان پر اس قدر احسانات ہیں کہ ہم لوگ سات جنم میں بھی اسے چکا نہیں سکتے۔ میرے ذہن ایک تجویز ہے اگر آپ کو قابلِ قبول ہو تو بتلائیے ورنہ بھول جائیے۔ ٹھاکر صاحب نے اشارے سے کہنے کی اجازت دی۔ بھولا بولا میری بہن سرسوتی کو تو آپ بچپن سے جانتے ہیں۔ وہ آپ کی گود میں کھیلی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اس کے بھاگیہ  میں وواہ کا یوگ (قسمت میں شادی)نہیں ہے۔ اب تو وہ اس عمر میں پہنچ چکی ہے کہ اس کے لئے رشتے بھی آنا بند ہو گئے ہیں۔ اگر آپ  اجازت دیں تو میں اس سے پوچھوں۔ اگر وہ حویلی میں اس بچہ کی دائی ماں بن کر آ جائے تو مجھے لگتا ہے کہ ماں کی کمی کو کسی نہ کسی حد تک پورا کر دے گی۔ ٹھاکر صاحب بھولا بھگت کی اس تجویز کو سن کرسنّ ر ہ گئے۔ انہیں لگا یہ انسان ہے یا دیوتا۔ ایسی قربانی تو دیولوک میں بھی نہیں دی جاتی۔ وہ بولے بیٹے میں تمہارے اس احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکوں گا۔ بھولا نے کہاٹھاکر صاحب ویسے اگر آپ نے ہمیں اس سعادت سے محروم رکھا تب بھی  ہم شکایت تو نہیں کرسکتے لیکن ہمیں تاعمر اس کاملال  ضرور رہے گا۔

بڑے ٹھاکر پھر ایک بار گہری سوچ میں ڈوب گئے اور بولے دیکھو بھولا یہ معاملہ تمہارا نہیں بلکہ سرسوتی کا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہاس بارے میں جلد بازی کی جائے اور وہ تمہارے یا میرے دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ کرے اس لئے میں میریدو شرائط ہیں۔ بھولا نے پوچھا وہ کیا؟  رکمنی دیوی کی آخری رسومات کی تکمیل تک اس پر گفتگو نہ ہو  نیز میں یہ پسند کروں گا کہ تجویز میری موجودگی میں رکھی جائے تاکہ اگر اسے کوئی ہچکچاہٹ ہو تو اسے محسو س کر کے میں خود منع کر دوں۔ میں کسی پر بار نہیں  بننا چاہتا۔ بھولا نے دونوں شرائط قبول کر لیں۔

 رکمنی دیوی کے انتم سنسکارکی تکمیل کے بعد منصوبہ بند طریقہ پربھولا بھگت بنا بتائے سرسوتی کو اپنے ساتھ لے کر  سچدیو کو دیکھنے کے بہانے حویلی میں آیا۔ بغل والے کمرے میں بڑے ٹھاکر اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ سرسوتی کو دیکھ سکتے تھے لیکن سرسوتی کو اس کا علم نہیں تھا۔ باتوں باتوں میں بھولا بھگت نے سرسوتی کے سامنے سچدیو کی پرورش کا مسئلہ رکھا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس بارے میں کیا سوچتی ہے ؟

سرسوتی کچھ دیر تک اس خوبصورت بچہ کو دیکھتی رہی اور پھر بولی کیا یہ سمبھو(ممکن)ہے کہ ٹھاکر صاحب اس بچے کو ہمارے حوالے کر دیں اور ہم اپنے گھر پر اس کی پرورش کریں ؟بھولا نے کہا کہ اگر یہ کوئی عام بچہ ہوتا تو اسے انا تھالیہ (یتیم خانہ)  میں بھی  بھیجا جا سکتا تھا  لیکن یہ بڑے ٹھاکر کی اکلوتی سنتان(اولاد) ہے۔ اسے آگے چل کر کوسی کلاں کا ٹھاکر بننا ہے اس لئے اس کی تعلیم و تربیت کا حویلی میں ہونا ضروری ہے۔ یہ یہاں سے باہر نہیں جا سکتا۔

سرسوتی بولی  اگر ایسا ہے تو ہم لوگ یہاں آ جاتے ہیں۔ بھولا بھگت نے استفسار کیا۔ ہم لوگ یعنی میں اور تم؟لیکن  اس میں دو مسائل ہیں  ایک تو مندر کا کام کاج یہاں رہ کر نہیں ہوسکتا دوسرے میرا اس بچہ کی پرورش میں کوئی یوگ دان (حصہ) نہیں ہے۔ سرسوتی بولی یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا میرا تنہا یہاں اس حویلی میں آ جانا اوچت(مناسب)ہے۔ بھولا نے کہا اوچت اور انوچت کا پرشن(مناب یا غیر مناسب کا سوال) بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ پہلا سوال ہے کہ کیا یہ ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تو کیا یہ سمبھو(ممکن) ہے ؟

سرسوتی نے بلاتوقف جواب دیامیرے خیال میں ان دونوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے جو تم جانتے ہو  لیکن کیا بڑے ٹھاکراورحویلی والوں کے لئے یہ بات قابلِ قبول ہو گی ؟ بڑے ٹھاکر نے جب سرسوتی کے منہ سے یہ جملہ سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ سوچنے لگے کہ کیا کل یگ میں بھی ایسی مہان آتمائیں (سعید روحیں ) موجود ہیں جو دوسروں کی خوشی کے لئے اپنا جیون نچھاور کرنے سے پس و پیش نہیں کرتیں۔ ان دل چاہا کہ کمرے میں آ کرسرسوتی کے قدموں گر جائیں اور اس سے کہیں تو ناری نہیں دیوی ہے دیوی لیکن ایسا کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔

بھولا بھگت نے کہا میں بڑے ٹھاکر سے پوچھوں گا۔ وہ تمہیں اپنی بیٹی مانتے ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ سرسوتی دیوی نہ جانے کیسے سرجو ماسی بن گئی۔ اس نے ٹھاکر  سچدیو سنگھ کو ممتا کا وہ پیار و دلار دیا کہ اس کے ہوتے سچدیو  نے ماں کی کمی کبھی  محسوس نہیں کی۔

  ٭٭

 جانکی داس

وید جی نے رنجیت کی آنکھوں  پر بندھی پٹی اتاری تو اسے پھر ایک بار سرجو کی جگہ شیکھر نظر آنے لگا اس لئے کہ اب  بلدیو کاسراغ لگانے کے لئے کوئی اور سرا موجود نہیں تھا۔ شیکھر کے خلاف سب سے بڑا ثبوت اس کا اسی روزسے غائب ہو جانا تھا۔ شیکھر کہاں اور کیوں روپوش تھا اس کا پتہ لگائے بغیر بلدیو تک رسائی ناممکن تھی اس لئے رنجیت پھر ایک بار شیکھر کے پیچھے پڑ گیا۔ اس نے سوچا شیکھر کہاں ہے اس کا سراغ  لگانے کے لئے ضروری ہے کہ یہ پتہ چلا جایا کہ وہ آیا کہاں سے تھا؟ ایسا کرنے کے نتیجہ میں شیکھر کے ماضی کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوں گی اس کی مدد سے  روپوشی کی وجہ اور مقام دونوں کا راز کھل سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ ابتدا کہاں سے کی جائے ؟

 کوسی کلاں تھانے سے متصل گاؤں کا اسکول تھا۔ اسے حیرت  اس بات پرتھی کہ شیکھر کی رہائش کا پتہ لگانے میں تو اس نے کافی پھرتی دکھائی لیکن اس کے اسکول کا رخ کرنے زحمت کبھی بھی گوارہ نہیں کی۔ رنجیت جب  اسکول میں پہنچا  سب سے پہلے اس کی ملاقات  صدرِ مدرس ٹھاکر جانکی داس سے ہوئی۔ وہ پرانی عمر کے آدمی تھے جن کا تعلق کوسی کلاں گاؤں سے تھا۔ حالانکہ تعلیم کے معاملہ وہ سارے اساتذہ سے کم تعلیم یافتہ تھے مگر یہ آج کی صورتحال تھی۔ جب یہ اسکول کھلا تھا اور انہوں نے یہاں درس و تدریس کی ذمہ داری سنبھالی اس وقت وہ نوجوان اور سب سے اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ استاد تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ان کے ساتھی ایک ایک کر کے وظیفہ یافتہ ہوتے چلے گئے اور نئے آنے والوں میں تمام ہی ان سے زیادہ تعلیم یافتہ نکلتے چلے گئے۔ لیکن چونکہ تجربہ ان سب کا جانکی داس سے کم تھا اس لئے پرنسپل کی کرسی پر وہی فائز رہے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے  انتظار میں دن کاٹ رہے تھے۔ ان کی ساری دلچسپی انتظامی امور تک محدود ہو گئی تھی پڑھنے پڑھانے کا کام دیگر اساتذہ کے سر منڈھ دیا گیا تھا۔

 جانکی داس نے جب رنجیت کو اپنے دفتر میں آتے دیکھا تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ بولے آئیے تھانیدار صاحب بھلے پدھارے۔ آج ہمارے اسکول کے بھاگ کھلے جو آپ نے یہاں قدم رنجا فرمایا کہیے آپ کی کیا خدمت کی جائے ؟رنجیت نے کہا میں دراصل شیکھر سمن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خاطر حاضر ہوا تھا اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو ۰۰۰۰۰۰۰

جانکی داس نے درمیان سے جملہ اچک لیا اور بولے اماں جناب زحمت کیسی؟  حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے بہت دیر کر دی۔ جب سے بلدیو سنگھ غائب ہوا ہے میں توقع کر رہا تھا کہ آپ ہمارے یہاں آئیں گے۔ وہ ہماری اسکول کا سب ہونہار طالب علم تھا۔ اس کے بارے میں پتہ چلائیں گے کہ وہ کیا کرتا تھا ؟ کن کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا ؟ کس سے اس کی دوستی و  دشمنی تھی وغیرہ  وغیرہ لیکن آپ نے تو ہمیں کسی قابل ہی نہیں سمجھا۔

رنجیت سمجھ گیا یہ نہایت باتونی آدمی ہے اور اس سے کسی کام کی بات اگلوانا  جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ سامنے والے کی بات سنے بغیر اپنی ہی ہانکے جاتا  ہے۔ رنجیت شیکھر کے بارے پوچھ رہا تھا اور جانکی داس نے بلدیو کا راگ چھیڑ دیا تھا۔ اب بلدیو کے بارے میں یہ ساری غیر ضروری معلومات اس کے کس کام کی تھی بھلا؟ پھر بھی اس نے ازراہِ تکلف کہا جی ہاں میں دراصل دیگر خطوط پر کام کر رہا تھا بلکہ ہنوز کام کر رہا ہوں۔ اس لئے مجھے فی الحال ماسٹر شیکھر سمن کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔

 ماسٹر شیکھر!!! میں اس کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں۔ اس جیسا محنتی اور ملنسار استاد میں نے اپنی طویل تعلیمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ ہر کسی سے ہنس کرخندہ پیشانی کے ساتھ  ملتا تھا۔ کیا طلباء اور کیا اساتذہ ہر کوئی اس کا دلدادہ تھا۔ طلباء کے والدین جب ایک بار اس سے مل لیتے تو ہمیں بھول ہی جاتے۔ مجھے افسوس ہے کہ بدمعاشوں نے بلدیو کے ساتھ اس بیچارے کو بھی اغوا کر لیا۔ میری سمجھ میں بلدیو کے اغوا کئے جانے وجہ تو آتی ہے لیکن شیکھر کے مغوی ہونے کا کوئی کارن (سبب) نہیں آتا  اس لئے کہ اس جیسے مفلوک الحال  سجنّ پوروش کو یرغمال بنا کر بھلا کوئی کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے ؟

رنجیت نے جب یہ سنا تو اس کی نگاہ ایک  اورزاویہ کی جانب گئی۔ وہ تو سمجھ رہا   تھا کہ شیکھر اغوا کرنے والے گروہ کا سرغنہ ہے جبکہ یہ احمق آدمی اسے بھی مغوی بتلا رہا تھا۔ ازراہِ دلچسپی رنجیت نے پوچھا کہ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ شیکھر کو بھی   اغوا کر لیا گیا ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شیکھر نے ہی بلدیو کو اغوا کیا ہو؟

کیسی باتیں کرتے ہیں صاحب۔ ایساا نرتھ وہی بک سکتا جس نے شیکھر کو کبھی دیکھا نہ ہو بلکہ اس سے کبھی ملا نہ ہو۔ شیکھر تو دیومانس ( فرشتہ صفت انسان) ہے۔ اور بلدیو تو اسی کی کلاس کا طالبِ  علم تھا۔ وہ اس سے اولاد جیسی محبت کرتا تھا۔ میری ناقص رائے تو یہ کہ ممکن ہے شیکھر نے اغوا کرنے والوں کو دیکھ لیا ہو اوروہ ان لوگوں  میں سے نہیں ہے جو اس طرح کی صورتحال میں خاموش تماشائی بنارہے۔ رنجیت کی دلچسپی بتدریج بڑھتی جا رہی تھی اس نے پوچھا۔ اچھا تو آپ کے خیال میں بفرضِ محال اگر شیکھر نے انہیں دیکھ لیا ہوتا تو وہ کیا کرتا ؟ رنجیت جانکی داس کے جال میں پھنستا جا رہا تھا۔

کیا کرتا ؟ ارے جناب وہ اسے چھڑانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتا  اور میں تو سمجھتا ہوں کہ یہی ہوا ہو گا۔ ان ظالموں نے ایک عینی شاہد کا کانٹا نکالنے کے لئے ممکن ہے شیکھر کو بھی اغوا کر لیا ہو۔ جانکی داس نے بات کو گھما پھرا کر پھر وہیں پہنچا دیا۔ رنجیت نے اپنی افسری کے لہجے میں ہنس کر کہا  جناب پرنسپل صاحب آپ بہت بھولے بھالے انسان ہیں آپ کو نہیں پتہ تھا  اغوا کار ہنسی کھیل کے لئے یہ خطرناک کھیل نہیں کھیلتے۔ وہ لوگ اسی پر ہاتھ ڈالتے ہیں جس سے ان کو کسی بڑے فائدے کی توقع ہو۔

جانکی داس کو رنجیت کا انداز اچھا نہیں لگا وہ بگڑ کربولے تھانیدار صاحب کیا آپ ہمیں اس بات کا درس دینے کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں کہ اغواء کی کارروائی کیوں کی جاتی؟ اور اس کے پسِ پشت اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں ؟  اگر ایسا ہے تو میں آپ کو بتلادوں کہ مجھے نہ ان سوالات میں دلچسپی ہے اور نہ میرے پاس اس کے لئے وقت ہے جائیے اپنا کام کیجئے۔

رنجیت کو احساس ہوا کہ بات بگڑ رہی ہے وہ بولا پرنسپل صاحب اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں میں تو صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ کے خیال میں جن لوگوں نے بلدیو کو یرغمال بنا رکھا ہے انہوں نے ابھی تک حویلی سے  تاوان کی خاطر  رابطہ کیوں نہیں کیا ؟

جانکی داس اپنے جانے پہچانے لب و لہجے میں لوٹ آیا اور بولا کیا بتاؤں سرکار، اس سوال پر جب بھی میں غور کرتا ہوں تو عجیب عجیب باتیں میرے من میں آنے لگتی ہیں اس لئے میں ان سب کو اپنے دماغ سے جھٹک کر سوچنا ہی بند کر دیتا ہوں۔ جانکی داس نے رنجیت کو تحیرزدہ کر کے رنجیت ا پنے دام  میں گرفتار کر لیا تھا۔

رنجیت بولا آپ مجھے بتلائیے کہ آپ کے من میں کیا وچار آتے ہیں ہو سکتا ان سے مجھے اس کیس کو سلجھانے مدد ملے۔ جانکی داس نے گھگیا کر کہا دیکھئے مجھے ان باتوں پر وشواس نہیں ہے اس لئے آپ انہیں اپنی حد تک رکھئے گا۔ کسی کو میرے نام سے یہ مت بتا دیجئے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا کیا سمجھے ؟

رنجیت کڑک کربولا جانکی بابو آپ تھانیدار کو دھمکی دے رہے ہیں۔ ہاں ہاں میں تھانیدار کو دھمکی دے سکتا ہوں۔ آپ جیسے کئی تھانیدار میرے سامنے اس گاؤں میں  آکر جا چکے ہیں میں یہاں کا ہیڈ ماسٹر ہوں مجھے قومی اعزاز سے خود راشٹرپتی نے نوازہ ہے آپ نے مجھے کیا سمجھتے ہیں ، میں آپکی دھونس میں نہیں آنے کا، کیا سمجھے ؟

رنجیت نے سوچا یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کا سا معاملہ ہے۔ اس عجیب و غریب بوڑھے کا نام جانکی داس کے بجائے سنکی داس ہونا چاہئے تھا۔ اس نے کہا جانکی داس جی آپ مجھے اپنے من میں آنے  والے وچاروں کے بارے میں بتلا رہے تھے لیکن بات کہیں اور نکل گئی اور میں بھلا  آپ کی باتوں کواِدھر اُدھر کیوں پھیلانے لگا اس سے توخود میرا کام مشکل ہو جائے گا۔ جانکی داس  تائید کرتے ہوئے بولے جی ہاں یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ اب جاکر آپ نے پہلی سمجھداری والی بات کی۔

 آپ وچار بتلارہے  تھے۔ رنجیت نے یاددلایا۔ جی ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا۔ اب کی بار جانکی داس نے رازداری کے انداز میں کہا۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ اغوا کے دوران ہا تھا پائی ہو گئی ہو گی۔ رنجیت بولا لیکن اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ اغوا جیسی سنگین واردات کے آگے ہا تھا پائی کی کیا اہمیت ؟  جانکی داس نے کہا ارے صاحب آپ تو تھانیدار ہیں۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہا تھا پائی آگے چل کر قتل میں بھی بدل سکتی ہے۔

قتل کا ذکر سنتے ہی رنجیت چوکنا ہو گیا۔ وہ بولا آپ کس کے قتل کی بات کر رہے ہیں ؟ارے بھئی تھانیدار صاحب آپ ہی کہیے اس طرح کی صورتحال میں کسی کا بھی قتل ہو سکتا  ہے آپ کا، میرا، شیکھر کا یا بلدیو کا۔ کسی کی بھی  ہتیا سمبھو ہے۔ رنجیت نے حیرت و استعجاب سے پوچھا میرے اور آپ کے قتل کا  سوال کیسے پیدا  ہو گیا جانکی داس جی ؟ کیوں نہیں اگر ہم دونوں میں ایک وہاں موجود ہوتا اور بلدیو کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھ کر شور مچا دیتا تو کیا اغوا کار ہمیں زندہ چھوڑدیتے۔ قتل نہیں کرتے تو اور کیا کرتے ؟ آپ ہی بتائیے۔

جانکی داس کی بات میں دم تھا۔ اس کی منطق نے رنجیت کو گھن چکر بنا دیا تھا لیکن اس کے باوجود جانکی داس کے  سوال میں اس سوال کا بھی جواب پوشیدہ تھا جس نے رنجیت کی نیند حرام کررکھی تھی کہ آخر ابھی تک اغوا کارو ں نے رابطہ قائم کیوں نہیں کیا ؟ رنجیت بولا چلئے آپ کی یہ بات بھی ہم مانے لیتے ہیں کہ ممکن ہے شیکھر سمن کو قتل کر دیا ہو لیکن آپ یہ بتائیے کہ کیا اغوا کار بلدیو کو بھی قتل کرسکتے ہیں ؟

کیوں نہیں کرسکتے ؟ کیا آپ سمجھتے ہیں عدالت میں بچہ کی گواہی قبول نہیں کی جاتی ؟ بلکہ بچوں کے بارے میں تو مشہور ہے بچے من کے سچے۔ آپ نے فلمی نغمہ بھی سنا ہی ہو گا۔ بچے من کے سچے سارے جگ کے آنکھ کے تارے۔ یہ وہ ننھے ۰۰۰۰۰۰۰۔ جانکی داس گانا سنانے لگے تو رنجیت نے بیچ میں ٹوک دیا۔ جانکی داس جی آپ پھر بہک کر کہیں اور نکل گئے

جی ہاں جی ہاں میرا مطلب ہے اگر کوئی بچہ کسی کا قتل ہوتا ہوا دیکھ لے تو وہ قاتل کی نشاندہی کرہی سکتا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ بلدیو نے شیکھر کا قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا وہ رہا ہونے کے بعد یہ راز افشا نہ کرے گا۔ اور جب یہ راز کھل جائے گا تو کیا شیکھر کے قاتل پھانسی پر چڑھنے سے بچ پائیں گے اور اگر نہیں بچ پائیں گے تو ان کے پاس اس کے سوا کیا متبادل ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اب آپ مجھ سے انرتھ نہ کہلوائیے۔ جانکی داس نے کہے بغیر وہ کہہ دیا جسے وہ انرتھ کہہ رہے تھے۔

رنجیت اسکول میں آیا تو کسی اور کام سے تھا لیکن جانکی داس نے اسے کچھ اور باتوں میں اس قدر الجھا  دیا کہ وہ اپنی آمد کی غرض و غایت ہی بھول گیا  اور نہایت کنفیوژ حالت میں جانکی داس سے اجازت لے کر من ہی من میں یہ عہد کر کے اٹھا کہ اب دوبارہ وہاں کا رخ نہ کرے گا۔

اس رات رنجیت سو نہ سکا۔ جانکی داس کی باتیں اسے کبھی کہاں لے جاتیں تو کبھی وہ کسی  اور ہی جانب نکل جاتا رات بھر یہی سلسلہ چلتا رہا۔ صبح رنجیت اپنے بستر سے اس طرح اٹھا کہ گویا سویا ہی نہیں تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد جب اس نے ٹھنڈے دماغ سے ان باتوں پر غور کرنا شروع کیا تو اسے احسا س ہوا کہ یہ سب محض قیاس آرائیوں کے سواکچھ اور نہیں ہے۔ ساری باتیں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بس ہوا میں اڑائی ہوئی تھیں۔ ان کی بنیاد پر یہ تو ہوسکتا تھا کہ دونوں کو مقتول قراردے کر کیس کی فائل کو بند کر دیا جائے لیکن بغیر ثبوت کے کوسی کلاں گاؤں کے ولیعہد کو مقتول ٹھہرا دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

رنجیت اپنے دن اور رات کے ضائع ہونے پر کفِ افسوس مل رہا تھا۔ اس نے ایک سپاہی کو اسکول میں بھیجا تاکہ جانکی داس کے آنے اور جانے کے اوقات کا پتہ لگا کر آئے وہ اب اسکول تو جانا چاہتا تھا لیکن ایسے وقت میں جبکہ جانکی داس موجود نہ ہو۔  سچ تو یہ ہے کہ رنجیت کوجانکی داس کی باتوں سے  خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس لئے کہ جانکی داس بیٹھے بٹھائے اپنے مخاطب کو اپنی باتوں کے مایا جال میں کچھ  اس طرح الجھا لیتا تھا کہ وہ بیچارہ کہیں کا نہیں رہتا۔

رنجیت کو سپاہی نے آکر بتایا کہ وہ دس بجے کے بعد کسی بھی وقت اپنے دفتر میں آتے ہیں پہلے کبھی نہیں آتے۔ گھڑی میں فی الحال صبح کے آٹھ  بج رہے تھے۔ رنجیت فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اسکول کی جانب چل پڑا۔ اسکول میں نائب صدر مدرس ننکا سنگھ موجود تھے۔ انہوں نے  فوراً شیکھر سمن کی فائل کو الماری سے نکالا جس میں اس کے مختلف کوائف درج تھے۔

شیکھر کا تعلق کوٹہ سے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں وزیرپور سے تھا۔ انٹر تک کی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد وہ کالج کی پڑھائی کے لئے کوٹہ شہر میں آ گیا تھا۔ اس کے والدین بہت غریب تھے اس لئے تعلیم کے دوران اس نے جزوقتی ملازمت بھی کر لی تھی لیکن جس کے پاس وہ کام کرتا تھا اس کی تفصیل درج نہیں تھی۔ رنجیت سنگھ  شیکھر کے گھر کا اور کوٹہ میں اس کے ڈیرے کا پتہ نوٹ کر کے اسکول سے واپس آ گیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگرجانکی داس غلطی سے جلدی آ جائیں تو اس کا دن اور دماغ دونوں خراب کر دیں گے۔ اب اس کا منصوبہ وزیر پور اور کوٹہ جاکر شیکھر سمن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا تھا۔

٭٭

رگھوبیریادو

وزیر پور میں رنجیت کو کوئی خاص جانکاری نہیں ملی بلکہ شیکھر کے غریب والدین سے ملنے کے بعد اس کے دل میں شیکھر کے تئیں ہمدردی کا ایک طوفان موجزن ہو گیا۔ وہ گھر میں اکیلا کمانے والا تھا اور اپنے اہلِ خانہ کا بڑا خیال کرتا تھا۔ ان کی زبانیں شیکھر کی تعریف سے نہیں تھکتی تھیں۔ دیگر محلے والوں کی رائے بھی اس کے بارے میں اچھی تھی لیکن جب وہ شہر پہنچا تو نقشہ بدلنے لگا۔

رنجیت نے شیکھر کے دوستوں سے فرداً فرداً رابطہ قائم کر کے معلومات کو اکٹھا کیں تو اسے پتہ چلا کہ شیکھر یہاں پر ایک انڈرورلڈ لارڈ(مقامی غنڈوں کے سردار) کے پاس ملازمت کرتا تھا بلکہ اس کے گروہ کا ایک اہم رکن تھا۔ اس گروہ کے سرغنہ پپو یادو کی اس  علاقہ میں زبردست دھاک تھی۔ اس کے تعلقات نہ صرف سیاستدانوں سے تھے بلکہ پولس فورس میں بھی اس کے کئی دلال کام کرتے تھے ، یعنی کئی پولس والوں کی وفاداریاں اپنے محکمہ کے بجائے پپو یادو کے ساتھ تھیں اوروہ اس کے اشارے پر انکاؤنٹرتک کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ گروہ لوٹ مار اور قتل و اغوا جیسے مختلف النوع جرائم میں ملوث تھا۔ رنجیت کو جب یہ پتہ چلا تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔  اسے یوں لگا کہ گویا بلدیو کی رہائی کے دن قریب آ گئے ہیں اور شیکھر کے بارے میں لوگوں کی رائے سے علی الرغم اس کی قیاس آرائیوں کے اندر جان پڑگئی ہے۔

رنجیت ان معلومات کے ساتھ واپس کوسی کلاں آ گیا۔ وہ آئندہ کا منصوبہ بہت ہی سوچ سمجھ کر بنانا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کی دو ناکامیوں نے اسے محتاط کر دیا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ لوگ اب اس کی صلاحیت کی بابت مشکوک ہو رہے ہیں۔  حالت اس قدر دگر گوں ہو چکی ہے کہ  مزید ایک آدھ غلطی اس کی ساکھ کو ملیا میٹ کرنے کے لئے کافی ہے اس لئے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا۔ ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجہ پر  پہنچا کہ پپو یادو ہی اس کو شیکھر سمن تک پہنچا سکتا ہے۔ ممکن ہے بلدیو سنگھ بھی اسی کے پاس ہو۔ اس لئے اسی کی مدد سے بلدیو کو چھڑایا بھی جا سکتا ہے۔ اب  اغوا کاروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا انتقامی جذبہ رنجیت کے اندر سرد ہو  چکا تھا۔  وہ کسی طرح بلدیو کو چھڑالینے میں عافیت جان رہا تھا۔ رنجیت  اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کچھ لین دین  پر بھی وہ راضی ہو گیا تھا۔   چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ کو رنجیت نے مالی تعاون کیلئے تیار کر لیا تھا  لیکن سب سے مشکل کام پپو یادو تک رسائی کا تھا۔ کسی اجنبی پولس آفیسر کی اس سے ملاقات ناممکن تھی۔ رنجیت نے اس کام کے لئے کسی ایسے افسر کی مدد لینے کا فیصلہ کیا جس کے پپو یادو سے اچھے تعلقات ہوں۔ اس بابت چھان بین کرنے پر اسے معلوم ہوا کہ گنگا نگر کے نائب تھانیدار رگھوبیر یادو سے  پپو کے گھریلو تعلقات ہیں اور اس کے تعاون سے ملاقات ممکن ہے۔

رنجیت کو اب اپنے اوررگھوبیر یادو کے درمیان ایک مشترک دوست کی تلاش تھی جو اس کا تعارف کرسکے۔  سنجے شرماجو رنجیت کے کالج کا دوست تھا فی الحال گنگا نگر سے قریب ایک دیہات میں تعینات تھااور اس کے رگھوبیر سے اچھے تعلقات تھے۔  رنجیت نے سنجے سے تعاون طلب کیا جس نے بخوشی رنجیت کا تعارف کرانے کے بعد رگھوبیر سے کہا کہ وہ اس کا اچھا دوست ہے۔ قابلِ اعتبار آدمی ہے اور اس سے کسی ضروری کام کے لئے ملنا چاہتا ہے اس لئے کوئی مناسب وقت بتلائے تاکہ ملاقات ممکن ہو سکے۔ سنجے اور رگھوبیر چونکہ بہت اچھے دوست تھے اس  لئے اس نے رنجیت کو آئندہ   اتوار کو شام میں سات بجے  گنگا نگر سے باہر چمپا کلی کے فارم ہاؤس پرملاقات کے لئے بلوا بھیجا۔

اس فارم ہاؤس کا اصل مالک رگھوبیر یادو ہی کا تھا لیکن اس نے اسے اپنی معشوقہ چمپابائی کو دے رکھا تھا اور اسی لئے وہ چمپاکلی فارم ہاؤس کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس فارم ہاؤس میں آئے دن مختلف شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا اہتمام ہوتا تھا۔ جس کے کرائے پر مکمل طور پر چمپا بائی کا اسی طرح  تصرف تھا جیسا کہ چمپا بائی پر رگھوبیر یادو کا تھا۔ چمپا کلی ایک زمانے تک اس علاقہ کی مشہور رقاصہ تھی۔ لوگ اس کی اداؤں پر روپیہ اچھالتے تھے اور وہ ان کی بلائیں لیتی تھی  لیکن اب زمانہ بدل گیا تھا فی الحال کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھے اس لئے کہ سب کو پتہ تھا کہ اگر کوئی ایسی جرأت کرے گا  تو رگھوبیر یادو اس کی آنکھ نکال کر چیل کووّں کے آگے ڈال دے گا۔

رنجیت تحفہ تحائف کے ساتھ وقتِ مقررہ پر چمپاکلی فارم ہاؤس پر پہنچ گیا۔ رگھوبیر وہاں موجود تھا۔ اس نے بڑے تپاک سے رنجیت کا استقبال کیا۔ جب رنجیت نے اس کی خدمت میں تحائف پیش کئے تو وہ بولا سنجے نے توکہا تھا کہ تم اس کے قریبی دوست ہو لیکن یہ تکلف دیکھ کر نہیں لگتا کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

رنجیت نے جواب دیا جناب  میں سنجے کا بے تکلف دوست ضرور ہوں لیکن آپ سے تو یہ پہلی ملاقات ہے۔ رگھوبیر بولا اچھا تو میں یہ توقع کروں کہ آئندہ اس طرح کا تکلف نہیں ہو گا۔ جی ہاں مجھے امید ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہم لوگ بھی قریبی دوست ہو جائیں گے۔ رنجیت گرم جوشی سے بولا۔ رگھوبیر نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہا کہ تب تو یہ نقصان کا سودہ ہے۔

رنجیت بولا آپ کے لئے ہوسکتا ہے لیکن میرے لئے تو یہ سراسر فائدے کا سودہ ہے۔ رگھو بیر بولاجو بھی ہو سنجے کی دوسری بات ضرور صحیح نکلی۔ وہ کیا ؟ یہی کہ تم نہ صرف زندہ دل بلکہ حاضر جواب بھی ہو۔ رنجیت نے خندہ پیشانی کے ساتھ کہا شکریہ جناب یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ رگھوبیر بولا اچھا یہ بتاؤ کہ اتنی اچھی اردو تم نے کس اسکول میں  سیکھ لی۔

رنجیت نے جواب دیابات دراصل یہ ہے کہ ہمارے اسکول میں اردو پڑھائی ہی نہیں جاتی تھی۔ وہ تو میرے والد صاحب نے مجھے خوداردو زبان کی تعلیم دی تھی۔ وہ نہایت باذوق آدمی تھے۔ اردونہ صرف  بولتے تھے بلکہ پڑھتے لکھتے بھی تھے۔ میر سے لے کر فیض تک مختلف شاعروں کے سیکڑوں اشعار انہیں زبانی یاد تھے جن کا استعمال وہ موقع بموقع کیاکرتے تھے۔  رگھوبیر ہنس کر بولا تب تو تمہاری امی بہت پریشان ہوتی ہوں گی ؟

جی نہیں انہوں نے بھی اردو ہی میں تعلیم حاصل کی تھی بلکہ وہ دونوں فارسی بھی جانتے تھے۔ ہمارا معاملہ یہ تھا کہ ہم صرف اردو تک رہ گئے۔ اچھا تو کوئی اچھا سا شعر ہی سنادو جو تمہارے والد صاحب کو بہت پسند رہا ہو۔ شعر۰۰۰۰۰۰!اب کون سا شعر سناؤں ؟غالب کا ایک شعر سن لیجئے۔ ارشاد۔ عطا ہو رگھوبیر نے ایسے کہا جیسے کسی ادبی محٖفل میں براجمان ہو۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر  بھی کم نکلے

رگھوبیر نے شعر سن کر خوب داد دی اور کہا تمہاری خواہش کے بارے میں بعد میں بات کریں گے پہلے کچھ کھانے پینے کا معاملہ ہو جائے۔ یہ بتاؤ کیا پینا پسند کروگے ؟ یہاں سارا انتظام ہے۔ رنجیت بولا  میرا خیال ہے کہ ہم براہِ راست کھانے پر آ جائیں تو اچھا ہے۔ مجھے بھوک بھی لگی ہے اور پھر رات میں واپس بھی جاناہے۔

بھئی یہ توراجپوتوں والی بات نہیں ہوئی۔ خیر ہم اپنے مہمان کی خواہش کا احترام کرتے ہیں اور اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپتے۔ آئیے دستر خوان پر چلتے ہیں۔ رنجیت کو رگھوبیر کی شستہ زبان پر حیرت ہورہی تھی اس کا جی توچاہ رہا تھا کہ اس بابت استفسار کرے لیکن وہ بات کو پھیلانا نہیں چاہتا تھا۔ آج کی ملاقات میں کسی طرح پپویادو تک رسائی کی سبیل نکالنا ضروری تھا۔ اس لئے اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور ہاتھ دھو کردسترخوان پر آبیٹھا۔ دستر خوان اس قدر پرتکلف تھا کہ اس کی آنکھیں خیرہ رہ گئیں۔ وہ بولا رگھوبیر صاحب میں نے دعوتِ شیراز کے بارے میں سنا تو تھا لیکن آج دیکھ لیا۔ یہ دو لوگوں کا کھانا ہے۔ اس میں تو ساراگاؤں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

جی ہاں اس میں گاؤں والوں کا بھی حصہ ہے۔ ہمارے فارغ ہو جانے کے بعد یہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ کھانے کے بعد چائے کے دوران رگھوبیر نے پوچھا تو برخوردار اب بولو میں تمہارے کس کام آ سکتا ہوں ؟رنجیت نے کہا جناب میں پپو یادو سے ملاقات کرنا چاہتا تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے میرے خیال میں آپ سے زیادہ مناسب کوئی اور آدمی نہیں ہے۔

پپو کا نام سن کر رگھوبیر چونک گیا۔ وہ بولا پپو سے کیا کام ہے۔ سرکاری یا ذاتی؟ رنجیت نے کہا نیم سرکاری اور نیم ذاتی سمجھ لیجئے۔ رگھوبیر اب محتاط ہو چکا تھا وہ بولا کیوں اسے گرفتار کر کے سرکاری تمغہ حاصل کرنے کا تومنصوبہ نہیں ہے۔ رنجیت نے لجاجت کے ساتھ کہا جی نہیں جناب آپ کیسی بات کرتے ہیں ؟رگھوبیر بولا میں تو ویسے مذاق کر رہا تھا۔ دیکھو پپو میرا دوست اور رشتہ دار دونوں ہے پھر بھی جب تک ملاقات کامقصد واضح نہ  ہو یہ ناممکن ہے۔

جی ہاں میں جانتا ہوں۔ مجھے ان کے گروہ میں کام کرنے والے شیکھر کی معلومات درکار ہے تاکہ میں بلدیو کورہا کروا سکوں۔ یہ کہہ کر رنجیت نے ساری داستان تفصیل کے ساتھ رگھوبیر کے سامنے بیان کر دی۔ رگھوبیر نہایت انہماک و دلچسپی سے ایک ایک لفظ  سنتا رہا  اور جب بات ختم ہو گئی تو بولا میں شیکھر کو نہیں جانتا اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ بلدیو کی رہائی میں پپو تمہارے کسی کام آ سکے گاکہ نہیں لیکن پھر بھی میں اس سے تمہاری ملاقات ضرور کرواؤں گا اس لئے کہ اب تم صرف سنجے کے نہیں میرے بھی دوست ہو۔

شکریہ جناب لیکن یہ ملاقات کب تک ممکن ہو سکے گی رنجیت نے پوچھا۔ رگھوبیر کچھ دیر سوچ کر بولا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملاقات کل ہی ہو جائے۔ اس لئے کہ وہ کسی اور کام سے مجھے ملنے کی خاطر یہاں آنے والا ہے۔ اگر اس کے پاس وقت ہو اور وہ مناسب سمجھے تو کل یہیں ملاقات ہو جائے گی لیکن میں وعدہ نہیں کرتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بات کل کے بجائے کسی اور دن پر ٹل جائے اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو  رات یہیں قیام کر لو۔ کل میں اس سے پوچھ کر یاتو ملاقات کروا دوں گا یا کوئی دن طہ کر  کے بتلا دوں گا۔ اب تمہاری قسمت ۰۰۰۰۰ کیا خیال ہے ؟

 جی ہاں جناب آپ کا بہت شکریہ میرے والدصاحب اکثر کہا کرتے تھے ہمتِ  مرداں  مددِ خدا۔ تمہا رے والد کی بات سے میں صد فیصد اتفاق کرتا ہوں دراصل قسمت بھی بہادروں کا ساتھ دیتی ہے اور پرامید رہنا دلیری کا پہلا زینہ ہے۔ اب تم یہاں آرام کرو۔ ویسے حفظِ ماتقدم کے طور پر میں نے تمہاری رہائش کا اہتمام کر دیا تھا۔ یہاں نوکر چاکر تمہاری خدمت میں رہیں گے۔ میرے خیال میں کوئی زحمت نہیں ہو گی پھر بھی سفر تو آخر سفر ہوتا ہے۔ اس میں کچھ تو تکلیف ہوتی ہی ہے جو مسافر کا مقدر ہوتی ہے۔ رنجیت کو ایک عرصے کے بعد کوئی ہم زبان ملا تھا اس لئے وہ کوب لہک لہک کر باتیں کر رہا تھا۔ رنجیت بولا جی ہاں جناب عالی ! زندگی بھی تو ایک سفر ہی ہے اور اس میں بھی یہی سب ہوتا ہے۔

اس بات پر مجھے بھی غالب کا ایک شعر یاد آ گیا کیا خوب کہا چچا غالب نے یہ کہہ کر رگھوبیر یادو نے شعر سنا دیا

قیدِ حیات  بندِ غم  اصل میں  دونوں  ایک  ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

بھئی رگھوبیر صاحب آپ نے بہت اونچا شعر سنایا۔ آج ایک عرصہ کے بعد اتنا اچھا شعر سن کر  دل خوش ہو گیا بلکہ دعوت کا لطف دوبالا ہو گیا۔ رگھوبیر نے کہا اونچے لوگ اونچی پسند خیر اب تم آرام کرو اور مجھے اجازت دو کل ہماری ملاقات دوپہر ایک بجے ہو گی۔ جی ہاں شکریہ۔ شب بخیر۔ شب بخیر کہہ کر رگھوبیر نے مصافحہ کیا اور نکل گیا۔

 رگھو بیر کے چلے جانے کے بعد رنجیت اپنے بستر پر لیٹ کر پہلے تو بہت دیر تک غالب کے شعر پر غور کرتا رہا۔ کبھی اس شعر کا انطباق بلدیو پر کرتا تو کبھی اس کی ماں منیشا پر۔ کبھی اس کو سرجو ماسی سے جوڑتا تو کبھی شیکھر سمن سے۔ جس کسی کے بارے سوچتا شعر وہیں چسپاں ہو جاتا۔ بالآخر اس نے اپنے بارے میں غور کیا تو اسے لگا کہ مرزا غالب نے یہ شعر اسی کے لئے کہا ہے۔ اس کے بعد اسے نیند آ گئی اور صبح دیر تک وہ اپنے بستر میں سویا پڑا رہ گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دوسرے دن دوپہر کو کھانے کی میز پر رگھوبیر نے رنجیت کا تعارف پپویادو سے کروایا  اور کہا کہ پپو رات بھر کا سفر کر کے آیا ہے۔ میری اس سے بات ہو چکی ہے۔  ابھی کھانے کے بعد وہ کچھ دیر آرام کرے گا اور شام چار بجے آپ دونوں ایک ساتھ چائے پئیں گے۔ رنجیت کے لئے یہ نہایت خوش کن خبر تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ پپو یادو سے اس قدر جلد اور آسانی کے ساتھ ملاقات ہو جائے گی۔

رنجیت بولا میں آپ دونوں کا ممنون و شکرگزار ہوں۔ اس کے بعد کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ طعام سے فراغت کے بعد رگھوبیر باہر نکل گیا اور وہ دونوں اپنی اپنی خوابگاہ میں لوٹ آئے۔ رنجیت اس قدر سو چکا تھا کہ اس کی آنکھوں میں نیند کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ وہ پھر بلدیو اور شیکھر میں کھو گیا اور سوچنے لگا پپو سے کیا کہا جائے ؟ کیسے کہا جائے ؟ وغیرہ وغیرہ ۰۰۰۰۰۰۰اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب چار بج گئے اور ایک نوکر نے آکر بتلایا صاحب آپ کی چائے لان میں لگا دی گئی ہے۔

جاڑے کی خوشگوار شام۔ سرد ہوا  ہلکی دھوپ  یوں کہیے کہ بالکل شاعرانہ موسم۔  باہر باغ میں ایک میز اور دوکرسیاں جن پر گرم شال کواس اہتمام سے رکھا گیا تھا کہ بوقتِ ضرورت استعمال کیا جا سکے۔ میز پر نہایت پرتکلف انداز میں چائے کی کیتلی، دودھ کا پیالہ، چینی اور خالی پیالیاں مٹھائی اور نمکین کے ہمراہ مہمانوں کا انتظار کر رہی تھیں۔ رنجیت نے سورج کے سامنے والی کرسی سنبھالی اور پپو کی راہ دیکھنے لگا۔ چند ساعتوں کے اندر ململ کے سفید کرتے اور ریشمی تہ بند میں ملبوس پپویادو نمودار ہوا۔

 رنجیت نے کھڑے ہو کر اس سے مصافحہ کیا اور مسکرا کر خوش آمدید کہا۔ خادم  نے پہلے پپو کے لئے اس کی پسند کے مطابق  اور پھررنجیت کی مرضی سے اس کی چائے بنائی اور دور جاکر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب ان کے اشارے دیکھ تو سکتا تھا لیکن ان کی باتوں کو سن نہیں سکتا تھا۔ رنجیت اور پپو یادوکے آس پاس فی الحال نہ کوئی دیوار تھی اور نہ اس کے کان تھے۔

 پپو نے کہا میرا دوست  رگھوبیر تمہاری بڑی تعریف کر رہا تھا اور اس نے ان تفصیلات سے بھی مجھے آ گاہ کر دیا جو تم نے اسے بتائی تھیں۔ تم شاید نہیں جانتے رگھوبیر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جس بات کو ایک بار سن لیتا ہے یا جو کچھ بھی دیکھ لیتا وہ اس کے ذہن میں من و عن نقش ہو جاتا۔ پھر آپ اس سے جب چاہو پوچھو وہ بغیر بھولے لفظ بلفظ اسے بیان کرسکتا ہے۔

جی ہاں میں نے سنا ہے کچھ لوگوں کی فوٹو گرافک (عکسی) یادداشت ہوتی ہے ان کے دماغ میں ساری تصویریں محفوظ رہتی ہیں اور وقتِ  ضرورت وہ لوگ اپنے چشمِ تصور سے انہیں دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ خداداد صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ ویسے رگھوبیر  واقعی بڑا باصلاحیت اور شریف النفس انسان ہے۔

پپو نے تکلف برطرف کرتے ہوئے کہا میرے پاس وقت بہت کم ہے رنجیت  اس لئے میرا خیال ہے ہمیں کام کی بات پر آ جانا چاہئے۔ تم صاف صاف بتاؤ کہ  مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ رنجیت نے دوٹوک انداز میں کہا جناب میں شیکھر تک پہنچنا چاہتا ہوں تاکہ بلدیو کو رہا کرا سکوں۔ پپو بولا دیکھو رنجیت شیکھر کسی زمانے میں میرے گروہ میں شامل ضرور تھا لیکن اب وہ مجھ سے ناطہ توڑ چکا ہے۔ اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ، پھر بھی میں اپنے ذرائع سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں کہ فی الحال وہ کہاں ہے ؟جی بہت شکریہ رنجیت نے خوش ہو کر کہا

پپو یادو نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہااور جہاں تک  بلدیو کا سوال ہے مجھے نہیں پتہ کہ وہ شیکھر کے پاس ہے یا نہیں ؟  اگر وہ شیکھر کے پاس ہوا تو اس کی بازیابی بھی ممکن ہے لیکن اگر وہ اس کے پاس نہ ہوا تو میں اس بارے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ رنجیت بولا آپ بجا فرماتے ہیں  لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ شیکھرکے قبضہ میں  ہو گا۔ اس لئے کہ  وہ دونوں آخری وقت ایک ساتھ دیکھے گئے تھے اور دونوں ہی اس وقت سے غائب ہیں۔

پپو یادو نے تائید کے پہلو بہ پہلو تردید بھی کر دی اور بولا تمہارا قیاس درست بھی ہو سکتا ہے اور یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے لیکن تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ کام ہم لوگ خیرات کے طور پر نہیں کرتے۔  کیا مطلب میں سمجھا نہیں ؟ رنجیت نے سوال کیا۔ پپو بولا میرا مطلب ہے کہ جس طرح تم اس کام کو کرتے ہو تو تنخواہ لیتے ہو۔ اسی طرح ہم بھی یہ سب مفت میں یہ نہیں کرتے۔ ہرکام کا معاوضہ ہوتا ہے  اور پھر یہ ہمارا پیشہ ہے۔ رنجیت نے تائید کی جی جناب میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔

تو گویا یہ دو کام ہیں ایک شیکھر تک رسائی اور دوسرا بلدیو کی رہائی اور ان دونوں کی معاوضہ جدا جدا ہو گا۔ ٹھیک ہے۔ رنجیت بولا جناب بظاہرتو  یہ دو کام نظر آتے ہیں لیکن میں اسے ایک ہی کام سمجھتا ہوں۔ وہ کیسے ؟ پپو نے پوچھا۔ رنجیت نے وضاحت کی میری اس مہم کا اصل مقصد بلدیو کو چھڑانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ شیکھر تک رسائی ہے۔ کوسی کلاں کے لوگوں کو شیکھر کے مرنے یا جینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو اپنے بلدیو کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اب میرا کام تو ان سے لینا اور آپ کو دینا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ابھی کہامیں نوکری پیشہ آدمی ہوں اپنی جیب سے تو خرچ نہیں کر سکتا۔

جی ہاں میں جانتا ہوں پولس والوں کی نظرہمیشہ دوسروں کی جیب پر ہوتی ہے لیکن پھر بھی مجھے تمہاری بات معقول لگتی ہے۔ تو ہمارے بیچ یہ معاملہ طے ہوا کہ رقم کی ادائے گی بلدیو کی رہائی سے منسلک ہے۔ رنجیت خوش ہو کر بولا جی ہاں جناب آپ نے درست فرمایا۔ اگر آپ اس کا کچھ اندازہ بتلا دیں تو عنایت ہو گی۔

جب تک شکار ہاتھ میں نہ آئے میں اس کی قیمت نہیں آنکتا اور پھر اب تو مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ شکار کس قدر مشکل ہے لیکن اس کی فکر نہ کرو، تمہیں وقت آنے پر سب کچھ بتا دیا جائے گا  اور پھر تم کوئی پرائے تو ہو نہیں میرے دوست رگھوبیرکے دوست ہو۔ یہ کہہ کر پپو یادو اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ رنجیت اس کااشارہ سمجھ گیا اور اجازت لے کر اپنی آرام گاہ میں آ گیا۔

   ٭٭

  منموہن عرف  موہن

شیکھر سمن کو جب پتہ چلا کہ پپو یادو اس سے دوبارہ ملاقات کے لئے آ رہا ہے تو اس کی آنکھوں میں گزشتہ دوہفتوں کے سارے مناظر گھوم گئے۔ اسے یاد آیا کہ ایک دن اچانک جب اس کی آنکھ کھلی تھی تو اس نے دیکھا تھا کہ وہ اپنے بور کلاں کے گھرمیں نہیں ہے  بلکہ کسی اجنبی مقام پر ہے۔  اس نے اپنے ذہن پر زور ڈال کرغور کرنا شروع  کیا کہ آخر وہ وہاں پہنچا کیسے ؟ توپہلے اسے کچھ یاد نہیں آیا لیکن پھر خیال آیا کہ جب وہ بلدیو سنگھ کو لے کر حویلی کے قریب پہنچا تو بلدیو نے کہا تھا ماسٹرجی وہ دیکھئے ہماری شاندار حویلی۔ اس جیسا مکان پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔

بلدیو کی بات بیک وقت صحیح بھی تھی اور غلط بھی۔ غلط اس لئے کہ اس سے  اچھے  مکانات اس وسیع و عریض دنیا میں بے شمار تھے لیکن بلدیو اس دنیا سے نابلد تھا۔ اس کی اپنی ایک ننھی سی کائنات تھی کوسی کلاں کی دنیا، جہاں سے دور بور کلاں نامی ایک بستی بھی نظر آتی تھی۔  اس مختصر سی دنیا میں یقیناً اس کی حویلی سب سے بہترین تھی۔ بلدیو نے پھر کہا اچھا ماسٹر جی اب آپ جائیے میں اپنے گھر چلا جاؤں گا شکریہ۔ شیکھر نے اسے پیار کا ایک بوسہ دیا اور اپنے گھر کی جانب مڑ گیا۔

شیکھر ابھی مندر کے پاس سے گزر ہی رہا تھا کہ اسے اپنے دو پرانے ساتھی رنویر یادو اور رجنیش شرما نظر آئے۔ دعا سلام کے بعد شیکھر نے ان سے دریافت کیا کہ آج آپ لوگ یہاں کہاں نکل آئے ؟ کیوں خیریت تو ہے ؟ ان دونوں نے کہا یار تم تو ہمیں بھول گئے لیکن ہم تمہیں تھوڑے ہی بھول سکتے ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ تم سے ملاقات کرنے چلے آئے۔

اچھا !لیکن اچانک ؟ شیکھر سمن کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ کیوں تمہیں اعتراض ہے کیا ؟ اگر ایسا ہے تو ہم لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔ شیکھر شرمندہ سا ہو گیا وہ بولا جی نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے تو خوشی ہے کہ ایک عرصہ بعد ملاقات ہو گئی خیر تم نے مجھے یاد رکھا اس کے لئے میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ بھئی شکریہ تو تمہیں اپنے سردار پپو یادو کا ادا کرنا چاہئے جو تمہیں بہت یاد کرتے ہیں اور انہیں کے ایماء پر ہم نے یہاں کا قصد کیا ہے۔

پپو یادو کے ذکر نے شیکھر کی الجھن میں مزید اضافہ کر دیا پھر بھی وہ بولا زہے نصیب کہ سردار مجھ ناچیز کو اب بھی یا د  فرماتے ہیں۔ بھئی ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہنا۔ یار قسم سے شیکھر تیری جو یہ شہد سے تر زبان ہے نا۔ رنویر بولا  یہی سب پر جادو کر دیتی ہے۔ رجنیش نے کہا ہم تمہارسلام کیوں پہنچائیں تم خود ہی چل کر سلام کر آ ؤ۔  مم۰۰۰مم میں ! شیکھر نے چونک کر کہا

رنویر بولا تم تو ایسے گھبرا رہے ہو گویا سردار کوئی وحشی درندہ ہے۔ تمہیں دیکھے گا تو پھاڑ کھائے گا۔ نہیں نہیں میں نے ایسا کب کہا ؟ شیکھر کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ اچھا اگر ایسا نہیں ہے تو چلو ان سے مل آتے ہیں۔ نہیں ۰۰۰۰ نہیں ۰۰۰۰۰۰یہ نہیں ہوسکتا۔ شیکھر  ہاتھ جوڑ کر بولا۔ رنویر نے کہا کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟؟؟؟؟ بس ۰۰۰۰۰۰۰۰بس یو نہی ۰۰۰۰۰۰۰ میں اب اس دنیا میں لوٹنا نہیں چاہتا۔

شرما بولا تو کون بلا رہا ہے تمہیں اس دنیا میں ؟  ہم تو بس سلام دعا کی بات کر رہے تھے۔  شیکھر بولا نہیں رجنیش اب اصرار نہ کرو۔ تمہاری بات درست ہے مگر  ابھی نہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰پھر کبھی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰میں خود آ جاؤنگا سردار سے ملنے ۰۰۰۰۰۰۰۰یہ میرا وعدہ ہے۔ رنویر بولا لیکن ہم بھی تو سردار سے ایک وعدہ کر کے آئے ہیں۔ اس کا کیا ہو گا ؟

شیکھر خطرے کی بو سونگھ رہا تھا وہ بولا تم ۰۰۰۰۰۰اپنا وعدہ نبھاؤ۔ ضرور نبھاؤ۔ میں کہاں منع کرتا ہوں  بلکہ میں کون ہوتا ہوں تمہیں روکنے والا۔ تم بس مجھے چھوڑ دو۔ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو پلیز ۰۰۰۰۰۰۰۰۰شیکھر کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ رنویر پان کی پیک ایک جانب تھوک کر بولا تم ۰۰۰۰۰۰۰تم ہی تو سب کچھ ہو شیکھر۔ ہمارے وعدے کا سارا دارومدار تم پر ہے۔ اگر تم ساتھ نہ چلو گے تو بھلا ہم سے وعدہ کیونکر نبھایا جائے گا۔

لیکن تم لوگوں نے ایسا وعدہ کیوں کر لیا اور مجھ سے پوچھے بغیر تم نے میرے بارے میں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ شیکھرسمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارہ پائے۔ رنویر نے اس کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا اوہو اب تو تم اپنے آپ کو بہت بڑا آدمی  بن گئے ہواور چاہتے ہو کہ ہم سارے کام تمہاری  اجازت سے کیا کریں۔ کہیں  تم نے اپنے آپ کو سردار تو سمجھنا  نہیں شروع کر دیا ؟ شیکھر بولا رنویر بلا وجہ  بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

رجنیش بولا اچھااگر ایسا ہے تو جان لو کہ ہم کسی ا یرے غیرے نتھو خیرے کی نہیں سنتے کیا سمجھے ؟ ہم صرف سردار کی سنتے ہیں اور ان کا حکم ہے کہ ۲۴ گھنٹہ کے اندر تمہیں زندہ یا مردہ حاضر کیا جائے۔ شیکھر سمن نے جب یہ سنا تو اس کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔ اس نے ہمت جٹا کر کہا اگر میں تمہارے ساتھ چلنے سے انکار کر دوں تو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟

تو۰۰۰۰۰۰تو ہم تمہاری لاش کو اس گاڑی میں ڈال کر لے جائیں گے جو سامنے کھڑی ہے اور تمہاری لاش نہ اقرار کرسکتی ہے اور نہ انکار۔ وہ بیچاری کچھ بھی نہیں کر سکتی رجنیش نہایت سفاکی پر اتر آیا۔  شیکھر نے ہمت جٹا کر کہا ٹھیک ہے آپ لوگوں کو جو کرنا ہے کرو۔ مجھے جان سے مار دو لیکن میں جیتے جی اب نہیں لوٹنے والا۔

تم ۰۰۰۰۰۰تم کیا تمہارے فرشتے بھی لوٹیں گے۔ یہ کہہ کر رنویر یادو نے اس کی ناک پر کلوروفورم کا بھیگا ہوا رومال رکھا۔ چند ساعتوں میں شیکھر پھڑ پھڑا کر ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ نہیں جانتا تھا۔ اب اسے احساس  ہو گیا تھا کہ وہ پپو یادو کے کسی پوشیدہ اڈے پر محصور ہے۔ یہ ایک ایسی جیل تھی جس سے فرار کی کم ازکم سزا موت ہے۔ شیکھر کو اب پپو سے ملاقات کا انتظار تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ پپو اس سے کیامطالبہ کرے گا اور اس کا وہ کیا جواب دے گا؟ اسی ادھیڑ بن میں شیکھر کو ایک آہٹ سنائی دی۔ اس نے دروازے کی جانب مڑ کر دیکھا تو ایک نوعمر لڑکا مسکرا رہا تھا۔ شیکھر نے مسکرا کر کہا پرنام بیٹے۔ تم کیسے ہو؟

موہن پر شیکھر کے یہ بو ل بجلی بن کر گرے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس سے تو کہا گیا تھا کہ شیکھر ایک نہایت خطرناک اور بددماغ انسان ہے اس لئے وہ اس  کی کسی بات کا برا نہ  مانے۔ اس کی گالی گلوچ اور ڈانٹ ڈپٹ کو چپ چاپ برداشت کر لے اور اس کی خدمت میں  لگا رہے اس لئے کہ شیکھرسردار پپو یادو کا خاص آدمی بھی ہے۔ پپواس سے ملاقات کے لئے خود آنے والا ہے اس لئے اسے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اگر اس نے سردار سے  شکایت کر دی تو نہ صرف اس کی نوکری جائے گی بلکہ سزا  الگ پائے گالیکن یہاں تو کچھ اور ہی صورتحال تھی۔

 کل رات جب اس شخص کو یہاں لایا گیا تو ساتھ میں ڈاکٹر بھی تھا۔ اس نے نہ جانے کون سا انجکشن دیا اور گلوکوز کی بوتل لگا دی۔ موہن کا پہلا کام یہ تھا گلوکوز کی بوتل پر نگاہ رکھے۔ جیسے ہی وہ ختم ہونے پر آئے بغل والے کمرے سے ڈاکٹر کو بلالائے۔ موہن نے یہی کیا۔ ڈاکٹر نے واپس آنے کے بعد بوتل کو ہٹایا۔ ہاتھ میں لگی سوئی کو نکالا اور اس سے کہا اب یہ صبح تک ٹس سے مس نہیں ہو گا یونہی مرا پڑا رہے گا۔ اس لئے تو بھی جاکر سو جا لیکن دیکھ صبح صبح آ جانا اور جب یہ جاگے تو اسے اس کمرے کے انتظامات سے آگاہ کر دینا۔ اس کے بعد کھانے پینے کے لئے جو بھی مانگے دے دینا۔ رسوئی میں سارا سامان رکھا ہے۔ اگر کوئی ایسی چیز مانگے جو موجود نہ ہو تو دروازے پر موجود پہرے داروں کو بتلادینا وہ بازار سے لے آئیں گے لیکن تیری ڈیوٹی یہیں ہے توخود یہاں سے ہٹنے کی غلطی نہ کرنا کیا سمجھا؟ موہن ہر بات پر سر ہلاتا اور جی سرکار کی رٹ لگاتا رہا۔ اس کے بعد بغل والے کمرے میں جاکر سوگیا۔

اس بیچ باہر سے ایک کرخت آواز آئی اوئے موہن کہاں مر گیا ہے تو ؟ اس لاش میں کوئی حرکت ہوئی یا  نہیں کیا اب بھی بے حس پڑی ہوئی ہے ؟ یہ وہی رنویر تھا جو رات اسے نرمی سے پیش آنے کی تلقین کر رہا تھا اور شیکھر کو بددماغ بتلا رہا تھا موہن نے اپنے آپ سے پوچھا خر دماغ کون ہے یہ یا وہ ؟

 موہن نے جواب دیا صاحب ابھی آیا اور باہر کی جانب لپکا۔ رنویر سراپا سوال بنا ہوا  تھا موہن بولا صاحب وہ آدمی ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے۔ رنویر نے پوچھا کچھ کھایا پیا یا نہیں ؟  موہن بولا جی نہیں صاحب ابھی  اٹھا ہی تھا کہ آپ نے مجھے یہاں بلا لیا۔ ابے بیوقوف میں نے بلایا کب تھا تو خود ہی دوڑا چلاآیا۔ میں نے تو صرف اس کے بارے پوچھا تھا تو وہیں سے جواب دے دیتا خیر اب بھاگ یہاں سے اور جاکر اس کی خدمت کر۔ تجھے یاد ہے نا رات میں نے کیا ہدایت کی تھی؟

جی ہاں سرکار اچھی طرح یاد ہے۔ موہن گھگھیا کر بولا۔ رنویر نے ایک موٹی سی گالی دے کر کہاتو اب یہاں سے دفع ہو جا۔ موہن دوبارہ اندر آ گیا وہ اجنبی شخص اب کھڑکی میں کھڑا باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ موہن اس کی پشت کی جانب تھا اس نے کہا صاحب آپ ناشتہ کریں گے ؟ کہیے ناشتہ میں کیا کھانا پسند کریں گے ؟یہاں سب انتظام ہے۔

شیکھر سمن نے کہا ابھی تو اٹھا ہوں۔ نہ منہ دھویا اور نہ اشنان(غسل) کیا ابھی سے کھانا پینا۔ نابابا نا۔ جی ہاں جی ہاں۔ میں سمجھ گیا۔ وہ دیکھئے دائیں جانب حمام ہے۔ اس میں سارا سامان موجود ہے۔ دتون، منجن، صابن، تولیہ، لنگی اور بنیائن سب حاضرہے۔  بالکل تازہ آپ کے لئے۔ اوہو بھئی آپ لوگوں نے  مجھ غریب کے لئے بڑا اہتمام کررکھاہے۔

 صاحب غریب آپ نہیں ہم ہیں۔ آپ تو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰موہن چپ ہو گیا۔ بولو، بولو ہم کیا ؟ شیکھر نے سوال کیا۔ جی آپ تو سردار پپو یادو کے خاص آدمی ہیں۔ آپ غریب کیسے ہو سکتے ہیں ؟ شیکھر بولا اچھا تم نہیں جانتے۔ عربی میں غریب اجنبی کو کہتے ہیں۔ اب بتاؤ میں غریب ہوں کہ نہیں ؟

موہن سوچ میں پڑ گیا  اور پھر بولا صاحب عرب میں ضرور اجنبی ہوں گے لیکن یہاں ہندوستان میں تو غریب نہیں ہیں۔ شیکھر کو موہن کی ظرافت پسند آئی وہ بولا تمہارا نام موہن ہے نا ؟ جی ہاں سرکار۔ شیکھر بولا تمہارا چہرہ اور باتیں دونوں ہی من موہک ہیں۔ میرا خیال میں  تمہارا نام منموہن ہونا چاہئے تھا۔

صاحب میرا اصل نام تو منموہن ہی ہے لیکن اس تیز رفتار زمانے میں اتنا لمبا  نام لینے کی فرصت کسے ہے ؟ اس لئے چھوٹا کر دیا۔ ویسے کچھ لوگ مجھے منو کہہ کر بھی پکارتے ہیں آپ بھی جلدی میں منو کہہ دیا کریں کافی ہے۔ لیکن ناشتہ کے بارے میں آپ نے ابھی تک کوئی حکم نہیں دیا۔ شیکھر بولا میں نے کہا نا پہلے اشنان پھر جل پان۔ ہاں اگر اس سے پہلے ایک گرم گرم پیالی چائے مل جائے تو کیا بات ہے۔

جی سرکار ابھی لایا۔ موہن بارچی خانے کی جانب دوڑا اورشیکھر سمن غسل خانے طرف چل دیا۔ تپائی پر چائے رکھ کر موہن ایک جانب کھڑا ہو گیا۔ شیکھر نے پوچھا موہن تم چائے نہیں پیتے ؟ موہن بولا صاحب چائے ، چائے کون نہیں پیتا۔ چائے تو سبھی پیتے ہیں۔ میں بھی شوق سے چائے پیتا ہوں۔ موہن کے دل سے خوف کافور ہو گیا تھا اور اب وہ کھل کر بات کرنے لگا تھا۔

شیکھر نے پوچھااچھا تو اپنے لئے چائے کیوں نہیں لائے ؟ اپنے لئے ؟ موہن نے چونک کر سوال کیا۔ اپنے لئے چائے یہاں کیوں لاؤں گا صاحب۔ وہیں باورچی خانے میں پی لوں گا۔ شیکھر نے پھر پوچھا کیوں یہاں کیوں نہیں ؟موہن بولا جناب یہ آپ کا کمرہ۔ میں یہاں آپ کی خدمت پر تعینات ہوں۔ میں یہاں چائے کیسے پی سکتا ہوں ؟

شیکھر نے قہقہہ لگا کر کہا میں بتاتا ہوں کہ یہاں تم چائے کیسے پی سکتے ہو۔ جاؤ باورچی خانے سے ایک اور کپ چائے یہاں لے آؤ۔ موہن کویکے بعد دیگرے  حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ ایک اور کپ چائے ! صاحب میں نے تو صرف ایک کپ چائے بنائی تھی سو آپ کے لئے لے آیا۔ اب دوبارہ بنا کر لانا ہو گا۔ خیر چھوڑئیے میں بعد میں پی لوں گا۔

شیکھر بولاکچن میں چائے نہ سہی خالی کپ تو ہو گا ؟  وہی لے آؤ ویسے بھی یہ چائے بہت زیادہ ہے۔ موہن تذبذب کی حالت میں گم سم کھڑا رہا۔ شیکھر  نے کہا میں جو کہہ رہا ہوں  سنا نہیں تم نے۔

موہن بولا جی سنا تو ہے ۰۰۰۰۰۰۰پھر کھڑے کھڑے منہ کیوں تاک رہے ہو۔ موہن بولا جی معافی چاہتا ہوں۔ میں ابھی حاضرہوا۔ ایک منٹ بعد موہن خالی کپ کے ساتھ شیکھر کے سامنے کھڑا تھا۔ شیکھر نے اس کے ہاتھ سے کپ لے کر اس میں چائے انڈیلی اور کہا تم اسے پیو۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے موہن نے کپ کو ہاتھ میں لیا اور دروازے کی جانب بڑھا۔ وہاں نہیں یہی بیٹھ کر میرے سامنے اسے پیو۔

موہن کو لگا کہ شاید ان صاحب کو شک ہو گیا ہے کہ میں نے اس میں کچھ ملا تو نہیں دیا۔ وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولا ایسی کوئی بات نہیں صاحب۔ میں ایماندار انسان ہوں۔ شیکھر کی سمجھ میں اس کا جملہ نہیں آیا وہ بولا  تم اپنی صفائی کیوں دے رہے ہو ؟کس  احمق نے کہا کہ تم بے ایمان ہو۔ موہن بولا صاحب ہر بات کہی نہیں جاتی خیر  چھوڑئیے ان باتوں کو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شیکھر کی سمجھ میں پھر کچھ نہ آیا۔ اسے  موہن کے اندر اپنا لڑکپن نظر آ رہا تھا وہ بولا موہن تم یہاں کب سے کام کر رہے ہو ؟ جی میں نیا ہوں سرکار، یہی کچھ تین ماہ سے کام پر لگا ہوں۔ اچھا تو کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟موہن اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے  بولا جی! جی نہیں سرکار۔ میں جانتا تو نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ٹھیکیدار لوگ ہیں۔

یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا ؟ شیکھر نے سوال کیا۔ پہلے زمانے میں ایسی خوشحالی اوررعب داب زمینداروں کے لئے مخصوص  تھا لیکن آج کل ٹھیکیداروں میں پایا جاتا ہے۔

تم لگتے تو نہیں ہو لیکن آدمی ذہین ہو ؟ شیکھر کو لگا وہ اپنے ماضی سے بات کر رہا ہے کسی زمانے میں اس کا بھی یہی خیال تھا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم اس چکر میں کیسے پھنس گئے ؟  موہن نے حیران ہو کر پوچھا میں آپ کی بات سمجھا نہیں جناب ؟شیکھر  نے فوراً اپنی اصلاح کی اور بولا میرا مطلب ہے کہ تمہیں یہ نوکری کیسے مل گئی ؟

بات دراصل یہ ہے کہ  میرے والد رکشا کھینچتے تھے  اورمیں سرکاری  اسکالر شپ کی بدولت میں انٹر کالج میں پڑھتا تھا کہ اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اب گھر چلانے کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی تو میں نے رکشا کھینچنے کے بجائے ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ میری خواہش توتعلیم جاری رکھنے کی تھی لیکن مجبوری کے پیشِ نظربازار میں سارے جاننے والوں سے کہہ دیا کہ کہیں چھوٹی موٹی نوکری ہو تو مجھے بتلائیں۔ ایشور کی کرپا سے مجھے یہ کام مل گیا۔ جس میں تنخواہ بھی پاتا ہوں اور کالج بھی جاتا ہوں۔ یہ ان لوگوں کا مہمان خانہ ہے جس میں کبھی کبھار مہمان آکر ٹھہرتے ہیں۔ ان دنوں میں کالج ناغہ کر دیتا ہوں۔ باقی شام میں آکر صاف صفائی کر کے چلا جاتا ہوں  بلکہ اکثر اپنا کام ختم کرنے کے بعد یہیں اپنی پڑھائی بھی کرتا ہوں۔ یقین مانیں صاحب گھر سے زیادہ سکون یہاں ملتا ہے۔

 شیکھر کو ایسا لگ رہا تھا کہ موہن اسے  خود اس کی آپ بیتی سنا رہا ہے۔ ان دونوں کے حالاتِ زندگی میں بلا کی یکسانیت تھی۔ گوکہ اس کے والد رکشا نہیں کھینچتے تھے سبزی کا ٹھیلہ لگاتے تھے لیکن مجبوریا ں ایک جیسی ہی تھیں۔ شیکھر سمن کو منموہن پر رحم آ رہا تھا۔ وہ جان رہا تھا کہ یہ بیچارہ کس خطرناک جال میں پھنستا جا رہا ہے۔ پھر بھی اس نے سوال کیا اچھا موہن اب یہ بتاؤ کہ آگے تمہارے کیا ارادے ہیں ؟

موہن کو پہلی مرتبہ ایک ایسا انسان ملا تھا جو نہ صرف اس کے ماضی بلکہ مستقبل میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ اسے پہلی مرتبہ اپنی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا۔ انسان کا یہ عجیب المیہ ہے کہ اسے اپنی اہمیت کا احساس دوسروں کے رویہ سے ہوتا ہے۔ وہ بولا صاحب بھاگیہ (قسمت) کا لکھا کون جانے ہے۔ لیکن میری اِچھاّ(خواہش) ہے کہ کالج کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ماسٹری کا کورس کروں اور کسی اسکول میں ٹیچر بن جاؤں بس۔ اس کے سوا میں کچھ نہیں چاہتا۔

منموہن کا یہ جملہ شیکھر سمن پر بجلی بن کر گرا۔ وہ سر پکڑ بیٹھ گیا اور سوچنے لگا یہ بیچارہ جس د لدل میں کھڑا ہے کیا کبھی اس سے ابھر بھی سکے گا؟ اگر یہ مدرس بن بھی گیا تو کیا سکون کے ساتھ درس و تدریس کی ذمہ داریاں ادا کر سکے گا۔ اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی۔

منموہن نے پوچھا کیوں صاحب آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔ میں آپ کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ رہا ہوں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ میرا یہ ننھا سا سپنا ساکار ہو گا ؟ کیا میں کبھی ماسٹر نہیں بن سکوں گا ؟ کیا یہ نوکری مجھ سے چھوٹ جائے گی؟ کیا میں بھی اپنے والد کی طرح رکشا کھینچوں گا ؟ آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں صاحب بولئے آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ؟

شیکھر نے اپنے حواس کو مجتمع کئے اور بولا منموہن تم بہت دور نکل گئے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ تم ضرور ماسٹر بنو گے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ تم ماسٹر ضرور بنوگے لیکن پھر جیسا کہ تم نے خود کہا بھاگیہ کا لکھا کون پڑھ سکے ہے۔ یہ بات شیکھر سمن خود اپنے بارے میں کہہ رہا تھا منموہن کے بارے میں نہیں۔

موہن نے خوش ہو کر کہا جی شکریہ صاحب مجھے آپ جیسوں کا آشیرواد چاہئے بس۔ باقی سب میں خود کر لوں گا کافی وقت ہو گیا۔ کیا میں آپ کے لئے ناشتے کا پربندھ (انتظام) کروں۔ جی ہاں تم ناشتہ تیار کرو میں نہا کر آتا ہوں۔ یہ کہہ شیکھر حمام کی جانب جانے لگا تو موہن نے پوچھا جی صاحب فرمائیے کیا کھانا پسند کریں  گے  آپ ؟ شیکھر ہنس کر بولا آج میں تمہاری پسند کا ناشتہ کروں گا اور تمہارے ساتھ کیا سمجھے ؟شیکھر کو یقین تھا کہ منموہن کی پسند اس کی اپنی پسند ہو گی۔ منموہن نے کہا جی سرکار سمجھ گیا۔ میرا نام سرکار نہیں شیکھر سمن ہے کیا سمجھے ؟ موہن بولا  جی جناب! میں سمجھ گیا۔

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد شیکھر بستر پر دراز ہو گیا اور موہن کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے یک گونہ اطمینان سا محسوس ہو رہا تھا۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اس کے غم کو غم کاٹتا ہے اور خوشی کو خوشی کاٹتی ہے۔ جب وہ خوش ہوتا ہے اور کسی کو اپنے زیادہ سے  خوش دیکھنا نہیں چاہتا اور جب کسی کو اپنے سے زیادہ خوش دیکھتا ہے تو غمزدہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب وہ غمگین ہوتا ہے اور ایسے میں جب کسی کو اپنے سے زیادہ غمگین دیکھتا ہے تو خوش ہو جاتا ہے۔ یہ ریاضی کا وہی اصول ہے جہاں نفی ضرب نفی کا جواب نفی مربع نہیں بلکہ اس کے برعکس جمع ہو جاتا ہے۔

 شیکھرقیدِ تنہائی کا عذاب جھیل  رہا تھا لیکن قدرت نے اس کے لئے موہن کی صورت میں وقت گزاری کا اہتمام کر دیا تھا۔ شیکھر نے اسے دورانِ قیام کالج جانے کی بھی اجازت دے دی تھی۔ وہ پہرے داروں سے یہ کہہ کر کالج چلا جاتا کہ صاحب نے کسی کام سے بھیجا ہے۔ شیکھر نے موہن سے اپنی دلچسپی کی کئی کتابیں اور رسائل منگوا لئے تھے جنھیں وہ وقت گزاری کے لئے پڑھتا رہتا تھا اور جب ان سے طبیعت اکتا جاتی تو موہن سے بات چیت کر کے دل بہلا لیتا یہ سلسلہ ایک ہفتہ جاری رہا لیکن پھر موہن نے اطلاع دی کہ کل پپو یادو آنے والے ہیں اور مجھے دودن کی چھٹی دے دی گئی۔ اب میں یہاں تیسر ے دن آؤں گا۔ شیکھر نے پوچھا کہ موہن اس جیل میں اگر تم نہیں آؤگے تو میں  مرجاؤں گا۔

موہن مسکرایا اور بولا شیکھر صاحب اس شاندار مہمان خانے کو آپ جیل خانہ کہتے ہیں ؟  یہاں آپ کو ہر طرح کی عیش و عشرت کا سامان مہیا ہے۔ آخر کس چیز کی کمی ہے آپ مجھے بتلائیے میں ابھی حاضرکئے دیتا ہوں۔ شیکھر نے موہن ویسے تو جیل میں بھی سارا سامانِ عیش مہیا ہوتا ہے۔ کھانا، کپڑا، بستر، کمرہ سب کچھ سرکاری اور بالکل مفت اس کے باوجود ہر شخص وہاں سے رہا ہوکر باہرکی دنیا آنا چاہتا ہے جہاں ہر شہ کی اپنی قیمت ہے۔ ہر چیز کے لئے محنت اور تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ بے شمار اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جن کا جیل میں کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔

موہن سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا صاحب چھوٹا منھ بڑی بات لیکن کیا  میں آپ کو ایک مشورہ دے سکتا ہوں ؟ شیکھر نے کہا کیوں نہیں ! ایک کے بجائے دو مشورے دو۔ ویسے ان پر عمل کرنا یا نا کرنا تو میری اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ موہن بولا جی ہاں جب تک میں یہاں کا جیلر ہوں  اس جیل کے اندر بھی آپ کو یہ آزادی حاصل ہے۔ لیکن تمہارا مشورہ کیا ہے۔ شیکھر نے سوال کیا۔  میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ  کتابیں پڑھنا بند کر دیجئے۔

شیکھر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا وہ بولا کیوں میرے مطالعہ کرنے سے تمہیں کیا پریشانی  ہے ؟ موہن بولا صاحب پریشانی مجھے نہیں آپ کو ہے اور سچ تو یہ ہے کہ میں آپکو پریشان نہیں دیکھ سکتا۔ شیکھر بولالیکن مجھے تو کوئی  پریشانی نہیں  ہے بلکہ  میرا تو وقت بڑے آرام سے گزر جاتا ہے۔ موہن بولا وقت تو ان لوگوں کا بھی گزر ہی جاتا ہے جو کچھ نہیں پڑھتے۔ لیکن آپ پڑھتے ہیں اور پھر سوچتے بھی ہیں۔ وہ لوگ جو باہرچوکیداری کرتے ہیں وہ نہ کچھ پڑھتے ہیں اور نہ کچھ سوچتے ہیں۔

شیکھر نے سوال کیا لیکن  ان سے میرا کیا تعلق ؟ دراصل وہ آپ کی طرح بہکی بہکی باتیں نہیں کرتے۔ موہن نے سر جھکا کر کہا۔ بہکی بہکی باتیں ؟ کیا میں تمہیں پاگل  دکھائی دیتا ہوں ؟ شیکھر نے پھر سوال کیا۔ جی نہیں  صاحب یہ میں نے کب کہا۔ آپ تو مجھے بہت زیادہ سیانے دکھائی دیتے ہیں اور یہی آپ کا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ان کتابوں کی وجہ سے ہے جو آپ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی مہمان خانے کو جیل خانہ اور کبھی جیل خانہ کو ۰۰۰۰۰۰۰۰ میرا مطلب ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ میں گستاخی کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ اب ہماری ملاقات تین دن بعد ہو گی اگر  ۰۰۰۰۰۰۰۰۰شیکھر نے پوچھااگر کیا؟

موہن بولا اگر آپ پپو یادو کے ساتھ نہیں گئے یا وہ آپکو یہیں چھوڑ گئے تو ورنہ بھگوان جانے ہم پھر کب ملیں گے ؟ بلکہ ملیں گے بھی یا نہیں ؟موہن روہانسا ہورہا تھا۔ شیکھر نے کہا تم ایسا کیوں سوچتے ہو موہن ؟ ہم ملیں گے اور ضرور ملیں گے۔ جی ہاں شیکھر صاحب میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ ہم ملیں اور ضرور ملیں۔ اس لئے مجھے آپ جیسا سجنّ پوروش (نیک انسان) کبھی زندگی میں نہیں ملا اور میں نہیں جانتا پھر کہ کبھی ملے گا یا نہیں۔ یہ کہہ کر موہن نے سلام کیا اور باہر کی جانب نکل گیا۔

شیکھر سوچنے لگا  آزادی ومحصوری میں یہی تو فر ق ہے کہ موہن چلا گیا اور وہ نہیں جا سکتا۔ لیکن موہن کب تک  اس طرح آزاد فضاؤں میں اڑتا پھرے گا اور کب اس کے پر کتر دئیے جائیں گے ؟ وہ نہیں جانتا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰کوئی نہیں جانتا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ موہن نے کتنا بڑا سچ کہا بھلا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰بھاگیہ کے لکھے کو آخر کون جان سکے ہے ؟

پپو یادو کی آمد سے قبل اس قید خانے کا سارا انتظام بدل گیا۔ ایسا لگتا تھا گویا وزیر اعظم کسی ڈاک بنگلہ میں قیام فرمانے والے ہیں۔ سب سے پہلے حفاظت کے انتظامات تبدیل ہوئے تمام مقامی لوگوں کودور کر دیا گیا اورسارا انتظام  سردار کے خاص محافظین اور مصاحبین نے سنبھال لیا۔ سامانِ خوردو نوش کے ساتھ شراب، شباب اور دیگر تفریحات کا اہتمام کر دیا گیا۔ رات بھر ناچ رنگ کی محفل سجی رہی۔ دوپہر ایک  بجے تک لوگوں نے آرام کیا۔ اس کے بعد کھانے پینے کا سلسلہ تین بجے تک چلا اور شام پانچ بجے شیکھر کو سردار پپو یادو کے دربار میں حاضر کر دیا گیا۔ شیکھر نے سلام کیا تو پپو نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔ ویسے تو شیکھر کئی مرتبہ سردار سے مل چکا تھا مگر ہاتھ ملانے کا یہ پہلا اتفاق تھا اور وہ حیرت زدہ تھا کیوں کہ پپو یادو جیسے ظالم اور سفاک آدمی کا ہاتھ کسی بچے کی طرح ملائم تھا۔ اس وقت کمرے میں صرف دو لوگ تھے۔ پپو نے بیٹھنے کا  اشارہ کیا۔ شیکھر شکریہ ادا کر کے  بیٹھ گیا۔ پپو نے پوچھا۔ اب کیسے ہو ؟ کیسی گزر رہی ہے ؟

شیکھر بولا ایشور کی کرپا  اور آپ کے آشیرواد سے سب ٹھیک ہے۔  پپو نے ہنس کر کہا ہمارا آشیرواد؟ ہمارا آشیرواد تم نے لیا ہی کب ؟ بتایا تک  نہیں۔ چپ چاپ چوروں کی طرح نکل لئے۔ شیکھر بولا جی  ہاں سرکار۔ وہ میری غلطی تھی۔ مجھے آپ کو بتانا چاہئے تھا اور اجازت لینی چاہئے تھی۔ پپو بولا خیر یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور تم نے اس کا اعتراف بھی کر لیا لیکن کیا میں جان سکتا ہوں کہ تمہیں  اس امر کا احساس کب ہوا؟

شیکھر کے لئے یہ ایک نازک سوال تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا جواب سردار کو آگ بگولہ کر دے گا لیکن پھر اس نے سوچا ویسے بھی اس کا انجام دردناک ہی ہونا ہے تو کیوں  نہ سچ پر قائم رہا جائے۔ شیکھر نے  اپنے تئیں فیصلہ کیا کہ وہ اپنے انجام سے بے پرواہ ہو کر ہر سوال کا صحیح جواب دے گا۔ جناب اس غلطی کا احساس تو مجھے جانے سے قبل ہی ہو گیا تھا۔  پپو بولا بہت خوب ! تو گویا تم نے یہ مہا پاپ( گناہِ کبیرہ) جانتے بوجھتے کیا ہے ؟جناب ہر غلطی گناہ تو نہیں ہوتی۔ میں اسے پاپ نہیں سمجھتا۔

پپو نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اچھا تو رسی ّ کے بل ابھی نہیں گئے۔ خیر گناہ نہ سہی  غلطی سہی  لیکن آخر اس کی کوئی وجہ بھی تھی یا بلاوجہ  تم نے ایسا کیا ؟ شیکھر بولا جناب اس کی وجہ یہ تھی کہ میں آپ کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتا تھا۔ پپو نے کہا بہت خوب۰۰۰۰۰ کیا تمہارے بنا بتائے چلے جانے سے ہم خوش ہوئے ہوں گے ؟ شیکھر نے کہا جی نہیں لیکن شاید ناراضگی میں کمی بیشی کا فرق تو رہا ہی ہو گا۔

پپو نے سوال کیا وہ کیسے ؟شیکھر بولا مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ آپ اجازت نہیں دیں گے اور اس کے باوجود اگر میں حکم عدولی کروں گا تو وہ زیادہ سنگین جرم ہو گا۔ اچھا تو تمہیں ہماری مرضی کا پتہ تھا پھر بھی تم نے اس اقدام سے گریز کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ شیکھر جستہ جستہ پپو کے مکڑ جال میں پھنستا جا رہا تھا۔

شیکھر ڈھٹائی سے بولا  جی ہاں جناب لیکن وہ میری مجبوری تھی۔   پپو نے ترکی بہ ترکی سوال کیا مجبوری ؟ کیسی مجبوری ہم نہیں سمجھے ؟  شیکھر بولا جناب آپ کو تو پتہ ہے  اور آپ سے زیادہ  اس حقیقت کو کوئی اور نہیں جانتا کہ میں زیرِ زمین دنیا میں نادانستہ طور پر اپنی مرضی کے خلاف آ گیا تھا۔ پپو نے حیرت سے پوچھا تمہارا مطلب  یہ تو نہیں ہے کہ ہم تمہیں زبردستی تمہاری مرضی کے خلاف یہاں  گھسیٹ لائے۔

جی نہیں سرکار مجھ پر کسی نے زبردستی تو نہیں کی لیکن مجھے اس کا علم  نہیں تھا کہ میں جن راہوں پر چل پڑا ہوں وہ کہاں کو جاتی ہیں۔ میری  معاشی مجبوریوں نے مجھے آپ کے در تک پہنچایا اور آپ نے میرا تعاون کیا اس کے لئے میں تہہ دل سے آپ کا احسانمندہوں۔ پپو نے کہا تو  کیا اس احسانمندی کا یہی صلہ ہے کہ تم ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ کر فرار ہو جاؤ ؟

جناب اپنی دانست میں میں نے کوئی غداری نہیں کی لیکن اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو میں معافی کا خواستگار ہوں۔ میں ہاتھ پیر جوڑ کر آپ سے ونمر پرارتھنا(مؤدبانہ گزارش) کرتا ہوں کہ آپ مجھے بخش دیجئے۔ آپ مجھے بھول جائیے۔ یہ سمجھ لیجئے کہ میں آپ کے گروہ میں شامل ہی نہیں ہوا تھا یا آپ کے بہت سارے ساتھیوں کی طرح کسی مہم کام آ  گیا۔ شیکھر سمن مر کھپ کر ختم ہو گیا۔ شیکھر نے گڑگڑا کر کہا۔

پپو مسکرایا اور بولا اوپر کی دنیا کے لوگ احمقوں کی جنت میں ضرور رہتے ہیں لیکن زیرِ زمین ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ بھی  نہیں ہوتی۔ ہم اپنے آپ کو خیالی مفروضات سے نہیں بہلاتے۔ شیکھر سمن ہمارے ساتھ تھا، ہے اور رہے گا۔ ہم نہ یہ مان سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ آیا ہی نہیں تھا اور نہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ مر کھپ گیا ا  لاّ یہ کہ ۰۰۰۰۰۰۰

شیکھر نے کہا جناب آپ نے اپنا جملہ ادھورا کیوں چھوڑ دیا میں اسے پورا کرتے کرتے مر جاؤں گا۔ پپو نے مسکرا کر کہا یہی تو جملہ ہے ا لاّ یہ کہ تم واقعی مر کھپ جاؤ۔ پپو نہایت فیصلہ کن انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔ اس کے ہر ہر لفظ میں بلا کا اعتماد تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا وہ پتھر پر لکیر کھینچ رہا ہے۔

شیکھر نے کہا جناب آپ کی ساری باتیں بجا ہیں  لیکن اب میں ایک مدرس کے طور کوسی کلاں میں زندگی کے باقی دن گزارنا چاہتا ہوں کیا مجھے اس کی اجازت مل سکتی ہے ؟پپو بولا شیکھر تم نہایت ضدی مگر چالاک اسامی ہو۔ سچ کہتا ہوں تمہاری طرح بات بنانے والا آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ تمہیں اس فن میں جو ملکہ حاصل ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ خیر تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ تم اپنی ملازمت جاری رکھو لیکن اس کے ساتھ ہماری ایک شرط ہے۔

شرط ؟ کیسی شرط ؟میں آپ کی تمام شرائط کو تسلیم کر لوں گا۔ پپو بولا ہماری صرف ایک شرط ہے کہ تم جہاں بھی رہو گے جس حال میں  بھی رہو گے ہمارے گروہ سے وابستہ رہو گے۔ شیکھر نے سوال کیا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اسکول میں درس و تدریس کا کام بھی کروں اور آپ کے گروہ میں شامل بھی رہوں۔ ان دونوں ذمہ داریوں کا بیک وقت ادا ہونا مشکل ہے۔

ہم اس مشکل کو آسان کر دیں گے۔ پپو نے کہا۔ ہم تمہیں کسی ایسی مہم میں شامل نہیں کریں گے جس سے تمہاری روزمرہ کی سرگرمی متاثر ہوتی ہو۔ لیکن اسکول کے بعد بھی تو بہت سارا وقت ہوتا ہے۔ اساتذہ کو چھٹیاں بھی تو خوب ہوتی ہیں۔ اس دوران تم اپنے گروہ کے اندر جزوقتی طور پر کچھ نا کچھ کر ہی سکتے ہو  اور پھر اگر تم کسی خاص موقع پر معذرت چاہو گے تو اس پر بھی غور کیا جائے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو ہم اپنے ساتھیوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ ہم تمہیں گنوانا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔

شیکھر نہایت ادب کے ساتھ گویا ہوا  جناب  آپ کی عزت افزائی کا شکریہ لیکن ایک ایسے آدمی کوساتھ رکھنے سے کیا فائدہ جو کسی کام کا نہ ہو ؟جس کی کوئی خاص افادیت نہ ہو ؟ کیا اس سے بہتر  یہ نہیں  ہے کہ اسے سبکدوش کر دیا جائے ؟ ویسے بھی دنیا کا ہر فرد تو آپ کے گروہ میں شامل نہیں ہے۔

پپو بولا آپ کے نہیں اپنے کہو شیکھر۔ جو ہمارے گروہ میں شامل ہی نہیں ہوا اس سے ہمیں نہ کو ئی شکایت ہے اور نہ کوئی خطرہ۔ جو ہماری کسی مہم میں کام آ گیا وہ بھی ہمارے لئے بے ضرور ہو گیا لیکن جو شامل بھی ہوا ہو اور زندہ بھی ہو تو اس کا معاملہ مختلف  ہے۔

شیکھر نے کہا لیکن اگر میں آپ سے وعدہ کروں کہ میں اپنے گروہ کے خلاف کبھی زبان نہیں کھولوں گا۔ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچانے کا میں عہد کروں تب بھی میری خلاصی نہیں ہو سکتی۔ پپو نے حقارت سے کہا جہاں تک تمہارے وعدہ وعید کا سوال ہے !!! وعدہ خلافی کا ارتکاب تو تم کرہی چکے ہو۔ تم نے ابھی ابھی  تمام شرائط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا اور ہر شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کئے جا رہے ہو۔ تم ہمارے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہو اس لئے جب تک ہم سے وابستہ ہو اپنے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے لیکن جب یہ جدائی عمل میں آ جائے گی۔ شیکھر نے پوچھا اس کے بعد کیا ؟؟؟؟؟

پپو بولا اس کے بعد نہ کوئی ہمارا اختیار تم پر رہے گا اورنہ تمہارا کوئی عہد ہمارے کسی کام آئے گا۔ شیکھر میں تمہیں بتلادوں کہ زیر زمین دنیا میں صرف آنے کا راستہ زمین کے اوپر  سے آتا ہے لیکن یہاں سے جانے کا راستہ سیدھے برزخ میں جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری بات واضح ہو چکی ہے۔ اب فیصلہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ تم کل تک اپنے فیصلے سے آ  گاہ کر سکتے ہو۔

شکریہ جناب۔ میں آپ کو کل تک کی  زحمتِ  انتظار نہیں دینا نہیں چاہتا۔ میری آپ سے یہی گزارش ہے کہ میرا عالمِ برزخ کا ٹکٹ کٹوا دیجئے۔ پپو یادو کو اس جواب کی ہر گز توقع نہیں تھی وہ اپنی جگہ کھڑا ہوا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا تم نہایت ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ جری بھی ہو۔ پپو سے ہاتھ ملانے کے بعد پھر ایک بار شیکھر سوچ رہا تھا کہ آخر پپو جیسے ظالم و سفاک آدمی کا ہاتھ اس قدر نرم و نازک  کیوں ہے ؟

اس رات شیکھر سمن کو پپو کے کسی اور اڈے پر پہنچا دیا گیا جس کا مہذب نام مہمان خانہ تھا۔ پپو یادو کو یقین تھا کہ وقت کے ساتھ شیکھر سمن کا دماغ اپنے آپ درست ہو جائے گا اور وہ اپنی احمقانہ ضد سے باز آ جائے گا۔ بصورتِ دیگر ایک آخری علاج بھی اس کے پیشِ نظر تھا لیکن وہ اس بارے میں کسی جلد بازی سے کام لینا  نہیں چاہتا تھا۔

٭٭

  پپو یادو

سردار سے شیکھر کی دوسری ملاقات نہایت دلچسپ تھی۔ خلاف توقع پپو یادو اس بار نہایت خوش مزاجی کے ساتھ اس سے ملا تھا۔ گزشتہ ملاقات کی کوئی تلخی موجود نہیں تھی۔ سلام دعا کے بعد  خیر و عافیت کا تبادلہ ہوا۔ پپو نے پوچھا شیکھر تمہیں اس بیچ کوئی زحمت تو نہیں ہوئی۔ ویسے میں نے ہدایت کر رکھی ہے تمہاری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ مجھے امید ہے کہ یہ لوگ تمہارا خیال رکھ رہے ہوں گے۔ پھر بھی اگر کوئی شکایت ہو تو بلا تکلف اس کا اظہار کرسکتے ہو۔

شیکھر نے کہا آپ کی کرم فرمائی کا شکریہ۔ یہ تمام لوگ مجھے آپ کا خاص آدمی سمجھتے ہیں اور  بڑی خدمت کرتے ہیں۔ پپو بولا یہ لوگ سے تمہاری  مراد کیا ہے ؟  تم خود ایسا نہیں سمجھتے ؟ شیکھر بولا کیوں نہیں۔ میرا مطلب ہے میں تو سمجھتا ہی ہوں لیکن یہ بھی۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

پپو بولا میں سمجھ گیا۔ دیکھو شیکھر میں ہمیشہ ہی تمہارا خیر خواہ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے اندر بے شمار صلاحیت ہے اور تم بہت اوپر جا سکتے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے سنا کہ تم ایک سرکاری ملازمت اور وہ بھی ٹیچری پر راضی ہو گئے ہو تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نہیں چاہتا کہ تم تختِ سیاہ پر چاک گھستے گھستے اپنے بالوں کو سفید کرو۔ یقین کرو اس ملازمت میں کچھ بھی رکھا نہیں ہے۔ اس سے دو وقت کی روٹی تو مل جاتی ہے لیکن دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہے ؟

شیکھر نے کہا جی ہاں جناب میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن فی الحال میں اس ملازمت پر قناعت کر کے اپنی زندگی کے باقی دن گزار دینا چاہتا ہوں۔ پپو بولا تمہارا یہ جملہ گواہی دے رہا ہے کہ اس دو ٹکے کی  ملازمت نے تمہیں ابھی سے بوڑھا کر دیا ہے۔ یہی وہ نفسیات ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ایسے جملے تو انسان اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں کہتا ہے جبکہ ابھی  تو تم جوان ہو۔

شیکھر نے مسکرا کر کہا جناب زندگی کا آخری مرحلہ تو عمر کے کسی بھی حصہ میں آ سکتا ہے اور نہ جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہوں۔ پپو یادو کو شیکھر سمن کے ان الفاظ نے چونکا دیا۔ وہ بولا شیکھر تم اس طرح مایوسی کی باتیں نہ کرو۔ کہیں اس حزن و یاس کے لئے میں تو ذمہ دار نہیں ہوں اگر ایسا ہے تو میں آج ہی تمہیں واپس بھیج دیتا ہوں۔ شیکھر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ حیرت و استعجاب میں ڈوبا یہ سب سن رہا تھا۔  اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا خواب دیکھ رہا ہو۔

پپو نے بات آگے بڑھائی اور بولا تم مجھے اپنا دشمن نہ سمجھو۔ ایک نہایت حسین و جمیل زندگی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ میں تمہیں خوش و خرم دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بہت بڑے آدمی بنو۔ آسمانِ دنیا پر ستاروں کی طرح جگمگاؤ۔ شیکھر بولا آپ کی باتیں کانوں کو تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتیں۔ مجھے تو یہ سب خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری بہتری اسی میں ہے کہ میں دوبارہ  کوسی کلاں کے اسکول میں جاؤں ، وہاں بچوں کو پڑھاؤں اور سکون کے ساتھ زندگی کے  باقی دن گزاروں۔

پپو بولا  شیکھر ابھی تم اکیلے ہو۔ تم پر اپنے گھر کی محدود ذمہ داریاں ہے اس لئے تمہیں سب  پر سکون لگتا ہے۔ کل جب تمہاری بہن کی شادی کا وقت آئے گا تو تمہارا چین و سکون ہوا ہو  جائے گا۔ سرکاری مدرس کی ملازمت سے تم اس کے جہیز کا انتظام نہیں کر سکتے۔ خدا نخواستہ والدین کو علاج کی ضرورت پڑے گی تب بھی تمہاری ماسٹری تمہارے کام نہ آ سکے گی۔ پھر تمہاری بیوی بچے وہ بھی ساری عمر کسمپرسی کی زندگی گزاریں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کیوں تم اپنی دشمنی پر اتارو ہو ؟

لیکن جناب اس نوکری کو چھڑوا کر جو کام آپ مجھ سے کروانا چاہتے ہیں اس کا انجام یا تو جیل کی چہار دیواری ہے یا پولس کی گولی اور میں ان دونوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ شیکھر نے حوصلہ مجتمع کر کے جواب دیا۔ اس جواب کو سننے کے بعد پپو یادو کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات ظاہر ہوئے۔ اس نے بے ساختہ کہا شیکھر مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں آسمان پر اڑنے والا پرندہ سمجھتا تھا لیکن تم زمین پر رینگنے والے کیڑے نکلے۔ اس کے بعد فوراً اپنے آپ کو سنبھال کروہ  بولا شیکھر برا نہ ماننا  میرا یہ تبصرہ تمہاری ذات کے متعلق نہیں بلکہ سوچ کے حوالے سے تھا  اور اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تم جن سخت حالات سے گزرے ہو اس میں اگر میں بھی ہوتا تو یہی سوچتا لیکن یاد رکھو ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘

 شیکھر مسکرا کر بولا جی ہاں جناب آپ بجا فرماتے ہیں لیکن مجھ  میں عشق کے امتحانات سے گزرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ بہت خوب میں تمہاری حاضر دماغی کی داد دیتا ہوں۔ یہ حوصلہ میں تمہارے اندر پیدا کروں گا۔ میرے پاس تمہارے لئے ایک منصوبہ ہے۔ جس پر میں تم سے کچھ دیر بعد بات کروں گا۔ ابھی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ میں شام میں لوٹ کر آؤں گا اور پھر ہم بات آگے بڑھائیں گے۔  پپو اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا یہ دیکھ کر شیکھر بھی فوراً سیدھا ہو گیا۔ پپو نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ شیکھر نے عقیدت سے ہاتھ ملایا اور سوچنے لگا پپو جیسے سفاک اور ظالم کے ہاتھ اس قدر نرم کیوں ہیں ؟ اس کے اندر سے آواز آئی اس کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ دل بھی ۰۰۰۰۰۰پھول کی طرح کومل ہے۔

پپو جا چکا تھا اور شیکھر اپنے بستر پر لیٹا اس گفتگو پر غور کر رہا تھا۔ پپو کو دراصل کوئی کام نہیں تھا۔ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ شیکھر اس کی باتوں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرے۔ اگلے منصوبے کا بیج ڈالنے کے لئے شیکھر کے دل کی زمین کا نرم ہونا ضروری تھا۔ پپو اپنا حل چلا چکا تھا اسے یقین تھا کہ جب وہ بیج ڈالے گا تو اس میں سے نہایت تنا ور درخت برآمد ہو گا۔ وہ درخت جو آسمان سے باتیں کرے گا اور پپو یادو کا نام دنیائے سیاست میں روشن کر دے گا۔ پپو یادو کا ایک خواب تھا۔ وہ جرائم کی دنیا کے بجائے سیاست کی دنیا میں اپنے قدم جمانا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ وہ کہیں اور ہی نکل گیا  اور جس وقت اسے اپنی گم کردہ راہ کا احسا س ہوا بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ ایک ایسی بند گلی میں پہنچ چکا تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔

پپویادو کو کئی لوگ ایک کامیاب ترین انسان سمجھتے تھے لیکن اس کی زندگی میں ایک محرومی یہ تھی کہ وہ بے اولاد تھا۔ انسان ان ارمانوں کو جنہیں خود پورا نہیں کر پاتا اپنی اولاد کے اندر پایۂ تکمیل تک پہنچتا  ہوا دیکھ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا ہے۔ وہ جو کچھ خود نہیں بن پاتا اپنی اولاد کو بنا کر خوش ہو جاتا ہے لیکن پپو کے لئے یہ بھی ممکن نہیں تھا۔ اس نے اولاد کی خاطر کئی شادیاں کیں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے اپنا علاج کروایا لیکن ساری تگ و دو بے سودثابت ہوئی۔ ڈاکٹر یہی کہتے رہے ساری رپورٹ نارمل ہے۔ سارے وید اور حکیم  یہی کہتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے مگر سنتان(اولاد) ایشور کے ہاتھ ہے۔

پپو جب اولاد کے سکھ سے پوری طرح مایوس ہو چکا تھا اس وقت اس کی ملاقات شیکھر سے ہو گئی جو ملازمت کی تلاش میں اس سے ٹکرا گیا۔ شیکھر سے ملنے کے بعد پپو کو ایسا لگا کہ اسے اس کا جوان بیٹا مل گیا ہے۔ پپو نے اسے فوراً اپنے  ایک مہمان خانے کی دیکھ ریکھ پر رکھ لیا اور دیگر لوگوں کو ہدایت کر دی کہ اسے کسی خطرناک مہم میں شامل نہ کیا جائے۔  پپو کو پتہ تھا کہ شیکھر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے اور پپو بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرتا رہے۔ اس نے شیکھر کے تعلیمی سفر میں نہ خود رخنہ اندازی اور کسی کو اس کی اجازت دی۔

پپو یادومناسب وقت کے انتظار میں تھا  جبکہ وہ شیکھر کو اپنا منصوبہ بتا کر اس میں اسے شامل کرے لیکن اس سے پہلے سب کچھ بدل گیا۔ شیکھر سمن نے اسے بتائے بغیر محکمہ تعلیم میں عرضی جمع کرائی اور منتخب ہو کر چپ چاپ غائب ہو گیا۔ اس واقعہ سے پپو یادو کو بڑا صدمہ پہنچا۔ اسے شیکھر سے اس رویہ کی ہر گز امید نہیں تھی۔ اس نے اپنے آدمیوں سے پتہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کہاں گیا ہے ؟ اسے خوف تھا کہ کسی حریف گروہ نے تو اسے اچک نہیں لیا اس لئے کہ جرائم کی دنیا میں  غداری کی کم از کم سزا موت ہے۔ پپو یادو کے لئے شیکھر پر اس سزا کا نفاذ نہایت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔

پپو یادو کو جب پتہ چلا کہ شیکھر جرائم کی دنیا سے نکل کردرس و تدریس کی دنیا  میں چلا گیا ہے تو اسے قدرے اطمینان ہوا۔ اب وہ اسے اپنے پاس واپس لانا چاہتا  تھا۔ اسی لئے اس نے شیکھر کے اغواء کا منصوبہ بنوایا۔ شیکھر کو سمجھانے کی خاطر اس نے  سب سے پہلے احسانمندی کا سہارا لیا لیکن وہ حربہ کامیاب نہ ہو سکا تو اس نے ڈرانے  دھمکانے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پپو یادو نے  جب دیکھا کہ یہ گھوڑا چابک سے قابو میں نہیں آتا تو اس نے گاجر کے استعمال کا  منصوبہ بنایا لیکن اس سے پہلے کہ اس پر عمل کرتا اس کی ملاقات  رنجیت  سے ہو گئی جس نے معاملہ کو ایک نیا موڑ دے دیا۔ سچ تو یہ ہے رنجیت کی طرح پپو یادو کو بھی شک ہو گیا تھا کہ مبادہ بلدیو کے اغوا میں شیکھر کا ہاتھ ہوسکتا ہے  لیکن یہ ایک قیاسِ  محض تھا۔ ابھی تک شیکھر کی جانب سے اس بارے میں کوئی اشارہ نہ ملا تھا۔ پپو یادو نے جب دیکھا کہ شیکھر پوری طرح اس کے  شکنجہ میں آچکا ہے۔ اس نے سوچا  اب  اپنے منصوبے کو مزید التوا میں نہ ڈالا جائے اور کھل کر شیکھر سے بات کر لی جائے۔  پپو کو یقین تھا کہ اگر کسی صورت شیکھر  رنجیت کے ہتھے چڑھ گیا تو بے موت مارا جائے گا۔

شام کے وقت جب پپو یادو شیکھر سے ملاقات کی غرض سے آیا تو ماحول یکسر بدلا ہوا تھا۔ شیکھر دباؤ کی کیفیت سے ابھر چکا تھا۔ دونوں نے بڑے دنوں بعد ایک ساتھ کھانا کھایا اور اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔ شیکھر نے پپو کی اہلیہ ننکی کے بارے میں دریافت کیا جسے وہ چاچی کہتا تھا۔ پپو ان مثبت تبدیلیوں سے بہت خوش تھا۔ کھانے کے بعد پپو یادو نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا شیکھر میں نے صبح اپنے ایک دیرینہ منصوبے کا ذکر کیا تھا مجھے یقین ہے کہ اسے معلوم کرنے میں تمہیں دلچسپی ہو گی۔

شیکھر نے پر تپاک انداز میں کہا جی ہاں جناب مجھے خوشی ہو گی اگر آپ مجھے اس کے بارے میں بتلائیں اور اگر میں اس پر عمل درآمد میں کسی کام آ سکا تو اسے میں اپنی سعادت سمجھوں گا۔ پپو خوش ہو کر بولا مجھے تم سے یہی امید تھی شیکھر۔ پپو کہنا تو چاہتا تھا میرے بیٹے لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ وہ کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ دراصل میں خود نہیں چاہتا کہ تم جرائم کی دنیا میں آؤ لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ تم مجھ سے دور جاؤ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو میرا مطلب ہے  مجھ سے وابستہ رہو۔

 شیکھر نے کہا کہ یہ تو ناممکن ہے جناب۔ ہمارا ساتھ تو اسی وقت ممکن ہے جبکہ میں آپ کی دنیا میں آؤں یا آپ اس سے باہر آئیں۔ اگر آپ یہ نہیں چاہتے تو کیا اس کا مطلب میں یہ سمجھوں کہ آپ بھی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰الفاظ نے شیکھر کا ساتھ چھوڑ دیا۔

کاش کہ ایسا ممکن ہوتا۔ پپو یادو نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔ شیکھر جو کام تمہارے لئے اس قدر آسان ہے وہ میرے لئے ناممکن ہے۔ میں نے اس بیچ بہت سارے دشمن پیدا کر لئے ہیں اور ان میں سے ہر کوئی میرے خون کا پیاسا ہے۔ جرائم کی دنیا جس میں عام آدمی غیر محفوظ ہو جاتا وہی میری حفاظت کی ضمانت ہے۔ جس دن میں اس سے باہر آؤں گا میرے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ اب چاہ کر بھی میں وہ نہیں کرسکتا جو تم کرسکتے ہو۔ یہ زیرِ زمین دنیا اب میری ضرورت نہیں بلکہ مجبوری ہے۔

شیکھر بولا جی ہاں جناب مجھے اس کا احساس ہے اوراسی مجبوری سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے میں نے وہ فیصلہ کیا تھا جو آپ کو ناگوار گزرا۔ پپو لپک کر بولا تمہاری سوچ محدود ہے شیکھر اس لئے تمہارا  فیصلہ ناقص ہے۔ تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ دو لوگوں کو ایک دوسرے وابستہ رہنے کے لئے ایک ہی دنیا کا باشندہ ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میں زیر زمین ہی رہوں اور تم اوپر کی دنیا میں رہو اور ہمارے درمیان تعلقات استوار رہیں۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟  لوگ تو ابھی سے مجھے آپ کے گروہ کا آدمی سمجھنے لگے ہیں۔ شیکھر نے اندیشہ ظاہر کیا۔ پپو بولا کیوں نہیں ہوسکتا   بالکل ہو سکتا ہے۔ دراصل ایک زمانے تک میں بھی وہی سوچتا رہا جو کہ تم ابھی سوچ ر ہے ہو۔ مجھے کوئی ایسی صورت دکھلائی  نہ دیتی تھی جس سے یہ تعلقات استوار رہ سکیں لیکن تمہاری ایک حماقت نے مجھ پر یہ راز فاش کر دیا کہ یہ ممکن ہے۔

شیکھر بولا میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کی بات سمجھ نہیں سکا  اگر وضاحت فرمائیں تو احسان ہو گا۔ پپو نے بات آگے بڑھائی شیکھر یہ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ دیکھو گو کہ  ایک عرصہ تک تم میرے ساتھ وابستہ ضرور رہے ہو لیکن اس کے باوجود تم پر کسی جرم میں عملاً ملوث ہونے کا نہ الزام ہے اور نہ ثبوت۔ شیکھر نے اعتراف کیا اور بولا جی ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نے مجھے ہمیشہ ہی مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رکھا

پپو بولا اور اب تو یہ بھی مشہور ہو گیا ہے کہ تم نے مجھ سے پیچھا چھڑا کر ایک عام استاد کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شیکھر نے کہا جی ہاں یہ بھی درست ہے پپو بولا تو کیوں نہ  ہم اس غلط فہمی کو مزید تقویت پہنچائیں اور عوام کو یہ باور کرائیں کہ ہمارے تعلقات حقیقت میں منقطع ہو چکے ہیں۔ شیکھر بولا اس کے لئے کوئی محنت درکار نہیں ہے اس لئے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے۔

پپو بولا جی ہاں یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ اس سورج کی کرنیں ہم ہر گھر تک پہنچا دیں گے لیکن جب یہ سورج ڈھل جایا کرے میرا مطلب ہے  رات کی تاریکی اسے نگل جائے تو ہم پھر ساتھ ہو جایا کریں  گے۔ شیکھر نے حیرت سے سوال کیا لیکن اس سے حاصل کیا ہو گا ؟ پپو نے جواب دیا یہ تمہاری سمجھ میں اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک تم پورا منصوبہ نہیں جان لیتے۔

شیکھر بولا جی ہاں تو برائے کرم  آپ اب اپنا منصوبہ بتائیں۔ پپو نے کہا بہت خوب  یہ میرا اکیلے کا نہیں بلکہ ہم دونوں کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس میں ہم دونوں کا کردار یکساں اہمیت کا حامل  ہے ؟ جی ہاں سمجھ گیا لیکن آخر منصوبہ کیا ہے ؟شیکھر نے پھر سوال کیا۔

پپو بولا دراصل میں چاہتا ہوں کہ تم انتخاب لڑو۔ انتخاب !!! لیکن مجھے نہ ہی سیاست کی کوئی شد بد ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دلچسپی ہے  اور تو اور انتخاب لڑنے کے لئے جن ذرائع اور وسائل کی ضرورت پڑتی ہے  میں انہیں کہاں سے فراہم کروں گا؟ کون سی پارٹی مجھے ٹکٹ دے گی اور کون مجھے ووٹ دے گا ؟ یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں انکل۔ میں خوابوں  میں نہیں حقیقت کی دنیا میں رہتا ہوں۔

شیکھر جب پہلی مرتبہ پپو سے ملا تھا تو اس نے کہا تھا  انکل میں بہت مجبور ہوں مجھے کام پر رکھ لیجئے۔ بعد میں جب اسے پتہ چلا کہ پپو یادو کون ہے تو اس نے انکل کے بجائے اسے جناب، صاحب، سرکار یا سردار کہنا شروع کر دیا تھا۔ آج ایک طویل مدت کے بعد اس کے منہ سے بے ساختہ یہ اپنائیت بھرا لقب ادا ہو گیا تھا۔ پپو یادو کو اس لفظ نے برسوں پیچھے پہنچا دیا۔ اس نے کہا یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں بیٹے۔ یہ سب کا سب حقیقت میں موجود ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔

پپو اور شیکھر اب کسی اور سطح پر گفتگو کر رہے تھے ان کے درمیان کے فاصلے ختم ہو چکے تھے اب نہ کوئی آقا تھا اور نہ کوئی غلام۔ سرداری کی دیوار گر  چکی تھی۔ پپو یادو نے کہا میں تمہارے ہر سوال کا جواب ایک ایک کر کے دوں گا۔ تمہیں  اگر سیاست کی شد بد نہیں ہے تو وہ ہو جائے گی اس لئے کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ مجھ جیسے جاہل اس کی سمجھ پیدا کر لیتے ہیں۔  تم تو خیر پڑھے لکھے نوجوان ہو۔  جہاں تک سیاست  میں دلچسپی کا سوال ہے وہ  اس میدان میں قدم رکھنے  کے بعد  اپنے آپ پیدا ہو جائے گی۔ جب انسان کسی کام کو کرنے لگتا ہے اس میں دلچسپی بھی از خود پیدا ہونے لگتی ہے یہ ایک فطری امر ہے۔ انتخاب لڑنے کے لئے جن ذرائع وسائل کی ضرورت پڑتی ہے  وہ میرے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ دولت اور افرادی قوت کی میرے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ چونکہ اس کام میں ہم ساتھ ساتھ ہیں اس لئے جو کچھ میرا ہے وہ تمہارا ہے۔

اب آتے ہیں پارٹی کے ٹکٹ پر جہاں تک پارٹی کے ٹکٹ کا سوال ہے  میں دولت کے زور سے نہ صرف سائیکل بلکہ ہاتھی بھی خرید سکتا ہوں۔ اگر تم چاہو تو ہاتھ یا کمل کی بولی بھی لگا دوں۔ اکثر جماعتیں اپنا ٹکٹ فروخت کر دیتی ہیں۔ میں اسے باآسانی واجبی داموں پر خرید کر تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر تم ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی کھڑے ہو جاؤ تو انتخاب جیت جاؤ گے۔ ایک تو اس علاقے میں ہماری برادر ی کے کافی لوگ ہیں جب ان کو پتہ چلے گا کہ تم ہمارے آدمی ہو تو سارے یادو ووٹ تمہیں کو پڑیں گے۔ پھر لالچ اور دھونس دھمکی بھی تو اپنا کام کرے گی آخری حربہ بوتھ پر قبضہ کا ہے۔ اس کے لئے ہم لوگ چند ایسے علاقوں کا انتخاب کریں گے جہاں کے رائے دہندگان تو تمہارے مخالف ہوں مگر پولس اور انتظامیہ ہماری حامی ہو۔ مجھے تو یقین  ہے کہ اگر تم الیکشن لڑ جاؤ تو تمہیں جیتنے سے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا۔ اس علاقے کے وہ لوگ جو میرے مخالف ہیں وہ تمہیں میرا مخالف سمجھ کر ووٹ دیں گے اور جو میرے حامی ہیں انہیں بتا دیا جائے گا کہ اندر ہی اندر تم مجھ سے ملے ہوئے ہو۔

پپو یادو کا منصوبہ سن کر شیکھر کا سر چکرا گیا۔ اس قدر جھوٹ، دغا بازی، دھوکہ دھڑی، منافقت اور قتل غارتگری تو زیرِ زمین دنیا میں بھی نہیں ہوتی۔ اس نے سوچا سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے  سے تو بہتر ہے کہ انسان جرائم کی دنیا میں واپس چلا جائے۔ اس میں انسان کسی کو دھوکہ تو نہیں دیتا۔ وہ اندر اور باہر سے وہی ہوتا ہے جو ہوتا ہے جیسے پپو یادو۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے اور کیا ہے ؟  لیکن شیکھر سمن بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا۔ جس کے پاس معصوم عوام تحفظ کی خاطر آئیں اور وہ ا نہیں اپنا تر نوالہ بنا لے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ پپو یادو نے پوچھا کیا سوچ رہے ہو بیٹے ؟ کن سپنوں میں کھو گئے ہو تم ؟ آج جو خواب تم دیکھ رہے ہو کل وہ سب حقیقت بننے والے ہیں۔

شیکھر یہ سن کر اپنی کرسی  سے اٹھا  اور پپو یادو کی کرسی کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔ پپو کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ وہ پپو کے پیروں کو پکڑ رونے لگا اور دیر تک روتا رہا۔ پپو بھی اپنے جگہ سے اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا  اور بولا بیٹے شیکھر یوں ہی روتے ہی رہو گے کہ کچھ بولو گے بھی۔ بولو کچھ تو بولو۔

شیکھر نے کہا انکل آپ کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں۔ میں ساری عمر آپ کی غلامی کر کے بھی آپ کا احسان نہیں اتار سکتا۔ لیکن میری آپ سے یہی پرارتھنا (گزارش ) ہے کہ آپ برائے مہربانی مجھے سیاست کے د لدل میں نہ دھکیلیں۔ میں جرائم کی دنیا میں رہنا گوارہ کر لوں گا لیکن سیاست میں نہیں جاؤں گا۔ میں وہاں زندہ نہ رہ سکوں۔ میرا دم گھٹ جائے گا۔ میں مر جاؤں گا۔ پپو اس نئی صورتحال کے لئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اس نے کہا بیٹے رات کافی ہو چکی ہے۔ اب تم سوجاؤ۔ ہم کل صبح بات کریں گے۔

اس کے بعد دونوں اپنی اپنی خوابگاہ میں چلے گئے لیکن کوئی نہیں سویا۔ نیند کا کہیں دور دور تک اتہ پتہ نہیں تھا۔ شیکھر کو ایسا لگ رہا تھا گویا اس کے ایک جانب بھڑکتی ہوئی  آ گ ہے اوردوسری طرف گہری کھائی ہے۔ ان دونوں سے بڑی مشکل درمیان میں کھڑے ہوئے پپو انکل ہیں کہ آخر انہیں کس طرح سمجھایا جائے۔ پپو یادو کی حالت اور بھی خراب تھی اس نے اپنے سارے پتے شیکھر کے سامنے کھول دئیے تھے۔ اب اس مرحلہ میں انکار کے بعد شیکھر کا زندہ رہنا پپو کی جان کے لئے زبردست خطرہ  بن گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا بصورتِ انکار ایسا کیا کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

 ٭٭

 

ننکی یادو

پپو یادو کی اگلی صبح شیکھر سمن سے آخری ملاقات ہوئی  دونوں ناشتہ کی میز پر جمع تھے۔ شیکھر سوچ رہا تھا کہ پپو یادو اگر رات کی بات کو بھول جائے تو اچھا ہے کہ اس بیچ پپو نے ایک حیرت انگیز سوال کیا شیکھر یہ بلدیو کون ہے ؟ پپو کی زبان پر بلدیو کا نام سن کر شیکھر چونک پڑا۔ اس نے سوچا کہیں پپوکی نگاہِ غلط اس معصوم پر تو نہیں پڑ گئی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا کیوں ؟

پپو نے کہا بس یونہی میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں ؟

شیکھر بولا کوسی کلاں یا بور کلاں میں رہنے والا کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ وہ بلدیو کو نہیں جانتا تو سمجھ  لیجئے کہ جھوٹ بولتا ہے۔ پپو کا استفسار تھا  میں کسی اور  کے بارے میں نہیں تمہارے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔  شیکھر نے کہا بلدیو سنگھ ولد کنور سچدیو سنگھ ولد بڑے ٹھاکرسکھدیو سنگھ دراصل میری کلاس بلکہ اسکول کا سب سے ہونہار طالب علم ہے  اور آگے چل وہی کوسی کلاں گاؤں کا سربراہ ہونے والا ہے۔ سارا گاؤں بڑی بے چینی سے اس کی تاجپوشی کا منتظر ہے۔

وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن فی الحال  وہ ہے کدھر اس بارے میں تم کچھ جانتے ہو؟ شیکھر نے حیرت سے سوال کے جواب میں سوال کر دیا۔ کدھر ہے ؟ کیا مطلب ہو گا اپنی حویلی میں یا مدرسہ میں یا باغ میں۔ انہیں تین  میں سے کسی مقام پر اس کے شب وروز بسرہوتے ہیں۔ پپو یادو بولا کیا تمہیں واقعی نہیں معلوم کہ وہ فی الحال ان تینوں میں سے کسی بھی مقام پر نہیں ہے ؟مجھے کیونکر پتہ ہو سکتا ہے ؟ میں پچھلے دو ہفتوں سے کوسی کلاں میں نہیں ہوں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جس دن مجھے یہاں لے کر آیا گیا  اس دن میں نے ہی اسے حویلی کے سامنے چھوڑا تھا  بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں حویلی کے پاس سے ابھی اپنے گھر بھی نہیں پہنچا تھا کہ رنویر اور رجنیش مجھے اپنے ساتھ لے کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ اس کے بعد کوسی کلاں میں کیا ہوا اس کی کوئی خبر مجھے نہیں ہے۔

تمہیں اگر نہیں پتہ تو میں بتلا دوں کہ  اس روز بلدیو نے حویلی میں قدم نہیں رکھا  اور کوسی کلاں کے لوگوں کو شک ہے کہ تم نے اس کو اغوا کر لیا۔ یہ کہہ  پپو یادو شیکھر کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات کو غور سے دیکھنے  لگا  تاکہ حقیقت کا پتہ چلایا جا سکے  لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ شیکھر کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ وہ بولا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟  میں نے خود اسے بالکل حویلی کے سامنے چھوڑا تھا۔ اس کا وہاں سے کہیں اور نکل جانا ناممکن تھا۔  لیکن      کہیں ۰۰۰۰۰۰۰

لیکن کیا شیکھر بولو رک کیوں گئے ؟پپو نے سوال کیا۔ شیکھر بولا دراصل میں سوچ رہا تھا کہ اس سے بچھڑنے کے چند ہی منٹ بعد میری ملاقات رنویر اور رجنیش سے ہوئی۔ اس کا مطلب  ہے کہ وہ دونوں وہیں اطراف میں موجود تھے۔ کہیں انہوں نے ہی تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ لیکن وہ دونوں تو میرے ساتھ آئے ۰۰۰۰۰  کہیں ان کے کسی اور ساتھی نے تو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰شیکھر خود کلامی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ بلدیو کے اغوا کی خبر نے اسے حواس باختہ کر دیا تھا۔

پپو یادو یہ سب غور سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ بلدیو کے اغوا میں شیکھر کا کوئی ہاتھ نہیں ہے  لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کے گروہ کا کوئی شخص  اس کی اجازت کے بغیر ایسا کوئی اقدام نہیں کرسکتا  اور اگر مجبوری میں ایسا کچھ کرنا پڑ جا تا تو پہلی فرصت میں اس کی اطلاع سردار تک پہنچائی جاتی۔ کسی کو اغوا کرنا اور سردار سے پوشیدہ رکھنا  ناممکن تھا۔  وہ سوچنے لگا کہ پھر آخر بلدیو گیا کہاں ؟ نہ حویلی میں گیا۔ نہ شیکھر نے اسے ٹھکانے لگایا اور نہ اس کے آدمی اسے اٹھا کر لائے تو بچہ کہاں غائب ہو گیا ؟ ا س سوال کا کوئی جواب پپو کے پاس نہیں  تھا  اور اس کا جواب حاصل کرنے کی ذمہ داری بھی اس کی نہیں تھی اس لئے اس نے اس سوال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ پپو یادو نے یہ کہہ کر شیکھر کو الوداع کہا کہ رنویر اور رجنیش کے فرشتوں کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ بلدیو کہاں ہے اس لئے ان پر شک کرنا فضول ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

پپو یادو اپنا سفر طے کر کے گھر پہنچا تو ننکی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ننکی نے شکایت بھرے انداز میں کہا آپ جاتے ہیں تو ہمیں بھول ہی جاتے ہیں۔  پپو بولا یہ کس دشمن کی اڑائی ہو ئی خبر ہے ننکی کہ ہم تمہیں بھول جاتے ہیں خیر جس نے  بھی افواہ اڑائی ہے وہ بہت بڑا  کاذب  ہے۔ پپو یاد نے و ننکی کو پچکارتے ہوئے جواب دیا۔

اچھا سچ سچ بتائیے آپ ایک ہفتہ سے باہر ہیں کیا آپ نے ہمیں ایک مرتبہ بھی یاد کیا۔ میری سوگندھ کھاکر سچ بتانا  ورنہ آپ  کی ننکی کا دیہانت (موت)ہو جائے گا۔ پپو یادو اپنے دماغ پر زور ڈال کر گزرے ہوئے ہفتہ کا  ایک ایک واقعہ کو یاد کرنے لگا اور اچانک اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ننکی سمجھ گئی کوئی اچھی خبر ہے وہ چہک کر بولی کہئے آپ نے مجھے کب اور کہاں یاد کیا ؟اسی کے ساتھ آپ کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ کیوں یاد کیا ؟

پپو یادو نے گھبرا کر کہا ارے ایک ساتھ اتنے سارے سوالات بھئی میں بھی انسان ہوں کوئی مشین نہیں کہ بٹن دبایا اور جوابات ایک ایک کے بعد نکلنے لگے۔ ننکی بولی اس میں مشین کی کیا بات ہے جب ہم اتنے سارے سوالات ایک ساتھ کر سکتے ہیں تو آپ جواب کیوں نہیں دے سکتے ؟اری پگلی تم نا سمجھوگی۔ سوال پوچھنے کے لئے کوئی عقل تھوڑے ہی لڑانا پڑتا ہے ، بس جو من  میں آیا پوچھ لیا لیکن جواب دینے کے لئے تو سوچنا پڑتا ہے نا۔

یہی تو ہے نا مرد ذات کا مسئلہ جواب بھی دیں گے تو سوچ سمجھ کر مرچ مصالحہ لگا کر۔ کاٹ چھانٹ کر۔ آپ لوگوں نے تو جیسے سچ نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ننکی نے تنک کر کہا۔ پپو بولا یہ آج تمہیں کیا ہو گا ہے ننکی۔ تم میرے توسط سے ساری مرد ذات کو کوسنے لگیں۔ ننکی بولی سوال مردوں کو کوسنے کا نہیں ہے۔ سوال آپ لوگوں کے سوچنے کا ہے خیر آپ نے میرے تین سوالات میں سے ابھی تک کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا ہے ہاں۔

بھئی ویسے تو تنہائی میں کئی بار یاد کیا لیکن پرسوں جب میری ملاقات اپنے شیکھر سمن سے ہوئی تو اس نے بھی تمہیں یاد کیا اور پرنام  بھیجا ہے۔ ننکی بولی اوہو  آپ تو کہہ رہے تھے کہ وہ کہیں فرار ہو گیا ہے۔ کیا وہ واپس آ گیا۔ کہاں ہو گئی آپ کی اس سے بھینٹ ؟ اور وہ کیسا ہے ؟اب پھر ایک بار ننکی نے سوالات کی بوچھار کر دی تھی  اور ان سارے سوالات کا سچ سچ جواب دینا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ پپو بولا ننکی ایک بات بولوں کبھی کبھار تم احمقانہ سوالات کرنے لگتی ہو، اب وہ ملا تو واپس آیا ہی ہو گا اور اگر میں کسی گاؤں کے بارے میں بتلاؤں جہاں وہ مجھ سے ملا تھا تو وہ تمہیں معلوم نہ ہو گا۔ ہاں ایک سوال صحیح ہے سو یہ کہ وہ اچھا ہے اور تمہیں یاد کرتا ہے۔

چلیے کوئی تو یاد کرتا ہے ورنہ ایک آپ ہیں کہ کبھی مجھے یاد ہی نہیں کرتے خیر آپ کے غیاب میں رگھوبیر بھیا آئے تھے اور انہوں نے آپ کے لئے سندیسہ رکھا ہے کہ کوئی رنجیت سنگھ آپ کو بہت یاد کر رہا ہے اور آپ سے ملاقات کے لئے ویاکل (بے چین ) ہے۔ پپو نے ہنس کر کہا دیکھو کون کون ہم سے ملنے کے لئے ویاکل ہے اور ایک ہماری ننکی ہے کہ مل کربھی لڑائی جھگڑے پر اتارو ہے۔ ننکی بولی اچھا تو ہم آپ سے لڑائی کر رہے ہیں۔ اب کچھ پوچھنا اور بتیانا بھی لڑائی  میں شمار ہو گا تو ہم چلتے ہیں۔ ہم آپ سے نہیں بولیں گے ننکی منہ پھلا کر اٹھی اور باہر کو چل دی۔

اب ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی پپو بولا اری بھاگوان تم ناراض ہو کر کہاں چل دیں بات تو سنو۔ آپ کو کیا ؟ ہم جہاں بھی جائیں ، جئیں یا مریں آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟آپ کا جھگڑا ٹنٹا تو ختم ہو جائے گا۔ آپکا جیون تو سکون سے گزرے گا بس اسی میں ہمارا سنتوش (خوشی) ہے ، ننکی جونہی کھڑی ہوئی اس نے دیکھا باہر کوئی اجنبی  سنکوچ اوستھا (تذبذب کی حالت ) میں کچھ سوچ رہا ہے۔ ننکی بولی لگتا ہے کوئی مہمان آپ سے ملنے آیا ہے۔

اس وقت بنا بتائے کون آدھمکا ؟ پپو بولا۔ یہ ہماری ننکی رانی کا وقت ہے۔ ہم کسی سے نہیں ملنے کے۔  ننکی شرما گئی اور بولی۔ ارے ایسی بھی کیا کٹھورتا (سختی) تنک مل لیجئے۔ یہ بیچارہ نہ جانے کہاں سے آیا ہے ؟ ہاں ہاں ہم سب جانتے ہیں۔ پپو نے کہا ہمارے سوا سب بیچارے ہیں۔ اب ننکی کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ تنک کر بولی اگر ایسا ہے تو ہم اسے منع کر آتے ہیں۔ کہہ دیں گے ہمارے صاحب ویست( مصروف) ہیں کسی سے مل نہیں سکتے۔

پپو بولا اری بھاگوان لیکن پہلے یہ تو پتہ کرو کہ کون ہے کہاں سے آیا ہے ؟یہی تو میں کہہ رہی تھی۔ اب آپ یہ سب معلوم کیجئے میں رسوئی میں جا کر ناشتہ بناتی ہوں۔ پپو یادو نے باہر آ کر دیکھا تو رنجیت کھڑا تھا وہ اب بھی تذبذب کی حالت میں تھا۔ پپو نے اسے اندر بلایا اور کہا بھئی تم نے تو ہمیں بالکل پرایا سمجھ لیا جبکہ ہم تو تمہیں اپنا سمجھتے تھے۔ رنجیت شرمندہ ہو گیا اور بولا جی نہیں جناب ایسی بات نہیں۔ مجھ سے رگھوبیر نے بتلایا تھا کہ آپ کل آنے والے ہیں اس لئے میں اس کی اجازت سے آج چلا آیا۔ یہاں آنے پر چوکیدار نے کہا کہ آپ ابھی کچھ دیر قبل آئے ہیں اس لئے میں ذرا سنکوچ میں پڑ گیا کہ خلل اندازی کروں یا واپس لوٹ جاؤں۔ خیر اب جبکہ آپ نے دیکھ کر بلا ہی لیا ہے تو آپ کا بہت بہت شکریہ۔

رنجیت اندر آیا تو دیکھا کہ پپو کی کوٹھی ٹھاکر صاحب کی حویلی سے کم نہیں بلکہ ٹھاٹ باٹ میں سوا سیرہے۔ رنجیت کو مہمان خانے میں بٹھا کر پپو یادو اندر گیا تو ننکی نے پوچھا کون ہے ؟ پپو بولا وہی رنجیت۔ کیا رگھوبیر نے اس کے آنے کا کوئی سمے (وقت) بھی بتایا تھا ؟ جی ہاں بتایا تو تھا لیکن میں بھول گئی آخر عورت ذات ہوں نا کیا کیا یاد رکھوں؟  ننکی نے منہ لٹکا کر کہا۔

پپو بولا تم کچھ بھی نہ یاد رکھو بس یہ کرو کہ جلدی سے ناشتہ وغیرہ نوکر سے بھجواؤ تاکہ میں اس سے جلدی سے نمٹ لوں۔ اچھا تو بڑی جلدی ہے ۰۰۰۰۰۰۰؟ننکی نے اٹھلا کر پوچھا۔ پپو بولا  کیوں نہیں اور یہ کہہ کر پھر مہمان خانے میں چلا گیا۔ رسمی دعا سلام کے بعد رنجیت بولا میں آپ کا زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا۔ اگر میرے لئے کوئی خوشخبری ہے تو بتا دیجئے اور پھر کب حاضر ہو نامناسب ہے یہ بھی فرما دیجئے تاکہ فرصت سے بات ہو سکے۔

دیکھو اب آہی گئے ہو تو بات ابھی ہو جائے گی۔ جہاں تک خبر کا سوال ہے وہ اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ رنجیت نے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ایک خبر بیک وقت اچھی بھی ہو اور بری بھی ؟ اس بیچ نوکر ان کے سامنے پھل سجا رہا تھا۔ پپو نے نارنگی کو ہاتھ میں لے کر کہا کیا یہ بیک وقت کھٹی اور میٹھی نہیں ہوتی ؟رنجیت بولا مان گئے استاد آپ نے بھی کیا  مثال دی لاجواب کر دیا۔ اب خبر بھی سنا دیجئے۔

بھئی شیکھر کا پتہ چل گیا ہے۔ وہ ہمارے ہی علاقے میں اپنے چند آدمیوں کے ساتھ روپوش ہے۔ اس کے آدمی ؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ وہ تو آپ کے گروہ میں شامل تھا؟ جی ہاں  تم نے سچ کہا۔ وہ کسی زمانے میں ہمارے گروہ کا ایک فرد ضرور تھا لیکن تمہارے کوسی کلاں کا پانی اسے کچھ ایسا  بھایا کہ اس نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔

اچھا تو اس کے پاس اس کے اپنے آدمی کہاں سے آ گئے ؟ رنجیت نے دوسرا سوال کیا۔ بھئی کیسی باتیں کرتے ہو۔ آدمی کوئی پیڑ پودوں پر تو نہیں لگتے۔ ہر کسی کے آدمی، میرے تمہارے اور اس کے ، سبھی اس سماج سے آتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔

میں آپ کی بات سمجھتا ہوں لیکن شیکھر کے بارے میں آپ جو کہنا   چاہتے ہیں میں سمجھ نہیں سکا ؟ پپو بولا مجھے لگتا ہے تم سمجھ تو گئے ہو لیکن وہ بات تمہارے حلق سے نہیں اتر رہی ہے۔ رنجیت چمک کر بولا تو کیا وہ آپ کے خلاف اپنا  نیا گروہ تشکیل دے رہا ہے ؟ پپو بولا بات صرف یہ ہے کہ وہ اپنا نیا گروہ بنا رہا ہے۔ اب زیرِ زمین دنیا میں سارے گروہ  ایک دوسرے کے ساتھ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بھی اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ خاص میرے خلاف کوئی گروہ بنا رہا ہے۔ اس لئے کہ مجھ سے اس کو کوئی دشمنی تو ہے نہیں اس لئے کہ میں نے  اس کا کچھ بگاڑا بھی نہیں ہے۔

رنجیت کے سوالات کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا  اس نے پھر پوچھا تو کیا آپ کو اس کی بغاوت  اور آپ سے علحٰدہ گروہ بنا لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ؟ پپو بولا اعتراض کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جرائم کی دنیا میں میری کوئی اجارہ داری تو ہے نہیں۔ میرے علاوہ بھی بہت سارے لوگ اپنا اپنا کام کرتے ہیں ان میں سے ایک شیکھر سمن بھی ہے۔ رنجیت بولا اور اگر وہ آپ کے آدمیوں کو توڑ لے تو ؟

جب وہ خود ٹوٹ کر الگ ہوسکتا ہے دوسروں کو کیوں نہیں الگ کرسکتا۔ یہ پیشہ ور لوگ اپنی مرضی کے مختار ہیں کسی کے زر خرید غلام نہیں ہیں۔ جہاں کام زیادہ  ہوتا ہے پیسے اچھے ملتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں۔ ایسا تو ہوتا ہی رہتا کہ کل ان کا آدمی ہمارے پاس تو آج ہمارا آدمی ان کے پاس۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ پپو جس آرام سے یہ سب بیان کر رہا تھا اس سے رنجیت کو حیرت ہو رہی تھی۔ اس لئے کہ اس نے سن رکھا تھا کہ جرائم کی دنیا  سیاست کی دنیا سے مختلف ہے جہاں آئے دن دل بدلی  کا عمل ہوتا رہتا ہے وفاداریوں کی نیلامی کا بازار سجا رہتا ہے۔ زیر، زمین دنیا میں اگر کوئی  غداری کا  مرتکب ہوتا ہے تو  سزائے موت  کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ خیر رنجیت پپو سے بلاوجہ اختلاف کر کے اپنا کام بگاڑنا نہیں چاہتا تھا  اس لئے وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے  ہوئے انجان بن گیا اور پوچھا جناب آپ نے اچھی خبر تو سنائی لیکن بری خبر کو گول کر گئے۔

 جی نہیں ابھی میری بات ادھوری ہے تم نے بیچ میں سوالات کا ایسا تانتا باندھ دیا کہ  اس کا موقع ہی نہیں آیا۔ رنجیت بولا  میں معذرت چاہتا ہوں آپ بات پوری کریں۔  پپو بولا بات دراصل یہ ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق فی الحال بلدیو اس کے پاس نہیں ہے۔ نہیں ہے !کیا مطلب ؟ کیا اس نے بلدیو کو کہیں اور چھپا دیا ہے ؟ یہ رنجیت کا ایک اور سوال تھا۔  پپو بولا اس کا پتہ تو نہیں چل سکا لیکن یقیناً اس کے پاس کوئی بچہ موجود نہیں ہے۔ رنجیتبے چین ہو کر پوچھا آپ کیا سوچتے ہیں بلدیو کہاں ہو گا ؟

اس بارے میں کسی بھی قسم کی قیاس آرائی کرنے سے میں قاصر ہوں۔ میں نہ تو بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلدیو کہاں ہے اور کس حال میں ہے ؟ نہ ہی یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ ہے بھی یا نہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟ پپو نے  معنی خیز انداز میں اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ رنجیت ایک دم سے چونک پڑا۔ اس نے استفسار کیا پپو جی میں آپ کے جملے کا آخری حصہ نہیں سمجھ سکا ؟

پپو بولا رنجیت  اختتامی حصہ میں نے ترکی میں تو نہیں کہا جو تمہیں سمجھنے میں دشواری ہو ؟ رنجیت بولا لیکن پھر بھی بلدیو کا نہ ہونا ؟؟؟ کیوں آج میں تمہارے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا ہوں کل ہو سکتا ہے تم آؤ تو میرے انتم سنسکار کی تیاریاں چل رہی ہوں۔ یہ تو بہت ہی عام سی بات ہے ، ہوتا رہتا ہے اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟

رنجیت نے یہ سن کر سر پکڑ لیا۔ پپو کا تیر بالکل اپنے نشانے پر لگا تھا۔ رنجیت کچھ دیر تو خاموش رہا اور پھر بولا لیکن کوئی اغوا کار بھلا مغوی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے نقصان کیوں پہنچائے گا اس میں تو اس کا  سراسرخسارہ ہے۔

دیکھو رنجیت انسان جان بوجھ کر اپنا نقصان نہیں کرتا بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ  ہو جاتا ہے اور نا تجربہ کار کھلاڑی سے غلطی کاا مکان کا زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے میں نے خود ایسے واقعات دیکھے ہیں جن میں اغوا کار اپنے شکار کو قابو میں نہیں رکھ سکے۔ کبھی تو خود ہلا ک ہو گئے اور کبھی اس کو ہلاک کر دیا۔

رنجیت نے کہا  اگر ایسا ہوا ہے تو اس میں میری بدنامی اور آپ کا نقصان ہے۔  پپو بولا  جہاں تک میرا سوال ہے چونکہ میں نے اغوا نہیں کروایا تھا اس لئے میرے نقصان کا کو ئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم اس کی فکر نہ کرو نیز تمہاری بدنامی والی منطق بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کسی اور کے جرم کے لئے پولس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا  اس لئے کہ تھانیدار کا کام مجرم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دینا ہے اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا کر دے تو کامیاب ہے۔ اب اس نے جرم کیوں کیا ؟ یا عدالت نے سزا کیوں نہیں دی ؟ ان سوالات کا انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں۔

رنجیت نے کہا آپ درست فرماتے ہیں۔ اب مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں ؟ پپو بولا میں نے تمہیں احوال واقعہ سے واقف کرا دیا۔  اب یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں یہ بتاؤں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ تم کو خود کرنا ہو گا اور مجھے بتانا ہو گا کہ مجھ سے کیا تعاون درکار ہے ؟ میں یقین دلاتا ہوں کہ حتی الامکان میں تمہاری مدد کروں گا۔ اب ایسا کرتے ہیں کہ کھانا کھاتے ہیں وقت کافی ہو چکا ہے۔ تم اگر چاہو تو یہیں ہمارے مہمان خانے میں آرام کرو۔ صبح تک اپنا لائحہ عمل تیار کر لو اور مجھے بتاؤ کہ مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟رنجیت نے تائید کی دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ پپو جانتا تھا کہ اگلے دن رنجیت کیا کہے گا اور شیکھر سمن کا انجام کیا ہو گا ؟ اس بار وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

٭٭

 

شیکھر سمن

عدالت کے اندر شیکھر کی پہلی پیشی کا منظر نہایت دلفگار تھا۔ کوسی کلاں اور بور کلاں کے سارے نامی گرامی لوگ وہاں موجود تھے۔ چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ اور ویدجی ایک جانب بیٹھے تھے۔ سرجو ماسی اپنے بھائی بھولا بھگت کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ رنجیت دیگر افسران کے ساتھ تھا۔ جانکی داس اپنے ساتھ ننکا سنگھ کو لے آئے تھے اور ان سب کے علاوہ رنویر یادو اور رجنیش  سنگھ بھی ہتھکڑیاں پہن کے براجمان تھے۔ یہ دونوں  بیک وقت ملزم بھی تھے اور گواہ بھی۔ منیشا نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر عدالت میں حاضری سے گریز کیا تھا۔ اس مقدمہ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اس میں دونوں جانب سرکاری وکیل تھے۔ چونکہ مدعی منیشا نہیں بلکہ رنجیت تھا اسے سرکار کی جانب راج پال سنگھ کی خدمات حاصل تھیں۔ شیکھر مدعا لیہ تھا اور بے یارو مددگار بھی اس لئے اس کی مدد کے لئے حکومت نے لوک پال اگروال کو میدان میں اتارا  تھا۔ لوک پال نے شیکھر سے تفصیلی گفتگو کی تھی اور اسے سمجھا دیا تھا فردِ جرم کو سنادینے کے بعد جب جج صاحب یہ پوچھیں کہ کیا تمہیں اپنا جرم قبول ہے تو تم انکار کر دینا۔ باقی سب کام میں کر لوں گا۔

دونوں و کلاء نے اپنا اپنا وکالت نامہ جمع کرایا اور اس کے بعد پیش کار نے فردِ جرم  پیش کی جس کا خلاصہ حسبِ ذیل تھا :

            ملزم شیکھر سمن جوکوسی کلاں اسکول میں مدرس ہے ایک نہایت چالاک مجرم ہے۔ اس کا تعلق ماضی میں ایک خطرناک گروہ سے رہا ہے۔ وہ تعلیم و تدریس کے بہانے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کی خاطرکوسی کلاں میں داخل ہوا۔  اس نے بلدیو سنگھ اور سرجو ماسی کو ورغلا کر ان کا اعتماد حاصل کیا  اور مناسب وقت کا انتظار کرتا رہا۔ جیسے ہی اسے موقع ملا وہ بلدیو کو لے اڑا۔

انتظامیہ نے عدالت سے گذارش کی تھی کہ ملزم کو پولس کی تحویل میں دیا جائے تاکہ اس سے تفتیش کی جا سکے اور اس حقیقت کا پتہ لگایا جا سکے کہ اس نے بلدیو کو کہاں چھپا کر رکھا ہے ؟ یا وہ موجود بھی ہے یا نہیں ؟

جج صاحب نے کٹہرے  میں کھڑے شیکھر سے پو چھا تم ان الزامات کو قبول کرتے ہو یا ان سے  انکار کرتے ہو ؟

شیکھر بولا جناب اس فردِ جرم کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اردھ ستیہ یعنی نیم سچ ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ نصف  سچ  اپنے آپ میں نصف جھوٹ بھی ہوتا ہے۔

جج صاحب کو شیکھر کے پر اعتماد اظہارِ خیال نے حیرت میں ڈال دیا حالانکہ اس پر اغوا اور قتل کا الزام لگایا جا رہا تھا اس کے باوجود اس کا اندازِ بیان گواہی دے رہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔ وکیل لوک پال بھی اس کے بیان سے پریشان ہو گیا تھا۔ کسی ایسے مؤکل کے ساتھ کام کرنا جو وکیل کے بجائے اپنے دماغ سے سوچتا ہو اور ساتھ ہی دلیر بھی ہو ایک نہایت مشکل ہوتا ہے۔ جج صاحب نے شیکھر کو حکم دیا کہ وہ اپنی بات کو واضح کرے۔

شیکھر بولا مائی لارڈ اس فردِ جرم کی ابتدا ایک سچائی سے ہوتی ہے میں یقیناً کوسی کلاں اسکول میں مدرس تھا لیکن اب ایک ملزم کی حیثیت سے حراست میں ہوں۔ یہ اعتراف کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ ماضی میں میرا تعلق  ایک خطرناک گروہ سے رہا ہے لیکن اس دوران بھی کسی سنگین جرم میں نہ میں ملوث ہوا اور نہ مجھ پر اس کا الزام لگا اس لئے مجھے چالاک مجرم قرار دینا درست نہیں ہے۔ میں تعلیم و تدریس کے بہانے از خود داخل نہیں ہوا  بلکہ اس مقصد کی خاطر محکمہ تعلیم نے مجھے کوسی کلاں میں تعینات کیا۔ یہ میری اپنی پسند نہیں بلکہ سرکاری فیصلہ تھا اور میں نہایت پاکیزہ عزائم کے ساتھ یہاں آیا تھا کوئی ناپاک ارادہ میرے دل میں نہیں تھا۔ مجھ کو سرجو ماسی اور بلدیو کا اعتماد ضرور حاصل ہے لیکن میں نے انہیں کبھی بھی بہلانے  یا ورغلانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نہ توکسی  موقع کے انتظار میں تھا اور نہ بلدیو کے اغواء کے  سلسلہ میں کچھ جانتا ہوں۔

راج پال سنگھ نے کہا جناب کسی بھی ملزم کا اپنے جرم سے انکار کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اس کے بیان کی حقیقت کو سامنے لانے کے لئے پولس کے ذریعہ اس کی تفتیش لازمی ہے۔ اس لئے اسے پولس کی تحویل میں دے دیا جائے۔

لوک پال سنگھ نے اس  کے جواب میں یہ دلیل دی کہ اس معاملے میں پولس کا محکمہ فریقِ  ثانی  ہے اس لئے ملزم کو اس کے حوالے کرنا بکری کو شیر کے کچھار میں بھیجنے جیسا ہے۔ اب چونکہ فردِ جرم عدالت میں داخل ہو چکی ہے اس لئے ملزم کو عدالتی تحویل رکھا جائے۔ شیکھر سمن کی حفاظت اور سلامتی اب عدالت  کی ذمہ داری ہے۔

جج صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا۔ شیکھر سمن کو عدالتی حراست میں رکھا جائے۔ اس کے بعد اسے جیل روانہ کر دیا گیا اور پولس کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملزم سے پوچھ تاچھ تو کرسکتی ہے لیکن اس سے پہلے اسے عدالت سے رجوع کر کے اجازت حاصل کرنی ہو گی۔ عدالت برخواست تو ہو گئی مگر تھانیدار رنجیت سنگھ کو اپنی اولین شکست کا مزہ چکھا گئی۔ اس کے باوجود رنجیت بالکل بھی مایوس نہیں ہوا اس لئے کہ اسے یقین تھا فیصلہ کن آخری فتح اسی کے  حصہ میں آئے گی۔

شام کے وقت لوک پال اگروال اپنے مؤکل شیکھر سے ملنے کی خاطر جیل میں آیا۔ دعا سلام کے بعد لوک پال بولا آج جس طرح تم نے اپنی پیروی کی اسے دیکھ کر تو مجھے لگا کہ تمہیں کسی وکیل کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔

شیکھر لوک پال کا اشارہ سمجھ گیا وہ بولا معاف کرنا وکیل صاحب میں آپ کی ہدایت پر عمل نہ کر سکا اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں دراصل میں جذبات میں آ گیا تھا۔ لوک پال مسکرایا اور بولا ہم لوگ اپنے مؤکل کو کچھ کہنے سے قبل مشورے کی ہدایت کیوں دیتے اس کی وجہ خود تم نے  بتلا دی۔ کئی بار عدالت کے اندر ایک مصنوعی ماحول بنا دیا جاتا ہے جس سے ملزم جذباتی ہو کر ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو اس کے اپنے خلاف استعمال ہو جاتی ہیں۔ میرا مطلب ہے مخالف وکیل قانونی داؤں پیچ میں اس کا غلط استعمال کر لیتا ہے۔ اس لئے احتیاط بہتر ہے۔

شیکھر بولا جی ہاں وکیل صاحب میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں مگر  مجھے اس کا احساس اپنی بات  ختم کرنے کے بعد ہوا لیکن تیر تو بہر حال کمان سے نکل چکا تھا۔ لوک پال نے ہنس کر کہا ویسے تمہارا تیر اس بار نشانے پر بیٹھا اس لئے افسوس کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جج صاحب تمہاری حق گوئی سے کافی متاثر ہوئے ہیں لیکن آئندہ خیال رکھنا۔ شیکھر نے یقین دہانی کی اور بولا جی ہاں وکیل صاحب لیکن آج جو فردِ جرم پیش کی گئی وہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں بھلا بلدیو کا اغوا کیوں کروں ؟ اس میں میرا کیا فائدہ ہے ؟

لوک پال نے تائید کی اور کہا جی ہاں تم سے بات چیت کے بعد میں نے کیس کو جس قدر سمجھا تھا اس کی روشنی میں مجھے بھی اس فردِ جرم کی توقع ہر گز نہیں تھی لیکن اب چونکہ وہ پیش کی جا چکی ہے اس لئے اس سے  مفر نہیں۔ شیکھر بولا وہ تو ٹھیک  ہے لیکن آپ کے خیال میں  اسے کس نے اور کیوں وضع کیا ہے ؟ میں پسِ پردہ مقاصد جاننا چاہتا ہوں۔

دیکھو شیکھر یقین کے ساتھ تو میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ ابھی تک مقدمہ باقاعدہ شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ سنگِ  بنیاد رکھا گیا ہے اور اس سے عمارت کے خدوخال معلوم کرنا آسان نہیں ہاں کچھ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔

خیر قیاس ہی سہی۔ آپ کیا سوچتے ہیں۔ لوک پال بولا میرے خیال میں یہ فرضی چارج شیٹ رنجیت سنگھ نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے بنائی ہے۔ پولس افسران ایسا اکثر کرتے ہیں لیکن گھبرانے کو کوئی ضرورت نہیں اس طرح کی چارج شیٹ عدالت میں ٹک نہیں پاتی  اور پھر کوسی کلاں کے لوگوں میں تمہارے تئیں خلافِ توقع ہمدردی  پائی جاتی ہے۔ عام طور پر گاؤں کے لوگ اپنے آدمی کے اغوا ءسے اس قدر پریشان ہوتے ہیں کہ کسی بھی اجنبی کے خلاف ہو جاتے ہیں لیکن تمہارے ساتھ ایسا نہیں ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ گواہوں کے بیانات تمہارے حق میں ہوں گے اور تم بہت جلد رہا ہو جاؤ گے۔

اچھا ایک اور بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کیا سوچتے ہیں میرا اور بلدیو کا ایک ہی دن اغواء کیا محض اتفاق ہے ؟لوک پال نے کہا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ شیکھر نے سوال کیا اگر نہیں تو آپ کی رائے کیا ہے ؟ لوک پال بولا ممکن ہے رنویر اور رجنیش اپنے کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ آ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہوں۔ ایک نے تم پر ہاتھ ڈالا اور دوسرابلدیوکو لے اڑا ہو لیکن یہ محض قیاس ہے اس بارے میں یقین کے ساتھ میں کچھ نہیں کہہ سکتا فی الحال میرا ہدف تم کو رنجیت کے پنجے سے چھڑانا ہے۔ جب اس میں کامیابی مل جائے گی تو بلدیو کے بارے میں سوچیں گے۔ ممکن ہے اس مقدمہ کی جرح کے دوران ایسے حقائق از خود سامنے آ جائیں جس سے بلدیو کے اغوا پر روشنی پڑے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔

شیکھر نے محسوس کیا لوک پال بڑا صاف گو اور نیک دل انسان ہے۔ اسے امید ہو چلی تھی کہ یہ شخص اسے پھانسی کے پھندے سے بچا لے گا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شیکھر کی واپسی سے کوسی کلاں میں  ایک بھونچال آ گیا تھا۔ ہر خاص و عام کی زبان پر اسی کا نام تھا۔ ہر محفل میں وہ موضوعِ بحث بنا ہوا تھا۔ کچھ لوگ اس کی گرفتاری سے خوش تھے تو کچھ غمگین تھے۔ وہ لوگ جو بلدیو کے اغوا سے شدید غم و غصہ کا شکار تھے انہیں اس بات پر اطمینان ہوا تھا کہ بالآخر بلدیو کا قاتل گرفتار ہو گیا اور جلد ہی اسے تختۂ دار پر چڑھا دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تواس سے سوگوار پریوار کو کسی نہ کسی حد تک انصاف مل جائے گا  لیکن جہاں تک بلدیو کے اہلِ خانہ کا سوال تھا انہیں شیکھر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو اس امید میں جی رہے تھے کہ آج نہیں تو کل بلدیو کی واپسی کی ہو گی لیکن اب وہ  امید کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا تھا اور وہ عالمِ تاریکی میں غرق ہو گئے تھے۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنھیں لگتا تھا کہ شیکھر نہ ہی بلدیو کو اغوا کرسکتا ہے اور نہ اس کا قتل کر سکتا ہے۔ ان کو دال میں کچھ کالا نظر آتا تھا۔ انہیں و لگتا تھا کہ شیکھر بے گناہ ہے لیکن اس احساس کے پیچھے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں  تھا بظاہر تمام شواہد شیکھر کے خلاف تھے اس کے باوجود وہ لوگ غمزدہ تھے۔

شیکھر کی اپنی کیفیت عجیب و غریب تھی گزشتہ دو ہفتوں کے دوران  وہ دن رات یہ دعا کیا کرتا تھا کہ کسی طرح  اسے پپو یادو کے چنگل سے نجات مل جائے اور کوسی کلاں واپس لوٹ آئے۔ اس کی یہ دونوں مرادیں پوری ہو گئیں تھیں لیکن اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ پولس کی حراست میں کوسی کلاں لایا جائے گا اور اس پر بلدیو کے نہ صرف اغوا بلکہ قتل کا سنگین الزام بھی ہو گا۔ یہ باتیں اس کے  تصورِ خیال سے بالاتر تھیں لیکن حقیقت بن گئی تھیں۔ اس کے ساتھ گرفتار ہونے والے رجنیش اور رنویر کچھ بھی نہ سوچتے تھے۔ انہیں بتلا دیا گیا تھا کہ کب کیا کہنا ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ تھانیدار ان کا اپنا آدمی ہے۔ وہ نہ انہیں کوئی اذیت پہنچائے گا اور نہ ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرے گا۔ ان دونوں کا اس کا یقینِ  کامل تھا کہ وہ چند دن بعد باعزت رہا ہو کر اپنے گروہ میں لوٹ جائیں گے۔

رنجیت کی حالت بھی بیم و رجا کی تھی۔ اس کا بنیادی ہدف تو بلدیو کی بازیابی تھا جس  میں وہ بری طرح ناکام رہا تھا لیکن یہ کامیابی  اس کے اپنے اختیار میں نہیں تھی۔ جو کچھ وہ کرسکتا تھا کر چکا تھا گو کہ ابھی تک شیکھر نے اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا تھا لیکن اسے لگتا تھا کہ تفتیش کے دوران وہ ٹوٹ جائے گا۔ ویسے شیکھر کے خلاف جو شواہد تھے ان کے چلتے اس کا اعتراف کرنا یا نہ کرنا بے معنی ٰ تھا اس لئے کہ رنجیت کے خیال میں  اسے  عدالت میں سزا ہونی ہی ہونی تھی  بلکہ کئی بار وہ چشمِ تصور میں شیکھر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا ہوا دیکھ بھی چکا تھا۔ اس کی آنکھوں کو یہ منظر بڑا سہانا لگتا تھا اس لئے کہ وہ اس کے بعد دیکھتا لوگ یکے بعد دیگرے اسے مبارکباد د ے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس کے چرچے ہو رہے ہیں۔ اس کے انٹرویو اور تصویریں نشر کی جا رہی ہے۔ دفتر میں اس کی تعریف و توصیف ہو رہی ہے اور اسے انعام و اکرام کے علاوہ ترقی سے نوازا جا رہا ہے۔ ان فرحت بخش نظاروں سے اس کی طبیعت خوش ہو جاتی اور اس خواری کو بھول جاتا کہ شیکھر کو گرفتار کرنے کے لئے اسے بدنامِ  زمانہ مجرم پپو یادو کے آگے جھولی پھیلانی پڑی ہے۔

اس بیچ کوسی کلاں میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ بشمول وید جی کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی چونکہ بلدیو کا انتقال ہو چکا ہے اس لئے اس کی آتما کو شانتی پہنچانے کی خاطر شرادھ کی رسم ادا ہونی چاہئے۔ ان کے خیال میں یہ گاؤں والوں کا دھرم کرتویہ(مذہبی فریضہ) ہے اور اس میں کوتاہی کسی آسمانی عتاب کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ اور لوگ کہتے تھے کہ سارا معاملہ قیاس کی بنیاد پر ہے۔ ابھی تک نہ ہی بلدیو کی لاش ملی ہے اور نہ عدالت نے اس قتل پر اپنی مہر ثبت کی ہے اس لئے بلدیو کو مُردوں میں شمار کرنا غلط ہے۔ اس معاملے میں مقدمہ کے خاتمہ کا انتظار کرنا چاہئے لیکن اول الذکر گروہ کا خیال تھا کہ اس کا عدالتی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ عام سی بات ہے کہ اکثر عدالت  شواہد کے ناکافی ہونے کے سبب درست فیصلہ کرنے سے قاصر رہتی ہے بلکہ کئی بار جج صاحبان ایسا  فیصلہ سنانے پر مجبور ہو جاتا ہے جس پر وہ  خود مطمئن نہیں ہوتے اس لئے کہ جو ثبوت پیش کئے جاتے ہیں وہ ناقص ہوتے ہیں۔ اگر عدالت سارے ملزمین کو رہا کر دیتی ہے تو اس کے بعد شرادھ کا کرنا عدالت کی توہین میں شمار ہو گا  اور ایسا نہ کرنے کے نتیجہ میں بلدیو کی آتما تا قیامت کوسی کلاں کے آس پاس منڈلاتی رہے گی۔

وید جی کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ ہر کوئی ان کا احترام کرتا تھا اور عام طور سے لوگ ان سے اختلاف کرنے سے گریز کرتے تھے  لیکن اس  معاملے میں خود چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ کی رائے  ان سے مختلف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ  بلدیو کی موت کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے تسلیم کر لینے سے کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔  سب سے پہلا تو یہ کہ اب اس کی جگہ کسے نامزد کیا جائے ؟ اس پر پنچایت کا اتفاق آ سانی سے ہو جاتا اگر بلدیو کا کوئی بھائی موجود ہوتا سارے لوگ اس کا نام طہ کر کے چھو ٹ جاتے لیکن حقیقی صورتحال ایسی نہیں تھی۔ بڑے ٹھاکر کے اہل خانہ پر لوگوں کا اتفاق رائے جس قدر آسان تھا کسی اور خاندان پر نہیں تھا اس لئے کہ سبھی لوگ بڑے ٹھاکر کو اپنے سے اونچا مانتے تھے لیکن کسی اور سے اپنے آپ کو کم نہیں سمجھتے تھے۔ ٹھاکر بلوندر سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ سرپنچ کا انتخاب  گاؤں والوں کے اندر انتشار کا سبب بنے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ اگر مان لیں بلدیو کا انتقال نہیں ہوا ہے اور وہ کل کو لوٹ آتا ہے تو کیا ہو گا ؟ کیا وہ نئے نامزد کردہ سرپنچ کے تحت رہے گا؟ یا نیاسرپنچ اس کے لئے اپنی جگہ خالی کر دے گا ؟ ان دونوں صورتوں میں بلدیو کے حامیوں اور نئے سرپنچ کی حمایت کرنے والوں میں ٹھن جائے گی اور اس کے گمبھیر نتائج برآمد ہوں گے اس لئے اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلے سے قبل جلد بازی کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

حویلی کے اندر بھی اس بات پر اختلاف تھا۔ سرجو ماسی کو نہ جانے کیوں یقین تھا کہ رنجیت کی ساری کہانی فرضی ہے حالانکہ اس کے لئے اس کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں تھی لیکن اس کا کہنا یہ تھا کسی مدلل بات کی نفی کے لئے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے چونکہ رنجیت کا سارا  مقدمہ ہی ہوا محل کی مانند  تھا اس سے انکار کے لئے کسی منطق یا دلیل کی مطلق ضرورت ہی نہیں تھی  لیکن ماسی کے برخلاف ان خبروں نے حواس باختہ منیشا کو ہوش مند بنا دیا تھا۔ اب وہ زیادہ دن بیجا امیدوں کے سہارے اپنی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ بلدیو کا غم اسے ہر دم کچوکے دئیے جاتا تھا۔ بلدیو زندہ  تھا یا نہیں یہ سوال منیشا کے لئے ثانوی حیثیت کا حامل تھا۔ بلدیو کا کسی نامعلوم مقام پر نامعلوم مدت تک زندہ رہنا اس کی موت کے مترادف تھا اس لئے کہ وہ نہ اسے دیکھ سکتی تھی۔ نہ اس سے بول سکتی تھی۔ وہ نہ جانے کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟ کب آئے گا ؟ یہ سوالات دن رات اسے ستاتے رہتے تھے  اور ان سوالات سے نجات حاصل کرنے کی واحد صورت منیشا کے نزدیک یہ تھی اس کا شرادھ کر دیا جائے۔ ایسا کرنے کے نتیجہ میں بلدیو کی نہ سہی تو کم از کم منیشا کی آتما کو شانتی ضرور پراپت(حاصل) ہو جانی تھی۔ وہ ایک بار کے رونے کو ہر روز کے رونے پر ترجیح دیتی تھی۔

 چھوٹے ٹھاکر کے اندیشوں کا اس کے پاس یہ جواب تھا کہ اگر کل کو بلدیو لوٹ آتا ہے تو وہ سمجھے گی اس کے بیٹے کا پونر جنم ہو گیا ہے۔ گاؤں کی سرپنچی میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بلدیو کی واپسی کے بعد اس کا ارادہ کوسی کلاں کو الوداع کہہ کر شہر چلے  جانے کا تھا  تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے  بانسری۔ نہ بلدیو کوسی کلاں میں قیام کرے ا ور نہ اختلاف سبب بنے۔ لیکن سرجو ماسی کا کہنا تھا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ بلدیو واپس آنے کے بعد اپنی والدہ سے اس معاملے اتفاق کرے ؟ اگر اس کی خواہش کوسی کلاں میں رہنے کی ہو تو منیشا کون ہوتی ہے اسے اپنے ساتھ شہر لے جانے والی؟  کوسی کلاں کے اندر اس کو جو عزت اور مرتبہ حاصل ہو گا وہ شہر میں ناممکن ہے۔ کسی گاؤں کا بے تاج بادشاہ بھلا اپنی سلطنت کو چھوڑ کر کیوں جائے ؟ منیشا کا اختلاف اس پر تھا کہ اگر بلدیو کا قائم مقام  اس کے لئے اپنی جگہ خالی نہ کرے تو کیا اس مسئلہ پر مہا بھارت چھیڑ دی جائے اور ایک ہی ونش(نسل) کے لوگ آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔ ایک دوسرے کا ناحق خون بہائیں  ؟ اس طرح کی بحث آئے دن حویلی کے اندر ہوتی رہتی تھی لیکن ماسی اور بھانجی کا اختلاف تھا کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔

بلدیو  کے حوالے سے پیدا شدہ اختلاف چونکہ مذہبی نوعیت کا تھا اس لئے اسے بالآخر بھولا بھگت سے رجوع کیا گیا۔ بھولا بھگت کوئی علمی اور تحقیقی مزاج کا حامل  تو تھا  نہیں۔ سچ تو یہ ہے دھرم گرنتھوں کے بارے اس کی معلومات اپنی بہن سرسوتی سے بہت کم تھی۔ دونوں بھائی بہنوں کو ان کے والد پنڈت جگت پرشاد نے کسی مدرسے میں داخل نہیں کیا تھا اس لئے کہ اسکول کے مدرسین ان سے کم تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری خود اپنے سر لے رکھی تھی۔ زباندانی، علم الحساب، تاریخ، منطق، فلسفہ، جیوتش ودیا ّ(علم النجوم) اور دھر م گرنتھ (مذہبی صحائف)یہ سب انہوں نے اپنے والد سے سیکھے تھے اور اپنی اولاد کو سکھلائے تھے  لیکن یہ پتہ ّماری کا کام بھولا بھگت کے بس کا نہیں تھا اور اسے اس کے لئے فرصت بھی نہیں تھی اس لئے اس نے اپنی بیٹی منیشا کا داخلہ مندر کے پاس بنے اسکول میں کروا دیا تھا۔  اس بات پر دونوں بھائی بہن میں لڑائی بھی ہوئی تھی لیکن بھولا بھگت بہرحال باپ تھا اور اسی کا فیصلہ نافذ ہو کر رہا۔ اس وقت سرسوتی کو احسا س ہوا  تھا کہ وہ اپنے میکے میں پرائی ہو چکی ہے۔ حویلی کے اندر اس کا حکم جس طرح چلتا ہے مندر میں نہیں چلتا۔ سچدیو کی ابتدائی تعلیم سرجو نے حویلی کے اندر اپنی نگرانی میں کی لیکن بعد میں بڑے ٹھاکر کے کہنے پر اسے بھی اسکول میں داخل کر دیا گیا تھا۔

بھولا بھگت جانتا تھا کہ اپنے نواسے کے معاملے میں اس کی بہن سرسوتی اور بیٹی کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور سرجو کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اسے یاد تھا کہ وہ بچپن میں کبھی کبھار اپنے والد سے بھی الجھ جاتی تھی۔ ان کے درمیان ایک طرح کا علمی مناظرہ چھڑ جایا کرتا تھا۔ جتنے اشلوک پنڈت جی پڑھتے اس کے  جواب میں ویسے ہی اشلوک سرسوتی سنا دیتی تھی۔ پنڈت جی کو اپنی بیٹی کا اختلاف بہت  من بھاتا تھا۔ وہ کبھی کبھار سوچتے تھے کہ کاش سرسوتی لڑکا ہوتی اور یہ گھامڑ کندۂ نا تراش  بھولا لڑکی ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ سرسوتی اپنا اور اپنے خاندان کا نام ساری دنیا میں روشن کر دیتی اور بہت شہرت کماتی  لیکن عورت ذات آخر کر بھی کیا کرسکتی تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ کئی سوامی سنت خواتین کو دھرم گرنتھ پڑھانے کے قائل ہی نہیں تھے۔ ان کے خیال میں خواتین کے چھو لینے سے دھارمک گرنتھ اپوتر (ناپاک ) ہو جاتے تھے۔ ایسے میں سرسوتی کادوسروں کو گیان دھیان کی تعلیم دینا تو درکنار از خود گیان پراپت کر لینا بھی اپنے آپ میں مہا پاپ سمجھا جاتا تھا لیکن پنڈت جی اس بات کے قائل تھے کہ جس کے بھاگیہ (قسمت) میں گیان نہ ہو اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جس کے بھاگیہ میں ہو اسے کوئی ونچت(محروم) نہیں رکھ سکتا۔ وہ اپنی قسمت کے فیصلہ پر راضی تھے۔ دونوں بچوں کو ساتھ ساتھ بٹھا کر نتائج سے بے نیاز تعلیم و تدریس کی اپنی ذمہ داری ادا کر دیا کرتے تھے۔

بھولا بھگت نے بلدیو کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے دھرم گرنتھوں کی اس پوتھی کے گٹھر کو پھر سے کھولا جو پنڈت جی موت کے بعد بلکہ سرسوتی کے حویلی میں چلے جانے کے بعد سے بند تھی۔ بھولا نے جب مطالعہ شروع کیا تو اسے بھانت بھانت کے جواب ملنے لگے۔ جو کبھی ایک دوسرے سے متفق تو کبھی متضاد ہوتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ سرجو اس سے الجھ جائے گی اور انہیں اشلوکوں کے سہارے اپنی بات منوائے گی لیکن بہرحال ان کی بنیاد پر تو دونوں حریفوں کو صحیح یا غلط ثابت کیا جا سکتا اس لئے اس نے پوتھی کے گٹھر کو دوبارہ باندھا اور اپنی عقل پر لگے قفل کو کھول کر اس معاملے پر غور کرنے  لگا اور حیرت انگیز طور پر ایک ایک گتھی اپنے آپ سلجھتی چلی گئی۔ یہ محض حسنِ اتفاق تھا کہ اس کی رائے اپنی بیٹی کے بالمقابل بہن سے مطابقت رکھتی تھی۔ اس لئے مخالفت کا خطرہ بھی نہیں تھا۔

ٹھاکروں کی پنچایت میں کسی غیر راجپوت کو پہلی مرتبہ شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس کے والد پنڈت جگت پرشاد بھی اس سعادت سے محروم  ہی رہے تھے لیکن حالات نے ایسے کروٹ لی تھی کہ بھولا بھگت کو پنچایت میں بلایا گیا اور اپنی رائے تمام ارکان کے سامنے رکھنے کی دعوت دی گئی۔  پنچایت کا اہتمام حسبِ دستور حویلی کے اندر کیا گیا تھا جس وقت بھولا اظہارِ خیال کے لئے کھڑا  ہوا تو  دوسرے کمرے میں اس کی بہن سرجو اور بیٹی منیشا ہمہ تن گوش تھیں۔ بھولا نے سب کو پرنام کیا اور اپنی بات رکھی۔ وہ بولا دھرم گرنتھوں کی روشنی میں کسی کو مرت گھوشت (موت کا اعلان) کرنے میں تین شرطیں ہیں۔ ایک تو اس کی لاش موجود ہو یا اس کے جسم کے کچھ اعضاء ملے ہوں یا کوئی چشم دید گواہ موجود ہو  چونکہ بلدیو کے بارے میں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں ہوتی اس لئے اسے دھرم کے انوسار(مطابق) زندہ ہی سمجھا جائے گا اور اس کا شرادھ کرنا ادھرم کہلائے گا۔ سرجو نے چین کا سانس لیا۔ ٹھاکر بلوندر کو بھی اطمینان ہوا۔

اب بھولا نے وید جی کی جانب دیکھا اور کہا اس وشئے (موضوع) پرمیں نے آتما کی شانتی کے پہلو پر بھی ادھیین  اور وچار(مطالعہ اور غور و فکر) کیا ہے  اور اس کا سارانش(خلاصہ) یہ ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔ پاپ اور پنیہ سے پرے اپنا جیون ویتیت (زندگی گزارتے )کرتے ہیں اس لئے ان کے جیون میں کوئی اشانتی نہیں ہوتی۔ ان کی آتما اس وقت تک پورنۃ(مکمل طور پر) شانت ہوتی ہے جب تک وہ ہوش نہیں سنبھالتے یاسن  بلوغ کو نہیں پہنچتے  اسلئے ان کی  آتم شانتی کے لئے کوئی کرم کانڈ آوشیک(ضروری) نہیں ہے۔ کسی بھی گرنتھ میں اس بارے میں کوئی جانکاری مجھے پراپت نہیں ہوئی اس لئے میرے وچار میں اس بابت ہمیں چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں پنچوں کے سامنے اپنی بات کہہ چکا مجھے یہاں آنے کا سوبھاگیہ دیا گیا  اس کے لیے میں آبھار پرکٹ (شکریہ ادا) کرتا ہوں اور وداع  لیتا ہوں اب آگے کا نرنیہ آپ لوگوں کا کرتویہ(فرض) ہے۔ یہ کہہ کر بھولا بھگت حویلی سے باہر آ گیا۔ سرجو بھی منیشا کے پاس سے اٹھ کر بھیتر (اندر) چلی گئی۔ چند منٹوں کے اندر پنچایت نے بھولا بھگت کی نہایت معقول رائے سے اتفاق کر کے شرادھ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

٭٭

 

کنور سچدیوسنگھ

 منیشا کے والد بھولا بھگت جب حویلی سے لوٹے تو منیشا کی آتما اپنے ساتھ مندر میں لے آئے۔ منیشا اپنے بستر پر لیٹے لیٹے روحانی طور پر مندر کے آنگن میں پہنچ گئی۔ وہ  اپنے ماضی کی یادوں میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ جس دہلیز پر قدم رکھنے کے لئے اس والد اور دادا کو نصف صدی کا عرصہ درکار ہوا کس طرح  ایک چھلانگ میں وہ وہاں پہنچ گئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب منیشا نے جوانی کی دہلیز پر ابھی اپنا پہلا قدم بھی نہیں رکھا تھا کہ ایک دن اس نے اپنی پھوپی سرجو ماسی اور بابا بھولا بھگت کے درمیان کچھ کھسر پسر سن لی۔  وہ دونوں اس کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ بابا کہہ رہے تھے منیشا کے لئے ماسٹر کومل اگنی ہوتری کے بیٹے نرمل کا رشتہ آیا ہے۔ وہ لوگ براہمن تو نہیں مگر کایستھ ہیں۔ ویسے یہاں کوسی کلاں میں ہمارے علاوہ کوئی اور براہمن پریوار تو ہے نہیں اور میں منیشا کو دور نہیں بھیجنا چاہتا۔ اپنی بیٹی اپنے پاس رہے اچھے لوگوں میں رہے میرے لئے یہی کافی ہے۔ نرمل سے رشتہ کی بات سن کر میری دھڑکن تیز ہو گئی۔ نرمل اسکول میں میرے ساتھ پڑھتا تھا اور مجھے وہ نہ جانے کیوں اچھا بھی لگتا تھا۔ بابا بتا رہے تھے کہ وہ نہایت مہذب خاندان  ہے اور اس کے گھر میں  سارے لوگ یعنی نرمل کی ماتا، پتا، بہن اور خود نرمل اس رشتے سے بہت خوش ہے۔

میرے بابا کی بات سن کر سرجو ماسی  بگڑ کر بولیں کہیں تم نے ان سے حامی تو نہیں بھر دی؟ ان کا ایسا کہنا مجھے اچھا نہیں لگا۔  بابا ہنس کر بولے تمہارے ہوتے  میں ایسا انرتھ کیسے کر سکتا ہوں ؟ماسی پھر بولیں کیا مطلب انرتھ کرنے کا ٹھیکہ میں نے لیا ہوا ہے ؟ میرا جی چاہا کہ بیچ میں بول دوں اور نہیں تو کیا؟۰۰۰۰  لیکن بڑوں کے بیچ چھوٹوں کا بولنا سب سے بڑا انرتھ تھا اس لئے میں خاموش رہی

بابا نے کہا تم نے میری بات کو غلط سمجھا۔ میرا مطلب ہے کہ تم سے مشورہ کئے بغیر میں اتنا بڑا نرنیہ (فیصلہ)کیسے لے سکتا ہوں بھلا ؟ ماسی بولی اچھا تو کیا تم نے منع کر دیا ؟ بابا نے کہا نہیں منع تو نہیں کیا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اپنے پریوار جنوں (اہل خاندان) سے بات کر کے اپنا فیصلہ بتلاؤں گا۔ ماسی نے ہنس کر کہا بھولا میں تمہیں نرابے وقوف سمجھتی تھی لیکن اب شاید مجھے اپنے خیال پر نظرِ ثانی کرنی چاہئے۔ بابا بولے دیکھو سرجومجھے پتہ ہے کہ تمہاری اور پتا شری کی رائے میرے بارے میں کبھی بھی نہیں بدلے گی  لیکن مجھے اس کی کوئی چنتا نہیں ہے۔

کیوں ؟ ماسی نے پوچھا۔ اس لئے کہ یہ رائے غلط ہے۔ اور غلط رائے رکھنے والا اس کا نقصان نہیں کرتا جس کے بارے میں غلط خیال کرتا ہے بلکہ خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ ماسی بولی تو گویا تم ہمارے نقصان سے خوش ہو اور ہمارا فائدہ نہیں چاہتے ؟ بابا نے قہقہہ لگا کر کہا میری کیا مجال آپ دونوں لوگ خود اپنے نقصان پر نازاں اور شاداں ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ ایک بات اور یاد رکھنا میری اچھی بہنا جو انسان خود اپنے آپ کوخسارے سے بچانا نہیں چاہتا اس کا فائدہ کوئی نہیں کرسکتا۔

ماسی بولی بھولا تمہاری یہ باتیں جو ہیں نا اسی نے سارے کوسی کلاں کو تمہارا بھگت بنا رکھا ہے۔ بابا نے کہا اگر تمہاری یہ بات درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ پنڈت جگت پرشاد اور ان کی ہونہار بیٹی سرسوتی دیوی کوسی کلاں کے باشندے نہیں ہیں۔ بھائی بہن کی اس نوک جھونک میں منیشا اور نرمل کہیں غائب ہو گئے تھے اور مجھے ان دونوں میں دلچسپی تھی۔ ماسی بولی کل بڑے ٹھاکر مجھ سے کہہ رہے تھے کہ سچدیو اب جوان ہو گیا ہے۔ ہمیں اس کے ہاتھ پیلے کر دینے چاہئیں۔

بابا نے پوچھا اچھا تو تم نے کیا کہا؟  میں کیا کہتی۔ میں نے ان کی تائید کی اور پوچھا کہ کہئے کہاں بات چلائی جائے۔ سچدیو کا رشتہ کوسی کلاں کے ہر خاندان کے لئے باعثِ فخر ہو گا۔ کون نہیں چاہے گا کہ ان کی بیٹی کل کو بڑی ٹھاکرائن بنے۔ اس پر ٹھاکر صاحب نے کہا لوگ جو بھی چاہیں لیکن ہمیں تو سوچ سمجھ کر اس گھر کی بہو کو لانا ہو گا۔ ماسی بولی میں نے ان کی تائید کی جی ہاں اس میں کیا شک ہے۔ اسی لئے تو آپ سے پوچھ رہی ہوں کہ کس سے رشتے کی بات چلائی جائے ؟

بڑے ٹھاکر بولے دیکھو سرجو اب سچدیو کی مجازی ماں تم ہی ہو۔ تم سے زیادہ اس کی پسند اور ناپسند سے کوئی واقف نہیں ہے۔ اس کے عادات و اطوار بھی تم اچھی طرح جانتی ہو اس لئے اس کے لئے بہترین شریکِ حیات کا انتخاب تمہارے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔ میں نے سنا ہے بچوں پر ان کے والد سے زیادہ ماں اثر انداز ہوتی ہے اور اس لحاظ سے تم لڑکی سے اور اس کی ماں بھی مل سکتی ہو میں تو یہ نہیں کرسکتا اس لئے میرے خیال میں دلہن کے انتخاب کام تمہیں کو کرنا چاہئے۔

بابا بولے بھئی بڑا اعتماد ہے بڑے ٹھاکر کا تم پر اب یہ بتاؤ کہ اس معاملے میں تمہارا بھائی بھولا بھگت کیا مدد کرسکتا ہے۔ ماسی نے نہایت سنجیدگی سے بات آگے بڑھائی۔ ٹھاکر صاحب کی تائید کرنے کے بعد میں نے انہیں یقین دلایا کہ  میں کوشش کروں گی کہ کسی مناسب جوڑے کو تلاش کرسکوں۔ ٹھاکر صاحب نے مجھ سے کہا کہ  دیکھو سرجو اس حویلی کی عزت و شرف سے تم واقف ہو۔ بہو کی شخصیت اور وقار حویلی کے شایانِ شان ہونا چاہئے۔

میں نے ان سے ایک دن کا وقت مانگا تاکہ سوچ کر بتا سکوں اور دن رات سوچتی رہی لیکن یقین مانو مجھے تو صرف ایک ہی لڑکی کا خیال بار بار آتا رہا۔ میرے خیال میں سچدیو کے لئے اس سے اچھا جوڑا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ بابا ماسی کی طول طویل تمہید سے اوب چکے تھے انہوں نے کہا تو تم اس کے بارے میں بڑے ٹھاکر سے بتاؤ میرا دماغ کیوں کھا رہی ہو۔ میں بیاہ کے کرم کانڈ کرنے کی خاطر حاضر ہو جاؤں گا۔

نہیں میرے بھولے بھائی ٹھاکر صاحب سے قبل میں اس بابت تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ اچھا تو کیا تم اس لڑکی کی جنم کنڈلی مجھے دکھانے کے لئے لائی ہو ؟ تمہیں تو پتہ ہے اس گیان کو میں نے کبھی بھی سنجیدگی سے سیکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ میرا اس میں وشواس بھی کم ہی ہے۔ میرے خیال میں تم اس معاملے میں مجھ کہیں زیادہ بہتر ہو اس لئے خود ہی نکشتر دیکھ کر فیصلہ کر لو۔ بابا نے بیزاری سے کہا۔

میں نے دونوں کی جنم کنڈلی ملا لی ہے اور اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بابا بولے تو پھر مسئلہ کیا ہے جاؤ لڑکی والوں کو خوشخبری دو۔  یہی خوشخبری دینے کے لئے تو میں تمہارے پاس آئی ہوں۔ ماسی کا یہ جملہ مجھ پر بجلی بن کر گرا مگر اس بجلی کے جھٹکے سے نرمل جل کر خاک ہو گیا۔ بابا نے کہا مجھے خوشخبری ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ؟؟؟ اسی لئے تو تمہارا نام پتا شری نے بھولا بھگت رکھا ہے کہ تم فضول باتیں تو خوب اچھی طرح سمجھتے ہو لیکن کام کی باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں۔ بابا نے کہا پہیلیاں نہ بھجواؤ لڑکی کا نام بتاؤ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بابا بلاوجہ بن رہے ہیں انہیں اس پہیلی کا حل معلوم ہے پھر بھی پوچھ رہے ہیں۔ میں تو چاہتی تھی کہ وہ بنا پوچھے انکار کر دیں اور اس زہریلے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔

سرجو بولی میں بڑے ٹھاکر کے سامنے منیشا کا نام پیش کرنے والی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس پر راضی ہو جائیں گے اس لئے کہ منیشا جیسا چاند کا ٹکڑا کوسی کلاں تو کیا ساری دنیا میں نہیں ہے۔ اس کی آمد سے حویلی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ یہ عجیب و غریب صورتحال  تھی جس میں کسی عورت کو اس کی تعریف بری  لگ رہی تھی۔ مجھے اب بھی امید تھی کہ بابا اس رشتے سے انکار کر دیں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

بابا نے کہا یہ ٹھاکر لوگ ذات برادری کے معاملے میں بہت سخت گیر ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ غیر ذات کی کسی لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بنانے پر راضی ہو جائیں گے۔ ماسی بولی غیر ذات کیا مطلب؟ ہم کسی نچلی ذات کے تھوڑے ہی ہیں اور اگر وہ چاہیں بھی تو کوئی براہمن لڑکی ان کی دہلیز پر قدم نہ رکھے۔ بھولا یہ نہ بھولو کہ ذات پات کے اس نظام میں سب سے اونچے مقام پر ہم براہمن ہی ہیں۔

سو تو ہے لیکن وہ کومل اگنی ہوتری جی جن کا رشتہ آیا تھا میں انہیں کیا جواب دوں گا۔ یہ سن کر پھر ایک بار میرا دل بہت زور سے دھڑکا  میں سانس روک کر ماسی کا جواب سننے لگی ماسی نے کہا بھولا تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی۔ اس دو ٹکے کے ماسٹرکابڑے ٹھاکر سے کیا مقابلہ۔ اگر بہت خیال ہے تو معذرت کر دینا۔ ویسے بھی ہر رشتے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ایک کے علاوہ باقی سے معذرت کرنی ہی پڑتی ہے۔ مجھے ماسی کا تضحیک آمیز انداز بہت برا لگا لیکن میری زبان پر مجبوری کا تالا پڑا ہوا تھا میں خاموش بیٹھی رہی۔

بابا بولے میں ایک بات بولوں سرجو تم برا تو نہیں مانو گی ؟ماسی  نے کہا جی نہیں  ایسی کیا بات ہے بولو۔  بابا بولے مجھے کومل اگنی ہوتری بڑے سجنّ پوروش لگتے ہیں ان کے پریوار کا سوبھاؤ بہت ہی کومل اور نرمل ہے۔ ماسی بگڑ کر بولیں تو کیا بڑے ٹھاکراور ان کا بیٹا سچدیو درجن ہے۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے بھولا؟ نہیں بہن یہ میں نے کب کہا لیکن وہ بڑے لوگ ہیں مجھے ان سے ڈر لگتا ہے۔

ماسی بولی پھر وہی بات تم نے ان کو وحشی درندہ سمجھ رکھا ہے جو ڈر لگتا ہے۔ مجھے دیکھو میں نے اس پریوار میں اپنی عمر کے بیس سال گزار دئیے ہیں۔ کس قدر آدر اور سماّن(عزت و احترام) ان لوگوں نے مجھے دیا۔ اس کی بھی تم  قدر دانی نہیں کرسکتے ؟ بابا کے سارے دلائل اور ساری مزاحمت خاک میں مل چکی تھی۔ انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور بولے ٹھیک ہے تم ٹھاکر صاحب سے بات کرو ممکن ہے وہ انکار کر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو میں کومل اگنی ہوتری جی کو ہاں کہہ دوں گا ورنہ معذرت کر دوں گا۔ میرا دل تو کہہ رہا تھا کہ بڑے ٹھاکر اس رشتہ کو ٹھکرا دیں گے لیکن دماغ کہہ رہا تھا سرجو ماسی کی تجویز کو کوئی بھی ٹھکرا نہیں سکتا۔ نہ بابا، نہ ماں جی، نہ سچدیو، نہ بڑے ٹھاکر اور نہ منیشا۔ ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ کسی کی بھی نہیں۔

شادی کے بعد میں حویلی میں آ گئی اور نرمل شہر چلا گیا۔ میں نے نرمل کو بھلا دیا اور سوچا کہ شاید وہ بھی مجھے بھول گیا ہو گا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

حویلی کے اندر منیشا آمد سے گویا بہار لوٹ آئی تھی۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں چہار جانب فرحت و انبساط کے فوارے پھوٹتے تھے۔ بڑے ٹھاکر سرجو ماسی کی پسند سے بے حد خوش تھے اور سچدیو تو اس پر لٹو ہوا جاتا تھا۔ یہاں آنے کے بعد اسے پتہ چلا تھا کہ آخر زندگی کس چیز کا نام ہے۔ چند ماہ کے اندر اس کی طبیعت بوجھل ہونے لگی متلی سی محسوس ہونے لگی تو سچدیو فکر مند ہو گیا  وہ دوڑا دوڑا سرجو  ماسی کے پاس گیا اوربولا ماسی لگتا ہے منیشا کو کسی نظر لگ  گئی ہے۔

سرجو نے پوچھا کیوں تجھے ایسا کیوں لگتا ہے ؟ مجھے تو ایسا کچھ بھی نہیں لگتا۔  ماسی دراصل وہ آپ کی بھتیجی ہے پھر بھی آپ سے چھپاتی ہے۔ میں جانتا ہوں آج کل اس کی طبیعت اچھی نہیں رہتی۔ اس نے کھانا پینا بھی کم کر دیا ہے۔ میں اصرار کرتا ہوں تو  کہتی ہے مجھے متلی آتی ہے۔  سرجو سمجھ گئی لیکن پھر بھی بولی ٹھیک ہے میں اس سے بات کروں گی اور اگر ضروری ہوا تو وید جی کو بلوا بھیجوں گی۔

 جی ہاں میں نے بھی کہا تھا سچدیو بولا لیکن وہ نہیں مانی۔ لیکن آپ کہیں گی نا تو مان جائے گی۔  کیوں مجھ سے کیوں مان جائے گی۔ سرجو نے پوچھا۔ سچدیو بولا وہ ایسا ہے نا کہ آپ کی بات سبھی مان جاتے ہیں۔ یہی تو میں پوچھ رہی ہوں کہ کیوں مان جاتے ہیں ؟  سرجو نے ہنس کر کہا۔ وہ! وہ ایساہے نا ماسی کہ سب آپ سے ڈرتے ہیں۔ چل بدمعاش۔ سرجو بولی اور لوگ تو  ڈرتے ہوں گے لیکن  مجھے پتہ ہے تو نہیں ڈرتا۔ میں ! میں ویسے تو نہیں ڈرتا پھر بھی ڈرتا ہوں  سچدیو بولا۔

سرجو نے کہا میں تیری بات نہیں سمجھی کہ تو ڈرتا بھی ہے اور نہیں بھی ڈرتا۔ ارے آپ نہیں سمجھیں تو کون سمجھے گا  خیر میں سمجھائے دیتا ہوں سچدیو بڑے بوڑھوں کے انداز میں بولا۔ لوگ دراصل دوسروں سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ انہیں نقصان کا خطرہ ہوتا ہے مجھے آپ سے ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے اس لئے میں آپ سے نہیں ڈرتا۔  ماسی بولی لیکن تو نے تو ابھی کہا تھا کہ تو بھی ڈرتا ہے۔ سچدیو بولا جی ہاں آپ کسی وجہ سے ناراض نہ ہو جائیں اس بات کا ڈر مجھے ہمیشہ لگا رہتا ہے حالانکہ آپ مجھ سے کبھی بھی خفا نہیں ہوتیں پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے یہ اندیشہ لگا ہی رہتا ہے۔

دیکھ سچدیو میں تجھ سے خفا نہیں ہوتی اس لئے کہ میں تجھ خفا ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لئے کہ تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ سچدیو نے بڑی معصومیت سے پوچھا کتنا اچھا ماسی؟ کیا میں آپ کو منیشا سے بھی زیادہ اچھا لگتا ہوں ؟ ماسی بولی منیشا تو کیا؟بیٹے سچدیو تو مجھ کو اپنے آپ سے زیادہ اچھا لگتا ہے سچ تو یہ ہے مجھے تجھ سے زیادہ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا لیکن پھر بھی ایک بات ایسی ہے جس سے میں خفا ہوتی ہوں۔

سچدیو بولا مجھے پتہ ہے۔ اسی لئے آپ نے مجھے کبھی بھی دل کھول کر دیوالی منانے نہیں دی۔ نہیں بیٹے دیپاولی میں پھلجڑیاں اور پٹاخہ چھوڑنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ میں نے تجھے ان میں سے کسی کام سے منع نہیں کیا۔ سچدیو بولا یہ سچ ہے ماسی  لیکن پھر بھی پھلجڑیوں کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

ماسی بولی جی ہاں بیٹے ہوتا ہو گا میں نے کب اس سے انکار کیا ہے ؟  لیکن چونکہ مجھے اس  سے ڈر لگتا ہے اس لئے میں نہیں چاہتی کے تو اس کے قریب بھی پھٹکے اور میں ایک بات کہوں آتش بازی میں کوئی ایسا خاص مزہ بھی نہ ہو گا لیکن چونکہ میں نے تجھے اس سے دور رکھا ہے نا اس لئے تو اس کی جانب زیادہ کشش محسوس کرتا ہے۔ خیر تو چل میں ذرا منیشا سے مل کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کر سرجو حویلی کے اندرکی جانب چل پڑی  اور سچدیو باہر نکل گیا۔

منیشا سے ملنے کے بعد سرجو سمجھ گئی کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ وہ بہت جلد سچدیو کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ سرجو نے بلاواسطہ یہ خبر بڑے ٹھاکر صاحب تک پہنچا دی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے دو اور خادماؤں کومنیشا کی سیوا میں لگا دیا جو دن رات اس کی خدمت میں لگی رہتی تھیں۔ منیشا کا اب اہم ترسے اہم ترین ہو گئی تھی۔ اسے پانی کا گلاس بھی اٹھانے کی زحمت نہیں دی جاتی تھی۔ بھولا بھگت نے اس خوشی پر مندر میں خاص تقریب کا اہتمام کر کے سیکڑوں غریبوں کو کھا نا کھلایا۔ اس روز پرساد لینے کے لئے خود بڑے ٹھاکر بھی مندر پہنچے تھے۔ انہوں نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ بھوجن کیا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جسے آسمانِ گیتی نے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔

دیکھتے دیکھتے وہ شبھ گھڑی بھی آ گئی جب منیشا نے بلدیو کو جنم دیا۔ یہ پورے کوسی کلاں کے لئے جشن کا موقع تھا۔ کوسی کلاں کے علاوہ بور کلاں میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر جگہ لوگ سچدیو کے منتظر تھے کہ وہ ان کے بیچ آئے اور ان کی خوشیوں میں شامل ہو جائے۔ لوگوں نے اپنی دلچسپی کے مطابق کہیں پر دھرم کرم تو کہیں ناچ رنگ کی محفل سجائی ہوئی تھی۔ سچدیو اپنے چنندہ دوستوں کے ساتھ ان تمام تقریبات میں شرکت کرتا اور مبارکباد قبول کرتا۔ ان کا شکریہ ادا کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ بور کلاں کے لوگ کوسی کلاں کی کسی تقریب میں پہلی بار  شامل ہوئے تھے۔ ان کا جوش خروش کچھ زیادہ ہی بڑھا ہوا تھا۔ ناچ رنگ کے علاوہ شراب کی بوتلیں بھی دھڑا دھڑ کھلتی تھیں اور دیکھتے  ہی دیکھتے نگل لی جاتی تھیں

  اس دوران بور کلاں کے میدان میں آتش بازی کا آغاز ہوا۔ سچدیو کو ماسی کی نصیحت یاد آئی لیکن اس ماحول سے اچانک نکل آنا ممکن نہیں تھا اس لئے وہ وہیں رکا رہا یہ سوچ کر کچھ دیر بعد موقع پاکر چل دے گا۔ آتش بازی اپنے شباب پر تھی۔ بارود آسمان میں جاتا اور ستاروں کی مانند بکھر جاتا تھا۔ اس بیچ پٹاخوں کی ایک لڑی لگائی گئی جو دیر تک چلی اور پھر خاموش ہو گئی اس کے فوراً بعد دوسری لڑی اور پھر تیسری اس طرح یہ سلسلہ چل پڑا کہ درمیان میں ایک لڑی اچانک پھس ہو گئی۔ دھوم دھڑا کا رک گیا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ مسئلہ کیا ایک نوجوان قریب گیا اور اس کے قریب جاتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا جس سے کئی بم ایک ساتھ پھٹ پڑے وہ نوجوان اس کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے اس کا چہرہ جھلس گیا او اس کے کپڑوں میں آ گ لگ گئی۔

 سچدیو اسے بچانے کے لئے نوجوان کے قریب گیا اور اسی لمحہ ایک اور دھماکہ ہوا جو پہلے سے زیادہ زبردست تھااور سچدیو سے  لپٹ گیا تھا۔ نہ جانے یہ کیسا آتش گیر مادہ تھا کہ رہ رہ کر پھٹتا تھا لیکن اس دوسرے دھماکے نے سچدیو کو نگل لیا۔ سچدیو اس کی آگ  میں ایسا جھلسا کہ پھر زخموں کی تاب نہ لا سکا اور پرلوک سدھار گیا۔ سچدیو کی بدنصیبی بھی عجیب و غریب تھی کہ جب وہ دنیا میں آیا تو اس کی ماں اس کا ساتھ چھوڑ گئی اور جب اس کا بیٹا بلدیو دنیا میں آیا تو وہ خود دنیا چھوڑ گیا۔ جب سرجو کو یہ پتہ چلا تو وہ اپنا سر پکڑ بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ قدرت کا یہ کیسا مذاق ہے جس کی وہ شکار ہے ؟ یہ سب اسی کے ساتھ کیوں ہوتا ہے ؟ لیکن منیشا نے ایسا کچھ نہیں سوچا اس لئے کہ اس کے ساتھ یہ سب پہلی بار ہو رہا تھا۔

 سچدیو کے دنیا سے چلے جانے کے بعد منیشا کے سر سے تو خاوند کا سایہ اٹھ گیا تھا لیکن بلدیو کے سر پر بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ کا سایہ موجودتھا۔ چند ماہ کے بعد جب وہ بر گد کا پیڑ بھی زمین پر آ رہا تو منیشا نے سوچا کہ اس کے ساتھ ساتھ بلدیو کے ستارے بھی گردش میں آ گئے ہیں اور اب آگے جو طوفان ان کی زندگی میں آئیں گے ان کا مقابلہ کیونکر کیا جائے گا ؟ اس نازک موقع پر سرجو ماسی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے جیون کے ہر اونچ نیچ میں منیشا کو سہارا دیا۔ بلدیو کے اپنے یتیم ہونے کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ ایک زمانے تک وہ سچدیو کی ماں بنی رہی تھی اب وہ بلدیو کے لئے باپ بن گئی تھی۔ منیشا کے لئے وہ پھوپی بھی تھی اور ساس بھی  ایسی کہ جو اسے اپنی بیٹی سے زیادہ عزیز رکھتی تھی۔ سرجو اپنے آپ سے زیادہ خیال منیشا کا رکھتی تھی۔ دن کسی نہ کسی طرح گزرنے لگے۔ وقت ہر زخم پر مرہم ہوتا سو اس نے منیشا  کے زخموں کو بھی آہستہ آہستہ مندمل کر دیا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک اور ایسا زخم اس کا  انتظار کر رہا ہے جو رسنا شروع ہو گا تو رستا ہی رہے گا۔ کسی صورت نہیں بھرے گا۔ یہ اس  کے اپنے جگر گوشے کی جدائی کا درد تھا۔ اس غم نے منیشا کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیا  تھا۔

٭٭

 

نرمل اگنی ہوتری

منیشا اوپر ہی اوپر لاکھ یہ کہتی تھی کہ بلدیو کے لئے ایک بار رو کر دل کو ٹھنڈا کر لیا جائے لیکن اس کے دل میں کہیں نہ کہیں امید کا ایک ننھا سا چراغ روشن تھا جو اپنے کانپتے لبوں سے پکار پکار کر کر کہتا جاتا تھا بلدیو ایک دن واپس آئے گا  لیکن یہ سرگوشی بھی چند لمحات کے بعد بند ہو جاتی  اور منیشا کے دل کی دنیا میں پھر سے اندھیرا چھا جاتا۔ ایسی گھٹا ٹوپ تاریکی جس کی گہرائی کو ناپنا کسی کے لئے ممکن نہیں تھا خود منیشا بھی جب اس کی کوشش کرتی تو کچھ دیر بعد اس میں تحلیل ہو کر رہ جاتی تھی۔ تاریکی اس کے وجود کا ایک ایساحصہ بن گیا تھا جو اس کا احاطہ کئے رہتا تھا۔

 سرجو ماسی اس کو کہتی بیٹی اداس نہ ہو مجھے اب بھی یقین ہے کہ بلدیو زندہ ہے۔ صحیح سلامت ہے۔ وہ ایک دن ضرور واپس آئے گا تو منیشا کا جواب ہوتا ماسی کاش کہ آپ کی بات صحیح ہو۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ ایسا ہی ہو لیکن میں اسے اس وقت سے پہلے نہیں مانوں گی جب تک کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لوں۔

ایک دن منیشا کے اس جواب پرسرجو نے کہا بیٹی اس کائنات جن چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں اس کے بالمقابل ان اشیاء کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے دیکھنے نہ دیکھنے سے اور  ماننے نہ ماننے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔

منیشا نے کہا اچھا اگر ایسا  ہے تو کیا ہماری بینائی بے سود ہے۔ کسی شہ کا وجود یا عدم وجود بے معنی ہے ؟ منیشا کے اس سوال پرسرجوبولی دیکھ بیٹا ایک تو ہماری بینائی ہے جس سے ہم دیکھتے ہیں اور ایک وہ شہ ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔ اگر وہ دیکھی جانے والی شہ سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ہماری بینائی کسی کام کی نہیں ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ منیشا کے دل کی بات تھی اس لئے اس نے فوراً کہا یہی تو میں بھی کہتی ہوں۔ مگر سرجو نے بلاتوقف بات آگے بڑھائی اور بولی لیکن اگر وہ شہ موجود ہو لیکن ہم بینائی سے محروم ہوں تب وہ ہمیں نظر نہیں آ سکتی۔

 منیشا نے تائید کی اور کہا کہ اگر ہم   بینائی  سے محروم ہیں تو کسی بھی شہ کو دیکھ نہیں سکتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم بہت ساری اشیاء کو دیکھ رہے ہیں۔ اب سرجو بولی جی ہاں لیکن ایک تیسری چیز بھی ہے تو ہے جو دونوں کے درمیان میں واسطہ ہے یعنی روشنی۔ اگر اجالا نہ ہو تو ہماری بینائی اور اس چیز کے موجودگی دونوں بے فیض ہیں۔ اس صورتحال میں دیکھنے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ایک دیوار حائل ہو جاتی ہے اور اس کے موجود ہونے کے باوجود ہم اسے  نہیں دیکھ پاتے۔

اس دلیل پر یوں تو منیشا لاجواب ہو گئی لیکن پھر بھی اس نے موضوع کو بدل کر ایک سوال کر دیا ماسی کیا اندھیرا بھی تو ایک حقیقت نہیں  ہے ؟ ماسی بولی جی نہیں بیٹی اندھیرے کی کوئی حقیقت نہیں وہ تو عدم روشنی کے نتیجہ میں پایا جانا والا خلاء ہے۔ روشنی ایک ٹھوس حقیقت ہے اس لئے جب وہ نمودار ہوتی ہے تو اندھیرا اپنے آپ غائب ہو جاتا ہے۔ منیشا نے پوچھا لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے ماسی کے اندھیرا حقیقت ہو اور اس کے آتے ہی روشنی غائب ہو جاتی ہو۔ ماسی نے نہایت پراعتماد لہجہ میں جواب دیا جی نہیں بیٹی روشنی پھیلانے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔  محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ روشنی کے گل ہوتے ہی اندھیرا اپنے آپ پھیل جاتا ہے۔

منیشا کا بے چین دل اب اطمینان سے محروم تھا اس لئے اس نے ایک سوال پوچھ لیا لیکن ماسی یہ کیسی روشنی ہے جس سے آپ تو بلدیو کو دیکھ لیتی ہیں لیکن میں نہیں دیکھ پاتی ؟ سرجو نے کہا یہ دل کی روشنی ہے بیٹی۔ اسے بصارت نہیں بلکہ بصیرت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔  جب قلب منور ہوتا ہے تو انسان اپنی بصیرت سے عالمِ غیب کا نظارہ کرتا ہے اور جب وہ تاریک ہو جاتا ہے تو اس کا مکمل انحصار بینائی یعنی قوت، بصارت  تک محدود ہو جاتا ہے وہ حاضر کے ظاہرسے پرے نہیں دیکھ پاتا۔

سرجو ماسی کے آگے  ساری منطق سارے دلائل بے سود ہوتے تھے۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا جو مخاطب کو لاجواب کر دیتا تھا اس کے باوجود  منیشا کے نزدیک اس کی اہمیت ایک خام خیالی سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کے خیال میں  یہ سارا کھیل ماسی اپنے آپ کو بہلانے پھسلانے  کے لئے رچایا کرتی تھی زندگی کے تلخ حقائق سے ان کا کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ منیشا کے لئے اس طرح کی خوش فہمی بے معنیٰ تھی۔ منیشا اپنے سامنے کھڑی پہاڑ جیسی زندگی کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے لگی تھی۔ بلدیو کے چلے جانے کے بعد حویلی کی تنہائی اسے کاٹ کھانے کے لئے دوڑتی تھی ایسی صورتحال میں اسے نرمل کی یاد آتی۔ اس سے ہونے والی یکے بعد دیگرے دو ملاقاتیں اس کی نگاہوں میں گھوم جاتی تھیں۔

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت اپنے میکہ سے لوٹ کرواپس  آتے ہوئے منیشا کو اپنے پیچھے ایک آہٹ سنائی دی۔ مندر اور حویلی کے درمیان سنسان سڑک پر  ایک جانی پہچانی سی آہٹ اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ منیشا کا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا لیکن اپنے آپ پر قابو رکھتے وہ آہستہ آہستہ چلتی رہی  کہ اچانک اس کے کانوں سے ایک جانی پہچانی آواز ٹکرائی منیشا۔ منیشا میری بات سنو۔ یہ نرمل کی آواز تھی۔ منیشا اسے ان سنا کر کے آگے بڑھتی رہی۔ فاصلہ برقرار رہا  آواز پھر ایک بار ابھری۔ منیشا میری بات سنو میں نرمل ہوں نرمل۔ میں تم سے ایک اہم  بات کرنا چاہتا ہوں۔

منیشا اپنے آپ کو روک نہیں پائی اور بولی نرمل میں جانتی ہوں لیکن اب میں وہ منیشا نہیں ہوں جو تمہارے پڑوس میں رہا کرتی تھی۔ تمہارے ساتھ ہنس بول لیا کرتی تھی۔ وقت بدل گیا ہے ، زمانہ بدل گیا ہے ، حالات بدل گئے ہیں ، سب کچھ بدل گیا ہے نرمل۔ اب تم میرا تعاقب کرنا چھوڑ دو۔ مجھے بھول جاؤ نرمل میں تمہارے لئے مر چکی ہوں۔

نرمل کو منیشا کا بچپن یاد آ گیا۔ وہ بچپن ہی سے بڑے لوگوں کی سی باتیں کرنے کی عادی تھی۔ اس وقت منیشا کی اکثر و بیشتر باتیں نرمل کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ بغیر سمجھے سر ہلا دیا کرتا تھا  لیکن اب نرمل بھی بچہ نہیں تھا۔ وہ سمجھدار ہو گیا  تھا۔ نرمل بدل چکا تھا لیکن منیشا نہیں بدلی تھی۔ یقیناً بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن منیشا اور اس کا لب و لہجہ۔ اس کا انداز۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ نرمل نے جواب دیا منیشا چونکہ یہاں رہتے ہوئے تمہیں بھولنا نا ممکن تھا اس لئے میں نے اس شہر اور علاقہ کو چھوڑ دیا  اور تمہارا خیال اپنے دل سے نکال کر تقدیر کے فیصلے پر راضی ہو گیا۔ شہر میں مجھے ایک دوست نے اپنے دوکان پر اول تو ملازم رکھا پھر کاروبار  میں شراکت دار بنا لیا۔ اتفاق سے ہماری تجارت دن دونی اور رات چو گنی ترقی کرتی رہی ایسی کہ مجھے سانس لینے کی فرصت بھی نہیں ملتی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کب میں نے ہندوستا ن کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنا شروع کر دیا اس کے بعد تو دن اور رات کہاں گزرتے تھے پتہ ہی نہ چلتا تھا۔

ا س دوران  میں اپنے آپ کو بھول چکا تھا والدین سے تعلق بس اس قدر رہ گیا تھا کہ انہیں خرچ کے لئے کچھ رقم بھجوا دیا کرتا۔ میری دونوں بہنوں کی شادی بھی اس عرصہ میں ہوئی لیکن میں ان میں شرکت کے لئے وقت نہ نکال سکا ہاں کپڑا  لتہ اور زیور وغیرہ شہر سے خرید کر ضرور بھجوا دئیے۔ مجھ پر کاروبار کا ایک جنون سوار تھا۔ بزنس تھا کہ بھسما سور کی طرح پھیلتا  جاتا تھا اور مجھے اپنے اندر نگلتا چلا جاتا تھا۔ ہمارے کاروبار کی مزید ترقی نے مجھ پرسارے عالم کے دروازے کھول دئیے اور میں دنیا بھرکی سیر کرنے لگا۔ لیکن پچھلے دنوں میں جب میں یوروپ سے لوٹا تو مجھے والد صاحب کا خط ملا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ ایک ماہ بعد ملازمت سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ اس خط نے مجھے احساس کرایا کہ ایک طویل زمانہ کہیں کھو گیا ہے۔ اس کے بعد مجھے یہ خیال بھی آیا کہ اگر والد صاحب ریٹائر ہو جائیں گے تو رہیں گے کہاں ؟ اس لئے کہ سرکاری مکان جس میں وہ رہتے ہیں خالی کرنا پڑے گا  اور پھر یہاں رہیں گے تو کریں گے کیا؟ اس لئے کہ اس اسکول کے دروازے جو ان کی ہر صبح کو شام کرتے ہیں ان پر ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔

 میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا انہیں صبح اٹھ کر اسکول  جاتے دیکھا تھا۔ چھٹی کے دن بھی اکثر وہ بچوں کو مفت میں پڑھانے کی خاطر بلا لیا کرتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ جس طرح مجھ پر کاروبار کا بھوت سوار ہے اسی طرح ان کو درس و تدریس کا جنون ہے۔ انہوں نے اس طویل عرصہ میں اس کے سوا کچھ اور نہیں سوچا لیکن اب انہیں سوچنا پڑے گا اور ایک دن آئے گا جب مجھے بھی سوچنا پڑے گا۔ اس خیال نے مجھے اپنے والد کے بارے سنجیدہ کر دیا اور اپنے آپ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میں اپنے بارے میں تو کچھ سوچ نہ سکا لیکن والد صاحب کے سلسلے میں یہ فیصلہ کیا کہ اب انہیں اس گاؤں کے بجائے شہر لے آؤں گا۔ وہاں میرے پاس شاندار گھر ہے ، گاڑی ہے ، نوکر چاکر ہیں ، عیش ہے۔ ان تمام اشیاء پر مجھ سے زیادہ  میرے والدین کا حق ہے۔ مجھے اپنی خود غرضی پر غصہ آیا کہ میں نے انہیں ابھی تک ان نعمتوں میں شریک کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی  لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے والد کومل اگنی ہوتری کو اسکول سے نکال کر کہیں اور لے جانا ان کی روح کو جسم سے نکال کر ان کا انتم سنسکار کر دینے جیسا تھا۔ شاید اسی لئے یہ خیال کبھی بھی میرے من میں نہیں آیا۔ لیکن اب تو یہ ان کی مجبوری تھی اس لئے میں نے ان کے سامنے اپنے پاس شہر آنے کی  تجویز رکھی۔ پہلے تو انہوں نے مزاحمت کی اور کہا کہ وہ بلا تنخواہ بچوں کو پڑھاتے رہیں گے لیکن جب میری ماں نے انہیں سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہے تو بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ اب میں انہیں لینے کی خاطر یہاں آیا ہوں اور بہت جلد اپنے والدین کے ساتھ شہر لوٹ جاؤں گا

میں اپنی تیاریوں لگا ہوا تھا کہ اچانک مندر میں میری ملاقات تمہارے والد بھولا بھگت جی سے ہو گئی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ وہاں تمہاری ماتا جی سے ملاقات ہوئی۔ ان سے ملنے کے بعد مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آ گئے۔ وہ مندر کے احاطے  میں کھیلنا کودنا۔ ان سے کبھی ڈانٹ تو کبھی مٹھائی کھانا وہ سارے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ اس بیچ کسی نے پنڈت جی کو آواز دی تو وہ مجھ سے یہ کہہ کر باہر چلے گئے کہ تم اپنی چاچی کے پاس بیٹھو میں ابھی آیا۔ تمہاری ماتا جی چائے ناشتہ لے کر آئیں تو پنڈت جی غائب تھے۔ انہوں نے ہنس کر کہا چلے گئے۔ بڑے کٹھور انسان ہیں۔ اتنے سالوں بعد ہمارا بچہ شہر سے آیا ہے اس کے لئے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ عجیب آدمی ہے۔ میں بولا چاچی یہ جو آپ کہہ رہی ہیں نا میری ماں بھی پچھلے تین دنوں میں کئی بار میرے پتا جی کے بارے میں کہہ چکی ہیں۔ یہ ایک نسل کا مسئلہ ان لوگوں پرسماج سیوا(خدمتِ خلق) کا جنون سوار ہے۔ جی ہاں بیٹے تم صحیح کہتے ہو۔ تم یہ مٹھائی کھاؤ اور چائے پیو میرا خیال ہے وہ جلد ہی لوٹ آئیں گے۔

میں نے تمہاری ماتا سے تمہارے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تمام تفصیلات سے مجھے آگاہ کر دیا۔ بلدیو کی پیدائش، بڑے ٹھاکر کی موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات۔ سب کچھ وہ مجھے بتاتی رہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ اپنے من کا بوجھ ہلکا کر رہی ہیں۔ میں ان کی بات کو غور سے سنتا رہا لیکن جب انہوں نے مجھے  سچدیو کی موت کے بارے میں بتلایا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ یہ مجھ جیسے پتھر دل انسان کے لئے بھی ایک ناقابلِ برداشت صدمہ تھا۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ تم نے اسے کیسے برداشت کیا ہو گا؟ اس رات گھر آنے کے بعد میں صرف تمہارے بارے میں سوچتا رہا۔ اس دوران تم کن کن آزمائشوں سے گزرتی رہیں اور کس طرح حالات سے مصالحت کر کے آگے بڑھتی رہیں یہ میرے لئے ناقابلِ یقین تھا۔ تم کرب و الم سے گزرتی رہیں اور میں نے کبھی تمہاری  خیرخبر لینے  کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کائنات کا سب سے بڑا خود غرض انسان اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ نرمل اگنی ہوتری ہے۔

میں نے ارادہ کیا کہ واپس جانے سے قبل کم از کم ایک بار تم سے ضرور ملاقات کروں گا لیکن سوال یہ تھا کہ ملاقات کیسے ہو ؟ سچدیو میرا دوست اور ہم جماعت تھا اگر وہ زندہ ہوتا تو اس ملنے کے لئے حویلی  جانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ بڑے ٹھاکر سے آشیرواد لینے کی خاطر بھی حویلی جایا جا سکتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں تھے لیکن پھر بھی ملنے کی خواہش تھی کہ وہ انگڑائی لیتی رہتی تھی لیکن پھر میں نے اپنے  آپ کو سمجھایا  کہ نرمل  اگر تو منیشا سے  ملے  گا بھی تو کیا کہے گا؟ تیرے پاس اس سے کہنے کے لئے کیا ہے ؟ اس سوال نے میرے ذہن کے نئے ابواب کھول دئیے۔ میں نے سوچا کہ میں منیشا سے کہوں گا۔  منیشا وقت نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ ہمارے درمیان دوری کی دو وجوہات تھیں ایک تو میری غربت اور دوسرے سچدیو سے تمہاری شادی لیکن جس گردشِ ایام نے ان دیواروں کو تعمیر کیا تھا وہی کال چکر اپنے تیز دھارے میں ان دونوں دیواروں کو بہا کر لے گیا ہے۔ اب نہ سچدیو موجود ہے اور نہ میری غربت کا کوئی نام و نشان ہے۔ اس لئے میں تم سے کہوں گا کہ تم بھی میرے ساتھ شہر چلے چلو۔ ہم وہاں وواہ(نکاح) کریں گے اور دیر آید درست آید کی مصداق اپنا گھر سنسار بسائیں گے۔

منیشا اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی۔ جب نرمل چپ ہو گیا تو وہ بولی شاید تم اپنی بات کہہ چکے۔ نرمل بولا جی ہاں منیشا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم میری بات کا فوراً جواب دو۔ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ مجھے اور ایک ہفتہ یہاں رہنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ٹھنڈے دل سے اس تجویز پر غور کرو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تم نے اس پر غیر جذباتی ہو کر غور کیا تو یہ تمہیں معقول نظر آئے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ جو وقت ہم پر نامہربان تھا اب بدل چکا ہے اورجس طرح ماضی میں ہم نے زمانے کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کر دیا تھا اس بار اس کے ذریعہ دئیے گئے نادر موقع کا استقبال کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم نے اس کو گنوا دیا تو ہمیں ساری عمر اس کا افسوس رہے گا۔

نرمل کے اختتامی الفاظ میں جو کرب و الم پوشیدہ تھا اسے منیشا کے علاوہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا تھا۔ منیشا نے کہا نرمل تم کب واپس جا رہے ہو۔ نرمل بولا منگل کی شام میرا واپسی کا منصوبہ ہے۔ شام سات بجے نکلنے کا اردہ ہے۔ تو ایسا کرو منگل کو شام ساڑھے چھے بجے مجھ سے ملنے کے لئے آنا۔ اس وقت میں پوجا گھر میں تمہارا انتظار کروں گی۔ چوکیدار سے کہنا کہ بہو جی نے بلایا ہے۔ میں اس سے کہہ دو ں گی۔ وہ تمہیں پوجا گھر میں پہنچا دے گا۔ اس وقت میں تمہیں اپنے جواب سے آ گاہ کر دوں گی۔ منیشا نے نہایت پر وقار انداز میں جواب دیا۔ اس کے اعتماد نے نرمل کو پر امید کر دیا۔ خاص طور پر جس وقت کا انتخاب منیشا نے کیا تھا وہ اس کے عزم و ارادے کا غماز تھا۔ نرمل نے اس کی روشنی میں اپنا پروگرام تبدیل کر دیا اور اپنے والدین سے کہا کہ ہم پیر کی شام جائیں گے اس لئے کہ منگل کو ایک ضروری کام آ گیا ہے۔ کومل اگنی ہوتری اور ان کی اہلیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اتوار کو ہونے والے الوداعیہ تقریب کے بعد کوئی خاص کام تو باقی تھا نہیں بس ملنا ملانا تھا۔ ان کی آخری دعو ت بھولا بھگت کے گھر میں تھی۔ بھولا کے دل میں نرمل کا رشتہ ٹھکرانے کا ایک احساسِ جر م تھا جسے مٹانے کی خاطر اس نے بہت ہی پر تکلف طعام کا اہتمام کیا تھا اور اس میں وید جی کے ساتھ جانکی داس کو مع اہل و عیال بلایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کومل اگنی ہو تری کے دل میں اس کے حوالے سے اگر کوئی خلش ہو تو وہ مٹ جائے۔  شام کے وقت نرمل اپنے والدین کے ساتھ روانہ ہو گیا لیکن اگلے دن وہ پھر سے لوٹ آیا۔ وہ منیشا کو اپنے  والدین کے ساتھ لے کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اپنی نئی زندگی کا آغاز وہ صرف اور صرف منیشا کے ہمراہ کرنا چاہتا تھا۔

  اس ملاقات کے بعد منیشا کے پاس دن رات ایک ہی کام تھا۔ اس سوال پر غور کر نا کہ جب نرمل آئے گا تو وہ اسے کیا جواب دے گی ؟  نرمل کی تجویز نہایت معقول تھی۔ اس میں ان دونوں کے سارے مسائل کا حل تھا لیکن دوسری طرف سچدیو کی امانت بلدیو اور کوسی کلاں کی حویلی کا عزت و وقار۔ وہ کبھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتی تو کبھی بلدیو کے مستقبل کے سلسلے میں غور کرتی۔ اس بات کا امکان بالکل بھی نہیں تھا کہ اسے بلدیو کو اپنے ساتھ لے جانے اجازت ملتی۔ اس رسوائی کو تو کوئی عام ٹھاکر بھی گوارہ نہیں کر سکتا تھا کہ ان کی اولاد کسی غیر کے گھر میں پرورش پائے کجا کہ بڑے ٹھاکر کا ونش اور کوسی کلاں کا ولیعہد۔ اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اس کی اپنی سرجو ماسی تھی جو اب اس کی پھوپی کم اور ساس زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ ٹھاکروں کی انا اور تکبر کے ماحول میں بلدیو کے ماتھے پر اس کی ماں کے کسی اور کے ساتھ چلے جانے کا کلنک۔ منیشا نے محسوس کیا کہ یوں تو نرمل اپنے آپ کو دنیا کا سب سے سنگدل انسان سمجھتا ہے لیکن اگر وہ معصوم  بلدیو کو تنہا چھوڑ کر نکل جاتی ہے تو اس سے زیادہ خود غرض انسان دنیا میں کوئی اور نہ ہو گا۔ اس ادھیڑ بن میں منیشا کی آنکھ لگ گئی ہے اور اس نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔

منیشا نے بستر پر پڑے پڑے انگڑائی لی اور اپنے آس پاس کا ماحول دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ وہ ایک محل کے اندر تھی۔ قصر ابیض لیکن اس کی سفیدی کچھ مختلف تھی۔ منیشا نے غور سے دیکھا تو اس کی سمجھ میں آیا یہ تو برف کی سفیدی ہے  اور یہ سفیدی اس کے چہار جانب پھیلی ہوئی ہے۔ منیشا نے سوچا یہ کیا؟ کیا وہ کسی محل کے اندر ہے ؟ کیا اس کی آس پاس بکھری ہوئی ساری اشیاء برف کی بنی ہوئی ہیں۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ ایک برف دان کے اندر براجمان ہے۔ یہ بستر، یہ میز، یہ سنگھاردان اور ہر ہر شہ صرف اور صرف برفیلی۔

منیشا اپنے بسترسے اٹھی اور کھڑ کی میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ سب سے پہلے اس نے آسمان کی جانب دیکھا تو برفیلے بادل آسمانِ دنیا کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے ہیں۔ منیشا نے گھبرا کر زمین کی جانب دیکھا تو وہاں بھی صرف اور صرف برف کے بڑے بڑے تودے نظر آئے۔ منیشا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں پہنچ گئی ہے ؟ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اور کیوں ؟وہ  ان سوالات پر غور کرہی رہی تھی کہ اسے ایک  ہلکا ساقہقہہ سنائی دیا۔ منیشا نے گھبرا کر پوچھا کون؟  تم کون ہو؟ جواب ملا میں ؟ تم مجھے نہیں جانتیں ؟ میں راون ہوں راون۔ آواز جانی پہچانی تھی منیشا نے  سوال کیا راون؟ کون راون ؟۔ تم راون کو نہیں جانتیں سیتا؟ میں لنکا نریش راون ہوں۔ ساری دنیا مجھے جانتی ہے اور میرے خوف سے کانپتی ہے۔ لیکن تم یہاں ؟ یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ میں پہلے بھی یہاں آیا تھا۔ میری تپسیا سفل(کامیاب) رہی تھی لیکن بدقسمتی میں  راستے میں غفلت کا شکار ہو گیا اور ناکام لوٹا۔ اب میں پرایشچت (کفارہ) کے لئے پھر سے لوٹ آیا ہوں۔ سیتا میں واپس آ گیا ہوں۔ یہ بار بارسیتا کیا لگا رکھا ہے ؟ میں منیشا ہوں۔ ایک ہی بات ہے کیا سیتا کیا منیشا ؟ ایک ہی بات ہے ؟

منیشا اب راون سے مانوس ہو چکی تھی۔ اس کا خوف کم ہو چکا تھا۔ اس نے پوچھا اچھا تم جو بھی ہو نرمل یا راون مجھے بتاؤ کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ تمہیں نہیں پتہ ؟ بہت بھولی ہو تم بالکل بھولے شنکر کی طرح۔ یہ کیلاش پربت ہے ہمالیہ کی سب سے مقدس چوٹی کیلاش پربت ! اچھا تمہیں کیسے پتہ ؟ وہ دیکھو دور اونچے پربت پر جو وشال مندر تمہیں نظر آتا ہے وہی شنکر پاروتی کا نواس استھان ہے۔  اچھا لیکن یہ محل ؟ کیا برف کا بنا ہوا ہے ؟ جی ہاں۔ اور اس کے اندر پایا جانے والا سارا سامان ؟ منیشا جانتی کہ برف کا بنا ہوا ہے لیکن پھر بھی تصدیق کی خاطر پوچھ رہی تھی۔ یہ سب بھی برف ہے۔ اچھا اگر ایسا ہے تو مجھے ٹھنڈک کیوں نہیں لگتی ؟ اس لئے کہ تم خود بھی۰۰۰۰۰۰ اور برف کو برف سے ٹھنڈک کیوں کر لگ سکتی ہے۔ منیشا نے گھبرا کر آئینے کی جانب دیکھا۔ آئینہ آواز کی تصدیق کر رہا تھا۔

منیشا نے گھبرا کر پوچھا  یہ پگھلتی کیوں نہیں ؟ یہ  ہمالیہ پربت ہے ؟ برف کا پہاڑ۔ یہاں سب کچھ برف کا ہے ؟ جب تک ہمالیہ نہیں پگھلتا اس وقت تک یہ چیزیں نہیں پگھل سکتیں ؟ اور ہمالیہ ؟ منیشا نے پوچھا۔ وہ ! کبھی نہیں پگھلے گا؟ منیشا نے حیرت سے پوچھا کبھی نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ جی ہاں تم سچ کہتی ہو۔ وہ بھی پگھلے گا۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کب پگھلے گا؟ جب پرلیہ (قیامت) آئے گا۔ جب زلزلے کا جھٹکا اس دنیا کو تہس نہس کر دے گا۔ جب آگ کا سمندر اپنے ساحل کو توڑ کر بستیوں میں داخل ہو جائے گا تو اس وقت یہ پربت بھی پانی پانی ہو جائے گا۔ تو کیا اس کے پانی سے وہ آگ بجھ جائے گی ؟ نہیں اس دن پانی میں بھی آگ لگ جائے گی۔ پانی کے ذرات ٹوٹ ٹوٹ کر آگ برسائیں گے۔

یہ تمام باتیں منیشا کی عقل سے پرے تھیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔  اس نے ایک بار دور کھڑے مندر کو دیکھا اور محل کے آس پاس بچھی فصیل کو دیکھا۔ منیشا کی نظریں دیوار میں دروازہ تلاش کر رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں  چہارجانب سے لوٹ کر واپس آ گئیں۔ اس دائرہ نما دیوار میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ اس نے پوچھا یہ کیسی دیوار ہے ؟ اس میں کوئی دروازہ کیوں نہیں ہے ؟ کس نے بنا ئی ہے یہ ایسی دیوار؟ آواز آئی یہ دیوار میں نے ہی بنائی ہے۔ نادانستہ طور پر میں اس میں  دروازہ بنانا بھول گیا۔ لیکن اگر میں  اس مندر میں جانا چاہوں تو کیسے جا سکتی ہوں ؟ تم اس مندر میں نہیں جا سکتیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس مندر میں کوئی نہیں  جا سکتا۔ وہ شنکر  اورپاروتی کی خوابگاہ ہے۔ اس میں ان دونوں کے سوا کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں ہے ؟

اچھا تو میں اس محل سے باہر کبھی نہیں جا سکتی؟ کیوں نہیں تم جب چاہو، جہاں سے چاہو  جا سکتی ہو ؟ وہ کیسے یہاں کو کوئی دروازہ نہیں ہے ؟ دروازہ میں بنا دوں گا۔ تم بنا دو گے ؟ وہ کیسے ؟ پھونک مار کے۔  اس بار منیشا کو ہنسی آ گئی۔ اس نے سوال کیا تمہاری پھونک سے اس فصیل میں دراڑ پڑ جائے گی۔ جی ہاں  میرے اندر آگ ہے۔ میری پھونک سے شعلے برستے ہیں۔ جو اس دیوار میں سوراخ کرسکتے ہیں۔ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ جی ہاں کیوں نہیں منیشا نے کہا۔ وہ دیکھو منیشا نے دیکھا کہ ہوا میں چند شعلے بلند ہوئے دیوار میں ایک قد آدم شگاف پڑ گیا۔  منیشا نے شگاف سے دیکھا تو باہر ایک باغ ہے۔ اس کے گاؤں کا باغ جس میں اس کا بیٹا بلو ّ اپنے استاد شیکھر سمن کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اس نے کہا بہت خوب۔ مندر نہ سہی تو مجھے باغ میں اپنے بیٹے کے پاس جانے دو۔

راون کی آواز آئی منیشا  تم اس کے پاس نہیں جا سکتیں ؟ کیوں درمیان کی کھائی کو تم نے نہیں دیکھا شاید۔ تم اسے پھلانگ نہیں سکتیں۔  تم میرے ساتھ اس پگڈنڈی پر نکل چلو۔ لیکن یہ تو مخالف سمت میں جاتی ہے اگر میں اس پر چل پڑی تو میرے بلوّ کا کیا ہو گا؟ تمہارے بلو ّ نے تمہیں چھوڑ کر  لچھمن سے  دوستی  کر لی ہے تم اس کی فکر نہ کرو اور مجھ سے دوستی کر لو۔ وہ لچھمن نہیں  سمن ہے۔ لچھمن یا سمن ایک ہی بات ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ منیشا نے کہا فرق کیوں نہیں پڑتا ؟ بہت  فرق پڑتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں ؟  دیکھو منیشا یہ آخری موقع ہے۔ اگر تم نے اسے گنوا دیا تو بہت پچھتاؤ گی۔ نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ منیشا نے چیخ کر کہا اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ کس قدر  بھیانک خواب دیکھا تھا اس نے۔

   منگل کی شام بڑے ارمانوں سے نرمل حویلی پہنچا۔ چوکیدار کو منیشا نے کہہ رکھا تھا کہ بھولا بھگت پوجا گھر کی سجاوٹ کے لئے ایک نرمل نامی ایک آدمی کو شام ساڑھے چھے بجے بھیجیں گے اس لئے وہ انہیں لے کر سیدھے پوجا گھر میں آ جائے۔ چوکیدار حویلی کے مندر نما کمرے تک نرمل کو پہنچا کر واپس لوٹ گیا۔ منیشا نے نر مل کو بتایا کہ وہ اس کے جذبات کی قدر کرتی ہے۔ اس کی ہمدردیوں کا شکریہ ادا کرتی  ہے لیکن بلدیو کے مستقبل اور حویلی کے وقار کی خاطر اس کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ جوا ب اتنا صاف اور سیدھا تھا کہ کسی بحث و گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نرمل اگنی ہو تر ی اس جواب کے لئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا  اور بولا آپ نے میری تجویز پر غور کیا اس کے لئے میں آپ کا ممنون و شکر گزار ہوں۔ آپ کی مجبوری کا میں احترام کرتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں۔ شبھ راتری(شب بخیر)۔ نر مل مڑ کر ہلکے ہلکے قدموں کے ساتھ حویلی دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ منیشا نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر آخری بار اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے گرے اور ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

  منیشا کی زندگی سے نرمل کیا گیا کہ بلدیو بھی چلا گیا۔ یہ وہی منحوس شام تھی جب بلدیو  لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ منیشا کو لگتا تھا کہ شاید نرمل کی بددعا نے بلدیو کو اچک لیا تھا لیکن پھر اس کا من کہتا تھا کہ نرمل انسان نہیں دیوتا ہے۔  اس کو نہ تو کبھی کسی سے کوئی شکایت ہوتی ہے نا شکوہ۔ وہ کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوسکتا اور کبھی کسی کو بددعا نہیں دے سکتا۔ خاص طور منیشا کو تو کبھی نہیں۔ کبھی بھی نہیں۔

٭٭

 

راج پال سنگھ

عدالت میں گواہی کا سلسلہ شروع ہوا تو سر فہرست سرجو ماسی کا نام تھا۔ سرجو ماسی کو دونوں وکلاء نے اپنے گواہوں کی فہرست میں شامل کیا تھا اس لئے سب سے پہلے انہیں کو حاضر ہونے کے لئے کہا گیا۔ سرجو جب گواہی کٹہرے میں پہنچی تو خوبصورت سرخ غلاف میں لپٹی گیتا اس کے سامنے پیش کی گئی۔ سرجو نے پوچھا یہ کیا ہے ؟

اہلکار بولا محترمہ یہ پوتر گرنتھ شری مد بھگوت گیتا ہے۔

وہ تو میں جانتی ہوں لیکن اسے یہاں کیوں لائے ہو۔ مجھے گواہی دینی ہے یا پروچن دینا ہے ؟

اہلکار ادب سے بولا گواہی سے قبل لوگ اس پراچین گرنتھ کی سوگندھ کھا کر سچ بولنے کی پرتگیہ کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو۰۰۰۰۰۰

جی نہیں  اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اہلکار گیتا کو  واپس لے گیا

راج پال نے سوچا  اس بلبل نے تو از خود دام میں قدم رکھ دیا۔ اس لئے وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور سرجو سے جرح کی ابتداء کرتے ہوئے سوال کیا۔ محترمہ سرسوتی دیوی عرف سرجو ماسی کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ نے گیتا کی سوگندھ کھانے سے کیوں انکار کیا ؟ کہیں پنڈت جگت پرشاد کی بیٹی ناستک تو نہیں ہو گئی ؟

اپنی زبان کو لگام دیجئے وکیل صاحب اور یہ نہیں بھولئے کہ میں بڑے ٹھاکر کی حویلی سے آئی ہوں۔ میں ناستک نہیں ہوں لیکن ایسی دھارمک بھی نہیں کہ جسے سچ بولنے کے لئے گیتا کی سوگندھ کھانی پڑے ، میں اس کے بغیر بھی سچ بولتی ہوں۔

بھولا بھگت کا ہاتھ بے ساختہ اپنے گال پر پہنچ گیا اور راج پال کو ایسا لگا جیسے کسی نے بھری محفل میں اس کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا ہو۔

راج پال نے اپنی خجالت مٹانے کے لئے کہا لیکن عدالت کو  کیسے پتہ چلے ؟ یہ نیالیہ کی پرتھا (روایت )ہے۔

یہ سنتے ہی سرجو کا پارہ چڑھ گیا وہ بولی وکیل صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ  اگر کوئی گیتا کی سوگندھ کھا کر جھوٹ بولے تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا ؟

بھولا بھگت کا ہاتھ اب کی باردوسرے گال کو سہلا رہا تھا اور راج پال کے دونوں کان سرخ ہو رہے تھے۔ اس نے مقدمہ کی جانب مڑتے ہوئے کہا محترمہ سرسوتی دیوی کیا آپ بتلا سکتی ہیں کہ بلدیو سے آپ کا کیا تعلق ہے ؟

سرجو کے لئے یہ سوال احمقانہ تھا اس کے باوجود اس نے نہایت پر وقار انداز میں کہا سرجو میرے منہ بولے بیٹے مرحوم سچدیو کا فرز ندِ  ارجمند ہے۔

لیکن اس کا آپ سے ایک اور رشتہ بھی تو ہے ؟

اب اس سوال سے سرجو ماسی کا پارہ   دوبارہ چڑھ گیا وہ چڑ کر بولیں مائی لارڈ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ  مجھے یہاں کس لئے بلایا گیا ہے۔ میں  اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت کی اجازت میں کسی کو نہیں دیتی۔ میرے بارے میں وہ معلومات جو جگ ظاہر ہیں ان کا مجھ سے عدالت میں اعتراف کرانا بے معنی اور غیر ضروری ہے۔

جج صاحب نے آرڈر۔ آرڈر کہہ کر مداخلت کی اور راج پال سنگھ کو ڈانٹ لگاتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ضروری سوالات کر کے عدالت کا وقت ضائع کرنے سے گریز کرے اور اپنے سوالات کو مقدمہ کے حدود میں رکھے۔ سرجو ماسی نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اسی کے ساتھ راج پال سنگھ اور رنجیت کا چہرہ مرجھا گیا۔ رنجیت کے لئے یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ اسے سرجو ماسی کی گواہی سے بڑی توقعات تھیں اور ہر گز یہ امید نہیں تھی کہ ان کی جانب سے اس طرح کا سخت  جواب ملے گا۔

راج پال نے کہا مائی لارڈ میں معافی چاہتا ہوں۔ اب وہ سنبھل کر بول رہا تھا۔ سرجو ماسی کیا آپ عدالت کو یہ بتانے کی زحمت کریں گی کہ شیکھر سے آپ کی پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟

پہلی مرتبہ میں شیکھر سے اس تعلیمی سال کے ابتدا میں  بلدیو کی کلاس میں ملی اس لئے کہ وہ کلاس ٹیچر تھا۔

اور آخری بار؟

باغ میں جب میں بلدیو کو گھمانے کے لئے اپنے ساتھ لے کر گئی تھی۔

لیکن اس روز آپ بلدیو کے ساتھ واپس نہیں آئیں ؟

جی ہاں ، میں اسے شیکھر کے پاس چھوڑ کر واپس آ گئی تھی۔

بہت خوب ! سرجو ماسی کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ نے اتنا بڑا خطرہ کیوں کر مول لیا ؟

خطرہ؟ کیسا خطرہ؟ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی؟ اگر کلاس ٹیچر کے پاس اس کے طالبعلم کا چھوڑنا خطرناک ہے تو یہ عمل ہر روز ہوتا ہے اور تمام ہی والدین اس خطرے کو مول لیتے ہیں۔ کیا آپ اپنے بچہ کو کلاس ٹیچر کے پاس نہیں چھوڑتے ؟

راج پال سنگھ لاجواب ہو گیا اور بولا لیکن محترمہ بچہ کو اسکول میں ٹیچر کے حوالے کرنا  اور باغ میں تنہا چھوڑ آنا یکساں تو نہیں ؟

جی ہاں یہ دونوں صورتحال مختلف ہیں میں اسے تسلیم کرتی ہوں۔

یہ سن کر راج پال کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ بولا کیا عدالت  جان سکتی  ہے کہ یہ جاننے  کے باوجود آپ سے ایسی فاش غلطی کیونکر سرزد ہو گئی ؟

سرجو نے جواب دیا یہ غلطی تھی یا نہیں اس کا فیصلہ وکیل صاحب کریں گے یا جج صاحب کو کرنا ہو گا یہ میں نہیں جانتی  لیکن اگراس کا فیصلہ آپ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے تو مجھے اس عظیم غلطی کی کڑی سزا بھی سنا دیجئے۔ میں اس کے لئے تیار ہوں۔ بھولا بھگت نے اپنی بہن کا یہ جواب سنا تو اپنے آپ سے بولا اب آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ یہ بے وقوف وکیل نہیں جانتا کہ اس کا پالا کس سے پڑا ہے۔ یہ پنڈت جگت پرشاد کے بھی قابو میں نہیں آتی تھی۔ راج پال جیسے للو پنجو کی اس کے سامنے کیا اوقات۔

جج صاحب نے پھر مداخلت کی اور کہا میں فاضل وکیل کو آخری مرتبہ تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے ورنہ عدالت کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔

راج پال کے پسینے چھوٹ رہے تھے وہ بولا جناب جج صاحب  میں ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اب ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہو گی۔ اب میں اس گواہ کو اپنے دوست لوک پال اگروال کے حوالے کرتا ہوں تاکہ وہ استفسار فرمائیں۔ اگر دوران جرح کوئی وضاحت ضروری ہو گی تو میں اجازت طلب کروں گا۔ یہ کہہ کر مایوس راج پال سنگھ اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ پیش کا ر نے لوک پال کی جانب اشارہ کر کے کہا جناب اگر آپ کچھ پوچھنا ہے تو عدالت اس کی اجازت دیتی ہے۔

لوک پال نے کھڑے ہو کر شکریہ ادا کیا اور بولا میں اپنی بات وہیں سے آگے بڑھانا چا ہتا ہوں جہاں میرے فاضل دوست نے اسے چھوڑا تھا اور محترمہ سرجو ماسی  سے یہ جاننا  چاہتا ہوں کہ شیکھر سے باغ میں ان کی ملاقات اس روز پہلی مرتبہ ہوئی تھی یا اس سے  پہلے بھی ہوتی رہی تھی ؟

اس سے پہلے کئی مرتبہ ہوئی تھی بلکہ اکثر شام میں بلدیو اور شیکھر ایک دوسرے سے ملتے تھے اور ساتھ ساتھ کھیلا کرتے تھے۔

بلدیو اور شیکھر کے درمیان کیسے تعلقات تھے ؟

عمر کے تفاوت کے باوجود ان کے درمیان نہایت خوشگوار اور دوستانہ تعلقات تھے۔

کیا اس آخری شام سے پہلے بھی آپ کبھی بلدیو کو شیکھر کے پاس تنہا  چھوڑ کر اکیلے واپس حویلی میں آ گئی تھیں۔

جی ہاں ایسا کئی بار ہوا تھا۔ جب بھی بلدیو دیر تک رکنے پر اصرار کرتا اور مجھے جلد گھر آنا ہوتا تو میں اسے باغ میں چھوڑ کر آ جاتی۔

اور پھر اس کے بعد کیا ہوتا ؟

اس کے بعد شیکھر بلدیو کو حویلی کے پاس چھوڑ جاتا۔

حویلی کے پاس یا بلدیو کے ساتھ وہ حویلی کے اندر تک آیا کرتا تھا ؟

جی نہیں شیکھر نے حویلی کے اندر کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ ہمیشہ بلدیو کو حویلی کے پاس چھوڑ جاتا اور بلدیو دوڑ کر اندر آ جاتا تھا۔

آپ کو کبھی بھی شیکھر سے کوئی خوف یا اندیشہ لاحق نہیں ہوا۔

جی نہیں۔ سرجو نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

لوک پال نے کہا شکریہ مائی لارڈ میرے سوالات ختم ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ راج پال سنگھ نے اپنا ہاتھ اٹھا دیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ مزید جرح کے لئے اجازت چاہتا ہے۔ پیش کار نے جج صاحب کی جانب دیکھا اور اشارہ سمجھ کر کہا وکیل صاحب آپ کو اجازت ہے۔

شکریہ جناب راج پال نے جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا اور نہایت محتاط انداز میں سوال کیا محترمہ سرسوتی دیوی کیا آپ بتا سکیں گی کہ جب بلدیو گھر نہیں لوٹا تو آپ کو سب سے پہلے کس کا خیال آیا ؟

شیکھر کا۔ سرجو نے اپنے خاص انداز میں جواب دیا

راج پال بولا میں عدالت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس نکتہ کو نوٹ کیا جائے اور بولا کیا آپ عدالت کو یہ بتانا پسند کریں گی کہ آپ کو سب سے پہلے شیکھر کا خیال  کیوں آیا؟

سرجو مسکرا کر بولی اگر شیکھر کا خیال نہ آتا تو آپ کے خیال میں اور کس کا خیال آتا ؟

راج پال کے پاس اس سوال کا کوئی  جواب نہیں تھا۔ وہ بولا محترمہ میں نے ایک سوال کیا ہے آپ مناسب سمجھیں تو اس کا جواب دیں ورنہ جواب نہ دیں آپ کی مرضی لیکن آپ مجھ سے سوال پو چھنے کی مجاز نہیں ہیں۔

شاید اس لئے کہ میں گواہ کے کٹہرے  میں اور آپ وکیل کا کوٹ اوڑھے  ہوئے ہیں لیکن سوال کرنے کا حق تو ملزم کو بھی ہے اور آپ یہ نہ بھولیں کہ کل کو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ملزم کی جگہ اور میں آپ کی جگہ کھڑی نظر آؤں۔

ساری عدالت بشمول جج صاحب کے سرجو کے جوابات سے ششدر تھی کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عورت آخر کس مٹی کی بنی ہے۔

راج پال نے کہا محترمہ آپ عدالت کو جواب دینے کے بجائے مجھے دھمکی دے رہی ہیں خیر کوئی بات نہیں اگر آپ میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتیں تو میں اپنا سوال واپس لیتا ہوں اور عدالت سے گزارش کرتا ہوں اسے نوٹ نہ کیا جائے۔

جی نہیں وکیل صاحب اس کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گی اس لئے کہ اس کا تعلق مقدمہ سے ہے۔ میں بلدیو کو شیکھر کے پاس چھوڑ کر آئی تھی اس لئے سب سے پہلے اس کا خیال آیا۔ اگر آپ کے پاس چھوڑ کر آتی تو سب سے پہلے آپ کا خیال آتا۔ یہ تو فطری عمل ہے اس بارے میں تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں۔ سرجو نے پھر ایک بار اپنی زبان کی چابک سے راج پال کی چمڑی ادھیڑ دی تھی۔

تو گویا آپ کو یہ گمان نہیں گزرا کہ بلدیو کو شیکھر نے اغوا کر لیا ہو گا ؟

جی نہیں بلکہ میں نے سوچا کہ اگر بلدیو کسی مشکل میں ہے تو یقیناً شیکھر بھی کسی مصیبت  میں گرفتار ہو گا۔

راج پال کا داؤں الٹا پڑا تھا بات بنتے بنتے بگڑ گئی تھی وہ شکریہ ادا کر کے بیٹھ گیا۔ اب کی بار لوک پال نے اجازت طلب کی تو جج صاحب نے ایک انگلی اٹھا دی۔ پیش کار نے ان کی جانب دیکھا اور پھر بولا وکیل صاحب وقت کافی ہو چکا ہے اس لئے اگر آپ کوئی ایک مختصر سا سوال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی اجازت ہے ورنہ اگلی تاریخ پر جرح آگے بڑھے گی۔ ہم معزز گواہ کو مزید زحمت نہیں دے سکتے۔

لوک پال نے کھڑے ہو کر کہا شکریہ میرا مختصر ساواحد سوال ہے جس کے نتیجہ میں محترمہ سرجو ماسی دوبارہ عدالت  میں حاضری کی زحمت سے بچ جائیں گی۔

اجازت ہے۔

آپ نے جس اندیشے کا ابھی اظہار کیا اس کی تصدیق  کیاکسی واقعہ سے ہوئی۔

جی ہاں جب مجھے پتہ چلا کہ شیکھر بھی اسی وقت سے غائب ہے تو مجھے ایسا لگا کہ میرا اندیشہ مبنی بر حقیقت ہے۔

میں محترمہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

جج صاحب نے اعلان کیا کہ آج کے لئے عدالت کی کارروائی برخواست کی جاتی ہے  اور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب روانہ ہو گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

رنجیت نے راج پال سنگھ کو اپنے ایک دوست کے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ مقدمہ کی آئندہ حکمتِ عملی پر غور کیا جا سکے۔ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ پچھلی سنوائی نے الزام کو خاصہ کمزور کر دیا ہے اور یہی صورتحال رہی تو شیکھر با عزت بری ہو جائے گا۔ ایسا ہونا رنجیت کے لئے دوہری مصیبت کا سبب بن سکتا تھا۔ ایک کسی بے گناہ کو زبردستی پھنسانے کا الزام دوسرے بلدیو کو باریاب کرنے کی ازسرِ نو ذمہ داری لیکن اگر شیکھر پر الزام ثابت ہو جائے تو نہ صرف اس کی شان بڑھے گی بلکہ بلدیو سے بھی چھٹکارہ مل جائے گا۔ راج  پال کا  اس بارے میں کہنا یہ تھا کہ سرجو کو عام گواہوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ وہ غیر معمولی ذہانت کی حامل عورت تھی۔ اس کے خیال میں دوسرے شاہدین کو اپنے حق میں کر لینا اس کے داہنے ہاتھ کا کام ہے۔  اسے یقین تھا کہ رنویراور  رجنیش اس کے لئے راہ ہموار کر دیں گے۔ ویر بہادر سے وہ اپنے حق میں دلائل آسانی سے اگلوا لے گا۔

 رنجیت نے راج پال کو آ گاہ کیا کہ گواہوں کی فہرست میں ایک خطرناک نام جانکی داس کا بھی ہے۔ یہ نہایت مشکل اسامی ہے اور اس کو قابو میں کرنا سرجو سے بھی زیادہ دقت طلبہو سکتا ہے اس لئے اس سے ہوشیار رہے۔

 راج پا ل نے کہا کہ وہ فکر نہ کرے  بلکہ پیش کار پر دباؤ ڈال کر ترتیب اس طرح سے بنوائے کہ جا نکی داس کو رنویر اور رجنیش  کے درمیان بلوایا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ سرجو کے اثرات کو رنویر اور جانکی داس کے جادو کو رجنیش زائل کر دے گا اور آخر میں ہم ویر بہادر کی مدد سے بازی مار لیں گے۔ راج پال نے رنجیت کو مقدمہ میں کامیابی کا یقین دلا کر خوش کر دیا۔

 رنجیت بولا پپو یادو نے کامیابی کی صورت میں اسے بڑے انعام وا کرام سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے بشرطیکہ اس کے آدمی با عزت رہا ہو جائیں۔  راج پال نے کہا اطمینان رکھو ان دونوں کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا اگر تم چاہو تو انہیں پہلے ہی مرحلہ میں رہا  کروا لوں۔

 جی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ فی الحال تم اپنی ساری توجہ شیکھر پر مرکوز رکھو ایک مرتبہ وہ پھانسی پر چڑھ جائے تو یہ مقدمہ اپنے آپ بے جان ہو جائے گا اور اس میں سے کسی کا بھی نکلنا مشکل نہیں ہو گا اس لئے خوب دل لگا کر کام کرو۔ اس بات پر محفل برخواست ہو گئی۔

٭٭

 

رنویر یادو

عدالت کی اگلی پیشی میں رنویر اور رجنیش کو ایک ساتھ عدالت میں لایا گیا۔ رنویر کو جیسے ہی کٹہرے میں حاضر کیا گیا  لوک پال اگروال نے اعتراض کا اشارہ کیا اور پیش کار کی اجازت کے بعد بولا جناب رنویر اور رجنیش چونکہ اس مقدمہ میں گواہ ہونے کے ساتھ ملزم بھی ہیں اور ان کی تضاد بیانی مقدمہ کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتی ہے اس لئے عدالت سے میری مؤدبانہ گزارش ہے ان دونوں کو ایک دوسرے کی گواہی کے دوران عدالت میں موجود رہنے کی اجازت نہ دی جائے۔ نیز جب تک کہ دونوں کے بیانات عدالت کے ریکارڈ میں محفوظ نہیں ہو جاتے جیل میں بھی انہیں ایک دوسرے سے ملنے نہ دیا جائے۔

جج صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یہ اعتراض معقول ہے اس لئے عدالت حکم دیتی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی گواہی کے دوران موجود نہ رہیں نیز انہیں مختلف جیلوں میں رکھا جائے تاکہ ان کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہ ہو سکے۔ اسی کے ساتھ رجنیش کو عدالت سے باہر لے جایا گیا اور دوسرے شہر کی جیل میں روانہ کر دیا گیا۔ لوک پال اگروال کا یہ نہایت بروقت اعتراض تھا جس نے ا س کے ارادوں کو ظاہر کر دیا اور دونوں کو گواہوں کو ہوشیار کر دیا کہ وکیلِ مخالف نظر ان کی تضاد بیانی پر ہے۔ رجنیش کے باہر نکل جانے کے بعد جرح شروع ہوئی تو پھر ایک بار راج پال سنگھ کو پہلے موقع ملا۔ اس نے پوچھا رنویر یادو کیا تم شیکھر سمن کو جانتے ہو؟

جی ہاں سرکار اچھی طرح جانتے ہیں۔ رنویر نے جواب دیا

ا چھا تو کب سے تم اسے جانتے ہو؟

ایک عرصے  سے ہم انہیں جانتے ہیں اب سال اور دن کا حساب تو ہم نہیں رکھتے انپڑھ آدمی ہیں رنویر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا اسے ڈر تھا کہ وہ کسی سوال کا ایسا جواب نہ دے دے کہ اگر وہی سوال رجنیش سے پوچھا جائے تو مختلف جواب سامنے آئے۔

اچھا تو تم اسے کیسے جانتے ہو ؟

صاحب دراصل ہم اور وہ پپو یادو جی کے گروہ میں ایک ساتھ کام کرتے تھے ہم تو چھوٹا موٹا چائے پانی لانے کا کام کرتے تھے وہ ہمارے سرغنہ ہوا کرتے تھے۔

اچھا تو وہ بڑے بڑے کام کیا کرتے تھے کیوں ؟ راج پال نے اپنے خاص انداز میں سوال کیا

کیوں نہیں صاحب بڑے آدمی اگر بڑے کام نا کریں گے تو کیا ہم جیسے غریب آدمی کریں گے ؟

لوک پال اور شیکھر سمن حیرت سے رنویر کا بیان سن رہے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ راج پال نے پھر پوچھا۔ اچھا رنویر یہ بتاؤ کہ کیا تم شیکھر سے ملنے کی خاطر کبھی کوسی کلاں بھی گئے تھے۔

جی ہاں صاحب تقریباً دو ہفتہ قبل ہم اور رجنیش ان سے ملنے کوسی کلاں گئے رہے۔

تمہیں کوسی کلاں جائے کی کیا سوجھی جبکہ شیکھر نے پپو یادو کو چھوڑ کر اسکول میں نوکری کر لی تھی۔ راج پال نے رنویر کے لہجہ میں سوال کیا

صاحب ہم تو مزدور آدمی ہیں جو چار پیسے دیتا ہے ہم اس کے لئے کام کرتے ہیں۔ شیکھر بابو نے ہم سے سمپرک( رابطہ) کیا اور کہا کہ وہ نیا گروہ بنا رہے ہیں۔ اس میں آدمی کی ضرورت ہے۔ تم ہمارے بھروسے کے آدمی ہو اس لئے ہمارے ساتھ آ جاؤ۔ پہلے تو ہم ڈرا گئے لیکن پھر سوچا اس دھندے میں زندگی کا کون بھروسہ ہے نہ جانے کب کہاں سے گولی آئے اور پران لئے جائے اس لئے ہمت کر کے ہم شیکھر بابو کی طرف آئے گئے۔

پھر کیا ہوا ؟

ہم دونوں کو سی کلاں پہونچے تو شیکھر بابو گھر پر تھے نہیں۔ ہم نے چوکیدار سے پوچھا تو وہ کچھ بتائے سکے نہیں۔ پھر ہم نے کچھ دیر انتظار دیکھا اور پھر  تھک ہار کر  واپس لوٹ گئے۔

راج پال نے کہا صاحب میرے سوالات ختم ہوئے اب یہ لوک پال صاحب کے حوالے  ہے۔

لوک پال نے شکریہ ادا کیا اور رنویر سے مخاطب ہو کر بولا رنویر اگر شیکھر سے تمہاری ملاقات نہیں ہوئی تو پھر تم اس کے ساتھ گرفتار کیسے ہو گئے ؟

رنویر نے  جواب دیا جناب مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا میں شیکھر سے ملنے کے لئے کبھی کوسی کلاں آیا تھا تو اس کے جواب میں میں نے کہا تھا میری شیکھر سے ملاقات نہیں ہوئی یعنی کوسی کلاں میں ملاقات نہیں ہوئی لیکن میری  شیکھر کے ساتھ گرفتاری تو کہیں ا ور ہوئی ہے۔

لوک پال نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا وہی تو میں پوچھ رہا تھا کہ تمہاری  شیکھر سے ملاقات کہاں اور کیسے ہوئی ؟

صاحب کوسی کلاں سے میں واپس اپنے گاؤں چاند پٹی ضلع اٹاوہ چلا گیا۔ وہیں دو دن بعد شیکھر بابو بھی پہنچ گئے اور ہماری ملاقات ہو گئی۔ شیکھر نے دل ہی دل میں کہا چلو اس احمق نے موہن کا پتہ تو بتا دیا چاند پٹی ضلع اٹاوہ۔

اچھا پھر کیا تم وہیں سے گرفتا ر ہوئے ؟

جی نہیں دون بعد شیکھر بابو نے ہم سے کہا اب بسوہ چلنا ہے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور ان کے ساتھ چل پڑے۔ بسوہ میں چند دن قیام رہا اور پھر پولس نے ہمارے اڈے پر چھاپا مارا  نیز ہم غریبوں کو زبردستی شیکھر بابو کے ساتھ گرفتار کر لیا۔

اچھا تو تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی اور شیکھر کے ساتھ نہیں ؟لوک پال نے پوچھا۔

دیکھئے صاحب وہ بڑے آدمی ہیں ان کی بات اور ہے لیکن ہم تو غریب آدمی ہیں۔ بازی الٹ چکی تھی شیکھر کے خلاف سازش کا ایک ایسا جال بُن دیا گیا تھا جس سے نکلنا اب اس کے لئے ناممکن تھا، لوک پال نے اپنے سوالات کا سلسلہ ختم کیا اور عدالت اگلی پیشی تک کے لئے برخواست ہو گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شیکھر کیلئے جانکی داس ایک امید کی کرن بن کر شہادت کے کٹہرے میں نمودار ہوئے۔ رنجیت کا خیال تھا کہ اگر راج پال کی اس آخری مزاحمت کی دیوار میں شگاف ڈالنے کی سعی میں کامیاب ہو جائے تو قلعہ فتح ہو جائے گا۔ جانکی داس سے جرح کی ابتدا لو ک پال نے کی اور بڑے احترام سے بولا محترم پرنسپل جانکی داس جی پرنام

 جانکی داس کے لئے یہ حیرت کا جھٹکا تھا اس لئے کہ سرجو کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی وہ دیکھ چکا تھا اور اپنے ساتھ بھی اسی رویہ کی توقع کر رہا تھا۔ جانکی داس نے مسکرا کر کہا بھئی وکیل صاحب پرنام اور جج صاحب کو بھی میرا سلام۔ یہ عدالت میں پرنام سلام کی روایت تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ اس نے لوک پال سے مخاطب ہو کر کہا  آپ تو وکیل ہونے کے باوجود سجّن پوروش لگتے ہیں !

لوک پال مسکرایا اور بولا لگتا ہوں کیا مطلب ؟

مطلب یہی کہ میں کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی نہیں کرتا۔ میں بہت ہی ٹھوک بجا کر لوگوں کو پرکھتا ہوں تبھی ان کے بارے میں کچھ بولتا ہوں۔

یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا آپ کے خیال میں وکیل حضرات سجّن نہیں ہوتے ؟

اپنی ذاتی زندگی میں ہوتے ہوں گے میں نہیں جانتا آج تک میں نے کسی وکیل سے دوستی کرنے کی جرأت نہیں کی۔

لوک پال کو جانکی داس کی گفتگو میں مزہ آ رہا تھا اس نے پھر پوچھا اس کی کوئی خاص وجہ ؟

اس لئے کہ میں گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہے وکلاء اور تھانیداروں سے ذرا دور ہی رہتا ہوں۔ جانکی داس نے اپنے جملہ کے آخر میں رنجیت کی جانب مڑ کر دیکھا ویسے میں نے جب بھی اس کالے کوٹ میں ان کو دیکھا ہے کبھی بھی سجّن نہیں پایا۔ نہ جانے اس کوٹ میں کیا خرابی ہے لیکن آج آپ نے میر ی غلط فہمی دور کر دی کالا کوٹ تو آپ بھی زیب تن کئے ہوئے ہیں تو معلوم ہوا کہ خرابی کوٹ میں نہیں بھیتر ہے۔

جانکی داس کی لچھے دار باتوں پر راج پال سنگھ نے اعتراض کیا اور بولا مائی لارڈ مجھے لگتا ہے کہ معزز گواہ ساری وکیل برادری کی توہین کر رہے ہیں اور اس لایعنی گفتگو سے عدالت کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔

جج صاحب نے راج پال سے اتفاق کیا اور گواہ کے ساتھ وکیل کو بھی اپنی گفتگو مقدمہ سے متعلق رکھنے کی تلقین کی۔

لوک پال نے معذرت طلب کی اور سوال کیا جانکی داس جی یہ بتائیں کہ آپ کو کس کے اغوا کی خبر پہلے ملی بلدیو کی یا شیکھر کی؟

راج پال نے پھر اعتراض کیا یہ سوال ایک مفروضہ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے کہ شیکھر کا اغوا ہوا جسے میں صحیح نہیں سمجھتا اس لئے اس سوال کی اصلاح کی جائے۔

اس سے پہلے کے لوک پال کچھ بولتا جانکی داس بول پڑا لیکن میں اسے مفروضہ نہیں سچ سمجھتا ہوں اس لئے سوال  کے الفاظ کا الٹ پھیر میرے جواب پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے عدالت کا قیمتی وقت اس پر ضائع نہیں کیا جائے۔ جانکی داس نے راج پال کا حساب کتاب چکتا کر دیا تھا۔

جج صاحب نے کہا گواہ اپنا بیان جاری رکھے

جی شکریہ جناب یہ حادثہ جس وقت پیش آیا وہ شام کا وقت تھا اور میں اپنے گھر میں آرام کر رہا تھا کہ مجھے پتہ چلا بلدیو اپنے گھر پر لوٹ کر نہیں آیا اس طرح بلدیو کے اغوا کی خبر مجھے پہلے ملی۔ دوسرے دن جب میں اسکول گیا تو مجھے پتہ چلا کہ شیکھر بھی کل شام سے غائب ہے۔

لوک پال بولا بہت خوب جب آپ کو یہ پتہ چلا کہ شیکھر بھی غائب ہے تو آپ نے کیا سوچا ؟

مجھے تشویش ہوئی اس لئے کہ بلدیو ہماری اسکول کا سب ہونہار طالبعلم اور گاؤں کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھا نیز شیکھر کا شمار ہمارے اسکول کے سب سے قابل ترین اساتذہ  میں ہوتا تھا اس کے علاوہ اپنی خوش مزاجی کے سبب وہ مجھے بہت بھاتا بھی تھا۔ اس کے بعد جب  میں نے بلدیو کی گمشدگی کے بارے میں تفصیلات جمع کیں تو پتہ چلا کہ وہ گزشتہ شام آخر میں شیکھر کے ساتھ دیکھا گیا تھا یہ معلومات میرے لئے چونکا دینے والی تھیں۔

راج پال نے اس موقع پر سوال کرنے کی اجازت طلب کی جو اسے مل گئی۔ راج پال نے پوچھا۔ تب تو آپ کو یقیناً یہ خیال گزرا ہو گا کہ شیکھر نے ہی بلدیو کو اغوا کر لیا ہے۔

کیسی باتیں کرتے ہیں وکیل صاحب جانکی داس نے جواب دیا۔ آپ ہی جیسے لوگوں نے ساری برادری کو بدنا م کر رکھا ہے ورنہ اس میں لوک پال جیسے لوگ بھی ہیں خیر جس بدگمانی کا آپ نے ابھی ابھی اظہار کیا وہ تو کوئی ایسا ہی شخص ہی کرسکتا ہے جو شیکھر سمن سے واقف نہ ہو۔ ورنہ جو لوگ اس کو جانتے ہیں وہ کبھی بھی اس طرح کی بات سوچ نہیں سکتے۔

 رنجیت کو جانکی داس کی ملاقات یاد آ گئی تھی جس نے اس کے دماغ کی چولیں ہلا دی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ آگے جانکی داس کیا کہنے والا ہے۔ رنجیت ایک کاغذ کے پرزے پر چار الفاظ لکھے اور اسے راج پال کی جانب بڑھا دیا۔ راج پال نے اسے لے کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ دیا  اور پوچھا تو آپ نے جو کچھ سوچا وہ آپ کو یاد ہے ؟ اور عدالت کو آپ  اس سے واقف کرانا پسند کریں گے ؟

وکیل صاحب  ایسا معلوم ہوتا ہے آپ کو میری یادداشت پر شک ہے۔ میں بوڑھا آدمی ضرور ہوں لیکن ایشور کی کرپا سے میری یادداشت ابھی تک ٹھیک ٹھاک ہے۔ میں نے سوچا کہ شیکھر نے یقیناً بلدیو کے اغوا کاروں کو دیکھ لیا ہو گا  اور میں جانتا ہوں شیکھر ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو اس طرح کی واردات پر آنکھیں موند لے یا بدمعاشوں سے ڈر جائے۔ اس لئے وہ ان سے بھڑ گیا ہو گا۔ جس کے نتیجے میں ممکن ہے اغوا کار اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ اس کہانی پر شیکھر کو بھی ہنسی آ گئی اس لئے گو کہ یہ سراسر مبنی بر تخیل ہونے کے باوجود اپنے اندر حقیقت کا رنگ لئے ہوئی تھی اور کسی کے لئے بھی اس کا جھٹلانا مشکل تھا۔ اس نے سوچا جانکی داس اگر درس و تدریس کے بجائے ڈرامہ اور فلم کی دنیا میں جاتے تو بڑا نام کماتے۔

راج پال کی بازی الٹ چکی تھی اس نے کہا لوک پال جی آپ اپنی جرح آگے بڑھا سکتے ہیں اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

لوک پال نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا لیکن جانکی داس جی جب آپ کو پتہ چلا کہ شیکھر سمن کو پولس نے بلدیو کے اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے تب کیا آپ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا یا اب بھی آپ اپنی سوچ پر قائم ہیں ؟

 جی نہیں جناب میں اب بھی اپنی سوچ پر قائم ہوں اس لئے کہ پولس نے گرفتاری تو کی لیکن کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

راج پال نے تبصرہ کیا ممکن ہے محترم پرنسپل صاحب   کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ گزشتہ پیشی میں ایک چشم دید گواہ عدالت میں پیش ہو چکا ہے۔

جانکی داس نے اپنی بات آگے بڑھائی اور بولے جی نہیں وکیل صاحب شاید آپ کو نہیں معلوم کہ میں اس گواہی دور ان یہاں موجود تھا۔ اس شخص نے اپنی گواہی کے دوران  بلدیو یا اس کے اغوا سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ اس کی گواہی سے تو صرف یہ پتہ چلا کہ شیکھر کا تعلق کسی زمانے میں جرائم کی دنیا سے تھا لیکن سارا کوسی کلاں گواہ ہے کہ گز شتہ چھے ماہ سے شیکھر نہایت ایمانداری اور یکسوئی کے ساتھ یہاں پر تعلیم و تدریس کی ذمہ داری ادا کرتا رہا تھا گویا وہ جرائم کی  دنیا سے نکل آیا تھا لیکن اس کی اپنی گواہی کے مطابق وہ ابھی تک اسی دنیا سے وابستہ تھا اور آگے بھی اپنا تعلق استوار رکھنا چاہتا تھا۔

راج پال نے کہا لیکن آپ نے شاید یہ نہیں سنا کہ شیکھر نے اس سے نئے گروہ کی تشکیل کے لئے رابطہ کیا تھا۔

جی ہاں یہ ایک الزام ہے۔ ویسے تو میں بھی یہ کہہ دوں کہ تھانیدار صاحب نے مجھ سے شیکھر کے خلاف گواہی دینے کے لئے رابطہ قائم کیا تھا تو کیا آپ اسے مان لیں گے۔ اس بابت مجھ سے کوئی ثبوت نہیں طلب کریں گے اور میں ثبوت کے طور پر تھانیدار صاحب کی اسکول میں حاضری کو پیش کرسکتا ہوں لیکن کیا میرے ایسا کر دینے سے وہ الزام ثابت ہو جائے گا جو میں لگا رہا ہوں ؟جانکی داس نے رنویر کی اس طرح دھجیاں اڑا دی تھیں کہ لوک پال اگروال بھی مبہوت تھا۔ یہ تو اس کا کام تھا جو پیشہ ور وکیل ہونے کے باوجود  اس سے نہیں بن پڑا جبکہ ایک معمولی ٹیچر نے اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے کر دیا تھا۔ راج پال اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور اب لوک پال کو پھر سے بات آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ اس نے اپنا سوال دوہرایا تو جناب آپ یہ بتا رہے تھے کہ کب آپ کو شیکھر کی گرفتاری کا علم ہوا اور آپ نے کیا سوچا ؟

جی ہاں وکیل صاحب یہ میرے لئے ناقابلِ یقین واقعہ تھا میرا دماغ ماؤف ہو گیا اور وقتی طور پر میں سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہا۔ لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ رنویر کی گواہی سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ بیچارہ شیکھر کسی گہری سازش کا شکار ہو گیا ہے اور اب ایشور ہی اسے بچا سکتا ہے۔ جس وقت جانکی داس یہ کہہ رہا تھا رنجیت بار بار راج پال کو جیب سے چٹھی نکال کر دیکھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ راج نے جب اس پرچی کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا ’’ محض قیاس یا ثبوت؟‘‘ راج پال سمجھ گیا جب اس نے دیکھا لوک پال کے پاس مزید کوئی سوال نہیں ہے تو پوچھا جناب جانکی داس آپ نے عدالت میں سازش کا ایک سنگین شوشہ تو چھوڑ دیا ہے لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ محض ایک قیاس آرائی ہے یا اس کے لئے آپ کے پاس کوئی شہادت بھی ہے۔

جانکی داس نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ فی الحال کوئی ٹھوس ثبوت میرے پاس نہیں ہے۔ ایک نیم شہادت ہے جسے وقت آنے پر میں عدالت کے سامنے رکھوں گا لیکن مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے یہ مقدمہ آگے بڑھے گا یہ سازش اپنے آپ ظاہر ہوتی چلی جائے گی۔ اس لئے کہ میں نے سنا ہے بقول شاعر   ؎

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

لہو   پکارے   گا  آ ستیں   کا

یہ شعر رنجیت پر بجلی بن کر گرا۔ اسے اپنے پرچی بھیجنے پر افسوس ہوا۔ عدالت کی کارروائی اگلی سماعت تک برخواست ہو گئی۔

٭٭

 

رجنیش شرما

رجنیش شرما کی حالت شطرنج کے مہرے کی سی تھی۔ لوک پال اگروال اور راج پال سنگھ نے اپنی حکمتِ عملی  پہلے ہی سے طے کر رکھی تھی اور دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں حریف شہ اور مات کے خطرات سے اچھی طرح واقف تھے۔ راج پال کو اس کے ذریعہ سے شواہد پیش کرنے تھے اور لوک پال کو اس کے اور رنویر کے درمیان تضاد بیانی کو پکڑنا تھا تاکہ دونوں کھلاڑی بیک وقت رن آؤٹ ہو کر پالے سے باہر ہو جائیں۔ مقدمہ کے اس موڑ سے جیت اور ہار کی راہوں کو جدا ہو جانا تھا اور اس بات کا فیصلہ ہونے والا تھا کہ آگے چل کر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لوک پال کو سوالات پوچھنے کی کوئی جلدی نہیں تھی وہ چاہتا تھا رجنیش اپنی بات کہہ چکے تو اس کے بعد رنویر سے اس کے بیان کا موازنہ کر کے بات آگے بڑھائی جائے۔ اس لئے ابتداء راج پال سے ہوئی۔ راج پال نے پوچھا رجنیش کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم اس مقدمہ میں گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملزم بھی ہو ؟

جی ہاں جناب پتہ ہے۔ رجنیش کا رنویر سے مختلف  انداز رنجیت کو پسند آ رہا تھا

کیا تم اپنے اوپر لگنے والے الزام سے بھی واقف  ہو؟

جی ہاں سرکار۔ رجنیش کا معاملہ رنویر سے بالکل متضاد تھا وہ نہایت محتاط انداز میں کم از کم الفاظ استعمال کر رہا تھا۔

کیا ہے وہ الزام؟

الزام یہ ہے کہ شیکھر بابو کے ساتھ بلدیو کے اغوا اور قتل میں ہم بھی شریک ہیں۔

یہ بلدیو کون ہے ؟

ہم نہیں جانتے ؟

شیکھر نے اس کو اغوا کیوں کیا ؟

یہ بھی ہم نہیں جانتے ؟

اور پھر اسے قتل کیوں کر دیا ؟

اس کا بھی ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔

تو تم جانتے کیا ہو ؟

صاحب ہم کچھ نہیں جانتے سرکار

جب  تم کچھ بھی نہیں جانتے تو یہاں کیوں آئے ہو؟

سرکار ہم خود سے تو نہیں  آئے۔ جو لوگ ہمیں زبردستی پکڑ کر یہاں لے آئے ہیں یہ سوال آپ ان سے پو چھئے ؟

راج پال نے گواہ کو لوک پال کے حوالے کر دیا۔ لوک پال نے مسکرا کر پوچھا اگر تم کچھ نہیں جانتے تو شیکھر کو بھی نہیں جانتے ہو گے ؟

جی نہیں سرکار ہم انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں

وہ کیسے ؟

ہم لوگ پپو یادو کے گروہ میں ساتھ ساتھ کام جو کرتے تھے۔ وہ ہمارے سرغنہ تھے اور ہم غریب لوگ ان کے دائیں بائیں رہتے تھے۔

اچھا تو جب اس نے بلدیو کو اغوا کیا تم لوگ اس کے دائیں بائیں نہیں تھے ؟

جی نہیں سرکار

اور جب قتل ہوا اس وقت بھی؟

جی ہاں سرکار اس وقت بھی ہم وہاں نہیں تھے

اچھا تو تمہیں پتہ کیسے پتہ چلا کہ اغوا اور قتل کی واردات ہوئی ہے

سرکار جب فردِ جرم سنائی گئی اس وقت ہم یہاں عدالت میں موجود تھے اور اس سے ہمیں پتہ چلا کہ کسی بلدیو سنگھ کو اغوا کر کے شیکھر بابو نے قتل کر دیا ہے۔

اچھا تو تمہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ کون سی تاریخ یہاں بتلائی گئی تھی؟

جی ہاں سرکار ۱۱ ستمبر

تو اس روز شام میں تم کہاں تھے ؟

ہم  کوسی کلاں میں تھے۔

تم کوسی کلاں کیوں آئے تھے ؟

شیکھر بابو کے بلانے پر ہم وہاں گئے تھے۔ رجنیش کسی طوطے کی مانند بلاجھجک پٹ پٹ بولے جا رہا تھا

اس روز شام میں شیکھر کی دعوت پر تم کوسی کلاں آئے اور اسی روز شیکھر نے کوسی کلاں سے بلدیو سنگھ کو اغوا کیا۔ اس کے باوجود تمہیں کچھ نہیں پتہ۔

جی ہاں سرکار اس لئے کہ اس روز شیکھر بابو سے ہماری ملاقات ہی نہیں ہوئی۔

راج پال نے مداخلت کی اور کہا کیا تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت یا گواہ ہے کہ تم یہاں آئے اور شیکھر سے نہیں  ملے ؟

جی ہاں سرکار ویر بہادر سنگھ اس کا گواہ ہے۔

یہ ویر بہادر کون ہے ؟

یہ اس احاطے کا چوکیدار ہے جس میں شیکھر بابو کا مکان ہے۔

تم اسے کیسے جانتے ہو ؟

ہم شیکھر بابو کے بتائے ہوئے پتے پر سات بجے ان کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ ویر بہادر نے ہمیں روک کر پوچھا  اور پھر ہمارے ساتھ شیکھر بابو کے گھر تک آیا۔ وہاں شیکھر بابو کے دروازے پر تالا تھا۔ اس کے بعد ہم نے چوکیدار کے کمرے میں تنک انتظار کیا اور پھر خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے

خالی ہاتھ کیا مطلب ؟ تم اپنے ساتھ کیا لے جانے کے لئے آئے تھے۔ رنجیت کو گھیرنے کی خاطر لوک پال نے یہ سوال کیا۔

ہم کچھ لے جانے کے لئے  نہیں شیکھر بابو سے ملنے کے لئے آئے تھے وہ ملے نہیں تو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔

اچھا تو پھر تمہیں پولس نے اس کے ساتھ گرفتار کیسے کر لیا ؟

وہ چاند پٹی ضلع اٹاوہ میں ہم سے خود آملے۔

اچھا تو تم وہیں سے گرفتار ہوئے۔

جی نہیں سرکار وہاں سے انہوں نے ہمیں بسوہ چلنے کے لئے کہا۔ بسوہ میں پولس کا چھاپہ پڑا اور ہم گرفتار ہو گئے۔

لوک پال کے حصہ میں پے درپے مایوسی آ رہی تھی رجنیش بالکل روبوٹ کی طرح وہی سب بول رہا تھا جو کچھ رنویر نے کہا تھا۔ تنگ آ کر لوک پال نے پوچھا۔ جب شیکھر تم سے چاند پٹی میں ملا تو کیا اس وقت بلدیو اس کے ساتھ تھا ؟

جی نہیں سرکار ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔

کیا اس دوران اس نے کبھی بلدیو کا ذکر کیا؟

جی نہیں سرکار

تم نے پہلی مرتبہ بلدیو کا نام کب سنا؟

فردِ جرم کی پیشکش کے دوران

لوک پال چت ہو گیا تھا رنجیت کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ راج پال نے پوچھا اگر ویر بہادر تمہارے دعویٰ کی نفی کر دے تو کیا ہو گا؟

شیکھر بابو کی جگہ مجھے  پھانسی پر لٹکا دیجئے سرکار۔

رجنیش کا یہ جملہ تمام حاضرین پر بجلی بن کر گرا سوائے راج پال اور رنجیت کے۔ راج پال نے عدالت سے گزارش کی کہ رجنیش کا بیان محتاجِ تصدیق ہے اس لئے عدالت انتظامیہ کو حکم دے کہ وہ ویر بہادر کو گواہی کے لئے حاضر کرے۔ راج پال کی درخواست قبول کر لی گئی اوراس دن کے لئے  عدالت برخواست ہو گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

رجنیش کے برعکس ویر بہادر جب عدالت میں حاضر ہوا تو خاصہ گھبرایا ہوا تھا۔ اس کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بلدیو سنگھ کون ہے اور اس کا اغوا اور قتل کوسی کلاں کے اندر کس اہمیت کا حامل اس معاملے میں سرزد ہونے والی معمولی سی چوک بھی اسے ٹھاکروں کے عتاب کا شکار بنا نے کے لئے کافی تھی۔ ویر بہادر سے پہلا سوال لوک پال نے کیا ویر بہادر کیا تم شیکھر بابو کو جانتے ہو ؟

جی ہاں صاحب بہت اچھی طرح۔ انہیں کون نہیں جانتا۔ ویر بہادر نے سنبھل کر جواب دیا

وہ کیسا آد می ہے ؟

وہ بڑے ا چھے آدمی ہیں

ان کے بلد یو سے کیسے تعلقات تھے ؟

ان کے سبھی سے بہت اچھے سمبندھ تھے

تم سے بھی ؟

جی ہاں سرکار ہم سے بھی۔

اس کی کوئی خاص وجہ ؟

کارن تو کوئی خاص نہیں۔ ہم غریب آدمی ہیں کوئی بابو ہم سے پیار کے دو میٹھے بول کہہ دیتا ہے تو ہمارے سمبندھ اس سے اچھے ہو جاتے ہیں اور شیکھر بابو تو جب بھی ہمارے پاس سے گزرتے تھے دعا سلام کر کے ہی جاتے تھے۔ ہم سے اپنی اور بال بچوں کی خیریت پوچھتے۔ بھلے برے میں کام آتے۔

کیا مطلب ؟

مطلب ہم غریب لوگ ہیں نا کبھی سنکٹ میں پیسہ کوڑی کی ضرورت پڑ جاتی تو بڑی آسانی سے  ادھار دے دیتے  اور خود تقاضہ نہ کرتے۔ جب ہم لوگ واپس کرتے تو لے کر رکھ لیتے۔

اچھا یہ بتاؤ کہ جس وقت بلدیو غائب ہوا تم ڈیوٹی پر تھے یا چھٹی پر تھے۔

ہم ڈیوٹی پر تھے۔

اس وقت شیکھر کہاں تھا ؟

یہ ہمیں نہیں معلوم سرکار۔

تو کیا وہ گھر پر نہیں تھا ؟

جی نہیں سرکار۔ میری ڈیوٹی شام پانچ بجے شروع ہوئی اور اس کے بعد میں نے انہیں جاتے آتے نہیں دیکھا۔

کب تک ؟ اگلی صبح پانچ بجے تک۔

یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر میں رہا ہو؟ لوک پال نے پوچھا

جی نہیں سرکار وہ گھر پر نہیں تھے

تمہیں کیسے پتہ؟

میں نے جاکر دیکھا تھا

کیا تم سب کے بارے جانکاری رکھتے ہو کہ کون گھر پر ہے اور کون نہیں ہے ؟

جی نہیں سرکار۔ اس روز سات بجے کے آس پاس دو لوگ ان سے ملنے کے لئے آئے۔ میں انہیں گھر دکھلانے کے لئے شیکھر بابو کے گھر تک گیا تو پتہ چلا گھر پر تالا ہے۔ اس کے بعد میں نے صبح تک پہریداری کی لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئے۔

لوک پال خاموش ہو گیا تو راج پال نے پوچھنا شروع کیا۔ ویر بہادر کیا شیکھر کے ان دوستوں کے نام تمہیں یاد ہیں

جی نہیں سرکار

 کیا تم انہیں پہچان سکتے ہو

جی ہاں سرکار اس لئے کہ یہ بہت پرانی بات تو ہے نہیں۔

راج پال نے عدالت سے شناختی پریڈکروانے کی گزارش کی جو قبول ہو گئی اور دیگردس قیدیوں کے ساتھ رجنیش اور رنویر کو عدالت مین حاضر کیا گیا۔ ویر بہادر نے سب کو غور سے دیکھا رنویر کو تو پہلی ہی مرتبہ میں مگر رجنیش کو بھی  دوسری مرتبہ میں  پہچان گیا۔

 راج پال نے  سینہ پھلا کر کہا ثبوت مل گیا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا  اب مجھے کچھ نہیں پوچھنا  ہے

لو ک پال نے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا جناب  میں ایک ایسا گواہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں جو واقعی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔

جج صاحب نے کہا اجازت ہے آپ اس کا نام اور پتہ بتلائیں۔

شکریہ جناب۔ عدالت نے ان دونوں گواہوں سے چاند پٹی اٹاوہ کا نام تو سنا ہے۔  میں گزارش ہے کہ انتظامیہ چاند پٹی کے منموہن عرف موہن کو بلا تاخیر عدالت میں حاضر کرے۔

موہن وہ ترپ کا پتہ تھا جسے شیکھر نے ایسے ہی کسی موقع کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ شیکھر  کا اشارہ پاتے ہی لوک پال نے اسے آستین سے نکال کر بازی میں ڈال دیا۔ ابتداء میں شیکھر کا مسئلہ یہ تھا کہ اسے بغیر بتائے بے ہوشی کے عالم میں چاند پٹی لے جایا گیا تھا اور منہ اندھیرے وہاں سے روانہ کر دیا گیا۔ اسے موہن کا پتہ نہیں معلوم تھا لیکن ان احمقوں نے از خود اس کا پتہ دے دیا تھا۔ عدالت نے تین دن بعد اسے حاضر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔

رنجیت نے پیش کار سے پوچھا مجھے موہن کا وارنٹ کب تک مل جائے گا؟

پیش کا ر نے جواب دیا کل صبح ۱۱ بجے اس پر دستخط ہو جائیں گے اس کے بعد آپ کی مرضی۔ اس بیچ جج صاحب اٹھ کر چلے گئے اور انہیں کے ساتھ سبھی لوگ اپنی اپنی راہ سدھار گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

موہن کا نام سنتے ہی رنویر اور رجنیش کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ رنجیت اور راج پال نے جب یہ دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے اس لئے کہ ان کے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ پر اسرار آدمی کون ہے ؟ لیکن رنویر اور رجنیش کا چہرہ بتا رہا تھا کہ یہ کوئی خطرناک آدمی ہے اور سارا بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔ رنجیت اور راج پال کو ایسا لگا گویا ایک جیتی ہوئی بازی ان کے ہاتھ سے نہ نکل گئی ہے۔ عدالت میں موجود پپو یادو کے جاسوس فوراً حرکت میں آئے گئے۔ ان کو سخت ہدایت تھی کہ اگر کوئی خلاف توقع بات ہو جائے تو اس کے لئے فون وغیرہ پر انحصار نہیں کیا جائے بلکہ بذاتِ خود حاضر ہو کر خبر دی جائے  اس لئے کہ پولس فون ٹیپ کر سکتی ہے

پپو یادو نے ان دونوں چمپا کلی کے فارم ہاؤس میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا جو عدالتسے صرف دو ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع تھا۔ جیسے ہی پپو یادو کے آدمی نے اسے موہن کی گواہی کے بارے میں بتا یا وہ جھلا ّ کر رہ گیا۔  اس نے اپنے آپ سے کہا یہ رنگ میں بھنگ کہاں سے پڑگیا۔ خیر کوئی بات نہیں میں اسے بھی دیکھ لوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے ہرکارے کو مہمان خانے میں آرام کرنے کو کہا اور خود اس نئی صورتحال پر غور کرنے لگا۔ چند لمحات کے اندر ایک شیطانی فتنہ اس کے دماغ کلبلا رہا تھا۔ اس نے حکمتِ کار کاایک تفصیلی خاکہ تیار کیا۔ اس کے ہر پہلو پر کئی بار غور کرنے کے بعد اپنے آدمی کو طلب کر کے ضروری ہدایت دینے لگا۔

عدالت میں تیسرے دن سارے لوگوں کی نگاہیں گواہی کے کٹہرے میں موہن کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں لیکن وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ پیش کا ر نے رنجیت سے صفائی طلب کی تو وہ پہلی مرتبہ گواہی کے لئے حاضر ہو ا اور بتلایا کہ دو دن قبل اس نے بذاتِ خود  صبح ۱۱ بجے عدالت  سے موہن کا وارنٹ اپنے قبضہ میں لیا اور تھانے کے اندر اس کا اندراج کروانے کے بعدسپاہی کیول رام کے ساتھ اٹاوہ کی جانب کوچ کیا۔ چاندپٹی پہنچتے پہنچتے شام کے سات بج چکے تھے۔ سورج ڈھل رہا تھا اور وہاں پر موہن کے اہلِ  خانہ اس کی ارتھی اٹھانے کی تیاری کر رہے تھے۔

میں نے پولس تھانے سے رابطہ کیا اور تھانیدار وشوناتھ سے موہن کی موت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک روز قبل دوپہر بارہ بجے موہن اپنے کالج سے لوٹ کر گھر آتے ہوئے کسی نامعلوم شخص کی گولی کا نشانہ بنا۔  پولس بڑی سرگرمی کے ساتھ قاتلوں کا پتہ لگا رہی ہے مگر ابھی تک کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا ہے۔ اس کے بعد میں سرکاری اسپتال گیا اور وہاں ڈاکٹر پرکاش بشنوئی سے موہن کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ساڑھے بارہ بجے موہن کی خون سے لت پت لاش اسپتال لائی گئی۔ اس وقت  وہ مر چکا تھا۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا اور پولس کیس تھا اس لئے حسب دستور لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق موت کی وجہ خون کا بہہ جانا ہے۔ میں اپنے ساتھ اس رپورٹ کی ایک نقل لایا ہوں۔ یہ کہہ کر رنجیت نے رپورٹ پیش کار کے حوالے کی اور کہا مجھے افسوس ہے کہ میں عدالت کے حکم کی بجا آوری نہیں کرسکا لیکن جو کچھ ہو ا۔ اس پروہ  میرے اختیارِ عمل میں نہیں تھا۔ کاش کے شیکھر کے وکیل لوک پال اگروال موہن کا نام پہلے بتلاتے تاکہ ہم اس کا قتل ہونے سے قبل ہی موہن کو اپنی حراست میں لے لیتے اور وہ بیچارہ ناحق  قتل ہونے بچ جاتا۔

شیکھر نے پپو یادو کے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ کیا کچھ ہوا ہو گا۔ شیکھر نے یہ سوچ رکھا تھا کہ آڑے وقت میں پپو یادو کو اپنا گواہ بنا کر بلوا لے گا لیکن موہن کے انجام نے اسے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔ اسے یکبارگی محسوس ہوا کہ موہن کا اصلی قاتل کوئی اور نہیں وہ خود ہے۔ نہ وہ گواہ کے طور پر اس کا نام لیتا اور نہ اس بیچارے کا قتل ہوتا۔ شیکھر اپنی جگہ پر اسی طرح کھڑا ہوا جیسے فردِ جرم کے داخل ہونے کے بعد کھڑا تھا وہ تھانیدار رنجیت سنگھ کو مخاطب کر کے بولا تھانیدار صاحب موہن کی موت اور اس کی گواہی کا مہورت نیتی (تقدیر) نے ایک ہی وقت لکھا تھا اس لئے یہ نہ کہیے کہ پہلے اس کانام لیا جاتا تو وہ بچ جاتا بلکہ جب بھی اس کا نام آتا تب اس کی موت آ تی ہاں اگر نام نہ آتا تو موت بھی نہ آتی۔

 یہ کہہ کر شیکھر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ سب سمجھ گئے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ دوچار بار قہقہہ لگانے کہ بعد شیکھر سر پکڑ کر گم سم بیٹھ گیا۔ جج صاحب نے پیش کار کو اشارہ کیا اور اگلے دن تک کے لئے عدالت برخواست ہو گئی۔ موہن کی موت کا دکھ رنویر اور رجنیش کو بھی تھا۔ ایک پھول جیسا نوعمر جوان کانٹوں سے الجھ کر مرجھا گیا تھا۔ حیرت تو اس بات پر تھی کہ پپو یادو نے نہ صرف چاند پٹی اٹاوہ کے پولس تھانے کو خرید لیا تھا بلکہ اسپتال کے عملہ کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا تھا ہر کوئی وہی بول رہا تھا جو وہ چاہتا تھا۔ وہی لکھ رہا تھا جو پپو یادو کہتا تھا اور وہی کر رہا تھا جو پپو یادو کی مرضی تھی۔ کیا کوئی شخص اس قدر طاقتور بھی ہو سکتا ہے ؟ یہ سوال شیکھر سمن کی جان کا لاگو ہو گیا تھا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اس نئی صورتحال نے لوک پال اگروال پر بھی شدید اثرات مرتب کئے وہ بھی مایوسی کے ا تھاہ سمندر میں ڈوب گیا اس کا سارا منصوبہ اور سارا حوصلہ ایک جھٹکے میں چکنا چور ہو گیا۔ شیکھر نے اس چوبیس گھنٹہ میں نہ زبان کو کھولا تھا اور  نہ ایک  دانہ زبان پر رکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا اس نے مرن برت رکھ لیا ہے۔

 اگلے دن عدالت میں راج پال سنگھ نے اپنے بیان سے ابتدا کرتے ہوئے بولا مائی لارڈ میں ابھی تک کی شہادتوں کا خلاصہ اس طرح پیش کرتا ہوں کہ ملزم شیکھر ایک نہایت ہی ذہین مجرم ہے۔ اس نے پپو یادو سے الگ ہو کر بڑی چالاکی سے اپنا گروہ بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر کوسی کلاں اسکول میں ملازمت کر لی تاکہ کسی کو اس پر شک نہ ہو نے پائے۔

کوسی کلاں میں شیکھر نے کمال صفائی کے ساتھ ہر خاص و عام کا اعتماد حاصل کیا اس نے رنویر اور رجنیش کو ساتھ لے کر بلدیو کے اغوا کا منصوبہ بنایا لیکن اس میں کوئی گڑ بڑ ہو گئی۔ شاید اپنی نا تجربہ کاری کے باعث وہ بلدیو پر مکمل قابو نہیں حاصل کر سکا اور اس کے ہاتھوں بلدیو کو قتل ہو گیا۔ فی الحال راج پال بھی عدالت کو وہی سب بتا رہا تھا جو کبھی پپو یادو نے رنجیت سے کہا تھا۔

سارا ڈرامہ پپو یادو کے منظر نامہ کے مطابق چل رہا تھا۔ شیکھر بلدیو کو ٹھکانے لگانے کے بعد فرار ہو گیا اور عدالت کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے اپنے اغوا ہو جانے کی کہانی گھڑی۔ اگر رنجیت نے اسے رنویر اور رجنیش کے ساتھ گرفتار نہیں کرتا تو وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتا۔ جب اس کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو اس نے عدالت کو گمراہ کرنے کی آخری کوشش کی اور موہن کو گواہ بنا کر اس کا قتل کروا دیا تاکہ اب اس کی تحقیقات کا آغاز ہو  اور اس کی سزائے موت کا فیصلہ  ٹل جائے۔

راج پال  پانی کا ایک گلاس پینے کے بعد اپنی پیشانی پر ابھرنے والے پسینے کو پونچھ کر بولا میں عدالت سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس خطرناک مجرم کے جھانسے میں نہ آئے۔ یہ ایک نہیں بلکہ دو لوگوں کا قاتل ہے ، اس کو کوسی کلاں کے لوگوں نے اس قدر عزت اور احترام دیا لیکن اس نے ان کے ساتھ نمک حرامی کرتے ہوئے یہاں کے ولیعہد کا چراغ بجھا کر جو سنگین جرم کیا ہے عدالت اس کی سخت ترین سزا شیکھر کو دے تاکہ کوئی اور ایسی جرأت نہ کر سکے۔

میں ایک اور بات عدالت کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ کوسی کلاں اس علاقہ میں امن و امان کے لئے مشہور ہے۔ یہاں برسوں سے کوئی قتل و غارتگری کی واردات نہیں ہوئی ہے۔ یہاں کے امن و سلامتی کی بنیادی وجہ عدل و انصاف ہے۔ اگر ان ٹھاکروں کو اس مقدمہ میں انصاف نہ مل سکا تو مجھے ڈر ہے کہ یہ امن پسند لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں گے اوراس ناپسندیدہ صورتحال کی ذمہ داری عدالت پر آئے گی۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا۔  میری ذمہ داری ادا ہو گئی اب آگے کا کام عدالت کا ہے۔

جج صاحب نے لوک پال کی جانب دیکھا۔ لوک پال پراگندہ خیال بیٹھا تھا اس نے کہا مجھے کچھ نہیں کہنا میں عدالت سے یہی گزارش کروں گا کہ وہ اپنے فیصلے کو راج پال سنگھ کی آخری تقریر سے متاثر نہ ہونے دے اس لئے کہ ایسی تقاریر عدالت میں نہیں سیاسی جلسوں کو زیب دیتی ہیں۔ جج صاحب نے شیکھر کی جانب دیکھ کر کہا اگر ملزم کچھ کہنا چاہتا ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ اپنی بات کہے۔ شیکھر اس پیشکش پر گونگا بہرہ بنا بیٹھا رہا۔ جج صاحب نے کہا کہ مقدمہ بہت ہی صاف ہو چکا ہے۔ میں ایک گھنٹہ  وقفہ کا اعلان کرتا ہوں۔ اس بیچ میں اپنا فیصلہ ٹائپ کروا دوں گا اور وقفہ کے بعد جب عدالت بیٹھے گی تو اسے سنا دیا جائے گا۔

 جج شیوانند  دھرمادھیکاری کے لب لہجہ سے حاضرینِ  عدالت نے اندازہ لگا لیا کہ یہ او نٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہی وجہ تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد وہاں سے چھٹ گئی۔ چند لو گ اس امید میں بیٹھے رہ گئے کہ مبادا ان کا اندازہ غلط نکل جائے۔ ان لوگوں میں منیشا بھی شا مل تھی۔ آج پہلی بار وہ عدالت میں آئی تھی۔ سرجو ماسی کی دلچسپی مقدمہ میں سے ختم ہو چکی تھی۔ اپنی گواہی کے بعد انہوں کبھی بھی عدالت کا رخ نہیں کیا تھا  مگر وید جی سے وہ مقدمہ کی پیش رفت کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہتی تھیں۔ جب منیشا کو پتہ چلا کہ اب شیکھر کے متعلق آخری فیصلہ سنا یا جانا ہے تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے اپنے کانوں سے اسے سنے گی۔ وہ عجب بیم و رجا کی حالت میں مبتلا تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سرجو ماسی کا مؤ قف عدالت میں مسترد ہو جائے گا۔ وہ حقیقت جس کا اعتراف اس کے والد بھولا بھگت اپنے نواسے کی محبت اور بہن کے خوف سے  نہ کر سکے  جج صاحب اس کا اعلان کر دیں گے   لیکن اگر ایسا  ہو بھی جائے تو وہ خسارے ہی میں رہے گی۔ اس کا اپنا بلدیو تو اس کے پاس کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اسے خوف ہوا کہ شاید آج وہ جیت کر بھی ہار جائے گی۔ اس نے دعا کی کہ کاش کسی طور سرجو ماسی جیت جائے اور اس کا بلدیو واپس آ جائے۔

پپو یادو کے آدمی مجبور تھے اس لئے وہ اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ دوبارہ جب عدالت بحال ہوئی تو جج صاحب راج پال کی ہر بات پر صاد کہہ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ان پر راج پال نے کوئی جادو کر دیا ہے۔ یہ سحر راج پال کا تھا، رنجیت  کا یا پپو یادو کا تھا یہ کہنا مشکل تھا لیکن بہرحال جس کا بھی جادو تھا وہ سر چڑھ کر بول رہا  تھا۔ جج صاحب کا خطاب اس جملے پر ختم ہوا کہ عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ ملزم دوہرے قتل کا مرتکب ہوا ہے اس لئے ریوار(اتوار) کا روی(سورج) دیکھنے کا ادھیکار(حق)اسے نہیں ہے۔ گویا اتوار کی صبح شیکھر کو پھانسی چڑھانے کا فیصلہ ہو گیا۔ تین دن بعد شیکھر نے تو سورج نہیں دیکھا لیکن سورج نے پھانسی کے پھندے سے لٹکی اس لاش ضرور دیکھی۔

شیکھر کی سزا نے رنویر اور رجنیش کی رہائی کا دروازہ کھول دیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس فیصلے کے آ جانے کے بعد کسی کو مقدمہ میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی تھی۔ رنویر اور رجنیش کو نہ کوئی جانتا تھا اور نہ ان کا کوئی تعلق بلدیو سے قائم ہو سکا تھا اس لئے گاؤں والوں کا ان میں دلچسپی لینا بے معنی تھا۔ اگلی پیشی میں لوک پال حاضر نہیں  ہو ا۔ راج پال کے لئے میدان صاف تھا۔ رنجیت نے ان کے خلاف اپنے بیان کو از خود کمزور کر دیا تھا اور الزامات میں ایسے تضاد ات رکھ دئیے تھے کہ وہ غبارے کی طرح پھوٹ گئے۔ رنویر اور رجنیش کی رہائی کے بعد چمپا کلی فارم ہاؤس میں ایک زبردست تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں رگھوبیر یادو، پپو یادو، رنجیت سنگھ، راج پال سنگھ، تھانیدار وشوناتھ، ڈاکٹر پرکاش بشنوئی کے ساتھ ساتھ نیایہ مورتی(جج) شیوانند  دھرما دھیکاری بھی رونق افروز تھے۔ ان میں سے کسی کو نہ شیکھر کی موت کا دکھ تھا نہ موہن کی موت کا افسوس اور بلدیو تو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔ ہر کوئی مہم کی کامیابی پر شاداں و فرحاں تھا۔

شیکھر کی پھانسی سے کوسی کلاں اور بور کلاں میں رنجیت اور راج پال کے سوا کوئی خوش نہیں تھا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کے خیال میں شیکھر بے قصور تھا۔  اس نے نہ تو اغوا کیا تھا اور نہ قتل اس کے باوجود اس کو موت کی سزا ملی۔ اس کے علاوہ جو ایسا نہیں سمجھتے تھے وہ بھی اس بات سے ناراض ہی تھے کہ شیکھر کی سزا کے باوجود بلدیو تو واپس نہیں لوٹا ان کے لئے شیکھر کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن بلدیو ان کا ہونے والا سربراہ تھا اور اس کا واپس آنا ان کے لئے بے پناہ اہمیت کا حامل تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کوسی کلاں میں پھر ایک بار اس بحث کا بازار گرم ہو گیا تھا جسے بھولا بھگت نے اپنی حکمت سے چند روز قبل ٹھنڈا کر دیا تھا۔ پھر ایک بار لوگ بلدیو کے جانشین کے سلسلے میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے۔ کچھ لوگوں نے شرادھ کی قصہ ازسرِ نو چھیڑ دیا تھا اور وہ کہہ رہے تھے عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اب اس راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ اس نئی صورتحال نے سرجو ماسی کے حوصلے بھی پست کر دئیے تھے بھولا بھگت میں بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے مو ٔقف کو دوہرا سکے۔

٭٭

 

کنور بلدیوسنگھ

شیکھر کی چتا کے شعلے ابھی پوری طرح سرد بھی نہیں ہوئے تھے کوسی کلاں گاؤں میں ایک اور ہنگامہ برپا ہو گیا۔ بلدیو سنگھ واپس آ گیا۔  یہ چمتکار اس وقت ہوا جب اپنی پوجا ارچنا سماپت (عبادت سے فارغ) کرنے کے بعد منیشا کھڑکی میں کھڑے ہو کر چاند کو نہار رہی تھی۔ اسے چاند کے اندر بلدیو کا مسکراتا چہرہ نظر آتا تھا لیکن جب اس نے اپنی نظروں کو آسمان سے ہٹا کر زمین کی جانب دیکھا تو اس کا چاند اس کے سامنے سے خراماں خراماں حویلی کی جانب چلا آ رہا تھا۔ پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے سوچا وہ حسبِ معمول کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ اس نے دوبارہ چاند کی جانب دیکھا وہاں بھی  اسے بلدیو  سنگھ کا مسکراتا چہرہ نظر آ رہا تھا جو اس نے ابھی ابھی زمین پر دیکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ حقیقت کون ہے اور عکس کہاں ہے ؟ چاند پر نظر آنے والے بلدیو کا عکس زمین پر ہے یا زمین پر چلتے پھرتے بلدیو کا عکس آسمان میں ہے۔

 منیشا نے دوبارہ زمین کی جانب دیکھا تو یہ عکس اور قریب آ چکا تھا، اس میں   زندگی موجزن تھی۔ عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔ عکس تو بے جان ہوتا ہے۔ یہ عکسِ مجازی نہیں بلکہ حقیقی وجود تھا جو اس کی جانب رواں دواں تھا۔ منیشا نے چیخ مار کر کہا بلدیو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ میرا بلدیو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰میرا بلدیو آ گیا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ماسی آپ کی بات سچ نکلی وہ دیکھو میرا بلدیو لوٹ آیا۰۰۰۰۰۰۰۰ ماسی بلدیو لوٹ آیا۔

سرجو نے سمجھا منیشا پر پھر سے پاگل پن کا دورہ پڑا ہے۔ وہ بولی رک بیٹی میں ابھی آئی اور قدیم ملازم راموسے کہا دوڑ کر جائے اور وید جی کو اپنے ساتھ لیتا آئے۔ رامو جب دروازے پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے بلدیو کھڑا ہے اور پیچھے  جھروکے میں منیشا۔ رامو نے کہا سرجو ماسی یہ دیکھو کون آئے ہیں کنور بلدیو سنگھ ٹھاکر۔ سرجو نے سوچا کہیں رامو بھی تو پاگل نہیں ہو گیا۔ وہ بھی دروازے کی جانب دوڑی تو بلدیو کو سامنے کھڑا پایا۔ بلدیو نے جیسے ہی ماسی کو دیکھا دوڑ کر ان سے لپٹ گیا اور رونے لگا۔ سرجو  اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ منیشا اور رامو اس خشمگیں منظر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ بلدیو کہہ رہا تھا ماسی آپ مجھ کو چھوڑ کر کہاں چلی گئی تھیں۔

سرجو نے سوچا اب اس پاگل کو کیا جواب دوں وہ بولی میں ۰۰۰۰۰۰ میں جہنم میں چلی گئی تھی۔ بلدیو منہ بسور کر بولا آپ جھوٹ بولتی ہیں۔ جہنم سے بھی بھلا کوئی لوٹ کر آتا ہے ؟ کیوں  بیٹے ، کیوں لوٹ کر نہیں آتا۔ دیکھ تو نے آتے ہی اس جہنم زار حویلی کو جنت میں بدل دیا۔ ہم سب یہاں تیری جدائی کی آگ میں جل رہے تھے لیکن تو ایک پھوار بن کر آیا کہ جس نے تمام شعلوں کو یکلخت سرد کر دیا۔

منیشا بولی جی ہاں ماسی آپ نے بالکل سچ کہا یہ خزاں کے دن کتنے کم مگر کتنے طویل تھے اور اب جبکہ بہار لوٹ آئی تو لگتا ہے ہمارے گلشن میں کبھی خزاں کا گزر تک  نہ ہوا  تھا۔ سرجو ما سی نے کہا کیوں منیشا تو نہ کہتی تھی کہ دیکھوں گی تو مانوں گی۔ لے اسے دیکھ۔ اسے چھو کر دیکھ اور اطمینان کر لے۔ یہ وہی بلدیو ہے جس کے بارے لوگ نہ جانے کیا کیا گمان کرتے تھے مگر میں کہتی تھی بلدیو واپس آئے گا ضرور واپس آئے گا۔ اب بلدیو اپنی ماں منیشا سے لپٹ کر ہنس رہا تھا اور اس کی ماں منیشا بھی ہنس رہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے سارا کچھ بدل گیا تھا۔

سرجو نے کہا لگتا ہے میرا بیٹا طویل سفر کر کے آیا ہے اس لئے میں اسے ہاتھ منہ دھلا کر لاتی ہوں تب تک تم اس کے کھانے پینے انتظام کرو۔ اس کے بعد میرے خیال میں اسے آرام کرنے دیا جائے رات بھی ہونے لگی ہے۔ صبح اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں تھا اور اس پر کیا  گزری ؟

منیشا نے کہا جی ہاں ماسی یہ ٹھیک ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی کو یہ جاننے میں مطلق دلچسپی نہیں تھی کہ بلدیو کہاں چلا گیا تھا۔ ساری حویلی کے لوگوں کو تو بس اس کی خوشی تھی کہ وہ لوٹ آیا تھا۔ بلدیو واقعی تھکا ہوا تھا۔ اس کو کوئی خاص بھوک نہیں تھی پھر بھی زبردستی منیشا اور سرجو نے اسے کھلا پلا کر سلا دیا۔ بستر پر لیٹتے ہی بلدیو گہری نیند میں سو گیا۔ اس رات سرجو اور منیشا دونوں کو نیند نہیں آئی وہ دونوں خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھیں ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جائے۔

بلدیو سنگھ جب اگلی صبح سو کر اٹھا تو پہلے اسے نہلا دھلا کر کھلایا پلایا گیا اور اس کے بعد منیشا اور سرجو ماسی نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر پوچھا بیٹے کیا تمہیں کچھ یا د پڑتا ہے کہ تم کہاں نکل گئے تھے ؟ کیوں نہیں ماسی مجھے تو سب یا د ہے۔ میں ان حسین یادوں کو کیسے بھول سکتا ہوں ؟ بلدیو بڑے بزرگوں کے انداز کی نقل کر رہا تھا۔ سرجو بولی چپ بد معاش یہ سب کس سے سیکھ آیا ؟ بلدیو بولاکس سے ؟ اپنے نرمل انکل سے اور کس سے ؟

نرمل کا نام سرجو پر بجلی بن کر گرا۔ وہ چونک کر بولی نر مل کون نرمل انکل ؟ منیشا کو یاد آنے لگا جس روز بلدیو غائب ہوا تھا اسی روز نر مل اس سے مل کر گیا تھا۔ بلدیو بولا آپ نرمل انکل کو نہیں جانتیں ؟ وہ تو آپ سب کو جانتے ہیں۔ میرے بابا کنور سچدیو سنگھ تو ان کے ہم جماعت تھے۔ وہ ہمارے دادا  بلکہ پردادا کا نام بھی جانتے ہیں۔  ہمارے نانا بھولا بھگت نانی اور ماما سبھی کو جانتے ہیں نرمل انکل اور آپ کو ماسی۔ آپ کو تو وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

منیشا نے پوچھا لیکن تم اس کو کیسے جانتے ہو ؟ بلدیو نے بڑے اعتماد سے کہا وہ میرے دوست ہیں۔ میں ان کو کیسے نہیں جانوں گا ماما ؟ یہ کہہ کر بلدیو نے کہنا شروع کیا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اس روز جب ماسٹر شیکھر میرے ساتھ حویلی کے پاس کے پاس پہنچے تو میں نے کہا ماسٹر جی وہ رہی میری حویلی اب آپ جائیے اور میں چلا۔ یہ کہہ کر میں حویلی کی جانب دوڑ پڑا۔ انہوں نے حسبِ معمول اپنی راہ لی۔ لیکن جب میں حویلی کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا پیچھے کی جانب ایک نہایت خوبصورت گاڑی کھڑی ہوئی ہے۔ اتنی لمبی اور چمچماتی کار میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس لئے میں دروازے کے اندر آنے کے بجائے اس کی جانب چل پڑا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

نرمل نے حویلی سے لوٹنے کے بعد جب اپنی گاڑی کے پاس نیم تاریکی کے عالم میں  ایک نہایت خوبصورت بچے کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ کون ہے ؟ لیکن پھر بھی پوچھا بیٹے تم کون ہو ؟

بلدیو نے چونک پیچھے دیکھا اور اٹھلا کر پوچھا آپ پہلے اور آخری آدمی ہیں جو ہمیں نہیں جانتے۔ ہم ہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

نرمل نے اس کا جملہ کاٹ دیا اور بولا کنور بلدیو سنگھ ولد سچدیو سنگھ ولد سکھدیو سنگھ ولد مہادیو سنگھ ٹھاکر۔ کیوں میں نے غلط تو نہیں کہا۔ دراصل بلدیو کے انگ انگ پر منیشا کے دستخط تھے لیکن اس کا انداز اور لب و لہجہ بالکل اس کے مرحوم دوست سچدیو کی طرح تھا۔

بلدیو نے جب  یہ سنا تو ہکا بکا رہ گیا وہ بولا انکل آپ نے آخر میں کیا کہا؟ میرا مطلب ہے کس کا نام لیا۔

مہادیو سنگھ ٹھاکر کا وہی تو بڑے ٹھاکر سکھدیو سنگھ کے والدِ  ماجد تھے۔ اس گاؤں میں بسنے والا پہلا پریوار انہیں کا تھا۔ اسی لئے ٹھاکر مہادیو سنگھ جی کو کوسی کلاں کا جنک بھی کہا جاتا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے ؟

جی نہیں مجھے نہیں پتہ انکل۔ بلدیو نے جواب دیا

کوئی بات نہیں ابھی بچے ہو۔ جب ہماری طرح  بڑے ہو جاؤ گے نا تو سب جان جاؤ گے۔

جی نہیں انکل ایسی بات نہیں۔ میں تو بچہ ہوں لیکن سرجو ماسی تو بچی نہیں ہیں وہ تو آپ سے بھی بڑی ہیں۔ وہ بھی نہیں جانتیں۔

یہ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ نہیں جانتیں ؟

وہ جو بھی جانتی ہیں مجھے بتا دیتی ہیں

جی نہیں بیٹے وہ جو تمہیں بتاتی ہیں وہی تم جانتے ہو۔

کیا مطلب ؟

مطلب یہ کے وہ جو نہیں بتاتیں وہ تم نہیں جانتے

لیکن وہ مجھے سب کچھ کیوں نہیں بتاتیں ؟

اس لئے کہ تم ابھی ان کے سامنے بچے ہو

اچھا آپ تو  مجھے سب بتاتے ہیں نا

جی ہاں بیٹے ہم آپ کو وہ سب بتلا دیتے ہیں جو ہم جانتے ہیں

ایسا کیوں ؟

اس لئے کہ ہم آپ کے دوست ہیں  اور جو دوست ہوتے ہیں نا وہ آپس میں کوئی بات نہیں چھپاتے

اور جو نہیں ہوتے ؟

وہ کچھ بتاتے ہیں کچھ نہیں بتاتے۔ دوست آپس میں من کی بات بے دھڑک بول دیتے ہیں بڑے یا چھوٹے ایسانہیں کرتے

میں سمجھ گیا۔ بلدیو نے اپنے خاص انداز میں بلکہ سچدیو کے انداز میں سر ہلا کر کہا

اچھا تو آپ کیا سمجھے ؟ ہمیں بھی تو بتاؤ

جی ہاں ہم بھی آپ کے دوست ہیں اس لئے آپ سے کیا چھپانا۔ سرجو ماسی ہماری دوست نہیں بلکہ ماسی ہیں اس لئے جو ضروری سمجھتی ہیں بتاتی ہیں اور جو ضروری نہیں سمجھتیں چھپا دیتی ہیں۔ بلدیو  کا بڑوں کی نقالی کرنا نرمل کو بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ بلدیو نے سوال کیا انکل یہ گاڑی آپ کی ہے ؟

جی ہاں بیٹے ہماری ہے

آپ اسے چلانا جانتے ہیں ؟

جی ہاں بالکل جانتے ہیں۔

تو اب آپ اسے چلا کر کہاں جائیں گے ؟

ہم اپنے گھر شہر میں  جائیں گے۔

یہ شہر کیا  ہوتا ہے انکل ؟

بیٹے ہمیں  تاخیر ہو رہی ہے۔ اس لئے ہم زیادہ دیر یہاں نہیں رک سکتے۔ اگر آپ کو یہ جاننا ہے  یا شہر دیکھنا ہے تو ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھیے ہم آپ کو بتائیں گے اور دکھائیں گے بھی۔

یہ تو بڑی اچھی بات ہے چلئے میں آپ کے ساتھ چل کر شہر دیکھوں گا۔

نرمل نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ بلدیو اچھل کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ دوسری جانب سے نرمل آ کر اسٹیرنگ کے سامنے بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ وہ سوچ رہا تھا منیشا نا سہی تو اس کی نشانی سہی اس کا  بچپن سہی لیکن بچپن تو ماضی ہوتا ہے یہ تو منیشا کا مستقبل تھا۔ یہ اس کا بچپن کیسے ہو سکتا ہے۔ نرمل کو لگا کہ بلدیو میں منیشا کا ماضی اور مستقبل دونوں ایک ساتھ جمع ہو گئے ہیں۔ اور یہ سنگم جہاں ہوتا ہے اسے حال کہا جاتا ہے۔

گاڑی چل پڑی تو بلدیو نے پوچھا ہاں تو انکل آپ مجھے بتا رہے تھے کے شہر کیا ہوتا ہے ؟

نرمل کو لگا کہ یہ تو بڑا مشکل سوال ہے۔ شہر دکھانا جس قدر آسان ہے شہر بتانا اسی قدر مشکل ہے۔

بلدیو بولا انکل آپ ہمارے دوست ہیں تو بتائیے نا۔

بیٹے شہر بھی انسانوں کی بستی ہوتی ہے جیسے کہ کوسی کلاں گاؤں ہے

تو کیا گاؤں اور شہر میں کوئی فرق نہیں ہے ؟

کیوں نہیں بہت بڑا فرق ہے مثلاً شہر میں لوگ اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں لیکن گاؤں میں اپنوں کی طرح۔ گاؤں میں رشتہ دار زیادہ اور دوست کم ہوتے ہیں اور شہر میں دوست زیادہ لیکن رشتے ناطے کم ہوتے ہیں۔ شہر میں حویلی نہیں ہوتی اور گاؤں میں ٹاور نہیں ہوتے۔ گاؤں زمین میں پھیلتے ہیں اور شہر آسمان میں اٹھتے ہیں۔

تب تو شہر سے اچھا ہمارا گاؤں ہی ہوا ؟

جی ہاں بیٹے لیکن ایک معنی  ٰ میں شہر بھی اچھا ہے

وہ کیسے ؟

شہر میں لو گ ایک دوسرے کی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے۔ شہر میں لوگ ا پنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے کہ وہ کیا سوچیں گے ؟ نرمل کی یہ بات ننھے بلدیو کے سر کے اوپر سے گزر گئی  اگر منیشا یہاں موجود ہوتی تو اس کی سمجھ میں آ جاتا کہ اپنی اور غیروں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے میں کیا فرق ہے۔

بلدیو نے سامنے لگے ٹیپ ریکارڈر کو دیکھ کر کہا انکل یہ کیا ہے ؟

یہ گانا بجانے والی مشین ہے۔

اچھا اس سے گانا بجتا ہے۔ ہمیں بجا کر سنائیں

نرمل نے بٹن دبایا تو  گانا بجنے لگا :

دو پنچھی دو تنکے ،

دیکھو لے کر چلے ہیں کہاں

یہ بنائیں گے اک آشیاں۔

یہ بنائیں گے اک آشیاں۔

اس فلمی گانے نے بلدیو کے لئے لوری کا کام کیا تھکا ماندہ بچہ اپنی سیٹ پر سوگیا۔ نرمل نے سوچا کاش کہ یہ نغمہ منیشا سنتی تو اس کے آنکھوں میں  نیند کے بجائے سپنے ہوتے۔  اک حسین مستقبل کے سہانے سپنے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود نرمل خواب دیکھ رہا تھا۔

بلدیو نرمل کے دل میں بس گیا تھا۔ اس نے  بلدیو کو اپنے والدین کے پاس لے جانے بجائے کمپنی کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دیا اور وہاں کام کرنے والے ملازمین سے کہہ دیا کہ یہ میرے دوست کا بچہ ہے جس کے والدین کسی ضروری کام سے گاؤں گئے ہیں اور وہ جلد ہی  واپس آ کر اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اس وقت تک اس کا خاص خیال رکھا جائے۔ وہ جو بھی کھانے پینے کی چیز مانگے فراہم کر دی جائے۔ بلدیو کو شہر کی چمک دمک نے دیوانہ بنا دیا تھا۔ نرمل بلدیو کے ساتھ ناشتہ کر کے اپنے دفتر چلا جاتا۔ پھر اس کے بعد شام تک کھانا پینا اور ٹیلی ویژن پر بھانت بھانت کے پروگرام دیکھنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی کام نہ ہوتا تھا لیکن یہ کام بھی اتنا زیادہ تھا کہ شام تک ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ درمیان میں جب بلدیو تھکتا تو سو جاتا تھا۔ رات دیر تک جاگنے کے لئے بھی دن میں سونا  ضروری تھا۔ شام ہوتے ہی نرمل لوٹ آتا اور اسے اپنے ساتھ شہر کی سیر کرانے کے لئے لے جاتا۔

بلد یو  کے پاس مختلف طعام گاہوں کے مینو تھے۔ جن میں پکوان کے نام کے ساتھ ان کی تصویریں بھی لگی ہوئی تھیں۔ بلدیو پہلے تو جانی پہچانی اشیاء منگوایا کرتا تھا اس کے بعد نت نئی چیزوں کے تجربات کرنے لگا۔ نرمل نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ بیٹے اگر کسی چیز کا ذائقہ پسند نہ آئے تو  اس کومسترد کر کے کوئی اور شہ منگوا لیا کرے۔ اس طرح بلدیو ہر روز ایک نیا کھانا کھاتا اور ہر روز ایک نئی دنیا کی سیر کرتا۔ کبھی سمندر کا ساحل۔ کبھی کوئی باغ۔ کبھی میوزیم تو کبھی چڑیا گھر۔ بلدیو کو ہر چیز انوکھی اور پر کشش لگتی تھی۔ اس مایا جال میں گرفتار ہو کر بلدیو کوسی کلاں اور اپنی حویلی کو بھول گیا تھا اسے نہ سرجو ماسی یاد تھیں اور نہ منیشا۔ نہ ہی اسے اسکول کا خیال تھا اور نہ ماسٹر شیکھر یاد آتے تھے۔ ننھا بلدیو ایک نئی طلسماتی دنیا میں کھویا ہوا تھا کہ ایک دن نرمل نے اس سے کہا بلدیو تم اس ننھے سے پردے پر کارٹون فلمیں اور کھیل کود دیکھتے ہو آج میں تمہیں ایک بچوں کی فلم ایک بہت بڑے پردے پر دکھلانا چاہتا ہوں۔ بلدیو نے کہا بہت خوب تب تو بہت مزہ آئے گا۔ وہ فلم ویسے تو موگلی اور ٹارزن کی تھی جس میں بچوں کی دلچسپی کا سارا سامان تھا۔ جنگل تھا جانور تھے۔ لڑائی بھڑائی تھی۔ ہنسی مذاق تھا لیکن اسی کے ساتھ انٹرویل کے بعد آئندہ کی فلم کا ایک ٹریلر بھی تھا۔ اس فلم کی جھلکیوں میں ایک بچہ اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ مختلف مناظر میں کبھی ہنستا ہوا دکھائی دیتا تھا تو کبھی روتا ہوا۔ کبھی روٹھتا تھا تو کبھی مناتا تھا۔ کبھی کھیلتا ہوا تو کبھی پڑھتا ہوا نظر آتا تھا۔ فلم دیکھ کر نرمل اور بلدیو ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں کھانے کے لئے گئے۔ نرمل نے محسوس کیا بلدیو کچھ اداس ہے۔  اس نے پوچھا کیوں بلدیو فلم کیسی تھی؟  مزہ نہیں آیا ؟

بلدیو بولا نہیں انکل کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سچ پوچھئے تو فلم کا مزہ آج ہی آیا۔ اتنے سارے لوگوں کے درمیان میں ہونے کے باوجود میں کسی کے ساتھ نہیں تھا۔  آپ کے ساتھ بھی نہیں۔ میں تو ٹارزن اور موگلی کے ساتھ جنگل کی سیر کر رہا تھا۔ واقعی کمرے میں بیٹھ کر فلم دیکھنا اور سنیما گھر کے اندر فلم دیکھنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ نرمل نے جواب دیا جی ہاں اسی لئے تو لوگ روپئے خرچ کر کے وہاں جاتے ہیں بیٹے۔ لیکن تم کچھ اداس لگ رہے ہو کیا بات ہے ؟

بلدیو نے کہا انکل وہ درمیان میں جو دکھلایا گیا تھا نا اسے دیکھ کر مجھے اپنی سرجو ماسی یاد آ گئی۔ اب آپ مجھے گاؤں لے چلئے۔ سرجو ماسی کے پاس۔ نرمل بولا کیوں ہم سے ناراض ہو ؟ شہر پسند نہیں آیا ؟  نہیں انکل ایسی بات نہیں۔ شہر تو بہت پسند آیا۔ اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ سرجو ماسی بھی یہ سب دیکھیں اور انہیں بھی مزہ آئے۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے کر یہاں آؤں گا۔ سرجو ماسی کو یہاں شہر میں لے کر آؤ گے۔ نرمل نے پوچھا اور اگر انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تو؟

یہ نہیں ہوسکتا انکل۔ اگر کوئی اور کہے تو وہ انکار کرسکتی ہیں لیکن میری بات کو ماننے سے وہ انکار نہیں کرسکتیں۔  کیوں بھئی ایسا کیوں ہے ؟نرمل نے پوچھا۔ بلدیو نے اپنے والد سچدیو کے انداز میں کہا وہ ایسا ہے نا کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں اس لئے میری سب باتیں مان لیتی ہیں۔

نر مل نے کہا اچھا تو صرف سرجو ماسی کو اپنے ساتھ لاؤ گے یا کسی اور کو بھی ؟ نرمل کے اندر امید کا ایک ننھا سا چراغ روشن ہو گیا تھا۔ بلدیو نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ جی ہاں سرجو ماسی کے علاوہ بھی کسی اور کو مجھے اپنے ساتھ لانا چاہئے۔ نرمل نے پوچھا کس کو ہمیں بھی اس کا نام بتاؤ۔ بلدیو نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔ وہ شیکھر ماسٹر ہیں نا۔ میں انہیں بھی اپنے ساتھ لاؤں گا۔

نرمل نے خوش ہو کر کہا بلدیو بیٹے کو پڑھنے لکھنے کا بڑا خیال ہے  کیوں ؟ بلدیو بولا جی نہیں انکل ایسی بات نہیں ہے۔ نرمل نے سوچا اس کے والد سچدیو کو بھی پڑھنے لکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور خیر اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ان دونوں کو آگے چل کر کوسی کلاں کا بڑا ٹھاکر بننا ہی تھا اور اس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی واسطہ  نہیں تھا۔  اگر ایسا نہیں ہے تو ماسٹر جی کو کیوں بلانا چاہتے ہو بیٹے ؟

بلدیو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا وہ ایسا ہے نا کہ میں حویلی میں سرجو ماسی کے ساتھ رہتا ہوں اور اسکول میں ماسٹر جی کے ساتھ لیکن شام میں جب باغ کی سیر کے لئے جاتا ہوں تو دونوں ساتھ رہتے ہیں۔ اور یہ شہر ہے۔  یہاں نہ اسکول ہے اور نہ حویلی یہ باغ جیسا ہے جہاں صرف اور صرف موج مستی ہے۔ اس لئے ان دونوں کا ساتھ رہے گا تو بہت مزہ آئے گا۔ ماسی میرا خیال رکھیں گی اور ماسٹر جی مجھے اچھی اچھی باتیں بتائیں گے۔

 نرمل نے سوچا جس بلدیو کی خاطر منیشا نے دنیا کو تیاگ دیا وہ اپنی ماں سے اسی طرح بے نیاز ہے جیسی کہ منیشاخود نرمل سے بے پرواہ ہے۔ یہ دنیا واقعی ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جسے نہ کوئی سمجھ پایا ہے اور نہ کوئی سمجھ سکے گا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بلدیو جس وقت لوٹ کر آیا کوسی کلاں کے لوگ دیوالی کا جشن منانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ کوسی کلاں کی پرمپرا(روایت) یہ تھی کہ دسہرہ کے دس دن دھرم پروچن پر صرف کئے جاتے اور دیوالی کے تین دن کھیل کود، ناچ رنگ اور دیگر تفریحات میں مصروف رہا جاتا۔ تیسرے دن صبح کے وقت ایک جلسۂ عام کا انعقاد ہوتا جس میں بڑے ٹھاکر مختلف کھیلوں میں کامیاب ہونے والوں کو انعام و اکرام سے نوازتے اور گاؤں والوں سے خطاب فرماتے۔ اس کے بعد سارے لوگ ایک ساتھ کھانا کھاتے اور پھر مرد اپنے پنڈال سے  نکل گھروں کا رخ کرتے لیکن شادی شدہ خواتین اپنے شامیانے سے نکل کر سیدھے اپنے میکے چلی جاتیں۔ بھائی بیج کے دن ہر گھر میں ساری بہنیں جمع ہوتیں جو اپنی ماؤں خالاؤں اور ان کے بچوں سے ملاقات کرتیں اور اپنے بھائیوں  سے تحفہ تحائف  وصول کرتیں۔

کوسی کلاں گاؤں کے لوگوں نے اس سال دو دئیے اپنے دروازوں پر جلائے تھے ایک مریادہ پرشوتم رام کی لنکا سے واپسی کے جشن کے طور پر اور دوسرا بلدیو سنگھ کے واپس لوٹنے خوشی میں۔ انہیں پہلی بار کسی کے بچھڑنے اور لوٹنے کا فرق پتہ چلا تھا اور اس سے حاصل ہونے جذبۂ مسرت کا احساس ہوا تھا۔

کھیل کود کے مقابلوں میں سب سے زیادہ اہمیت کبڈی کو حاصل تھی۔ کسی زمانے میں کوسی کلاں ہی کے لوگ دو ٹیموں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے مقابلہ کر لیا کرتے تھے لیکن پھر یہ ہوا کہ بور کلاں کی بھی ایک ٹیم بن گئی اور اسے بھی مقابلے میں شامل کر لیا گیا اس طرح مقابلہ کوسی کلاں اور بور کلاں کے درمیان ہونے لگا۔ ویسے تو ہر سال بور کلاں کی ٹیم مقابلہ ہار جاتی تھی لیکن اس کے باوجود مایوس ہونے کے بجائے آئندہ سال پھر ایک بار نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ میدان میں اترتی تھی۔ اس سال بور کلاں والوں نے اپنے اکھاڑے کا نام شیکھر اکھاڑہ رکھ لیا تو اس کے جواب میں کوسی کلاں کے لوگوں اپنی ٹیم کو بلدیو اکھاڑہ کے نام سے میدان میں اتارا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلہ بڑا سخت ہوا پہلے نصف میں تو بور کلاں والوں کو فوقیت حاصل رہی لیکن دوسرے نصف میں کوسی کلاں والے برابری پر آ گئے اس طرح پہلی بار کسی ایک ٹیم کو واضح فتح حاصل نہ ہو سکی۔ اس صورتحال میں کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ مقابلہ دوبارہ کروایا جائے۔ کچھ اور لوگوں کی رائے تھی کہ وقت بڑھا دیا جائے لیکن پنچایت کے لوگوں نے محسوس کیا اگر ان دونوں میں سے کسی ایک تجویز کو بھی قبول کر لیا جائے تو بازی الٹ سکتی ہے اور شیکھر اکھاڑہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس لئے ایسا کوئی خطرہ مول لینے کے بجائے قرعہ اندازی کے ذریعہ  جلسۂ عام میں فاتح طہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بھولا بھگت سے لوگوں نے سوال کیا آسمان کے نکشتر(ستاروں ) کی گردش کیا بتاتی ہے کس کی قسمت کا ستارہ چمکے گا ؟ تو بھولا بھگت نے نسنکوچ(بلا جھجک) جواب دیا بلدیو اکھاڑہ۔ یہ جواب اس لئے نہیں دیا گیا تھا بلدیو ان کا نواسہ تھا یا وہ ستاروں کا کھیل جانتے تھے بلکہ اس بنیاد پر دیا گیا تھا کہ وہ انسانوں کے کرتوت سے واقف تھے۔ انہیں پتہ تھا قرعہ اندازی کے وقت دونوں پہ پرچیوں پر بلدیو اکھاڑے کا ہی نام لکھا ہوا ہو گا۔ ٹھاکروں کی اس بستی میں فتح و نصرت کا تاج انہیں کے سر ہو گا بلکہ انہیں اندیشہ تھا کہ ممکن ہے آئندہ سال شیکھر اکھاڑے سے قبل از مقابلہ سودے بازی کر لی جائے گی یااسے مقابلے میں شمولیت سے روک دیا جائے گا۔ جشن کے دن بھولا بھگت کی بھویشیہ وانی (پیش گوئی)صد فیصد صد سچ نکلی بلدیو اکھاڑہ کی کامیابی کا اعلان ہو گیا لیکن اس کے بعد چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ نے جو کچھ کہا وہ ان کے خواب و خیال سے پرے تھا۔

چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گزشتہ دنوں کوسی کلاں کے لوگ ایک بڑی آزمائش سے گزرے۔ انہوں اس بات پر بے حد خوشی کا اظہار کیا  سارے نراشاجنک (مایوس کن) اندیشے غلط ثابت ہوئے اورکنور  بلدیو سنگھ ٹھاکر صحیح سلامت لوٹ آئے۔ ان سنگین حالات میں گاؤں والوں بالعموم اور حویلی والوں نے بالخصوص جس صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔ چھوٹے ٹھاکر بلوندر سنگھ نے شریمتی سرسوتی دیوی عرف سرجو ماسی اور بہو جی منیشا کی دل کھول کر تعریف کی۔

 اس کے بعد فرمایا بڑے ٹھاکر کی دیہانت(وفات ) کے بعد پنچایت نے اتفاق رائے سے  کنوربلدیو سنگھ ٹھاکر کو گاؤں کا سربراہ بنایا تھا لیکن ان کی کم عمری کے باعث مجھ کووقتی طور پر کام کاج دیکھنے کی ذمہ داری  سونپی تھی۔ اس ذمہ داری کو ابھی تک میں نے آپ لوگوں کے تعاون سے جیسے تیسے ادا کیا۔ اس دوران بہو جی نے جس طرح میری مدد کی اس کے لئے میں خاص طور پر ان کا ممنون وشکرگزار ہوں  لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے جب مجھے اس ذمہ داری  سے سبکدوش کر دیا جائے۔ اس لئے میں باقاعدہ طور پر کنور  بلدیو سنگھ جی کی کوسی کلاں گاؤں کے  بڑے ٹھاکر کی حیثیت سے نامزدگی کی گھوشنا(اعلان) کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اب  بھی  ان کی عمر میں پختگی کی کمی ہے لیکن اس کمی کو ان کی ماتا شری اور ہماری بہو جی منیشا   بخیر و خوبی پورا کر سکتی ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سارا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔  بھولا بھگت کو ایسا لگا جیسے کسی نے ان کی بیٹی منیشا کے سرپر کو سی کلاں کا تاج رکھ دیا ہو۔

٭٭

 

لوک پال اگروال

  بلدیو کی تاجپوشی نے سرجو کی شکست کو فتح میں بدل دیا تھا لیکن منیشا کو بھی اپنی شکست کا کوئی غم نہ تھا بلکہ اس کے برعکس وہ  بہت خوش تھی اس کا  بیٹا بلدیو کوسی کلاں کا بے تاج بادشاہ بن گیا تھا۔ سرجو اور منیشا کا کیاسارا کوسی کلاں اور بور کلاں ان کی خوشیوں میں شامل تھا سوائے لوک پال اگروال کے۔ لوک پال کو بھی بلدیو کی واپسی یا تاجپوشی کا کوئی ملال نہیں تھا لیکن افسوس اس بات پرتھا کہ اس کی عارضی گمشدگی نے معصوم شیکھر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا تھا۔ بلدیو کی واپسی کے بعد لوگوں کا شیکھر کو یکسر بھول جانا بھی لوک پال کو غمگین کر دیا کرتا تھا۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ نہ کوئی شیکھر کا نام لیوا تھا اور نہ کسی کو اس کا خیال  آتا  تھا۔

تنہائی کے عالم میں لوک پال  سوچا کرتا تھا کہ اگر شیکھر اس علاقہ میں اجنبی نہ ہوتا  بلکہ کوسی کلاں کے ٹھاکروں میں سے ایک ہوتا تو کیا اس صورت میں بھی اس گاؤں کے لوگ اسے اس طرح بھلا دیتے ؟ اس سوال کے جواب میں لوک پال کے اندر سے آواز آتی اگر شیکھر بھی اس گاؤں کا راجپوت ہوتا تو اسے اس قدر آسانی کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر لٹکانا ممکن ہی نہ ہوتا۔ تھانیدار اس کے خلاف ایسی فردِ جرم داخل کرنے جرأت نہ کرتا۔ جج صاحب فیصلہ سنانے سے قبل ہزار بار سوچتے اور عوام اس فیصلے کے خلاف ہنگامہ کھڑا کر دیتے بلکہ کوئی بعید نہیں کہ عدالت کو خاکستر کر دیتے لیکن شیکھر چونکہ اپنا نہیں بلکہ پرایا تھا اس لئے اس کی بابت ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔  عدل و انصاف کے معاملے میں اس بھید بھاؤ نے لوک پال کو بے چین کر دیا تھا۔

لوک پال کے نزدیک دنیا کے تمام انسان یکساں بنیادی حقوق کے حامل تھے۔ اس سلسلے میں نہ کوئی اونچا تھا اور نہ کوئی نیچا۔ نہ کسی کو غیر تھا اور نہ کوئی  اپنا۔  انسانی ہمدردی اور غمخواری کا  تفریق و امتیاز کے خانوں میں بٹ جانا اسے گوارہ نہیں تھا۔  لوک پال کا ضمیر روزِ اول سے  اس بات کا قائل تھا کہ شیکھر بے قصور  ہے اور اب  بلدیو کی واپسی نے اس قیاس کو حقیقت میں بدل دیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ موہن کا قاتل شیکھر نہیں بلکہ کوئی اور ہے  لیکن اسے افسوس تھا کہ ایک معصوم کے قتل کی سزا دسرے معصوم کو دے دی گئی اور اصل مجرم کو بخش دیا گیا۔ لوک پال دن رات اس فکر میں غلطاں رہتا تھا کہ شیکھر  اور موہن کے قاتلوں کو کس طرح کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے ؟ لوک پال سوچا کرتا تھا کہ ایک وکیل کی حیثیت سے وہ  قاتلوں کو سزا دلانے کے لئے کیا کرسکتا ہے ؟

 اپنے ضمیر کی آواز پرلوک پال نے شیکھر کے مقدمہ کا از سرِ نو جائزہ لیا۔ اس نے تمام قانونی و دستوری زاویوں پر غور و خوض کر کے شیکھر کی موت  پر ایک مفصل شکایت نامہ تیار کیا جس میں ان تمام عوامل کی نشاندہی کی گئی تھی جن کے باعث ایک معصوم شخص کو تختۂ دار تک پہنچایا گیا اور اپنے تئیں ایک فردِ جرم تیار کی جس میں نرمل اگنی ہوتری کو بھی شامل کیا گیا  جو  بنا بتائے بلدیو کو اپنے ساتھ شہر لے گیا  تھا۔ نرمل کی معمولی سے چوک نے ہی شیکھر کو بلدیو کا قاتل ثابت کیا تھا اس لئے اسے بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔

لوک پال کی فہرستِ جرم میں دوسرا بڑا نام تھانیدار رنجیت سنگھ  کا تھا جس نے ایک فرضی فردِ جرم عدالت میں داخل کی اور اپنی ساکھ بچانے کی خاطر مدعی بن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وکیل راج پال سنگھ کا نامِ آتا تھا جس نے بڑے زور و شور کے ساتھ شیکھر پر بے بنیاد الزامات کی بھرمار کر دی  اور اپنی چرب زبانی کے استعمال سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر عدالت کو گمراہ کرنے کا جرمِ عظیم کیا۔

لوک پال نے رنویر اور رجنیش کو بھی  نہیں بخشا اس لئے وہ دونوں ایک فرضی کہانی حصہ بن گئے۔ ان کی جھوٹی گواہی نے شیکھر کو سزا دلانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔  لوک پال کا آخری اور سب سے بڑا ہدفِ  تنقید جج  دھرما ادھیکاری  تھے۔ لوک پال کے مطابق  جج صاحب نے اس سنگین جرم کی سماعت میں اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جس کا کہ یہ متقاضی تھا۔ قاضی ٔ شہر نے اس بابت کمال جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا۔ سماعت کے ختم ہوتے ہی ایک گھنٹے کے اندر بے دریغ ایسی بڑی سزا سنا دینا ان کے غیر جانبدارانہ کردار کے خلاف انگشت نمائی کرتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے خود کذب و مکر کے ایک خوبصورت جال بنا اور اور اس میں پھنسا کر ایک بے قصور ملزم کو خوفناک مجرم قرار دے دیا۔

لوک پال نے عدالت سے دہائی دی تھی کہ اس طویل فہرست میں سے جو بھی اصلی مجرم ہے اس کا پتہ لگایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ شیکھر کے وارثین کو انصاف ملے اور آئندہ کے لئے اس طرح کی ناانصافی پر قدغن لگے۔ لوک پال کی اس فردِ جرم  میں اتفاق  سے پپو یادو کا نام نہیں تھا اس لئے کہ جو شخص اس کی نشاندہی کر سکتا تھا وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں تھا اس کے باوجود اس پیش رفت کے سبب سب سے زیادہ پریشانی پپو یادو ہی کو تھی۔ پپو نہیں چاہتا تھا کہ پنڈورا کا یہ بکس دوبارہ کھلے اور پھر ایک بار موہن جیسی کوئی نئی مصیبت اس میں سے نکل کر آئے اور اس کے گلے سے لپٹ جائے۔ ایک مرتبہ تو وہ اس نازک صورتحال پر قابو پانے میں کسی طرح کامیاب ہو گیا تھا لیکن اس کے لئے ایک اور گھناؤنا قتل اسے کرنا پڑا تھا اور اس کا دامن ایک اور جرم سے داغدار ہو گیا تھا۔ بار بار اس طرح کی کامیابی کا  ہاتھ لگنا ضروری نہیں تھا۔

پپو یادو کو اس بات کا بھی خوف  تھا کہ اگر بات بڑھ جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں رنویر اور رجنیش کو کسی سخت پولس افسر کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو تفتیش کے دوران وہ  ٹوٹ  بھی سکتے ہیں۔ اس صورت میں پپو یادو کو موہن کا قتل کروانے کے ا الزام سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پپو یادو پھر ایک بار رگھو بیر یادو کے تعاون سے اپنی آگے حکمت عملی تیار کرنے میں لگ گیا۔ رگھوبیر پر چونکہ کسی الزام کا کوئی امکان نہیں تھا اس لئے وہ بغیر کسی الجھن یا پریشانی میں مبتلا ہوئے نہایت اطمینان وسکون کے ساتھ سر گرمِ کار تھا۔ ایسی صورتحال سے نبٹنے کے لئے پرسکون رہنا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

لوک پال کی شکایت اس قدر محنت اور ذہانت سے تیار کی گئی تھی کہ اسے عدالت نے بلا توقف داخل کر لیا مگر حیرت انگیز طور پر مدعا الیہ کی فہرست سے نرمل کا نام خارج کر دیا گیا۔ اس کارروائی کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ نرمل نے نہ تو بلدیو پر کوئی زور زبردستی کی تھی اور نہ وہ کسی طور پر شیکھر کے اغوا میں ملوث تھا بلکہ وہ تو اس حقیقت سے بھی نا واقف تھا کہ شیکھر نامی کسی شخص کا اسی روز اغوا  ہوا ہے۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ جس روز بلدیو اس کے ساتھ شہر گیا اسی روز شیکھر اغوا ہو گیا۔ ان اتفاقی واقعات چونکہ  نرمل  کے اختیار عمل سے باہر تھے  اس لئے اس کو ملزمین کی کی صف میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا۔

 نر مل کے علاوہ  باقی تمام لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہو گیا۔ اس مقدمہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس نے جرائم کی دنیا کے ساتھ انتظامیہ اور عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس نئی صورتحال میں دوستی اور دشمنی کی ساری دیواریں مسمار ہو گئی تھیں تمام فریقین  کے درمیان یک گونہ مفاہمت پیدا ہو گئی تھی۔ لوک پال اور عوام کے علاوہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ملزمین میں سے کسی کوسزا ملے اس لئے عدالت کی کارروائی جیسے جیسے آگے بڑھتی رہی ایک ایک کر کے مختلف لوگ ملزم کے کٹہرے میں آتے رہے اور بڑے آرام سے بری ہو کر جاتے رہے۔ لوک پال اگروال حیران و پریشان یہ سب دیکھتا رہا۔

جب آخری ملزم رجنیش بھی بری ہو گیا تو  لوک پال نے عدالت سے سوال کیا۔  اس مقدمہ کی ابتدا میں عدالتِ  عالیہ نے از خود  تسلیم کیا تھا کہ شیکھر بے قصور تھا اور اس کو پھانسی دینا قتلِ ناحق کے مترادف تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کے اندر کسی کا قتل ہوا یا کم از کم اس کا فیصلہ ہو اور عدالت اس قتل کے لئے کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے سے قاصر بھی ہو ایسا کیوں ؟ لوک پال نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا اس لئے عدالت سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ جب تک کہ شیکھر کے قتل کے لئے ذمہ دار کا تعین نہ ہو جائے  اور اسے قرار واقعی سزا نہ دی جائے اس مقدمہ کو بند  نہ کیا جائے۔ اس لئے کہ ایسا کرنا نظامِ عدالت کو پھانسی پر لٹکا دینے کے مترادف ہو گا اور عوام کا اس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ لوک پال نے پھر ایک بار عدالت سے دردمندانہ  اپیل کی کہ اصل ملزم کو سولی پر چڑھائے بغیر اس مقدمہ کا آخری فیصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ جج صاحب نے لوک پال کو یقین دلایا کہ اگلی پیشی میں وہ اپنا فیصلہ سنائیں گے جس میں لوک پال کے اس بنیادی سوال کا مفصل جواب ہو گا۔ لوک پال اگروال  جج صاحب کی اس یقین دہانی کا شکریہ ادا کر کے شاداں و فرحاں گھر لوٹ آیا۔

عدالت میں فیصلے کے دن کوسی کلاں کی ساری اہم شخصیات موجود تھیں۔ اس دوران یہ مقدمہ اس قدر زیرِ بحث رہا تھا کہ ہر کسی کو شیکھر سے ہمدردی ہو گئی تھی اور ہر کوئی شیکھر کے قاتل کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔ کوسی کلاں کے  باشندوں کی سوچ میں برپا ہونے والے اس غیر معمولی انقلاب کا کریڈٹ صرف اور صرف لوک پال اگروال کو جاتا تھا جس نے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر زندہ کر دیا تھا۔

جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لوک پال کی بنیادی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے  اعتراف کیا کہ شیکھر کی پھانسی دراصل اس کا ناحق قتل تھا مگر شیکھر کو اس بھیانک انجام سے بچانے کی اصل ذمہ داری اس کے وکیل لوک پال اگروال کی تھی۔  اگر وہ اپنے فرض منصبی کی ادائے گی میں کامیاب ہو جاتا تو عدالت شیکھر کو پھانسی کی سزا نہیں سناتی۔  اس لئے گویا لوک پال کی کوتاہی کے باعث ایک بے قصور شخص کا ناحق قتل ہوا ہے اور اس کی مکمل ذمہ داری اس  کے وکیل پر آتی  ہے۔  چونکہ اب تک لوک پال اگروال مدعا الیہ تھا اس لئے اس پر مقدمہ نہ چل سکا لیکن اب اس  فیصلے کے بعد عدالت انتظامیہ کو لوک پال اگروال پر مقدمہ دائر کرنے کا حکم دیتی ہے۔

لوک پال ا گروال کے خلاف مقدمہ اسی عدالت میں دائر کیا گیا تھا جس میں شیکھر پر مقدمہ چلا تھا۔  منظر نامہ پھر ایک بارو دوہرایا جانے لگا  تھا بس فرق یہ تھا کہ ملزم کے کٹہرے میں شیکھر کی جگہ لوک پال کھڑا ہوا تھا۔ فردِجرم جمع کرنے کی ذمہ داری پھر ایک بار تھانیدار رنجیت سنگھ پر تھی۔ جج کی کرسی پر دھرماادھیکاری جی اپنے چہرے پر مصنوعی مسکان سجائے براجمان  تھے۔ اس بیچ پیش کار نے عدالت کو مطلع کیا کہ وہ ملزم لوک پال کی جانب سے کوئی سرکاری وکیل فراہم  کرنے سے معذور ہے۔ اس لئے کہ وکلاء کی انجمن نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی لوک پال کی پیروی نہیں کرے گا۔ اس کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ لوک پال نہ صرف توہینِ  عدالت کا ارتکاب کر چکا ہے بلکہ اس سے عدالتی نظام سے بغاوت کا جرمِ عظیم بھی سرزد ہوا ہے۔ اس طرح کے باغی کی حمایت کرنا قانون اور دستور کی بیخ کنی کرنے جیسا ہے اس لئے کوئی بھی اس کے جرم میں شریک ہونا نہیں چاہتا۔

عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک ملزم کو سر کاری وکیل کی خدمات سے ببانگِ دہل محروم کر دیا گیا تھا۔ اس اعلان نے حاضرینِ عدالت کو سکتہ میں ڈال دیا کہ اچانک سرجو ماسی اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے آئیں اور انہوں نے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا اگر عدالت اجازت دے تو میں لوک پال کی پیروی کرنے کی جرأت کرسکتی ہوں۔ سرجو ماسی کے اس اعلان نے جج صاحب کو چونکا دیا وہ بولے ملزم کی پیروی کی اجازت دینے کا حق عدالت کو نہیں بلکہ خود اس کو حاصل ہے۔ اس لئے اگر لوک پال اجازت دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لوک پال نے جذبۂ احسانمندی سے سر جھکا کر سرجو ماسی کی جانب دیکھا اور صاد کہاِ  عدالت میں موجود لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انہیں یقین تھا کہ جو لوک پال اپنے مؤکل شیکھر سمن کو پھانسی کے پھندے سے نہ بچا سکا اسے سرجو ماسی ضرور بچا لیں گی۔

سرجو نے  لوک پال کو چھڑانے کا بیڑہ تو اٹھا لیا تھا  مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کام کو کیسے انجام دیا جائے گا؟ گھر پہنچنے کے بعد اس نے منیشا کو پکارا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ دوسری مرتبہ آواز دینے پر بلدیو  دوڑ کر آیا اور بولا  مماسو رہی ہیں۔ سرجو نے حیرت سے پوچھا سو رہی ہے ! اس وقت؟ وہ تو بے وقت کبھی نہیں سوتی۔ اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ یہ سوالات سرجو کو منیشا کی خواب گاہ میں لے آئے۔ منیشا واقعی سو رہی تھی لیکن اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس کی سانس تیز چل رہی تھی اور وہ منھ ہی منھ میں وہ  بڑبڑا رہی تھی۔ اوہو آگ!یہ کیسی بھیانک آگ ہے ؟ آگ کو آگ نگل رہی ہے ؟ یہ کیا ہو رہا ہے ؟اس سے پہلے کہ  سرجو ان بے ربط جملوں کا کوئی مطلب  نکالتی منیشا اٹھ بیٹھی۔

سرجو نے پوچھا کیوں بیٹی خیریت تو ہے ؟  تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ منیشا نے کہا جی ہاں ماسی۔ سرجو نے پانی کا گلاس اس کی جا نب بڑھا کر کہا لو پانی پیو۔ منیشا نے شکریہ ادا کر کے گلاس لیا اور ایک سانس میں غٹا غٹ پی گئی۔ اب وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ سرجو کو اندازہ تو ہو گیا تھا مگر پھر بھی اس نے تکلفاً پوچھا۔ پھر سے کوئی بھیانک خواب تو نہیں دیکھا تم نے۔ منیشا اپنا پہلے والا خواب سرجو کو سنا چکی تھی۔ منیشا بولی جی ہاں ماسی لیکن آج کا خواب بھی اسی کا تسلسل بلکہ شاید تکمیل تھی۔ سرجو نے کہا اچھا یہ تو دلچسپ بات ہے اگر تم مناسب سمجھو تو۰۰۰۰۰۰۰۰ اس میں چھپانے کی کیا بات ہے ماسی اور پھر میری زندگی کی کتاب تو آپ نے لکھی اس لئے آپ سے کیا چھپانا۔ نہیں بیٹی نہیں۔ اس دنیا میں انسان خود اپنی زندگی کی کتاب نہیں لکھ سکتا تو دوسروں کی کیا لکھے گا۔ خیر تم اپنا خواب سناؤ۔

منیشا نے کہا موسی آج کا خواب نہایت مختصر تھا کردار وہی پرانے تھے مگر ماحول بدلا ہوا تھا۔  میں نے دیکھا کہ ایک آگ کا دریا ہے۔ جس میں چہار جانب آگ لگی ہوئی ہے۔ شعلوں کی لپٹ آسمان کو چھو رہی ہے۔ آسمان نے بھی  اپنا  رنگ بدل دیا ہے۔ وہ بھی  غم و غصے ّ کے عالم میں لال پیلا ہو رہا ہے۔ میں اس آگ کے دریا میں محوِ سفر ہوں۔ میرا جہاز بھی آگ سے بنا ہوا ہے لیکن وہ مجھے نہیں جلاتا اس لئے کہ میں بھی ۰۰۰۰۰۰۰۰سمجھ گئی سرجو بولی اس لئے کہ تم بھی آگ سے بنی ہوئی ہو۔  منیشا نے اپنی بات جاری رکھی اس آگ کے سفر میں بھانت بھانت کی بھیانک چیخیں اٹھتی ہیں اور میرے کانوں کے پردے سے ٹکراتی چلی جاتی ہیں۔ میں خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہوں۔ ایسے میں ایک جانی پہچانی چیخ سنائی دیتی ہے۔

 میں جہاز کی کھڑکی سے  باہر جھانک کر دیکھتی ہوں۔ کوئی شناسا چہرہ مجھے ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ آگ کی لہروں میں ہاتھ پیر مار رہا ہے اور بچاؤ بچاؤ کی دہائی دے رہا ہے۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے سیتا میری سیتا مجھے بچا لو۔ میں اس سے کہتی ہوں سیتا ؟کون سیتا؟ میرا نام سیتا نہیں منیشا ہے۔ میں تمہیں نہیں جانتی۔  تم مجھے نہیں جانتیں میں راون ہوں ؟ راون؟ کون راون میں کسی راون کو نہیں جانتی۔ تم راون کو نہیں جانتیں۔  اوہو میں پھر بھول گیا۔ وہ کہتا ہے تم سیتا نہیں  منیشا ہو۔ ٹھیک ہے تم راون کو نہ سہی نرمل کو تو جانتی ہو ؟ میں اسے غور سے دیکھتی ہوں تو مجھے اس میں نرمل  کی شبیہ نظر آتی ہے لیکن  اس وقت تک وہ شعلوں کی لپیٹ میں ڈوب چکا ہوتا ہے۔ اور  میں افسوس کے ساتھ کہتی ہوں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سرجو بیچ میں بول پڑی منیشا تم نے اپنے خواب  میں جو کچھ کہا وہ  میں نے سن چکی ہوں۔ تم کہہ رہی تھیں یہ آگ!یہ کیسی بھیانک  آگ ہے ؟ آگ کو آگ نگل رہی ہے ؟  جی ہاں ماسی آپ نے درست  سنا۔ سرجو ماسی اس خواب کی تعبیر میں جب  نرمل کے بارے سوچا تواسے لوک پال کی رہائی کا سراغ مل گیا۔ عقب میں ننھا بلدیو  عاصم واسطی کا شعر توڑ مروڑ کر گنگنا رہا  تھا؎

کیا تھا خواب میں جس شخص کو نظر انداز

کھلی جو  آنکھ  تو  تعبیر  میں  نکل آیا

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید