FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بھوک

 

 

 

               چترا مدگل

 

ہندی سے ترجمہ/رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

بھوک

 

 

آہٹ سن کر لکشما نے سوپ سے گردن اوپر اٹھائی۔ ساوتری اکّا جھونپڑی کے کواڑوں سے لگی اندر جھانکتی نظر آئی۔ سوپ پھٹکارنا چھوڑ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

‘‘آ، اندر کو آاکّا۔’’

اس نے باصرارساوتری کو اندر بلایا۔ پھر جھونپڑی کے ایک کونے سے ٹکی جھرجھری چٹائی کنستر کے قریب بچھاتے ہوئے اس پر بیٹھنے کا اصرار کرتی،خودسوپ کے پاس پسر گئی۔

ساوتری نے سوپ میں پڑی جوار کو ہتھیلی  میں بھرکر غور سے دیکھا ‘‘راشن سے لیا؟’’

‘‘کارڈ کدر میرا! ’’

‘‘نئیں؟’’ ساوتری کو یقین نہیں آیا۔

‘‘نئیں۔’’

‘‘ابی بنا لو۔’’

‘‘مشکل نا۔۔ پن۔’’

‘‘کئسا؟ ارے، ٹمپریری بنتا نہ۔ اپنا مکادم ہے نا پرمیشورن، اس کا پاس جانا۔ کاغد پر نام وام لکھ کے دینے کو ہوتا۔ پچھو جھونپڑی تیرا کس کا؟ گنیسی کا نہ! اس کو بولنا کہ وہ پن تیرے کو کاغد پہ لکھ کے دینے کا کہ تو اس کا بھڑوتری۔ ۔ ۔ تابڑ توڑ بنے گا تیرا کارڈ۔’’

اس نے پاس ہی چیکٹ گدڑی پر پڑے کنمنائے چھوٹو کو ہاتھ لمبا کر تھپکی دیتے ہوئے گہری سانس بھری

‘‘جائے گی۔’’

‘‘جائے گی نئیں، کلیچ جانا! ’’

ساوتری نے سیانوں سی تاکید کی۔ پھر سوپ میں پڑی گلابی جوار کی سمت اشارہ کر کے بولی، ‘‘یہ دو بیس کلو خریدا نا! کارڈ پہ ایک ساٹھ ملتا۔’’

چھوٹو پھر کنمنایا۔ پر اب کی ابر تھپکنے کے باوجود چونک کر رونے لگا۔ اس نے گود میں لے کر چھاتیاں اس کے منھ میں دے دیں۔ کچھ پل چوسنے کے بعد بچہ چھاتی چھوڑ چیخنے لگا

‘‘کیا ہونا، آتاچ نئی۔’’ اس نے بے سہارا سی نظرساوتری پر ڈالی۔

‘‘کانچی دے۔’’

‘‘ووئیچ دیتی پن۔ ۔ ۔ ’’

‘‘میں بھیجتی ایک واٹی تاندل۔ ساوتری اس کا مقصد سمجھ کر اٹھ کھڑی ہوئی،

‘‘تیرا بڑا کدر؟ اور منجھلا کستو؟’’

‘‘کھیلتے ہوئیں گے کدر۔’’

اس نے پیار کے ساتھ ساوتری کی بانہیں پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا، ‘‘تھوڑا دیر بئٹھ نہ اکّا، میں اس کو بھاکری دیتی۔’’

کچھ سوچتی سی ساوتری بیٹھ گئی۔ وہ اٹھ کر جوار کی روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا لے آئی اور چھوٹو کے منھ میں ریزہ ریزہ کر کے ڈالنے لگی۔ چھوٹو مزے سے منھ چلانے لگا۔

‘‘کالونی گئی ہوتی؟’’

ساوتری نے پوچھا تو  اس کے جواب میں لکشما کا چہرہ اتر آیا۔

‘‘دروازہ کدر کھولتے پھلاٹ والے، ایک دو نے کھولا تو پچھو پوچھی میں کہ بھانڈی کٹ کا کے واسطے بائی منگتا تو بولنے کو لگے کہ کدر ریتی؟ کدر سے آئی؟ تیرا پیچاننے والی کوئی بائی آجو بازو میں کام کرتی کیا؟ کرتی تو اس کو ساتھ لے کے آنا۔ ہم تم کو پیچانتے نئیں، کیسا رکھے گا۔ اور پوچھا، یہ گودی کا بچہ کس کا پاس رکھے گی جب کام کو آئے گی؟ میں بولی، باقی دونوں بچہ پن میرا چھوٹا چھوٹا۔ سنبھالنے کو گھر میں کوئی نئی۔ ساتھیچ رکھے گی۔ تو دروازہ وہ میرا موم پیچ بند کر دیئے۔’’ لکشما کا گلا بھرا آیا۔

‘صبر کر، صبر کر، کام ملے گا۔ کدر نہ کدر ملے گا۔ میں پتہ لگاتی۔ کوئی اپنا پیچان والی بائی ملے گی تو پوچھے گی اس کو۔ یہ پھلاٹ والے چوری ووری سے بوت ڈرتے! کالونی میں کام کرتی کیا وہ! ’’

ساوتری نے کندھے تھپکا کر اسے ڈھارس بندھائی۔ اس کا چہرہ گھما کر آنسو پونچھے۔ اپنی مثال دی  اور بھر آئے من سے ہمت بندھانے لگی کہ ذرا سوچے، اس کے تو پھر تین تین اولادیں ہیں۔ وہ اکیلی کس کا منھ دیکھ کر زندہ رہے؟ ملک میں، سمندر کنارے پر بسے اس کے پورے کنبےکو اچانک ایک دوپہر   بپھرا ہوا طوفان تہس نہس کرگیا تھا اور گھر میں دیا جلانے والا بھی کوئی نہیں بچا۔

‘‘میں مری کیا سب کے ساتھ؟ دیکھ! ’’

اپنا دکھ تسلی نہیں دیتا۔ دوسروں کا دکھ ضرور حوصلہ دے دیتا ہے۔ یہ سوچ کر ساوتری نے اپنے درد کی گانٹھ کھول دی۔ لکشما نے بے چین ہوکر اکّا کی ہتھیلی بھینچ لی۔

‘‘کل میرا دوکان پر آنا۔ سیٹھ بوت حرامی ہے، پن میں ہاتھ پاؤں جوڑے گی تیرے کو رکھنے کے واسطے۔ اؤر ہاں، بڑے کو تابڑ توڑ بھیجنا تاندل کے واسطے۔’’

اس نے منظوری میں سر ہلا دیا۔

ساوتری جھونپڑے سے باہر آئی تو لکشما کی قابلِ رحم حالت سے من  پریشان ہو آیا۔ ’’مزے میں گرستھی کٹ رہی تھی۔ ایسی پنوتی لگی کہ سب اجڑ گیا۔ مرد مستری تھا۔ تیس روپیہ دہاڑی لیتا۔ ایک سبو (صبح)  پچیس مالے اونچی عمارت میں کام شروع کیا ہی تھا کہ بندھے بانسوں کے سہارے پھلی پر ٹکے پاؤں بالکنی پر پلستر چڑھاتے پھسل گئے۔ پندرہویں مالے سے جو پکے کٹہل سا چوا (گرا)  تو ‘آہ’ بھی نہیں بھر پایا گنڈپا۔ سیٹھ کھڈوس تھا۔ ثابت کر دیا کہ مستری باٹلی (شراب)  چڑھائے ہوئے تھا۔ البتہ رات کو ضرور وہ بوتل چڑھا کے سویا تھا، پر سبو ایک دم ہوش میں کام پر گیا۔ منھ سے دارو کی باس نہیں گئی تو اور بات۔ ہزار روپیہ لکشما کو ٹکا کے ٹرخا دیا حرامی نے۔

سب نے بولا ٹھیکیدار سیٹھ کو، مگر اس نے لکشما کو کام پر نہیں رکھا۔ بولا، اس کا تو پیٹ پھولا ہے۔ بیٹھ کے مجوری لے گی۔ بیٹھ کے مجوری دینے کو اس کے پاس پیسہ نہیں۔ مستری مرا تو وہ پیٹ سے تھی۔ ساتواں مہینہ چڑھا ہوا تھا۔

برا وقت۔ ایک کام، دس مجور۔ کام ملے بھی تو کیسے؟ اوپر سے مصیبت کا رونا ایک سے ایک بے ایمان اوڑھ کر نکلتے۔ کسی کے پاس کوئی اصلی جرورتمند پہنچے بھی تو کوئی وشواس کیسے کرے؟‘‘

چھوٹے کو کمر پر لادے لکشما  بنیئے کی دوکان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ ساوتری کی نظر اس پر پڑی تو وہ کام سے ہاتھ کھینچ، بنیئے کے پاس پہنچی اور لکشما کی مصیبتوں کا رونا روکر اس پر رحم کرنے کی سفارش کرنے لگی۔ لیکن بنیئے کے ڈپٹنے پر کہ جاؤ، جاکر اپنا کام دیکھو وہ مجبور  سی ایک بڑے سے جھارے سے اناج چالنے بیٹھ گئی۔ اس کی بغل میں چادر نما ٹاٹ پر پنجابی گیہوں کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔ پہلے سیٹھ سے اس کے محنتانے کا معاہدہ گونی پیچھے (فی بوری)  دو روپیہ تھا۔ پھر سیٹھ کو لگا کہ اس سودے میں اس کا نقصان یوں ہے کہ نوکر گونیاں جلدی جلدی نپٹانے کی منشا سے بیننے چننے میں مکاری برتتے اور اس کے فلیٹ والے گاہک اناج میں کنکر پتھر نکلنے پر اس سے اکثر جھِک جھِک پر اتر آتے ہیں کہ ان کی دوکان پر جس انداز سے دام لئے جاتے ہیں، سامان اتنا صاف ستھرا نہیں ملتا۔ سیٹھ نے پھر دن کے حساب سے مجوری طے کر دی۔ اب حالات بہتر ہیں۔ دونوں نوکرانیاں اور نوکردل  لگا کے کام کر رہے ہیں۔ سیٹھ نے گاہکوں سے فرصت پائی تو لکشما سے مخاطب ہوا۔ اس سے پوچھا کہ وہ پہلے کہاں کام کرتی تھی۔ اس کے بتانے پر کہ جب مستری شوہر زندہ تھا تو وہ بھی اس کے ساتھ بیگاری کرتی تھی، اینٹ گارے کے تسلے ڈھوتی تھی اور پچھلے ڈیڑھ سال سے وہ باقاعدہ کسی کام پر نہیں ہے، سیٹھ نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا اور ایک بھوں ٹیڑھی کر کے سوال کیا کہ کیا اس کے یہی ایک بچہ ہے جو گودی میں ہے؟ لکشما نے یہ بتانے پر کہ اس کے علاوہ اس کے دو بچے اور ہیں، سیٹھ نے ان بچوں کی عمر جاننی چاہی۔ اس نے بے جھجھک بتا دیا کہ بڑا والا چھ کا ہے اور منجھلا چار کا۔

سیٹھ نے چھوٹتے ہی اسے ٹکا سا جواب دیا، ‘‘کئیا رکھے گا تمیرا کو؟ بڑا بچاوالی عورت کو پڑوڑتا نئی۔ پیچھے ایک بچے والی عورت کو رکھا ہوتا، اس نے اتنا گھوٹالا کیا کہ کیا بولوں۔ وہ کام پر بئٹھتی نئیں کہ اس کا ایک نہ ایک بچہ ملنے کو آتائچ ریتا۔ پتہ نئیں کیسا ہوشیاری سے وہ دو دو، چار چار کلو اناج غائب کر دیتی کہ میرا مگج پھر جاتا۔ پوچھنے پر شینڈی لگاتی سیٹھ، کچرا بوت نکلا۔’’ پھر تھوڑا اٹھ کر معنی خیز نظروں سے اس کے چہرے کو ٹٹولتے ہوئے بے شرمی سے مسکرایا اور بولا، ‘‘کام پر رکھنے کو سکتا پن گارنٹی کے واسطے کوئی داگنا بیگنا  (رقم یا زیور) ڈپوجٹ (Deposit)  رکھو۔ کارن کہ گونی پیچھے کلو ڈیڑھ کلو کچرا نکلتا ہے۔ اس سے جاستی کچرا نکلے گا تو ڈپوجٹ میں سے قیمت کٹ جائے گا۔ منظور تو بولو؟’’

کیا بولے؟ ٹینٹ میں داگنا ہوتا تو آج اس کی دوکان پر اس سے مجوری مانگنے آتی؟ چھینی ہتھوڑی نہ خرید لیتی اور گلی گلی ہانک لگاتی گھومتی کہ ‘ٹانکی لگوا لو، ٹانکی! ’ کوئی نہیں جانتا کہ چھینی ہتھوڑی ہاتھ میں آتے ہی سل بٹے پر اس کے ہاتھ کس مستعدی سے تھرکنے لگتے ہیں۔ چھوٹو کمرے پہ لدا اس کی پکڑ سے نیچے کھسکتا محسوس ہوا۔ سنبھلی اور مڑ کر بغیر ساوتری اکّا کی طرف دیکھے چل دی۔ ان کی  طرف دیکھ سکنے کا حوصلہ ہی جٹا نہیں پائی۔ ساوتری اکّا کو ضرور لگا ہوگا کہ سیٹھ نے اس کو انکار نہیں کیا، بلکہ جیسے اسے ہی جھونٹا پکڑ کر نوکری پر سے باہر کر دیا۔ جو عورت اناج کے کچرے میں سے اس کے بچوں کے لئے گھگھری بنانے کے لئے ان کے دانے چن کر لاتی ہے۔ لیکن جانتی ہے، یہی عورت دیا باتی (شام) کے وقت اناج کی گونیوں کے منھ  تاگے سے سی کر جب اپنی جھونپڑی میں لوٹے گی تو اسے ہمت نہ ہارنے کی گھٹی پلانے اس کی کھولی پر ضرور آئے گی۔

جھونپڑی پر پہنچی تو دونوں بچوں کو گھر سے ندارد پا کر،  مایوسی ، غصے، کھیج اور چڑچڑاہٹ میں بدل گئی۔ الٹے پاؤں انہیں گلی میں کھوجنے لپکی۔ وہ سڑک کے کنارے گٹر میں دھنسے ہمجولیوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑتے دکھائی دیئے۔ انہیں لگ بھگ گھسیٹتے ہوئے کھولی میں لائی اور چٹائی   پر پٹک کر مونگری سے پیٹنے لگی، مانو وہ بچوں کا جسم نہیں، بلکہ اس موٹے سیٹھ کا تھل تھل بدن ہو، جس نے انہیں کی موجودگی کے باعث نوکری پر رکھنے سے انکار کر دیا۔ جان بچانے کو بلبلاتے، چھٹپٹاتے،  مرغوں کی طرح  جان چھوٹتے ہی بے حرکت ہوتے ہوئے وہ بچے چٹائی پر سسکتے اوندھے پڑے رہے؛ جیسے  خوفزدہ ہوں کہ اٹھ کر بیٹھتے ہی اماں انہیں پھر ریتنے لگے گی۔ انہیں بے ہوش پڑا دیکھ وہ  شرمندگی اور پچھتاوےسے بے چین ہو کر پھپھک کر رو پڑی۔ کیا کرے؟ کیسے جئیے؟ کیسے انھیں جلائے؟

پچھلے مہینے جب اس کا من بہت بے چین  ہو اٹھا تھا، اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ ساوتری اکّا سے خوشامد کرے گی کہ اسے کچھ پیسے کرایے بھاڑے کے لئے ادھار دے دے۔ وہ بچوں سمیت گاؤں چلی جائے گی۔ سسرال میں گزر ممکن نہیں۔ مائکے میں بڑے بھائی ہیں۔ انہیں کے پاس رہ کر کھیتوں میں مزدوری کر لے گی۔ مگر ساوتری اکّا نے اسے دین دنیا سمجھائی کہ جو وہ سوچ رہی ہے، اب گاؤں میں ممکن نہیں۔ گاوؤں کی حالت تو یہاں سے بھی بدتر ہے۔ مزدوری، وہ بھی دو پاؤ چاول پر۔ یہاں تو پھر بھی غنیمت ہے۔ دیر سویر کچھ نہ کچھ جگاڑ ہو جائے گا۔ یوں چھٹپٹ کچھ نہ کچھ وہ کر ہی رہی ہے۔ پھر بھائی بھی بال بچے والا ہے۔ مہینے دو مہینے کی بات ہو تو سبھی رشتے داری نباہیں گے۔ لیکن جب انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ وہ مع خاندان ہمیشہ کے لئے روٹی توڑنے ان کی چھاتی پر آ بیٹھی ہے تو پلک جھپکتے مایا ممتا کھلے کافور سی چھو ہو جائے گی۔ اسے ساوتری اکّا کی بات  پریکٹکل لگی۔

اپنے بارے میں بھی خوب سوچا تو پایا کہ گاؤں جانے کی خواہش خود اس کی بھی نہیں؛ مگر پتہ نہیں کیوں جب بھی وہ ٹوٹنے ہارنے لگتی، خود کو گاؤں کے بھروسے ہی بھلاوا دینے کی کوشش کرتی کہ ایسا نہیں ہے کہ اس دنیا جہان میں اس کا اپنا کہنے لائق کوئی نہیں۔ اس نے پایا کہ ملک کے بھرم نے کئی دفعہ  اسے طاقت دی ہے اور سمیٹے رکھا ہے۔ قریب  جانے سے یہ بھرم ٹوٹ سکتا ہے اور وہ اس بھرم کو ٹوٹنے دے کر بکھرنا اور یتیم ہونا نہیں چاہتی۔

بچے چٹائی پر سبکتے سبکتے ہی سو گئے۔ چھوٹو کو بھی گدڑی پر تھپکا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی کہ جب تک وہ سو رہے ہیں، وہ بھاکری  (موٹی روٹی) تھاپ لے۔ جیسے ہی اٹھیں گے، بھوک بھوک چلائیں گے۔

دوپہر کے بعد مقادم انجّیا کے پاس جائے گی۔ ایک تو راشن کارڈ کے بارے میں پوچھے گی کہ کیا واقعی اس کا کارڈ بن سکتا ہے؟ دوسرے اس نے ہائی وے پر بن رہی سڑک کے ٹھیکیدار سے اس کی مزدوری کے بارے میں بات چیت کرنے کی جو  تسلی دے رکھی ہے، اس کا کیا ہوا؟ یہ بھی خیال آیا کہ پڑوس کی بھّیانی اسے اپنے کھل بٹے سمیت ایک کلو ہلدی کوٹنے کو دے گئی تھی، جس کی کٹائی وہ خرچ کے لئے اس سے پہلے ہی لے چکی ہے۔ اسے بھی نپٹانا ہوگا۔ خیر، بھاکری سے نپٹ کر اوٹلے پر بیٹھ کے کوٹ دے گی۔اندر  دھمک سے سوتے بچے جگ جائیں گے۔

مقادم کے یہاں سے وہ خوش خوش لوٹی۔

دونوں کام ہو گئے۔ کارڈ کے لئے وہ گنیسی سے لکھوا کر دے آئی کہ وہ اس کی بھاڑوتری (کرائے دار)  ہے اور اس کا کہیں بھی کوئی کارڈ نہیں۔ مقادم نے یہ بھی کہا کہ اس نے ٹھیکیدار سے اس کے کام کی بھی بات کر لی ہے۔ کل صبح وہ اسے ٹھیکیدار سے ملوا دے گا۔ سات روپے روز ملیں گے۔ سڑک پر پتھر کوٹنے ہوں گے۔ جب ڈامر پڑنے لگے گا تب کام ختم ہو جائے گا۔ پھر یہ اس کی محنت اور سوبھاؤ پر منحصر  کرتا ہے کہ وہ ٹھیکیدار کے اگلے کام میں مزدوری پاتی ہے یا نہیں۔ اگر پا گئی تو جہاں بھی ٹھیکہ ہوگا، وہ بھی دوسرے مزدوروں کی ٹولی کے ساتھ وہیں اپنا ڈیرا بنا کر بے فکر ہو کر  رہ سکے گی۔ کرائے بھاڑے کا بھی جھنجھٹ نہیں۔ خیر، یہ آگے کی بات ہے۔

اس نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں بچوں کو ساتھ ہی لے جایا کرے گی۔ دوسری مزدورنیوں کے بچے بھی تو ساتھ آتے ہوں گے۔ یہاں اس کے سامنے ہی نہیں ٹکتے حرامی تواس کی غیر موجودگی میں  کیسے گھر بیٹھیں گے؟ آنکھوں کے سامنے رہیں گے تو تسلی رہے گی۔ ساتھ رکھنے کی ضرورت بھی ہوگی۔ چھوٹو کو جہاں بھی بٹھائے گی، کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی تو چاہئیے ہوگا۔ کھانا وہ صبح ہی بنا کر پوٹلی میں باندھ لیا کرے گی۔ گلی میں مڑنے لگی تو یکایک خیال آیا کہ پلو میں جو ایک روپیہ بندھا ہوا ہے، اس میں سے دونوں بچوں کے لئے دس دس پیسے والی میٹھی گولی لئے چلے اور چار آنے کی چائے کی پتی۔ بڑے سے چار آنے کا دودھ بھی منگا لے گی۔ گڑ تھوڑا سا رکھا ہی ہوا ہے۔ ساوتری اکّا کو ‘چا’ کے لئے لوا لائے گی۔ اب فکر کیسی! کل سے مزدوری اسے ملنے ہی لگے گی۔ کتنا عرصہ ہو گیا ہے چھ سات رپلی اکٹھا دیکھے ہوئے۔

گھر پہنچی تو بچے ہمیشہ کی طرح ندارد ملے۔ مگر آج ان پر غصہ نہیں آیا؛ سوچا، بیچارے گھر میں بندھے  رہیں بھی تو کیسے؟ کوئی انہیں بٹھانے والا تو ہو۔

سگڑی (چولہا)  سلگاکر کنستر سے کل جمع تین مٹھی آٹا جھاڑ کر گوندھنے بیٹھ گئی۔ ایک دو بھاکری زیادہ ہی بنا لے گی ایک پیڑے  سے دو۔ ساوتری اکّا کو بھی کھا لینے کے لئے جبراً بٹھا لے گی۔ مگر اگلے ہی پل  ‘گھپ’ سے بجھ گیا۔ دعوت دینے کی سوچ تو رہی، کھلائے گی کاہے سے؟ ان کی داڑھیں بھی کمزور ہیں۔ سوکھی بھاکری چبانے میں بھی دقت ہوگی۔ دیکھے گی۔ کوئی ترکیب  سوچے گی۔ بنا تو لیتی ہی ہوں، اپنے من کی امنگ کو کیسے اور کہاں دبائے؟ اور اس غریب امنگ کی  گواہ ساوتری اکّا سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟ اچانک یاد آیا۔ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہے۔ ‘چا’ کے واسطے تھوڑا سا گڑ رکھا ہوا ہے۔ ایک ڈلی پانی میں بھگو چٹنی جیسی بنا لے گی۔ کام نپٹا کر، بچوں کو ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر پکڑ لائی۔ انہیں میٹھی گولی دے کر، چھوٹے کو کھلانے کی تاکید کر کے ساوتری اکّا کے جھونپڑے کی اور چل دی۔ وہ بس پہنچی ہی تھی کہ اس نے اکّا کو اپنی جھونپڑی کی کنڈی کھولتے ہوئے پایا۔

‘‘آ لکشما، آ۔’’ ساوتری اکّا نے کچھ بجھے ہوئے لہجے میں اسے اندر بلایا۔

اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی صفائی دیتے ہوئے کہنے لگی

‘‘میرے کو بھوت دکھ ہوا، سیٹھ نے تیرے کو کام کے واسطے نہ بولا نا! ’’

‘‘اکّا، میں۔ ۔ ۔ ’’ وہ انہیں صبح کے واقعے پر  مایوس نہ ہونے دینے کے خیال سے فوراً خوشخبری سنا دینے کو اتاولی ہو آئی۔ اکّا اپنی ہی دھن میں ڈوبی ہوئی اس کے اتاؤلے پن کو  بے صبری کے معنی میں لے کر  ڈھارس بندھاتی سی بولی۔

‘دیکھ، تو گھبرا نئیں! ایک اؤر بھی راستہ ہے۔ میرے کو کلابائی بولی کہ ایک عورت ہے، وہ چھوٹے بچے کو گود لیتی ہے، سنبھالتی ہے۔ شام کو بچہ پرت دیتی۔ ساتھ میں پئسا بھی دیتی۔ میرے کو بات جمع۔ بچے کا واسطے تیرے کو کام نئیں ملتا نہ۔ پھر کام کرنے کو سکے گی۔ میں سبوچ اس کو اپنے جھونپڑے پر بلائی۔ کلابائی ساتھ لے کے آئے گی۔ اس کو لے کے میں تابڑ توڑ تیرے پاس آئے گی۔ بچے کو وہ عورت بھوت اچھے سے رکھتی۔ کلابائی کو معلوم! ’’

وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پائی، ساوتری اکّا کا کیا مطلب ہے؟ کون سی ایسی اچھی عورت ہے، جو بچے کو پورا دن اپنے پاس رکھے گی، سنبھالے گی اور شام کو اسے لوٹائے گی تو ساتھ پیسے بھی دے گی! پر اس وقت اس نے ساوتری اکّا کو مزید چھیڑنا  مناسب نہیں سمجھا۔ صبح اسے لے کر وہ جھونپڑے پر آئیں گی ہی، تبھی اصلیت  خود بخود پتہ چل جائے گی۔

انکو ڈھبری جلاتے ہوئے دیکھ کر وہ اٹھ کر ان کے پاس آ کھڑی ہوئی اور اتاولی بھرے سور میں بولی، ‘‘اکّا، گھر کو چل نہ۔ تیرے واسطے میں چا پانی کرے گی، کھانا پن تو بچہ لوگوں کے ساتھچ کھانا۔ بھاکری کر کے آئی میں اؤر گڑ کا چٹنی۔’’

ساوتری اس کی طرف مڑی۔

‘‘ہاں، اکّا، مکادم بولا کہ وہ میرا کارڈ پن بنائے گا اور کل سے میرے کو کام پر بھی جانا۔’’

‘‘ائیو! ’’ ساوتری اکّا کی آنکھوں میں مسرّت آمیز تعجب چھلچھلا اٹھا۔

اس نے ایک سانس میں ساری بات انہیں سنا ڈالی اور پایا کہ خوشی سے اکّا کی آنکھوں میں گیلی چمک پیدا ہو آئی ہے۔

راستہ کٹ نہیں رہا۔ ویسے بھی سانتاکرز ہائی وے کوئی نزدیک نہیں۔ اس کی جھونپڑپٹی سے کوئی ڈیڑھ کوس سے کم نہیں ہوگا۔ لیکن یہ دوری جاتے وقت فرلانگ بھر بھی نہیں لگی تھی اور اب واپسی میں سُرسا کا منھ ہو رہی ہے۔

ٹھیکیدار نے کہا تھا، جس مزدورنی کے بارے میں  وہ سمجھا تھا  کہ کام چھوڑ گئی ہے اور جو پچھلے ہفتے بھر سے بنا کسی اطلاع  کے لاپتہ تھی، آج صبح اچانک مزدوری پر لوٹ آئی۔ اس کی جگہ پر اس نے مقادم سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے کوئی مزدور دے دے۔ اب جب وہ لوٹ آئی ہے تو بدلے میں کسی اور کو کام پر رکھنا ممکن نہیں۔ ہاں، ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد اس کی مرضی ہو تو چکر مار لے۔ کنتوؔ شائد چھٹی پر جائے۔ ادھر اس کی ماں کو لقوہ مار گیا ہے۔

سمجھ گئی کہ آگ لگے پیٹ کی سوکھی انتڑیاں نکال کر ٹھیکیدار کے سامنے رکھ دے، پھر بھی کوئی گنجائش پیدا ہونے سے رہی۔

خود  مقادم کا چہرہ اتر گیا۔ دکھ کے لہجے  میں بولا، ‘‘گھبرا نئیں، لکشما! میں دوسرا جاگا پھن کوسس کرے گا(میں دوسری جگہ پھر کوشش کروں گا)۔’’

سبھی اس کے لئے سوچ رہے ہیں کہ کسی ترکیب سے دو وقت روکھے سوکھے کا ہی جگاڑ ہو جائے، مگر اس کی ہی قسمت پھوٹی ہے تو کچھ کیسے جٹے؟

صبح کتنے تاؤ سے ساوتری اکّا سے اینٹھ گئی تھی کہ اکّا نے اس کی مدد کی خاطر اتنا کمینہ راستہ کیسے سوچا؟ کیوں لے آئی اس بد ذات عورت کو اس کے پاس؟ سن کر اکّا نے بغیر چڑھے ہوئے جواب  دیا کہ وہ اس کی دشمن نہیں، نہ بچوں کی۔ مگر بچوں کا دانے دانے کو ترسنا اس سے جھیلا نہیں جاتا۔ کیا وہ نہیں جانتی کہ وہ رات دن دوڑ دھوپ کے باوجود کانجی تک تو چار دانے بھات کے ساتھ انہیں پلا نہیں پاتی! کچھ دنوں  تک یہی حال رہا تو سوچے کہ بچوں کی کیا حالت ہوگی! انہیں بھی کلابائی کے منھ سے پہلے پہل یہ بات  سن کر تعجب ہوا تھا کہ کوئی اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو بھیک مانگنے والی عورت کو کرایے پر کیسے دے سکتا ہے؟ ایسی غلیظ حرکت سے تو ڈوب مرنا اچھا۔ اسی ادھیڑ بن کے چلتے سچائی جانتے ہوئے بھی اس نے کل شام کو لکشما کو حقیقت  نہیں بتائی۔ پوری رات کروٹیں بدلتے سوچتی رہی تھی کہ صحیح غلط کیا ہے؟ آخر یہی لگا کہ جیسی کٹھن آزمائش کی گھڑی لکشما کی چل رہی اس میں زیادہ  سوچ بچار کی گنجائش نہیں۔ ہاں، کل اگر اسے کوئی مل جاتا ہے اور وہ اپنے بچوں کو آرام سے پال پوس سکتی ہے تو اپنا بچہ اس سے واپس لینے میں کون سی دقت؟

‘‘ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچ، لکشما! بھیک تو وہ مانگے گی، چھوٹو سے تھوڑی ہی منگوائے گی۔ بچہ تو صرف اس کی گودی میں رہے گا۔’’ ‘‘اس میں کوئی غلط نئیں۔’’ کلابائی نے اس کا سنکوچ توڑنا چاہا۔

وہ چپ چاپ  سب کی دلیلیں سنتی رہی۔ ساتھ آئی ہوئی عورت نے کچھ زیادہ ہی  بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بغل میں لٹکے چیکٹ تھیلے میں سے ایک خوبصورت سی پلاسٹک کی دودھ کی بوتل نکال کر اسے دکھائی اور کہا کہ وہ بڑے بچوں کو نہیں، گودی والے کی ہی کرائے پر لیتی ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمے داری اٹھاتی ہے۔ چونکہ چھوٹے بچے کے دودھ، بسکٹوغیرہ پر زیادہ خرچ آتا ہے، اس لئے اسی حساب سے اس کا کرایا کم ہو جاتا ہے۔ کرایا وہ صرف دو روپے دے گی، جسے وہ ہر شام بلا ناغہ تھما دیا کرے گی۔ بچے کی قسمت سے اگر کمائی زیادہ ہونے لگے گی تو وہ اس کا کرایا بھی بڑھا دے گی۔ بچوں کی کمی نہیں اسے ایک ڈھونڈھو، ہزار ملتے ہیں، پر کلابائی نے اس کی بطور خاص سفارش کی تو وہ لکشما سے ملنے چلی آئی۔ اگر اسے سودا  قبل نہیں کوئی بات نہیں۔ مگر اسے ذلیل کیوں کر رہی؟ اسے کیا پتہ کہ بھیک مانگنا کتنا کٹھن کام ہے اور اس کام میں اسے کتنی ذلتیں اٹھانی پڑتی ہیں؟ ورار سے چرچ گیٹ، چرچ گیٹ سے ورار۔ ۔ ۔ گھنٹوں ڈبے ڈبے، کھڑے کھڑے گھومنا پڑتا ہے۔ سواری سواری گڑگڑانا پڑتا ہے۔ بچے کو اٹھائے اٹھائے بازو دکھ جاتے ہیں۔ اس کا ہگنا موتنا الگ دھوتے رہو۔ ۔ ۔

وہ آپے سے باہر ہو اٹھی۔ اس نے لگ بھگ دھکا لیتے ہوئے اس عورت کو جھونپڑے سے باہر کھدیڑ دیا اور حتی الامکان  نارمل  ہو کر ساوتری اکّا سے بولی کہ وہ اب اس پر مہربانی کریں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ ویسے آج سے وہ مزدوری کو جا ہی رہی ہے۔ سب سنبھل جائے گا۔ لیکن۔ ۔ ۔ بندھی ہوئی امید کچھ ہی گھنٹوں میں دم توڑ بیٹھی۔ یہ کیسی لا متناہی آزمائش ہے! تھک گئی ہے، بہت۔ اب اور نہیں چل سکتی۔ اداس من میں ایک بھیانک خیال نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ تینوں بچے ساتھ ہیں۔ زندہ بھی مردہ  کی طرح۔ کیوں نہ تینوں  کے ساتھ سڑک کے اس پار سمندر میں پاؤں دے دے؟ ٹنٹا ختم!

اف! یہ کیا سوچ رہی ہے؟ اس نے اپنے کو بری طرح جھڑکا۔  لعنت ملامت کی کہ ان معصوموں کا بھلا کیا دوش؟ کیوں انہیں مار ڈالنا چاہتی ہے؟ اس لئے نہ کہ وہ مٹھی بھر بھات کے محتاج ہیں۔ ۔ ۔ ہفتے بھر کی ہی تو بات ہے۔ ٹھیکیدار نے پھر بلایا ہے۔ بھگوان کرے، کنتو کی لقوہ زدہ  ماں ٹھیک نہ ہو۔ ۔ ۔ پھر مقادم نے بھی آس بندھائی ہے۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، بدلتا ہے۔ اس کا بھی بدل سکتا ہے۔ آخر اتنے دن کسی نہ کسی طرح کٹے ہی۔ لیکن کس طرح سے کٹے! صبح کٹی تو دوپہر بھاری ہو گئی۔ ۔ ۔ دوپہر کٹی تو رات! بچوں سمیت مرنے کی کیا پہلی بار سوچی ہے؟ ایک رات جب پیٹ میں پانی انڈیل کر بھی بچوں سے بھوک برداشت  نہیں ہوئی تو تینوں کو گھسیٹتی کریمن چالی کے پچھواڑے، اندھیرے میں ڈوبی باؤڑی میں چھلانگ لگانے نہیں جا کھڑی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ اور اس دوپہر بھی تو اپنے ہڈی ہڈی بدن سے تینوں کو چپکائے پگھلتے کولتار والے ہائی وے پر پہنچی ہی تھی ، یہ طے کر کے کہ جیسے ہی دیو ہیکل ٹرک یا دو مالے والی بس آتی دکھائی دے گی، وہ بچوں سمیت جھپٹ کر سامنے ہو جائے گی۔ ۔ ۔

ایسے مریں یا ویسے، مریں گے ضرور ایک دن۔ اور وہ بھی قتل ہی ہوگا اور وہ قاتل! سلگتی پیٹ کی آنتوں کو ان کی خوراک نہ دے کر، انہیں ترسا ترساکر مارنا قتل نہیں؟

جس آس کے کنارے کو مٹھی میں بھینچے وہ اپنے کو ڈھارس بندھا رہی ہے، اگر اسی کنتو کی ماں ایک روز ٹھیک ہو اٹھ کھڑی ہوئی تو کیا ٹھیکیدار اسے مزدوری پر رکھے گا؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ آج کی طرح ہی اسے ٹرخا دے گا۔ کتنا گڑگڑائی تھی وہ مقادم کے سامنے ہی کہ ’’جہاں اتنے مجور کھپے ہوئے ہیں، ایک اسے بھی رکھ لے بھلے آدھی مجوری پر سہی۔‘‘

مگر ٹھیکیدار نے بے اثر ہو کر ٹکا سا جواب پکڑا دیا ‘‘وہ پن بھوت مشکل ہے۔ ویسے نئی بات نئیں۔ آدھے سے بھی جاستی مجور ادھر آدھی دہاڑی پہ کام کرتے۔ پوری، دہاڑی کون دیتا؟ ٹریننگ میں سرکار دیتی؟’’

لگا کہ چلچلاتی دھوپ میں وہ جس کٹتی پستی سڑک کو اپنے پیچھے چھوڑ آئی ہے، وہ پیچھے کہاں چھوٹی ہے؟ سڑک کی چھاتی اس کے سینے سے چپکی اس کےساتھ  چلی آئی ہے اور پتھروں سے لدے ٹرک لگاتار وہاں خالی ہو رہے ہیں اور سیکڑوں ہتھوڑے ایک ساتھ ‘ٹھک’ ‘ٹھک’ اس کی چھاتی کوٹ رہے۔ ۔ ۔

اچانک ایک خیال بجلی  کی طرح دماغ میں تڑکا۔ بچے بچ سکتے ہیں۔ اپائے ہے اگر وہ چھوٹو کو اس بھک منگی عورت کو کرائے پر اٹھا دے تو؟ چھوٹو کا پیٹ بھرے گا ہی بھرے گا، دو روپے جو اوپر سے ملا کریں گے۔ اس میں کلو بھر موٹا چاول آ جائے گا۔ بڑے اور منجھلے کے پیٹ میں بھی دانے پڑ جائیں گے۔ پھر کون اسے ہمیشہ کے لئے کرائے پر اٹھائے گی! کچھ ہی دن کی تو بات ہے۔ ٹھیکیدار نے مزدوری نہیں بھی دی تو دیر سویر کہیں نہ کہیں جگاڑ لگ ہی جائے گا۔ مزدوری ملتے ہی وہ تابڑ توڑ چھوٹو کو اس عورت کے چنگل سے چھڑا لے گی۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ساوتری اکّا کی بات الگ  ہے۔ وہ تو اس کی ڈھکے پھٹے کی ساتھی  ہیں ہی۔

شام کو اکّا سے جا کر کہہ دے گی کہ اسے اس عورت کی بات منظور ہے۔ شام کو ہی کیوں، ابھی ہی کیوں نہیں؟ یہاں سے سیدھا ساوتری اکّا کی دوکان پر ہی نہ چلی جائے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عورت اپنے دھندے کے لئے کوئی دوسرا بچہ طے کر لے۔ ابھی مل لے گی تو ساوتری اکّا کلا بائی کے ہاتھوں فوراً اس کے پاس خبر بھجوا دیں گی کہ اسے بچہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں۔ ۔ ۔ چھوٹو پیٹ میں آیا تو اس کا سپنا تھا کہ اس کے ہونے پر وہ مستری سے ضد کر فلیٹ والوں جیسی رنگ برنگی دودھ کی بوتل خریدے گی۔ بھلے اس کی چھاتیوں سے بالٹیوں دودھ اترے۔ ۔ ۔

وہ سگڑی پر سے گیلا بھات اتار کر سوکھی بومبل (سوکھی مچھلی) کا سالن چھونکنے جا رہی ہے؛ لیکن اچاٹ من ہاتھوں کا ساتھ نہیں دے رہا۔

اندھیرا گاڑھا ہو  گیا۔ مگر اب تک چھوٹو کو لے کر جگو بائی کھولی نہیں لوٹی۔ چھوٹو کو دھندے پر لے جاتے اسے تیسرا مہینہ پورا ہونے کو آیا، پر کبھی لوٹنے میں اتنی دیر نہیں ہوئی۔ اندھیرا گھر نے سے پہلے وہ چھوٹو کو اس کے حوالے کر جاتی ہے اور بلا ناغہ دو روپے کے چلر ہتھیلی پر رکھ دیتی ہے۔ دل ان دیکھے خوفوں سے ڈر رہا ہے۔ کہیں بھیڑ بھڑکے میں چڑھتے اترتے دھکا نہ کھا گئی ہو؟ بنا ٹکس  (ٹکٹ) کے تو نہیں گھومتی پھرتی کہ پکڑی گئی ہو اور جیل میں بند ہو؟ پھر؟ کچھ سوجھ نہیں رہا کہ کیا کرے! رہتی کہاں ہے، یہ بھی تو اسے ٹھیک سے پتہ نہیں کہ وہیں چکر مارکر کھوج خبر لے لے۔ کہیں وہ سیدھے اپنی کھولی پر تو نہیں چلی گئی؟ حالانکہ بغیر چھوٹو کو اس کے حوالے کئے وہ سیدھے اپنی کھولی نہیں جائے گی۔ کبھی گئی نہیں۔ لیکن جانے کو جا بھی سکتی ہے! اس جیسی سرپھری ماں کوئی ہوگی! جس کو اپنے کلیجے کا ٹکڑا سونپا اس کا ٹھکانہ نہیں رکھنا چاہئیے؟ مانا کہ سودا ساوتری اکّا نے پٹایا، لیکن خود اس کی ذمے داری نہیں بنتی۔ ۔ ۔ ساوتری اکّا کو خبر کر دے؟

سالن پر ڈھکن دے کر اٹھنے کو ہی تھی کہ جھونپڑی کے دروازے پر کسی کے ننگے پیروں کی آہٹ سنائی دی اور دوسرے ہی پل جگو بائی سوتے ہوئے چھوٹو کو گودی میں اٹھائے اندر داخل ہوتی دکھی۔ اس کی جان میں جان آئی۔ کچھ پوچھنے سے پہلے ہی جگو بائی نے چھوٹو کو اس کی گودی میں اتارتے ہوئے آنکھوں کو نچا کر اشارہ کیا کہ پہلے بچے کو وہ چٹائی پر تھپکا دے۔

’’بڑی مشکل سے سویا ہے۔ بہت بومڑی مارتا!‘‘

چھوٹو کو لیتے ہوئے اس سے صبر نہیں ہوا ‘‘کچھ لپھڑے وپھڑے میں پھنسی کیا؟’’

اس کی نادانی پر جگو بائی ہنس دی ‘‘میرے کو لگا کہ تو ییئچ سوچ کے گھبراتی ہوئے گی۔ میں دھائی دھائی میں پھاسٹ ٹرین میں چڑھی۔ ۔ ۔ پچھو وہ خوار کدر رکنے کی؟ بوری ولی اتری کہ تابڑ توڑ سلو ٹرین پکڑی، اؤر ابی ادھر پونچی۔ لے، پھٹا پھٹ تیرا حساب لے۔’’ اس نے ٹینٹ کھول کر دو روپے کی چلر گنی اور اس کی طرف  بڑھا دی۔ پھر الومنیم کا پچکا کٹورا اوندھا کر دکھاتی ہوئی بولی، ‘‘ذرا پن دھندا نئیں ہوا، پر تیرے کو جو ٹھیرایا وہ دینائچ نا۔’’

لکشما نے بغیر کچھ کہے  چلر کی ڈھیری بنائی اور ساری کے پلو میں لپیٹ کر ٹینٹ میں کھونس لی۔ دھندا ہوا کہ نہیں، بھلا اس سے اس کو کیا لینا دینا! وہ زیادہ کم کے ٹنٹے میں پڑتی ہی نہیں۔ ۔ ۔

ادھر جگو بائی چھوٹو کو لینے جھونپڑے میں گھستی نہیں کہ اس کے جاتے ہی وہ بڑے اور منجھلے کو سامنے ہی کھیلتے رہنے کی دھمکی دیکر گھر سے باہر ہو لیتی۔ جہاں بھی جو بتاتا، پتہ لگانے پہنچ جاتی کہ کیا اس کے لائق کوئی کام وہاں نکل سکتا ہے۔ کل صبح ٹھیکیدار کے پاس مقادم کو لے کر پھر چکر مار آئی ہے۔ ۔ ۔ کنتو کی ماں ٹھیک نہیں ہے، پھر بھی وہ چھٹی پر نہیں جا رہا۔

سالن کی کھد پد  سے پتیلی کا ڈھکن ہل رہا ہے۔ آنچل سے ڈھکن کھینچ کر دیکھا تو خوشبو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ بومبل پک گئی۔ اسے بچوں کا خیال ہو آیا۔ بیچارے شام  سے ہی بھوک بھوک کی رٹ لگائے، سر پر کو دم کود مچائے ہوئے تھے۔ منجھلے کستو نے آ  کر کئی بار پوچھا، ’’چھوٹو دھندے پر سے نئیں آیا؟ آئے گا تو پچھو بھاکری دے گی؟‘‘

کسی طرح  انہیں بہلا پھسلاکر باہر بھیج دیا تھا۔ کرتی کیا، چھوٹو کی فکرکسی کام میں لگنے ہی نہیں دے رہی تھی۔ خیر، اب تو چھوٹو گھر آ گیا اور کھانا بھی پک گیا۔ اٹھی اور بچوں کو بلانے کے لئے باہر لپکی۔

ابھی اس نے جھونپڑے سے باہر پاؤں دیا ہی تھا کہ اچانک چھوٹو ٹھنک کر جاگ گیا اور چیخیں مار مارکر رونے لگا، جیسے کسی نے اسے سوتے میں چٹکی بھر لی ہو اور وہ درد سے بلبلا کر چیخ پڑا ہو۔ وہ پلٹ کر گھبرائی ہوئی سی اس کی طرف  دوڑی۔ اسے گودی میں اٹھا کر پچکارا، پیار کیا۔ پھر کٹوری چمچ اس کے سامنے رکھ کر بہلایا کہ کچھ دیر کسی بھی طرح چھوٹو بہل جائے اور کٹوری چمچ کے سنگ کھیلے تو وہ بڑے اور منجھلے کو بلا لائے۔ مگر اس نے پایا کہ چھوٹو کسی طرح چپ ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اندیشہ ہوا کیڑے ویڑے نے تو کہیں نہیں کاٹ کھایا؟ چوکنی نظر سے اس نے چٹائی کو دیکھا۔ اسے کچھ نہیں دکھا۔

جھنجھلا کر وہ اسے جیوں کا تیوں چھوڑ کر باہر ہو گئی۔ ادھر چھوٹو بہت چیں چیں کرنے لگا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ دن بھر جگو بائی کی گودی چڑھے رہنے اور گھر سے باہر رہنے کے کارن چھوٹو کو گھومنے  کی بری لت ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر میں گھستے ہی وہ لگاتار ممیاتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اسے گودی میں اٹھائے ہی رہے۔

دن بھر کی مغز ماری کے بعد بچتا ہے بوتا کہ چھوٹو کی گودی میں ٹانگے گھومتے پھرے؟ ضد کی عادت چھٹانی ہوگی۔ بڑے اور کستو کو لیکر گھر میں گھسی تو چھوٹو کو پہلے کی ہی طرح روتے ہوئے پایا۔ اب کی اس نے دھیان ہی نہیں دیا۔ کستو اسے گودی میں اٹھانے لپکا تو اسے بھی ڈپٹ دیا، ‘‘پڑا رہنے دے! ’’

چھوٹو کو ان دیکھا کرتے ہوئے بڑے اور کستو کے لئے بھات اور بومبل پروس کر تھالی ان کے سامنے سرکائی کہ تبھی نظر ان کے گندے ہاتھ پاؤں پر گئی۔ جھنجھلاتی ہوئی اٹھی اور انہیں لگ بھگ گھسیٹتے ہوئے موری کے قریب لے جا کر بھنبھناتی، ہاتھ پاؤں دھلانے لگی۔ صبح ہی  باؤڑی سے پانی کھینچ بھرپور دونوں کو نہلا دھلا کر چھوڑ گئی تھی۔ کیسے گٹر میں لوٹے سوروں کی طرح نظر آ رہے ہیں! پلے سے بڑے کا منھ پونچھ ہی رہی تھی کہ اچانک پلٹی۔ تھالی کی جھنجھناہٹ سن کر  مڑ کے دیکھا، پایا کہ گھٹنیوں گھٹنیوں جا کر چھوٹو نے جھپٹا مارکر بھات کی تھالی لادی پر الٹ دی ہے۔ وہ غصے سے باؤلی ہو اٹھی۔ ‘تاڑ’ ‘تاڑ’ اس نے لپک کر چھوٹو کو تھپڑ جڑ دیئے۔ ‘‘تیرے کو دودھ ہونا، بسکٹ ہونا۔ ۔ ۔ اکھا دن پیٹ بھر کھانا ہونا۔ ۔ ۔ پن گھر میں آ کے ہر روز بوما بوم کرنا۔ ییئی واسطے چ تو ویسا کا ویساچ بومبل سری کا، حرام خور! ستیاناس کیا نہ اتنا بھات! ’’

چھوٹو مار کھا کر آنکھیں الٹ بیٹھا۔ اس کے سینک سے ہاتھ پاؤں تکلی میں بنٹتے سوت سے اینٹھنے لگے۔ وہ گھبرا گئی۔ یہ کیا ہو گیا اچانک چھوٹو کو؟ ہاتھ بھر کا بدن نیلا پڑ رہا۔ کبھی تو ایسا نہیں ہوا اسے۔ کئی پہلی بار پٹائی کی اس کی؟ کئی دفعہ بھنا کر اس نے چھوٹو کو اٹھا کر پٹک تک دیا ہے۔ ۔ ۔ اور سبکیاں کھینچ کھینچ کر چھوٹو اوندھا گیا ہے۔ اسے رونا  آنے لگا۔ ہاتھ پاؤں مل مل کر جسم گرمانے کی کوشش کی کہ وہ ہوش میں آئے، پر اس نے محسوس کیا، اس کی پسیجتی ہتھیلیوں کی آنچ سوکھنے کے باوجود چھوٹو کیا بدن مسلسل ٹھنڈا ہی پڑتا جا رہا ہے۔ نیلے پڑ رہے ہونٹوں کے بائیں کونے پر اچانک سفید جھاگ سے پھوٹنے لگے۔ اکڑابدن چھٹ پٹ کرنے لگا۔ بھڑبھڑا کر اس نے چھوٹو کو گودی میں اٹھا  کر جھنجھوڑ دیا۔

اچانک اسے یاد آیا رام دیو بھییانی کے اکلوتے بیٹے بچوا کو سانسیں کھینچ لینے کی بیماری ہے۔ ڈاکٹر نے بھییانی کو مشورہ دی اہے کہ جیسے ہی بچوا روتے روتے سانس کھینچ  لے، وہ فوراً ہتھیلی بھر پانی ‘چھپاک’ سے اس کے منھ پر مار دے۔ پانی پاس میں نہ ہو تو زوردار تھپڑ رسید دے، پٹ سے سانس لے لدے گا بچوا۔ روگ کوئی نہیں بچوا کو۔ فقط ضد چڑھتی ہے، ضد۔ چھوٹو کے لکشن بھی ملتے جلتے لگے۔ اس نے جی مضبوط کر چھوٹو کے گال پر زور کا تھپڑ جڑ دیا۔ ۔ ۔ اثر نظر آیا۔ اینٹھا بدن کچھ ڈھیلا ہوا۔ چھٹ پٹاہٹ بھی۔

’’ہلنے کا نئیں چھوٹو کے پاس سے! دیکھ اس کو، میں ابی آئی۔’’ بڑے اور کستو کو ہدایت دے وہ اسے جیوں کا تیوں چھوڑ کر بدحواس ساوتری اکّا کے جھونپڑے کی اور دوڑی۔ اکّا کو سنگ لے کر لوٹی تو پایا کہ منجھلے اور بڑے کے رونے کی آواز  سن کر تمام پڑوسی چھوٹو کے ارد گرد گھر آئے۔ چھوٹو کی نازک حالت دیکھ کر سبھی نے مشورہ  دیا کہ دیسی علاج میں وقت گنوانا مناسب نہیں۔ اکّا نے چھوٹو کو لپک کر گود میں اٹھایا اور مین سڑک پر واقع ڈاکٹر چرولکر کے دوا خانے کی سمت دوڑی۔ پیچھے پیچھے کچھ اڑوسی پڑوسی بھی۔

ڈاکٹر چرولکر نے بچے کی نازک حالت دیکھتے ہی ہتھیار ڈال دیئے کہ بچے کا علاج ان کے بس کا نہیں۔ اسے فوراً بھابھا اسپتال لے جانا ہوگا۔ بچے کو گلوکوز چڑھانا پڑے گا، خون دینا ہوگا۔ لکشما نے گھبرا کر ساوتری اکّا کی طرف دیکھا تو ساوتری اکّا نے اس کا مطلب بھانپ کر تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے اور ترنت ایک ٹیکسی روک لے۔ پیسے ہیں ان کے پاس۔

سیانی اکّا چھوٹو کو سیدھا اسی وارڈ میں لے گئی جہاں گمبھیر مریض کو داخل کیا جاتا ہے۔ جہاں پرچی بعد میں کٹتی ہے، ڈاکٹر پہلے دیکھتے ہیں۔ تقریباً پانچ منٹ بعد بے ہوش پڑے ہوئے چھوٹو کو بڑی نرس دیکھنے آئی تو اس کی حالت دیکھ کر فکر مند ہو اٹھی۔ بگڑی کہ بچے کو تم لوگ اسپتال تبھی لاتا جب بچہ مرنے کو ہوتا ہے! کیوں لایا اس کو ابھی ادھر؟ پھر اس نےفوراً  ڈاکٹر کے پاس خبر بھجوائی اور بابا نرس کو بچے کو فوراً امرجینسی وارڈ میں لے چلنے کی تاکید کی۔

دیوار سے ٹکی کھڑی لکشما کی سونی آنکھیں وارڈ کے بند دروازے کو سوئے سی چھیدتی، آر پار دیکھ پانے کو چھٹپٹاتی سی لگیں۔ دھیمے سے اکّا نے نڈھال لکشما کو چھوا

‘‘گلوکوز کا ایکچ باٹلی کو خالی ہوتے چار تاس (گھنٹے) لگتے۔ اکھا رات ایئسا کھڑا ہونے سے چلے گا؟ سوچ، تیری طبیعت بگڑی نہ، پچھو تیرے کو دیکھنا کہ چھوٹو کو سنبھالنا۔ ۔ ۔ ’’

‘‘ڈاکٹر بوت ہشیار ادھر کے۔ سب ٹھیک ہوئے گا۔’’ اکّا نے ڈھارس بندھائی۔

جیسے ہی کوئی وارڈ سے باہر آتی نظر آتی، بے چین لکشما  پر امید ہو کر اس کی طرف لپک پڑتی۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر وارڈ سے ان کی جانب آتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے پاس پہنچ کر سب سے پہلا سوال پوچھا کہ ’’ان چاروں میں سے بچے کی ماں کون ہے؟‘‘

ساتھ آئی کامبلے تائی نے لکشما کی طرف اشارہ کیا۔

ڈاکٹر نے پل بھر لکشما کو چبھتی نظروں سے دیکھا، پھر خشک لہجے میں بولے، ‘‘بچے کو کھانے کو نہیں دیتی تھی کیا؟ بچہ بھوک سے مر گیا۔ ۔ ۔ اس کی آنتیں سوکھ کر چپک گئی تھیں۔’’

‘‘کیا؟’’ لکشما کے گلے سے آری سی کاٹتی ایک چیخ پھوٹ پڑی ‘‘پن کئسا؟ وہ تو بولتی ہوتی کہ وہ اس کو دودھ دیتی، بسکٹ کھلاتی۔ ۔ ۔ ’’ اس پر بیہوشی سی چھانے لگی۔

ساتھ آئی عورتوں نے لپک کر لکشما کو سہارا دیا۔

اچھے برے موقعے کا لحاظ کئے بغیر کامبلے تائی اپنے کو روک نہیں پائی۔ نفرت بھرے لہجے میں بولی، ‘‘اب رونے سے کیا! بھکارن نے بچہ پوجا کے واسطے نئیں لیا ہوتا۔ وہ چھنال بچے کا پیٹ بھرتی تو بچہ آرام سے گودی میں سوتا، پچھو اس کو بھیک کون دیتا؟ ارے، وہ بچے کو فقط بھکاچ نئیں رکھتے، روتا نئی تو چکوٹی کاٹ کاٹ کے رلاتے کہ لوگوں کا دل پگھلنا۔ ۔ ۔ ابھاگن، کائے کوں دی تو اس کو اپنا چھوٹو رے؟’’

ڈھے رہی لکشما کو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ اسے صرف دکھائی دے رہی ہے دودھ بھری بوتل۔ ۔ ۔ بسکٹ کا ڈبہ۔ ۔ ۔ چپ کی آنتیں۔ ۔ ۔ اور ایک بچے کی لاش!

٭٭٭

ماخذ: گدیہ کوش، ہندی رسم الخط سے تبدیلی اور ترجمہ: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید