FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انٹرنیٹ میگزین

ادبی منظراسلام آباد

               مدیر:ارشد خالد

شمارہ نمبر :۱

مارچ ۲۰۱۴ء

انٹرنیٹ لنک

http://issuu.com/adabi-manzar

رابط کرنے کے لیے

Arshadkhalid.akkas@gmail.com

akkasurdu2@gmail.com

پوسٹل ایڈریس

Arshad Khalid

House No 1164,Street No.2,Block C ,

National Police Foundation ,

Sector O-9, Lohi Bhair,

 Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

 

اداریہ

 میری ادارت میں عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کتابی صورت میں بھی شائع ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ادبی برادری سے میرے تعلق خاطر کے باعث ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ایک انٹرنیٹ میگزین الگ سے بھی شائع کیا جائے۔جو بنیادی طور پر انٹرنیٹ میگزین ہو۔تاہم حسبِ ضرورت اس میں شائع ہونے والی بعض تخلیقات کو عکاس انٹرنیشنل میں بھی شائع کیا جا سکے گا۔

 حیدر قریشی کی ایک ضخیم کتاب’ ’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ جلد شائع ہو رہی ہے۔مجھے کتاب کا یہ نام پسند آیا تھا اور اسی سے اخذ کر کے میں انٹرنیٹ میگزین’ ’ادبی منظر‘‘ شائع کرنا چاہتا تھا۔اس کے لیے میں سال کے وسط تک حیدر قریشی کی کتاب کی اشاعت کا انتظار کرنے کے لیے تیار تھا،لیکن حیدر قریشی نے مہربانی کی اور کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اس کے نام سے اخذ کرنے کی اجازت دے دی۔

 اور اب’’ ادبی منظر‘‘ کا پہلا شمارہ آپ کی خدمت میں پیش ہے!

آپ کے مفید مشوروں سے اسے مزید بہتر بنانے کا عمل جاری رہے گا۔موجودہ شمارہ پر آپ کی رائے اور مفید مشوروں کا انتظار رہے گا۔

آپ کا نیازمند

ارشد خالد

 

بتا اے شہر!

               وزیر آغا

بتا اے شہر

تیری نیم روشن،تنگ

بل کھاتی ہوئی گلیوں میں

یہ کیسا تعفن بھر گیا ہے

مکانوں کی بجھی آنکھوں میں

کالا موتیا اترا ہوا ہے

کوئی چھت پر نہیں جاتا

فلک سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے

ڈری سہمی ہوئی مخلوق

دیواروں کے اندر چھپ گئی ہے

کوئی آواز تک آتی نہیں ہے

وہ سناٹا جسے تو نے کبھی گلیوں میں

آنے کی اجازت تک نہیں دی تھی

مکانوں کی بجھی آنکھوں کے رستے

چہکتے بولتے کمروں کے اندر آ گیا ہے

بتا اے شہر،تیرے تن بدن کو

یہ کیا بیٹھے بٹھائے ہو گیا ہے!!

٭٭٭

 

غزل

               وزیر آغا

بے صدا دَم بخود فضا سے ڈر

خشک پتا ہے تُو ہوا سے ڈر

کورے کاغذ کی سادگی پہ نہ جا

گُنگ لفظوں کی اس ردا سے ڈر

آسماں سے نہ اس قدر گھبرا

تو زمیں کی جزا سزا سے ڈر

جانے کس کھونٹ تجھ کو لے جائیں

شاہ زادے نقوشِ پا سے ڈر

ترکِ دستِ طلب پہ مت اِترا

اپنے دل میں چھپے گدا سے ڈر

اُس کے ہاتھوں سے بچ سکا ہے کون

خود کو جھوٹے نہ دے دلاسے، ڈر

ڈر صداؤں سے مت، کہا تھا تجھے

اب تُو اپنی صدائے پا سے ڈر

عرش تک بھی اُڑان ہے اپنی

ہم پرندوں کی بد دعا سے ڈر

آرزو اک نئے جنم کی نہ کر

اتنی لمبی،کڑی سزا سے ڈر

٭٭٭

 

غزل

               اکبر حمیدی(اسلام آباد)

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے

آنسو نہ لکھ سکے تو ستارے لکھے گئے

اظہار کی مروتیں تھیں اور کچھ نہ تھا

طوفان کی بجائے کنارے لکھے گئے

وہ جو ہماری جان کے دشمن بنے رہے

ہم ان کو اپنی جان سے پیارے لکھے گئے

ایسی عبارتیں تھیں کہ پڑھنی محال تھیں

تحریر کی جگہ بھی اشارے لکھے گئے

وہ بھی تھے جن کو جھولیاں بھر کر دیئے گئے

قسمت میں اپنی صرف گزارے لکھے گئے

کس سے کہیں وہ خواہشیں جو حسرتیں بنیں

احسان پھر بھی نام ہمارے لکھے گئے

اک ایک اچھے دن کا بھی دینا پڑا حساب

اکبرؔ وہ اچھے دن جو اُدھارے لکھے گئے

٭٭٭

 

غزل

               عبداللہ جاوید (کینیڈا)

ناچنے لگتا ہے بازاروں کے بیچ

بند کیجئے دل کو دیواروں کے بیچ

عشق ہے ظاہر میں خوش بو کا سفر

راستہ جاتا ہے انگاروں کے بیچ

دیکھئے آ کر کبھی دنیائے دل

بیٹھئے آ کر کبھی یاروں کے بیچ

کاسئہ درویش بھی رکھ دیجئے

کچھ جگہ خالی ہے دستاروں کے بیچ

آپ کو نشہ نہیں کرتی شراب

آپ کا کیا کام مے خواروں کے بیچ

شہرِ جاں تک آ گئی جنگل کی آگ

جل رہی ہے عین گل زاروں کے بیچ

کیسی وحشت ہے زمیں سے تا فلک

چاند ہے سہما ہوا تاروں کے بیچ

امن ہے بغداد میں چاروں طرف

فاختہ اُڑتی ہے تلواروں کے بیچ

 مانگئے جا ویدؔ اب مشرق کی خیر

گھر گیا مغرب کے ہتھیاروں کے بیچ

٭٭٭

 

لا یعنی

               عبد اللہ جاوید

کسی آتش فشاں کو

ذات کی آغوش میں لے کر

سلا رکھنا

درونِ جسم و جاں سے

جلد کی بالائی جانب

رینگتے شعلوں کی سوزش کو

بھلا رکھنا

ہر اک غیض و غضب کو

آگ کو

تپکن کو،حدت کو

لبوں تک لاتے لاتے

راستے ہی میں رکا رکھنا

(کہ ان کا زور ٹوٹے اور وہ

قا بو میں آ جائیں )

ہمیشہ دور رکھنا

دور تک رکھنا

تفنگ و تیغ کو

یوں بھی ہمیشہ باز رکھنا

کاٹ کھا لینے سے دنداں کو

اجازت بھی نہ دینا

 ناخنوں کو نوچ لینے کی

نہ تھپڑ مارنا

بازو اٹھا کر وار کر نا

اور

نہ ٹھوکر بوٹ کی

ہمیشہ دور رکھنا، دور تک رکھنا

کسی ردِّ عمل کو

خواہ جیسا ہو

نہ ہی ابرو کشیدہ

کبیدہ خاطری۔ غصّہ

نہ یہ اظہار، یہ ہے خوب

یہ نا خوب اور نا پسندیدہ

جہانِ دہشت و تخریب میں

یہ ضبط، یہ برداشت

لا یعنی

یہاں نرمی کی، صلح وآ شتی کی

 بات

لا یعنی۔ !!

٭٭٭

 

غزلیں

               ڈاکٹر شہناز نبی

وفائیں اتنی کہ جتنی سنبھال پاؤں میں

بلا جھجھک اسے دل سے نکال پاؤں میں

پرکھ سکے تو پرکھ لے کدورتوں سے مجھے

تری نگاہ پڑے تو جمال پاؤں میں

دیا ہے دل تو اسے وسعتوں سے ناپ ذرا

وہ عشق ہو کہ اسے لازوال پاؤں میں

جسے بھی دیکھو مگن ہے وہ زیر دستی میں

سوالِ حق پہ کسے ہم خیال پاؤں میں

جواب کتنے مچاتے ہیں شور سینے میں

کسی بھی آنکھ میں لیکن سوال پاؤں میں

یہ کم نہیں کہ کئی شیشے جھنجھنا کے گریں

فضا میں ایک ہی پتھر اچھال پاؤں میں

رکھے تو کوئی یاں زخموں پہ ہاتھ نرمی سے

 شبِ ستم میں کسے خوش خصال پاؤں میں

کوئی بھی دل سے ترا غم بھلا سکے نہ کبھی

دعا یہ ہے کہ تجھے بے مثال پاؤں میں

لکھے ہیں جس کے لئے اس نے’ واہ‘ کی تو بہت

جہانِ شعر میں اتنا کمال پاؤں میں

٭٭٭

گھنے جنگلوں کی دہائی نہ دے

کہ اب شور کوئی سنائی نہ دے

وہ بنیادِ شہرِ ستم رکھ گیا

اسے اپنے غم تک رسائی نہ دے

لہو سے چراغاں شبِ امتحاں

جنوں کو یوں وحشت سرائی نہ دے

ہر اک سے طلب سجدہ ہائے رضا

خداؤں کو ایسی خدائی نہ دے

خطِ امتیازِ وفا ہے یہی

سنائی تو دے وہ دکھائی نہ دے

کوئی ساحلِ موجِ امکاں نہیں

کہیں نقشِ پا تک دکھائی نہ دے

کھلے آسمانوں میں کھونے کا ڈر

قفس آشنا کو رہائی نہ دے

جسے آسماں کی تمنا نہیں

اسے بال و پر کی سنائی نہ دے

ابھی ہجرتوں کا رکھا ہے بھرم

ابھی گریۂ بے ردائی نہ دے

٭٭٭

 

خموشی

               شہناز نبی(کولکاتا)

خیال اس کے

زبان اس کی

نگاہوں پر بھی لگے تھے پہرے

اگر کھلو تو حرم کے اندر

جیو مرو تو زنانیوں میں

زبان اس کی

خیال میرے( مگر ادھورے)

حدوں کے اندر ہو گفتگو سب

نپے تلے ہوں تمام جملے

اک ایک مصرع حجاب آگیں

زبان میری خیال میرے

مگر ابھی تک وہی اندھیرے

علامتوں کو زوال نہ ہو

نہ بدلے جائیں گے استعارے

کہ بحر و بر ہیں نگین اس کے

کہ صرف و نحو ہیں اجارہ اس کا

 وہی سناتا ہے فیصلے سب

اسی نے سانچے بنائے سارے

وہ حرفِ اول

وہ حرفِ آخر

چلو کچھ ایسا کریں

قفس کی اک ایک تیلی بکھیر ڈالیں

بے چارہ آدم

اسیرِ نطق و زباں ہے کب سے

اسے خموشی کے گر سکھائیں

٭٭٭

جو کوئے یارسے نکلے

               شہناز نبی

ہماری خواب گاہوں سے چرا کر لے گیا کوئی

طلسمی نیند کے جھونکے

وہ نقشِ پا

سفر کی کوئی شد بد بھی نہ تھی جن کو

نئے رستوں کی متلاشی

گریباں کی طلب

گردِ رہِ منزل

کہ دامن چاک کے خواہاں

ابھی تک ریشم و اطلس کے پردے سرسراتے ہیں

گلِ داؤدی بھینی خوشبوؤں سے گھر سجاتا ہے

مگر شوقِ طوافِ کوچۂ جاناں کی یورش میں

بکھرتے جاتے ہیں زنداں

سمٹتی جاتی ہے سیڑھی

صحن کچھ گھٹتا جاتا ہے

٭٭٭

 

               غزل

               احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)

ہُوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہُوا

ورنہ وُہ ہے باندھ کر رخت ِ سفر رکھا ہُوا

مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم

ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہُوا

میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہُوئے

سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہُوا

اک نئی منزل کی دھُن میں دفعتاً سرکا لیا

اُس نے اپنا پاؤں میرے پاؤں پر رکھا ہُوا

تُو ہی دنیا کو سمجھ پروردۂ دنیا ہے تُو

میں یونہی اچھا ہُوں سب سے بے خبر رکھا ہُوا

٭٭٭

 

غزل

               رستم نامی(ہزارہ)

کچھ دنوں کی بات ہے بس حوصلہ رکھو ذرا

آئے گا وہ شخص واپس حوصلہ رکھو ذرا

منتظر ہیں اُس طرف باغِ عدن میں جا بجا

ریشم و کمخواب و اطلس حوصلہ رکھو ذرا

رونے دھونے سے کوئی لوٹا نہیں ہے آج تک

بس کرو اب اور بس بس حوصلہ رکھو ذرا

سو برس، دوسو مہینے، آٹھ سو ہفتوں کے بعد

بس یہی دن آٹھ، نو، دس حوصلہ رکھو ذرا

بچ بچا کر آ ہی جائے گا اِدھر وہ ایک دن

ہے ابھی سب شہر چوکس حوصلہ رکھو ذرا

شہرِ دریوزہ گراں کے ہیں یہ اعداد و شمار

آمدن اچھی ہے فی کس حوصلہ رکھو ذرا

آدمی کچھ کر نہیں سکتا علاوہ صبر کے

آدمی ہوتا ہے بے بس حوصلہ رکھو ذرا

خاد ہو جائیں گے یہ سارے مداری ایک دن

ختم ہو جائے گا سرکس حوصلہ رکھو ذرا

دیکھ لو گے اپنا آبائی مکاں نامیؔ کبھی

ایک دن جاؤ گے پالس٭حوصلہ رکھو ذرا

٭٭٭

٭شاعر کا آبائی علاقہ

 

غزل

               صادق باجوہ

ہو معرِفتِ ذات اگر امتحان میں

مصروف ا پنے آپ کو رکھنا گیان میں

تم نے بُلا لیا ہے کسے درمیان میں

تلواریں دو سماتی نہیں اِک میان میں

کشتی گزر ہی جاتی ہے لہروں سے با مراد

سوراخ گر نہ ہوں کہیں کچھ بادبان میں

اے رہروانِ راہِ وفا! دیکھنا کہیں

پاؤں نہ ڈگمگائیں کبھی امتحان میں

دشمن بنے گا دوست، یہ نُسخہ ہے کارگر

حکمت سے بات ہو اگر میٹھی زبان میں

دل کو کسی کی یاد کا مَسکن بنا کے دیکھ

آسیب رہنے لگتے ہیں خالی مکان میں

ہو اِکتِسابِ علم و ہُنر تا دمِ حیات

عِرفانِ زندگی ہے نبیؐ کی زبان میں

ہو گا شعور و فہم اور ادراکِ عقل بھی

لائیں نہ بد گما نیاں ہر گز گمان میں

چھُپ کر کہاں پہ جا ئیں گے صاؔ دق سے وہ بھلا

آئے گا فیصلے کا بھی دن درمیان میں

٭٭٭

 

 الٰہ ِفلسطین

               صادق باجوہ(امریکہ)

ہائے! مظلوم لہو پھر سے ہوا ہے ارزاں

دستِ قاتل تو نہیں آہ و فُغاں سے لرزاں

ایک انبار ہے لاشوں کا، کہاں ہو مدفن

سر پہ منڈلائے عدو بھی ہے لگائے قدغن

 بستیوں،شہروں کو ویران بنایا کس نے

بیگناہوں کو سرِ دار چڑھایا کس نے

ہے قیامت سے بھی پہلے یہ قیامت منظر

ظلم پر ظلم ہو ا اپنے وطن میں بے گر

پھر سے تاریخِ ہلاکو کو ہے دہرایا گیا

پھرحجابِ رخِ ظالم کو ہے سرکایا گیا

ہو شکایت بھی کہاں کونسی شُنوائی ہے

چپ رہیں ظلم پہ، یہ کیسی شناسائی ہے

پھر سرِ طور کوئی جلوہ نمائی ہو گی

پھر فسوں ظلم کا ٹوٹے گا خدائی ہو گی

پھر فراعین کی غرقابی کا فرماں ہو گا

پھر بلکتے ہوئے انسانوں کا درماں ہو گا

نارِ نمرود بھڑکتی ہے جلانے کے لئے

رحمتِ خاص لپکتی ہے بچانے کے لئے

جو تماشائی ہیں آج ان کا تماشا ہو گا

چار سُو بکھرا پڑا ظلم کا لاشہ ہو گا

٭٭٭

 

غزل

                حسن چشتی(شکاگو)

وہ گلستاں کہ جہاں اپنا آب و دانہ ہے

اسے بھی برق و شرر نے عزیز جانا ہے

جہاں بھی شام ہوئی بس وہیں ٹھکانا ہے

نہ کوئی شاخ ہے اپنی، نہ آشیانہ ہے

پرائے درد کو اپنا ہی درد جانا ہے

ہم اہلِ درد کا رشتہ بڑا پرانا ہے

دکن گئے تو ملے فرشِ راہ دیدہ و دل

خلوص کیا ہے، یہ ہم نے وطن میں جانا ہے

جہاں نہ ٹھیس لگے دل کے آبگینوں کو

وہی قبیلہ ہے اپنا، وہی گھرانا ہے

گئے ہو جب سے ہر اک سمت ہو کا عالم ہے

بہت اداس ہمارا غریب خانہ ہے

غریبِ شہر ہیں لیکن کلاہ کج ہے حسنؔ

یہ بانکپن تو ہمارا بہت پرانا ہے

٭٭٭

 

پانچواں بُعد

               اختر رضا سلیمی (اسلام آباد)

ہم اب تک اسے چار ابعاد سے دیکھتے اور پرکھتے رہے

مگر ایک بھکشو نے کل رات مژدہ سُنایا

کہ یہ کائنات طویل و عریض و عمیق و قدیم

پانچویں بعد سے دیکھے جانے کی حق دار ہے

اور وہ پانچواں بعد دُکھ ہے

محبت کا دُکھ

ازل سے جسے بُعد ہی راس ہے

اسی بعد نے قُربتوں کو  مٹا کے ہمارے لیے حُسن کی

دل کشی کو بڑھایا

یہ ہر آن بڑھتی ہوئی حسن کی دل کشی، زندگی کی

علامت ہے

یہ ہجر سب کی بقا کی ضمانت ہے

وصل اک قیامت ہے

سو قبل اس کے کہ پھر وصل آغاز ہو

ہم اسے پانچویں بعد کی معرفت سے

 سمجھنے کی کوشش کریں

عین ممکن ہے الجھی ہوئی ڈوریاں خودسلجھنے لگیں

٭٭٭

 

خواب

               ڈاکٹر عارف گمریانی

میرے ساتھ بھی خوب ہوا تھا

برسوں پہلے

میں نے اک بوسیدہ دستر خوان میں اپنے

میلے دن اور اندھی راتیں

گیلا تکیہ

ایک ہی جوتا

اور اک بیہودہ خواب کہ جس میں

ایک سنپولا

کئی عصائیں نگل نگل کے

موٹا اژدر بن جاتا ہے

 کَس کے لپیٹے

ہاں !

یہ وہ بوسیدہ دستر خوان تھا جس میں

باسی نان کی باس بسی تھی

جس میں اماں روز کسی کے گھر سے ٹکڑے لے آتی تھی

اور پھر اُن کو اپنے اشکوں میں ہی بھگو کر

دھیمی آنچ پر رکھ دیتی تھی

اس کپڑے کے ٹکڑے کے اک کونے پر

میرے باپ کے ماتھے کی شکنیں

اماں نے کاڑھ رکھی تھیں

تا کہ ہم پہچان سکیں کہ

یہ عسرت بس اپنی ہے

ہاں تو میں نے اس کپڑے میں

چند اک میلے دن اور اندھی راتیں

گیلا تکیہ

ایک ہی جوتا،اور اک خواب کہ جس میں

ایک سنپولا

کئی عصائیں ایک نوالہ کر جاتا ہے

اور اک اژدر بن جاتا ہے

باندھ کے اپنے صحن میں،میں نے

گاڑ رکھی تھی

برسوں بعد جب اماں مر گئیں

ابا مر گئے

مجھ کو اپنا بھولا دفینہ

اک دن یکدم یاد آیا

جلدی جلدی کھود نکالا

دیکھتا ہوں کہ وہی سنپولا

خواب کی پرتیں پھاڑ کے

میرے میلے دن اور اندھی راتیں

گیلا تکیہ

اور اک جوتا نگل رہا تھا

٭٭٭

 

غزل

               افسر منہاس (پاکستان)

فسردہ موسمی کب تک رہے گی

یہ آنکھوں میں نمی کب تک رہے گی

پڑی ہے آنسؤوں کی اوس ہر سو

فضا یہ شبنمی کب تک رہے گی

عروسِ وقت کے زخمی بدن پر

ردائے ریشمی کب تک رہے گی

گزر جائیں گے آخر حبس کے دن

ہوا یوں ہی تھمی کب تک رہے گی

بدلنا تو مقدر ہے رتوں کا

خوشی ہو یا غمی کب تک رہے گی

غموں کی گرد چہروں پر ہمارے

نہ پوچھو تم جمی کب تک رہے گی

کوئی پوچھے یہ ان سے جا کے افسرؔ

محبت میں کمی کب تک رہے گی

٭٭٭

 

غزل

                حسن آتش چاپدانوی (کلکتہ)

اپنی ہستی کو وفا کے نام دیکھو کر گیا،میں مرگیا

بے وفائی کا مگر الزام میرے سر گیا، میں مرگیا

شب کی تاریکی تھی ہر سو او ر میں خائف نہ تھا،نہ فکر تھی

دیکھ کر دن کا اُجالا آج لیکن ڈ ر گیا، میں مرگیا

ایک ہی پتھر اُچھالا تھا کسی نے بھیڑ میں، تقصیر سے

تھا شناسا سر کا میرے وہ مرے ہی سرگیا،میں مرگیا

وسعتوں میں آسماں کے اُڑنے سے مجبور ہوں،معذور ہوں

میری آزادی کے بدلے میں مر ا شہپر گیا،میں مرگیا

ساعتوں کا تھا سمندر، وقت کا گرداب تھا،ہستی بھی تھی

زیست کے مد و جزر میں صبر کا لنگر گیا،میں مرگیا

 مدتوں پہلے ہوا تھا رقص اک شیطان کا، حیوان کا

میری نظروں سے نہ اب تک خونچکاں منظر گیا،میں مرگیا

نوکِ خامہ کرتی نہ تشنہ مری فکرِ معاش،آتشؔ کہ کاش

فکر و فن کا اور تخیل کا مر ا جوہر گیا،میں مرگیا

٭٭٭

 

غزلیں

               طاہر حنفی (اسلام آباد)

لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ

اپنی تلاش میں ہیں رواں سربریدہ لوگ

دھاگے خوشی کے اپنے بدن سے لپیٹ کر

زخموں کی بستیوں میں رہے آب دیدہ لوگ

بُحران میرے اسم کو دے کر چلے گئے

جو میرے عہد میں تھے کبھی ناشُنیدہ لوگ

اک عہد کے سفر میں انا بھی شریک تھی

لیکن اسے سمجھ نہ سکے بے عقیدہ لوگ

وہ میرے ہی خیال کے روشن نشان ہیں

لفظوں میں جو بیان ہوئے خط کشیدہ لوگ

میرے لہو کو چھین کے بازار میں بکے

تاجر میرے شعور کے طاہرؔ ندیدہ لوگ

٭٭٭

 

غزل

                رحمت اللہ جاوید ( جہلم)

چھوڑ جائے گا ہر اک مجھ کو یہ اندازہ نہ تھا

شعر کہنے کا تو اتنا سخت خمیازہ نہ تھا

تتلیاں آہیں گی اڑ کر کیوں گلستاں کے قریب

دل کے اجڑے باغ میں اک پھول بھی تازہ نہ تھا

تھے ستم کی زد میں چمپا،موتیا، نرگس، گلاب

نکہت گل پر تبسم کا کوئی غازہ نہ تھا

بے کلی سی تھی دماغ و جگر میں کیا منتشر

یاد میں گندھی ہوئی خوابوں کا شیرازہ نہ تھا

آ گیا ہے پھر کہاں سے ایک رہزن خوبرو

خانہ دل میں تو اپنے کوئی دروازہ نہ تھا

سن رہا ہوں ہم تمہارے ساتھ ہیں لا تقنظو

کیا تسلی کو مری کافی یہ آوازہ نہ تھا

چل پڑے طوفان غم کے پر انہیں جاوید تو

میرے صبر و سخت جاں کا کچھ بھی اندازہ نہ تھا

٭٭٭

 

غزل

               اعجاز روشن ( جہلم)

رنگ خوابوں کے مٹا دیتی ہے

فکر پتھر کا بنا دیتی ہے

خواہش زر بھی ہے وہ زہر کہ جو

عمر مفلس کی بڑھا دیتی ہے

جب خلا شاعری کا بھرتا ہوں

پھر نیا ایک خلا دیتی ہے

دوپہر کی یہ جھلستی ہوئی شام

گم ہواؤں کا پتہ دیتی ہے

بے رخی مجھ سے جہاں والوں کی

زخم تیرے بھی جگا دیتی ہے

زیست تیرا یہ چلن کیسا ہے

ہارنے پر بھی سزا دیتی ہے

بات جو ہم نہ کبھی کہہ پائیں

دل میں اک حشر اٹھا دیتی ہے

جس نے لوٹا اسی سے پھر روشنؔ

سادگی آس لگا دیتی ہے

٭٭٭

 

غزل

               اسلم بیگ اسلم  (جہلم)

اب مدعائے وصل کا سودا نہیں رہا

میں عالم خیال میں تنہا نہیں رہا

یوں تو سبھی کی آنکھ کا تارا ہے آج کل

یہ اور بات ہے کہ ہمارا نہیں رہا

تیرے سوا بھی مائل کرم ہیں جہان میں

تیرے ستم کا اب مجھے یارا نہیں رہا

جلتے تھے ایک ساتھ ترے انتظار میں

جب شمع بجھ گئی تو شرارہ نہیں رہا

گزرا ہے آج تیرے ستم کی حدود سے

اسلمؔ غم فراق کا مارا نہیں رہا

٭٭٭

 

غزل

               جمیلؔ افضل(جہلم)

یہ کون ہے جو رگ جسم  و جاں میں اترا ہے

مرے شعور سے دل کے مکاں میں اترا ہے

چمن میں یوں تو بہاروں کا دور دورہ ہے

یہ آشیاں مرا پھر کیوں خزاں میں اترا ہے

ہمیں نے پیار کے بوئے تھے بیج گلشن میں

مگر یہ قہر سا کیوں گلستاں میں اترا ہے

مجھے نہ دن کے اجالے نے روشنی بخشی

مگر یہ نور کہاں سے مکاں میں اترا ہے

تلاش منزل ہستی میں چل پڑا تھا جمیلؔ

گزر کے راہ کٹھن کارواں میں اترا ہے

٭٭٭

 

غزل

               سجاد حسین میر ( برمنگھم)

کہتے ہو مجھے پیار جتانا نہیں آتا

بس اتنا سمجھ لو کہ ستانا نہیں آتا

ہے زخم لگانے کی مہارت انھیں جیسے

ہم کو بھی کوئی درد چھپانا نہیں آتا

جو سامنے ہوتا ہے وہی لب پہ ہے آتا

سچ بات کا افسانہ بنانا نہیں آتا

اس عہد جوانی کو نہ فکروں میں گنواؤ

اک بار گزر جائے زمانہ، نہیں آتا

دستار اسے تم نے ہی پہنائی ہے لوگو

وہ شخص جسے سر ہی بچانا نہیں آتا

اس کو بھی نہیں شاعری کا شوق،مجھے بھی

اس کے بنا تو شعر بنانا نہیں آتا

سجادؔ ہنسی اس کی ڈرانے لگی مجھ کو

اس کو تو کوئی راز چھپانا نہیں آتا

٭٭٭

 

یہ لمبی رات دسمبر کی

               ارشد خالد

یہ لمبی رات دسمبر کی

مجھے ماں جیسی کیوں لگتی ہے؟

میں اس کی گود میں جا کر جب آنکھوں کو موند کے لیٹا ہوں

دن بھر کی تھکن کچھ دیر میں زائل ہو گئی ہے

 ماضی کے تکیے کے نیچے

 یادوں کی مہکتی پوٹلی ہے

آنکھوں کو موندے دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں

اس بند مہکتی پوٹلی میں،کیسی کیسی آوازیں ہیں اور کیسے کیسے منظر ہیں

ماں صدقے واری جاتی ہے اور ہنستی ہے،

تواس کی ہنسی تاروں کی طرح

میری آنکھوں میں چمکتی ہے

پھر گالوں پر قطرہ قطرہ وہ نور اترتا جاتا ہے

رم جھم رم جھم سی ہوتی ہے تو لگتا ہے

ماں میرے بچپن سے جوانی تک کے زمانے

 ساتھ لیے آج آئی ہے

 اپنی عمر کے ساٹھویں سال کی لمبی رات کے

اک خاموش سے کونے میں

میں سوتا جاگتا،لیٹا ہوں

اک رات میں جانے کتنے

 زمانے گزرے ہیں

اور ابھی تک جیسے گزرے جاتے ہیں

یہ لمبی رات دسمبر کی

مجھے ماں جیسی کیوں لگتی ہے؟

٭٭٭

 

مرشد کے نام

               ارشد خالد

جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں

من کی آنکھیں کھل جاتی ہیں

آنکھوں میں ایک پیارا منظر

منظر میں اک آنگن ہے

آنگن میں اک گھنا گھنیرا ؍ برگد ہے

جس کا سایہ ہر سو پھیلا ہوا ہے، بلکہ

میرے من کی جھیل کے اندر تک بھی

اُس کا سایہ اترا رہتا ہے

سائے میں اک تکیہ جیسا بستر ہے

بستر پر بیٹھی اک صورت؍سوہنی اور من موہنی مورت

جن آتے جاتے لمحوں کو

ہاتھ میں لے کر دیکھ لے وہ

ایک اک لمحہ سونا بن کر

وقت کے روپ میں ڈھلتا جائے؍ساتھ ہوا کے اُڑتا جائے

لمحہ بن کر میں بھی جب جب

ہاتھ میں اس کے آ تا ہوں

روشن سونا ہو جاتا ہوں

٭٭٭

 

ادب،میڈیا اور انٹرنیٹ

               حیدر قریشی (جرمنی)

 ادب کا میڈیا سے شروع ہی سے ایک تعلق قائم رہا ہے اور اس تعلق کے ساتھ میڈیا سے ایک فاصلہ بھی رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں کتاب کی صورت میں ادب کی اشاعت سے لے کر اخبار اور رسالوں میں ادب کی اشاعت تک ایک تعلق چھاپہ خانوں کی ابتدا سے چلا آ رہا ہے۔اور اخبار کی اہمیت و افادیت کے باوجود ادب نے صحافت سے اپنا الگ تشخص بھی شروع سے قائم رکھا ہے۔اہلِ صحافت نے ادب کی جداگانہ شناخت کو کبھی اپنی عزت کا مسئلہ نہیں بنایا۔یوں کئی شاعر اور ادیب کئی اخبارات و رسائل کے مدیران رہ چکے ہیں،اور کئی صرف مکمل صحافی حضرات بھی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز رہ چکے ہیں۔اس وقت بھی پرنٹ میڈیا میں یہ ملی جلی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔شاعر اور ادیب نہ ہوتے ہوئے بھی عام طور پر رسائل و جرائد کے مدیران میں زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کی سوجھ بوجھ بھی معقول حد تک ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور غیر ادبی رسائل میں بھی ادب کو مناسب جگہ ملتی رہتی ہے۔ہر چند ادب ان کی پہلی یا دوسری ترجیح نہیں ہوتی پھر بھی ادب سے یکسر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ادب اور صحافت کی دنیا میں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور کاری گری کی روایات بھی شروع سے ملتی ہیں۔اس سلسلہ میں ادب میں شبلی نعمانی سے لے کر نیاز فتح پوری تک قمر زمانی بیگم اور ان سے ملتے جلتے فرضی قصوں کے اسکینڈلز بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اخبار’ ’فتنہ‘‘ اور’ ’جواب فتنہ‘‘جیسے تماشے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ایک منفی رویہ ہونے کے باوجود ان سب واقعات میں ادب، آداب کی ایک تہذیب بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔پھر ادب اور صحافت میں ایسے واقعات آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کم رہے ہیں۔ان کے بر عکس ہجو گوئی کی ایک روایت طویل عرصہ سے اردو ادب میں موجود ہے اور صحافت میں بھی شدید اختلاف رائے کی صورت میں اس کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود ادب اور پرنٹ میڈیا کے درمیان ایک فاصلہ اور ایک ہم آہنگی ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اس خاص نوعیت کے تعلق میں ایک با وقار طریقِ کار صاف دکھائی دیتا ہے۔

 پرنٹ میڈیا کے بعد جب ریڈیو کے ذریعے ہوا کے دوش پر صحافت کے فروغ کی صورت نکلی تو اس میں ادب کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہمیشہ شامل رہا ہے۔ریڈیو سے سرکاری ٹی وی کے دور تک بھی اس روایت کو تھوڑی بہت ہیرا پھیری اور جانبداری کے ساتھ سہی لیکن پھر بھی قائم رکھا گیا۔سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر یا پھر متعلقہ ٹی وی حکام کے پسندیدہ ادیبوں کو نمایاں کیا۔اس دور میں’ ’ میڈیاکر‘‘ رائٹرز کی باقاعدہ کھیپ تیار کی گئی۔معیاری تخلیقی ادب کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا۔میڈیاکر رائٹر بنے بغیر ادب کی خاموشی کے ساتھ خدمت کرنے والوں کو نظر انداز کیا گیا۔تاہم یہاں ادب کے نام پر جو کچھ پیش کیا گیااُس کی میڈیائی ضرورت کو اہمیت اور اولیت دینے کے باوجود اُس میں ادب کا ایک کم از کم معیار بہر حال ملحوظ رکھا گیا۔اس دورانیہ میں بعض ادیبوں کے مختلف نوعیت کے منفی رُخ اور منفی کام بھی سامنے آئے لیکن ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر رہی۔

 یہاں تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ادب کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جاتا رہا،اس کے دوش بدوش بلکہ اس سب سے ایک قدم بڑھ کر ادبی رسائل بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔بے شک اختلاف رائے رکھنے والے رسائل کے درمیان شدید اختلاف بھی نمایاں ہوا،ادبی مسابقت کی دوڑ میں،ان جرائد میں قارئین کی آراء کے ذریعے مدیر ہی کے موقف کو ابھارنے کی دیدہ دانستہ کاوشیں بھی ہوئیں۔ادبی فیصلوں میں ڈنڈی مارنے کا رجحان بڑھا،اس کے باوجود ادبی رسائل کا ادب کے فروغ کا مجموعی کردار اتنا موثر تھا کہ ادبی دنیا کی چھوٹی موٹی کوتاہیاں قابلِ معافی بن جاتی تھیں۔

 نئے ہزاریے کی پہلی صدی کے آغاز کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے ٹی وی چینلز کی بہار اور یلغار آئی تو ساتھ ہی انٹرنیٹ کے ذریعے اشاعت کے وسیع تر مواقع میسر آ گئے۔سیٹلائٹ نے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کر دی۔چینل مالکان کے درمیان ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔سب سے پہلے خبروں کو پیش کرنے کی ہوڑ میں مصدقہ اور غیر مصدقہ کا فرق ہی نہ رہنے دیا گیا۔جو آگے نکل جاتا ہے خبر کو سب سے پہلے پیش کرنے پر بار بار فخر کا اظہار کرتا ہے اور جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ اپنی ناکامی کو اپنی صحافیانہ اخلاقیات کا نمونہ بنا کر بیان کرنے لگتا ہے۔جس قوم کو کسی اہلِ نظر کی رہنمائی کی ضرورت تھی اسے خبروں اور ان پر مختلف النوع تبصروں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

 زمانے کی رفتار میں تیزی آئی تو میڈیا نے اس رفتار کو تیز تر کر دیا۔بے شک اتنی با خبری مہیا کر دی گئی ہے کہ انسان بے خبری کو ترس کر رہ گیا ہے۔اس کے بہت سے سماجی فائدے بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے فائدوں کے مقابلہ میں ہونے والے دور رس نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔اس سے صحافت میں بلیک میلنگ کا ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچا ہے۔میڈیا جس کرپشن اور معاشرتی لوٹ کھسوٹ کا سب سے زیادہ شور مچاتا ہے خود اس کے اپنے کئی مالکان اورکئی میڈیا اسٹارز نہ صرف ہر طرح کی اخلاقی و غیر اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ ٹیکس چوری کلچر کو فروغ دے کر خود بھی اسی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،جس کے خلاف بظاہر دن رات احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ایک طرف میڈیا کی آزادی کے علمبردار بننے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف’ ’آزادی‘‘ کی حد اتنی ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کے سامنے سراپا احتیاط بنے ہوتے ہیں۔سلمان تاثیر کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور میڈیا کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ بول سکتا۔دہشت گردوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے ہر کوئی احتیاط کرتا ہے لیکن ان کی وکالت کرنے والے کسی اگر مگر کے بغیر انہیں’ ’ہمارے‘‘ قرار دے کر انہیں بے قصور ظاہر کرتے ہیں۔یہ سماجی سطح پر میڈیائی رویے کی ہلکی سی جھلک ہے۔ٹی وی کے تجزیاتی پروگرام تجزیہ کم اور ذاتی خواہشات کے آئنہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔نقالی کا رجحان میڈیا کے غیر تخلیقی ارکان کی ذہنی صلاحیت کوتو بخوبی اجاگر کرتا ہے لیکن اس رجحان کے باعث بعض تخلیقی اذہان بھی نقلِ محض بن کر رہ گئے ہیں۔کسی ایک چینل پر کوئی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام اپنے کسی خاص انداز کی وجہ سے کامیاب لگنے لگتا ہے تو حقائق تک رسائی حاصل کیے بغیردوسرے چینلز بھی ملتے جلتے انداز کے پروگرام کرنا شروع کرتے ہیں۔مارننگ شوز،کرائمزرپورٹس پر مبنی پروگرامز،معاشرتی مسائل،جادو ٹونے اور جنات کے موضوعات سے لے کرکامیڈی شوز تک مسلسل نقالی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ کامیڈی شوز میں پنجابی اسٹیج شوز کا عامیانہ پن پوری طرح سرایت کر گیا ہے۔پنجابی اسٹیج شو میں تھوڑی سی اصلاحِ احوال کی ضرورت تھی۔مثلاً رشتوں کی تذلیل کرنے کی بجائے ان کے احترام کو ملحوظ رکھنا،ہر کسی کا تمسخر اڑانے کی بجائے،اور جسمانی عیوب کی تضحیک کرنے کی بجائے معاشرے کے حقیقی معائب پر طنز کرنا اور مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو نشانہ بنانے کی بجائے خود کو زد پر رکھنا جیسی تبدیلیاں کر لی جائیں تو پنجابی اسٹیج شو آج بھی عالمی معیار کا تھیٹر بن سکتا ہے۔ٹی وی چینلز نے پنجابی تھیٹر کے فنکاروں کی پوری پوری فوج اپنے شوز میں بھرتی کر لی لیکن اصلاحِ احوال کی طرف کسی اینکر نے بھی توجہ نہیں کی۔نتیجہ یہ ہے کہ آج مختلف چینلز کے مزاحیہ شوز عمومی طور پر ویسا منظر پیش کر رہے ہیں جیسا ہندوستان کی بعض مسلمان ریاستوں کے زوال کے وقت ان معاشروں میں وہاں کی تہذیب کے نام پر  انتہا درجہ کی پھکڑ بازی رائج ہو چکی تھی۔خدا نہ کرے کہ یہ سارے ٹی وی شوز پاکستان کے کسی تہذیبی یا جغرافیائی زوال کی علامت بن جائیں۔اور بعد میں ان ٹی وی شوز کی تہذیب کی بنیاد پر اس قومی زوال کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔بہتر ہو گا کہ ایسے پروگراموں کے اینکرز نقل در نقل کی لہر میں ہر کسی کی تذلیل کرنے کی بجائے شائستہ مزاح کے لیے محنت کر سکیں۔کیا دوسروں کی تذلیل و تضحیک کیے بغیرشائستہ مزاح پیدا نہیں کیا جاسکتا؟۔ بہتر ہو گا کہ اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود کامیڈی شوز کے اینکرز حضرات پہلے طنزو مزاح سے متعلق بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اسی بہانے اپنی بعض شخصی کمزوریوں کا ادراک ہو جائے اور وہ ان پر قابو پا کر اپنے شوز کو بلیک میلنگ اسٹائل کی بجائے سچ مچ کے مزاحیہ پروگرام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔

 سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کی پسند اور اپنے حکام کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میڈیاکر دانشوروں،شاعروں اور ادیبوں کو قوم کا ترجمان بنایا تھا،اس بوئی ہوئی فصل کو کاٹنے کا وقت آیا تو آزاد میڈیا نے اس نوعیت کے میڈیاکر دانشوروں کے بھی نمبر دوقسم کے دانشوروں کی کھیپ تیار کر لی۔اور اب ایسے دانشوروں کی اتنی کھیپ تیار ہو چکی ہیں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔پرائیویٹ چینلز پر تلفظ کی فاش نوعیت کی غلطیاں اپنی جگہ،اشعار کو انتہائی برے انداز سے،مسخ کر کے اور مکمل بے وزن کر کے پڑھتے ہوئے بھی یہ نئے میڈیاکر دانشور اتنے پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ بندہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر یہ ادب ہے تو پھر واقعی ادب کی موت ہو چکی۔اتنے چینلز کی بھرمار کے باوجود ایک بھی چینل ایسا نہیں جہاں زیادہ معیاری نہ سہی کم از کم پی ٹی وی کے پرانے معیار کے ادبی پروگرام ہی پیش کیے جا سکیں۔

 انٹرنیٹ کی دنیا اتنی وسیع تر اور گلوبل ولیج کی بھرپور ترجمان ہے کہ اس کے مثبت فوائد کو جتنا اپنایا جائے اس میں خیر ہی خیر ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری اردو دنیا نے اس کے بہت سارے مثبت فوائد سے اچھا استفادہ کیا ہے۔اردو کی متعدد لائبریریوں کا قیام،ان لائبریریوں میں دینیات سے لے کر ادب اور سائنس تک مختلف موضوعات کی کتب کی آسان فراہمی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ہر چنداس میدان میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے لیکن جتنا کچھ دستیاب ہے وہ بھی اپنی جگہ نعمتِ خداوندی ہے۔ نعمتِ خداوندی کے الفاظ میں نے یونہی نہیں لکھ دئیے۔والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے بزرگوں کے زمانے میں بخاری شریف کی زیارت ہو جانا ہی بہت بڑی سعادت اور بہت بڑا کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔کہاں سو، سوا سوسال پہلے کا وہ زمانہ اور کہاں آج کی دنیا کہ بخاری شریف سمیت حدیث کی ساری کتب آن لائن دستیاب ہیں اور ان کے اردو ترجمے بھی موجود ہیں۔قرآن شریف کے مختلف تراجم کی دستیابی کے ساتھ قرات سکھانے کا خودکار نظام تک مہیا کر دیا گیا ہے۔یہی صورتِ حال دوسرے مذاہب کی کتبِ مقدسہ کے معاملہ میں ہے۔ دینیات سے ہٹ کر دوسرے موضوعات کے حوالے سے کسی نوعیت کی تعلیمی ضرورت یا تحقیقی کام کے لیے مطلوب ہر قسم کا مواد عموماً انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے۔صحت مند تفریح کا سامان بھی موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں معلومات کی اتنے وسیع پیمانے پر فراہمی اتنی آسان اور اتنی ارزاں کبھی نہیں تھی۔انٹرنیٹ پر کوئی بھی سنجیدہ اور با معنی کام کرنے والوں کے لیے اپنے بلاگس بنانے سے لے کر اپنی ویب سائٹس بنانے تک کی سہولیات موجود ہیں۔اردو میں لکھنے کی سہولت بھی عام کر دی گئی ہے۔مختلف ٹی وی چینلز جو ہر جگہ نہیں دیکھے جا سکتے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی دستیابی بھی آسان ہو چکی ہے۔موبائل فون پر ساری انٹرنیٹ سروسزکا مہیا کر دیا جانا بجائے خود ایک حیران کن کام ہے جو اَب معمولاتِ زندگی میں شمار ہوتا ہے۔

 اس قسم کی مزید ہزار ہا خوبیاں ہیں جو انٹرنیٹ کی برکت سے ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہیں۔لیکن ان سب کے دوش بدوش ایک ایسی خرابی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو کم از کم ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔سوشل میڈیا کے نام پر فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب سے لے کر مختلف ٹی وی شوز کو پیش کرنے والے انٹرنیٹ ٹی وی نیٹ سروسز تک میں آزادیِ اظہار کے نام پر نجی تاثرات دینے کے جو تماشے لگے ہوئے ہیں،وہ گھٹیا پروپیگنڈہ کے باعث محض دل کی بھڑاس نکالنے کے ٹھکانے بن کر رہ گئے ہیں۔ایسے ٹھکانے جہاں بعض اوقات بازاری زبان اور گالی گلوچ کی سطح سے بھی زیادہ گھٹیا زبان کو استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔مذہبی،فرقہ وارانہ، سیاسی،ادبی اور دیگر مختلف سماجی گروہوں کی اختلافی سرگرمیاں اظہارِ رائے کی تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلتیں تو معاشرے کے لیے خیر کا موجب بن سکتی تھیں۔لیکن جہاں مذہب اور فرقوں کے نام پر غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہو اور انتہائی ذلیل ترین حرکات کا مظاہرہ کیا جاتا ہو،وہاں زندگی کے باقی شعبوں میں کسی خیر کی صورت دیکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔اظہارِ رائے کی یہ مادر پدر آزادی سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس آزادی کا ایک سخت مگر ایک لحاظ سے دلچسپ اثر اخبار اور ٹی وی پر دیکھنے کو ملا۔میں نے دیکھا کہ دوسروں پر بہت زیادہ با اصول بنتے ہوئے بے اصولی تنقید کرنے والے ٹی وی اینکرز سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں دئیے جانے والے گالیوں والے ردِ عمل پر مایوس تھے اور بعض ایسے ردِ عمل سے اس حد تک دل برداشتہ تھے کہ یہ کام چھوڑ کر کسی دیہات میں بس جانے کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ ادب میں پرانے زمانے میں ایسے قبیلے موجود رہے ہیں جو قلمی غنڈہ گردی کرتے ہوئے خود سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف گم نام مراسلہ بازی کیا کرتے تھے اور اس مراسلہ بازی میں انتہائی لچر اور فحش زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اسی طرح کے ایک ادبی قبیلے کے ایک کالم نگار کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کالم میں اخلاقیات کی دُہائی دے رہے تھے۔مجھے اس قبیلے کی کئی پرانی سرگرمیاں یاد آئیں اور مجھے ایک پل کے لیے یہ سب اچھا لگا کہ مکافاتِ عمل کی ایک صورت دیکھنے کو ملی۔لیکن یہ سب تو شاید میرے لیے کسی حد تک ذاتی نوعیت کی خوشی ہو سکتی تھی۔جس سے کچھ دیر کے بعد میں خود بھی شرمندہ ہوا۔اگر ادبی تہذیب کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سب شرمناک تھا اور میں بہر حال سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کے باعث گندی زبان کے استعمال کی مذمت کروں گا۔

 سوشل میڈیا پر جو چیز بہت زیادہ مقبول ظاہر کی جاتی ہے،بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عموماً یہ مقبولیت مصنوعی اور خود ساختہ ہوتی ہے۔مختلف گروہوں نے اپنی انٹرنیٹ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جو ایک سے زیادہ اکاؤنٹس بنا کر’ ’کمپنی کی مشہوری‘‘ کرتے رہتے ہیں۔اس مصنوعی گیم کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے صرف ٹاپ کی دو مثالیں پیش کروں گا۔پاکستان کی دو شخصیات سوشل میڈیا کی سب سے مقبول شخصیات تھیں۔پہلے نمبر پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے نمبر پرسابق کرکٹر اور آج کے ایک سیاسی لیڈر عمران خان۔سوشل میڈیا پر اپنی سب سے زیادہ مقبولیت کے دھوکے میں جنرل پرویز مشرف بے تاب ہو کر لندن سے پاکستان پہنچ گئے۔ اور پھر جلد ہی قانونی موشگافیوں کی زد میں آ کر قیدِ تنہائی میں ڈال دئیے گئے۔عمران خان اپنی انٹرنیٹ مقبولیت کے بل پر ایک بال سے دو مضبوط وکٹوں کو گرانے نکل کھڑے ہوئے اور بڑی مشکل سے اور دوسروں کی مدد لے کر صرف ایک صوبے میں حکومت بنا پائے۔ سوشل میڈیا میں سیاسی اور سماجی سطح پر مقبولیت کا بھرم کھولنے کے لیے اور اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ دو مثالیں کافی ہیں۔

 سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم کی نت نئی ترکیبوں کے سلسلے بھی سامنے آنے لگ گئے ہیں۔سماجی سطح پر کتنے ہی گھر ان روابط کے باعث نہ صرف ٹوٹے ہیں بلکہ تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنسی بے راہروی اور بلیک میلنگ سے اغوا برائے تاوان تک کتنے ہی جرائم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ادبی لحاظ سے بھی سوشل میڈیا پر کوئی خوش کن صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی۔ایک طرف تو بے وزن شاعروں کی بھرمار ہے اور انہیں داد دینے کا وسیع سلسلہ بھی مربوط طور پر دکھائی دیتا ہے۔دوسری طرف جینوئن ادیبوں کی اپنی اپنی ٹولیاں اور مدح سرائی کے بچکانہ سلسلے ہیں۔ان فورمز کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ کئی ایسے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں جو یہ تاثر موجود تھا کہ وہ شہرت سے بے نیاز ادبی کام کرنے کی لگن میں مگن رہتے ہیں۔یہاں ان کی بے نیازیوں کے بھرم کھلے ہیں۔اور شہرت کے حصول کے لیے ان کی جانب سے ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکات دیکھنے میں آئی ہیں کہ اپنے ادیب کہلانے پر بھی شرمندگی سی ہونے لگتی ہے۔یہاں ادب کے تعلق سے دو نسبتاً معقول واقعات کا ہلکا سا اشارا کرنا چاہوں گا۔

 فیس بک پر بعض ادیبوں نے اپنے الگ الگ فورمز بھی بنا رکھے ہیں۔ایک فورم پر اعلان کیا گیا کہ یہاں ایک شاعر کی نظم پیش کی جایا کرے گی اور اس پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرے گی۔پھر اُس ساری گفتگو کو فلاں ادبی رسالہ میں شائع کر دیا جایا کرے گا۔پہلے ایک دو دوسرے شعراء کی نظمیں پیش ہوئیں،ان پر بات بھی چلی۔ اس کے بعد زیرِ گفتگو رسالہ کے مدیر نے اپنی نظم پیش کی۔اس میں لوگوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔کوئی خاص گفتگو نہ ہو پائی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جو مکالمہ رسالہ میں شائع کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا،وہ شائع نہیں کیا جا سکا۔ایک اور شاعر نے اپنے نام کے بغیر نظم پیش کی تو بعض قارئین نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔بعض نے ہلکا سا مذاق اُڑایا۔اس پر شاعر موصوف نے اپنے نام کے ساتھ قارئین کو بتایا کہ آپ جس شاعر کی نظم پر ایسی رائے دے رہے ہیں،اگر آپ کو اس کا نام معلوم ہو جائے تو آپ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔اس پر قارئین نے تقاضا کیا کہ شاعر کا نام بتائیں،انہوں نے اپنا اسمِ گرامی بتایا کہ یہ میری نظم ہے۔اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے انکشاف کے بعد بھی قارئین کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا اور پھر فیس بک کے قارئین کے رویے پر خود ان کا اپنا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ دونوں نظم نگار نظم کے اچھے شاعر ہیں۔لیکن اپنی تمام تر بے نیازی کے باوجود فیس بک پر مقبولیت کے شوق میں انہیں تیسرے درجہ کا ادبی شعور رکھنے والوں کے ہاتھوں تمسخر کا نشانہ بننا پڑا۔

 میڈیاکر دانشوروں کی طرح سوشل میڈیا نے بھی اپنی قماش کے شاعروں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے۔ان میں بعض اچھے شعر کہنے والے شاعر بھی موجود ہیں۔تاہم یہاں ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی کوئی غزل فیس بک پر سجائی جاتی ہے تو سات شعر پڑھے جانے کے ٹائم سے بھی پہلے ہی اس غزل کی تعریف میں سات قارئین(عموماً خواتین )کی جانب سے اسے پسند کرنے کے ریمارکس آ جاتے ہیں۔اور دم بدم ان کی مقبولیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہاں مجھے ایک پرانے مزاحیہ پروگرام’ ’ففٹی ففٹی‘ ‘کا ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے۔پروگرام میں ایک میوزیم دکھایا جاتا ہے۔اس میوزیم میں موجود ایک قلم پر بات ہوتی ہے۔گائیڈ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس تاریخی قلم سے پروگرام’ ’ففٹی ففٹی‘‘ کی تعریف میں دس ہزار خطوط لکھے گئے ہیں۔اور پھر مزید وضاحت کرتا ہے کہ یہ قلم’ ’ففٹی ففٹی‘‘ کے پروڈیوسر کا ہے۔’’ففٹی ففٹی‘‘ والوں کا لطیفہ سو فی صد حقیقت کی صورت میں فیس بک کے’ ’مقبول ترین شاعروں ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 ادب اور صحافت کے حوالے سے میں شروع میں ہی قمر زمانی بیگم اور اخبار’ ’فتنہ‘‘ اور’ ’جواب فتنہ‘‘ کا ذکر کر چکا ہوں۔سوشل میڈیا کے جن معائب کا میں نے ذکر کیا ہے،وہ سب ادب سمیت ہمارے پورے معاشرہ میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے ہیں۔تاہم ان سب کی مقدار آٹے میں نمک کی طرح رہی ہے۔سوشل میڈیا پر خرابی یہ ہوئی ہے کہ یہ سارے معائب اور ساری خرابیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ نمک میں آٹے والی صورت بن گئی ہے۔پرانی برائیوں کو بڑے پیمانے پر دہرانے کے ساتھ ہم نے کئی نئی برائیاں بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔وہ ساری ایجادیں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرنے لگی ہیں۔

 ان ساری برائیوں کا عام طور پر اور ادبی خرابیوں کا خاص طور پر تدارک کرنے کے لیے ایک تجویز میرے ذہن میں آتی ہے۔سوشل میڈیا پر کسی بھی فورم کی رکنیت کے لیے اس ملک کے شناختی کارڈ کے مطابق اس کے نمبر کا اندراج لازم کیا جانا چاہیے۔ اور ہر فورم پر ایک شناختی کارڈ پر ایک اکاؤنٹ کھولنے کی پابندی لگ جائے۔ اگر شناختی کارڈ کے نمبر کے بغیر کسی کو بھی اکاؤنٹ کھولنے کا موقعہ نہ ملے،اور پہلے سے موجود اکاؤنٹس کو بھی شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ مشروط کر کے ری فریش کیا جائے تو پہلے مرحلہ میں پچاس فی صد سے زائد اکاؤنٹ غائب ہو جائیں گے۔غائب ہونے والے اکاؤنٹس کی شرح پچاس فی صد سے زائد ہو سکتی ہے،کم ہر گز نہیں ہو گی۔اس تجویز کو میں نے سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔حکومتی سطح پر تیکنیکی ماہرین اسے مزید غور کر کے زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔

 ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہو،اختلاف رائے کے اظہار کا حق ہر کسی کو ملنا چاہیے۔اس پر کوئی ناروا پابندی لگے تو اس کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔لیکن چوروں کی طرح چھپ کر وار کرنے والوں اور اختلاف رائے کے نام پر انتہائی شرم ناک قسم کی گالیاں بکنے والوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے، ان کی شناخت واضح ہونی چاہیے۔اگر پاکستان آغاز کرے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ساتھ لے کر عالمی سطح پر حکومتوں کو تحریک کی جائے تو شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے فورمز کی رکنیت کو مشروط کر کے سائبر ورلڈ کے ان سارے فورمز کو زیادہ مہذب،بہتر اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔خرابیاں یکسر ختم نہیں ہوں گی لیکن ان میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور انٹرنیٹ کی اس جدید تر دنیا میں ہم سب کو اپنی خامیوں پر قابو پا کر بہتر اور صحت مند کردار ادا کرنے کا موقعہ ملے گا۔تب ہم سب اس گلوبل ولیج کے اچھے شہری بن سکیں گے۔

٭٭٭

 

ساحر لدھیانوی فلمی نغموں کا آفاقی شاعر

               پروفیسر ڈاکٹر عبدالرب استاد

(گلبرگہ یونیورسٹی)

            ہندوستانی فلموں اور اردو ادب کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں اردو اور اردو کو بنام ہندی، اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے برتا، نہ صرف برتا بلکہ بطور آرٹ اس میں نت نئے تجربے بھی کئے۔ ان میں کئی نام آتے ہیں مگر ساحر ان تمام میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

            ساحر ہندوستانی فلموں کا ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کا اور خاص طور سے ترقی پسند شعراء میں اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر ایک سوال یہ کھٹکتا ہے کہ آخر ساحر کو ادب میں اتنی پذیرائی کیوں نہیں ملی جسکے وہ حقدار تھے۔ بجائے ادب کے انھیں شہرت اگر ملی تو فلموں کے ذریعے ملی اور ایورڈس بھی اگر ملے تو انھیں فلموں کی وجہ سے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادبی دنیا میں پذیرائی کے لئے کیا کچھ کار ہائے نمایاں انجام دینے پڑتے ہیں یا کسی گروہ سے وابستگی ضروری ہوتی ہے۔ اگر اسے مان بھی لیا جائے اور اس طرز پر ساحر کے کلام کو جانچا جائے تو وہاں بھی ساحر کھرے اترتے ہیں، کیوں کہ ساحر کی جملہ شاعری تو درکنار، صرف انکی طویل نظم پرچھا ئیاں ہی انکی ادبی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے۔ کیوں کہ اس نظم میں امن عالم اور تہذیب کے بقا اور اسکے تحفظ کے تعلق سے ایک حساس شاعر کا اظہار ملتا ہے۔ خود شاعر کی زبان سے سنتے ہیں کہ آیا وہ اس نظم کے تعلق سے کیا کہتا ہے، ساحر لکھتا ہے:

’’ پرچھائیاں میری طویل نظم ہے، اس وقت ساری دنیا میں امن اور تہذیب کے تحفظ کے لئے جو تحریک چل رہی ہے یہ نظم اس کا ایک حصہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہر نوجوان نسل کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اسے جو دنیا اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی ہے وہ آئندہ نسلوں کو اس سے بہتر اور خوبصورت دنیا دے کر جائے۔ میری یہ نظم اس کوشش کا ادبی روپ ہے۔‘‘

جبکہ معروف ترقی پسند شاعر اور ادیب گیان پیٹھ ایوارڈی علی سردار جعفری نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا

’’ساحرلدھیانوی نے اس نظم کے ذریعہ اردو کے طویل نظموں اور امن عالم کے ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔‘‘

            اب جبکہ خود شاعر نے اسے ادبی روپ سے تعبیر کیا ہے۔ اور یقیناً یہ ادب میں اضافہ کا باعث ہے کیوں کہ شاعر اپنے دور کا نباض ہوتا ہے۔ وہ اپنے دور کے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے اور اپنا عندیہ عوام کے آگے رکھ دیتا ہے۔ بلاشبہ فنکار صرف عکاسی کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مثبت اور مستحسن تبدیلی کا نام بھی ہے۔ اور یہی فنکاری زندہ بھی رہتی ہے۔ چہ جائے وہ کسی گروہ سے وابستہ ہو یا نہ ہو۔ساحر گو یہ ان قیود و پابندیوں سے بالا نظر آتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتا ہے۔ ؎

لے دے کہ اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

            زندگی اور زندگی کا فلسفہ ساحر نے اپنے تجربات و حوادث سے حاصل کیا اور سیکھا تھا جسے اپنے طور پر برتنا چاہا اور برت کر بتایا۔ ادب جسے سماج کا آئنہ دار کہا گیا ہے اور سماج جسے افراد کا مجموعہ بتایا گیا جو عوام پر مشتمل ہوتا ہے۔ چنانچہ ساحر نے اپنی شاعری کو اسی زندگی اور اسی سماج کیلئے وقف کر دیا۔ اس میں اس نے کبھی مدرسہ کی قیل و قال کو آنے نہیں دیا۔ صرف جذبات اور احساسات کی ترجمانی پر زور دیا۔ اور انہیں کیلئے پیش بھی دیا۔ اپنے دور پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس وقت مضبوط اور بہتر میڈیا فلم ہے تو اس نے فلم کی معرفت اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ساحر کے دور کی فلم انڈسٹری اور اس وقت کے سماج پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرفا فلم کو بازاری یا اوچھے پن سے تعبیر کرتے تھے۔ جبکہ عوام اس سے ذہنی تلذذ حاصل کرتے۔ (یہ اور بات ہے کہ شرفا بھی چوری چھپے صحیح مگر دیکھتے ضرور تھے) ان حالات میں ساحر نے ان فلموں کو شائستہ ادب سے مزین کیا کہیں بھی اس میں سوقیانہ کلمات کو آنے نہیں دیا۔ اور نہ ہی غیر مہذب لفظیات کا استعمال کیا۔ ان فلمی نغموں کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس میں بھی قدرتی مناظر کی عکاسی، انسانی فطرت کشی، سماجی بے اعتدالیاں۔ سیاسی اتھل پتھل، طبقاتی کشمکش، انسانی رشتوں کی پاسداری، وطن اور ابنائے وطن سے محبت، صلح کل کا درس، انسانی جذبات اور احساسات کا تذکرہ بڑی شدت سے محسوس کیاجاسکتا ہے۔ ان تمام کو مختلف جگہوں پر راست عوامی زبان میں ادا کیا گیا۔ اور پڑھنے یا سننے والے کے دل میں اتر جانے والی کیفیت ساحر کے فلمی نغموں کی خاصیت رہی۔اسطرح ساحر نے ہندوستانی فلموں کو سلجھے ہوئے ادب سے روشناس کرایا۔

 لڑکی کی جدائی پر جو نغمہ ساحر نے لکھا وہ آج بھی وہی تاثر دیتا ہے جو اس وقت لکھا گیا تھا بلکہ ہر وقت اور ہر پل کیلئے یہ نغمہ لازوال ہو گیا۔

                        بابل کی دعائیں لیتی جا        جا تجھ کو سکھی سنسار کرے

                        میکے کی کبھی نا یاد آئے      سسرال میں اتنا پیار ملے

 وہ کون مائی باپ ہو گا جو ساحر کے اس نغمہ کو سن کر ان کی آنکھیں نم دیدہ نہ ہوں۔ ہر دل کی دھڑکن کو ساحر نے اس نغمہ کے ذریعہ اس رنگ میں ادا کر دیا کہ معاشرے کا ہر فرد اس کو اپنا ہی نغمہ اور اپنا ہی تجربہ سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک بہن کا اپنے بھائی کیلئے پیار کیا ہوتا ہے اسے اگر ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں دیکھیں اور راکھی پوتر بندھن کے موقعہ پر یہ نغمہ کس قدر معنی خیز اور انسانی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا ہے کہ ؎

میرے بھیا میرے چندہ میرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں

            انسانی نفسیات خاص طور سے ماں کے جذبات اور بچوں کی نفسیات پر ساحر کو قدرت حاصل تھی ہے۔ ماں کے جذبات اپنی معصوم بچے کیلئے کیا ہوسکتے ہیں اس نغمہ سے معلوم ہوتے ہیں۔

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

میرے بچے ! میرے گلزار کے ننھے پودے

تجھ کو حالات کی آندھی سے بچانے کیلئے

آج میں پیار کے آنچل میں چھپا لیتی ہوں

کل یہ کمزور سہارا بھی نہ حاصل ہو گا

کل تجھے کانٹوں بھری راہ پہ چلنا ہو گا

زندگانی کی کڑی دھوپ میں جلنا ہو گا

            اپنے دور کے حالات اور واقعات کو دیکھ نے کے بعد جس سیاسی اور سماجی اتھل پتھل سے وہ دور گزر رہا تھا اس میں انسانوں کو انسانیت کا درس دینے کیلئے بڑے ہی کرب سے اس نغمے میں اپنے خیالات کو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا

ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا

قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی

ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا

            بچوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان میں پریم، بھائی چارگی اور محبت جیسے جذبات سے پرکرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں ؎

بچے من کے سچے سارے جگ کے آنکھ کے تارے

یہ وہ ننھے پھول ہیں جو بھگوان کو لگتے پیارے

تن کومل، من سندر ہے بچے بڑوں سے بہتر ہیں

ان میں چھوت اور چھات نہیں جھوٹی ذات اور پات نہیں

بھاشا کی تکرار نہیں، مذہب کی دیوار نہیں

ان کی نظروں میں ایک ہیں مندر، مسجد، گردوارے

            اس کے ساتھ ہی بچوں کو اپنے خالق کے روبرو کرنے اور انہیں وحدانیت کا درس دیتے ہیں

تیری ہے زمیں تیر ا آسماں

تو بڑا مہرباں تو بخشش کر

سبھی کا ہے تو سبھی تیرے

خدا میرے تو بخشش کر

            یہ وہ نغمہ ہے جو تمام بنی نوع انسانوں کیلئے اور ہر کوئی اسے بڑی گرم جوشی سے پڑھے گا اور اس خدا کی ذات پر توکل کرے گا ہر انسان کو اس کے در پر جھکنے کی تلقین بھی فلمی نغموں سے کرتے نظر آتے ہیں۔ د

آنا ہے تو آ، راہ میں کچھ پھر نہیں

بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں

ایشور اللہ تیرو نام

سب کو سنمتی دے بھگوان

            یہ وہ نغمے ہیں جس سے ساحر کی ابتدائی تربیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ خواہ وہ جوانی میں ترقی پسند نظریہ کے قائل ہوں مگر ان کی سرشت میں جو باتیں یا تعلیمات جاگزیں تھیں وہ بھلا کیسے نکل پاتیں۔ ہاں اسے وسیع معنوں میں نغموں کی شکل میں ڈھل کر انسانیت کا درس دیتی نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی ان کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے اور وہ خدا سے پر جوش انداز میں سوال بھی کرتے نظر آتے ہیں ؎

خدائے برتر! تیری زمیں پر زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے

ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پے خون انساں کا رنگ کیوں ہے

            اور کبھی ملک کے رہبر اور قوم کے سردار سے سوال کرتے نظر آتے ہیں ؎

جس رام کے نام پہ خون بہے اس رام کی عزت کیا ہو گی

جس دین کے ہاتھوں لاج لٹے اس دین کی قیمت کیا ہو گی

انسان کی ذلت سے بھی پرے شیطان کی ذلت کیا ہو گی

یہ وید ہٹا قرآن اٹھا یہ کس کا لہو ہے کون مرا

اے رہبر ملک و قوم بتا

            عورت پر ہونے والے مظالم کی داستان بھی بڑی طویل ہے مگر ساحر نے ان کی عزت اور آبرو اور مشرقیت کے حوالے سے جس کرب اور جس نفاست سے پیش کیا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے فی زمانہ ہمارا میڈیا جن چیزوں کو ابھار کر اتارنے میں فخرمحسوس کرتا ہے اسے بہت پہلے ساحر کی آنکھ نے دیکھ لیا تھا اور اس نغمہ کے الفاظ کو سنئے اور آج کی میڈیا کی خبروں کو اپنے ذہن میں لائے پھر موازنہ کیجئے       ؎

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے

کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج

لوگ عورت کی ہر ایک چیخ کو نغمہ سمجھے

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا سماج

            ان تمام حالات اور واقعات کے باوجود انسان جس شکست و ریخت سے گزر رہا ہے اس سے خود ساحر بھی بچا ہوا نہیں مگر اس نے جینے کا ہنر جان لیا اور ایک ایسا کلیا تمام بنی نوع انسانوں کے ہاتھوں دیا کہ اگر اس پر عمل پیرا ہو تو زندگی بڑے آرام سے بسر کرسکتا ہے یہ ہر بڑے فنکار کی پہچان ہوتی ہے اور بلاشبہ ایک بڑے فنکار کے روپ میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ کیونکہ دنیا جس ڈگر پر چل رہی ہوتی ہے وہ ہمیشہ اس کی مخالف سمت پر گامزن ہوتا ہے اور ایک نیا اور انوکھا طریقہ اپناتا ہے جسے خود ساحر نے ان اشعار میں پیش کیا

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا

جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں

میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

            ان سے قطع نظر ساحر کے بھجن بھی دل موہ لینے والے ہیں اور ان میں خالص ہندوستانیت اور ہندوستانی بھائیوں کے تئیں محبت کے جذبات اور ان کے مذاہب احترام جھلکتا ہے۔ ان تمام فلمی نغموں کو پڑھنے سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ساحر نے اپنی شہرت کے خاطر یہ نغمے نہیں لکھے بلکہ زمانے نے ان سے یہ نغمے لکھوائے اور ان کو زندگی اور روز مرہ کے معمولات کا کس قدر گہرا ادراک رہا یہ عیاں کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی دنیا کی چکا چوند روشنی میں خود کو گم نہیں کیا بلکہ فلمی دنیا والوں کو اور فلم کے حوالے سے تمام قارئین اور ناظرین کو اچھے اور سلجھے ہوئے ادب سے روشناس کرایا۔ یہی ان کو تا دیر زندہ رکھے گا۔ (یہ مضمون ابھی زیرِ تکمیل ہے)

٭٭٭

 

مختار مسعود کی تحریروں میں فلیش بیک کی تکنیک

               ڈاکٹر الطاف یوسفزئی

( اسسٹنٹ پروفیسر ہزارہ یونی ورسٹی)

             مختار مسعود اردو کے اُن چند خوش نصیب ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جو شہرت ہی نہیں مقبولیت بھی رکھتے ہیں۔ان کے ہاں خوبصورت انداز تحریر،جدّت ادا اور ندرت خیال،اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔علی گڑھ کے مادرِ علمی سے اپنی پیاس بجھانے اورہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخی،ثقافتی روایات پر گہری نظری رکھنے کے سبب آپ کی شخصیت کی ہمہ گیری اور آپ کی تحریر کے متنوع رنگ صاف دکھائی دیتے ہیں۔مختار مسعود نے جذبے اور احساس کے مربوط اظہار سے فکر و خیال کو پُر وقار جمال بخشا ہے۔اُن کا جمالیاتی ذوق، فنی مہارت،تہذیبی شعور اور ثقافتی اقدار ان کی تحریر کو چار چاند لگاتا ہے۔اُن کی تحریر ان کی فکری رویوں کی غماز ہے۔ اپنے شہ گام اسلوب کی بدولت مختار مسعود نے بھی مشتاق یوسفی کی طرح اپنی پہلی کتاب’ ’آوازدوست‘‘ ہی سے بلند اقبالی حاصل کی اور اپنی منفرد سحرانگیز، دلکش ومسرور کن تحریر سے اہل علم و ادب کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔’ ’آواز دوست ‘‘کے بعد ان کی اگلی دونوں کتابوں’ ’سفرِ نصیب‘‘ اور’ ’لوح ایام‘‘ نے بھی اُس سحرانگیز اور جادوئی انداز کو مزید نکھار بخشا۔سید ضمیر جعفری نے اُن کی نثر کی نیرنگی سے یہ رنگ چنے ہیں :

’’انہوں (مختارمسعود)نے اردو نثر کے خوبصورت ترین پھولوں سے بوند بوند رنگ اور رس اور خوشبو جمع کر کے بات کہنے ک اایک نیاسلیقہ پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے جملوں کو ہیروں کی طرح تراشتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی بات ایک جملے بلکہ ایک لفظ میں ادا ہو جائے۔ ان کابس چلے تو اول سے آخر تک ضرب الامثال لکھتے جائیں۔ ان کے فقرے ان کے مافی الضمیر کے منجھے ہوئے سفیر ہوتے ہیں ‘‘۔ (۱)

            مختار مسعودعام ڈگر سے ہٹ کر لکھنے والے ادیب ہیں کیونکہ ان کے مخاطب اور قاری عوام نہیں،خواص ہیں۔ ان کی تحریراوراسلوب سے لطف اندوز ہونے کے لیے خاص علمی اُپج رکھنا قاری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ان کے ہاں ایک روشن فکر اور مطمئن روح کا اثر ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ گہرے مطالعے اوروسیع تجربے کی بنیاد پر اپنے مخاطب اور پڑھنے والے کو نئی منزلوں اور اچھوتی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں۔’ ’آواز دوست ‘‘میں تاریخی میناروں پر بات ہو یا تاریخ ساز انسانوں کا ذکر،’ ’سفرنصیب ‘‘میں برف کدوں کا مشاہدہ ہو یا غاروں، سمندروں اور صحراؤں پر بحث،’ ’لوح ایام‘‘ میں ایرانی انقلاب کی روداد ہو یا اس کا پاکستانی ماحول اور عوام سے موازنہ، ہر جگہ مختار مسعود فکر اور فن کی قندیلیں روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اسلوب کا امتیاز ان کی تحریر میں موجود تہہ داری، پہلو داری، تفلسف اور معنویت ہے۔ مختار مسعود لفظوں کے انتخاب میں ایک مرصع کار اور جوہری کی طرح اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہیں۔ وہ جملے، فقرے اور لفظ کی مشاطگی میں بڑی لگن اور محنت سے کام لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی رنگین بیانی اور مرصع تحریروں پر بعض اوقات شاعری کا گماں ہوتا ہے۔

مغربی نقاد والٹر پیٹر کہتے ہیں :

’’فن میں حسن کی ایک لازمی مقدار کی موجودگی کے اصول کے تحت ادب کو ایک فن لطیف قرار دیتے ہوئے ادبی اسلوب کے تجمل اور حسن آفرینی کی بہت سی صورتیں جہاں شاعری میں نظر آتی ہیں وہ محاسن نثر میں بھی ہوتی ہیں۔ (۲)

            پروفیسر نظیر صدیقی مختار مسعود کے حوالے سیاسی خیال کو ایک اور انداز میں یوں بیان کرتے ہیں :

’’ اچھے شعر کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ نثر کی نثر ہو اور شعر کا شعر۔ میرے نزدیک بہترین نثر کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ بُری شاعری کے تمام معائب سے محفوظ ہو اور اس میں اچھی یا اعلیٰ شاعری کے لطیف ترین محاسن موجود ہوں۔ مختارمسعود کی نثر ہر جگہ میرے اس مطالبے کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔ حسن تخیل، حسن تعبیر، نازک خیالی، نکتہ سنجی، معنی آفرینی، رمزو کنایہ اور نہایت لطیف طنز و مزاح وہ خوبیاں ہیں جو اعلیٰ درجے کی شاعری سے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں۔ لیکن آج مجھ سے مختار مسعود کی نثر کے نمایاں پہلوؤں کو بیان کرنے کی فرمائش کی جائے تو میں شاعری کی ان اصطلاحات سے کام لیے بغیر اس فرمائش کی تعمیل نہ کرسکوں گا ‘‘۔ (۳)

 تخیل کی بلند پروازی، علوم کی فکری اور فنی لوازمات سے آگاہی، نازک خیالی نکتہ سنجی اور معنی آفرینی سے واقفیت، پیرایۂ  اظہار اور زبان دانی کی سمجھ بوجھ وہ کارگر ہتھیار ہیں جن کا استعمال مختار مسعود کی تحریروں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی ثقافتی، لسانی اور تہذیبی میراث کو بروئے کار لا کر خوبصورت الفاظ، برجستہ اور مزین جملوں سے ایک الگ دلکش اسلوب اپنے نام کرانے میں بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

 مغربی ادیب اسٹنڈل کا خیال ہے کہ اسلوب ان تمام خیالات و واقعات سے تشکیل پاتا ہے جن سے ہو کر لکھنے والے کو گزر نا پڑتا ہے اور جواس کی شخصیت کی تعمیر و تکمیل میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح علی گڑھ کاجھولناہویاسول سروس کی عہدہ داری مختار مسعود نے علمی اور فکری دونوں حوالوں سے بہت کچھ اخذ کیا۔ علی گڑھ میں سیاسی، علمی اور ادبی مشاہیر نے ان کی تحریروں میں نکھار پیدا کیا۔اس کے علاوہ علی گڑھ کی تحریکی اورسول سروس کی تنظیمی تربیت نے ان کی تحریر پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ عام آدمی جن شخصیات سے صرف کتابوں کی حد تک اپنی علمی آبیاری کر پاتا ہے، مختار مسعود نے نہ صرف ان کو پڑھا بلکہ سنااور دیکھا بھی ہے۔ ان علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات کی قربت نے مختار مسعود کو الفاظ و معانی کے ا ن گنت خزینوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ یہی بات ان کی شخصیت اور اسلوب کی تعمیر و تشکیل میں اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ وہ اپنی شخصیت اور اسلوب کے براق پر قاری کوسوار کرا کے اپنے ہمراہ زمان و مکان کی سیر کو نکل جاتے ہیں اور ان پر تہذیب و ثقافت،تعمیر و تشکیل اور جہان معنی کے کئی در وا کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ اُن کو پڑھ لینے کے بعد ان کا قاری وہ نہیں قاری نہیں رہتا جو پہلے تھا، بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی اُمنگ، نئی فہم و آگہی محسوس کرتا ہے۔ اُس کا علمی معیار بلند ہو جاتا ہے اور ذہنی افق پر فہم و ادراک کے نئے زاویے جگمگا اُٹھتے ہیں۔ ہم نوائی اور ہم رکابی کے اسی پیمانے پر پورا اترنے والی تحریر کو مغربی ادیب لیوٹالسٹائی فن پارہ کہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

            ’’سچے فن کو جھوٹے فن سے الگ کرنے کے لیے یہ دیکھا جائے کہ آیا روح کے اندر اتر جانے والی اثر آفرینی (Infectiousness ) موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ایک شخص (بغیر کوشش کیے اور بغیر اپنا نقطۂ نظر بدلے) دوسرے شخص کے فن کو پڑھ کر سن کر یا دیکھ کر ایسی ذہنی کیفیت کا تجربہ کرتا ہے جواُسے دوسرے شخص (فنکار) سے متحد کر دیتا ہے اورساتھ ساتھ اُن دوسرے آدمیوں سے بھی، جو اسی سطح پر اس فن پارے سے متحد ہو گئے ہیں تو جو شے یہ کیفیت پیدا کرے وہ’ ’فن پارہ‘‘ کہلائے گی۔ ایک کارنامہ خواہ کتنا ہی شاعرانہ، واقعاتی، موثر یا دلچسپ ہو فن پارہ نہیں کہلایاجاسکتا۔ اگر وہ یہ احساسِ مسرت (دوسرے تمام احساسات سے قطعی ممتاز) پیدا نہ کرے اور مصنف سے روحانی لگاؤ پیدا نہ کرے اورساتھ ساتھ ان دوسروں سے بھی،جواس فن پارہ کی اثر آفرینی سے متاثر ہوئے ہیں ‘‘۔(۴)

            لیوٹا لسٹائی کے متعینہ معیار پر اگر مختار مسعود کی تحریر کو پرکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا فن اس پر پورا اترتا ہے۔ وہ اپنے پڑھنے والے کے ذہن و فکر پر بڑے موثر  انداز میں اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں اور پڑھنے والا بغیر کسی کاوش و محنت کے ان کا ہم خیال و ہم نوا بن جاتا ہے۔ واقعات کی بُنت تخیل کی جولانی،

فکری اُڑان اور بہترین طرز اظہار کے ریشمی غلاف میں لپٹی تحریر پڑھنے والا جب ایک بار گرہ گیر ہو جائے اس کی اثر آفرینی سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ وہ اپنے لفظوں کی تراش خراش، انتخاب و ترتیب،نشست وبرخاست اور کانٹ چھانٹ اپنے خیالات کی وضاحت کے لیے لب و لہجہ شگفتگی،شیفتگی اور تازگی، محاورات، تراکیب اور فقروں کی بندشوں پر گرفت، عبارت کی روانی اور مدو جزر سے قاری کو بے دست  و پا کر کے اپنی اثر آفرینی سے اپنی گرفت میں لے کر اپنا معتقد بنا لیتے ہیں۔ پروفیسر نظیر صدیقی کہتے ہیں :

’’مجھے اب تک کوئی با ذوق آدمی ایسا نہ ملا جو مختار مسعود کا صرف ایک مضمون دیکھ کر خواہ وہ مضمون کوئی بھی ہو ان سے متاثر اور ان کا معتقد نہ ہو گیا ہو‘‘۔ (۵)

 مختار مسعود نے پڑھنے والوں کو اپنا ہم خیال بنانے اور اپنی تحریروں میں حظ ِ آفرینی  کا عنصر ابھارنے کے لیے اسلوب کے جن محاسن کا استعمال کیاہے ان میں تشبیہات واستعارات ــــ،ضرب الامثال و محاورات، صنعت تجنیس، صنعت تضاد، قول محال، موازنہ،طنز، متوازیت، صنعت ِتلمیح، مرکبات کااستعمال، شگفتہ بیانی  وبذلہ سنجی،تکرار لفظی اور کفایت لفظی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان اوراس کے ادباء کے بارے میں تاثرات، عالمی مشاہیر کے اقوال، تاریخ اور روداد نویسی برمحل اشعار کا استعمال، بات سے بات نکالنا، وسعت مطالعہ اور فلیش بیک جیسی تکنیک شامل ہیں۔ ان کی تحریروں کا بہ نظر غائر مطالعہ یہ بات سامنے لاتا ہے کہ ان کی فکری اور فنی اُڑان دونوں بلندی پر ہیں۔ اچھوتے موضوعات کو ایک طرحدار اور بے مثل اسلوب میں پیش کرنا کم کم ادیبوں کو نصیب ہوا ہے۔ وہ اپنی فکری اور قلبی خواہشات کو قلمی خواہشات بنا کر جب قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو ان کی تحریر میں جولانی اور شہ گامی کا اظہار جھلکتا ہے۔ اور یہی بات ان کے صریر خامہ کو نوائے سروش بناتی ہے، یوں کہ ان کی تحریر پر نثر اور شاعری دونوں کا گماں ہوتا ہے۔ پروفیسر نظیر صدیقی لکھتے ہیں :

’ ’ادب میں شاعری کو تاثیر و توانائی کے اعتبار سے نثر سے برتر مانا گیا ہے۔ لیکن ادب کی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں  جن میں بعض نثر نگار تاثیر و توانائی اور دلکشی و دلبری میں شاعروں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض نثرنگاروں کی نثر شاعری کی بلند ترین لطافتوں کو نہ صرف چھو لیتی ہے بلکہ لطف و لذت کے اعتبار سے بہت سے شاعروں کی شاعری کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ مختار مسعود بھی ان معدودے چند نثر نگاروں میں سے ہیں جن کی نثر کو بہت سے مشہور و ممتاز شاعروں کی شاعری پر ترجیح دی جاسکتی ہے‘‘۔ (۶)

مختار مسعود کے تحریروں کی انفرادیت میں جہاں بہت سے دوسرے عناصر و عوامل کارفرما ہیں وہاں ایک فلیش بیک ہے۔وہ اپنی تحریروں میں اچانک الٹے پاؤں ماضی کی طرف گامزن ہو جا تے ہیں اور گزرے واقعات کو حال کے لمحوں سے مربوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں،یوں ایک پُراثر تحریر وجود میں آ جاتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں فلیش بیک کو یوں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

Flashback is an interjection scene that takes the narrative back in time from the curre point the story has reached. Flashback are often used to recount events that happened before the story’s primary sequence of events or to fill in crucial back story. In the opposite direction, a flash forward (or prolepsis) reveals events that will occur in the future. The method is used to create suspense in a story, develop a character or structuring the narration. In literature, internal analysis is a flashback to an earlier point in the narrative; external analysis is a flashback to before the narrative started.(Encyclopaedia Britannica)

 یعنی فلیش بیک تکنیک کے ذریعے مصنف اپنے کرداروں کو مضبوط،کہانی کو پختہ اورتجسّس کو قاری پر حاوی کرتا ہے۔ اور یوں ایک پُر اثر تحریر وجود میں آ جاتی ہے۔حال کو ماضی سے منسلک کرنے کا ایک انداز مشتاق احمدیوسفی کے ہاں بھی موجود ہے جس میں ان کے کردار ماضی سے محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کو عرف عام میں ناسٹلجیا کہتے ہیں لیکن مختار مسعود کے ہاں یہ خوبی ء تحریر ناسٹلجک کی بجائے فلیش بیک کی شکل میں ملتی ہے۔ ان کے ہاں مینار پاکستان کے تعمیر کے وقت تحریک پاکستان اور علی گڑھ تحریک کی طرف بار بار مُڑ کر دیکھنے کااحساس ملتا ہے۔ اس طرح جب ہوائی جہاز میں سوات کے اوپر محو پرواز ہوتے ہیں تو وادیِ سوات میں گزرے ہوئے لمحات اور شریک حیات کے ساتھ باہمی زندگی کا باقاعدہ آغاز یاد آتا ہے۔ پھر میادم میں گل خان کے گانے اور سری لنکا میں موجود آدم پہاڑ وہاں کی جنگلوں اور خوشبوؤں کی یادوں سے لطف اُٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ہوائی سفاری کے جہاز کے ایک دریچہ سے لگا مسافر نیچے ایک وادی کی جھلک دیکھ کر اس ہم زاد کو یاد کرنے لگا جو مہکتی سانسوں کی تلاش میں کبھی سوات کی وادی میں جا نکلتا ہے کبھی آدم پہاڑ کی چوٹی، یادوں کا جال پھیلا ہے۔ ایک حلقہ دوسرے حلقہ میں پیوست ہے جیسے جال اُلجھ گیا ہو‘‘۔ (۸)

            اسی طرح لواری غار کا ذکر آتے ہی وہ اپنی تخیل کے براق پر قاری کو ساتھ بٹھا کر ماضی کی جانب سفر شروع کر دیتے ہیں اور اجنتا، ایلورہ، خوشاب اور بیروت کے غاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یا علی گڑھ کے طالب علموں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ذہن میں بڑی عمر کے طالب علم فضل الرحمن سے ڈاکٹر فضل رحمن تک کی پوری داستان تازہ ہو جاتی ہے۔فلیش بیک کی چند مثالیں ان کی تحریروں سے دیکھتے ہیں :

’’آج پھر مجلس تعمیر کی نشست تھی۔ میں نے پوچھا اس مینار کی بنیادیں کتنی گہری ہیں۔ اور ان میں کون سامسالا لگایا گیا ہے۔ جواب ملا کہ ماہرین کے تجزیے اور تحقیق کے مطابق بنیادیں بہت گہری کھودی گئی ہیں اور ان کی پائیداری کے لیے اعلیٰ درجے کا ریختہ استعمال کیا ہے۔ میں نے دل میں سوال دُہرایا، یہ تو پہیلی تھی جس میں بنیادوں کی گہرائی سے مراد محض یادوں کی گیرائی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کیں، میرے سامنے سنگِ بنیاد نصب کرنے کا منظر تھا۔ ایک سپیشل ٹرین پٹیالہ سے چلی اور صبح ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر کھڑی ہو گئی۔ وائسرائے گاڑی سے نیچے اُترے تومسٹر پولاک نے جو کمشنر تھے۔ ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد دو انگریز آگے بڑھے، ایک ڈسٹرکٹ جج تھا اوردوسرا کلکٹر۔ پاس ہی ایک ہندوستانی بھی کھڑا تھا، بھاری بھرکم اور طویل قامت، اس کی پیشانی ترکی ٹوپی میں اور چہرہ گھنی داڑھی میں چھپا ہوا تھا، اس نے بھی ہاتھ ملایا اور وائسرائے کو اپنے گھر لے گیا۔ دوپہر کو سنگِ بنیاد کی تنصیب کی تقریب تھی۔ ایک وسیع میدان میں پنڈال سجاہواتھا، معزز مہمانوں کا ہجوم تھا، ایک طرف کچھ فاصلے پر بہت سے ہاتھی کھڑے تھے جن پر سوار ہو کر مہمان اس تقریب میں شریک ہونے آئے تھے۔ میزبان کو مصروف دیکھ کر خیال آتا تھا کہ واقعی ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔ تقریب تقریروں سے شروع ہوئی اور جب تقریریں ہو چکیں تو مہمان خصوصی اٹھ کر شامیانے کے اس سرے پر گئے جہاں بنیاد رکھنی تھی۔ پہلے کچھ کاغذات اور سکے دفن کئے گیے پھر ایک پتھر نصب ہوا۔ اس پتھر پر تین ضرب لگا کر لارڈ لِٹن نے کہا، میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھر درست اور موزوں طرح سے نصب ہو گیا ہے۔ یہ اعلان جنوری ۱۸۷۷ء کو علی گڑھ میں کیا گیا تھا۔ یہ درست اور موزوں طور سے نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا مگر جس روز یہ نصب ہوا گویا اس روز مینار پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ (۹)

            بادشاہی مسجد آ کر یو گو سلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو جس طرح ورطۂ حیرت اور سوچ میں گم ہو جاتے ہیں اسی طرح مختار مسعود بھی جب یو گو سلاویہ گئے تھے اور وہاں کی ایک تاریخی مسجد کے قریب بچوں کے اسلامی نام سنے تو حیرت میں گم ہو گئے فلش بیک تکنیک کا ایک خوبصورت انداز یہاں ملاحظہ ہوں :

’’ــ جب انہیں پتہ چلا کہ یہ عمارت ساڑھے تین سو سال پرانی ہے اور اب بھی عیدین پر بھر جاتی ہے تو وہ سو چ میں ڈوب گئے۔کچھ سوچ مجھے بھی آئی میں نے یو گو سلاویہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ۹۷۰ھ کی بنی ہو ئی ایک مسجد دیکھی تھی۔یہ مسجد اب صرف دیکھنے کے کام آتی ہے۔ اس قصبے کا نام پو چی طے ہے۔مگر مجھے اس نام کے ساتھ کچھ نام یاد آ رہے ہیں۔ اس مسجد کے پاس مجھے تین بچے ملے تھے۔ میں نے اشارے سے ان کا نام پوچھا جو اب ملا کمال،قدیرہ اور مائدہ۔ مجھے حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ یوگوسلاویہ کے ایک دورافتادہ دیہاتی علاقے میں ایک مقفل مسجد کے زیر سا یہ رہنے والے اب بھی اپنے بچوں کے نا م قرآن مجید کی پانچویں سورت پر رکھتے ہیں۔ میں نے پوچی طے کی مسجد میں اپنی مسرت اور مسجد لاہور میں صد ر یو گو سلاویہ کی حیرت کی مشترکہ یادگار کے طور پر مارشل ٹیٹو کے دستخط حا صل کر لیے‘‘۔(۱۰)

’ ’وادی میں سٹرک کے کنارے اکا دکا گھر نظر آنے لگے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ بستی آنے والی ہے۔اتنے میں مسافر کو کھیتوں  میں تنہا کھڑی ایک چٹان نظر آئی۔ چاروں طرف ہر ے اور پیلے کھیت،پیچ میں سہ منزلہ مکان جتنی بلند اور سیدھی چٹا ن جو پہاڑوں سے کٹ کر یوں کھڑی تھی جیسے گلہ سے گم ہو جانے والی بھیڑ۔اس چٹا ن کے نیچے ایک جھونپڑی تھی تین دیواریں سر کنڈوں کی اور چوتھی یہ چٹان مسافر کو یہاں سے بہت دور واقع وہ گھر یا د آیا جو ایک آئی سی ایس زمیندار نے اپنی نئی بیگم کے لیے بنایا تھا۔گھر کا ہر کمرہ علیحدہ طبقہ پر واقع ہے۔

کہیں دوسیڑھیاں اوپر چڑھتی ہیں تو کہیں چا ر نیچے اُترتی ہیں۔کہیں محض ڈھلو ان ہی سے دو طبقوں کو ملانے کا کام لیا ہے ڈرائنگ روم میں پو ری چٹا ن شامل ہے روشندان اس چٹا ن کے اوپر ہیں اور آتش دان اس چٹان کے نیچے مسافر نے وادی گو پس کے ایک غریب خانہ میں بھی چٹان کو اسی انداز سے شامل پایا تو اسے اس عجیب و غریب اتفاق پر حیرت ہوئی‘‘۔ (۱۱)

 مینا ر پاکستان کی مجلس تعمیر کی نشست میں ریختہ کے طور پر علی گڑھ کالج کے سنگ بنیا د کا منظر ہو یا مار شل ٹیٹو کی بادشاہی مسجد میں حیرانی پر یو گو سلاویہ کے قصبے پوچی طے میں پرا نی مسجد کے قریب کمال قدیرہ اور مائدہ ناموں والے بچوں سے ملاقات کی یاد اسی طرح گوپس کی جھونپڑی اور آئی سی ایس کے ایک زمیندار کے گھر میں چٹا ن کی مشابہت، مختار مسعودنے ہرایسے مقام پر فلیش بیک کی تیکنیک بہترین انداز میں برتی ہے۔ مختار مسعود نے اس سے تکنیک سے اپنے اسلوب میں جوحسن اور دلکشی پید ا کرنے کی کو شش کی ہے اس میں وہ بڑ ی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

(حواشی)

۱۔(’’آوازدوست کی چند لہریں ‘‘مشمولہ تنقیدی مقالات،شعبۂ اردو،پشاوریونیورسٹی،۱۹۹۶ء،ص۱۰۷)

۲۔(مغربی تنقید کا مطالعہ،افلاطون سے ا یلیٹ تک،عاشق پرنٹنگ پرس،ص۱۰۹)

۳۔(تنقیدی مقالات،شعبۂ اردو،پشاوریونیورسٹی،۱۹۹۶ء،ص۸۹)

۴۔(ارسطوسے ایلیٹ تک،نشنل بک فاؤنڈیشن،۱۹۷۶ء،ص۳۷۷)

۵۔(تنقیدی مقالات،شعبۂ اردو،پشاوریونیورسٹی،۱۹۹۶ء،ص۷۴)

۶۔(تنقیدی مقالات،شعبۂ اردو،پشاوریونیورسٹی،۱۹۹۶ ء،ص۸۷۔۸۸)

۷۔ (Encyclopaedia Britannica)

 ۸۔(سفرنصیب۔فیروز سنز لاہور،۲۰۰۷ء،ص۳۶)

۹۔(آوازدوست۔النور پبلشر لاہور،۲۰۰۷ء،ص۲۴۔۲۳)

۱۰۔(آوازدوست۔النور پبلشر لاہور،۲۰۰۷ء،ص۶۔۱۶۵)

۱۱۔(سفر نصیب،فیروز سنز لاہور،۲۰۰۷ء،ص ۶۶ )

٭٭٭

 

رسم الخط کی تاریخ اور ہندکو زبان کا رسم الخط

               عامر سہیل (ایبٹ آباد)

 دنیا میں رسم الخط کا آغاز و ارتقا کب اور کیسے ہوا یہ موضوع خاصا دقیق اور اُلجھا ہوا ہے،اس ضمن میں ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ اور ماہرین ِ لسانیات نے اپنی اپنی تحقیقات کی روشنی میں متنوع نظریات پیش کیے ہیں۔تاریخی معلومات کے مطابق ماضی کی بیشتر تہذیبوں میں جہاں زبان کو دیوتاؤں کا عطیہ تسلیم کیا گیا وہاں رسم الخط کو بھی انہی اصنام کی دین مانا گیا ہے،مشرق و مغرب میں تاریخ کے یہ زاویے مشترک خصوصیات رکھتے ہیں۔تمام اساطیری روایات میں یہی بات دہرائی گئی ہے کہ دیوی دیوتا نے انسانوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔مصری اساطیر کے مطابق ”Thoth” وہ اہم دیوتا ہے جس نے اہل ِ مصر کو ہیرو غلافی رسم الخط سکھایا۔ہندوستان میں رسم الخط کی ایجاد کا سہرا برہما کی دھرم پتنی سرسوتی کے سر جاتا ہے، اسی طرح بابلی روایت میں ”EA” نامی دیوتا سے فن ِ تحریر منسوب چلا آرہا ہے۔

 رسم الخط کے ابتدائی نمونے پتھروں،مٹی کے برتنوں اور لکڑی کی تختیوں پر محفوظ ہیں۔تہذیبی تاریخ کے ماہرین اور محققین کا خیال ہے کہ اِن نمونوں میں مصری،سمیری،فینیقی،کھروشٹی اور براہمی رسم الخط کی باقیات موجود ہیں۔اگر ان دستیاب خطوں کی عمر کا تعین کیا جائے تو ایک محتاط اندازے کی مطابق ہمیں ۳۰۰۰قبل مسیح کا زمانہ ذہن میں تازہ کرنا ہو گا۔جدید تحقیق نے کنعان (مصر) اور ایلم( جنوبی ایران اور خلیج فارس کا اوپری علاقہ) کو فنِ تحریر کا ابتدائی مرکز قرار دیا ہے۔ اگر رسم الخط کے تدریجی ارتقا کو دیکھا جائے تو اس کے چار واضح مراحل نظر آتے ہیں :

(۱) تصویری ) (Pictorial

(۲) رمزیہ یا علامتی (Logo-geam)

 (۳) منزل رکنی (Syllabic)

(۴) ہجائی (Alphabetic)

 تصویری رسم الخط علامتوں کی دنیا سے ہوتا ہوا بالآخر حروف میں متشکل ہوا اب ساری دنیا میں اسی کا رواج ہے۔رسم الخط کے باقاعدہ معیاری نمونے مصری تہذیب میں نظر آتے ہیں جہاں اس کی تین صورتیں یا اسالیب مروج رہے:

(۱) ہیرو غلیفی یا خط ِ تمثال (۳۰۰۰ق م تاتیسری صدی عیسوی)

(۲) ہیر ا طیقی یا ہیرا تِک (خاص طبقے کا رسم الخط)

(۳) دیمو طیقی (عوامی رسم الخط)

 رسم الخط کے ابتدائی نمونے جانوروں،پرندوں اور درختوں کی تصویروں کی صورت میں ملتے ہیں یہ تصویریں عموماً پہاڑوں،چٹانوں یا غاروں میں بنائی گئی تھیں۔سمندری سیپیوں پر بھی اسی قسم کے نقوش بنانے کا عام رواج تھا۔یہی تصویری عمل رفتہ رفتہ رسم الخط میں ڈھلتا گیا۔ دنیا کے قدیم ترین رسم الخط مصری، سمیری اور چینی تہذیبوں سے یادگار ہیں۔ بعد میں آنے والی کئی زبانوں کے رسم الخطوط انہی تین سوتوں سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ قدیم رسم الخط کے دیگر نمونوں میں فینیقی اور آرامی،عبرانی،تدمری،سریانی اور بھی شامل ہیں۔زمانۂ قدیم کے یہی رسم الخط آگے چل کر مختلف تہذیبوں اور اقوام میں اپنی ارتقائی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے۔دورِ جدید میں رسم الخط پر بات کرنا آسان نہیں رہا،بقول ڈاکٹر سلیم اختر:

’ ’ رسم الخط کا مطالعہ اب اتنا وسیع ہے کہ یہ محض لسانیات تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں اساطیر،قدیم تاریخ، علم الانسان اور تہذیب و ثقافت اساسی ماخذ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔اس حد تک کہ کسی بھی رسم الخط کو آغاز اور تشکیل کا  مطالعہ ان کے تناظر کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘ (اُردو زبان کیا ہے؟ سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور، طبع۲۰۰۳،ص۲۲۸)

 اگرہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں رسم الخط کے قدیم نمونے وہی ملتے ہیں جو موہن جو داڑو اور ہڑپا کی کھدائی کے بعد دستیاب ہوئے،ان نمونوں کو دیکھ کر ماہرین کو خاصی حیرت ہوئی کیوں کہ ان نمونوں کی مماثلت ہندوستان کی کسی رائج زبان کے ساتھ ظاہر نہیں ہو رہی تھی حتّیٰ کہ براہمی،کھروشتی (یا خروشتی) اور دراوڑی کے ساتھ بھی اِن کا کوئی رشتہ تلاش کرنا قریب قریب محال ہے۔یہ سوال یقیناً تحقیق طلب ہے کہ پھر اِن کا رشتہ کس کے ساتھ جوڑا جائے اور کیسے جوڑا جائے؟اس گھمبیر موضوع پر مولانا ابوالجلال ندوی کی تحقیقات راستہ دکھاتی ہیں مگر تفصیلی گفتگو علیحدہ مقالے کی متقاضی ہے۔

 ہندکو کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے اورسنسکرت زبان میں ہندکو الفاظ کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ زمانہء قدیم میں اِن کے آپسی رشتے خاصے مضبوط رہے ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں ہندکو چھٹے نمبر پر آتی ہے،لیکن مقام ِ حیرت دیکھیے کہ ہندکو رسم الخط پر تا حال کوئی قابلِ قدر تحقیقی کام سامنے نہیں آیا یہ الگ بات ہے کہ بعض نادان دوستوں نے اس زبان کے بارے میں عجیب عجیب قیاس آرائیوں کو عام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہاں تک بھی سننے میں آیا کہ ہند کو زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کہ ہندکو زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہو گا کہ ہندکو زبان و ادب کا موجود سرمایہ آخر کس رسم الخط میں لکھا گیا ہے ؟ معقول جواب یہی ہے کہ ہندکو زبان جس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے اسے ہر حوالے سے ہندکو رسم الخط ہی کہا جائے گا،اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے! البتہ ہندکو زبان کے موجودہ رسم الخط پر یہ اہم سوال اٹھایا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے کہ آیا یہ رسم الخط ہمیشہ ہندکو زبان کے ساتھ مخصوص رہا ہے یا نہیں ؟اگراس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب مل جائے تو کسی حد تک مسئلے کی گرہ کشائی ہو سکتی ہے۔بظاہر اس سادہ سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے محقق کو ہر قسم کے عقلی،نقلی اور قیاسی نظریات کے پُل صراط سے گزرنا ہو گا۔

اسی سے متصل دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہندکو زبان اُتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ سنسکرت یا دیگر آریائی زبانیں تو پھر اس کا تحریری سرمایہ اُن کے مقابلے میں اتنا قلیل کیوں ہے؟صرف سنسکرت زبان ہی کو دیکھا جائے تو وہاں مختلف علوم و فنون اور مذہبی تصانیف کا کثیر،وسیع اور وقیع سرمایہ موجود ہے جسے مشرق و مغرب کے حکما بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوراس علمی سرمائے پر دنیا کے عظیم اذہان دادِ تحقیق دے چکے ہیں او ریہ سلسلہ نجانے کب تک یونہی چلتا جاری رہے گا!

 اس کے بر عکس ہندکو زبان و ادب کا علمی سرمایہ خاصا کم ہے۔اس کمی یا قلت کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ فوری طور پر ذہن میں آنے والا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ سنسکرت کو روزِ اول ہی سے مذہبی زبان کا درجہ حاصل رہا کیونکہ ہندو دھرم کے تمام مقدس صحائف ( اتھروید،یجر وید،سام وید،رِگ وید) اسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔مذہبی تقدس کے اسی جذبے نے سنسکرت کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے،گو کہ جدید عہد میں اسے مردہ زبان (Dead Language) کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کا علمی سرمایہ زندگی سے بھرپور ہے۔ہندکو زبان کی پشت پر ایسا کوئی مقدس جذبہ کار فرما نہیں رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندکو ہر دور میں محض’ ’ بطور رابطہ زبان ‘‘ مستعمل رہی ہے۔

اگر یہ قیاسی نظریہ پیش کیا جائے کہ ہندکو زبان کا رسم الخط تاریخ کے مختلف ادوار میں بدلتا رہا ہے تو کیا ہو گا ؟ یا اگر کہا جائے کہ ہندکو زبان ایک ہی دور میں ایک سے زائد رسم الخطوط میں لکھی جاتی رہی ہے تو محققین کا کیا ردِ عمل سامنے آئے گا؟پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ زیرِ نظر تحریر میں’ ’قیاس ‘‘کا لفظ ”Guess” کے معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ” "Syllogism کے معنی میں برتا ہے۔

( اس اصطلاح کی اپنی منطقی حدود ہیں اور اس کی بنیاد پس منظری حقائق پر اُستوار ہوتی ہے)۔ اپنے پیش کردہ قیاس کی مزید وضاحت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت اُردو عالمی زبانوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اور عالمی سطح پر اس کے دو رسم الخط رائج ہیں ـ:

(۱) عربی فارسی رسم الخط (۲) دیو ناگری رسم الخط۔

پنجابی زبان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ پاکستان میں اُس کے لیے وہی رسم الخط مستعمل ہے جس میں اُردو لکھی جا رہی ہے (یعنی نستعلیق میں ) جبکہ بھارت میں یہی پنجابی گورمُکھی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے،یعنی ایک زبان ایک ہی عہد میں دو بالکل مختلف رسم الخطوں میں لکھی،پڑھی اور سمجھی جا رہی ہے اور اس ضمن میں نہ تو کوئی الجھن پیدا ہو رہی ہے اور نہ پریشانی،ہندکو رسم الخط بھی ایسے مسائل اور تغیّرات کا شکار رہا ہے۔کیا ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ہندکو کا علمی ادبی ذخیرہ مختلف رسم الخطوں میں اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہو؟دنیا میں کئی ایسے رسم الخط دریافت ہو چکے ہیں جن کی پڑھت کا مسئلہ ہنوز حل نہیں ہوا۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں یہی ہندکو لکھنے کے لیے کھروشٹی یا خروشتی رسم الخط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کا ایک نمونہ ہندکو زبان کی پہلی باضابطہ لغت’ ’ ہندکو اُردو لغت ‘‘ (مرتبہ سلطان سکون، ناشر گندھارا ہندکو بورڈ پاکستان، پشاور، طبع ۲۰۰۲ئ) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

 خروشتی رسم الخط کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین خطوں میں ہوتا ہے،اور اس کا چلن جنوبی ایشیا کے اُس علاقے سے جا بنتا ہے جسے موجودہ عہد میں افغا نستان اور پاکستان کہا جاتا ہے۔اس کا زمانہ تیسری صدی قبل از مسیح کا ہے۔خروشتی رسم الخط کی اصل ہندوی ہے،گندھارا تہذیب میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا گندھاری زبان لکھنے کے لیے بھی یہی رسم الخط استعمال ہوتا رہا ہے۔ہندکو کی طرح گندھاری کا تعلق بھی پراکرت اور سنسکرت سے جا ملتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس کا زمانہ تیسری صدی قبل از مسیح کا ہے،پھر یہ زبان رفتہ رفتہ اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں دم توڑ گئی تھی۔اس اہم موضوع پر جیمز پرنسپ (James Prinsep) نے نئی تحقیقات بہم پہنچائی ہیں جن کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ در حقیقت یہ رسم الخط بھی براہمی رسم الخط کا ہم عصر ہے۔ براہمی اور خروشتی دونوں عوامی زبانیں تھیں جبکہ ان کی تیسری  معاصر زبان سنسکرت ایک محدود دائرے میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ خروشتی رسم الخط دو انداز سے لکھا جاتا رہا:دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں مگر زیادہ تر اس کا رواج دائیں سے بائیں تھا۔پروفیسر خاطر غزنوی اس ضمن میں اپنی گراں قدر تصنیف’ ’ اُردو زبان کا ماخذ ہند کو ‘‘ میں کہتے ہیں :

’ ’ ٹیکسلا اور اس کے مضافات میں آج بھی ہندکو یا چھاچھی ہندکو زبان بولی جاتی ہے، یہ ایک واضح امر ہے کہ یہ زبان جو آج یہاں کے چپے چپے پر پھیلی عوام کی بولی ہے صدیوں سے بولی جاتی ہے اور مختلف النسل حکمرانوں کی حکومتوں کے اثرات کے باوجود برقرار ہے۔یہاں سے جو کتبے برآمد ہوئے ہیں اُن میں خروشتی زبان و رسم الخط نمایاں ہے۔ ان خروشتی کتبوں میں ہندکو زبان پکار پکار کر اپنی قدامت کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔‘‘ (ص ۱۲۸)

ان کتبوں کی تاریخی اہمیت اور متن خوانی کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار کا مقالہ نئی راہیں دکھاتا ہے، اس کا نام Evidence from Texila” "Epigraphicalہے۔یا پھر ڈاکٹر احمد حسن دانی کی تصنیف "Peshawar” راست سمت میں مسئلہ حاضرہ پر روشنی ڈالتی ہے۔ خروشتی رسم الخط میں دستیاب ہندکو زبان کے کتبے اس بات کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ اپنے دور کی مقبول ترین زبان رہی ہے،کیونکہ کتبے صرف اُسی زبان میں لکھے جاتے ہیں جو وسیع حلقے میں سمجھی جاتی ہو۔ایسے تمام شواہد کی روشنی میں یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہندکو زبان کا خاصا بڑا تحریری ذخیرہ اسی رسم الخط میں تصنیف ہوا جو یا تو دست برد ِ زمانہ کی نذر ہو چکا ہے یا پھر نظروں سے اوجھل ہے اور کسی وقت کوئی فرہاد اُسے کھوج نکالے گا۔

زبانوں کے ارتقائی مدارج کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ بسااوقات کوئی زبان تاریخی جبر کے تحت اپنا رسم الخط تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، ہندکو زبان بھی اسی اصول کی زد میں رہی ہے۔یہاں ایک بنیادی بات ہمارے ذہن میں تازہ رہنی چاہیے کہ ہندکو اصلاً ہند آریائی زبان ہے اور یہ صدیوں کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچی ہے اور اس کے حصے میں وہی رسم الخط آیا جو اسی خاندان کی دوسری زبان اُردو کو نصیب ہو چکا ہے۔اب ہندکو کا اصلی رسم الخط وہی ہے جس میں آج کل اسے لکھا جا رہا ہے۔

ہندکو رسم الخط کے بارے میں یہ کہنا کہ زید کا رسم الخط اپنا ہے اور بکر کا اپنا،محض لاعلمی پر منحصر ہے۔زید اور بکر کے رسم الخط میں جو واضح فرق ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ املائی تغیرات ہیں اس کا رسم الخط کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں بنتا۔ہمارے ہاں املا کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو رسم الخط کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا ہے،اس اُلجھن کا سبب صرف اتنا ہے کہ ہندکو زبان کی طرف محققین کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک اس کے املا کی اصول سازی نہیں ہو سکی۔جس دن ہندکو املا کی اصول سازی ہو گئی تمام مسائل خود بخود رفع ہو جائیں گے۔ یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام تغیرات دھُل دھلا  کر کوئی حتمی صورت نکال لیں گے،اور یہ کوئی اَنہونی بات نہیں ہے ایسا ہر زبان کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔

عہد ِ حاضر کی ایک روشن مثال دیکھے کہ ایرانی حکومت نے فارسی املا میں معیار اور یکسانیت قائم کرنے کے لیے ایسے ادارے بنائے جو عرصہء دراز سے املائی تبدیلیوں کو بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے میں مصروف ہیں۔ آج جدید فارسی میں نون غُنّہ (ں ) اور بڑی یے (ے) کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے،اسی نوع کی کچھ اور تبدیلیوں نے کلاسیکی فارسی میں ایسے ایسے نئے رنگ بھرے کہ آج اگر جامیؔ ،حافظؔ ،رومیؔ اور بیدلؔ دنیا میں واپس آ جائیں تو وہ بھی جدید فارسی میں اپنا ہی لکھا ہوا کلام شاید نہ پڑھ سکیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ املائی تغیرات کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ بعض اوقات زبان نئے روپ میں سامنے آ جاتی ہے اور عام لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید رسم الخط بدل گیا ہے جبکہ یہ سارے کھیل تماشے صرف املا دکھاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی فردِ واحد حتّٰی کہ بڑے سے بڑا ادارہ بھی رسم الخط نہیں بدل سکتا اور نہ اُس میں اصلاح کر سکتا ہے،البتہ اس میں تغیر کا امکان ضرور ہوتا ہے لیکن یہ تغیر نافذ نہیں کیا جا تا بلکہ رونما ہوتا ہے۔رسم الخط یا تو رہتا ہے یا نہیں رہتا اس کی درمیانی صورت کوئی نہیں بنتی۔ہندکو زبان کا رسم الخط اب حتمی طور پر وضع ہو چکا ہے جو اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا،جس طرح اُردو میں تغیر آتا رہتا ہے بالکل ایسے ہی ہندکو رسم الخط ارتقائی عمل سے گزرتا رہے گا۔

 رسم الخط کی کہانی بھی عجیب ہے۔آخر اس بات کا فیصلہ کس نے کیا تھا کہ ہندکو زبان لکھنے کے لیے اُردو کا رائج رسم الخط استعمال کیا جائے؟ میرے خیال میں اس کا جواب اتنا آسان نہیں کیونکہ کس زبان نے کون سا رسم الخط کب اور کہاں استعمال کرنا ہے اس کا فیصلہ تاریخ خود کرتی ہے۔دنیا کا ہر رسم الخط ارتقائی اُصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ہندکو اس کلیّے سے آزاد نہیں ہے۔ہندکو نے جو رسم الخط اپنے  لیے پسند کیا ہے وہ اس زبان کی تمام ضروریات کے لیے کافی و شافی ہے۔اُردو میں وہ تمام آوازیں اور حروف موجود ہیں جو ہندکو کے لیے لازمی ہیں۔اُردو رسم الخط کی وسعت کا یہ عالم ہے پاکستان کی بیشتر علاقائی زبانیں (معمولی رد و بدل کے ساتھ)اسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں کیونکہ اُردو ان تمام زبانوں کی کفایت بآسانی کر سکتی ہے۔ ہم جتنی سہولت کے ساتھ اُردو زبان نستعلیق میں لکھ رہے ہیں اسی سہولت کے ساتھ ہندکو زبان کے لیے نستعلیق کا استعمال عام ہے۔اس تحریری روش کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ ہندکو زبان کمپیوٹر پر بھی لکھی جا رہی ہے،گویا وہ زبان جس کا عرصہ قبل از مسیح کا ہے وہ عہد ِ جدید میں بھی اپنا وجود پوری آب و تاب سے قائم رکھے ہوئے ہے۔اس وقت دنیا میں کئی ایسی زبانیں بھی ہیں (پاکستان میں بھی اسی زبانیں ہو سکتی ہیں )جو صرف بولی جا رہی ہیں اور اُن کا رسم الخط موجود نہیں لیکن ہماری ہندکو اس زمرے میں شامل نہیں ہے۔اب تازہ شعور کی بدولت ایسی تمام زبانوں کے لیے رسم الخط تلاش کیے جا رہے ہیں۔

مقتدرہ قومی زبان نے ہائیہ آوازوں مثلاً جھ،دھ،کھ،نھ،لھ وغیرہ کو بھی باقاعدہ حروف ِ تہجی میں شامل کر کے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد باون (۵۲) تک پہنچا دی ہے۔ان اصوات کی مدد سے ہندکو زبان کے تمام علاقائی لہجے استفادہ کر سکتے ہیں۔ خواہ اُس کا تعلق مانسہرہ،ایبٹ آباد، بالاکوٹ،ہری پور، تربیلہ،پشاور،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان،غرض کسی بھی خطے سے ہو۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ہندکو زبان کا اب اپنا ایک مستقل رسم الخط ہے جو جدید اور قدیم ہندکو میں مضبوط پُل کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

٭٭٭

 

منٹو کے افسانوں میں جنس کی جمالیات

               ڈاکٹر شیخ عقیل احمد(غازی آباد)

(ترجمہ: اے گوتم! یوشا(عورت) ہی آگ ہے، یعنی یہ شعلہ بار ہے۔اس کے شرم گاہ ( بذر،شفرِ صغیر اورشفرِ کبیر) کشش کا مرکز ہے۔مباشرت سے دھنوا پیدا ہوتا ہے۔شرم گاہ شعلہ ہے۔دورانِ مباشرت جو مادۂ منویہ اندر کی طرف داخل ہوتے ہیں وہ انگارے ہیں اور اس عمل کے دوران جوجنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے وہ’ پرم آنند ہے۔عورت کے شرم گاہ(ہَوَن کُنڈ)میں روحانی بزگ مادۂ منویہ کا’ ہَوَن‘ کرتے ہیں (’آہوتی‘ یا’ قربانی‘ دیتے ہیں )جس سے حمل وجود میں آتا ہے۔)

 منتر کے پہلے حصّے میں عورت کو آگ سے، اس کے شرم گاہ کو آتش کدہ سے، مادہ ٔ منویہ کو انگاروں سے اور مباشرت کے عمل کے دوران حاصل ہونے والی جنسی آسودگی کو’ پرم آنند سے تعبیر کیا گیا ہے۔دوسرے منتر میں شرم گاہ کو’’ ہَوَن کُنڈ‘‘ اوراس میں جو مادۂ منویہ جاتے ہیں اسے’ آہوتی ‘دینے سے تعبیر کر کے جنسی عمل کو مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے جو ایک تخلیقی و تعمیری عمل ہے جس کے بغیر دنیا کا وجود ممکن نہیں ہے۔یعنی تخلیقیت اور جنسی لذتیت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان دونوں کا سرچشمہ جنسی عمل ہے۔ شاید اسی لیے’ لینڈوروم‘ نے کہا ہے کہ’ ’تخلیقی عمل کے بعد ایساہی جنسی اور جسمانی ردّ عمل ہوتا ہے،جیسا کہ مباشرت کے بعدیااس کے برعکس یاشایدجنسی جذبے کے ذریعہ مظہر ہوتا ہے،جس کی تکمیل ضروری ہے۔دونوں ردّ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنس،فنکار کے تخلیقی عمل میں شامل ہے۔‘‘ فرائڈ نے بھی لا شعور کے عمل اور Wishfulfilment theory میں واضح کیا ہے کہ’ ’ہرقسم کا آرٹ اورہرقسم کا ادب حقیقتاً جنس کا رہینِ منت ہے۔‘‘

منٹوجنسی عمل کے فلسفیانہ حقیقت اوراس کے جمال  و جلال سے واقف تھے اسی لیے انہوں نے اپنے افسانوں میں جنس کو موضوع بنایا اورسیکس کی اصل روح کو پیش کیا لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اور لطافت کوسمجھے بغیر ان پر فحش نگاری کا الزام عاید کر دیا۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمے بھی چلائے گئے اور انہیں صفائی دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا:

’ ’عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں ہے۔ان کا ذکر بھی فحش نہیں۔لیکن جب اس رشتے کوچوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا،مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔‘‘

جنس کے متعلق منٹو کے بیانات کی تقویت D.H. Lawrence کے اس خیال سے بھی ہو جاتی ہے:

’’جنس اور حسن ایک ہی چیز ہے۔شعلہ اور آگ کی طرح۔اگر تم جنس سے نفرت کرتے ہو تو تم حسن سے بھی نفرت کرتے ہو۔اگر تم زندہ حسن سے پیار کرسکتے ہواورجنس سے نفرت، لیکن حسن سے پیار کرنے کے لیے جنس کا احترام لازمی ہے۔جنس اور حسن ناقابلِ تقسیم ہیں۔جیسے زندگی اور شعور جو ذہانت جنس اورحسن سے وابستہ ہے اور جنس اور حسن سے جنم لیتی ہے وہی وجدان ہے۔ ‘‘

یونانی دیومالا کے مطابق کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں ایسے لوگ ہوتے تھے جو نصف عورت اور نصف مرد تھے۔نصف عورت اور نصف مرد ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے کاملیت پر ناز تھا۔اس لیے وہ دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کر دیتے تھے جس کی وجہ سے دیوتاؤں کے بادشاہ Zeus نے ان کے جسم کے دو الگ الگ ٹکڑے (نصف عورت اور نصف مرد) کر کے زمین پر پھینک دیا۔اس دن سے آج تک عورت اور مرد کے منقسم حصّے ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہو کر تکمیل پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے شکیل الرحمٰن نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ ’ہر مرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد،یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیا جاتا ہے‘‘۔

 منٹو نے بھی sexo-Yogic عمل کے لطیف احساسات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔انہوں نے اس موضوع کے لیے جو اسلوب وضع کیا ہے اس سے جنسی تلذز کی نفیس اور لطیف کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس میں تخریبی یا درندگی کے جذبات نہیں ابھرتے ہیں۔منٹو نے اس قسم کے افسانوں میں صرف سیکس کے ان تجربات کو پیش کیا ہے جن سے ہمیں جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے اورجنسی تلذذ کی روحانی کیفیت کااحساس ہوتا ہے۔’بلاؤز‘،’دھنوا‘،’شاردا‘،’خوشیا‘ اور’ بو‘ وغیرہ افسانوں میں جنسی تلذذ کے مختلف سطحیں ہیں اور تلذذ کی ان کیفیات کے اظہار کے لیے منٹوں نے جواسلوب خلق کیا ہے اس کے بھی کئی Shades(رنگ) نظر آتے ہیں۔ طوائفوں کے ساتھ جنسی تعلق کے جوModes ہیں وہ دیگرجنسی تجربوں سے متعلق افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔مثلاً افسانہ’ ہتک‘ میں سیکس کا جو Degree of Satisfaction ہے وہ دوسرے نوعیت کی ہے۔اس افسانہ کے پہلے ہی پیراگراف،’’دن بھر تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سوگئی تھی۔میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی،جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی،ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور،گھرکوواپس گیا تھا…‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو’ کام سوتر‘کے اصل جوہر سے واقف ہیں۔ منٹو کے بعض نقادوں نے’ ’ ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ نے‘‘ کی رعایت سے لکھا ہے کہ منٹو نے اس عبارت میں سوگندھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ دراصل نقادوں نے اس عبارت کے اسلوب کو سمجھے بغیر یہ رائے دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مباشرت کے پرم آنند کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ دیئے جاتے ہیں۔مہا کوی کالی داس نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے’ ’ رگھوونشم‘‘میں سیتا اور رام کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ راجہ’ دس رتھ‘ اپنی وِشال سیناکے ساتھ بارات لے کر جب جنک نگری پہنچے تو ان کی سینانے وہاں کے باغوں کے پھولوں اور کھیتوں میں لگے فصلوں کو روند ڈالا۔ پھر بھی اس نگری نے سینا کے اس عمل کوویسے محظوظ کیا جیسے عورتیں اپنے پریتم کے کٹھورسنبھوگ کو محظوظ کرتی ہیں۔’ خوشیا‘ اور’ بو‘ میں جنسی آسودگی کی سطح کچھ اور ہی ہے۔ افسانہ’ خوشیا‘ میں کانتا کے عریاں بدن کو دیکھنے کے بعد خوشیا کے اندرآہستہ آہستہ جنسی خواہش اس طرح بیدار ہونے لگتی ہے جیسے’ ’کام دیو‘‘ نے’ سوتروان‘خوشیا کے سینہ میں پیوست کر دیئے ہوں لیکن اس کے اندر کا مرد اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کانتا اس کے سامنے ننگی چلی آتی ہے اور خوشیا کے اعتراض کے بعد کہتی ہے کہ تو کیا ہوا تم اپنا خوشیا ہی تو ہو۔منٹو نے اس خاص لمحے کے بیان کے لیے جو پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے اس کی دو خوبیاں ہیں۔ سیکس کے سوئے ہوئے جذبہ کو گدگدا کر بیدار کرنے کی خوبی اور دوسری خوبی احساس ِ’ ہتک ‘ہے جو سیکس کے جذبے کی شدّت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اسی طرح افسانہ’ بو‘ میں سیکس کی لذت کے اظہار کے لیے جواسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ منٹو کے جنسی تجربے اور روحانی لذتیت(Eroticism) سے اس طرح ہم آہنگ ہو گیا ہے کہ قاری بھی پرم آنند کی کیفیت سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔اس افسانہ میں گھاٹن لڑکی کے پستانوں کو دیکھنے کے بعد رندھیر کے جسم میں بھی وہی برقی لہر دوڑجاتی ہے جو کالی داس کی تخلیق’ ’کمارسمبھو‘‘میں پاروتی کے سینے سے چادر کھسک جانے کے بعد اس کے پستانوں کودیکھ کر شیوجی کے ریشے ریشے میں سیکس کی برقی لہر دوڑ گئی تھی۔ رندھیر گھاٹن کے ساتھ صرف ایک رات اپنے کمرے میں رہتا ہے اور ایک ہی رات میں اس نے سیکس کی وہی Ultimate لذت حاصل کر لی جو شیوجی نے یوگوں یوگوں تک پاروتی کے ساتھ’ ہمالیہ پروت پر حاصل‘ کی تھی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے صدیوں سے چلے آرہے ہندوستانی جنسی تقدس کے تصورکوازسرنوقاری سے متعارف کراکراس عمل کے ان پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا تھا کیوں کہ لوگ جنسی عمل کو فحش عمل سمجھنے لگے تھے۔ رندھیر اور گھاٹن لڑکی کے Sexo-Yogic لمحات کے بیان کے لیے منٹو نے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکس کی دیوی’ ’مہاناگنی‘‘ نے سیکس کے دیوتا’ مہا ناگ‘ کو دبوچ لیا ہے اور آسمان سے جنسی تلذذ کے رسوں کی امرت ورشا شروع ہو گئی ہے۔بنجر  دھرتی زرخیز ہو رہی ہے، پیڑ پودے سبزوشاداب ہو رہے ہیں۔ پھول کھلنے لگے ہیں اور ان کی خوشبوؤں سے عالم مہک اٹھا ہے۔یہ منٹو کے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔سیکس کی ایسی کیفیت اور فضا منٹوجیسافنکار ہی پیداکرسکتا ہے۔ منٹو کے اسلوب سے منٹو کا فن،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہو کر جنسی تلذذ کو لافانی بنا دیا ہے۔منٹو کا کمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات واحساسات کے اظہار کے لیے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس میں ان کے اپنے تجربے شامل ہو گئے ہیں اور ان کے قاری بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیا تھا۔ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا…پھندنے کی تلاش میں نکلا…دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا…نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوئی۔پھر نہ جانے کیا ہوا…ایک کالی شاٹن کے بلاؤزپراس کا ہاتھ پڑا…کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔پھردفعتاً ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکاکہ کیا ہو گیا ہے۔اس کے بعد اسے خوف،تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی…پہلے اسے تکلیف و حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پر رینگنے لگی ‘‘(’ بلاؤز‘)

’ ’مسعود کو ای شرارت سوجھی۔دبے پاؤں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ اس نے دونوں پٹ کھول دیئے۔دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلشوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھیں، خوف زدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔…بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی‘‘(دھواں )

منٹو نے ان عبارتوں میں عورتوں کے سینے کے اُبھار اور گداز کے لمس سے جنسی تلذذ کے برقی کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔صنف نازک کی اس حصّے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنسکرت کے ایک عظیم شاعر اور مفکر بھرتھری ہری نے لکھا ہے:

’’چھوڑ ان پھیکے باسی اُپدیشوں کو/مردکوتوسرف دو چیزوں کی لگن ہونی چاہئے/بھرپور چھاتیوں والی اس ناری کی جو کام رس کو اُبھارے/اور دل کو موہ لینے والی بَن کی۔‘‘

دراصل رقص کا آغاز بَن یعنی جنگل کے معاشرے میں ہوا تھا کیوں کہ جنگل کے معاشرے میں بدن جذبے کے عریاں اور والہانہ اظہار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔موسیقی سے بھی جنسی جذبہ کا تعلق بہت گہرا ہے۔منٹو کے افسانوں کے چند اقتباسات اور ملاحظہ کیجئے جن میں جنسی کی جمالیات نقطۂ عروج پر ہے۔

’’کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے پتّے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اور نہا رہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی تھی۔‘‘(’ بو‘ )

’’رندھیراس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔جب نہیں کھلی تو تھک ہارکراس کے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک سراپکڑا،دوسرے ہاتھ میں دوسراسرااورزورسے جھٹکا دیا۔گرہ ایک دم پھسلی،رندھیر کے ہاتھ زورسے اِدھر اُدھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم نمایاں ہو گئیں۔لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹّی چابک دست کمہار کی طرح دو پیالوں کی شکل دے دی ہے۔‘‘(’ بو‘)

’’اس بو نے اس لڑکی اور رندھیر کو ایک رات کے لئے آپس میں حل کر دیا تھا۔دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ان عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے،جہاں پہنچ کر انسانی لذت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ایسی لذت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی۔جو مائلِ پرواز ہونے کے باوجودساکن اور جامد تھی…دونوں ایک ایساپنچھی بن گئے تھے جوآسمان کی ینلاہٹوں میں مائلِ پرواز رہنے پربھی غیر متحرک دکھائی دیتا ہے۔

…اس بو کو،جواس گھاٹن لڑکی کے ہرمسام سے پھوٹ رہی تھی، رندھیر اچھی طرح سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔جس طرح بعض اوقات مٹی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بو نکلتی ہے۔لیکن نہیں،وہ بو کچھ اور ہی طرح کی تھی۔اس میں لونگ اور عطر کا مصنوعی پن نہیں تھا،وہ بالکل اصلی تھی…عورت اور مرد  کے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اورمقدس۔‘‘(بو)

قدیم ہندوستانی فنکاروں نے جنسی عمل کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوؤں کو کبھی مٹّی کی سوندھی خوشبو تو کبھی جنگلی پھولوں اور خوشبودار پتوں کی خوشبوسے تعبیر کیا ہے۔جدید ماحولیاتی وجنسیاتی مطالعے کی روسے دوران مباشر ت عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوسے ماحول کی کثافت دور ہوتی ہے۔منٹو نے بار بار’ بو‘ کا ذکر کر کے شاید حد درجہ آگہی کا ثبوت دیا ہے۔بعض جنسی ماہرین کا خیال ہے کہ مباشرت کے عمل کے دوران مرد کی پسندیدہ خوشبو عورت کے بدن سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جو مردکواس قدر مدہوش کر دیتی ہے کہ وہ جنسی عمل سے کبھی فارغ نہیں ہونا چاہتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے اسی نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہو جائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے، جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی وہ خوشبو ملتی ہے جو آدم کو حوا سے ملی ہو گی۔ مٹی کی یہ سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہو جیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت کہ جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دارچینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آ جائیے۔ ہم دونوں رات بھر ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہو گی کہ جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے، جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہو گا! ایسی عورت کا تجربہ پوری زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔ عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے، دارچینی کی مہک کا احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہو گا۔(‘‘ منٹوشناسی اور شکیل الرحمٰن‘‘، ص – 125)

منٹو کے افسانوں میں سیکس کا اصل جوہرUltimate جنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظر آتا ہے جہاں منٹو کے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کااحساس ہوتا ہے۔ان کے ان تحریروں میں بھی نظر آتا ہے جہاں انہوں نے Sexuality کو Texuality میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور وہاں بھی جہاں ان کے فن کی جمال و جلال اور ان کی روح جنس سے متعلق افسانوں کے کرداروں کے جذبات واحساسات اور اعمال سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔

٭٭٭

 

محبت کی کتاب

               ڈاکٹرانورسجاد (لاہور)

جب ایوب خاور کا تیسرامجموعہ’’بہت کچھ کھو گیا ہے‘‘ شائع ہو رہا تھا،انھی دنوں اُس نے ذکر کیا کہ اس کی اگلی کتاب’ ’محبت کی کتاب ‘‘ ہو گی جو ساری کی ساری شعری پیرایے میں ہو گی، یعنی اس کا بیانیہ،منظر نامہ اور ہدایات سبھی کچھ شاعری میں ہو گا۔میں نے اس کی بات پر اتنی توجہ نہ دی لیکن بعد میں اس کامسودہ دیکھ کر ایک خوش گوار حیرت ہوئی۔

کتاب کے صفحات کو پہلی نظر میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس نے بہت سوچ سمجھ کر کتاب مرتب کی ہے، یعنی بیانیے، منظر نامے، مکالمات اور ہدایات کے لیے اُس نے الگ الگ رسم الخط اور پوائنٹس کا انتخاب کیا ہے اور صفحے پر مکالمات،منظر نامے اور ہدایات کے آغاز کے لیے الگ الگ مقامات متعین کیے گئے ہیں۔ گویا مجموعی طور پر ایوب خاور نے اپنی شاعری کی طرح کتاب کے صفحات بھی منفرد بنا کر پیش کیے ہیں، کم از کم میں نے کسی کتاب کی ایسی تزئین نہیں دیکھی۔

’’محبت کی کتاب ‘‘میں ایک سادہ سی محبت کی کہانی ہے جو ایک ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر شروع ہوتی ہے اور دوسرے ویلن ٹائن ڈے پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔سادہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ محبت ایک سادہ ساہی جذبہ ہے جس کے اِردگرد بُنے جانے والے حالات واقعات اسے پیچیدہ، آسان،مبہم، فانی یا غیر فانی بناتے ہیں۔ ایوب خاور کی تیسری کتاب کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے :

بصری میڈیم سے گہرا تعلق ہونے کے باعث اس کی امیجری انتہائی بصری ہے اور جزئیات سے لب ریز،یعنی اس کی شاعری میں زندگی اپنی پوری باریکی اور تفصیل سے نظر آتی ہے اور یہی اس کے شعری ہنر کا امتیاز ہے اور یہی خاص طور پر اس کی نظم کا وصف بھی۔ڈراما نگار ہونے کے باعث ایوب خاور کے ہاں اکثر مقامات پر ڈرامائی عناصر بھی اپنی مخصوص اور پوری توانائی کے ساتھ اظہار پاتے ہیں۔

یہ کتاب پڑھ کر لگا کہ ایوب خاور نے اپنے شاعر،ڈراما نگار اور ہدایت کار کو بہت خوب صورتی سے یک جاکر دیا ہے۔اب سے پہلے میں نے صرف ریڈیائی ڈرامے یعنی منظوم ڈرامے سنے ہیں جن کا رواج بھی کب کا ختم ہوچکا ہے۔ اُن منظوم ڈراموں میں بھی کہانی شعر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے مکالمات کے ذریعے بیان کی جاتی تھی۔مگر یہ ڈراما دیکھنے سے زیادہ پڑھنے کی چیز ہے۔ ایک دل چسپ پہلو اس کہانی کا یہ ہے کہ بنیادی انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ ایوب خاور نے منظر نامے میں موجود اردگرد کی اشیا بھی کہانی کے کرداروں میں ڈھال دی ہیں اور کہانی کے مرکزی کرداروں پر خاور کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی مرضی کرنے سے قاصر ہیں۔

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ کہانی کے حالات و واقعات کرداروں کے مرہونِ منّت ہوتے ہیں، لکھنے والا ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔پیراندیلو کے ایک ڈرامے میں تو’ ’چھ کردار اپنے مصنف کی تلاش میں ‘‘نکل کھڑے ہوئے۔سوال یہ ہے کہ کیا کردار مصنف کی تخلیق نہیں۔مصنف تو خود معاشرے سے کردار وضع کرتا ہے پھر پیراندیلو کی یہ تلاش گھٹیا مفروضہ ہے جو سوائے مضحکہ خیز ہونے کے اور کچھ نہیں۔ ایوب خاور نے ثابت کر دیا ہے کہ کرداروں کی باگ ڈور مصنف کے اپنے ہاتھوں ہی میں رہتی ہے اور رہنی چاہیے جو کہانی اور کرداروں کو ایک مسٹری کی طرح کھولتا چلا جاتا ہے، اپنے طے شدہ راستوں اور حالات واقعات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایوب خاور نے ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ایک سفید پھول کو محبت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے مرکزی کرداروں کے خون سے سرخ کرتے ہوئے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک ایسا Commentکیا ہے جس کی طرف کسی اور شاعرکا دھیان شاید ابھی تک نہیں گیا۔ایوب خاور نے ویلن ٹائن ڈے کی محبت بھری سرخی کو دہشت گردی کی خونی دَل دَل میں ڈھال کر دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بے امنی اور خونی انقلابات کے خلاف احتجاج کیا ہے اور میں اپنے آپ کو اس احتجاج میں شامل سمجھتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب خاور کی’’محبت کی کتاب ‘‘کا اختتامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اب یہ آخری ہچکی ہے جانِ جاں !

تمھاری طرف کی

آدھی محبت کا احوال سن کر

جو میری طرف کی تھی آدھی محبت

وہ مر گئی ہے

جنازے میں کوئی نہیں تھا

فقط میری نظمیں تھیں

نظموں کے مصرعوں نے مل کر صفیں باندھ لی تھیں

دلِ جاں بہ لب نے جنازہ پڑھایا

جنازہ اٹھایا گیا تو وہ کہرام…

لیکن…

]اچانک ہی سنبل کا لہجہ بدلنے لگا[

یہ سب… میں … تمھیں کیوں بتاؤں !

محبت تو میری تھی

میں نے اُسے اپنے ہاتھوں سے مارا ہے

میں اس کی قاتل ہوں

تم کو بھلا اس سے کیا

اور تمھارا تعلق بھی کیا

تم نے اپنی طرف کی محبت کو گرVentilaterپہ رکھا ہوا ہے

 تو رکھے رہو

لیکن اک بات کہہ دوں

محبت کبھی Ventilaterکے بل پر مری جان زندہ نہیں رہتی ہے

ابھی اُس نے Messageنہیں Sendکیا تھا

ابھی اس نے لکھا تھا

لکھ کر پڑھا اورسیل فون کوسائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اک تذبذب بھری

                                    کیفیت میں بہت دیر تک یوں ہی بیٹھی رہی

اچانک پھر اس کیفیت سے نکلتے ہوئے اُس نے

Sentکر دیا اپناMessageظفر کو…

سسکتے ہوئے ایک تکیے کو منہ پر رکھا

اور پھر دیر تک ہچکیاں آنسوؤں کی روانی میں بہتی رہیں

اس کے کمرے میں

کینوس،برش،رنگ اور کچھ کتابیں،رسالے

خطوط اور بہت ساری یادوں کے جگنوں ابھی تک وہیں

یوں ہی ساکت پڑے تھے

رات کا جانے وہ کون ساپہرتھا؍جب وہ اٹھی

اور اس سارے بکھراؤ کے بیچ میں سے گزر کر

وہ اُن سینیوں تک گئی

جن میں فخر الزماں کی طرف سے

بھیجی گئی

بیش قیمت جیولری ابھی تک وہیں میز پر

ویسی کی ویسی پڑی تھی

وہ آگے بڑھی، ایک ڈبہ اُٹھایا

اچانک ہی سنبل کا سیل فون اک Beepکی Soundسے سنساسا گیا

 ابھی اس نے ڈبے کو کھولا نہ تھا

Beepکی Soundسن کر بہت دیر تک ایک پتھر کے بُت کی طرح

                         سنبل افراز سانسوں کو روکے ہوئے منجمد ہو گئی

٭٭٭

 

 صادق باجوہ۔امریکہ کے ۱دبی افق پر ایک اور جاندار ستارہ

               اکرم ثاقب(امریکہ)

                        جہاں زندگی کے مطالبات اور بدلے ہوئے حالات نے انسانی زندگی اور رویّوں کو بہت متاثر کیا ہے وہاں کہیں خشک اور کہیں بارانی زمینوں کے خوف سے بے نیاز اپنے کاندھوں پر صلیب اُٹھا کر چلنے والوں نے اردو شاعری کو اِ ظہار،ادراک اور فکر کی نئی کوششوں اور نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔علی قطب شاہ سے ولی، سراج، میر، سودا،غالب، مومن،داغ، امیر اور بعد میں فیض، ناصر، فراز نے اردو شاعری کی روایت کووسیع ترکیا۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے خد و خال اور رنگ ہیں باوجود اسکے کہ ان کے درمیان زمانے حائل ہیں لیکن ان کی شاعرانہ روایت کی سینکڑوں سال کے سفر اور انقلاب کے بعد بھی بہت حد تک کڑیاں ملی جُلی ہیں۔نئے شعراء نے انسان کے زمین کے ساتھ رشتے کو مضبوط تر کر دیا۔جوں جوں زندگی وقت کے گھیرے میں آتی گئی زندگی کے المیے کا شکار نئی نسل اپنی تہذیبی، علمی،ادبی اور روایتی قدروں کو لئے زمین کے آخری سرے تک نہ جانے کہاں سے کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔

                        یوں تو اکثر کہیں نہ کہیں سے خوشبو کا جھونکا آتا رہتا ہے لیکن امریکہ کے شہر بالٹیمور سے غزل کی نئی لیکن جاندار آواز کی خوشبو شاعری کے افق پر پھیل کر اپنا رنگ جما چکی ہے۔گذشتہ پندرہ سالوں سے واشنگٹن میٹرو پولیٹن میں فروغِ ادب اور ا مریکہ میں پیدا ہونے والی نئی پود کو زبان و ادب سے روشناس کرنے میں مصروف ِ عمل ایک شخصیت ہے ایک آواز ہے اور وہ آواز ہے امریکہ میں مقیم جدید اور کلاسیکل اردو شعرا میں اپنا الگ لب و لہجہ رکھنے والے شاعر صادق باجوہ کی۔

                        صادق باجوہ کی غزل کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے زندگی کے تجربات کو سات سمندر پار بھی غزل کی جدید روایات کو جدید عہد کے تقاضوں کے ساتھ برتا جو کہ بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کی غزل میں زندگی کے تجربات، شعری اظہار کے جذبات اور اس کی صاف بیانی، حقیقت پسندی، ادبی قدروں کی آشنائی، انسان کو درپیش پیچیدگیاں اور اس کا اظہار نمایاں ہے۔ جو کہ ان کی غزل کو اور توانائی بخشتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب مشرق، ماضی حال، ہجر کی تڑپ، انتظار کا لطف نیز اپنے دیس سے دوری کی پیاس بھی ان کی شاعری میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

انہیں ڈرائیں گے کیا موت سے حوادثِ غم

جو چل رہے ہیں صلیبوں کو خود اُ ٹھائے ہوئے

بحرِ ہستی میں تلاطم خیز طوفانوں کے بعد

مُوجبِ تسکینِ جاں خاموشیاں ہو جائیں گی

بساطِ یاد سجائی گئی جو اشکوں سے

رخِ حیات کے داغوں سے داغدار نہ کر

جو عزیزِ جاں ہے مجھ کو مرے ضبط کاہے یارا

میرے حوصلے کی شمعیں کوئی پھر بجھا نہ جائے

بے چینیاں سمٹ کے نگاہوں میں آ گئیں

منظر کسی کی آنکھ کا کتنا اداس تھا

رات بھر جن کو پرویا گیا ارمانوں سے

آمدِ صبح سے وہ یاد کے موتی بِکھرے

زندگی کے جب دریچے بند ہوں

کوئی آہٹ در کو کھٹکاتی تو ہے

اقتدار و ثروت و سطوت سبھی

عمر ِ رفتہ کی طرح ڈھلتے رہے

جب خودی کا خمار ہو جائے

خود سری راہ پر نہیں آتی

جب لگی قدغن لبِ اِظہار پر

میرا د ل چپ سب ستم سہتا رہا

٭٭٭

 

میں کہاں ہوں

               ڈاکٹر شہناز نبی(کولکاتا)

 اس نے جب کہانی مکمل کر لی تو اسے لگا ماں اسے پڑھ کر ضرور خوش ہو گی۔اپنے طور پر اس نے اپنی کہانی کا سارا تانا بانا ماں کے ارد گرد بنا تھا۔ ماں ہی اس کہانی کا مرکزی کردار تھی۔حالانکہ اس میں اس کے باپ کا کردار بھی کچھ کم اہم نہ تھا اور کئی چھوٹے موٹے ضمنی کردار بھی تھے تاہم ماں تو ماں تھی۔اس کا خیال تھا کہ اپنے بچپن کی یادوں سے کام لے کر اس نے حقیقت نگاری کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ یوں بھی اس کے ذہن پر تھرکتی ہوئی تصویریں اب بھی اپنے رنگ و روغن کے اعتبار سے بے نظیر تھیں۔ اسے حیرت انگیز طور پر بچپن کے تقریباً سارے واقعات یاد تھے۔اکثر بڑوں کو اس کی یادداشت سے کام لینا پڑتا تھا۔

یاد ہے ابا کے ایک دوست۔۔۔ کیا بھلا سا نام تھا ان کا۔۔۔۔

اوںںں۔۔۔۔۔۔

سلمیٰ آپا ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کرتیں۔

عطیہ ایک دم سے جھنجھلا جاتی۔اف، آپ کو تو کچھ یاد ہی نہیں آتا۔

وہ۔۔۔شاید۔۔۔

ارے وہی جو کچھ گورے سے تھے۔ بھور ے بھورے بال۔آنکھوں پر۔۔۔۔

اوہ۔۔ہو۔۔۔۔حمید۔۔۔۔ سلمیٰ آپا جیسے اس بار جیت جانے والی تھیں۔

نہیں بابا۔۔۔عطیہ اپنی پیشانی سہلاتی ہوئی یاد کرنے کی کوشش کرتی۔

وہ جن کے گلے میں تعویذ ہو اکرتا تھا۔اس نے قطعیت کے ساتھ پوچھا۔

ہاں۔۔وہی۔۔۔لیکن تو تو اس وقت

ایک بار میرے لئے عید کے موقعے پر سرخ چوڑیاں لے آئے تھے۔ امی نے کہا۔۔۔کیا کرتے ہو مقصودؔ ۔ اتنی چھوٹی سی بچی کیلئے۔۔۔۔ ہاں۔ہاں۔۔ بالکل ٹھیک۔۔۔سلمیٰ آپا مسرت سے چیخ پڑیں۔مقصود۔مقصود۔۔تجھے یاد ہے۔۔؟

ہاں۔ میں امی کی گود میں بیٹھی۔۔۔

لیکن تو بہت چھوٹی سی تھی۔۔۔۔

مجھے تو یاد ہے کہ۔۔۔۔۔۔

 عید قریب آ گئی تھی لیکن گھر میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ نئے کپڑے سلوائے جا سکیں۔ امی کے چہرے پر تردد کے آثار تھے۔ ابا سے تقریباً روز ہی اس بات پر چخ چخ ہو رہی تھی۔ لڑکیاں جوان ہو رہی ہیں۔ اب تو اپنی بری عادتیں چھوڑئیے۔

بری عادتیں۔۔۔؟ کیا گناہ کر رہا ہوں میں۔۔۔

میں نے یہ تو نہیں کہا۔۔۔ امی روہانسی ہو جاتیں۔

میں تو صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ۔۔۔ آپ اپنے پیسوں کو جن غلط قسم کے لوگوں پر خرچ کر رہے ہیں۔۔

تو میرے دوست تجھے غلط لگتے ہیں۔۔ سالی۔۔۔ میں تو۔۔۔

بچے جاگ رہے ہیں۔۔۔

کیا چاہتی ہے تو۔بچوں کی خاطر میں دوستوں کو چھوڑ دوں۔ میری اپنی کوئی زندگی ہے یا نہیں۔۔ اور یہ سگریٹ۔۔کتنا خرچ ہوتا ہے ان پر۔۔؟سالی تیرے باپ نے دیا ہی کیا تھا۔۔زندگی خراب ہو گئی میری۔۔۔۔

زندگی تو خراب ہوئی ہے میری۔۔۔ ماں سسکیاں لینے لگتی۔۔۔

کیا نہیں ملتا تجھے۔۔۔باپ کی آواز اونچی ہونے لگتی۔ ماں کی سسکیاں مدھم ہوتی جاتیں۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔

 اس کے بعد وہ دیر تک زمین کو گھورتی رہتی۔اس کے چہرے پر آنسوؤں کے ساتھ بہہ جانے والی وہ کاجل کی لکیر۔ وہ کروٹ بدلتی رہتی۔ ماں اس کی پیٹھ کھجاتے کھجاتے تھک جاتی۔سو۔ سو جا۔ سوتی کیوں نہیں کم بخت۔دیکھ عطیہؔ کب کی سو گئی۔

 ماں کا ستا ہوا چہرہ اسے اب بھی یاد ہے۔وہ اپنے ذہن کے پردوں پر سے وہ منظر کھرچ دینا چاہتی تھی۔ لیکن یاد۔ ظالم یاد۔

اسے اپنے باپ سے نفرت نہیں تھی لیکن جب جب وہ ماں کو روتا ہوا پاتی تھی۔ اسے اس کے آنسوؤں کے پیچھے اپنا باپ ہی دکھائی دیتا تھا۔

اس بات نے اسے اپنے باپ سے کچھ منحرف سا کر دیا تھا۔ حالانکہ تمام تر مالی پریشانیوں کے باوجود وہ ان سبب بہن بھائیوں کے لئے

عید میں کپڑے بھی بنواتا رہا تھا اور ان کی تعلیم پر معمولی طور سے ہی سہی، خرچ بھی کرتا رہا تھا۔گھر کی کفالت کے نام پر ماں کے کتنے زیور بھینٹ چڑھے، انہیں اس کا پتہ ہی نہ چلا۔دھیرے دھیرے وہ سب ماں کے کان، گلا اور ہاتھ کے سونے پن کے عادی ہو گئے۔ماں کے چہرے پر آنسوؤں کے ساتھ بہہ نکلنے والی وہ کاجل کی لکیر۔

 اور اس دن تو حد ہو گئی تھی جب عارفؔ اپنا پھٹا ہوا سر اور بہتا ہوا خون لیکر، سائیکل سڑک پر ہی چھوڑ، روتا ہوا آنگن میں داخل ہوا تھا۔امی کے حواس اڑ گئے۔

ہائے۔۔یہ کیسے ہوا۔ ہائے۔۔ ارے اک رکشہ تو بلا۔اسے ڈاکٹر۔۔

اور اس کا باپ آفس سے گھر لوٹ آیا۔بیٹے کے سر سے خون بہتا دیکھ اس نے ماں کی لہراتی ہوئی لمبی چوٹی کو مٹھیوں میں لپیٹا اور ایک زور کا جھٹکا دے کر کہا۔۔۔کمبخت۔۔ کام چور عورت۔تجھ سے بچوں کی دیکھ بھا ل کا چھوٹا سا کام بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔

اس نے ماں کے آگے کاپی بڑھاتے ہوئے کہا۔

ماں۔۔۔۔

کیا ہے۔۔۔ تمہاری کہانی۔۔۔۔۔

میری کہانی۔۔۔۔

ماں نے سارا قصہ پڑھ ڈالا۔ کئی بار اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے۔ کہیں کہیں اس نے سسکیاں بھی بھریں۔ دیر تک سوچتی بھی رہی۔زمین گھورنے کی پرانی عادت گئی نہیں تھی۔لیکن پھر خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا۔

تیرے ابا ایسے کہاں تھے۔

کیا مطلب۔۔۔

تجھے کیا پتہ کہ وہ ہم سب کو کتنا چاہتے تھے۔تو بہت چھوٹی سی تھی نا۔ تجھے یاد نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی آمدنی بہت مختصر تھی۔ اکثر فاقے کی نوبت رہتی تھی۔لیکن آخر اسی مختصر آمدنی میں انہوں نے تم سب کی تعلیم کا بوجھ اٹھایا۔ سنیما وغیرہ بھی کبھی کبھی لے جایا کرتے تھے۔ تجھے یاد نہیں کہ ایک بار میلے میں۔۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ جب عارفؔ کا سر پھٹا تھا تو انہوں نے تمہاری چوٹی پکڑ کر ایک زور کا جھٹکا دیا تھا اور کہا تھا کہ۔۔۔۔

تیرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تو ہماری زندگی اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی کون ہوتی ہے۔ اس میں،میں کہاں ہوں۔؟ اس میں تو، تو ہی توہے۔

ماں ناراض ہو گئی۔ اس نے غصے کے مارے کاپی اٹھا کر پھینک دی۔

بخار آنے پر ساری ساری رات گود میں لے کر ٹہلایا کرتے تھے تجھے۔وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ عارف کے لئے مجھے مار پڑی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بے حد چاہتے تھے۔ان کی۔۔۔۔

اس نے بد دل ہو کر کاپی اٹھائی اور کالج چلی گئی۔ یہ پتی ورتا عورتیں۔۔۔

 اس کا سوجا ہوا منہ دیکھ کر سریتا نے پوچھا۔

کیا بات ہے۔ چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔

کچھ نہیں بس یونہی۔

کچھ تو ہے۔۔۔

نہیں بابا۔ اس نے سریتا کو ٹال دیا۔بتا تیری بات کہاں تک پہنچی۔

سریتا شرما گئی۔ اس کی شادی کی بات طے ہو چکی تھی۔ بس اگلے ہی مہینے وہ اور سریش شادی کے بندھنوں میں بندھ جائیں گے۔

سریش دیکھنے میں کیسا ہے۔

گورا رنگ۔ اونچا قد۔ بڑی بڑی پر کشش آنکھیں۔

کیا کرتا ہے۔؟

میکینکل انجینیر ہے۔ سارا گھرانہ پڑھا لکھا ہے۔ بہن اسٹیٹس میں رہتی ہے۔ چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہے۔ سریش کی ماں اپنا بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔ باپ ریٹایرڈ جج ہیں۔مالی طور پر بھی کافی خوش حال لوگ ہیں۔

شادی کے بعد کچھ دنوں تک سریتا کی آنکھوں میں ستارے جھلملاتے رہے۔وہ بات کرتے کرتے سریش کی یادوں میں کھو جایا کرتی تھی۔ بات بے بات اس کے ہونٹ مسکرا اٹھتے تھے۔اس نے اپنی ساری سہیلیوں کو شادی کرنے کے مشورے دے ڈالے۔اس کے لئے شادی دنیا کا سب سے انمول بندھن تھا۔

 عورت مرد کے بنا ادھوری ہے۔

وہ اچانک بول اٹھتی اور ساری سہیلیاں کھل کھلا پڑتیں۔

لیکن بہت جلد سریتا کی جگمگاتی آنکھیں ماند پڑنے لگیں۔ اس کے ہونٹوں کے مسکراتے گلاب مرجھانے لگے۔ اس کی بیخودی اک طرح کی

یاسیت میں تبدیل ہونے لگی۔وہ بات کرتے کرتے چپ ہو جاتی اور ٹھیک اسی طرح زمین گھورنے لگتی جس طرح اس کی ماں گھورتی رہتی تھی۔

سب ٹھیک ہے نا۔

وہ اس سے بار بار پوچھا کرتی۔

ہاں بابا۔

لیکن جب اسے راکھیؔ نے بتایا کہ سریتاؔ سرکاری ہسپتال کے برن وارڈ میں بھرتی ہے تو اس کا سر گھوم گیا۔

تو تو کہتی تھی سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے۔

اس نے اپنے آنسو سریتا سے چھپاتے ہوئے کہا۔

سریتا نے نہایت نحیف آواز میں جواب دیا۔

سب ٹھیک ہی تو ہے۔

یہ آگ آخر کیسے لگی۔؟

میں سریش کے لئے چائے بنارہی تھی کہ اچانک اسٹو۔۔۔۔

جھوٹ بکتی ہے تو۔اس نے روتے ہوئے کہا۔ میں نہیں چھوڑوں گی ان لوگوں کو۔

مجھے سب پتہ ہے۔ تیرے سسرال والے نقدی نہ لانے کی وجہ سے تجھ پر ناراض تھے۔چاچا جی نے جہیز تو بہت سا دیا تھا لیکن سریش کو نقدی چاہئے تھی۔ اسے بھی اسٹیٹس جانے کی دھن سوار تھی۔ اس نے شادی کے کچھ دنوں بعد ہی تجھ پر ظلم کرنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی دیر سے سو کر اٹھنے کو وجہ بناتا اور کبھی سویرے سو جانے کو۔ اس کی نظر تیرے پاپا کے اس مکان پر بھی تھی جسے وہ آدیش کے نام کر چکے تھے۔ جب تو نے  اپنے پاپا سے روپئے مانگنے سے انکار کر دیا تو ایک دن اس نے موقعہ دیکھ کر تجھ پر۔۔۔۔

سریتا نے آنکھیں موند لیں۔

یہ کس کا قصہ سنا رہی ہے تو۔

تیرا اور کس کا۔

لیکن یہ سچ نہیں ہے۔

تجھے پتہ ہے سریشؔ کتنا ذہین طالبِ عالم تھا۔ پوری ریاست میں وہ دوسری پوزیشن پر تھا۔ اسے اچھی اچھی کمپنیوں سے آفر آئے تھے کہ وہ انہیں جوائن کرے لیکن سریشؔ کو اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے کا مناسب موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ اگر اس نے اسٹیٹس جانے کی سوچی تو کیا برا کیا۔

ہر شام وہ میرے لئے بیلے کے ہار لا یا کرتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مجھے بیلے کی خوشبو بہت پسند ہے۔میں اس سے ایک پل الگ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن دنیا میں کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اگر اچھی ملازمت کی خاطراسے پردیس۔۔۔۔

تو کیا پردیس جانے کے لئے وہ تیرا خون کر دے گا۔۔۔؟

کون کہتا ہے۔۔۔۔

میں کہتی ہوں۔۔۔۔وہ ظالم ہے، خونی ہے، مجرم ہے۔۔۔۔

یہ حقیقت نہیں ہے۔۔۔

تو پھر حقیقت کیاہے۔۔۔۔۔

جو ہم نہیں دیکھ پاتے۔۔تو زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔۔۔ تیری حقیقت میں،میں کہاں ہوں۔۔؟

اس نے ہسٹریائی انداز میں سریتاؔ کی طرف دیکھا۔

میں کہاں ہوں۔؟ ماں اور بابا کے بیچ۔۔؟ سریتا اور سریش کے بیچ۔۔؟ یا ماں سے قریب، بابا سے دور۔ یا پھر جگہ بدلتے ہوئے۔۔؟ نقل مکانی کرتے ہوئے۔۔۔میں ان کرداروں کو کہاں سے دیکھوں۔۔۔؟ دور سے۔۔؟ قریب سے۔۔۔؟آنکھیں موند کر۔۔۔ آنکھیں کھول کر۔۔۔کیا میں انہیں دیکھوں، سنوں، یا صرف محسوس کروں۔ ؟میرے اور قاری کے بیچ کی دیوار کون ہے۔۔؟ اس کہانی میں میں کہاں کہاں نہیں ہوں، کہاں کہاں ہوں۔۔؟

٭٭٭

 

 زندگی

               شاہد جمیل احمد(گوجرانوالہ )

 کُوڑے کے ڈھیر پر بائیں کروٹ کے بل دائیں بازُو اور ٹانگ کو ایل کی شکل میں پھیلا کر بوڑھا ڈیوڈ اس طرح لیٹا تھا جیسے اُس کے پہلو میں جُوس کے خالی ڈبے، بوتلیں، سٹرا، ٹِن اور پھلوں کے چِھلکے نہیں بلکہ گورے پاؤں والی خود لیٹی ہو -پاؤں کے دُودھیا پنجے سے پھُوٹتی مِلکی روشنی کے انعکاس و انعطاف کے بِیچ نینو سیکنڈ کے کئی لاکھویں حِصّے میں جب وقت اِنفنِٹ ہو کر تازہ چرم کی طرح بان کی چار پائی پر پڑا سُو کھتا تھا، اُس خفیف وقفے کے بِیچ جو برقی پردوں کے باہم متصل ہونے کے درمیان بھی ضرور ہوا کرتا ہے، اُس کی نظر یکسر دُنیا و مافیہا کے معدُوم و معلُوم پر جا پڑی تھی – وہ دِن اور آج کا دِن، آدھے لوگ اُسے زندہ اور آدھے لوگ مُردہ تصور کرتے تھے – جب وہ کُوڑے کِرکٹ اور کباڑ خانوں میں سویا ہوتا تو مکھیاں اُس کے مُنہ پر کالے رنگ کا بیضوی ڈھکنا بنا دیتیں جِسے دیکھ کر آدھے لوگ اُسے مُردہ تصور کرنے میں حق بجانب تھے جبکہ آدھے لوگ جنہوں نے اُسے لنگڑی لات کے ساتھ کبھی منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے دیکھا تھا وہ بہرحال اُسے زندہ تصور کرنے پر مجبور تھے – اُس نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کے بعد ہمیشہ کیلئے سکول کی نوکری، گھر بار اور دوستوں کو تج دیا تھا – اور اب دُودھیا روشنی کی تلاش میں شہروں شہروں مارا مارا پِھرتا تھا – شیر ولِٹ بھی اُس کی تلاش کے کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کا ایک پڑاؤ ہی تھی – وہ جِس شخص کا پیچھا کرنا شروع کرتا، پہلے تو وہ شخص اُسے اپنی شس جہات میں موجود پا کر پریشان ہوتا مگرپھر بار بار اُس کی مسکین اور روہانسی شکل دیکھ کر اُس کا ہمدرد بن جاتا – بے ضرر ایسا کہ اُس نے آج تک کِسی عورت کی آنکھوں کو تو کیا اُس کے جِسم کے اُوپری اور درمیانی حِصوں تک کو نہیں دیکھا تھا – اگر اُس کی آنکھیں کبھی بغاوت پر آمادہ ہو بھی گئیں تو وہ زیادہ سے زیادہ کِسی خوبصورت پاؤں پر جا کر رُک جاتیں، پُورا پاؤں بھی نہیں بلکہ اِس کے چوتھائی حِصّے یعنی پنجہ یا پب تک، یا پھر اس سے بھی کم کِسی پیر کے حلقہء زنجیر سے مشابہ انگوٹھے تک – معدوم نے اپنی لاج چھپانے کیلئے اسے نجوم و شہاب کے اتنے سکے دیئے کہ جنہیں وہ جہاں چاہتا رکھ کر بھُول جاتا – لوگ اُسے سیف زبان اور سیف نظر کہنے پر تُلے ہوئے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ کر لیا تھا – آج وہ شیرولِٹ کا پیچھا کر رہا تھا – شیر ولِٹ عام شکل و صورت کی لڑکی تھی مگر اُس کیلئے شکل و صورت کی اہمیت ہی نہیں تھی، کسی خوبصورت پاؤں سے دُودھیا روشنی کے پھُوٹنے کے امکان کی بات تھی، ایک ایسا امکان جو برق رفتاری سے سمٹتے پردوں کے بیچ وقفے کی حیثیت رکھتا تھا – اِسی موجود مگر ناپید کے تعاقب میں وہ ستاروں اور سیاروں کی ریزگاری نچھاور کرتا ایک سمت کو گِھسٹتااور گرتا پڑتا چلا جا رہا تھا – لیبارٹری کے مین گیٹ پر پہنچ کر اُس نے اپنے بلیک اینڈ وائٹ چیک والے پھٹے پرانے چکٹ کوٹ کی اندرونی جیب سے محدب عدسہ نکالا – یہ وہی عدسہ تھا جِسے اُس نے خانہء عدم کی نامعلوم سمت والی دیوار سے اُچک لیا تھا اور جِس سے مشرقی و جنوبی ڈیوون (Devon) کے لوگ چالیس سے سو میل تک کے رقبے پر پھیلے شیطانی پاؤں کے نشانات پہچاننے پر مصر تھے – شیرولِٹ کے پاؤں کے ابھی نہ پڑنے والے نشان بتا رہے تھے کہ وہ لیبارٹری ہی میں آئے گی – اُسے اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ اندر کیسے جائے کیونکہ سکیورٹی گارڈ نے اُسے جب زمین پر بیٹھ کر عدسے سے کچھ دیکھتے پایا تو اُسے دیوانہ جان کر ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگا – ایک دم اُسے عدم کے فرش پر ڈھیر ہوا سیاہ مادہ یاد آ گیا – یہ ڈارک میٹر سیکورٹی گارڈ کی کائنات کا ستّر سے اسّی فیصد تھا مگر سیکورٹی گارڈ اس کو دیکھنے سے قاصر تھا، سیکورٹی گارڈ کی بے بسی کا سوچ کر اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ عود کر آئی اور اُس نے ہاتھ لمبا کر کے مادہ سیاہ کی ایک چٹکی بھری اور اپنے اُوپر چھڑک لی – اب وہ لٹک لٹک کر چلتا ہوا سیکورٹی گارڈ کے عقب سے لیبارٹری میں داخل ہو رہا تھا مگر سیکورٹی گارڈ کو اُس کی کانوں کان خبر نہ تھی – وہ اِسی حالت میں ڈاکٹر واٹسن کو گھُورتا ہوا تھوڑ ی دور پڑے لیدر کے صوفے میں دھنس گیا –

نیو یارک، اکتوبر۲۰۰۷، پہلا ہفتہ، درجہ حرارت ۷ ڈگری سینٹی گریڈ، آب و ہوا! وہی بوجھل اور نم جو ساحلی اور جنگلاتی علاقوں کی ہوا کرتی ہے – وہ یعنی جیمز ڈیوی واٹسن نیو یارک کے ایک گاؤں لورل ہالو کی کولڈ سپرنگ ہار بر لیبارٹری کے ایک وسیع کمرے میں اپنے سامنے بچھی لکڑی کی میز پر پڑے عمدہ پلاسٹک اور ایلومینیم تار سے بنے اُس ماڈل کو اُوپری اور ظاہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جِسے وہ ہمیشہ دل کی نگاہوں سے دیکھتا آیا تھا – یہ ایک غیر معمولی بات تھی اور اِس کی وجہ شیرولِٹ کا صبح سویرے موصول ہونے والا فون تھا – شیرولِٹ ہنٹ گُروبے! دی ٹائمز میگزین کی رپورٹر – اخبار جوائن کرنے سے پہلے وہ مذکورہ بالا تعلیمی و تحقیقی ادارے کے کسی شعبے میں طالبعلم رہ چُکی تھی اور شاید اس انٹرویو کیلئے اُس کا انتخاب ہی اِس بنیاد پر ہوا تھا اور اخبار کے مدیر اور بورڈ کے دیگر تین ممبران نے اُس کے حق میں فیصلہ دیا تھا – دھوئیں کے مرغُولوں کی طرح نیچے سے اُوپر اُٹھتی ہوئی دوہری کمانی (The Double Helix) کی اِس ساخت میں اُس کی جان تھی -پھر اُسے روزی یاد آئی یعنی روز النڈ فرنکلن جِسے وہ بے تکلفی میں روزی کہا کرتا تھا اور پھر اُس کا وہ خط جو پیارے واٹسن سے شروع ہوا تھا اور بہترین خواہشات کی متمنی پر ختم ہوا – یہ صرف خط نہیں تھا بلکہ ایک ایکسرے محسوس ہوتا تھا جِس میں روزی اپنی آنکھوں سے مُسکرا رہی تھی جبکہ وہ یعنی ڈاکٹر واٹسن اپنے لمبے قد کے نصف تک شرمندگی سے جھُکا ہوا تھا – پھر ایک دم ایکسرے شیٹ میں ارتعاش پیدا ہوا اور جیسے ہی یہ کڑکڑاتی شیٹ سیدھی ہوئی ریمونڈ گو سلنگ بھی منظر میں داخل ہو گیا – شاید وہ روزی کی وجہ سے یہاں آیا تھا – روزی جِدھر بھی جاتی اُس کے قدم خود بخود اُس جانب اُٹھنا شروع ہو جاتے – وہ اُس کاپی ایچ ڈی سٹوڈنٹ بھی تھا اور اُس کی عقیدت بھری محبت کا شکار بھی – اس نے محبت کی اِس راہ میں فقط سوچنا اور اپنے ریسرچ ورک میں مصروف رہنا سیکھا تھا – وہ خود بھی بہت حیران تھا کہ اُن کی عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باوجود اُس نے کبھی روزی کے بارے میں عورت کے نقطہ نظر سے نہیں سوچا -اِس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ جب انسان کے پاس سوچنے کیلئے بڑے خیال اور کرنے کیلئے بڑے کام موجود ہوں تو اُس کا میلان ہیچ اور اوسط کاموں کی طرف راغب نہیں ہوتا اور دوسری وجہ اُستاد اور طالبعلم کا وہ فطری رشتہ کہ احترام جِس کا جزو لاینفک ہے – اور پھر وہ چالاک، اپنی خفّت ملی عیار ہنسی کو اپنے ہونٹوں میں بھینچتا ہوا مورس و کنز- اگرچہ اُس کی وفاداری کے سبب واٹسن اور کرِک نے اُسے نوبل لوریٹس میں شامل تو کروا دیا تھا مگر وہ اِاس ایکسرے شیٹ میں داخل ہونے سے قاصر تھا – یہ چھوٹی سی شیٹ اُس کیلئے اجنبی باگھ کی راجدھانی سے کم نہ تھی – اُسے یوں لگتا تھا کہ اگر اُس نے اِس راجدھانی میں قدم رنجا ہونے کی کوشش کی تو اجنبیت کی مہک کے بھبھوکے اُسے اُڑا کر دورپھینک دیں گے – وہ اپنے تئیں کنارے ہی کنارے پشیمان کھڑا اُن لمحات کو کوس رہا تھا جب اُس نے روزی کے گھر میں اُس کی دراز سے انکسارِ امواج کے ایکسرے حقائق برائے ڈی این اے (X-Ray Diffraction data of DNA) چُرا کر جُوں کے توں واٹسن اور کرِک کی خدمت میں پیش کر دیئے تھے – کتنی تکلیف ہوئی ہو گی بیچاری روزی کو کہ ایک جانب اووری میں چھُپی بیٹھی کینسر جیسی مُوذی بیماری کی صعوبت اور دوسری جانت خام آلات کے ذریعے مہینوں اور سالوں کی محنت سے حاصل کئے گئے حقائق (Data) کا زیاں – اب تو شاید وکنز کے عرق انفعال کے قطروں کی مہک واٹسن تک بھی پہنچ چکی تھی کہ اُس نے بھی ایکسرے شیٹ کے منظر سے باہر نکلنے میں ہی عافیت محسوس کی –

            واٹس کا خیال ایک بار پھر شیرولِٹ کے صبح سویرے موصول ہونے والے فون کی طرف لوٹ گیا -دوپہر ہونے کو آئی تھی اور اب وہ کِسی بھی وقت اُس سے انٹرویو لینے پہنچ سکتی تھی – پھر اچانک اُس کے دِل میں فکر مند کر دینے والا یہ خیال پیدا ہوا کہ جانے وہ اُس سے کِس طرح کے سوالات پُوچھے مگر جلد ہی اُس نے یہ بھی دریافت کر لیا کہ وہ دراصل اُس کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کی وجہ سے پریشان نہیں تھا بلکہ وہ تو اُس جواب کی وجہ سے پریشان تھا جو وہ اپنی سٹیٹ منٹ کے طور پر اُس کو ریکارڈ کروانے والا تھا – اب اُس کی یاد میں اُس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ پر تھمب پِن سے لٹکی سابقہ سٹیٹ منٹس گھوم گئیں جن کی بنا پر اُسے پہلے ہی بین الاقوامی طور پر کافی مخالفت کا سامنا تھا -اُس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ کے دائیں اُوپری کونے میں تھمب پِن سے جو سٹیٹ منٹ اٹکی ہوئی تھی وہ اُسے غور سے پڑھنے لگا – وہ کئی بار اپنے لیکچروں میں جینیاتی انتخاب(Genetic Screening) اور جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) بارے دلائل دے چکا تھا اور اُس کی دانست میں گھامڑپن(Stupidity) ایک بیماری تھی اور دس فیصد گھامڑ ترین لوگوں کا علاج(Cure) ضروری تھا – اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ خوبصورتی کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ عُرف عام کا یہ کہنا تھا کہ اگر دنیا میں تمام لڑکیاں ہی خوبصورت ہو گئیں تو یہ دنیا اور فطرت کیلئے تباہ کُن ہو گا جبکہ اُس کے خیال میں ایسا ہونا دنیا اور فطرت کیلئے بہت اچھا تھا – اُس کا یہ بیان جلی حروف میں شائع ہوا تھا کہ اگر ہم اُس جین کا پتہ لگالیں جو جنسیات سے متعلق ہے تو پھر ایک خاتون کو ہم جنس میلان والے بچے کی طرح موافق جنس میلان والے بچے کو بھی پیدا نہ کرنے کا اختیار کجھ متأ تشکیل: اعجاز عبیدبڑموئی تشکیل: اعجاز عبیدہونا چاہیئے- اخبار والوں نے تو خیر حسبِ توفیق و عادت اُس کے اِس بیان کوتروڑ مروڑ کر پیش کیا تھا جِس کی بنا پر علم الحیات کے ماہر رچرڈڈاؤ کنز کو اس کی تشریح بھی کرنی پڑی تھی تا ہم اس کا لُب لباب یہی تھا- موٹاپے کے مسئلے پر اُس کا داغا گیا بیان بھی تو یہیں کہیں اُس کے ذہن کے سوفٹ بورڈ پر تھمب پِن سے جھُول رہا تھا جِس میں اُس نے کہا تھا کہ آپ جب کبھی بھی موٹے لوگوں کا انٹرویو کرتے ہیں تو اچھا محسوس نہیں کرتے کیونکہ آپ یہ جانتے ہوتے ہیں کہ آپ اُنہیں محنتانے پر رکھنے والے نہیں – بورڈ پر انتہائی بائیں جانب۲۰۰۰ء کی اُس کانفرنس کی رپورٹ بھی لگی ہوئی تھی جس میں اُس نے جلد کی رنگت اور جنسیات کے باہمی تعلق کوبیان کرتے ہوئے اپنے اِس مفروضے کا اظہار کیا کہ گہری رنگت کے لوگوں میں جنسی شہوت زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے لاطینی عاشق توسُنے ہوں گے مگر انگریز عاشق نہیں – بوڑھا ڈیوڈ اپنی ٹیڑھی میڑھی ٹانگیں صوفے پر سمیٹے واٹسن کے ذہنی و فکر ی تذبذب سے محظوظ ہو رہا تھا اور دفعتاً اُس کا خیال عدم کی بے چھت سے بغیر زنجیر جھُولتے اُن جوابات کی طرف لوٹ گیا جو انسانی ذہن سے متعلق اُن سوالات پر مبنی تھے ہنوز جن کا جواب مٹی گارے سے بنی دنیا کے تیز ترین دماغوں سے اوجھل تھے – جوابات تو عجیب تھے ہی، سوالات بھی بظاہر کم عجیب نہ تھے – مثلاً یہ کہ دماغی عمل میں معلومات کی کوڈنگ کیسے ہوتی ہے، یادداشتیں کیسے محفوظ اور پنہاں ہوتی ہیں، انسان کی حالت آرام میں دماغ کیا اور کیسے عمل کرتا ہے، دماغ مُستقبل کے بارے میں کیسے سوچتا ہے، جذبات کیا ہیں، ذہانت کیا ہے، دماغ میں وقت کا اظہار کیسے ہوتا ہے، دماغ کیوں سوتا اور خواب دیکھتا ہے،دماغ کے مختلف نظام ہائے کار آپس میں کِس طرح منسلک ہوتے ہیں اور یہ کہ شُعور یت ہے کیا؟ جوابات والے چمچماتے مخطُوطے پڑھتے پڑھتے اُس کی آنکھیں چُندھیا گئیں اور اُس نے اپنے آپ کو بجلی سے زیادہ رفتار کے ساتھ کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے محسوس کیا، وہ شاید گرتا ہی چلا جاتایا پھر برمودہ مثلث میں گر کر ہمیشہ کیلئے غائب ہو جاتا اگر اُس کا ہاتھ سات سو پاؤنڈ کے رُکے ہوئے سیلنگ سٹون (Sailing Stone) میں نہ پڑ جاتا – واٹسن ابھی اپنے بیانات کی اُدھیڑ بُن میں اُلجھا تھا کہ اُسے دور سے لیبارٹری اٹنڈنٹ کی کسی خاتون سے خفیف سی گفتگو سنائی دی اور ساتھ ہی ہیل کی ٹِک ٹِک، اُس نے سوچا وہ آ گئی اورساتھ ہی نِکٹائی درست کرتے ہوئے میز کی دوسری جانب کرسی پر جا کر بیٹھ گیا –

 شیرولِٹ کے ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ اور اُس کی آنکھوں کی چمک اِس بات کی غماز تھی کہ وہ واقعی بہت خوش تھی – دنیا کی عظیم شخصیات کے انٹرویو کرنا اخبارات والوں کیلئے ہمیشہ سے کریز کا باعث رہے ہیں اور آج اُس کا یہ کریز پورا ہونے جا رہا تھا – اگرچہ اُس نے اِس انٹرویو کیلئے بہت تیاری کی تھی اور جینیاتی سائنس، مالیکیولر بیالوجی، زوالوجی، مقیاس الذہانت اور نسل اور ذہانت کے باہمی تعلق بارے حتی الوسع مطالعہ بھی کیا تھا – اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے سوالات کی ایک لمبی مگر محتاط لِسٹ بھی تیار کی تھی اور سائنسی الفاظ و تراکیب کی شارٹ ہینڈ رائٹنگ کی پریکٹس بھی کی تھی – اُس کی تمام تیاری مگر اُس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب واٹسن نے اُسے کہا کہ وہ آج کے انٹرویو میں سوالات کے جوابات دینے کی بجائے اپنی Perceptionسے متعلق گفتگو کرے گا اور گفتگو کے آخر میں Concluding statement ریکارڈ کروائے گا – شیرولِٹ کیلئے انٹرویو کا یہ انداز قدرے سہل تھا اور وہ گفتگو کو ٹیپ ریکارڈ رمیں ریکار ڈ کرنے کے ساتھ شارٹ ہینڈ میں آسانی سے لکھ سکتی تھی – اِس سے پہلے کہ واٹس اپنی گفتگو کا آغاز کرتا، ڈیوڈ کی نظر گھُومتی گھماتی شیرولِٹ کے پیروں پر جا پڑی، جھنجھلاہٹ میں وہ زیر لب بڑبڑایا— دھت تیرے کی، شیرولِٹ نے نہ صرف یہ کہ بند جوتے پہنے ہوئے تھے بلکہ اُس کے ٹخنوں پر سکن کلر کے موزے بھی دکھائی دے رہے تھے – ڈیوڈ کی سعی سفر آغاز سے قبل ہی انجام تک پہنچ گئی تھی – وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اُس نے اِسی میں عافیت محسوس کی کہ وہ اپنے کانوں پر بڑی سماعتی ریڈیو دُور بین (Big Ear Radio Telescope) چڑھا لے جِس پر جیری آراہمن نے بُرج قوس کے قریبی ستاروں سےWOWکا سگنل سُنا تھا – اُسے TAOS HUMمیں دلچسپی نہ رہی تھی جب سے وہ اِن کے زمینی Low Pitchشور کی بجائے عدم کے لا محدود صحرا میں ان کی High Pitch دھڑ دھڑ سُن چکا تھا – اُس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور صوفے پر کروٹ لے کر لیٹ گیا – اب واٹسن گویا ہوا، میرا فوکس آج نسل اور ذہانت کے موضوع پر ہو گا – ڈی این اے کے دوہری کمانی والے سٹرکچر کو وضع کرنے کے دوران مذکورہ موضوع میرے زیرِ مطالعہ رہا – اپنے اصل بیان تک پہنچنے کیلئے مجھے اس موضوع کے پس منظر، اِس کی تاریخ اور متعلقات پر تفصیلی بات کرنا پڑے گی – اور ڈیئر شیرولِٹ آپ کو اِن تمام تر تفصیلات کو سننے کی زحمت گوارا کرنا پڑے گی، اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، آئی ایم سوری! شیرولِٹ نے کہا، نوسر! Its OK، آپ اپنی بات جاری رکھیں، میں آپ کی ساری باتیں سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہوں – ڈاکٹر نے کہا ویل! تو میں اپنی بات شروع کرتا ہوں – نسل اور ذہانت کے باہمی تعلق پر مباحث کا آغاز آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے اُس وقت ہوا جب مقیاس الذہانت (Intelligence Quotient) عمل میں آیا – امریکہ میں مقیاس الذہانت کیلئے کئے گئے ٹیسٹوں سے یہ بات سامنے آئی کہ افریقی نسب کے لوگوں کا اوسط سکوریورپ نسب کے لوگوں سے بہت کم ہے – اِسی طرح یہ کہ مشرقی ایشیاء کے لوگوں کی ذہانت کا لیول یورپ کے لوگوں سے بہت زیادہ ہے – نسلی ذہانت کا یہ فرق پوری طرح اپنے وثیقہ کے ساتھ محفوظ ہے مگر یہ بات الگ ہے کہ ریسرچرز اِس کی وجوہات بارے متفق نہیں ہو سکے – اِس ضمن میں یعنی اِن وجوہات سے متعلق اب تک چار قسم کے جائزے دنیا میں موجود ہیں – پہلا یہ کہ لوگوں کی ذہانت کے مابین فرق حقیقی ہے اور اِس کی وجوہات ماحولیاتی اور وراثتی فرق کی پید اکردہ ہیں – دوسرا یہ کہ قوموں اور نسلوں میں اُن کی ذہانت اور قابلیت کے حوالے سے واضع فرق موجود ہے تا ہم اِس کی وجوہات معاشرتی اور ماحولیاتی عناصر کی مرہون منت ہیں – تیسرا خیال یہ ہے کہ کسی نسل اور ذہانت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور ذہانت معلوم کرنے کیلئے جو طریقہ ہائے کار وضع کئے گئے ہیں وہ از خود ناقص ہیں – چوتھا خیال یہ ہے کہ نسل اور عام ذہانت کے تصورات بذات خود ناقص ہیں اسلئے نسلی یا گروہی تقابل بذاتِ خود بے معنی ہے –

 واٹسن اپنے دونوں ہاتھوں کی پوروں کو آپس میں ملاتے ہوئے بظاہر تو شیرولِٹ کی طرف دیکھ رہا تھا مگر اُس کا دماغ کسی گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ لیب اٹنڈنٹ نے اُن کے سامنے بلیک کافی کے دو مگ اور کچھ سینڈ وچ لا کر رکھ دیے – کافی کا مگ دیکھتے ہی شیرولِٹ نے کاپی پنسل ایک طرف رکھ دی اور ٹیپ ریکارڈر کا بٹن آف کر دیا- وقفے کے دوران اُن کے درمیان ہلکی پھلکی غیر رسمی گفتگو جاری رہی – شیرولٹ نے ڈاکٹر سے ان کی بیوی الزبتھ اور بیٹوں رُوفس اور  تڈنکن بارے معلوم کیا جبکہ ڈاکٹر نے اُس سے اُس کی صحافتی مصروفیات بارے معلومات حاصل کیں – ڈاکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی گفتگو دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا اور بولا، امریکی ماہرین نفسیات کی تنظیم کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اُن کی ذہانت کے حوالے سے واضع فرق موجود ہے لیکن اِس کی وجوہات سے متعلق نہ تو کوئی ماحولیاتی توضیع موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسا تجرباتی و مشاہداتی مواد موجود ہے جِس کی بنیاد پر اِسے جینیاتی توضیع سے منسوب کیا جا سکے – یہاں مجھے اختلاف ہے کہ کیا اب جینیاتی توضیعات نفسیات دان کیا کریں گے – امریکی علم الانسان ( Anthropology) کے ماہرین کی تنظیم کا بھی یہ کہنا ہے کہ جانداروں کے علم حیاتیات کے مطابق واضع گروہوں میں مروجہ تقسیم کے مطابق اُن کی ذہانت کے فرق کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا جا سکتا – شیرولٹ نے نہایت ادب سے ڈاکٹر کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ کی بات کا مرکز و محور مقیاس الذہانت ہے – اِس ضمن میں میں آپ کی توجہ مقیاس الذہانت کے مُوجد الفریڈ بائنٹ کے اُس بیان کی طرف مبذول کروانا چاہوں گی جس میں انہوں نے اپنے مقیاس کے استعمال سے متعلق یہ بھی واضع کیا کہ اِن ٹیسٹوں کو مادر زاد (Innate) ذہانت معلوم کرنے کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور نہ ہی لوگوں کو لیبل کرنے کیلئے استعمال کیا جائے – ڈاکٹر اُس کی بات سُن کر سٹپٹا گیا – اُسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ اُس کے انٹرویو کیلئے اِس قدر تیاری کر کے آئی ہو گی – اُس نے اُس کی سنجیدہ بات کو ہنسی میں ٹالنا چاہا، کہنے لگا ہاں بھئی! وہ بھی تو ایک اِنسان ہی تھے اور اِنسانوں کی بے شمار ادیانی، اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں – میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِنسانوں کی ذہنی صلاحیتوں کے فرق کو سامراجی نظاموں، لوگوں کو غلام بنائے رکھنے اور سوشل ڈارونزم کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، پھر جنگ عظیم اول میں مشرقی و جنوبی یورپ کے لوگوں کی انگریزی زبانی سے متعلق مشکلات و مسائل کو مد نظرر کھے بغیر اُنہیں امریکہ کے جنمی (Native) لوگوں سے ہیچ قرار دے دیا گیا – مگر میرا مطلب اور مقصد یہ نہیں ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جینیاتی طور پر یہ فرق موجود ہے اور جینیاتی طور پراِسے Cureکیا جا سکتا ہے-

 اِس میں کوئی شک نہیں کہ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۳۰ء کے عرصے میں مفکرین اور سائنسدانوں نے عمدہ نسلِ انسانی پیدا کرنے کے علم(Eugenic) کو نسل اور جینیات سے منسوب کرنے کو یکسر مُسترد کر دیا اور بعد ازاں انہیں بنیادوں پر امریکی سپریم کورٹ نے متفرق پبلک سکولوں کے نظام کو ختم کر کے غریب افریقی طالبعلموں کیلئے ترجیحی تعلیمی پروگرام وضع کرنے کا کہا، یہ غالباً۱۹۵۴ء کی بات ہے – سب کچھ دُرست جا رہا تھا، پھر بھائی آرتھر جینسن نے اپنے مضمون میں پھر اس بحث کو اُجاگر کر دیا اور افریقی امریکن بچوں کی تعلیم سے متعلق اُس نے کہا کہ اُن کی بری پرفارمنس اُن کے جین کی وجہ سے ہے نہ کہ اُن کے گھریلو کم تعلیمی ماحول کی وجہ سے – اُس کے اِس بیان نے درسگاہی نظام میں پھر سے نئے تضاد کو جنم دیا – پھر اِس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا – آپ کو مارک سِنڈر مین اور سٹینلے رُتھمین کی کتاب The IQ Controversyتو یاد ہی ہو گی،زیادہ دُور کی بات نہیں،۱۹۸۸ء کی کتاب ہے بھئی جِس میں چھ سو نفسیات دانوں، معاشرتی علوم کے ماہرین اور ماہرین تعلیم سے سروے کیا گیا اور ان میں سے پینتالیس فی صد نے اِس رائے کا اظہار کیا کہ کالے گورے کی ذہنی صلاحیت کے فرق میں جینیاتی اور ماحولیاتی دونوں عناصر کارفرما ہیں – اِسی طرح The g Factor, The Bell curveجیسی کتابوں نے بھی موروثیت کے نقطہ نظر کو پروموٹ کیا – اب ڈاکٹر نے ایک لمبی سانس لی، یُوں لگتا تھا جیسے مسلسل بولنے کی وجہ سے اُس کی سانس پھُول گئی ہو – اُس نے کچھ دیر کُرسی پر بیٹھے بیٹھے سستانے کے انداز میں اپنے بازوؤں اورگردن کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور جلد ہی شیرولِٹ کی طرف متوجہ ہو گیا -ہاں تو اس ساری گفتگو کے بعد میں اس بابت اپنا Point of viewآپ کے سامنے رکھتا ہوں،آپ اِس کو میرا بیان بھی کہہ سکتی ہیں ! "میں اندرونی طور پر افریقی امکان پر بہت رنجیدہ ہوں کیونکہ ہماری تمام معاشرتی پالیسیاں اِس بات پر بنیاد کرتی ہیں کہ ہم سب کی ذہانت ایک جیسی ہے جبکہ تمام مقیاس (Testing) کہتی ہے کہ نہیں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اِس Hot Potato کا حل انتہائی دشوار ہے – میری یہ امید اور خواہش ہے کہ ہر کوئی برابر ہے مگر یہ مشاہدہ اور تجربہ بھی کہ جو لوگ کالے ملازمین کے ساتھ ڈِیل کرتے ہیں اُن کیلئے یہ دُرست نہیں "- ڈاکٹر نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا تھا اور اب وہ قدرے مخمصے کے انداز میں اپنی کُرسی پر اِدھر اُدھر پہلو بدل رہا تھا – ڈیوڈ بھی صوفے پر ایک دم جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور واٹسن کی طرف دیکھتے ہوئے گنگنانے کے انداز میں بولا، ماں پر پُوت پِتا پر گھوڑا، بُہتا نئیں تو تھوڑا تھوڑا – اُس کے دماغ میں پھر سوالات کی ایک چین چل پڑی، کیا تھیوری آف ایوری تھنگ کا وجود ممکن ہے، سیاہ مادہ(Dark Matter) کیا ہے، کشش ثقل کی مزید بہتر تھیوری کیا ہو سکتی ہے، بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے تناظر میں کولڈ فیوژن کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں – اُس نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا اور ٹھنڈی آہ بھرتا اپنی نامعلوم منزل کے سفر پر روانہ ہوا – شیرولِٹ ایک بار پھر پنسل کاپی ایک طرف رکھتے ہوئے اور ٹیپ ریکارڈر کا بٹن بند کرتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر اگر اپنے مشاہدے و تجربے کو معاشرتی ارتقاء کے تناظر میں بیان کرتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا مگر شاید وہ یہ سہرا ڈارون کے سر نہیں باندھنا چاہتا تھا-یُوں بھی ڈاکٹر کو ہر اِنسان کی طرح اپنے سر پر نئے نئے سہرے سجانے کا بہت شوق تھا – اِنسانی چہروں پر بندھے کئی سہروں کی سُنہری اور سیمیں لڑیوں سے منعکس ہوتی روشنی نے ایک لمحے کو شیرولِٹ کی آنکھیں چُندھیا دیں اور وہ واپس جانے کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی –

٭٭٭

 

عقبی آئینہ

               شہناز خانم عابدی۔کینیڈا

 لونگ روم میں بیٹھ کر وہ سب کافی پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ جھیل کے نظارے کا لطف اٹھا رہے تھے۔ جھیل لوِنگ روم کی کھڑکی سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ میریؔ بار بار خواب گاہ میں جا کر اپنے پانچ سالہ بیٹے کو دیکھتی جو تھوڑی دیر پہلے اس کی گود میں سو گیا تھا اور اس نے اسے خواب گاہ میں لٹا دیا تھا۔ایرکؔ (Erick)سکون سے سو رہا تھا، لیکن میریؔ ہر تھوڑی دیر بعد اسے دیکھتی، اس کی سانس کی آواز سنتی، اگر سانس کی آ واز صاف سنائی نہ دیتی تو اپنے کان اس کی ناک کے نز دیک رکھتی، کبھی کان اس کے دل کے نز دیک رکھ کر دل کی دھڑکن سنتی اور جب وہ محسوس کر تی کہ وہ صحیح طریقے سے سانس لے رہا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتی۔

 ان لوگوں نے پچھلے سال یہ چھو ٹا سا کاٹیج پہاڑی پر زمین خرید کر بنا یا تھا۔ زمین کا یہ ٹکڑا انہیں چھٹّیاں گزارنے کے لئے بہت پسند آیا تھا۔ یہاں سے جھیل صاف دکھائی دیتی تھی، لمبے لمبے درختوں سے گھرا ہوا یہ قطعہ زمین ان کے لئے قد رت کا حسین تحفہ ثابت ہوا تھا۔ درختوں کے ساتھ ڈھلان تھی وہاں پر ایک چشمہ تھا جس کا پا نی صاف اور ٹھنڈا تھا۔ کاٹیج رچرڈؔ نے خود اپنے ہاتھوں سے بنا یا تھا۔ بجلی کی وائرنگ، چشمے سے کاٹیج تک پانی کی پائپ لائن خود ہی ڈالی تھی۔پچھلے سال ایک مہینے کی چھٹّیاں ان لوگوں نے اس کاٹیج کو بنانے میں گزار دی تھیں۔ دن بھر وہ کام کرتے شام کو جھیل کی طرف ٹہلنے نکل جا تے، وہاں گھنٹوں بیٹھے رہتے، کبھی تاش کھیلتے، کبھی شطرنج، کبھی اپنے بیٹے ایرکؔ کے ساتھ فٹ بال کھیلتے۔وقت ان کے چاروں طرف خوشیاں بکھیرتا رہتا۔ ہوا مہربان ہوتی۔کبھی کبھی کسی مست لہر کے اچھالے ہوئے پانی کے ٹھنڈے ٹھنڈے چھینٹے بڑا مزہ دیتے ہواؤں کو بھی اور ان کو بھی۔۔۔۔۔۔۔ جب شام کا دھندلکا رات کی سیا ہی میں بدلنے لگتا تو تینوں اپنے کاٹیج کا رخ کر تے۔ ایک مہینہ کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا لیکن کاٹیج پورا تیّار ہو چکا تھا۔ کچھ چھوٹے موٹے کام رہ گئے تھے اس کے علاوہ فرنیچر ڈالنا اور آراستگی( Decoration)کا کام۔ کا ٹیج تمام ترمیریؔ کی پسندکے مطابق بنا یا گیا تھا، جگہ کا انتخاب بھی میریؔ ہی کی پسند سے کیا گیا تھا۔رچرڈؔ چاہتا تھاکہ اس کاٹیج کی ہر چیز میریؔ کی ہم مزاج ہو۔

 پچھلے سال اس پہاڑی پر صرف د و کا ٹیج تھے۔ ایک کاٹیج ڈھلان کے دوسری طرف بنا ہوا تھا، چشمہ اور کچھ لمبے درختوں نے (جن میں بیشتر فر اور برج کے تھے )اُس کاٹیج اور ان کے کاٹیج کے درمیان ایک آڑ سی بنا دی تھی۔ یہ تیسرا کاٹیج ان کے کاٹیج کے ساتھ ہی تھا چند قدم کے فاصلے پر۔ پال ہارویؔ (Paul Harvey)اور کمِ (ؔ Kim)نے اس کاٹیج کے بنانے میں بہت پھرتی سے کام لیا تھا۔

 رچرڈؔ اس مرتبہ ایک خاص مقصدسے یہاں آیا تھا۔ وہ ان چھٹّیوں میں اپنی ناول مکمّل کر نا چاہتا تھا۔ گھر میں چھٹّیوں کے باوجود کام ہو ہی نہیں پاتا، کبھی کسی کا فون آ جاتا، کبھی کوئی ملنے آ جاتا، کبھی کوئی دوست تفریحی پرو گرام بنا کر ساتھ چلنے کی ضد کرتا۔ اس لئے بہتر یہی تھا کہ اپنے کاٹیج میں بیٹھ کر یہ ناول مکمّل کی جائے۔جب رچرڈؔ نے یہ بات میریؔ سے کہی تو وہ بھی بہت خوش ہوئی اس نے کہا

’’ میں بھی اپنی وہ سب ادھوری پینٹنگز مکمل کر لوں گی جن پر مصروفیت اور سستی کی وجہ سے کام نہیں ہو سکا ہے۔‘‘ پہلا ہفتہ تو کاٹیج میں فرنیچر ڈالنا اور اس کو آ راستہ کرنے میں لگ گیا۔

 اس دن وہ بہت خوش تھے کاٹیج انکی مرضی کے مطابق تیّار کھڑا تھا اور رچرڈؔ اپنی ناول میں جُٹ گیا تھا۔ میریؔ جھیل سے تھوڑے فاصلے پراپنی پینٹنگ میں مصروف تھی۔ ایرکؔ اس کے پاس ہی کھیل رہا تھا۔ کھیلتے کھیلتے وہ جھیل کی طرف نکل گیا۔میریؔ بروش سے تیز تیز اسٹروکس لگانے میں اِیرکؔ  کے اچانک کھسک جانے کو محسوس نہ کر سکی۔ لیکن جلد ہی اس کی ممتا نے ایرکؔ کی غیر موجودگی کو سونگھ لیا ایرکؔ ؔ کو قریب نہ پا کر وہ’ ’ ایرکؔ ۔۔۔ایرک ‘ؔ ‘ چلّاتی ہوئی جھیل کی طرف دوڑی۔ جھیل کے کنارے کِرسؔ اپنے بازوؤں میں ایرکؔ کو لئے کھڑا تھا۔

’’ میں کشتی میں بیٹھنے کی تیّاری کر رہا تھا کہ اچانک بچہ جھیل میں گرا۔میں نے فورا ًہی بچے کے پیچھے چھلانگ لگائی اور اس کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ کرسؔ  نے  میریؔ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 میریؔ نے نیم بے ہوش ایرکؔ کو کرِس کے ہاتھوں سے گھسیٹ لیا اور کاٹیج کی طرف بھاگی کرِسؔ بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ کاٹیج میں پہنچتے ہی میریؔ نے ایرکؔ کو پیٹ کے بل لِٹا کر اس کے پیٹ سے پانی نکالا، تولئے سے سارا جسم خشک کیا، کپڑے تبدیل کئے، چِت لٹا کر اسکی سانس بحال کی۔ آہستہ آہستہ وہ ہوش میں آ گیا اگر چہ خوف اور ٹھنڈک کی وجہ سے اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ میریؔ اس کو گود میں لے کر بیٹھ گئی، رچرڈؔ نے جلدی سے تھوڑی سی برانڈی اس کے حلق میں ٹپکا ئی۔ حالات کو قابو میں آتا دیکھ کر کرِسؔ نے محسوس کیا کہ اسے اپنا تعارف کرا نا چاہئے۔

’’ مجھے کرس ہوپؔ کہتے ہیں اس نے رچرڈؔ  کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہوئے کہا اور یہ میرا دوست ڈیوڈ ملزؔ ہے ‘‘ اس دوران ڈیوڈؔ  بھی کشتی سے اتر کر وہاں پہنچ چکا تھا۔

’’ میں رچرڈ برگرؔ اور یہ میری بیوی میریؔ ، آپ دونوں کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمارے بیٹے کی جان بچا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیاہے ‘‘ رچرڈؔ  نے گرمجوشی سے کرِسؔ اور ڈیوڈؔ سے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کو لے کر لوِنگ روم میں چلا گیا، کافی سے ان کی تواضع کی۔ ایرکؔ اپنی ماں کی گود میں سو گیا۔۔۔ رچرڈؔ کے کہنے سے میریؔ نے اسے خواب گاہ میں لٹا تو دیا لیکن اس پر ایک انجانا سا خوف مسلّط تھا، وہ بار باراس کو جا کر دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ رچرڈؔ ، کرسؔ اور ڈیوؔ ڈ تینوں کا فی پی رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ڈیوڈؔ خاموش طبیعت تھا، کم ہی بول رہا تھا، کرسؔ بولنے والا، خوش مزاج آد می تھا وہی زیادہ با ت کر رہا تھا۔’ ’کرسؔ نے رچرڈؔ کو بتایا کہ ڈھلان کے دوسری جانب ان کا کاٹیج ہے، وہ دونوں دوست بھی گر می کی چھٹّیاں گزارنے آئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

 رچرڈؔ بہت کم باہر نکلتا، کاٹیج میں بیٹھا ناول لکھتا رہتا یا پھر اپنے بیٹے ایرکؔ کے ساتھ لگا رہتا۔میریؔ اکیلی جھیل کی طرف نکل جاتی

وہاں اکثر اس کی ملاقات کرِسؔ سے ہو تی۔ کرِس اس کو ایزل پر جھکا کسی لینڈ اسکیپ کو کینوس پر منتقل کرتا دیکھتا، وہ ایک اچھّی لینڈ اسکیپ آرٹسٹ تھی۔ ڈیوڈؔ کو جھیل سے عشق تھا وہ بہت کم کشتی سے باہر آتا کشتی رانی میں مگن رہتا۔اکثر ڈیوڈؔ اور کرسؔ دونوں کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کرتے۔ ایک دن ڈیوڈؔ نہیں آ یا۔ کرسؔ ، میریؔ کے پاس آ کر اس سے باتیں کر نے لگا۔

’’ تم اتنے ا چھّے ا ور خوبصورت لینڈ اسکیپ کیسے بنا لیتی ہو ‘‘ کرِسؔ بولا’ ’ اور میریؔ اس کی بات پر صرف مسکرا کر رہ گئی ‘‘ کرِسؔ تھوڑی دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا پھر  اچانک اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔

’’ چلو کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کر تے ہیں ‘‘

’’ کیوں آج تمہارا دوست ڈیوڈؔ کہاں ہے ‘‘ میریؔ نے پوچھا

’’ وہ اپنا کوئی پرو جیکٹ کررہا ہے ‘‘۔ کِرسؔ نے جواب دیا

 پہلے تو میریؔ نے منع کیا، پینٹنگ کا بہانہ کیا مگر کرسؔ کے اصرار پر وہ پینٹنگ کو ایزل پر لگا چھوڑ کر کرِسؔ کے ساتھ چلی گئی۔ اس دن کے بعد سے کرِسؔ اور میریؔ اکثر جھیل کی سیر کو نکل جا تے۔ڈیوڈؔ کو کسی ضروری پروجیکٹ کے سلسلے میں جوب پر واپس جانا پڑا تھا۔کبھی کبھی میریؔ ، رچرڈؔ اور ایرکؔ کو بھی کشتی میں لے جانے میں کامیاب ہو جاتی لیکن ایسا کم ہی ہوتا۔

 ایک رات چاند پورا تھا، جھیل کا حسن دوبالا ہو چکا تھا، میریؔ اور کرِ سؔ جھیل کی لمبی سیر کو چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میریؔ کاٹیج کے اندر داخل ہو ئی رچرڈؔ نے گھڑی دیکھ کر کہا۔

’’ بہت دیر ہو گئی ‘‘

’’آج میں اور کرسؔ جھیل کی سیر کو ذرا دور تک نکل گئے تھے۔ چاند کی آب و تاب اور جھیل کا حسن دیکھنے کے لائق تھا۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

ْمیریؔ نے جوتے اتارتے ہوئے کہا۔

’’ اور وہ تمہارا لینڈ اسکیپ مکمّل ہو گیا۔۔۔ ؟‘‘ رچرڈؔ نے سر گوشی کی۔ میریؔ  نے ایک بڑی سی جمائی لی اور بولی

’’ نہیں ‘‘

 دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے ہوئے رچرڈؔ نے میریؔ سے کہا۔’’ مجھے دو دن کے بعد آفس جانا ہے۔۔۔۔ شاید تمہیں یاد نہیں رہا۔۔۔‘‘

وہ سوچ رہا تھا کہ میریؔ تو پہلے سے شور مچانا شروع کر دیتی تھی کہ ہمیں جلدی نکلنا چاہئے تاکہ گھر جا کر آرام کرسکیں اور آفس جائیں تو کوئی تھکن نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔مگر اس مرتبہ۔۔۔

’’ تمہاری ناول مکمّل ہو گئی‘‘ میریؔ نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے پو چھا

’ ’ ابھی تھوڑی سی باقی ہے۔ ‘‘ رچرڈؔ نے کہا

’’میں ابھی یہاں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہوں ‘‘میریؔ نے رچرڈؔ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’ تنہا۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ رچرڈؔ  نے سوال کیا۔

’’یہ جگہ بالکل محفوظ ہے۔ اور ہمارے پڑوس میں پالؔ  اور کمِؔ بھی ہیں۔۔۔۔ اور کرِسؔ بھی ہے۔ میں اپنی پینٹنگز کو تھوڑا وقت دینا چاہتی ہوں۔‘‘ میریؔ نے کہا۔

 رچرڈؔ اسی دن اپنا سا مان پیک کر کے چلا گیا۔تاکہ رات سے پہلے گھر پہنچ جائے۔ رچرڈؔ کے جانے کے بعد کِرسؔ  زیادہ وقت میریؔ کے ساتھ گزارنے لگا۔ ایرکؔ بھی کرسؔ سے بہت ہِل گیا تھا۔ میریؔ اپنی پینٹنگز کے لئے بہت کم وقت نکال پاتی۔ کرسؔ یا تو اسے کشتی میں بٹھا کر جھیل کی سیر کرانے لے جاتا یا پھر شطرنج کی بساط بچھا کر بیٹھ جاتا۔ میریؔ خوش بھی تھی یہ اس کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی تھی کہ ایک کھلنڈرا مرد ہمہ وقت اسکے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔

 ویک اینڈ پر رچرڈؔ نے سوچا گھر میں بیٹھ کر ناول مکمّل کی جائے مگر پھر اسے میریؔ اور ایرکؔ کی یاد ستا نے لگی تو اس نے کاٹیج جانے کا فیصلہ کر لیا۔میریؔ کو فون بھی نہیں کیا کیونکہ وہ سرپرائز دینا چاہتا تھا۔جمعہ کی شام جوب سے فارغ ہوتے ہی اس نے کا ٹیج  کا رخ کیا۔

 ابھی وہ بیل بجانے ہی والا تھا کہ اسے اندر سے قہقہوں کی آوازیں آ ئیں۔ غور کرنے پر اس نے محسوس کیا کہ یہ آوازیں تو میریؔ اور کرسؔ کی ہیں۔ وہ کھڑکی کی طرف بڑھا، کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ اس نے جھانک کر دیکھا میریؔ اور کِرسؔ ایک ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر قہقہے لگا رہے تھے۔ ٹی وی پر کوئی مزاحیہ پروگرام چل رہا تھا جس کو دیکھ کر وہ دونوں ہنس رہے تھے رچرڈؔ کو میریؔ کا کِرسؔ  کے ساتھ اس طرح بے تکلّف ہو نا بہت برا لگا۔

’’کیا میریؔ اور کِرسؔ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘وہ اس کے آگے نہیں سوچ سکا۔۔۔۔۔۔۔

’’میریؔ جو اس کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہتی تھی ایک ہفتے سے یہاں ہے اور خوش ہے۔‘‘ اس کے اندر کسی نے دکھے دل سے سوچا اور وہ بوجھل قدموں سے چلتا ہوا گاڑی کی طرف گیا اور میریؔ اور ایرکؔ سے ملے بغیر واپس چلا گیا۔

 اس دن میریؔ کی آنکھ بہت دیر سے کھلی۔ کرِسؔ بھی نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔۔ ناشتہ وہ میریؔ کے ساتھ ہی کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔میریؔ کو اچانک رچرڈؔ کا خیال ستانے لگا وہ سوچنے لگی۔

’’کہاں ہے وہ ایک ہفتے سے۔۔۔؟اس نے کوئی فون کال بھی نہیں کی۔۔۔۔؟ میں نے دو مرتبہ فون کیا تو اس نے اٹھایا نہیں ‘‘

 ایرکؔ کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعدایرکؔ کے لئے بچّوں کا چینل لگا کر وہ باہرنکلی۔۔۔ اس نے دیکھا پالؔ  اور کِمؔ  کی گاڑی نہیں تھی۔’’ تو کیا یہ لوگ چلے گئے۔؟‘‘ یہ سوچتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھی۔ دروازہ بند تھا، اس نے گھنٹی بجائی۔ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔

’’ وہ لوگ چلے گئے۔۔۔۔!مگر کل ہی تو پالؔ کہہ رہے تھے کِمؔ کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو ئی ہے۔ابھی وہ ایک ہفتہ اور رکیں گے ‘‘’ ’ میریؔ کو پالؔ کی زبانی معلوم ہوا تھا ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کیتھرینؔ جس سے وہ د ونوں بیحد پیار کرتے تھے جس کی تعلیم و تربیت میں کِمؔ نے جان لگا دی تھی، ان کو چھوڑ کر ایک کالے لڑکے کیساتھ آسٹریلیا چلی گئی۔ ان کی ایک نہیں ما نی۔کِمؔ  اس صد مے کو برداشت نہ کر سکی اور جان لیوا ڈپریشن میں مبتلا ہو گئی تھی۔ ‘‘

کِمؔ  کی خاطر ہی پالؔ نے یہاں کاٹیج بنایا تھا۔ اور وہ کافی سنبھل بھی گئی تھی پھر اچانک۔۔۔۔۔وہ چلے گئے۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔؟

آگے بڑھکر اس نے کرسؔ کے کاٹیج کی طرف دیکھا، وہاں ڈرائیو وے پر اس کا ٹرک نہیں تھا۔۔۔۔۔پھر وہ جھیل کی طرف گئی۔۔۔۔۔۔ وہاں کِرسؔ کی کشتی بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔

’’ کرسؔ رات بارہ بجے تک میرے ساتھ تھا۔ اس نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ وہ صبح چلا جائیگا‘‘۔ وہ سوچنے لگی۔

جھیل سے واپسی پر لہروں کا شور اور ہوا کی آوازیں کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔شاید سنّاٹے کی و جہ سے۔۔۔۔۔۔اور یہ سنّاٹا اس کے اندر کے وجود پر چھایا ہوا تھا۔۔۔۔ اسے خوف سے جھر جھری سی آئی۔۔۔۔۔۔۔ وہ تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی کاٹیج پہنچی۔۔۔۔۔۔ ایرکؔ ابھی تک ٹی وی میں مصروف تھا۔ جلدی جلدی اس نے اپنا اور ایرکؔ کا سوٹ کیس پیک کیا، کاٹیج کی تمام چیزوں کو سلیقے سے رکھا، پورے کاٹیج کی صفائی کی، کاٹیج اچھّی طرح سے بند کیا۔ سارا سامان گاڑی میں رکھا، ایرکؔ کو بٹھا کر سیٹ بیلٹ لگائی۔ گاڑی اسٹاٹ کرنے سے پہلے اسے میل کا خیال آیا وہ گاڑی سے اتری میل باکس کھولا، میل باکس میں ایک ہی لفافہ پڑا تھا،لفافہ نکال کر اس نے میل باکس بند کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر لفافہ چاک کیا، لفافے سے بر آمد ہونے والے کاغذات دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئی۔۔۔۔۔۔ طلاق کے کاغذ تھے جو رچرڈؔ کے وکیل نے بھیجے تھے۔ دیر تک وہ گاڑی میں ساکت و صامت بیٹھی رہی۔۔۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ اسٹیرنگ حرکت میں آ گیا۔ وہ گاڑی چلا نے لگی تھی۔۔۔۔۔ بلا ارادہ جیسے وہ کار نہ تھی بلکہ زندگی کی گاڑی تھی جس کو بہر صورت چلنا ہی تھا۔

’ ’اپنے ناول نگار شو ہر کو پہچاننے میں اس سے غلطی ہو گئی تھی۔ ایک تخلیق کار اتنا زیادہ پوزیسیو (Possessive) ہوسکتا ہے۔۔۔۔اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔’ ’ اتنا تنگ دل ‘‘۔۔۔۔! ‘‘ وہ بڑ بڑائی۔

 اچانک اس کی نظر ڈرائیو وے پر پڑے گاڑی کے نشانات پر پڑی۔اس نے گاڑی روک دی اور اتر کر ان نشانات کا جائزہ لینے لگی’ ’’ ’ہوں۔۔۔۔۔‘‘ یہ نشان رچرڈؔ کی گاڑی کے ہیں۔۔۔ صاف اور واضح۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ کہ رچرڈؔ آیا تھا اور باہر کے باہر لوٹ گیا۔۔۔۔ او شِٹ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کرِسؔ کو اور مجھ کو دیکھا ہو گا۔۔۔۔۔ اور برداشت نہیں کر سکا۔‘‘

دیر تک وہ رچرڈؔ کی گاڑی کے پہیوں کے نشانات کو دیکھتی رہی، ان کے ساتھ کچھ دور چلی بھی۔۔۔۔۔۔اس دوران ایرکؔ گاڑی سے اتر کر باہر آ گیا۔ اس کے بچکانہ ذہن میں کچھ بھی نہیں سما رہا تھا۔ اسنے اپنی ماں کو اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر وہ اپنی ماں سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ میریؔ کی’ ممتا ‘ نے اپنے بیٹے کے ننّھے وجود کو اپنے قریب محسوس کر لیا۔۔۔۔ اس نے ایرکؔ کو لپٹا لیا اس کے رو برو جھُکی اپنی بھیگی آنکھوں سے اس کو دیکھا اس کا ماتھا چوما اور اسکو لپٹائے لپٹائے چلتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔ایرکؔ کو کار بیلٹ میں محفوظ کیا خود اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بیلٹ لگائی گاڑی کے دروازے لاک کئے اور گاڑی کاٹیج کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔ گاڑی آگے جا رہی تھی اور وہ۔۔۔ اس کا ذہن۔۔۔۔۔ اسکا دل۔۔۔۔۔ اس کی روح۔۔۔۔۔ اس کے اندر کا سا را و جود کسی گہری کھائی میں اترتا جا رہا تھا۔

’’ موم۔۔ ہم گھر جا رہے ہیں کیا۔‘‘ ایرکؔ کی آوازاس کے سماعت کے پردے سے ٹکرائی۔

’’نہیں میرے بیٹے ‘‘ اس نے اپنی آواز کو یہ کہتے سنا۔

’’ تو پھر ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔؟ ‘‘ایرکؔ نے قدرے بلند آواز میں پوچھا

’’ابھی میں سوچ رہی ہوں۔۔۔‘‘ اس کو اپنی آواز گہری کھائی میں سے آ تی ہوئی محسوس ہوئی۔

پھر ماحول پر خاموشی چھا گئی۔ایرکؔ بھی ایک خاموش حیرانی میں گم ہو گیا تھا۔ میریؔ اپنے ریفلیکس پر گاڑی چلا نے میں مصروف ہو گئی تھی۔ جب گاڑی کافی دور چلی گئی تو میریؔ نے رفتار دھیمی کر کے عقبی آئینے میں پیچھے دیکھا۔ پیچھے منظر غیر حقیقی ہو گیا تھا۔’ ’کیا جو کچھ عقب میں تھا اس کو رچرڈؔ سے جدا کرنے کے لئے وجود میں آ یا تھا۔ دونوں کو جدا کرنے کے بعد غائب ہو گیا۔ جھیل۔تینوں کاٹیج۔ پالؔ اور کِمؔ ۔ ڈیوڈؔ اورکرِسؔ کھلنڈرا۔۔۔جن یا کوئی بد روح۔۔۔۔ کام ختم ہوا تو سب ختم ہو گئے۔

٭٭٭

 

اعتراف

               بشریٰ ملک (جرمنی)

 ادھر آسمان پر آفتاب رات کے آخری ٹمٹماتے تارے کے دم توڑنے کا منتظر ہے کہ اپنی روشن شعاعوں کی حدت کے سرخ و نارنجی رنگوں کو چاند کے نیلے اور سفید رنگوں میں ملا کر دن کا اجالا بنا پائے اور اجالے کا یہ روشن سماں اندھیرے اور تاریکی سے خوف زدہ پناہ گزینوں کو اس کے دربار میں لا حا ضر کر ے اور اس کے کرم و قہر کا دور دورہ پھر سے شروع ہو۔

 ادھر زمین پر سورج کا دربار لگنے سے پہلے ہی پرندوں کی چہچہاہٹ،چوپائیوں کی گڑ گڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے۔سورج کی نومولود شعاعیں زمیں پر اترتے ہوئے مادر قدرت کی ان شاندار تخلیقات کو دیکھ کر دنگ ہوتی ہیں دو پاؤں پر چلنے والی مخلوق انسان اوراسکی عقل کی جولانیوں کو داد دیتی ہیں۔ان کا رہن سہن آپس کا التفات و محبت اور اجتماعیت پسندی کو قابل ستائش قرار دے کر آفتاب سے مادر قدرت کواس کی اس خاص تخلیق پر خصوصی مبارک باد کا پیغام بھیجنے کی درخواست کرتی ہیں۔

 آفتاب مسکراتا ہے۔

اور ان کو انسان کے مزید مشاہدے کا مشورہ دیتا ہے۔

اس مشورے پر شعاعوں میں باہم اعتراض بھری سرگوشیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ سورج انکو مغرور لگتا ہے وہ انسان کے سحر میں کھو کر ماند پڑ نا شروع ہو جاتی ہیں اور چھپ کر آفتاب کو دھندلکے میں ڈال کر کبھی بدلی کبھی بادل بنکر انساں کو چھاؤں اور پانی پہنچا کر اس کے نئے رنگوں اور ڈھنگوں کو دیکھ کر اپنے من کو خوش کرتی ہیں۔

آفتاب شعاعوں کو سمجھاتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہ عمری کے باعث اس مخلوق کا اصل روپ نہ دیکھ پائیں گی۔ یہ درندوں سے زیادہ چیر پھاڑ سکتا ہے۔یہ حشرات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔مگر شعاعیں اپنے عشق کی جولانی میں مست ہیں۔

سورج دھیرے دھیرے زمین کے گولے کو گھماتا ہے سڑکوں پر رواں فرد فرد انساں اپنی اپنی منزل پر پہنچ کر گروہ بنتے جا رہے ہیں اور آپس میں ایک دوجے کی مدد کر رہے ہیں۔اٹھلاتی لہراتی شعاعیں انکے کارناموں سے لطف اندوز ہو تے ہوئے اپنی روشنی اور گرمی نچھاور کر رہی ہیں۔

گروہ،مجمعے،جماعتیں،افواج سب بڑھ رہے ہیں

انسان کم ہو رہے ہیں،انسان گم ہو رہے ہیں۔ شعاعیں چلاتی ہیں

یہ زمیں پر کیا ہو رہا ہے۔

جنگلوں میں جانوروں کی طرح، سمنددروں میں مچھلیوں کی طرح،سائز رنگ و نسل کے مطابق مجمعے۔ کہاں کھو گیا انسان وہ گھبرا کر آفتاب سے پوچھتی ہیں۔

قبیلے،مذہب،عقیدے، نظریے،سوچیں ہڑپ کر گیں اسے۔

مگر انسان وہ حیرت انگیز انفرادیت اور حیثیت والا انسان،اس دنیا کو سجانے والا بڑھانے والا کہاں گیا فطرت ماں کا لاڈلا؟

کھو گیا۔

 دوسروں پر حاوی ہونے والے کھو جاتے ہیں۔ اجتماعیت میں شامل ہو جاتے ہیں۔

کچھ ہی دیر میں زمیں سے آنے والے دھو ل دھوئیں سے انہیں گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ گھومتی زمیں ان کی زندگی کو کم اور تجربات و مشاہدات کو زیادہ کر رہی تھی۔

 انکے سامنے زمین کا وہ حصہ آتا ہے جہاں بموں سے ٹوٹتے گھر، بہتا خون، انسان کو ختم کرتے انسان دکھائی دیتے ہیں تو ان کا رنگ فق ہو جاتا ہے فضاء میں گھٹن اور اندھیرا چھا جاتا ہے۔

 وہ گھبرا کر آفتاب کو دیکھتی ہیں

آفتاب جواب دیتا ہے۔

 سمجھنے کے لیے مشاہدہ ضروری ہے۔ میں پسنددیگی کو فیصلہ نہیں سمجھتا۔ تجربات کرو۔

شعاعیں سوال کرتی ہیں۔ مگر ہمارے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔اس معمہ کو کیسے حل کر پائیں گے۔

جواب ملتا ہے۔وقت کے چکر میں پڑنے والے کچھ نہیں کر پاتے

سوال آتا ہے

 آخر یہ اجتماعی رویئے کیسے بن جاتے ہیں ؟ اور اتنے مؤثر کیسے ہو جاتے ہیں ؟

 غم سے شعاعوں کی روشنی اور گرمی بجھنے لگتی ہے وہ آ ہیں بھر بھرکر بخارات میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

 نیند کی غنودگی میں ڈوبتا آفتاب ان کے فنا ہونے سے پہلے ان کو بہت کچھ بتانا چاہتا ہے۔

انسانیت سے متعارف کروانا چاہتا ہے۔

یہ معصوم شعاعیں بہت کچھ جانے بنا ہی انسانیت کی ہونے کی، آگہی پانے سے پہلے ہی خود کشی کر لیتی ہیں اور رات کے پچھلے پہر ان کے آنسو شبنم بن کر زندگی پر سے گروہ بندی کی ضرورتوں کی میل کو دھوتے ہیں۔

 انسانیت جسے یہ زعم ہے کہ فطرت نے اسے بنانے کے لیے ہی تخلیق کائنات کی ہے وہ شعاعوں کی اس خود کشی پر فطرت ماں سے احتجاج کرتی ہیں۔ اور ایسی دنیا مانگتی ہے۔ جہاں کرم و محبت جیسی صفات اجتماعی رویے پر قربان نہ ہوں۔جہاں مذہب کو طاقت نہ بنایا جائے،جہاں طاقت ور کمزوروں پر مسلط نہ ہوسکیں۔

مادر فطرت انسانیت کے احتجاج کا نوٹس لیتی ہے اور عقل کو وکالت کے لیے بلاتی ہے۔

عقل مادر فطرت سے کہتی ہے کہ

 پہلے قدرت انساں میں موجود شر و خیر کی نشاندہی کرے۔کہ آخر خیر کیا ہے اور شر کیا۔اگر فائدہ خیر اور شر نقصان کا نام ہے تو پھرانسان جو کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔

وہاں انسانیت کا کوئی کردار نہیں رہ جاتااس کو مٹا دیں۔

انسانیت کی موجودگی میری کوکھ کے لیے لازمی ہے۔

یہی انسان میں جنم لینے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔یہ نہ رہی تومیں بانجھ ہو جاؤں گی۔ کوئی دوسرا حل بتاؤ

 تو پھر اس فائدے کی ہوس مٹا دیں۔

فطرت بے بسی سے سر نفی میں ہلاتی ہے۔

یہ تو اسکی مٹی میں گندھی ہے۔

عقل فطرت کے اس نکتے پر کہتی ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ انسانیت خود اپنی بقا کے لیے، انساں کے تصور میں آسمان سے آئے ہوئے فرمان کے تحت اپنے فائدے کو خیر اور دوسرے کے فائدے کو شر کہہ دیتی ہے انسان اس کوآسمان کا پیغام سمجھ لیتے ہیں۔مزید افسوس یہ آسمانی احکامات ایک خاص عرصے تک خاص حصوں تک موثر رہتے ہیں۔ اسکے بعد ا ن میں تبدیلی آتی ہے جو گروہ بندی کا باعث ہے۔ اے فطرت،ماں اپنے بچوں کی تمام غلطیاں معاف کر دیا کرتی ہے۔اور ان کی خواہشات پوری کر کے ہی ماں ہونے کا اعزاز پاتی ہے۔ لہذا اس مقدمے کو برخاست کر دے، دنیا جیسے چل رہی ہے اسے چلنے دے۔

 آفتاب ہر شام شعاعوں کے لاشے سمیٹ سمیٹ کر ان کے خون سے لال ہو جاتا ہے اور اندھیرے کی چادر میں منہ چھپا کر روتا رہتا ہے۔

چاند اور تارے انسانیت کی بے بسی پر شب عاشور مناتے ہیں۔

٭٭٭

 

طنزو مزاح محاورے اور ضر بُ الامثال

               ڈاکٹر منصور احمد(امریکہ)

            محاورے کا لفظ غالباً محور سے نکلا ہے جس کے معنے گھو منے کے ہیں یہی وجہ ہے کہ پر ا نے بز ر گ مثلاً ا ستا د ذوق وغیرہ کھا نے کے وقت پر جا مع مسجد کی سیڑھیوں پر چڑ ھ جا تے تھے اور گھومنے پھر نے و ا لے لو گوں سے پوچھتے تھے کہ بھائی آ ج کا تا زہ محاورہ کیا ہے اور جوتیوں میں د ا ل کہاں بٹ رہی ہے۔اس سے ادب کی بہت ترقی ہو تی تھی۔ اکثر محاور ے اہل د لی نے دریافت کیے تھے لہٰذا مشہوری کے لیے خو اہ مخواہ اپنے شہر کا نا م بیچ میں ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:

                         ابھی د لّی دور ہے۔ چنا نچہ اکثر لوگ دلّی میں ر ہتے ہو ے بھی یہی کہتے تھے کہ ابھی دلّی دور ہے۔

ضر ب الا مثال ان مثالوں کو کہتے ہیں جنہیں ضر ب دے کر عو ام کے سا منے پیش کیا جا ے مثلاً:

نو سو چو ہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ یعنی اگر ایک بلی روز ا نہ دو چو ہے کھا تی ہے تو ہفتے میں چودہ چو ہے کھائے گی اور مہینے میں چو ر ا سی چوہے۔ اس حسا ب سے اسے حج پر جا نے کے لیے ایک سا ل دو مہینے پند رہ دن اور چھ گھنٹے انتظا ر کر نا پڑ ے گا۔ اگر دیکھا جا ے تو بلی کے لیے یہ سو دا بر ا نہیں بشر طیکہ ضر ب ٹھیک طر ح سے دی جائے۔

            نو کا عدد اکثر محاوروں میں آتا ہے جیسے : نو دو گیا رہ۔ نو نقد نہ تیرہ ادھار۔ نو تیرہ با ئیس بتا نا۔ وغیرہ۔ اس سے ثا بت ہو تا ہے کہ اہل دلی نو سے زیا دہ گنتی کبھی کبھا رہی کر تے تھے۔کچھ محاوروں کا مطلب سو چ سو چ کر بھی سمجھ میں نہیں آتاجیسے :جہاں بہو کا پسار و وہاں خسر کی کھا ٹ۔ اس محاورے کو پڑ ھ کر خسر اور بہو کے تعلقات کے با رے میں اچھے خیالات نہیں پیدا ہو تے اسی طر ح ما ئی جی کا تھا ن کھیلے چو گا ن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ما ئی مذکورہ پو لو کی کھلا ڑ ی تھیں اور اگر خو د میچ پر نہ پہنچ سکتیں تو اپنے تھا ن کو روانہ کر دیتیں۔

            کچھ محاورے اتنے پیچیدہ ہو تے ہیں کہ ان کے سا تھ ان کا طریقۂ ا ستعما ل بھی بیا ن کر نا چا ہیے  مثلاً:

             چھلنی میں ڈا ل کر چھا ج میں اڑانا۔یعنی پہلے گند م و غیرہ کو چھا ج میں پھٹکا جا ئے تا کہ پتھر وغیرہ الگ ہو جائیں پھر چکی سے جا کر آٹا پسو ا یا جائے پھر اسے چھلنی میں چھا نا جائے اور پھر آٹا گوندھا جائے اور لکڑ یاں جلا کر روٹی پکا ئی جائے۔ اب آپ ہی کہیے کہ اتنی با ریکیاں نکالنے سے بہتر نہ ہو تا کہ با ز ا رسے جا کر ڈبل روٹی لے آتے۔

                        طا لب علموں کی دلچسپی کے لیے ہم مزید چند مثالوں کا ذکر کر تے ہیں : چور کی داڑھی میں تنکا۔ اس سے ثا بت ہو تا ہے کہ چور وہی ہو گا جس نے داڑھی رکھی ہو گی۔ اور ظاہر ہے کہ جتنی لمبی داڑھی رکھی ہو گی اتنا ہی مشکل تنکا تلا ش کر نا ہو گا۔ پھر بھی اگر آپ یہ عمل کر نا چا ہیں تو اپنی ذمہ دار ی پر کریں کیونکہ چوروں کے پاس داڑھی کے علا وہ اسلحہ اور گولہ با رود بھی ہو تا ہے۔

            اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ما ر نا۔ آج کل یہ کا م ذرا مشکل ہے کیوں کلہاڑی کا رواج بہت کم ہو گیا ہے۔ پھر بھی اگر آپ اس محاورے پر عمل کر نے پہ مصر ہوں تو کسی ہسپتا ل کے آس پا س جا کر ایسا کریں تاکہ آپ کو فوری طبی امداد مہیا کی جا سکے۔ ہاں اور محاورے میں یہ نہیں کہا گیا کہ کلہاڑی زور سے ماریں اور خو اہ مخواہ اپنا پاؤں زخمی کر بیٹھیں۔

            آپے سے باہر ہو نا۔ ہاں یہ با ت ٹھیک ہی لگتی ہے۔ کبھی کبھار اپنے خو ل سے با ہر بھی آنا چاہیے۔

            آسما ن سے گرنا کھجور میں اٹکنا۔ زمین پر گر نے سے بہر حا ل کھجور میں اٹک جا نا کہیں بہتر ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو فکر کی کوئی با ت نہیں کھجور انتہائی صحت افزا اور مفید پھل ہے خصو صاً جب اسی وقت درخت سے اتار کر کھا یا جائے۔

            آسما ن سے باتیں کر نا۔ آسما ن سے باتیں ذرا ٹھیک طر ح سے کر نا چاہیے کیوں کہ اگر یہ آسما ن کی مر ضی کے خلا ف ہوں تو پھر کھجور میں اٹکنا پڑ تا ہے

            پاؤں بھا ری ہو نا۔ ہم آپ کو یقین دلا تے ہیں کہ اس محاورے کا پاؤں کے سا تھ کوئی جائز تعلق نہیں البتہ اگر کو ئی نا جائز تعلق ہو ہمیں اس کا علم نہیں۔ چند ماہ میں خود ہی سا منے آ جائے گا۔

            ڈوبتے کو تنکے کا سہا را۔ یہ محاورہ اسی وقت تک ہی اچھا لگتا ہے جب تک ڈوبنے والا کو ئی اور ہو۔ اس سے ہمیں ایک اور محاورہ یا د آ گیا کہ دو سروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ اگر ڈوبتے وقت یہ شہتیر آپ کو نظر آ جائے تو آپکے بچنے کے امکا نا ت کا فی بڑ ھ جا تے ہیں۔

            لو ہے کے چنے چبا نا۔ ایسا نہیں کر نا چاہیے کیوں کہ ایسا کر نے سے دانتوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہے جس کے بعد آپ کو ڈینٹسٹ کے پا س جا نا پڑ ے گا۔علا ج دندان اخراج دندان۔ ڈینٹسٹ کے پا س جا نے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا

            سا نچ کو آ نچ نہیں۔ وا ح رہے کہ یہاں سچ کا ذکر ہے سچ بولنے وا لوں کا نہیں۔آخر الذکر کو اکثر آنچ دی جاتی ہے بلکہ جلا کر بھسم بھی کیا جا تا ہے۔

            اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ ہم اس محاورے کے حق میں نہیں۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے لیے اونٹ اور سیڑھی کے علاوہ اونٹ کے سا تھ اچھے تعلقات کی ضرورت بھی پڑ تی ہے

بھینس کے آگے بین بجا نا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ بھینس ایک نہایت لطیف جا نور ہے جسے مو سیقی سے طبعی رغبت ہے۔ جد ید طبی سا ٰئنس سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ اگر بھینس کے سا منے چا ر گھنٹے بین بجا ئی جائے تووہ چا ر سیر زیادہ دودھ دے گی اور اگر اس کے پیچھے بین بجا ئی جائے تو گو بر۔

ؒ            لا لچ بر ی بلا ہے۔ یہ ہمیں بھی اچھی طرح سے معلوم ہے لیکن آپ کے کہنے پر ہم حا تم طا ئی بن کر اپنا نقصان نہیں کرا بیٹھیں گے۔

            اپنا الو سیدھا کر نا۔ پہلے ایک الو پا لیں اور ہر روز سو نے سے پہلے اس کا مشاہدہ کریں ( الو کے سو نے سے پہلے)۔جب وہ درخت سے الٹا لٹک کر سو نا شروع کر دے تو اس کو فو را سیدھا کر دیں۔ایک دفعہ تجربہ ہو جائے تو دوسروں کے الو سیدھے کر نے شر و ع کر دیں۔

            عقل چر نے کو جا نا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ یہ مضمون پڑ ھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ جب آپکی عقل چر کر واپس آ جائے گی تو آپ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ عقلمند محسوس کریں گے۔

            یہ تو تھے کچھ پرا نے محاورے۔ اب زمانے کے طور طریقے بدل گئے ہیں لہٰذا اگر کچھ نئے محاوروں کا ذکر بھی ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ چند مثالیں پیش خد مت ہیں :

            الیکشن ہونا۔ یعنی چوروں کی ایک پا ر ٹی کا دوسری پا رٹی سے تبدیل ہو جا نا۔ انتہا ئی ما یوس کن صورتحال کے لیے بو لا جا تا ہے جیسے اب ملک کے بچنے کی کوئی امید نہیں الیکشن ہو چکے ہیں۔

            ووٹ دینا۔انتہا ئی بیکا ر کام کو کہتے ہیں جس کا کبھی کو ئی نتیجہ نہ نکلے۔ مثلاً بیوی ( خاوند سے) آپ نے ساری عمر ووٹ ڈالنے کے علا وہ کیا ہی کیا ہے۔ خاوند ( اپنے آپ سے) شا دی کے بعد میر ا الیکشن ہو گیا ہے۔

            بجلی آنا۔ بہت بے یقینی کیفیت کے لیے بولا جا تا ہے جیسے عا شق ( محبوب سے) اب کے بچھڑ ے تو شاید بجلی آنے پرہی ملیں۔ محبوب ( عا شق کا ہا تھ پکڑ تے ہو ے) ایسا تو نہ کہو ابھی میر ی شاد ی میں کئی مہینے پڑ ے ہیں۔

            گیس ہو نا کھا نا پکا نا۔ بہت زیادہ خو شی کے موقعے پر بو لا جا تا ہے جیسے پہلے بیٹے کی پیدائش کی خو شی پر اسے یوں لگا جیسے گھر میں گیس ہو اور اس کی بیوی اس پر کھا نا پکا رہی ہو۔

            گنجے کا با ل بنا نا۔ ان گنجوں کے لیے بو لا جا تا ہے جنہیں خدا نا خن دے دیتا ہے۔ وہ ان نا خنوں سے خو ب دو لت جمع کر تے ہیں اور پھر اس دولت کو استعما ل کر تے ہوئے ڈاکٹروں سے اپنے سر پر مصنوعی بال لگو ا تے ہیں اور سب کو دکھا نے کے لیے نا خنوں سے اپنے بال بنا تے ہیں۔ ایسے گنجے بال لگو ا نے کے بعد عموماً دوسر ی شا دی بھی کر تے ہیں لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی بیوی کے با لوں کی طر ف اشارہ ہو۔

            خد مت کر نا۔ یعنی لو ٹ ما ر کر نا۔ مثلاً ً سیا ست دان ( عوا م سے) میں اقتدار میں آ کر آ پ کی اچھی طر ح سے خد مت کروں گا۔

            اسلا م نافذ کر نا۔ اپنے علاوہ سب کو کا فر اور واجب القتل قرار دے دینا۔ جیسے ( ایک فرقہ دو سر ے فرقے سے) اپنی خیر مناؤ اب اسلا م نافذ ہو ا چاہتا ہے۔

            ما رشل لا آنا۔ ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کا آنا ہر عشر ے کے بعد لا زمی ہو۔ جیسے قرب قیامت کی علا ما ت ہیں۔ زلزلے طوفان اور قد ر تی آفات ایسے آ رہی ہیں جیسے پا کستا ن میں ما رشل لا آتا ہے۔

ٓ            اسلا م کا قلعہ بنا نا۔مطلب صاف ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سا ٹھ سا لوں میں ہم نے پا کستا ن کو امن، انسا نیت، عدل اور انصاف سے پا ک کر کے اسلام کا قلعہ بنا دیا ہے۔ یہ ہو ا ئی قلعے بنا نے کے کا فی قریب ہے۔

 پا کستا ن زندہ با د۔ لو گوں کو بے وقوف بنا نے کے معنوں میں استعما ل ہو تا ہے جیسے وزیر اعظم ( عوا م سے) ہم آپ کو خو ن چو سنے وا لے  جا گیر داروں اور سر مایہ داروں سے نجا ت دلائیں گے۔ ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ بجلی پا نی اور گیس کی قلت دور کی جائے گی۔غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر شخص کو عز ت اور انصاف میسر ہو گا یعنی پا کستا ن زندہ با د۔

٭٭٭

 

 کتابوں پر تبصرے

               تبصرہ نگار:حیدر قریشی

پسِ دیوارِ گریہ(نظمیں )۔۔۔۔۔۔شاعرہ: شہناز نبی

 شہناز نبی کی اولین ادبی شناخت ایک خوبصورت شاعرہ کی ہے۔اگرچہ بعد میں انہوں نے تحقیق و تنقید کے بعض خاص میدانوں میں بھی جھنڈے گاڑے اور اردو افسانے کی پیش رفت میں بھی اپنا حصہ ڈالا،تاہم یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان کی پہلی پہچان ان کی شاعری تھی۔۱۹۹۰ء میں ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’بھیگی رُتوں کی کتھا‘‘ شائع ہوا تھا۔۲۰۰۱ء میں ان کی نظموں کا مجموعہ ’’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ شائع ہوا اور ۲۰۰۸ء میں ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ’’پسِ دیوارِ گریہ‘‘ منظرِ عام پر آیا۔

’ ’پسِ دیوارِ گریہ‘‘ میں ۱۷۱ نظمیں شامل ہیں۔ان میں موضوعات کا تنوع ہے۔اپنی نجی زندگی کے معاملات سے لے کر اپنے اردگرد کی زندگی،اپنے ماحول،اپنے معاشرے اور پھر اپنی گلوبل دنیا کے حالات تک کے موضوعات شہناز نبی کی نظموں میں کسی نہ کسی رنگ میں در آتے ہیں۔ شروع کی چند نظموں کے عناوین سے ہی اس تنوع کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

’ ’اے عنایت کی نظر،کچھ ایسی راتیں،میں کیوں مانوں،منتظم، مرے دوست مجھ سے خفا ہو گئے ہیں،حسین تمی کوتھائے، ٹوٹ رہی ہیں سب دیواریں،مجھے مت اس طرح دیکھو،تاریخ کے مردہ خانے سے، امن، اوندھے منہ گرنے سے پہلے، میں کیا دیکھنا چاہتی ہوں،کٹھ پتلی ‘‘

نظموں کے عمومی انداز کی نشان دہی کے طور پری ہاں شہناز نبی کی آخری نظم فرہنگ کا آخری حصہ پیش کر رہا ہوں۔

یا پھر اس کی فرہنگ؍کسی ایسی نمائش میں سجے؍جہاں مری ہوئی زبانوں کے نمونے رکھے جاتے ہیں ؍اور ماہرینِ لسانیا ت سے مطالبہ کیا جاتا ہے ؍کہ وہ معنی دریافت کئے جائیں ؍جو لفظوں میں نہیں ہیں ؍لیکن تب تک دیر ہو چکے گی!

 موضوعاتی تنوع کے باوجود ذاتی زندگی سے لے کر گلوبل زندگی تک’’ مسلسل سفر‘‘ شہناز نبی کی نظموں میں جیسے خاص معنی کے ساتھ موجود رہتا ہے۔مسلسل سفر کے دوران کئی پڑاؤ آتے ہیں،لیکن ایسے پڑاؤ بھی اگلے سفر کا استعارہ ہوتے ہیں۔’

’پسِ دیوارِ گریہ‘‘ کی نظمیں اس مسلسل سفر کی روداد ہیں۔اور شہناز نبی کے شعری سفرکا ایک اہم سنگِ میل۔

ایسا سنگِ میل جو اگلے اسفار کی طرف اشارا بھی کر رہا ہے۔

٭٭٭

 

من کی آنکھیں کھول(دوہے) ۔۔۔ شاعر:امین خیال

 امین خیال پنجابی کے معروف و ممتاز شاعر و ادیب ہیں۔پنجابی زبان میں ان کی ادبی خدمات کا ایک مستقل سلسلہ رہا ہے۔ادھر انہوں نے اردو زبان و ادب کو بھی اپنی تخلیقات سے نوازا ہے۔اردو ماہیا میں ان کی گراں قدر علمی و تخلیقی خدمات ہیں۔اردو ماہیا کی طرف ان کی توجہ سے اردو ماہیا کی تحریک کو بڑی تقویت ملی تھی۔علمی مباحث کے حوالے سے بھی اور تخلیقی اضافے کے حوالے سے بھی۔اردو ماہیا کے ساتھ امین خیال نے اردو میں ہندی لہجے کو اپناتے ہوئے دوہے بھی کہے ہیں۔

’ ’من کی آنکھیں کھول‘‘ امین خیال کے دوہوں کا مجموعہ ہے۔دوہے کی ماتراؤں کے شمار کے حساب سے اخلاق حیدرآبادی نے کتاب میں شامل اپنے تنقیدی جائزہ میں بتایا ہے کہ’’امین خیال نے چھیالیس حرفی سے لے کر چھپن حرفی تک دوہے لکھے ہیں ‘‘۔یوں دوہا بھی رباعی کی طرح کثیر الاوزان دکھائی دیتا ہے۔تاہم میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جن ماتراؤں کا تعین کیا گیا ہے،ان کے شمار کے ساتھ دوہا میں بسرام کا ہونا ضروری ہے۔بسرام سے عاری دو مصرعوں کو’ ’دوہا نما‘‘ کہا جا سکتا ہے،دوہا نہیں۔چاہے ایسے دوہا نما کو دوہا کے نام پر کسی بھی عالی نسب نے کیوں نہ پیش کیا ہو،وہ دوہا نما رہیں گے،دوہا نہیں۔امین خیال کے دوہوں میں سے چند دوہے یہاں پیش ہیں۔

رہ جاوے اس جگ میں جگمگ کرتا تورا نام

 کہت خیالؔ سنو بھائی سادھو کیجو ایسا کام

رے جوگی کی جوگنی، ایسی پیت لگا

میں اور تو کے بیچ میں فرق رہے نہ کا

بھری کٹوری موت کی ہر کوئی لے گا پی

آخر یہ جگ چھوڑنا،سال ہزاروں جی

 پاکستان میں اردو دوہے کے حوالے سے امین خیال کا مجموعہ’ ’من کی آنکھیں کھول‘‘ بھی موضوعِ گفتگو رہے گا۔

٭٭٭

 

نَرک(ناول)  ۔۔۔ ناول نگار:نسیم انجم

 نسیم انجم ایک عرصہ سے اردو فکشن میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے بھی لکھتی رہی ہیں اور مسلسل کالم نگاری بھی کر رہی ہیں۔بطور کالم نگار تو میں انہیں کچھ عرصہ سے پڑھتا آرہا ہوں لیکن ان کا ناول’ ’نَرک‘‘ مجھے حال ہی میں پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔یہ ناول ایسے ہیجڑوں کی زندگی پر مشتمل ہے جن میں سے بعض قدرتی طور پر ایسے تھے تو بعض کو اغوا کر کے جبراً ہیجڑہ بنا دیا گیا۔اس موضوع سے متعلق انڈیا میں دو تین فلمیں بن چکی ہیں۔ایک دو پاکستانی ڈراموں میں بھی اس حساس موضوع پر کافی سنجیدگی کے ساتھ صورتِ حال کو پیش کیا گیا ہے۔ادبی طور پر افتی نسیم اس موضوع سے خود براہ راست منسلک رہے اور انہوں نے اس المیہ کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا۔تاہم خود اس المیہ کا حصہ ہونے کے باعث ان کی تحریر میں غم و غصہ اور انتقامی رویہ جلد ابھر آتا ہے۔ادبی شخصیت ہونے کے باوجود افتی نسیم اس موضوع سے متعلق کوئی سنجیدہ بڑا کام نہیں کر پائے۔

 نسیم انجم کا کمال ہے کہ ایک خاتون ہوتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اس حساس موضوع پر ناول لکھا بلکہ ناول لکھنے کا حق ادا کر دیا۔’ ’نرک‘‘ ننھے ببلو کی المناک داستان ہے،اس کے ماں باپ دونوں ڈاکٹر تھے۔ایک دن اس بچے کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھراسے جبراً ہیجڑہ بنا لیا جاتا ہے۔ اسے گلنار نام دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں رچ بس جانے کے بعد ایک دن آتا ہے جب اسے ہیجڑوں کا گرو بنا دیا جاتا ہے۔ہیجڑوں کی زندگی کے معمولات تو پورے ناول میں موجود ہیں تاہم اس بیچ دو خاص واقعات سامنے آتے ہیں۔گلنار(ببلو)کی طرح ایک بچہ کہیں سے اغوا کر کے لایا جاتا ہے۔گلنار کو اپنا زمانہ یاد آ جاتا ہے اور وہ سب سے چوری کسی نہ کسی طرح اسے اس کے گھر پہنچا دیتی ہے۔تب اسے لگتا ہے کہ اس نے ببلو کو اس کے ماں باپ کے پاس پہنچا دیا ہے۔دوسرا واقعہ ایک نارمل نوجوان دانش کا پیش آتا ہے جو صحافت کی دنیا میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔لیکن سخت گیر باپ کی سختی اور حالات کی ستم ظریفی اسے گلنار کے گھر تک پہنچا دیتی ہے۔ہیجڑوں کے طور طریق کے مطابق وہاں اس کی گلنار سے شادی ہو جاتی ہے۔اس کا سخت گیر باپ اسے عاق کر دیتا ہے۔ماں بیٹے کی جدائی کے غم فوت ہو جاتی ہے۔تب اس کے باپ کے رویے مین تبدیلی آتی ہے۔ اس کی دوست تانیہ اسے اس دلدل سے نکلنے میں مدد دیتی ہے۔اگر وہ ملک میں رہتا تو ہیجڑے اسے کسی بھی طریقے سے قتل کرا دیتے،اس لیے دانش اور تانیہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں،اپنے والد سے اس کی صلح ہو جاتی ہے۔گلنار دانش کی یاد میں پریشان ہوتی ہے۔جب اس کا آخری وقت قریب آتا ہے وہ سارے ہیجڑوں کو سمجھاتی ہے کہ دوسروں کی تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بننے سے بہتر ہے ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اسی معاشرے میں گھل مل کر معمول کی زندگی گزاریں۔یہ ایک طرح سے اپنے معاشرے کے لیے بھی پیغام ہے کہ انسانوں کی اس صنف کو بھی انسان سمجھ کر اپنے ماحول میں جگہ دیں اور ہیجڑہ برادری کو بھی درس ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی بجائے نارمل انسان کی طرح محنت کر کے،پڑھ لکھ کر ملازمت کریں،کاروبار کریں۔ بظاہر یہ سیدھی سی کہانی ہے (بس دانش اور تانیہ کے محبت آمیز مکالمے میں ایسے لگتا ہے جیسے خواتین کے کسی رسالے کی رومانی کہانی پڑھ رہا ہوں )لیکن ناول کی تیکنیک میں نسیم انجم نے اپنے انوکھے موضوع کے تمام کرداروں کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ان کی الگ الگ اور ملتی جلتی نفسیات،طور طریق،بظاہر پھکڑ پن مگر بباطن زخمی روح،درد کے اَن دیکھے اور ان جانے دیار،نسیم انجم نے اتنا کچھ اتنی مہارت سے بھر دیا ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے اس ناول کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے کئی بار میرا دل بھر آیا۔کئی مقامات پر مجھے خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ببلو کی نفسی کیفیات نے تو دہلا کر رکھ دیا۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نسیم انجم نے اس حساس موضوع پر ابھی تک کا سب سے بڑا ناول لکھ دیا ہے۔

٭٭٭

 

تقریب

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی کتاب ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریبِ رونمائی

               محمد اسماعیل اعظم (برمنگھم)

 سماجی و ادبی تنظیم’ ’آگہی‘‘ کی جانب سے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی پوپ کہانیوں کے مجموعے ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیاجس کی صدارت جرمنی میں مقیم معروف ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف حیدر قریشی نے کی جبکہ مہمان خصوصی جدید لہجے کے نامور شاعر زاہد مسعود تھے جو خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔

 مقررین نے نہ صرف’ ’پوپ کہانی‘‘جیسی نئی صنفِ نثر کے جواز اور ارتقاء کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا اور ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی ادب و شعر کے ساتھ وابستگی کو سراہا۔حیدر قریشی نے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو پوپ کہانی کی شناخت کی تفہیم میں بنیادی کام کرنے پر سراہا۔زاہد مسعود نے کہا کہ جونہی اس صنف میں اعلیٰ پائے کا ادبی اور تخلیقی کام ہوا،یہ نئی صنف بھی اردو ادب کی ایک معتبر صنف کے طور پر تسلیم کر لی جائے گی۔پیرائے اظہار کے حوالے سے رضیہ اسماعیل کی یہ کاوش بنیادی طور پر اردو ادب کے فروغ کا ہی عمل ہے۔حمیدہ معین رضوی اور خواجہ محمد عارف نے بھی’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی ادبی کارکردگی کے بارے میں مقالات پیش کیے،جنہیں بے حد پسند کیا گیا۔ تقریب میں مصنفہ نے اپنی کہانیوں کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔عقیل دانش اور امجد مرزا نے کتاب پر مضامین لکھ کر بھیج دئیے مگر بوجوہ شریک محفل نہ ہو سکے

 بعد ازاں عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے مشاعرہ ہوا۔جس میں لندن،برمنگھم،جرمنی اور پاکستان سے آئے ہوئے شعراء نے کلام سنایا۔صدرِ مشاعرہ حیدر قریشی تھے جبکہ مہمانِ خصوصی زاہد مسعود تھے۔دیگر شعرائے کرام میں ڈاکٹر رضیہ اسماعیل،آدم چغتائی،حمیدہ معین رضوی،طلعت سلیم،فاروق ساغر،خواجہ عارف،پاکیزہ بیگ،ممتاز احمد،عشرت قاضی،رضا احمد،ساجد یوسف،اقبال غالی اور عبدالرب ثاقب، شامل تھے۔ شعراء کے اشعار جو فوری طور پر میسر آسکے،پیش ہیں۔

جب اُس نے خاک اُڑانے کا ارادہ کر لیا ہے

تو ہم نے دل کے صحرا کو کشادہ کر لیا ہے

آنکھیں اُس کی بھی ہیں اب برسات بھری

حیدرؔ میل دلوں کے دھلنے والے ہیں

 یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدرؔ

سلام پھیر لیا ہے رکوع سے پہلے

(حیدر قریشی)

خون دے کر جو حاصل کیا تھا کبھی وہ نگر چھوڑ دیں چور گلیوں میں پھرنے لگے ہیں تو کیا اپنا گھر چھوڑ دیں

اتر گئے تھے کھلے پانیوں کی نیند میں ہم

نہ خواب ختم ہوئے اور نہ بادبان کھلے

 خدا کرے کہ سرِ آئینہ سلامت ہو

وہ اک یقین کہ جس پر کئی گمان کھلے

(زاہد مسعود)

ہم وقت کے منصور ہیں،پتھر ہمیں مارو

سچ کہنے پہ مجبور ہیں پتھر ہمیں مارو

ہم وقت کی تختی پہ ہیں اک نقطے کی مانند

پھر کس لیے مغرور ہیں،پتھر ہمیں مارو

 گمنامی بھی اس دور میں نعمت ہے خدا کی

ہم کس لیے مشہور ہیں،پتھر ہمیں مارو

(رضیہ اسماعیل)

چمنی کے اندر سے اکثر سسکی سی سنائی دیتی ہے

آوازیں لوٹ ہی جائیں گی،سننے کی حماقت مت کرنا

جب ترکِ تعلق کو سوچاخود سے یہ عہد بھی لے ڈالا

خوابوں میں کبھی تم مت آنا یادوں کی سفارت مت کرنا

(حمیدہ معین رضوی)

تمہارا حوصلہ ہے تم کسی سے دردِ دل کہہ لو

ہمیں خاموش رہ کر درد کو سہنے کی عادت ہے

 انہیں بھی اپنے کاموں سے کہاں فرصت ہے پاکیزہ

ہمیں بھی اپنے اندر گمشدہ رہنے کی عادت ہے(پاکیزہ بیگ)

حسرت و یاس میں کیوں سارے زمانے جائیں

لے کے شبنم کو چلو پھول کھلانے جائیں

 یوں میرا درد ہو مشہور زمانے بھر میں کُو بہ کو

دہر میں بس میرے فسانے جائیں

 (آدم چغتائی)

ماں کا رشتہ ہی نظر آتا ہے سچا،بے ریا

سارے رشتوں کو جکڑ لیتا جب مایا کا جال

چاندی چاندی سر کو رکھ کر اپنی ماں کی گود میں

 پھر سے بن جاتا ہے انساں بچپنے کا نونہال

(طلعت سلیم)

سر پر جب تک ماں کا ٹھنڈا سایہ رہتا ہے

بیٹا بوڑھا بھی ہو جائے، بچہ رہتا ہے

حفظ و اماں میں رکھتی ہے ہر شرسے جو دن رات

ماں کی دعا کا عارفؔ پر اک پہرہ رہتا ہے

 (خواجہ عارف)

عشق میں کوئی ولی، کوئی قلندر بن گیا

میں مقامِ عشق پر آ کر سخن ور بن گیا

عشق میں ناکام ہونے والے مجنوں ہو گئے

میں ہوا ناکام تو فاروق ساغر بن گیا

(فاروق ساغر)

دل کی باتیں دل میں ہی رہنے دو روگ تماشا بن جاتے ہیں

 بونوں کی بستی میں پورے قد کے لوگ تماشا بن جاتے ہیں

 (ساجد یوسف)

اُسی سے کہنی ہے بات دل کی،ہیں جس نے سارے عذاب بھیجے

خزاں رسیدہ اجاڑ رُت ہے،سو اب تو کوئی گلاب بھیجے

(ممتاز احمد)

ہمارے واسطے اک دیپ ہی کافی ہے مٹی کا جلاؤ گے

جو تم گھی کے چراغاں ہم نہیں ہوں گے

 حسیں یوسف بکیں گے اور بھی بازارِ عالم میں چلے گا ذکرِ

بلقیس و سلیماں، ہم نہیں ہوں گے(عبدالرب ثاقب)

٭٭٭

 

پوپ کہانی :کنگ وینکلس سے رضیہ اسماعیل تک

               حیدر قریشی (جرمنی)

 امریکہ میں اور انگریزی ادب میں پوپ کہانی کے خد و خال پر اتنی بحث نہیں ہوئی جتنی چند برسوں کے اندر اردو ادب میں ہو چکی ہے۔اس کا کریڈٹ سب سے زیادہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو جاتا ہے۔ان کی کتاب ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی اشاعت سے پہلے اردو میں پوپ کہانی کا ذکر یک طرفہ اور بیت برائے بیت کی حد تک تھا۔ اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے بیشترسنجیدہ ادباء’ ’پوپ کہانی‘‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے میٹر کو بطور صنفِ ادب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر انور سدید،سید ظفر ہاشمی،نیلم احمد بشیر،نجم الحسن رضوی،نوید سروش،لطیف راز،شمشاد احمد وغیرہ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پوپ کہانی کے نام سے پیش کی جانے والی تحریروں کو پہلے سے موجود افسانچے کی صنف ہی قرار دے رہے تھے۔

 ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے جب پوپ کہانی کے تالاب میں’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کا پتھر پھینکا تو تالاب میں دائرہ در دائرہ لہریں بننے لگیں۔ ایک طرف مختصر ترین کہانی کی کھوج کا سلسلہ شروع ہوا جو شیخ سعدی اور خلیل جبران سے ہوتا ہوا اردو میں منٹو،جوگندر پال اور منشا یاد جیسے پختہ افسانچہ نگاروں تک پہنچا۔یہ سلسلہ مزید تحقیق کی طرف گیا تو ماضی بعید میں ۶۲۰ سال قبل مسیح میں اے سَپ(Aesop )نامی ایک یونانی افسانچہ نگار دریافت ہو گیا، جسے اب تک کی دریافت کے مطابق مختصر کہانی یا افسانچے کا باوا آدم قرار دیا جا سکتا ہے۔قدیم ترین کے ساتھ جدید تر صورت یہ سامنے آئی کہShortest Storiesلکھنے میں غیر معمولی شہرت کی حامل امریکی مصنفہ محترمہ لِڈیا ڈیوس

(Lydia devis )کو سال ۲۰۱۳ء کا بکر پرائز دیا گیا۔ان کے نام کے ساتھ ان کیs Shortest Storieکا بطور خاص چرچا ہوا۔اس انگریزی لفظ کا اردو ترجمہ افسانچہ ہی ہو سکتا ہے۔لِڈیا ڈیوس پر پوپ کہانی لکھنے کا کوئی الزام نہیں آیا۔ایک طرف مختصر ترین کہانی کی شناخت مسلسل واضح ہو رہی تھی۔دوسری طرف پوپ کہانی اپنی شناخت کے بحران میں گھر گئی۔ادبی دنیا کے اصرار کے باوجود پوپ کہانی کے خد و خال کو واضح کرنے کی بجائے اسے گرامر کہہ کر جان چھڑائی جا رہی تھی۔افسانچے سے اسے الگ ظاہر کرنے کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا جا رہا تھا۔تب ہی ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کے ذریعے اردو دنیا کو امریکی پوپ کہانی کار کنگ وینکلس سے متعارف کرایا۔تب معلوم ہوا کہ کنگ وینکلس صاحب تو معمول کی کہانیوں کو ہی پوپ کہانی کے لیبل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ان میں پہلے سے موجود کہانیوں سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہے،سوائے پوپ کہانی کے نام کے۔

 ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے کنگ وینکلس سے ہونے والی اپنی برقی خط و کتابت کا کچھ حصہ’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ میں شائع کیا۔اس میں موصوف نے انگریزی فکشن کے کتنے ہی بڑے نام یہ کہہ کر گنوا دئیے کہ یہ سب بھی پوپ کہانی لکھتے تھے۔ پہلے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم کنگ وینکلس کی پوپ کہانیوں اور  ٭۔۔۔ نصا   قلعہ بنا نا۔مطلب صا ادبی دنیا کی معمول کی کہانیوں میں فرق تلاش کرتے۔لیکن یہ کام تو ہم نے اردو میں پوپ کہانی کے نام سے پیش کی جانے والی تحریروں اور افسانچوں کے درمیان فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کی حد تک بھی ضروری نہیں سمجھا پھر انگریزی میں پوپ کہانی کے نام پر پیش کی جانے والی تحریروں پر توجہ کون کرتا۔ہاں کنگ وینکلس کے بیان کو لے کر بعض احباب متعدد معروف و مقبول انگریزی رائٹرز کے نام گنوانے لگ گئے کہ ان سب نے بھی پوپ کہانی لکھی تھی۔تب ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے ایک اور اہم کام کیا۔امریکی پوپ کہانی کار کنگ وینکلس سے مزید برقی خط و کتابت کی اور ان سے پوچھا کہ آپ نے جن بڑے بڑے ناموں کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ بھی پوپ کہانی لکھ چکے ہیں تو کیا ان لوگوں نے پوپ کہانی کے لیبل کے ساتھ اپنی کہانیاں پیش کی تھی۔موصوف کا جواب آیا نہیں،انہوں نے ایسا نہیں لکھا،لیکن چونکہ ان کی کہانیاں بے حد پاپولر تھیں،اس لیے وہ پوپ کہانی کار تھے۔لیجئے صاحب قصہ ہی تمام ہوا۔ہمارے ہاں پریم چند،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو،غلام عباس جیسے کتنے ہی بڑے افسانہ نگار ہیں جو مقبولیت کے سات آسمان چھو چکے ہیں،تو پھر وہ سب بھی پوپ کہانی کار ہوئے۔لیکن ان میں سے کسی نے پوپ کہانی کا موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔یہ دعویٰ شیخ سعدی،خلیل جبران اور منٹو نے اپنی مختصر ترین کہانیوں کی بنیاد پر بھی نہیں کیا۔

 کنگ وینکلس صاحب نے اپنی نئی خط و کتابت میں بتایا کہ انہوں نے ۱۹۹۲ء میں سب سے پہلی پوپ کہانی لکھی تھی۔اور انگریزی میں وہ اس کے بانی ہو گئے۔بات صرف اتنی تھی کہ کنگ وینکلس صاحب اپنے ہاں کے نقادوں سے شاکی تھے،انہیں ان کی توقع کے مطابق پذیرائی نہیں مل سکی تھی،چنانچہ انہوں نے مقبول ہو جانے والی کہانیاں لکھنے کی بجائے اپنی کہانیوں کو پوپ کہانی کا عنوان دے کر خود ہی ان کی مقبولیت کا اقرار کر لیا۔جبکہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں ویسا ان سے پہلے بھی لکھا جا رہا تھا،ان سے زیادہ اچھا بھی لکھا جا رہا تھا اور اس سب پر کسی نے پوپ کہانی کا لیبل نہیں لگایا تھا۔کنگ وینکلس صاحب اپنی کہانی پر اعتماد کرنے کی بجائے پاپولریٹی کے چکر میں پڑ گئے۔اس کے باوجود ادبی اہمیت کے حوالے سے انگریزی ادب میں ان کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔نہ تین میں نہ تیرہ میں !

 کنگ وینکلس کی جس نئی خط و کتابت کا میں نے ذکر کیا ہے،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے وہ مجھے فراہم کر دی تھی۔اس کی بنیاد پر میں ایک نیا مضمون’ ’امریکہ میں پوپ کہانی کی حقیقت‘‘ لکھ چکا ہوں۔یہ مضمون میری آنے والی کتاب ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ میں شامل ہے۔پوپ کہانی کے نام پر انگریزی میں جو کچھ ہوا اس کی حقیقت آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔اردو کے حوالے سے پہلے بہت کچھ لکھ چکا ہوں،مزید کیا کہوں ؟ادب سے سنجیدہ دلچسپی رکھنے والے احباب خود ہی اس سارے معاملہ پر غور کریں۔

 ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایسے سلیقے کے ساتھ پوپ کہانی کا معاملہ اردو میں پیش کیا کہ اردو میں ہی نہیں انگریزی میں بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔اس لحاظ سے’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی اشاعت ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔اس کی اشاعت کے نتیجہ میں مزید تحقیق کے در وا ہوئے اور افسانچے کی کہانی ماضی بعید سے لے کر حال تک زیادہ نکھر کر سامنے آئی۔

’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کے پورے پس منظر میں یہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ابھی تک میں نے ان ادبی،تحقیقی امور پر بات کی ہے جو’’ کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی اشاعت کے نتیجہ میں موضوعِ بحث بنے اور اس سے اصل حقائق کھل کر سامنے آتے گئے۔اب آخر میں’ ’ کہانی بول پڑتی ہے ‘‘پر لکھے ہوئے اپنے پہلے مضمون کا آخری حصہ یہاں دہرا دینا چاہتا ہوں۔اس سے رضیہ اسماعیل کی کہانیوں کے بارے میں میری رائے بھی واضح ہو جائے گی۔ کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے اردو ترجمہ پر بات کرنے کے بعد میں نے لکھا تھا:

’ ’کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی بارہ کہانیاں شامل کی ہیں۔ان کی پہلی کہانی’’تھرڈ ورلڈگرل‘‘ کے اختتام تک پہنچا تو ایسا لگا کہ سچ مچ کوئی گونگی کہانی بول پڑی ہے۔’ ’ائر فریشنر‘‘ صرف برطانیہ ہی کی نہیں اب تو یورپ بھر کے پاکستانیوں کی مجموعی فضا کی ترجمانی کر رہا ہے۔اور’’ آنرکلنگ‘‘ پڑھتے ہوئے ایسے لگا کہ کہانی صرف بول نہیں پڑتی بلکہ بعض اوقات چلّاتی بھی ہے۔قبل از اسلام کے مکہ میں زندہ گاڑ دی جانے والی بیٹیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی جیسے اکیسویں صدی کی انوکھی آنر کلنگ میں شامل ہو گئی ہیں۔تب اس ظلم کو غیرت کے جاہلانہ تصور پر تحفظ حاصل تھا اور اب اسے خود مذہب کے نام پر تحفظ حاصل ہے۔’’تھرڈ ڈائمنشن‘‘ برطانیہ میں اسائلم لینے کی سہولتوں سے سچ جھوٹ بولنے کی کسی حد تک چلے جانے والوں کی دلچسپ کہانی ہے۔باقی ساری کہانیاں بھی اپنی اپنی جگہ دلچسپ ہیں۔’’ریڈیو کی موت‘‘ کہانی کو میں نے یہ سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا کہ سیٹلائٹ اور ٹیلی ویژن چینلز کی نت نئی کرشمہ سازیوں کے سامنے ریڈیو کے دَم توڑنے کی کہانی ہو گی۔لیکن یہ تو ایک بھلی مانس سی کہانی نکلی۔لیکن اپنی بھل منسئی کے باوجود کہانی اچھی ہے۔’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ میں شامل ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بارہ کہانیاں ان کے اندر کی افسانہ نگار کا پتہ دیتی ہیں۔یہ کہانیاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی مختلف النوع کہانیاں ہیں۔خامیاں اور خوبیاں،دوسروں کی ہوں یا اپنوں کی،ان سب کو ایک توازن کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔کہیں کہیں تبلیغی رنگ غالب ہونے لگتا ہے لیکن صرف ایک دو کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بیشتر کہانیوں کا اختتام جیسے ہلکا سا ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے،لیکن یہ عمل کسی نوعیت کا ابہام پیدا نہیں کرتا،بلکہ قاری خود کہانی میں شریک ہو کراسے مکمل کر لیتا ہے،کیونکہ اختتامی ادھوراپن ایک واضح اشارا چھوڑ جاتا ہے۔اس سے کہانی کا سادہ بیانیہ ایک رنگ میں علامتی سابن جاتا ہے۔

 مجموعی طور پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ کہانیاں اردو افسانے کے سفرکا تسلسل ہیں۔افسانہ غیر مقبول ہے یا سارا ادب ہی غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے؟وہ مقبولیت کے کسی پھیر میں نہیں پڑیں۔ان کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ انہیں یہ کہانیاں تخلیق کرنے کی توفیق مل گئی۔قبولیت نصیب ہو گئی۔ توفیق ملنے کی اس قبولیت پر میری طرف سے دلی مبارک باد!‘‘

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو ’’آگہی‘‘ برمنگھم کے زیر اہتمام ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

کہانی بول پڑتی ہے

               زاہد مسعود ( لاہور)

رضیہ اسماعیل کی کتاب’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی اشاعت پر مبارک باد ! لگتا ہے کہ شاعری کی شہرت اور نیک نامی نے رضیہ کے اندر موجود تخلیقی اظہار کی خواہش کو کوئی خاص لِفٹ نہیں کرائی۔وہ نثر بھی روانی سے لکھتی ہے۔ اس نے طنز و مزاح کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے ہیں اور اب اگر وہ’ ’پوپ کہانی‘‘ جیسی نو زائیدہ صنف میں لکھ رہی ہے تو یہ بات اس لئے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رضیہ اسماعیل اظہار کے حوالے سے کوئی پابندی برداشت کرنے کی قائل نہیں۔ اچھی نثر اور طنز و مزاح میں مہارت کے باعث رضیہ اسماعیل کا’ ’پوپ کہانی‘‘ پر کلیم سراسر جائز ہے۔

میں ڈاکٹر انیس ناگی کے شاگردِ خاص ہونے کے ناتے نثر ی نظم کا صدقِ دل سے قائل ہوں اور خود بھی نثر ی نظم لکھ رہا ہوں۔اس لئے مجھے رضیہ کی طرح اصنافِ ادب کے حوالے سے کسی تشخص کے حصول کی تمنا نہیں اور نہ ہی میرا کوئی ذاتی تعصب آڑے آتا ہے۔ معروف غزل گو شاعر ظفر اقبال سے بھی میرا یک نکاتی اختلاف ہے۔ وہ اُردو میں غزل کے تجربے کے نام پر عجیب و غریب شاعری مسلط کر رہے ہیں۔یہ شاعر جتنی عجیب ہے اس سے زیادہ غریب ہے۔میرے نزدیک اُردو غزل میں سب سے بڑا تجربہ اچھا شعر نکالنا ہے جو کسی زمانے میں بلکہ’ ’آبِ رواں ‘‘ کے زمانے میں ظفر اقبال نکال ہی لیا کرتے تھے۔ مجھے اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ نئی اصناف یعنی نثری نظم یا’ ’پوپ کہانی‘‘ کا موجد کون ہے۔ جو بھی ہے اللہ اس کا بھلا کرے۔ مجھے یاد ہے کہ نثری نظم کے خالق ہونے کے دو دعوے دار تھے، مبارک احمد اور قمر جمیل۔ مگر ان کا کردار محض ایکٹوسٹ کا ہی لگتا ہے۔ احمد ہمیش مرحوم بھی ایسے ہی تھے۔ جب کہ آج نثری نظم اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ نسرین انجم بھٹی، تنویر انجم، ذی شان ساحل اوراس خاکسار کے حوالے سے جانی جاتی ہے اور ڈاکٹر انیس ناگی اور اردو ادب کی تاریخ میں نثری نظم کے نظریہ ساز نقاد کے طور پر محفوظ ہو چکے ہیں۔

میں نے مقصود الٰہی شیخ کی پاپ کہانیاں بھی پڑھی ہیں۔ان میں مجھے کہانی تو پھر بھی کہیں نہ کہیں ملتی ہے لیکن پاپ نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔شاید وہ پاپ کو الگ سے کرنے کا کوئی کام سمجھتے ہیں۔

رضیہ اسماعیل چوں کہ مزاجاً درویش خاتون ہیں اور میرے دوست اسماعیل اعظم کے ساتھ رہ رہ کر اب تو باقاعدہ’ ’صوفی‘‘ بھی ہو چکی ہیں لہٰذا انھیں پاپ کہانی کا موجد کہلوانے کا قطعاً کوئی شوق نہیں۔ کیوں کہ ان کا بنیادی مسئلہ اظہار ہے جس کے لئے روایتی پیرایۂ اظہار کے علاوہ نئی اصناف کی کھوج ان کا حق ہے۔اسی طرح میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کرافٹ کے اندر Content دیکھتا ہوں کہ کیا تخلیق اپنا جواز پیش کر رہی ہے؟ اگر کر رہی ہے تو میرا اس کو سلام اور اگر وہ بے جواز ہے تو کرافٹ کے نام پر دھبا ہے۔ پوپ کہانی کو پوپیاں کہیں یا پاپیاں !اس کا سہرا کسی بالوں والی کے سر ہے یا گنجے کے سر… اصل بات فن پارے کی ہے۔ باقی یہ بحث پوپ پاپ سے یا پاپولر سے ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ایک لکھاری کی ذمہ داری دل جمعی سے لکھنا ہے۔ رضیہ کی کتاب’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کو میں نے ایک فن پارے کے طور پر جا بجا پرکھا ہے۔ اس کی کہانیوں کے موضوعات، تھیمیز (تخیلات) اور کردار انتہائی اہم ہیں۔ اس کا نقطۂ نظر ادبی بھی ہے اور تخلیقی بھی۔اس کی تحریر عصری شعور سے مالا مال ہے۔ کیا یہ اجزا کسی تحریر کے بنیادی اجزا نہیں اور کیا تحریر میں عصری شعور کا سمونا آج کے ادیب کی ذمہ داری نہیں ؟ ان سوالات کے جوابات رضیہ کی کہانیوں میں مکمل طور پر ملتے ہیں۔

لکھنے والوں سے میری اپیل ہے کہ وہ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح نان ایشو میں نہ الجھیں اور عام انسانوں کے بنیادی حقوق کی قلمی جنگ لڑیں۔ اگر انھوں نے پوپ یا پاپ کی بے معنی لفظی بحث میں پڑنا ہے تو پھر خود کو قاری سے دُور کر لیں گے۔

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی کتاب’ ’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ میں جو لکھا ہے وہ سب ہمارے اردگرد پائے جانے والے عام لوگوں کی کتھا ہے۔’’آنر کلنگ‘‘،’ ’گلاس کٹر‘‘،’ ’پاکی‘‘ اور’ ’ریڈیو کی موت‘‘ زندگی کے حساس معاملات پر اس کی گرفت کو واضح کرتی ہیں۔

میں ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو اس کے تخلیقی کام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اس کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں۔

٭٭٭

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو ’’آگہی‘‘ برمنگھم کے زیر اہتمام’’ کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 کہانی بول پڑتی ہے

               حمیدہ معین رضوی (لندن)

 خواتین و حضرات۔ السلام علیکم

 رضیہ اسماعیل کی کہانیاں،یہاں آپ سب اظہار رائے کرنے والوں کی طرح میں نے بھی پڑھی ہیں، اور کہانی کا طرزِ بیا ن اور کہانی کی صنف کے بارہ میں ایک بحث چل پڑی ہے۔ بحث کرنا بھی ایک صحتمند علامت ہے، اگر بحث میں حصہ لینے والے ایک دوسرے سے منطقی بحث کریں اور اسکے نتیجے میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکے۔اور دوسرے کی معقول اور منطقی رائے کو اہمیت دی جائے۔

 رضیہ اسماعیل ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور اس کا ثبوت انکی یہ کتاب ہے۔’’ کہانی بول پڑتی ہے۔‘‘ شاعری میں ہم ان کی خصوصی طرزِ بیان کو دیکھ چکے ہیں۔نثر کی مزاحیہ کتاب انھوں نے لکھی ہے اور اب اس بحث پہ تحقیق مکمل کی ہے کہ کیا واقعی پوپ کہانی کوئی ایجادِ بندہ ہے ؟یا ایجادِ معاشرت جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ ادب معاشرت کو اور معاشرت ادب کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ انکی تحقیق آپ سب نے میری طرح پڑھی ہو گی اسے میں ایک مستحسن قدم سمجھتی ہوں ا ور ادب میں اضافہ بھی کہوں گی۔ انھوں نے انگریزی سے ترجمہ کر کے دو کہانیاں شامل بھی کی ہیں۔اور پھر بذاتِ خود اسکے طرز پہ کہانیاں لکھ کر بھی دکھا دیں۔ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ جو انگریزی کہانیاں انھوں نے مثالی طور پہ پیش کی ہیں وہ خود امریکی تعریف کے مطابق نہیں۔پہلی کہانی واضع طور پہ ادبی صورت حال سے بیزاری پہ ہے۔اوردوسری کہانی،پہلی سے بھی زیادہ علامتی ہے اور بہت کچھ اس میں کہا گیا ہے جو غالباً ناک کی سیدھ میں ہونے والی کہانی میں کہنا ممکن نہیں ہوتا۔

 اس مجموعے میں رضیہ کی بارہ کہانیاں شامل ہیں اور کسی کہانی سے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ پہلی بار کہانی لکھ رہی ہیں یا تجرباتی طور پہ لکھ رہی ہیں۔یہ کہانیاں سیدھی سادی بیانیہ ہونے کے باوجود دلچسپ ہیں کیونکہ ان میں تین بنیادی شرائط پائی جاتی ہیں۔

ابتدائیہ،درمیانی حصہ اور قاری کے لیے قابلِ اطمینان اختتام۔ یہ شرائط کہانی، قصہ،دیہی کہانیوں،فوک کہانی،ایپک،داستان،مثنوی سب میں پائی جا تی ہیں۔ آگے بڑھیں تو ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ، گویئٹے کی ڈیوائین کومیڈی، فارسی میں ترجمہ شدہ کلیلہ دمنہ، فردوسی کا شاہنامہ۔۔ان سب میں بھی یہ خصوصیات ہیں جو رضیہ کی کہانیوں میں ہیں۔رضیہ کی کہانیاں اسی لیے دلچسپ ہیں کہ ان میں کہا نی کے بنیادی عناصر موجود ہیں۔ کہانی کو قاری کے سا منے پیش کیئے جانے کا انداز بھی ہلکا پھلکا اور دلچسپ ہے۔یہ کہانیاں ہماری رو ز مرہ زندگی اور اس کے تجربات و احساسات پہ مبنی ہیں،کسی نے کہا تھا کہ ترک وطن ایک کربناک تجربہ ہی نہیں انسان کی شخصیت کو کچل دینے والا عمل ہے۔ رضیہ کی جو کہانیاں خصوصیت کی حامل ہیں وہ یہ ہیں۔ آنر کلنگ پہ بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں مگر رضیہ کی کہانی میں ایک انفرادی انداز ہے۔ائیر فریشنر۔گاربیج۔پیکی۔ان میں نسل پرستی کا دکھ ہے جو ہم سب نے زندگی میں ایک آدھ بار ضرور سہا ہے۔تھرڈ ورلڈ گرل بھی سرمایہ کے استحصال میں امیر قوموں اور غریب قوموں کے افراد کی نفسیات سامنے لائی گئی ہے۔تھرڈ ورلڈ گرل سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔نظم کی پیشکش علامتی ہے اور اس کا پیغام ناظر تک واضح ہے۔ باقی کہانیاں بھی کہانی کار کی سوجھ بوجھ اور معاشرت کے شعور کی گواہ ہیں۔رضیہ نے چھوٹی چھوٹی تصویریں بنائی ہیں مگر تصویریں صحیح ہیں۔سچی اور اچھی ہیں۔قاری کو متوجہ کرتی ہیں۔یہ قطعی مبالغہ نہیں اگر میں کہوں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں انگریزی اد ب کے رومانٹک دور تک افسانہ وجود میں نہیں آیا تھا مگر ناول تھے۔ جین آسٹن ڈیکنز اور مسز گیسکل وغیرہ کے ناول اسی طرح کے ہیں جیسے رضیہ کی کہانیاں ہیں۔انگریزی افسانے کا باوائے آدم ایڈگر ایلن پو ہے اور اسکی کہانیاں بھی اسی طرح کی ہیں جیسے رضیہ نے لکھی ہیں ہما رے ادب میں افسانے کا ارتقائی سفر ترقی پسند تحریک کا مرہون ِ منت ہے جو ۱۹۳۰ئ؁ کے بعد وجود میں آئی اور متحرک ہوئی۔ جب کہ امریکہ میں کہانیاں سادہ اور دلچسپ انیسویں صدی کی ابتدا سے ہی لکھی جا رہی تھیں، جبکہ اردو میں بیسویں صدی کی ابتدا میں اسکی ابتدا ہوئی۔نمایاں لکھنے والوں میں رسالہ عصمت کی مدیرہ نذرسجاداور شیخ عبدلقادر کے رسالے مخزن میں سجاد حیدر یلدرم،خود عبدالقادر اور کئی اور حضرات کہانیاں لکھتے تھے جسکو Essay اور مضمون کی درمیانی صنف شامل کیا جاتا۔چارلس لیمب کے ایسے لوگوں کو یاد ہوں گے۔

 مخزن اور سہیلی امرتسر کا ایک پرچہ والد صاحب کے رکارڈ میں رکھے تھے اسکی چند کہانیاں مجھے اب بھی یاد ہیں۔ وہ بھی اسی طرح کی تھیں۔ افسانے اور ناول کی طرز تحریر میں ایک انقلاب جوزیف کونریڈ کی کتاب لارڈ جمِ سے آیا جو ۱۹۰۰ئ؁ میں شائع ہوئی۔اور جس میں تاریخ،فلسفہ،نفسیات،نسل پرستی،سب کچھ تھا مگر طرزِ نگارش جدید اور دلکش تھا۔نہیں معلوم کہ جوزیف کونریڈ کی کتاب پڑھ کر یا خود بخود ائیرش ناول نگار جیمز جوائیس نے portrait of an artist as a young man .کے بعد کئی اور ناول لکھ کر ادبی دنیا میں دھوم مچادی خواتین میں ورجنیا ولف نے نئے انداز سے انقلاب برپا کیا اور ان دونوں عظیم لکھنے والوں کی عظمت اردو کی ناول نگار خاتون میں نمایاں ہوئی یعنی قرۃ العین حیدر میں۔جہاں انکی کم عمری کی کتابیں،میرے بھی صنم خانے اور سفینۂِ غمِ دل، ورجینیا ولف کے ناول لائیٹ ہاؤس کی طرح ہیں وہاں انکی عظیم کتاب جس میں ہزار صفحے ہیں اور جو چار ہزار برس کی مدت کا احاطہ کرتی ہے یعنی آگ کا دریا،گردشِ رنگِ چمن،خرِ شب کے ہم سفر وہ جمیز جوایئس کے ناولوں کی طرح ہیں جبکہ آخری کتاب چاندنی بیگم اردو افسانوی ادب میں سادگی اور پرکاری میں مثالی تحریر ہے۔ان سب کا تذکرہ کرنے کا مطلب صرف یہ بتانا ہے کہ پوپ کہا نی کو ایک انوکھی طرز یا صنف کے طور پہ ادب میں پیش کرنا گاؤ دم ترقی ہے۔اردو میں اس وقت ضرورت ہے کہ اچھے ناول لکھے جائیں۔ افسانوی ادب لکھنے والوں کو اس طرف دھیان دینا چاہیئے۔تا اپنی ذہنی قوتیں اردو کے ارتقا میں استعمال ہوں نہ کہ اچھے بھلے لکھنے والوں کو دو سطری کہانی لکھنے پہ آمادہ کیا جائے۔ جس میں ذات کے مسائل نہیں سما سکتے ہیں،کائنات کے کیا آئیں گے۔اور دو سطر ہی لکھنا ہے تو غزل کا ایک شعر کیا برا ہے۔شاہنامے میں دیکھئے فردوسی مملکت میں ایک سیاسی وفد کی آمد کو اور سیاسی گفتگو کو کیسے لکھتا ہے چند لفظوں میں کہتا ہے۔۔۔۔۔ نشستند، و گفتند، و برخواستند۔

کوئی چیز ایجاد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی روایت سے بغاوت کوئی بری بات ہے۔ لیکن ایجاد ہماری موجودہ ترقی پہ اضافہ ہونا چاہیئے۔ ہمارا قدم پوری صحتمندی کے ساتھ تعمیری ہونا چاہیئے، نہ کہ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو ’’آگہی‘ ‘برمنگھم کے زیر اہتمام ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

رضیہ اسماعیل کی پوپ کہانی

               خواجہ محمد عارف (برمنگھم)

 پو پ کہانی یا پاپ کہانی کیا ہے؟ کچھ عرصہ سے اُردو کے ادبی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے۔ ابھی تک تو اس کے نام کی تصریح ہی نہیں ہو سکی کہ یہ انگریزی لفظ’ ’پوپ‘‘ ہے اور اس کا پاپائے روم سے بھی کچھ تعلق ہے یا ہندی’’پاپ‘‘ ہے۔ عام طور پر اسے پاپولر یعنی مقبولِ عام انگریزی موسیقی کی طرح کی ادبی صنف سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قبولیت یا مقبولیت کے بارے میں رائے زنی شاید قبل از وقت نہ سہی لیکن جلد بازی کی ذیل میں ضرور آتی ہے۔اگرچہ اس صنفِ ادب کی شاید سب سے بڑی پہچان اس میں موجود عجلت پسندی کا عنصر ہی ہے۔

 ہیئت کے اعتبار سے کیا یہ مختصر افسانہ یا افسانچہ ہے یا اس قبیل کی کوئی چیز ہے جسے سعادت حسن منٹو’ ’منی افسانہ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھ چکے ہیں ؟نفسِ مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے کیا اس کا نثری نظم سے کچھ رشتہ یا تعلق ہے؟کیا اُردو ادب میں یہ بالکل نئی اور طبع زاد اختراع ہے یا نظم و نثر کی دوسری بہت سی اصناف کی طرح دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی سے آئی ہے؟ کیا اُردو میں محض نقالی اور جگالی ہو رہی ہے یا کسی دوسرے باغ سے لائی جانے والی یہ داب اُردو معاشرے کی آب و ہوا میں مختلف انداز کے برگ و گل سے مزین ہے؟اُردو میں اس کا بانی کون ہے؟اِن بہت سے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔

 میں ذاتی طور پر اسے تیز رفتار زمانے کی پیداوار سمجھتا ہوں۔ یہ صنف ادب اور صحافت کے بین بین کوئی حیثیت رکھتی ہے البتہ ادبی شعبدہ بازی سے اس کا مقام قدرے بلند ہے۔اگر’ ’پوپ کہانی‘‘ کا اختصار یا ڈرامائیت اس کا خاص وصف مانا جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ دنیا میں بیان کیے جانے والے ہزاروں لاکھوں لطیفے اور چٹکلے بہترین’ ’پوپ کہانیاں ‘‘ہیں۔ ان کے نفسِ مضمون سے اخلاقی سبق، ذہنی تفریح یا بے ہودگی اور فحش گوئی کا تعین ہوتا ہے۔کوئی ایک آدھ بر جستہ جملہ یا لفظ اسلوب کو پُر کشش بنا دیتا ہے جس سے سامع یا قاری طبیعت میں شگفتگی محسوس کرتا ہے۔لطیفے لوک ادب کا حصہ ہیں جن کے تخلیق کار گوشۂ گم نامی میں ہوتے ہیں لیکن ان ادب پاروں کی عوامی مقبولیت سینکڑوں سال برقرار رہتی ہے۔ عام طور پر یہ تین چار جملوں میں مکمل ہو جاتے ہیں اور استاد شاگرد، میاں بیوی، باپ بیٹے، مالک نوکر، گاہک دکان دار، مختلف دوستوں، ڈاکٹر اور مریض وغیرہ کے کرداروں کے مکالموں کی صورت میں یک منظری تمثیل کے لوازمات سے بھی مزین ہوتے ہیں۔

 زمانے کی تیز رفتاری میں اب اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ وہ ٹالسٹائی کے ناول’ ’جنگ اور امن‘‘،ممتاز مفتی کے’ ’علی پور کا ایلی ‘‘یا اس حجم کے دوسرے فن پاروں سے حظ اٹھا سکے۔نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر اسلامی حمیت اور ولولہ دل میں پالے اور پھر عملی نہ سہی لیکن کم از کم فکری دہشت گردی کے جرم میں ماخوذ ہو یا قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور انتظار حسین کے افسانوں میں موجود تہذیبی شعور اور علمیت کو کشید کرنے کے جنجال میں خود کو پھنسا کر اپنا وقت برباد کرے۔مہا بھارت، رامائن اور الف لیلۃ کی داستانیں پڑھنے اور سننے کے زمانے خواب و خیال ہو گئے ہیں۔اب پشاور کے قصہ خوانی بازار میں لوگ قصوں سے محظوظ نہیں ہوتے بلکہ وہاں ہونے والے دھماکوں اور خود کش حملوں کی بریکنگ نیوز پر مزاحیہ انداز میں تبصرے کیے جاتے ہیں۔پوپ کہانی بھی تو اپنے اندر بریکنگ نیوز جیسا مواد رکھتی ہے۔زمانے کی تیز رفتاری کی وجہ سے انٹر نیٹ پر دوچار جملوں پر مشتمل الفاظ کا تبادلہ خطوط نویسی کا قائم مقام بن چکا ہے۔ یوٹیوب وغیرہ کی ایک آدھ منٹ کی کلپ دیکھ کر فلم بینی کا ذوق پورا ہو جاتا ہے۔

 کچھ عرصہ پہلے جب اُردو کے ادبی جرائد میں پوپ کہانی کے نام اور اس کی تیکنیک پر بحث چلی تو ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اس موضوع پر عام اُردو قلم کاروں کے برعکس مکمل طور پر تحقیقی انداز سے سوچا اور پھر اس سوچ کو عمل جامہ پہنانے کے لئے انھوں نے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں کے جوابات تلاش کیے۔ان کی یہ تلاش بالکل علمی انداز کی تھی جس کا ذکر انھوں نے کتاب کے ابتدائیہ میں تفصیل سے کیا ہے۔انھوں نے پوپ کہانی کے امریکی مصنف کنگ وینکلس سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیالات کے بعد اپنے طور پر پوپ کہانی کی تعریف متعین کر کے اس کی ہیئت کا خاکہ تیار کیا۔ پھر اس پر بارہ کہانیاں لکھیں۔

 رضیہ اسماعیل کی کہانی میں …اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے… بلکہ عام سیدھی سادی کہانی کو ذرا جدید اسلوب اور برطانوی ماحول کی عکاسی کی وجہ سے انگریزی آمیز اُردو میں پیش کیا گیا ہے۔ایک نقاد ادب نہیں بلکہ عام قاری کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں وہ اکثر کام یاب ہوئی ہیں۔چوں کہ پوپ کہانی کی تعریف اور خد و خال ابھی زیرِ بحث ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس کے مصنفین کے ہاں بھی ابھی تک اس سلسلے میں کافی ابہام پایا جاتا ہے اس لئے ہم سہولت کے لئے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی پوپ کہانیوں کو ولایتی کہانیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔اس سے پہلے وہ شاعری میں’ ’ولایتی ماہیے‘‘ کے زیرِ عنوان برطانوی ماحول کی عکاسی کھٹے میٹھے انداز میں کر چکی ہیں۔

کڑوے ہیں سُکھ ماہیا؍کس کو سنائیں اب؍انگلینڈ کے دُکھ ماہیا

 ماہیوں میں اجمال ہے جب کہ کہانیوں میں وہی کڑوے سکھ ذرا تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ان کی کہانی میں زیادہ تر برطانوی معاشرے کی ایشیائی بالخصوص مسلم پاکستانی کمیونٹی کے حالات و مسائل کو زیرِ بحث لایا گیا ہے، بیان میں کوئی خاص پیچیدگی نہیں۔ کہانیوں کے عنوانات زیادہ تر انگریزی میں ہیں۔یہاں چند کہانیوں کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے۔

’ ’آنر کلنگ‘‘،’ ’تھرڈ ڈائمنشن‘‘،’ ’بھائی جان‘‘ اور’ ’ریڈیو کی موت ‘‘ میں انسانی نفسیات کی الجھنوں اور متضاد رویوں کی خوب صورت ترجمانی ہے۔ مغربی معاشروں میں بسنے والے ایشیائی عام طور پر بچوں کی جبری شادیاں کر کے بچوں کی تباہی اور خاندانوں کی رسوائیوں کا سبب بنتے ہیں۔کبھی کبھی غیرت کے نام قتل کے کیس بھی سامنے آتے ہیں۔رضیہ اسماعیل کی کہانی ’’آنر کلنگ‘‘ میں جسمانی قتل کا کوئی واقعہ تو نہیں لیکن روایات کی پاس داری اور خاندان کی عزت و ناموس کی غلط تعبیر کر کے معصوم جانوں کے ارمانوں کا خون کر دیا جاتا ہے۔ایسا جرم جس کا مجرم کسی قانون کی زد میں نہیں آتا۔ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے …اور کو نصیحت، اپنے تئیں فضیحت…کے کردار کی بہت عمدہ تصویر کھینچی ہے۔

’ ’تھرڈ ڈائمنشن‘‘ کہانی میں مغربی تہذیب کی نئی روشن خیالی کے ایک غلیظ اور مکروہ رویے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب اسے شخصی آزادی کا نام دے کر اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کو قانونی اور سماجی تحفظ ہونے کی وجہ سے دو پاکستانی مسلمان پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس قانون کی پناہ میں آ نے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔دل اور شکم کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت وہ شکم کی مان رہے ہیں۔معاشی اور قانونی ضروریات کے تحت سہولت کی شادیوں کا چلن ایک عام سی بات ہے لیکن انسان کو بھوک کیسی کیسی اختراعیں کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

تن من، دین دھرم سب بیچیں، جان پہ کھیلیں لوگ پاپی پیٹ کی خاطر کیا کیا پاپڑ بیلیں لوگ

 اُردو میں اس موضوع پر افتخار نسیم نے کچھ افسانوں میں اپنی شخصیت مختلف کرداروں کی صورت میں پیش کر کے شاید اپنا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اس موضوع پر بالکل دوسر ے زاویہ سے دیکھا ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے جس پر لکھنا سرکس کے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ اگر کہیں تھوڑا سا بھی توازن بگڑ جائے تو سنبھلنا ممکن نہیں رہتا۔

’’بھائی جان‘‘ ایک سادہ کہانی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی تسکین کے لئے جہاں اپنے ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلاتا رہتا ہے وہیں تہذیبی قدروں اور مہذب الفاظ کی آڑ میں معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔

’ ’ریڈیو کی موت ‘‘ میں ایک باصلاحیت اور محنتی خاتون اپنے دیرینہ ذوق کی تسکین کے لئے مواقع کی تلاش میں سر گرداں رہتی ہے لیکن اسے اپنے طے شدہ معیار کے مطابق اپنی فنی کارکردگی کا موقع نہیں ملتا۔آخر اسے ایک ایسی پیشکش کی جاتی ہے جہاں اسے اپنی شناخت گم کرنے کی شرط کے ساتھ شاید فنی صلاحیتوں کے اظہار کا امکان نظر آ رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا اندازہ لگا لیا، لہٰذا اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

 میرے خیال میں کسی فن پارے کی پرکھ کرتے وقت اصل اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کہنے یا لکھنے والے کے دل و دماغ میں جو خیال و احساس تھا، کیا وہ پوری سچائی اور فنی دیانت داری سے بیان کر سکا ہے یا نہیں اور اگر وہ اپنے تئیں کام یاب ہوا ہے تو کیا سامع، ناظر یا قاری کو اپنا شریکِ احساس کر کے یہ کہنے پر مجبور کر سکا ہے کہ ؎ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

 شرکتِ احساس اسی صورت میں ہو گی جب قلم کار کے جذبۂ محرکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب میں بھی کشش ہو گی۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ ولایتی کہانیاں اس بات کی مستحق ہیں کہ قارئین انھیں پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار کریں جن سے مصنفہ کی حوصلہ افزائی ہو اور اگر ان کی نظر میں کہیں کوئی کمی محسوس ہو تو اسے بھی مثبت انداز میں بیان کریں۔ ہر لکھنے والے کے لئے قارئین کی رائے جاننا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کے فکری پودوں کی آب یاری ہوتی رہے۔ یہی عمل اس کے قلم کو متحرک رکھتا ہے۔

 امید ہے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل ولایتی کہانیوں کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائیں گی۔ہم تارکین وطن کی زندگیوں میں پرانی اور نئی نسل میں تہذیبی اور فکری کشمکش،سماجی اور خاندانی ڈھانچوں کی توڑ پھوڑ، یہاں کے آزادانہ ماحول میں نئی نسل کی مثبت اور منفی دونوں طرح کی سرگرمیاں ایسے موضوعات ہیں جو لکھنے والوں کو اپنے اوپر عاید سماجی فریضے کی ادائیگی کی دعوت دے رہے ہیں۔

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو’’آگہی‘‘ برمنگھم کے زیر اہتمام’’ کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

پوپ کہانی ہی کیوں۔؟

               امجد مرزا امجد (انگلینڈ)

 اس سے پہلے بریڈ فورڈ کے معروف کہانی کار محترم مقصود الہی شیخ کی پوپ کہانیوں پر میرا ایک مضمون شائع ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں میں ایک پرانے شناسا سے ناآشنا بن گیا۔ کیونکہ مجھے پہلا اعتراض یہ تھا کہ صنف اردو کی ہو اور نام انگریزی کا۔۔کوئی جچتا نہیں۔۔ پھر مختصر کہانی کو صدیوں سے افسانچہ یا مختصر کہانی ہی کہا جاتا ہے ایسی کون سی نئی بات ہو گئی کہ اس کا نام ہی بدل دیا جائے۔۔ہاں البتہ ایک نیا نام دے کر اپنا نام بلند کرنا ہو تو الگ بات ہے اور ادب میں ایسی رسم چل نکلی تو کل غزل،نظم،قطعات کے ساتھ اللہ جانے کیا حشر ہو گا۔۔ اور پھر پہلے یہ تو فیصلہ کر لیں کہ یہ نیا نام’ پوپ‘ ہے یا’ پاپ‘۔۔۔؟

اور جو کہانیاں پوپ یا پاپ کے نام سے لکھی بھی گئیں ان میں کون سی ایسی انوکھی بات ہے جسے الگ سے نام دیا جائے۔۔کہانی میں خوبصورت و دلچسپ ابتداء،کلائمکس اور انجام وہ بھی ایک نصیحت آموز ہو جو قارئین کے لئے اچھا پیغام ہو تو وہ مکمل کہانی ہوتی ہے۔۔ کوئی معمل بے مقصد خیال ذہن میں آنے پر اسے قلمبند کر لینے سے’ پاپ‘ تو ہوسکتا ہے’ پوپ‘ کہانی نہیں بن جاتی۔جسے قاری پڑھ کر سوچتا رہے کہ یہ تھا کیا۔۔!!

 میں اپنی عادت سے مجبور ہوں کہ جو کچھ محسوس کرتا ہوں وہی لکھ دیتا ہوں کیونکہ یہی قلم کی حرمت ہے محسوس کچھ اور ہو لکھنے میں کچھ اور ہو تو یہ منافقت ہو جاتی ہے اور میں اپنے قلم کے ساتھ کبھی منافقت نہیں کرتا جس کی پاداش میں دو بار کورٹ کچہریاں بھی دیکھ آیا ہوں مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرا اور میری قلم کا بھرم قائم رہا۔

 میری بہت ہی محترم بہن ڈاکٹر رضیہ اسماعیل صاحبہ کی بھی یہی خوبی ہے کہ وہ سچ کی تلاش میں رات دن ایک کر دیتی ہیں اور انگلینڈ امریکہ کی لائبریریوں کو کھنگال کر سچ نکال لاتی ہیں۔انہوں نے جب’ پوپ‘ کہانی کی تاریخ کی تلاش شروع کی تو کہاں سے کہاں جا پہنچی اور پوری ایک کتا ب لکھ ڈالی۔جس کا نام نہایت خوبصورت رکھا’ ’کہانی بول پڑتی ہے ‘‘ سچ ہے اگر کہانی نہ بولے تو وہ کہانی نہیں ہے۔۔کوئی پاپ یا پوپ قسم کی ہی چیز ہوتی ہے۔۔!!

 کہانی کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ہر دور میں کہانی زندہ رہی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اگر کہانی اس دور کے حالات کا عکس نہیں ہے جس میں وہ سنائی یا لکھی جاتی ہے تو وہ محض الفاظی ہے جو قاری کو منٹوں میں بور کر دیتی ہے۔کہانی وہ ہے جو آپ کی انگلی تھامے اختتام تک لے جائے اور پڑھنے کے بعد آپ آنکھیں بند کر کے گھنٹوں اس کے سحر میں گرفتار رہیں اور دل سے واہ واہ نکلے۔۔

 اس کتاب میں ڈاکٹر صاحبہ نے’ پوپ‘ کہانی پر طویل بحث کی ہے اور ثبوت کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ’ پوپ‘ کی پیدائش بریڈفورڈ نہیں ہوئی بلکہ امریکہ میں بھی لکھی گئی اور وہ قطعی دو تین سطری کہانی نہیں یا بقول شیخ صاحب ایک ایسا خیال نہیں جو فوراً ذہن میں آئے اور اسے آپ قلم بند کر لیں۔ بلکہ ایک مکمل طویل کہانی ہے جو کئی صفحات تک بھی چلی جائے۔۔ جس طرح ڈاکٹر صاحبہ نے کنگ وینکلس کی کہانی’ ’مشین‘‘ کا ترجمہ لکھا جو سات صفحات تک ہے اسی طرح دوسری کہانی’ سرخ دروازہ‘ جو نو صفحات تک پھیلاؤ رکھتی ہے۔پھر انہوں نے خود’ ’پوپ ‘ کہانیوں کا نام دے کر’ ’تھرڈ ورلڈ گرل‘‘ جو سات صفحے کی،’’ایئر فریشنر‘‘ چھ صفحات،’’آنر کلنگ‘‘ چھ صفحات،’’تھرڈ ڈائمنشن‘‘ سات صفحات،’’گلاس کٹر‘‘ پانچ صفحات،’’گاربیج‘‘ چھ صفحات۔المختصر کہ ان کی تمام کہانیاں مکمل کہانیاں ہیں جن میں صفحات کی قید نہیں مگر ان میں کوئی واعظ نہیں اور نہ ہی کوئی فضول تفصیل اور طوالت ہے۔ ان کی گیارہ کہانیاں چاہے ان کا نام’ ’پوپ‘‘ ہی کیوں نہ ہو مکمل کہانیاں ہیں جن کو پڑھ کر بوریت کا احساس نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک کہانی قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

 جیسا کہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنے مضمون میں قبول کیا ہے کہ’ پوپ‘ چونکہ انگلش صنف ہے لہذا شاید انگریزی الفاظ شامل کرنا ناگزیر ہوں لہذا انہوں نے ان کے نام بھی انگریزی رکھے اور الفاظ بھی کثرت سے استعمال کئے جس کو میں ایسا برا بھی نہیں سمجھتا کہ ہماری اردو کئی زبانوں کا مرکب ہے اور آج ہزاروں ایسے نئے الفاظ شامل ہو گئے ہیں جن کا متبادل اردو میں نہیں ملتا۔اور پھر جو زبانیں غیر ملکی الفاظ کے لئے دروازہ بند کر لیتی ہیں وہ ترقی نہیں کر پاتیں۔آج انگلش زبان اگر عالمی زبان کا درجہ رکھتی ہے تو اس کی بڑی وجہ اس کی فراخدلی ہے کہ اس نے دنیا کے ہر ملک کی زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ہاں اگر اپنی زبان میں ان الفاظ کا متبادل ہو تو پھر ضروری نہیں کہ غیر ملکی الفاظ کا سہارا لیا جائے کہ ہر کسی کو اپنی زبان سے اتنا پیار ضرور ہوتا ہے۔میری اروو زبان میں’ ’افسانہ،افسانچہ،مختصر کہانی،دو سطری کہانی ‘‘ جیسے الفاظ موجود ہیں تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ اپنی کہانی کا نام’ ’پوپ یا پاپ ‘‘ رکھوں۔۔ ہاں اگر کوئی نیا نام رکھنا ہی ہے تومیں کیوں نہ اسے کہانی اور افسانے کے پیوند سے جنم ہونے والی’ ’کہانچی‘‘ کا نام دوں گا۔۔۔ نیا نام اگر دریافت ہی کرنا ہے تو اردو میں تو ہو گا نا۔۔۔ آخر پوپ کہانی ہی کیوں۔۔؟

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو ’’آگہی‘‘ برمنگھم کے زیر اہتمام ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تقریب کے لیے لکھا گیا)

٭٭٭

تشکر مدیر ارشد خالد جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید