FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ڈاکٹر غلام شبیر

 

 

Abstract

 

Bari Alig was a great intellectual, a renowned journalist and a moving spirit behind the great Progressive Writers’ Movement in Urdu Literature. He is considered to be a socialist by a group of critics and friends. His personality and works have been however misinterpreted on account of his support of socialism and socialist revolution in Russia. It has been attempted to show in this paper that on account of his personal circumstances, he championed the cause of socialism because he thought it was in tune with the true spirit of his religion, Islam. Hence his ideology and personal life history have been re-visited in this article to prove that he understood the true spirit of Islam and did not think that there was any opposition between it and socialism. This is the main reason why he was a staunch socialist, without being an atheist. In fact, he was at heart a devout Muslim and a great believer in his religion, Islam.

 

 

            باری علیگ (1949ء۔ 1907ء) بیسویں صدی کے نصف اول کے ممتاز ادیبوں میں شامل تھے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اس لئے وہ ایک ہی وقت میں عالم مصنف ، صحافی، محقق اور مترجم تھے۔ ہر چند کہ عمر نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ صرف بیالیس سال دنیا میں رہ کر اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ مگر انھوں نے جو علمی سرمایہ چھوڑ ا ہے۔ وہ علمی، ادبی اور صحافتی حلقوں میں قابل رشک حیثیت رکھتا ہے۔ باری علیگ نے ادب و صحافت کے لئے جو خدمات سر انجام دیں۔ تاریخ انہیں کبھی نہ فراموش کر سکے گی۔ باری علیگ نے جس دور میں صحافت کا آغاز کیا ان دنوں اخبارات میں تنخواہوں کا معیار بہت پست تھا۔ عام کارکن صحافیوں کی تنخواہ چالیس سے ساٹھ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ صحافت کے پیشے سے خاصے دل برداشتہ سے ہو گئے تھے۔ باری علیگ نے سوچا کہ اس صحافت سے تو بہتر ہے کہ چارہ کاٹنے والی مشین ہی لگا لیں تاکہ پیٹ پر پتھر تو نہ باندھنے پڑیں۔ (۱) ان واقعات کا تذکرہ منٹو یوں کرتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب چند اخباروں میں کام کرنے کے بعد انہیں کچھ حاصل وصول نہ ہوا تو انہوں نے ایک ہفتہ وار اخبار موچنا نکالنے کا ارادہ کیا اس کی سرخیاں کیسی ہوں گی مضامین کس نوعیت کے ہو ں گے اس کے متعلق باری نے لفظوں کے ذریعے سے ایسی تصویر کشی کی کہ اس مجوزہ پرچے کے کئی شمارے آنکھوں کے سامنے سے گذر گئے۔ اور دیر تک فضائے آسمانی سے ہم پر جو سن رہے تھے موچنوں کی بارش ہوتی رہی ایک بار اور صحافت کے پیشے سے تنگ آئے تو جنگ کا یہ رستہ نکالا کہ وہ اسے چھوڑ چھاڑ کر چارہ کاٹنے کی مشین لگا لیں اور مزے کی زندگی بسر کریں گے اس مزے کی زندگی کو باری علیگ نے تصور کی آنکھوں سے دیکھا۔ (۲)

            باری علیگ کی علمی و ادبی صلاحیتیں اتنی سمتوں میں بکھری نظر آتی ہیں کہ ان کی مرکزی حیثیت کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد ادب و صحافت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا اور اپنی ذات کو اس کے لئے وقف کر دیا۔

            باری علیگ کی مطبوعہ علمی و ادبی تصانیف کے علاوہ بے شمار تاریخی مضامین مختلف اخبارات و جرائد کے صفحات پر بکھر ے نظر آتے ہیں۔ موضوع اور مواد کے اعتبار سے ان کی تاریخی اور تحقیقی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ ان مضامین میں حقائق کا غیر جذباتی انداز میں تجزیہ ان کی وقعت اور قدرو قیمت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ انہیں یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی موت سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ باری نے کم و بیش 19سال تک اپنے قلم سے علم و ادب کی آبیاری کی اور اس کے دامن میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے۔ جن سے علم و ادب کا یہ گلشن صدیوں مہکتا رہے۔ مختصر اور وقیع معاملات اختصار و جامعیت اور موثر اسلوب ان مضامین کا امتیازی وصف ہے۔ باری علیگ پنجاب کی ایک جامع تاریخ مرتب کرنا چاہتے تھے۔

بقول ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی،

مجھے یا د نہیں کہ اس طویل عرصے میں میرے اور اس کے درمیان علمی ادبی سیاسی اور تاریخی مسائل کے علاوہ کسی اور موضوع پر بھی گفتگو ہوئی ہو تاریخ ہمارا محبوب مضمون تھا۔ اور ہم گھنٹوں نہیں ، دنوں مختلف تاریخی مسائل پر بحث کیا کرتے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اورنگزیب کی وفات سے لے کر سکھوں کے عروج تک پنجاب کی ایک جامع تاریخ مرتب کی جائے اس کے لئے مواد بھی فراہم کر لیا گیا تھا۔ لیکن پھر زندگی کی مشکلات اور دنیا کی مکروہات نے اس کام کی مہلت نہ دی۔ (۳)

            باری علیگ کے قلم نے اس وقت شعور کی آنکھ کھولی جب برصغیر میں فرنگی اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ بڑے بڑے بہادر حق بات کہنے سے کتراتے تھے۔ فرنگی کے خلاف لب کشائی ان کی اجازت کے بغیر مشکل تھی۔ سیاست و معیشت پر فرنگی کے پروردہ اور نسلوں سے انگریز کے وفادار چلے آنے والے انسانوں کا تسلط تھا۔ ایسے دور میں باری علیگ نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا بے خوف نوک قلم پرلے آئے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ غلامی نے افراد قوم کے اذہان پر صدیوں سے محکومی کی گرد کی تہیں جمادی ہیں کارواں لٹ گیا ہے۔ اور کسی کو احساس زیاں بھی نہیں کشتی ڈگمگا رہی ہے۔ اور کوئی نا خدا نہیں باری نے یہ چیز شدت سے محسوس کی کہ پورے ملک کی فضاء پر سکوت طاری ہے۔ صحیح سمت میں کوئی موثر تحریک تو کیا عام لوگوں کے ذہنوں سے سوچ کی کوئی لہر بھی انگریز کے خلاف نہیں اٹھ رہی۔ باری مرحوم نے اسی احساس کے تحت قلم سے جہاد شروع کیا۔ باری علیگ نے جب ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی تو انہیں باغی قرار دے دیا گیا۔ اور حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔ مگر باری علیگ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ باری نے علمی ادبی محفلوں میں اخبارات اور اپنی تصانیف میں ہر جگہ اور ہر انداز سے جہاں غیر ملکی حکمرانوں کو ننگا کیا۔ وہاں اس بے ضمیر اور خودغرض ٹولے کی سازشوں اور گھٹیا حرکتوں کو بے نقاب کیا جو ہر دور میں حاکموں کی چوکھٹ پر اپنا سرر گڑ تا ہے۔ انہیں وطن کی لوٹ کھسوٹ اور عام لوگوں کی معاشی بدحالی بری طرح کھٹکتی تھی۔ باری نے عوام کو شعور بخشنے اور صحیح راہ پر چلانے کے لئے جذباتی نعروں کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ علمی و منطقی طریقہ اختیار کیا۔ سائنسی انداز تحقیق کا سہارا لیا۔

            باری علیگ کو ادیبوں کے ادبی گرو ہونے کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ باری کی تحریریں ان کے وسیع مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ باری نے بہت سے مشرقی و مغربی مفکرین سے اثرات قبول کئے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ کسی کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ جہاں انہیں دوسروں کے نظریات بہتر معلوم ہوتے۔ وہاں ان سے استفادہ کرتے لیکن جہاں کمزوری دکھائی دیتی وہاں اختلاف کرتے گویا وہ ایک صحت مند ذہن کے ساتھ اپنی تصانیف کا سلسلہ آگے بڑھاتے رہے۔ انتہا پسندی سے وہ سخت نالاں تھے۔ اور معتدل انداز فکر کو پسند کرتے تھے۔ وہ انسان کو بغیر کسی تعصب کے دیکھنے کے قائل تھے باری نے اپنی ہر تحریک میں بین الاقوامی امن اور خوشحالی کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا۔ کسی کی دل آزاری انہیں قطعاً پسند نہیں تھی۔ باری علیگ کے فکر و تخیل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بہت سادہ الفاظ میں مختلف نظریات کی تشریح کی ہے یوں تو بڑے بڑے عالم فاضل لوگ اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کے لئے مشکل اصطلاحات اور بھاری بھر کم فقرات کا سہارا لیتے ہیں۔ دراصل آسان اور سادہ انداز میں لکھنا ہی فن ہے ان کی تحریریں پڑھ کر دل و دماغ پر بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ نئے پڑھنے والوں کو بات جلد اور آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ عام طور پر مختلف فلسفوں اور نظریات کے متعلق لکھنے والے اسی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں اس تمام سہل پسندی میں ان کی کاوش  شعوری تو ہوتی ہو گی لیکن ان کی صلاحیت کو خداداد نہ کہا جائے تو کفر ہو گا۔ باری علیگ کی فکر کا کمال بھی یہ ہے کہ انہوں نے ظلم و بر بریت کی تصویر کشی نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانے اور ان کے درخشاں مستقبل کی رہنمائی کے لئے کی ہے۔

بقول ڈاکٹر عبدالسلام خورشید۔

وہ ادیب تھا اور ادب ہی کو سیاسی بیداری کا ذریعہ بتاتا تھا۔ (۴)

            باری علیگ کا قلم نظم و نثر میں یکساں رواں دواں اور طاق تھا۔ ان کی نثر کا ایک بڑا وصف ان کا منطقی استدلال بھی ہے وہ کسی موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہوں واقعات کا تجزیہ نظم و ضبط کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور بات اتنے مدلل انداز میں کہتے ہیں کہ متاثر کئے بغیر نہیں رہتے۔ لکھتے وقت ان کے ہاں جو معروضی انداز بیان اختیار کیا جاتا تھا۔ وہ دوسروں کے لئے قابل رشک ہوتا۔ اختصار و جامعیت باری علیگ کا وصف تھا۔ اختصار و جامعیت کے حوالہ سے ان کی تحریر میں شگفتگی اور دلکشی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر ہر غلو اور انحطاط سے پاک ہے۔  باری کا یہ وصف بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے تمام تحقیقی اور تخلیقی کام انتہائی نا مسائد حالات میں کیا۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی لکھتے ہیں۔

صبح سے شام تک باری کو کسب معاش کی الجھنوں میں گرفتار رہنا پڑتا تھا۔ رات کے خاموش گھنٹوں میں وہ مطالعہ میں مصروف رہ کر دیدہ ریزی کرتا۔ تصنیف و تالیف کے لئے اپنے جگر کا خون زبان قلم سے صفحہ قرطاس پر ٹپکاتا تھا۔ اسی طرح جب ایک آدھ کتاب مرتب ہوتی تو اونے پونے کسی پبلشر کی نظر ہو جاتی تھی۔ ہمارے ملک میں مصنفوں کا یہی کچھ حال ہے بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ وہ کتابیں جو ہزاروں تشنگان علم کی پیاس بجھاتی ہیں خود مصنف کو ایک سال کے لئے بھی نان و نفقہ سے بے نیاز نہ کر سکیں۔ (۵)

            باری علیگ کو اگر غم روزگار سے فرصت ملتی تو وہ تاریخ و تنقید کے دامن میں اور بھی بہت سے موتی ڈال دیتے۔ لیکن غم روزگار انہیں عرصہ تک صحافت کی وادی میں لئے پھرتا رہا اس طرح انہوں نے صحافت کی خدمت تو کی لیکن بلند پایہ تحقیقی کتابوں کی تیاری کا منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

            باری علیگ مرحوم نے ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور تراجم کئے وہ عمر بھر اپنے قلم سے علم و ادب اور تاریخ کی خدمت کرتے رہے۔ لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان تصانیف کے علاوہ اپنے بیوی بچوں کے لئے کوئی اثاثہ نہ چھوڑ سکے وہ تاریخ عالم پر بھی مستند کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ مگر ان کی بے وقت موت سے یہ عظیم منصوبہ تشکیل ہونے سے رہ گیا۔ ان کی تصانیف کے علاوہ بے شمار علمی و ادبی، معلوماتی تنقیدی تحقیقی اور تجزیاتی محاکموں پر مبنی مضامین معاصر ادبی رسائل اور جرائد کی فائلوں میں منتشر اور بکھرے ہوئے ہیں جن کی حتمی اور قطعی فہرست یقیناً بہت طویل ہو گی۔

گذشتہ صدی میں برصغیر پاک و ہند کے جن ادیبوں اور مفکروں نے انقلابی ذہن کی تشکیل و تعمیر میں نمایاں حصہ لیا ان میں باری علیگ کا نام سر فہرست ہے۔ باری اردو کے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے انقلاب کا سائنٹفک پیغام دیا اور اپنے قلم کو عوام کی ترجمانی اور ان کے حقوق کی پاسداری کے لئے وقف کئے رکھا۔ باری صاحب طرز ادیب تھے۔

            درحقیقت باری علیگ جس دور میں میدان صحافت میں آئے اس دور میں صحافتی مصروفیت ادبی اسلوب اور جوش و جذبہ کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ مولانا ظفر علی خاں اور مولانا ابو الکلام آزاد کے سحر انگیز اسالیب کے اثرات موجود تھے۔ تاہم وقت کا یہ تقاضا تھا۔ کہ صحافت کو ادب سے علیحدہ ہو کر اپنے حقیقی مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرنا چاہئے۔ یہ مقاصد تھے صحیح معلومات کی فراہمی اور عقلی و منطقی دلائل کے ساتھ قارئین کی رائے کی تشکیل۔ اردو اداریہ نویسی کے میدان میں مولا نا غلام رسول مہر نے مدلل ادارئیے لکھنے کی طرح ڈالی تھی لیکن باقی صحافتی مندرجات کے انداز و اطوار میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ باری علیگ نے اپنے کالم گرد و پیش کی صورت میں اردو صحافت میں موضوعی مضمون متعارف کرایا۔ وہ اپنے کالم میں کبھی ایک اور کبھی ایک سے زیادہ اہم واقعات کا ذکر کرتے ہیں ان کا پس منظر بیان کرتے ہیں۔ ان پر سیر حاصل بحث کرتے اور پھر ممکنہ اثرات و نتائج کا ذکر کرتے۔ اس نوع کے موضوعی مضامین کا تصور مولانا محمد علی جوہر  نے ہمدرد کے اجراء کے وقت پیش کیا تھا۔ لیکن اس وقت اردو صحافت پر جوش و جذبہ کے بجائے غور و فکر  اور عقل واستدلال کی طرف آ رہی تھی۔ اس لئے صحافت میں موضوعی مضامین کی ضرورت نمایاں ہو رہی تھی دوسرے اس میں یہ بات بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ کہ جس وقت باری علیگ نے قلم سنبھالہ اس وقت اردو نثر عروج پر تھی۔ اورکسی نئے لکھنے والے کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ سابقہ ادبی اسالیب کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا اور جداگانہ اسلوب اختیار کرے نثر کے قریباً تمام صاحب طرز ادیب بیسویں صدی کے اوائل میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سر سید احمد خان ، الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی ، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ۔ اس کے بعد جتنے بھی ادیب ہیں وہ کسی نہ کسی کے مقلد دکھائی دیتے ہیں۔ مگر باری علیگ نے کسی ادیب کے انداز کی تقلید نہیں کی۔ وہ بیک وقت صحافی ادیب انشا پرداز مترجم محقق مورخ اور نقاد تھے۔ باری نے صحافت کے مختلف شعبوں کالم نویسی فیچر نگاری اداریہ نویسی میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی تحریر میں جداگانہ اسلوب دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی سادہ زبان جچے تلے الفاظ سلاست بیان سنجیدگی استدلال یہ وہ عناصر تھے جو ان کی تحریر میں نمایاں نظر آتے ہیں باری کی تحریر کا ایک خاص وصف کمال بلاغت ہے وہ استعارہ و کنایہ، تلمیحات اور مشکل الفاظ کے استعمال کے بغیر اپنی پیرایۂ بیانی سے تحریر میں ادبیت پیدا کرتے ہیں اور یہ ادبیت منفرد انداز کی ہے مشکل سے مشکل مفہوم کو انتہائی سادہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔

            باری علیگ کی تحریر ان تمام خصوصیات سے مختلف نظر آتی ہے وہ ان قواعد و ضوابط پر عمل کرتے رہے ہیں چھوٹے چھوٹے قابل فہم اور غیر مبہم الفاظ صاف شفاف جملے ان کی زبان اور اسلوب بیان کا لازمہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی نظر نہیں آتی بلکہ منطقی استدلال کا دامن تھامے نظر آتی ہے۔ موضوع کی نوعیت کے مطابق تمہید باندھتے ہیں جو کبھی طویل اور کبھی مختصر ہوتی ہے۔ اختصار پسند بھی ہیں۔

            باری علیگ کی تحریر میں خلوص کے ساتھ جوش ولولہ تازگی اور قوت تھی جوان کی شخصیت کا عطیہ تھی۔ وہ جو کچھ کہتے بالکل فطری انداز میں کہتے۔ بعض اوقات دوسری مصروفیات کے باعث وہ اپنی تحریر پر نظر ثانی بھی کرتے تھے۔ اس کے باوجود عبارت میں کوئی جھول نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ شگفتگی نظر آتی۔ ان کے اسلوب نگارش کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی بات دلائل و براہین کے ساتھ معروضی انداز میں کہتے ہیں۔ اس انداز کی اثر آفرینی کا صحیح اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہوں نے خود اچھی نثر لکھی ہو۔ ان کی نثر رمزیت ، روانی، بے تکلفی، گہرائی، شگفتگی اور جامعیت کے ساتھ منفرد ذائقے اور علمی شان کی حامل ہے۔ باری علیگ کی تحریر میں اعجاز بھی ہے باری کی تحریر عبارت میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ جس سے قاری زبان و بیان پر ان کی غیر معمولی قدرت برجستگی اور سلاست کا اسیر ہو جاتا ہے۔ ان کی تحریر میں ایسی رنگا رنگی ہے جو ہر دم اور ہر آن ان کے اسلوب کی رعنائی و شگفتگی سے پیدا ہوتی ہے۔ باری لفظوں کی شعبدہ بازی اور فقروں کے الٹ پھیر سے کام لئے بغیر بے ساختہ بے باکی کا اظہار کرتے ہیں اور تشبیہات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں اس کے باوجود دسعت مطالعہ کے سبب ان کی تحریر کی دل آویزی مسحور کن ہے۔ باری بے تکان لکھتے تھے۔ اور ان کی تحریوں میں کانٹ چھانٹ بھی بہت کم ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ خیالات خود بخود ہاتھ باندھے سنجیدگی سے چلے آرہے ہوں بقول ، صالح محمد صدیق،

باری علیگ جب لکھنے بیٹھتے تو یکسر بدل جاتے اس وقت وہ ایک متین اور سنجیدہ فکر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصنیفات بلند پایہ علمی و فکری شاہکار ہیں۔ (۶)

            باری علیگ کو اردو عربی فارسی انگریزی اور چند علاقائی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا جبکہ ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ باری نے اپنی تحریروں اور اسلوب نگارش کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے عربی فارسی اور انگریزی کے الفاظ سے مدد بھی لی۔ بقول احمد ندیم قاسمی،

ان کے دماغ میں الفاظ کا ایک سمندر تھا۔ جو پنجابی اردو فارسی عربی اور انگریزی کے بے شمار الفاظ کی ڈکشنری کے مترادف تھا۔ جب ان کا قلم لکھتا تو پھر روانی میں اس قدر لکھتا کہ پڑھنے والا ان کی ذہانت کا قائل ہو جاتا یہ ان کی بنیادی خصوصیت تھی۔ ‘‘ (۷)

            باری اسلوب بیان پر مکمل قدرت رکھتے ہیں ان کا طرز فکر ہی منفرد ہے۔ ان کی تحریروں میں کردار ماحول کی بھر پور عکاسی اور شعر نگاری بھی ملتی ہے کمپنی کی حکومت کتاب کے اقتباس میں لکھتے ہیں۔

’’رات ، تاریکی، بارش ، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک تیزو تند ہوائیں ابر کے سیاہی مائل ٹکڑے اور ژالہ باری ، ماحول کی یہ ہولناکی جری سے جری انسان کے حوصلے پست کر رہی ہے۔ لوگ سہمے ہوئے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج سے دل دہل رہے ہیں۔ بچے خوف کے مارے ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹے جا رہے ہیں۔ اس بھیانک اور ڈراؤنی رات میں ایک شخص یونا کے قلعے میں چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ ‘‘(۸)

            باری علیگ کے اسلوب نگارش میں نصیحت کا انداز بھی ہے جو ان کے اداریوں میں زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ جبکہ انہوں نے تحریر میں طنز و مزاح سے کام نہیں لیا اس لئے ان کے اسلوب کو طنزیہ اسلوب نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ تصنیف و تالیف کے میدان میں باری نے کسی سے رہنمائی نہیں لی پھر بھی ان کی تحریروں میں جدت کا عنصر نمایاں ہے۔ جس سے ان کی تحریر وقیع نظر آتی ہے۔

            پہلی جنگ عظیم کے بعد حالات نے جو نئی کروٹ لی انجمن ترقی پسند مصنفین اسی کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی۔ طبقاتی نزاع کے ساتھ ساتھ اقتصادی مسائل روز بروز بڑھ رہے تھے۔ دنیا کی بربادی اور تباہی کے بعد لوگوں کے پاس سوائے آنسوؤں اور آہوں کے رہ ہی کیا گیا تھا۔ وہ تمام اقوام جو اس جنگ کے ایندھن میں جھونک دی گئیں۔ ان کا اعتماد ان طاقتوں پر سے اٹھ چکا تھا۔ جنہوں نے محض ہوس ملک گیری کی خاطر انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح روند کر رکھ دیا تھا۔ مگر ان اقوام کی مشکل یہ تھی کہ ان طاقتوں کے چنگل سے نجات پاتیں تو کیونکر؟ معاشی اور سیاسی کشمکش بڑی سرعت رفتار ی کے ساتھ ساری دنیا کو آتش فشاں کے دہانے تک لے آئی تھی ان حالات نے ادیبوں اور شاعروں کو ادب اور زندگی کے حوالہ سے سوچ کا ایک نیا انداز بخشا۔ برصغیر پاک و ہند کے چیدہ چیدہ ادیب اور شاعر لکھنؤ میں جمع ہوئے۔ یہ تمام نئی نسل کے نمائندے اور ترقی پسند تھے جنہوں نے ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔

            انجمن ترقی پسند مصنفین نے اہل قلم کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔ یعنی ایک گروہ روایت پسندی کا تھا اور دوسرے میں ترقی پسند شامل تھے جن کے نزدیک انسانی زندگی کا مقصد روٹی کپڑا اور مکان تھا۔ مگر یہ صورت حال زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔ بعض ادیب اور شاعر خلوص دل سے سوچنے لگے کہ زندگی محض سیاسی یا معاشی نظریات کی تبلیغ کا نام نہیں بلکہ معاشرہ کی حقیقی روح روایت ہے۔ جسے آگے بڑھانا ہی مقصود ہونا چاہئے۔ یہیں سے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحثوں کی آغاز ہوا۔ یوپی اور بمبئی میں وہاں کے صنعتی اور تجارتی حجم سے پیدا شدہ حالات کے باعث انجمن ترقی پسند مصنفین کو خاصی پذیرائی ملی۔ جب کہ پنجاب اس سے خاصی دیر بعد متاثر ہوا۔ چنانچہ لاہور میں انجمن کی شام حقیقی معنوں میں قیام پاکستان کے بعد قائم ہوئی۔ ساحر لدھیانوی، باری علیگ، عبدالمجید بھٹی، احمد راہی، ظہیر کاشمیری اور عارف عبد المتین اس انجمن کی لاہور شاخ کے مرکزی کردار تھے۔ رفتہ رفتہ مہر ابراہیم جلیس، سید سبط حسن اور سجاد ظہیر بھی شامل ہو گئے۔ احمد ندیم قاسمی کو انجمن ترقی پسند مصنفین بمبئی سے کچھ اختلاف تھا۔ اس لئے انہوں نے شمولیت سے احتراز کیا۔ فیض احمد فیض انجمن سے ہمدردیاں رکھنے کے باوجود اس میں شامل نہ ہوئے۔ (۱۰)

            ڈاکٹر قمر رئیس کے مطابق ادبی تحریکیں اپنے رویے اور رجحان کے لحاظ سے تین طرح کی ہوتی ہیں۔

            اول ایسی تحریکیں جو زبان و بیان اسلوب و اظہار یا پھر تکنیک میں تبدیلیوں اور تجربوں کو اپنا مطیع بناتی ہیں۔ دوم ایسی تحریکیں جن کی اساس اجتماعی احساس و شعور اور ایک واضح فکری نظام پر ہوتی ہے۔ اول الذکر دونوں قسم کی تحریکوں کے مقابلے میں آخر الذکر کا حلقہ اثر زیادہ وسیع اس کے سر چشمے زیادہ تنوع اس کی جڑیں زیادہ گہری اور تہذیب و  معاشرہ کی سطح پر اس کے اثرات زیادہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ اردو میں علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک اسی ذیل میں آتی ہیں۔ یہ دونوں اس حد تک منظم اور شعوری تحریکیں کہی جا سکتی ہیں جس حد تک ادبی اور فکری تحریکیں ہو سکتی ہیں۔ ان کے پیچھے سماجی ارتقاء کے نشیب و فراز کا شعور اور انسانی فلاح کے لئے سماج کی ترقی پسند اور تعمیری قوتوں کو مہمیز کرنے کا جذبہ کار فرما تھا۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ علی گڑھ تحریک کے مقابلے میں ترقی پسند تحریک کا دائرہ اور اس کے تصورات کا حلقہ زیادہ وسیع تھا۔ اور اسی نسبت سے اس کا دائرہ اثر بھی زیادہ دور رس ثابت ہوا۔ عہد جدید میں اردو کے ممتاز اور بلند قامت ادیبوں کی اکثریت ان ہی دو تحریکوں سے وابستہ رہی ہے۔

            ترقی پسند تحریک اردو زبان کی سب سے بڑی منظم اور ہمہ گیر تحریک ہے، اردو زبان میں اس تحریک کا آغاز 1936ء میں ہوا اس تحریک کے بانیوں میں سجاد ظہیر، عبد العلیم، محمود الظفر، ملک راج آنند اور رشید جہاں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اس تحریک کا مقصد ادب میں مارکسی نظریات کو پیش کرنا زندگی کے مادی پہلو کو روحانی پہلو پر ترجیح دینا  تھا۔ ترقی پسندوں نے ادب برائے زندگی پر زور دیا۔ انتہا پسندانہ رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے ادب کو اپنے نظریات کی ترویج کا ذریعہ بنا لیا اس طرح فنی پہلو کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اور پرولتاری طبقے کی زندگی کی ترجمانی پر خاص زور دیا۔

            شروع شروع میں انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے اجلاس دیال سنگھ پبلک لائبریری میں ہوا کرتے تھے اس کے بعد نکلسن روڈ پر واقع مظہر علی خاں کا دولت کدہ انجمن کی سر گرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ انجمن کی سرگرمیاں دن بدن بڑھتی رہیں تا آنکہ حکومت نے اسے سیاسی جماعت قرار دیکر غیر قانونی قرار دے دیا۔ انجمن کے بعض اراکین پر اشتراکی ہونے کا الزام بھی لگا۔ (۱۱)

ترقی پسند تحریک کے بارے میں سجاد ظہیر لکھتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک کا رخ ملک کی عوام، مزدوروں ، کسانوں اور درمیانی طبقے کی جانب ہونا چاہئے۔ ان کو لوٹنے والوں اور ان پر ظلم کرنے والوں کی مخالفت کرنا اپنی ادبی کاوشوں سے عوام میں شعور، حرکت، جوش و عمل اور اتحاد پیدا کرنا اور ان تمام آثار و رجحانات کی مخالفت کرنا، جو رجعت اور پست ہمتی پیدا کرتے ہوں۔ ہم شعوری طور پر وطن کی آزادی کی جدوجہد اور وطن کے عوام کو سدھارنے کی تحریکوں میں حصہ لیں اور صرف تماشائی نہ ہوں۔ ترقی پسند دانشوروں ، مزدوروں اور غریب کسانوں سے ملیں اور ان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنیں۔ (۱۲)

            سجاد ظہیر کے مذکورہ الفاظ ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔ ترقی پسند مصنفین کے سامنے درج بالا مقاصد اتنے واضح اور روشن انداز میں رکھے گئے کہ ان کے اندر بلا جھجھک سماجی مسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا لیتا اور اپنی تخلیقی کاوشوں کو سیاسی سطح پر ادب سے باہر کی دنیا میں لڑی جانے والی جنگ آزادی میں شریک کر لینا وقت کی آواز بن گئی۔ چنانچہ وہ بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ برطانوی اقتدار اور مغربی سامراج کی چیرہ دستیوں کا بدلہ چمکانے کے لئے صف بستہ ہو گئے۔ اس دور کی ادبی اور شعری کاوشوں کا دوسرا ٹارگٹ اندرون ملک سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، راجاؤں اور مہاراجاؤں کی پھیلائی ہوئی غربت وافلاس اور سماجی استحصالی صورت حال کو ہٹا کر ایک نئے متوازن اور منصف مزاج معاشرہ کی تشکیل نو بھی تھا۔

            باری علیگ انجمن ترقی پسند مصنفین لاہو ر شاخ کے روح رواں تھے۔ باری علیگ نے ایک صحافی، مصنف اور دانشور کے علاوہ ترقی پسند ادیب کے طور پر بھی خاصی شہرت حاصل کی۔ اس دور میں ترقی پسندی کا مطلب وہ نہیں تھا۔ جو آج ہے۔ اس دور میں ترقی پسندی کا معنی حکومت برطانیہ کا مخالف ہونا تھا۔ تاجدار برطانیہ کی اس حکومت میں ترقی پسند روس کے حامی اور برطانوی حکومت کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل باری علیگ نے اگرچہ انجمن کی باقاعدہ رکنیت اختیار نہ کی تھی۔ مگر وہ اس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد باری علیگ اس انجمن کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ اس کی ایک وجہ معاشی اور سماجی ناہموار یاں بھی تھیں۔ باری نے ترقی پسند مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے قلم کی بھرپور طاقت کو استعمال کیا۔ دسمبر 1947ء میں چند ترقی پسند ادیبوں نے لاہور میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں ساحر لدھیانوی اور احمد راہی پیش پیش تھے۔ سید سجاد ظہیر نے افتتاح کیا صدارت مولانا عبد المجید سالک نے فرمائی بقول ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اس کانفرنس میں انجمن کا منشور ترتیب دے کر منظور کر لیا گیا۔ منشور کا متن درج ذیل ہے۔

ہر ملک کے ادیبوں انشا پردازوں اور شاعروں کا وظیفہ ہے کہ اپنی تخلیقات سے اپنے ہم وطنوں کی تہذیب و ثقافت کو روز بروز پاکیزہ تر بناتے رہیں۔ اور امکان بھر اس کوشش میں مصروف رہیں کہ رجعت پسند ی، تاریک خیالی عدم رواداری بربریت اور لاقانونی کے رجحانات کی جڑ کٹ جائے تاکہ ایک خطہ میں بسنے والے افراد دنیا کی معزز و مہذب قوتوں کے پہلو بہ پہلو گامزن ہو کر بنی نو انسان کے حال و مستقبل کو روشن کرنے میں حصہ لے سکیں ہم میں سے ہر شخص اپنے محدود دائرہ میں اور اپنی محدود استطاعت کے مطابق اس قومی اور اضافی فریضہ کی بجا آوری میں مصروف ہے۔

چونکہ تعلیم کی کمی اور ذ  ہنی تربیت کے فقدان کی وجہ سے بعض عناصر ابھی تک اپنی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں جن سے انسان کو نجات دلانا تمام دانشوروں ، قلمکاروں اور فن کاروں کا فرض ہے۔ جمہوریت حاضرہ کے نظام کی مددسے ترقی پسند معاشرہ پیدا کر سکیں جس کے تمام اجزاء اپنے فکری اور تاویلی اختلافات کے باوجود ایک تنظیم ایک برادری اور ایک قومیت بن جائیں۔ ‘‘

ہم سب پاکستانی ہیں ہم سب پر اپنے وطن عزیز کی سالمیت نیک نامی اور آبرو مندی کی حفاظت فرض ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہم سب پر باہم شفقت، رواداری، اخوت، امن پسندی اور علوم و فنون کی خدمت کا فرض عائد ہوتا ہے۔

ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم ادب و شعر اور علم و فن کی تمام قوتوں کو ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دیں گے اور قول و عمل میں نفاست اور شائستگی کے داعی رہیں گے۔ (۱۳)

منشور مذکورہ اقتباس کا مقصد باری کے اس نقطہ نظر کی وضاحت ہے جس کی بدولت باری علیگ نے انجمن میں شمولیت اختیار کی۔ انجمن میں شمولیت کے بعد باری علیگ انجمن کی مجلس عاملہ کے رکن نامزد کئے گئے۔ اس وقت وہ برٹش انفارمیشن سروس میں بطور پریس آفیسر ملازم تھے۔

29 جنوری 1948ء کو ادیبوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے عہدہ دار چنے گئے۔ سکیریٹری عبدالسلام خورشید ، جائنٹ سیکریٹری عبداللہ ملک، عارف عبدالمتین، فنانس سیکریٹری عبدالمجید بھٹی، اراکین مجلس عاملہ فیض احمد فیض ایڈیٹر پاکستان ٹائمز، باری علیگ برٹش انفارمیشن سروس ساحر لدھیانوی مدیر سویرا، محمد اختر مدیر نفسیات ، اور طفیل احمد اسٹنٹ ایڈیٹر نوائے وقت لاہور۔ (۱۴)

انجمن کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ترقی پسند مصنفین کا اپنا جریدہ ’’نیا ادب‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں ’’ادب لطیف‘‘، ’’نقوش‘‘، ’’شاہراہ‘‘، ’’ صبا‘‘ اور ’’فنون ‘‘نے بھی فروغ ترقی پسند میں اہم کردار ادا کیا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید۔

کہا جاتا ہے کہ1936ء کی ترقی پسند تحریک کو فروغ دینے میں جن رسائل نے ہر اول دستے کا کام کیا ان میں ’’ادب لطیف ‘‘لاہور کا نام سر فہرست ہے۔ ‘‘(۱۵)

انجمن سے وابستہ افراد اپنے نام کے ساتھ دانشور کا لفظ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ لگاتے تھے۔ اے حمید اپنی تصنیف ’’لاہور کی یادیں ‘‘ میں رقمطراز ہیں۔

ترقی پسندوں نے دانشور کا لقب اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔ دانشوری کے دعویٰ سے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی انا کی تسکین ہوتی تھی۔ ان میں سے بیشتر کچھ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ جدید علوم تک ان کی رسائی یا تو تھی نہیں اگر تھی بھی تو برائے نام ہی تھی۔ ان نیم تعلیم یافتہ ادیبوں اور شاعروں کو جب ترقی پسندوں کے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے دانشور کا لقب دیا گیا تو ان کی باچھیں کھل اٹھیں۔ (۱۶)

            جب ترقی پسندتحریک زوروں پر تھی اور ترقی پسند ادب کو فروغ حاصل ہو رہا تھا تو اس کے مخالفین بھی میدان میں کود پڑے۔ جن میں ڈاکٹر تاثیر اور گوپال متل قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر تاثیر ماضی کی روایت سے انحراف اور ترقی پسند تحریک کی قیادت کیمونسٹ پارٹی کو سونپنے کے خلاف تھے۔ اس تحریک کی مخالفت اس لئے بھی تھی کہ ادب اور معاشرت میں کسی قسم کی جدت ان کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ اس تحریک میں ترقی پسند سیاست کے ہنگامے تو نظر آتے تھے مگر ادب کا کہیں سراغ نہ ملتا تھا۔ یہ انجمن ان لوگوں کے کام آتی رہی جنہیں ترقی پسندی کا نعرہ نسبتاً زیادہ عزیز تھا۔ گوپال متل اس تحریک کے اس لئے مخالف تھے کہ ان کے خیال میں ادب میں ترقی پسند تحریک دراصل ادیب کی انفرادیت کو سلب کرنے اسے حلقہ بگوش بنانے اور اس طرح اسے مسلسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی ایک نپی تلی سازش تھی۔ انہوں نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ادب میں ترقی پسندی ایک ادبی تحریک یا سازش 1958ء میں کیمونسٹ سرکاروں کے شائع شدہ مصدقہ مواد ہی کے حوالوں سے یہ بات بخوبی ثابت کر دی کہ ادب میں ترقی پسند تحریک محض ایک ایسا ظاہری تماشا تھی جس کے پس منظر میں کیمونسٹ پارٹی کی طاقتیں ترقی پسند ادب کو کٹھ پتلی کا ناچ نچواتی تھیں۔ (۱۷)

            گوپال متل نے نئے تخلیق کاروں ، ادیبوں اور شاعروں کی فطری صلاحیتوں کو پران چڑھانے کے لئے رسالہ ’’تحریک‘‘ دلی سے جاری کیا۔ ترقی پسندوں نے تخلیق کاروں کی اس آزادی اظہار کی خواہش کو اپنی تنظیم کے خلاف خطرہ تصور کر کے گوپال متل کے خلاف محاذ قائم کر دیا کہ یہی ایک ایسی شخصیت ہے جو اپنی پوری قوت کے ساتھ احتجاج کا حوصلہ رکھتی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ اس انجمن سے علیحدہ ہوتے رہے۔ کیونکہ جس مقصد کے لئے انجمن قائم کی گئی تھی۔ وہ اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہی چنانچہ باری علیگ نے بھی رکنیت کے دو سال بعد انجمن کو خیر باد کر دیا۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔

باری کچھ عرصہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا رکن رہا تقسیم ہند کے بعد چند مہینے بعد تک اس جماعت سے وابستہ رہا بالآخر ہم دونوں بد ظن ہو کر نکلے دونوں کا مزاج جمہوری تھا اور اس جماعت میں بات جمہوریت کی ہوتی تھی اور قلم کیمونسٹ پارٹی کا چلتا تھا پھر کیمونسٹ حضرات کی پالیسی میں ایشیائی محبوب کا بانکپن موجود تھا۔ دوسرے لفظوں میں انتہا پسندی سے ہم نالاں تھے۔ اس لئے کنارہ کش ہو گئے۔ (۱۸)

اشتراکیت

            اشتراکیت (سوشلزم) عہد حاضر کی ایک مقبول اور پر زور تحریک ہے اس کے اثرات ساری دنیا میں پھیلے۔ متعدد ممالک میں مارکسی یا جمہوری اشتراکی حکومتیں قائم ہیں۔ اول الذکر میں رو س اور مشرقی یورپ کے ممالک چین، کوریا، ویت نام، ثانی الذکر میں برطانیہ، فرانس، ایشیاء و افریقہ کے چند ایک ممالک قابل ذکر ہیں۔

            باری علیگ اشتراکیت سے خاصے متاثر تھے۔ باری نے ایک طویل عرصہ تک اشتراکیت کے پرچار ک کے طور پر کام کیا۔ ان کی ابتدائی تحریروں میں اشتراکی فلسفے کی رنگ آمیزی واضح دکھائی دیتی ہے۔ کارل مارکس، مشین اور مزدور اور لینن جیسی تصانیف باری نے اشتراکیت سے متاثر ہو کر لکھیں۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں باری اشتراکیت سے برگشتہ ہو گئے تھے۔ اور اسلامی نظام ہی کو کامیابی کا زینہ سمجھتے تھے۔

            باری علیگ مکمل طور پر اشتراکیت پسند تھے۔ ان کی تحریریں انہیں اشتراکی ظاہر کرتی ہیں۔ انہوں نے جب اپنا ہفت روزہ ’’خلق‘‘ جاری کیا تو پہلے پرچے کے سرورق کی پیشانی پر ان کا مضمون ہیگل سے کارل مارکس تک چھپا۔ یہ مضمون اشتراکی فلسفہ کے بارے میں تھا۔ اشتراکیت کے پرچارک کے لئے باری علیگ نے اپنی تمام تر قوتوں کو استعمال کیا۔ ترقی پسند تحریک میں ان کی شمولیت کا مقصد بھی یہی تھا کیونکہ اس تحریک کا اشتراکیت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ تھا۔ اس تحریک کے اکثر زعماء اشتراکی نظریات کے حامل تھے۔ اشتراکیت کی طرف ان کا جھکاؤ اس لئے نہیں تھا۔ کہ وہ روس یا اس کے حلیفوں سے کچھ لیتے تھے۔ بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اشتراکیت نے سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کیا ہے۔ باری علیگ بنیادی طور پر استحصال کے خلاف تھے اور انسان کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے باری اشتراکیت کی طرف مائل ہوئے وہ ان روایتی ترقی پسندوں سے یکسر مختلف تھے۔ جو اشتراکی نظام کو اسلامی نظام سے بہتر خیال کرتے تھے۔ انسان کو انسان کی لوٹ اور استحصال سے بچانے کے لئے باری علیگ اشتراکیت کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ اسی لئے باری علیگ انقلاب روس کے مداح تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری لکھتے ہیں۔

باری سوشلسٹ انقلاب کے مداح تھے کہ اس انقلاب کی بدولت محکوم اور مظلوم عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کی مصیبتوں کا دور ختم ہوا۔ انہوں نے خلوص دل کے ساتھ سوشلسٹ نظام معیشت کی تائید و حمایت کی۔ لیکن وہ زمانہ جدید کے بے راہ رو اور گمراہ سوشلسٹوں کی طرح نہیں تھے۔ جنہوں نے فیشن کے طور پر مفاد پرستی کے لئے سوشلزم کی طرف داری کی۔ (۱۹)

معروف صحافی دانشور اور خطیب شورش کاشمیری باری علیگ کے بارے میں لکھتے ہیں۔

وہ دل کا مومن مگر دماغ کا اشتراکی ہے۔ لیکن ان کی تصنیف کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی اشتراکیت سامراج دشمنی  سے عبارت تھی عقیدے کے لحاظ سے باری علیگ مسلمان تھے۔ (۲۰)

            طویل عرصہ تک باری علیگ کے دوست و احباب میں یہ بات موضوع بحث رہی کہ وہ اشتراکی تھے یا نہیں ان کے دوست اور ہم عصر صحافی صالح محمد صدیق اپنے ایک اخباری مضمون میں لکھتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے ان پر کیمو نسٹ ہونے کا الزام لگایا اور کیمونسٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ثبوت کے طور پر ان کی کتابوں کو پیش کیا جو باری علیگ نے ان نظریات کے حامی قائدین کے حالات زندگی کے بارے میں لکھیں حقیقت یہ ہے کہ باری علیگ نہ تو کیمونسٹ تھے اور نہ ہی کیمونزم کے حامی۔ وہ سیدھے سادھے مسلمان تھے۔ (۲۱)

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید باری کے سیاسی نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ باری کیمو نسٹ تھا یہ غلط تھا باری ایک اچھامسلمان تھا خدا پر اس کا پورا اعتقاد تھا اور وہ کیمونزم کے الحاد کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے محمد عربیﷺ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جس میں حضور ﷺ کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ‘‘(۲۲)

اپنے ایک اور مضمون میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید باری علیگ کو اشتراکیت پسند ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

باری ان انقلاب پسند نوجوانوں میں شامل تھا جن کے نزدیک انسان کو انسان کی لوٹ اور استحصال سے بچانے کے لئے اشتراکیت ہی واحد ذریعہ تھا۔ (۲۳)

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور صالح محمد صدیق کے ان خیالات کے برعکس جگدیش چندر ودھاون اپنی تصنیف منٹو نامہ میں لکھتے ہیں۔ کہ باری نہ صرف اشتراکی تھے۔ بلکہ انہوں نے اپنے دوستوں خصوصاً سعادت حسن منٹو کو بھی اشتراکی نظریات کا حامل بنا لیا تھا۔

            منٹو جب اپنے ادبی اور سیاسی گرو باری  علیگ کے زیر اثر آئے اور انہوں نے ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا تو وہ نو عمر اور نو خیز تھے۔ ان کا سیاسی شعور پختہ تو کیا ابھی بیدار بھی نہیں ہوا تھا۔ البتہ باری علیگ وسیع مطالعہ کے مالک ، منجھے ہوئے صحافی اور پختہ کار اشتراکی تھے۔ انہوں نے منٹو کا رخ اشتراکیت کی جانب موڑ دیا۔ منٹو باری علیگ کے سیاسی مسلک اور اشتراکی احساسات اور جذبات سے متاثر ہوئے۔ اور جلد ہی ان کے رنگ میں رنگے گئے۔ باری علیگ کی ترغیب پر انہوں نے روسی مضمون کی تصانیف اور بالشویکوں کی زار شاہی کے خلاف جنگ کا گہرا مطالعہ کیا اور اشتراکیت کو اپنا سیاسی مسلک بنا یا۔ (۲۴)

سعادت حسن منٹو خود گنجے فرشتے میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ باری علیگ اشتراکی نظریات رکھتے تھے۔ چنانچہ وہ رقمطراز ہیں۔

            باری صاحب اشتراکی ادیب اور ہمارے گرو تھے۔ (۲۵)

            باری علیگ کی تحریروں ، تصانیف اور نظریات کے مطالعہ سے  یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ باری نے ایک طویل عرصہ اشتراکی نظریات کا پرچار کرنے میں صرف کیا۔ اشتراکیت کی ترویج و اشاعت کے سلسلہ میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ماسکو میوزیم  میں ان کا الگ مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ عمر کے آخری حصہ میں اشتراکیت کے بارے میں ان کے خیالات میں خاصی تبدیلی آئی اور باری علیگ رفتہ رفتہ اشتراکی نظریات و خیالات سے دور ہوتے چلے گئے کیونکہ وہ سمجھنے لگے تھے۔ کہ اسلامی نظام معیشت ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ باری علیگ نے نصف صدی قبل جو محسوس کیا۔ آج سپریم سوویت یونین کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشتراکیت ایک مکمل نظام نہیں بلکہ آنحضورﷺ کے تکمیل کردہ نظام میں ہی انسانیت کی بقاء ہے۔

عرب ہوٹل، نگینہ بیکری، کافی ہاؤس اور باری علیگ

            اگر دنیا کی مشہور علمی و ادبی شخصیات کی زندگیوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو نہ صرف ان شخصیات نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا بلکہ وہ مقامات بھی شہرت دوام کے مستحق ٹھہرے جہاں قد آور شخصیات کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ڈاکٹر ایم ، ایس ، ناز کہتے ہیں۔

دراصل کسی مقام یا شہر کی عظمت و اہمیت ان تہذیبی و ثقافتی روایات سے وابستہ ہوتی ہے جو وہاں کے رہنے والے قائم کرتے ہیں اور تہذیب و ثقافت کوئی انفرادی عمل نہیں بلکہ شعوری و غیر شعوری طور پر ارباب علم اور اصحاب فکر کے ہاتھوں تشکیل پانے والے ایک مجموعی طرز حیات کا نام ہے ارباب علم اور اصحاب فکر کا طبقہ ہی قبول عام اور شہرت دوام کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اور تہذیب و ثقافت کے ورثہ کی نمائندگی اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ اس طبقہ کے افراد شہر کے کسی گوشے کو اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور تبادلہ خیالات کے لئے مختص کر لیں تو وہ جگہ بھی تاریخی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور تہذیب کی ترجمان کہلانے لگتی ہے۔ (۲۶)

            دنیا کی اکثر ادبی شخصیات کا زیادہ وقت ریسٹورانوں اور قہوہ خانوں میں گذرا ہے۔ فرانس کے معروف مشاہیر ان علم و ادب جن میں وکٹر  ہیو گو، بالزاک، دموسیوماسین یون موسیوژول یلوکم، ریمیراں مودی لیانی وغیرہ شامل ہیں نے سلگتی شامیں کا رتنے لاطین کے قہوہ خانوں میں گذاریں۔ فرانس کی بیشتر علمی، ادبی، فنی اور انقلابی تحریکوں کی ابتداء انہی قہوہ خانوں میں ہوئی۔ بر صغیر پاک و ہند میں لاہور کا مشہور بازار حکیماں جو اندرون بھاٹی دروازہ میں واقع ہے کو حکیم احمد شجاع لاہور کا چیلسی قرار دیتے ہیں۔ بھاٹی دروازہ کئی ادبی تحریکوں اور مشاعروں کی وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دروازہ سے علامہ اقبال، شیخ عبدالقادر ، ارشد گورگانی، آغا حشر، خان احمد حسین خان، مولوی محبوب عالم، پنڈت راج نارائن ارمان، حکیم احمد شجاع، سوراج نارائن مہر، پنجابی کے شاعر سر شہاب الدین، فارسی کے معروف شاعر فقیر سید عزیز الدین، مرثیہ گو شاعر سید ناظر حسین، ناظم لکھنوی اور دیگر ہستیوں کا تعلق رہا ہے۔

یوں تو لاہور کے بیشتر ریستورانوں اور قہوہ خانوں میں شاعروں اور ادیبوں کی محفلیں جمتی تھیں۔ مگر عرب ہوٹل، نگینہ بیکری اور کافی ہاؤس خاص طور پر نمایاں تھے۔ جن میں ادیب اور شاعر گھنٹوں محفلیں بپا کئے رکھتے تھے۔ اس دور کے تمام ادیبوں نے ان مقامات کا تذکرہ اپنی تصانیف میں کیا ہے۔ سعادت حسن منٹو ، باری علیگ کے بارے میں لکھتے ہیں۔

باری صاحب نے مختلف چھوٹے بڑے شہروں کی رصد گاہوں میں اپنی قسمت کے ستاروں کا مطالعہ کیا لیکن گھوم پھر کر واپس لاہور کی رصد گاہ میں آنا پڑا جو کسی زمانے میں عرب ہوٹل میں تھی اور بعد میں نگینہ بیکری میں جملہ سازو سامان کے ساتھ ّ موجود ہوتے تھے۔ یہاں اور بھی بڑے بڑے ستارہ شناس جمع ہوتے تھے۔ (۲۷)

            باری علیگ کی زندگی میں مذکورہ تینوں مقامات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ باری نے اپنی تمام تخلیقات کا تانا بانا اپنی جگہوں پر بیٹھ کر بنا۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان مقامات پر گذرا۔ جہاں بڑے بڑے عظیم المرتبت لوگ بیٹھتے تھے۔ جن میں فیض احمد فیض ، ساحر لدھیانوی، چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ ، ڈاکٹر عاشق  بٹالوی، جگن ناتھ آزاد، مولانا صلاح الدین، ناصر کاظمی، مولانا غلام رسول مہر، عبدالحمید عدم، حسن عباسی، ابوسعید قریشی، سعادت حسن منٹو، صوفی غلام مصطفی تبسم، آغا شورش کاشمیری، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، مولانا تا جور نجیب آبادی ، گوپال متل، صالح محمد صدیق ، قیوم نظر، مہاشے خوشحال چند، ہری چند اختر، احسان دانش، ملک اسلم حیات، دیوندرستیارتھی، ڈاکٹر سید عبداللہ، سید سبط حسین، عابد علی عابد، کہنیا لال کپور، آغا بیدار بخت، دیوان چند شرما، عبدالمجید بھٹی، ڈاکٹر عنایت اللہ، نورالحسن ہاشمی، شیخ غلام محی الدین، خواجہ عبدالوحید، حمید اللہ، صدیق کرم الٰہی، عبدالرحمن ، انور بیگ ، شیخ حسام الدین، ڈاکٹر تاثیر، خواجہ دل محمد، ڈاکٹر ستیہ پال، ہوش ترمذی، سید وقار عظیم، ڈاکٹر گوپی چند اور دیگر قد آور شخصیات شامل ہیں۔

عرب ہوٹل

            عرب ہوٹل 1926ء میں کویت کے ایک عبود نامی عربی نے کھولا۔ شروع میں اس ہوٹل کی زندگی اسلامیہ کالج کی مرہون منت تھی۔ مگر بعد میں بڑے بڑے ارباب علم و دانش یہاں قدم رنجہ فرمانے لگے۔ اس زمانے میں عرب ہوٹل کے کباب بہت مشہور تھے، 1933ء سے 1936ء تک عرب ہوٹل کی رونقیں بام عروج پر تھیں۔ باری علیگ یہاں دن میں دو تین مرتبہ نشست لگاتے تھے۔ (۲۸) چوبیس گھنٹوں میں کم و بیش بارہ گھنٹے سے زائد اس ہوٹل میں گذارتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ یہ محفلیں صبح کی اذان تک جاری رہتیں۔ عرب ہوٹل باری کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرتا تھا۔ کیونکہ یہ کسی حد تک بہت سستا ہوٹل تھا۔ اور باری علیگ کا اس ہوٹل سے لمبا چوڑا حساب بھی رہتا تھا۔ گوپال متل لکھتے ہیں۔

’’اسلامیہ کالج کے سامنے عرب ہوٹل لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈہ تھا۔ ان میں زیادہ تر ادیب شاعر اور صحافی تھے۔ یہ ایسے اداروں میں کام کرتے تھے جہان تنخواہ قلیل ملتی تھی اور کسی ماہ ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن یہ اپنے حال میں مست رہتے تھے۔ عرب ہوٹل بڑا ہی غریب نواز تھا۔ دو کباب نصف نان چائے کی پیالی میں صبح کا ناشتہ ، بھنے ہوئے گوشت کی نصف پلیٹ اور ایک نان میں ایک وقت کا کھانا۔ عرب ہوٹل میں بیٹھنے والوں میں بھائی چارہ بہت تھا اگر کسی کے جیب میں پیسے نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چائے یا کھانے سے محروم رہے۔ ‘‘(۲۹)

ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں۔

عرب ہوٹل کی ہمہ گیری کا یہ علم تھا۔ کہ اخباروں کے دفتر میں خبریں بعد میں پہنچتی تھیں اور عرب ہوٹل کی چار دیواری میں پہلے آ داخل ہوتی تھیں۔ مجھے دن بھر مسلم لیگ کے دفتر ی کاموں میں مصروف رہنا پڑتا تھا۔ اسی لئے شام کو عرب ہوٹل کی مجلس میں التزاماً شریک ہوتا تھا۔ ایک روز غلام رسول خان مرحوم تعجب سے کہنے لگے کہ یہ عرب ہوٹل کیا بلا ہے؟ غضب خدا کا لیگ کی خبریں لیگ کے دفتر میں دیر سے پہنچتی  ہیں اور تم وہاں پہلے سن لیتے ہو۔ (۳۰)

نگینہ بیکری

            1939ء میں جب باری علیگ نے پرانی انارکلی میں مکان لیا تو انہوں نے عرب ہوٹل جانا چھوڑ دیا۔ اور نیلے گنبد کے نزدیک نگینہ بیکری میں بیٹھنے لگے۔ چراغ حسن حسرت عرب ہوٹل کے روح رواں تھے۔ اور خاصے نامور ادیبوں کی محفلیں نگینہ بیکری میں جمنے لگیں۔ یہ چائے کی مختصر سی دوکان تھی۔ جسے یو پی کے ایک قوم پرست مسلمان چلا رہے تھے۔ یہاں کانگریسی اور مسلم لیگی دونوں آتے تھے۔ اور سیاسی مناظرہ بازی میں مصروف رہتے تھے۔ اس بیکری میں ایک وقت میں ایک درجن سے زیادہ آدمی  نہیں سما سکتے تھے۔ بقول عبدالسلام خورشید۔

اس کے شیدائیوں میں سر فہرست ڈاکٹر سید عبداللہ تھے۔ باری مستقل طور پر آتے تھے۔ کیونکہ ان کا مسکن بھی قریب تھا۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی کو بھی یہی مقام مرغوب تھا۔ اور مولانا علم الدین سالک ہر روز قدم رنجہ فرماتے۔ ان کے ساتھ عبداللہ قریشی بھی ہوتے تھے۔ ‘‘(۳۱)

            مولانا صلاح الدین احمد بھی باری علیگ کی وجہ سے روز تشریف لاتے تھے۔ جو ادیب باقاعدگی سے نہیں بیٹھتے تھے۔ وہ بھی ہفتہ میں ایک دو بار ضرور ادھر آ نکلتے تھے۔ نگینہ بیکری 1925 ء میں قائم ہوئی۔ اس کے مالک بجنور کے قصبہ نگینہ کے رہنے والے تھے۔ لاہور آ کر انہوں نے بیکری کا کام شروع کیا اور اپنے قصبے کی یاد میں ایک چائے خانہ کھولا اور اس کا نام نگینہ بیکری رکھا۔ یہ نئی اور پرانی انار کلی کا مقام اتصال تھا۔ ڈاکٹر ایم، ایس ناز لکھتے ہیں۔

لگ بھگ دس گز طویل اور تین گز عریض یہ چائے خانہ بادی النظر میں تو ایک نیم تاریک سرنگ نما کمرہ تھا۔ جس کے ایک کونے میں چھت میں شگاف ڈال کر روشن دان نکالا گیا تھا۔ ہوا اور روشنی کی بس یہی ایک راہ تھی۔ رفتہ رفتہ یہ کمرہ علم و ادب کا گہوارہ اور فکرو فن کا مرکز بن گیا۔ نگینہ بیکری کی رونقیں مولانا تاجور نجیب آبادی دیون چند شرما ڈاکٹر عنایت اللہ، ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی، باری علیگ، آغا شورش کاشمیری، گوپال متل، اختر شیرانی، آغا بیدار بخت، محمد عبداللہ قریشی اور ہوش ترمذی ایسے نامور اہل علم کے دم قدم سے ہیں۔ (۳۲)

            باری علیگ نگینہ بیکری میں اپنی زندگی کے آخری دنوں تک آتے رہے۔ انہیں اس کے در و دیوار سے ایک قلبی و ذہنی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا نگینہ بیکری اور باری لازم و ملزوم ہوں وہ جب تک روزانہ یہاں نشست نہ لگا لیتے انہیں سکون نہیں ملتا تھا۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نگینہ بیکری سے ان کے تعلق کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں۔

باری کے دوستوں میں سے ایک صاحب کسی زمانے میں نگینہ بیکری میں باقاعدہ آتے تھے باری اور صلاح الدین سے ان کی خوب محفلیں رہتی تھیں۔ تقسیم کے بعد وہ صاحب اپنے محکمے کے انچارج ہو گئے۔ اور نگینہ بیکری میں بیٹھ کر دوستوں سے ملنا اپنی پوزیشن کے خلاف سمجھنے لگے۔ میں نے ایک دن باری سے پوچھا فلاں صاحب نگینہ بیکری میں نظر نہیں آتے کیا بات ہے؟ باری ایک منٹ کے لئے خاموش ہو گئے جیسے وہ اس سوال کو ایک منٹ ٹالنا چاہتے ہوں۔ جیسے اس سوال سے انہیں دکھ ہوا ہو۔ وہ اپنے دوستوں کے خلاف کچھ نہ کہتے۔ باری نے اپنی عینک کے دبیز شیشوں سے میری طرف دیکھا میں جواب کا انتظار کر رہا تھا وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب وقت انسان کے احساسات ، جذبات اور طریقہ فکر سب کچھ بدل دیتا ہے۔ مولانا صاحب حسب معمول اب بھی آتے ہیں مجھے اس ہوٹل کے در و دیوار سے لگاؤ ہے اس کی فضاء میں بچھڑے ہوئے دوستوں کے قہقہے جذب ہیں اگر کوئی بھی یہاں نہیں آئے گا تو میں ضرور آؤں گا۔ (۳۳)

            لاہور کے ان مشہور ادبی ٹھکانوں کا تذکرہ ہندوستان ٹائمز نئی دہلی نے اپنی اشاعت دسمبر 1976ء میں ان الفاظ میں کیا ہے۔

The two most popular dhabas were the Arab Hotel opposite Islamia College and the Nagina Bakery in the Neela Gumbad area.(34).

کافی ہاؤس

            نگینہ بیکری اور عرب ہوٹل کے بعد باری علیگ کا تیسرا ادبی ٹھکانہ کافی ہاؤس تھا۔ کافی ہاؤس ادیبوں اور شاعروں کی نظر میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ پاک ٹی ہاؤس سے چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھا۔ کافی ہاؤس میں ادباء اور شعراء کے علاوہ وکلاء ، سیاستدان، صحافی اور نقاد حضرات بھی بیٹھتے تھے۔ کافی ہاؤس کی فضاء دانشورانہ اور صحافیانہ تھی۔ یہاں اکثر سیاست ، اخبارات کی پالیسیوں ، اداریوں اور سیاسی رہنماؤں کی شخصیات پر بحث ہوتی تھی۔ کافی ہاؤس میں مولانا چراغ حسن حسرت ، ریاض قادر، سید جمیل الزماں ، م۔ ش، ناصر کاظمی اور دیگر اعلیٰ پائے کے صحافی اور نقاد آ کر بیٹھتے تھے۔ کافی ہاؤس کا پہلا نام انڈیا کافی ہاؤس تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کے نام کے پہلے لکھا ہوا انڈیا کاٹ دیا گیا۔ اور صرف کافی ہاؤس رہ گیا۔ یہ ایک وسیع کمرے کا ریستوران تھا۔ جس کی شاخیں برصغیر کے دوسرے شہروں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر جو اہمیت لاہور کے کافی ہاؤس کو حاصل تھی وہ کسی کے حصے میں نہ آئی۔ (۳۵) کافی ہاؤس کی کافی بہت اعلیٰ معیار کی تھی۔ یہ لاہور کی دانشورانہ زندگی کا مرکز تھا۔ اس کی شہرت ملک کے گوشے گوشے تک پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی آپ بیتی ’’رو میں ہے رخش عمر‘‘ میں لکھتے ہیں۔

کافی ہاؤس نوجوانوں ، دانشوروں اور طلباء کا مرکز تھا۔ یہاں ہر زاویہ نگاہ کے لوگ آتے اور دنیا بھر کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے اور اس کی فضاء اتنی Acosmopolitan تھی کہ جن دنوں فرقہ وارانہ فسادات کا زور تھا۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے لاگو تھے اور مارچ 1947ء کے فسادات میں بعض اوقات پوری مال روڈ ویران ہو جاتی تھی۔ ان دنوں بھی کافی ہاؤس میں خوب گہما گہمی رہتی تھی۔ (۳۶)

            باری علیگ کافی ہاؤس میں اپنے دوستوں ، کیمونسٹ پارٹی کے نمایاں کا رکن فیروز الدین اور منصور پاکستان کے وزیر قانون شیخ خورشید احمد خان، مولوی عبدالقدیر نعمانی اور سید احمد سعید کرمانی کے ساتھ دن میں دو مرتبہ نشست لگاتے تھے۔ وہ گھنٹوں ملکی حالات اور صحافت پر تبصرہ کرتے اور کافی ہاؤس کی فضاء باری علیگ کے قہقہوں سے گونج اٹھتی۔ یہاں زیادہ تر ایسے لوگوں کی آمدو رفت بھی رہتی تھی۔ جنہیں بحث و مباحثہ کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔

کافی ہاؤس بے کاروں اور بے روز گاروں کا بھی اڈہ تھا۔ اور ایسے لوگوں کا بھی جنہوں نے ذرا مختلف دماغ پایا۔ چنانچہ ایک ایسے صاحب بھی آتے تھے جو شہزادی الزبتھ سے یک طرفہ عشق کے دعویدار تھے۔ (۳۷)

            ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ریستورانوں میں بیٹھنے کی عادت کے سخت خلاف تھے اور انہیں یہاں کی فضاء قطعی پسند نہیں تھی۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ریستورانوں میں بیٹھنے سے تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور جو لوگ مستقل ریستورانوں میں بیٹھتے ہیں ان کی تخلیقی قوتیں مجروح ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باری علیگ بھی اپنی اس عادت کی وجہ سے اپنے تخلیقی کام کو کائی خاص وسعت نہ دے سکے۔ باری علیگ کے دست راست عبداللہ بٹ بھی انتہائی ذہین ہونے کے باوجود اس عادت کے ہاتھوں زندگی کے ّاخری سالوں میں کوئی تخلیقی کام نہ کر سکے۔ کیونکہ ریستورانوں کی طویل نشستیں تخلیقی کام کا موقع ہی فراہم نہیں کرتیں۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔

میں ریستورانوں میں بیٹھنے کا بہت شوقین تھا۔ ہر روز دو گھنٹے تو ضرور اس شغل میں بسر ہوتے۔ رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ یہ شغل غلط ہے کیونکہ ریستورانوں میں بحثا بحثی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ بعض لوگوں کی دشمنی مول لیتا تھا۔ یا سی۔ آئی۔ ڈی والوں کو موقع دیتا تھا کہ وہ میرے خلاف انٹ شنٹ لکھیں دوسرے اس بحثا بحثی سے دماغ تھک جاتا تھا۔ اور تصنیف و تالیف کے شغل کے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ (۳۸)

٭٭٭

 

 

حوالہ جات

۱۔ چندر ودھاون ، جگدیش            منٹو نامہ             مکتبہ شعر و ادب سمن آباد لاہور ، سن ندارد ص۔ 392

۲۔ منٹو ، سعادت حسن                  گنجے فرشتے                     مکتبہ شعر و ادب سمن آباد لاہور ، سن ندارد ص۔ 57

۳۔ بٹالوی، عاشق حسین ڈاکٹر         چند یادیں چند تاثرات       سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، طبع 1985ء۔ ص۔ 130

۴۔ خورشید، عبدالسلام، ڈاکٹر         باری ایک منفرد ادیب     مضمون طبع روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور 14دسمبر 1974ء

۵۔ بحوالہ نمبر ۳، ص۔ ۱۳۱

۶۔ محمد صدیق، صالح                    باری صاحب طرز ادیب   مضمون طبع روزنامہ ’’عوام‘‘ لائل پور۔ 11دسمبر 1972ء

۷۔ قاسمی، احمد ندیم                      باری علیگ ایک دانشور     مضمون طبع روزنامہ ’’امروز‘‘لاہور۔ 12دسمبر 1980ء

۸۔ علیگ، باری               کمپنی کی حکومت  طبع ’’نیا ادارہ‘‘ لاہور۔ ص۔ 128

۹۔ رئیس قمر، پروفیسر، کاظمی، عاشور سید       ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر        طبع ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔                                 1987ء۔ ص۔ 50

۱۰۔  ناز، ایم۔ ایس، ڈاکٹر   لاہور نامہ                       طبع مقبول اکیڈمی اردو بازار لاہور۔ 1996ء۔ ص۔ ۳۴۱

۱۱۔ ایضاً ص۔ 342

۱۲۔ سجاد ظہیر                             روشنائی              مکتبہ اردو لاہور ، طبع۔ 1976ء۔ ص۔ 79-80

۱۳۔ خورشید ، عبدالسلام ، ڈاکٹر        رو میں ہے رخش عمر        آتش فشاں پبلیکشنزایبٹ روڈ لاہور۔

            1986ء۔ ص۔ ۱۸۹۔ ۱۸۸

۱۴۔ ملک، عبداللہ                        انجمن ترقی پسند مصنفین    مضمون طبع روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور۔

            31جنوری 1948ء

۱۵۔ انور سعید ، ڈاکٹر         ادبی رسائل کے پچیس سال          ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور

۱۶۔ اے حمید                 لاہور کی یادیں     طبع سنگ میل پبلکشنز لاہور۔ 1992ء۔ ص۔ 305

۱۷۔ گوپال متل              کمار پاشی                        ماڈرن پبلشنگ ہاؤس گولہ مارکیٹ دریا گنج نئی دہلی

۱۸۔ خورشید عبدالسلام ، ڈاکٹر         ترقی پسند اور ہم   مضمون طبع روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور۔ 14دسمبر 1964ء

۱۹۔ جالندھری شفیق، ڈاکٹر پروفیسر باری علیگ اور سوشلزم     مضمون طبع روزنامہ ’’وفاق‘‘ لاہور۔ 10دسمبر1974ء

۲۰۔ حجازی ، سعدیہ مسکین             باری علیگ بحیثیت صحافی    مقالہ برائے ایم۔ اے (صحافت) ابلاغیات   پنجاب یونیورسٹی لاہور

۲۱۔ محمد صدیق، صالح                   باری علیگ ہمہ جہت شخصیت ،مضمون طبع ہفت روزہ ’’چٹان، لاہور۔ 15دسمبر 1975ء

۲۲۔ بحوالہ نمبر 18

۲۳۔ خورشید عبدالسلام، ڈاکٹر        باری علیگ انقلاب پسند صحافی          مضمون طبع روزنامہ ’’مشرق‘‘

            لاہور۔ 10دسمبر1972ء

۲۴۔ بحوالہ نمبر ۱، ص۔ 229

۲۵۔ بحوالہ نمبر۲

۲۶۔ بحوالہ نمبر۱۰، ص۔ 336

۲۷۔ ایضاً۔ ص۔ 342

۲۸۔ بحوالہ نمبر 26، ص۔ 344

۲۹۔ گوپال متل              لاہور کا جو ذکر کیا  مکتبہ تحریک نمبر 9، انصاری مارکیٹ دریا گنج نئی دہلی،

                        طبع 1971ء ص۔ 32

۳۰۔ بحوالہ نمبر 3، ص۔ 143

۳۱۔ بحوالہ نمبر 13، ص۔ 129

۳۲۔ بحوالہ نمبر 10 ، ص۔ 345

۳۳۔ سلیم واحد سلیم         باری علیگ یاد رفتگاں        مضمون طبع روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور۔ 13     دسمبر1973ء

۳۴۔ Gopal Mital  The past memories   Article Published in Delhi, The "Hindustan Times” New Delhi Dec. 11, 1976.

۳۵۔ بحوالہ نمبر 16، ص۔ 64

۳۶۔ بحوالہ نمبر 13، ص۔ 131

۳۷۔ ایضاً ص۔ 133

۳۸۔ ایضاً ص۔ 135

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید