FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

آنند نرائن ملاؔ : علمی و ادبی کمالات، اول

 

 

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ کا دوسرا حصہ

 

 

                مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی

 

 

 

 

 

وادیِ شعر میں یہ جادۂ ملاؔ ہی نہ ہو

اک الگ ہٹ کے نشان کفِ پا ہے تو سہی

 

 

 

 

تفہیم مُلّا

 

                ……… آلِ احمد سرورؔ

 

آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری نئے لکھنؤ کی آواز ہے۔ یہ نیا لکھنؤ پرانے لکھنؤ سے بھی متاثر ہوا ہے مگر بیسویں صدی کی روح کا اثر اس نے زیادہ قبول کیا ہے۔ لکھنؤ کی پرانی شاعری فن کی پرستار تھی یہ نئی شاعری جذبات کے اظہا رپر زور دیتی ہے مگر فن کی روایات کو نظرانداز نہیں کرتی۔ لکھنؤ کی پرانی شاعری وزن و وقار رکھتی ہے مگر اس میں جذبہ کی تھرتھراہٹ اور احساس کی تازگی ہے۔ اس نئی شاعری نے بیسویں صدی کی زندگی سے نیا احساس لیا ہے اور فن کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔

لکھنؤ جس تہذیب کا گہوارہ ہے وہ بعض لوگوں کے نزدیک مٹ چکی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف بدلی ہے۔ لکھنؤ کے تمدن کے نقش و نگار جاگیردارانہ تہذیب سے بنے تھے۔ سرمایہ داری کے اس دور میں بھی جاگیردارانہ تہذیب غزل اور رندی میں چھپ چھپ کے ظاہر ہوتی رہی، مگر انیسؔ سے لے کر چکبست تک مسدّس کی مقبولیت کچھ اور بھی کہتی ہے۔ انیسؔ کے نیم مذہبی، نیم تہذیبی مرثیے چکبستؔ کے نیم قوی اور نیم سیاسی مرقعے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لکھنؤ میں رندی اور رنگینی کے علاوہ کچھ انسانی اور اخلاقی قدریں بھی مقبول رہیں۔ لکھنؤ کی شاعری میں لاکھ خرابیاں سہی، مگر لکھنؤ میں اردو زبان و ادب کو تقریباً دو سو سال کی مسلسل زندگی ملی ہے، اس نے یہاں کے رہنے والوں کے مزاج میں ایک لطافت و شائستگی پیدا کر دی ہے۔ اس لطافت و شائستگی کا ہم کتنا ہی مذاق اُڑائیں مگر ہماری سیاست کے دورِ جنوں میں بھی لکھنؤ تہذیب اور انسانیت کا علمبردار رہا ہے۔ رواداری، بے تعصبی، امن و اخوت کو لکھنو نے محض زبان سے نہیں سراہا، اسے دل میں بھی جگہ دی، اردو زبان یہاں محض بولی ہی نہیں گئی، دلوں کی آواز اور روحوں کی ترجمان بھی رہی لکھنؤ میں اسے زبان شیخ و لبِ برہمن دونوں ملے اور دوسرے مقامات سے بہت زیادہ ملے اس تہذیبی خصوصیت کو تنگ نظر اور رجعت پرستی کی ہوائیں جلد فنا نہیں کر سکتیں۔

آنند نرائن ملّاؔ کشمیری ہیں، کشمیریوں کی ذہانت اور جمالیاتی احساس کو دنیا جانتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا جتنا حصہ ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ آنند نرائن ملّا کے والد پنڈت جگت نرائن ملا۔ لکھنؤ کی مشہور شخصیتوں میں سے تھے۔ ملا ۱۹۰۱ء میں یعنی بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ پیدا ہوئے۔ جوبلی اسکول اور کیننگ کالج کی انگریزی تعلیم کے علاوہ اردو اور فارسی گھر پر پڑھی۔ انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کی وجہ سے انھیں عالمی ادب کے رجحانات و میلانات سے بھی واقفیت کا موقع ملا۔ وکالت اس لئے اختیار کی کہ آبائی پیشہ تھا اور اس میں امتیاز بھی حاصل کیا۔ مگر ملّاؔ کی سلامت طبع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ وکالت کے ہو کر نہ رہ سکے اور نہ کلب اور جدید سوسائٹی کی تفریحات ان کے دل کی خلش اور دردمندی کو مٹاس کیں یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ لکھنؤ میں رہتے ہوئے بھی ملا لکھنو کے کسی شاعر سے زیادہ متاثر نہیں ہیں لے دے کر چکبست کا کچھ رنگ ہے۔ ورنہ وہ غالب اور اقبال سے زیادہ متاثر ہیں۔ انھوں نے کسی سے باقاعدہ اصلاح بھی نہیں لی اور صرف اپنی انفرادیت کو سہارا بنایا۔ ملا کے یہاں اس طرح لکھنؤ کے عام ماحول سے بغاوت ملتی ہے، مگر لکھنو کی تہذیب کے اثرات ان کی شخصیت اور مزاج میں ایک نکھرے اور ستھرے رنگ سے ملتے ہیں دنیا نے ان سے اچھا سلوک کیا، انھیں ’’خالی جیب اور ٹوٹے ہوئے دل‘‘ ہی پر قناعت نہ کرنی پڑی، جو ایک نقاد کے الفاظ میں شاعروں کو خوب راس آتی ہے۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں انیسؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کے اشعار کے ترجمے کیے اور انگریزی میں کچھ نظمیں کہیں بھی۔ مگر پنڈت منوہر لال زتشیؔ کے اشارے سے اس ذہنی آوارگی کو ایک فطری راستہ مل گیا اور انھوں نے اردو میں شعر کہنے شروع کئے۔ ملّاؔ کی شاعری میں وطن، حسن، انسان دوستی اور نئی دنیا کے محور ملتے ہیں، ان کی شاعری ہمارے ادب کے تمام صالح میلانات کی آئینہ دار ہے اور ان کی شخصیت ہماری تہذیب کی وسیع المشربی اور ہمہ گیری کی ایک زندہ اور تابندہ تصویر۔

اردو شاعری میں ایسے ناکام عاشقوں کی کمی نہیں ہے جو زندگی کی محرومیوں اور تلخیوں کو عشق کا المیہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اردو کا عام شاعر در اصل حسن کا بھی پرستار نہیں وہ اپنے حسنِ تخیل کا عاشق ہے۔ نظارے سے زیادہ وہ نظر کا قائل ہے۔ اس کی مزاج کی یہ نرگسیت (Narcissusism)غزل کی دھندلی چاندنی میں بڑے لطیف سایے پیدا کرتی ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری غزل کا بڑا حصہ ایک ایسی پرچھائیں بن گیا ہے جو تنقید کی روشنی کی تاب مشکل سے لا سکتا ہے۔ غزل کی تاریخ اور اس کے ارتقا پر تبصرے کا نہ یہ موقع ہے نہ اس کی یہاں گنجائش ہے مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اردو کے اچھے اچھے شاعروں کا تصور یا تو محدود ہے یا ناقص۔ زندگی اور اس کے نظاروں کا حسن تو درکنار، یہ حسن نسوانی کا بھی بہت رومانی، بہت سطحی اور بہت مبالغہ آمیز تصور ہے۔ سماجی شعور کی کمی اس کی رندی اور رومانیت کو اور بھی عبرت انگیز بنا دیتی ہے۔ حالیؔ ، چکبستؔ اور اقبالؔ کی غزلوں کو چھوڑ کر پہلی جنگ عظیم تک اردو کا غزل گو شاعر مریض انفرادیت اور بیمار تخیل کا شکار رہا ہے۔ یہ تینوں شاعر چونکہ صرف غزل گو نہ تھے اور شاعری کا زیادہ بلند اور وسیع تصور رکھتے تھے، اس لئے ان کے یہاں عشق میں سچائی اور سپردگی ہے، اگرچہ یہ عشق بڑے مقاصد اور قومی تقاضوں کا عشق ہے۔ لکھنؤ نے چونکہ اس نئے حسن و عشق کا راز ذرا دیر میں سمجھا اس لئے چکبستؔ سے پہلے یہ ہمیں غزل میں نہیں ملتا، ہاں نظموں میں صفی نے اس کا اظہار کیا ہے۔ چکبست اور ملا دونوں لکھنؤ کے ہیں مگر دونوں کو ایک قومی تصور نے روایت کے اس سخت حصار سے باہر نکلنے کا بھی موقع دیا جو دوسرے شعراء کو گرفتار رکھنے میں کامیاب ہوا۔ ملا ؔ نے جب ہوش سنبھالا اور ان کے خون نے جب شباب کی گرمی محسوس کی تو ہندوستان کافی بدل چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم نے ہندوستان کو اتنا بدل دیا جتنا کہ دو سو سال میں نہیں بدلا تھا اور دوسری جنگ عظیم نے تبدیلی اور تغیر کی اس رفتار کو اور بھی تیز کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں ایک جوان اور حسّاس شاعر، حسن کی رنگینی اور دنیا کے بدلتے ہوئے چہرے دونوں کا بیک وقت احساس کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملّاؔ کی نظموں اور غزلوں میں شروع سے ایک جدید ذہن ملتا ہے، اس جدید ذہن کی تربیت انگریزی ادب اور ملک کی سیاسی لہروں سے مل کر ہوئی ہے۔ یہ حسن کا فدائی ہے۔ وفا کے رسمی تصور سے بے نیاز ہے اور وطن کا عاشق بھی ہے یعنی شاعر یہاں ایک ایسا فرد ہے جو بعض اجتماعی ذمہ داریاں اور جذبات رکھتا ہے۔ ملّاؔ کو غزل اور نظم دنوں پر یکساں قدرت ہے اور نیازؔ نے موجودہ شعرا کا جو اپنا انتخاب شائع کیا تھا۔ اس میں اس خصوصیت کا بجا اعتراف کیا تھا۔ مگر ۱۹۳۵ء تک ملّاؔ کی غزلوں اور نظموں میں انفرادیت نہیں آئی ان میں تازگی، شگفتگی اور لطافت ہے مگر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ہمیں چونکا دے۔ ۱۹۳۵ء کے بعد ملّاؔ کے فکر و فن میں انسان دوستی کا جذبہ ایسی گہرائی اور گیرائی اور ایک ایسی قوت شفا پیدا کر دیتا ہے کہ اس کی طرف نگاہیں فوراً اٹھ جاتی ہیں۔

نظموں میں ’’میری دنیا‘‘ زمین وطن، ہم لوگ، نوروز، موتی لال نہرو، اور گاندھی۔ حب وطن سیاسی جد و جہد، قومیت کی تحریک اور آزادی کی خلش کو ظاہر کرتے ہیں۔ وطن پر اردو میں اچھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ خصوصاً چکبستؔ ، ساغرؔ ، افسرؔ ، روشؔ ، حفیظؔ ، جوشؔ کی وطنی شاعری بڑی قابل قدر ہے مگر اس کے باوجود ملّاؔ کی زمین وطن، اپنی غنائیت، شیرینی اور نکھری ہوئی کیفیت کی وجہ سے ممتاز ہے، چکبستؔ اور جوشؔ کی ایسی نظموں میں عظمت ہے مگر ملّاؔ کے یہاں وارفتگی اور سپردگی، نغمگی اور دل نشینی زیادہ ہے۔ چکبست کا اثر موتی لال نہرو اور گاندھی میں بھی ظاہر ہوتا ہے مگر اس کے بعد ملّا اس سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چکبست کی سیرت نگاری کے بجائے ملا کی نظموں میں تفکر اور ایک بڑے نصب العین کی گرمی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی شاعر کی حیثیت سے ملّاؔ کا درجہ چکبست سے بڑھ جاتا ہے۔

بیسوا، روح اضطراب، شاعر، انقلاب زندہ باد، جام حیات، اقبال کے اثر کی یاد گار ہیں ملاؔ پر اقبالؔ کے فکر و فن دونوں کا گہرا اثر ہے۔ لکھنؤ کے شعراء میں اقبال کے رنگ کو صرف ملّا نے جذب کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملّا لکھنوی ہوتے ہوئے مقامی شاعر نہیں ہیں۔ اقبالؔ کی شاعری فن کے بجائے زندگی کے حسن اور روح انسانی کے سربستہ رازوں کی پرستار ہے۔ اقبال ؔ کے یہاں شاعر قوم کی سیاسی، مضطرب، غیر مطمئن اور بیدار روح ہے جو انسانیت کے بلند مینار کی طرف نگراں ہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرتی رہتی ہے اور اسی وجہ سے ہماری موت کی سی بے حسی، غلامی اور رسم و رواج کی اسیری سے بیزار ہے۔ ملّانے یہاں مذہب، وطن اور قومیت کے محدود اور جا رہانہ تصور پر بے دھڑک وار کئے ہیں۔ ان کی انسان پرستی، قوم و مذہب کے محدود تصور سے اتنی بیزار ہے کہ اقبال سے بھی مایوس ہو جاتی ہے اس اجمال کی کچھ تفصیل ضروری ہے۔

اقبالؔ کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف جو میلان ملتا ہے وہ قومی نقطۂ نظر سے بڑا مایوس کن ہے۔ اقبال کی وطنی شاعری میں بڑی دل کشی تھی۔ بڑا جوش اور جذبہ تھا، مگر یورپ کے قیام نے انھیں قومیت کے تصور سے نکلنا سکھایا، انھیں بین الاقوامیت اور انسانیت کا پرستار بنایا۔ اقبالؔ کے نزدیک آفاقیت سب سے بڑا نصب العین بن گئی، مگر اس آفاقیت کے لئے انھوں نے جو خط و خال لیے وہ مذہب سے لئے۔ اقبال ؔ کے لئے مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ اس کی اخلاقی تعلیم اہم ہے مگر اس میں شک نہیں کہ اقبال کی مذہبی اصطلاحوں، ان کی مذہبی زبان اور ایک مذہبی تہذیب و تمدن سے وابستگی اس آفاقیت کو مجروح بھی کرتی ہے۔ ہندوستان کی قومی تحریک کے دوش بدوش یہاں ایک تحریک مسلمانوں کے مذہبی احیاء کی بھی چل رہی تھی، ملّاجیسے انسانیت پرست جو مندر و مسجد دونوں سے بیزار ہیں اور انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں اقبالؔ کی اس آفاقیت کو جب مذہبیت اور مذہبی تحریکوں میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ اقبال سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں، حالانکہ اقبالؔ اور ملاؔ دونوں میں انسان دوستی، جدید ذہن اور سماجی شعور ملتا ہے۔ ملاؔ جو شروع میں اقبالؔ کی طرح وطن کے پجاری تھے جب موجودہ دور میں وطنیت کے نام پر ہنگامے اور کشت و خون دیکھتے ہیں تو آزادی کی دیوی، جس کے جلوؤں کے لئے انھوں نے کتنی ہی راتیں تارے گن گن کر گزاری تھیں، اپنی معصومیت کھو بیٹھتی ہے۔ وہ اس آزادی کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر خوش نہیں ہیں ؎

آہ! نادان پتنگوں کی تباہی کے لئے

کتنی ہنستی ہوئی شمعوں کے پیام آئے ہیں

کتنے ظلمات کے پالے ہوئے سایے شب رنگ

بن کے اک طور سرِ منظر عام آئے ہیں

ابنِ آدم کے لئے جبر کے کتنے نئے دور

لے کے انساں کی مساوات کا نام آئے ہیں

ہاں سمجھتا ہوں بلندی میں نہاں ہے جو نشیب

پھر بھی کھاتا ہوں میں آج اپنی تمنا کا فریب

ایک سجدے کو شنا سائے جبیں اور کروں

دل کا اصرار ہے اک بار یقیں اور کروں

۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک میں نفرت اور خوف کی جو آندھی چل رہی تھی اور جس نے لاکھوں مردوں اور عورتوں کے جسم اور روح سے زندگی اور شادابی چھین لی تھی۔ اس نے ہندوستان کے ہر مہذب اور سچے انسان کی روح کو صدمہ پہنچایا، اس نے تھوڑی دیر کے لئے انسانیت پر ہمارے یقین کو متزلزل کر دیا۔ آدمی اس طرح جانوروں کو شرما سکتا ہے ؟لوگ اس طرح عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سے بے رحمی اور بربریت برت سکتے ہیں ملّاؔ کے درد مند دل نے بھی ہمارے اس داغ کو محسوس کیا اور وہ پکار اٹھے ؎

غارت و قتل کی ہے گرمیِ بازار وہی

ابھی انسان کی ہے فطرت خونخوار وہی

سب سے قانون بڑا آج بھی قانونِ قصاص

سب میں مضبوط دلیل آج بھی تلوار وہی

ایک سے ایک سوا، کون کہے کس کو کہے

اہلِ تسبیح وہی، صاحبِ زنّار وہی

کس کو مظلوم کہیں، کس کو ستمگار کہیں

آج مظلوم وہی، کل ہے ستمگار وہی

 

وطن اے میرے وطن! یوں مجھے مایوس نہ کر

شبھ گھڑی آئی ہے تیری اسے منحوس نہ کر

۱۹۴۷ء کے فسادات سے جب تعصب اور نفرت کا پیٹ نہ بھرا تو اس نے اس دور کے سب سے بڑے انسان اور آزادی کے رہنما کا خون بہانے میں بھی پس و پیش نہ کیا۔ مہاتما گاندھی کا قتل ایک شرمناک حادثہ ہے جس پر ہمارے وطن کی روح ہمیشہ ہمیشہ محجوب رہے گی۔ جو قوم و ملک کے لئے سب لٹا سکتا ہے اور ہمیں اتنا کچھ دے سکتا ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک بھی روا ہو سکتا ہے اردو کے کئی شاعروں نے گاندھی جی کے قتل پر نظمیں لکھیں۔ ان میں روشؔ ، وامقؔ ، اقبال سہیلؔ ، نشورؔ واحدی اور مظہرؔ جمیل کی نظمیں قابل ذکر ہیں۔ ان میں وامق ؔ اور ملّاؔ کی نظمیں صرف مہاتما گاندھی کی شخصیت کی عکاسی نہیں کرتیں بلکہ ان کے پیام کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ وامقؔ کی نظر عوامی اپیل زیادہ ہے مگر ملّا کی نظم ایک ادب پارہ ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ گاندھی جی کے چیلے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی اخلاقی تعلیم اور انسان دوستی کے بڑے فدائی ہیں دو بند ملاحظہ ہوں ؎

سینے میں جو دے کانٹوں کو بھی جا اس گل کی لطافت کیا کہیے

جو زہر پیے امرت کر کے اس لب کی حلاوت کیا کہیے

جس سانس سے دنیا جاں پائے اس سانس کی نکہت کیا کہیے

جس موت پہ ہستی ناز کرے، اس موت کی عظمت کیا کہیے

یہ موت نہ تھی قدرت نے ترے سر پر رکھا اک تاجِ حیات

تھی زیست تری معراجِ وفا اور موت تری معراجِ حیات

پستیِسیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی

ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم کی وسعت دی

ہر سانس سے درسِ امن دیا، ہر جبر پہ دادِ الفت دی

قاتل کو بھی گو لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی

’’ہنسا‘‘ کو ’’اہنسا‘‘ کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا

نفرت کی ماری دنیا میں اک ’’پریم سندیسہ‘‘ لایا تھا

ملا چونکہ ہماری تہذیب کی تمام اچھی قدروں کی نمایندگی کرتے ہیں اس لئے ان شخصیتوں کی انھوں نے خاص طور پر تصویر کشی کی ہے جو ہندوستان کی ساری تاریخ اور جدید رجحانات کا سار ارنگ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ مسز سروجنی نائڈو ہماری محفل کی ایک روشن شمع اور ہمارے گلستاں کا ایک سدا بہار پھول تھیں۔ ہماری سیاست اور ادب پر ان کے گہرے نقوش ہیں مگر ہماری تہذیب پر ان کی شخصیت کا لازوال اثر ہے۔ آنند نرائن ملّانے سروجنی نائڈو پر اپنی نظم میں ان کی ساری تہذیبی صفات کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے ؎

خزاں کی فصل میں بھی نکہتِ بہار رہی

وطن کے دور جنوں میں بھی ہوشیار رہی

خروشِ بزم میں بھی تو ترانہ بار رہی

جہنموں میں نسیمِ عدن سلام تجھے

غرورِ قومیت و دیں کے کوہساروں میں

نفاقِ نسل و تمدن کے ریگزاروں میں

الگ الگ سے حیاتِ جہاں کے دہاروں میں

ترانۂ دلِ گنگ و جمن سلام تجھے

ملّا اگر چہ اپنے وطن اور قوم سے محبت کرتے ہیں مگر وہ وطن کو قدرِ اعلیٰ نہیں مانتے، نہ وہ قوم کے بت کے اندھے پجاری ہیں، ان کی نظموں اور غزلوں میں انسان کی پرستش کا ترانہ ہے۔ اس لحاظ سے ان کا کلام صحیفۂ انسانیت کہا جا سکتا ہے۔ وہ اگر چہ خیر و شر، نور و ظلمت، تہذیب و جہالت کی کشمکش کو معمولی نہیں جانتے اور نہ انسان کے اندر خوابیدہ حیوانیت سے چشم پوشی کرتے ہیں، مگر ارتقاء اور انسانیت پر ان کا ایمان مستحکم ہے۔ ارتقاء میں فرماتے ہیں۔

دیر تک رہتی نہیں اک جام میں صہبائے زیست

اس میں وہ تندی ہے پیمانے پگھلتے ہی رہے

تیرگی بڑھ بڑھ کے تاروں کو بجھاتی ہی رہی

تیرگی کو چیر کرتارے نکلتے ہی رہے

ارتقاء کی راہ میں رکنا ہی ہے انساں کی موت

ہیں وہی زندہ جو اس رستے پہ چلتے ہی رہے

یعنی ملّاؔ کا دل اپنی جگہ پر ہے اور ان کے ذہن نے انھیں دھوکا نہیں دیا۔ بیسویں صدی کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا۔ یہ حیات کی پیچیدگی کا دور ہے۔ یہ آزادی کی جد و جہد اور اس کے حقیقی مفہوم کی تلاش کا نام ہے۔ یہ شک اور یقین کی دھوپ چھاؤں ہے۔ یہ مشین کی حکومت اور انسان کے بدلتے ہوئے ذہن کی داستان ہے۔ یہ امن کے خوابوں اور جنگ کے بادلوں کی کہانی ہے، یہ اژدہے کے دانت بونے اور خونریزی کی فصل کاٹنے کی بھول بھلیاں ہے۔ ان سب باتوں میں حقیقت کی جھلک ہے مگر یہ ساری حقیقت نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے حقیقت کے راز تک پہنچنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ وہ عالمِ فطرت، حیات اور انسانی شخصیت کے متعلق بہت کچھ علم حاصل کر چکے ہیں مگر یہ علم ابھی مکمل نہیں ہے، ابھی انسان نیم حکیم ہے اور نیم حکیم خطرہ بھی ہوتا ہے۔ موجودہ پیچیدگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے طبیعاتی علوم میں بڑی ترقی کی ہے مگر اجتماعی علوم میں ترقی نہیں کی۔ اجتماعی علوم کی ترقی کے بغیر انسان جو ہری بم تو گرا سکتا ہے، مگر اسے امن انسانی کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ وہ بجلی کیا تھاہ طاقت پیدا کر سکتا ہے، اسے انسانیت کے چراغاں کے لئے کام میں نہیں لا سکتا۔ سائنس ترقی کی طرف مائل کرتی ہے، مگر ادب ترقی کے لئے جذبہ پیدا کرتا ہے اور ترقی کے نصب العین کو ’’نوائے سینہ تاب‘‘ بناتا ہے اس لئے جدید شاعر کا فرض اور بھی اہم ہو جاتا۔ اسی لئے اس کے لئے ضرورت ہے کہ وہ نور و نغمہ کی دنیا کو چھوڑ کر اس سر زمین اور اس کے مسائل سے اپنا رشتہ مضبوط کرے اور یہاں نور و نغمہ کی جنت بنائے۔ ترقی پسند شاعری کا یہی نصب العین ہے اور اس نے پچھلے پندرہ سال میں اس کی طرف اردو ادب کی رہنمائی بھی کی ہے۔

کیا ملّاؔ کو ترقی پسند کہا جا سکتا ہے ؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ ترقی پسندی، سماجی شعور زندگی کی اہم اور زندہ قدروں کے احساس، انسانیت کے پرچار، تہذیب اور علم کی دولت کو عام کرنے، ہر فرد کو آزاد کرنے اور آزاد افراد کا ایک ایسا سماجی نظام قائم کرنے کا نام ہے جو طبقات کی تفریق کو مٹا دے اور ذہنی اور مادی وسائل سے سب کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے۔ ملّانے ’’میری شاعری‘‘، ’’ جادہ امن‘‘ اور دوسری نظموں میں ترقی، آزادی، انسانیت کی جنت کے گیت گائے ہیں۔ ان کی آخری نظم جادہ امن میں، ہندوستان کو امن کی دعوت دی گئی ہے۔ امن کی پکار انسانیت کی روح کی پکار ہے، اس میں ملا ؔ چند خطرات کا ذکر کرتے ہیں ؎

بدل بدل کے رنگ ابھر رہا ہے فتنہ جہاں

فن و ادب کو بھی پنہائی جا رہی ہیں وردیاں

گرج رہی ہیں بدلیاں، کڑک رہی ہیں بجلیاں

اِدھر سیاہ آندھیاں، اُدھر ہیں سرخ آندھیاں

ان آندھیوں کے درمیاں ہی درمیاں بڑھے چلو

علم کیے شہیدِ قوم کا نشاں بڑھے چلو

ملّا یہاں ایک بین بین راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں، ان کی امن پسندی تو مسلّم ہے مگر انھوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جن سرخ آندھیوں کا انھوں نے ذکر کیا ہے وہ در اصل امریکہ کے اعصابی سرمایہ داروں کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ جس ملک نے ابھی پچھلی جنگ عظیم میں اتنے گہرے زخم کھائے ہوں کہ اس کا بچ نکلنا تاریخ عالم کے ایک معجزے سے کم نہ ہو، وہاں کے عوام کسی طرح بھی ایک اور مہلک اور انسانیت سوز جنگ کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔ پچھلی لڑائی میں سب سے زیادہ محفوظ رہا اور آج وہیں سے ’’سرخ آندھیوں ‘‘ کا یہ غبار اُڑایا جا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کے جھگڑوں سے الگ رہنا تو بہت اچھا ہے مگر موجودہ زمانے میں جب ساری دنیا ایک ہو گئی ہے تو یہ ممکن بھی ہے ؟ اس لئے میرے نزدیک تمام مخلص اور دردمند انسانوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جنگ کو ہر حال میں روکنے کی کوشش کریں اور امن پسند قوتوں کو وہ جہاں بھی ہوں مدد پہنچائیں میرا خیال یہ ہے کہ روسؔ ایک امن پسند طاقت ہے وہ جنگ نہیں چاہتا، یہ دوسری بات ہے کہ مصیبت کے وقت حفاظت کے لئے ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے۔

ملّاؔ کی شاعری کا کوئی تذکرہ اس وقت تک مکمل نہ ہو گا جب تک ان کی طویل نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ کا نام نہ لیا جائے۔ اس نظم میں ہمیں محبت کی وہ فضا ملتی ہے جو اس دنیا کی ہوتے ہوئے بھی آسمانوں کی ہمراز ہے۔ اس کا فطری بہاؤ اور ارتقاء، اس کی موزوں و متناسب تصویریں، اس کے نفسیاتی لہجے اور شوخ اشارے، اسے کامیاب محبت کا ایک دلکش ڈراما بنا دیتے ہیں۔ اس نظم کی فضا میں دو کردار ابھرتے ہیں اور دونوں جادو کے کرشمے نہیں اسی دنیا کے انسان ہیں جو مل بیٹھتے ہیں تو دنیا کچھ اور حسین اور گوارا ہو جاتی ہے جو ذہنی پرچھائیاں نہیں گوشت پوست کے انسان ہیں یہ نظم جدید بھی ہے اور لذیذ بھی۔

ملّا ان شاعروں میں سے ہیں جو نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں، ان کے سخن کی دولت نذرِ خوباں بھی ہے اور نذرِ دوراں بھی۔ ان کی غزلوں میں ایک تازگی، تفکر اور جذب و لطافت ملتی ہے۔ اس کا نشہ بعض شعرا کی رندی، زندہ دلی اور رومانیت کے مقابلے میں کچھ مدھم معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت اس کی نرمی، دل آسائی، قوت شفا، بڑی خاصے کی چیز ہے۔ لکھنؤ کے اکثر شعراء کی غزلیں اپنے رچے ہوئے انداز بیاں اور چست و درست زبان کے باوجود پرانی معلوم ہوتی ہیں، ان کی فضا پرانی ہے، ان کی دنیا ہماری آج کل کی دنیا سے خاصی مختلف ہے، ان کی زبان میں انوکھا پن نہیں ہے جو ارسطوؔ کے نزدیک اعلیٰ شاعری میں ضروری ہے جو انوکھے، منفرد یا تازہ احساس سے آتا ہے، پھر یہ غزلیں ایک ایسا کیف و اثر پیدا کرتی ہیں جو الفاظ کا عشق سکھاتا ہے انسانوں کا عشق نہیں۔ فن کو سیکھنے کے لئے لکھنؤ اسکول کی غزلیں سب سے زیادہ مفید ہیں مگر زندگی کو سمجھے کے لیے نہیں، حسرتؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ ، جگرؔ ، فراقؔ کی غزلوں میں تازگی ملتی ہے۔ حسرت کی دنیا ہماری مانوس دنیا کے ایسے حسن کو پیش کرتی ہے جس سے ہم اب تک بے خبر تھے۔ فانیؔ قدیم غزل سے اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی، اپنی یاسیت کے اعتبار سے بالکل مختلف اور منفرد ہیں۔ ایسی بھرپور اور گہری یاسیت بیسویں صدی کے احساسِ شکست سے ہی پیدا ہو سکتی تھی۔ اصغرؔ کا تصوف اگر غالبؔ اور مومنؔ کے تغزل سے رموز نہ لیتا تو اس میں یہ لطافت اور تاثیر نہ آتی، جگرؔ کی سرمستی اور رندی، عشق کو عبادت بناتی ہے اور عشق کی عظمت کی یادگار ہے۔ فراقؔ کی دنیا میں نفسیات کی گہرائیاں ہماری غزل کے لئے نئی ہیں۔ ملّا اس برادری میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ غزل کو بہت سے عاشق ملے مگر ملّا انسانیت کے عاشق ہیں۔ انھیں بشر اپنی ساری پستیوں اور عظمتوں کے ساتھ عزیز ہے۔ ایک معنی میں ملّا بھی رومانی ہیں۔ وہ ایک خواب سے محبت رکھتے ہیں۔ مگر غزل خوابوں کی داستان نہیں تو کیا ہے۔ ملّاؔ کا کمال یہ ہے کہ خوابوں سے اس قدر عشق کے باوجود وہ حقائق کا احساس رکھتے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی فضا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ؎

ملّا یہ اپنا مسلک فن ہے کہ رنگ فکر

کچھ دیں فضائے دہر کو کچھ لیں فضا سے ہم

غزل بڑی کا فر صنف سخن ہے۔ یہ پیمبروں اور مصلحوں کے لئے نہیں، عاشقوں کے لئے ہے اور اس میں اگر آدمی زخم خوردہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ غزل پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سب بجا اور درست مگر کتاب دل کی تفسیر اور خواب جوانی کی تعبیر کی حیثیت سے اس کا جواز ہے اور رہے گا۔ ملا کی جوانی دیوانی تو نہیں، مگر رنگین ضرور ہے، ان کے عشق میں وہ چمک دمک اور سپردگی تو نہیں جو جوشؔ اور جگرؔ کی یاد دلاتی ہے مگر گداز اور تاثیر قدم قدم پر ہے۔ ملّاؔ کا عشق سنبھلا ہوا اور مہذب عشق ہے مگر اس کی صداقت اور دل گدازی میں کلام نہیں۔ ملّا کو بۂ عاشق کی بے باکی نہیں آتی، وہ نگاہوں کی زبان کو سمجھتے ہیں اور اس کے ترجمان بھی ہیں ان کے یہاں نفسیات انسانی کا علم بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا اثر دیر میں ہوتا ہے مگر دیر پا رہتا ہے۔ ملاؔ کی شخصیت کے گرد چونکہ اس قسم کا کوئی ہالہ نہیں ہے جو آج کل بہت سے شاعروں نے رندی یا نعروں سے پیدا کر لیا ہے اور نہ انھوں نے کسی سستے نشے کی دوکان لگائی ہے، وہ چونکہ کسی حلقہ یا برادری سے بھی وابستہ نہیں ہیں، اس لئے عام طور پر لوگوں نے ان سے بے اعتنائی کی ہے۔ حالیؔ کی طرح اگرچہ ان کا مال نایاب ہے مگر گاہک اکثر بے خبر ہیں۔ انھوں نے کسی مشہور لیبل کی آڑ نہیں لی۔ وہ شاعری کی محفل میں کوئی پیترا یا ڈھول لے کر نہیں اترے۔ میں اس بات کو ان کی سلامتی طبع کی بہت بڑی دلیل سمجھتا ہوں۔ ان کی ایک نمائندہ غزل اور چند منتخب اشعار سے میرے اس دعویٰ کی تصدیق ہو جائے گی ؎

بشر کو مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی

دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی

خوشی کی معرفت اور غم کی آگہی نہ ملی

جسے جہاں میں محبت کی زندگی نہ ملی

یہ کہہ کے آخرِ شب شمع ہو گئی خاموش

کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی

لبوں پہ پھیل گئی آ کے موجِ غم اکثر

بچھڑ کے تجھ سے ہنسی کی طرح ہنسی نہ ملی

ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن

فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی

فلک کے تاروں سے کیا دور ہو گی ظلمتِ شب

جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی

ابھی شباب ہے کر لوں خطائیں جی بھر کے

پھر اس مقام پہ عمرِ رواں ملی نہ ملی

وہ قافلے کہ فلک جن کے پاؤں کا تھا غبار

رہِ حیات سے بھٹکے تو گرد بھی نہ ملی

وہ تیرہ بخت حقیقت میں ہے جسے ملاؔ

کسی نگاہ کے سایے کی چاندنی نہ ملی

 

مہر وہ ہے خاک کے ذرّے جو کر دے زرنگار

اونچی اونچی چوٹیوں پر نور برسانے سے کیا

 

سختیِ زیست عشق سے دور نہ ہو سکی مگر

پھول تو کچھ کھلا دئے دامنِ کوہسار میں

 

ساقیا جب مے ہر میکش کی قسمت میں نہیں

سب کو اس محفل میں پیمانے عطا کیوں ہو گئے

 

شبِ غم میں بھی اے تصوّر دوست

زندگی کا مزا دیا تو نے

 

آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یاد گار

گزرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

 

نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو

قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی

 

بس تو یہ بھی نہیں اک پھول قفس میں رکھ لیں

اور نگاہوں میں گلستاں کا گلستاں ہونا

 

مے کشوں نے پی کے توڑے جامِ مے

ہائے وہ ساغر جو رکھے رہ گئے

 

کسی کی زندگی کا رنج ہی حاصل نہ بن جائے

غم اچھا ہے مگر جب تک مزاجِ دل نہ بن جائے

 

ترے دل پہ حق ہے جہاں کا بھی یہ فرارِ عشق روا نہیں

غمِ دوست خوب ہے جب تلک غمِ زندگی کو بھلا نہ دے

 

یہ خزاں بدوش سموم تو ہے گلوں کے ظرف کا امتحاں

وہی گل ہے گل جو فسردہ ہو تو فسردگی بھی بہار دے

 

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

خروشِ بزم میں بھی ساز دل چھیڑے ہی جاتا ہوں

اکیلا ہوں ابھی لیکن مجھی کو کارواں سمجھو

 

کبھی تیغ و قلم سے بھی مٹے ہیں تفرقے دل کے

مٹانا ہیں تو پہلے رکھ کے ساغر درمیاں سمجھو

 

اظہارِ درد دل کا تھا اک نام شاعری

یارانِ بے خبر نے اسے فن بنا دیا

 

خونِ دل ضائع نہ ہو مجھ کو بس اتنی فکر ہے

اپنے کام آیا تو کیا غیروں کے کام آیا تو کیا

 

بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں

یہاں رکی تھی تری چشمِ التفات کبھی

 

وہ کون ہیں جنھیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

 

جمالِ حسن میں تھا اک جلالِ عفت بھی

گناہ گار خیالِ گناہ کر نہ سکے

 

ہاں تم نے اعترافِ محبت نہیں کیا

نیچی کئے ہوئے ہیں نظر کیا حیا سے ہم

اردو شاعری نے ہماری تہذیب و تمدن کو جس طرح نکھارا اور سنوارا ہے اور اس میں جو انسانی اور عالمی قدریں پید اکی ہیں اس کا اعتراف آج کل کی ہیجانی فضا میں مشکل ہے، ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک میں تنگ نظری اور ماضی پرستی کی اتنی گرم بازاری ہے کہ ہندوستان کو امن و اخوت کی ایک جنت بنانے میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی کوششیں اتنی مقبول نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان مساعی کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔ اردو کے افسانہ نگاروں، شاعروں اور نقادوں نے سخت آندھیوں میں تہذیب کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس اجالے میں ملّاؔ کی اپنی روشنی بھی کم نہیں اور اس لئے ان کا یہ فخر بالکل بجا ہے ؎

خزاں کے تند جھونکوں میں بھی خوابِ رنگ و بو دیکھا

جہنم میں بھی جس نے گل کھلائے ہیں وہ جنت ہوں

ملّاؔ کی پاکیزہ اور مہذب شخصیت، ان کی وضعداری اور ہماری تہذیبی روایات کی صحیح آئینہ داری ان کی وطنیّت کا وہ تصور جو بین الاقوامیت کے لئے پہلی اینٹ کا کام دیتا ہے اور آراؔگوں کے نزدیک صحیح بین الاقوامیت ہے ان کا عوام کے دکھ درد کو اپنانا اور تسبیح و زنّار سے بلند ہو کر دیکھنا، ان کا تازہ ہواؤں اور نئی فضاؤں کے لئے دل و دماغ کے دریچوں کو کھلا رکھنا، انسانیت سے یہ شدید، گہرا اور پر جوش عشق، موجودہ دور میں جبکہ زندگی کی سختیوں اور تلخیوں نے اچھے اچھوں کے حواس باختہ کر دئے ہیں ہمارے لئے ایک روشنی کا مینار ہے، ان کے مزاج کی نرمی، ان کے واضح نصب العین اور پختہ شعور کے ساتھ مل کر ہمارے ادب کا ایک نشان راہ بن جاتی ہے۔ ان کے کلام میں ہمیں بیسویں صدی کی زندگی کے سارے موڑ نظر آتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب کے تمام صالح عناصر بھی۔ نیازؔ نے ان کی نظموں میں تغزل کی تعریف کی ہے۔ ان کی نظر ان کی نظموں کے تعمیری حسن، تناسب اور گہرے سماجی شعور پر نہیں گئی۔ غزل کی صف میں جب عشاق کا ذکر آئے گا تو انسانیت کے اس عاشق کو کوئی فراموش نہ کر سکے گا، اور آج جب بعض حلقوں میں اردو کو اس کے دیس میں بدیسی کہا جا رہا ہے ملّاؔ کا یہ شعر ایک خاموش تازیانہ بن کر زندہ رہے گا ؎

لبِ مادر نے ملّا لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

 

(آنند نرائن ملّا کے شعری مجموعے جوئے شیر کا دیباچہ)

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا

 

                ……… مسعود حسین خاں

 

شاعر کے ہاتھ میں شمشیر دے کر اسے ’’مجاہد‘‘ بنا دیتے وقت کوئی بھی اس بارے میں اس کے رد عمل یا جذبات کا لحاظ نہیں رکھتا۔ چنانچہ مجھ سے بھی یہی غلطی ہوتی رہی اور میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی اس تقریر کے حوالے سے جو انھوں نے آزادی ملنے کے فوراً بعد جے پور کی اردو کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا:۔ ’’ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘ ان کا قول بار ہا اپنی تقریر و تحریر میں نقل کرتا رہا۔ ایک بار تو انجمن ترقی اردو کے ایک تہنیتی جلسے میں، جہاں ملّا صاحب موجود تھے، یہاں تک کہہ گیا: ’’ہے اردو والوں میں کوئی اور مائی کا لال جو اس طرح کا دعویٰ کر سکے ؟‘‘

میرے اس مسلسل اصرار پر ملّا صاحب کا رد عمل مجھے حال میں معلوم ہوا جب انھوں نے ایک خط میں لکھا: ’’ میرے مجاہد اردو ہونے کا ذکر تو ہر شخص کرتا ہے لیکن میرے شاعر ہونے کو سب بھول گئے ہیں ‘‘۔ مجھے اس ’’شکایت ہائے رنگین‘‘ سے دھچکا سا لگا۔ یہ نہیں کہ ملّا صاحب کی شاعری کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی سخن وری کا اور ان کے اندازِ بیان کا اعتراف تو بہت پہلے سے ہوتا آیا ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ وہ کسی ادبی تحریک کے کفِ سیلاب بن کر نہیں ابھرے اس لیے دوسروں کی طرح ان کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا! اس کے ثبوت میں میں آج ۱۹۴۱ء کی ایک دستاویز ’’جدید غزل گو‘‘ کی طرف اشارہ کروں گا، جس کے مرتب اور کوئی نہیں، رسالہ ’’نگار‘‘ کے مستند اور بے پناہ نقاد حضرت نیاز فتح پوری ہیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ میں ۱۹۴۰ء کے آس پاس کے ۳۱ زندہ اور معتبر غزل گوؤں کا انتخابِ کلام یکجا کر دیا ہے۔ یہ انتخاب خود انھیں شاعروں کا کیا ہوا ہے جن کو شامل کیا گیا ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کا انتخاب بھی، جو اس وقت ۳۸ برس کے تھے، شامل ہے۔ وہ ایک ایسی بزم کی زینت ہیں جہاں آرزوؔ لکھنوی، ثاقبؔ لکھنوی، جلیل مانک پوری، حسرتؔ موہانی، ساحرؔ دہلوی، سیمابؔ اکبر آبادی، نوحؔ ناروی اور وحشتؔ کلکتوی جیسے جیداساتذۂ سخن براجمان ہیں۔ ۳۱ کی اس فہرست میں صرف احسان دانش اور علی اختر جیسے چند شاعر ان سے جونیر ہیں۔ ہم عصروں میں خاص نام فراق ؔ گورکھپوری کا ہے۔

انتخاب کے افتتاحیہ نوٹ میں ملّا صاحب نے اپنا سنہ پیدائش اکتوبر ۱۹۰۱ء بتایا ہے۔ ان کی باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۷ء میں ایک نظم سے ہوا، اس کے ساتھ غزلیں بھی ہونے لگیں۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، یعنی ۱۹۴۰ء تک بقول ملّا صاحب ’’پچاس ساٹھ نظمیں اور قریب سو (100) غزلیں کہی تھیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ کے لیے سو شعر انھوں نے انھیں سو غزلوں سے انتخاب کیے ہیں۔ ان سو غزلوں کی بدولت وہ غزل کے آسمانِ شعر میں اتنا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ نیازؔ اپنی محفلِ سخن کے لیے انھیں دعوت نامہ بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔

ملّا صاحب کے احباب کا اصرار تھا کہ انھیں شعر گوئی کے لیے زانوئے تلمّذ کسی استاد کے سامنے تہ کرنا چاہیے کہ یہ دبستانِ لکھنؤ کی روایات کے عین مطابق تھا، لیکن ملّا صاحب یہ جواب دے کر گریز کر گئے :

’’شروع شروع میں میرے احباب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کسی کا شاگرد بن جاؤں، لیکن میرے ذوق نے اسے گوارا نہ کیا۔ اول تو یہ کہ شاگردی سے انفرادیت اس قدر مجروح ہوتی ہے کہ وہ پھر جاں بر نہیں ہو سکتی۔ استاد کا رنگ شاگرد کے کلام پر ایک نہ ایک حد تک ضرور حاوی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں مختلف طریقوں سے کیف پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک مخصوص عالم طاری ہوتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا … شاعر کے لیے سب سے پہلے صداقت کی ضرورت ہے اور صداقت دوسرے کے رنگ میں ڈوب کر قائم نہیں رہ سکتی!‘‘۔

یہ اقتباس ملّا صاحب کی غزل گوئی کا جانچنے کا بہت اچھا پیمانہ فراہم کرتا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ملّا صاحب کی ابتدائی (اور بعد کی بھی) شاعری میں اسی صداقت کا اظہار جو ان کے دل میں بہ حیثیت شاعر موجود ہے۔ ان کی شاعری ان کی نجی واردات ہے۔ یہ مانگے تانگے کا اجالا نہیں، (جس کی لکھنؤ میں بہتات تھی) یہ اتنی روایت زدہ بھی نہیں، جس کے لیے دبستانِ لکھنؤ بدنام ہے۔ اس صداقت کے اظہار میں ملا صاحب نے نجی محاورہ استعمال کیا ہے۔ نجی ہوتے ہوئے اس میں دبستانِ لکھنو کی ساری شائستگی اور جلا موجود ہے۔ ان کی زبان میں، شروع سے ذرا بھی جھول نہیں ملتا۔ یہ لکھنو کے کٹرہ بو تراب یا محلہ رانی کٹرہ (ملّا صاحب کا آبائی محلہ) کی منجھی ہوئی زبان ہے۔

ملّا صاحب کی اس دور کی غزل گوئی تمام تر نجی واردات کا عکس ہے، جیسا کہ خود کہا ہے ؎

اظہارِ دردِ دل کا تھا نام شاعری

یارانِ بے خبر نے اسے فن بنا دیا

ملّا صاحب کشمیری الاصل ہوتے ہوئے کئی نسلوں سے لکھنوی تھے۔ لکھنؤ کے رنگ شاعری سے کیوں کر بچ سکتے تھے، انداز زبان کے پینترے ملاحظہ ہوں ؎

مانا مرے جلنے سے نہ آنچ آئے گی تم پر

لیکن مرے جلنے میں شر ر کچھ بھی نہیں کیا؟

 

ارماں کو چھپانے سے مصیبت میں ہے جاں اور

شعلے کو دباتے ہیں تو اٹھتا ہے دھواں اور

 

تم نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر

دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا

 

میری الفت نے انھیں کر تو لیا ہے اپنا

اب فقط شرم کی سینہ سپری باقی رہے

 

ایسے ’’تلازماتی‘‘ اور ’’اشارہ بالکنایہ‘‘ اشعار کے باوجود ملّا صاحب کے یہاں ان کے ذاتی تجربے کی صداقتیں بھی ملتی ہیں ؎

رازِ مئے نوشی ملّا ہوا افشا، ورنہ

کیا وہ بد مست نہ تھا، لغزش پا سے پہلے

 

وہ کون ہیں جنھیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی نہ ملی

 

ہاں دوسرے کا درد ہے پھر دوسرے کا درد

لینے کو اپنے دل پہ اثر ہم ہزار لیں

 

ابھی شباب ہے کر لوں خطائیں جی بھر کے

پھر اِس مقام پہ عمرِ رواں ملے، نہ ملے

 

ہاں یاد ہے کسی کی وہ پہلی نگاہِ لطف

پھر خون کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی

 

ملّاؔ کی جذباتی اور ’’وارداتی‘‘ شاعری میں کہیں کہیں فکر کے چھینٹے بھی مل جاتے ہیں، گو اس دور اور اس صنف کی خصوصیات نہیں کہے جا سکے۔ یہ فکر کبھی سماجی ہے اور کبھی کائناتی ؎

ہر شورشِ حیات سے بد ظن بنا دیا

دنیا کو اہلِ امن نے مدفن بنا دیا

 

تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے

ترے ہاتھوں بہت توہینِ آدم ہوتی جاتی ہے

 

ملّا صاحب کی شخصیت سب سے زیادہ بے نقاب ہوتی ہے، مذہب کی جانب ان کے مخصوص رویے سے۔ ایک کشمیری برہمن زادہ کا ( جو لکھنؤ پہنچ کر مَلّا سے مُلّا بن چکا تھا) یہ اندازِ فکر دنیائے اردو کو سب سے زیادہ چونکا دینے والا انداز ہے ؎

یہ بزم دیر و کعبہ ہے، نہیں کچھ صحنِ مے خانہ

ذرا آواز گونجی اور پہچانی نہیں جاتی

ملّا صاحب کی جس دور کی غزل گوئی سے بحث کی جا رہی ہے (۱۹۳۰ء تا ۱۹۴۰ء) اس کی مدت کل دس گیارہ سال ہے۔ فنی نقطہ نظر سے وہ اپنے سرمایہ اور اس کی تاریخ سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کے یہاں دوسرے شاعروں کی (جونیر اور سینئر دونوں ) زمینوں میں غزلیں ملتی ہیں۔ وہ چاہے جگر کی مشہور غزلوں (پہچانی نہیں جاتی، پشیمانی نہیں جاتی) یا (کم ہوتی جاتی ہے، مدھم ہوتی جاتی ہے ) ہو یا جذبیؔ کی ’’…کون کرے ‘‘ والی ردیف کی غزل ہو۔ اصغر گونڈوی کی زمینوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور فانیؔ کی بھی۔

میرا خیال ہے کس شاعر نے کس سے کیا استفادہ کیا ہے اس کا دل چسپ مطالعہ مشترک اوزان، مشترک قوافی اور مشترک ردائف سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ملّا صاحب ۱۹۴۰ء تک دوسروں کی لیکھ اختیار کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اپنی ڈگر علاحدہ بنا چکے تھے۔ ان کے بعض ذہنی رویے (مثلاً آزادی فکر و خیال) اس دور تک مستحکم ہو چکے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے فن پر چھاپا مارا ہے ان کے منصب اور پیشے نے، جس کا رونا انھوں نے خود بھی کیا ہے۔ اقبال نے اپنے فن پر اپنے پیشے کو قربان کر دیا، ملّا صاحب ایسا نہ کر سکے۔

جو یہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا

 

                ……… سید احتشام حسین

 

پنڈت آنند نرائن ملّا کی شاعری کی عمر تقریباً بیس سال کی ہو گئی لیکن اتنی مدت میں ان کو جو شہرت حاصل ہونا چاہئے تھی وہ حاصل نہیں ہوئی۔ اس بات کی بہت سی وجہیں ہوں گی لیکن سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے خوش فکر اور نغز گو شاعر ہونے کے باوجود باقاعدہ شاعر بننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ غزلیں لکھیں تو دوستوں کے اصرار پر، نظمیں کہیں تو انھیں کبھی کاغذ پر نقل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی، کاغذ پر نقل آ گئی تو ان کی اشاعت کی جانب متوجہ نہ ہوئے پیشہ کی مصروفیتوں نے اس طرح کے مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع نہ دیا کہ مداحوں کا کوئی بڑا گروہ پیدا ہو سکتا۔ ملاؔ کے مزاج میں کسی قسم کا لا ابالی پن نہیں ہے لیکن نہ جانے کیوں وہ شاعری کے معاملہ میں اس مستعدی کا اظہار نہیں کرتے جو مقدمات کی پیروی میں، علمی، ادبی اور سماجی جلسوں کی شرکت میں دوستوں سے ملنے جلنے اور زندگی کی دلچسپیوں میں حصہ لینے میں ظاہر ہوتی ہے۔ شاعری کے معاملے میں اس لاپروائی نے انھیں اچھا خاصا نقصان پہنچایا لیکن اس سے یہ فائدہ ضر رو ہوا کہ انھوں نے کم کہا اور جو کچھ کہا وہ کاملِ غور و فکر کا نتیجہ ہے۔

آنند نرائن ملّا کی عمر چھیالیس ۴۶ سال کی ہے، ان کا کشمیری برہمن خاندانوں سے تعلق ہے جن میں علم و فن کا چرچا رہا کیا ہے اور ابھی کچھ دن پہلے تک وہ لوگ نہ صرف اردو بلکہ فارسی میں بھی شعر گوئی کا کمال دکھایا کرتے تھے خود ملّانے ابتداء میں فارسی کا گہرا مطالعہ کیا، لکھنؤ ہی میں پلے اور بڑھے اور لکھنؤ کی حالت یہ تھی کہ یہاں گلی گلی مشاعرے ہوتے تھے۔ شاعری کے بڑے بڑے استاد تو گنتی کے تھے لیکن مشاعرے میں غزلیں پڑھنے والوں کی تعداد بتانا محال تھا۔ گو جدید نظم نگاری کا رواج ہو چکا تھا اور حالیؔ سے لے کر چکبستؔ تک بہت سے شاعر اردو زبان کا دامن وسیع کر چکے تھے۔ لیکن لکھنؤ کے مشاعروں میں غزلوں ہی کا چرچا تھا انداز بیان، سلاست، زبان کی صحت، محاورہ اور صنعتوں کے استعمال پر زور دیا جاتا تھا۔ یہ تھی لکھنؤ کی ادبی فضا جس میں ملّا کا شعور جوان ہو رہا تھا اور سیاسی حالات یہ تھے کہ قومی زندگی استعماری بندشوں کو توڑتی پھوڑتی آگے بڑھی چلی جا رہی تھی، ہندی نوجوان انفرادی حیثیت سے ایک شاندار مستقبل کا خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تقدیر کو بھی تابناک بنانے کی فکر میں تھے۔ تعلیمی اداروں میں علم کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی شعور بڑھ رہا تھا۔ ترک موالات اور خلافت کی تحریک نے آزادی کا سبق دیا تھا، آزادی کے جذبہ نے ایک ادبی رومانیت کو بھی جنم دیا تھا۔ جس نے غزل کے موضوعات کو نظم کے سانچے میں ڈھالنے کا فن سکھایا۔ سیاسی اور سماجی نظمیں لکھی گئیں اور اقبالؔ کے اثر سے مفکرانہ نظموں کی طرف بھی لوگ متوجہ ہوئے۔ جب ان باتوں کا تذکرہ کسی مخصوص شاعر کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے تو اس کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ شاعر کی انفرادیت اور شخصیت انھیں بنے بنائے سانچوں میں ڈال کر ڈھال دی جاتی ہے اور میکان کی طور پر ہر شاعر بنے بنائے راستوں پر چل کھڑا ہوتا ہے اس سے صرف ان باتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر کی ذہنی تربیت میں ایسے عناصر داخل ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی انفرادیت اور شخصیت کا اظہار کرنے کے لئے انھیں عناصر میں سے واقعات اور خیالات منتخب کرتا ہے۔ مضبوط اور اعلی شخصیت رکھنے والے کے یہاں اس انتخاب میں صرف جذبہ کی نہیں بلکہ عقل اور شعور کی کارفرمائی ہوتی ہے اس طرح وہ جس سماج کی پیداوار ہوتا ہے اس کا ناقد بھی ہوتا ہے اور اسی کو اپنے خیالوں اور خوابوں کے فن اظہار کے لئے بھی کام میں لاتا ہے یوں تو ایک سماجی شعور رکھنے والے شاعر کا تعلق زندگی کی پیچیدگیوں سے ہی ہوتا ہے۔

آنند نرائن ملّا ایسے ہی شاعروں میں سے ہیں جو زندگی کا مطالعہ گہری نظر سے کرتے ہیں جو میکانکی طور پر بنے بنائے راستہ پر نہیں چل کھڑے ہوتے بلکہ اپنے ہی احساسات، جذبات اور تجربات کو فن کے لوازم کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ہر بات سمجھی اور سوچی ہوئی ہوتی ہے ہر خیال فکر کی کسوٹی پر کسا ہوا ہوتا ہے۔ ہر تصور میں خلوص کی گرمی اور احساس کی سچائی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فن کے مطالبات پر بھی ان کی نگاہ ہوتی ہے دونوں باتیں مل کر ملّاؔ کی شاعری کو رنگین اور ٹھوس بناتی ہیں۔

ملّانے غزل کے ایک شعر میں گویا اپنے فنی رجحان اور ذاتی نقطۂ نظر کی ترجمانی کر دی ہے ؎

اظہار درد دل کا تھا ایک نام شاعری

یاران بے خبر نے اسے فن بنا دیا

شاعری میں کتنا حصہ ’’درد دل‘‘ کے وجود سے تعلق رکھتا ہے، کتنا اس کے ’’اظہار‘‘ سے، اور پھر یہ کہ اس درد دل کے اظہار کو ؎

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے

نالہ پابندِ نے نہیں ہے

کی مثال کو پیش نظر رکھنا چاہئے یا کچھ فنی قیود کا پابند ہونا چاہئے ؟ اگر شاعری میں یہ مسئلہ حل ہو جائے اور اس تناسب کا کسی طرح علم ہو جائے جو مواد اور ہیئت کے امتزاج کے لئے ضروری ہے تو پھر شاعری کے جادو کا تجزیہ کرنے میں کوئی دشواری باقی نہ رہ جائے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیوں کہ جب درد دل کا اظہار ’’فن‘‘ بن چکا تو پھر روایتی فنی اسالیب نہ سہی، کسی نہ کسی قسم کے فنی اسلوب پر اسے پورا اترنا چاہئے۔ اس لئے ملّانے بھی مواد پر زیادہ زور دینے کے باوجود فن کی نزاکتوں پر بھی نگاہ رکھی ہے اور یہاں لکھنؤ کی ’’زبان پرستی‘‘ کا ماحول ان کے فنی اسلوب کو چمکانے میں معین ثابت ہوا۔

فن اور اسلوب پر قابو رکھنے اور خیالات کو حسن کارانہ طور پر ترتیب دینے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے ملّا نظم اور غزل دونوں شکلوں میں اپنے جذبات ظاہر کرتے ہیں۔ وہ نہ تو غزل کے مخالف ہیں اور نہ غزل ہی کو ہر طرح کے خیالات کے اظہار کے لئے مناسب سمجھتے ہیں۔ ایک موقعہ پر ملّا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگر کار زار ہستی میں آپ حصہ لینا چاہتے ہیں تو آپ نظم کی تلوار اٹھائیے۔ لیکن اگر آپ انسانی دل کی عمیق گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو شعر مفرد کے نشتر سے کام لینا پڑے گا۔ میرے نزدیک دونوں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ ملّاؔ کا یہ خیال ممکن ہے کسی شاعر کے کلام پر پورا اترتا ہو لیکن عملاً یہ بات ممکن نہیں ہے کہ انسان اپنے شعور کو اس طرح تقسیم کرے کہ ایک خاص قسم کے خیالات مفرد اشعار میں اور خاص قسم کے خیالات مربوط نظموں ہی میں ادا کرے۔ چنانچہ خود ملّاؔ کی شاعری میں حد فاصل قائم نہ رہ سکی اور ان کی غزلوں کا مطالعہ کرنے والے کو ایسے اشعار بے شمار ملتے ہیں جن سے کارزار ہستی میں مدد لی جا سکتی ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی کوشش ضرور کی ہے کہ غزلوں کو اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کے واضح بیان سے گراں بار نہ بنائیں بلکہ ان میں نفسیاتی محرکات اور واردات پیش کریں جن سے انسانی دل کی گہرائیوں تک رسائی حاصل ہو سکتے محبت اور اس کے لوازم جن کی ہمہ گیری اور حقیقت کے وہ معترف ہیں شاعر کے انفرادی دکھ سکھ کے تصور کو اس طرح عام انسانی دکھ سکھ کے تصور میں تبدیل کر دیتے ہیں کہ ان کا بیان بھی ایک پر گداز دل میں محبت کی کسک اور تڑپ کا بیان بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ ملّاؔ کی غزلوں میں ایسے اشعار بھی پائے جاتے ہیں جن میں محبت کے علاوہ زندگی کے دوسرے واقعات کی جھلک بھی پائی جاتی ہے مگر بالعموم انھوں نے غزلوں کو بیان محبت ہی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ ہلکے اور گہرے نفسیاتی اشارے، تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سے غیر مرئی جذبات کی مصوری، محبت کی دبی ہوئی چوٹوں کا ابھار، معمولی تمثیلوں سے زندگی کے زبردست انقلابات کی جانب اشارے۔ ملّاؔ کی غزلوں میں بے شمار پائے جاتے ہیں اور جو چیز ان میں اثر اور کیف پیدا کرتی ہے وہ ان کے تجربہ اور مشاہدے کا خلوص ہے جو حقیقت بنکر پھوٹے نکلتا ہے۔ غزلوں کے کچھ اشعار سنئے :۔ –

بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں

یہاں رکی تھی تری چشم التفات کبھی

 

سختی زیست عشق سے دور نہ ہو سکی مگر

پھول تو کچھ کھلا دئیے دامن کو ہسارؔ میں

 

فسردہ ہوتے ہوئے ڈالیوں پہ پھولوں کی

خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اور خزاں میں نہیں

 

تڑپ شیشے کے ٹکڑے بھی اڑا لیتے ہیں ہیرے کی

محبت کی نظر جلدی سے پہچانی نہیں جاتی

 

مجھے دھوکا نہ دیتی ہوں کہیں ترسی ہوئی آنکھیں

تمہیں ہو سامنے یا پھر وہی تصویر خواب آئی؟

 

صبر آنے کو آ جائے مجھے حسرت دل پر

لیکن یہ تقاضائے جوانی تو نہیں ہے

 

جفا صیاد کی وقف خیال آشیاں کر دی

قفس کی زندگی وقف خیالِ آشیاں کر دی

 

سیر آنکھیں کہاں سے سیر گلشن کے لیے لائیں

نظر جتنی بھی تھی صرف تلاش آشیاں کر دی

 

میکشوں نے پی کے توڑے جامِ مے

ہائے وہ ساغر جو رکھے رہ گئے

 

مہر وہ ہے خاک کے ذرّے جو کر دے زرنگار

اونچی اونچی چوٹیوں پر نور برسانے سے کیا

 

گذری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی

سنتے تھے ہم کہ عشق نہیں رائے گاں کبھی

 

آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یاد گار

گذرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

 

ہاں یاد ہے کسی کی وہ پہلی نگاہِ لطف

پھر خوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی

 

کھنچے آتی ہیں اس ساحل پہ خود دو اجنبی موجیں

محبت ایک جذب بے اماں معلوم ہوتی ہے

 

میرے ہر آنسو میں خوشبو، میرے ہر نالہ میں راگ

اب تو ہر ہر سانس میں شامل تمہیں پاتا ہوں میں

 

اب تمنا بے صدا ہے، اب نگاہیں بے پیام

زندگی اک فرض ہے جیتا چلا جاتا ہوں میں

 

کھڑا ہوں دیر سے گم زیست کے دورا ہے پر

جو کارواں سے چھٹاتا ہے وہ مقام آیا

 

وہ عجب گھڑی تھی نظریں میری تجھ سے جب ملی تھیں

مگر ایک دم کو جیسے کہ ٹھہر گیا زمانا

 

کوئی کہہ رہا ہے جیسے میرے غم کی تیرگی میں

میں بجھا چکا ہوں جن کو وہ دئے نہ پھر جلانا

 

چشم خوں بار میں باقی نہ رہا کوئی اشک

آج بیمار محبت کو ہنسی آئی ہے

 

شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی

آگ جب تن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے

 

ملّاؔ کی غزلوں کے یہ چند اشعار بغیر کسی خاص خیال کے پیش کر دئیے ہیں۔ ان میں روایتی غزل کی آن بان کے ساتھ ساتھ خود شاعر کی ذہنی کیفیت، ذاتی تجربات اور جدید نفسیات کی آمیزش نے ایسا نیا پن پیدا کر دیا ہے جسے دور جدید ہی کی پیداوار کہا جا سکتا ہے۔ ان اشعار میں محض صناعی کا جادو نہیں تخیل کی گرمی اور شدت ہے اور یہی چیز ہے جو اچھی اور بری، مخلصانہ اور پر اثر اور بے اثر شاعری میں مابہ  الامتیاز کی حیثیت رکھتی ہے۔ غزل کی شاعری خیال کی پختگی اور بیان کی ندرت ہی سے فرسودگی سے بچائی جا سکتی ہے اور ملّا ان دونوں خصوصیات کو یکجا کرنے میں اپنی غزلوں میں اکثر کامیاب ہوتے ہیں۔

ملّا ایک اچھے وکیل اور با خبر انسان ہیں ملک کے سماجی اور سیاسی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان کے متعلق خود رائے قائم کر سکتے ہیں۔ انسانی ہمدردی کے جذبہ سے ان کا دل لبریز ہے اور وہ تغیرات جن سے عوام متاثر ہوتے رہتے ہیں انھیں بھی متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف رنگ و بو کے ترانے گاتی ہیں، محبت کی تصویریں کھینچتی ہیں وہاں دوسری طرف ملک کے سیاسی مسائل کو بھی شاعرانہ وجدان کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ کچھ نظمیں وقتی اور ہنگامی موضوعات پر ہیں۔ کچھ مفکرانہ ہیں اور دماغ پر اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ چند عنوانات سے اندازہ ہو سکتا ہے۔ ’’آثار وقت‘‘، ’’مسز حامد علیؔ ‘‘، ’’میری دنیا‘‘، ’’بیسوا‘‘، ’’نوروز‘‘، ’’لیگ سے ‘‘، ’’جواہر لال نہرو‘‘، ’’اقبالؔ سے ‘‘، ’’گاندھی جی‘‘، ’’ڈویاتری‘‘، ’’ترپوری کا مرثیہ‘‘، ’’ٹھنڈی کافی‘‘، ’’لال قلعہ‘‘ وغیرہ۔ ان نظموں کے مطالعہ کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں بعض نظمیں تو واقعہ کا اثر قبول کرتے ہی لکھ دی گئیں ہیں کیونکہ ان میں ابال زیادہ اور گہرائی کم ہوتی ہے۔ یہ کیفیت بالعموم ان نظموں کی ہے جن کو سیاسی کہا جا سکتا ہے۔ وہ نظمیں سوا اس کے کہ محب وطن، قوم پرستی اور آزادی کا تذکرہ کریں کوئی مخصوص نظامِ فکر نہیں پیش کرتیں یہ بحث بہت پرانی ہو چکی کہ شاعر کا کام صرف تاثرات کا بیان کر دینا ہے یا اپنے خیالات کی کوئی ایسی سمت بھی متعین کرنا ہے جس پر غور و فکر کی بنیاد رکھی جا سکے، ملّاؔ کی شاعری کے مطالعہ کے وقت یہ بحث سامنے آتی ہے اور گو ملّاؔ کے خیالات میں ابہام نہیں پایا جاتا۔ لیکن تشنگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ نظمیں صرف ایک بیان واقعہ ہو کر رہ جاتی ہیں جن میں جذبات کی گونج ہوتی ہے لیکن وہ انسانی عنصر نہیں ہوتا جس سے ان کی غزلیں روشن اور تابناک بنتی ہیں۔ ان کے سینہ میں بار بار امید کے سوتے پھوٹتے ہیں لیکن ان میں عوامی انقلاب کی لہریں اٹھتی دکھائی نہیں دیتیں چونکہ میں ان کے خیالات سے واقف ہوں اس لئے مجھے اور زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ جس جمہوریت پسندی اور انسان دوستی کا اظہار ان کے عام خیالات میں ہوتا ہے، جس صبح نو کی جھلک ان کی گفتگو میں دکھائی دیتی ہے۔ جس ترقی کے خواب وہ بحث مباحثہ میں دیکھتے ہیں وہ ان کی نظموں میں ایک سہمی ہوئی کرن سے زیادہ طاقت سے نہیں پھوٹتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’جہاں میں ہوں ‘‘ جیسی نظمیں بہت کم ہیں۔ اس نظم کی گہرائی، سعت بلند نظری اور وفور تمنا کا پتہ دوسری نظموں میں بہت کم چلتا ہے۔ اس کے چند شعر دیکھئے :-

تمنا قید ہمت پابہ جولاں ہے جہاں میں ہوں

مجھے جکڑے ہوئے زنجیر امکاں ہے جہاں میں ہوں

کبھی شاید یہ محفل بھی ستاروں سے چمک اٹھے

ابھی تو اشک بیکس سے چراغاں ہے جہاں میں ہوں

کسی دن تپتے تپتے یہ بھی شاید گرم ہو جائے

ابھی برفاب کا ساخون دہقاں ہے جہاں میں ہوں

افق پر ہوں تو ہوں دھندلے سے کچھ جلوے مسرت کے

ابھی راحت فقط اک خواب ارماں ہے جہاں میں ہوں

نظر میں ہیں تصور کے وہی موہوم نظارے

ابھی انساں حقیقت سے گریزاں ہے جہاں میں ہوں

خدا وہ دن تو لائے سوز بھی اک ساز بن جائے

ابھی ہر ساز میں اک سوز پنہاں ہے جہاں میں ہوں

جن سیاسی نظموں میں فکر کا عنصر شامل ہو گیا ہے ان میں شعریت کے ساتھ وزن اور گہرائی بھی پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر نظم کو خود اس کے عناصر ترکیبی کی روشنی میں دیکھنا چاہئے اس فضا میں جانچنا چاہئے جس میں اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ جس دنیا کی تصویر آپ نے ان اشعار میں دیکھی اس سے بھی واضح تصویر ’’میری دنیا‘‘ میں ملتی ہے :-

اک بار دور گردوں ایسا نظام بھی ہو

جس میں ہر ایک میکش صہبا بہ جام بھی ہو

مظلوم کا کلیجہ تیر و ستم نہ ڈھونڈے

اک آرزوئے باطل فکر سکوں نہ ٹھہرے

الفت فقط مذاقِ اہل جنوں نہ ٹھہرے

انسان غاصبانہ راہوں سے ہٹ چکا ہو

انسانیت کا پودا ٹھٹھرے نہ جس ہوا میں

دل کا بھی سانس لینا ممکن ہو جس فضا میں

ایسی زمین بھی کوئی کیا زیر آسماں ہے ؟

میرے خیال بتلا دنیا مری کہاں ہے ؟

جن نظموں میں زندگی کے ایسے تعمیری پہلوؤں کی ترجمانی کی گئی ہے ان کی تعداد کم ہے۔ پھر بھی یہ بڑے اچھے آثار ہیں کہ ملاؔ آزادی کی صبح قریب دیکھ رہے ہیں۔ قصر سرمایہ داری انھیں متزلزل نظر آ رہا ہے کارواں نوع انسان کی قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور وہ مساوات انسانی کے سپاہی کو بڑھنے اور دنیا پر شہر یاری کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایسی نظموں میں ’’آثار وقت‘‘، ’’لال قلعہ‘‘، ’’جہاں میں ہوں ‘‘، ’’میری ندیا‘‘، ’’کانسٹی ٹوئنٹ اسمبلی‘‘، ’’صبح آزادی‘‘ اور ’’کلکتہ‘‘ اعلیٰ درجہ کی نظمیں ہیں جن میں سے بعض ہنگامی موضوعات سے تعلق رکھنے کے باوجود شاعر کے خلوص اور وجدان سے رنگین، کیف آور اور پر اثر ہو گئی ہے۔

ملّاؔ کی پہلی نظم ’’پرستار حسن‘‘ ہے۔ جو ۱۹۲۷ء میں لکھی گئی، پہلی ہی نظم سے ان کی حقیقت پسند طبیعت اور ذہنی رجحان کا پتا چل جاتا ہے۔ انھوں نے کبھی شاعری کی رو میں حقیقت کے تصور کو مجروح نہیں ہونے دیا یہ اور بات ہے کہ ملّاؔ کا حقیقت کا ادراک ہمارے ادراک سے مختلف ہو۔ وہ نظمیں جن میں انہوں نے معمولی اور غیر معمولی رومانی واقعات کو شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے حقیقت کا بیش بہا مرقع پیش کرتی ہیں۔ طویل اور مربوط نظموں میں سے اقتباس دینا مشکل ہے۔ ورنہ آپ دیکھتے کہ اصلیت کو ملّاؔ کس قدر دلکش انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ ’’تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘، ’’سماج کا شکار‘‘، ’’دوشیزہ کا راز‘‘، ’’ٹھنڈی کافی‘‘، ’’آخری سلام‘‘ میں شعریت اور حقیقت کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے اثر کا تجزیہ مشکل بن جاتا ہے۔ خوبصورت فنی کارناموں کی حیثیت سے ان نظموں کی بناوٹ اور سجاوٹ بھی قابل غور ہے۔

آنند نرائن ملّانے گو کبھی کبھی بندوں کی ساخت میں جدت سے کام لیا ہے لیکن دو تین نظموں کے سوا آزاد نظم نگاری کی طرف توجہ نہیں کی ہے۔ ان نظموں کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شعریت ان کے مزاج میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ ترنم اور رنگینی کا احساس آزاد نظموں میں بھی کم نہیں ہونے پاتا۔ ’’صبح آزادی‘‘ اور ’’گل کر دو قمر کو‘‘ دونوں آزاد نظمیں ہیں اور دونوں کامیاب ہیں۔ خاص طور سے آخر الذکر تو پڑھتے وقت پابند نظموں سے زیادہ مترنم اور کیف انگیز نظر آتی ہے۔

ایک مختصر سے مضمون میں ملّاؔ کی نظموں کی واقعی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہر نظم کی مکمل تشریح ہی اس کی معنوی اور لفظی خوبیوں کو ظاہر کر سکتی ہے اور وہ اس مضمون میں ممکن نہیں افسوس ہے کہ ملا ؔ کو اب تک اپنی نظمیں مرتب کر کے شائع کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن وہ موقع جلد آنا چاہئے۔ ایک جگہ پر ملّا خود لکھتے ہیں۔ ’’کبھی شعر کہنے کی نیت سے بیٹھ کر آج تک شعر نہیں کہا۔ جو کچھ کہا ہے وہ چلتے پھر تے اٹھتے بیٹھتے کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی لکھ کر کچھ نہیں کہا۔ بڑی سے بڑی نظمیں اولین مصرعہ سے لے کر دماغ ہی میں نظم ہوئیں۔ پہلے خاکے سے لے کر آخری خاکے تک یہیں ان کی اصلاح اور ترقی ہوتی رہی ہے اور مکمل ہو جانے کے بعد بھی دماغ ہی میں محفوظ رہیں پیشہ کی مصروفیت کی وجہ سے کوئی وقت فکر سخن کے لئے نہیں ملتا ‘‘

ان موانع کے باوجود ملّاؔ کی شاعری بڑی جاندار اور پرکیف ہے وہ کسی مخصوص فلسفہ خیال کی اشاعت کے مدعی نہیں، وہ کسی خاص مکتب خیال سے رسمی یا روایتی طور پر وابستہ نہیں، وہ اپنے دردِ دل کا اظہار فنی خصوصیات کو مد نظر رکھ کر کر سکتے ہیں۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو ایک فن کار کی سچائی کے ساتھ ایک شاعر کے خلوص کے ساتھ، انسانی ہمدردی کے جذبات کے ساتھ ایک نئی زندگی کی امید کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔ یہی ایک ان کے فن کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’اک الگ ہٹ کے نشانِ کفِ پا‘‘

 

                ……… گوپی چند نارنگ

 

آنند نرائن ملّا ہمارے عہد کے ان فنکاروں میں سے ہیں جن کا ذہن و شعور فکر کے روایتی اور رسمی سانچوں سے بے نیاز ہو کر سوچ سکتا ہے اور جن کی نظر حقائق کو اس طرح سے دیکھنے پر قانع نہیں جس طرح سے دوسرے انھیں قبول کرتے ہیں۔ اردو میں تنقید چوں کہ طرف داریوں سے بلند ہو کر سخن فہمی کا حق کم ہی ادا کر پاتی ہے، اس لیے کم لوگوں کو احساس ہے کہ ملّانے اپنے عہد کے بہت سے مسلمات سے گریز کیا ہے، شعری کردار کے بارے میں بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور شاعری میں اپنی راہ الگ بنائی ہے۔ ان کی شاعری پچاس برس سے بھی زیادہ مدت پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی طاقت حقائق کو اپنی نظر سے دیکھنے اور پرکھنے والا ذہن ہے۔ یہ بات کہ ’’میں نے ہمیشہ ہر سوال زندگی کا حل خود سوچا ہے … میرے اشعار ہوں یا فیصلے، میری تقریر ہو یا تحریر، میں نے ان سب پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دی ہے۔ میرا انداز بیان میرا ہے، میری فکر میری ہے۔ ‘‘ وہی کہہ سکتا ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اپنے ذہن سے سوچنے کا عادی رہا ہو۔ ملا کے نزدیک اس دور کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ’’ہم اپنے ذہن دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں ‘‘ اور جس نظریے کی اشاعت و تبلیغ بہتر ہوتی ہے اور جس راہ پر دوسروں کو چلتا دیکھتے ہیں، سرجھکا کر بغیر سمجھے سب اسی پر چلنے لگ جاتے ہیں۔ یہ فکری صلاحیت ہی ملا کو اسی قدر کی طرف لے گئی جسے نظام اقدار میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، یعنی انسانی ہمدردی یا انسانیت کا درد۔ اس درد کو ملانے ایک عقیدے اور ایمان کی شکل دی ہے اور اسے ایسی تخلیقی مرکزیت اور محویت کے ساتھ پیش کیا ہے، نظم میں بھی اور غزل میں بھی، کہ ان کی پوری شاعری آفاقی محبت کے جذبے سے جگمگا اٹھی ہے۔

غزل کو ملّا محدود معنی میں نہیں لیتے، ان کا شعری وجدان ذاتی واردات اور پیکار حیات دونوں سے متاثرہوتا ہے اور اپنے تخلیقی اظہار کا تار پو د دونوں کی ملی جلی کیفیات سے تیار کرتا ہے۔ ان کے یہاں ’’شبستان سے میدان تک‘‘کا احساس بیک وقت ملتا ہے اور درد انسانیت کی سماجی حوالگی کی بدولت انھوں نے غزل کو نظم کا قد دینے کی کوشش بھی کی ہے۔

دیا دردِ انساں کا احساس تجھ کو

کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو

یہ بات عجیب معلوم ہو گی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملّاؔ کے تصور انسانیت کا سر چشمہ کوئی ایک مذہب یا اخلاقی ضابطہ یا فلسفہ یا سیاسی و معاشی نظریہ نہیں ہے۔ ان کی فکر ان سب سے اپنی ذہنی غذا ضرور حاصل کرتی ہے، لیکن وہ اپنے نظام اقدار کو اپنی بصیرت ہی کی مدد سے مربوط کر کے ایک وجدانی شکل دیتے ہیں۔ ان کا تصور انسانیت در اصل ایک فنکار کا تخلیقی تصور ہے جس کے نزدیک زندگی ایک جہد مسلسل ہے اور انسان صرف انسان ہی کی میزان نہیں، بلکہ شام و سحر کی گردش، کائنات کی نمو پذیری اور تہذیب کا عمل سب انسان کی صلاح و فلاح سے عبارت ہیں اور حیات انسانی کے مستقبل کا انحصار اسی پر ہے کہ ’’اس کرۂ خاک پر ایک ایسا نظام رائج ہو جس میں انسان آزادی، شادمانی اور امن کے ساتھ اپنی پسند کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کر سکے۔ ‘‘گویا انسان کا مقدر ہے کہ وہ اپنے خارجی اور باطنی مطالبات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہے۔ ملّانے بار بار اس کا اظہار کیا ہے کہ وہ مٹی کے فرشتے سے ابھی مایوس نہیں ہیں۔

وادی نور بنے گی یہی شعلوں کی زمیں

ابھی مٹی کے فرشتے سے میں مایوس نہیں

 

خستگی و تشنگی و رہزن و ریگ و سراب

کتنی صدیاں ہو گئیں انسان چلتا جائے ہے

 

ہر انقلاب کی سرخی انھیں کے افسانے

حیاتِ دہر کا حاصل ہیں چند دیوانے

 

زیست ہے صدیوں کے نقاشوں کا شہہ کار عظیم

اپنی اپنی جا ہر اک کچھ رنگ بھرتا جائے ہے

 

بجھی بجھی سی فضا ہے دلوں کے اشک جلاؤ

نظر سے برف جو پگھلے تو دل کی بات چلے

 

بنی نوع انساں سے بے پناہ محبت ملّاؔ کے شعری مزاج کا بنیادی عنصر ہے۔ ان کے پورے کلام میں اس کی جیسی گونج سنائی دیتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اختیاری تصور نہیں بلکہ فطری جذبہ ہے جو اپنے اظہار کے لیے بے تاب و بے قرار رہتا ہے۔ انسان اور انسان میں فرق انسانیت کی توہین ہے۔ معمولی انسان کا درد ہی انسانیت کا سچا درد ہے۔ حالیؔ نے عشقیہ شاعری کے ضمن میں کہا تھا: عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں اسی طرح انسان دوستی کے ضمن میں ملّانے اپنے شعری کردار سے ثابت کر دیا ہے کہ انسان دوستی اور انسانی مساوات کا تصور بھی ’’کچھ کسی کی ذات نہیں۔ ‘‘ ملّا ہر طرح کے ذہنی تحفظات اور تعینات سے ہٹ کر جس طرح دل انسان کی ’’تاب نبرد‘‘ پر زور دیتے ہیں، ’’طاقت کی دہائی‘‘ پر ’’انسان کی اکائی‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں، مساوات اور انسانی برابری کا علم بلند کرتے ہوئے سماجی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اس نے ان کی شاعری کو ایک خاص انسانی کردار عطا کیا ہے۔

وہ لو ہی کیا بلندیوں ہی کو جو فقط زرنگار کر دے

جمال خورشید کی حقیقت شعاع ذرہ نواز میں ہے

 

نظام میکدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے

ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا

 

فلک کے نہ ان ماہ پاروں کو دیکھو

جو مٹی میں ہیں ان ستاروں کو دیکھو

چمن میں یہ کس چال سے چل رہے ہو

نہ پھولوں کو دیکھو نہ خاروں کو دیکھو

ذرا جھانک کر غرفہ میکدہ سے

ترستے لبوں کی قطاروں کو دیکھو

ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظام چمن

فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی

ایک جنگ پر آمادہ دنیا یہ راز نہ کب تک سمجھے گی

طاقت کی دہائی فانی ہے انسان کی اکائی باقی ہے

گردوں کے ستارے بجھنے دو دنیا سے کہو ماتم نہ کرے

ذروں سے شعاعیں پھوٹیں گی مٹی کی خدائی باقی ہے

زیست بدلا ہی کی محاذ نبرد

وہی انسان وہی حیات کا درد

کوئی جبر آج تک نہ چھین سکا

دل انساں سے اس کی تاب نبرد

ملّاؔ کے نزدیک زندگی فقط فرد کی آسودگی اور لذت پرستی سے عبارت نہیں۔ مشترکہ انسانی مفاد کو بہر صورت ذاتی مفاد پر ترجیح حاصل ہے۔ اس لیے فنکار کا منصب یہ ہے کہ وہ ذات سے آگے بڑھے اور دانائے راز اور پیمبری کا حق ادا کرے۔ اس عقیدے کا لازمی نتیجہ زیست کے اثبات، عمل و اختیار اور جہد مسلسل کی تلقین ہے، اور یہ تلقین ایسی رجائیت کو راہ دیتی ہے جو اس روایتی رجائیت سے ملتی جلتی ہے جس کا پچھلے چند دہوں میں ہمارے ادب میں خاصا رواج رہا ہے۔ یوں تو رجائیت مستحسن ہے، لیکن ایسی رجائیت جو صرف جذباتیت سے مملو ہو، حقیقت کے صرف ایک رخ یا پہلو کو دیکھتی ہو اور زندگی کی سنگینی کو نظر انداز کر دیتی ہو، ایک ایسی عینیت اور رومانیت کی راہیں ہموار کرتی ہے جو حقائق سے فرار کا دوسرا نام ہے۔ لیکن ملّاؔ کی رجائیت اور روایتی رجائیت میں فرق ہے۔ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ان کا تصور انسانیت محض خارجی عقیدہ نہیں بلکہ ایک فنکار کا تخلیقی تصور ہے جس میں زندگی کی بہتر تشکیل بنی نوع انسان سے محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ ملّاؔ کا ذہن سچائی سے وابستگی محسوس کرتا ہے، فارمولے سے نہیں۔ ان کی انسان دوستی کا منبع اور سر چشمہ خود ان کی اپنی فنکارانہ بصیرت ہے۔ وہ ’’سیاسی نظریات ‘‘ اور ’’انسانی نظریات‘‘ میں بجا طور پر فرق کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ان کا یہ دعویٰ اس عہد کا اہم فنکارانہ دعویٰ ہے کہ انسان دوستی کے واضح نقطۂ نظر کا ہونا یا نہ ہونا اس بات پر منحصر نہیں کہ کوئی کسی خارجی فلسفے پر ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ ملّاؔ کسی بھی قسم کے نظریاتی اصرار کو ایسی تنگ دلی اور کم نظری سے تعبیر کرتے ہیں جو بنیادی طور پر تخلیقی جذبے کی تڑپ اور بے قراری کی دشمن ہے۔ وہ گاندھی اور نہرو کی اس دانشورانہ روایت کے امین ہیں جو روشن خیال، ذہنی کشادگی اور نظر کی وسعت سے عبارت ہے اور جس کا فکری مرکز ثقل خود اس کے اپنے پیروں تلے اپنی دھرتی میں ہے۔ یہ روایت وہ ہے جو صداقت کی صرف ایک تعبیر کو کل صداقت نہیں مانتی، یا جو ایک ہی راستے کو دوسرے تمام راستوں کی نفی کا حق نہیں دیتی یا جو سچ کی اپنی کشش میں یقین رکھتی ہے اور اس کی حیثیت کو منوانے کے لیے غیر اخلاقی ذرائع اختیار کرنے کو سچ کی نفی جانتی ہے۔ سچ کے بھی کئی روپ، کئی رخ اور کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ ملا نے ایک جگہ صاف لکھا ہے۔

’’میری نظر میں زندگی ایک دریا ہے جس کے نہ آغاز کا پتہ ہے نہ انجام کا۔ نوع انسان اس دریا کے دونوں کناروں پر نسلاً بعد نسل بیٹھی چلی جا رہی ہے اور یہ دریا آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دریا اور دریا کے کناروں کی تصویر ہر آنکھ میں مختلف طور پر ابھرتی ہے کیوں کہ دیکھنے والے کو تو صرف وہی نظر آتا ہے جو اپنے مقام سے دیکھ سکتا ہے۔ صرف کچھ نظریں اتنی بینا ہوتی ہیں جو بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں لیکن وہ بھی دریا کی مکمل تصویر نہیں دیکھ پاتیں۔ نظریاتی اختلاف کی بنیاد یہی وجہ ہے۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ حقیقت سے صرف وہی آشنا ہے لیکن ہر ایک کی حقیقت الگ الگ ہے اور وہ بھی پوری حقیقت کا بہت چھوٹا سا جزو۔ زندگی ہم سب سے ہر لمحہ ٹکرا رہی ہے لیکن ہمارے خیالات اور نظریات کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس ذہنی سطح پر یہ ٹکر لیتے ہیں۔ ‘‘

ملّا کے یہاں شاعری یا طریق فکر کا گہرا تعلق ضمیر کی آواز سے ہے۔ انھوں نے اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کی کہ ان کی راہ عمل کے بارے میں دوسروں کی رائے کیا ہو گی۔

ان کے قومی خیالات کو بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ قومی سطح پر سوچتے ہوئے بھی انھوں نے ہمیشہ وہی کہا جو ان کے جی کو لگا۔ ان کی غزل اس اعتبار سے دل چسپی کا بہت سامان رکھتی ہے کہ پچھلی تقریباً نصف صدی میں ہندوستان کے قومی، سیاسی اور سماجی منظر نامے کے بارے میں ایک آزاد خیال قومی شاعر نے کیا کچھ محسوس کیا اور کس کس طرح اس کا اظہار کیا۔ یہ بات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ وہ صنف سخن جسے ملا نے ’’اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر‘‘ کہا ہے، اس کے مشرب اور تہذیب کا احترام کرتے ہوئے انھوں نے غزل میں کیا وہ سب کچھ نہیں کہا جس کے لیے دوسرے شعراء نظم کا قالب اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ غزل کو نظم کے ہم دوش کرنے میں اشارہ اس بات کی طرف بھی تھا، تاہم اس وقت ذکر پیرایۂ بیان کا نہیں، اس جرأت و بے باکی اور انصاف پسندی و حق گوئی کا ہے جس سے ملا ہمیشہ اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ سیاسی اور سماجی حقائق کی طرف اشارے تو اس دور کے نئے پرانے تقریباً سبھی غزل لکھنے والوں کے یہاں مل جائیں گے لیکن ذہنی رویّے کی یہ استقامت اور رائے کی یہ اصابت کسی دوسری جگہ، کیا باعتبار کیفیت اور کیا باعتبار کمیّت، مشکل ہی سے ملے گی۔ ذیل کے اشعار میں جو تصویریں ابھرتی ہیں وہ درد انسانیت کے جذبے سے مربوط ہیں جو ملا کی شاعری کا بنیادی محرک ہے۔ یہ تصویریں صرف انھیں اشعار سے مخصوص نہیں بلکہ ان سے ملتی جلتی تصویریں ملّاؔ کی غزلوں کے تقریباً ہر صفحے پر مل جائیں گی۔ ان میں گل، گلشن، گلستان، برق و شبنم، باد و باراں، ہنگام بہاراں، چمن، چمن پرست، دور گل، فصل گل، جام و سبو، داروسن اور ان کے لفظی معنوی انسلاکات کی سماجی معنویت اردو میں نئی نہیں۔ ملا نے انھیں آج سے نصف صدی پہلے اسی وقت اپنایا ہو گا جب غزل اپنے اصلاحی سفر کے بعد ایک نیا موڑ لے رہی تھی اور اس میں ایک نئی سماجی اور قومی جہت کا اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن ملّا میں اور اس دور کے اکثر شعرا میں فرق بس یہی ہے کہ جہاں دوسروں نے بنے بنائے فکری سانچوں سے کام لیا ہے، ملّاؔ کے اشعار کی معنویت ایک آزاد، شخصی و قومی نظر کا فیضان ہے۔

الگ الگ سے افق پر ہیں چھوٹے چھوٹے غبار

یہ کارواں کو میرے کیا ہوا خدا جانے

 

انتظار فصل گل میں کھو چکے آنکھوں کا نور

اور بہار باغ لیتی ہی نہیں آنے کا نام

 

میں نالہ بہ لب اجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں

دیکھی نہیں جاتی ہے گلستان کی تباہی

 

چمن کو برق و باراں سے خطر اتنا نہیں ملاؔ

قیامت ہے وہ شعلہ جو نشیمن زاد ہوتا ہے

 

ہے یہی رسم اس چمن کی ہر نیا بادل یہاں

بن کے نیساں آئے ہے اور آگ برسا جائے ہے

 

نہ اتفاق عمل ہے نہ ایک سمت قدم

ابھی تو بھیڑ ہے یہ اس کو کارواں نہ کہو

 

نعرہ گرم انقلاب میں نے بھی ہاں سنا تو ہے

جام و سبو کے آس پاس داروسن سے دور دور

 

برق و شبنم، بادو باراں، خار گل سب آئے کام

رفتہ رفتہ اک مزاجِ گلستاں بنتا گیا

 

اس گلستاں کی خیر ہو یارب

کیاری کیاری کا ہے الگ پرچم

میکدے کے خلاف ہیں دونوں

زندہ باد اتحاد دیر و حرم

 

جفا صیّاد کی اہل وفا نے رائگاں کر دی

قفس کی زندگی وقف خیال آشیاں کر دی

 

کالے پرے افق پہ نمایاں ہوئے تو ہیں

کچھ آمد بہار کے عنواں ہوئے تو ہیں

 

ملّاؔ کے یہاں سماجی صورت حال اور وطن کا درد اتنا شدید ہے کہ اکثر غزلوں میں کئی کئی اشعار میں مسلسل یہی کیفیت ملتی ہے۔

وہ دور گل رہا نہ رہی وہ ہوائے گل

کانٹوں کی انگلیوں میں ہیں بند قبائے گل

میں بھی چمن پرست ہوں میں بھی فدائے گل

لیکن کسی روش پہ نظر بھی تو آئے گل

 

دو دن کی زندگی میں بھی نشتر ہر ایک سانس

کن کن جراحتوں کو تبسم بنائے گل

 

گلچیں ہے پر فریب عمل اور قول اور

نعرہ بنام سبزہ وسجدہ بہ پائے گل

 

تنظیم چمن کے عزم وہ سب، وہ قول وہ پیماں بھول گئے

جو قبل بہاراں لب پر تھے، ہنگام بہاراں بھول گئے

ہر سووہ ہر اس و دہشت ہے اپنوں کو بھی انساں بھول گئے

دل رسم محبت بھول گئے، شاعر غم جاناں بھول گئے

پھولوں میں نہیں وہ خندہ لبی، نکہت نفسی، شبنم دہنی

وہ دور سموم و برق آیا، تہذیب گلستاں بھول گئے

زخمی کی جاں کی فکر نہیں، اور جامہ دری پر حشر بپا

یہ چاک گریباں پر نالاں، چاک دل انساں بھول گئے

 

خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے

طوفان سے کشتی کھے لائے ساحل پہ لڑائی باقی ہے

پیروں کی کٹی بیڑی جس دم قیدی سمجھا آزاد ہوا

یہ بھول گیا گردن میں ابھی زنجیر طلائی باقی ہے

رہرو دونوں خطرہ سے اگر بچ نکلا منزل پائے گا

اب راہزنی تو ختم ہوئی ہاں راہ نمائی باقی ہے

ملّاؔ کا حساس و فعال ذہن صرف ہندوستانی صورت حال ہی کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بناتا، بلکہ آفاقی محبت کا عالمگیر جذبہ انھیں عالمی صورت حال پر غور کرنے کے لیے بھی مجبور کرتا ہے۔ ایک خطے کے انسان کے مسائل دوسرے خطے کے مسائل سے مختلف سہی، لیکن درد سب کا ایک ہی ہے یعنی محرومی، بے انصافی، حق تلفی اور ظلم خواہ کہیں ہو، اس سے پوری انسانیت مجروح ہوتی ہے۔ ذیل کے اشعار میں ہمارے عہد کی عالمی صورت حال کے بارے میں جو اشارے ملتے ہیں، گہری معنویت کے حامل ہیں۔

وہ نبض کی رفتار کہ چھٹتے ہیں پسینے

لگتے نہیں دنیا ترے جینے کے قرینے

 

روشنی کا لے کر نام لڑ رہے ہیں آپس میں

اس طرف بھی کچھ سائے اس طرف بھی کچھ سائے

 

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

توانا کو بہانہ چاہیے شاید تشدّد کا

پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتہام آیا

 

ستم اکثر بہ عنوان کرم ایجاد ہوتا ہے

چمن میں باغباں کے بھیس میں صیاد ہوتا ہے

 

دور ظلمت تو ہے، دیے لیکن

جل رہے ہیں کہیں کہیں پہ ابھی

رنگِ طوفاں سے میں نہیں مایوس

ہے یقین موج تہہ نشیں پہ ابھی

 

قرنوں، صدیوں میں انسان نے جینے کے سلیقے کچھ سیکھے

جینے کے سلیقے جب آئے جینے کے ارادے چھوڑ دیے

ملّاؔ کی فنکارانہ رجائیت کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ان کے نزدیک ادب میں حقیقت نگاری صرف زندگی کی ترجمانی ہی نہیں بلکہ زندگی کے رازوں کو بے نقاب کرنا بھی ہے۔ زندگی میں دو پہلو ہیں، تاریک اور روشن۔ جو لوگ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں ملا کو ان سے شکایت ہے۔ لیکن خود ان کے یہاں انسان کی عظمت، ارادے و اختیار، جہد مسلسل اور مستقبل پر ایقان کا جیسا ذکر ملتا ہے، بادی النظر میں اس سے شبہہ ہو سکتا ہے کہ کہیں ان کی حقیقت نگاری تصویر کا ایک رخ یعنی روشن رخ دیکھنے سے تو عبارت نہیں ہے۔ زندگی حق و باطل اور معلوم و معدوم کے درمیان ایک کشمکش سے عبارت ہے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ملّاؔ کے یہاں ازلی کشمکش کی پرچھائیاں بھی ملتی ہیں۔ اس عہد کو صنعتی تہذیب نے جس خلفشار سے دوچار کر دیا ہے، ملّا اس سے بے خبر نہیں۔ جنون و خرد یا عشق و عقل کی آویزش وپیکار اور عشق یا جنوں کا ترجیحی مرتبہ تو اردو غزل کی روایت کا حصہ ہے۔ ملا اس جنوں میں جو ’’نراج‘‘ کی طرف لے جاتا ہے اور اس جنوں میں جو ’’مشترکہ انسانی مفاد‘‘ کے آگے اپنا ذاتی مفاد نہیں دیکھتا اور آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتا ہے، فرق کرتے ہیں۔ ملّا جب ’’مشعل ایماں ‘‘ سے ’’آگہی کے نہ ملے ‘‘ یا ’’قافلوں کے بھٹکنے ‘‘ یا ’’گردۂ شکستہ پا‘‘ کے پیش نظر ’’روایتی رہنماؤں سے انحراف کرنے ‘‘ یا ’’نیکی اور بدی کے خانوں کی لکیر کے مٹنے ‘‘ یا دنیا میں ’’نقابوں کا میلہ‘‘ لگنے کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا ذہن نئی نسل کے اس ہمہ پہلو شعور حقیقت سے قریب دکھائی دیتا ہے جو حقیقت کی تمام پرتوں اور رنگوں کو نظر میں رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ ملّامٹی کے فرشتے سے کتنے بھی پر امید ہوں، لیکن انھیں اس کا بھی اقرار ہے کہ ’’انسان فرشتہ بھی ہے اور شیطان بھی۔ ‘‘ اور ’’دانش کی تباہی‘‘ سے بچ نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ باطن سے یعنی ’’دل کے سوز و گداز‘‘ سے ہم کلامی کا سلسلہ منقطع نہ ہو۔ نئے ذہن کے لیے یہ شعور حقیقت کہیں زیادہ قابل قبول ہے جس میں سیاہ و سفید کے خانے واضح طور پر الگ الگ مرتب نہیں ہوتے۔ ملا کے یہاں اس کا احساس پایا جاتا ہے۔ ارادے و اختیار میں ان کے رجائی یقین کو اگر ذیل کے اشعار سے مربوط کر کے دیکھا جائے تو علم و آگہی کی کم مائے گی، زندگی کی کشمکش اور جسم اور روح کے متضاد تقاضوں کے عرفان سے مرتب ہونے والے شعور حقیقت کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ کہیں زیادہ سچی اور قابل قبول معلوم ہوتی ہے۔

یہ نیک بھی ہے بد بھی، شیطاں بھی فرشتہ بھی

انسان کو کیا کہیے ہر سطح پہ انساں ہے

 

نیکی و بدی کے خانوں کی ہر روز لکیریں مٹتی ہیں

زندہ دنیا کی نظروں کے میزان بدلتے جاتے ہیں

 

اللہ ری علم کی حشر گامی

شب تک گماں صبح کا ہر عقیدہ

بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی

دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی

 

بیماری انساں کم نہ ہوئی جتنے بھی طبیب آئے اب تک

یا جسم انساں بھول گئے یا روح انساں بھول گئے

 

اک رخ ہے وجود اک رخ ہے عدم، عمر گزراں کا ہر لمحہ

اس مٹتی بنتی دنیا کا آغاز بھی ہے انجام بھی ہے

 

دنیا ہے نقابوں کا میلہ نقلی چہرے جھوٹی باتیں

اوڑھے ہے ردائے شبنم جو اکثر وہ شر ر اندام بھی ہے

اتنا مہیب لہجۂ انساں ہے ان دنوں

سہمے سے جا رہے ہیں خود اپنی صدا سے ہم

 

پیش نظر ہے ایک گروہِ شکستہ پا

پوچھیں گے راہ اب نہ کسی رہ نما سے ہم

 

رہروی ہے نہ رہ نمائی ہے

آج دور شکستہ پائی ہے

ہے افق در افق رہ ہستی

ہر رسائی میں نارسائی ہے

ہو گئی گم کہاں سحر اپنی

رات جا کر بھی رات آئی ہے

 

کنجیاں جیسے کھو گئی ہوں کہیں

دل نہیں آج بند تالے میں

 

آزاد جہاں میں کوئی نہیں، سب قیدی ہیں بس فرق یہ ہے

کس نے کتنے اس زنداں کی دیوار میں روزن پھوڑ دیے

 

وہ شب زیست آئی ہے جس میں

خواب بن کر کوئی سحر بھی نہیں

 

دانش کی تباہی سے ممکن ہے کہ بچ نکلے

پہلو میں ترے دنیا جب تک دل ناداں ہے

 

دانش کی تباہی کے دور میں دل ناداں پر اصرار گہری سماجی معنویت رکھتا ہے۔ ملا در اصل خارجی اور باطنی تقاضوں اور اجتماعیت اور انفرادیت میں ہم آہنگی کے قائل ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی و قومی جہت یعنی پیکار حیات کے ساتھ ساتھ ذاتی واردات کی شخصی جہت بھی اتنی ہی متاثر کن ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے تخلص کی رمزیت سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور عاشقی و رسوائی کے لطیف احساس کی ایک تازہ لہر پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کا ذہن عاشقانہ جذبات کو ایک بالیدہ سطح پر پیش کرتا ہے جس میں ربط و تعلق کی ہلکی میٹھی دھوپ چھاؤں اور نفسیاتی اسرار کی گرہ کشائی کی کوشش ملتی ہے۔ ان چند اشعار سے اندازہ ہو گا کہ دشت واردات کی بادیہ پیمائی میں بھی ملّاؔ کسی سے پیچھے نہیں۔

بڑھ گیا دو دلوں میں شاید ربط

گفتگو ہوتی جاتی ہے کم کم

بے حرف و بے صوت پیغام الفت

سینہ بہ سینہ دیدہ بہ دیدہ

 

دل جیے ایسی نظر ہی کے سہارے کب تک

جو توجہ بھی نہیں اور تغافل بھی نہیں

کھنچ آتی ہیں اُسی ساحل پہ خود دو اجنبی موجیں

محبت ایک جذب بے اماں معلوم ہوتی ہے

اس نظر پہ پلکوں کے چھا رہے ہیں یوں سائے

جھنڈ میں درختوں کے جیسے دھوپ کھو جائے

یہ غم بھی نہیں راحت بھی نہیں، آخر اس کا کچھ نام بھی ہے

اک میٹھی دل میں خلش جو صبح بھی ہے شام بھی ہے

 

یہ دل کیا ہے کسی کو امتحانِ ظرف لینا تھا

تن خاکی میں اک چھوٹی سی چنگاری نہاں کر دی

جھجک اظہار ارماں کی بہ آسانی نہیں جاتی

خود اپنے شوق کی دل سے پشیمانی نہیں جاتی

ملّاؔ کی ایک حیثیت اردو کے مجاہد کی بھی ہے۔ اردو ان کے نزدیک صرف وسیلۂ اظہار یا زبان ہی نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کی جمالیاتی روح کی تڑپ اور اس کی ممزوج ثقافت کی مظہر بھی ہے۔ پچھلے دو دہوں میں اردو تحریک اور ملا دو الگ الگ نام نہیں رہے۔ جس جرأت، بیبا کی اور دلیل کی مضبوطی سے ملا اردو کے مقدمے کو پیش کرتے رہے ہیں انھیں کا حصہ ہے۔ یہ بات کہ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اردو کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘ ہر شخص کہہ سکتا۔ ملا کی غزل چوں کہ ان کے عقائد میں پیوست ہے، اردو سے یہ قلبی لگاؤ غزل کے پردے سے کہیں جھانکنے لگتا ہے۔

لب مادر نے ملّا لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

بزم ادب ہند کے ہر گل میں ہے خوشبو

ملّا گل اردو کی مہک اور ہی کچھ ہے

ملّا بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

ملّانے ایک جگہ کہا ہے ’’شاعر کی دو مائیں ہوتی ہیں۔ ایک اس کا اپنا دور، دوسری آنے والی نسلیں۔ شاعر کی اصل ماں اس کی دوسری ماں ہوتی ہے کیوں کہ یہی اس کو زندۂ جاوید بناتی ہے۔ ملا کے اپنے دور نے تو ان کو اپنایا ہے اور امتیازی مقام دیا ہے۔ آئندہ بھی امید ہے کہ ان کی شاعری کی کشش کم نہ ہو گی۔ ان کے جمالیاتی اظہار میں انسان کو جو مرکزیت حاصل ہے، اس کے مصائب اور اس کے مسائل کا جو عرفان ہے، رسمیات سے بغاوت کی جو امنگ ہے، حقیقت کی جو بے لاگ ترجمانی ہے، زندگی کی دھوپ چھاؤں، دکھ سکھ، جبر و اختیار اور نیکی و بدی کے گھٹتے بڑھتے دائروں کو سمجھنے اور پرکھنے کا جو جذبہ ہے اپنی زبان سے جو محبت ہے، سماجی اور قومی زندگی کی محرومیوں اور کوتاہیوں پر جرأت مندانہ موقف اختیار کرنے اور کلمۂ حق کو بے باکانہ لب اظہار تک لانے کا جو حوصلہ ہے، کون دوسری ماں ہے جو ایسی شاعری کی قدر نہ پہچانے گی اور اس کو عزیز نہ رکھے گی۔ ملّا نے اپنی شاعری میں جو بنیادی سوال اٹھائے ہیں، ان کے جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب نظریاتی ادعائیت سے حسن کے معیار طے پانے لگے تھے، ملا کا اپنی فکر، اپنی نظر اور اپنی راہ پر اصرار کرنا اور جرات بے باکی سے اظہار خیال کرتے رہنا ایسی دولت ہے جسے آنے والی نسلیں کبھی ہاتھوں سے نہ جانے دیں گی، کیوں کہ شاعری میں روشنی اور عظمت اپنے ذہن سے سوچنے اور ضمیر کی آواز سننے ہی سے آتی ہے، اور ملّانے اس کی راہ دکھائی ہے۔

کی مصلحت وقت سے اس نے نہ کبھی

ملّا کے سے دوچار ہی دیوانے ملیں گے

(مجموعۂ کلام ’کرب آگہی‘ کا دیباچہ)

٭٭٭

 

 

 

 

اعتراف

 

                ……… علی جواد زیدی

 

شاعری کو پیغمبری کا جزو کہہ لیجیے یا تلمذ رحمانی کا شاہکار، الہام مان لیجیے یا ضمیر انسانی کی آواز، سماجی فکر کی فن کارانہ صدائے باز گشت سمجھ لیجیے یا کاروانِ فکر مطلق کی بانگِ درا تخلیقِ فرد قرار دے لیجیے یا گروہوں اور جماعتوں کے تاثرات قلبی اور وارداتِ ذہنی کی بازیابی، لیکن اس قدیم و عظیم فن کو سماجی محسوسات و  مزعومات، عزائم و علائم سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری اور معاشرہ دونوں ہی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات فن کاروں کے خواب اور شاعروں کے الہامی تاثرات سماج میں تبدیلیاں لانے کی تحریک پید ا کرتے ہیں اور ہر اہم اور دور رس سماجی تبدیلی لازمی طور سے ادب و فن کو بھی متاثر کرتی ہے۔ عام قاری کے لیے فرد اور سماج کا یہ رشتہ علم و ادب اور فنون لطیفہ کی دنیا میں غیر مرئی ہوتا ہے۔ لیکن غور کرنے والوں اور دور رس نگاہوں سے چھپا بھی نہیں رہتا، آج کی دنیا میں سماجی تنظیم اور انسانی تہذیب بیحد متنوع اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اس تنوع اور پیچیدگی کے اسرار و رموز کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے تزکیہ نفس و انجلائے شعور کی ضرورت ہے۔ بالغ اذہان اور مذکیٰ شعور ہی تمام تجربات و محسوسات کو اظہار کا جامہ پنہا سکتے ہیں۔

سماج اور تہذیب کی طرح فنی اور اخلاقی ا اقدار بھی معرض تغیر میں ہیں۔ یہ تغیرات اتنی سرعت اور تیز رفتاری سے ہو رہے ہیں کہ کمزور دلوں اور متزلزل دماغوں کے لیے ان کا ساتھ دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بیدار ذہن ان تمام تبدیلیوں کا اثر پوری طرح قبول کر رہا ہے اور یہ تبدیلیاں اس کے ذہنی اکتسابات میں رونما ہو رہی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی سطح پر یہ تبدیلیاں براہ راست نمایاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن ادب اور فنون لطیفہ پر ان کا اثر بالواسطہ اور کبھی کبھی بہ دیر بھی ہوتا ہے۔ لیکن ہوتا ضرور ہے ذرا غور کیجیے کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے اردو ادب میں کتنے دور گذر گئے۔ داغؔ و امیرؔ و جلال کے شاگردوں کی آوازیں ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہیں۔ صفیؔ و عزیزؔ وثاقبؔ کے اشعار پر ’’چھتیں اڑتی‘‘ ہم آپ میں بہتوں نے دیکھی ہیں۔ حسرتؔ و جگرؔ واصغرؔ و آرزوؔ کے نغموں پر سامعین کو وجد میں آتے دیکھا گیا ہے۔ چکبست ؔ و سرورؔ و اقبالؔ و جوشؔ نے دلوں کو گرمایا اور ذہنوں کو برمایا ہے۔ ترقی پسندوں کے غلغلوں میں پچھلی تمام آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں۔ پہلو بہ پہلو حلقہ ارباب ذوق والے اپنے ترانے بھی چھیڑے ہوئے تھے۔ آخر میں نئی نسل اور جدید تر نسل کا شعور بلند ہوا جس کا ارتعاش آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس مختصر سی مدت میں زبان، بیان، انداز فکر، فنی روایات، جدت اظہار اور تجربات ترسیل کے کتنے پہلے ہمارے سامنے آئے اور گذر گئے۔

اگر ہم انفرادی اکتسابات و خصوصیات کو بھی مد نظر رکھیں تو یہ تبدیلیاں اور بھی متنوع اور مختلف الالوان نظر آئیں گی۔ اتنی تیز رفتار اور زبردست ہماری طویل ادبی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ہیں۔ مختصر سی مدت میں اتنے اہم تغیر رات کا رونما ہونا کوئی ادبی حادثہ نہیں تھا۔ جو یکایک وجود میں آ گیا۔ یہ در حقیقت اس پورے دور میں ہونے والی تبدیلیوں کا ہی عکس ہے۔ دخانی مشینوں سے برقی اور پھر ایٹمی توانائی تک کا سفر تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ دو عظیم جنگوں کے جلو میں انسانی تباہی کے ساتھ ساتھ افرو ایشیائی ممالک میں امن و آزادی کی زبردست تحریکیں چل پڑیں اور انسان نئے عزم اور نئی امید سے نئے آفاق کی طرف بڑھا۔ سماجی فکر و عمل کی دنیا میں سمندر منتھن کا جو عالم برپا تھا۔ اسی سے نکلنے والے زہر اور امرت کے گہرے نقوش انفرادی تخلیق پاروں پر بار بار ابھرے ارو مٹے۔ نت نئے تجربات اور انحرافات کی کشمکش میں اقدار کی شکست و ریخت اور تعمیر نو اور روایات کی تنظیم جدید ہوتی رہی۔ کسی حساس شاعر کے لیے ان تبدیلیوں سے صاف بچ نکلنا ممکن نہیں تھا۔ نہ ذات کے گھروندوں میں پناہ تھی نہ تخیل محض کی جنتوں میں، نہ تجرباتی بوالعجبی سے مفر تھا نہ غم کوش دروں بینی میں۔ معاشرتی حقائق کی کرنیں ہر اندھیرے میں دراز و روزن تلاش کر کے در آتیں اور دور دور تک روشنی سے بھاگنے والوں کا تعاقب کرتیں۔ پنڈت آنند نرائن ملا کا حساس و فعال ذہن، ان کی زبردست قوت مدرکہ، ان کا انسانی ہمدردی اور آفاقی محبت سے لبریز دل اس سارے منظر کا ہر تاریخی موڑ پر مشاہدہ کرتا اور جائزہ لیتا رہا ہے۔ ان کی شاعری بھی اس ارتقائی سفر میں ان کا ساتھ دیتی رہی ہے اور بدلتے ہوئے اجتماعی ذہن سے کبھی بے آہنگ نہ ہونے پائی ہے۔ ملاؔ تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ شاعروں اور ادیبوں کا پورا قافلہ تھا۔ اور قافلے میں ملاؔ کی ادبی قامت کی بلندی بہ یک نظر نمایاں ہو جاتی تھی۔ ان کی فن کارانہ شخصیت قدیم و جدید کے مابین ایک رابطے کا کام دیتی رہی اور ملّا کو جائز طور سے اس کا برابر احساس رہا:۔

دو کناروں کے ہوں مابین، میں اک پل ملّا

رکھتا جاتا ہوں ستوں ایک، ہر اک گام کیساتھ

یہ ذہنی سفرملّانے دو ایک دن میں طے نہیں کیا ہے۔ انھوں نے ۱۹۲۶ء میں شاعری شروع کی تھی۔ اگر وہ ابتدائی زمانہ بھی جوڑ لیا جائے جو انگریزی شاعری کی نذر ہوا توملّاؔ کی شاعری کی عمر نصف صدی سے زیادہ ہو گی۔ اس پختگی کی علاوہ جو عمر، مشق اور تجربے کا عطیہ ہوتی ہے، ملّاؔ کی ذہنی بیداری، تاریخی شعور اور وسعت مطالعہ و مشاہدہ نے ان کی شاعری کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔

ملّاؔ کے بارے میں ذہنی بیداری اور تاریخی شعور کی بات کرتے وقت یہ حقیقت پیش نظر رہنا چاہیے کہملّا کسی مقر رہ اور محدود نظام فکر سے وابستہ نہیں ہیں۔ انھوں نے ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ کے ابتدائی میں ’’سیاسی نظریات‘‘ اور ’’انسانی نظریات‘‘ کے مابین خط فاصل کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں وہ ’’معراج کیف جو جذبات کو طہارت بخشتی ہے، شعور کو بیدار کرتی ہے اور روح میں ولولہ اور امنگ پید ا کرتی ہے ‘‘ شاعری کا ایک روشن پہلو ہے اور یہی ان عظیم فنکاروں کا خاصہ ہوتی ہے جو انسانی مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ شعر کو زندگی کا عکاسی کی بجائے راز زندگی کی نقاب کشائی کا ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔ وہ فن کار کے ذاتی رد عمل کے قائل تو ہیں لیکن اس ذاتی رد عمل کو زندگی کی سب سے اہم قدر قرار نہیں دیتے۔ انھوں نے مختصر لفظوں میں اسی بات کو یاں بھی ادا کیا ہے کہ ’’عظیم شاعری در اصل خارجیت اور داخلیت کو ایک ساتھ سمونے کا ریاض ہے۔ ‘‘یہی وجہ ہے کہ وہ شعر میں ’’دانائے راز پہلے ‘‘ ڈھونڈھتے ہیں اور ’’فن کا ریا گیت کار بعد میں ‘‘۔ صبر آزما ریاض اور جرأت حق گوئی کے بغیر کوئی دانائے راز نہیں بن سکتا۔ ایسے سچے فن کار کے قلم کی سیاہی خونِ شہید کی سرخی کی طرح چکنے لگتی ہے۔ عمومی شہادتوں میں لازمی طور سے جرأت حق گوئی کا مظاہرہ نہیں ہوتا شاید اسی لیے ملّانے یہ شاعرانہ تعلی جائز سمجھی ہے کہ:۔

خونِ شہید سے بھی ہے عظمت میں کچھ سوا

فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

ظاہر ہے اس شانِ اظہار میں اگر ایک طرف عام شہید ہے تو دوسری طرف خاص فن کار۔ ورنہ:۔

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر بوالہوس کے واسطے دارورسن کہاں ؟

یہی ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ ملّاؔ کے تازہ مجموعۂ کلام کا عنوان ہے۔ ان کے تین مجموعے ’’جوئے شیر‘‘ (۱۹۴۹ء)، ’’کچھ ذرے کچھ تارے ‘‘(۱۹۵۹ء) اور ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ (۱۹۶۳ء)پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ اب دس برس کے بعد شائع ہو رہا ہے۔ جن حضرات نے ان کے پہلے تین مجموعے دیکھے ہیں وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہیں گے کہ ان کی شاعری نے ارتقا کی کچھ مزید منزلیں طے کی ہیں۔ اور ان کا فن عروج کی تازہ منزلوں کی طرف بڑھا ہے۔ سچا فن کار کبھی پرانا نہیں ہوتا اور یہ تازگی ملّاؔ کی فن کاری اور عروج دونوں کی نقیب ہے۔ اس مجموعے میں ملّاؔ کی ایک نظم ’’شعر کا جنم‘‘ بھی شامل ہے۔ اس سے ملّاؔ کے نظریہ فن کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو گی:۔

 

چھانے لگا کیوں

آنکھ پہ پھر بادل بادل

سایہ سایہ ہر جلوہ

جلتے، بجھتے، کچھ دیپک

گہنائی سی ہر تحریر

 

گرنے لگے کیوں

ذہن پر پھر پردے پردے

کھوئے کھوئے سے کچھ خواب

جھلمل جھلمل چند خیال

پرچھائیں سی ہر تصویر

شاید مجھ سے دور کہیں

مجھ میں رہتا ہے جو میں

چھپ کے الگ تنہا تنہا

پھر کرب تخلیق میں ہے

جب وہ پلٹ کر آئے گا

نئے سندیسے لائے گا

نئی شعاعیں پھوٹیں گی

اور گہن سے چھوٹ کر

میں خود کو پا جاؤں گا

خارجی حقائق میں ذات کی بازیابی، خود یابی، شاعری کی خالق ہے، ایک طرف اپنی ذات کا مرکزی نقطہ ہے اور دوسری طرف کائنات کا حقائق سے گہرا اور تخلیقی رشتہ ملّا ذات اور کائنات کے مابین یہ رشتہ کورے فلسفے اور عقل محض کی مدد سے قائم نہیں کرتے بلکہ ان کے یہاں دل و دماغ، خیال اور جذبے کی ایک حسین آمیزش ہے۔ وہ حال سے نا آسودہ ہو کر نہ صرف مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور نہ ذات کے نہاں خانوں میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے جہد حیات کی راہوں پر بے جھجک آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن یہ جنونِ آگہی مذبۂ محض نہیں ہوتا انھیں کے لفظوں میں ان کے جنون کو خرد ہی نے پالا اور پروان چڑھایا ہے انھوں نے شعروں کے سانچے مین انسان کے ہر درد و کرب کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کا درد، انفرادی درد کم اور اجتماعی درد زیادہ ہے۔ ’’مریم ثانی‘‘ جیسی خوبصورت، متحرک، نرم اور گل گوں نظم میں بھی ان کا ذاتی اور انفرادی غم، معاشرے کی عام غم انگیز فضا کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔ ایسی نظموں میں وہ فقیہ، واعظ اور ناصح بھی نہیں، مشکک بھی نہیں ہیں، کورے فلسفی بھی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک حساس مفکر اور ایک جری فن کار ہیں۔ انھوں نے جو طریق فکر اور طرز  اظہار اپنایا ہے وہ تلوار کی دھار پر رقص کرنے کے مرادف ہے۔ ذراسی لغزش خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے اور یہ بات فنی بلوغ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ فکر کی بلاغت، نظر کی توانائی اور لہجے کی خوش آہنگی ان کے فن کو بقول آل احمد سرورؔ ’’لطیف و منفرد‘‘ بنا دیتی ہے۔ اسی انفرادیت کا اعتراف احتشام حسین نے ان لفظوں میں کیا ہے کہ ’’ان کے صاف، شفاف اور ذکی الحس ذہن اور انسانی رکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں نے مل کر ایک مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے۔ یہ ان کا ایسا انفرادی رنگ ہے جسے انھوں نے شاعرانہ، مترنم اور دل کش زبان میں پیش کیا ہے۔ اس رنگ میں ان کے حریف مشکل ہی سے نکلیں گے۔ ‘‘

انفرادیت، جو اجتماعیت کا جز بنے رہنے پر مصر ہو، عام نگاہوں کو دیر میں محسوس ہوتی ہے اور ملّاؔ کا ذہن فن کا راس محسوس بھی کرتا ہے۔ لیکن وہ صرف شہرت۔ یا آسانی سے حاصل کی ہوئی شہرت کا طلب گار نہیں ہے۔ ملّاؔ کی شاعری کا مقصد نہ تو تفریح طبع ہے، نہ خواہش نمائش و نمود ہے۔ وہ اجتماعی روح کی بیچین پکار ہے۔ اس لئے ملّاؔ کو صحیح طور پر یہ یقین ہے کہ یہ پکار آج تو نہیں تو کل دوسرے ذہنوں اور روحوں میں ارتعاش ضرور پیدا کرے گی اور یہی ارتعاش فن کی بقا اور دوام کا ضامن ہو گا۔ وہ مذاق عام سے کسی قیمت پر صلح کرنے کے لئے تیار نہیں مگر کیفِ مذاق عام سے واقف ہیں :۔

سطحِ مذاقِ بزم پر ملاؔ اتر کے آ نہ تو

اوروں کا جو کمال ہے تیرے لیے زوال ہے

وادی شعر میں یہ جادۂ ملاؔ ہی نہ ہو

اک الگ ہٹ کے نشانِ کفِ پا ہے تو سہی

ملاؔ یہ اپنا مسلکِ فن ہے کہ رنگِ فکر

کچھ دیں فضائے دہر کو کچھ لیں فضا سے ہم

مل سکی جن کو نہ اس دنیا میں جا ملاؔ وہ خواب

اشک بن کر دیدۂ شاعر میں ڈھلتے ہی رہے

محفل کے سبو و جام سے لے ملاؔ نہ کبھی اپنی صہبا

لے کیفِ مذاق عام مگر، برسطحِ مذاقِ عام نہ لے

عرصۂ شعر میں ہے شاہسوار یکتا

نام ملاؔ کا مگر پانچ سواروں میں نہیں

کچھ بات ہے ملاؔ میں کہ نقادوں کے باوصف

وہ انجمن شعر میں گم نام نہیں ہے

میرے سر میں ابھی ملایہ خلل باقی ہے

آج گم نام ہوں لیکن ابھی کل باقی ہے

 

ملّاؔ کے ذہن میں انسان کی عظمت کا جو تصور ہے وہ حال کی دشت نوردی اور زبوں حالی سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن مستقبل پر ملاؔ کا یقین ناقابل شکست ہے۔ وہ جہاد زیست کے تپتے میدانوں میں شجر سایہ دار ڈھونڈھ نکالتے ہیں۔ ویسے تو دہر میں جتنے بھی نظام آئے ہیں وہ ’’مژدۂ بہبودیِ عام‘‘ ہی لے کر آئے ہیں۔ لیکن قدم قدم پر چمن کھلے ہونے کے باوجود ’’قافلۂ آل بشر‘‘ کی دشت نور دی ملاؔ کے سادہ دل پر زخم زنی کرتی رہتی ہے :۔

ہر نئے علم میں کچھ تازہ بلاؤں کا نشاں

ہر نئی فتح کے دامن میں چھپی تازہ شکست

ہر نئے موڑ پہ کچھ تازہ غموں کا صحرا

اور ان سب کے لیے جنبش پا میں اپنی

گھولتا دیدۂ پرنم میں تبسم کی کرن

ان گنت صدیوں کو طے کرتا ہوا، دور بہ دور

خم بہ خم رہ گزر عمر گریزاں پہ رواں

خواب در خواب جلاتا ہوا نظروں میں چراغ

شب بہ شب قافلۂ آل بشر گزرا ہے۔

حیات کے اس سفر لا متناہی میں انسان اب بھی خواب دیکھنے سے باز نہیں آتا اور شوق رہروی کو ہارنے نہیں دیتا:۔

شوق آغوش میں ناکامی پیہم کو لیے

شاید امیدِ سحر ہے وہ خواب

جس کی تقدیر میں تعبیر نہیں

اس امید کو ملّا ’’ارتقا‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

ملّاؔ کے مشاہدات کا دامن بہت وسیع ہے، ایٹمی توانائی، ہپی، اندھیر نگری، محبت کرنے والی جوان روحیں، پوجا کرانے کے حوصلے، محافظ وطن سپاہیوں کے ولولے، معمولی انسان جس کے سینے میں چھوٹا بالک چھپا ہے، عقل و دل کا تضاد، بوڑھا مانجھی، محفل میں شمع محفل کی تنہائی، بے کس کا چراغاں، کاروان زندگی کا سفر، گاندھی، نہرو، سروجنی نایڈو سے لے کر بیڑی پینے والا مفلس تک، سیاست کی مسند سجانے والوں سے لے کر استحصال کا شکار تک، کوئی بھی ان کی تیز نگاہوں کی رسائی سے دور نہیں۔ علی العموم اتنے وسیع کینوس کو اتنے ہی وسیع علم کے بغیر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ملّاؔ کا کمال یہ ہے انھوں نے ہر جگہ ان افرادو واقعات و علائم کو سطحیت سے بچایا ہے اور گمبھیر تفکر اور انسانیت دوستی کی مدد سے ان کی سماجی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ لہجے کی متانت، سیدھے بیانیہ انداز کے خطوط سے اوپر اٹھ کر مظاہر میں نہیں بلکہ مظاہر کی روح میں پیوست ہوتی چلی جاتی ہے اور شاعر پرت دار حقیقت کے تہیں کھولتا جاتا ہے۔ عمل وہ بڑی چابک دستی اور فن کاری سے کرتا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی باتوں کے پس پردہ چھپی ہوئی سچائیوں کو وہ اس طرح نکال لیتا ہے کہ جیسے نظر باندھ رہا ہو۔ اس کے باوجود ان کے یہاں فلسفہ طرازی نہیں ہے۔ بلکہ ایک حساس اور شعور انسان کا فطری رد عمل ہے جو انھیں کبھی بوڑھا بنا دیتا ہے اور کبھی بالا، کبھی مفکر بنا دیتا ہے اور کبھی مجاہد۔

یہ رنگینی اور رنگا رنگی فکر و اسلوب دونوں ہی سطحوں پر نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں قصیدہ و مثنوی و مرثیہ کا، رزمیہ، ہجویہ، رثائی اور بیانیہ انداز اس لیے پیدا نہیں ہونے پتا کہ وہ فکر انگیز تغزل کے گرویدہ ہیں۔ ان کا شعر دل کو ذہن کی سطح سے متاثر کرتا ہے، خالص جذبے کی سطح پر کبھی نہیں۔ اس طرح کی ایک کیفیت بعض اوقات ان کی بیحد ابتدائی نظموں میں ضرور پائی جاتی تھی۔ لیکن مدت ہوئی کہ وہ یہ ڈگر چھوڑ چکے ہیں۔ وہ دونوں کا لہجہ اختیار تو نہیں کرتے لیکن غالبؔ و اقبالؔ کی روایت سے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ روش عام سے ذرا ہٹ کر کہتے اور سوچنے کے انداز نے انھیں شگفتہ گفتار تو بنایا ہی ہے ان کے اشعار کو ایک نیا معنوی اور فکری کردار بھی عطا کر دیا ہے۔ ان کے لہجے میں جھنکار تو کبھی کبھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن ایک خوشگوار معتدل اور فکر انگیز کھنک ہمیشہ سنی جا سکتی ہے۔

ادھر ملّانے سنسکرت نظموں کے چکھ ترجمے بھی کیے ہیں۔ یہ ترجمے انگریزی کی وساطت سے کیے گئے ہیں اور گمان یہ تھا کہ شاید سنسکرت کی ارضیت اور مقامی پن کہیں اجنبیت کا رنگ نہ اختیار کرے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملّانے ان نظموں میں اپنا حقیقی لہجہ پا لیا ہے۔ سیدھا سادہ، سماجی معنویت سے بھرپور، پرکار اور دل کش۔ مثلاً ہندوستانی عورت کے جذبات معصوم گداز دیکھیے :۔

میرے من میں میرا پریتم

سوتا ہے اک کچی نیند

دھیمے بولو، جاگ نہ جائے اور سن لے

کالی داس نے ’’حسن دوشیزہ‘‘ کی جو تصویر کشی کی ہے اسے ملّانے اپنی زبان میں یوں محصور کیا ہے :۔

یہ ادھ کھلا غنچہ جو مہکتا ہے سر شاخ

جس کا ہر آنچل نہیں سرکا ہے ابھی تک…

اک دُر جو صدف ہی سے ابھی جھانک رہا ہے

لو دیتا ہوا دیپ، نمایاں بھی، نہاں بھی

انگور چھپائے ہوئے صہبا کا خزانہ

 

غزل کو جن لوگوں نے انفرادی لہجہ دیا ہے ان میں ملّاؔ کا خاص مقام ہے۔ وہ ہمارے بلند قامت غزل گو ہیں۔ نرمی اور گھلاوٹ صرف زبان و بیان ہی میں نہیں بلکہ سوچنے کے انداز میں بھی نمایاں ہے۔ ملّا چونکا دینے والا آہنگ اختیار کئے بغیر سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی رایوں سے اختلاف ہو سکتا ہے اور کہیں کہیں مجے بھی پورا اتفاق نہیں ہے۔ لیکن ان کو بات کہنے اور اپنی ما فی الضمیر کو پورے خلوص اور صفائے ذہن کیساتھ دوسرے تک اس طرح پہچانے کا ڈھنگ آتا ہے کہ سننے والا ہمدردانہ غور و فکر کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اس سے زیادہ ہم شاعری سے مطالبہ بھی کیا کر سکتے ہیں ؟

مقدمے کی تنگ دامانی غزلوں کے اقتباس پیش کرنے سے روک رہی ہے۔ پھر بھی اس حکایت لطیف کے خاتمے کے پہلے چند اشعار آپ کے ساتھ دہرانے کو جی چاہتا ہے :۔

مٹے نہ نرمی شام و سحر جہاں والو

کہیں سے دن بھی چلے جب کہیں سے رات چلے

بجھی بجھی سی فضا ہے دلوں کی اشک جلاؤ

نظر سے برف جو پگھلے تو دل کی بات چلے

کیا ختم پہ آ پہنچا افسانہ محبت کا

ملتی ہیں نگاہیں اور پیغام نہیں ملتا

وہ کنج طرب چھوٹ چکا، آئی رہ غم

اب آج سے بیگانے ہی بیگانے ملیں گے

صرف اٹھانے کا گہنگار ہوں اے ساقیِ بزم

میں نے جو جام چھوا تھا، ابھی رکھا ہے وہیں

ایک ہنگامۂ آتش نفساں بھی ہے حیات

یہ فقط انجمن شعلہ رخاں ہی تو نہیں

لبِ تہذیب کا انداز بیاں ہے ورنہ

شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں

شب کو بھی مہکتی تو ہیں یہ ادھ کھلی کلیاں

جب چوم لیں کرنیں تو مہک اور ہی کچھ ہے

اشکوں سے بھی ہو جاتا ہے آنکھوں میں چراغاں

بن برسی نگاہوں کی چمک اور ہی کچھ ہے

دو دن کی زندگی میں بھی نشتر ہر ایک سانس

کن کن جراحتوں کو تبسم بنائے گل

اس نظر پہ پلکوں کے پڑ رہے ہیں یوں سائے

جھنڈ میں درختوں کے جیسے دھوپ کھو جائے

دل میں ہر طرف پھیلی چاندنی انھیں کی ہے

وہ لطیف سے غم جو اشک جو نہ بن پائے

دل سے چپ چاپ دبے پاؤں گزر جاتے ہیں

جیسے اب آنکھ چراتے ہیں گزرتے ہوئے دن

زیست تاروں کی رہگزر بھی نہیں

اور پیراہن شر ر بھی نہیں

ان شعروں میں گوناگوں خیالات و محسوسات زندگی کے کتنے ہی گوشوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، سیاست ہو یا عشق، فلسفہ ہو یا حرفِ حق، رندی و مستی ہو یا بے خودی و کیف دروں، ملّاؔ کا جنچا تلا انداز پہچانا جا سکتا ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اہم ناقدین نے بھی اردو کے اس بلند پیکر شاعر کو ازسرِ نو دریافت کیا ہے اور اسے وہ مقام بلند حاصل ہو گیا ہے۔ جو اس کا جائز حق تھا۔ مجھے یہ خوشی اس لیے اور بھی زیادہ ہے کہ اس صدی کی تیسری دہائی میں میں نے ملّا صاحب پر پہلا تعارفی مضمون لکھا تھا۔ ملّاؔ کی فنی رفعت اس وقت بھی پرکھنے والی نظروں سے چھپی نہیں تھی۔ اب تو ان کے مخالف بھی اعتراف عظمت پر مجبور ہیں۔ سچ ہے کہ علم و ادب کی دنیا میں دیر تو ہے اندھیر نہیں ہے۔ یہ مجموعہ یقیناً ملّا صاحب کا آخری مجموعہ نہیں ہے۔ ابھی ملّا صاحب سے اردو کو بہت کچھ اور بھی پانا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا

 

                ……… شمیم حنفیؔ

 

مُلّا صاحب کی زندگی تقریباً پوری بیسویں صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں ۱۳؍ جون ۱۹۹۷ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوئیں۔ اس طرح اپنی زندگی کے ستّانوے (۹۷) برس، مُلّا صاحب نے بالعموم انتہائی سرگرمی اور انہماک کے ساتھ گزارے، ایک ممتاز کشمیری برہمن گھرانے میں ان کی پیدائش، پھر گنگا جمنی تہذیب کے سب سے بڑے مرکز لکھنؤ میں ان کی زندگی کے ابتدائی ادوار، اس کے ساتھ ساتھ قومی اور اجتماعی زندگی کے معاملات سے ان کا براہ راست سروکار، اور دلّی کے سیاسی، کاروباری اور طرح طرح کے مسئلوں سے گھرے ہوئے ماحول میں ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا آخری دور۔ ان سب سے مل کر جو نقشہ بنتا ہے، بہت رنگا رنگ اور دلچسپ ہے۔ لکھنؤ کا ادبی اور ثقافتی منظر نامہ ملا صاحب کے زمانے میں بہت با رونق تھا۔ صفیؔ ، ثاقبؔ ، عزیزؔ ، یگانہ ؔ سے لے کر جوشؔ اورمجاز ؔ کے دور تک وہاں چہل پہل بہت تھی۔ شعر و شاعری کی طرف مُلّا صاحب کا مائل ہونا ان کی انفرادی تخلیقی سرگرمی کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر تہذیبی سرگرمی میں ان کی شمولیت کا پتہ بھی دیتا ہے۔ جوئے شیر (اشاعت ۱۹۴۹ء) کے دیباچے میں پروفیسر آلِ احمد سرور کا یہ بیان کہ ’’آنند نرائن مُلّا کی شاعری نئے لکھنؤ کی آواز ہے۔ یہ نیا لکھنؤ پرانے لکھنؤ سے بھی متاثر ہوا ہے مگر بیسویں صدی کی روح کا اثر اس نے زیادہ قبول کیا ہے۔ ‘‘ ہمارے ذہن کو ایک خاص راستے پر لگا دیتا ہے۔ یہ راستہ ہے نئی اور پرانی ادبی اور تہذیبی روایات کے مابین مکالمے اور آویزش کا۔ سرور صاحب نے اپنے صلح پسندانہ انداز میں اس صورت حال کی نشاندہی یوں کی ہے کہ ’’ لکھنؤ کی پرانی شاعری فن کی پرستار تھی، یہ نئی شاعری جذبات کے اظہار پر زور دیتی ہے مگر فن کی روایات کو نظر انداز نہیں کرتی۔ لکھنؤ کی پرانی شاعری وزن و وقار رکھتی ہے مگر اس میں جذبے کی تھر تھراہٹ اور احساس کی تازگی کم ہے۔ اس نئی شاعری نے بیسویں صدی کی زندگی سے نیا احساس لیا ہے اور فن کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

اس گفتگو سے خاصے مبہم مسئلے پیدا ہوتے ہیں ان پر قطعیت کے ساتھ کوئی کلمہ نہیں لگایا جا سکتا۔ پھر ہمارے چاروں طرف تو آج بھی ایک ایسا ماحول اور معاشرہ پھیلا ہوا ہے جس میں نئے پرانے، کئی زمانے ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ جس بستی کی خاک سے مُلّا صاحب کی شاعری اور تہذیبی و تخلیقی حسیت کا خمیر اٹھا، وہ ماضی اور حال کے دورا ہے پر ٹھٹکنے کے بجائے دونوں کی طرف ایک ساتھ دیکھ رہی تھی۔ معیار شعرائے لکھنؤ (صفی، ثاقب، عزیز) کے ساتھ ساتھ وہاں میرزا یگانہ بھی اپنے شعر کہہ رہے تھے۔ اس ماحول میں جوش صاحب کی گھن گرج بھی سنائی دیتی تھی اور ایک نئے طرزِ احساس کی سرگوشی بھی۔ پرانے ادب اور افکار کے شیدائیوں سے بھری ہوئی اس دلچسپ سرزمین میں نئے ادب کی آب یاری بھی ہوئی۔ مُلّا صاحب کے دو قریبی دوست اور ذہنی رفیق سرور ؔ صاحب اور احتشام ؔ صاحب ایک ہی دور میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ تھے اور یہ دونوں اپنی ادبی ترجیحات اور مذاق کے اعتبار سے پرانوں کی بہ نسبت بہت مختلف تھے۔ لیکن مُلّا صاحب کا اپنا شعری ذوق اور ان کی فکر کا دائرہ اپنے ان دوستوں کے مذاق اور افکار سے بھی دوستی کے باوجود زیادہ ہم آہنگ نہیں تھا۔ چنانچہ اپنی ایک تحریر (بہ قلم خود) میں مُلّا صاحب نے خاصے دو ٹوک انداز میں یہ بات کہہ دی ہے کہ :

’’مجھے یہ پڑھ کر یقیناً بڑی حیرت ہوئی کہ احتشام نے اشارۃً اور سرور نے صریحاً میرا شمار ترقی پسند شعرا میں کیا ہے۔ آخر میں ترقی پسند کس طرح سے ہو گیا؟ نہ تو میں مزدور کو فرشتۂ رحمت سمجھتا ہوں اور نہ مزدور راج قائم کرنے کے لیے کشت و خون کی ترغیب دینے ہی کو شاعری کا اصل مقصد قرار دیتا ہوں۔ رہ گئی انسان دوستی تو اب یہ بھی اس مخصوص حلقۂ ادب میں جس پر بمبئی کی مہر لگی ہے مشکوک نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہے۔ مستند ترقی پسند نظریۂ اب بھی ایک فریب سمجھتا ہے جیسے کسی بچے کو چاند دکھا کر اس کے سامنے سے مٹھائی کی طشتری غائب کرا دینا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میری وجہ سے ان دونوں کے ادبی وقار پر حرف نہ آئے اور یہ ندامت مجھے اور اٹھانی پڑے۔ ‘‘

دیانت داری اور صاف گوئی مُلّا صاحب کے شخصی اوصاف میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ زندگی میں اور شاعری میں کسی طرح کی دوئی کے قائل نہیں تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں بھی وہ ہمیشہ کھرے اور انتہائی بے باک رہے، یو۔ پی۔ کی پولیس فورس کے بارے میں ان کی ایک عدالتی بیان اور فیصلے کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے۔ اوپر جو اقتباس نقل کیا گیا ہے اس سے بھی مُلّا صاحب کے مزاج کی اسی خوبی کا اظہار ہوتا ہے۔ سرور صاحب کا خیال تھا کہ ان کی شاعری نئے لکھنؤ کی آواز ہے۔ مُلّا صاحب کے عہد کا لکھنؤ نیا بھی تھا اور پرانا بھی۔ انھیں اس شہر بے مثال کی معاشرتی روایتوں کا پاس بھی تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے رویوں اور شعر و ادب کی دنیا میں ایک نئے طرزِ احساس کے نقیب بھی تھے۔ لیکن اپنے مزاج کی کشادگی اور رواداری کے باوجود وہ اپنے سینے پر کوئی ایسا تمغہ سجانے سے گریزاں رہے جو ان کے لیے پوری طرح قابلِ قبول نہ رہا ہو۔ ترقی پسندی زندگی اور فکر کے ایک نئے اسلوب کے طور پر اس عہد کی اجتماعی زندگی میں داخل ہوئی۔ اس وقت ترقی پسندی کے تصور میں کٹّر پن اور ادعائیت کے عناصر نمایاں تھے اور مُلّا صاحب کے لیے یہ صورت حال بہت مناسب نہیں تھی۔ لہٰذا اپنی زندگی کے عام انداز میں اپنی فکر میں وہ اتنی گنجائش پیدا نہیں کر سکے کہ اپنے معاصر ترقی پسندوں کی طرح ترقی پسندی کے مروجہ تصور کو بھی غیر مشروط طریقے سے اپنے اندر جذب کر لیتے۔ وہ اپنی شاعری اور شخصیت دونوں میں ایک وحدت کے طلب گار تھے۔ ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ (اشاعت ۱۹۶۳ء) کا انتساب انھوں نے ’’آنے والے کل کے نام‘‘ کیا ہے اور شروعات اس قطعے سے کی ہے کہ:

نقشِ پا سے مرے روشن نہ سہی راہ ادب

میری تابانیِ کردار و عمل باقی ہے

اسی طرح اگلے مجموعے ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ کا آغاز انھوں نے اس شعر کے ساتھ کیا ہے کہ:

خونِ شہید سے بھی قیمت میں کچھ سوا

فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

منشی پریم چند کی پہلی کہانی ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ کے ساتھ اس شعر کو رکھ کر دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے اپنی تمام تر وطن پرستی اور قومی شعور کے باوجود، مُلّا صاحب کے لیے آرٹ اور ادب کی تخلیق ایک قومی فریضے کے علاوہ ایک انفرادی فن کارانہ فریضے کی ادائیگی بھی تھی۔ اپنے پہلے شعری مجموعے ’’جوئے شیر‘‘ سے لے کر اپنے اشعار کی آخری کتاب ’’جادۂ مُلّا‘‘ (۱۹۸۸ء) تک مُلّا صاحب نے ذاتی اور اجتماعی، دونوں سطحوں پر خاصی مصروف، ذمہ دارانہ زندگی گزاری۔ اپنے عہد کے سماجی مسئلوں، سیاسی ماحول اور ادبی معاشرے کے پس منظر میں مُلّا صاحب کی زندگی کی سطح، سب کے سب ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں کے موضوعات بالعموم وہی ہیں جو ان کی زندگی اور روز مرہ مشاغل کی زندگی سے ہم آہنگ کہے جا سکتے ہیں۔ روایتی ترقی پسندی کے حلقے سے باہر بھی شعرا کی ایک نمایاں صف تھی جو قومی اور وطنی موضوعات کو اپنے تجربوں کی اساس بناتی تھی۔ ان میں ایک جوشؔ اور فراقؔ کو چھوڑ کرکسی نے اپنے عہد کی شاعری اور ادبی ثقافت پر کوئی گہرا اثر نہیں چھوڑا۔ مُلّا صاحب اپنی عملی زندگی کے ابتدائی ادوار میں ایک وکیل کی حیثیت سے، بعد میں ایک جج کے طور پر اور اسی کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب اور مشترکہ کلچر کے ایک نقیب اور مجاہد کے رول میں ممتاز ہوئے۔ اردو اور اردو کلچر سے ان کی محبت نے ایک ضرب المثل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان کا یہ جملہ کہ ’’میں اپنا مذہب چھوڑسکتا ہوں، لیکن اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘ پنڈت نہرو کے بعد اردو اور اردو کلچر سے والہانہ عشق کا دوسرا معروف اعلان ہے۔ یہاں ایک اور واقعے کی طرف ہمارا ذہن جاتا ہے کہ مُلّا صاحب اور پنڈت نہرو دونوں کشمیری نژاد تھے اور تہذیبی، معاشرتی، مذہبی، قومی معاملات میں دونوں کا ذہن سو فیصدی آزاد اور کشادہ تھا۔ نہرو جی نے اردو کے لسانی اور اس سے وابستہ معاشرتی اور سیاسی مسئلوں پر تقریباً نصف درجن مضامین لکھے ہیں۔ یہ مضامین ان کی کتاب ’’ابتدائی تحریریں : جد و جہد کے سال‘‘ (انگریزی ترجمہ: شمیم حنفی، ناشر نیشنل بک ٹرسٹ) میں شامل ہیں اور ان مضامین سے ہندوستان کے پیچیدہ لسانی نقشے کے ساتھ ساتھ اردو زبان اور ثقافت کی سیاسی جہتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اب تو خیر ہماری اجتماعی صورت حال تشویش ناک حد تک تبدیل اور حساس ہو چکی ہے اور اردو یا مشترکہ تہذیب کا ہی نہیں پوری قوم اور ملک کا سیاسی اور ذہنی مستقبل شاید اپنے ارتقا کی سب سے مشکل گھڑی سے دو چار ہے۔ لیکن جس دور میں مُلّا صاحب نے اردو کی بقا اور تحفظ اور ترقی کا علم بلند کیا، اردو اور اردو والوں کے لیے آزمائش کچھ کم نہ تھی۔ خود کانگریس میں ایک مضبوط حلقہ ایسے کارکنوں اور رہ نماؤں کا موجود تھا جن کی اردو دشمنی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ تقسیم سے پہلے کی دنیا اور تقسیم کے بعد کی دنیا ایک دوسرے کی ضد نہ سہی، لسانی، معاشرتی، تہذیبی، فکری اور سیاسی اعتبار سے، ایک جیسی بھی نہیں تھی، ہندوستان میں اس وقت مُلّا صاحب کی آواز اردو کے پس منظر میں الگ پہچانی جاتی تھی۔ انھوں نے اردو تحریک کی سربراہی جس جوش اور جذبے کے ساتھ کی تھی اس کا تعلق اسی روایت سے تھا جو سرتیج بہادر سپرو، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، پنڈت جواہر لال نہرو، پنڈت ہردے ناتھ کنزرو جیسے برگزیدہ اصحاب کے سائے میں فروغ پذیر ہوئی تھی۔ مُلّا صاحب اس صف میں بھی ممتاز یوں کہے جا سکتے ہیں کہ انھوں نے اردو کے ایک اہلِ قلم، ایک شاعر کی حیثیت سے بھی اپنا تشخص قائم کر لیا تھا۔ پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ اور پنڈت برج نرائن چکبست کے بعد اودھ کی دل آویز معاشرتی زندگی اور اس زندگی کے حسن و جمال کی ترجمانی مُلّا صاحب نے جتنی مستقل مزاجی، جذباتی شدت اور جرأت مندی کے ساتھ کی اس کی کوئی مثال ہمیں ہندوستان کی قومی زندگی اور اجتماعی تاریخ کے حالیہ ادوار میں نہیں ملتی۔ مُلّا صاحب حصول آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں اردو کے حقوق کی بازیابی اور حفاظت کا سب سے روشن اور تابناک اور مستحکم علامیہ کہے جا سکتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں آپ سب کو مُلّا صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے دو شعر اور کچھ نثری اقتباس بھی سنادیا جائے۔ اپنے اشعار کی پہلی کتاب ’’جوئے شیر‘‘ کا انتساب مُلّا صاحب نے ’’مٹتی ہوئی اردو کے نام‘‘ کیا تھا اور یہ دو شعر لکھے تھے ؎

اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں

پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں تو چلیں

آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

اک آخری گیت اور گالیں تو چلیں

اس کے اگلے صفحے پر یہ دو شعر ملتے ہیں ؎

یہ سانحہ سالِ چہل و نو میں ہوا

ہندی کی چھری تھی اور اردو کا گلا

اردو کے رفیقوں میں جو مقتول ہوئے

مُلّا نامی سنا ہے شاعر بھی تھا

(بہ حوالہ کلیات۔ مرتبہ :خلیق انجم۔ ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو اشاعت ۲۰۱۰ء)

یہاں جس واردات کا ذکر ہے وہ ۱۹۴۹ء کی ہے۔

یعنی کہ قومی آزادی کی حصولیابی کے دو برس کے بعد کی۔ اس کے بعد اردو کی بقا کا دائرہ بتدریج مزید تنگ ہوتا گیا اور مُلّا صاحب نے اپنی لمبی اور دنیوی لحاظ سے کامیاب زندگی میں اردو تحریک کے اضمحلال کا سارا تماشا دیکھا۔ ظاہر ہے کہ اس تماشے پر ان کا دل عام اردو والوں سے کم نہ دکھا ہو گا کہ اردو ان کی زبان ہی نہیں تھی، وہ اردو تحریک کے قائل بھی رہے تھے اور اپنے جذبات سے قطع نظر، تعقل اور اردو کی لسانی ترکیب اور کردار کی سطح پر بھی انھوں نے اردو کے مسئلے کا تجزیہ کیا تھا۔ اس تجزیے کے دوران مُلّا صاحب کئی ایسے نتائج تک پہنچے جو ہمیں آج بھی سوچ بچار کی دعوت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اقتباسات دیکھیے جو ان کے مضمون ’’اردو کے مستقبل‘‘ (محررہ ۲۴۵؍ مئی ۱۹۳۸ء) سے ماخوذ ہیں :

کسی زبان کے مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قایم کرنا آسان کام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ موجودہ رجحانات کی بنا پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنے زمانے کے مستقل اور غیر مستقل رجحانات کو پہچاننے کے لیے اور یہ سمجھنے کے لیے کہ ان میں سے کون اگلی منزل کا پتہ دیتے ہیں اور کون محض سراب ہیں ایک بہت باریک ہیں نظر کی ضرورت ہے۔

’’اتنا تو بغیر نجوم جانے ہوئے بھی بتایا جا سکتا ہے کہ آج اردو زبان پھر اپنا چولا بدل رہی ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں یہ ہندی کے نام سے موسوم تھی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں اس نے اپنا نام ریختہ رکھا۔ انیسویں صدی میں یہ اردو کے نام سے مشہور ہوئی اور تمام آثار یہی بتا رہے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخر تک اس کا نام ہندوستانی ہو جائے گا اور اسی نام سے یہ تمام ملک کی زبان عام بنے گی۔ ‘‘

آخری اقتباس اسی مضمون کے اختتامیے سے لیے گیا ہے جو اس طرح ہے :

’’اردو کا کیا حشر ہو گا؟ اگر فارسی اور بھاشا مل کر اردو بن سکتی تھی تو کیا وجہ ہے کہ اردو اور ہندی مل کر ہندوستانی نہ بن سکیں ؟ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو کو ققنیس (Phoenix)کی فطرت ملی ہے۔ آج یہ اپنے آتشیں نغمے گا گا کر فنا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اسی راکھ سے یہ اپنا رنگ روپ بدل کر پیشتر سے بھی زیادہ حسین اور دل فریب بن کر اٹھے گی اور سارے ملک کی فضا کو اپنے ترانوں سے معمور کر دے گی۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آزاد ہندوستان سے جو امیدیں باندھی گئی تھیں، ان میں سے زیادہ تر موہوم ثابت ہوئیں۔ پسماندگی، فرقہ پرستی، تنگ نظری، سماجی بے انصافی، اخلاقی زوال اور ابتری کے آثار ہیں کہ کم ہونے میں نہیں آتے۔ بے شک ہم نے تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی بھی بہت کی، مگر ہماری اجتماعی زندگی دیانت داری، مساوات، ستھرے پن اور اس سائنسی مزاج سے اب بھی کوسوں دور ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ نین تارا سہگل کے خیال میں آج ہم اپنی قومی زندگی کے سب سے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ جہالت اتنی ڈھیٹ اور بے شرم اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس صورت حال کا نقصان ہندوستان کی تمام زبانوں میں سب سے زیادہ اردو نے اٹھایا ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اردو کے سماجی مرتبے میں جو فرق آیا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

کتنے خواب پامال ہوئے لیکن مُلّا صاحب انسانوں کی اس قبیل میں شامل تھے جو ہمیشہ پرامید رہتی ہے۔ انسانیت کی بنیادی قدروں پر اس کا یقین ٹوٹتا نہیں۔ جس تہذیب نے ان کا شعور کی پرورش کی تھی، خاص طور سے اودھ کا اجتماعی کلچر اور غیر منقسم تہذیبی ماضی۔ اس نے ہمیں جو کچھ سکھایا تھا، بتایا تھا، اسے ہم جھٹلانے اور بھولنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں مُلّا صاحب کی شاعری کا اجالا بھی سمٹتا جا رہا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ انسانیت کے شرف، اقدار اور اخلاق کے ایک مربوط نظام پر اپنا اعتماد بحال رکھا۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ اسی یقین، اعتبار اور بھروسے کی داستان اور دستاویز ہے۔ اور اس کے پیش نظر انھوں نے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ آنے والے دنوں میں ’’اردو اپنا رنگ روپ بدل کر پیشتر سے بھی زیادہ حسین اور دل فریب بن کر اٹھے گی اور سارے ملک کی فضا کو اپنے ترانوں سے معمور کر دے گی‘‘ لیکن کیا ہماری قومی زندگی اور ہمارا تاریخ کا شیرازہ روز بروز پہلے سے زیادہ بکھر نہیں رہا ہے اور اردو کی ترکیب اور تعمیر میں جو عناصر سرگرم رہے تھے، ان سے جو نغمہ پھوٹا تھا، اسے سننے اور سنانے کا وقت ہاتھ سے نکلتا نہیں جا رہا ہے ؟

مُلّا صاحب کی شاعری اور ان کی زندگی دونوں آج ہمیں انہی سوالوں میں گھرے دکھائی دیتے ہیں !

مُلّا صاحب کی شاعری اور شخصیت کا ظہور جس ثقافتی اور ذہنی پس منظر میں ہوا تھا، اس کے نزدیک شاعری صرف ایک تخلیقی امنگ کا اظہار نہیں تھی، ایک تہذیبی عمل کی ادائیگی بھی تھی۔ اس روایت کے احترام میں، اپنے معروضات کا سلسلہ ان کے کچھ اشعار پر کرنا غالباً کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہو گا۔

چپ ہوں، لیکن ہے خموشی بھی کلام آلودہ

تیغ پھر تیغ ہے، ہو لاکھ قیام آلودہ

ساقیا! بزم میں ارزاں ہیں بہ نامِ مے آج

آبِ ناپاک کے کچھ قطرۂ جام آلودہ

ایک دنیا کا تصور کوئی آسان نہیں

ذہنِ انساں ہے ابھی تک تو مقام آلودہ

ساتھ چلنے کے لیے قافلے تیار نہیں

پائے انسان ہے ابھی طرزِ خرام آلودہ

پاکیِ ذوق نے مُلّا مجھے چلنے نہ دیا

کسی اس راہ پہ، جو ہو چکی گام آلودہ!

٭٭٭

 

 

 

عہدِ ملّاؔ کا لکھنؤ اور لکھنوی شاعری

 

                ……… ولی الحق انصاری

 

نوابین اودھ کے زمانے میں لکھنؤ میں جو شعری روایات قائم ہوئی تھیں وہ لکھنؤ میں نوابی دور کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہیں اور موجودہ صدی میں بھی لکھنؤ اپنی شاعرانہ حیثیت اور انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، البتہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ یہاں کی شاعری میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ غیر لکھنوی شاعری کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

کچھ عرصے قبل تک لکھنوی شاعری کو بدنام کرنا ایک فیشن سا بن گیا تھا۔ اسے گل و بلبل کے افسانوں، کنگھی چوٹی کی داستانوں اور رکیک مضامین کی ادائیگی تک محدود سمجھ لیا گیا تھا لیکن اس قسم کے الزام لگانے والے شاید اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ شاعری کے یہ عناصر اہلِ لکھنو کو انھیں شاعروں سے ملے جنھیں فخریہ انداز میں استادانِ دبستانِ دہلی کہا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھنو کی عیش پر ور فضا میں اس قسم کی شاعری کچھ زیادہ مقبول ہو گئی چناں چہ یہاں کے شاعروں نے بھی اس کی طرف زیادہ توجہ کی۔ لکھنوی شاعری کا طرہ امتیاز وہ مضامین نہیں ہیں جنھیں یہاں کے شعراء نے اپنے کلام میں ادا کیا ہے بلکہ وہ زبان ہے جس میں یہ خیالات ادا کیے گئے ہیں اور اسی پاکیزگی زبان نے لکھنوی شاعری کو ایک علاحدہ دبستانِ شاعری کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع دیا۔

اصلاحِ زبان کی ابتدا شیخ امام بخش ناسخ ؔ اور انھیں کے ساتھ خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے کی اور ان کے بعد بھی ان کے شاگردوں کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی سعی سے نہ صرف لکھنؤ میں بلکہ اس کی تقلید میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں وہ زبان رائج اور مقبول ہوئی جو اپنی شیرینی اور حسن میں بجا طور سے قند پارسی کا جواب کہی جا سکتی ہے۔ ان شعرا کے کلام میں خیالات البتہ محض روایتی ہیں جن کا حقیقت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ بات صرف لکھنوی شاعری تک محدود نہیں ہے۔ یہی اس عہد کی شاعری کا عام رنگ تھا۔ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے، لکھنو کے عیش پسند ماحول نے اس میں صرف کچھ اضافہ کر دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ۱۹۵۷ء کے بعد اس رنگ کو مقبول اور اجاگر کرانے والے لکھنوی شاعروں سے زیادہ داغؔ دہلوی تھے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ داغؔ کی اس شاعری کی مقبولیت کے بدولت جس پر رکاکت اور ابتذال کی گہری چھاپ ہے رسا بند لکھنو خصوصاً امیرؔ مینائی اور ان کے شاگردوں، خصوصاً ریاضؔ خیر آبادی کی شاعری اور جلالؔ لکھنوی کی نثری تصانیف کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

۱۸۵۶ء میں لکھنؤ کا نوابی دور ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ وہ عیش پسندانہ ماحول بھی ختم ہوا جس کے نتیجہ میں وہ مبتذل شاعری وجود میں آئی جس کے لیے بغیر سمجھے بوجھے آج بھی لکھنو کو مطعون کیا جاتا ہے۔ ۱۹۵۷ء کے بعد کی لکھنوی شاعری کے عناصر بھی عشق و محبت رہے لیکن چرکنیت اور جان صاحبیت ختم ہو گئی البتہ ابتذال کچھ حد تک باقی رہا جس کا ایک سبب سبکِ داغؔ کی مقبولیت بھی تھا۔ اس دور میں حالات کی نا سازگاری کے ساتھ ساتھ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کا بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر لکھنوی شاعری پر اثر پڑا اور وہ شعراء جنھیں عہدِ ملّاؔ کا پیش رو کہا جا سکتا ہے وہ بھی کچھ حد تک اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس دور کے شعرا میں امیرؔ مینائی کے شاگرد اور لکھنؤ اسکول کے ایک اہم شاعر ریاضؔ خیرآبادی (۱۸۵۳ء تا ۱۹۳۲ء) ہیں۔ جہاں تک ان کے سبک کا تعلق ہے، وہ اپنے استاد کے علاوہ داغؔ دہلوی اور جلالؔ لکھنوی سے بھی متاثر ہیں چناں چہ دونوں کے اثرات ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ جہاں تک لطفِ زبان کا تعلق ہے۔ انھیں یگانۂ عصر کہا جا سکتا ہے لیکن شوخی ور ندی میں وہ داغؔ کے پیرو نظر آتے ہیں لیکن یہ رندی خمریات تک محدود ہے اور اس رنگ کلام کا انھیں لکھنؤ اسکول کا آخری شاعر سمجھنا چاہیے۔ نمونتاً ان کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

 

شعر میرے تو چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ریاضؔ

پھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے پی ہے کی نہیں

چھلکائیں بھر کے لاؤ گلابی شراب کی

تصویر کھینچیں آج تمہارے شباب کی

محتسب آیا تو میں خم پر گرا

خم گرا، مینا گرا، ساغر گرا

اتر گئی سرِ بازار شیخ کی پگڑی

گرہ میں دام نہ ہوں گے، ادھار پی ہو گی

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش

سُن کر جو پی گئے یہ مزہ مفلسی کا تھا

وہ جانا مرا روٹھ کر میکدے سے

صراحی کا مجھ کو وہ آواز دینا

مل جائے تو شراب کا دریا بہائیں ہم

اللہ دے اگر تو پییں اور پلائیں ہم

خمریات کا ایک دوسرا رُخ ملاحظہ ہو: ؎

اتری تھی آسمان سے جو کل، اٹھا تولا

طاق حرم سے شیخ وہ بوتل تو اٹھا لا

سنا ہے ریاضؔ اپنی داڑھی بڑھا کر

بڑھاپے میں اللہ والے ہوئے ہیں

اہلِ حرم بھی آج ہوئے ہیں شریک دور

کچھ اور آج رنگ مری میکشی کا تھا

ریاض کی شاعری کا آہنگ بلا شبہ رندانہ تھا لیکن ریاضِ رضوان میں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں جن میں شوخی کے علاوہ اعلا پایہ کی سنجیدگی پائی جاتی ہے مثلاً

تری گلی میں نشانِ مزار باقی ہے

غبارِ راہ مری یاد گار باقی ہے

کتنے کعبے ملے رستے میں، کئی طور ملے

ان مقامات سے ہم کو وہ بہت دور ملے

ہم نے اپنے آشیانے کے لیے

جو چبھے دل میں وہی تنکے لیے

ہنگامِ نزع گر یہ یہاں بیکسی کا تھا

تم ہنس پڑے، یہ کون سا موقع ہنسی کا تھا

متذکرہ بالا اشعار سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس وقت ملّا صاحب نے شاعری کا آغاز کیا اس وقت پاکیزگی ٔزبان کے علاوہ خیالات کے معاملے میں بھی لکھنوی شاعری ایک نئے موڑ پر کھڑی ہو چکی تھی۔

عہدِ ملّاؔ کے ابتدائی دور کے معاصرین میں صفی ؔ لکھنوی اور چکبستؔ لکھنوی وہ حضرات ہیں جنھوں نے شعوری یا غیر شعوری طور سے حالیؔ کا نظریہ شعر قبول کیا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالات ہی کچھ ایسے ہو چکے تھے کہ تنگنائے غزل سے باہر آ کر انھیں اپنے خیالات کا اظہار کے لیے نظموں کا سہارا لینا پڑا۔ چکبستؔ وطنی شاعر تھے اور صفیؔ ملّی، چناں چہ ملّا صاحب سے پہلے لکھنؤ میں جو نظمیں لکھی گئیں وہ چکبستؔ کے وطنی لیڈروں کے مراثی اور صفیؔ اور ان کے شاگرد عزیزؔ لکھنوی کی ملی نظمیں ہیں۔ ان تینوں شاعروں نے (مرثیہ نگاروں کے علاوہ) نہ صرف لکھنؤ میں نظم گوئی کا آغاز کیا بلکہ لکھنو کی غزل کی بھی ایک نئی سمت متعین کی۔ ان سے قبل اگرچہ رکاکت و ابتذال کے عناصر لکھنوی شاعری سے ختم ہو چکے تھے لیکن غزل کے خاص موضوع حسن و عشق، سراپائے محبوب اور رندانہ خیالات کا اظہار تھا جیسا کہ ریاضؔ خیرآبادی کے سلسلے میں کہا جا چکا ہے۔ چکبستؔ ، صفیؔ ، عزیزؔ اور مرزا ہادی رسواؔ وغیرہ نے غزل کے مضامین میں وسعت اور تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ یہی حضرات تھے جنھوں نے حسرتؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ سے بھی پہلے غزل کو معنوی آہنگ بخشا اور لطافتِ زبان ( جو لکھنوی شاعری کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہی ہے ) کے ساتھ ساتھ رفعتِ خیال اور ندرتِ اظہار کو بھی غزل کا لازمی جز بنا دیا اور اس معاملے میں یہ سب حضرات لکھنؤ اسکول کے اساتذہ ہونے کے باوجود سبکِ غالبؔ سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں اور اس معاملے میں وہ خود غالبؔ کے وطن کے شاعروں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں اور اگر غالبؔ یہ کہتے ہیں : ؎

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

 

تو چکبستؔ کہتے ہیں کہ: ؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشان ہونا

ملّا صاحب کے سینیر معاصرین میں صفیؔ اور عزیزؔ کا دور ایک ہنگامہ آرائی کا دور ہے۔ اس دور میں لکھنؤ سے باہر سے آ کر لکھنؤ میں بس جانے والے اور خاص لکھنؤ کے شاعروں میں شاعرانہ ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ اس گروہ بندی میں ایک طرف صفیؔ اور عزیزؔ صاحبان تھے اور دوسری طرف یگانہؔ ، بیخودؔ اور افقرؔ موہانی۔ آخر الذکر حضرات لکھنوی نہ ہونے کے باوجود لکھنؤ کا اسی طرح حصہ بن چکے تھے جیسے آتشؔ و ناسخؔ اور لکھنؤ کے لیے باعثِ فخر تھے اور یہ صرف بدقسمتی ہے کہ انھیں یہ احساس رہا کہ اہلِ لکھنؤ انھیں لکھنوی نہیں سمجھتے۔ یہ احساس یگانہؔ چنگیزی میں سب سے زیادہ تھا اور اسی کے تحت انھوں نے عمر میں اپنے سے بڑے لکھنوی شاعروں پر نہ صرف اعتراضات کیے بلکہ غیر شائستہ الفاظ بھی استعمال کیے مثلاً آیاتِ وجدانی کے خود نوشت دیباچے میں حضرت صفیؔ لکھنوی کو خفیؔ اور حضرت عزیز ؔ لکھنوی کو ذلیلؔ کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے اور ان کی یہی انانیت آخر عمر میں ان کی رسوائی کا باعث بنی۔ ان کی تحریروں سے البتہ اس بات کی طرف ضرور دماغ متوجہ ہوئے کہ لکھنویت کے لیے محض لکھنؤ میں پیدا ہونا لازمی نہیں۔ یہاں کے ادبی ماحول میں جو بھی آ کر گھل مل گیا اسے اس سر زمین اور اس کے مکتبۂ شعر کا شاعر سمجھنا چاہیے اور اس لحاظ سے یگانہؔ ، بیخودؔ ، افقرؔ ، آسیؔ وغیرہ حضرات کو بھی اسی طرح لکھنوی سمجھنا چاہیے جس طرح بانیان مکتبۂ لکھنؤ یعنی آتشؔ و ناسخؔ کو لکھنوی سمجھا جاتا ہے۔ باہر سے لکھنؤ آنے والے ان شعرا نے جو سب کے سب اسی سر زمین میں پیوندخاک ہوئے، لکھنوی شاعری کو بہت کچھ دیا جس کو دبستانِ لکھنؤ کی شاعری سے ہٹ کر کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ان شاعروں کے کلام میں بھی وہ سب خصوصیات موجود ہیں جو لکھنوی شاعر کا طرہّ ٔ امتیاز ہیں یعنی زبان کی صفائی و شستگی، تراکیب کی درستی اور ندرتِ بیان۔ ان حضرات کے کلام میں بھی ان کے خالص لکھنوی معاصرین کی طرح معنویت کی طرف زیادہ توجہ ہے اور ان کا کلام بھی رکاکت کے اس الزام سے پاک ہے جن کا نشانہ لکھنوی شاعری بنتی رہی۔ اس عہد کے تمام لکھنوی شعرا، خواہ وہ خالص لکھنوی ہوں یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہوں، کی محبوب ترین صنفِ غزل تھی اور عشق و محبت اس کے خاص موضوع تھے لیکن ان مضامین کے اظہار کا طریقہ انتہائی پر وقار ہو چکا تھا۔ فصاحتِ کلام اور لطافت زبان اس دور کے شعرا کے بھی ہمیشہ پیش نظر رہے لیکن محض زبان کے لیے شعر کہنا یا اس کے لیے خیال کو قربان کر دینا، جو نوابی دور کے آخر میں لکھنؤ میں رواج پا چکا تھا، تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ رعایتِ لفظی اور صناعی کی طرف اب بھی توجہ تھی لیکن محض صنعتوں کے لیے شعر کہنا بند ہو چکا تھا۔ گل و بلبل کی داستانیں اس عہد کی غزل میں بیان ہوتی رہیں لیکن یہ اندازِ بیان اعلا خیالات کو بیان کرنے کے لیے صرف تخیلی اور استعاراتی تھا۔

لکھنوی شاعری کے اس دور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسائلِ روزگار اور معاملات زندگی کو بھی غزل کے پاکیزہ انداز میں بیان کیا جانے لگا اور، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ان مضامین کی ادائیگی کے لیے صنف نظم کو بھی کام میں لانا شروع کر دیا گیا تھا اور اس ماحول میں ملا صاحب کو ایک اچھے غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند مرتبہ نظم گو شاعر ہونے کی حیثیت سے پروان چڑھایا۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے لکھنوی شاعری کے مذکورۂ بالا دور کا آغاز صفیؔ اور چکبستؔ نے کیا لیکن ان سے پہلے مرزا ہادی روسواؔ (۱۸۵۷ء تا ۱۹۳۱ء) اس صنف کو وقار بخش چکے تھے۔ مرزا رسواؔ کو اپنے وقت کا جینیس سمجھنا چاہیے۔ انھیں مختلف علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل تھا اور اگر چہ ان کی شہرت بحیثیت نثر نگار سمجھی جاتی ہے لیکن وہ ایک بلند مرتبہ غزل گو بھی تھے۔ ان کے کلام کے چند نمونے پیش ہیں : ؎

شکووں میں بھی انداز نہ ہو حسنِ طلب کا

ہاں اے دل بیتاب رہے پاس ادب کا

مرزا رسواؔ کے جونیر اور ملّا صاحب کے سینئر معاصر پنڈت برج نرائن چکبستؔ (پیدائش: ۱۸۸۲ء، وفات: ۱۹۲۶ء) نے نہ صرف جدید نظم سے لکھنوی شاعری کو روشناس کرایا بلکہ غزل کو بھی ایک شستہ لہجہ عطا کیا، جس میں زبان کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ خیالات کا وقار بھی شامل تھا جس کے چند نمونے ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں، جن سے بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں لکھنؤ کی شاعری کی ارتقائی شکل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے :

نیا مسلک، نیا رنگِ سخن ایجاد کرتے ہیں

عروس شعر کو ہم قید سے آزاد کرتے ہیں

کچھ ایسا پاسِ غیرت اٹھ گیا اس دور پر فن میں

کہ زیور بن گیا طوقِ غلامی اپنی گردن میں

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو اُنس باقی ہے

مزہ دامانِ مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں

زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا

چکبستؔ کا مجموعۂ کلام ’’صبحِ وطن ‘‘ان کی نظموں پر مشتمل ہے جن میں حب الوطنی، خدمتِ خلق، خواہش معاشرت وغیرہ موضوعات پر ان کی نظمیں ملتی ہیں۔

چکبستؔ کی شاعری (غزل اور نظم دونوں ) اگر جذبۂ وطنیت کی آئینہ دار ہے تو ان کے معاصر صفیؔ (پیدائش: ۳؍ جنوری ۱۸۶۲ء، وفات: ۱۹۵۰ء) کی شاعری پاکیزہ عشق کی کیفیتوں اور ملی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ لکھنوی شاعری میں نظم گوئی کی ابتدا انھوں نے چکبست سے بھی پہلے کی تھی جب جنگِ عظیم کے دوران ان کی مشہور ملی نظم شائع ہوئی جس کے تین اشعار درج ذیل ہیں : ؎

زندہ ہیں اگر زندہ دنیا کو ہلا دیں گے

مشرق کا سرا لے کر مغرب سے ملا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اے جذبۂ اسلامی جس دل میں نہ تو ہو گا

یہ نظمِ صفیؔ پڑھ کر ہم اس کو سنادیں گے

صفی کی نظم گوئی غالباً حالیؔ کی تلقین کے زیر اثر شروع ہوئی اس لیے کہ صفیؔ کے کلام میں خود حالیؔ کا ایک مرثیہ بھی ملتا ہے۔ لیکن صفیؔ نے باقاعدہ ملی نظمیں ۱۹۳۷ء یعنی ملازمت سے رٹائر ہونے کے بعد کہنا شروع کیں۔ ان نظموں میں جو عموماً مسدس کی شکل میں ہیں قومی عناصر کے ساتھ ساتھ ملکی اور سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔ نیز ان میں ان مقامات کی بھی کامیاب تصویر کشی کی گئی ہے جہاں شیعہ پولٹیکل کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ صفیؔ کی زندگی میں یہ نظمیں ’’لختِ جگر‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی تھیں۔ نظموں کے علاوہ صفیؔ کی غزلیں بھی اس معنی میں انتہائی اہم ہیں کہ لکھنوی غزل کو مقصدیت کی طرف موڑنے میں صفیؔ کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ صفیؔ کی غزل کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

ڈر ہے مجھے کہ رشتۂ الفت نہ ٹوٹ جائے

تسبیح سے کشا کشِ زنار دیکھ کر

کوئی زہر پی بھی لیتا تو وہ دل لگی سمجھتے

کوئی جان دے بھی دیتا تو نہ اعتبار ہوتا

مری لاش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں

اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

ان اشعار کا مطالعہ، بقول مرزا جعفر حسین، ان کی زبان دانی، لطفِ بیان، رنگِ تغزل، سلیقہ مندی اور ان کے کمالِ فن کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

عزیز ؔ لکھنوی (پیدائش: ۱۸۸۲ء، وفات: ۱۹۳۵ء) صفیؔ کے شاگرد اور خود مرتبہ استادی پر فائز جوشؔ و اثرؔ کے ایسے عظیم شاعروں کے استاد تھے۔ دبستان لکھنو میں لکھنوی شاعری کی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے غالبؔ کی پیروی کرنے والا انھیں اولین شاعر میں شمار کرنا چاہیے۔ نمونتاً ان کی غزل کے چند اشعار پیش ہیں۔ غزلوں کے علاوہ بحیثیت نظم نگار بھی ان کا پایہ بلند ہے۔ عزیزؔ کے کلام کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے

میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت دیکھی

حیرت فروش جلوہ دلبر کے ہو گئے

بت اک نگاہ پڑتے ہی پتھر کے ہو گئے

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

دل سے باتیں کرنے والے کچھ خبر بھی تجھے

تیرے ہر انداز کو چھپ کر کوئی دیکھا کیا

مرے بعد آنے والے سردھنیں گے جس کے مطلب پر

لکھے جاتا ہوں ایسی بات اک دیوار زنداں پر

 

ثاقب لکھنوی (پیدائش: ۲ ؍ جنوری ۱۸۶۹ء وفات ۱۹۴۶ء) اکبر آباد میں پیدا ہوئے لیکن آبروئے لکھنؤ ہوئے کلام نمونتاً پیش ہے کلیات شائع ہو چکا ہے۔

اک عمر کاٹ دی ہے سوادِ گناہ میں

دھوتا ہوں شب کو بیٹھ کے داماں کبھی کبھی

وہی ذاتِ باری کو پہچانتا ہے

جو اپنی حقیقت کو خود جانتا ہے

گوہرِ مدعا نہیں ملتا

ہم نے دنیا کی خاک چھانی ہے

غنی ہے دل تو شکوۂ سکندری کیا ہے

تجھے خبر نہیں شانِ تونگری کیا ہے

کاظم حسین محشرؔ (متوفی ۱۹۳۳ء بعمر تقریباً اسی سال) عزیزؔ کی طرح قصیدہ گو تھے لیکن غزلیات بھی کہی ہیں جو دیوان کی شکل میں شائع ہوئی تھیں لیکن اب یہ دیوان ناپید ہے۔ نمونتاً چند شعر پیش ہیں۔

بس بس اے مستِ جوانی یہی ارمان تھا بس

کھینچ سکے دل پہ مرقع تری انگڑائی کا

تم کو بیمارِ محبت کی خبر ہے کہ نہیں

نام بدنام نہ ہو جائے مسیحائی کا

ان کے ادراک کی قوت پہ فدائے محشرؔ

مدعا بے کہے سمجھیں جو تمنائی کا

انور حسین آرزوؔ (پیدائش ۱۹۷۲ء، وفات: ۱۹۵۳ء) صحیح معنوں میں آخری استاد جنھیں جملہ فنون شعر، بشمول قواعد و عروض، پر مکمل عبور حاصل تھا اور انشاء اللہ خاں انشاؔ کے بعد پہلے شاعر ہیں جنھوں نے خالص اردو ادب پیش کیا۔ ان کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں :

کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا

وہ میراسمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا وہ کہہ جاتا

اندازۂ سلامتِ عالم نہ پوچھیے

چاروں طرف کے تیر تھے اور اک نشانہ تھا

اس بے وفا سے قاصد اب کیا پیام کہنا

جاتا ہے تو تو اچھا، میرا سلام کہنا

دل ہجومِ ہوس سے نکلا خوب

اور بڑی آن بان سے نکلا

جی میں ادھر ٹھنی ہوئی ادھ موئے ہوکے کیا جییں

اور ادھر یہ بانکپن، مرتے پہ ہاتھ کیا اٹھائیں

ذاخرؔ لکھنوی خاندانی شاعر اور استاد تھے جن کے بیٹے فضل نقوی صاحب خود مرتبۂ استادی پر فائز تھے اور موجودہ دور کے کچھ مشہور شعرا مثلاً کرشن بہاری نورؔ ، شمبھو دیال شفقؔ مرحوم ان کے تربیت یافتہ ہیں۔ ذاخرؔ صاحب کے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں :

اب تک ہے کہاں تو کہ دو عالم سمٹ آئے

وقت آ گیا محشر میں تری جلوہ گری کا

ہے یاد ابھی تک مجھے رفتارِ جوانی

وہ جھوم کے چلنا وہ قدم بے خبری کا

ملّا صاحب کے خالص لکھنوی سینئر معاصرین کا تذکرہ نا مکمل رہے گا اگر منشی نوبت رائے نظرؔ اور ظریفؔ لکھنوی کا ذکر نہ کیا جائے۔ نظرؔ (متوفی ۱۹۲۳ء) ایک چھے غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ مزاج نگار بھی تھے اور ظریفؔ لکھنوی (پیدائش ۱۸۷۰ء، وفات: دسمبر ۱۹۳۷ء) کو تو اکبرؔ الہ آبادی کے بعد اردو زبان کا سب سے بڑا مزاح نگار سمجھنا چاہیے جس نے اکبرؔ ہی کی طرح طنز و مزاح سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لیا۔ نظر کے کچھ سنجیدہ اشعار بطور نمونۂ کلام پیش ہیں :

اس سے بڑھ کر اور کیا ہے سادہ لوحی عشق کی

آپ نے وعدہ کیا اور مجھ کو باور آ گیا

نہ چھیڑ اے ہمنشیں ناکامیِ حسرت کا افسانہ

کہ اب تو بات کرنے سے بھی دل میں درد ہوتا ہے

ابھی اور طول دیتے غمِ عشق کو نظرؔ ہم

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

چھوڑا ہر اک نے ساتھ دمِ جستجوئے دوست

ایک ایک نقش جادۂ منزل میں رہ گیا

زندگی کی کشمکش سے مر کے پائی کچھ نجات

اس سے پہلے اے نظرؔ فرصت کبھی ایسی نہ تھی

 

ظریف لکھنوی کا کلیات ’’دیوانجی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ تبرکاً چند اشعار پیش ہیں :

ہوائے شوق اگر مجھ کو یوں ہی مجبور کرتی ہے

وہاں چل کر کروں گا گشت جو بے خار گلشن ہو

پنہاؤں فکر کو اس حسن سے جامہ ظرافت کا

کشادہ ہر طرف تہذیب کا جس میں کہ دامن ہو

داغ کے درہم و دینار بھرے ہیں جس میں

دل وہ کیونکر ہوا صرّاف کی تھیلی نہ ہوا

عہدِ ملّاؔ کا ابتدائی دور لکھنؤ میں ادبی معرکہ آرائیوں کا دور تھا۔ صفیؔ عزیزؔ ، ثاقبؔ ، آرزوؔ لکھنوی اور خالص لکھنوی تھے لیکن اسی زمانے میں کچھ باہر سے آنے والے شعرا نے بھی لکھنویت کا دعویٰ کیا اور اس کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ لکھنؤ اسکول کی بنیاد ہی باہر سے لکھنؤ آنے والوں نے رکھی۔ اس گروہ کے سربراہ یگانہؔ چنگیزی تھے جو اصل اہلِ لکھنؤکی مخالفت میں دائرۂ تہذیب سے بھی باہر نکل گئے تھے اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے مسلسل حضرت صفیؔ کو حضرت خفیؔ اور جناب عزیزؔ میاں کو ذلیل لکھا ہے بلکہ اگر عرشیؔ لکھنوی کے قول پر اعتماد کیا جائے کیننگ کالج کے مشاعرے میں وہ عزیزؔ صاحب سے یوں مخاطب ہوتے ہیں : ؎

محرومیوں میں گذری ناکامیوں میں گذری

عمرِ عزیز گذری اور خامیوں میں گذری

ان باہر سے آ کر لکھنؤ میں بس جانے والوں میں محمد احمد بیخودؔ موہانی، عبد الباری آسیؔ المدنی کے نام سر فہرست ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ ان سب کو مرتبۂ استادی حاصل تھا اور انھیں مکتبۂ لکھنؤ کے اہم اراکین میں شمار کیا جانا چاہیے اس لیے کہ ان حضرات نے نہ صرف یہ کہ اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں گذاری اور یہیں پیوندِ خاک ہوئے، بلکہ ان کا رنگِ سخن بھی انھیں خصوصیات کا حامل ہے جو ان کے عہد میں رائج ہو کر مقبولیت حاصل کر چکا تھا اور جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر ان حضرات کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ لطفِ زبان، بلندیِ تخیل، داخلی کیفیتوں کا اظہار رمزیہ و استعاراتی پیرایۂ بیان اور سنجدیگی مضامین۔ ان کا مرتبہ بھی کم از کم اتنا ہی بلند ہے جتنا صفیؔ صاحب اور عزیزؔ صاحب کا۔

بیخودؔ موہانی (پیدائش: ۱۸۸۳ء، وفات: ۱۹۴۰ء) اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر بیخودؔ صاحب کو قدرتِ کامل حاصل تھی اور شیعہ کالج میں وہ ان دونوں زبانوں کے استاد تھے۔ کلیات بیخودؔ جس میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے اشعار ہیں، شائع ہو چکا ہے اور ڈاکٹر سکندر آغا کو بیخودؔ پر تحقیقات کرنے پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے مل چکی ہے۔

یہ دل کے داغ ہیں ملتے ہیں جس کو ملتے ہیں

سیاسِ نعمتِ پروردگار کرتا جا

ابھی چمن ہے قفس تو ابھی قفس ہے چمن

نظارۂ چمنِ روزگار کرتا جا

شعلے وہی، بگولے وہی، آندھیاں وہی

کیا مر کے قیس جانِ بیاباں نہیں رہا

بے پردہ ایک دم رخِ جاناں نہیں رہا

پردہ اٹھا تو ہوش میں انساں نہیں رہا

غم و حرماں کی تاریکی زمیں سے آسماں تک ہے

اندھیرا ہی اندھیرا ہے مری دنیا جہاں تک ہے

امنگ کا یہ رنگ ہے ہجومِ رنج ویاس میں

کہ جس طرح کوئی حسیں ہو ماتمی لباس میں

مرزا واجد حسین یگانہؔ چنگیزی (پیدائش ۱۸۸۴ء، وفات: ۴ فروری ۱۹۵۶ء) عظیم آباد میں پیدا ہوئے لیکن لکھنؤ کو وطنِ ثانی بنایا اور یہیں سپرد خاک کیے گئے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ تیکھی طبیعت کی وجہ سے ناکام زندگی بسر کی۔ فطری و شاعرانہ خصوصیات کی مناسبت سے انھیں اردو زبان کا عرفیؔ کہا جا سکتا ہے اور عرفیؔ ہی کی طرح ابو الفضل کے الفاظ میں ’’گلِ استعدادش نشگفتہ پژ مرد‘‘۔ اپنی فطرت کی اسی خامی کی وجہ سے آخری بیس سال کا کلام کھو بیٹھے جسمیں نہ جانے کیا کیا جواہر پارے ہوں گے۔ آیاتِ وجدانی کے عنوان سے اردو اور فارسی کلام شائع ہو چکا ہے۔ چند اشعار نمونتاً پیش ہیں :

 

کششِ لکھنؤ ارے توبہ

پھر وہی ہم وہی امین آباد

جان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں مجھے یاس اہلِ دل

آبروئے لکھنؤ، خاکِ عظیم آباد ہوں

کجا طرز یگانہؔ اور کجا اندازِ بیگانہ

بجا ہے لکھنؤ کو رشک ایسے صاحبِ فن پر

بہارِ لکھنؤ کو خونِ دل سے کس نے سینچا ہے

خدا لگتی بھی کہہ دے گا کوئی پتا زباں ہو کر

منم کہ لکھنؤ جانِ تازہ ای دادم

منم خدا سخن یاسؔ و نا خدائے خودم

جو پہلے درد تھا اب داغ بن کر دل میں روشن ہے

بس اتنا فرق پاتا ہوں ضعیفی اور جوانی میں

افسردہ خاطروں کی خزاں کیا بہار کیا

کنجِ قفس میں مر رہے یا آشیانے میں

یکساں کبھی کسی کی بھی گذری زمانے میں

یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں

امید و بیم نے مارا مجھے دورا ہے پر

کہاں کے دیر و حرم، گھر کا راستا نہ ملا

دل وہی شکستہ دل پھر بروئے کار آیا

عبد الباری آسیؔ الدنی بیخودؔ و عزیزؔ و یگانہؔ کے معاصر تھے اور استادانہ قدرتِ کلام رکھتے تھے۔ چند اشعار ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں :

 

دیکھیے کس کی خطا ہے کس کے سر الزام ہے

موت غفلت کر رہی ہے زندگی بدنام ہے

 

ایک انداز نہیں دوسرے انداز میں آ

آپھر اک بار، مرے شہپرِ پرواز میں آ

مشورہ کس نے دیا تجھ کو کہ پرواز میں آ

قصد آنے کا ہے تو عشق کے آغاز میں آ

یہ تھے چند نمونے اس لکھنوی غزل کے جس کی ابتدا گذشتہ صدی کے آخر میں ہوئی اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عہد میں بھی شاعری پر عموماً اور غزل پر خصوصاً لکھنؤی شعرا کی گرفت اور فوقیت برقرار رہی اور اگر یہ کہا جائے کہ معاصرین اور آئندہ کے لکھنؤ کے باہر کے بزرگ شعرا خصوصاً غزل گویوں نے جو رنگِ سخن اختیار کیا وہ اسی سبک کا چربہ تھا جس کی لکھنؤ میں تخلیق ہوئی تھی متذکرہ اشعار جنھیں مشتے از خروارے سمجھنا چاہیے۔ پوری طرح اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس دور میں وہ قدامت پسندی اور روایت پرستی جو انحطاط پذیر معاشرے کی دین تھی اور جس کی خصوصیات تکلف، تصنع، خارجیت، فرضی ہوس آمیز جذبات کی ترجمان، بے کیفی، حقائق سے گریز اور فرسودہ خیالی ہیں، کے اثرات لکھنوی شاعری سے پورے طور سے ختم ہو کر ایک صحت مند سبک وجود میں آ گیا تھا جس میں فرسودگی خیال کی جگہ علوئے تخیل نے، آورد کی جگہ آمد نے، ہوس آمیز تلذذ کی جگہ عشق کے پاکیزہ جذبات نے، خارجیت کی جگہ داخلی کیفیتوں کے اظہار نے، مبالغہ کی جگہ حقیقت پسندی نے لے لی تھی۔ یہی دور تھا جب اظہار و بیان کی اہمیت کو پورے طور پر محسوس کر لیا گیا تھا اور زبان کی شستگی اور صفائی جس کی ابتدا ناسخؔ کے عہد سے ہوئی اس عہد میں پایۂ تکمیل کو پہنچائی گئی اور اردو وہ اردو بن گئی جس کے بولنے والے کو ہندوستان کے کسی حصے میں بھی محض اس کی زبان سن کر پتا لگا لیا جاتا تھا کہ وہ لکھنؤ کا باشندہ ہے اور راقم الحروف کو خود اس کا تجربہ کلکتہ میں ہوا جب ایک معمولی قصاب نے محض لہجہ کی بنا پر مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں لکھنؤ کا رہنے والا ہوں۔ جادۂ ملّا کے دیباچے میں خلیق انجم صاحب نے نشان دہی کی ہے کہ ملّا صاحب سے پہلے چکبستؔ ایسے شاعر تھے جن کی شاعری میں ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ میں اس قول میں یہ اضافہ کرنے کی جسارت کروں گا کہ نظم گوئی کا یہ رجحان جس کی طرف خلیق انجم صاحب نے اشارہ کیا ہے، چکبستؔ کے علاوہ ان کے دوسرے لکھنوی معاصرین میں بھی ملتا ہے چناں چہ اس وقت بھی صفیؔ کے کلام میں نظموں کے اشعار کی تعداد غزلوں کے اشعار کی تعداد سے زیادہ ہے اور لخت جگر میں شامل چوبیس نظموں کے علاوہ جو شیعہ پولٹیکل کانفرنس کے اجلاسوں میں پڑھی گئیں ان کی دوسری نظمیں آغوشِ مادر، محبت، چراغ دیر، عقد پروین، بسنت مالتی، ہفت خواں اردو، آہنگ حجازی، وغیرہ بھی موجود ہیں جو مختلف اصنافِ سخن میں کہی گئیں۔ یہی کچھ حال عزیزؔ لکھنوی کی شاعری کا بھی ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت خوب صورت نظمیں ملتی ہیں۔ ان کے علاوہ دائرہ ادب (جس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا) کی نشستوں کے لیے بھی مختلف شعرا نے متعدد نظمیں کہیں۔

گذشتہ صفحات میں لکھا جا چکا ہے کہ اصلاح زبان اور مروجہ شعری ذوق کو سدھارنے میں صفی کا بڑا حصہ ہے اور اسی کام کے لیے انھوں نے ۱۳۱۲ھ ؍ ۱۸۹۰ء میں دائرۂ ادبیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت مشاعرہ، مناظمہ، مناثرہ کی ماہانہ نشستیں ہوتی رہتی تھیں۔ مشاعروں میں مصرعِ طرح کے بجائے قافیہ، ردیف اور بحر کا نام دے دیا جاتا تھا اور نظم و نثر کی نشستوں کے لیے مضمون کا عنوان دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس اصلاحی تحریک میں دوسرے لوگ مثلاً آغا بابر، نوبت رائے نظر، منے مرزا شر رؔ ، مرزا ہادی عزیزؔ ، کاظم حسین محشر، حکیم ناطقؔ ، مرزا رسواؔ منشی سجاد حسین وغیرہ بھی شامل ہو گئے اور اس کی نشستوں میں مرزا ثاقب فریدون مرزا مجروحؔ ننھو صاحب شفیقؔ ڈاکٹر متین قزلباش وغیرہ بھی شریک ہونے لگے اور اس نے لکھنو کی پہلی ادبی انجمن، انجمنِ معیار الادب کی شکل اختیار کر لی جس کا نقیب رسالہ ’’معیار‘‘ تھا جس کی ادارت کی ذمہ داری عزیز ؔ لکھنوی کو سونپی گئی۔ یہ دور ملّا صاحب کے بچین کا دور تھا اور لکھنو کی کیفیت یہ تھی کہ یہاں کا بچہ بچہ شعر کہہ رہا تھا۔ متذکرہ بالا اساتذہ کے علاوہ بیسوں دوسرے شاعر اور اہل قلم اس ادبی انجمن کے جلسوں اور مشاعروں میں دیکھے جاتے تھے جن میں ذاخرؔ لکھنوی، رازؔ لکھنوی، عالمؔ لکھنوی کو استادانہ وقار حاصل تھا اور آخر الذکر فنِ تاریخ گوئی میں یگانۂ عصر سمجھے جاتے تھے۔ انجمن کی شعری نشستوں میں آداب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر شاعر اپنے مرتبے کے مطابق نشست میں اپنا مقام خود متعین کر لیتا تھا۔ مصرعوں کو اٹھانا تہذیب مشاعرہ میں داخل تھا اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر کسی نو مشق سے کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو مصرعہ اٹھانے ہی کے دوران کوئی نہ کوئی استاد شعر یا مصرعے کو درست کر دیا کرتا تھا۔

انجمن معیار الادب جلد ہی نا اتفاقیوں کے نذر ہو گئی جس کا خاص سبب عزیزؔ لکھنوی کا صفیؔ لکھنوی سے منحرف ہو جانا تھا۔ معیار الادب کے خاتمے سے بھی لکھنو کی ادبی فضا پر کوئی اثر نہ پڑا۔ معیار الادب میں اصلاحِ زبان و بیان کی طرف جو قدم اٹھایا گیا تھا وہ بار آوار ہو چکا تھا۔ معیار الادب کے خاتمے کے بعد ایک دوسری اہم انجمن معین الادب ظہور میں آئی جس میں انجمن معیار الادب کے سینئیر ممبروں کے علاوہ انھیں اساتذہ کے ابھرتے ہوئے شاگردوں نے بھی اہم حصہ لینا شروع کیا۔ سر تیج بہادر سپرو اس انئی انجمن کے سر پرست تھے، مولانا صفیؔ صدر اور بہارؔ لکھنوی سکریٹری اور اس کے نوجوان ممبروں میں حکیم آشفتہؔ ، آل رضا ایڈوکیٹ، قدیرؔ لکھنوی، سراجؔ لکھنوی، منظرؔ لکھنوی، تپشؔ لکھنوی، بدر الحسن، بدرؔ فعال ہستیاں تھیں۔ آخر میں ان حضرات سے نوجوان تر حضرات مثلاً عمر انصاری، سالکؔ لکھنوی، ارمؔ لکھنوی وغیرہ بھی معین الادب کی نشستوں میں شرکت کرنے لگے اور انجمن کے باقاعدہ ممبر بنا لیے گئے۔ یہ مشاعرے تمام تر طرحی مشاعرے ہوتے تھے جنمیں لکھنو کے شاعروں کے علاوہ باہر کے اساتذہ بھی شرکت کرتے تھے۔ ایسی نشستوں میں عموماً سات یا نو قافیے متعین کر دیے جاتے تھے۔ جن میں غزلیں کہی جاتی تھیں۔ مطلع کے لیے علاحدہ قافیہ مخصوص ہوتا تھا۔ معیار الادب کے برخلاف معین الادب کی طرف سے مشاعروں کے گلدستہ شائع نہ ہو سکے۔ معین الادب کے نئے شرکا یعنی حکیم آشفتہؔ ، منظرؔ ، قدیرؔ ، سراجؔ ، شمسؔ وغیرہ نے جلد ہی معراج الادب کے اندر اپنا ایک گروہ قائم کر لیا جو ’’ینگ پارٹی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ یہ حضرات مشاعروں میں ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے اور مشاعروں پر چھا جانے کی کوشش کرتے تھے کچھ ہی زمانے کے بعد یہ ’’ینگ پارٹی‘‘ کسی شکایت کی بنا پر معین الادب سے علاحدہ ہو گئی اور انھوں نے انجمنِ معراج الادب قائم کر لی لیکن علاحدہ ہونے کے بعد بھی دونوں گروپوں میں تعلقات خوشگوار رہے۔ بہار صاحب کے بعد معین الادب اور معراج الادب کے پھر متحد کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ایک نئی انجمن ’’بہار ادب‘‘ وجود میں آئی لیکن معین الادب کے بعض ممبروں مثلاً عزیز لکھنوی، آفتاب لکھنوی، ذاکر لکھنوی، حکیم مجن صاحب ادیبؔ وغیرہ کو یہ سمجھوتہ پسند نہ آیا اور انھوں نے انجمن معین الادب کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور انجمن کو فعال رکھنے کے لیے سید نواب افسرؔ اور عمرؔ انصاری کی خدمات حاصل کی گئیں۔ چنانچہ ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا اور ایک رسالہ ’’معیار‘‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی ذمہ داری سید نواب افسرؔ ، عمر انصاری اور فضل نقوی کے سپرد ہوئی۔ بہرحال کچھ عرصے کے بعد اس باقی ماندہ معین الادب کے ممبران بھی بہار ادب میں شریک ہو گئے جس کے بعد پنڈت آنند نرائن ملّا کو اس کا جنرل سکریٹری بنایا گیا اور عمرؔ انصاری اور قدیرؔ لکھنوی اس کے سکریٹری ہوئے اور صفیؔ صاحب بدستور صدرِ انجمن رہے اور جہاں تک ذہن کام کرتا ہے سید نواب افسرؔ صاحب شعرائے لکھنو میں اپنا مقام بنا چکے تھے اور بہار ادب کے فعال ترین ممبروں میں تھے اور انجمن کے ایک سال وہ سکریٹری ہوئے تھے اور دوسرے سال سید آل رضا صاحب رضاؔ اور جب بھی سکریٹری بدلتا تھا انجمن کی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی تھی۔ چنانچہ اسی زمانہ کی یادگار وہ مشاعرے ہیں جن میں ایک محفل شعر و نغمہ کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرا دریائی مشاعرہ۔ محفلِ شعر و نغمہ کا انعقاد قیصر باغ کی سفید بارہ دری میں آل رضا صاحب کی سکریٹری شب کے دوران ہوا اور ہندوستان بھر کے مشہور شاعر اور اساتذہ کو دعوتِ سخن دی گئی۔ ایک رات بارہ دری میں عظیم الشان مشاعرہ ہوا جو ادبی حیثیت سے اپنا جواب نہ رکھتا تھا اور دوسری رات محفل نغمہ منعقد ہوئی جس میں پہلی رات کی معرکۃ الآرا غزلوں کو معروف گانے والیوں نے نغمے کی شکل میں پیش کیا۔ دریائی مشاعرہ ۱۹۳۲ء یا ۱۹۲۳ء میں ملّا صاحب کی سکریٹری شپ کے دوران منعقد ہوا۔ گرمی کا موسم تھا۔ گومتی کی پانی کی سطح پر پل بنانے والے پیپوں پر مشاعرے کا پنڈال بنایا گیا اور مشاعرہ گاہ کو موٹے رسوں سے کنارے پر میخوں سے باندھا گیا۔ موسم کی رعایت سے اہل محفل کی ضیافت بالائی برف کے آبخوروں سے کی گئی تھی۔ مشاعرہ گاہ کے بھرتے ہی رسے کھول دیے گئے اور مشاعرے کا پنڈال گومتی کی سطح پر نظر آنے لگا۔ لکھنو کے شعراء میں آل رضا، حکیم آشفتہؔ ، سراجؔ لکھنوی، قدیرؔ لکھنوی، منظر لکھنوی، عمرؔ انصاری، احسن طباطبائی، منے آغا ذکیؔ ، ارمؔ لکھنوی، تپشؔ لکھنوی، ہزارؔ لکھنوی، بدرؔ لکھنوی، عرشیؔ لکھنوی وغیرہ نے اپنی کامیاب غزلوں سے مشاعرے کو ایک عظیم الشان ادبی اجتماع بنا دیا تھا۔ اس مشاعرے کا طرحی مصرعہ تھا ع

دریا کی روانی ہے، بہتا ہوا پانی ہے

بہار ادب کے مشاعرے لکھنو کے اہم شعرا اور روسا کے مکانوں پر منعقد ہوا کرتے تھے اور صرف اہل ادب تک محدود رہتے تھے لیکن متذکرہ دونوں مشاعروں نے خواص کے علاوہ عوام کو بھی ان میں شرکت کا موقع دیا تھا اور اس لحاظ سے ہندوستان میں بھی عوامی مشاعروں کی ابتدا قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہار ادب کے بعد فردوس ادب نے لکھنوی شعری روایت کو برقرار رکھا اور اس انجمن کے وہ اشعار یقیناً یادگار ہیں جو یومِ ناسخؔ ، یومِ آتشؔ ، یومِ خواجہ وزیرؔ ، یومِ چکبستؔ اور یومِ آسیؔ کے نام سے موسوم مشاعروں میں پڑھے گئے لیکن بہار ادب کا اصل کارنامے وہ نعتیہ مشاعرے ہیں جو گیارہویں اور بار ہوئیں ربیع الاوّل کے درمیانی شب کو امین آباد پارک میں منعقد ہوا کرتے تھے اور جن کے تتبع میں ہندوستان بھرمیں نعتیہ مشاعروں کا رواج ہوا۔ خصوصی ادبی نشستوں کو عوامی مشاعرہ بنانے میں فردوسِ ادب کے ان نعتیہ مشاعروں کو بھی بڑا دخل ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ کے گلی کوچے شعر و نغمے سے گونج رہے تھے۔ خواہ ہندو، خواہ مسلمان، ہر ایک کی زبان اردو تھی اور متذکرہ معروف انجمنوں کے علاوہ ہر پڑھے لکھے انسان کا مکان (خواہ وہ مولانا سبط حسن صاحب یا مفتی عنایت اللہ صاحب کے ایسے عالمانِ دین ہی کا کیوں نہ ہوں ) ہر گلی اور سڑک کا چائے خانہ اور ہر اسکول اور کالج ادبی مرکز بن چکا تھا۔ چناں چہ اس عہد کے امیر الدولہ اسلامیہ انٹر کالج، گورنمنٹ جوبلی انٹر کالج شیعہ انٹر کالج اور لکھنؤ یونیورسٹی ایسے ایسے مشاعرے ہو گئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ یہ مشاعرے آج کل کے عوامی مشاعروں کی طرح Cultural get togetherنہیں ہوا کرتے تھے بلکہ خالص ادبی محفلیں ہوتی تھیں جن میں شعرا مخصوص مصرع ہائے طرح میں کلام پیش کرتے تھے۔ چناں چہ ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۳ء میں جوبلی کالج میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں محضرؔ لکھنوی کی اس طرحی مطلع نے محفل لوٹ لی: ع

مے زیست ساقی نے دی اور سوا دی

مگر اک ذرا تلخیِ غم ملا دی

اسی طرح ۱۹۴۰ء میں شیعہ کالج میں منعقد ہونے والا طرحی مشاعرہ جہاں تک یاد پڑتا ہے (جس میں ساغرؔ نظامی، سیماب اکبر آبادی نے بھی شرکت کی تھی ) میں بیخودؔ موہانی کی درج ذیل مطلع سے شروع ہونے والی غزل حاصلِ مشاعرہ قرار پائی: ع

ارم میں بھی مگر گل کی پریشانی نہیں جاتی

کہیں اہلِ جنوں کی چاک دامانی نہیں جاتی

اسی طرح اسلامیہ کالج کے مشاعرے اپنی ہمہ گیری کی وجہ سے تمام ہندوستان میں مشہور تھے جن میں شرکت کو ہر بڑا شاعر اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا اور اس وقت کے ہندوستان گیر شہرت کے تمام شاعر بشمول سیمابؔ ا کبر آبادی، حفیظؔ جالندھری، جگرؔ مرادآبادی، روشؔ صدیقی، احسانؔ دانشؔ شریک ہوا کرتے تھے۔ مخصوص نشستوں میں وکٹوریہ اسٹریٹ (موجودہ تلسی داس مارگ) پر حکیم آشفتہؔ صاحب کا مطب، چوک میں خواجہ عبد الرؤف عشرتؔ صاحب کی کتابوں کی دکان اور بعد کو امین آباد میں عمر انصاری کا مکان ادبی مراکز بنے ہوئے تھے۔ آشفتہؔ صاحب کے دوا خانے کیمیائے اودھ کے سامنے فٹ پاتھ پر پانی چھڑک کر کرسیاں ڈال دی جاتی تھیں اور وہاں اس عہد کے تمام سربرآوردہ شاعر مثلاً سراجؔ لکھنوی، شمس لکھنوی، قدیرؔ لکھنوی، آل رضا رضاؔ ، ارمؔ لکھنوی اور ملّا صاحب اکثر و بیشتر نظر آتے تھے۔ منظرؔ لکھنوی آشفتہؔ صاحب کے اس دوا خانے کا حساب کتاب دیکھتے تھے اور روز ہی ان محفلوں میں شریک رہتے تھے۔ ان نشستوں میں مشاعروں پر تبصروں کے علاوہ علمی اور شعری مسائل پر گفتگو رہتی تھی۔ حکیم صاحب کے حیدر آباد چلے جانے کے بعد وہ علاقہ ایسے نشستوں سے کچھ عرصے محروم رہا لیکن بعد کو کاظم حسین صاحب نے ایک چائے خانہ کھول دیا جو دوا خانہ کیمیائے اودھ کے تقریباً سامنے تھا اور اب اس قسم کی نشستیں اس چائے خانے کے سامنے فٹ پاتھ پر منعقد ہونے لگیں جہاں سراجؔ ، منظرؔ، نہالؔ ، سالکؔ اور ان کے شاگردوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ خواجہ عشرتؔ کی کتابوں کی دکان زبان کی نزاکتوں پر بحث کا مرکز تھی۔ ابھی وہ زمانہ باقی تھا جب چوک کی طوائفیں تہذیب کی پتلیاں سمجھی جاتی تھیں جہاں آدابِ محفل سیکھنے کے لیے روسا اپنے بچوں کو بھیجا کرتے تھے۔ ان طوائفوں کا ادبی مذاق بے حد ستھرا ہوا کرتا تھا۔ چناں چہ ایک واقعہ ہے کہ عشرتؔ صاحب کی دکان پر ادیبوں میں کسی لفظ کی تذکیر و تانیث پر بحث ہو رہی تھی۔ فیصلہ یہ ٹھہرا کہ چودھرائن، جن کا کوٹھا عشرتؔ صاحب کی دکان کے سامنے تھا، ان کی رائے معلوم کی جائے۔ مسئلہ چودھرائن کے سامنے پیش ہوا جنھوں نے کسی معتبر استاد کا ایک شعر سند میں پید کر دیا اور فیصلہ ہو گیا۔

لکھنؤ میں فکاہی ادب بھی سنجیدہ ادب کی دوش بدوش ترقی کر رہا تھا۔ ظریفؔ لکھنوی کا ذکر کیا جا چکا تھا۔ ظریفانہ شاعری کے علاوہ انھوں نے تفریح الاحباب کلب بھی کھولا تھا جس میں علمی مباحثے ہوتے تھے۔ ظریف کے جونیر معاصرین میں ماچس لکھنوی اور منور آغا مجنوں بلند پایہ ہازل تھے۔ چناں چہ ماچس کا مندرجہ ذیل شعر کا ذکر مولا عبد الماجد صاحب کے اخبار صدق تک میں آ گیا: ؎

شیخ آئے جو محفل میں تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

اسی ہزل کا دوسرا ایک شعر یہ ہے ؎

ماں باپ بہن بھائی سب آئے ہیں مرے گھر

اب گھر مری سسرال ہے سسرالی ندارد

منور آغا مجنوں کے اشعار بھی بلند پایہ ہوا کرتے تھے مثلاً ؎

ڈرے وہ کیا بلائے ناگہاں سے

جسے ہو سابقہ ننھے کی ماں سے

نہیں ڈرتا ہے مجنوں کوئی کہہ دے

فلاں بنتِ فلاں بنتِ فلاں سے

ماچس صاحب نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انجمن ظریف الادب قائم کی تھی جس کی باقاعدہ نشستیں ہوا کرتی تھیں چناں چہ ایسی ہی ایک نشست میں ناوکؔ لکھنوی نے یہ شعر بھی پڑھا تھا جس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنؤ میں کس حد تک زبان پر توجہ دی جاتی تھی،

بیٹھے ہوئے ہیں لوگ کندیں لیے ہوئے

پھسلی ذرا زبان کہ اہلِ زباں پھنسے

لکھنوی فکاہی ادب کا ذکر آفتابؔ لکھنوی اور ناظر حیاتی کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ ان دونوں حضرات نے لکھنوی زبان اور لطیف ظرافت کو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔

۱۹۴۷ء کے بعد اردو مقہور ہو گئی۔ اسکولوں، کالجوں سے بیک جنبشِ قلم اسے ختم کر دیا گیا۔ اس وقت ان مجاہدین میں جنھوں نے اردو کے لیے زبان و قلم استعمال کیا، فراقؔ گورکھپوری کے ساتھ آنند نرائن ملا بھی شامل تھے۔ اس دور میں اردو کی جڑ پر کلہاڑی چل چکی تھی لیکن شاخیں ہنوز تر و تازہ تھیں۔ بہار ادب ختم ہو چکی تھی لیکن فردوسِ ادب زندہ تھی مگر اس کی محفلیں صرف نعت گوئی تک محدود تھیں۔ بہارِ ادب کے خلا کو ایک نئی انجمن بزم شعرا نے پر کیا جس کی تشکیل میں حبیب احمد صاحب صدیقی آئی۔ اے۔ ایس، سید صدیقی حسن صاحب آئی۔ سی۔ ایس، جعفر علی خاں اثر، سروش طبا طبائی وغیرہ نے اہم حصہ لیا۔ ملّا صاحب کا بھی اس انجمن کو پورا تعاون حاصل تھا۔ انجمن میں کوئی عہدہ نہیں تھا صرف ایک کنوینر ہوا کرتا تھا جو مختلف صاحبِ ذوق حضرات کے مکانوں پر نشستوں کا اہتمام کرتا تھا۔ ابتدا میں امین سلونوی صاحب اس فرض کو انجام دیتے تھے لیکن بعد میں عمرؔ انصاری کنوینر ہو گئے۔ بزم شعرا کی نشستیں بھی طرحی نشستیں ہوتی تھیں جن کے لیے عموماً دو مصرعے بطور طرح دیے جاتے تھے۔ مشاعرے دن کو دو بجے شروع ہوتے تھے اور وقت کی پابندی کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا اور محفل میں ابتدا سے لے کر آخر تک بیٹھنا بھی آداب میں شامل تھا۔ لکھنؤ کا بڑے سے بڑا آدمی خواہ وہ منسٹر ہو یا اعلیٰ افسر یا ڈاکٹر یا رئیس بزم شعرا کا اہتمام کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔ بزم شعرا کی کچھ نشستیں وزیرِ اعلیٰ سمپورنانند کی قیام گاہ پر بھی منعقد ہوئیں جس میں حافظ ابراہیم بھی شرکت فرماتے رہے۔ شرکائے بزم میں صرف انھیں شاعروں کو کلام پیش کرنے کی اجازت ہوتی تھی جنھیں اصلاح کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یہ نشستیں چلتی رہیں لیکن ان میں جو شاعر کم ہوتا گیا اس کی جگہ پر نہ ہو سکی۔ صدیق صاحب کا انتقال ہو گیا، حبیب احمد صاحب پاکستان چلے گئے، سنہا صاحب کا لکھنؤ سے تبادلہ ہو گیا، ملّا صاحب مستقلاً دہلی چلے گئے۔ اردو کی تعلیم ختم ہونے کے سبب ان حضرات نے جو جگہیں خالی کی تھیں وہ پر نہ ہو سکیں لیکن پھر بھی غلام حسین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، ذوالنورین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، اتھر حسین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، سبطین صاحب آئی۔ ایف۔ ایس، جسٹس مرتضیٰ حسین کے دروازے بزم شعرا کی نشستوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ اس دور میں کنوینر تو عمر انصاری ہی رہے لیکن راقم الحروف اور ڈاکٹر کیسری کشور مرحوم ان نشستوں کے اہتمام میں پیش پیش رہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو کی سرکاری سطح کے خاتمے کے اثرات شعراء اور سامعین کی کمی کی شکل میں نظر آنے لگے اور لکھنؤ کی ہر انجمن کی طرح بزم شعرا کی نشستیں بھی پھیکی پڑنے لگیں۔ بہر حال اردو میں دل چسپی قائم رکھنے اور بزم شعرا کی نشستیں برقرار رکھنے کے لیے اصولوں میں نرمی برتنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے نتیجہ میں طرحی نشستوں کے بجائے غیر طرحی نشستیں منعقد ہونا شروع ہوئیں جن میں کہنہ مشقوں کے علاوہ نوواردانِ ادب کو بھی شرکت کی اجازت دی جانے لگی۔ بزم شعرا کے ساتھ ساتھ ایک دوسری انجمن ادارۂ شعر و ادب بھی مغربی لکھنؤ میں فعال تھی۔ ابتداً اثر لکھنوی اس کی سرپرستی فرماتے تھے اور رہبرؔ لکھنوی اس کے اصل کار کرتا تھے لیکن ان دونوں کے انتقال کے بعد پر بھان شنکر سروش انادی اس کے سرپرست بنے اور ان کے انتقال کے بعد ’’قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند‘‘ کے مصداق اب مجھے اور پروفیسر شبیہ الحسن نوبزوی کو اس کا سرپرست بنایا گیا ہے۔ حکیم شاربؔ لکھنوی اس کے صدر ہیں اور ڈاکٹر مصطفیٰ فطرتؔ اس کے سکریٹری۔ اردو دانوں کی تعداد گھٹنے کی وجہ سے انجمن کا حال بھی بزم شعرا ہی کا ایسا ہے اور اس میں بھی طرحی نشستوں کی جگہ غیر طرحی نشستوں نے لے لی ہے۔

خدا ملّا صاحب کو اور طول زندگانی عطا فرمائے، ان کا عہد ایک طویل عہد ہے جس میں صفیؔ لکھنوی سے لے کر آج کا نوجوان شاعر بھی ملّا صاحب کا معاصر ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ ملا صاحب کے سینئر معاصرین کا ذکر کیا جا چکا۔ ان کے ہم عمر معاصرین میں وہی لوگ ہیں جو انجمن معین الادب میں ’’ینگ پارٹی‘‘ کے ممبر تھے۔ ان تمام حضرات نے بشمول ملا صاحب اپنے بزرگ معاصرین کی اصلاحات اور رجحانات سے فائدہ اٹھایا اور ان کی قائم کردہ غزل کی تندرست روایات کو برقرار رکھا۔ ان لوگوں کے کلام میں صفیؔ کی متانت، عزیزؔ کی علوِ فکر، یگانہؔ کا تیکھا پن، بیخودؔ کا سوز وگداز اور حسین طرزِ ادا اور آزادؔ کی زبان کی شیرینی اور لطافت بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ داخلی کیفیات اور جذبات کی ترجمانی اور خالص غزل کی لطافت بھی ان شعرا کا طرّہ امتیاز ہے اور اس معنی میں وہ ہندوستان کے دوسرے مشہور غزل گویوں سے کسی طرح کم نہیں اور جہاں تک زبان کا تعلق ہے ان سے بڑھ کر ہیں۔ جہاں تک نظم کا تعلق ہے خود ملا صاحب نے اس صنف کو وقار بخشا اور خوبصورتی کے ساتھ بخشا لیکن لکھنو اسکول ہی سے متعلق عزیزؔ لکھنوی کے شاگرد جوشؔ ملیح آبادی (۱۸۹۰ء تا ۱۹۸۲ء) نے اتنی شاندار نظمیں کہیں کہ انھیں نہ صرف اردو زبان کا بلکہ بر صغیر کا دوسرا سب سے بڑا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ جوشؔ کے علاوہ مجاز رودولوی (متوفی ۱۹۰۰ء) جن کی تمام عمر لکھنو میں گزری اور یہیں سپردِ خاک ہوئے، ملا صاحب کے دوسرے معاصر نظم گو ہیں جن کی نظموں نے انھیں بھی جوشؔ کی طرح زندگانی دوام عطا کر دی۔ ان دونوں عظیم نظم گویوں کے کامیاب نظم گو بننے میں بہت کچھ دخل ان کی زبان کا ہے جو لکھنؤ کی دین ہے۔ اس دور کے تقریباً تمام اہم شعرا وہ حضرات ہیں جو اپنے سے بزرگ تر شاعروں کے شاگرد اور ان سے فیض اٹھانے والے ہیں۔ چناں چہ اثرؔ ، حکیم آشفتہؔ ، جوش سب عزیز کے شاگرد ہیں اور ان سے جونیروں میں عمر انصاری بھی گلستانِ عزیز ہی کے ایک پھول ہیں۔ اگر چہ ملا صاحب خود کسی کے شاگرد ہونے کا ذکر نہیں کرتے لیکن ان کے ایک قریبی معاصر کے بقول وہ بھی کبھی کبھی صفیؔ صاحب سے مشورہ کیا کرتے تھے (خدا جانے اس میں کتنی حقیقت ہے )۔ اس دور کے یعنی ملّا صاحب کے ہم عمر معاصرین کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی انور حسین آرزو کے علاوہ لکھنو کے سب سے بڑے زبان داں اور استاد تھے۔ا علا عہدوں پر متمکن رہے اور نہایت قابل احترام شخصیت کے مالک تھے۔ اثرؔ کی غزلوں کے علاوہ ان کے منظوم ترجمے بھی اردو زبان و ادب کا قیمتی اثاثہ بن گئے۔ ان کے چند شعر پیش ہیں۔ اثر ستان، بہاراں اور نو بہاراں تین مجموعۂ کلام شائع ہو چکے ہیں۔

عدم سے دارِ فانی میں دل مشکل پسند آیا

مسافر کو خیالِ دوریِ منزل پسند آیا

جہاں معمور ہے جلوؤں سے لیکن کیا تماشا ہے

نگاہِ ذوق پیما کو دلِ بسمل پسند آیا

منشا نہیں کچھ اور پریشاں نظری کا

آئینہ ہے مشتاق تیری جلوہ گری کا

چشم مخمور! سچ بتا دل کو

تونے توڑا کہ آپ ٹوٹا ہے

اک آن میں با رونق اک آن میں ویرانہ

آئینہ ہستی ہے میرا دل دیوانہ

جھنکار ہے شیشوں کی یا ٹوٹے ہوئے دل ہیں

لوٹے لیے جاتے ہو تم رونقِ میخانہ

 

حکیم سید علی آشفتہؔ خاندان اجتہاد کے فرد، خاندان فرنگی محل کے عزیز ترین دوست، راقم الحروف کی چچاؤں کے محترم دوست اور خود راقم کے انتہائی مشفق بزرگ، لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر، حکیم حاذق تھے۔ لکھنؤ میں حالات خراب ہونے کے بعد حیدر آباد چلے گئے تھے اور نظامیہ طبیہ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ افسوس ہے کہ انتہائی قرب کے باوجود آشفتہؔ صاحب کے زیادہ اشعار نہ جمع کر سکا۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں : ؎

بھرم کھودیا ورنہ موسیٰ سے زائد

ہم اپنے میں تاب نظر دیکھتے

اللہ ری کوہکن تری بیدار مغزیاں

وحشت میں بھی خیال رسوم و قیود تھا

آتی ہے درس گاہِ محبت سے یہ صدا

موج جہاں میں صرف وفا بے وجود تھا

لو انھیں شاخوں میں جھولے جھولتی ہیں بجلیاں

جو مجھے سونپی گئی تھیں آشیا نے کے لیے

طور و موسیٰ سے عیاں نیرنگِ جذب حسن ہے

ایک تو بیخود ہوا اور اک سراپا جل گیا

 

جعفر حسین منظرؔ لکھنوی انتہائی شریف النفس، نرم گفتار اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کا تعلق بھی اسی ’’ینگ پارٹی‘‘ سے تھا جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام منظر ستاں کے چند منتخب اشعار پیش ہیں۔ خالص تغزل دیکھیے : ؎

خونِ دل ہوتا ہے جل جل کے رگوں میں پانی

جب کہیں آنکھ کو اک اشک بہم ہوتا ہے

آئے ہیں میت پہ تو شوخی سے یہ کہتے ہوئے

مرگیا بیمار اور یہ چارہ گر دیکھا کیے

کس کا کوچہ ہے، آ گیا ہوں کہاں

یاں تو کچھ نیند آئی جاتی ہے

بیخود ایسا کیا خوف شبِ تنہائی نے

صبح سے شمع جلادی ترے سو دائی نے

حسب منشا دلِ پر شوق کی باتوں کا جواب

دے دیا شرم میں ڈوبی ہوئی انگڑائی نے

 

امۃ الفاطمہ مخفی ؔ لکھنوی (۱۹۰۲ء تا ۱۹۵۳ء) پردہ نشیں خاتون تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر گئیں۔ پختہ کلام شاعرہ تھیں۔ نمونۂ کلام پیش ہے۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔

وسعتِ دل ارے معاذ اللہ

ساری دنیا سمائی جاتی ہے

پردہ ہے اک بقا کا، راز فنا نہ پوچھو

مر کر بھی ساتھ ہم سے چھوٹا نہ زندگی کا

خدا کے بھروسے پہ چھوڑی ہے کشتی

نہ گرداب دیکھا، نہ طوفاں دیک

وہ چھپنا ترا پردۂ رنگ و بو میں

وہ ہر رنگ میں میرا پہچان جانا

وفا ابتدا ہے وفا انتہا ہے

خلاصہ ہے بس یہ مری داستاں کا

 

حکیم دانشؔ اثر ؔ لکھنوی کے خاص ملنے والے تھے اور انھیں کے یہاں نشست رہتی تھی۔ بہت غربت میں زندگی بسر کی لیکن وضعداری میں فرق نہ آنے دیا۔ آخر عمر میں نا بینا ہو گئے تھے۔ اسی عہد کا یہ شعر ہے جس نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا:

دیکھ سکتا ہوں نہ ساقی کو نہ میخانے کو

آخری دور ہے، بھر دے کوئی پیمانے کو

دانشؔ کے چند شعر اور پیش ہیں : ؎

پیش نظر تھی تفرقہ پردازیِ فلک

تم کو کبھی گلے بھی لگایا تو آہ کی

دکھوں میں ترا جلوہ کس جا نظر آتا ہے

آنکھ اٹھتی ہے جس جانب پردا نظر آتا ہے

میخانے کا دروازہ کیوں بند ہوا اے واعظ

ہر وقت در تو بہ جب وا نظر آتا ہے

 

سراج الحسن سراجؔ ملا صاحب کے تقریباً ہم عمر اور عزیز دوست اور مداح۔ متذکرہ ’’ینگ پارٹی‘‘ کے ایک اہم کارکن۔ مجموعۂ کلام ’’شعلۂ آواز‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ چند اشعار نمونتاً پیش ہیں : ؎

اک مسلسل خوابِ بیداری میں کٹ جاتی ہے رات

نیند آئے یا نہ آئے سو رہا کرتے ہیں ہم

نذر غم شاید ہر اشک خونچکاں کرنا پڑے

کیا خبر کتنی بہاروں کو خزاں کرنا پڑے

دیا ہے درد تو رنگِ قبول دے ایسا

جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے

یہ آدھی رات، یہ کافر اندھیرا

نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے

نہ پی سکو تو ادھر آؤ، پوچھ دوں آنسو

یہ تم نے سن لئے اس دل کے سانحات کہاں

 

ابوالفضل شمسؔ لکھنوی سراجؔ و آشفتہؔ کے ساتھیوں میں تھے۔ مرتبۂ استادی پر فائز تھے۔ لائق شاگردوں کی جماعت اب بھی موجود ہے جو ایک ادبی انجمن بزم شمس چلا رہے ہیں۔ شمسؔ صاحب کے شاگردِ رشید اسلم لکھنوی خود بھی استادوں میں شمار ہوتے تھے۔ چند شعر نمونتاً پیش ہیں : ؎

اٹھے جو لطف دید تو باہم و گر اٹھے

ان کی نظر کے ساتھ ہماری نظر اٹھے

طے کی ہیں گرد راہ کی صورت مسافتیں

بیٹھے ہیں اٹھ کے ہم تو کبھی بیٹھ کر اٹھے

یہ دور چاہتا ہے ابھی اور انقلاب

حشر آج اٹھے چاہے کل اٹھے، مگر اٹھے

 

سید آل رضا رضاؔ انجمن بہارِ ادب کے خاص رکن۔ اس انجمن کے سکریٹری ایک سال ملّا صاحب دوسرے سال آل رضا صاحب ہوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ترکِ وطن کر گئے۔ منظرؔ صاحب کے ساتھ دوسرے خالص زبان کے شعر کہنے والے تھے۔ رنگِ تغزل ملاحظہ ہو:

دل کا سودا ہمیں نہ راس آیا

جی نہ بہلا کسی بہانے سے

دل تجھ کو دُکھاتا ہے ابھی اور زیادہ

اللہ کرے تیری خوشی اور زیادہ

دیکھی ہے بہت راہ، بہت دی ہیں صدائیں

اب عالم تکمیل ہے کہہ دو کہ نہ آئیں

اک شمع ہے منجملۂ اسبابِ شبِ غم

اے مصلحت وقت جلائیں کہ بجھائیں

 

جو شؔ ملیح آبادی ملّا صاحب کے تقریباً ہم عمر معاصرین کا ذکر بغیر ذکرِ جوشؔ ملیح آبادی کے نا مکمل ہو گا۔ بحیثیت نظم گو جوشؔ کا اردو ادب میں جو مرتبہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے لیکن ان کی غزلوں کے بھی چند شعر ملاحظہ ہوں : ؎

سمجھتے ہیں مآل گل مگر جبر قدرت ہے

سو ہوتے ہی غنچوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے

ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر

مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

جو ہو سکے گا تو روک دوں گا عذاب روزِ حساب تیرا

پر ہوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

 

ملّا صاحب کے متذکرہ سینیر اور ہم معاصرین کے علاوہ اس عہد میں سیکڑوں دوسرے شعر کہنے والے تھے جن کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے قدیم لکھنوی روایات ہی پر گامزن رہنا مناسب سمجھا۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش ہیں : ؎

رازؔ لکھنوی۔ یہ بھی انھیں اساتذہ میں تھے جو قدیم رنگِ سخن کو اختیار کیے ہوئے تھے :

رازؔ اس دیر و حرم کا ایک ہی انجام تھا

کوئی در ہوتا مگر سجدے سے ہم کو کام تھا

نزع میں آئے تو وہ جن کا مسیحا نام تھا

اور شفا دینا نہ دینا، یہ خدا کا کام تھا

ہلالؔ لکھنوی:

دید کا ارمان اے موسیٰ خیال خام تھا

ہمت دل کے لیے گہری نظر کا کام تھا

کوئی مجنوں ہو گیا مشہور کوئی کوہکن

منزلِ الفت میں ہر اک کا جدا اک کام تھا

ذاخرؔ لکھنوی۔ اساتذۂ لکھنؤ میں شمار ہوتے تھے۔ چند شعر پیش ہیں : ؎

غم مجھ کو گوارا جو نہیں ہم سفری کا

منھ دیکھ کے روتا ہوں چراغِ سحری کا

مشہور جہاں شام جوانی کی ہیں نیندیں

سنتے ہیں زمانہ ہے ابھی بے خبری کا

کوثرؔ لکھنوی:

چہرہ اداس قلب و نظر زندگی اداس

یہ حال ہو گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

یوسف لکھنوی:

پا در رکاب بیٹھے ہیں اس انتظار میں

ہم کو بھی لے لے اب جو کوئی کارواں چلے

افتخار مرزا ہنرؔ :

ہم بے بسی پہ اپنی قفس میں تڑپ گئے

جب ہم سفر اڑ کے سوئے آشیاں چلے

ہر فصل میں تھے چاک گریباں کیے ہوئے

ہم کو تو امتیاز بہار و خزاں نہ تھا

منے آغا آفتابؔ :

اٹھ رہی تھی لاش میری ہر طرف ہنگام تھا

ایسے موقع پر بھی ہنس دینا تمہارا کام تھا

 

مولانا برکت اللہ رضا فرنگی محلی ملّا صاحب کے بچپن کے استاد تھے۔ صاحبِ دیوان شاعر تھے جن کا مطبوعہ کلام موجود ہے۔ چند شعر نمونتاً پیش ہیں : ؎

نہ روتا میں تو دشواری یہ تھی گھٹتا دام میرا

خفا اب ضبط گریہ ہے کہ کیوں کھویا بھرم میرا

قضا کیا مجھ کو لائی ہے زمیں کوئے قاتل پر

الٰہی خیر کرنا کیوں نہیں اٹھتا قدم میرا

بالیں سے مری ہوکے خفا اٹھ گیا وہ بت

اتنا کہا تھا شکر ہے پروردگار کا

جیسا کہ لکھا جا چکا ہے دورِ ملّا ایک طویل زمانہ ہے۔ اس زمانے کے تیسرے دور کے وہ شعرا حضرات ہیں جو ۱۹۱۰ء کے لگ بھگ سے لے کر ۱۹۳۰ء تک اس عالمِ آب و گل میں آئے۔ اس دور کے شعرا کے خصوصیاتِ کلام بھی تقریباً وہی ہیں جو ان کے سینیر معاصرین کے ہیں لیکن ان کے برخلاف ان کی توجہ نظم کی طرف ان کے بہ نسبت کم رہی۔ یہ حضرات عموماً غزل گو ہیں جن کی شاعری ان الزامات سے قطعی طور سے مبرا ہے جس کے لیے لکھنؤ بدنام ہے۔ حسن و عشق غزل کے خاص موضوع ہیں۔ چناں چہ اس دور کے شاعروں کے بھی محبوب موضوع یہی ہیں لیکن مسائلِ حیات اور معاملاتِ روزگار کی ادائیگی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کے کلام میں فکر و تخیل کی بلندی نظر آتی ہے۔ استعاراتی اندازِ بیان، فصاحت اور لطافتِ زبان کی طرف ان کی بھی توجہ رہی اور اس معاملے میں وہ اپنے پیش روؤں کے سچے مقلد ہیں۔ ان کے کلام کی چند مثالیں پیش ہیں :

سالکؔ لکھنوی (پیدائش: ۱۹۱۰ء وفات: ۱۹۷۶ء) اساتذۂ لکھنو میں شمار ہوتے تھے۔ خالص تغزل اور لطافتِ زبان سالکؔ صاحب کے کلام کے خصوصیات ہیں۔ ان کے بھائی ماہرؔ لکھنوی نے ان کے حالاتِ زندگی اور انتخابِ اشعار شائع کر دیے ہیں۔ چند شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

آپ تو آپ ہیں، یہ بھی مرے امکاں میں نہیں

دو گھڑی بیٹھ کے تقدیر سے شکوہ کر لوں

ساقیِ روزِ ازل یاد تو ہو گا تجھ کو

کس نے پیمانہ اٹھایا تھا ادب سے پہلے

دو پھول ایک شاخ سے ٹوٹے مگر نصیب

کوئی گلے کا ہار کوئی پائمال تھا

ذوق فریاد بہ اندازۂ غم ہے کہ نہیں

یعنی اب بھی مجھے احساس کرم ہے کہ نہیں

محبت کے شعلوں نے دونوں کو پھونکا

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں پانی

سمجھو تو بہت کچھ ہے نہ سمجھو تو نہیں کچھ

فریاد سے کچھ کم نہیں فریاد نہ کرنا

 

سید نواب افسرؔ (پیدائش: ۱۹۰۹ء، وفات: ۱۹۸۱ء) لکھنؤ کے صاحبِ فکر استاد شاعر تھے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’غمِ حیات‘‘ میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی ملتی ہیں۔ نمونۂ کلام پیش ہے : ؎

زیست کے دھوپ میں پتوار کے گرے ہیں کچھ لوگ

منہ نہ دیکھو، انھیں دامن کی ہوا دو یارو

دھوکے نمود صبح کے رہ رہ کے کھائے ہیں

سو مرتبہ چراغ جلائے بجھائے ہیں

دنیا ہے یہ، دلسوز یہاں کوئی نہیں ہے

پروانے بہت، شعلہ بجاں کوئی نہیں ہے

محمد عمرؔ انصاری (پیدائش: ۱۹۱۲ء) لکھنؤ کے موجودہ شعرا میں ملا صاحب کے بعد سب سے سینیر شاعر ہیں اور مرتبۂ استادی پر فائز ہیں۔ کلام متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ چند شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

روشن بخش کے دنیا کو پگھلتے رہنا

ہم چراغوں کا تو ہے کام ہی جلتے رہنا

پھاڑے ہوئے اک خط کے پرزے بھی عجب شے ہے

رکھے بھی نہیں جاتے، پھینکے بھی نہیں جاتے

کیا چیز ہے نہ جانے یہ مجبوریِ حیات

کہتے ہوئے ملے مجھے کچھ لوگ دن کو رات

کوئی ذوقِ عمل پیدا تو کرے زندگانی میں

حیاتِ جاوداں بھی ہے اسی دنیائے فانی میں

تڑپتے ہی رہے آنکھوں میں آنسو

ہنسی دیتی رہی جھوٹی گواہی

 

نہال رضوی (پیدائش۱۹۱۸ء، وفات: ۱۹۹۰ء) نبیرۂ جلال لکھنوی خوش فکر شاعر تھے۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔ کچھ شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

گھر چاند کی دنیا میں بنانے پہ ہے مجبور

اس درجہ اب انسان سے انسان ڈرے ہے

ہر کشمکش کے بعد سنورتی ہے زندگی

خوش ہوں کہ زندگی کا سفینہ بھنور میں ہے

صنم کدے میں بھی دیکھا ہے ان نگاہوں نے

خدا کو ڈھونڈھنے والا خدا کو پاتا ہے

 

ارم ؔ لکھنوی حضرت آرزوؔ کے شاگرد، سالکؔ لکھنوی، عمرؔ انصاری وغیرہ کے ہم عمر اور خوش فکر شاعر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر گئے۔ غزلیات کے علاوہ متعدد نظمیں بھی کہیں۔ چند شعر بطورِ نمونہ پیش ہیں : ؎

ہم باغِ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

آئی نہ بہار آخر، شاید نہ بہار آئے

فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے

ہو درد سوا جتنا، اتنا ہی قرار آئے

کچھ ان سے نہ کہنا ہے، تھی فتح محبت کی

جیتی ہوئی بازی کو ہم جان کے ہار آئے

مٹے ہوؤں کی کوئی یادگار کیا ہو گی

مزار ہی نہیں، شمعِ مزار کیا ہو گی

فضلؔ نقوی (۱۹۱۳ء تا ۱۹۹۱ء) خاندان اجتہاد کے فرد اور ذاخرؔ لکھنوی کے فرزند تھے۔ اساتذۂ لکھنو میں شمار ہوتے تھے۔ قطعات تاریخ پر مشتمل ایک مجموعے کے علاوہ نوحے، سلام، غزلیات وغیرہ کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نمونۂ کلام درج ذیل ہے :

حجاب تصور جو چہرے پہ چھائے

کبھی چاند نکلے کبھی ڈوب جائے

وہ جلوؤں کی کثرت، ضیاؤں کا عالم

وہاں شمع کیا ہے، نظر جھلملائے

سنبھل داستانِ وفا کہنے والے

سمٹنے لگی ہیں چراغوں کے سائے

یہی ہے محبت کی معراج آخر

ہماری کہانی زمانہ سنائے

 

کرشن بہاری نورؔ (پیدائش: ۱۹۲۴ء) فضلؔ نقوی صاحب کے شاگردِ رشید، خوش لہجہ اور منفرد رنگ کے غزل گو ہیں جس نے اردو کو خالص ہندوستانی روایات سے روشناس کروایا۔ دو مجموعۂ کلام شائع ہو چکے ہیں۔ ’’تپسیا‘‘ سے چند شعر پیش ہیں جو خود نورؔ کے پسندیدہ ہیں : ؎

میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا

اسی کے ہاتھ مری تلاش میں ہے

اس انتظار میں صدیاں گزرتی جاتی ہیں

ہوس سمیٹ لے دامن تو آرزو پھیلے

اپنی اپنی خود داری کی بوسیدہ چادر تانے

چلتے رہیں گے یوں ہی ہم تم کب تک آخر، آخر کب تک

 

پروفیسرولی الحق انصاری (پیدائش: ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۴ء) خاندان فرنگی محل کے فرد ہیں۔ فارسی کلام کے دو اور اردو کلام کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک نظموں پر مشتمل ہے۔ ہر صنفِ سخن میں بشمول قطعات تاریخ طبع آزمائی کی ہے۔ اشعار غزلیات کے چند نمونے پیش ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ طبعِ مشکل پسند رعنائیِ خیال کی طرف راغب ہے :

حوادث کے میں ریگ زاروں میں تھا

مجھے کیا پتا کیا بہاروں میں تھا

وہ بیچارہ پیہم خساروں میں تھا

سبب یہ کہ ایمانداروں میں تھا

پریشان رہتی تھی دنیا جہانبانوں سے پہلے بھی

جدا ہوتی رہی ہیں گردنیں شانوں سے پہلے بھی

وجود عشق تھا عالم میں انسانوں سے پہلے بھی

فروزاں رہتی تھی یہ شمع پروانوں سے پہلے بھی

ہمیشہ ہی حسینوں سے ہوئی ہیں پیار کی باتیں

غزل کی حکمرانی تھی غزل خوانوں سے پہلے بھی

 

حکیم شاربؔ (پیدائش: ۱۹۲۷، ) موجودہ لکھنؤ کے خوشگوار اور صاحب فکر شاعر ہیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے : ؎

جنگ اچھی بھی ہے بری بھی ہے

مقصد جنگ دیکھنا ہو گا

خاک کئے پتلے اپنی قیمت کچھ تجھ کو معلوم نہیں

خاک ہے لیکن خاک کے اوپر سجدہ بھی ہو سکتا ہے

کامیاب ہوکے زمانے کو جت لو

یا اس طرح مٹو کہ کہیں پرنشان نہ ہو

توڑیں گے اگر لوگ تو ٹوٹیں گئے وہ خود بھی

سب خاک کے پتلے ہیں، خدا کوئی نہیں ہے

زور بازو آزما، شکوہ نہ کر صیاد سے

آج تک کوئی قفس ٹوٹا نہیں فریاد سے

متذکرہ بالا شعر را کے علاوہ اس دور میں کچھ دوسرے خوش گفتار شعرا بھی ہوئے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس مقالے کی تحریر کے وقت راقم الحروف کے پاس ان کے اشعار نہیں ہیں۔ ان حضڑات میں بہزاد لکھنوی، سید محمد باسط، ماہر لکھنوی، افقرؔ موہانی، محضرؔ لکھنوی، محمد اسماعیل اسلمؔ لکھنوی، انور نواب انورؔ لکھنوی، مطربؔ نظامی، شفقؔ شاہانی قابلِ ذکر ہیں۔ یہ تمام حضرات بھی خالص غزل گو ہیں اور زبان کی وہ لطافت جو لکھنوی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے ان کے کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔

ملا صاحب کے چوتھے دور کے معاصر شعرا یعنی ۱۹۳۰ء کے بعد پیدا ہونے والوں میں جن کی شاعری لکھنؤ میں پروان چڑھی والی آسیؔ ، تسنیم فاروقی، بشیرؔ فاروقی، ساحرؔ لکھنوی، حیاتؔ وارثی لکھنوی قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں غزل و نظم کی وہ کش مکش جو جوشؔ ملیح آبادی کے زمانے میں اپنے انتہائی عروج پر تھی، ختم ہو گئی اور اس میں غزل بحیثیت فاتح کے نمودار ہوئی۔ اس سے قتل کے دور کی طرح اس عہد کے بھی تقریباً تمام شعرا غزل کہنے والے ہیں اور انھوں نے اسی پیرایہ میں زندگی کے ہر مسئلہ کی ترجمانی کی ہے۔ زبان کی لطافت اس دور کے لکھنوی شعرا کا بھی طترہ امتیاز باقی رہی اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ہم عمر ہندوستان بھر کے شعرا میں بحیثیت فن کار ان کا مرتبہ کسی سے بھی کم نہیں ہے اور ان میں سے کچھ مثلاً والیؔ آسی، تسنیمؔ فاروقی اب بہ مرتبۂ استادی فائز ہیں اور اپنے بزرگوں یعنی عبد الباری آسیؔ اور سراجؔ لکھنوی کے نام روشن کر رہے ہیں۔

ملا صاحب کے عہد کی شاعری کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا گیا جس کے سلسلے میں اس دور کے شعرا کے کلام کو پیش کرنا ضروری تھا۔ اس جائزہ سے پتا چلے گا کہ غزل اور نظم دونوں اصناف میں لکھنوی شاعری اپنامقام بنائے رکھی۔ غزل کے میدان میں اگر صفیؔ ، عزیزؔ ، یگانہؔ ، آرزوؔ ، اثرؔ ، منظرؔ ، سالکؔ ، سراجؔ ، سید نواب افسرؔ ، عمرؔ انصاری، نورؔ لکھنوی، ڈاکٹر ولی الحق کا کلام ہندوستان کے کسی بھی معاصر سے بیان و زبان کے سلسلے میں کم نہیں ہے تو نظم کے میدان میں صفیؔ ، عزیزؔ ، جوشؔ ، عمر ؔ انصاری، اسرار الحق مجازؔ ، ڈاکٹر ولی الحق انصاری اپنے معاصر نظم گویوں میں سے کسی سے کم نہیں ہیں۔ ملا صاحب ان تمام حضرات کے معاصر رہے ہیں اور ان کے ان تمام معاصرین کے رنگ کلام کی خصوصیات ملا صاحب کے کلام میں بیک وقت نظر آتی ہے اور بحیثیت مجموعی ملا صاحب نے اپنے لیے ایک الگ راستہ پیدا کر دیا ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ؎

ملا ادب میں ڈھونڈھ لی جادہ سے ہٹ کے اپنی راہ

رنگ جدید سے الگ طرز کہیں سے دور دور

ملّا صاحب کا یہ ’’رنگ جدید سے الگ اور طرز کہن سے دور‘‘ رنگ کلام ان کی غزلیات اور نظموں دونوں میں نمایاں ہے۔ اس رنگ میں کلاسیکی ٹھہراؤ بھی ہے اور جدید مسائل پر اظہار خیال بھی۔ ملا صاحب کی زبان بہر حال لکھنوی زبان ہے۔ ان کی غزل کے چند اشعار بھی بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

نعرۂ گرم انقلاب میں نے بھی یاں سنا تو ہے

جام و سبو کے آس پاس داروسن سے دور دور

دی ہے مجھے دو آبۂ گنگ و جمن نے جو زباں

آج اسی کو حکم ہے کنگ و جمن سے دور دور

نہ تیرے لیے ہے نہ میرے لیے ہے

یہ دنیا ہے سب کی، سب کے لیے ہے

ہر سبزہ و گل کی نس نس میں اک ریشۂ جنبان ہو بھی چکا

اب کون مٹا سکتا ہے مجھے میں خاک گلستاں ہو بھی چکا

جو رہتاں کے قصے نہ چھیڑو

آج اک جہان ہے مردم گزیدہ

بے حرف و بے صوت پیغامِ الفت

سینہ بہ سینہ، دیدہ، نہ دیدہ

جنون کا دور ہے کس کس جائیں سمجھانے

ادھر بھی ہوش کے دشمن ادھر بھی دیوانے

پھر ان گردوں نشینوں کو زمیں کی بات کہنے دے

انھیں پہلے ذرا زیرِ فلک کچھ روز رہنے دے

قطرہ قطرہ زندگی کے زہر کا پینا ہے غم

اور خوشی ہے دو گھڑی پی کر بہت جانے کا نام

تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم

جب آئے نئے بت پیش نظر اصنام پرانے توڑ دیے

گل کام نے دے گی تری نا کردہ گناہی

گلچیں کی عدالت ہے تو کانٹوں کی گواہی

پستی نہ بلندی نہ اطاعت نہ حکومت

دنیائے محبت میں گدائی ہے نہ شاہی

مشعلِ دل بھی تو سینے میں فروزاں چاہیے

راہِ منزل میں چراغ رہگذر کافی نہیں

زیست کی تیرگی میں شمع کوئی

دل سے تابندہ تر نہیں ملتی

بشر ہے بندہ الفت غلام جبر نہیں

جو اہلِ دل نے کیا، تاجدار کر نہ سکے

اسی کا نام جینا ہے جگر خوں ہو تو ہو جائے

نقوشِ دہر میں اک خاص اپنا رنگ بھرنا ہے

پیتے تو ہم نے شیخ کو دیکھا نہیں مگر

نکلا جو میکدے سے تو چہرے پہ نور تھا

تشنہ کاموں کی خبر لے مالکِ جام و سبو

تشنہ کامی نہ بن جائے چیرہ دستی ایک دن

فلک کے دور نے ذروں کا جن کو نام دیا

ستارے وہ بھی تھے، یاں نسل آسماں سے نہ تھے

بحیثیت نظم گو ملّا صاحب کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انھوں نے پابند اور آزاد، دونوں قسم کی نظمیں کہیں جن میں چند مشہور یہ ہیں : اندھیرے نگر میں دیپ جلیں، بوڑھا مانجھی، ایوانِ عدالت سے رخصت ہوتے ہوئے۔

کلام ملّا پر تبصرہ کرنا احاطۂ مضمون سے باہر ہے اور امید ہے کہ کوئی دوسرا ناقد اس پر تفصیلی روشنی ڈالے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کے نثری افکار

 

                ……… مرزا خلیل احمد بیگ

 

پنڈت آنند نرائن ملا اردو کے ان بزرگ ترین ادیبوں میں ہیں جنھوں نے شعر کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہ اردو میں بہ حیثیت شاعر ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران انھوں نے اردو کے شعری سرمایے میں جو گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ ان کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ لیکن وہ اگر ’’جوئے شیر‘‘ نہ لکھتے اور ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ تخلیق نہ کرتے تب بھی ان کا یہ جملہ کہ  ’’میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘، انھیں اردو دنیا میں حیاتِ دوام بخشنے کے لیے کافی تھا۔ تقریباً ربع صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا یہ جملہ زبان رد خاص و عام ہے۔ ملا صاحب یہی بات اگر شعر میں کہتے تو سمجھا جاتا کہ وہ غلو یا حسن بیان سے کام لے رہے ہیں۔ بہت سے اہل نظر اسے خود کلامی پر محمول کرتے۔ ممکن ہے بعض ناقدان شعر اسے محض داخلی اور تاثراتی اظہار کا نام دے کر اس سے صرف نظر کر جاتے، لیکن نثر کے پیرایے میں کہی گئی بہ ظاہر یہ سادہ سی بات بہتوں کے دلوں کو چھو گئی۔ یہ ایک ایسی فکر تھی جس نے کتنوں کو چونکا دیا۔ اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا واقعی زبان کو عقیدے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ ایک مخصوص طرزِ فکر رکھنے والے طبقے کو ملا صاحب کے اس بیان سے اتفاق نہ ہوا اور وہ عقیدے ہی کو سب کچھ سمجھتا ہو، لیکن اس حقیقت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ ملا صاحب کا یہ بیان اردو زبان سے ان کی گہری عقیدت، سچی محبت اور والہانہ لگاؤ کا غماز ہے۔ ملا صاحب کو اردو سے بے پناہ عشق ہے۔ وہ اردو کو ٹوٹ کر چاہنے والوں میں ہیں خواہ اس کے لیے انھیں مذہب اور عقیدے کو ہی کیوں نہ قربان کر دینا پڑے۔

مجھے ملا صاحب کی اس ندرت فکر نے اس حد تک متاثر کیا کہ میں ان کی شخصیت، مزاج اور فکر کا بہت قریب سے مطالعہ کرنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ اگر چہ ملا صاحب کی شخصیت کی جھلک اور ان کے مزاج اور فکر کی عکاسی ان کی شاعری میں پائی جاتی ہے لیکن شاعری طبعاً تخلیقی ہونے کی وجہ سے بیش تر داخلی کیفیات اور جمالیاتی تجربات تک محدود رہتی ہے اور خارجی دنیا کے معاملات سے اس کا ساتھ بہت کم رہتا ہے۔ خارجی علل و عوامل کے سمجھنے کا نثر بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ ملا صاحب ایک کامیاب شاعر ہونے کے علاوہ ایک جہاں دیدہ انسان اور دانشور بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے بعض خیالات کی ترویج کے لیے نثر کا سہارا لیا ہے۔ ملا صاحب کا نثری سرمایہ بہت قلیل ہے جو چند مضامین، خطبات اور ریڈیائی تقاریر پر مشتمل ہے۔ لیکن ان میں گہری لسانی فکر، دانشورانہ سوجھ بوجھ اور سماجی شعور کی جھلک پائی جاتی ہے۔ بعض مضامین میں گہری بصیرت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

ملا صاحب کی نثر نگاری کا آغاز ایک ریڈیائی ٹاک سے ہوتا ہے جس کے محرک نیاز ؔ فتحپوری تھے۔ اس ٹاک کا عنوان تھا ’’غالب کے کلام میں تصوف‘‘ اور یہ ۱۹۳۸ء میں آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے نشر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان کی ریڈیائی ٹاکس کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور ۱۹۷۵ء تک بقول ملا صاحب ان کی ڈھائی تین سو ٹاکس نشر ہوئیں۔ لیکن افسوس کہ میں ان میں بیشتر ٹاکس ضائع ہو گئیں اور جو محفوظ رہ گئیں وہ ان کے مجموعے ’’کچھ نثر میں بھی‘‘ میں شامل ہیں۔ لیکن ان کی تعداد صرف دس ہے ریڈیائی ٹاکس کے بعد ملا صاحب کے خطبات کا نمبر آتا ہے۔ جن دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات، انجمن ترقی اردو ہند کی اردو کانفرنس اور جامعہ اردو، علی گڑھ کے جلسۂ تقسیمِ اسناد کے صدارتی خطبات کو بیحد اہمیت حاصل ہے۔ ملا صاحب کی ریڈیائی ٹاکس ہوں یا ان کے خطبات و مضامین یہ زیادہ تر قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں۔ کیوں کہ پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے ملا صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ پہلے سے انھیں لکھتے، صاف کرتے، ان پر نظر ثانی کرتے یا ان کی نقول تیار کرتے۔ ملا صاحب بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں۔ا پنے مخصوص شعری مزاج یا محض عدیم الفرضتی کی بنا پر انھوں نے نثر کی طرف وہ توجہ نیں دی جس کی وہ متقاضی تھی۔ انھیں کود بھی اس کا اعتراف ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’در اصل میں نثر نگاری کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں کی۔ شاید غیر شعوری طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے یہ صلاحیت مجھ میں نہیں۔ شاعری میں تو روایات کی بیساکھی مل جاتی ہے، آہنگ کے سہارے کام آتے ہیں۔ لیکن نثر لکھنے والے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ساری مسافت اپنے ہی بل بوتے پر طے کرنا پڑتی ہے۔ نثر نگاری (سطحی افسانہ نویسی اور انشائے لطیف کی اور بات ہے ) اچھی خاصی علمی واقفیت چاہتی ہے۔ ‘‘

ملا صاحب کے نثری افکار کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (۱) دانشورانہ افکار (۲) انتقادی افکار (۳) لسانی افکار۔ دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات ملا صاحب کے دانشورانہ افکار کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ ان خطبات کے مطالعے سے ملا صاحب کی اپنی فکر کا پتا چلتا ہے۔ وہ کسی موضوع پر اظہار خیال کے لیے موٹی موٹی کتابوں کی ’’چھان بین‘‘ اور ’’وسیع مطالعے ‘‘ کی ضرورت پر زیادہ زور نہیں دیتے اور نہ اس کے لیے وہ ’’علم کی گہرائیوں میں ڈوبنے ‘‘ کے قائل ہیں بلکہ وہ اپنے ’’احساس اور شعور کی تربیت‘‘ سے اپنا اندازِ فکر پیدا کرتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ملا صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں :

’’میں وسیع مطالعے کا قائل ضرور ہوں لیکن اس سے کہیں زیادہ اس بات کا قائل ہوں کہ انسان خود ان موضوعات پر سوچے اور غور کرے جن کے بارے میں دوسروں کے ذہن سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات کے تحت ’’عالمی نظام میں انسان کی بنیادی حقوق‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے۔ انھوں نے اپنی جس عمیق فکر کا ثبوت دیا ہے اس سے نہ صرف موضوع پر ان کی مضبوط گرفت کا پتا چلتا ہے بلکہ دنیا کی تاریخ و تہذیب اور سیاسی نظام کی طرف ان کے دانشورانہ رویے کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور آزادی، مساوات اور اخوت کے بارے میں ان کی اپنی رائے کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس ضمن میں ان کا یہ فکر پارہ ملاحظہ ہو:

’’واقعہ یہ ہے کہ انسان نے جینا تو پیدائش کے روز ہی سیکھ لیا تھا، کیوں کہ جہدِ بقا اس کی فطرت کا تقاضا تھا، لیکن دوسروں کو جینے دینے کا گر وہ آج تک نہ سیکھ سکا اور زندگی کے سارے غم اور پریشانیاں، سارے جبر اور خوں ریزیاں، ساری محرومیاں اور نا انصافیاں اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ‘‘

آج جب کہ تخریبی قوتیں ہر طرف اپنا سر اٹھا رہی ہیں اور تعمیری قوتوں کو پنپنے سے روک رہی ہیں ملا صاحب کا ذیل کا اقتباس کتنا معنی خیز بن جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ان کی نثر کا ایک خوبصورت نمونہ بھی ہے، ملاحظہ ہو:

’’تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ہی انداز میں اپنا کام نہیں کرتیں، بجلی، زلزلے، آندھی، طوفان ایک مہیب شور اور گرج لے کر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ وقتی ہوتے ہیں۔ زندگی باوجود ان کی لائی ہوئی آفات کے آگے بڑھتی ہے اور یہ تعمیری قوتوں سے شکست کھا کر غائب ہوتے ہیں۔ بر خلاف اس کے تعمیری قوتیں اتنی خاموشی سے کام کرتی ہیں کہ لوگوں کی نظر کافی دیر تک ان کی طرف نہیں جاتی۔ رات کسی طرح دن بن جاتی ہے موسم کس طرح بدل جاتا ہے، کلی کس طرح پھول بن جاتی ہے، فضا کی نمی کس طرح شبنم کا قطرہ بن کر پھول کی پنکھڑی پرستارہ جڑ دیتی ہے۔ یہ باتیں بجلی اور طوفان سے کہیں زیادہ اہم اور دیر پا ہیں۔ ‘‘

اس قسم کے نمونے ان کی نثر میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔

ملا صاحب کے نثری افکار میں ان کے انتقادی افکار کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ملا صاحب اگر چہ پیشہ ور نقاد نہیں، لیکن غالبؔ ، سرشارؔ ، چکبستؔ ، اثرؔ و سراجؔ نیز سردار جعفری کے مجموعہ کلام ’’پیرہنِ شر ر‘‘ پر ان کی جو تحریریں ملتی ہیں۔ ان سے ان کی تنقیدی بصیرت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ملا صاحب کی تنقیدی تحریروں کو تاثراتی تنقید کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کسی فن پارے کو پڑھ کر جو تاثرات وہ اپنے ذہن پر مرتسم کرتے ہیں اور بعدہ قاری تک منتقل کرتے ہیں اس میں ان کے وجدان کو کافی دخل ہوتا ہے۔ اگر ملا صاحب تنقیدی تحریروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ ان کے جذباتی رد عمل کا نتیجہ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ملا صاحب کے تنقیدی رویے کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ محض فن پارے کی تحسین سے کام نہیں لیتے بلکہ اس کی خامیوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں صرف ایک اقتباس نقل کرنا کافی ہو گا۔ سرشارؔ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’لیکن فنی اعتبار سے ’’فسانہ آزاد‘‘ میں بے شمار خامیاں ہیں۔ افسانے کا نہ تو قصہ ہی کوئی خاص دلکش ہے اور نہ اس میں وہ سلسلہ اور ربط ہے جو ایک افسانے کے لیے لازمی ہے۔ بہت سے باب ایسے ہیں جن میں محض فضول اور غیر متعلق باتوں کا ذکر ہے۔ کردار نگاری میں بھی نفسیات کے اعتبار سے سنگین خامیاں ہیں۔ سرشارؔ نہ تو مفکر تھے اور نہ ماہرِ نفسیات۔ انھوں نے انسان کے دل و دماغ کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی شوخی اور ظرافتس روتوں کو تو ہنسا لیتے تھے لیکن نرم دل سے نرم دل کو بھی رُلا نہ سکتے تھے۔ ان کے افسانوں میں درد بالکل معدوم ہے۔ ‘‘

ملا صاحب کی نثری تحریروں کا ایک خاص عنصر ان کی لسانی فکر ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے لسانی افکار کو ان کے دوسرے تمام نثری افکار پر اولیت حاصل ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اردو سے ان کے والہانہ عشق کا ذکر شروع میں آ چکا ہے، اور یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ملا صاحب کے لیے زبان مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آج سے ۲۷ سال قبل انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیر اہتمام منعقدہ اردو کانفرنس کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ ’’میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ ان کے اس اعلان نے اردو تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی اور محبان اردو کے دلوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا۔

اردو کے بارے میں ملا صاحب کا موقف بالکل واضح ہے۔ وہ اردو کو اسی ملک کی زبان سمجھتے ہیں ’’جو تقسیم ہند کے بعد بھی کروڑوں شہریوں کی مادری زبان ہے۔ ‘‘ ان کے نزدیک اردو قومی یکجہتی کا ایک نشان اور باہمی میل جول کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ ملا صاحب کی مادری زبان اردو ہے۔ وہ اردو لکھنا پڑھنا اور بولنا اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے :

اردو کا سوال میرے لیے اپنی مادری زبان کا سوال ہے۔ جب تک اس دیس میں جمہوری حکومت قائم ہے اور میری دعا ہے کہ روز بروز یہ اور مضبوط ہو اس وقت تک مجھے آئین نے کچھ بنیادی حقوق دیے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں اپنی مادری زبان پڑھوں، لکھوں اور بولوں اور اسی زبان میں اپنے جذبات اور افکار کو پیش کروں۔ ‘‘

ملا صاحب نے مادری زبان کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ ان کے خیال میں ’’انسان اپنی مادری زبان ہی میں اپنے دل و دماغ کی نقاب کشائی تخلیقی حسن کے ساتھ صحیح اور پورے طور پر کر سکتا ہے … کوئی انسان جس سے اس کی مادری زبان چھین لی جائے وہ اپنا پورا قد نہیں پاتا اور وہ اس پودے کی مانند ہوتا ہے جو ناسازگار آب و ہوا کی وجہ سے ٹھٹھ کر رہ جائے۔ ‘‘ ان کے نزدیک مادری زبان محض ایک زبان ہی نہیں ہوتی۔ یہ صدیوں کی تاریخ، تہذیب، معاشرت اور انداز فکر کا ملا جلا نتیجہ ہوتی ہے ‘‘ اور جہاں تک اردو کا تعلق ہے، یہ ملا صاحب کی ذات کا آئینہ ہے ان کی میراث ہے، ان کی تاریخ ہے اور ان کی زندگی ہے۔

ملا صاحب کی لسانی فکر کے تجزیے سے پتا چلتا ہے وہ اردو تحریک کے ایک فعال قلم کار ہی نہیں بلکہ ایک نڈر سپاہی بھی ہیں۔ ملا صاحب نے ہر جگہ اور ہر موقع پر اردو کی وکالت بڑی بے باکی کے ساتھ کی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں انھوں نے جہاں حکومت کے جبر اور عوام کے تعصب کا ذکر کیا ہے وہیں حامیانِ اردو کے خونِ جگر کی کمی کا بھی شکوہ کیا ہے۔

ملا صاحب نے ایک طویل عرصے تک اردو تحریک کی علم برداری کی ہے۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند، کے صدر رہے، انجمن کی اتر پردیش کی ریاستی شاخ کے بھی صدر رہے۔ جامعہ اردو علی گڑھ کے نائب امیر جامعہ رہے۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اردو کو اس کے جائز حقوق مل جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے تین قسم کے محاذ کے قیام پر زور دیا ہے۔ یعنی عوامی محاذ، تنظیمی محاذ اور آئینی محاذ، عوامی محاذ کا مقصد عوام کو محبانِ اردو کے نظریے کی صحت اور ان کی حق تلفی کی اہمیت کا احساس دلانا تھا نیز اردو کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں یا جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی تھیں ان کی تردید کرنا تھا۔ اردو کے حقوق کے مطالبے کے لیے ملا صاحب نے تنظیمی محاذ کے قیام پر شدت کے ساتھ زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محبان اردو کو جوش اور جذبات سے کام لینے کے جائے ایک منظم تحریک کی شکل میں اردو کے حقوق کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ آئینی محاذ کے قیام کا مقصد مرکزی حکومت نیز ریاستی حکومتوں کی توجہ اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کی طرف برابر دلاتے رہنا تھا۔ ملا صاحب نے آج سے ۳۰ سال قبل جن تین محاذوں کے قیام کی اہمیت پر زور دیا تھا ان کی ضرورت آج بھی ہے کیوں کہ اردو کے مسائل جہاں تھے وہیں ہیں۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں سے اردو رخصت ہوتی جا رہی ہے اور نئی نسل اردو سے بالکل نابلد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج اردو کے لیے ایک اور محاذ کھولا جائے اور وہ تعلیمی محاذ ہو۔ ملا صاحب نے تعلیمی سطح پر اردو کے نفاذ کی دشواریوں کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ انھوں نے اکتوبر ۱۹۶۳ء میں ریاستی سہ لسانی کنونشن اتر پردیش کے انعقاد کے موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں اردو کے ساتھ حکومت اتر پردیش کے غیر منصفانہ رویے کی سخت تنقید کی تھی اور بہ بانگِ دہل پر اعلان کیا تھا کہ ’’سہ لسانی فارمولے میں جو تیسری زبان انتخاب کرنے کا طریقہ رکھا گیا ہے وہ اردو کے لیے سمِ قاتل سے کم نہیں۔ ‘‘

۱۹۶۱ء میں جب تمام ریاستوں کے وزرائے اعلا اور مرکزی حکومت کے وزیر کی میٹنگ میں طلبہ کو تین زبانیں پڑھانے کا فیصلہ ہوا تھا تو ملا صاحب نے اس فارمولے کا دل سے خیر مقدم کیا تھا کیوں کہ ہر اس طالب علم کو جس کی مادری زبان اردو تھی یا جو اردو پڑھنا پسند کرتا تھا یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اردو بحیثیت تیسری زبان کے پڑھے۔ لیکن اتر پردیش کی حکومت نے سہ لسانی فارمولہ کے الفاظ کے کھلے مفہوم کے خلاف جو تاویل پیش کی تھی اس سے ملا صاحب کو سخت تکلیف پہنچی تھی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ’’ہماری ریاستی حکومت نہ آئین کی پروا کرتی ہے اور نہ انصاف کی اور لسانی تعصب کا شکار ہو چکی ہے۔ ‘‘ حکومتِ اتر پردیش نے سہ لسانی فارمولا کی دفعہ (ب) کے تحت کی زبانوں میں سنسکرت کو شامل کر کے اردو کے ساتھ سخت نا انصافی کی تھی۔ ملا صاحب کے خیال میں سنسکرت چوں کہ ایک کلاسیکی زبان ہے اس لیے ملک کی دوسری زندہ زبانوں میں سنسکرت کا شمار کرنا اصولاً غلط تھا۔ اور یہ محض اس لیے کیا گیا تھا کہ ’’اسکول کے حکام کو اردو نہ پڑھانے کا ایک لغو بہانہ مل جائے۔ ‘‘

ملا صاحب کی لسانی تحریروں کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ لسانی مسائل پر ان کی نظر بہت گہری تھی اور وہ دو ٹوک بات کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے خواہ وہ حاکم وقت کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ملا صاحب نے گزشتہ نصف صدی کے دوران جس جرأت و بے باکی اور جس مجاہدانہ عزم کے ساتھ اردو کی لڑائی لڑی ہے اس کی مثال اردو تحریک کی تاریخ میں بہت کم ملے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا

 

                ………سید محمود الحسن

 

پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی موت سے اس عظیم شعری روایت کا خاتمہ ہو گیا جس کا سلسلہ پنڈت دیا شنکر نسیمؔ ، رتن ناتھ سرشار اور برج نرائن چکبستؔ نے قائم کیا تھا اور بیسویں صدی کے لکھنوی شعراء کا وہ دور بھی ختم ہو گیا جس میں آرزوؔ ، صفیؔ ، عزیزؔ ، ثاقبؔ ، یگانہؔ ، اثرؔ ، سراجؔ ، سالک ؔ ہر ایک اپنے مخصوص و انفرادی رجحان کے زیر اثر اردو شاعری کے سرمائے کو وسعت دے رہا تھا۔ البتہ ان کی انفرادیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں قدیم مشرقی روایات کے ساتھ مغربی ادب کے اعلا عناصر بھی شامل تھے۔ یہ امتزاج ادبی قدروں کے علاوہ شخصیت میں بھی موجود تھا، البتہ لکھنوی تہذیب و شرافت، کردار کی بلندی، دانشوری کے ساتھ انکساری علم کا وقار، ادیب کی خود داری، حق و انصاف اور اعلا تہذیبی تقاضوں کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ۔ ان میں یہ تمام ایسے عناصر بھی موجود تھے جس سے احساس ہوتا تھا کہ وہ جتنے بڑے فن کار ہیں اتنے ہی بڑے انسان۔ چنانچہ ان کی مقبولیت میں یہ دونوں اثرات شامل ہیں۔

پنڈت آنند نرائن ملّا۱۹۰۱ء میں لکھنؤ کے معزز اور اعلا خاندان میں پیدا ہوئے اور جب ان کا شعور بیدار ہوا اس وقت ملک کی سیاسی، سماجی اور ادبی فضا میں مختلف اور متضاد قسم کے رجحانات پھیلے ہوئے تھے۔ ایک طرف انھوں نے اودھ کے اس ماحول میں پرورش پائی جس کی تہذیبی زندگی اپنی عظمت کی قدیم روایات کو سینے سے لگائے تھی۔ دوسری طرف ہندوستان کے عوام پستی، غلامی اور ذلت و حقارت سے اپنے کو باہر نکالنے کی جد و جہد کر رہے تھے۔ لوگوں کے دلوں میں قومیت کا تصور پیدا ہونے لگا تھا۔ ان تمام عناصر سے متاثر ہونے کے باوجود اپنے لیے ایک مخصوص انداز اپنا لینا شاعری کا بہت بڑا کمال ہے اور اسی چیز نے ملا کے فن کو رفعت و عظمت تک پہنچا دیا۔

ملّانے ۱۹۲۶ء سے باقاعدہ شاعری شروع کی، اس وقت ایک طرف حالیؔ ، اقبالؔ ، چکبستؔ ، سرور ؔ جہان آبادی اور جوشؔ وغیرہ کی نظمیں مقبولیت حاصل کر رہی تھیں۔ دوسری طرف شاد عظیم آبادی، حسرتؔ ، فانیؔ کی غزل گوئی دلوں کو متاثر کیے ہوئے تھی اور اسی منزل پر لکھنؤ کے غزل گو شعراء میں صفیؔ ، عزیز، ثاقبؔ اور یگانہ قدیم روایات کو کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھا رہے تھے۔ ملا کی انفرادیت اور ان کے شعور کی پختگی نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ محض ایک رجحان یا ایک شعری روایت تک اپنے کو محدود کر لینا مفید نہ ہو گا اور اسی احساس نے ان کو عظمت کی منزل تک پہنچا دیا۔ لکھنؤ کے ادبی ماحول سے ملا نے فنی تصور اپنایا اور سیاسی اور سماجی اثرات، بدلتے ہوئے حالات اور ادب کی اعلیٰ قدروں کے امتزاج سے اردو شاعری کو گراں قدر سرمایا دے دیا۔ ابھی ملا کی شاعری کی ابتدا کو دس ہی سال گزرے تھے کہ ترقی پسند تحریک نے شعر و فن میں ایک مخصوص نظریے کی تبلیغ کی۔ ملا اس نظریے سے بھی متاثر ہوئے لیکن کسی جگہ اس کی شدت کا شکار نہ ہوئے بلکہ اپنے مخصوص نقطۂ نظر پر سختی سے قائم رہے۔ اس طرح جتنے بھی تجربات سامنے آئے انھوں نے ان کے صحت مند عناصر کو قبول کیا۔ لیکن جذباتی شکل میں کسی کو اپنے سے وابستہ نہ کیا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن مختصراً اس طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ ان کے خیال میں شاعری جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ البتہ اس میں افکار و ذہن کے عناصر کا ہاتھ بھی ہونا چاہیے۔ وہ فن میں خلوص، مقصد کی بلندی اور فنی حسن کے قائل بھی ہیں اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’میرا عقیدہ تو یہی ہے کہ جس ادب میں انسانی درد کی آواز نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی عیاشی کے لیے سامان فراہم کر سکتا ہے لیکن دل و دماغ کی تربیت نہیں کر سکتا۔ کلام میں تاثیر خلوص سے پیدا ہوتی ہے اور عظمت انسانی درد کی آواز شامل کرنے سے ‘‘۔

اسی طرح انھوں نے شاعری میں پائندہ انسانی قدروں کے اظہار پر جگہ جگہ زور دیا ہے لیکن ان کے خیال میں اس سے نشاط و تسکین اور ذہنی و جذباتی آسودگی حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسا ہی ادب تمام نوع انسانی کے لیے ہو سکتا ہے لیکن ان تصورات کے باوجود ملا کسی نظریے کے اپنانے کو غیر صحت مند سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اچھا ادب بنیادی طور پر بامقصد ہوتا ہے لیکن اگر کسی مقصد کو سامنے رکھ کر ادب پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش تخلیقی ادب کے لیے غیر مفید ہو گی۔ ان کے خیال میں :

فن کار جہاں نظریوں میں گھر جاتا ہے اس کے دل کے سوتے محدود ہو کر خشک ہونے لگتے ہیں اور اس کی قوتِ تخلیق اپنی معصومیت، حسن اور وسعت کھونے لگتی ہے۔ ‘‘

ملّانے مغربی شعر و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا، فن کی اعلیٰ قدروں سے بخوبی واقف تھے۔ جدید رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی اور ان سب کے باوجود کسی ایسی جدت کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے جو منفی پہلوؤں کا احساس دلائے۔ وہ معنویت، حسن اظہار اور افکار و خیالات کی آمیزش فن کا لازمی جز سمجھتے ہیں اور ہر اس انداز کے شدید مخالف ہیں جو محض انفرادی جذبے کی ترجمانی کرے یا مبہم اور غیر واضح جذبات کا احساس دلائے اسی چیز کو انھوں نے بہت دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’میرے نزدیک یہ رجحان (رزمیہ انداز) غیر صالح ہے اور گمراہ کن بھی… میری رائے میں نظم کو معمہ بنا دینا کمال فن کار نہیں بلکہ عجز فن کار ہے … میرے نزدیک اس مکتبۂ خیال کے اندازِ فکر میں جو بنیادی لغزش ہے وہ یہ ہے کہ شاعر اپنے احساسات کو اپنے شعور سے جدا کر کے اپنے لاشعور کی زبان میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

ان تصورات کو سامنے رکھ کر ملا نے جب شعری تخلیق کی طرف قدم اُٹھایا تو نظم اور غزل دونوں میں توانائی اور نور و نکہت بھر دی۔ ’جوئے شیر‘، ’کچھ ذرے کچھ تارے ‘، ’ میری حدیثِ عمرِ گریزاں ‘، ’سیاہی کی ایک بوند‘ ان تمام شعری مجموعوں میں یہ خصوصیات پوری طرح نمایاں ہیں۔ ان کی نظموں میں وطن کی محبت کے ترانے بھی ہیں، قومی رہنماؤں کی عظمت کے گیت بھی۔ سماجی زندگی کی کش مکش بھی ملتی ہے اور رومان اور حسن کی پر کیف فضا بھی۔ اور اس جذبہ اور فکر کے امتزاج نے ان کے مخصوص انداز کو ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔ ’’گنگا کا چراغ‘‘، ’’انسان‘‘، ’’تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘، ’’دوشیزہ کا راز‘‘، ’’موتی لال نہرو‘‘، ’’جواہر لال نہرو‘‘، ’’جہاں میں ہوں ‘‘، ’’زمینِ وطن‘‘، ’’تم‘‘، ’’ٹھنڈی کافی‘‘، ’’قحط کلکتہ‘‘، ’’جادہ امن‘‘، ’’گل کر دو قمر کو‘‘، ’’گمراہ مسافر‘‘ وغیرہ نظموں میں ان کی خصوصیات آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ ملا بڑے نظم گو ہیں یا بڑے غزل گو۔ وہ غزل کو اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ’’اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر‘‘ سمجھتے ہیں اس خیال سے کبھی غافل نہ رہے۔ اپنی غزلوں میں انھوں نے پر کیف جذبات اور بلند خیالات کی ترجمانی سے اسلوب کی ندرت پیدا کر دی۔ یہاں تک کہ ان کا لہجہ مخصوص رنگ اختیار کر گیا۔ ان میں سیاسی تصورات، زمانے کے مسائل اور داخلی و خارجی کیفیات ان تمام عناصر کا دل کش امتزاج ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شعری خصوصیات کی طرف ان اشعار میں خود اشارہ کر دیا ہے ؎

میری کوشش ہے کہ شعروں میں سمودوں ملاؔ

صبح کا ہوش بھی دیوانگیِ شام کے ساتھ

غزل اک نام تھا ناکامیوں پر سینہ کو بی کا

مرے پہلے یہ بانگ کاروانِ زندگی کب تھا

اور حقیقت یہ ہے کہ ملک کے نئے نئے مسائل، عمومیت اور عوام کے دکھ درد شامل کر کے غزل کو گل و بلبل اور حسن و عشق تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے غیر معمولی وسعت بخش دی۔ چند اشعار کی مثالوں سے ان خصوصیات کو آسانی سے پرکھا جا سکتا ہے ؎

غمِ حیات، شریکِ غم محبت ہے

ملا دئیے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ

 

جفا صیاد کی اہلِ وفا نے رائے گاں کر دی

قفس کی زندگی وقف خیال آشیاں کر دی

 

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تونے روکا بھی تھا مجرم کو خطا سے پہلے

 

ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن

فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی

 

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

 

وہ کون ہیں جنھیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی نہ ملی

ان اشعار میں حسن و لطافت کے ساتھ زندگی کے مسائل اور فلسفیانہ خیالات کے جو پہلو ملتے ہیں اس نے اردو غزل کو غیر معمولی وسعت بخش دی۔ ملا کو اردو زبان سے عشق تھا۔ اس زبان کے ساتھ جو نا انصافی ہو رہی تھی۔ وہ شدت سے اس کے خلاف ہر جگہ آواز بلند کرتے تھے۔ نا مساعد حالات کے باوجود انھوں نے اردو کا علم اٹھائے رکھا۔ اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس کے قائل رہے کہ اس کے ذریعے قوم کو بقا اور تہذیبی زندگی کو استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کے جذبات کی بے چینی و بے قراری کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

 

ملّاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذِ جنگ

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

 

لبِ مادر نے ملّاؔ لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

 

غرض یہ کہ ملّاؔ کی نظم میں غزل میں ہر جگہ انسان کی عظمت حرکت، عمل اور جذبہ واحساس کے عناصر ملتے ہیں جس نے ان کی شاعری میں انفرادیت پیدا کر دی اور پروفیسر احتشام حسین کے الفاظ میں :

’’ملّاؔ کی شاعری اکثر جذبہ و ذہن دونوں کو آسودگی بخشتی ہے ان کے صاف شفاف اور ذکی الحس اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل دونوں نے مل کر ایک مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے اس رنگ میں ان کے حریف مشکل ہی سے ملیں گے۔ ‘‘

ملّاؔ کی موت نے اردو شاعری میں بھی خلا پیدا کر دیا ہے اور اردو زبان کے تحفظ و بقا کے لیے جد و جہد کرنے والوں کی صفوں میں بھی:

اک موت کا جشن منا لیں تو چلیں

پھر اشک پونچھ کے مسکرالیں تو چلیں

آتجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

اک آخری راگ اور گالیں تو چلیں

٭٭٭

 

 

 

 

ملّاؔ کی شاعری کا ایک پہلو

 

                ……… قمر اعظم ہاشمی

 

فن، فنکار اور فطرت کا تعلق بیحد مضبوط اور مربوط ہے، فنکار فطرت کے مظاہر سے مشاہدہ یا تجربہ کے ذریعہ جو معلومات فراہم کرتا ہے انہیں اخذ و انتخاب کے بعد بہ طرز حسن الفاظ و بیان کا جامہ بخشتا ہے۔ فن کا مرحلہ قوتِ احساس سے شروع ہوتا ہے اور جذبہ فکر ادراک، تخیل وجدان اور شعور کی منزلوں سے گذرتا ہوا ’’اظہار مدّعا‘‘ پر ختم ہوتا ہے، تخلیق سے لے کر تکمیل فن کے ان تمام مرحلوں کے درمیان فنکار کئی دنیاؤں سے گذرتا ہے، ایک ایک پل میں صدیاں مٹ آتی ہیں، کبھی وہ ماضی کی شاہراہوں پر دوڑتا ہے، کبھی نا معلوم مستقبل کی صبح و شام کے دریچوں سے جھانکتا ہے اور کبھی نوحہ و نغمہ کی وہ آواز اسے متاثر کرتی ہے جس سے خود اس کا ماحول گونج رہا ہوتا ہے، لمحہ لمحہ برق وش ہوتا ہے، فنکار کبھی بہ فیضِ شعلہ سماوی، انتہائی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے اور وہاں بھی پہنچتا ہے جہاں فرشتوں کے پروں کو خاکستر ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اور کبھی اس عالم آب و گل کی وہ تاریک وادیاں اس کی گذر گاہ ہوتی ہیں جہاں ظلمت و شر کا راج ہوتا ہے۔ جب تک فن جلوہ گہ عام میں نہیں آ جاتا فن کار کا وجود ایک شدید اضطراب و بے چینی اور ہنگامۂ حشر سے دوچار ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ فنکاری چاند پر گھر بسانے سے بھی زیادہ مشکل ہے، فنکارانہ کامیابی کی منزلوں سے گذرنے کے لیے ادیب کی صلاحیت و شخصیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ایک کامیاب اور عظیم فنکار ایک عظیم اور مکمل انسان ہو تو بڑی بات ہے، ایسا انسان جس میں کسی طرح کی کمی نہ ہو، جو انسانیت اور روحانیت کے رموز سے آگاہ ہو اور سماجی مسئلوں سے بھی فکر کی جذباتی اور نفسیاتی لحاظ سے اس کے اندر کوئی خامی نہ ہو، ہر جہت سے مکمل اور صحت مند انسان کا فنکارانہ کردار یقینی بہت بلند ہو گا اور اسی لئے ایسا فنکار عموماً کسی نظریہ کا علمبردار، کسی نظام حیات کا مبلغ کسی تحریک کا مقلد، کسی دبستان فکر کا نمائندہ یا معاشرہ اور سماج کا مصلح نہیں ہوتا۔ وہ کلاسیکی، غیر کلاسیکی روایت پرستی، جدت پسندی، اشتراکی، نفسیاتی، رومانی، تعمیری، اصلاحی اور جمالیاتی، نیز دوسرے تمام نظریاتی گورکھ دھندوں سے محفوظ و مامون ہوتا ہے، وہ ایک سچے صالح اور باشعور ادیب کے فرائض سے آگاہ ہوتا ہے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی مخلصانہ کوششیں کرتا ہے، بے شبہ ایسے فنکار کم ہیں اور ہر زمانے میں کم رہا کئے ہیں۔

گذشتہ چند برس کے اندر خاص طور پر اردو شاعری کو نظریات اور ان کے تصادم نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ زیادہ تر شعراء فنکار کی حیثیت سے کم کسی نہ کسی نظریہ کے مبلغ کی حیثیت سے زیادہ سامنے آئے ہیں، جذباتی بین دبکا، خود پرستی، ناقص ابہام پسندی اور کئی دوسرے مریضانہ میلانات کی فراوانی ہو گئی ہے، فنکار کے کیا کیا فرائض ہیں ؟ اور اسے کن کن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے، اس کا احساس کم ہو گیا ہے۔ افسانہ، نظم، غزل اور مضمون میں فن کی عظمت و رفعت کے گیت گائے جاتے ہیں اور خود انہیں فنکاروں کے دامن مختلف سماجی برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہم اتنے سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں کہ بسا اوقات خود کو غلط تسلیاں دے دے کر حقائق سے چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے اس کی وجہ ایک مٹتے ہوئے کلچر کا فشار ہو، مگر بیسویں صدی میں بعض شخصیتیں ایسی ہیں جن کے فکر و فن سے ہمارا خلوص اور اعتماد وابستہ ہے، جنھیں ہم مخلص فنکار تسلیم کرتے ہیں اور جن کا فن ہمیں ذہنی پراگندگی نہیں، سکون و مسرت بخشتا ہے۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ایک شخصیت پنڈت آنند نرائن ملا کی ہے۔ موجودہ دور کے ایسے شعراء میں جو مکمل انسان بھی ہیں اور پورے فنکار بھی ان میں جناب ملا بھی ہیں۔ پنڈت آنند نرائن ملا ہندوستان کی اس زبان کے شاعر ہیں، جو قومی اتحاد اور جذباتی ہم آہنگی کی واحد ضامن ہیں اور خود وہ ایک ایسا فنکار ہیں جس کے اندر ’’پنڈت‘‘ بھی ہے اور ’’ملا‘‘ بھی، میں ذیل کے سطور میں ’’میری حدیثِ عمر گریزاں ‘‘ کی روشنی میں ملا صاحب کی شاعری کے ایک اہم پہلو کی وضاحت کی سعی کروں گا۔

فن کار کی فتح مند شخصیت کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسے مکمل انسان ہونا چاہئے۔ ایسا فنکار ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب اور فرقہ کے تعصبات سے بلند ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کی فکر کرے گا، بشریت کے تقاضوں پر نظر رکھے گا، ان قدروں کا محافظ ہو گا جو سارے انبیائے آدم کے لیے تسکین و نشاط کا سبب ہوتی ہیں۔ خود پنڈت جی موصوف لکھتے ہیں ’’ میں تو اس فنکار کو عظیم فنکار سمجھتا ہوں جو نوعِ انساں کی بن کر انسان درد و غم سہے اور اس غم کا مکمل علم اور احساس ہونے کے باوجود اس کی ذات میں اتنا لوچ اور اس کے فن اتنی سکت ہو کہ وہ اس زہر کو امرت بنا کر پی جائے، اپنے دل و دماغ کی معصومیت، تازگی اور حسن کو برقرار رکھے اور پھر دانائی کی چوٹیوں سے کل نوعِ انساں کو جسمیں گمراہ انسان شامل ہوں ایک طفلِ معصوم کے میٹھے اور سریلے بولوں میں پکارے اور منزل انسانیت کی طرف قدم بڑھانے کا پیغام دے۔ اجتماعی مسئلوں کے اسی احساس کی ترجمانی انھوں نے یوں کی ہے :

اپنا ہی غم فقط ہو تو ممکن ہے جھیل لیں

ہم ایک جہاں کے درد پہ تڑپائے جاتے ہیں

غیر کے درد پہ بھی اشک بداماں ہونا!

یہی معراج بشر ہے یہی انساں ہونا

تاریخِ بشر کی کہانی ملا صاحب کی زبانی سنئے ؎

تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم

جب آئے نئے بت پیش نظر اصنام پرانے توڑ دئیے

بیحد سادگی، متانت اور خلوص کے ساتھ ایک صدی پرانی حقیقت کا اظہار ہے، مذہبوں کے اصنام ہوں یا نظریوں کے پتھروں کے اشام ہوں یا جیتی جاگتی شخصیتوں کے، انسان نے ہمیشہ چڑھتے سورج، بہتے دریا، تازہ تراشیدہ مورتوں، رائج الوقت سکوں، نئی تحریکوں اور بر اقتدار افراد کی پوجا کی ہے، شاعر موجود حالات سے نا مطمئن ہے، وہ ایک ایسی سماجی نظام کی تعمیر کا خواہاں ہے جس میں انسان انسان کے حقوق کی نگہبانی کرے اور ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری کی اہمیت کے سمجھے، ہر ایک کا دل ایک دوسرے کی محبت کا احساسات سے سرشار ہو، انسان کو کسی انسان سے شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔ ملا صاحب نے اپنے جذبہ کی شدت کو اس طرح واضح کیا ہے۔

بشر کو سانس لینا بھی کہیں مشکل نہ ہو جائے

کچھ اتنی آج زہریلی فضائیں ہوتی جاتی ہیں

ان کو شکوہ ہے کہ ؎

ہر سودہ ہر اس و دہشت ہے اپنوں کو بھی انساں بھول گئے

دلِ رسمِ محبت بھول گئے، شاعر غمِ جاناں بھول گئے

پھولوں میں نہیں وہ خندہ لبی، نکہت نفسی، شبنم دہنی

وہ دور سموم و برق آیا، تہذیب گلستاں بھول گئے

زخمی کی جان کی فکر نہیں اور جامہ دری پہ حشر بپا

یہ چاک گریباں پر نالاں، چاکِ دل انساں بھول گئے

اُن کی دلی خواہش ہے کہ ؎

ہر قوم سے لے کر رنگ اس کا ایک قوس عالمگیر بنا

اس رنگین قوس کو محراب دانش گہ مستقبل کر دے

لیکن شاعر اپنے اس قیمتی خیال کو خواب کی حدوں سے آگے نہیں جانے دیتا، کیونکہ ابھی وہ ایک ایسی دنیا کی تلاش میں سرگرماں ہے جس میں انسانی قدریں پائی جاتی ہوں، وحشت و بر بریت اور ظلم داستبداد کا بازار گرم نہ ہو۔ جہاں افراد مطمئن اور مسرور ہوں اور ابھی اسے یہ دنیا نظر نہیں آئی۔ ملا صاحب کی ایک نظم بعنوان ’’میری دنیا‘‘ پیش نظر ہے اس میں کل ۲۶ اشعار ہیں۔ نظم کے دو حصے ہیں، پہلے میں ۱۶اشعار ہیں جن میں انسان کے کردار کی خامیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، شدت احساس ملاحظہ فرمائیے ؎

دل کانپتا ہے میرا، انساں کی طاقتوں سے

لگتا ہے خوف مجھ کو انچی عمارتوں سے

لاشوں پہ ہے بنائے ایوانِ کامیابی

چونے کی جا لہو ہے، اینٹیں ہیں ہڈیوں کی

سینچی ہوئی لہو سے سب تیری کیاریاں ہیں

مسروقہ دولتوں پر سرمایہ داریاں ہیں

چٹکی میں مل گیا جو، اس کو مسل ہی ڈالا

زیرِ قدم جو آیا کچ سے کچل ہی ڈالا!

انساں اُتر رہا ہے رسمِ درندگی پر

تہذیب آ گئی ہے حدّ برہنگی پر

ان اشعار میں ایک ٹھوس حقیقت نگاری سے کام لیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میں جہاں حصول اقتدار کی رسّہ کشی، جنگ زر گری، غرض پرستی، مفاد پروری، در جذبۂ برتری کا رجحان عام ہے، جہاں ہر شہ زور کمزور کو ہڑپ کر جانے کی فکر میں ہے اور تہذیب و تمدن کے نام ، انسانیت کی جلی قدروں کو مسخ کیا جا رہا ہے، امن و شانتی سکون و اطمینان کیساتھ زندگی گزار لینا مشکل ہو ایسے لوگ جن کی قوت ارادی کمزور ہوتی ہے، یا تو حالات کے آگے سپر ڈال کر زمانہ سازی کو اپنا اصول بنا لیتے ہیں۔ یا زندگی کی بھاگ دوڑ سے قطع تعلق کر کے گوشہ نشیں ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جن کے فکر و عمل کی توانائی مضبوط تر ہوتی ہے ایسی سماجی بد نظامی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، وہ حالات کے آگے سپر نہیں ڈالتے بلکہ اس کے بالمقابل سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور ایسے نظام کی قیام کی خواہش کا اعلان کرتے ہیں جس کی بنیاد انسانیت کے اصولوں پر رکھی گئی ہو، پنڈت آنند نرائن ملا کو تشنگی کا احساس بھی ہے اور وہ مضطرب بھی ہیں۔ مگر ان کے اندر شکست خوردگی نہیں ملتی۔ وہ ان تمام نا آسودگیوں کے باوجود ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کی امید کرتے ہیں۔

ایک بار دورِ گردوں ایسا نظام بھی ہو

جس میں ہر ایک میکش صہبا بہ جام بھی ہو

مظلوم کا کلیجہ تیرِ ستم نہ ڈھونڈے

ایوانِ شادمانی بنیاد غم نہ ڈھونڈے

انسان غاصبانہ را ہوں سے ہٹ چکا ہو

پیشانی بشر کا تیور پلٹ چکا ہو!

انسانیت کا پودا ٹھٹھرے نہ جس ہوا میں

دل کا بھی سانس لینا ممکن ہو جس فضا میں

پنڈت آنند نرائن ملا انسانیت کے آلام و مصائب سے پوری طرح آگاہ ہیں، واقعہ یہ ہے کہ فنکار جس سماج اور ماحول میں اپنی زندگی گذارتا ہے۔ ہوئے خیر و شر سے دامن کش نہیں رہ سکتا، اس مخصوص ماحول کے نیک و بد حالات اسے یقینی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ عظیم فنکار فوق البتہ نہیں ہوتے خیر البشر ہوتے ہیں وہ انسانیت کی تباہ کن مایوسی کے احساس کو سینے میں چھپائے رکھنے کے باوجود مستقبل پر فلاح مثبت نظر ڈالتے ہیں، یہی وہ انداز نظر ہے جو ادیب کو ہمہ جہتی اور آفاقی رجحان کو عطا کرتا ہے، لونی آرا گاؤں کی شاعری ہو یا طبّاع فنکار مانیکا فسکی کی شاعری، درڈ سورتھؔ کے نغمے ہوں یا غالبؔ کی غزل، کالیدؔاس کی شکنتلا ہو یا ٹیگور اور دویاپتی کے زبان زد عام و خاص گیت، ان سب کی بے پناہ مقبولیت و شہرت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان فنکاروں نے زندگی سے بیحد قربت حاصل کی، انسان کی اجتماعی الم و نشاط کو پوری شعوری قوت کے ساتھ محسوس کیا اور اپنی دنیا کے خیر و شر کے درمیان خطِ تقسیم حائل کر کے انسانیت کی صحت مند قدروں کی وضاحت کی، ان کی ہمہ گیر شہرت و اہمیت کا راز حیات کے تمام سوز وساز اور نور و ناز کو وقف عشق کر دینے میں نہیں ہے اور نہ کسی نظریہ کی علمبرداری میں۔ اس کی وجہ ان کی وہ عظیم فنکاری ہے جو انسانیت کے سماجی اور فطری تقاضوں کے پیشِ نظر سامنے آئی، عظیم ادیب سارے معاشرے کو اکائی کی حیثیت دیتا ہے اور وہ انسان برادری کے مسئلوں کو ہر اصول اور ہر نظریہ پر فوقیت دیتا ہے، وہ صحت مند سماج کی تشکیل اور جہانِ تازہ کی تعمیر کا خواہاں تو ہوتا ہے لیکن خود صرف نکار ہی ہوتا ہے، معمار یا مصلح نہیں بنتا۔ آنند نرائن ملاؔ کی ایک نظم ’’جہاں میں ہوں ‘‘ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ کیجئے۔

وہی حرص وہوس کا تنگ زنداں ہے جہاں میں ہوں

وہی انساں وہی دنیائے انساں ہے جہاں میں ہوں

تمنا قید ہمت پابجولاں ہے جہاں میں ہوں !

مجھے جکڑے ہوئے زنجیر امکاں ہے جہاں میں ہوں

کبھی شاید فرشتہ آدم خاکی بھی بن جائے

ابھی تو بھیس میں انساں کے شیطاں ہے جہاں میں ہوں

کسی قیمت یہ بھی انسانیت ڈھونڈے نہیں ملتی

مگر جنس خدائی اب بھی ارزاں ہے جہاں میں ہوں

غرض مندی کی پوجا عام ہے یوں ہر شوالے میں

محبت اپنی فطرت پر پشیماں ہے جہاں میں ہوں

ابھی روئے حقیقت پڑا ہے پردہ ایماں !

ابھی انساں فقط ہندو مسلماں ہے جہاں میں ہوں

مجھے بھی شوقِ آزادی ہے، لیکن کیا کروں اس کو

مرے چاروں طرف زنداں ہے زنداں ہے جہاں میں ہوں

انسانیت کے زخم جگر کار یہی وہ شاید احساس ہے جس نے ملّا کی شاعری کو امتیازی مقام عطا کیا ہے، قریب قریب ہر شعر میں یہی نا آسودگی، محرومی، بے اعتباری اور اضطراب و ہیجان موجود ہے اور ایک ایسا جذبہ تجسس جسے ایک صالح اور نئی دنیا کی تلاش ہے، بد قسمتی سے ہمارا دائرہ فکر بڑا تنگ ہے۔ چند مخصوص احساسات و جذبات اور کچھ اِنے گنے خیالات و افکار میں ہی بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، چاہے انسانیت پر بڑی سے بڑی قیامت گذر جائے، دنیا آگ اور خون کے سمندر میں چھلانگ لگا دے یا بشریت معراج کی منزلوں کو جا کر مل جائے ہمارے یہ شعر خوش گوار حالات کی موجودگی میں بھی اپنی انفعال پسندانہ روش برقرار رکھنے کا گویا تہیہ کر چکے ہیں، ۱۵ سال کی عمر کا اردو شاعر ہو یا ۷۵ برس کی عمر کا ایک عدد جواں سال و حسین محبوب سے اس کا سروکار ضرور ہو گا۔ اردو کے با صلاحیت شعرا کی شخصیتوں کا صحت مند ارتقا بھی عموماً تکمیل ہی کی منزل میں رک سا جاتا ہے جس کی وجہ سے شاعری حسن فکر و نظر کی بنیادی توانائیوں سے ایک حد تک محروم ہو جاتی ہے۔ ملاؔ کے یہاں عشق کا تصور بھی ہے اور عشقیہ خیالات و احساسات بھی لیکن وہ غیر صحت مند رجحانات سے اپنا دامن صاف بچا لے جاتے ہیں، کیونکہ عشق کو وہ منزل نہیں سمجھتے منزل تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسی شاہراہ جو کچھ دور تک مسافروں کا ساتھ دیتی ہے اور بس! ان کے نزدیک اصل منزل انسانیت کیے ارتقا کا آخری زینہ ہے۔ یہی وہ زینہ ہے جہاں کائنات کی تمام لہروں کو مرکوز ہو جانا ہے اور اس منزل تک پہنچے کے لئے قدم قدم پر خیر و شر اور حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں انسان اس رزم خیر و شر کا محض تماشا نہیں ہوتا بلکہ فریق بھی ہوتا ہے۔ ملاؔ صاحب کا خیال ہے کہ انسان بھی جادۂ گمراہی میں بھٹک رہا ہے اور غالباً اس حقیقت سے قطعی ان کار بھی نہیں کیا جا سکتا ؎

دنیا کے اندھیرے زنداں سے انساں نے بہت چاہا نہ ملا

اس غم کی بھول بھلیاں سے باہر کا کوئی رستہ نہ ملا

اہل طاقت اُٹھتے ہی رہے بھاری بھاری تیشے لے کر

دیوار پس دیوار ملی، دیوار میں دروازہ نہ ملا

ار پھر کے وہیں پر آتا ہے انساں ہے وہ باطل پہ ابھی

صدیاں گذریں چلتے چلتے ہے لیکن منزل پہ ابھی

آنند نرائن ملاؔ نے اپنی نظم ’’جادۂ امن‘‘ میں کسی قدر تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ گیارہ بندوں پر مشتمل اس نظم کا مرکزی خیال انسانیت کی قدر و قیمت کا احساس اور موجودہ معاشرے کے زوال آمادہ نظام پر اظہار تشویش ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ عصر حاضر ایک انتہائی جاں گسل تہذیبی، اخلاقی اور سماجی بحران سے گذر رہا ہے، فتنہ و فساد کے شعلے بلند ہو رہے ہیں اور خود انسان اپنے ہاتھوں میں اپنی روایتی اور تاریخی عظمت کی قبر تیار کر رہا ہے ’’جادہ امن‘‘ کے دوسرے بند میں شاعر کہتا ہے ؎

ابھی تو تتلیوں سے ہے قفس کی سازِ آشیاں

ابھی تو اس جہاں پہ خدائے جبر حکمراں

بشر کے واسطے نہیں کوئی بھی گوشۂ اماں

ہر اک طرف ہیں ظلمتیں، ہر ایک سمت ہے دھواں

 

دھوئیں میں لے کے اس کی شمع ضو فشان بڑھے چلو

علم کئے شہید قوم کا نشاں بڑھے چلو

 

انسان کی مفاد پرستی، غرض مندی اور بو الہوسی نے دنیا کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ہر ایک، دوسرے سے نبرد آزما ہے۔ اس کی جنگجویانہ فطرت نے اس عالمی نظام کو درہم برہم کر کے اس کے سکون دامن پر ضرب کاری لگائی ہے جس کے نتیجہ میں :-

لہو سے ہیں حدیث زندگی کی سرخیاں بھی

بٹا ہوا ہے جنگجو صفوں میں، یہ جہاں ابھی

زمیں کی فوج ہے ابھی سپاہ آسمان ابھی

حسیں افق حیات کا نظر میں ہے نہاں ابھی

 

دھوئیں میں لے کے اس کی شمع ضو فشاں

علم کئے شہید قوم کا نشاں بڑھے چلو

انسان کی مفاد پرستی، غرض مندی اور بو الہوسی نے دنیا کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور ہر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے اس کی جنگجویانہ فطرت نے اس عالمی نظام کو درہم برہم کر کے اس کے سکون و امن پر ضرب کاری لگائی ہے جس کے نتیجہ میں :-

لہو سے ہیں حدیثِ زندگی کی سرخیاں ابھی

بٹا ہوا ہے جنگجو صفوں میں یہ جہاں ابھی

زمیں کی فوج ہے ابھی سپاہِ اسماں ابھی

حسین افق حیات کا نظر میں نہاں ابھی

 

کہیں تو خاک سے ملے گا آسماں بڑھے چلو

علم کے شہید قوم کا نشاں بڑھے چل

ہر طرف غارت گری اور بربادی کا بازار گرم ہے، حد یہ ہے کہ ان زرد آندھیوں سے ادب و فن کا دامن بھی محفوظ نہیں :-

بدل بدل کے رنگ ابھر رہا ہے فتنہ جہاں

فن و ادب کو بھی پہنائی جا رہی ہیں وردیاں

گرج رہی ہیں بدلیاں، کڑک رہی ہیں بجلیاں

ادھر سیاہ آندھیاں ادھر ہیں سرخ آندھیاں

ان آندھیوں کے درمیاں ہی درمیاں بڑھے چلو

علم کے شہیدِ قوم کا نشاں بڑھے چلو

 

کہیں مذہب کے نام پر انسان کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں، کہیں نسل پرستی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، کہیں کھال کے رنگ کی بنیاد پر جنگ لڑی جا رہی ہے، انسانیت ہر لمحہ حالات کے ہولناک دلدل میں پھنستی چلی جاتی ہے، نظریات کے اختلافات، خیالات کے تصادم اور فکر و عمل کے تضادات بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ شاعر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے :-

بشر ابھی اسیرِ دامِ دین و نسل و رنگ ہے

ابھی تو حل ہر اک نزاع زندگی کی جنگ ہے

قدِ حیات پر ابھی قبائے امن تنگ ہے

ابھی صدائے دوستی پہ ہر طرف سے سنگ ہے

 

ابھی خصوصیتیں دلوں میں ہیں جواں بڑھے چلو

علم کئے شہید قوم کا نشاں بڑھے چلو

 

ابھی مذاق جبر کی وہی ہیں چیرہ دستیاں

وہی غرض کے طاق ہیں، وہی ہوس پرستیاں

وہی نشہ غرور کا، وہی سیاہ مستیاں

ابھی تو گردِ پیش و پس ہیں پستیاں ہی پستیاں

 

نہاں انہیں میں نور کی ہیں چوٹیاں بڑھے چلو

علم کئے شہید قوم کا نشاں بڑھے چلو

انسانیت پر جو جبر و ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، ملا کی شاعری میں اس کے خلاف ایک طاقت در صدائے احتجاج صاف طور پر سنائی دیتی ہے۔ شاعر بنی نوع کی خیر سگالی اور بہتری کے سلسلہ میں نہایت صالح جذبات و احساسات رکھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ معاشرے کا موجودہ ڈھانچہ بدل جائے، اس کی جگہ ایک ایسا نظام وجود میں آئے جس میں اجتماعی بیداریاں ہوں، کوئی فرد دوسرے کے غم سے غیر متعلق نہ ہو، تہذیب و تمدن کے ایسے نقوش سامنے آئیں جن میں انسانیت کے مزاج اور فطرت کی چھاپ ہو۔ ’’جادۂ امن‘‘ کے علاوہ ’’میری حدیثِ عمرِ گریزاں ‘‘ کی بہت سی نظموں میں انسانیت کے یہی بنیادی مطالبات اور تقاضے ملتے ہیں۔

پنڈت آنند نرائن ملا کی شاعری میں مطالعہ و مشاہدہ کی فراوانی، تجربات کی کثرت، گہری بصیرت اور احساس و جذبہ کی ایک وسیع دنیا ملتی ہے، انھوں نے فن کو لاشعور کا ترجمان نہیں بنایا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لاشعور خواب و خیال کی تاریک وادیوں کی سیر تو کراسکتا ہے مگر زندگی کی ان حرارتوں اور توانائیوں کے رُخ سے نقاب نہیں اٹھا سکتا۔ جن سے ہمیں ہر وقت سابقہ رہتا ہے، ملاؔ کی شاعری میں ایک دانشور طاقتوں کی جلوہ گری ہے وہ بھر پور علم و اطلاع کے بغیر محض قیاس کی بنیاد پر لاشعور کی پکار کے سہارے اپنے فن کا کوئی موضوع منتخب نہیں کرتے، ملاؔ کی شاعری داخلی اور خارجی عناصر کا ایک اثر انگیز امتزاج پیش کرتی ہے۔ بہتر سے بہتر فن کی پیشکش کے لیے ایک طرف وہ آپ بیتی سے استفادہ کرتے ہیں تو دوسری طرف جگ بیتی پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو وہ اپنی ذات کے محبس میں اسیر ہیں اور نہ بیرونی تحریکات کا ان پر دباؤ ہے۔ ان کے فن کے موضوعات کا دائرہ عمل محدود نہیں ہے، ان کی شاعری میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا احساس بھی ہے اور اتحاد و بقائے باہم کے اصولوں کی ترجمانی بھی۔ وہ وطن پرستی کے جذبات سے بھی سرشار ہیں اور حسن و عشق کے مسائل سے بھی انہیں دلچسپی ہے اور بقا و فنا کا راز بھی ان پر منکشف ہے مجموعی طور پر بغیر تکلف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملا ؔ کی شاعری میں شعر و سخن کی صحت مند قدروں کی ضیا پاشی ہے۔ ان کے فن کی فضا میں یاس و حسرت کم، بیم و رجا زیادہ ہے۔ فنکارانہ صناعی کے لحاظ سے بھی ملاؔ ایک اہم مقام رکھتے ہیں فن کو جلوہ گہ عام میں لانے کے لئے ذریعہ اظہار منتخب کرنے اور فکر و جذبہ کو الفاظ میں منتقل کرنے کا مرحلہ بڑا آزمائشی ہے۔ جب کوئی تجربہ تخلیق کی تمام داخلی منزلوں کو طے کر کے تجسیم کی منزل میں پہونچتا ہے تو فنکار کی ساری خلّاقانہ قوت ایک نقطہ پر مرکوز ہو جاتی ہے وہ اپنے تخلیقی جوہر کی تمام توانائیوں کو سمیٹ کر تخلیق فن کے اس آخری مرحلے کو طے کرتا ہے۔ ملاؔ کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے تخلیق کے ہر مرحلے سے بخیر و خوبی گذرنے کی ہر پر خلوص کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کی کثرت اور تجربہ و فکر کی ندرت ہی نہیں ہے، بہترین فنکاری، صناعی اور حسن کاری بھی موجود ہے۔ مناسب ذریعہ اظہار کے انتخاب کے ساتھ نئی نئی ترکیبوں کے اختراع، الفاظ کی مناسب اور برجستہ نشست و برخواست، تازہ اور نادر تشبیہ و علامت کے استعال سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملا صاحب بیان و زبان پر بھی کافی دسترس رکھتے ہیں اور کہ ان کے یہاں عجز بیان بہت کم ہے۔ غزل کی دنیا ہو یا نظم کی۔

ملّا صاحب کی فنکارانہ قوت کے جوہر ہر جگہ نظر آئیں گے۔ مختصر یہ کہ پنڈت آنند نرائن ملّا اردو کے ان چند برگزیدہ اور نا قابل فراموش شعراء میں ایک ہیں جن کے دم سے اردو شاعری کا چراغ روشن ہے۔ جنہوں نے اپنے خون جگر سے اردو شاعری کی دیوی کے رنگ روپ کو نکھارا ہے اور جن کی شخصیتیں آئندہ نسلوں کے لئے چراغ راہ کے فرائض انجام دیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری

 

                ……… اختر علی تلہری

 

کچھ بات ہے ملا میں کہ نقادوں کے با وصف

وہ انجمنِ شعر میں گمنام نہیں ہے

اردو ادب میں تنقیدی سرمایہ خاصی مقدار میں جمع ہو چکا ہے۔ چھوٹے بڑے شاعروں اور ادیبوں پر مختلف حجم و ضخامت کے بہت سے اچھے برے مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں بیشتر جانب داری اور ذاتی تعلقات کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ان میں وہ بے لوثی نہیں ملتی جو فنِ ادب و شعر اور اس کی تنقید سے خلوص رکھنے والوں کا طغرائے امتیاز ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا صاحب کی شاعری محترم جماعتِ ناقدین کی دقیقہ سنج نگاہوں کو اپنی طرف قرار واقعی طور سے جذب نہیں کر سکی ہے اور اس کی قلمی نگارشیں اس کے محور پر جیسا چاہئے گردش نہیں کر سکی ہیں۔

ملا صاحب لکھنؤ کے ایک معزز تعلیم یافتہ کشمیری خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد پنڈت جگت نرائن ملا صوبہ کی مشہور قانون داں ہستیوں میں سے تھے۔ ۱۹۰۱ء یعنی انیسویں صدی کے آغاز کو آپ کی پیدائش کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جوبلی اسکول لکھنؤ (موجودہ گورنمنٹ جوبلی انٹر میڈیٹ کالج لکھنؤ) اور کیننگ کالج (موجودہ لکھنؤ یونیورسٹی) میں آپ نے انگریزی کی تکمیل کی اور اس مضمون میں ایم اے کیا اردو فارسی باقاعدہ مکان پر مولوی برکت اللہ صاحب رضا فرنگی محلی سے پڑھی۔ انگریزی شعر و ادب کا شوق انھیں ابتداء ہی سے تھا۔ بائرن، کیٹس اور بالخصوص شیلی ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ وہ خود بھی انگریزی میں شاعری کرتے تھے۔ چناں چہ اس دور میں اقبالؔ ، انیسؔ اور غالبؔ کے منظومات کے کچھ ترجمے بھی انگریزی نظم میں کئے تھے اور وہ ترجمے پسند بھی کئے گئے تھے لیکن اس زمانہ میں جبکہ وہ ۲۶ سال کی عمر کی حد میں داخل ہو چکے تھے اردو انگریزی کے مشہور ادیب اور ماہر تعلیمات پنڈت منوہر لال زتشی کی جوہر شناس نگاہوں نے ان کی شعری صلاحیتوں کو تاڑ لیا اور انھیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزی کے بجائے اردو میں شعر کہنا شروع کر دیں۔ اردو کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ملا صاحب نے اپنے بزرگ کے اس دانش مندانہ مشورے کو قبول کر لیا اور انگریزی میں شعر گوئی کو یک لخت ترک کر کے اردو شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چناں چہ اردو میں ملا کی پہلی شعری کوشش کا نتیجہ ان کی نظم ’’پرستا رحسن‘‘ ہے جو ان کے پہلے مجموعے ’’ جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ جیسا ابھی عرض کیا ہے ملا اس وقت ۲۶ سال کی عمر کی حد میں قدم رکھ چکے تھے اور یہ عمر خاصے دماغی بلوغ اور فکری شعور کی عمر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں ایک باقاعدہ تعلیمی تربیت پائے ہوئے اپنے فکر و ذوق پر اعتماد رکھنے والا سنجیدہ اور مہذب شخص اپنی فکر شعر کے لئے عام فرسودہ، عامیانہ جذباتی جادہ پسند نہیں کر سکتا۔ وہ آخر ان سستے شعری کھلونوں کو بازار سخن میں پیش کرنے کی جرأت کیوں کر سکے جن سے ان کے بالغ دماغ کی فکری شعور کی رسوائی کا سامان ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے ابتدائی نقوش میں بھی تفکر کا عنصر ابھر اہوا نظر آتا ہے۔ یاد رکھئے غور فکر کے خوگر ذوق کی نظر اس نرم و نازک تانے بانے پر مشکل ہی سے پڑ سکتی ہے جس سے صرف ایک ہلکا پھلکا خوب صورت گیت ہی بنا جا سکے۔

ملا صاحب نے اردو شاعری میں باقاعدہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ بھی تہ نہیں کیا ہے۔ ان کی شاعری تمام فطرت کی دین ہے۔ انھوں نے اپنی فکر سخن کا جادہ خود تراشا ہے اور اس پر چلے ہیں، وہ صحیح معنوں میں ’’نابغۂ عصر‘‘ ہیں اردو میں انھیں تین شاعروں اقبالؔ ، غالبؔ اور انیس سے بہت زیادہ انس رہا ہے اور ان کا کلام متعدد مرتبہ پڑھا بھی ہے۔ ان سے ملا کو غیر شعوری طور سے شعر کے رموز و نکات پر قوت اور شعر گوئی کے سلیقہ کی تربیت ضرور حاصل ہوئی ہو گی۔

 

ملا کی شاعری اور حسن و عشق

 

ملا فطری طور پر بھاری بھرکم انسان ہیں۔ مشرقی تہذیب و ادب و اخلاق کی پاکیزہ خصوصیتیں ان کی رگ و پے میں پیوست ہیں ان کے جذبات میں ہلکا توازن ہے۔ عشق و عاشقی کی دنیا میں حرص و ہوس کے پیدا کئے ہوئے چونچلوں اور ناز و غمزوں کے کانٹوں میں اپنا دامن فکر بہت ہی کم الجھاتے ہیں۔ ان کے شعر کے لہجے میں دل کھینچ لینے والے نسائی عشووں کا لچکیلا پن اور لوچ شاید ہی کسی جگہ مل سکے۔ ’’کچھ ذرے، کچھ تارے ‘‘ تو خیر وہ ان کے ۱۹۴۹ء کے بعد کے کلام کا مجموعہ ہے جس میں سنجیدگی، تفکر، گہرائی، گیرائی، حقیقت نگاہی، باریک خیالی سب پورے شباب پر ہیں۔ لیکن جوئے شیر، تو ۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۹ء تک کے کلام کا مجموعہ ہے۔ اس میں بھی آپ کو مشکل ہی سے کوئی ایسا مقام ملے گا جہاں ملا نے دل کو تنہا چھوڑ دیا ہو بلکہ تقریباً ً ہر جگہ ’’پاسبانِ عقل ‘‘اس پر مسلط دکھائے دے گا۔ عشق و حسن کے باہمی راز و نیاز کی محاکات میں اچھے اچھے ثقہ شاعر بہک جاتے ہیں مگر ملا کا بالعموم یہ انداز رہتا ہے :

کوئی نا مہرباں اب مہرباں ہے

کہاں ہے عمر رفتہ تو کہاں ہے

اتنا بھی شک نہ میری محبت پہ کیجئے

یہ میں بھی جانتا ہوں زمانہ خراب ہے

حسن کے بازار میں ہوتی نہیں کچھ اس کی قدر

سکۂ الفت پہ جب تک مہر رسوائی نہیں

کچھ اپنی کشش کی بھی تجھے حسن خبر ہے

یا یوں ہی ہر اک آنکھ پہ الزام نظر ہے

عشق میں کیا سوالِ خود داری

جانے کے بار اپنی بات گئی

نگاہوں سے ہیں میری جانب اشارے

اشارے نہیں ہیں مسیحائیاں ہیں

ان آنکھوں نے دل کو بہت گدگدایا

ہمیں بھولے بیٹھے ہیں کچھ مسکرانا

بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں

یہاں رکی تھی تری چشم التفات کبھی

دو مری گستاخ نظروں کو سزا

پھر وہ ناگفتہ سوال آ ہی گیا

نہیں کرنے والے ترا مسکرانا

محبت کو ہے اور اک تازیانا

ہاں تم نے اعتراف محبت نہیں کیا

نیچی کئے ہوئے ہیں نظر کیا حیا سے ہم

 

حد یہ ہے کہ ردیف کی شوخی کی گدگداہٹ بھی ان سے بس اتنا ہی کہلوا سکی ہے ؎

قہر کی کیوں نگاہ ہے پیارے

کیا محبت گناہ ہے پیارے

دل کو اپنی ہی جلوہ گاہ سمجھ

آ، نظر فرشِ راہ ہے پیارے

سچ بتا کچھ خفا ہے تو مجھ سے

یا حیا سدّ راہ ہے پیارے

 

ملا ؔ کی غزل

 

غزل کے حق میں یہ بہت اچھا ہوا کہ ملا ؔ نے غزل کو حسن و عشق کی باہمی لطیف مکالماتی دل چسپیوں اور ان سے وابستہ جذباتی لذت آگیں کیفیتوں کی ترجمانی کے دائرے میں غزل کے لغوی مفہوم کا سہارا لیتے ہوئے محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ مجھے اس میں شک ہے کہ ان کی غزل موجودہ رفعت کی منزل تک پہنچ سکتی۔ ان کی عقل و دانش کا یہ عملی فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ غزل اپنی ہیئت و صلاحیت کے لحاظ سے سنگین سے سنگین تر حقیقتوں کی دل کش زبان بن سکتی ہے البتہ فن کار میں اس کی اہلیت ہونا چاہئے کہ وہ غزل کی رمزیت کو برت کر حقائق کی تصویروں میں صالح تخیل کے مو قلم سے رنگ بھر سکے خواہ اس کوشش میں اسے جگر کو خون ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حقیقتاً فن کاری یہی ہے ؎

اسی کا نام جینا ہے، جگر خوں ہو تو ہو جائے

نقوشِ دہر میں اک خاص اپنا رنگ بھرجانا

اب اگر بہت سے ارباب ذوق و صاحبان نقد اسی پہ اصرار کریں کہ غزل سنگین حقائق کا بار نہیں سنبھال سکتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی ہلکی پھلی نازک سی شے ہے۔ اس پر جہاں ایسی حقیقتوں کا بوجھ پڑتا ہے وہ دب کر رہ جاتی ہے اور اس کا چہرہ مہرہ بگڑ جاتا ہے تو ذیل میں ملاؔ کے چند شعر ان کے غور و فکر کے لئے درج کئے جا رہے ہیں کہ وہ اس پر نظر کر سکیں کہ وہ گیسو و رخسار یار کی سرشاری پیدا کرنے والی حکایتوں کی دنیا سے الگ ہٹ کر بھی ایک سنجیدہ خوش ذوق شاعر سنگین اور ٹھوس حقیقتوں کے بیان کے لئے کتنے اچھے دلآویز پیرائے اختیار کر سکتا ہے :

وہی ہے مردِ رہر و خار زار زیست میں جس نے

ذرا آسان تر پہلے سے راہ کارواں کر دی

زندگی امید سے خالی کبھی ہوتی نہیں

روشنی بجھ کر بھی دل میں تیرگی ہوتی نہیں

پیش نظر ہے ایک گروہ شکستہ پا

پوچھیں گے راہ اب نہ کسی رہنما سے ہم

ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظام چمن

فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی

فلک کے تاروں سے کیا دور ہو گی ظلمت شب

جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی

آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یاد گار

گذرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

نظامِ دہر کی بنیاد اس اصول پہ ہے

کہ اس میں فرد تو فانی ہے انجمن باقی

نہ پوچھ دورِ حقیقت کی سختیوں کو نہ پوچھ

ترس گئے لبِ افسانہ گو کو افسانے

اب رہِ زیست میں یہ ہے مرے دل کا عالم

جیسے کچھ چھوٹتا جاتا ہے ہر اک گام کے ساتھ

یہ تبسم ہی تیرے لب کا کہیں

راز تخلیقِ کائنات نہ ہو

خصومتوں میں خرد کی جہاں سنے نہ سنے

مرے سرودِ محبت کو رائگاں نہ کہو

نہیں ہے صید بھی معصوم صیادی کی دنیا میں

جب اس کا داؤں چلتا ہے یہی صیاد ہوتا ہے

بشر کی سادہ لوحی تجربوں سے بھی نہیں جاتی

ذرا شب مسکرائی اور یہ سمجھا سحر آئی

تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم

جب آئے نئے بت پیشِ نظر اصنام پرانے توڑ دئے

نام اس کا مگر ہے زندہ دلی

رات بھی آئے جب تو رات نہ ہو

بشر کے ذوق پرستش نے خود کئے تخلیق

خدا و کعبہ کہیں اور کہیں صنم خانے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا بھلا کیا ہے برا کیا ہے

بدل اے دور نو قدریں مگر پہچان رہنے دے

ملا ؔ کی غزل اور سیاسی تصورات

ملا ؔ کا شعری ذوق اس ماحول میں پروان چڑھا ہے جب کہ ملک میں حاکم و محکوم انگریز و ہندوستانی کے درمیان سیاسی کش مکش جزر و مد کی منزلوں میں تھی اور ملک کی آزادی کے نقشے بن اور بگڑ رہے تھے اور بالآخر ایک مرشد کامل پیر طریقت کی کامیاب رہنمائی میں ملک کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں کٹیں اور اسے آزادی نصیب ہوئی۔ مگر آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم کے نتیجے میں ہمیں لہو اور آگ کے دریا سے گزرنا پڑا اور ہماری ایک پوری نسل قتل و غارت، لوٹ مار، سفا کی و درندگی کے بہیمانہ کھیل میں مشغول ہو گئی اور وہ دل دہلانے والے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے جن پر آج تک انسانیت آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہے۔ ملا بھر پور سماجی شعور رکھتے تھے۔ ان کے دل میں نوع انسانی کا درد پورے طور سے موجود تھا۔ وہ ان کے دل دوز موثرات سے اثر پذیر ہوئے اور کافی اثر پذیر ہوئے۔ وہ اس سے پہلے غیر مشروط  وطنیت کے صنم دیدہ زیب کے پرستاروں میں تھے۔ یہاں تک کہ اقبال ؔ کو اس راہ سے ہٹتا ہوا دیکھ کر اس کی شاعری سے گرویدگی کے باوجود وہ ایک نظم کے ذریعے سے تیز و تند لہجے میں اس سے شکوہ کر گئے اور اس کے ’جام دل کی صہبا ‘کا، ’کوثر‘ میں تبدیل ہو جانا ان کے طنز کا نشانہ بن گیا۔ لیکن واقعات کی بے رحم رفتار نے ان کی وطنیت کے تصور میں ترمیم کرا ہی لی اور اب وہی وطنیت ان کی نگاہ میں محبوب رہ گئی جو انسان دوستی کے بلند بام کے لئے نردبان کا کام دے سکے۔ وہ وطن دوست اب بھی ہیں مگر ہر صحیح الفکر انسان کی طرح وہ ایسی وطن پرستی سے ہوا خواہ نہیں ہیں جو انسان دوستی کے تقاضے یک لخت نگاہوں سے اوجھل کر دے اور اپنے نظریہ اور عمل سے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کے لئے تیغ بکف رہے۔ ان کے سیاسی تصورات کی ان منزلوں کے اثرات ’’جوئے شیر‘‘ کی نظموں اور غزلوں میں صاف طور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر دوسرے مجموعہ ’’کچھ ذرے، کچھ تارے ‘‘ میں ’’انسان دوستی‘‘ ملا کا مستقل نظریۂ حیات بن گئی ہے اور اس نے ان کی فکر و نظر کے لئے مرکز کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس حد تک کہ اگر ملا ؔ کو خوش قسمتی سے توازن فکر و ذوق عمل کا غیر معمولی حصہ نہ ملا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ وہ اس ’’انسان دوستی‘‘ کے سرگرم بلند بانگ جوشیلے نقیب (پروپگنڈسٹ) ہو جاتے اور ان کی شاعری اس خصوص میں ایک آتش آہنگ شرارہ بار نعرے بازی کے جلالی تیوروں کی نمائندہ بن کر رہ جاتی۔ مگر ملا ؔ کا متوازن فلسفۂ شعر شعر کو شعر کی حدوں میں رکھتے ہوئے اس میں مقصدیت پیدا کرنے کاطرف دار ہے۔ وہ شعر کے ذریعہ اس پیام بری کے قائل نہیں جو شعر سے شعریت کی روح سلب کر کے اسے افادیت کے بازار میں بے جان لاشے کی طرح خریداروں کے سامنے پیش کرے۔ ذیل کے اشعار سے ملا ؔ کی انسان دوستی کی عروسِ زیبا کے رخسار کے مختلف خط و خال کی تصویر کسی حد تک نگاہوں کے سامنے آ سکے گی:

مے سب کو نہ ہو تقسیم اگر، اپنا بھی الٹ دے پیمانہ

یہ کفر ہے کیشِ رندی میں ساقی سے اکے لیے جام نہ لے

کرم کرم ہے تو ہو فیض عام اس کا شعار

یہ دشت ہے وہ گلستاں سحاب کیا جانے

خونِ دل ضائع نہ ہو بس مجھ کو اتنی فکر ہے

اپنے کام آیا تو کیا غیروں کے کام آیا تو کیا

نسیم و سبزۂ و گل کے سنہرے خواب دکھلا کر

یہ برقِ باد و باراں ہی نصیب آشیاں کب تک

کمزور کے لئے کوئی جائے اماں نہیں

گلشن میں ناتواں کے لئے آشیاں نہیں

ہماری جا بھی کہیں ہے خدائے دیر و حرم

حرم میں غیر ہیں اور بت کدے میں بیگانے

نکل کرکبھی شہر سود و زیاں سے

محبت کے اجڑے دیاروں کو دیکھو

مجھے اے خالقِ نطق و زباں خاموش کر دینا

مرے لب پر نہ جس دن درد انساں کی پکار آئے

محرومیِ تقدیر کی شکلیں ہیں ہزاروں

اب شام جو آئی تو مے و جام نہیں ہے

پائے کیا تسکیں مریضِ غم تری آنکھیں ہیں خشک

نرم گفتاری فقط اے چارہ گر کافی نہیں

عشق اک وہ ہے جو ہے نغمۂ خاموش حیات

اور اک وہ ہے جو افسانوں کے کام آتا ہے

ملّا کی شاعرانہ انفرادیت

ملّا کے شعری سرمایے پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ امر روشن ہو جاتا ہے کہ ان کا عمیق تفکر، ان کی نفسیاتی ژرف نگاہی ان کی فلسفیانہ حقیقت پسندی ان کے شعروں کو بوجھل نہیں بناتی۔ ان کی صاف ستھری تخئیل ان گراں بار حقائق کے نیچے دب کر غیر معتدل نہیں ہو جاتی بلکہ حقیقتاً ان سب کے اجتماع سے ان کے سخنہائے دلآویز حسنِ معنی و حسنِ بیان کا ایسا آمیزہ بن جاتے ہیں جس سے دل و دماغ دونوں کو روحانی نشاط حاصل ہوتا ہے۔

ملّاعام روایتی راستوں سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور پھر اپنے ان نادر و تازہ نتائج فکر کو شعریت کے بادۂ ناب میں ڈوب دے دیتے ہیں۔ یہیں سے ان کی شعری انفرادیت کا مزاج بنتا ہے اور وہ اپنے تمام معاصر شعراء کی صف سے الگ نظر آتے ہیں ؎

برق و شبنم باد و باراں، خار و گل سب آئے کام

رفتہ رفتہ اک مزاجِ گلستاں بنتا گیا

ملّا کی غزل میں ’’فاسقانہ شاعری‘‘، ’’قنوطی شاعری‘‘، ’’متصوفانہ شاعری اور رندانہ شاعری کی نیر نگیاں تو نہیں ملیں گی مگر ایسے کچھ جلوے ضرور ملیں گے جن کی خنک ضو سے دل و دماغ جگمگا اٹھیں گے۔

 

ملّا کی غزل اور ترقی پسندی

 

ملّا کو اپنے بارے میں بعض مستند ترقی پسندوں کی اس رائے پر کہ ’’وہ ترقی پسند ہیں ‘‘ خواہ کتنی ہی حیرت ہو لیکن صحیح معنوں میں ترقی پسند کہے جانے کا استحاق رکھتی ہے۔ اس میں توانائی بھی ہے اور توانائی کے ساتھ رعنائی بھی۔ ان کی غزل میں حقیقتاً وہ تمام صحت مندانہ رجحان موجود ہیں جو بنی نوع انسان کی زندگی اس کی سود و بہبود اور اس کی آسائش سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نگاہ عرش اور اس کے متعلقات میں نہیں الجھتی بلکہ اس زمین پر اور اس پر بسنے والی مخلوق سے وابستہ رہتی ہے اور اس میں سے اپنے آسمانوں کی تخلیق کرتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے خیالات و افکار پر کٹر اشترا کی نظریوں کی مہر نہیں لگی ہوئی ہے اور سچ پوچھئے تو گاندھی جی کے فلسفۂ امن و آشتی پر ایمان لے آنے والا سرخ آندھیوں کے اڑائے ہوئے غبار کو سرمۂ چشم اعتقاد بنا بھی کیوں کر سکتا ہے۔ اس کے ماسوا انسانیت کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے اثر لئے ہوئے دل کے نالوں کو کسی مخصوص ’’نے ‘‘ کی پابندی کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جس دماغ کے یہ رشحات فکر ہوں اسے ترقی پسند نہیں تو پھر کیا کہا جائے گا۔

اٹھو گھر کے دیوں ہی کو جلا کر روشنی کر لو

ستاروں سے تجلی کا سوالِ رائگاں کب تک

اور دنیا میں کوئی جرم نہیں

بس کوئی ناتواں نہ ہو جائے

مظلوم کو ملی ہے مصافِ حیات میں

اپنے لہو کو چاٹ کے طاقت کبھی کبھی

طاقت کے دوش پر ہے ازل سے بشر کی لاش

بس تھوڑی تھوڑی دور پہ شانہ بدل گیا

کسی میں دم نہیں اہل ستم سے کچھ بھی کہے

ستم زدوں کو ہر اک آ رہا ہے سمجھانے

میں نے تو اندھیرے میں بھی ڈھونڈھے ہیں اجالے

ڈھونڈیں جنھیں ملتی ہے اجالوں میں سیاہی

اس فضا میں تجھ کو جینا ہے تو اے طائر ذرا

تیز رکھ منقار و ناخن بال و پر کافی نہیں

نہ لاؤ یا تو زباں پر حدیثِ ناکامی

نہیں تو اپنی تمنا کو پھر جواں نہ کہو

قدم رکھ راہِ الفت میں اکیلا ہے تو ڈر کیا ہے

تلاشِ کارواں تجھ کو امیرِ کارواں کب تک

 

ملّا کی غزل میں مجازاتی علامات

 

جیسا سابق میں عرض کیا جا چکا ہے ملّا کا فن حکیمانہ حقیقت نگاری ہے وہ اس دنیائے ہزار جلوہ وہزار شیوہ کے گوشے گوشے سے باریک بینی کے ساتھ نازک حقیقتیں چنتے ہیں اور پھر ان میں فن کارانہ چابک دستی سے رنگ شعر بھرتے ہیں۔ اس دشوار تصویر کشی کے لئے انھیں موقع و محل کے لحاظ سے مختلف مجازاتی علامات و اشارات سے کام لینا ہوتا ہے ؎

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

بنتا نہیں ہے دشنۂ و خنجر کہے بغیر

گلچیں و صیاد۔ عندلیب و قفس۔ چمن و آشیاں۔ گل و گلزار۔ برق و نشیمن۔ خار و رہرو، دشت وسراب۔ بادۂ و ساغر۔ سبو و جام کہکشاں سے انھوں نے بھی زیادہ تر اپنی بزم سخن سجائی ہے مگر ان کی طبع رسا کے دست تصرف نے ان کو ابلاغ خیالات کا کامیاب حسین و سبک وسیلہ بنا دیا ہے۔ ان کے پردے میں اقبالؔ کی طرح ملا بھی گہری سیاسی و نفسیاتی حقیقتوں کے دلآویز نقشے نگاہوں کے سامنے لائے ہیں بلکہ نگاہوں کے سامنے ہی نہیں لائے ہیں، دلوں میں اتار دئیے ہیں۔

مغربی سانچوں میں ڈھلے ہوئے ادیب و نقاد ہمارے گل و بلبل، قفس و نشیمن پر ان کی علاماتی وسعتوں کو نظر انداز کر کے برابر طنز کرتے رہتے ہیں۔ ذیل کے شعر اس سلسلے میں پڑھئیے اور دیکھیے کہ ان نقادوں کی طعن و تشنیع ان علامات و اشارات پر کس قدر بے محل و بے جان ہے :

برق ناحق چمن میں ہے بدنام

آگ پھولوں نے خود لگائی ہے

طائر کے لئے دشوار نہیں صیاد و قفس سے دور رہے

لیکن جو شکل نشیمن ہے اس دام سے بچنا مشکل ہے

ہر اک طائر کا حق ہے آشیاں پرواز اور نغمے

کوئی میری طرف سے یہ گلستاں میں پکار آئے

میں نالہ بہ لب اجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں

دیکھی نہیں جاتی ہے گلستاں کی تباہی

یہ فصلِ گل تو سب کی ہے کوئی افسردہ دل کیوں ہو

نہیں ممکن چمن کے ایک گوشے میں بہار آئے

نظام مے کدہ ساقی چلے گا یوں کب تک

چھلک رہے ہیں سبو اور تہی ہیں پیمانے

پرند پر شکستہ کو قفس میں کوئی رکھتا ہے

اسیری جب بھی آئی ہے بفیضِ بال و پر آئی

موت اس سے بھلی کوئی طائر

خوگرِ آشیاں نہ ہو جائے

نہ ہو جائے کہیں محفل پہ ظاہر اپنی محرومی

تہی ہیں پھر بھی ہونٹوں سے لگا لیتا ہوں جام اکثر

تاریخ ہے گواہ گلستاں ہوئے تباہ

اک خوش دمیدہ گل کی بدولت کبھی کبھی

یہ ریگِ رواں ہے آب نہیں منزل ہے مسافر دور تری

اس راہ میں نہ جانیں دشت ابھی ہم رنگ گلستاں کتنے ہیں

ان چراغوں سے تو اٹھتے ہیں دھوئیں کے بادل

اک اندھیرا ہی اندھیرا سر بام آیا ہے

قدم رکھ شوق سے تپتی ہوئی راہ حقیقت پر

مگر اک کہکشاں بھی سامنے نظروں کے رہنے دے

 

ملّا کی غزل کی زبان

 

میں نے بار بار ملا کی حقیقت نگاری پر زور دیا ہے اور بار بار یہ کہا ہے کہ وہ فلسفۂ معاشرت و سیاست و انسانیت کے کامیاب مفسر ہیں۔ ان کے دقیق حقائق کو زبانِ شعر سے ادا کرتے ہیں، اس سے کہیں یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ وہ زبان کی حلاوتوں کے ذائقہ شناس نہیں ہیں۔ سو ایسا نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے بولوں میں زبان کا رس موجود ہے۔ ان کے شعر کے نغموں میں بیان کی مٹھاس پائی جاتی ہے۔ مگر یہ سب سنجیدگی کے حدود کے اندر ہے۔ ایک متوازن خیال و ذوق، ایک متوازن فکر و نظر کے مالک شاعر سے اس سے زیادہ کی توقع بھی آپ نہیں کر سکتے۔ مندرجہ ذیل شعر کیا سہل ممتنع کی حدوں میں داخل نہیں ہوتے ؟

تب کہیں لب تک آئی دل کی بات

جب ذرا آسرا دیا تو نے

تکلف، تکلم، تبسم، توجہ

مزے پہ اب آنے لگا ہے فسانہ

ہو گئی گم کہاں سحر اپنی

رات جا کر بھی رات آئی ہے

نہیں ممکن ملیں نگاہیں دو

ادراک داستاں نہ ہو جائے

حسن کی رہ گزرِ جور میں بھی

ہو ہی جاتے ہیں سانحاتِ کرم

میں چپ اور وہ بھی چپ اے انجمن لے

ترے ہاتھ اور اک افسانہ آیا

قدم نظروں سے آگے پڑ رہے ہیں

سوادِ کوچۂ جانا نہ آیا

ہیں اشارے ہر آستانے سے

داغ کوئی نہیں جبیں پہ ابھی

بات شیریں لبی میں گم ہو جائے

اس قدر تہ بہ تہ نبات نہ ہو

ساقی کی نگاہوں میں تو مجرم نہ بنوں گا

ٹوٹیں گے تو ٹوٹیں مرے توبہ کے ارادے

مے کشوں نے پی کے توڑے جام مے

ہائے وہ ساغر جو رکھے رہ گئے

آتا رہا غموں میں بھی لب پر سرودِ زیست

اک جوئے آب دشت میں گاتی چلی گئی

ستم پر ستم کر رہے ہیں وہ مجھ پر

مجھے شاید اپنا سمجھنے لگے ہیں

دل کہیں کامراں نہ ہو جائے

زندگی رائگاں نہ ہو جائے

ملّا کی فارسی ترکیبوں میں ندرت

ملّا کے کام و دہانِ ذوق قندِ پارسی کی حلاوتوں سے آشنا ہیں اور پھر حکیمانہ حقیقتوں کی ترجمانی ان کے پیشِ نظر ہے انھیں اس دشوار فریضہ سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے نئی نئی ترکیبیں تراشنا پڑیں اور سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے فارسی کے رچے ہوئے ذوق کی مدد سے بیشتر ان ترکیبوں کو بڑے ہی حسن کے ساتھ تراشا ہے۔

تجھے مرد یقیں یہ ساحل آسائی مبارک ہو

مجھے شک ہی کی ہمت آزما موجوں میں رہنے دے

ممکن ہے کہ ہونٹوں کو تو میں سی بھی لوں لیکن

لے جاؤں کہاں آنکھوں کی افسانہ نگاہی

طوفانِ دل ہے اب آرمیدہ

ایودائے فصل مژگان و دیدہ

کیا تجھ پہ گزری بامِ فلک پر

اے ماہتابِ خاک آفریدہ

چمن کو برق و باراں سے خطرا تنا نہیں ملّا

قیامت ہے وہ شعلہ جو نشیمن زاد ہوتا ہے

’ساحل آسائی‘، ’افسانہ نگاہی‘، ’فصل مژگاں و دیدہ‘، ’ماہتاب خاک آفریدہ‘، ’نشیمن زاد‘، شب انجام‘، ’قسم کی معنی آفریں ترکیبوں کی ندرت و لطافت اور ان کی معنوی وسعت کا اعتراف ہر شائستہ ذوق کو کرنا ہی پڑے گا، اب اگر اسی ذیل میں ’سلیمان گستری‘ کی ترکیب ؎

کہیں حق اور دلیلوں پر ہوئے ہیں فیصلے دل کے

جہانِ حسن و الفت میں سلیماں گستری کب تھی

تو اسے اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ میری ناقص رائے میں ’سلیمان گستری‘ کی ترکیب بظاہر شان دار ہے لیکن ’عدالت گستری‘ کے دوش بدوش ’پیمبرگستری‘ کی مرادف بھی ہو جاتی ہے اور اس لئے حضرت سلیمان کو پیغمبر سمجھنے والوں کے کانوں کے لئے خوش آئند نہ ہو گی۔ لیکن ملا کا مقصد شاید مغربی ادب کے زاویۂ نگاہ سے محض عدالت گستری ہے۔ ’پیمبر گستری‘ ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ ہو گی۔ لہٰذا کوئی وجۂ شکایت پیدا نہیں ہو سکتی۔

ملّا لکھنوی ہیں اور لکھنو کی زبان کے رموز و نکات سے واقف ہیں۔ ان کی زبان ٹکسالی ہوتی ہے۔ ان کے قدم اس میدان میں کم ہی لڑکھڑائے ہیں۔ اس لئے مندرجہ ذیل مسامح ذرا بھی قابلِ التفات نہیں قرار پاتے اور بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ بڑے سے بڑے شاعر کے یہاں خواہ وہ اردو کا شاعر ہو، فارسی کا شاعر ہو، عربی کا شاعر ہو یا کسی اور زبان کا شاعر ہو ایسے مسامح (Slipsbuds)ملتے ہیں

رندانِ خوش عقیدہ میں ملّا نہیں مگر

کی ہے مغاں کے ہاتھ پہ بیعت کبھی کبھی

کچھ تو رکھ لو اس مغاں کی آبروئے چشم و لب

جس کی مے سے آج تک اونچا ہے مے خانے کا نام

’مغاں ‘، ’مغ‘ کی جمع ہے۔ واحد نہیں ہے۔ ’حور‘ کی طرح ’مغاں ‘ واحد کے معنی میں ’مہند‘ بھی نہیں بنا ہے۔

نگاہوں میں فسانے آ چلے ہیں

حقیقت باز ہوتی جا رہی ہے

’حقیقت باز‘ ہونا بظاہر اردو کا محاورہ نہیں ہے۔

ہر ایک آئینہ جگر پر غلاف شک کی چڑھی ہوئی ہے

ہر ایک راہِ حیات پر اک فصیلِ نفرت کھڑی ہوئی ہے

ہر ایک راہِ حیات پر اک فصیلِ نفرت کھڑی ہوئی ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے ’غلاف‘ مؤنث استعمال نہیں کیا جاتا۔

 

ملّا کے منظومات

 

ملّا کے منظوماتی کارنامے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ ملا کو نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ نظموں کی کافی تعداد ’جوئے شیر‘ میں ملتی ہے اور ’کچھ ذرے کچھ ستارے ‘ میں تقریباً چھوٹی بڑی بیس نظمیں درج ہیں۔ اس میں ’میری دنیا‘، ’زمین وطن‘، ’’موتی لال نہرو‘، ’جواہر لال نہرو جیسی بیانیہ نظمیں ہیں۔

چکبست کے رنگ کی بھی ہیں اور روحِ اضطراب، شاعر انقلاب زندہ باد، جام حیات، اقبال کے انداز کی بھی۔ ملا کے یہاں ایک مخصوص نوعیت کا تفکر پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے آگے چل کر ان کی نظم چکبست سے بالکل ہی اور اقبال سے بھی تھوڑی بہت علیحدہ ہو جاتی ہے۔ ان کی وطن پرستی، ان کی ہندوستانیت کے پرکشش نقوش ان کی ابتدا کی تمام نظموں کے چہرے پر ابھرے ہوئے ہیں۔ بعد کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا ہے اور مذہب قوم و وطن کے محدود جارحانہ تصور سے وہ بیزار نظر آنے لگے ہیں۔ اس مجموعے میں ان کی نظم ’ٹھنڈی کافی‘ خاصا رومانی رنگ رکھتی ہے۔ نظم کی بناوٹ میں بھی موسیقیت پائی جاتی ہے۔ اس سے اس میں تعمیری حسن پیدا ہو گیا ہے۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوا ہے :

اس میں خوبی سی کچھ آئینِ مکافات کی تھی

کچھ جنوں خیز بغاوت سی بھی جذبات کی تھی

اک فسوں ساز شرافت سی بھی کچھ رات کی تھی

ورنہ اس کو نہ مجھی کو خبر اس بات کی تھی

کہ یہی رات مقدر میں ملاقات کی تھی

اس نظم کا مختصرطور سے پلاٹ یہ ہے کہ شاعر اپنے ایک دوست کو پہچانے اسٹیشن گیا ہے۔ ٹرین تاخیر سے آتی ہے۔ وقت نا وقت ہو جاتا ہے۔ شاعر دوست کو رخصت کر کے جب اسٹیشن سے باہر نکلتا ہے تو اسے اتفاق سے محبوبۂ دل نواز مل جاتی ہے۔ جس کی محبت میں وہ عرصہ سے اسیر تھا لیکن مدت سے ملاقات رسمی حدود کے اندر ہی تھی۔ صورت حال کچھ ایسی ہوئی کہ کسی جگہ دونوں معصومانہ ارادوں سے بظاہر وقت گزاری کے لئے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ گرمی کاموسم ختم ہو رہا تھا۔ برسات کے آثار شروع ہو چکے تھے۔ دونوں جوان دلوں پر ماحول کا غیر شعوری طور پر اثر ہونے لگا اور بالآخر ع ٹوٹے بوسیدہ تمدن کے کگارے آخر ملّانے یہ لطیف حکایت بہت سنبھل سنبھل کر بیان کی ہے۔ ان کی محتاط متانت زبان کو روکے ہوئے ہے۔ مہذب سنجیدگی لبوں کو بند کئے ہوئے ہے۔ مگر ان غیر معمولی حالات میں جذبات کے اتار چڑھاؤ کی جو کیفیت آہستہ آہستہ ہوتی جاتی ہے اس کی تصویر کشی اشارات و کنایات سے کر دی ہے اور پھر نہ زبان بگڑی نہ منھ بگڑا۔ اس قسم کی رومانی نظموں میں یہ رکھ رکھاؤ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ یقیناً ملا کی یہ ٹھنڈی کافی گرم بھی ہے، لطیف بھی ہے اور لذیذ بھی۔

ان کے دوسرے مجموعے ’کچھ ذرے کچھ تارے ‘ میں متعدد چھوٹی خوبصورت سڈول نظمیں ’شبیہ دارا‘، ’سردار پٹیل‘، ’شرنارتھی‘، نقادوں سے ‘ شامل ہیں۔ اسی ذیل میں ایک نظم ’سوغات ‘ بھی ہے۔ اس کی شانِ نزول ملا کا پاکستان جانا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے بطور تحفہ اسے تیار کیا گیا ہے۔ اس پر اثر و پر خلوص نظم کے تین چار شعر پڑھے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔

پھر اک تجدید الفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں

میں کیا آیا ہوں اک گزرا زمانہ لے کے آیا ہوں

بہ نام خطّہ اقبالؔ خاکِ میرؔ و غالبؔ سے

سلامِ شوق و نذرِ دوستانہ لے کے آیا ہوں

بہ نام ساقیِ دوشیں بہ یادِ بزمِ مے خانہ

حرم میں دیر سے جامِ شبانہ لے کے آیا ہوں

فقط تھوڑا سا زمزم اس کے بدلے میں مجھے دے دو

میں گنگا کے دہانے کا دہانہ لے کے آیا ہوں

اگر ملا کی اس مخلصانہ نظم ’سوغات‘ کا جواب اسی خلوص سے عمل کی دنیا میں دیا جا سکے تو انسانیت کے حق میں کس قدر مفید ہو۔

اس مجموعے میں ملاؔ کی ایک آزاد طولانی نظم ’مریم ثانی‘ بھی ہے۔ اس سے پہلے جتنی آزاد نظمیں میں نے مختلف شعراء کی پڑھی تھیں ان سے متاثر نہ ہو سکا تھا۔ ان کی حیثیت ایک نئے تجربہ سے زیادہ مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن ملا کی ’مریم ثانی‘ نے خاصا متاثر کیا۔ اس کے تاروں پر ایک مدھم سی موسیقی دوڑتی ہوئی نظم میں تسلسل ہے۔ روانی ہے اور پھر ملّا کے دماغ و دل کے افکار و محسوسات برافگندہ نقاب نظر آ رہے ہیں۔ اس کا ایک ٹکڑا ذیل میں درج کیا جا رہا ہے :

شاید احساس ہوا پہلے پہل تب یہ تمہیں

تم نے برتاؤ مرے ساتھ کچھ اچھا نہ کیا

اور کچھ اپنی جفاؤں پہ پشیماں ہو کر

تم نے چاہا کہ مرے غم کی کسک دور کرو

اور پھر آ کے مرے پاس بڑی نرمی سے

میری وارفتگیِ ہوش سجھائی مجھ کو

میری دیوانگیِ شوق بتائی مجھکو

اور ایّام جہالت کی وہ بوسیدہ کتاب

دھرم کہتے ہیں جسے

اس کی ہدایتِ فرسودہ پڑھائی مجھ کو… الخ

یہ سلسلہ اسی سبک رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا اور ایک خیال دوسرے خیال سے پیدا ہوتے چلا گیا۔ مختصر لفظوں میں ملا کی نظمیں موجودہ سماجی و سیاسی شعور کی حامل ہیں۔ ان کے پس منظر میں بشریت کے دکھ و درد کا سچا احساس موجود ہے۔ ان کے زمین و آسمان پرانے نہیں ہیں اور اس جدے دیت کے باوجود ان کی نظمیں قدیم سے بے گانہ نہیں ہیں۔ یہاں بھی ان کی زبان اور طرزِ بیان میں نادر شگفتگی ہے جس کی آبیاری ان کا مستحکم تفکر اور پاکیزہ ذوق شعر کرتا رہتا ہے۔

ملّا کو اپنے نکتہ سنج احباب سے بے التفاتی کی شکایت ہے۔ تو اس کے متعلق آخر میں عرض کروں گا کہ ان کی متاعِ سخن اس دور میں یقیناً نایاب ہے لیکن اگر عیار طبع خریدار‘‘ کم یاب ہے اور ان کی شاعری کے ’لعل ہائے شب چراغ‘ پر عام نظریں نہیں پڑتیں تو اس میں نہ تعجب کا مقام ہے نہ شکایت کا محل۔ ملا نے شاعری کے دسترخوان پر جو کھانے چنے ہیں وہ عوامی پسند کے کب ہیں۔ ان میں رندانہ بیباکیوں  اور لا اُبالیانہ سرمستیوں کا چٹ پٹا پن کہاں ہے۔ اندھیروں میں اجالوں کی تلاش کرنے کی سعی اور انسانیت کے چہرے کو اجانے کی کوشش میں وہ رنگ و روپ نہیں آ سکتا جو عوامی ذوق کو اپنی طرف دعوتِ نگاہ دے۔

میں تو ملّا کو مخاطب کر کے انھیں کا یہ شعر پڑھوں گا

دئے جا خاص اپنا رنگ ہر تخلیق کو ملّا

نہ اس کی فکر کر دنیا کو جو چاہے وہ کہنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

آنند نرائن ملا کی شاعری

 

                ……… محمد زاہد

 

آل احمد سرور کا قول ہے

’’تہذیب، شائستگی، انسانیت، شرافت، خلوص، مروت، مشرقیت کے ساتھ ایک آفاقیت اگر یکجا دیکھنا ہو تو آنند نرائن ملا کو دیکھ لیجئے :

آنند نرائن ملا کی نثری و شعری تخلیقات اور ان کے متعلق دوسروں کے بیانات سرور صاحب کی مکمل تصدیق کرتے ہیں۔ ملا صاحب اردو کی ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو شعر و ادب کے سرمایے میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ انھوں نے عزل اور نظم دونوں اصناف میں یکساں طبع آزمائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے کلیات میں نظموں کی تعداد کم اور غزلوں کی زیادہ ہے۔

ملا صاحب کی انفرادیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کے کلام میں مشرقی روایات کے ساتھ مغربی ادب کے اعلیٰ عناصر بھی شامل ہیں اور یہ امتزاج ادبی قدروں کے علاوہ ان کی شخصیت میں بھی موجود تھا۔ نیز لکھنوی تہذیب و شرافت، کردار کی بلندی، علم کا وقار، دانشوری کے ساتھ انکساری، ادیب کی خود داری، حق و انصاف اور اعلیٰ تہذیبی قدروں کے فروغ کا جذبہ، تمام ایسے عناصر ان میں موجود تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جتنے بڑے فن کار ہیں اتنے ہی عظیم انسان بھی۔

پنڈت جی ۱۹۰۱ء میں لکھنؤ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ کے اس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی جس کی ادبی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی اپنی عظمت کی قدیم روایات کو سینے سے لگائے ہوئے تھی۔ لیکن جب وہ سن شعور کو پہنچے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ملک کی سیاسی، سماجی اور ادبی فضا میں مختلف رجحانات پھیلے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی عوام اپنے آپ کو غلامی کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرانے کی جد و جہد کر رہی ہے۔ ایک طرف حالیؔ ، اقبالؔ ، چکبستؔ سرورؔ جہان آبادی اور جوش ملیح آبادی کی نظمیں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں تو دوسری طرف شادؔ عظیم آبادی، حسرت ؔ موہانی، فانی ؔ ، جگر اور اصغرؔ کی غزل گوئی کلاسیکی روایات کے احیاء میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔ اور اسی دوران لکھنؤ کے غزل گو شعرا میں آرزوؔ ، صفیؔ ، عزیزؔ ، ثاقبؔ ، یگانہ، سراجؔ اور سالکؔ غزلیہ شاعری کی قدیم روایات کو کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ پنڈت آنند نرائن ملا نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ مخصوص رجحان یا کسی ایک شعری روایت کو ترجیح دے کر خود کو ایک خاص دائرہ میں محدود کر لینا ادب کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ انھوں نے ادب کے حوالے سے جتنے بھی رجحانات اور تجربات سامنے آئے ان کے صحت مند عناصر کو قبول کیا اور جذباتی طور پر کسی سے وابستہ نہ ہوئے۔ یہ ان کی انفرادیت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔

ملا صاحب کا ماننا تھا کہ اچھا ادب بنیادی طور پر با مقصد ہوتا ہے لیکن اگر کسی مقصد کو سامنے رکھ کر تخلیق کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش تخلیقی ادب کے لیے غیر مفید ہو گی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’فنکار جہاں نظریوں میں گھر جاتا ہے اس کے دل کے سوتے محدود ہو کر خشک ہونے لگتے ہیں اور اس کی قوت تخلیق اپنی معصومیت، حسن اور وسعت کھونے لگتی ہے۔ ‘‘

ملا صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ فن کے اعلیٰ قدروں سے بخوبی آگاہ اور جدید رجحانات سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ وہ معنویت حسن، اظہار اور افکار و خیالات کی آمیزش کو فن کا لازمی جز سمجھتے ہیں اور ہر اس طریق کار کے سخت مخالف ہیں جو محض انفرادی جذبے کی ترجمانی کرے یا مبہم اور غیر واضح جذبات کا احساس دلائے۔ لکھتے ہیں :

’’میرے نزدیک یہ رجحان (رزمیہ انداز)غیر صالح ہے اور گمراہ کن بھی… میری رائے میں نظم کو معمہ بنا دینا کمال فنکار نہیں بلکہ عجز فنکار ہے۔ .. میرے نزدیک اس مکتبۂ خیال کے انداز فکر میں جو بنیادی لغزش ہے وہ یہ ہے کہ شا عر اپنے احساسات کو اپنے شعور سے جدا کر کے اپنے لا شعور کی زبان میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

مذکورہ مقدمات کی روشنی میں جب ملا نے شاعری کا آغاز کیا تو نظم اور غزل دونوں میں ’’توانائی اور نور و نکہت‘‘ بھر دیا۔ جوئے شیر، کچھ ذرے کچھ تارے، میری حدیث عمر گریزاں، سیاہی کی ایک بوند ان کے سبھی شعری مجموعوں میں یہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان کی نظموں میں وطن کی محبت بھی ہے۔ قومی رہنماؤں کی عظمت بھی، سماجی زندگی کی کشمکش بھی ہے اور حسن و رومان کی پر کیف فضا بھی۔ مثلاً گنگا کے چراغ، انسان، تم مجھے بھول جاؤ گے، دوشیزہ کا راز، بیسوا، جواہر لال نہرو، گاندھی، سروجنی نائیڈو، ٹھنڈی کافی، قحط کلکتہ گمراہ مسافر وغیرہ۔

یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ ملا صاحب بڑے نظم نگار ہیں یا بڑے غزل گو، البتہ غزل کو وہ اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں سیاسی تصورات، سماجی مسائل اور خارجی و داخلی کیفیات کا دلکش امتزاج ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کے ملکی مسائل، عوام کے دکھ درد اور سیاسی و معاشرتی ناہمواریوں کو اپنی غزلوں میں جگہ دے کر اردو غزل کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے :

میری کوشش ہے کہ شعروں میں ملا دوں ملا

صبح کا ہوش بھی دیوانگیِ شام کے ساتھ

غزل اک نام تھا ناکامیوں پر سینہ کوبی کا

مرے پہلے یہ بانگ کاروان زندگی کب تھا

غم حیات، شریک غم محبت ہے

ملا دیئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تونے روکا بھی تھا مجرم کو خطا سے پہلے

وہ کون ہیں جنھیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی نہ ملی

پنڈت جی کو اردو زبان و ادب سے جو سچی محبت اور والہانہ لگاؤ ہے اس سے ہم بھی واقف ہیں۔ اردو ان کے نزدیک صرف وسیلۂ اظہار یا زبان ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی مظہر بھی ہے۔ جس جرأت اور بے باکی سے ملا ؔ صاحب اردو کے مقدمے لڑتے رہے ہیں وہ انھیں کا حصہ ہے۔ یہ بات کہ ’’اردو میری مادری زبان ہے۔ میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں۔ مادری زبان نہیں ‘‘ اردو زبان و ادب سے ان کے گہرے ربط اور شدید محبت کا ثبوت ہے۔ شعر سنئے :

لب مادر نے ملاؔ لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

بزم ادب ہند کے ہر گل میں ہے خوشبو

ملاؔ گل اردو کی مہک اور ہی کچھ ہے

ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

ملا صاحب کی شاعری اور ان کے طریق فکر کا گہرا تعلق ضمیر کی آواز سے ہے۔ مصلحت پسندی ہرگز ان کا شیوہ نہیں۔ انھوں نے اپنے ضمیر کی آواز بلند کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچا کہ دوسرے میرے بارے میں کیا کہیں گے۔ بلکہ انھوں نے ہمیشہ وہی کیا اور کہا جو ان کو بہتر لگا۔

کی مصلحت وقت سے اس نے نہ کبھی صلح

ملا ؔ کے سے دوچار ہی دیوانے ملیں گے

 

ملا ؔ کا حساس اور فعال ذہن، زبردست قوت مدرکہ، انسانی ہمدردی اور آفاقی محبت سے لبریز دل صرف اپنے ملک کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ عالمی مسائل پر بھی غور و فکر کے لیے مجبور کرتا ہے۔ مختلف ممالک کے مسائل مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر درد سب کا ایک ہی ہے۔ حق تلفی، پسماندگی، محرومی، نا انصافی، طبقاتی و معاشرتی مسائل اور ظلم و جبر کہیں بھی ہو اور کسی شکل میں بھی ہو اس سے پوری انسانیت مجروح ہوتی ہے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :

وہ نبض کی رفتار کہ چھٹتے ہیں پسینے

لگتے نہیں دنیا ترے جینے کے قرینے

روشنی کا لے کر نام لڑ رہے ہیں آپس میں

اس طرف بھی کچھ سایے اس طرف بھی کچھ سایے

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

توانا کو بہانہ چاہئے شاید تشدد کا

پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتہام آیا

ستم اکثر بہ عنوان کرم ایجاد ہوتا ہے

چمن میں باغباں کے بھیس میں صیاد ہوتا ہے

ملا صاحب کی شاعری کا مقصد نہ تو تفریح طبع ہے اور نہ شہرت کی طلب، بلکہ اجتماعی روح کی ایک بے چین پکار ہے۔ اور ان کو یقین ہے کہ یہ پکار ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اجتماعی مفاد کا تصور اختیاری اور جبری نہیں بلکہ ایک فطری جذبہ ہے جو اپنے اظہار کے لیے ہمیشہ بے قرار رہتا ہے۔ ان کے یہاں انسانیت کا تصور کوئی فلسفیانہ سیاسی اور معاشی نظریہ نہیں یہ ایک فنکار کا تخلیقی تصور ہے۔ اس کی اپنی سوچ اور فکر ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ زندگی مسلسل جد و جہد کا نام ہے۔ اس لیے وہ مستقبل سے مایوس بھی نہیں۔

وادی نور بنے گی یہی شعلوں کی زمیں

ابھی مٹی کے فرشتے سے میں مایوس نہیں ہوں

زیست ہے صدیوں کے نقاشوں کی شہ کار عظیم

اپنی اپنی جا ہر اک کچھ رنگ بھرتا جائے ہے

فلک کے نہ ان ماہ پاروں کو دیکھو

جو مٹی میں ہیں ان ستاروں کو دیکھو

 

اک جنگ پہ آمادہ دنیا یہ راز نہ کب تک سمجھے گی

طاقت کی دہائی فانی ہے، انساں کی اکائی باقی ہے

گردوں کے ستارے بجھنے دو دنیا سے کہو ماتم نہ کرے

زروں سے شعاعیں پھوٹیں گی مٹی کی خدائی باقی ہے

ملا صاحب کی شاعری صرف جذبات و احساسات کی شاعری نہیں بلکہ آفاقی محبت سے لبریز ایک دردمند دل رکھنے والے دانشور اور ادیب کا فکری اظہار بھی ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا اور ایسے سماجی نظام کے متلاشی ہیں جس میں انسان امن و سکون کی زندگی بسر کر سکے۔ جہاں وہ کسی طرح کے ظلم و جبر کا شکار نہ ہو اور اس کے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات پر کسی طرح کی پابندی نہ عائد کی جائے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا بھی ہے کہ:

’’تاریخ عالم ہم کو بتاتی ہے کہ روز آفرینش سے لے کر آج تک طفل انساں نے ہمیشہ ایک ایسے نظام ہستی کے خواب دیکھے ہیں جس میں وہ اپنے شوق کی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کر سکے، اس کے جسم کو کسی جبر کے شکار بننے کا اندیشہ نہ ہو اور اس کے ذہن کو غلام بنانے کی کوشش نہ کی جائے، اور جہاں آزادی، مساوات اور اخوت کے نعروں میں نہیں بلکہ نغمات کی لے میں مذہب و ملت، رنگ و نسل اور جنس و ذات کے سارےا متیازات، اختلافات اور تفرقے ایک نالۂ آواز بن کر فنا ہو جائیں گے۔ ‘‘

انھوں نے اپنی نظم ’’گمراہ مسافر‘‘میں اسی انسانی کرب کو پیش کیا ہے۔

انسانی کرب کا مکمل احساس، اور انتہائی مؤثر اور بھرپور طریقہ سے اس کا برملا اظہار ملا صاحب کو اوروں سے مختلف کر دیتا ہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے ان کی اسی خصوصیت کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’ان کے صاف شفاف اور ذکی الحس ذہن اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں نے مل کر ایک مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے۔ ‘‘

اور اس مخصوص انداز کو پنڈت ملا نے شاعرانہ، مترنم اور نہایت دلکش زبان میں پیش کیا ہے۔

طالب امن ہیں سب بزم میں لیکن ہر رند

لے کے اک ہاتھ میں تیغ، ایک میں جام آتا ہے

معبد انساں بنے کیسے یہ ضد ہر دل میں ہے

اس کی پیشانی پہ ہو میرے ہی بت خانے کا نام

بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی

دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی

آخر میں پنڈت آنند نرائن ملا کے تعلق سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کا ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں کہ:

’’ایک ایسے دور میں جب نظریاتی ادعائیت سے حسن کے معیار طے پانے لگے تھے، ملا کا اپنی فکر، اپنی نظر اور اپنی راہ پر اصرار کرنا اور جرأت بے باکی سےا ظہار خیال کرتے رہنا ایسی دولت ہے جسے آنے والی نسلیں کبھی ہاتھوں سے نہ جانے دیں گی۔ کیوں کہ شاعری میں روشنی اور عظمت اپنے ذہن سے سوچنے اور ضمیر کی آواز سننے ہی سے آتی ہے اور ملا نے اسی کی راہ دکھائی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

مُلّا کی چند نظمیں۔ امتیاز و اختصاص

 

                ……… علی احمد فاطمی

 

پنڈت آنند نرائن مُلّا اپنی اردو عاشقی اور وطن پرستی کے لیے ہمیشہ یاد کئے جاتے رہے ہیں اور ان کا یہ جملہ تو تاریخ ہی نہیں تہذیب بھی بن گیا ’’میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں لیکن اپنی زبان نہیں بدل سکتا‘‘۔ کشمیری شاعروں اور ادیبوں کی مادری زبان اردو رہی ہے۔ سرشار ؔ سے لے کر چکبستؔ اور نہرو سے لے کر مُلّا تک کی تاریخ پڑھ جائیے سب ایک سے ایک عاشقِ اردو اور محب وطن۔ یہاں مجھے تقریباً ایسے ہی موضوع پر گفتگو کرنی ہے جس میں مُلّا کی وطن پرستی، انسان دوستی، خلوص و  ہمدردی سب شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ جہاں اقبالؔ ، چکبست ؔ اور جوش ؔ کی آوازیں گھل مل گئی ہیں اس کے لیے مجھے ان کی چند نظموں پر گفتگو کرنی ہو گی جن میں ان سب کی گونج تو ہے ہی لیکن اس گونج پر حاوی ہے خود مُلّا کی اپنی صدائے محبت اور ندائے قومیت۔

عام طور پر مُلّا غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کا آغاز نظموں سے کیا۔ غور طلب ہے کہ ملا لکھنؤ میں پیدا ہوئے تہذیب اودھ میں رچے بسے۔ دبستانِ لکھنؤ اپنی نرم و نازک عاشقانہ غزل گوئی کے لیے زیادہ مشہور رہا ہے لیکن اس کے باوجود مُلّا نے نظموں کی طرف توجہ دی۔ باقاعدہ فرنگی محل کے مولوی برکت اللہ فرنگی محلی سے اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مولوی برکت علی غزل کے شاعر بھی تھے۔ سبق دے کر اکثر غزلیں کہتے رہتے جو مُلّا کو قطعی پسند نہ آتی تھیں۔ طبیعت میں خود داری تھی اور مزاج میں سنجیدگی اور علیحدگی بھی۔ کالج پہنچتے ہی انگریزی سے ایم۔ اے۔ کرتے ہوئے نظم کہنے کی عادت پڑی۔ میر انیس کی چند رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ اپنی مختصر آپ بیتی میں ایک جگہ لکھتے ہیں

’’جب سے کہ میں ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر میں کالج میں آیا تھا۔ مجھے انگریزی میں تھوڑی بہت نظم کرنے کی عادت ہو گئی تھی۔ اسی زمانے میں میں نے انیس کی چند رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ پنڈت منوہر لال زتشی کے اصرار پر میں نے غالباً ۱۹۲۷ء میں پہلی نظم کہی جس کا عنوان ’’پرستار حسن‘‘ تھا۔ یہ نظم ’’رسالہ‘‘ زمانہ میں نوٹس کے ساتھ شائع کی گئی اس کے بعد احباب کا اصرار اور بڑھا اور میں مستقلاً نظم کہنے لگا۔‘‘

ایسا نہ تھا کہ انھوں نے غزلیہ اشعار نہیں کہے تھے لیکن کوئی مکمل غزل نہ کہی تھی۔ یہ شوق اور جذبہ بعد میں پیدا ہوا۔ اولین اسٹیج پر انھوں نے نظم گوئی کی طرف ہی توجہ دی اس لیے کہ انگریزی سے ایم۔ اے۔ کرنے کے علاوہ ان کے مزاج کی سنجیدگی اور ذمہ داری نے انھیں نظم نگاری کی طرف متوجہ کیا۔ کچھ یہ بھی تھا کہ جس وقت مُلّا صاحب نے ہوش و حواس کی آنکھیں کھولیں اس وقت بقول آل احمد سرور ’’ انیس کے نیم مذہبی، نیم تہذیبی مرثیے۔ چکبست کے نیم قومی اور نیم سیاسی مرقعے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لکھنؤ میں رندی اور رنگینی کے علاوہ کچھ انسانی اور اخلاقی قدریں بھی مقبول رہیں ‘‘ اور شاعری میں اقبال کی نظموں کا طوطی بولنے لگا تھا۔ چکبست اور اس کے بعد جوش کی نظم نگاری کے ڈنکے بج رہے تھے۔ خود ہندوستان آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا یا لڑنے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ آزادی اور غلامی کی کشاکش۔ غلامی سے نجات پانے کی علمی عملی کوششیں ’’اگر ایک طرف‘‘ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کا ترانہ گونج رہا تھا تو جوش کا نعرۂ انقلاب اور چکبست کا اعلان ’’نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے ‘‘ وغیرہ کی چاروں طرف دھوم تھی۔ اسی ماحول میں مُلّا نے آنکھیں کھولیں تو ان کی اردو دستی اور وطن پرستی نے سراٹھایا۔ وکالت پاس کر چکے تھے۔ انگریزی شعر و ادب کا مطالعہ بھی خوب تھا۔ کچھ انگریزیت، کچھ وکالت اور کچھ کشمیریت بہر حال وہ چکبست سے زیادہ متاثر ہوئے۔ آل احمد سرور نے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’ملا صاحب لکھنؤ کے کسی شاعر سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے، لے دے کے چکبست کا کچھ رنگ تھا ’’عبادت بریلوی نے بھی لکھا ہے۔ چکبست کے اثرات مُلّا صاحب کی شاعری پر گہرے پڑے ہیں۔ کچھ اثر غالب اور اقبال کا بھی نظر آتا ہے ‘‘ ساتھ میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اثر کی نوعیت فنی زیادہ ہے، معنوی کم۔ لیکن بہت کچھ ملّا کا اپنا بھی ہے ان کا جدید ذہن انگریزی ادب، ملک کی سیاست اور ہندوستان کی تہذیب سے مل جل کر تیار ہوا جہاں انفرادیت کم ہے اجتماعیت زیادہ اور اس اجتماعیت میں انفرادیت اس وقت آتی ہے جب ۱۹۳۵ء کے بعد ان کی شاعری میں سنجیدگی اور گہرائی آتی ہے۔

ان کی ابتدائی نظموں میں قوم پرستانہ رجحان زیادہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی نظم ’’زمینِ وطن ‘‘کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ زمینِ وطن کا ذکر خارجی طور پر تو اکثر شاعری میں ملتا ہے۔ اقبالؔ ، چکبستؔ ، جوشؔ ، روشؔ وغیرہ کے یہاں بطور خاص لیکن مُلّا کی نظم صرف زمین کی خارجی تعریف نہیں کرتی بلکہ تاریخ و تہذیب کی طرف بلیغ اشارے بھی کرتی ہے۔ مثلاً

جہاں پہلے تخلیقِ انساں ہوئی

تری رحمت اس کی نگہباں ہوئی

خرد اس کی گہوارہ جنباں ہوئی

 

بشر نے تمدن کے سیکھے چلن

زمینِ وطن! اے زمینِ وطن

جہاں ابن آدم پلا گودیوں

جہاں نسلِ انساں چلی گٹھنیوں

جہاں چشمِ حیرت کے کیا اور کیوں

 

لب طفل تک آئے بن کر سخن

زمینِ وطن! اے زمینِ وطن

 

اس کے بعد نظم میں وطن کی خستہ حالی کا ذکر ملتا ہے اور نظم وطنیت و قومیت سے زیادہ محبت و انسانیت پر آ کر ختم ہوتی ہے۔

اخوت کا پھر ہاتھ میں جام لے

مساوات انساں کا پھر نام لے

روایاتِ ماضی سے پھر کام لے

وطن کو بنا در حقیقت وطن

زمینِ وطن اے زمینِ وطن

ان کی ایک اور نظم ہے ’’محبان وطن کا نعرہ‘‘ وطن و آزادیِ وطن کی شاعری میں نعرہ زنی کا عمل آ ہی جاتا ہے خصوصاً اس وقت جب قوم حصولِ آزادی اور نجات غلامی سے برسرِ پیکار ہو۔ اسی لیے عموماً اس نوع کی شاعری کو خطیبانہ نعرہ بازی والی شاعری کہا گیا ہے۔ یہ ایسی کوئی بری بات نہیں ہے کہ محبت کی شاعری کی نرم روی اور احتجاج کی شاعری کی نعرہ زنی میں فرق تو ہو گا لیکن مُلّا کی اس نظم میں بھی آپ کو خارجی نوعیت کی للکار کم افکار و اقدار زیادہ دکھائی دیں گے اور شاعری بھی

شہید جو رِ گلچیں ہیں اسیر و خستہ تن ہم ہیں

ہمارا جرم اتنا ہے ہوا خواہِ چمن ہم ہیں

ہمارے ہی لہو کی بو صبا لے جائے گی کنعاں

ملے گا جس سے یوسف کا پتہ وہ پیرہن ہم ہیں

ان نظموں کو بغور ملا خطہ کیجئے ان میں للکار اور شور و غل نہیں ہے جو عموماً اس نوع کی شاعری میں ہوا کرتا ہے لیکن فریاد بھی نہیں ہے جس کی اردو شاعری اور شعراء عادی رہے ہیں۔ یہاں ایک مخصوص ادبی و تہذیبی توازن ہے۔ للکار کے بجائے تفکر ہے۔ فریاد کے بجائے تکلم ہے۔ اپنی تاریخ، تہذیب، محبت و معاشرت کا بر ملا اظہار ہے جس سے مُلّا کی قومی شاعری میں سنجیدگی اور بردباری آ جاتی ہے۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ جیسی نظم میں بھی وہ جوش کی طرح چیختے چنگھاڑتے کم نظر آتے ہیں اور غزل کے لہجہ میں انقلاب کی کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں ؎

شوق ہوا بے حجاب

ختم ہوا دور خواب

آ گیا روزِ حساب

قوم کا چمکا شباب

زندہ باد انقلاب

انقلاب زندہ باد

آپ اگر بعد کے دو مصرعے ہٹا دیجئے تو احساس ہی نہ ہو گا کہ بے حجاب، دورِ خواب یا روزِ حساب کا تعلق کس امر سے ہے۔ غالی ترقی پسند نقاد اسے قومی شاعری کا عیب بھی مان سکتا ہے لیکن مجھے اس کو عیب ماننے میں تامل ہے اس لیے کہ قومی شاعری کی بھی مختلف جہتیں اور وسعتیں ہوا کرتی ہیں جو اقبال اور چکبست کے یہاں بطور خاص دیکھی جا سکتی ہیں۔ راست نعرہ بازی ہی قومی شاعری کی اکلوتی شناخت نہیں ہوا کرتی لیکن یہ بھی ہے کہ قومی و وطنی شاعری میں بھی اگر شاعر کے پاس واضح تصورِ آزادی یا تصور وطن نہیں ہے تو اس کے اکہری شاعری بننے کے خطرے بنے رہتے ہیں۔ مُلّا کی قومی شاعری کے بارے میں اگر ایک طرف آل احمد سرور یہاں تک کہہ جاتے ہیں ؎

’’مُلّا کی نظموں میں تفکر اور ایک بڑے نصب العین کی گرمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی شاعری کی حیثیت سے مُلّا کا درجہ چکبست سے بڑھ جاتا ہے۔ ‘‘

(مقدمہ۔ جوئے شیر)

میں سرور صاحب کے ان خیالات سے اتفاق نہیں کر پا رہا ہوں کہ انھوں نے ان جملوں میں مُلّا صاحب سے اپنی دوستی کا حق ضرور ادا کیا لیکن تنقید کا نہیں۔ میرا ناقص خیال ہے کہ مُلّا کی قومی شاعری میں جذبے کی صداقت اور خلوص کی حدت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا جس کی دلدوز کیفیت ان کی تقریباً تمام نظموں میں نظر آتی ہے نیر وہ شعری وجدان اور بحر و اوزان سے بھی سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ اس نوعیت کی بڑی شاعری محض جذبہ سے مکمل نہیں ہوتی اگر اس میں نظریہ نہ ہو، فکر و فلسفہ نہ ہو۔ آل احمد سرور اور احتشام حسین انھیں ہزار ترقی پسند کہیں لیکن مُلّا اشتراکیت اور مساوی تقسیم پر زیادہ یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ایک جگہ خود مُلّا لکھتے ہیں۔ ’’مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ احتشام نے اشارۃً اور سرور نے صریحاً میرا شمار ترقی پسند شعراء میں کیا ہے۔ آخر میں ترقی پسند کس طرف سے ہو گیا؟ نہ تو میں مزدور کو فرشتہ رحمت سمجھتا ہوں اور نہ مزدور راج قائم کرنے کے لیے کشت و خون کی ترغیب دینے ہی کو شاعری کا اصل مقصد قرار دیتا ہوں ‘‘۔ (بہ قلم خود از جوئے شیر)

یہ ترقی پسندی کا بیحد محدود تصور ہے اس لیے ان کے یہاں شاعری اور زندگی کا بڑا تصور نہیں ابھرتا۔ عبادت بریلوی نے بھی کہا ہے ؎

’’وہ کسی مخصوص نظام کے قائل نہیں۔ کسی مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘

لیکن عبادت یہ بھی کہتے ہیں ؎

’’وہ انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ محبت کا پیام بھی دیتے ہیں۔ وہ انسانیت کے تو قائل ہیں لیکن ان نظریات کو اہمیت نہیں دیتے جن کے بطن سے انسانیت پرستی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘         (آنند نرائن مُلّا اور جوئے شیر)

مُلّا کی انسانیت پرستی کے سبھی قائل رہے ہیں۔ ان کی انسانی دوستی اور درد مندی پر سب کو یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وہ نظمیں جو فکر و نظر سے نسبتاً الگ ہو کر محض جذبۂ انسانی سے سرشار ہو کر کہی گئی ہیں وہ زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ مثلاً مہاتما گاندھی کا قتل جو ظاہر ہے ایک بہت بڑا غیر انسانی اور غیر اخلاقی واقعہ تھا جس نے اکثر شعرا کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ وامقؔ ، نشو ؔ ر و احدی، جمیل مظہری، روش صدیقی وغیرہ نے نظمیں کہیں لیکن مُلّا کی نظم میں جو کیفیت اور اثر انگیزی ہے وہ اوروں کے یہاں کم دکھائی دیتی ہے۔ نظم شروع ہوتی ہے ؎

مشرق کا دیا گل ہوتا ہے مغرب پہ سیاہی چھاتی ہے

ہر دل سن سا ہو جاتا ہے ہر سانس کی لو تھراتی ہے

اتر دکھن پورب پچھم ہر سمت سے ایک چیخ آتی ہے

نوعِ انساں شانوں پہ لیے گاندھی کی ارتھی جاتی ہے

آکاش کے تارے بجھتے ہیں دھرتی سے دھواں سا اٹھتا ہے

دنیا کو یہ لگتا ہے جیسے سر سے کوئی سایہ اٹھتا ہے

کچھ دیر تو نبضِ عالم بھی چلتے چلتے رک جاتی ہے

ہر ملک کا پرچم گرتا ہے ہر قوم کو ہچکی آتی ہے

تہذیب جہاں تھراتی ہے تاریخ بشر شرماتی ہے

موت اپنے کیے پر خود جیسے دل ہی دل میں پچھتاتی ہے

انسان وہ اُٹھا جس کا ثانی صدیوں میں بھی دنیا جن نہ سکی

صورت وہ مانی نقاش سے بھی جو بن کے دوبارہ بن نہ سکی

اور آخر میں یہ ؎

بھٹکے ہوئے گامِ انسان کو پھر جادہِ انساں دے کے گیا

ہر ساحل ظلمت کو اپنا مینار درخشاں دے کے گیا

تو چپ ہے لیکن صدیوں تک گونجے گی صدائے ساز تری

دنیا کو اندھیری راتوں میں ڈھارس دے گی آواز تری

یہ نظم محض خراج نہیں ہے۔ آہ و زاری بھی نہیں بلکہ ایک عظیم انسان کی عظمت، اہمیت اور اس کی انسانیت، اس کے پیغام کا مفکرانہ و خلاقانہ اظہار ہے۔ ایسا نہ تھا کہ مُلّا گاندھیائی فکر کے شاعر و دانشور تھے۔ وہ نہرو کے زیادہ قائل تھے لیکن اس نظم میں گاندھیائی فکر کے ساتھ ساتھ خود مُلّا کی اپنی تہذیب، تفکیر، انسان دوستی، انسانیت پرستی جھلکی پڑتی ہے۔ وہ خود ایک ایسی تہذیب کے پروردہ تھے جس میں کشمیر، اودھ اور پورا ہندوستان سب کچھ شیر و شکر ہو گئے تھے وہ انگریزی داں ہونے کے باوجود اپنے ملک کی قوم، تہذیب اور مشرقی اقدار پر گہرا یقین رکھتے تھے اور اس سے زیادہ یقین تھا اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار پر، اس لیے ان کی نظموں میں محض قومی و وطنی آثار نہیں ملتے بلکہ سماجی افکار اور تہذیبی اقدار ملتی ہیں بلکہ بعض ناقدین تو مُلّا کی شاعری کا اصل حصہ اسی کو مانتے ہیں اس لیے کہ ایسے موضوعات اور عنوانات میں مُلّا نے خاص جدت پیدا کی ہے۔ اپنے اچھوتے پن اور بھرپور شاعرانہ کیفیت کے ساتھ یہ نظمیں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

لکھنؤ کا کافی ہاؤس ایک زمانے میں شاعروں و دانشوروں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔ مُلّا بھی کبھی کبھی اس کافی ہاؤس میں جایا کرتے تھے۔ گھنٹوں بیٹھتے گرما گرم گفتگو ہوتی کافی ٹھنڈی ہو جاتی۔ یہ ایسی کوئی اہم بات نہیں لیکن مُلّا نے ’’ٹھنڈی کافی ‘‘کے عنوان سے بے مثال نظم کہہ کر بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ جس کے بارے میں عبادت بریلوی نے یہاں تک کہہ دیا ’’فنی اعتبار سے اس طرح کی مکمل نظمیں ساری اردو شاعری میں چند ہی مل سکتی ہیں ‘‘ نظم جوش، چکبست کے اسلوب میں واقعاتی سطح پر نمودار ہوتی ہے۔ جذبۂ محبت میں مملو اور پھر کربِ فرائض میں نمو پاتی ہے، پھر یکایک زندگی کے اک موڑ پر ملاقات کی خوشبو اور پھر خوشبو کا عارضی سفر اور اس سفر میں ایسے قیمتی مصرعے ؎

اتفاقات کی کڑیوں سے بنی تھی زنجیر

دھان کی کنواریاں استادہ تھیں کھیتوں میں اداس

بازیِ دل کی نگاہوں میں یہی تھی تصویر

یہ غنیمت تھی کہ جینے کے لئے ساتھ مرے

نظم آگے بڑھتی ہے اور سجے ہوئے معنی خیز مصرعوں کے ذریعہ تہذیب و تمدن کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ یہ بند دیکھئے ؎

چھوٹ جائے نہ سپر صبر و توازن نہ کہیں

ڈھے پڑے کھوکھلی بنیاد تمدن نہ کہیں

کھول لیں دل کی گرہ شوق کے ناخن نہ کہیں

خالقِ عشق کے لب بول اٹھیں پھر کن نہ کہیں

سعی پیہم سی نگہداری جذبات کی تھی

……

عاشق و معشوق دو کرداروں کے ذریعہ ڈرامائی انداز میں سماج، معاشرت، تہذیب و تمدن کے معنی خیز اشارے اور دلکش نظاروں سے یہ نظم ایک حسین مرقع بن گئی ہے۔ دو بند اور دیکھئے ؎

رات تاریک تھی جیسے کسی اندھے کی نگاہ

اِکّے دُکّے کسی رہرو کی جھلک گاہ بہ گاہ

چند لمحات کو لپٹی تھی دو رویہ سرِ راہ

اپنی پیدائشی وردی میں غریبوں کی سپاہ

ساعتِ امن یہ مابینِ مضافات کی تھی

 

بند بازار تھے سڑکوں پہ تھی بجلی کی قطار

تھک کے سوئی تھی دلہن شہر کے پہنے ہوئے ہار

دھندلے دھندلے سے مکانات کہ سینہ کا ابھار

ہلکی ہلکی سی ہوا سانس کی جیسے رفتار

عصمتِ شہر پہ چادر سی پڑی رات کی تھی

 

دیکھئے ان بندوں میں کس قدر غیر معمولی شاعرانہ کیفیت ہے اور منظر پس منظر اور پیش منظر کا دلکش منظر نامہ۔ شاعری میں معاملہ دلی جذبات کے اظہار کا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی اگر اس میں بازار بھی ہے بازار تہذیب اور ہجوم افکار اور پھر اس کا دلکش تخلیقی اظہار تو نظم صرف ذات سے نہیں زندگی سے جڑ جاتی ہے۔ اس طویل نظم کے ہر بند میں ایک عجیب سرور آمیز کیفیت ملتی ہے حیات انگیز حرارت کا بھی احساس ہوتا ہے اور یہی با مقصد اور با عمل نظر کی پہچان ہوا کرتی ہے اور بقول مُلّا ’’ایک دنیا مگر آنکھوں میں اشارات کی تھی‘‘ اور نظم ختم ہوتی ہے اس بند پر ؎

مجھ کو اس مکر کی دنیا میں صداقت کی قسم

آدم پاک کے سینے کی امانت کی قسم

خوں کے ہر خطرہ باغی کی نبوت کی قسم

ایک اجڑے ہوئے فردوس کی حسرت کی قسم

زیست تھی زیست کے شایاں تو اسی رات کی تھی

 

کبھی زیست ایک لمبی سیاہ رات ہو جاتی ہے اور کبھی رات زندگی کے روپ میں بدل جاتی ہے۔ زندگی کے یہ رنگ۔ یہ مرقعے اس نظم میں بڑے دلآویز انداز میں ابھر کر آئے ہیں۔

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ملا صاحب پورے طور پر قومی شاعر نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جذبہ قومی، جذبۂ انسانی میں یا قومیت انسانیت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کی قومیت یا وطنیت ان کی انسانیت پرستی کا ہی ایک جُز ہے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ محاذِ جنگ سے زیادہ کشمکشِ حیات پر توجہ دیتے ہیں جہاں زندگی کی اعلیٰ اقدار، تہذیب و تمدن کے آثار، انسانیت کی بنیادی اقدار غیر معمولی طور پر متاثر اور مجروح نظر آتی ہیں۔ چونکہ مُلّا ایک گہرا انسانی شعور اور پختہ وبالیدہ تہذیبی مزاج رکھتے تھے اس لیے انسان کی گمرہی انہیں تکلیف پہنچاتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور انسانیت کی گمراہی اور قتل و غارت گری پوری تاریخ و تہذیب کو متاثر کرتی ہے۔ وہ ارتقائے انسانی کے مراحل و مدارج سے واقف ہیں کہ انسان نے ہزاروں برس کا سفر طے کر کے تہذیب کی شاندار عمارت کی تعمیر کی ہے جسے کچھ انسان ہی مسمار کر دینا چاہتے ہیں۔ پہلے تو وہ یہ کہتے ہیں ؎

غارت و قتل کی ہے گرمیِ بازار وہی

ابھی انسان کی ہے فطرت خونخوار وہی

سب سے قانون بڑا آج بھی قانونِ قصاص

سب میں مضبوط دلیل آج بھی تلوار وہی

ایک سے ایک سوا کون کہے کس کو کہے

اہل تسبیح وہی صاحب زنّار وہی

کس کو مظلوم کہیں کس کو ستمگر کہیں

آج مظلوم وہی کل ہے ستمگار وہی

وطن اے میرے وطن یوں مجھے مایوس نہ کر

شبھ گھڑی آئی ہے تیری اسے منحوس نہ کر

 

اس کے بعد وہ ایک بیحد عمدہ نظم ’’گمراہ مسافر ‘‘میں یہ بھی کہتے ہیں ؎

دنیاکے اندھیرے زنداں سے انسان نے بہت چاہا نہ ملا

اس غم کی بھول بھلیاں سے باہر کا کوئی رستا نہ ملا

اہل طاقت اٹھتے ہی رہے بھاری بھاری تیشے لے کر

دیوار پس دیوار ملی، دیوار میں دروازا نہ ملا

ایماں کا فسوں گر بھی آیا جادو کا عصا ہاتھوں میں لئے

اک لکڑی تو اندھے کو ملی، آنکھوں کو مگر جلوا نہ ملا

جرّاح خرد آتا بھی رہا صد مرہم اکسیری لے کر

جو زیست کے زخموں کو بھر دے ایسا کوئی پھاہا نہ ملا

دولت کا مغنّی بھی آیا مضراب فراموش لے کر

ہر ساز سے اک نغمہ پھوٹا لیکن دل کا پردا نہ ملا

تقسیم مساوی کے حامی پھر لے کے بڑھے میزان اپنا

جو سب کو میزان تول کے دے میزان میں وہ پلا نہ ملا

بے چاری الفت کی مشعل کو نے میں پڑی جل جل کے بجھی

لیکن اسے ہاتھوں میں لے کر کوئی بڑھنے والا نہ ملا

اور پھر کے وہیں پر آتا ہے انسان ہے رہِ باطل پہ ابھی

صدیاں گذریں چلتے چلتے لیکن ہے اسی منزل پہ ابھی

 

ان اشعار کو ملاحظہ کیجئے صاف اندازہ ہو گا کہ مُلّا کا درد و کرب اور امید و تذبذب سبھی مدغم ہو گئے ہیں۔ فکر و نظر کے معنی خیز اشارے بھی ہیں لیکن مُلّا کی نظر میں انسانیت کو صحیح راستے پر لانے کے لیے سوائے محبت کے ان کی نظر میں کوئی بھی فکر کارآمد نہیں حد یہ کہ وہ اشتراکی و مساوی تقسیم کے بھی قائل نہیں۔ کوئی بحث کر سکتا ہے کہ صدیوں سے تقسیم اس پیچیدہ طبقاتی نظام کے مسائل کو محض رومانی انداز میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر وہ چکبست کی فکر و فطرت سے باہر نکل کر جوش کی رومانیت کے قریب آ جاتے ہیں جہاں خلوص تو عمل نہیں غصہ اور جذبہ تو ہے نظریہ نہیں اس لیے ترقی پسند نقاد خواہ وہ احتشام ہوں یا سرور یا عبادت سب مُلّا کی شاعری اور شاعرانہ درد مندی اور انسانی جذبہ کے ضرور قائل ہیں لیکن فکر و نظر کے نظریے و فلسفہ کے اعتبار سے بڑا شاعر مانتے میں تکلف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے سچے خلوص اور پاکیزہ جذبے کے قدر داں بھی ہیں لیکن اگر شاعری محض خلوص و جذبے کے حوالے سے ایسے اشعار کہلوا رہی ہے تو اپنے آپ میں بڑی بات ہے ؎

آہ ! نادان پتنگوں کی تباہی کے لئے

کتنی ہنستی ہوئی شمعوں کے پیام آئے ہیں

دیر تک رہتی نہیں اک جام میں صہبائے زیست

اس میں وہ تندی ہے پیمانے میں پگھلتی ہی رہے

ارتقا کی راہ میں رکنا ہی ہے انساں کی موت

ہیں وہی زندہ جو اس رستے پہ چلتے ہی رہے

مُلّا کا اصل رنگ وہی ہے جہاں وہ پورے خلوص و جذبے کے ساتھ تحفظِ انسانیت، ترقی، تہذیب و تمدن اور جذبۂ محبت و اخوت کی باتیں کرتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ مثالیت انیسویں صدی کی شاعری حالی، آزاد وغیرہ کی نظموں کی دین ہے اور بیسوی صدی میں چکبست، اقبال جوش، فیض وغیرہ کے ذریعہ شاعری اور نظریۂ شاعری کے مختلف رنگ و روپ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی رنگا رنگی اور مختلف الجہاتی کو دیکھتے ہوئے مُلّا کی یہ شاعری روایتی سی لگ سکتی ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ دنیا میں بہت کچھ آئے گا جائے گا، بدلے گا، ترقی ہو گی، تبدیلی ہو گی لیکن محبت اور جذبۂ محبت اسی طرح قائم رہیں گے۔ اظہار محبت کے طریقے بدل سکتے ہیں لیکن جذبۂ محبت تو وہی ہو گا۔ اس لیے مُلّا کی شاعری جو اصلاً محبت کی شاعری ہے اور محبت بھی محض محبوب تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا سے، انسان سے، تہذیب سے ہے اس لیے اس نوع کی شاعری ہمیشہ پسند کی جاتی رہے گی۔ اس وقت خاص طور پر جب ہم انسان اور انسانیت کو بھولتے جا رہے ہیں اور ایک اندھی دور زر گری کی جنگ میں بازاری کلچر میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں ملا کی شاعری فکری و نظریاتی اعتبار سے جو بھی ہو وہ ہمارے دل میں ٹھنڈک، آنکھوں میں نمی پیدا کرتی ہے اور یہ نمی کسی مسلکِ فکر و فن سے نہیں پیدا ہوتی ہے۔ دیکھئے اس شعر میں یہ خیال بھی سمٹ آیا ہے اور اس شعر پر میں اپنی گفتگو تمام کرتا ہوں ؎

مُلّا یہ اپنا مسلک فن ہے کہ رنگ فکر

کچھ دین فضائے دیر کو کچھ لین فضا سے ہم

٭٭٭

 

٭٭٭

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید