FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بند راستے

ابن کنول

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں …..

ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

پورے شہر میں خوف و ہراس برسات کے بادلوں کی طرح چھا گیا تھا، ہر شخص حیران و پریشان تھا کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس آسمانی عذاب کا سبب کیا ہے؟ کیوں ہر روز ایک شخص کی زندگی کی ختم ہو جاتی ہے۔

ہوا یوں تھا کہ ایک روز جب آفتاب کی روشنی عالم آب و گل کو منور کر چکی تھی، بازار اور دکانیں معمول کے مطابق پر رونق ہونے لگی تھیں کہ فضا میں ایک عقاب تیز رفتار پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے پنجوں میں ایک مارِ سیاہ لٹکا ہوا تھا تھوڑی دیر تک وہ عقاب بازار کے اوپر منڈ لاتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سانپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک شخص کی گردن پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی کسی کو مدد کے لیے پکارتا، سانپ نے اپنے زہریلے پھن سے اس کی پیشانی کو داغ دیا، ابھی کوئی دوسرا شخص اس کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ عقاب زمین کی طرف جھپٹا اور سانپ کو اپنے پنجوں میں دبا کر غائب ہو گیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ کوئی شخص بھی کوئی رائے قائم نے کر سکا اور اس حادثہ کو محض ایک اتفاق سمجھا گیا۔

لیکن․․․․․․․․․․․․․

روز فردا پھر ایک عقاب اُس شہر پر منڈلاتا ہوا دکھائی دیا۔ جس کے پنجوں میں مارِ سیاہ دبا ہوا تھا اور جب وہ عقاب شہر کے وسط میں پہنچا تو اس کے پنجوں سے نکل کر وہ سانپ ایک شخص کی گردن پر آ گیا۔ پھر وہی ہوا کہ اس نے اس آدمی کو ڈس لیا اور عقاب سانپ کو اپنے پنجوں میں دبا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

اسے بھی اتفاق ․․․․․․․ دوسرا اتفاق کہا جا سکتا تھا لیکن دوسرا اتفاق اہل شہر کے لیے تشویش کا باعث بھی بنا۔

اور جب تیسرے روز بھی یہ حادثہ پیش آیا تو تمام افراد شہر کو اپنی گردنوں پر سانپ اور سروں پر عقاب اڑتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ صاحب دانش غور و خوض میں مشغول ہوئے کہ اب اتفاق نہیں ہے۔ اتفاق مسلسل نہیں ہوتا۔ پورے شہر میں اجتماعی مشورے ہونے لگے، مفتیان شہر نے اعلان کیا کہ اس شہر میں گناہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاید یہ خدا کے عذاب کی ایک شکل ہے کہ اس سے پہلے بھی آسمانی پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں اور جو لوگوں کے سروں میں اُتر گئی تھیں۔ اے لوگو! عبادت گاہوں کی طرف رجوع کرو۔ شاید اس بلائے آسمانی سے نجات ملے۔ شہر کی عورتوں نے اپنے شوہروں کی جان کی امان کے لیے اپنے سروں کو برہنہ کر کے خدائے ذوالجلال کے روبرو دست دعا بلند کیے۔

بازار بے رونق ہونے لگے۔ لوگوں کی آمد و رفت کم ہو گئی۔ پھر چند لوگوں نے یہ طے کیا کہ آئندہ جب بھی عقاب اپنے پنجوں میں سانپ لے کر آئے گا تو اسے کسی طرح ہلاک کر دیں گے۔ پھر یہی ہو اکہ جب عقاب نے اپنے پنجوں سے سانپ کو آزاد کیا تو اس کی گھات میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ لیکن عقاب ان کے حملہ کی زد سے بچ کر نکل گیا تاہم ان سب نے اس سانپ کو ہلاک کر دیا جو بازار میں موجود ایک شخص کی گردن میں لپٹ کر اس کی پیشانی کو اپنی زہریلی زبان سے چوم چکا تھا۔ سانپ کو ہلاک کرنے کے بعد سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب اہل شہر اس عذاب سے نجات پا گئے تھے۔ سب نے خوشیاں منائیں۔ عبادت گاہوں میں سجدہ ہائے شکر ادا کیے گئے۔ بازار میں گھومتے افراد کے چہروں پر ایک بار پھر خوشی کی چمک لوٹ آئی۔

اگلی صبح بہت سکون رہا، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر بازاروں میں پہنچے، خوف تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ لیکن یہ کیا؟

اچانک پھر آسمان پر عقاب پرواز کرتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے پنجوں میں بدستور سانپ دبا ہوا تھا اسی لمحہ عقاب کے پنجوں میں دبا ہوا سانپ ایک شخص کی گردن پر گرا اور اس نے اپنے زہر کو اس شخص کی پیشانی پر اگل دیا۔ عقاب نے اُسے اپنے پنجوں میں اُٹھا لیا لیکن قبل اس کے کہ وہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوتا ایک نوجوان نے بڑھ کر اپنی بندوق سے اس کو نشانہ بنایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ عقاب اور سانپ دونوں ہی زمین پر آگرے۔ افراط خوشی سے لوگوں نے نوجوان کو کاندھوں پر اُٹھا لیا کہ اس کی خاص دماغی، چستی اور چالاکی کے سبب ایک عذاب اہل شہر کے سروں سے ٹل گیا۔ اس روز گزشتہ روز سے زیادہ خوشیاں منائی گئیں کہ اب عقاب بھی ختم ہو چکا تھا۔

پھر کئی روز تک سکون رہا، نہ کوئی عقاب آیا اور نہ سانپ کسی کے اوپر گرا، سب خوش تھے، بازاروں اور دکانوں پر رونق ہونے لگی تھی اور لوگ گذرے ہوئے حادثوں کو بھولتے جا رہے تھے لیکن پھر ایک دن․․․․․․․․․․․

آسمان پر کئی عقاب بیک وقت پرواز کرتے ہوئے نظر آئے۔ سب کے پنجوں میں مار سیاہ دبے ہوئے تھے۔ اور جب وہ ایک مجمع کے اوپر پہنچے تو انہوں نے پنجوں میں دبے ہوئے سانپوں کو چھوڑ دیا اور سانپوں نے کئی لوگوں کی پیشانیوں کو زہر آلود کر دیا۔ عقاب پھر سانپوں کو لے کر غائب ہو گئے تھے۔

اس بار خوف ہوا کی طرح گلیوں اور گھروں میں گھس گیا تھا، ہر شخص پریشان تھا کہ اس کا بچنا مشکل ہے لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیے تھے بازاروں میں گھومنے والوں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ اس رات تمام اہل شہر ایک جگہ جمع ہوئے اور بہت دیر تک سوچتے رہے کہ اس عذاب سے نجات کا طریقہ کیا ہے۔ عقل حیران تھی، دست و پا بے بس تھے۔ شاید سانپ ان کا مقدر بن گئے تھے۔ ہر شخص اپنی گردن پر سانپ کی گرفت محسوس کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

سانپ انہیں کی گردنوں پر کیوں گرتے ہیں جن کے سروں پر اونچے مکانوں کی چھتیں نہیں ہوتیں۔ جن کو زندگی کا تمام سفر پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ جو موسوں کی تبدیلیوں کو اپنے جسموں پر برداشت کرتے ہیں۔ سوچتے سوچتے جب ان کے ذہن تھک گئے تو سب نے فیصلہ کیا ہم سب جہاں پناہ کے روبرو جا کر اپنی اس مصیبت کا حال بیان کر یں گے اور اس سے درخواست کریں گے کہ وہ ہمیں اس عذاب سے نجات دلائے کہ خدا نے رعایا کی سر پرستی و محافظت اس کے ذمہ کی ہے۔

دوسرے روز تمام اہل شہر ایک جلوس کی شکل میں جہاں پناہ کی رہائش گاہ پر پہنچے اور اپنا حال بیان کیا۔ جہاں پناہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئے اور کہا۔

’’ہم جانتے ہیں کہ ہماری رعایا ایک عذابِ آسمانی میں گرفتار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے اور ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ تم سب ہماری اولاد کی طرح ہو ہم تمہارے لیے فکر مند ہیں۔ اور کوشش کریں گے کہ تم لوگوں کو جلد اس مصیبت سے نجات ملے۔ ہم نے اپنے وزیروں کی ایک جماعت کو اس کی تحقیقات کے لیے متعین کیا ہے۔‘‘

جہاں پناہ کی اس بات سے سب خوش ہوئے کہ وہ اسے اپنا نا خدا جانتے تھے۔ سب نے بیک زبان جہاں پناہ کے اقبال کی بلندی کا نعرہ لگایا اور دعائے خیر دی۔ پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ جہاں پناہ کے عالیشان محل کے چاروں دروازوں سے چار بلند پرواز عقاب اپنے پنجوں میں سیاہ سانپوں کو دبائے ہوئے نکلے اور مجمع کے اوپر چھا گئے۔ آئی ہوئی رعایا نے علم غیض و غضب میں جہاں پناہ کی طرف دیکھا وہ اب بھی کہہ رہا تھا ’’تم سب ہماری اولاد کی طرح ہو۔ ہم تمہارے لیے فکر مند ہیں۔‘‘

٭٭٭

وارث

جس وقت بادشاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اُس نے اپنے قریب ترین وزیروں کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

’’عزیزو! تم سب ہمیں بے حد عزیز ہو، ہماری زندگی کا سرمایہ ہو، ہم اپنے رب کے بعد تمہارے شکر گذار ہیں کہ تم نے ہماری زندگی کے سفر کو آسان کیا، ہر مشکل ساعت میں تم ہمارے مد گار ہوئے۔‘‘

’’اے سلطان مہربان آپ کی خدمت کرنا ہمارے لیے اعزاز و افتخار کا باعث ہے کہ آپ کی بدولت ہمیں نجات ملے گی۔‘‘ سب کے لہجہ میں عاجزی و انکساری تھی، بادشاہ نے پھر کہا:

’’رفیقو! ہماری زندگی کا سفر اب تمام ہونے کو ہے، ہم نے پوری عمر تمہاری مدد سے اپنی سلطنت کو قائم رکھا اور اس کی حدوں کو وسعت دی، لیکن اُس خالقِ کائنات نے دنیا کی تمام نعمتیں ہمیں عطا کیں بجز ایک وارث کے۔  آج جب کہ ہمارا آفتاب حیات غروب ہونے کو ہے ہم خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔  اس لیے کہ اس تخت کا کوئی وارث نہیں۔  آج تک ہم نہ تم کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھا۔  اس لیے اس تاج شاہی کے حقدار بھی تم ہی ہو۔‘‘

بادشاہ کی یہ بات سُن کر چاروں وزیر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، ہر ایک کو اپنا قدر دوسرے کے مقابلے میں بلند نظر آنے لگا اور ہر ایک اپنے تئیں بادشاہ کا وارث محسوس کرنے لگا۔  بادشاہ نے پھر کہا:

’’اب ہم چاہتے ہیں کہ تم اس بارِ عظیم کو سنبھالو، لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ تم چاروں میں سب سے زیادہ لائق کون ہے؟ جو کارِ سلطنت کو بحُسن و خوبی انجام دے سکے۔‘‘

وہ سب اپنے چہروں پر عقل و فراست کے تاثرات نمایاں کر کے اس طرح بادشاہ کی طرف دیکھنے لگے جیسے بادشاہ ابھی اُن سے کہے گا ہاں تم سب سے بہتر ہو۔  اس ایک لمحے میں ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے موجود محبت ختم ہو گئی اور ذہنوں میں دربار کا سب سے پرانا خادم ہوں اور بادشاہ کی قربت مجھے سب سے زیادہ نصیب ہوئی ہے اس لیے حکومت کا حقدار صرف میں ہوں۔  اور جا نثار خاں سوچ رہا تھا کہ میں نے بادشاہ کو کئی مورچوں پر موت سے بچایا ہے بادشاہ ضرور میرے حق میں فیصلہ کرے گا، خرد مند کا خیال تھا کہ بادشاہ اکثر مشکل مسائل میں مجھ سے مشورے لیتا ہے اور میری صلاح پر عمل بھی کرتا ہے اس لیے نظامِ سلطنت کو چلانے کی ذمّہ داری بھی مجھے ہی سونپے گا لیکن ابو شاطر جسے شاہی دربار میں آئے ہوئے صرف چند برس ہوئے تھے اور ان چند برسوں میں وہ اپنی چالاکی اور طراری کے سبب بادشاہ کے بہت قریب ہو گیا تھا، اس بات پر غور کر رہا تھا کہ کس طرح ان تینوں وزیروں کو آپس میں لڑوایا جائے تاکہ یہ تینوں آپس میں لڑ کر خود بخود تخت شاہی کا راستہ اس کے لیے صاف کر دیں۔  بادشاہ ان چاروں وزیروں کے چہروں کو پڑ ھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ:

’’اور اس فیصلے کے لیے ہم نے طے کیا ہے کہ تم چاروں کا امتحان لیں اور جو اس امتحان میں کامیاب ہو ما بدولت بدستِ خود اس کی تاجپوشی فرمائیں کیا تم اس آزمائش کے لیے تیار ہو‘‘ بادشاہ نے استفسار کیا۔  ان چاروں نے بیک زبان کہا۔

’’ظلِ الٰہی کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ہمارے لیے حکمِ خداوندی کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی تعمیل ہمیں توقیر بخشتی ہے۔‘‘

’’ہمیں تم سے یہی اُمید تھی۔  تم لوگوں کی اسی فرمانبرداری نے ہمیں تمام زندگی حوصلہ بخشا اور ہمارے تمام مسائل بآسانی دور ہوئے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ سرِ دست ہمارے سامنے جانشینی کا جو مسئلہ در پیش ہے وہ بھی جلد از جلد حل ہو جائے گا۔‘‘

بادشاہ ان کی اس اس بات سے مسرور ہوا اور کہا۔

’’مابدولت تمہیں چھ ماہ کی مہلت دیتے ہیں اور تم چاروں کو الگ الگ ملکوں میں جانے کا حُکم دیتے ہیں۔  بعد چھ ماہ کی مدّت گذرنے کے تم اس عرصہ میں کی گئی اپنی کار گذاریوں کو ہمارے رُوبرو پیش کرو گے اور تمہاری کار گذاریوں کے پیش نظر ہم وارثِ تخت و تاج کا فیصلہ فرمائیں گے۔  یہی تمہارا امتحان ہو گا۔  جاؤ سفر کی تیاری کرو اور کل آفتاب کے طلوع ہوتے ہی تم اپنی سفر اختیار کرو۔  مابدولت چھ ماہ کی مدّت ختم ہونے کا انتظار کریں گے‘‘۔

اور پھر وہ چاروں کورنش ادا کر کے دیوانِ خاص سے رخصت ہوئے۔  ان چاروں کا دل اس امید سے سرشار تھا کہ بعد چھ ماہ کے وہ مسندِ شاہی پر متمکن ہوں گے اور اہلِ دربار ان کے روبرو کو رنش ادا کریں گے۔  مستقبل کے اسی منظر کو آنکھوں میں سما کر روز فردا وہ چاروں اپنے شہر سے روانہ ہوئے۔

وقت گذرنے لگا، دن بیتنے لگے، بادشاہ اور دربار کے دیگر امرا ء وزراء منتظر تھے اس دن کے جب ان چاروں کو اپنے وطن لوٹ کر آنا تھا اور جب چھ ماہ کی مدّت پوری ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو سب نے اُن کے استقبال کا اہتمام کیا کہ ان ہی میں سے ایک بادشاہ کا جانشیں بننا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ جب دوسرے دن مقراض آفتاب نے دامنِ شب تار تار کیا تو چاروں سمت سے چار گھوڑ سوار نظر آئے۔  وہ چاروں وہی بادشاہ کے معتمدِ خاص تھے جنہیں چھ ماہ قبل بادشاہ نے ایک امتحان کے لیے رخصت دی تھی۔  خواص و عوام نے ان کا خیر مقدم کیا۔  وہ چاروں اس خیر مقدم سے خوش ہوئے کہ ان کے اندر شاہانہ تمکنت بیدار ہونے لگی تھی۔  شہر میں داخل ہونے کے بعد چاروں وزیر قلعۂ شاہی میں پہنچے اور پایابی کی اجازت چاہی، بادشاہ نے جو کہ ان کا منتظر تھا انہیں دیوانِ خاص میں حاضر ہونے کی اجازت عطا کی۔  چاروں نے بادشاہ کے قریب پہنچ کر کورنش ادا کی اور بادشاہ کا اشارہ پا کر اس کے روبرو صندلیوں پر بیٹھ گئے۔  بعد چند لمحوں کے بادشاہ نے ابو عقیل سے دریافت کیا۔

’’اے ابو عقیل! تم بیان کرو کہ اس چھ ماہ کے عرصہ میں تم پر کیا گذری؟‘‘

ابو عقیل اس بات سے خوش ہوا کہ بادشاہ نے سب سے پہلے اس کا احوال معلوم کیا اس نے کہا:

’’عالم پناہ! میں اپنے ملک سے روانہ ہونے کے بعد جب مُلک اشباب میں پہنچا تو میری بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اہل شہر نے مجھے بڑی عزّت دی۔  ہر شخص نے مجھے اپنا مہمان سمجھا، ان کے اس سلوک سے میں خوش ہوا۔  پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس ملک کا بادشاہ جوان العمر ہے اور نا تجرکار ہے اس لیے سلطنت کے انتظام میں اُسے دشواریاں پیش آ رہی ہیں، اتفاق یہ تھا کہ اس کے امراء بھی نو عمر اور نا تجربہ کار تھے۔  رفتہ رفتہ میری آمد کی اطلاع بادشاہ تک پہنچی، بادشاہ نے مجھے طلب فرمایا اور دربار میں حاضر ہونے کے بعد مجھے خصوصی اعزاز سے نوازا۔  حضور کی رفاقت میں اس حقیر نے بہت کچھ سیکھا تھا سو اس بادشاہ کو بتایا۔  چند ماہ کے اندر ہی نظامِ سلطنت میں خوشگوار تبدیلی آ گئی۔  جوان العمر بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں تمام عمر اس کی سلطنت میں رہوں لیکن میں نے اسے اپنی مجبوری بیان کی اور واپس وطن لوٹ آیا۔‘‘ اتنا کہہ کر ابو عقیل چُپ ہو گیا۔  اب بادشاہ نے جانباز خاں سے معلوم کیا کہ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا وہ کہنے لگا:

’’جہاں پناہ کی عمر دراز ہو! میں جب ملک اشراق میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کے چہروں پر ایک خوف طاری ہے میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اس ملک کا بادشاہ ایک مصیبت میں گرفتار ہے وہ یہ کہ پڑوسی ملک کے بادشاہ نے حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس کی فوجیں اس ملک سے روانہ ہو چکی ہیں۔  لیکن ملک اشراق کا بادشاہ اپنے اندر اس سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا اور قلعہ بند ہونے کا ارادہ کر رہا ہے۔  یہ سُن کر میں بادشاہ تک پہنچنے کی تدبیر کی اور بادشاہ کو کئی اہم جنگی مشورے دیے۔  بادشاہ نے مجھ پر اعتبار کیا اور فوج کی کمان میرے سُپرد کی۔  میں نے اپنی بہادری سے حملہ آوروں پر اس طرح حملہ کیا کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور وہ شکست خوردہ اپنے ملک کو لوٹ گئے۔  اس ملک کا بادشاہ میری ہمت اور بہادری سے بہت خوش ہوا اور اس نے مجھے بے شمار اعزازات و خطابات سے نوازا اور مستقل فوج کی کمان سنبھالنے کی درخواست کی، لیکن میں معذرت کر کے واپس لوٹ آیا۔‘‘

جانباز کی بات سننے کے بعد بادشاہ خرد مند سے مخاطب ہوا۔  خرد مند بیان کرنے لگا کہ:

’’ظلِ سبحانی! وطن عزیز سے وداع لینے کے بعد میرا پڑاؤ ملک جنوبین میں ہوا۔  وہاں کے باشندے بہت خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے لیکن ہر چہرے پر ایک فکر نمایاں تھی اس کا سبب یہ تھا کہ ہر سال اس ملک میں سیلاب آتا تھا اور پوری فصل کو تباہ کر دیتا تھا جس کی وجہ سے مُلک میں بھُک مری اور بیماری پھیلتی تھی، سیلاب کو روکنے کے لیے ایک بڑے باندھ کی ضرورت تھی لیکن اس باندھ کے اخراجات اُٹھا نے کے لیے شاہی خزانے میں رقم ناکافی تھی۔  بادشاہ بھی سیلاب کے سبب سے متفکّر رہتا تھا۔  میں نے اس ملک کے لوگوں سے مشورہ کیا اور کہ سیلاب کو روکنے کا مسئلہ صرف بادشاہ کا نہیں، بادشاہ تو یوں بھی ہر وقت اپنی رعایا کے لیے فکر مند رہتا ہے۔  اس لیے تم لوگوں کو چاہیے کہ تم بادشاہ کی مدد کرو۔  پھر میں نے مشورہ دیا کہ ملک کا ہر آدمی صرف ایک روپیہ اس کام کے لیے جمع کرے۔  میری اس بات کو سب نے تسلیم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپے اکٹھے ہو گئے۔  بادشاہ کو جب یہ رقم پیش کی گئی تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ ہمیں اپنے اقتصادی مسائل کو اسی طرح حل کرنا چاہیے۔  اس نے مجھے بہت عزّت دی اور اپنے مشیر خاص کے عہدے سے نوازا لیکن میں چھ ماہ کی مدّت ختم ہونے سے چند روز قبل وہاں سے رُخصت ہوا۔‘‘

’’خرد مند اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔  بادشاہ نے ابو شاطر سے کہا کہ

’’اب تو اپنا کارنامہ بیان کر۔‘‘ ابو شاطر نے کہا کہ:

’’جہاں پناہ کے قدموں سے رخصت ہو کر میں ملک خلد آباد میں پہنچا، دیکھا کہ وہاں کئی قومیں آباد ہیں اور سب خوش حال ہیں۔  ایک دوسرے سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔  اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سب ایک ساتھ ہے۔  ملک جنت نظیر ہے لیکن اس خوشحالی سے بادشاہ اور امراء پریشان تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ رعایا تمام فکروں سے بے نیاز ہونے کے سبب ہر وقت بادشاہ، امراء اور اس کے انتظام پر تنقید کرتی رہتی تھی۔  آئے دن بادشاہ کے خلاف جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے۔  حکمراں طبقہ اس سے پریشان تھا۔  ایک دن اتفاق سے میں بادشاہ تک پہنچ گیا۔  بادشاہ نے مجھ سے مشورہ طلب کیا۔  میں نے کہا اگر اس ملک میں رہنے والی قوموں کو آپس میں لڑوا دیا جائے تو ان کا ذہن حکومت کی کمزوریوں کی جانب سے ہٹ جائے گا۔  بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی۔  اُس نے یہ ذمّہ داری بھی میرے سپُرد کی، پھر میں اس ملک کے شہروں میں گھُومتا رہا اور سوچتا رہا کہ کس طرح قومی یک جہتی کو ختم کیا جائے۔  بالآخر میں کامیاب ہوا، میں نے قوموں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کا زہر بھر دیا اور جب وہ زہر اُگلا تو پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیل گئے۔  یک جہتی ٹوٹ گئی۔  جو لوگ ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے وہ خُون کے پیاسے ہو گئے۔  رعایا کا سکون ختم ہوا لیکن بادشاہ کا عیش و آرام لوٹ آیا کیوں کہ اب لوگ بادشاہ کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑا چھال رہے تھے۔  اتنا کرنے کے بعد میں وہاں سے چلا آیا۔‘‘

ابو شاطر کی یہ باتیں سن کر تینوں وزیروں نے اس طرح اس کی جانب دیکھا جیسے اس نے کوئی بڑا گناہ کیا ہو۔  لیکن ابو شاطر کے چہرے پر اطمینان تھا۔  اب وہ چاروں بادشاہ کے فیصلے کے منتظر تھے۔  بادشاہ یوں گویا ہوا:

’’مابدولت خوش ہوئے کہ تم نے ہمارے حکم کی تعمیل کی اور ہماری موت کو آسان کر دیا کہ اب ہمارے بعد ہماری سلطنت قائم رہے گی کہ ہمیں اس ملک کا بادشاہ مل گیا ہے۔  ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے بعد ہماری سلطنت کا وارث ابو شاطر ہو گا‘‘۔

٭٭٭

صرف ایک شب کا فاصلہ

بعد کئی صدیوں کے زید بن حارث کی آنکھوں میں آفتاب کی کرنیں چُبھنے لگیں، اس نے آہستہ آہستہ پلکوں کو حرکت دی اور اپنے گرد دیکھا، روشنی دھیرے دھیرے غار کے اندر داخل ہو چکی تھی۔  اس نے اپنے خوابیدہ ساتھیوں پر نظر ڈالی اور محسوس کیا کہ ان کی پلکوں کے نیچے تپش پھیلنے لگی ہے اور عنقریب یہ وا ہو جانا چاہتی ہیں۔  اس سے پہلے کہ اس کا کوئی ساتھی اپنی پلکوں کو وا کرتا اور آفتاب کی روشنی آنکھوں میں اُتار لیتا۔  اُس نے آواز دی۔

’’ساتھیو! کیا تم اپنی آنکھوں میں روشنی کی چُبھن محسوس نہیں کرتے۔‘‘

اور اس آواز کے ساتھ سب کی آنکھوں میں آفتاب اُتر گیا۔  اب سب نے اپنے جسموں کو حرکت دی اور نیم دراز ہوئے۔  ابو سعد کفِ دست سے اپنی آنکھوں کو ملتا ہوا یوں گویا ہوا:

’’اے حارث کے بیٹے کیا ہم سوئے ہوئے تھے۔‘‘

’’ہاں شاید ہم سب ہی سو گئے تھے‘‘ زید بن حارث نے جواب دیا اور استفسار کیا۔

’’اے عمر کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے کتنا عرصہ عالمِ غفلت میں گذارا۔‘‘

’’صرف ایک شب۔‘‘ پھر وہ سب ہی اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔  وہ ایک غار میں تھے، اپنے آپ کو غار کی پناہ میں دیکھ کر طلحہ بن عبید نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا۔

’’دوستو! کیا تمہیں یاد ہے کہ ہم نے اس تاریک غار میں پناہ کیوں لی تھی؟‘‘

’’ارے طلحہ کیا تمہیں یاد نہیں رہا۔‘‘ زید نے طلحہ سے پوچھا۔  قبل اس کے کہ طلحہ کچھ جواب دیتا ابو سعد کہنے لگا۔

’’عزیزو! یہ باتیں بوقتِ فرصت دہرائی جائیں گی۔  سرِ دست اشتہا بڑھتی جاتی ہے۔  چلو ہم سب بستی کی جانب چلیں اور کھانے کا انتظام کریں۔‘‘

ابو سعد کے مشورہ کو سب نے قبول کیا اور اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کہ جن میں دینار موجود تھے۔  پھر وہ چند نوجوان بستی کی سمت روانہ ہوئے۔ کچھ دور چلنے کے بعد ہی انہیں بستی دکھائی دینے لگی۔  لیکن انہوں نے اس بستی کو اس بستی سے مختلف پایا جسے چھوڑ کر انہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔  اہل شہر کے لباس اور چہرے ان سے مختلف تھے۔

کچھ دیر تک وہ حیران و پریشان رہے۔  پھر اسی عالم میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔

’’اے زید شاید ہم راستہ بھٹک گئے۔‘‘

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔  یہ قوم وہ نہیں، جن کے بیچ ہم رہتے تھے۔‘‘

’’فی الحال یہیں ٹھہرتے ہیں اور اس ملک کو دیکھتے ہیں۔  پھر ہم اپنے ملک کی راہ پوچھیں گے۔‘‘

وہ چاروں ایک جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کی آمد و رفت دیکھنے لگے کہ ایک راہ گیر ان کے نزدیک سے گذرا۔  زید بن حارث نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

’’اے برادر عزیز اس ملک کا حاکم کون ہے؟‘‘

اس نے ان کو بنظر غور دیکھا اور کہا۔

’’یہاں عوام کی حکومت ہے۔‘‘

وہ سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔  ابو سعد نے نا فہمی کا اظہار کیا۔

’’اے عزیز کیا تم وضاحت سے بیان کر سکو گے کہ عوام کی حکومت سے کیا مراد ہے؟‘‘

’’ہمارے یہاں حاکم کے انتخاب کے لیے عوام کی رائے حاصل کی جاتی ہے اور جس شخص کو اکثریت چاہتی ہے حاکم بنایا جاتا ہے۔‘‘

’’کیا منتخب شدہ شخص تمام عمر حاکم رہتا ہے اور کیا اس کے بعد اس کی اولاد تخت نشین نہیں ہوتی۔‘‘ عمر نے پھر استفسار کیا۔

’’نہیں! حاکم کا انتخاب ہر پانچ برس بعد ہوتا ہے۔  اور اس حکومت کے آئین کے مطابق اس کی اولاد اس کی جانشین نہیں ہوتی۔  بلکہ عوام جب چاہیں حاکم کو بدل سکتے ہیں۔‘‘ راہ گیر اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔  ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔  انہیں اپنے اندر خوشی کی کرنیں پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں وہ سب کہنے لگے۔

’’دوستو! کیا ہم نے اپنے ملک میں اس طرح کی حکومت کا نفاذ نہیں چاہا تھا۔  شاید ہم صحیح ملک میں پہنچ گئے ہیں۔  اگر یہاں کی حکومت نے اجازت دے دی تو یہیں مستقل قیام کریں گے۔‘‘

وہ سب عوامی حکومت کے نام سے اس قدر خوش ہوئے کہ انہیں اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ اپنی اشتہا مٹانے کے لیے بستی کی سمت آئے تھے، ان کا شوقِ دیدار شہر لمحہ بہ لمحہ بڑھتا گیا اور پھر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم سب اول وقت میں اس شہر مقدس کی زیارت کریں کہ جس میں عوام کی حکومت ہے اور اس فیصلے کے بعد وہ شہر کے ایک راستے پر بہ ہمراہ حیرت و استعجاب چلنے لگے۔  تھوڑی دور چلے تھے کہ شہر کے ایک راستے سے ایک جلوس آتا ہوا دکھائی دیا۔  وہ ٹھہر کر جلوس کا انتظار کرنے لگے۔  جلوس میں شامل افراد حاکم وقت کے خلاف آوازیں بلند کر رہے تھے، اسے دغا باز اور فریبی کہہ رہے تھے۔  وہ بھی جلوس کے ساتھ ہو لیے اور اس بات سے خوش تھے کہ بعد مدت کے ایسا ملک دیکھا ہے کہ جس میں ہر شخص کو ہر بات کہنے کی آزادی ہے وہ بات خواہ حاکم وقت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔  جب وہ مجمع ایک میدان میں ٹھہر گیا تو ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور یوں گویا ہوا۔

’’دوستو! آج پھر وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب موجودہ حاکم کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کریں۔  کیا بوقت انتخاب حاکمِ وقت سے تمہاری توقعات یہی تھیں جو آج تم دیکھ رہے ہو، کیا اس حاکم نے تم سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کیا؟ کیا تم نے جو کچھ اس سے مانگا تھا تمہیں ملا، پھر تم کیسے کہتے ہو کہ اس ملک میں عوام کی حکومت ہے؟‘‘

طلحہ بن عبید نے اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک شخص سے دریافت کیا۔

’’اے عزیزیہ شخص کون ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’اے برادر یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جو عوام کا نمائندہ بن کر اس ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔  یہ حاکمِ وقت کے حریفوں کی صف کا ایک آدمی ہے۔‘‘

’’تو کیا عوام اسے پسند کرتے ہیں‘‘ زید بن حارث نے سوال کیا۔

’’کچھ عرصہ پہلے عوام نے اسے ایک ریاست کا حاکم منتخب کیا تھا لیکن حاکمِ اعلیٰ کا ہم رائے نہیں تھا۔  اسی لیے اس نے اپنے اقتدار کا بے جا استعمال اور اسے اپنے عہدے سے برطرف کر دیا۔‘‘

’’کیا عوام کی رائے کے بغیر ایسا کیا جا سکتا ہے‘‘ عمر نے معلوم کیا۔

’’یہاں عوام کو پانچ برس بعد اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔  اس کے درمیان منتخب شدہ حاکم اپنی رائے کو برتر اور بہتر سمجھتا ہے‘‘ اجنبی کا یہ جواب پا کر زید کے ساتھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔  تقریر اب بھی جاری تھی۔  یہاں تک کہ اس شخص کی اشتعال انگیز باتوں کو سن کر مجمع مشتعل ہو گیا اور ان کی زبانیں زہر اگلنے لگیں۔  اسی لمحہ حاکمِ وقت کی فوج کے سپاہیوں نے اس ہجوم پر حملہ کر دیا۔  ہجوم منتشر ہو گیا۔  لوگ زخمی ہوہو کر گرنے لگے سیکڑوں لوگ گرفتار کیے گئے۔  ان چاروں نے بھی اپنے لیے جائے پناہ تلاش کی۔  اسی وقت پورے شہر میں نظر بندی کا اعلان کر دیا گیا۔  گوئی شخص اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔  فوج راستوں پر تعینات تھی۔

طلحہ اور اس کے ساتھیوں نے جب اپنے سروں پر آسمان کے بجائے ایک مکان کی چھت دیکھی تو زید بن حارث سے پوچھا کہ وہ اُسے بڑا مانتے تھے

’’اے حارث کے بیٹے ہم کس مقام پر ہیں۔  کیا ہم نظر بند کر دیے گئے ہیں۔‘‘

’’ہم اس وقت کسی کے مکان میں ہیں اور شاید آفاتِ شہر کا شکار ہو کر نظر بند ہو گئے ہیں۔‘‘ زید اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔  کچھ دیر بعد ہی ایک شخص ان کے قریب آیا اور استفسار کیا۔

’’دوستو! تم لوگ کون ہو اور یہاں کیوں کر پہنچے۔‘‘

’’اے عزیز ہم تمہارے شہر میں اجنبی ہیں اور نظر بندی کے نفاذ کے اعلان کے بعد پناہ کی تلاش میں یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔  کیا تم ہمیں پناہ دو گے۔‘‘ ابو سعد نے اپنا حال بیان کیا۔

اس شخص نے ان چاروں کے ساتھ بہتر سلوک کیا اور اپنے دستر خوان پر کھانا کھلایا، وہ چاروں اس کے اس سلوک سے خوش ہوئے اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کہنے لگے۔

’’اے مہربان! ہم تمہارے شکر گذار ہیں کہ تم نے ہمیں پناہ دی اور اپنے دستر خوان پر کھانا کھلایا۔  اے محسن اب تم کوئی تدبیر کرو کہ ہم یہاں سے نکل سکیں۔‘‘

’’تم ایسے ہنگامی حالات میں کہاں جاؤ گے۔  کہ تم سب مسافر ہو۔  ایسا نہ ہو کہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔  مجھے اپنا دوست جانو اور اس غریب خانہ میں اس وقت تک قیام کرو جب تک حالات معمول پر نہ آ جائیں۔‘‘ صاحب خانہ کے اس جواب پر بسلسلہ مشورہ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہاں قیام کریں اور اس فیصلے کے بعد انہوں نے آرام کیا اور روز فردا صاحب خانہ سے پوچھا۔

’’اے برادر عزیز کیا تم اپنے ملک اور یہاں کی حکومت کے بارے میں کچھ بتاؤ گے۔‘‘ صاحب خانہ نے بنظر غور ان چاروں کو دیکھا اور اپنے شک کا اظہار کیا۔

’’دوستو کیا تم میرے اس شک کو دور کر سکو گے کہ تم کسی ملک کے جاسوس ہو۔‘‘ وہ سب حیران و پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، انہیں خاموش دیکھ کر صاحب خانہ نے کہا۔

’’تم اس وقت میرے مہمان ہو اور میں نہیں چاہوں گا کہ میری کسی بات سے تمہیں تکلیف پہنچے۔  مجھے یہ شک اس لیے گذرا کہ حاکمِ وقت ملک میں ہونے والے ہر حادثہ کا الزام غیر ملکوں پر عائد کرتا ہے۔‘‘

’’وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‘‘ عمر نے سوال کیا۔

’’اس سے وہ خود بے گناہ ثابت ہو جاتا ہے۔  تم لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہاں ہر شخص دو چہرے رکھتا ہے۔  ایک سیاہ اور ایک سفید۔  سفید چہرہ لے کر وہ سب کے سامنے آتا ہے اور سیاہ سے پس پشت بات کرتا ہے۔‘‘

’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ طلحہ نے معلوم کیا۔

’’یہ بات ابھی تک قابلِ غور ہے اور کوئی شخص اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا کہ اس ملک کے لوگ دو چہرہ کیوں ہیں‘‘ صاحب خانہ لا علمی کا اظہار کیا۔  طلحہ نے پھر پوچھا۔

’’کیا اس کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہو۔‘‘

’’یہاں ہر شخص اس کی مثال ہے۔  یہاں حکمراں طبقہ جو عوام کا منتخب کردہ ہے جب عوام کے روبرو آتا ہے تو اتنا عاجز اور منکسر ہوتا ہے جیسے عوام اس کا خدا ہے اور جب وہ کرسیِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو عوام کے سینوں میں چھُرے بھونکتا ہے۔  کل وہ حاکمِ وقت کے خلاف زہر اُگل رہا تھا اور آج وہ دیکھو حاکمِ وقت کی مدح میں قصیدے پڑھ رہا ہے۔‘‘

’’میرے عزیز میں نے کہا کہ یہاں سب دو چہرہ لوگ ہیں۔  آج جو میرے ساتھ ہے، ہو سکتا ہے وہ کل میرے ساتھ نہ رہے۔  یہاں لوگ بِک جاتے ہیں۔  یہاں کا حاکم عوام کے نمائندے نہیں چاہتا بلکہ اپنے ہم خیال چاہتا ہے۔  یہاں عوام کے نام پر حکومت کی جاتی ہے۔‘‘ صاحب خانہ کی اِن باتوں کو سُن کر وہ سب کچھ سوچنے لگے اور بہت دیر تک سوچتے رہے کچھ دیر بعد عمر نے پوچھا۔

’’دوستو کیا تم سب بھی وہی سوچ رہے ہو جو بات میں سوچ رہا ہوں۔‘‘

انہوں نے پوچھا۔

’’تو کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

’’میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں کے لوگ دو چہرہ کیوں ہیں؟‘‘

’’ہاں عمر ہم سب بھی یہی سوچ رہے ہیں‘‘

’’کیا یہ اُس بات کا ردّ عمل․․․․․․․․‘‘ طلحہ نے اتنا کہا تھا کہ زید بن حارث نے اُسے اشارہ سے روک دیا۔  صاحب خانہ نے سب کو عالمِ محویت میں دیکھ کر معلوم کیا۔‘‘

وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔  زید بن حارث نے کہ اُن سب میں بڑا تھا کہا۔

’’عزیزو! یہ شخص بڑا مہربان اور محسن ہے اس سے کچھ پوشیدہ رکھنا گناہ کا باعث ہو گا۔‘‘

زید کی بات سے سب نے اتفاق کیا پھر طلحہ بن عبید نے یوں بیان کیا:

’’اے برادر کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے ملک کے بادشاہ کے ظلم سے تنگ آ کر اپنا شہر چھوڑ دیا تھا۔  ہم لوگ اپنے ملک میں عوام کی حکومت چاہتے تھے۔  اسی جرم میں بہت سے لوگ قید خانوں میں ڈال دیے گئے۔  ہم چاروں نے قید سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کی۔  کچھ روز اِدھر اُدھر گھُومتے رہے اور پھر ایک غار میں پناہ لی۔  ہمارے جسم تھکن سے بوجھل ہو گئے تھے۔  اس لیے ہم پر غفلت طاری ہو گئی اور ہم سو گئے۔  دوسری صبح آفتاب کی کرنوں نے ہمیں بیدار کیا اور جب ہمیں بھُوک لگی تو ہم تمہارے شہر میں پہنچ گئے کہ ہمارے پاس دینار موجود تھے، ، طلحہ نے اپنی جیب سے چند سکّے نکال کر اُس شخص کے روبرو کیے، اس شخص نے وہ سکّے دیکھے اور ہنسنے لگا وہ سب حیران ہوئے کہ اس کی ہنسی کا سبب کیا ہے وہ اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے پوچھنے لگا۔  ’’تمہارے ملک کا نام کیا ہے؟‘‘

’’ہم بلقان کے رہنے والے ہیں‘‘ عمر کے اس جواب سے صاحب خانہ اور زور سے ہنسنے لگا۔  زید نے پوچھا۔

’’اے عزیز تمہاری ہنسی کا باعث کیا ہے۔‘‘

اس نے کہا۔

’’تم لوگ مجھ سے مذاق کر رہے ہو یا جھوٹ بول رہے ہو۔  تم اس وقت جس ملک میں ہو، اس کا نام بلقان ہے اور یہ سکّے اسی ملک میں تین سو برس پہلے رائج تھے۔‘‘

صاحب خانہ کی اس بات پر وہ سب چونک پڑے۔  ان کی حیرانی اور پریشانی بڑھ گئی، ابو سعد نے متعجبانہ انداز میں پوچھا

’’ساتھیو کیا ہم تین سو برس تک اس غار میں سوتے رہے۔‘‘

’’لیکن یہ کس طرح ممکن ہے‘‘ عمر نے حیرانی ظاہر کی۔

’’خدا ہر چیز پر قادر ہے‘‘ زید بن حارث خود حیران تھا۔

صاحب خانہ ان کی یہ باتیں سن کر خوش ہوا اور عقیدت مندانہ ان کے روبرو آیا اور کہنے لگا۔

’’شاید تم ہی وہ لوگ ہو جن کا انتظار میں کئی برسوں سے کر رہا ہوں۔‘‘

’’تمہارے انتظار کی وجہ کیا ہے‘‘ طلحہ نے معلوم کیا۔

’’کئی برس پہلے ایک بزرگ نے یہ کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد چار نوجوان آئیں گے اور وہ بتائیں گے کہ اس ملک کے لوگ دو چہرہ کیوں ہیں۔  ہمارے شہر کی ایک جماعت بہت دن سے آپ لوگوں کی منتظر ہے۔  میں ان سب کو یکجا کرتا ہوں تاکہ آپ کی باتیں سن سکیں۔‘‘ صاحب خانہ کا اضطراب بڑھتا گیا۔

’’ٹھہرو ابھی کچھ دیر توقف کرو۔  ابھی اس شہر کے حالات ٹھیک نہیں۔  ہم آج شام کو اس غار کی طرف لوٹ جائیں گے۔  تم کل صبح اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں آنا‘‘

زید نے اسے روکا صاحبِ خانہ نے ضبط کیا۔

دوسرے دن علی الصبح غار کے دہانے پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔  چاروں طرف امن قائم رکھنے کے لئے فوج تعینات تھی۔  وہ چاروں غار کے اندر حیران و پریشان بیٹھے تھے کہ یا خدا یہ کیسا عذاب ہے۔  تھوڑی ہی دیر میں وہ شخص کہ جس کے مکان میں وہ مہمان رہے تھے آیا اور کہنے لگا۔

’’حضرات باہر لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

پہلے تو ان لوگوں نے تامل کیا پھر چاروں اس کے ساتھ باہر آئے اور مجمع کا جائزہ کیا۔  سبھی کے چہروں سے اشتیاق ظاہر ہو رہا تھا۔  زید بن حارث نے آگے بڑھ کر یوں بیان شروع کیا۔

’’دوستو ہم بھی تم جیسے اور تمہارے ملک کے رہنے والے ہیں۔  لیکن یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ اس نے تین سو برس ہمیں عالمِ خواب میں رکھا جبکہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف ایک رات سوئے ہیں۔‘‘

تمام مجمع پر سکوت طاری تھا۔  زید کہہ رہا تھا۔

’’تین سو برس پہلے ایک خاتون اس ملک کی بادشاہ تھی۔  جس کے ظلم اور جبر سے ہر شخص پریشان تھا۔  وہ صرف اسی امیر کو پسند کرتی تھی جو اس کے سامنے زبان بند کیے، سر جھکائے بیٹھا رہے۔  ایک مرتبہ ملکہ نے عزیز مصر کی طرح خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ایک میدان میں آئیں پھر سات کمزور گائیں آئیں۔  موٹی گائیں کمزور گایوں کو کھا گئیں۔  ملکہ یہ خواب دیکھ کر پریشان ہوئی اور ہر ایک سے اس کی تعبیر پوچھی، لیکن کوئی نہ بتا سکا۔  پھر ایک بزرگ نے کہ جو ہمیشہ سچی تعبیر بتاتا تھا کہا کہ یہ سات موٹی گائیں سات سال ہیں۔  ان سات سالوں میں خوب غلّہ پیدا ہو گا، پھر سات کمزور گائیں یعنی سات ایسے سال آئیں گے کہ ان میں قحط پڑے گا۔  اگر ملکہ پہلے سات سالوں میں خوب غلّہ اکٹھا کروا لیں تو اگلے سات سال آرام سے گذریں گے۔  ملکہ نے جوکہ خود کو سب سے دانش مند سمجھتی تھی۔ اس تدبیر کو تسلیم نہ کیا اور خود کوئی نئی تدبیر سوچنے لگی۔  اس ملکہ کے ایک نوجوان بیٹا بھی تھا جس نے ماں کو مشورہ دیا۔

’’اے والدۂ محترمہ میرے ذہن میں ایک تدبیر ہے جس پر عمل کرنے سے ہمارا ملک قحط کی بلا سے بچ جائے گا۔‘‘

ملکہ اپنے فرزند کی لیاقت پر خوش ہوئی اور کہنے لگی۔

’’بیان کر‘‘۔

’’اے ملکہ معظّمہ اگر ملک کے سبھی مردوں کی رگ افزائش نسل قطع کر دی جائے تو ہمارے ملک کی آبادی بڑھنے سے رُک جائے گی اور سات سال بعد اس سے بھی کم لوگ ہمارے ملک میں رہ جائیں گے۔  جب آبادی کم ہو گی تو علّہ کم خرچ ہو گا اور اگلے سات سال ہم پریشان نہ رہیں گے۔‘‘

عورت کہ آدم تا ایں دم ناقص العقل سمجھی گئی ہے۔  اپنے بیٹے کی اس بات پر خوش ہوئی اور اس نے پورے ملک میں اعلان کرا دیا کہ ملک کے تمام مردوں کی رگ افزائش نسل قطع کر دی جائے تاکہ ہمارے ملک میں آئندہ سات سال کوئی بچہ پیدا نہ ہو۔  اس حکم پر فوری عمل کیا گیا بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ آبادی کم ہونے لگی اور پھر آبادی کا بڑا حصّہ قحط کے سات سالوں کی نذر ہو گیا۔  اب ملکہ کو فکر ہوئی کہ اگر یہ بچی ہوئی عورتیں اور مرد بھی ختم ہو گئے تو ملک ختم ہو جائے گا۔  بقیہ مرد اس لائق نہیں تھے کہ بقیہ عورتوں کی سوکھی ہوئی کھیتیوں میں ہریالی لا سکیں۔  بہت غور و خوض کے بعد ملکہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ دوسرے ملکوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے یہاں کے مرد یہاں بھیجیں تاکہ ہمارے یہاں کی عورتیں ان سے مل کر بچے ّ پیدا کر سکیں، بمشکل ایک ملک اس کے لیے تیار ہوا۔  اس دوسری قوم کے مردوں سے اختلاط کے بعد یہاں کی عورتوں نے جو بچّے پیدا کیے وہ سب دو چہرہ تھے۔  دوسری قوم کے مردوں نے افزائش نسل کے لیے خاصہ معاوضہ وصول کیا۔  شاید یہی وجہ ہے کہ معاوضہ کی ادائی گی کے بعد پیدا ہونے والی نسل آج بھی معاوضہ پا کر اپنا ضمیر پیچ دیتی ہے۔  اپنے ملک کے بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے ہم چودہ برس تک ملک سے باہر رہے اور پھر جب ایک غار میں پناہ لی تو خدا نہ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جس سے ہم تین سو برس تک سوتے رہے۔  اور اب اپنے ملک میں عوامی حکومت دیکھ کر خوش ہوئے کہ تین سو برس قبل ہم جس طرح کی حکومت چاہتے تھے وہ ہمارے ملک میں آ چکی ہے جس میں ہر شخص کو ہر بات کہنے کی آزادی ہے۔‘‘

زید بن حارث نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ لوگوں نے انہیں اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا اور بآواز بلند نعرے لگانے لگے، ان چاروں کے لیے بے پناہ عقیدت ظاہر کی۔  سارے مجمع میں اشتعال پیدا ہو گیا۔  اسی وقت حاکمِ وقت کی طرف سے فوج کو حکم ملا کہ ان چاروں یا وہ گواور دیوانے نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جائے، ان کی آزادی امن کے لیے خطرہ ہے۔

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل