FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

آنند نرائن ملاؔ : حیات و نظریات

 

 

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ کا پہلا حصہ

 

 

                مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی

 

 

 

 

 

ابتدائیہ

 

ادب برائے ادب اور ادب برائے سماج کی بحث یوں تو کافی پرانی ہے۔ لیکن اتنی بھی نہیں جتنی پرانی ادب کی روایت یا سماجی زندگی کا تانا بانا ہے۔ یہ نظریات تو بہت بعد میں آئے، زمین کے فرشی نظام کے قیام اور زبان و بیان کی ابتدا کے ہزارہا سالوں کے بعد۔ انسانی تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو ادب اس کا بالکل تازہ کارنامہ معلوم ہو گا اور بات زیادہ سے زیادہ تیس صدی قبل مسیح، نینوا کی مٹی کی تختیوں، قرطاس مصری، وید و پران اور کتب خانۂ اسکندریہ پر جا کر ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ لٹریچر کی عالمی تاریخ تحریر کی تاریخ سے باہم دگر گڈمڈ نظر آتی ہے۔ انہیں کوئی الگ کر بھی کیسے سکتا ہے جب کہ ان کی اساس ہیومن سویلایزیشن ہے اور مقصد انسانی دلچسپی اور بہبود۔ شاید اسی لیے کارل وسلر اپنی مشہورِ زمانہ کتاب Spirit of Language in Civilisation The میں جب زبان کو ہیومن کسٹم سے تعبیر کرتا ہے تو پورا کا پورا ذخیرۂ ادب و فنون لطیفہ انسانی تمدن کی عمارت کا اینٹ گارا بلکہ جزو لاینفک قرار پاتا ہے۔

انسانی تمدن ایک استمراری اکائی ہے، جو آرٹ اور سائنس کی یکساں سر گرمی کی محتاج ہے۔ دلیل یہ ہے کہ جب سے سائنس اور آرٹ کی حصہ داری بڑھی ہے تبھی سے سویلائزیشن کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ یہ تو تاریخ داں ہیں جو مطالعہ اور محافظہ کی سہولت کے پیشِ نظر مختلف ادوار اور خطوں کی تاریخ کو مختلف تہذیبوں اور جغرافیائی اکائیوں میں منقسم کر کے پیش کرتے ہیں، وگرنہ انسانی تمدن کے ارتقا کا یہ سلسلہ تو ازل سے جاری و ساری ہے۔ بیان، اظہار، اختراع، ایجاد، اختلاف، کشمکش، تعمیر، تخریب، تصادم، جنگ، انقلاب، غلبہ، اقتدار، غلامی (جیسے تمام منفی و مثبت مظاہر، جن کے بھی نام لیے جا سکتے ہیں ) کی حیثیت اس راہ کے لوازمات کی ہے۔ اصل مقصود نسل انسانی کو عیش و آرام، امن و آشتی، آزادی و خود مختاری، خوشی و سرمستی کی ممکنہ آخری حد تک اور لازوال انتہاؤں کے حصول کی جانب گامزن رکھنا ہے۔

دورِ جدید میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں جن زبانوں اور ان کے لٹریچر کا رول نمایاں رہا ہے ان میں اردو بھی شامل ہے اور جیسے جیسے اس کی جغرافیائی وسعتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے امکانات مزید روشن ہو رہے ہیں۔ اردو زبان اس لحاظ سے بھی نسل انسانی کی تہذیبی ارتقاء میں زیادہ معاون و مؤثر ہے کیوں کہ اس کا خمیر جمہوری، روش آزادانہ اور خوشبو ہمہ جہت ہے۔ اردو ادب میں انسانی اقدار اور اخلاقیات کا حصہ دوسری زبانوں کے ادب سے کہیں زیادہ ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملا اردو کی اسی عظیم تکثیری روایت اور وسیع المشرب وراثت کی ایک مضبوط کڑی ہیں۔

اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد پنڈت آنند نرائن ملّا کی فکری تلاش، تشریح اور توجیہہ ہے کیونکہ اس تفصیل کے بغیر ملّا کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنا مشکل ہے۔ اب ملّا کی ہی زبان میں ملاحظہ فرمائیں : ’’ تاریخِ عالم ہم کو بتاتی ہے کہ روزِ آفرینش سے لے کر آج تک طفلِ انساں نے ہمیشہ ایک ایسے نظامِ ہستی کے خواب دیکھے، جس میں وہ اپنے شوق کی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کر سکے۔ اس کا اپنا گھر ہو، جہاں وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ جب کارِ دنیا سے فرصت پائے تو کچھ لمحات سکون اور آرام کے ساتھ گزارے۔ اس کے جسم کو کسی جبر کا شکار بننے کا اندیشہ نہ ہو اور اس کے ذہن کو غلام بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسے امن اور محبت کی کھلی اور بے خوف فضا میں سانس لے کر اپنے پورے انسانی قد تک پہنچے کا موقع ملے۔ جہاں افسروں کی نہیں بلکہ قانون کی حکومت ہو جہاں اسے الزامات کے خلاف اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بے روک ٹوک پورا پورا اختیار دیا جائے اور جہاں آزادی، مساوات اور اخوت کے نعروں میں نہیں بلکہ نغمات کی لے میں مذہب و ملت، رنگ ونسل اور جنس و ذات کے سارے امتیازات، اختلافات اور تفرقے ایک نالۂ بے آواز بن کر فنا ہو جائیں ‘‘۔

ملّا کی نظر میں شاعری آرٹ اور فن سے زیادہ پیغمبری اور نظامِ ارتقاء کی کار پردازی ہے۔ انہوں نے نہ صرفArt for Art Sake کی پوری بحث، جو انیسوی صدی سے عالمی ادب میں چھڑی، بلکہ اس تحریک کے زیر سایہ تخلیق کئے جانے والے انگریزی، فرانسیسی اور ہندوستانی ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور اس کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ’’ میں شاعر کو صرف فن کار نہیں سمجھتا بلکہ دانائے راز اور پیمبر بھی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک کوئی شاعر یا افسانہ نگار نوع انساں سے بے پناہ محبت کیے بغیر عظیم نہیں ہو سکتا اور نہ ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے۔ ‘‘ انسانیت کا درد اور اس کی بھلائی ہی ملّا کا نظریہ بھی ہے اور ان کا امتیاز بھی۔ ’’ جس ادب میں انسانی درد کی آواز نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی عیاشی کے لیے سامان فراہم کر سکتا ہے لیکن دل و دماغ کی تربیت نہیں کر سکتا۔ کلام میں تاثیر خلوص سے پیدا ہوتی ہے اور عظمت انسانی درد کی آواز شامل کرنے سے۔ وہی شاعر ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود ہوں۔ ‘‘ عالمی اخلاقی قدریں اور انسانی حقوق کی بحالی، جو متمدن دنیا کا سب سے بڑا خواب ہے، و ہی در اصل ملّا کا بھی خواب ہے۔ یہ خواب ٹوٹتا اور بکھرتا ہے تو وہ رنجور ہو جاتے ہیں ؎

ارتقا کی داستاں اب تک تو انساں کے لئے

آنسوؤں کا ایک دریا ہے کہ بہتا جائے ہے

امن کی اس جنگ جو دنیا میں سنتا کون ہے

ہر پیامِ صلح صحرا کی اذاں بنتا گیا

مگر پھر رجائیت اور بدی پر نیکی کی جیت کا یقین ان کا دامن تھام لیتا ہے اور ان کو کشاں کشاں شاعرانہ پیمبری کے اس مقام طور تک لے جاتا ہے جو ان کے ادبی نظریہ و ایمان کی معراج ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے لفظوں میں ــ ــ ’’ ملّاؔ کی رجائیت اور روایتی رجائیت میں فرق ہے۔ ان کا تصور انسانیت محض خارجی عقیدہ نہیں بلکہ ایک فنکار کا تخلیقی تصور ہے جس میں زندگی کی بہتر تشکیل بنی نوع انساں سے محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ ملّا کا ذہن سچائی سے وابستگی محسوس کرتا ہے، فارمولے سے نہیں۔ ان کی انسان دوستی کا منبع اور سر چشمہ خود ان کی اپنی فنکارانہ بصیرت ہے۔ وہ ’’سیاسی نظریات ‘‘ اور ’’انسانی نظریات‘‘ میں بجا طور پر فرق کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ان کا یہ دعویٰ اس عہد کا اہم فنکارانہ دعویٰ ہے کہ انسان دوستی کے واضح نقطۂ نظر کا ہونا یا نہ ہونا اس بات پر منحصر نہیں کہ کوئی کسی خارجی فلسفے پر ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ ملّاؔ کسی بھی قسم کے نظریاتی اصرار کو ایسی تنگ دلی اور کم نظری سے تعبیر کرتے ہیں جو بنیادی طور پر تخلیقی جذبے کی تڑپ اور بے قراری کی دشمن ہے۔ وہ گاندھی اور نہرو کی اس دانشورانہ روایت کے امین ہیں جو روشن خیالی، ذہنی کشادگی اور نظر کی وسعت سے عبارت ہے اور جس کا فکری مرکز ثقل خود اس کے اپنے پیروں تلے اپنی دھرتی میں ہے۔ ‘‘

پروفیسر گوپی چند نارنگ کی یہ بات بھی درست ہے کہ ملّا کے تصور انسانیت کا سر چشمہ کوئی ایک مذہب یا اخلاقی ضابطہ یا فلسفہ یا سیاسی و معاشی نظریہ نہیں ہے ۔ تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے مختلف مذاہب کی اچھی باتوں سے خوشہ چینی ضرور کی تھی بالخصوص بدھ مذہب کی تعلیمات جن کی رو سے دنیا کے اچھے بُرے ہونے کے پس پشت صرف ایک وجہ انسان کی اچھائی یا برائی ہے۔

متفرق اشعار ؎

اک جنگ پہ آمادہ دنیا یہ راز نہ کب تک سمجھے گی

طاقت کی دہائی فانی ہے انساں کی اکائی باقی ہے

 

اکیلا غم کی سیہ شب میں خستہ پا انساں

ازل سے جنت گم گشتہ کی تلاش میں ہے

 

مٹے نہ نرمی شام و سحر جہاں والو

کہیں سے دن بھی چلے جب کہیں سے رات چلے

 

نظامِ میکدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے

ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا

 

آزاد جہاں میں کوئی نہیں، سب قیدی ہیں بس فرق ہے یہ

کس نے کتنے اس زنداں کی دیوار میں روزن پھوڑے ہیں

 

پنڈت ملّا نے اپنی آنکھیں اس دور میں کھولی تھیں جب دنیا کے ایک بڑے خطے ( بشمول ہندوستان) پر انگریزوں کا غاصبانہ تسلط اور جابرانہ نظم قائم تھا اور جب وہ پوری طرح میدان عمل میں آئے تو ان کا پہلا بڑا محاکمہ برصغیر کی تقسیم اور تعصب کے عذاب سے ہوا۔ یہ وہی دور تھا جب اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی دھمک صاف سنائی دے رہی تھی اور ملّا بھی کچھ کچھ ان خیالات سے متاثر نظر آ رہے تھے مگر وہ ایک عجیب سے مخمصہ کا شکار تھے۔ وہ ایک طرف تو اس بات سے جزبز تھے کہ ان کے احباب اور معاصر نقاد سید احتشام حسین اور آل احمد سرورانہیں ترقی پسندادیب کی خلعت اڑھانا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف وہ ایسے کل سرمایۂ ادب کو قابل گرفت سمجھتے تھے جو فنِ محض کے نقطۂ نظر سے رقم کیے گئے ہوں۔ ملّا زندگی بھر اردو کی ان نام نہاد تحریکوں میں اپنا نام درج کرانے سے بچتے رہے، جن پر آرٹ کی خدمت سے زیادہ نظریات کی تبلیغ کا الزام ہے اور جہاں عطا و سزا کا فیصلہ گروہی عصبیت کی چھلنی سے چھن کر آتا ہے۔ وگرنہ محمودالحسن بھی مانتے ہیں کہ وہ ترقی پسندی سے متاثر تھے۔ فی الواقع وہ اصلاح پسندی کے اسی سلسلہ کی کڑی تھے جس کا سرا حالی، اقبال اور اکبر الٰہ آبادی سے جا کر ملتا ہے۔ گویا ان کی ذہنی ارتقا میں ایسے کئی خارجی اسباب تھے جو ان کو درد مند انسانی زاویوں اور اصلاح پسندشعری رویوں کی طرف لے جا رہے تھے اور ان اسباب میں مذاہب اور ادبیات کے مطالعہ کو فوقیت حاصل ہے۔

ملّا کے نظریۂ ادب سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب شاعری احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے تو اسے داخلیت اور اظہار ذات سے بھلا کیسے جدا رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ کلاسیکی روایات اور اردو کے لکھنوی دربار کی نمائندگی کرنے والا یہ شاعر اپنے معاصرین کے برعکس غزل کونہ صرف نت نئے مضامین سے آراستہ کرنے کی بات کرتا ہے بلکہ اظہار ذات، حسن و عشق کے مروجہ مواد اسے نہایت فرسودہ نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’داخلیت اسی وقت تک حسن ہے جب تک اس کے رشتے خارجیت سے استوار ہیں ‘‘۔ اس اجمال کی تفصیل وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’وہ نفسیاتی شاعری جو ہمیں انسانی فطرت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ادب کی اونچی چوٹیوں کو چھو لیتی ہے لیکن جو محض ایک فن کار کا ذاتی رد عمل پیش کرتی ہے اس کی ادب میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ عشق کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے بھی عشقیہ شاعری کو اس شاعری سے جسے میں انسانی شاعری کا نام دیتا ہوں، ایک کمتر درجے کی چیز سمجھتا ہوں۔ عشقیہ شاعری زیادہ سے زیادہ اس گروہ پر اثرانداز ہو سکتی ہے جس پر خود بھی وہ حالات گزرے ہیں اور جن کے دلوں میں وہ کیفیات طاری ہوئی ہوں جن کا ذکر شاعر نے کیا ہے اور اس طرح ایک ’’درد یکساں ‘‘ کا رشتہ قائم کر سکتی ہے ‘‘۔ تاہم یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ملّا خواہ شاعری میں اظہار ذات کو غیر ضروری بتاتے رہے ہوں مگر ان کے شاعری اس سے خالی نہیں ہے۔ اصل میں ملّا عشق کی برہنگی اور رومانیت میں سطحیت سے نالاں تھے۔ وگرنہ غزل کے روایتی مضامین ان کے یہاں بکثرت ملتے ہیں۔ ہاں، بقول آل احمد سرور ’’ ملّا کا عشق سنبھلا ہوا اور مہذب عشق ہے مگر اس کی صداقت اور دل گدازی میں کلام نہیں۔ ملّا کو عاشق کی بے باکی نہیں آتی، وہ نگاہوں کی زبان کو سمجھتے ہیں اور اس کے ترجمان بھی ہیں ان کے یہاں نفسیات انسانی کا علم بھی زیادہ ہے۔ ‘‘ پھر کمال احمد صدیقی کی یہ بات بھی درست ہے کہ ملّا کی شاعری میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور بقول احتشام حسین کئی بار وہ اپنے بنائے ہوئے نظریات کے مکمل طور پر پابند نہیں دکھائے دیتے تھے۔ اسی لئے یہ اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ آئندہ کسی محقق کو سال بہ سال ماہ بہ ماہ ان کی شاعری اور فکر میں نمودار ہو رہی فنی اور موضوعاتی تبدیلیوں کو جملہ داخلی اور خارجی عوامل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بالکل یہی رویہ آنند نرائن ملا حقیقت نگاری کے باب میں بھی روا رکھتے ہیں۔ ان کی عملی مصروفیات نے بعد میں اتنی فرصت بہم نہیں پہونچائی ورنہ قرینِ قیاس ہے کہ ملا اردو ادب کے جدید اور مابعد جدید نظریات پر بھی اسی طرح تازیانے برساتے جس طرح وہ اس کے مساوی اور مماثل ادبی رویوں اور نظریات پر حملہ آور رہے ہیں۔ واضح رہے انہوں نے مغرب کی دیکھا دیکھی مشرق میں در آئی فحاشی اور ابتذال کی نئی ادبی قدروں پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ادبی مرض سے تعبیر کیا تھا۔

ملّا کا موضوع اور مواد پر اس قدر زور مزید اشکالات پیدا کرتا ہے۔ وہ ادب برائے ادب اور فن برائے فن کے قائل نہیں ہیں، مگر کیا سچ مچ فن کے لوازمات سے بھی ان کاری ہوا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر عروض و بحر کی قید نہ ہو تو کیا ایسی شاعری نثر کے قبیل میں نہیں آ جاتی ہے اور کوئی مواد اگر نثر کے خانوں میں بھی فٹ نہ بیٹھے تو اسے ادب کی جگہ دیوانے کی بڑ کیوں نہ قرار دیا جائے۔ بعض حضرات ملّا کے پہلے مجموعۂ کلام ’جوئے شیر‘ کے دیباچہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’ اس مجموعہ میں عروض و زبان کے اعتبار سے غالباً متعدد غلطیاں ملیں گی۔ ان میں سے کچھ ایسی ہوں گی جو میرے علم میں بھی نہ ہوں لیکن بہت سی ایسی ہیں جن سے میں واقف ہوں۔ میں نے یہ جانتے ہوئے بھی انھیں دور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ میں نے اپنے ذوق کو مروتاً اصول شاعری پر ہمیشہ ترجیح دی۔ ‘‘۔ اس کی پہلی توجیہ تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا اقوال کی حیثیت ایک نو وارد شاعر کے پہلے مجموعہ کلام میں ذاتی انکسار سے زیادہ کی نہیں ہے۔ دوسری توجیہ کا تعلق ملا کی ان ترجیحات سے ہے جن میں ترسیل پہلے، جگ بیتی اور دردِ یکساں اس کے بعد اور فنی لوازمات اخیر میں آتے ہیں۔ چنانچہ وہ شاعری میں انتشار و ابہام سے پرہیز اور رمز و استعارہ کو بھی بقدر ضرورت استعمال پر زور دیتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ملّا نے گوناگوں سیاسی، سماجی اور پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود بہت زیادہ لکھا ہے اور کسی خیال کے اظہار اور کسی مسئلہ پر رد عمل کی فوری ترسیل کی ضرورت کے نتیجہ میں بعض مقامات پر فنی سقم نظر آتا ہے، مگر اس سے یہ قیاس کرنا کہ ملا فنی لوازمات کی قربانی کو روا رکھتے تھے، مناسب نہ ہو گا۔ استثنیات کو چھوڑ دیں، تو ملّاؔ کا زندگی بھر اردو ادب کی مروجہ اصناف میں پابند شاعری کرنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر وہ مواد کی ترسیل کے لئے تجربات کے منکر نہیں تھے تو وہ فنی لوازمات پر بھی پورا ایقان رکھتے تھے۔ اگر وہ فنی لوازمات کے باغی ہوتے تو غزل کے حق میں وہ تاریخی وکالت نہ کرتے جس کے دلائل پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس: ’’میرے نزدیک جو غزل ان باتوں کی ترجمانی کرتی ہو وہ آسانی سے نظم کے ہمدوش کھڑی کی جا سکتی ہے اور وہ کسی ادبی میزان میں نظم سے کم وزن نہ نکلے گی۔ اکثر نقاد نظم کے مقابلے میں غزل کی تنگ دامانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن مجھے تو یہ تنگی آج تک محسوس نہ ہوئی۔ جو لوگ غزل پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ غزل میں صرف اشارہ کیا جا سکتا ہے بات کھل کر نہیں کہی جا سکتی میں ان سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے کس نظم میں کھل کر کیا کہا جس سے زائد کھل کر میں نے غزل میں نہیں کہا۔ رہا اشارے میں بات کرنا تو یہ تو کلام کا حسن ہے عیب نہیں جب تک کہ اشارہ ذہن کو مفہوم تک پہچانے میں ناکامیاب نہیں ہوتا‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’غزل اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر۔ اگر اردو نظم مٹا دی جائے تو یقیناً اردو ادب کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ اپنا مقام کھودے گا لیکن اگر غزل مٹا دی جائے تو اردو زبان ہی زندہ نہ بچ سکے گی۔ میرے نزدیک غزل ایک مشرب ہے، ایک تہذیب ہے، ایک صلح جو پیمانہ لبریز ہے، محض ایک مٹنے والی ادبی روایت نہیں۔ مجھے اس کا خوف کم ہے کہ کوئی اس صنف کو مٹا سکتا ہے کیوں کہ ایک طرف اس میں گزری ہوئی صدیوں کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز ہے اور دوسری طرف اس کے رشتے عوام کے جذبات اور احساسات سے وابستہ ہو چکے ہیں لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ کوتاہ بیں نقادوں اور ان نقادوں کی نظر سے دیکھنے والے فن کاروں میں گھر کر یہ کہیں خود کشی نہ کر لے۔ غزل اردو زبان کا وہ ہدیۂ دوستی ہے جو اس نے اس ملک کی باقی سب زبانوں کو نذر کیا ہے اور میرے نزدیک اس میں وہ لوچ، سکت اور صلاحیت موجود ہے جو دور بہ دور گزرتی ہوئی زندگی کے تقاضوں کا ساتھ دیتی چلی آئی ہے آج بھی دے رہی ہے اور آئندہ بھی دے سکے گی۔ ‘‘۔ ‘‘ ظاہر ہے غزل کی اس قدر پر زور حمایت کرنے والا شخص اس کے جملہ اصول و مبادیات سے ضرور واقف ہو گا۔ وہ تو بس اتنا چاہتا ہے کہ فن کی لے خرد اور شعور کی بانگی کو تیز کرنے کے کام آئے۔ بقول ملا ’’میں شاعر میں ’’دانائے راز‘‘ پہلے ڈھونڈتا ہوں اور فنکار اور گیت کار بعد میں کیوں کہ میری نظر میں شعر محض احساس کے دھندلکے میں لاشعور کی آواز نہیں۔ میں شاعری کو شعور کا فن سمجھتا ہوں اور جو ادب بجائے شعور کی طرف بڑھنے کے لاشعور کی طرف مراجعت کرے وہ انسان کو گمراہ کر سکتا ہے، اسے راستہ نہیں دکھا سکتا۔ تاریخ بشر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان ارتقا کی بے شمار منزلیں طے کرنے کے بعد اس قابل ہوا کہ اپنے احساسات اور خیالات کو دوسروں تک اپنے بولے ہوئے الفاظ کی مدد سے پہنچا سکے اور زبان پانے کے بعد بھی کئی ارتقائی منزلیں اور طے کرنا پڑیں تب وہ ان الفاظ کو ربط اور آہنگ دے کر اپنے ہونٹوں تک لا سکا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاعری انسان نے اس وقت شروع کی جب اس کا شعور کافی عروج پر پہنچ چکا تھا۔ شاعری تمام فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ ارتقا یافتہ فن ہے۔ یہ رقص، موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی وغیرہ کی طرح انسان کی ان ارتقائی منزلوں میں وجود نہ پا سکی جب شعور خوابیدہ یا نیم بیدار تھا اور احساس کی حکمرانی تھی۔ شعر وہی ہے جو احساس کو شعور کی زبان میں پیش کرے اور شعور واضح ہوتا ہے مبہم نہیں ہوتا۔ ‘‘

ملا جسے شعوری یا خرد مندانہ ادب قرار دیتے ہیں اس کا عکس ان کی شاعری میں صاف جھلکتا ہے۔ ان کی شاعری بالخصوص نظم و قطعات میں عصری عناصر، عوامی مسائل، خارجی معاملات کی دھمک صاف سنائی دیتی ہے۔ قحط کلکتہ، بہار کی رات، مسلم لیگ، سماج کا شکار، انسانی درندے، قانون کی تعریف، مریم ثانی، ہپی، بوڑھا مانجھی، شرنارتھی، مجبوری، ضبط، زمینِ وطن وغیرہ ان کی نظموں کے عناوین ہیں تو سنسکرت ادب سے انگریزی کی معرفت ترجمہ کی گئی نظموں میں ہندوستانی مٹی کی خوشبو صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ان کی غزلوں میں بھی مضامین کا ایک جہاں آباد ہے۔ نمونے کے طور پر یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

تری ہستی سے منکر ہوتے جاتے ہیں جہاں والے

سنبھال اپنی خدائی کو ارے او آسماں والے

میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں

میرے دل کے درد میں تفریقِ ایماں کچھ نہیں

 

قفل اندر سے لگائے گئے زندانوں میں

اُف تمنائے اسیری ترے دیوانوں کی

 

لب مادر نے ملّا ؔ لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

 

ملّا کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اس کا ترسیلی نظام ہے۔ وہ نت نئے الفاظ، تراکیب اور پیراؤں کا استعمال کرتے ہیں، مگر سننے والے کو لگتا ہے کہ گویا یہ بالکل سامنے کی بات ہے یا یہ بھی میرے دل میں ہے۔

کریں گے تا بہ امکاں پردہ پوشی رازِ الفت کی

رہیں گی بند آنکھیں اور تری تصویر دیکھیں گے

 

کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت

ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے

 

بس اب تو حضرتِ دل کیجئے کرم مجھ پر

جہاں میں خوار ہوا ہوں بہت جناب کے ساتھ

 

وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

میں تجھ سے مل تو چکا ہوں ہزار بار مگر

سلگ رہی ہے ابھی دل میں انتظار کی آگ

آنند نرائن ملّانے نہ صرف اوروں کی زمینوں میں مشق سخن کی ہے، بلکہ بعض ان موضوعات پر اپنے الگ انداز اور سوچ کے مطابق سخن آزمائی کی ہے، جن پر سابقہ یا معاصر شعراء نے قلم اٹھایا تھا۔ کبھی کبھی مقابلہ اور مسابقہ جیسی صورت ہو جاتی ہے اور ایسے مقامات پر ان کی عجلت صاف جھلکتی ہے۔ لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ساری عجلت اور مسابقہ کی کوششیں ان سے لا شعوری طور پر سرزد ہوئی تھیں۔ اور ان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اقبال اور چکبست وغیرہ سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کے کلام کا انھوں نے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔

پنڈت آنند نرائن ملّا نے اردو ادب کی خدمت نثر اور نظم دونوں میدانوں میں کی، جن کی ان کی اصل خدمت جو انہیں انفراد عطا کرتی ہے تفصیلات آئندہ صفحات میں موجود ہیں۔ لیکن وہ اردو کی بے لوث وکالت اور اردو گھر دہلی اور اتر پردیش اردو اکادمی کا قیام ہے اسی میں ان کی مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔

ترے کوچہ میں سب مشتاق اک جلوے کے بیٹھے ہیں

نظر والے، جگر والے، قلم والے، زباں والے

عہد ملّا سے اب تک کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ آرٹ اور سائنس جنہیں انسانی تمدن کی ارتقا میں یکساں بھاگیدار ہونا تھا، آج ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں، بلکہ سائنس اپنی نت نئی ایجاد کے ذریعہ آرٹ پر حاوی ہو رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ سائنس کی سرعت پذیر ترقیات ادب و فنون لطیفہ کا گلا ہی نہ گھونٹ دیں۔ غنیمت ہے کہ ایسے حالات میں بھی مجلس فخر بحرین اور اس کے بانی محترم شکیل احمد صبرحدی نے اردو ادب کے گراں مایہ سرمایہ کی بازیافت کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ زیر نظر کتاب اسی مشن کا ایک حصہ ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں جہاں ایک طرف پروفیسر شہپر رسول(دہلی)، پروفیسر علی احمد فاطمی(الٰہ آباد)، پروفیسر محمد زاہد (علی گڑھ)، ڈاکٹر عمیر منظر (لکھنؤ) کے مشورے شامل حال رہے، وہیں عملی طور پر قدیم ترین رسائل کے بحر ذخار کی شناوری کر کے صالحہ عابد حسین، مسعود حسین خان، سید احتشام حسین وغیرہ کے مضامین ڈھونڈ نکالنے میں جس قدر تعاون برادرانِ عزیز شہنواز فیاض، سلمان فیصل اور اشفاق عمر نے کیا، وہ انہی کا حصہ ہے۔ شکریہ کے مستحق حسین عیاض بھی ہیں جنہوں نے پروف ریڈنگ اور ترتیب کے مراحل طے کرنے میں اپنی خدمات پیش کیں اور وشال باغ بھی، جو ملّا کی بیٹی چترا کول ملّاسے تصویری یادوں کے حصول میں معاون رہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام شائع ڈاکٹر خلیق انجم کی ترتیب کردہ کلیات ملا اور غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی کے زیر اہتمام منعقد سمینار کے مقالہ جات کے کلی ؍ جزوی حصے بھی کتاب کی ترتیب میں شامل ہیں، جس کے لئے ادارہ ان کا ممنون ہے۔

’آنند نرائن ملا: حیات و کمالات ‘نامی اس کتاب میں ابتدائیہ کے علاوہ تین بنیادی ابواب ہیں۔ پہلا پنڈت آنند نرائن ملّا کی حیات، نظریات اور عملی خدمات کو معنون ہے، جبکہ دوسرے حصہ میں ملّا کی شاعری اور نثر پر تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ تیسرے حصہ میں ملّا کی شاعری اور نثر کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے زیادہ تر مضامین تازہ اور خصوصی طور پر لکھے گئے ہیں جنہیں فاضل مقالہ نگاروں نے گزشتہ دنوں مجلس فخر بحرین اور آئیڈیا کمیونی کیشنز کے زیر اہتمام جامعہ ہمدرد، نئی دہلی میں منعقد ایک کامیاب ترین ملّاسمینار میں پیش کیا تھا۔ امید ہے کہ آنند نرائن ملّا پر تحقیق و تدوین کے حوالے سے اب تک کی سب سے یہ جامع اور مفصل کاوش قارئین کو یقیناً پسند آئے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

حیات و نظریات

 

 

 

آنکھوں میں اک نمی سی ہے ماضی کی یادگار

گزرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

 

 

 

ملّا مشاہیر کی نظر میں

 

 

 

مجنوں گورکھپوری: جذبات کا توازن، زبان کی سنجیدگی و سلاست ان کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان میں صالح قسم کا ذوقِ تغزل پایا جاتا ہے۔

صالحہ عابد حسین: ملّاؔپچاس سال سے زیادہ سے نہ صرف سیاہی کی بوندوں سے اردو ادب کو مالا مال کر رہے ہیں بلکہ اردو کی حمایت ترقی اوراس کی بقا کے لئے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ وہ اردو کو ماں کی طرح مقدس جانتے ہیں … جس زبان کے عاشق آنند نرائن ملّاؔ ہوں جو مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر زبان نہیں وہ زبان کیسے مرے گی۔

کلیم الدین احمد: زبان میں نرمی اور ملائمیت زیادہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زور، شوخی و صفائی بھی موجود ہے۔ مضامین اور مضامین کی ترجمانی میں ابتذال و فرسودگی سے پرہیز ہے۔ لیکن جدت و باریکی کا بھی نام و نشان نہیں۔ خیالات وہی ہیں جو اردو غزل میں عام طور سے نظر آتے ہیں۔ اسلوب بیان میں انفرادی شان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سراجؔ لکھنوی: میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ، غالبؔ، اقبالؔ، جگرؔ اور ملّاؔ کے کلام کو میں نے پسند کیا اور یہی سبب ہے کہ فکر و نظر کی رسہ کشی نے مجھے صرف زبان و محاورہ کے ہاتھوں بیع ہونے سے بچا لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ملّاؔ کے کلام نے مجھے ترغیب کی کہ اقبالؔ کو اچھی طرح سمجھا اور پڑھا جائے چنانچہ ۱۹۵۰ء میں اقبالؔ کو میں نے اقبال کی حیثیت سے دیکھا اور پرکھا اس وقت معلوم ہوا کہ بقول اقبال:ع

ا یسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

اپنے عزیز دوست اور ہمعصر پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کے یہاں مجھے اپنے ذوق کی ہم آہنگی نظر آئی۔

مسعود حسین خاں : ملا صاحب کی شاعری میں اسی صداقت کا اظہار جو ان کے دل میں بہ حیثیت شاعر موجود ہے۔ ان کی شاعری ان کی نجی واردات ہے۔ یہ مانگے تانگے کا اجالا نہیں۔ یہ اتنی روایت زدہ بھی نہیں، جس کے لیے دبستانِ لکھنؤ بدنام ہے۔ اس صداقت کے اظہار میں ملا صاحب نے نجی محاورہ استعمال کیا ہے۔

سید احتشام حسین:ہلکے اور گہرے نفسیاتی اشارے، تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سے غیر مرئی جذبات کی مصوری، محبت کی دبی ہوئی چوٹوں کا ابھار، معمولی تمثیلوں سے زندگی کے زبردست انقلابات کی جانب اشارے، ملّاؔ کی غزلوں میں بے شمار پائے جاتے ہیں اور جو چیز ان میں اثر و کیفیت پیدا کرتی ہے وہ ان کے تجربہ اور مشاہدے کا خلوص ہے جو حقیقت بن کر پھوٹ نکلتا ہے۔

گوپی چند نارنگ: ملا کے یہاں شاعری یا طریقِ فکر کا گہرا تعلق ضمیر کی آواز سے ہے وہ کسی بھی قسم کے نظریاتی اصرار کو ایسی تنگ دلی اور کم نظری سے تعبیر کرتے ہیں جو بنیادی طور پر تخلیقی جذبے کی تڑپ اور بے قراری کی دشمن ہے۔ غزل کو ملا محدود معنی میں نہیں لیتے، ان کا شعری وجدان ذاتی واردات اور پیکار حیات دونوں سے متاثر ہوتا ہے۔ درد انسانیت کی سماجی حوالگی کی بدولت انھوں نے غزل کو نظم کا قد دینے کی کوشش بھی کی ہے۔

جگن ناتھ آزادؔ: ملّاؔ صاحب کی شاعری قدامت، جدت یا ترقی پسندی کے خانوں میں بٹی ہوئی شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و نظر کا ایک تسلسل، درو بینی، انکشاف ذات کا عمل اور آفاقیت اس کی خصوصیات ہیں۔

عبادت بریلوی: ملّا کی شاعری میں اکثر جگہ یہ کیفیت ملتی ہے کہ وہ کسی مخصوص نظام کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ محبت کا پیام بھی دیتے ہیں، لیکن مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے۔

آلِ احمد سرور: ملاؔ کی شاعری میں وطن، حسن، انسان دوستی اور نئی دنیا کے محور ملتے ہیں، ان کی شاعری ہمارے ادب کے تمام صالح میلانات کی آئینہ دار ہے اور ان کی شخصیت ہماری تہذیب کی وسیع المشربی اور ہمہ گیری کی ایک زندہ اور تابندہ تصویر۔

دین محمد تاثیر: ملّاؔ کے تغزل میں ذہانت کا عنصر غالب ہے اور اسی لیے ان کا انداز بیان ہم کو انوکھا سا نظر آتا ہے، وہ سامنے کے مضامین کو بھی نئے انداز سے ظاہر کرتے ہیں لیکن اس میں ہلکی سی خشونت بھی پائی جاتی ہے اور تھوڑا patronizing effect بھی۔ اس لئے نرمی و حلاوت جو غزل کی جان ہے ان کے یہاں کم ہے۔

محمد حسن: آنند نرائن ملّاؔ کی نظمیں گھن گرج اور شوخ رنگوں سے آشنا نہیں وہ بڑی سے بڑی بات کہنے کے عادی ہیں اسی لئے ان کی نظموں میں فن کاری اور خیال دونوں کا لب و لہجہ مدھم ہے۔ ان کی نظموں میں ربط اور تسلسل کا احساس ملتا ہے اور بھرتی کے مصرعے کم۔

عمر انصاری: ملّا نے غزل کی پرانی اور صالح روایتوں کو توڑا نہیں، کئی نئے اسالیب کے ساتھ انھیں جوڑا ہے اور اس کوشش کی بدولت ان کے کلام میں ندرت و انفرادیت کے ایسے عناصر داخل ہوئے ہیں جو خود ان کی شخصیت کو منفرد بناتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

بیٹی چترا کول ملّا سے خصوصی گفتگو

 

                ……… آصف اعظمی

 

ملّا خاندان چار نسلوں سے لکھنؤ میں ہی رہتا آیا تھا۔ سب سے پہلے سیتا رام مّلا کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ ان کے بیٹے لکشمی نرائن ملا، ان کے بیٹے کالی سہائے ملّا، پھر میرے دادا یعنی ملّا صاحب کے والد جگت نرائن ملا تھے۔ میرے والد صاحب کو لکھنؤ بے حد پسند تھا۔ یہاں کے ماحول اور تہذیب سے ان کو خاص لگاؤ تھا کیونکہ وہ یہیں پلے بڑھے تھے، یہیں تعلیم پائی تھی۔ اس وقت کا لکھنؤ ثقافتی لحاظ سے بے حد ترقی یافتہ تھا۔ اچھے کلب تھے۔ مختلف قسم کی ثقافتی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں، مشاعرے ہوتے تھے۔ ملّا صاحب بصد شوق ان میں شریک ہوتے تھے۔

اس زمانہ کے لکھنؤ میں ہندو مسلم کی کوئی زیادہ تفریق نہیں تھی، ہاں، شیعہ سنّی فسادات ہوتے رہتے تھے۔ برسوں میں کبھی کسی ہندومسلم فساد کی خبر سننے میں آتی تھی۔ رہن سہن سب کا یکساں تھا، کوئی فرق نہیں تھا۔ زبان بھی اردو ملی جلی ہندوستانی تھی، ہندی تو بالکل نہیں تھی۔ تہواروں میں سبھی مل جل کر شریک ہوتے تھے۔ ہمارے پڑوسی تھے نواب سعادت علی خاں یا صادق علی خاں، ہمارے یہاں ان کے گھر سے شب برات پر پٹاخے آتے تھے اور دیوالی پر ہمارے یہاں سے ان کے گھر جاتے تھے۔ کوئی مذہبی رنگ نہیں تھا، بسcelebration ہوتا تھا۔

لکھنؤ اپنے پکوانوں کے لئے مشہور تھا۔ خود ہمارے گھر میں ایک کشمیری پنڈت تھا اور دوسرا مسلمان خانساماں۔ میٹ، مرغ سبھی پکتا تھا۔ آج کی طرح کوئی مسئلہ کھانے کو لے کر نہیں تھا۔ ملّا صاحب کو میٹ بہت پسند تھا اور ہمارے گھر میں دونوں وقت میٹ بنتا تھا۔ میٹ کی ایک قسم تو مسلم خانساماں بناتا تھا اور دوسری قسم کشمیری پنڈت خانساماں۔ پنڈت کشمیری روغن جوش، کوفتے وغیرہ بناتا تھا جب کہ دوسرا کباب، قورمہ وغیرہ بناتا تھا۔

گھر کے اندر شعر و شاعری کا ماحول ذرا کم تھا۔ والدہ کو دلچسپی کم تھی، تھوڑا بہت سمجھتی تھیں۔ لیکن بڑے شعراء ہمارے گھر آ کر قیام کرتے تھے، جیسے ساغر نظامی، جوش، جگر وغیرہ۔ ہمارے گھر میں پردہ کا رواج تو تھا نہیں۔ پرانے شہر میں تھوڑا بہت ضرور تھا، لیکن کوئی شدت نہیں تھی۔ ہمارے یہاں مسلم خواتین آتی تھیں تو برقع لگا کر نہیں آتی تھیں اور نہ ہی یہ کہ ہمارے گھر کے مرد ہٹ جائیں وغیرہ۔ ہمارا گھریلو ماحول ٹریڈیشنل نہیں تھا، آزادانہ تھا۔ اسکول فراک پہن کر جاتے تھے۔ سائیکل چلاتے تھے۔ لڑکے لڑکیاں ساتھ بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ پڑھائی لکھائی پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، ہاں مشورے دیتے تھے۔ جیسے میں نے پاپا سے کہا کہ میں لا کی پڑھائی کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چھوڑو کیا کرو گی لا کر کے۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے لا کرنے سے اس لیے روک رہے ہیں کہ کہیں میں آپ سے مسابقت نہ کرنے لگوں۔ اس طرح کا ہنسی مذاق ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے رائے دی کہ سیاسیات، تاریخ وغیرہ سے جو کرنا چاہو اپنا لو۔

ملّا صاحب کو کھیلوں کا بہت شوق تھا۔ یہی شوق انہوں نے ہمارے اندر بھی پیدا کیا۔ تاش کے ماہر تھے۔ وہ ٹینس اور کرکٹ بھی کھیلتے تھے۔ کرکٹ کی کمنٹری سننے کا شوق تھا۔ اس وقت ٹی وی تو تھا نہیں۔ ابھی میں نے ٹرانزسٹر آن ہی کیا کہ وہ فوراً لپک کر اپنی طرف لے جاتے۔ میں ڈھونڈتی رہتی تھی کہ کہاں چلا گیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دونوں کے الگ الگ ٹرانسرسٹر ہونے چاہیے۔ صبح اخبار آتا تھا تو ہم دونوں لینے کے لئے بھاگتے تھے۔ اس وقت لکھنؤ میں پائینیر آتا تھا، بعد میں نیشنل ہیرالڈ بھی آنے لگا تھا۔ شام میں ملّا صاحب کورٹ سے سیدھے کافی ہاؤس جاتے تھے اور سبھی احباب وہاں جمع ہوتے تھے۔ جب جج بن گئے تو وہاں جانا بند ہو گیا۔ لیکن جس دن وہ جج شپ سے ریٹائر ہوئے، اس دن سب سے پہلے کافی ہاؤس ہی گئے۔

مجھے گاڑی چلانا سیکھنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری گاڑی مت لے جانا۔ میرے پاس ایک ہی گاڑی ہے اور تم نقصان کر دو گی۔ اوروں کی گاڑی سے سیکھو‘‘۔ ہمارے پاس اس وقت او پیل یا کوئی چھوٹی گاڑی تھی، جب کہ کالج میں میرے کافی دوست تھے جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں تھیں۔ میں نے ان کی گاڑیوں پر مشق کی۔ ایک دن والد صاحب نے کہا کہ اب تک تو تم نے سیکھ ہی لیا ہو گا گاڑی چلانا۔ میں نے کہا ’’ہاں ‘‘۔ تو کہا کہ چلو آج تم گاڑی چلاؤ۔ میں نے کہا ’’پاپا، اتنی بڑی بڑی گاڑیاں چلانے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ میں یہ چھوٹی گاڑی چلاؤں گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ چلانی تو تم کو یہی چھوٹی ہی گاڑی ہے۔

ملّا صاحب زندگی بھر پورے یقین و ایمان کے ساتھ اردو کو فروغ دینے میں لگے رہے۔ ان کو لگتا تھا کہ ہماری تاریخ، ثقافت اور ادب سب اردو میں ہے، اس لئے اس کے بقا و تحفظ کی کوشش کی جانی چاہیے اور وہ کرتے بھی رہے۔ ہاں، ملّا صاحب اپنی خارجی پریشانیاں گھر میں زیادہ شیئر نہیں کرتے تھے۔ عصری مسائل یا ملکی حالات کا بھی تذکرہ نہیں کرتے تھے، شاعری ضرور اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

ملّا صاحب نے تعلیم کے بعد وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ ان کے والد بھی جانے مانے وکیل تھے۔ ان کی پریکٹس کے دوران ہی ان کو پاکستان بھیجا گیا۔ تقسیم کے بعد فنڈ کی تقسیم وغیرہ کے مرحلہ میں پنشن کے بھی معاملات تھے۔ وہ وہاں پنشن اپیل ٹریبونل کے چیرمین بنا کر بھیجے گئے۔ وہ بار بار لاہور جاتے تھے۔ پہلی بار تو ان کے مطابق بڑا زوردار استقبال ہوا، مگر دوسری بار گرم جوشی ذرا کم تھی اور آخری بار تو وہ بتار ہے تھے کہ وہ سچ مچ گھر میں قید جیسے ہو کر رہ گئے تھے۔ دودھ والے تک کی تلاشی ہوتی تھی۔ وہ اس اسائنمنٹ سے واپس آ کر خوش تھے اور انہوں نے دوبارہ پریکٹس شروع کر دی تھی۔

جب۱۹۵۴ ہائی کورٹ جج بنے تھے تو لکھنؤ بنچ کے ہی جج تھے۔ جسٹس مبشر حسین قدوائی ان کی بنچ کے ساتھی تھے۔ لکھنؤ سے ایک بار الہٰ آباد جانا ضروری ہوتا تھا، تب انہیں وہ بھی کافی کھلتا تھا کہ لکھنؤ چھوڑ کر الٰہ آباد جاؤں گا جب کہ ایک چچا وہیں تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد چونکہ سابق جج ہونے کی وجہ سے یوپی میں پریکٹس نہیں کر سکتے تھے، پھر بھی دہلی آنے جانے کو لے کر کافی پس و پیش میں رہتے تھے۔ دہلی جانا ان کو inconvenient لگتا۔ ۱۹۶۷ میں ان کو persuade کیا گیا کہ لکھنؤ سے ایم پی کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ اس وقت کانگریس میں سنڈیکیٹ وغیرہ کا معاملہ تھا اور وہ خوش نہیں تھے کانگریس کے اندر موجود اس گروپ سے۔ اس لئے وہ کانگریس کے ٹکٹ پر نہیں لڑنا چاہتے تھے، مگر آزاد امیدوار کی شکل میں لڑنے میں بھی ان کوسوچنا پڑ رہا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ’’ آزاد بھلا میں کیسے الیکشن لڑ سکتا ہوں اور میرے پاس فنڈ بھی نہیں ہے ‘‘۔ اصل میں ان کے خلاف جو متوقع امیدوار تھے بی آر موہن، وہ بہت پیسہ والے تھے، ان کا الکحل وغیرہ کا بزنس تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے چندہ دیا۔ انہوں میری والدہ سے اور مجھ سے کہا کہ میں بیس ہزار روپئے سے زیادہ خرچ نہیں کروں گا۔ ہم تو اس کے بھی خلاف تھے۔ میں نے کہا ’’پاپا، کون سا ہمارے پاس پیسہ بھرا ہوا ہے، یہ پیسوں کا ضیاع ہو گا۔ ‘‘لیکن لکھنؤ والوں نے حوصلہ دکھایا، چندہ دیا اور بالآخر وہ آزاد ایم پی منتخب ہو کر دہلی تشریف لے آئے۔ ان کا دہلی آنے کاattractionیہ تھا کہ وہ یہاں اپنی وکالت کی پریکٹس جما سکتے ہیں۔ تب سیاست ان کو پسند نہیں تھی، مگر دہلی آنے کے بعد دھیرے دھیرے سیاست میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ پہلے وہ سیاست سے دور ہی رہنا چاہتے تھے، وہ تو لکھنؤ کے احباب اور ان کے چاہنے والے تھے جنہوں نے ان کو آمادہ کیا کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ ایک ایماندار آدمی ہیں۔ ان کے جیتنے سے حلقہ کا بھلا ہو گا۔ چنانچہ پہلے لوک سبھا کے لئے منتخب ہو کر آئے تھے۔ بعد میں وہ ایک ٹرم راجیہ سبھا کے بھی ممبر رہے۔

پہلی بار جب بنگلہ دیش جنگ کے بعد لوک سبھا dissolve ہوئی اور لکھنؤ سے محترمہ شیلا کول منتخب ہو کر آ گئیں تو میرے والد اس وقت فیروز شاہ روڈ پر ایم پی کوارٹر زمیں رہ رہے تھے۔ میرے والد نے کہا کہ ہمیں جلدی سے جلدی سرکاری گھر خالی دینا چاہیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں، مسز اندرا گاندھی جلد اقتدار میں آ جائیں گی اور آپ کو کوئی عہدہ مل جائے گا۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے خالی کرنا ہی ہے۔ چنانچہ ہم نظام الدین ایسٹ میں ایک کرایہ کے گھر میں آ گئے، جہاں ہم دوسال آٹھ مہینہ تک رہے۔ اس پوری مدت کے دوران دہلی میں رہتے ہوئے انہوں نے پریکٹس جاری رکھی۔ پھر محترمہ گاندھی اقتدار میں آئیں اور انہوں نے ان کو راجیہ سبھا کی ممبرشپ آفر کی۔ اس طرح وہ راجیہ سبھاپہونچے۔ راجیہ سے پہلے محترمہ گاندھی نے انہیں اٹارنی جنرل شپ کے لئے آفر کیا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے ان کار کر دیا کہ میری لائن criminal Law کی ہے، constitutional law میں اتنا کچھ میں نے کیا نہیں ہے۔ ان سے بہت اصرار کیا گیا مگر وہ اس عہدہ کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ راجیہ سبھا کے بعد کوئی نہ کوئی سرکاری عہدہ اور ذمہ داری ان کو ملتی رہی۔ بلونت رائے مہتہ لین میں سرکاری گھر میں رہتے تھے اور اسی گھر میں 12جون 1997 کو ان کی وفات ہوئی۔

مّلا صاحب اپنا گھر خریدنے کے قائل نہیں تھے۔ دہلی میں جب بھی کوئی ان کو نئی ڈیولپ ہو رہی سوسائٹیز کے بارے میں بتاتا یا کوئی آفر آتا تو وہ کہتے کہ اسی سرکاری کوارٹر سے ہم اب دنیا سے جائیں گے۔ حکومت بھی مہربان تھی، کوئی نہ کوئی ایسا عہدہ انہیں ملتا رہتا جس سے اس گھر پر ہمارا حق برقرار رہتا۔ میں کہتی ’’پاپا، ایک دن تو آئے گا جب حکومت کچھ دے گی نہیں اور ہمیں نکال باہر کرے گی۔ میں نے ایک دو بیڈ روم فلیٹ دیکھا ہے گڑ گاؤں میں، مگر وہ نا کافی ہے۔ اس کے ساتھ ملحق آپ بھی ایک لے لیں ‘‘۔ انہوں نے بہت سوچا، بہت سوچا کہ اسی سے زیادہ عمر ہو گئی، اب کتنے دن جیوں گا۔ اوپر سے گھر سے جڑا وہم ان کے دماغ میں۔ پھر کہا ’’ کیوں ضد کر رہی ہو، تین بیڈ روم کا لے لو‘‘۔ مگر میں نے ہار نہیں مانی اور بالآخر انہوں نے اسی فلیٹ سے ملحق ایک دو بیڈروم کا فلیٹ بک کرا لیا، جو آج کل ہماری رہائش ہے۔ مگر میرے شوہر کے بارہا اصرار کے باوجود وہ اس فلیٹ کی تعمیر کے دوران اور بعد میں بھی کبھی یہاں نہیں آئے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ توہم تھی جو مّلا خاندان میں برسوں سے چلی آ رہی تھی کہ جو بھی اپنی پراپرٹی بنائے گا، وہ مر جائے گا۔ اسی وجہ سے ملّا خاندان ہمیشہ کرایہ کے مکان میں رہا۔ الہٰ آبا دہو یا لکھنؤ، برسوں تک اس خاندان کے پاس ذاتی پراپرٹی کے نام پر کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن ہوا ویسا ہی کچھ جس کا مجھے خدشہ تھا۔ پا پا کی وفات کے بعد میں نے خود ان کی پنشن وغیرہ بند کرانے کے لیے حکومت سے ربط کیا۔ مگر میرے رابطہ کرتے ہی وہ پیچھے پڑ گئے۔ ہر ہفتہ نوٹس بھیجتے کہ گھر خالی کرنا ہے، جب کہ ہمارے پاس تین ماہ تک مہلت تھی۔ خیر میں نے وقت معینہ سے پہلے گھر خالی کر دیا تھا اور اس وقت سے آج تک ہم اسی اپنے بنائے ہوئے فلیٹ میں رہ رہے ہیں۔

میری والدہ نے ان کی وفات سے ڈھیرسال پہلے دنیا چھوڑی۔ اصلاً میری والدہ کی وفات کے بعد سے ہی اچانک ان کی صحت گرتی گئی، وگرنہ وہ بالکل فٹ تھے اور اپنی پریکٹس، سیاست اور سماجی و ادبی خدمات اور دیگر مشاغل میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب میں پریکٹس نہیں کر سکتا، اب میرا دماغ کام نہیں کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ پاپا، آپ جتنا کر سکتے ہوں اتنا ہی کریں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کلائنٹ کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا کیونکہ میں کام کا پورا حق نہیں ادا سکتا۔ اصل میں والدہ سے ان کی زبردست bonding تھی۔ سوچ کے دیکھیں تو اس زمانہ کے حساب سے ان کی لو میرج تھی۔ میری والدہ انپورنا تنخا بالامؤ اسٹیٹ(قرب اناؤ) کے راجا برج نارائن تنخا کی بیٹی تھیں۔ تنخا صاحب ہمارے دادا دوست تھے۔

ملّا صاحب کچھ لکھتے نہیں تھے۔ سب کچھ ان کے دماغ میں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ کورٹ میں کراس ایگزامنیشن کے لئے بھی سارے پوائنٹس ان کے دماغ میں ہوتے تھے۔ وہ تو جب ہائی کورٹ ججی سے ریٹائر ہو کر سپریم کورٹ میں پریکٹس شروع کی اور جونیئرس کہتے تھے کہ کراس ایگزامنیشن سے پہلے کچھ تو پوائنٹس بنا لیں، کم از کم ہمیں سمجھا دیں کہ آپ کے دماغ میں کیا ہے، تب جا کر انہوں نے اپنے بریفس لکھنے شروع کیے۔ جس وقت ان کی پہلی کتاب ترتیب دی جا رہی تھی، اس وقت لکھنؤ میں آل احمد سرور صاحب جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیوسٹی میں پروفیسر بنے وہی گھر پر آتے تھے۔ والد صاحب بولتے تھے اور وہ لکھتے رہتے تھے۔

ملّا صاحب کی مصروفیات کو الگ کر دیں تو وہ فیملی کے لئے بے حد اچھے انسان تھے۔ وہ میری بیٹی نندنی سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب وہ چھوٹی تھی تب بھی اس کے لئے الگ سے وقت نکالا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے دنوں میں پاپا کو باغبانی کا بہت شوق پیدا ہو گیا تھا۔ وہ نندنی کو لے کر گھر کے لان میں گھوما کرتے تھے اور جتنے پھول وہاں تھے ان کے نام نانا نے اسے بتائے ہوئے تھے۔

(درج بالا تحریر پنڈت آنند نرائن ملّا کی اکلوتی صاحبزادی چترا کول ملّا سے گفتگو پر مبنی ہے )

٭٭٭

 

 

 

آنند نرائن ملّا

 

                ……… صالحہ عابد حسین

 

جناب آنند نرائن ملّاؔ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اگرچہ وہ پروپگنڈا کرنے والے اور خود اپنے کو منوانے کی جد و جہد کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں مگر اس کے باوجود ان کی زندگی اور ان کے کارنامے، ان کے خیالات اور ان کی حق گوئی اور حق پرستی ایسی صفات ہیں جن کی جوت سورج کی روشنی کی طرح بادلوں میں سے بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔

وہ مشہور و معروف وکیل ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔ راجیہ سبھا کے ممبر رہے ہیں۔ مختلف ادبی انجمنوں کے ممبر، صدر نائب صدر وغیرہ رہ چکے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ شاعر ہیں اور ساٹھ سال سے زیادہ سے شعر کہہ رہے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام ہی نہیں ان کی زندگی کی تفسیر بھی ہے۔ ’’جوئے شیر‘‘ ادب اور ادب کی خدمت کے سلسلے میں وہ پہاڑوں، سنگ دل پہاڑوں کا جگر چیر کر اردو کی بقا کے لیے کوہ کنی کرتے رہے ہیں۔ جو متعدد ایوارڈ ان کی خدمات کے سلسلے میں پیش کیے گئے ہیں ان کا ذکر نہ کروں گی کہ بڑے آدمی بڑے ادیب و شاعر کا درجہ ایوارڈوں وغیرہ سے متعین نہیں ہوتا۔ ہاں ذرا سی روشنی اس پر پڑ جاتی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار اور ادب کے ٹھیکیداروں کی نظر کبھی کبھی ادب کے سچے خادموں اور صاحبان علم پر بھی پڑ جاتی ہے۔ ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ ملّا صاحب کے تخلیقی کلام کا بڑا اہم اور غالباً (اب تک) آخری مجموعہ ہے۔ اس کے سرنامہ کا شعر اس کتاب، اس دل کی، اس جذبہ کی خود ایک تفسیر ہے ؎

خونِ شہید سے بھی ہے قیمت میں کچھ سوا

فنکار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

اس پر بعض کٹّر قسم کے لوگوں نے جو اعتراض کیے تھے وہ مجھے یاد ہیں۔ شاید اس لیے کہ عام طور پر لوگ ’شہید‘ کے ایک ہی معنی جانتے ہیں یعنی راہِ خدا میں ’’مر جانے یا مار دیے جانے والا مجاہد‘‘ لیکن ویسے شہید کے معنی بہت وسیع ہیں۔ حق کے لئے، حق کی خاطر، سچائی کے واسطے جد و جہد کرنے والا، حق کی آواز بلند کرنے والا اور سچائی کے راستے کے ہر دکھ ہر کٹھنائی کو خوشی سے جھیلنے والا بھی ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ سچائی کی گواہی دینے والا۔ اس لیے سچے فنکار، حق گو فنکار کی سیاہی کی وہ بوندیں جو حق کی خاطر ٹپکیں ان کا درجہ اگر ’’شہید‘‘ کے خون سے بڑھ کر نہیں تو برابر ضرور ہونا چاہیے۔

جناب آنند نرائن ملّا قانون کے ماہر، اس کے خادم اور مخدوم دونوں رہے ہیں۔ وہ واقعہ شاید بہت سے لوگوں کو اب یاد بھی نہ ہو اور نوجوان ذہنوں نے سُنا بھی نہ ہو کہ جب انھوں نے ہائی کورٹ کے جج ہوتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کی غلطیوں اور بدعنوانیوں کی نہ صرف نشاندہی کی تھی بلکہ سخت تنقید بھی کی۔ حق کی آواز، وہ بھی اتنی اونچی کرسی سے بلند کرنا اور اس کے نتائج سے بے نیاز ہو کر کرنا۔ اتنا کٹھن اور نادر کام ہے جسے ہزاروں لاکھوں میں سے آج کوئی ایک آدھ ہی کر سکتا ہے۔

لیکن یہاں نہ نہ ان کی قانونی اور انتظامی صلاحیتوں پر روشنی ڈالنے کی جرأت کر رہی ہوں اور نہ اس کا حق رکھتی ہوں۔ مجھے تو اپنے ان ملّا صاحب کا ذکر کرنا ہے جو میرے اور میرے شوہر اور بھائی کے عزیز محترم دوست اور بزرگ ہیں۔ اور ساتھ ہی سیاہی کی اس بوند کے خالق جس کا درجہ شہیدوں کے خون کی بوندوں سے جا ملتا ہے۔ یہ کتاب انھوں نے کئی سال گزرے اپنے ہاتھ سے یہ عبارت لکھ کر مجھے عنایت کی تھی:

محترم بیگم صالحہ عابد حسین کی خدمت ہیں۔ ہدیہ ناچیز بہ صد خلوص و عقیدت

آنند نرائن ملّا، ۲۷، اگست ۷۳

یہ عبارت لکھنؤ اور دلی کی تہذیب کے امین کی سیرت کا خود ایک نمونہ ہے۔ ان کی محبت اور عقیدت کی جڑیں میرے دل میں اس لیے اور زیادہ گہری ہیں کہ وہ میری پیاری زبان اردو کے عاشق ہیں، خادم ہیں۔ وہ ان اردو کے پرستاروں، نام لیواؤں، اردو کے نام پر بہت کچھ کرنے کرانے کا دعوا کرنے والوں اور اردو کے سچے خادموں اور بے غرض خاموش کام کرنے والوں میں بھی ان کے درجے کا اردو کا خادم اور عاشق کم ملے گا۔ موجودہ صاحبانِ علم و ادب بھی جانتے ہیں کہ ملّا صاحب پچاس سال سے زیادہ سے نہ صرف سیاہی کی بوندوں سے اردو ادب کو مالا مال کر رہے ہیں بلکہ اردو کی حمایت، اردو کی ترقی، اس کی بقا کے لیے جد و جہد کرتے رہے ہیں۔ وہ اردو کو ماں کی طرح مقدس جانتے ہیں اگر کوئی کسی سے اس کی ماں کو چھین لینا چاہے یا اس کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کرے تو کون بیٹا یا بیٹی یہ ظلم برداشت کر سکتا ہے ؟۴۷ء سے لے کر آج تک۔ ملا صاحب اور ان جیسے چند اردو کے عاشق اور خادم (جن میں یہ خاکسار اپنا بھی شمار کرتی ہے )اور ہزاروں اور لوگ اس جد و جہد میں لگے ہیں ہماری ماں کی طرح مقدس زبان باقی رہے، زندہ رہے، اس کے رخ روشن پر کوئی دھبا نہ لگے۔ وہ اپنی شان، آن، تقدس، حسن اور پائیداری کے ساتھ اپنے بچوں کے منہ میں قلم میں، دل میں زندہ رہے۔ وہ اسی طرح زندہ رہے جس طرح آج تک زندہ رہی ہے۔ یہی تو وہ زبان ہے جس کے لیے مولوی عبد الحق مرحوم نے آنجہانی گاندھی جی سے کہا تھا کہ ’’اگر اس بدقسمت ملک کی کوئی زبان ہو سکتی ہے تو وہ مناجات بیوہ کی زبان ہو گی‘‘۔ حالیؔ کی مناجات بیوہ جس کا ایک ایک شعر کیا اپنے نفس مضمون کی حیثیت سے اور کیا زبان کی حیثیت سے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور آسان، سلیس، رواں مدھر، دلفریب دلکش اردو کا وہ نمونہ جس کے لیے خود گاندھی جی کا یہ خیال تھا کہ ’’ہندوستانی‘‘ زبان اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں ہندوستان کی قومی زبان ہونی چاہیے اور کون جانے کہ گاندھی جی زندہ رہتے تو ان کا اور لاکھوں کروڑوں اور لوگوں کا یہ خواب پورا ہو جاتا؟

خیر جو ہونا تھا وہ ہوا۔ ہندی ہماری سرکاری زبان بن گئی جسے اردو والوں نے کھلے دل سے قبول کیا اس لیے کہ آئین نے باقی کی ۱۴ زبان کو بھی ہندوستان کی زبانیں تسلیم کر کے ان کا جائز حق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اردو کو آئین ہند نے پورے حقوق دیے۔ اس کے تحفظ کی گارنٹی دی، خود جواہر لال نہرو نے کہا میری زبان اردو ہے۔ خود اندراجی نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ اور اس مگر تفصیل میں کیسے جاؤں کی یہ خود ایک پوری کتاب بن جائے گی!

اردو کے تحفظ کی گارنٹی (اس کے رسم الخط کے ساتھ) کانسٹی ٹیوشن میں دی گئی۔ لیکن اردو کے ساتھ تب سے اب تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر چہ گذشتہ چند سالوں میں بہت کچھ فرق آیا ہے مگر بس اتنا جسے منھ بھرائی کہا جا سکتا ہے۔ سب سے زیادہ زیادتی اور نا انصافی اردو کے ساتھ ملّا صاحب کے وطن میں ہوئی اور ہو رہی ہے (جس کا واضح ثبوت حال کے سدیوجی کی تقریر سے مل گیا ہے ) گویا اردو کو خیرات میں کچھ ادارے، کچھ اکیڈمیاں، کچھ انعام، کچھ ایوارڈ دے دیے جاتے ہیں۔ مگر پھر اس کے بعد کسی اردو والے کو بولنے اور اپنا حق مانگنے کا حوصلہ بھی کرنا چاہیے۔ مگر یہ لوگ نہیں جانتے کہ اردو وہ زبان ہے جو سات سو سال سے زیادہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کے دل، دماغ اور ذہن میں جس کی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی ہیں ان کو اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ جو صرف ہند ہی میں نہیں ہندوستان سے باہر بھی بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے پھل پھول رہی ہے۔ اردو ہندوستان میں۔ اپنی ساری کوششوں کے باوجود اردو کے مخالف انشاء اللہ اسے ختم نہیں کر سکتے۔ ختم کیسے کریں گے۔ جس دیس میں ملّا صاحب جیسے عاشقِ اردو موجود ہوں اور وہاں اردو کو کون مٹا سکتا ہے۔ اگر چہ گذشتہ سالوں میں بہت سے ایسے وقت آئے جب اردو کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا محسوس ہوتا تھا مگر اردو کے سچے پریمی اور اس کے مزاج سے واقف لوگ مایوس نہیں ہوئے اور اپنے اپنے انداز میں اس کی زندگی کی آبیاری کرتے رہے۔ اور ساری مخالفتوں، دشمنیوں، نا انصافیوں کے باوجود خود ہندوستان میں اردو بڑھ رہی ہے، پھل پھول رہی ہے۔ پھیل رہی ہے۔ اپنے رسم الخط کے ساتھ۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اردو کے مخالفوں کو تو خاص طور پر اور بعض ہمدردوں اور خیر خواہوں تک کو اردو کے رسم الخط سے کیوں چڑ ہے ؟ اردو کا رسم الخط ہندی جیسا ہو جائے تو اردو باقی رہ سکتی ہے ‘‘۔ جی ہاں کسی کی چمڑی ادھیڑ ڈالی جائے تو۔ تو اندر سے تو سب ایک ہی سے ڈھانچے نکل آتے ہیں۔ رسم الخط تو کسی زبان کی کھال ہوتا ہے ! اردو کی کھال سے ان کو کیوں بیر ہے ؟ اتنا مختصر، اتنا خوبصورت، اتنا دلکش رسم الخط کسی اور زبان میں ملے گا کیا؟ ان میں بھی نہیں جس زبان سے اسے لیا گیا ہے کہ ان میں وہ سڈول پن، وہ نزاکت، وہ حسن نہیں جو اردو کے نستعلیق خط میں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان کی شیرینی، حسن، دلربائی اور اثر پذیری سے تو ان کار کیا نہیں جا سکتا ہے۔ کیسے کریں کروڑوں لوگ فلموں میں اسی زبانوں کو سنتے اور سردھنتے ہیں، جب ہزاروں، لاکھوں مشاعروں میں اس کے شعر غزل اور نظم سن کر وجد میں آ جاتے ہیں جب ہزار سننے والے موسیقی کے ماہروں سے اس کے شعر سنتے اور جھومتے ہیں۔ اس کی مقبولیت میں فرق نہیں آ سکتا۔ ہاں اگر اس کا رسم الخط بدل دیا جائے تو اس کے ماضی کے بے بہا سرمایہ کو ختم کر دیا جا سکتا ہے اور بچوں کو اردو نہ پڑھائی جائے تو مستقبل میں اس کے ختم کرنے کے امکان ہو سکتے ہیں اور اس کی لیپی بدلنے کے ساتھ قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ بڑی سوچی سمجھی گہری سازش ہے مگر اردو باقی رہے گی۔ اور ضرور رہے گی۔ تو اپنے رسم الخط کے ساتھ رہے گی اور اردو کے پریمی اس کے لیے جان لڑا دیں گے کہ اس کے بغیر ہماری لاکھوں کتابوں کا سرمایہ بے معنی ہو جائے گا۔ ہماری شناخت ختم ہو جائے گی۔ ایک طرف نیچے سے اس کی جڑ کاٹی جا رہی ہے کہ بچے اردو نہ پڑھ سکیں دوسری طرف اوپر سے درخت بھی کاٹ دیا جائے۔ وہ شاخ ہی نہ رہے جس پر آشیانہ تھا!

کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ کورٹ کی یعنی قانونی زبان نہیں بن سکتی ہے۔ یہاں ملّا صاحب جیسے صاحبان علم عارفانِ قانون موجود ہیں۔ خدا را بتائیے کہ اردو کب سرکاری زبان تھی، فارسی تھی، انگریزی تھی اب ہندی ہے۔

اردو تو اپنے بل بوتے پر پلی اور بڑھی اور نشو و نما پائی۔ وہ کروڑوں دلوں کی رانی بنی، دل کی دھڑکن بنی، محبت و پیار کی زبان، تصوف کی زبان، بھگتی کی زبان، عشقِ حقیقی اور معرفت کی زبان اور عشق مجازی و پریم و پیار کی زبان۔ اسے انگریز تک نظر انداز نہ کر سکے۔ اگرچہ (الّا ماشاء اللہ) کسی نے سیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ جس نے مغل دور میں لاکھوں کاروباری لوگوں کی مشکلوں کو حل کیا۔ جو کسی ایک صوبے یا ریاست یا علاقے کی ہو کر نہ رہی بلکہ تقریباً سارے ہندوستان کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اب بھی شمال میں مخالفت کے باوجود زندہ ہے اور جنوب میں اور زیادہ فروغ پا رہی ہے۔ یہی نہیں وہ یوروپ اور امریکہ کے ملکوں میں جہاں جہاں اس کے پریمی موجود ہیں قدم جما رہی ہے۔ پاکستان میں سرکاری زبان ہے۔ اگرچہ حق بات یہ ہے کہ صرف چند لاکھ مہاجرین کے علاوہ وہاں کے مقامی لوگ اپنے اپنے صوبے کی زبان کے پریمی اور اسے ملک میں رائج کرنے کے حامی ہیں اور وہ حق پر ہیں کہ سبھی کو اپنی زبان سے محبت رکھنے اور فروغ دینے کا حق ہونا چاہیے۔

میرا دل کہتا ہے کہ ہندوستان میں ساری مخالفتوں کے باوجود اردو ضرور رہے گی۔ آپ مجھے جذباتی کہہ سکتے ہیں۔ شاید ناقص العقل بھی سمجھ لیں مگر مجھے یقین ہے کہ اردو باقی رہے گی اور اپنے رسم الخط کے ساتھ رہے گی۔ وہ مسلمان کی، ہندو کی، سکھ کی، عیسائی کی، غریب اور پچھڑے طبقے کی عورت اور مرد کی، بچے کی سب کی زبان بن کر زندہ رہے گی۔ ہاں اردو والوں کو حوصلہ اور ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور صحیح رُخ پر اس کو زندہ رکھنے کی جد و جہد کرنی ہو گی۔

جس زبان کے عاشق آنند نرائن ملّا ہیں۔ جو مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر زبان نہیں۔ وہ زبان کیسے مرے گی، آپ سرشارؔ کو چھوڑ دیں گے ؟ نولؔ کشور کو بھول جائیں گے ؟ پریمؔ چند کو دل سے نکال پھینکیں گے ؟ کرشنؔ چندر، راجندرؔ سنگھ بیدی کے افسانوں سے منہ موڑ لیں گئے۔ فراقؔ کے شعر آپ کے دل کے تاروں کو نہ چھیڑیں گے ؟ جن کے دل میں یہ اندیشہ ہے (یا خوشی؟؟) کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے وہ اسے دل سے نکال دیں۔ (اگرچہ یہ بات بھی کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر اردو صرف مسلمانوں ہی کی زبان ہوتی تو آپ ان کروڑوں کا حق کیسے مار لیتے ) لیکن نہیں۔ اردو ان سے بہت زیادہ لوگوں کی زبان ہے۔ وہ اتحاد و اتفاق کی زبان ہے۔ قومی یک جہتی کا نشان ہے۔ وہ جوڑنے والی ہے توڑنے والی نہیں۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، نشو و نما پائی، پروان چڑھی، جوانی کا روپ دھارا، بڑھاپے کا شعور اور پاکیزگی آئی۔ سچ پوچھیے تو آج بھی اس میں بچین کا بھولا پن بھی ہے اور جوانی کا نکھار بھی اور بڑھاپے کا تقدس بھی اسی امتزاج کی زبان اردو ہے۔ اس لیے اپنے کیا غیر بھی جو اس کے رسم الخط سے واقف نہیں۔ اس کے شعروں سے لطف اندوز ہوتے اس کے گیتوں پر سردھنتے، اس کی فلموں پر جان دیتے اور اس کے انقلابی نعروں کو بلند کرتے ہیں۔ تھوڑے سے صاحبان غرض اور متعصب لوگوں کی باتوں پر نہ جائیے۔ اردو کو سب چاہتے ہیں اور چاہتے رہیں گے۔ اس کی محبوبیت ہی اس کے مخالفین کو ڈراتی رہتی ہے۔ آج سے بہت پہلے ملّا صاحب نے کہا تھا۔ طنزیہ انداز میں :

لب مادر میں ملّا لوریاں جس نے سنائی تھیں

ہوا ہے حکم اب اس کو بھی غیروں کی زبان سمجھو

 

اردو کا ذکر کرتے کرتے میں ذرا دور تک نکل آئی۔ یہاں تو مجھے اپنے محترم بزرگ آنند نرائن ملّا کی شخصیت اور شاعری پر کچھ کہنا چاہیے مگر اس پر بولنے والے اور کئی صاحبان علم و ادب موجود ہیں ملّا صاحب کی پر وقار اور دل نشین شخصیت اس وقت بھی آپ کے سامنے ہے۔ ایک واقعہ پہلے بیان کر چکی ہوں جب کرسی عدالت پر بیٹھ کر آپ نے خود انتظامیہ پر سخت تنقید کی تھی اور دوسرا واقعہ جو میں نے اپنے عزیز بزرگ دوست بشیر حسین زیدی سے سُنا ہے وہ یہ ہے کہ جب تقسیم کے بعد ملّا صاحب پاکستان گئے تو لوگ بھول گئے کہ یہ ’’دشمن‘‘ ملک کے باسی ہیں، بھول گئے کہ مسلمان نہیں ہندو ہیں، بھول گئے کہ ہمارے نہیں ’’غیر‘‘ ہیں۔ کیوں اس لیے کہ وہ اردو والے ہیں۔ اردو کے عاشق خادم، رہبر اور محسن، وہ محبت اور عقیدت اور اپنائیت کے پھول ان پر برساتے رہے۔ ان کے اعزاز میں جلسے، پارٹیاں، دعوتیں اور فنکشن ہوتے رہے۔ ان کو آدر اور عزت کے جام پلائے جاتے رہے۔ انسانیت کا، ادب کا رشتہ پیار و محبت کا رشتہ ہے۔ اُسے توڑنا آسان نہیں۔

اسی زمانے میں لاہور جاتے ہوئے ملّا صاحب نے جو نظم سوغات کہی تھی اس کے دو چار شعر سنا کر میں اپنی تقریر کو ختم کرتی ہوں۔ ملّا صاحب نے کہا تھا اور کس خلوص سے کہا تھا:

پھر اِک تجدید اُلفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں

میں کیا آیا ہوں اِک گزرا زمانہ لے کے آیا ہوں

بنامِ خطّۂ اقبالؔ، خاکِ میرؔ و غالبؔ سے

سلامِ شوق و نذرِ دوستانہ لے کے آیا ہوں

مری نذرِ محبت کو نہ ادنیٰ کہہ کے ٹھکراؤ

سمجھ لو اِک چراغِ آستانہ لے کے آیا ہوں

فقط تھوڑا سا زمزم اک کے بدلے میں مجھے دے دو

میں گنگا کے دہانے کا دہانہ لے کے آیا ہوں

 

ہمیں دلی مسرت ہے کہ ایسا انسان، ایسا شاعر، اردو کا ایسا عاشق، حق کا ایسا فدائی آج ہمارے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہم سب کی دلی دعا ہے کہ وہ صحت و سلامتی سے رہیں اور یونہی حق کی اور اردو کی حمایت کرتے رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے ملّا صاحب

 

                ……… سیّد امیر حسن عابدی

 

جن حضرات نے مرحوم ڈاکٹر راہی معصوم رضا کا ناول ’’آدھا گاؤں ‘‘ پڑھا ہو گا، انھیں اندازہ ہو گا کہ ہم لوگ ایک پچھڑے ہوئے دیہات میں مٹی کے تیل کی لالٹین میں پڑھا کرتے تھے۔ وہاں سے نکلے تو غازی پور جیسے پچھڑے شہر کو دیکھا جہاں چورا ہے پر پہلی مرتبہ پولیس نظر آئی، اسپتال، کو توالی، بازار بھی دکھائی دیا، جہاں گول گول رنگ برنگ کی انگریزی مٹھائی ملتی تھی۔ اس کے بعد ایک سال والد صاحب کے ساتھ کانپور رہ کر لکھنؤ آیا جو اس وقت نوابوں، تعلقہ داروں اور بڑے بڑے انگریزوں کا شہر تھا۔ لکھنؤ میں میرا ابتدائی زمانہ اور دیہات سے آئے ہوئے لکھنؤ جیسے شہر کی چکا چوندھ کرنے والی زندگی تھی۔

ہم لوگ عام طور سے چوک جاتے تھے، کبھی کبھی امین آباد جانے کا موقع ملتا تھا، جہاں کی دکانوں کو دیکھ کر تعجب ہوتا تھا، حضرت گنج تو شاذ و نادر ہی جانا ہوتا تھا جو پوری طرح ہمارے تصور سے باہر تھا۔

بہر حال جب کرسچین کالج کے پاس سے گزرتے تو سرخ اینٹوں کی ایک شاندار عمارت سے گزرتے جہاں پنڈت آنند نرائن ملّا صاحب کے والد پنڈت چکبست نرائن ملّا صاحب مرحوم رہا کرتے تھے، جو اپنے زمانے کے ایک زبردست وکیل تھے۔ مگر جب ملا صاحب سے قربت ہوئی اور پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ کرایہ کی کوٹھی تھی۔ باپ بیٹے دونوں خوشحال ہونے کے باوجود ہمیشہ کرایہ کے مکان میں رہے۔ اتفاق سے اسی کوٹھی کے آگے گولا گنج کے چورا ہے پر پہلی کوٹھی میں میرے ایک عزیز علی محمد صاحب ایڈوکیٹ رہا کرتے تھے جہاں کبھی کبھی جانا ہوتا تھا۔ اب وہ پوری سڑک چکبست نرائن روڈ کہلاتی ہے۔

غالباً ۱۹۳۷ء میں کمپنی باغ میں ایک نمائش ہوئی، جس میں ایک مشاعرہ بھی ہوا۔ شب میں اس کی صدارت نواب صاحب چھتاری نے کی، جو میرے والد کے بچپن کے دوستوں میں سے تھے۔ اس کے بعد باغپت کے نواب سر جمشید علی خاں صدر ہوئے جن کے تیسرے صاحبزادے کنور سجاد علی خاں صاحب میرے سینٹ جانسن کالج کے ساتھیوں میں سے تھے۔ بہر حال دن کی نشست میں اس مشاعرہ کی صدارت جگت نرائن ملّا صاحب نے کی جن کو میں نے پہلی اور آخری بار دیکھا تھا، جو معمر تھے، مگر اب تک مجھے ان کا دمکتا ہوا با رونق چہرہ یاد ہے۔

میرا بچپن اور ملّا صاحب کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ وہ وکیل بن چکے تھے اور ایک چھوٹی سی گاڑی میں کبھی کبھی دکھلائی دیتے تھے، جسے وہ خود چلاتے تھے۔ مگر مشاعروں میں شاذ و نادر ہی جانا ہوا، اس لیے لکھنؤ میں کسی محفل میں انھیں نہ دیکھ پایا۔

البتّہ جب اعظم گڑھ میں شبلی اکیڈمی کا جشنِ طلائی منایا گیا تو اس میں ڈاکٹر ذاکر حسین نائب صدر جمہوریۂ ہند، ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب، کرنل زیدی، ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبد الماجد دریابادی، بیگم صاحبہ بھوپال وغیرہ نے شرکت کی۔ اس میں مرحوم سید صباح الدین عبد الرحمن صاحب نے مجھے مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس شب میں ایک بہت بڑا مشاعرہ بھی ہوا۔ جس میں آنند نرائن ملّا صاحب نے صرف شعر ہی نہیں پڑھے بلکہ صدارت بھی کی۔ اس وقت ان کی شخصیت کا بھر پور مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ نیز بحیثیت جج کے ان کا آخری فیصلہ بھی ان کی انسانیت اور انسان دوستی کا پورا آئینہ دار ہے۔ ملّا صاحب کی وہ نظم ’’لے کے آیا ہوں ‘‘ بھی یادگار رہے گی جسے انھوں نے تقسیم ہند کے بعد لاہور جا کر پڑھا تھا۔

جب میں فخر الدین میموریل اردو کی کمیٹی کا صدر بنا تو میں نے یہ اسکیم شروع کی کہ ادبا کو احتراماً انعام سے نوازا جائے۔ نیز میٹنگ میں جب میں نے ملّا صاحب کا نام پیش کیا تو ایک صاحبہ نے اعتراض کیا کہ ملّا صاحب نے تو کاکوری کیس میں اپنے والد کے ساتھ گورنمنٹ کی طرف سے وکالت کی تھی۔ جب میں نے ملّا صاحب سے اصلیت پوچھی تو انھوں نے فرمایا کہ جب گورنمنٹ نے میرے والد کو وکیل بنایا تو انھوں نے شروع ہی میں بیس آدمیوں کو ملزموں کی فہرست سینکال دیا، جسے حکومت نے بہت برا مانا۔ بہر حال ان کے والد ایک تو بحیثیت وکیل کے تھے، دوسرے یہ کہ وہ غالباً لبرل پارٹی میں تھے جس میں لیڈر سر سی۔ وائی۔ چنتا منی اور سرتیج بہادر سپرو بھی تھے۔ نیز یہ حضرات غالباً چھ مہینے وزیر بھی رہے۔ ملّا صاحب اس وقت بحیثیت ایک جونیر وکیل کے اپنے والد صاحب کے ساتھ کام سیکھ رہے تھے۔ بعد میں ملّا صاحب خود کانگریس کے ٹکٹ پر ایم۔ پی بنے اور لکھنؤ سے الکشن لڑے۔ نیز ان کے ورکروں میں اس وقت عمار رضوی صاحب تھے، جو خود بعد میں وزیر بنے۔

جب شہنشاہ اکبر کے آخر زمانہ میں جہانگیر نے بغاوت کی اور الہٰ آباد کو اپنا مرکز بنایا، تو باپ نے بیٹے کو بلایا، جو ڈر رہا تھا کہ کہیں مروا نہ دیا جائے۔ اس وقت اس نے حافظ شیرازی کے دیوان سے فال نکالا اور یہ غزل نکلی:

چرانہ درپی عزم دیار خود باشم

چرانہ خاک سرکوں یار خود باشم

غم غریبی و غربت جو برنمی تابم

شہر خود روم و شہر یار خود باشم

اس فال کے بعد جہانگیر فوراً باپ کے پاس پہنچا اور کچھ ہی دنوں میں تخت و تاج کا مالک ہو گیا۔ جب میں انعام کے موقع پر ملّا صاحب کو لکھنؤ کے اسٹیشن پر لینے گیا تو موٹر میں میں نے حافظؔ کا یہ شعر سنایا، نیز مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ وہ شہر جو ان کا وطن تھا وہاں وہ واپس آ رہے تھے۔ یہ بھی میری سعادت تھی کہ میں ان کے ہمراہ تھا۔ میں نے انعام کی تقریب میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر عدالت کی ہتک حرمت نہ ہو تو میں کہوں گا کہ آج کے جج صاحبان ملّا صاحب کے سامنے طفلِ مکتب ہیں۔ اس موقع پر ملّا صاحب کی غزلیں گائی گئی تھیں خاص کر یہ غزل کہ ’’ لے کے آیا ہوں ‘‘۔

لکھنؤ ہماری گنگا جمنی مشترک تہذیب کا مکمل نمونہ رہا ہے اور ملّا صاحب جیسی شخصیتوں نے اسے جاندار اور مستحکم کر دیا ہے۔

آخر میں یہ بھی کہہ دوں کہ مضمون یادداشت سے لکھا گیا ہے، ممکن ہے کہ اس کے جزئیات میں مجھ سے بھول چوک ہوئی ہو۔

٭٭٭

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا:کچھ خیالات

 

                ……… کمال احمد صدیقی

 

پنڈت آنند نرائن ملّا بہ یک وقت میرے پیش رو بھی ہیں اور بزرگ ہمعصر بھی۔ میں ان کی شاعری کا ہم عمر ہوں۔ ملّا صاحب سے کئی رشتے ہیں۔ استاذی سراجؔ لکھنوی شاعری کی دنیا میں ملّا صاحب سے دس برس پہلے آئے، لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا، دونوں میں برابر کا برادرانہ رشتہ دیکھا۔ دونوں کی ذہنی قربت، بلکہ ذہنی یگانگت اس بات سے واضح ہے کہ سراجؔ چچا نے اپنے مجموعۂ کلام ’’شعلہ آواز‘‘ کا انتساب ’’جناب پنڈت آنند نرائن ملّا لکھنوی اور جناب سید صدیق حسن صاحب کے اسمائے گرامی سے کیا۔ ‘‘

ہر عہد کئی پیڑھیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ملّا صاحب کا سنہِ ولادت ۱۹۰۱ء ہے۔ گویا بیسویں صدی سے ان کی زندگی کا آغاز ہوا (اور توقع ہے کہ اردو شاعری کا جو کارواں اکیسویں صدی میں داخل ہو گا، اس کے ممتاز علم برداروں میں ملّا شامل ہوں گے )۔ وقت کے ساتھ ماحول، بود و باش، زندگی کے طریقے اور سماج کے ادارے بدلتے ہیں۔ سماجی عوامل بدلتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا اثر ہنر اور فنونِ لطیفہ پر بھی پڑتا ہے۔ ملّا صاحب کی شاعری میں بھی کچھ محسوس اور کچھ نہ محسوس طریقے سے نامیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اور انہی تبدیلیوں کی وجہ سے وہ کسی ایک رنگِ سخن میں جامد ہو کر نہیں رہے۔ زندگی اور زندگی کی تبدیلیوں سے ان کی شاعری اثر پذیر ہوتی رہی اور اسی وجہ سے وہ آج تک زائد المیعاد نہیں ہوئی۔ انسانی قدریں انھیں عزیز تھیں اور عزیز ہیں۔ انسانی قدریں ہر عہد میں پامال ہوئی ہیں۔ ان کی نوعیت بدلتی رہی ہے۔ سماجی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی اور اگر زیادہ توجہ سے دیکھا جائے تو انفرادی زندگی، سماجی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ ظلم اور جبر کی نوعیت بدلتی رہی ہے اور ظلم اور جبر کے خلاف ملّانے بھی اپنی زندگی کے ہر دور میں آواز اٹھائی ہے۔ ملک سے محبت، کوئی مجرد تصور نہیں ہے۔ ملک سے محبت کے معنی ہیں ملک میں رہنے والے عوام سے محبت۔ آزادی کے ہر اول دستے کے بعد اردو شاعری کا جو دستہ آیا، اس میں آنند نرائن ملّا ایک معتبر نام ہے، قومی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی۔ قومی سطح کے ساتھ ساتھ مقامی سطح کی بات کرنا، ملا کی اہمیت کو کم کرنا نہیں، بلکہ حقیقی تناظر میں پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دلّی کے دبستان شاعری اور لکھنو کے دبستان شاعری کو مطالعہ کی سہولت کے لیے الگ الگ خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے، لیکن واقعتاً یہ الگ الگ شقیں نہیں ہیں۔ خانِ آرزو دلی والے تھے، لیکن دلّی کے محاورے پر، محاورۂ گوالیار (ایک طرح سے کھڑی بولی پر برج بھاشا) کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ بھی لکھنؤ آ کے رہے۔ انشاؔ تو دبستان دلّی کے تھے، لیکن لکھنؤ میں ان کی شاعری پھولی پھلی۔ اسی لکھنؤ میں انھوں نے کہانی رانی کیتکی کی لکھی۔ سوداؔ اور میرؔ دونوں دبستان دلّی کے سربرآوردہ شاعر ہیں، لیکن کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان کے جیسے جلیل القدر شاعر لکھنو آبسے ہوں اور یہیں آسودہ خاک ہوئے ہوں، لیکن انھوں نے لکھنؤ کو متاثر نہیں کیا؟ میر ضاحک اور ان کے بیٹے میر حسن، دلی سے اودھ آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ رام پور، مرادآباد اور امروہہ دلّی کی نواحی بستیاں نہیں تھیں، پھر بھی میرٹھ کی طرح یہ مقامات دلی سے جڑے ہوئے تھے۔ مصحفیؔ امروہہ کے تھے یا دلّی کے آس پاس کے کسی علاقے کے، اس بحث کا یہ مقام نہیں ہے۔ البتہ مصحفیؔ نے لکھنو کی شاعری کو جو چار چاند لگائے اور جو تذکرے لکھے، انھیں لکھنو کی ادبی روایات سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ میرانیسؔ، اگرچہ فیض آباد میں پیدا ہوئے، لیکن تھے میر حسن کے پوتے، جنھوں نے ’’سحر البیان‘‘ جیسی مثنوی اردو کو دی۔ غالب ؔ کا قیام لکھنو میں سر سری رہا، وہ آگرہ میں پیدا ہوئے اور دبستان دلی کے عظیم شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر سوداؔ، مصحفیؔ اور ناسخؔ کے اثرات کچھ کم نہیں۔ اور میرؔ کے تو وہ مقلد ہونے کی حد تک قائل ہیں۔

اردو کی نصابی تنقید میں لکھنؤ کی شاعری، داخلیت کی کم خارجیت کی زیادہ ہے۔ کنگھی چوٹی کی شاعری ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جن شعرا کا ذکر کیا گیا ہے اور جن کی شاعری ادبِ عالیہ کا حصہ ہے، ان سے الگ بھی لکھنؤ نے شاعری کو نئے رجحانات دیے ہیں۔ اس صدی میں اقبالؔ اردو کے سب سے عظیم شاعر ہیں لیکن اقبالؔ کوئی الگ تھلگ Phenomenonنہیں۔ وہ ’’موج عصر‘‘ جو اقبالؔ کی فکر میں حب الوطنی، انسان دوستی اور انقلاب بنی، وہی موجِ عصر اکبرؔ الہٰ آبادی، حسرتؔ موہانی، چکبستؔ، جوشؔ، ملاؔ اور مجازؔ کی فکر کو بھی انگیز کرتی رہی۔ آنند نرائن ملّا نے لکھنو سے کنگھی چوٹی اور انگیا کی کٹوریوں کو نہیں چنا۔ دیا شنکر نسیمؔ، عبدلحلیم شر رؔ، چکبستؔ کی عظیم روایتیں بلکہ روایتیں ہی ان کی میراث تھیں۔ انھوں نے اپنی میراث خود چنی۔ غول کے غوغا نے کبھی کوئی دیر پا اثر نہیں چھوڑا۔ روایت سازوں میں علی حیدر نظم طباطبائی، عبد الحلیم شر رؔ بھی تھے۔ دلی میں اگر حالی ؔ نے نئی شعریات کی بنیاد رکھی تو لکھنو میں شر ر ؔ نے ’’دل گداز‘‘ کے صفحات ہیئت کے نئے تجربوں کے لیے وقف کیے۔ آنند نرائن ملّا کے ہم عصروں میں جوشؔ، صفیؔ لکھنوی، یاس یگانہ چنگیزی، سراج الحسن سراجؔ اور جعفر علی خاں اثر جیسی قدر آوار شخصیتیں بھی تھیں۔ آنند نرائن ملّا نئے لکھنو کے نمائندہ شاعروں میں سے ہیں، جنھوں نے ماضی کے خزانے کے انمول رتنوں کو تو اپنی میراث سمجھا، لیکن مرتی ہوئی نوابی کی مرتی ہوئی شاعری کو قابلِ تقلید نمونہ نہیں سمجھا۔

اس صارفی سماج میں، اطلاع کی جگہ اشتہار نے لے لی ہے۔ یہ پرانے زمانے کی بات ہے کہ مشک وہ ہے، جو خوشبو بتائے نہ عطار کہے۔ اردو کی ایک کہاوت ہے : چھوٹا منہ بڑی بات۔ اس کا استعمال دو موقعوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ جب کوئی چھوٹا، اپنے بزرگ کے بارے میں نازیبا بات کہے۔ اور ایک اور موقع پر، لیکن کم، اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی اپنے بارے میں تعلّی کرے۔ شاعری میں تعلّی کی اجازت ہے کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا کچھ مستحسن نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ لکھنو کی تہذیب ہے۔ اور آنند نرائن ملّا اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’جوئے شیر‘‘ ہے جو ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ عنوان بھی ان کو کھٹکا اور خود انھوں نے کہا:

’’اس مجموعے کا نام ’’جوئے شیر‘‘ رکھنے میں یقیناً شاعرانہ تعلّی سے کام لیا گیا ہے۔ کچھ اس میں دکانداروں کا وہ اصول بھی شامل ہے، جو اپنے مال کو دس گنے دام لگا کر گاہک کے سامنے پیش کرتا ہے۔ گاہک اور دکاندار کے درمیان قیمت کے بارے میں ایک طویل تبادلۂ خیالات ہونے کے بعد سودا طے ہو جاتا ہے۔ گاہک اپنے دل میں خوش ہوتا ہے کہ میں دکاندار کے بھرّے میں نہ آیا اور میں نے مناسب دام پر مال پایا۔ دکاندار ادھر مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے پھر بھی اچھا خاصا نفع حاصل کیا۔ میں نے بھی اپنے کھارے پانی کو جوئے شیر کہہ کر پیش کیا ہے ……‘‘

’’جوئے شیر‘‘ کی بات آ گئی ہے تو دو باتیں عرض کر دوں۔ جب کتاب شائع ہوئی، تو اس زمانے میں میں مکتبہ جامعہ سے وابستہ تھا۔ حامد علی خاں مرحوم مینیجنگ ڈائرکٹر تھے۔ پروفیسر مجیب اور پروفیسر عابد حسین ڈائرکٹر تھے۔ مکتبہ جامعہ نے پورا اڈیشن خرید لینے کا فیصلہ کیا اور مصنف سے معاہدہ پر دستخط کرانے کا کام میرے سپرد کیا گیا۔ چنان چہ میں لکھنو گیا۔ ملّا صاحب کی خدمت میں مجھے نیاز حاصل تھا، کیوں کہ وہ بھی کبھی کبھی کافی ہاؤس تشریف لاتے تھے اور ڈاکٹر علیم کی میز کے گرد بیٹھنے والوں میں شمولیت کرتے تھے۔ ترقی پسندی کی تحریک اس زمانے میں انتہا پسندی کے دور میں تھی اور دلّی کا جریدہ ’’شاہراہ‘‘ اس تحریک کا غیر سرکاری ترجمان تھا۔ احتجاجی نظمیں لکھنے کا کام میرے سپرد تھا، ساتھ ساتھ کتابوں پر تبصرے لکھنا بھی ’’جوئے شیر‘‘ پر تبصرہ میں نے کیا۔ ملّا صاحب کی انسان دوستی کا تو خیر مقدم کیا، لیکن یہ بھی لکھا کہ ایک سماج، جو طبقوں میں بٹا ہو، اس میں صرف انسان کی حمایت کافی نہیں ہے۔ تبصرہ میرے سامنے نہیں ہے۔ ۴۴، ۴۵ برس کی اپنی عبارت کا ورق حافظے میں پلٹنا ذرا مشکل نہیں، نا ممکن ہے۔ دھند لا سا تاثر ہے۔ بعد میں عبادت بریلوی نے بھی کچھ ایسی بات ملّا صاحب کی نظم ’’گمراہ مسافر‘‘ کے بارے میں ’’جدید شاعری میں لکھی۔ ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ میں ’’کچھ اپنے پڑھنے والوں سے ‘‘ سے باتیں کرتے ہوئے ملّا صاحب نے عبادت بریلوی کی نقل کی ہے :

’’ملّا صاحب کی اس نظم میں سماجی اور تاریخی شعور موجود ہے، لیکن دولت کی مساوی تقسیم سے انھوں نے جو شکوہ کیا ہے، وہاں کچھ جذباتیت آ گئی ہے اور یہ بات ملّا صاحب کی صرف اس نظم میں نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری میں اکثر جگہ یہ کیفیت ملتی ہے کہ وہ کسی مخصوص نظام کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ محبت کا پیام بھی دیتے ہیں، لیکن مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے …‘‘

ملّا صاحب نے خاصی تفصیل اور استدلال کے ساتھ اس کا جواب دیا ہے، جس کا لب لباب انہی کے الفاظ میں یہ ہے :

’’میرے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ انسانیت کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتا اور انسانیت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صرف اشتراکیت ہی ایک راستہ نہیں ہے۔ میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نظام، جس کی تبلغ تشدد اور نفرت سے کی جائے، وہ انسانیت کی راہ میں رہزن ہے، رہبر نہیں۔ اس نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ اشتراکیت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص واضح نقطۂ نظر نہیں رکھتا، کس قدر تنگ دلی اور کم نظری ظاہر کرتا ہے …‘‘

یہ موقع ملّا صاحب کے نظریات سے بحث کرنے کا نہیں، لیکن یہ عرض کیے بغیر آگے گزرنا ممکن نہیں کہ وہ نظام جس میں ذرائع پیداوار پر افراد کو مالکانہ حقوق حاصل ہوں اور انسانی محنت کے استحصال سے جو زائد قدر اور منافع پید اہوتا ہے، سماج میں سارا ظلم، جبر اور تشدد انہی کی وجہ سے ہے، چاہے تو واضح نظر آئے یا ڈھکا چھپا ہو۔

اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ملّا صاحب ایماندار اور انصاف پسند ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے پولیس کے سب سے بڑے منظم مجرم گروہ ہونے کے بارے میں جو Obiter Dictunدیا تھا، اس کی گونج مدتوں رہی۔ ملّا صاحب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایڈوکیٹ کی حیثیت سے بھی اور بنچ پر بھی وہ پولیس کے ان مظالم کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں۔ اگر چہ الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ان کے ایک Brother Judge نے ایک بیان میں اس سے اختلاف بھی کیا، لیکن ملا صاحب کے اس اندازِ بیان نے جو ایک حساس شاعر ہی دے سکتا تھا، پولیس کے ضابطوں میں تبدیلیوں کے لیے ماحول سازگار کیا۔ Custodial Rapesایک معمول تھا، جو قصبوں اور گاؤں کی کثرت والے ملک میں شاید آج بھی عام ہے۔ لیکن ایسے ضابطے بہر حال بنانا پڑے کہ رات کو کوئی خاتون تھانے یا چوکی پر نہیں رکھی جا سکتی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا ؍ ہے کہ پولیس چوکیاں Red Light Areasسے بڑے بدکاری کے اڈے ہیں۔

ملا صاحب نے جج کے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے ایک نظم کہی تھی، جو اس شعر پر ختم ہوتی ہے۔

مسند پہ پہنچ کے بھی رہا حامیِ جمہور

ملّا کا سا دیوانہ پھر آئے کہ نہ آئے

رندی، دیوانگی اور کسرِ نفسی ملّا صاحب کا مزاج نہیں، ان کی فطرتِ ثانیہ نہیں، فطرت ہے۔ ایک چھوٹا واقعہ ہے۔ تیس برس کشمیر میں رہا۔ دو تین چار سال بعد، جب لکھنو آنا ہوتا تھا، تو جن کی خدمت میں حاضری دیتا تھا، ان میں ملّا صاحب بھی تھے۔ گولا گنج میں جب وہ رہتے تھے، تب بھی اور جب بنچ پر تھے تو چائنا بازار کی کوٹھی پر بھی۔ لکھنؤ کے دوست ایک نشست رکھتے تھے، اکثر ذو النورین مرحوم کے یہاں، جہاں پر سب سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ سراجؔ صاحب، آنند نرائن ملّا صاحب، سید صدیق حسن صاحب، ایم۔ ظہیر صاحب وغیرہ۔ ایک بار سردیوں میں گیا تو میرے لکھنؤ میں حاضر ہونے کی خبر اخبار میں چھپی۔ شام کو استاذی سراجؔ صاحب کے بیٹے معراج (مرحوم) آئے اور ملّا صاحب کا پیغام لائے۔ کل چیف کورٹ میں مشاعرہ ہے۔ میں خود دعوت دینے آتا، لیکن سپریم کورٹ کے سربراہ، جسٹس بی۔ بی۔ سنہا آئے ہوئے ہیں۔ اور میں ان کے ساتھ مصروف ہوں۔ معراج میری نیابت کر رہے ہیں۔ ضرور تشریف لائیں۔ بڑی شرم آئی کہ ایک بزرگ نے ایسا دعوت نامہ لکھوایا، وہ تو مجھے حکم دے سکتے تھے۔ اگلے روز وقتِ مقر رہ پر حاضر ہوا۔ بیر سٹر اشتیاق عباسی نے سبزہ زار پر استقبال کیا اور ساتھ لے کر ہال تک آئے۔ مسٹر جسٹس سنہا صدر میں تشریف فرما تھے اور ملّا صاحب ان کے ساتھ تھے۔ مجھے دیکھا تو دروازے تک آئے اور اپنے ساتھ لے گئے اور مسٹر جسٹس سنہا سے ملاقات کرائی اور ساتھ بٹھایا۔ یہ خصوصیت سے میرے ساتھ ہی نہیں کیا، جو شاعر بھی آیا، اس کا استقبال اسی طرح ہوا۔ لیکن جب چیف منسٹر سمپور نانند آئے (جو اردو میں خفیہ طور پر شعر بھی کہتے تھے ) ان کے استقبال کے لیے ملّا صاحب نہیں اٹھے۔ مشاعرے کے بعد سبزہ زار پرایٹ ہوم تھا۔ ایٹ ہوم کے بعد ملّا صاحب نے نام بنام ہر شاعر کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں صرف اتنا کہا: ’’مجھے خوشی ہے کہ بابو سمپورنانند بھی تشریف لائے ‘‘۔

ملّا اور وی۔ کے۔ کرشنا ائیر جیسے اگر دس فیصدی جج بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں ہوتے تو ہندوستان کے وہ سارے قانون کا لعدم Ultravairesقرار دیے گئے ہوتے، جن کا نہ دکھائی دینے والا جبر اس ملک کے رہنے والوں کا مقدر بن گیا ہے۔ آریاؤں کے بر صغیر میں آنے سے قبل صرف موہنجوداڑو اور ہڑپا کی دراوڑی تہذیب ہی نہ تھی، بلکہ نگرائڈ، آسٹر لائڈ اور ہند چینی نسل کے اور لوگ بھی تھے۔ آج بھی ان کی اکثریت ہے۔ یہ آدی باسی کہلاتے ہیں، یہی ہریجن کہلاتے ہیں۔ ہمارے آئین میں مساوات کا جو تصور ہے، وہ خاص آئین میں کم اور Preambleمیں زیادہ ہے۔ اور شیڈول ذاتیں اور شیڈول قبائل بنیادی انسانی حقوق سے یکسر محروم ہیں۔ منڈل کمیشن کی سفارشوں پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ اس ملک کی اکثریت غریبی کی ریکھا سے نیچے، زندگی کے بنیادی حقوق کے بغیر، کیڑے مکوڑوں کی طرح رہ رہی ہے۔ یہ ظلم اب ڈھکا چھپا، غیر مرئی نہیں، بلکہ واضح ہے۔ اس کی نجات صرف سیاسی تحریکیں ہی دلا سکتی ہیں۔ شاعر ان تحریکوں کا سرگرم کارکن نہ بھی ہو، موردِ الزام نہیں۔ لیکن انسانی مساوات کے لیے اسے آواز تو اٹھانا ہی پڑے گی، احتجاج تو کرنا ہی پڑے گا۔ ملّا صاحب کے یہاں بھی مدھم لے اور مدھم سر میں سہی، یہ احتجاج ہے۔ ’’سماج کا شکار ایسی ہی نظم ہے (جا پوچھ سکھی، شور یہ کیسا ہے گلی میں !) ایک مزدور کا بیٹا، اس پونجی داری یا جاگیرداری سماج میں دھنوان کی بیٹی سے محبت کرنے کا حق نہیں رکھتا، چاہے دھنوان کی بیٹی بھی اس پر مائل ہو۔ اسی سماج کا شکار وہ کروڑوں لوگ بھی ہیں، جو پہلے اچھوت کہلاتے تھے، پھر گاندھی جی نے ان کی شناخت برقرار کھتے ہوئے انھیں ہریجن کہا اور اب شیڈول کاسٹ کہلاتے ہیں۔ ملّا صاحب دولت کی مساوی تقسیم کے بھی خلاف ہیں۔ گاندھی وادی نظریات سے جو ذہنی ہم آہنگی ہے، اس کی وجہ سے شاید وہ سرمایہ داروں کو دولت کا ٹرسٹی سمجھتے ہیں۔ دولت کی مساوی تقسیم کو ملّا صاحب ایک نقاب سمجھتے ہیں جس میں بہ قول ان کے مہیب اور خونی چہرہ پوشیدہ ہے (میری حدیثِ عمرِ گریزاں : کچھ اپنے پڑھنے والوں سے )۔

ملّا صاحب بہت نڈر انسان اور نڈر شاعر ہیں، بات چبا کر نہیں کرتے۔ روشنائی کی ایک بوند کو شہید کے خون سے اعلیٰ مقام دیتے ہیں۔ اس پر بہت سی بھنویں تنیں اور ان کی حب الوطنی بھی معرضِ خطر میں آئی۔ لیکن انھوں نے پروا نہیں کی۔ یہ خیال ایک حدیثِ قدسی میں بھی ہے اور ملّا صاحب علم و آگہی کے خزانے ٹٹولے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تحریک شعوری یا غیر شعوری طور پر انھیں وہیں سے ملی ہو۔

آزادی کا آغاز نہ صرف برصغیر میں خون کے دریا کے اضافے سے ہوا، بلکہ ان علاقوں میں جہاں بول چال کی زبانیں نہیں، زبان ہندی/اردو/ ہندوستانی تھی۔ حکومتوں نے اردو کے قتلِ عام کے منصوبے بنائے اور ان پر سختی سے عمل کیا گیا۔ یو۔ پی کے تین حضرات نے جو اعلیٰ پیمانے کے شاعر تھے، سخت احتجاج کیا۔ حسرتؔ موہانی، فراقؔ گورکھپوری اور پنڈت آنند نرائن ملّا۔ ’’جوئے شیر‘‘ کا انتساب ’’مٹتی ہوئی اردو‘‘ کے نام ہے، اس رباعی کے ساتھ۔

اک موت کا جشن بھی منا لیں، تو چلیں

پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں، تو چلیں

آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

اک آخری گیت اور گالیں، تو چلیں

اور فہرست سے پہلے ایک اور رباعی ہے، جو ضرب المثل کے درجے پر پہنچ گئی ہے : ’’آئندہ تاریخ کا ایک صفحہ‘‘:

یہ سانحہ سالِ چہل و نو میں ہوا

ہندی کی چھری تھی اور اردو کا گلا

اردو کے رفیقوں میں جو مقتول ہوئے

ملّا نامی ان میں شاعر بھی تھا

اسی موضوع سے متعلق ملّا صاحب کا ایک اور بیان ہے :

’’میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں، اپنی مادری زبان نہیں۔ ‘‘

یہ ٹھیک ہے کہ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست۔ لیکن اس کی عجیب عجیب سے تاویلیں کی گئی ہیں۔ انجمن تحفظِ اردو یا اسی قسم کی اور انجمنوں کے کم علمی احتجاجی نعرے لگانے والے اگر اس سے مطلب نکالتے کہ ملّا صاحب اپنا مذہب بدلنے پر آمادہ ہیں، مگر اردو کو نہیں چھوڑ سکتے، تو ایک قہقہہ یا تبسم زیرِ لب کے ساتھ اس لطیفے کی داد دی جا سکتی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک معروف شخصیت نے، جو ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ ملّا صاحب کے بیان کی ایسی ہی جماعتی قسم کی تاویل اور تفسیر کی کہ ملا صاحب اردو کے سچے عاشقوں میں سے ہیں اور اس کے لیے اپنا مذہب بدلنے کے لیے تیار ہیں۔ ملّا صاحب، لکھنو کی اگلے زمانے کی شرافت کا نمونہ، اس مجلس میں موجود تھے اور انھوں نے یہ گل افشانی گفتار اس طرح سنی جیسے بنچ پر جج، فریقین کے دو وکیلوں کے دلائل سنتا ہے۔ میری زبان یوں بند تھی کہ موصوف کے ساتھ میں بھی مجلس صدارت پر تھا۔ ملّا صاحب کے بیان کی جو تاویل فاضل پروفیسر نے کی تھی، درست نہیں۔ جس طرح شیر اپنی کھال کی دھاریاں اور تیندوا اپنی کھال کے بوٹے نہیں بدل سکتا، اسی طرح کوئی اپنی مادری زبان نہیں بدل سکتا، چاہے وہ ہفت زبان ہو جائے یا ہزار زبان ہو جائے۔ ملّا صاحب نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مذہب بھی وراثت میں ملتا ہے، لیکن بالغ اور بالغ نظر ہونے کے بعد یہ اختیاری ہے۔ عقیدوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور عقائد بدل بھی سکتے ہیں، لیکن مادری زبان، مادری زبان ہی رہتی ہے۔

ملّا صاحب کی شاعری کے بارے میں اپنے ناقص خیالات ایک طویل مضمون میں پیش کر چکا ہوں، جو شائع ہو چکا ہے۔ اشاعت سے پہلے مسودہ میں نے ملّا صاحب کو دکھا دیا تھا اور یہ گذارش بھی کی تھی کہ اگر وہ میرے دلائل سے کہیں شدید اختلاف رکھتے ہوں، تو میں ان کے نقطۂ نظر کی وضاحت سے خود کو آگاہ کرنا چاہوں گا۔ ملّا صاحب نے مسودہ توجہ سے پڑھا اور فرمایا کہ تم نے اپنے نظریے کے مطابق لکھا ہے اور تمہیں اس کا پورا حق ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ میں ان کی شاعری کا ہم عمر ہوں۔ لیکن وہ ہمیشہ برابر والا سلوک کرتے ہیں اور ان کا بڑکپن ہے۔

ایک بار کشمیر سے آیا، تو ہائی کورٹ کے بنچ سے سبکدوش ہوئے انھیں زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ چائنا بازار، ان کی کوٹھی پر حاضر ہوا۔ شام کی کافی پر طلب کیا تھا۔ شعر و شاعری تو خیر ہوئی ہی۔ ایک بات انھوں نے یہ بھی فرمائی کہ صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں پریکٹس کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا کشمیر میں تو صرف ایک مقدمہ اس لائق ہے کہ آپ اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔ مسکرائے اور فرمایا کہ وہ مقدمہ میں نہیں لے سکتا۔ کاغذات وہ دیکھ چکے تھے اور ان کا خیال تھا کہ سرکار کے مقدمہ میں جان نہیں ہے اور شیخ عبد اللہ بری ہو جائیں گے۔ (پاٹھک صاحب، جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ ہوئے، سرکاری وکیل تھے ) اور بھی بہت سی باتیں انھوں نے بتائی تھیں۔ شیخ عبد اللہ کی کتاب ’’آتشِ خیار‘‘ چھپی، تو اس پر لکھنے کے لیے مجھ سے کہا گیا۔ میرا تبصرہ بڑھ کر ایک کتاب ہو گیا (کشمیر: ایک منظر نامہ)۔ میں ایک جگہ دھرم سنکٹ میں پڑ گیا۔ ملّا صاحب نے جو کچھ بتایا تھا وہ نجی طور پر بتایا تھا اور سنجیدہ صحافت ذمہ داری کی متقاضی ہے۔ قانونی مشیر کو فریق جو کچھ بتائے، وہ Preamble اطلاع ہوتی ہے۔ اگر ملّا صاحب نے کچھ مجھے بتایا تو وہ مجھ پر اعتماد کر کے بتایا۔ میں نے ملّا صاحب کے نام لیے بغیر ساری باتیں لکھیں، لیکن دل میں کانٹا کھٹکتا رہا کہ نام کے بغیر اس کی تاریخی اور دستاویزی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ میں نے ملّا صاحب سے رجوع کیا اور اپنے سنکٹ کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ میں مسودہ آپ کو دوں گا، آپ اس کا جائزہ لیں۔ بات، جس اسلوب میں آپ چاہیں گے، میں دوبارہ لکھ دوں گا۔ ملّا صاحب کی وسیع القلبی کی یہ وہ مثال ہے جو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ مسودہ کئی روز ان کے پاس رہا۔ کوئی بہت بڑی تبدیلی تو انھوں نے نہیں کرائی، نفسِ مضمون باقی رہنے دیا، البتہ الفاظ میں انھوں نے ترمیم کا مشورہ دیا۔ ملّا صاحب جانتے تھے کہ اگر وہ اس ذکر کو حذف کر دینے کی خواہش کرتے تو میں اس خواہش کا احترام کرتا۔

اجازت لینے سے پہلے ایک بار پھر اس توقع کا اظہار کروں گا کہ جو ادیب اردو کا کارواں اکیسویں صدی میں لے جائیں گے، ان میں پنڈت آنند نرائن ملّابھی ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

آنند نرائن ملّا: حیات و خدمات

 

                ……… خلیق انجم

 

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو شاعری کے افق پر جو شعرا نمودار ہوئے، ان میں ایک نمایاں نام پنڈت آنند نرائن ملا کا بھی ہے۔

پنڈت آنند نرائن ملا کے والد جگت نارائن ماہر قانون تھے اور اپنے پیشے میں انھوں نے خصوصی امتیاز حاصل کیا تھا بلکہ اتنا امتیاز حاصل کیا تھا کہ وہ عرصے تک لکھنؤ کے بار کونسل کے چیرمین کے عہدے پر فائز رہے۔

ملا صاحب لکھنؤ کے ایک محلے رانی کٹڑہ میں /29اکتوبر 1901کو پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے مشہور تعلیمی ادارے فرنگی محل سے شروع ہوئی تھی، جس میں برکت اللہ رضا فرنگی محل سے تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ فرنگی محل میں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد ملا صاحب گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول میں داخل ہو گئے۔ 1917میں اس اسکول سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کی بعد کنگ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے انٹر میڈیٹ، بی۔ اے انگریزی میں پاس کیا۔ ملا صاحب نے 1925میں قانون کے امتحانات پاس کیے اور پھر لکھنؤ میں وکالت شروع کر دی۔ وہاں ایک بارICS کے امتحان میں بھی شریک ہوئے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

ملا صاحب نے فارسی اور اردو کی با قاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور اردو تو ان کی مادری زبان تھی۔ وکالت کی وجہ سے انگریزی زبان پر بھی انھیں بہت اچھی قدرت حاصل تھی اور اپنے شوق کی وجہ سے انھوں نے انگریزی ادب کا بھی بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ لکھنؤ کے ماحول میں رہ کر ابتدائی عمر ہی سے ملا صاحب کو شعر و ادب سے دلچسپی ہو گئی۔ وہ لکھنؤ کے ایک مشہور شاعر سراج لکھنوی کی شاعری سے متاثر ہو گئے اور شعر و شاعری کا آغاز کر دیا۔

ملا صاحب ایک بہت کامیاب وکیل رہے ہیں اور ایک مقام وہ آ گیا جب وہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھیں پنڈت جواہر لال نہرو کے خاندان سے بہت دلچسپی تھی، اس لئے شاید ا نھوں نے نہرو کے مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ملا صاحب کو سیاست سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ اس میدان میں بھی انھوں نے ممتاز حیثیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ راجیہ سبھا کے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے جب پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو گئی تو گورنمنٹ کی کئی اہم کمیٹیوں کے ممبر رہے۔

شاعری ملا صاحب کی سر شت میں داخل تھی جس کی جانب ان کا ایک انتہائی سوچا سمجھا اور سنجیدہ رویہ تھا۔ ملا صاحب کی شاعری کے موضوعات دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملا صاحب تفریح طبع کے لیے نہیں تسکین طبع کے لیے شعر کہتے تھے۔ وہ انتہائی وسیع المطالعہ شخص تھے اور ایک دانشورانہ ذہن رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی فارسی، اردو کے کلاسیکی ادب اور مغرب کے جدید ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ قانون کے ساتھ ان کا پیشہ ورانہ لگاؤ تھا اور سیاسی، سماجی مصروفیات ان کا شعار زندگی، شاعری ان کی لیے ایک ذوقی چیز تھی۔ وہ ایک عدیم الفرصت انسان تھے، لیکن شعر گوئی سے ان کا لگاؤ اتنا زیادہ تھا کہ وہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود شاعری کے لئے فرصت نکال لیا کرتے تھے۔ ادب ان کی لیے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھا، وہ عام طور پر تمام ادبی سر گرمی سے بھی اس لیے الگ تھلگ رہتے تھے کہ انھوں نے شعرو شاعری کے میدان میں شہرت کے لیے قدم نہیں رکھا تھا۔ شہرت اور ناموری کے لیے تو ان کی پاس اور بہت سے دوسرے طریقے تھے۔ زمانے کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر آپ اس سے کچھ طلب نہیں کرتے تو پھر وہ بھی یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر آپ کا کچھ قرض ہے۔ چناں چہ ہماری تنقید بھی کسی حد تک ملا صاحب کو اس لیے نظر انداز کرتی رہی کہ وہ بھی اپنی طرف سے اس کی نظر کرم کی خواہاں نہیں تھے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اردو تنقید ملا صاحب کی شعری اور علمی فتوحات کے ذکر سے یکسر خالی ہو۔ پروفیسر آل احمد سرور، علی جواد زیدی، پروفیسر گوپی چند نارنگ اور خلیق انجم نے ان کی کتابوں پر پیش لفظ لکھ کر ان کے فن اور شخصیت کا بہت اچھا جائزہ لیا ہے۔

ملا صاحب ایک بے لاگ قسم کے انسان تھے۔ مزاجاً وہ خوشامد پسند تھے اور نہ خوشامدی۔ یوں سمجھئے کہ دنیا داری کی کوئی ادا ان میں نہیں تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے انسان تھے۔ سماجی زندگی میں انھیں اتنی شہرت حاصل تھی کہ انھیں مزید شہرت حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ بیسوی صدی کے منظر نامے پر ملا صاحب کا عکس نظر ہی نہ آتا ہو۔

انھیں ادبی خدمات کے سلسلے میں انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ وہ بہت سی با وقار ادبی انجمنوں سے بھی وابستہ رہے۔ در اصل ان کی سماجی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ اس نے ان کی شخصیت کے بعض دوسرے امتیازات کو نمایاں ہونے کا پورا موقع ہی نہیں دیا۔ ان امتیازات میں ان کا شاعر ہونا بھی شامل ہے۔ ملا صاحب کا نام صف اول کے شاعروں میں آتا ہے، لیکن ملا صاحب کی ادبی خدمات کا اعتراف اس طرح نہیں کیا گیا جیساکے وہ مستحق تھے۔ ان کے عہد کے نقادوں میں چند حضرات نے ان کی شاعری پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ انھیں مختلف اداروں نے انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا ہے لیکن پھر بھی ان کی خدمات کے صلے کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ جس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ وہ بھی کسی کی خوشامد نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے پیشے یعنی وکالت، سیاسی اور سماجی خدمات میں ایسے الجھے رہتے تھے کہ انھیں اردو کے نقادوں سے تعلقات وسیع کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات پر نقادوں نے بہت زیادہ توجہ نہیں کی۔

ملا صاحب کی شخصیت اور فن دونوں میں لکھنوی شرافت، شائستگی، لطافت، اعلی ترین اخلاقی قدریں اور انسان دوستی کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

ملا صاحب کی شاعری کے ابتدائی عہد میں لکھنؤ میں صفی لکھنوی، عزیز لکھنوی اور ثاقب لکھنوی جیسے کلاسیکل انداز کی شاعری کرنے والے ممتاز شاعروں کا طوطی بولتا تھا۔ ملّا صاحب نظم اور غزل کے شاعر تھے۔ انھوں نے مغربی ادب کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اسی لئے ان کی شاعری صرف حسن و عشق اور عاشقی کے مضامین تک محدود نہیں تھی۔ ملا صاحب سے کچھ عرصے پہلے لکھنؤ میں چکبست ہی ایسے شاعر نظر آتے ہیں جن کی شاعری میں ہمیں اس عہد کے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی عکاسی نظر آتی ہے، لیکن چکبست کی موضوعات کا دائرہ بہت محدود تھا۔ چکبست کے بعد دوسرا نام ملا صاحب ہی کا نظر آتا ہے۔ ملا صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے چالیس پچاس سال تک ہندوستان کی سیکولراور انسانی قدروں کی بھرپور تر جمانی کی ہے۔

میں نے کچھ عرصے پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ملا صاحب کی شاعری کا افق بہت وسیع ہے اور متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ملا صاحب کی شاعری محض چٹخارے کی چیز نہیں ہے۔ ان کا کلام عصری زندگی کے مسائل اور تقاضوں کا ترجمان ہے۔ ملا صاحب نے اپنے طویل تخلیقی سفر کے دوران غزل کو ابھر تے، ڈوبتے، ڈوبتے، ابھرتے دیکھا ہے۔ غزل کو اردو کی آبرو کہا جاتا ہے، جب غزل معتوب ہوئی اور پھر ایک وقت وہ آیا جب غزل ایک بار پھر نئی سج دھج کے ساتھ زندہ ہو کر ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ آج کے دور میں غزل گائیکی کو جس قدر مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور غزل گائیکی کو جتنے عظیم گلوکاروں نے گلے لگایا ہے ایسا کسی دور میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ اسے ’’وحشی صنف سخن ‘‘کہا گیا اور وہ وقت بھی آیا جب اردو غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا تھا۔ ملا صاحب کی شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل اور نظم دونوں میں اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے۔

ملا صاحب نے اپنی گو نا گوں مصروفیات کے باوجود شعری اور نثری دونوں میں کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتابوں میں (۱)جادۂ ملا (۲)جوئے شیر (۳)کچھ ذرے کچھ تارے (۴)کرب آگہی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی دو کتابیں نثر میں بھی ہیں۔ ایک تو ’’ میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ کچھ نثر میں بھی ‘‘اور دوسری پنڈت نہرو کے مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ ’’مضامین نہرو ‘‘۔

اردو شاعری کے موضوعات میں جس میں غزل کے موضوعات بھی شامل ہیں، ایک اہم موضوع انسان دوستی بھی رہا ہے۔ یوں تور سماً ہر شاعر نے انسان دوستی پر کچھ نہ کچھ لکھا ہے، لیکن بعض شعرا نے انسان دوستی کے موضوع کو بطور خاص برتا ہے اور ایسے لوگ وہ ہیں جو غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی شاعر رہے ہیں۔

تغزل سے ملا صاحب کے مزاج کو کوئی خاص علا قہ نہیں ہے۔ ان کے رنگ سخن پر ان کا فکری رویہ حاوی ہے۔ مغربی ادب سے بھی ملا صاحب کے مزاج کو خاص لگاؤ یوں رہا ہے کہ اس میں انسان دوستی کی بات کہی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان دوستی کے جذبات ملا صاحب کی شاعری میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے بے شمار نظموں میں طرح طرح سے انسان دوستی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

ملا صاحب دوسروں کے غم اور درد کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ وہ چوں کہ انتہائی غیر متعصب اورسیکولر قسم کے انسان تھے، اس لیے انسانی رشتوں کی پاس داری ان کے کردار کا ایک اعلا جوہر تھا جوان کے کلام میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بقول کمال احمد صدیقی

’’ملا صاحب کے ہاں سارے جہاں کا درد مختلف نظموں میں طرح طرح سے ظاہر ہوا ہے۔ یہ دوسروں کے دلوں کے درد و کرب کو سمجھتے ہیں اور اسی طرح اپنے ماحول اور اس دنیا سے اور اس میں رہنے والوں سے درد مشترک کا رشتہ قائم رکھتے ہیں جو ان کو بہت عزیز ہے۔ ملّا صاحب کو انسانیت اور انسانیت کی فلاح عزیز ہے۔ ‘‘

ملا صاحب انجمن ترقی اردو (ہند)کے صدر تھے اور انجمن کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ میں ان کی انسان دوستی کی بے شمار مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ یہاں صرف ایک دو واقعات بیان کرتا ہوں۔

ایک دفعہ عید کا موقع تھا۔ ہمارے اسٹاف کو عید کے موقعے پر تہوار الاؤںس کے طور پر کچھ رقم ملتی ہے۔ ایک دفعہ عید آئی اور انجمن کے حالات ایسے نہیں تھے کہ کہ اسٹاف کو عید کا الاؤ نس دیا جا سکتا۔ میں نے ملا صاحب سے اپنی پریشانی بیان کی۔ کہنے لگے کہ پھر وہ غریب لوگ عید کیسے منائیں گے۔ میں نے کہا کہ ملا صاحب میں یہی تو آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ ملا صاحب نے کہا کہ کل پورا حساب لگوا کر بھیجئے میں چیک بھیج دوں گا اور میرے حساب بھیجنے پر لگ بھگ بارہ ہزار روپے کا چیک ملا صاحب نے بھیج دیا۔ جب انجمن میں کچھ رقم آ گئی تو میں نے ملا صاحب کو وہ رقم واپس کرنی چاہی۔ ناراض ہو کر کہنے لگے۔ ’’خلیق انجم صاحب ! مجھے لگتا ہے آپ کا واسطہ کاروباری لوگوں سے رہا ہے۔ میں نے انجمن کو یہ رقم سود پر نہیں دی تھی۔ کارکنوں کی مدد کے طور پر جو کچھ میرے پاس تھا حاضر کر دیا۔ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ ‘‘ میں ملّا صاحب کی باتوں سے شرمندہ ہو گیا۔

ایک دفعہ ہمارے اسٹاف میں ایک چپراسی کی بیٹی کی شادی تھی۔ اس نے مجھے قرض کے لیے درخواست دی، لیکن انجمن کے حالات اس قابل نہیں تھے کہ میں قرض دے سکتا۔ جب اس نے بہت اصرار کیا تو میں نے اس سے کہا تم ملا صاحب کے پاس چلے جاؤ وہ شاید کوئی راستہ نکال دیں۔ اس نے میرا کہنا مانا۔ ملا صاحب کے پاس چلا گیا اور کچھ دیر بعد خوش واپس آیا۔ کہنے لگا میں نے صرف چار ہزار روپے قرض مانگے تھے ملا صاحب نے پانچ ہزار روپئے میری بیٹی کی شادی کی لیے دے دیے۔ یہ تھی ملا صاحب کی انسان دوستی۔

ابھی روئے حقیقت پر پڑا ہے پردۂ ایماں

ابھی انساں فقط ہند و مسلماں ہے، جہاں میں ہوں

طالب امن ہیں سب بزم میں لیکن ہر رند

لے کے اک ہاتھ میں تیغ، ایک میں جام آتا ہے

معبد انساں بنے کیسے یہ ضد ہر دل میں ہے

اس کی پیشانی پہ ہو، میرے ہی بت خانے کا نام

بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی

دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی

دیر و حرم کے معاملے میں ملا صاحب کا ذہن بالکل صاف ہے۔ وہ تفریق کرنے والے مذاہب پر ’’حبّ بشر‘‘ کے مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔ کہتے ہیں :

کیوں کسی ایماں سے مانگوں شمع راہ زندگی

کیا بشر کے واسطے حبّ بشر کافی نہیں

ایک اور شعر ملاحظہ ہو، جس میں ملا صاحب نے شاعرانہ تعلّی سے کام نہیں لیا بلکہ انسانیت کے پیام کو عام کرنے کے لیے اپنی جد و جہد کا ذکر کر کیا ہے۔ وہ شعر ہے :

اب آگے تیری قسمت ہے اے قافلۂ گمراہ بشر

میں نے تو اندھیری راہوں میں کچھ دیپ جلا کے چھوڑ دیے

اشعار کے مطالعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان دوستی ملا صاحب کے لیے کوئی شاعرانہ موضوع نہیں بلکہ اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک ایسے عقیدے کی ہے جس کے معاملے میں ان کے ساتھ کوئی سمجھو تہ ممکن نہیں۔ اردو میں یہ روایت رہی کہ اگر شاعر نظم گو ہے تو اس کی شعر گوئی کا آغاز غزل ہی سے ہوا ہے۔ علا مہ اقبال اور جوش کی شاعری میں نظم کا پلّہ بھاری ہے۔ یہ دونوں نظم کے شاعر ہیں لیکن ان دونوں نے ابتدا میں غزلیں ہی کہی تھیں، عام طور سے اردو شاعروں نے غزل ہی سے شاعری کی ابتدا کی ہے، لیکن ملا صاحب نے شعر گوئی کی ابتدا نظم سے کی تھی، میرے ذہن میں اردو کا اور کوئی شاعر ایسا نہیں ہے جس نے نظم گوئی سے اپنی شاعری کی ابتدا کی ہو، اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ ملا صاحب عام ڈگر سے بچ کر خود اپنا راستہ بناتے ہیں، لیکن یہ اس حقیقت کا بھی ثبوت ہے کہ ملا صاحب کی شاعری میں فکر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اگر وہ روایتی شاعری کرتے یا صرف جذبے پر زور دیتے یا صرف زبان و اظہار کو اہمیت دیتے تو غزل ہی سے ابتدا کرتے۔ ان کی پہلی نظم ’ ’پرستار حسن ‘ ‘ ہے، جس میں معنویت بھی ہے اور فکری عنصر بھی۔ اس نظم میں اظہار کی جو پختگی، لہجے کی جو متانت اور بیان کی جو تازہ کاری ہے وہ بے شمار شاعروں کو مدتوں مشق سخن کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی، نظم میں ملّا صاحب کے موضوعات متنوع ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مشاہدہ اور تجربہ بہت وسیع ہے، انہوں نے زندگی کو ایک ہمدرد انسان کی حیثیت سے بہت قریب سے دیکھا ہے۔

ملا صاحب نے شملے کے دیودار۔ ۔ ۔ ۔ اور ایک دن انسان جیتے گا، ہپیّ، اندھیر نگر میں دیپ جلیں، بڈھا، عصمت افلاس، گرو نانک، عقل و دل کا تضاد، بیسواں محبان وطن کا نعرہ، جوئے شیر، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی کا قتل اردو کے نام، قحط کلکتہ، لال قلعہ، آخری سلام وغیرہ جیسے موضوعات پر نظمیں کہیں ہیں، بہت کم نظم گو شعرا کے یہاں موضوعات کا اتنا تنوع ملتا ہے۔

غالبؔ کا یہ مصرع ’’ ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ‘‘ ملا صاحب کے لیے محض شاعرانہ خیال نہیں بلکہ عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی فکر اور بصیرت کائناتی ہے، ان کا ایک فلسفہ، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی نظریہ ہے اور وہ ہے انسان دوستی، وہ انسانیت کو گل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، اسے مذہبی یا جغرافیائی خانوں میں تقسیم نہیں کرتے، انہوں نے شاعری میں یہ عقیدہ روایتی مضمون کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ ان کی گفتار اور کردار دونوں سے ہم آہنگ ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں :

تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے

تیرے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے

ہر دیر و حرم سے کترا کر، ملا آیا میخانے میں

ملا کے سے لیکن دنیا میں سلجھے ہوئے انساں کتنے ہیں

بشر کے ذوق پر ستش نے خود کیے تخلیق

خدا و کعبہ کہیں اور کہیں صنم خانے

ملّا صاحب کو اردو سے غیر معمولی محبت تھی، اگر کوئی شخص اردو کے خلاف کچھ کہتا، تو ملّا صاحب خلاف عادت اس سے سخت ناراض ہو جاتے۔

انجمن ترقی اردو کی ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس کی صدارت ملا صاحب کے ذمہ تھی ملا صاحب نے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ : ’’آج کل اردو پہ بہت برا وقت آیا ہوا ہے، کچھ لوگ اردو کو ختم کرنے کے درپے ہیں، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اردو کا مجاہد ہوں اور اردو کی بقا کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے میں کروں گا، میں آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں مادری زبان نہیں۔ ‘‘

اردو پر ملا صاحب کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں، دیکھئے اس کے ایک ایک لفظ میں کیسا درد بھرا ہوا ہے، ملا صاحب کہتے ہیں :

ایک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں

پھر پونچھ کے اشک مسکرا لیں تو چلیں

آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

ایک آخری گیت اور گا لیں تو چلیں

ایک رباعی اور ملاحظہ ہو، دیکھئے ان اشعار کا عنوان کیسا معنی خیز ہے، عنوان ہے ’’آئندہ تاریخ کا ایک سفر ‘‘

یہ سانحہ سال چہل و نو میں ہوا

ہندی کی چھری اور اردو کا گلا

اردو کے رفیقوں میں جو مقتول ہوئے

ملا نامی سنا ہے شاعر بھی تھا

اردو سے ملا صاحب کی محبت کا بس ایک واقعہ اور بیان کروں گا۔

ملا صاحب انجمن ترقی اردو کے صدر تھے، اس حیثیت سے وہ گجرال کمیٹی کے سامنے انجمن کا ایک میمو رنڈم لے کر گئے، میں اس وقت گجرال کمیٹی کا رکن تھا، ملا صاحب ہمیشہ بہت ہی نرم اور دھیمی آواز میں بات کرتے تھے، لیکن اس دن اپنے میمو رنڈم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ملا صاحب غصہ میں لال ہو گئے اور انہوں نے گجرال صاحب سے کہا کہ:

’’ اگر آپ جیسے اردو دوست ہوتے ہوئے بھی اردو کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے، تو پھر ہم اپنی فریاد لے کر کہاں جائیں۔ ‘‘اس دن اردو کی بقا اور اس کے مستقبل کے بارے میں بہت تفصیل سے گفتگو ہوئی، ملا صاحب کا کہنا تھا : ’’اردو ہندوستان کی زبان ہے اور اسے اسی طرح زندہ رہنے کا حق ہے جیسے ہندی یا ہندوستان کی کسی اور زبان کو ہے۔ ‘‘

جب انجمن میں میں جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے آیا تو ملا صاحب اس کے صدر تھے مجھے ملا صاحب کے ساتھ میمو رنڈم لے کر بہت سے وزیروں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ملّا صاحب کے لہجے میں بہت ہی نرمی اور دھیما پن ہوتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ ان کا اردو دوست شاعر باہر نکل آتا تھا اور وہ غصے میں منسٹروں سے بات کرتے اور دلیلیں پیش کرتے کہ :

’’اردو کو ختم کیا جا رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ‘‘

ملا صاحب کا سب سے بڑا تعلق ہندوستان کے سب سے بڑے ادارے انجمن ترقی اردو (ہند) سے رہا، وہ ۱۹۶۹ء میں پانچ سال کے لئے انجمن کے صدر منتخب ہوئے ۱۹۷۴ء میں انہیں پھر صدر منتخب کیا گیا، یہ مدت ختم ہونے کے بعد انجمن کے تمام اراکین چا ہتے تھے کہ ملّا صاحب صدر کی حیثیت سے انجمن سے اگلے پانچ سال کے لئے بھی وابستہ رہیں، لیکن ایک ممتاز ترین وکیل کی حیثیت سے ملا صاحب کی مصروفیات اتنی بڑھ گئیں تھیں کہ وہ یہ عہدہ قبول کرنے سے قاصر رہے۔

۱۹۶۳ء میں ملا صاحب ساہیتہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے، ۱۹۶۸ء میں وہ دوباری اسی حیثیت سے منتخب ہوئے، ۱۹۸۳ ء میں ملا صاحب ترقی اردو بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوئے، ۱۹۸۹ ء میں وہ جامعہ ملیا اسلامیہ کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔

ملا صاحب پر انجمن نے ایک سیمینار منعقد کیا تھا، اس میں ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، رفعت سروش، ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، احمد سعید، خلیق انجم، ایم۔ حبیب خان اور شمیم جہاں نے مضامین پڑھے تھے۔ ۱۹۹۵ ء غالب انسٹی ٹیوٹ نے ملّا صاحب کی شخصیت اور فن پر ایک کتاب شائع کی جس کا پیش لفظ پروفیسر نذیر احمد نے لکھا تھا۔ ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر آل احمد سرور، ڈاکٹر مسعود حسین، پروفیسر سید امیر حسین عابدی، امر انصاری، ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، پروفیسر ولی الحق انصاری، ڈاکٹر آصفہ زمانی، ایم۔ حبیب خان کے اس کتاب میں مضامین شامل تھے۔

بہت سی تنظیموں نے ملا صاحب کی ادبی اور لسانی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں انعامات سے نوازا تھا، ۱۹۵۹ ء میں اتر پردیش گورنمنٹ نے ملا صاحب کی خدمت میں غالب ایوارڈ پیش کیا، یہ ایوارڈ ملا صاحب اور فراق گورکھپوری کو مشترکہ طور پر دیا گیا تھا۔

۱۹۶۴ء میں ملا صاحب کی کتاب ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ شائع ہوئی، جس کی رسم اجرا ء اس عہد کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی نے کی۔ ۱۹۸۰ میں ذوق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ملا صاحب کی خدمت میں ذوق اکادمی انعام پیش کیا، ۱۹۸۶ ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ نے ملا صاحب کی خدمات پر انعام پیش کیا، ۱۹۸۹ ء میں ملا صاحب کو فخر الدین علی احمد ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ملا صاحب کا سیاست سے ہمیشہ گہرا تعلق رہا، لیکن یہ تعلق محض ذہنی رشتے کا تھا، عملی نہیں ملا صاحب جب ۱۶ برس کے تھے تو لکھنؤ میں کانگریس کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ ملّا صاحب کے والد اس جلسے میں ریسپشن کمیٹی کے چیئر مین تھے، ملا صاحب اس جلسے میں شریک ہوئے، لیکن عملی طور پر جلسے میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

لوگ ملا صاحب کو بہت پسند کرتے تھے اور ملا صاحب پر انھیں بہت زیادہ بھروسہ تھا، بقول ملا صاحب : ’’ اس وقت میری انسانی قدروں کی وجہ سے لوگوں کو مجھ پر بہت اعتماد تھا، کیوں کہ میں نے انسانی قدروں پر عمل کیا ہے، نیز میں پیشے، ادب میں، قانون میں، اردو تحریک میں نے صرف زبانی ہی نہیں گفتگو کی ہے عملی طور پر بھی کچھ کر کے دکھایا ہے۔ ‘‘۱۹۶۷ ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران پارلیمنٹ کے رکن رہے، ۱۹۷۲ ء میں کانگریس نے انھیں راجیہ سبھا کے ممبر کی حیثیت سے نامزد کیا اور ۱۹۷۸ء تک وہ راجیہ سبھا کے رکن رہے۔

ملا صاحب نے انجمن ترقی اردو کے صدر کی حیثیت سے بہت سے وزیروں، صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومتوں کو میمورنڈم پیش کر کے اردو کے موجودہ مسائل کی طرف ذمہ داروں کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

مرکزی انجمن ترقی اردو (ہند )نے گجرال کمیٹی کو ایک بہت بڑا میمو رنڈم پیش کیا تھا اس میمو رنڈم کا ایک ایک لفظ ملا صاحب کا لکھا ہوا تھا، جس پر بعد میں انجمن کی مجلس عاملہ نے نظر ڈالی تھی، یہ میمو رنڈم گجرال کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہے۔

ملا صاحب نے بطور ایک جج ایک ایڈوکیٹ، ایک شاعر اور دانش ور انسان کے بڑی باوقار زندگی گزاری۔ سپرم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے وہ ایک مانے ہوئے ایڈوکیٹ تھے اور پھر ایسی ہی ان کی فیس بھی تھی، انہوں نے اپنی اکل حلال سے ایک نہایت ہی با وقار اور ٹھاٹ دار زندگی گزاری۔ انجمن کے صدر کی حیثیت سے وہ جب بھی کبھی کسی میٹنگ، کسی جلسے یا کسی اور کام سے دفتر تشریف لاتے تھے تو صرف اپنے خرچ پر انہوں نے کبھی بھی انجمن سے آمد و رفت کی مد میں ایک پیسہ بھی لینا گوارا نہیں کیا۔ اپنے علمی اور شاعرانہ مرتبے کے اعتبار سے وہ انجمن کا وقار تھے۔ ان کی باتیں بہت دن تک یاد رہیں گی۔

ملا صاحب نے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی، وہ دہلی ہائی کورٹ میں وکالت کرتے رہے۔ ۱۳ جون ۱۹۹۷ ء کو ۲۳ بلونت رائے مہتا روڈ(فیروز شاہ روڈ)کی اس کوٹھی میں ان کا انتقال ہوا جوپارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے انھیں گورنمنٹ سے ملی ہوئی تھی۔

(کلیات آنند نرائن ملّا کا دیباچہ)

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ یادیں کچھ باتیں

 

                ……… عمر انصاری

 

عصر حاضر میں پنڈت آنند نرائن ملّا، ان خوش نصیب لوگوں کی فہرست میں سر فہرست ہونے کا درجہ رکھتے ہیں، جو پٹواری کی طرح کسی پر اپنا کوئی واجب نہیں چھوڑتے، چاہے ان پر کسی کے کتنے ہی واجبات کیوں نہ ہوں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک انھیں جتنے ایوارڈ مل چکے ہیں اور جو رتبہ اور اعزاز انھیں حاصل ہے، وہ کم از کم آج کی اردو دنیا میں تو کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔

ملّا صاحب کی شاعری لکھنؤ اسکول کی پروردہ ہے، یہیں انھوں نے آنکھ کھولی اور یہیں کی مٹی سے ان کی شخصیت اور شاعری کا خمیر اُٹھا، جس میں عصری حسیت اور ان کی شعوری کوششوں نے وہ چار چاند لگائے کہ آج کا لکھنؤ پکار پکار کر یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ میرے ماضی پر نظر کرنے والو، میرے حال کو دیکھو اور پھر یہ بتاؤ کہ میرے دامن میں وہ کیا نہیں جس کی تمہیں تلاش ہے اور در حقیقت آج کے لکھنؤ کی شاعری، ملّا صاحب اور ان کے چند رفقا ہی کی شاعری سے عبارت ہے۔ یہ کہہ کر گزر جانا ہرگز انصاف کی بات نہیں، جیسا کہ پروفیسر آل احمد سرور نے حبیب احمد صدیقی صاحب آئی۔ اے۔ ایس سے جب وہ آل انڈیا ریڈیو کے مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور انھیں کے دولت کدے پر فروکش تھے، فرمایا کہ لکھنؤ آتے ہیں، تو شعر تو ملّا صاحب اور عمر انصاری ہی سے سننے کو ملتے ہیں، لیکن یہ دونوں بھلے ہی لکھنوی ہوں، ان کی شاعری لکھنوی نہیں۔ ‘‘

یہاں پر یہ تحریر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے ملّا صاحب خود بھی کچھ سرورؔ صاحب ہی کے جیسے خیالات رکھتے ہیں اور ابھی ایک حالیہ ملاقات میں جب میں یہ سن کر کہ وہ دلّی میں پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں سے گر گئے ہیں، ان کی مزاج پرسی کے لیے دلّی ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، تو انھوں نے بھی لکھنوی شاعری کی برائی کرتے ہوئے سراجؔ لکھنوی کا یہ شعر پیش کیا ؎

آپ کے پانو کے نیچے دل ہے

اِک ذرا آپ کو زحمت ہو گی

اور کہا کہ میں بھی مشاعرے میں شریک تھا، لیکن داد سب سے زیادہ اسی شعر پر ملی۔

جواب میں اب ایسے موقع پر میں اور کیا کہتا، بس یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ:

’’ملّا صاحب! آج کے لکھنو کی شاعری کا تجزیہ مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی اور سراجؔ لکھنوی کی شاعری کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ ملّا صاحب اور عمر انصاری کی شاعری کو پڑھ کر کیا جانا چاہیے اور اس شعر میں بھی ہر چند کہ کسی ’’گل بدنِ سرخ‘‘ کی مدح سرائی نہیں، لیکن ایک بڑی تہذیب اور معاشرے کی نمائندگی کے آثار نظر آتے ہیں کہ لوگ کس انداز سے گفتگو کرتے تھے اور کیا مفاہیم مراد لیتے تھے۔ آخر رموز و علائم کا بھی شاعری میں کوئی مقام ہے کہ نہیں ؟‘‘۔

اور سہلِ ممتنع کہنے میں بھی کیا برائی ہے ؟ اور پھر بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں بھی گویا ہوا کہ:

’’معلوم ہوتا ہے ملّا صاحب اس مشاعرے میں آپ کو کچھ داد واد ملی نہیں، جس کی بنا پر آپ ڈنڈا لے کر بے چارے سراجؔ صاحب پر پل پڑے اور ایک شاعر کے ایک شعر کی بنیاد پر سارے مکتبۂ فکر کو گردن زدنی قرار دے دیا۔ آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ سراج لکھنوی نے بعض اچھے اور بعض بہت اچھے شعر بھی تو کہے ہیں جیسے :

آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں

ہم کل کی آستینیں اب تک سکھا رہے ہیں

ٍ        ظاہر ہے کہ میرے جواب میں ملّا صاحب کی ترقی پسندی کے اس اعلان کی بھی کسک پائی جاتی ہے، جس سے یقیناً اہل لکھنو کے دلوں پر چوٹ لگی تھی اور انھوں نے سمجھا تھا کہ مجاز ردولوی اور مجروحؔ سلطانپوری کی طرح ہمارے اس شاعر کو بھی بھیڑیے اٹھا لے گئے۔ اور جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان دنوں پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر آل احمد سرور دونوں ہی لکھنؤ یونیورسٹی میں جمع ہو گئے تھے اور یہ دونوں حضرات بنّے بھائی (سیّد سجاد ظہیر) کی چلائی ہوئی تحریک کے نہ صرف ہم نوا تھے، بلکہ ان کے تیر کمان بنے ہوئے تھے، تحریک کے شباب کا بھی وہی زمانہ تھا اور ان دونوں پروفیسر صاحبان سے ملّا صاحب کے گہرے روابط تھے۔ حضرت گنج انڈیا کافی ہاؤس میں ان سب کی بیٹھکیں جمتیں، جہاں کا قاعدہ یہ تھا کہ ملّا صاحب کی میز پر، جو کئی میزوں کو ملا کر ایک کر دی جاتی تھی، جس کا جو دل چاہے کھائے پئے، لیکن بل ادا کرنے کا حق کسی کونہ تھا، بل ملا صاحب ہی ادا کرتے تھے۔ وہیں ملا صاحب کے شعر سن سن کر اور خاص طور پر ان کی نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ سن کر ان دونوں پروفیسر ان نے ملا صاحب کو یہ یقین دلانا شروع کیا کہ آپ تو ترقی پسند شاعر ہیں۔ اور ایک صبح ملّا صاحب کو یقین آ گیا کہ ہاں میں تو واقعی ترقی پسند شاعر ہوں۔

میں غور کرتا ہوں تو ملّا صاحب کے اس رویے کو فراق صاحب کے اس رویے سے بالکل مختلف پاتا ہوں کہ وہ کہا کرتے تھے اور جسے خو دمیں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ ’’ترقی پسند میرا بھی نام لیے پھرتے ہیں۔ لیکن کہاں وہ ’’وَن ٹریک مائنڈڈ‘‘ اور کہاں میں چو مکھا شاعر‘‘۔

جہاں تک ترقی پسندی کا سوال ہے، مجھے آج تک کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہیں ملا جو اپنے آپ کو تنزل پسند مانتا ہو، نہ ہی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی ایک جگہ پر کھڑا رہے، یہ تو دریا کی لہر ہے، ابھی یہاں، ابھی وہاں اور ابھی اور آگے۔ اور اسی قانونِ فطرت کا ہمارے لکھنؤ کی شاعری پر اطلاق کیا جانا چاہیے۔ اور اسی بنیاد پر میں یہ تو مانتا ہوں کہ ملّا صاحب بے شک ترقی پسند شاعر ہیں، لیکن وہ ترقی پسند شاعر اور ہم سے علاحدہ کوئی چیز ہیں، یہ ماننے سے معذرت چاہتا ہوں۔ اور اس سلسلہ میں اگر ملّا صاحب سے بالمشافہ بھی گفتگو ہو تو میں یہی عرض کروں گا کہ:

’’نہیں ملّا صاحب۔ آپ کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہوں، آپ ہمارے دبستان کے شاعر ہیں اور ہماری نمائندگی کرتے ہیں، آپ کو ہم اپنا نمائندہ شاعر تسلیم بھی کرتے ہیں اور مقر ر بھی کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے اردو مہم میں اپنا قائد بنایا‘‘۔

اور ہمارے ملّا صاحب کو تحریک کا ترقی پسند شاعر نہ ماننے کے وجوہ بھی موجود ہیں۔

ملّا صاحب کبھی کسی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں بنے، جو تحریک کے ترقی پسند شاعر ہونے کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک لازمی شرط قرار دی گئی تھی، نہ ہی انھوں نے کبھی کمیونسٹ پارٹی کے روزانہ بدلتے رہنے والے پروگراموں پر بہ قول حیات اللہ انصاری، سردارؔجعفری اور کیفیؔ اعظمی کی طرح عمل کیا، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی باقاعدہ ممبر نہیں رہے۔ اور برعکس اس کے وہ کانگریسی دل و دماغ رکھنے والے شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ کانگریس میں شامل رہے۔ یہاں تک کہ ۱۹۳۶ء میں کانگریس کے اجلاس میں جو لکھنؤ موتی نگر میں منعقد ہوا تھا، اس کے اس مہتم بالشان مشاعرے کے صدر مجلس استقبالیہ وہی تھے، جس کا افتتاح پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا اور صدارت بلبلِ ہند مسز سروجنی نائیڈو نے اور جس کا سوینیر ’’جواہرات‘‘ آج بھی اس دور کے ادبی رجحانات جاننے کے لیے سب سے معتبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملّا صاحب کی وہ استقبالیہ نظم جو انھوں نے مسز نائیڈو کے لیے لکھی اور پڑھی تھی، اس سوینئر میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ ۱۹۳۶ء ہی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا افتتاحیہ جلسہ منشی پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا۔

ملّا صاحب کے کانگریسی ہونے کے اتنے شواہد موجود ہیں کہ سب کو یک جا کرنا مضمون کو لامتنا ہی کر دینے کے مصداق ہو گا، حدیہ ہے کہ جب ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پارلیمنٹ کا لکھنؤ کی سیٹ سے کانگریس کا ٹکٹ نہیں مل سکا اور وی۔ آر۔ موہن کو دے دیا گیا، تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الکشن لڑے اور جیت کے پھر کانگریس میں شامل ہو گئے اور لکھنؤ میں ان کی کتاب ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ کی رسمِ اجرا مسز اندرا گاندھی نے ادا کی۔

ملّا صاحب کی شاعری کی ابتدا ۲۷؍۱۹۲۸ء میں انگریزی زبان کی شاعری سے ہوئی اور ان کے لکھنؤی شاعر ہونے کا بنیادی ثبوت وہیں سے فراہم ہو جاتا ہے کہ سب سے پہلے میر انیسؔ کے کلام سے متاثر ہوئے اور میر انیسؔ کی کئی رباعیات کا منظوم ترجمہ انھوں نے انگریزی میں کیا۔ اس کے بعد وہ اردو کی جانب متوجہ ہوئے اور جوش ملیح آبادی سے روابط کی بنا پر انھیں غزل کے ساتھ نظم لکھنے کا بھی چسکا لگ گیا۔ نظم کی صنف ملّا صاحب کے جیسا دل و دماغ رکھنے والے شاعر کے لیے زیادہ مناسبت بھی رکھتی تھی کہ اس میں انھیں اپنے دماغ کی اُپج نکالنے کے بہتر مواقع فراہم تھے۔ پھر انھوں نے یہ کیا کہ اقبالؔ کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ابتدا میں اقبالؔ سے لڑے بھی کہ ہمارے میخانے کا میخوار خواہ مخواہ حجازی بن بیٹھا، لیکن شاید بعد میں ان کی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ اقبالؔ کی اس حد تک مداح بن گئے کہ اپنے پرانے دوست سراجؔ لکھنوی کو انھوں نے کلام اقبال پڑھنے کی ترغیب دی اور سراج لکھنوی نے اپنے دیوان ’’شعلۂ آواز‘‘ میں اس کا اقرار کیا کہ ملّا صاحب کے توجہ دلانے پر میں نے اقبال کو پڑھا تو پتا چلا کہ

’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔

ہر چند کہ وہ دور ہی گویا نظم گوئی کا دور تھا۔ لکھنؤ میں ملّا صاحب کے علاوہ بھی کئی اور شعرا بالاہتمام نظمیں لکھ رہے تھے، جن کے مجموعہ ہائے نظم بھی شائع ہو چکے ہیں اور اس زمانے کے تمام رسائل و اخبارات میں ان کی نظمیں چھپتی رہتی تھیں، لیکن ملّا صاحب کی ہوش مندی کا یہ ایک اور بہتر ثبوت ہے کہ انھوں نے نظم کی طرف متوجہ ہو کر بھی غزل کی شاعری کو جوش ملیح آبادی کی طرح بالکل ترک نہیں کیا اور عروسِ غزل کی شانہ کشی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انھوں نے غزل کی پرانی اور صالح روایتوں کو توڑا نہیں، کئی نئے اسالیب کے ساتھ انھیں جوڑا ہے اور اس کوشش کی بدولت ان کے کلام میں ندرت و انفرادیت کے ایسے عناصر داخل ہوئے ہیں جو خود ان کی شخصیت کو منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔ وہ خود غزل کے سلسلے میں اپنی مساعیِ جمیلہ کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ:

کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو

جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ صنفِ نظم کو صنفِ غزل پر ترجیح دیتے ہیں۔

ملّا صاحب نے ۱۹۳۰ء میں جب مشاعروں کی دنیا میں قدم رکھا تو کم و بیش وہی زمانہ میرے بھی آغازِ شاعری کا تھا۔ لیکن وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں عمرِ شاعری میں بھی۔ ۱۹۳۲ء میں جب میں لکھنؤ کی مرکزی انجمن معین الادب کا ممبر بنا اور اس کے جس پہلے مشاعرے میں پہنچا، جس کی طرح تھی ’’قول و قرار کچھ نہیں، پھر بھی ہوں انتظار میں ‘‘ تو میں نے وہاں ملّا صاحب کو پہلے سے بیٹھا پایا۔ معین الادب کے سرپرست سرتیج بہادر سپرو تھے، صدر مولانا علی نقی صفیؔ لکھنؤی اور سکریٹری بہارؔ لکھنؤی اور بہارؔ صاحب کی یہ سکریٹری شپ بھی اپنی نوعیت کی ایک ہی سکریٹری شب تھی۔ پہلے وہ جا کر دعوت نامہ دے آتے، پھر وعدہ لینے جاتے، پھر یہ پوچھنے جاتے کہ حضور نے غزل شروع کر دی اور کچھ شعر کہہ لیے ہیں یا نہیں، کیوں کہ اس طرح انھیں یقین ہو جاتا کہ اگر شاعر نے دو ایک شعر بھی کہہ لیے ہیں تو وہ مشاعرے میں ضرور آئے گا۔ پھر ایک مرتبہ یاد دہانی کے لئے جاتے کہ حضور کل یا پرسوں مشاعرہ ہے، تجدیدِ وعدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں نے اس اہتمام کے ساتھ مشاعروں میں مدعو کرنے والا پھر کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔

بہر حال بہارؔ صاحب کو اپنی خدمات کا صلہ اس صورت میں ملا کہ ان کے انتقال کے بعد شہر کی ایک اور انجمن معراج الادب کے ساتھ معین الادب کا الحاق کر کے ایک نئی انجمن کی تشکیل کی گئی اور اس کا نام بہار صاحب کے نام پر بہار ادب رکھا گیا۔ لیکن یہ الحاق بھی ملّا صاحب ہی کی کوششوں کی بدولت عمل میں آیا کہ اس وقت ملّا صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا اس کام کو انجام دینے کا اہل ہی نہ تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ معراج الادب کے سارے ممبران جو ینگ پارٹی کے نام سے جانے جاتے تھے، پہلے معین الادب ہی میں شامل تھے، لیکن بعد میں علاحدہ ہو کر انھوں نے اپنی الگ انجمن بنا لی تھی۔ ملّا صاحب ایک طرف تو معین الادب کے ممبر تھے اور معین الادب میں شامل تمام اساتذہ ان پر بڑا پیار نچھاور کرتے تھے اور دوسری طرف معراج الادب والوں سے وہ معاصرانہ یارانے رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا تھا ہی نہیں جو ان بچھڑے ہوؤں کو پھر سے ملا سکتا۔ بہار ادب کے پہلے جنرل سکریٹری بھی ملّا صاحب ہی مقر ر ہوئے اور ان کے ساتھ قدیرؔ لکھنوی اور عمر انصاری سکریٹریز، لیکن عملی طور پر یہ ہو گیا کہ ایک سال ملا صاحب جنرل سکریٹری رہتے اور دوسرے سال سید آل رضا جنرل سکریٹری بنا دیے جاتے۔ جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جو جنرل سکریٹری آتا، کوشش کرتا کہ اس کے زمانے میں کوئی ایسا مشاعرہ ہو جائے جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ چناں چہ اسی مہم کی یادگار لکھنؤ کے وہ دو مشاعرے ہیں، جن میں سے ایک ’’محفلِ شعر و نغمہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرا ’’دریائی مشاعرہ‘‘ کہلایا۔

’’محفل شعر و نغمہ‘‘ میں، جو سید آل رضا کی جنرل سکریڑی شپ میں منعقد ہوئی۔ جہاں اس وقت کے متحدہ ہندوستان بھر کے مشہور و معروف شعراواساتذہ کو دعوتِ شرکت دی گئی اور ایک رات سفید بارہ دری قیصر باغ میں ایک عظیم الشان مشاعرہ منعقد ہوا جو پھر دیکھنے میں نہ آیا، وہیں دوسری رات ملک بھر کی مشہور و معروف گانے والیوں نے انھیں شعرا کی معرکۃ الآرا طبع زاد غزلیں گا کر سنائیں جو انھیں ایک ماہ قبل دے دی گئی تھیں اور وہ سب بڑی تیاریوں کے ساتھ آئی تھیں۔ غرض کہ یہ پروگرام ایسا ہوا کہ محفل تو ایک رات سجی اور ختم ہو گئی، لیکن اس کا چرچا برسوں چلا اور بعض مقامی شاعروں نے تو اپنی گانے والیوں کے کوٹھوں کو اپنا شام کا بیٹھکا ہی بنا لیا۔ سراجؔ لکھنوی نے یہ شعر اپنی گانے والی ہی کے لیے کہا تھا:

کبھی تو گا کے کبھی گنگنا کے لوٹ لیا

مرا کلام مجھی کو سنا کے لوٹ لیا

اور اب باری تھی ملّا صاحب کی، میں نے اور قدیر صاحب نے ملّا صاحب کے ہاں آمد و رفت بھی تیز تر کر دی کہ کوئی پروگرام ایسا ہی ترتیب دیا جا سکے جو ’’محفلِ شعر و نغمہ ‘‘ کا جواب ہو سکے۔ بہر حال ایک شام ملّا صاحب ہی نے کہا کہ بھئی تقریبات کے انعقاد میں موسم کا بھی لحاظ رکھنا ہوتا ہے اور آج کل کے موسم کا تقاضا ہے کہ ’’دریائی مشاعرے ‘‘ کا اہتمام کیا جائے۔ پہلے سب لوگ دریائی مشاعرے کا نام سن کر بہت حیرت میں پڑ گئے، پھر سب نے دیکھا کہ دریائی مشاعرہ اس شان سے منعقد ہوا کہ گرمیوں کا زمانہ تھا، چاند کی چودھویں تاریخ، گومتی کے پانی کی سطح پر ایک ایسا مہتم بالشان پنڈال تیار کیا گیا کہ پورا پنڈال ایک شاندار بجرہ نظر آتا تھا، چاروں طرف پانی چاند کی کرنوں کو اپنی لہروں میں سمیٹے پوری روانی کے ساتھ بہہ رہا تھا اور شعرا اسی روانی کے ساتھ مختلف پھولوں کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے پنڈال میں باری باری اپنا کلام سنا رہے تھے، مصرع طرح بھی اسی مناسبت سے مولانا صفیؔ نے نکالا تھا:

’’دریا کی روانی ہے، بہتا ہوا پانی ہے ‘‘

مجھے یاد ہے، ملّا صاحب اور امین سلونوی یو۔ پی کانگریس کے سالانہ جلسوں میں بھی امین الدولہ پارک میں مشاعروں کا اہتمام کرتے، جن میں سے ایک مشاعرے کی طرح تھی:

’’وطن پرست، وطن پر نثار ہوتے ہیں ‘‘

اور ایک مشاعرے کی طرح:

’’ہمارا ہی ہے گلشن اور ہمیں بھارو ہیں گلشن میں ‘‘

اور یہ مشاعرے، ان مشاعروں کے علاوہ ہوتے، جو بہار ادب کے ماہانہ مشاعرے ہوا کرتے تھے، ملّا صاحب کے دور میں بہار ادب ملک کی مقتدر ترین انجمنوں میں شمار ہوتی۔ مالک رام نے بھی اپنی یادداشتوں میں انجمن بہار ادب کو یاد کیا ہے۔

ملّا صاحب بہت ہی متحرک اور فعال شخصیت ہیں، لکھنؤ سے دلی منتقل ہو جانے کے بعد بھی جب وہ لکھنؤ آتے تو پہلے سے مجھے مطلع کروا دیا کرتے۔ میں ان کی آمد پر ’’بزم شعرائے لکھنؤ‘‘ کی شعری نشست کا اہتمام کرتا، ملّا صاحب کی آمد کی خبر سن کر لوگ اور بھی زیادہ بڑی تعداد میں شرکت کرتے، اور اس طرح ایک بڑی بھری پری نشست ہو جایا کرتی۔ ایک بار میں نشست میں انھیں لانے کے لیے جب نرالا نگر پہنچا جہاں وہ مقیم تھے، تو دیکھا تنہا تاش کی بازی جمائے بیٹھے ہیں اور دونوں طرف سے چالیں چل رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ تنہائی میں بھی خالی بیٹھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔

پیشہ کے اعتبار سے ملّا صاحب نے وکالت ہی سے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا، لیکن وکالت شروع کرتے ہی جو پہلا مقدمہ انھوں نے لڑا، وہ بھی ایک ادبی مقدمہ تھا جس کا عنوان تھا ’’سراجؔ لکھنوی بنام افقر موہانی‘‘ اور جس میں سراجؔ لکھنوی نے یہ شکایت کی تھی کہ افقر موہانی میرے کلام کو سراجؔ جھنجھانوی کا بتاتے ہیں اور مولانا افقر ؔموہانی نے واقعی سراجؔ جھنجھانوی کا ایک کرم خوردہ دیوان نہ جانے کیوں کر تیار کر کے پیش کیا تھا، جس میں وہ بہت سی غزلیں موجود تھیں جو سراجؔ لکھنوی پڑھا کرتے تھے۔ یہ مقدمہ ادبی اعتبار سے بڑا ہی دلچسپ مقدمہ تھا اور اس وقت کے تمام اہم شعرا سراجؔ لکھنوی کی جانب سے خانۂ شہادت میں آئے تھے، جن سے بڑی ادبی اور فنی جرحیں کی جاتیں۔

میرے ساتھ ان کے روابط اور وضع داری کا یہ حال ہے کہ ۱۹۷۴ء میں منعقد ہونے والی ’’جشن عمر انصاری‘‘ کی تقریب میں جب وہ سپریم کورٹ کے کسی مقدمہ کی مصروفیت کی بنا پر شرکت نہ کر سکے، تو لکھنؤ آتے ہی صباح الدین عمر کو ساتھ لے کر میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور پھولوں کے ہاروں کے ساتھ زری کے بہت ہی بیش قیمت ہار سے مجھے نوازا اور میری عزت افزائی کی۔

وہ ہمیشہ مجھے ’’استاد عمر انصاری‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور گلے لگاتے ہیں۔ لیکن استادی شاگردی کی روایت سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں شاعری کے لیے استادی شاگردی کی قطعی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ایک ملاقات میں جو دلی میں انھیں کے دولت کدے پر ہوئی، کہنے لگے آج کل کیا ہو رہا ہے، میں نے کہا ’’شاعری‘‘ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام سیکھا ہی نہیں۔ کہنے لگے ’’بھئی، یہاں دلی میں تو میرے زیرِ اثر استادی شاگردی کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہو گیا، تم بتاؤ کہ لکھنؤ میں اسے کب ختم کرو گے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا:

’’ ملّا صاحب آپ اس پر جتنا چاہے فخر کریں، آپ کی مرضی ہے، لیکن غالبؔ نے تو اس خیال سے کہ کوئی انھیں بے استاد نہ کہے، ایک خیالی استاد ہر مزد عبد الصمد خود تخلیق کر لیا تھا اور اس پر غالب کو بڑا ناز تھا، اس حد تک کہ اسی کو بہانہ بنا کر وہ قتیل اور صاحبِ غیاث اللغات جیسے اساتذہ سے بھڑ گئے اور جو منھ میں آیا سو کہہ ڈالا، ورنہ استاد کا نام لیے بغیر غالبؔ میں یہ جرأت کہاں سے آتی۔

اور آپ اس انسٹی ٹیوشن کے ختم کرنے کی جو بات کرتے ہیں، تو وہ ہمارے آپ کے ختم کیے ہرگز ختم نہ ہو گا۔ دلّی ہی میں مجھے ذرا اس شاعر کا نام تو بتائیے، جو کبھی کسی کا شاگرد نہ رہا ہو، انھوں نے کہا ’’گلزار‘‘ میں نے کیوں ؟ کیا گلزار نے کبھی اپنے والد زارؔ صاحب سے اصلاح نہ لی ہو گی ’’بولے ‘‘ وہ تو انھوں نے باپ بیٹے کے رشتے سے مشورہ سخن کر لیا ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’ملّا صاحب! باپ بیٹا ہو یا بیٹا باپ، مشورہ سخن تو شاگردی کی علامت ہے۔ ‘‘

ایک اور موقع پر جب انھوں نے ایک غزل سنائی، جس کا قافیہ دام، نام وغیرہ تھا اور ردیف ’’دو‘‘ تو اس وقت تو میں نے غزل سن لی، لیکن اس کا ایک مصرع میرے ذہن میں رہ گیا، کیوں کہ اس پر میرا دماغ آ ٹکا تھا۔ لہٰذا میں نے ان کے جاتے ہی، ان کے دلّی کے پتہ پر ایک خط لکھ مارا۔ اور لکھا کہ:

’’ملّا صاحب! آپ نے جو غزل سنائی اور جس شعر کا پہلا مصرع کچھ یوں تھا، کہ آپ نے اللہ میاں سے کہا ہے کہ زمانہ بہت خراب آ گیا ہے، لہٰذا اس کی تعمیر نو کے لیے :

پھر کوئی غالبؔ، کوئی حافظؔ، کوئی خیام دو

میرا خیال ہے کہ خواہ مخواہ آپ نے فارسی ہی کے تین تین شاعروں کو جمع کر دیا ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ غالبؔ کو اردو شاعر کی حیثیت سے لیا ہے، تو بھی میں عرض کروں گا کہ اردو کے بعد فارسی کے دو دو شاعروں کوٹھونسے رکھنا اور ہندی کے تلسیؔ داس کو چھوڑ دینا، کوئی مناسب بات نہیں، میرے نزدیک تو یہ مصرع یوں ہونا چاہیے تھا:

پھر کوئی غالبؔ، کوئی تلسیؔ، کوئی خیام دو

اور اسی سے آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ شاگردی استادی کا انسٹی ٹیوشن کوئی کارآمد انسٹی ٹیوشن ہے یا نہیں ‘‘۔

مجھے نہیں معلوم کہ ملّا صاحب فنِ شاعری کو فن بھی مانتے ہیں یا نہیں، کیوں کہ اگر واقعی وہ اسے فن مانتے ہیں، تو یہ ماننا بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ فن تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔

ملّا صاحب کے دس شعروں کا بھی جس کسی نے انتخاب کیا ہے، تو اس میں ملّا صاحب کا یہ شعر ضرور شامل کیا ہے :

خونِ شہید سے بھی ہے قیمت میں کچھ سوا

فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

اور ملّا صاحب کو بھی یہ شعر اتنا عزیز ہے کہ اسی پر انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ رکھا اور اس کی رسمِ اجرا وزیرِ اعظم ہند مسز اندرا گاندھی کے ہاتھوں کرائی۔ میرا خیال ہے کہ ایسے تمام لوگوں نے جن میں ان کے مقدمہ نگار بھی شامل ہیں، ملّا صاحب کا حقِ دوستی نہیں ادا کیا، بلکہ انھیں گمراہ کیا ہے۔ میرے نزدیک اگر ملّا صاحب کا کوئی استاد ہوتا اور وہ یہ شعر اس کے سامنے لے جاتے تو پہلے تو وہ یہی پوچھتا کہ ’’جناب کو یہ شعر کہنے کی کیا ایسی ضرورت پیش آ گئی جب کہ جوشؔ کا یہ شعر موجود ہے ‘‘:

بخدا عظیم تر ہے شہدا کے بھی لہو سے

میرے سینۂ قلم میں جو بھری ہے روشنائی

اور پھر بھی اگر ملّا صاحب شعر رکھنے ہی پر اصرار کرتے، تو وہ بتاتا کہ ’’بھئی‘‘ آپ کا شعر اس لیے سقیم ہے کہ آپ نے جہاں پر لفظِ شہید واحد استعمال کیا وہ جمع کا مقام ہے ’’شہداء، یا شہیدوں ‘‘ ہونا چاہیے، جیسا جوشؔ ملیح آبادی کے وہاں ہے۔ اور اپنا لال روشنائی والا قلم اٹھا کر ملّا صاحب کا مصرع کاٹ کے یہ مصرع لکھ دیتا: ع

قیمت میں ہے شہیدوں کے خوں سے بھی کچھ سوا

اور ملّا صاحب کا شعر درست ہو جاتا۔

مجھے افسوس ہے کہ ملّا صاحب نے اپنے ایسے عزیز ترین شعر کو ایسی سقیم حالت میں کیوں رہنے دیا، جب کہ وہ اگر ذرا غور کرتے تو خود بھی درست کر سکتے تھے۔ اور بہت سوچنے اور غور کرنے کے بعد بھی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ملّا صاحب کی شاعری کا یہ ایک المیہ ہے کہ اول تو انھوں نے کسی کے آگے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ بجز تحسین و آفریں کی آوازوں کے کوئی دوسری آواز کبھی ان کے کانوں میں گونجی ہی نہیں۔ اور ۱۹۴۷ء کی تقسیم ملک کے بعد جب اردو پر وقت پڑا تو ہُش ہُش اور چپ چپ میں شدت پیدا ہو گئی، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ملّاؔ کا کلام تنقید کی سان پر چڑھنے سے رہ گیا، جب کہ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ: ؎

رہ نما نقد ہے، تحسین ہے رہزن مرے دوست

دوست دشمن ہیں مرے، اور ہیں دشمن مرے دوست

یا پھر ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ترقی پسندوں کے گھیرے میں پہنچنے کے بعد ملّا صاحب نے خود ہی زبان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہو، کیوں کہ ترقی پسند موضوع کا نعرہ بلند کر کے زبان کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ کسی کے شعر میں اگر ذرا بھی زبان کا چٹخارہ پاتے، تو اس کی ہنسی اڑاتے اور موضوع وہ اسی کو مانتے تھے جس میں ان کے مطلب کی بات کہی گئی ہو۔ لیکن وہ تو ایسا اس لیے کرتے تھے کہ زبان و بیان کے معاملے میں کچے تھے۔ ملّا صاحب اہلِ زبان ہیں اور انھیں میں ان کے جیسا کچا نہیں سمجھتا۔

جب ان کی کتاب ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ شائع ہوئی اور اس پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا تو اس وقت تک وہ دلی منتقل نہیں ہوئے تھے، میں، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی اور امین سلونوی سب مل کر ملّا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس وقت ہمیں لوگ یہاں کی انجمن ترقی اردو چلا رہے تھے اور وہ اس کے صدر تھے۔ اور عرض کیا کہ ہم لوگ آپ کے لیے ایک استقبالیہ جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس روز ملّا صاحب کا نہ جانے کیا موڈ تھا کہ خلافِ معمول انہوں نے ہم لوگوں سے کچھ بہت اونچے سے بات کی، جو ہم تینوں کو کھل گئی، کیوں کہ ہمیں تو وہ لوگ تھے جو ہمیشہ انھیں اونچے سے اونچا اڑاتے رہے، مثل مشہور ہے ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘‘ انھیں اٹھانے میں ہمارے شانے دکھ دکھ گئے تھے، آوازیں پڑ پڑ گئی تھیں اور ہمیں سے وہ ایسی باتیں کریں کہ اے ون استقبالیہ ہو گا تو منظور کروں گا اور اس میں یہ بھی ہونا چاہیے اور وہ بھی وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بات کو یہیں پر چھوڑ کر ملّا صاحب سے پوچھا ’’اچھا ملّا صاحب یہ تو بتائیے کہ ’’ع‘‘ کے سقوط کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ‘‘۔ انھوں نے بے موقع میرے سوال پر کچھ سکوت کے بعد کہا ’’پہلے تم یہ بتاؤ کہ مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہے ہو‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میں نے آپ کا ’’ع‘‘ گرا ہوا پایا ہے ‘‘۔ کہنے لگے ’’کہاں سے ‘‘ میں نے کہا ’’آپ کی اسی میری حدیث عمر گریزاں سے ‘‘۔ میرا جواب سنتے ہی ملا صاحب فوراً اٹھ کر اندر گئے اور کتاب لا کر مجھے دیتے ہوئے بولے ’’دکھاؤ‘‘ میں نے کہا ’’دیکھ لیجئے کتاب کے آخر میں جو غزل چھپتے چھپتے کے عنوان سے چھپی ہے اسی میں ہے ‘‘ اور میں نے وہ صفحہ نکال کر کتاب ملا صاحب کو دے دی۔ ملا صاحب نے غور سے پڑھا، کتاب بند کر دی اور دوسری کتابیں شروع کر دیں۔ بہر حال ہمارا استقبالیہ انھوں نے منظور کر لیا، لیکن استقبالیہ تقریب میں جو چودھری شرف الدین صاحب کی کوٹھی پر منعقد ہوئی۔ پڑھنے کے لیے جو تازہ غزل کہہ کے لائے اس میں شعوری طور پر دو جگہ ’’ع‘‘ گرا کے لائے اور اس اعلان کے ساتھ پڑھا کہ ’’ع‘‘ چوں کہ الف کی آواز دیتا ہے، اس لیے میں اس کے سقوط کو جائز سمجھتا ہوں۔ ‘‘

میں یہاں یہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ملّا صاحب اپنے سہو کا اعتراف کر لیتے جو کبھی اور کسی سے بھی ہو سکتا ہے، تو میری نظر میں ان کا قد اور بلند ہو جاتا، لیکن جس طرح انھوں نے اپنی غلطی کا دفاع کیا، اس سے میں نے یہی سمجھا کہ ملّا صاحب جیسی شخصیت جب اپنی ذرا سی کمزوری کو چھپانے کے لیے فن کی سطح سے اتنا نیچے اتر سکتی ہے تو پھر کارِ طفلاں تمام خواہد شد کے علاوہ کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ کل کو اردو ہندی الفاظ کے ساتھ لطف و اضافت کو جائز قرار دینے ولا بھی ملا صاحب کی صف میں آ کھڑا ہو گا۔

میں ملّا صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے اندھیرے سے روشنی میں لے آئے اور یہ اعلان کر کے انھوں نے کبھی کسی سے مشورہ سخن نہیں کیا، میری ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کر دیا، ورنہ آج آنکھ بند کر کے میں انھیں مولانا صفی لکھنوی کا شاگرد لکھ دیتا، کیوں کہ ایک موقع پر یہی تاثر میرے دماغ نے قبول کر لیا تھا۔ اور وہ موقع وہ تھا جب بہار ادب کا ماہانہ مشاعرہ خود ملّا صاحب کے گھر ریڈ گیٹ پر منعقد ہوا تھا۔ طرح تھی: ’’سر اور کہیں، ہاتھ کہیں، پانو کہیں ہے، بہار ادب کے مشاعروں میں قدیر ؔ صاحب کو اور مجھے پہلے سے پہنچنا ہوتا تھا۔ چنانچہ قدیرؔ صاحب میرے یہاں آ گئے اور ہم دونوں ملّا صاحب کے گھر کی طرف چل پڑے، راستے میں قدیرؔ صاحب نے فرمایا ’’ہر گھر میں ایک الو ہوتا ہے، جو صاحبِ خانہ کہلاتا ہے، ہماری انجمن میں دو الو ہیں، ایک تم اور ایک میں، جو سکریٹری کہلاتے ہیں، کیوں کہ ہر بات کی ذمہ داری ہمیں دونوں کی اور پھر ہمیں دونوں کچھ نہیں، ‘‘ میں نے ان کی تالیف قلب کے لیے کہا ’’قدیرؔ صاحب ایسا ہے کہ ہم لوگ تو تاج محل کے مزدور ہیں، کہ تاج محل تو ہمیشہ شاہجہاں کا ہی کہلائے گا چاہے ہم لوگ اسے بنانے میں کتنی ہی اپنی جان کیوں نہ کھپا دیں۔ ‘‘ اور ہم لوگ یوں ہی باتیں کرتے ملّا صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا ملا صاحب نہیں ہیں، ہال کمرے میں ملازمین انتظام میں لگے ہوئے تھے، ہم لوگ بھی لگ گئے۔ کوئی گھنٹہ پون گھنٹہ کے بعد ملّا صاحب کے دفتر کا وہ دروازہ کھلا، جو ہال کمرے ہی میں کھلتا تھا اور آگے پیچھے صفیؔ صاحب اور ملّا صاحب برآمد ہوئے اور ہم لوگوں نے معاً یہی تاثر لیا کہ ملّا صاحب اپنی آج کی غزل مولانا صفی کو دکھا رہے ہوں گے۔ صفیؔ صاحب کو بعض دوسرے موقعوں پر سرِ مشاعرہ ٹو کم ٹاکی کرتے بھی دیکھا گیا۔ لیکن صفیؔ صاحب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تو یہ عادت ہی تھی۔ ایک مشاعرے میں جو راجہ صاحب محمود آباد کی زیر صدارت انھیں کے محل میں اقبال منزل میں ہو رہا تھا اور جس کی طرح ’’ مجھ کو پہچانا نہیں شاید مرا قاتل ابھی‘‘۔ جب سراجؔ صاحب کی باری آئی اور انھوں نے یہ شعر پڑھا:

یہ جو حرکت میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ

کسی نے فرمائش کی ’’ مکر ر ارشاد ہو‘‘ اور جیسے ہی سراجؔ صاحب نے پہلا مصرع دہرایا:

یہ جو حرکت میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ

کسی نے بلند آواز مصرع کو اُٹھایا:

یہ جو جنبش میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ

سراجؔ صاحب نے گھبرا کر مڑکے دیکھا، تو صفیؔ صاحب سے نگاہیں چار ہوئیں اور انھوں نے فرمایا: ’’ہاں میاں۔ حرکت تو فعلِ ناشائستہ کو کہتے ہیں۔ ‘‘

اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ اس زمانے کا کچھ دستور ہی ایسا تھا کہ جسے بھی جو کہنا ہوتا با لا علان کہتا۔ بہارِ ادب ہی کے ایک سالانہ مشاعرے میں جو رفاہِ عام کلب میں منعقد ہوا تھا، جب جگر ؔ مرادآبادی غزل پڑھنے ڈائس پر تشریف لائے تو بیٹھتے ہی انھوں نے کہا ’’مطلع میں ایطا ہے اور میں ایطا کو نہیں مانتا۔ ‘‘ آرزوؔ صاحب نے جو میرے پاس ہی تشریف فرما تھے اور کچھ اونچا سننے لگے تھے، ایک ہاتھ اپنے ایک کان پر رکھ کے اور دوسرا کان میرے منھ کے پاس بڑھا کے پوچھا ’’بھیا، جگر صاحب کیا فرما رہے ہیں ‘‘ میں نے کہا ’’فرما رہے ہیں، مطلع میں ایطا ہے اور میں ایطا کو نہیں مانتا‘‘ اس پر آرزوؔ صاحب دونوں ہاتھ اور آنکھیں چمکا کر بلند آواز سے جو جگرؔ صاحب کے کانوں تک بھی گئی، بولے ’’ نہیں مانتے تو پھر جو جی چاہے پڑھیں۔ ‘‘

اثر صاحب کا جب مجموعۂ کلام ’’بہاراں ‘‘ شائع ہوا تو وہ خاصا ضخیم تھا۔ اثرؔ صاحب نے جہاں اور رسالے والوں کو بھیجا وہیں ’’نگار ‘‘ میں ریویو کے لیے نیاز ؔ فتحپوری صاحب کو بھی بھیجا۔ کئی مہنے تک ریویو نہیں چھپا۔ آخر ایک تقریب میں دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ نیازؔ صاحب نے فرمایا ’’اثرؔ صاحب! وہ آپ کا بہاراں مجھے مل گیا تھا، ابھی ریو یو شائع نہیں ہوا، لیکن شائع ہو گا۔ آپ نے دو تین شعر واقعی بہت اچھے کہے ہیں۔ ‘‘ اثرؔ صاحب نے جل کے جواب دیا ’’ جی ہاں، وہ غلطی سے شائع ہو گئے ہیں، آئندہ اڈیشن میں نکال دیے جائیں گے۔ ‘‘

مولانا وصلؔ بلگرامی، لکھنؤ سے ماہنامہ ’’مرقع‘‘ نکالتے تھے، قیصر باغ میں رہتے تھے اور جاپلنگ مارٹ کے ایک کوٹھے پر ان کا دفتر تھا، جو شہر بھر کے شاعروں، ادیبوں کی آما جگاہ تھا۔ ایک روز وصلؔ صاحب ایک اور صاحب کے ساتھ دفتر میں بیٹھے تھے کہ مولانا بیخودؔ موہانی آ گئے جو مولانا نیازؔ فتحپوری کو ابھی صورت سے نہیں پہچانتے تھے۔ وصلؔ صاحب نے کہا ’’مولانا! آپ بڑے موقع سے آ گئے، میں مولانا نیازؔ فتحپوری صاحب کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھاکہ آپ کی کیا رائے ہے ‘‘ بیخودؔ صاحب نے بے ساختہ جواب دیا ’’ مہا گدھا‘‘ اس پر وصلؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ٹھیک کہا آپ نے مولانا اور لیجیے اب ان سے مل بھی لیجیے، یہی ہیں مولانا نیازؔ فتحپوری ’’بیخودؔ صاحب بغیر کسی جھجھک کے با نہیں پھیلائے نیاز ؔ صاحب کی طرف بڑھے اور کہا ’’نیاز ؔ صاحب! وہ میری رائے تھی اور یہ میرا اخلاق ہے، آئیے ہم آپ دونوں بغل گیر ہوں ‘‘ نیازؔ صاحب نے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا ’’مولانا! اگر آپ مجھے خالی گدھا کہتے تو برا ماننے کی بات ہوتی، مہا لگا کے آپ نے مجھے بڑا تو بنا ہی دیا۔ ‘‘

سردارجعفری نے کہیں لکھا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فیشن کے طور پر اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے لگے تھے۔ اور اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے ترقی پسند بننا کوئی مشکل بات تو تھی نہیں، میرے دو بیٹے شوکت عمر اوراقبال یہاں کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے باری باری سکریٹری رہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ملا صاحب ایک بھرا پرا کنبہ چھوڑ کر جس میں صفیؔ، عزیزؔ، یگانہؔ، ثاقبؔ، ناطقؔ، آرزوؔ، اثرؔ، منظرؔ، سراجؔ، سالکؔ اور عمر انصاری تک کے نام شامل تھے، جو ترقی پسندوں کی آغوش میں جا بیٹھے، تو اس سے انھیں فیض کیا حاصل ہوا۔ کیوں کہ میں تو آج بھی ترقی پسندوں کی جو فہرست بھی اٹھا کر دیکھتا ہوں، اس میں ملّا صاحب کا نام تو کہیں ڈھونڈے بھی نہیں ملتا، برعکس اس کے، ہم نے جب بھی کوئی فہرست تیار کی ہے، سرِ فہرست انھیں کا نام لکھا ہے۔ حد یہ ہے کہ خود کو محرومین کی فہرست میں شامل کر کے بھی، اور اس ’’پہلے ہم‘‘ والے زمانے پر نظر رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ’’حضرت پہلے آپ‘‘۔

یگانہ ہر چند کہ اس وقت حیدرآباد میں تھے، لیکن انھوں نے لکھنؤ کو خیر باد نہیں کہہ دیا جس کا گواہ ان کا یہ شعر ہے : ؎

کششِ لکھنؤ ارے توبہ

پھر وہی ہم، وہی امین آباد

کوئی کہہ سکتا ہے کہ حسرتؔ تو خود ترقی پسند تحریک میں شامل تھے، لیکن حسرتؔ ہوں، جوشؔ ہوں یا خود ملّا صاحب، ان کا تحریک میں شامل ہونا اور بات ہے اور تحریک کا کسی کو شاعر بنا کر پیش کرنا اور بات۔ کسی کے بنے بنائے مکان پر آپ قبضہ کر لیں اور کہیں کہ ہم نے بنایا ہے، تو کون یقین کرے گا۔ ترقی پسند تحریک کی پیداوار وہی شعرا ہیں، جو ۱۹۳۶ء کے بعد تحریک کے پلیٹ فارم سے روشناس ہوئے۔

ترقی پسند تحریک یقیناً ایک بڑی تحریک تھی، لیکن تعداد کے اعتبار سے بڑی تھی، وزن کے اعتبار سے نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی، وہ نہ ہی کوئی صفیؔ، عزیزؔ یگانہؔ، ثاقبؔ، ناطقؔ اور آرزوؔ ہی پیدا کر سکی۔ نہ کوئی حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، جگرؔ، جوشؔ اور فراقؔ۔ لے دے کے اس کے پاس ایک فیض احمد فیضؔ ہیں تو وہ بھی محض پبلسٹی کے شاعر ہیں، ورنہ ویسے ہی ہیں جسیے ہمارے سراجؔ لکھنوی۔ اور فیضؔ کی شاعری کا امتیاز بھی بس اسی میں ہے کہ انھوں نے لکھنو کا آہنگ اور انداز اختیار کیا۔ مثال کے لیے یہ دو شعر ملاحظہ کیجئے اور خود فیصلہ کر لیجیے : ؎

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

(میرا نیسؔ)

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے، تو سوئے دار چلے

(فیض احمد فیضؔ)

اور اگر اس سلسلے میں کچھ مزید تا حال ثبوت درکار ہو، راقم الحروف، خاکسار، ہیچمداں بھی اپنے اشعار پیش کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔

فیض ؔ صاحب فرماتے ہیں : ؎

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

خاکسار عرض کرتا ہے : ؎

جھونکے کچھ آ گئے جو کبھی یادِ یار کے

ہمراہ ہولیا میں نسیمِ بہار کے

فیض ؔ صاحب کا شعر ہے : ؎

احساسِ جنوں جبر نہیں فیضؔ کسی کا

وہ دشمنِ جاں ہے، تو بھلا کیوں نہیں دیتے

اس ہیچمداں کا شعر ہے : ؎

جن آنکھوں نے دیکھا ہے انھیں آنکھوں سے پوچھو

ہم اس بت کافر کو بھلا کیوں نہیں دیتے

سفرِ زندگی کے اتنے لمبے ساتھ اور رفاقت کا بہر حال یہ صلہ ہے کہ مجھے ملّا صاحب کی خدمت میں خوش طبعی اور ان کے ساتھ چھیڑ خانی کی بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو میں نے خود لے رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مضمون لکھتے وقت اس کا قطعی لحاظ نہیں رکھا ہے کہ اخلاقی باتوں سے گریز کر جاؤں یا انھیں ہمیشہ کی طرح چھپائے رکھوں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں وہ میرے خلوص پر یقین رکھتے ہیں اور میری شوخی زبانی کا کبھی برا نہیں مانتے اور جب شوخ زبانی کا برا نہیں مانتے، تو شوخ نگاری کا بھی کیا برا مانیں گے۔ مزید برآں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ملا صاحب جمہوری مزاج رکھتے ہیں، وہ صرف ہاں میں ہاں ملانے والوں کو پسند نہیں کرتے اور اختلاف رکھنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ تو میرے سامنے کی بات ہے کہ وہ تو شوکت تھانوی کی اوٹ پٹانگ بھی سہہ لیتے تھے، بلکہ اس پر خوش بھی ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ شوکت تھانوی نے لکھا کہ ’’ملا صاحب جب مشاعرے میں غزل پڑھتے ہیں تو لگتا ہے ہم امین آباد میں کھڑے ہیں اور تار پر کوا گھمانے والا، کوا تار پر گھما گھما کر بیچ رہا ہے۔ کیوں کہ ملّا صاحب کی آواز ویسی ہی نکلتی ہے جیسے تار پر گھومنے والے کوّے کی۔ اس پر ملا صاحب نے اتنا لطف لیا کہ شوکتؔ کو بلا کر ان کی فن شناسی کی داد دی اور کہا ’’ میں تو سمجھتا تھا کہ میری موسیقی کو کوئی سمجھتا ہی نہ ہو گا، لیکن تمہارے تبصرے سے معلوم ہوا کہ ابھی کچھ جان کار موجود ہیں۔ ‘‘

اپنی غزل سرائی کے سلسلہ میں ملّا صاحب نے خود بھی ایک قطعہ لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے کسی دوست نے یہ کہہ کے انھی مشورہ دیا کہ آپ ترنم سے غزل نہ پڑھا کریں، کیوں کہ:

گلے میں ہے آپ کے جو سرگم، کوئی نہیں ان سروں سے واقف

سمجھنے والا ہی جب نہیں ہے، تو فن دکھانے کی کیا ضرورت

ملّا صاحب قائدِ اردو کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے بڑی ذہانت سے اردو کا کیس تیار کیا اور بڑی مضبوطی کے ساتھ لڑا، اور یہاں تک کہہ دیا کہ:

’’میں اپنا مذہب تبدیل کر سکتا ہوں، زبان نہیں۔ ‘‘

الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ کے جج کی حیثیت سے بھی کئی معرکۃ الآرا  دو ٹوک فیصلے صادر کیے اور خاص کر پولیس کے بارے میں تو ان کا ریمارک ہر چند کہ کاروائی کی دستاویز سے نکال دیا گیا، لیکن لوگوں کے دماغوں میں محفوظ ہے اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

ملّا صاحب کی شرافت نفس، عادات و اطوار سب نہایت نفیس اور مثالی ہیں اور ورثے میں ایک ایسے شفیق باپ پنڈت جگت نرائن ملا سے ملے ہیں، جو بذاتِ خود لکھنوی تہذیب اور قومی یک جہتی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے کہ انھوں نے آخری سانس بھی لی، تو فرم ’’احمد حسین دلدار حسین‘‘ کے پروپرائٹر احمد حسین صاحب کی کوٹھی پر، انھیں کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے، احمد حسین صاحب نے کوئی چال چلی اور قدرے انتظار کے بعد جب کہا ’’پنڈت جی چال چلیے، کیا سوچ رہے ہیں ‘‘ تو معلوم ہوا کہ پنڈت جی تو واقعی چال چل گئے۔

غرض کہ ملّا صاحب میرے لیے ایک ایسی کھلی کتاب کی سی حیثیت رکھتے ہیں، جسے میں گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پڑھتا ہی رہا ہوں۔ انھیں میں نے لکھنو کی عدالتوں میں وکالت کرتے بھی دیکھا ہے، جج کی کرسی پر بیٹھے بھی دیکھا ہے، ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے، قائد اردو، شاعر، ادیب اور دانش ورکی حیثیت سے بھی دیکھا ہے اور اسی بنا پر میں یہ کہنے کا منھ رکھتا ہوں کہ: ؎

مجھ سے پوچھے کوئی اس کا عالم

میں نے دیکھا ہے اس کا زمانہ

ملّا صاحب کی کئی نظمیں، کتنی ہی غزلیں اور بے شمار اشعار مجھے زبانی یاد ہیں لیکن یہاں چند ہی اشعار پر اکتفا کرنا مقصود ہے : ؎

سب خضر مگر رستہ دو گام نہیں ملتا

ہر موڑ کا اک ساقی اور جام نہیں ملتا

 

اکیلا غم کی سیہ شب میں خستہ پا انساں

ازل سے جنتِ گم گشتہ کی تلاش میں ہے

 

آرزو پوری نہ ہوتی تو نہ ہوتی غم نہ تھا

غم تو یہ ہے، آرزو کا حوصلہ جاتا رہا

 

تجھ سے اوبتا کبھی اے زیست

تجھ کو جی بھر کے پیار ہی نہ کیا

 

جنت اجڑی تو کیا ہم سے، فرشتوں کو بلا

ہم نکالے بھی گئے اور بسائیں بھی ہمیں

 

قفس کے، دارورسن کے ہر اک زباں پہ سخن

ترس گئے کہ کبھی آشیاں کی بات چلے

 

روشنی کا لے کر نام لڑ رہے ہیں آپس میں

اس طرف بھی کچھ سائے، اس طرف بھی کچھ سائے

 

امن کی اس جنگ جو دنیا میں سنتا کون ہے

ہر پیام صلح، صحرا کی اذاں بنتا گیا

 

ملّا یہ اپنا مسلک فن ہے کہ رنگ فکر

کچھ دیں فضائے دہر کو، کچھ لیں فضا سے ہم

 

انقلاب، اتحاد، آزادی

کل یہ نعرے تھے، آج نالے ہیں

 

مل پائے ہیں اب تک، نہ یہ فرزانے ملیں گے

اک روز انھیں روند کے دیوانے ملیں گے

 

میں کیا سمجھ سکوں ترے آئینِ عدل کو

کانٹوں کا بھی تو ہی تو خدا ہے خدائے گل

 

دل اعترافِ جرم سے پھر جگمگا اٹھا

سب داغ دھل کے اشکِ پشیماں میں آ گئے

 

وادیِ شعر میں یہ جادۂ ملّا ہی نہ ہو

اک الگ ہٹ کے نشانِ کف پا ہے تو سہی

 

آخر میں اتنا اور عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’مقصدی شاعری‘‘ جس کا ترقی پسندوں نے اپنے زمانے میں بڑا شور اٹھا رکھا تھا، یقیناً اچھی اور مفید شاعری ہے، میں بھی اس کا قائل ہوں، لیکن بڑی شاعری کا درجہ اسے نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ اس کی عمر کم ہوتی ہے، مقصد پورا ہوتے ہی اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور وہ محض تاریخ کا ایک حصہ ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ مقاصد ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں ٹکراؤ بھی رکھتے ہیں اور زمان و مکان کے اعتبار سے مختلف بھی ہوتے ہیں اور بدلتے بھی رہتے ہیں۔ خود ہندوستان ہی میں دیکھ لیجئے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح کا یہ حال تھا کہ ہم یہ کہہ رہے تھے : ؎

قدم قدم پہ اندھیروں نے بیڑیاں ڈالیں

طلوع ہوکے رہا آفتابِ آزادی

اور ترقی پسند یہ فرما رہے تھے :

چلے چلو، کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

٭٭٭

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا: چند یادیں

 

                ……… عابدسہیل

 

پنڈت آنند نرائن ملّا کو تقریباً ۴۹ سال قبل کی سردیوں میں پہلی بار دیکھا۔ میری ماموں زاد بہن کی شادی تھی، دعوت نامہ ان تک پہچانے کی ذمہ داری میرے سپرد ہوئی۔ گولا گنج میں ان کا بڑا سا مکان جس بہت بڑی عمارت کا حصہ تھا وہ ساری کی ساری سرخ تھی اور شاید اسی مناسبت سے ریڈ گیٹ کہلاتی تھی۔ غالباً اس زمانے میں بجلی کی گھنٹی کا رواج نہیں تھا یا ممکن ہے مجھے اس کا علم نہ رہا ہو۔ میں نے زنجیر کھٹ کھٹائی۔ ملازم باہر آیا جس سے میں نے ملّا صاحب کے بارے میں دریافت کیا اور کارڈ دے دیا۔

مجھے فوراً ہی واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن شاید اس خیال سے کہ کوئی جواب ملے یا معلوم نہیں کیوں میں کچھ دیر کھڑا رہا۔ اتنے میں کرتے پاجامے اور گرم سیاہ واسکٹ میں ایک سرخ و سفید شخص مکان سے برآمد ہوا۔ آنکھ کے اشارے سے دریافت کیا کہ کیا دعوت نامہ میں ہی لایا ہوں۔ میں نے اثبات میں سرہلایا تو مجھے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ دروازہ ایک بڑے سے صحن میں کھلتا تھا جہاں ایک تخت پر سرخ کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون انگریزی کا کوئی اخبار پڑھ رہی تھیں۔ نظر اٹھا کر انھوں نے ہماری طرف دیکھا اور پھر اخبار پڑھنے لگیں۔ بہت دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ یونیورسٹی کی مشہور و معروف طالبہ اور ملا صاحب کی بیٹی چترا ملا تھیں۔

ملّا صاحب مجھے اپنے سادگی سے سجائے ہوئے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ علیم صاحب کو سلام کہلایا، شادی کی تقریب میں شرکت کا وعدہ کیا اور چائے پلانے کے بعد ہی رخصت ہونے دیا۔ یہ دن اتوار کا رہا ہو گا۔

میں اسی سال ہائی اسکول کا امتحان پاس کر کے لکھنؤ آیا تھا۔ یہاں کے اخلاق و آداب سے واقف نہ تھا۔ یہ تک نہیں جانتا تھا کہ ملّا صاحب کا شمار شہر کے ممتاز ترین وکیلوں میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے میں نے ان کی جانب اس عزت و احترام کا مظاہرہ نہ کیا ہو گا جس کے وہ مستحق تھے۔ لیکن مجھ جیسے خام کار نوجوان سے وہ جس محبت سے پیش آئے تھے اس سے بے حد متاثر ہوا تھا۔

ملّا صاحب کو پہچانا دس برس بعد، جب اولڈ انڈیا کافی ہاؤس میں میرا آنا جانا شروع ہوا۔ کار کی چابی کی زنجیر ان کی انگلیوں میں رقصاں رہتی۔ ہر شخص ان سے یونیورسٹی میں شعبۂ معاشیات کے سربراہ ڈی۔ پی۔ مکرجی، ڈاکٹر عبد العلیم اور نیشنل ہرالڈ کے مشہور ایڈیٹر ایم چیلا پتی راؤ کی طرح عزت و احترام سے پیش آتا۔ ایک ایک لفظ تول کے ان سے گفتگو کرتا۔ مجاز اور سلام مچھلی شہری کے علاوہ جن پر سات خون معاف تھے۔

ملّا صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں شرکت کرتے، پابندی سے نہیں، لیکن اکثر و بیشتر کبھی کبھی اپنا کلام سناتے اور بحث و مباحثے میں حصہ لیتے۔ نپے تلے مختصر جملے ٹھہر ٹھہر کر بولتے۔ کبھی کبھی ان دلیلوں میں قانون کی چھینٹ بھی نظر آتی۔

بعد میں بزمِ ادب کے جلسوں میں جو سید صدیق حسن، حبیب احمد صدیقی اور چند دوسرے آئی سی ایس افسران اور ملّا صاحب کے دولت کدوں پر ہوتے اور جن کے سلسلے میں امین سلونوی، رضاؔ انصاری اور عمرؔ انصاری صاحب خاصے سرگرم رہتے، کبھی کبھی میرا گذر بھی ہو جاتا۔ ایسی ہی ایک نشست میں جو پریس کلب کے پاس اور سابق امریکن لائبریری کے سامنے ملّا صاحب کے مکان پر ہوئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلا سمپور نا نند نے اپنی غزل سنائی تھی۔ یہ غزل انھوں نے اردو رسم الخط میں لکھی تھی اور بعد میں انہیں کی تحریر میں اور ان کے دستخط کے ساتھ قومی آواز میں شائع ہوئی تھی۔ میں ان دنوں قومی آواز میں غالباً سب سے جونیر سب ایڈیٹر تھا۔

ملّا صاحب یوپی ہائی کورٹ کے جج مقر ر ہوئے تو انھوں نے کافی ہاؤس اور ادبی نشستوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔ سبب اس کا صرف یہ تھا کہ وہ عہدے کا وقار قائم رکھنے کے لیے ذرا الگ تھلگ رہنا چاہتے تھے۔ اس میں کسی قسم کا غرور ہرگز شامل نہ تھا۔ اس عہدے سے سبک دوش ہونے کے شاید اگلے ہی دن وہ حسب سابق کار کی چابی کا چھلا انگلیوں میں گھماتے، سفید شیروانی، سفید ٹوپی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس کافی ہاؤس کچھ اس طرح آئے جیسے وہاں جانا انھوں نے کبھی ترک ہی نہ کیا ہو۔

شاعری اردو پرستی اور اپنے پیشے میں مہارت کے سبب وہ شخصیت پہلے بھی تھے لیکن اس دوران جب وہ ہائی کورٹ کے جج تھے، ان کے ایک فیصلے نے انھیں یکا یک ملک گیر شہرت کا مالک بنا دیا، جو یوپی پولیس کے خلاف تھا۔ ان کایہ فیصلہ شاہ سرخیوں کے ساتھ ہندوستان کے سارے اخباروں میں شائع ہوا اور اس پر اداریے لکھے گئے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ لیکن اس سے ملا صاحب کی شہرت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اتفاق سے محمد نعیم نامی میرے ایک عزیز جو مشہور صحافی لکشمی کانت تیواری کے کلاس فیلو اور انہی کی طرح ہاکی کے معروف کھلاڑی تھے، بطور پولیس انسپکٹر اس مقدمہ میں ماخوذ تھے اور ملّا صاحب کے فیصلے کا اصل نشانہ وہی تھے۔ برسوں بعد میں نے ملّا صاحب سے نعیم اور اپنے رشتہ داروں کا ذکر کیا تو یکایک وہ خاموش ہو گئے۔ چند لمحوں بعد انھوں نے کہا:

’’میں نعیم صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ‘‘

میں نے یہ سوچ کر کہ نعیم بھائی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے انھیں اپنے ساتھ لے کر آنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن میری پریشانی کا کوئی انتہا نہ رہی جب نعیم بھائی نے ملّا صاحب سے ملاقات کرنے سے ان کار کر دیا۔ کئی دنوں بعد جب میں ملّا صاحب کے یہاں گیا تو میرا خیال تھا کہ وہ اس بات کو بھول چکے ہوں گے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد انھوں نے پوچھا: ’’آپ نعیم صاحب کو نہیں لائے ؟‘‘

میں نے نعیم بھائی کے دو ٹوک ان کار میں گل بوٹے ٹانک کر نرم ترین الفاظ میں انھیں صورت حال سے مطلع کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن ان کے چہرے پر رنج و غم کی علامات ظاہر تھیں۔ میری جانب خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہے۔ یکایک میں نے محسوس کیا کہ ان کی آنکھیں نم ہیں۔ حالات کے اس غیر متوقع موڑ کے لیے میں قطعاً تیار نہ تھا، بے حد پریشان ہو گیا۔ میری پریشانی بھانپتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’میں عدالت کے باہر ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا تھا‘‘

جواب کیا دیتا، خاموش رہا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

برسوں بعد کانگریس نے شہر کے مشہور صنعت کار وی۔ آر۔ موہن کو کانگریس کا ٹکٹ دیا تو ساری مخالف سیاسی جماعتوں نے جن میں کمیونسٹ پارٹی پیش پیش تھی، ملا صاحب کو بطور آزاد امیدوار مقابلہ کے لیے آمادہ کر لیا۔ میں ان دنوں نیشنل ہرالڈ میں سب ایڈیٹر تھا۔ نیشنل ہرالڈ کانگریس بلکہ نہرو خاندان کا اخبار ہونے کے باوجود وی آر موہن کی مخالفت کر رہا تھا۔ چیلاپتی راؤ نے کانگریس کے فیصلے کے خلاف اداریے بھی لکھے تھے اور کھل کر ملا صاحب کی حمایت کی تھی۔ دلیل ان کی تھی کہ کانگریس میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی بالادستی سے پارٹی کے اصولوں کو ضرب پہنچے گی۔

ان دنوں اندرا گاندھی وزیر اعظم اور کانگریس کی صدر تھیں۔ کانگریس کو ووٹ دینے کی اپیل پورے صفحہ کے اشتہار کی صورت میں بڑے روزناموں میں شائع ہوتی۔ اس اشتہار میں اندرا گاندھی کی تصویر اور عبارت تو وہی رہتی، بس حلقۂ انتخاب کی مناسبت سے امیدوار کا نام بدل جاتا۔ لکھنؤ اور کان پور کے علاوہ متعدد مقامات کے کانگریس کے امیدواروں کے سلسلے میں اشتہارات نیشنل ہرالڈ، قومی آواز اور نوجیون میں شائع ہوتے۔ ایک دن شعبۂ اشتہارات کے منیجر نے ڈرتے ڈرتے چیلا پتی راؤ سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ ملاقات اگلے دن ہوئی جس کے دوران انھوں نے کانگریس کا وہ اشتہار جس میں وی آر موہن کو ووٹ دینے کی اپیل کی گئی تھی انھیں دکھایا۔ اشتہار دیکھتے ہی راؤ صاحب آگ بگولہ ہو گئے اور اشتہار ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے انھوں نے انگریزی میں کہا:

’’اخبار کی پالیسی کے خلاف کوئی اشتہار نیشنل ہرالڈ میں کیسے شائع ہو سکتا ہے ؟‘‘

چنانچہ یہ اشتہار نیشنل ہرالڈ میں شائع نہیں ہوا اور اخبار ملا صاحب کی انتخابی مہم کی خبریں تفصیل سے شائع کرتا رہا۔

اس واقعہ کا ملّا صاحب سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں، لیکن اس سے اس وقت کی سیاست، صحافت اور خود لکھنؤ کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے جس کی ایک اہم شخصیت آنند نرائن ملّا تھے۔ افسوس اب یہ سب کچھ داستان پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی سے تعلق اور ملّا صاحب سے تھوڑی سی قربت کے سلسلے میں اپنی بساط بھر میں بھی ان کی انتخابی مہم میں سرگرم تھا۔ ڈالی گنج کا سارا علاقہ وی۔ آر۔ موہن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اتفاق سے ڈالی گنج میں نعیم بھائی کا مکان فیض آباد روڈ پر تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد سلیم ڈالی گنج میں بے حد مقبول تھے اور برسوں سے وہاں کی مشہور رام لیلا کمیٹی کے سب کچھ۔ کچھ دن قبل بطور آزاد امید وار انھوں نے میونسپل بورڈ کی ممبری کے لیے الکشن لڑا تھا۔ دو رکنی حلقے میں کمیونسٹ پارٹی نے ڈالی گنج سے سوہن لال اور شنکر لال کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ سلیم بھائی کے لیے ایک نشست جیتنا کچھ ایسا مشکل نہ معلوم ہوتا تھا، کیوں کہ شنکر لال مقابلتاً کمزور امید وار تھے۔ کمیونسٹ پارٹی سے اپنے تعلق کی وجہ سے میں نے سوہن لال اور شنکر لال کے لیے کھل کر کام کیا تھا۔ سلیم بھائی کا سامنا ہو جاتا تو ایک عجیب سا احساس ضرور ہوتا لیکن نظریات کی لڑائی میں رشتہ داری کی کیا اہمیت۔ یادش بخیر وہ زمانہ سیاست تک میں نظریے کی بالادستی بلکہ حکمرانی کا تھا۔ سلیم بھائی صرف چند ووٹوں سے ہار گئے اور محلہ والوں نے کہا کہ بھیا گھر کے داماد کی مخالفت کی وجہ سے ہار گئے۔

وی۔ آر۔ موہن رام لیلا کے سلسلے میں خاصی مدد کیا کرتے تھے، اس لیے سلیم بھائی سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے ملا صاحب کی حمایت کرنے کی درخواست کی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن چند دنوں کے بعد جب میں نے ملا صاحب کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ڈالی گنج میں جلسہ کا انتظام کیا تو اسٹیج میری اہلیہ کے مکان کے چبوترے پر بنایا گیا۔ جلسہ شروع ہونے سے قبل یکایک میری نظر سلیم بھائی پر پڑی تو انھوں نے آگے بڑھ کر مجھ سے کہا: ’’عابد بھیا! میں ملا صاحب کے لیے کام کروں گا۔ ‘‘

سلیم بھائی مجھے ہمیشہ عابد بھیا ہی کہتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف جلسے میں شرکت کی بلکہ اس کی صدارت بھی کی اور ملّا صاحب کی حمایت میں تقریر بھی۔ ملّا صاحب کی تقریر تو نہایت عمدہ تھی ہی۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈور والی مسجد سے ڈالی گنج پل کے اطراف میں ملا صاحب کو بالادستی حاصل ہو گئی اور وی۔ آر۔ موہن کا گڑھ ٹوٹ گیا۔ لیکن ابھی اس واقعہ کا ذکر باقی ہے جسے بیان کرنے کے لیے میں نے یہ سارا پس منظر پیش کیا ہے۔

برسوں پہلے میں نے نعیم بھائی کا ذکر کرتے ہوئے شاید ملّا صاحب کو یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا مکان کہاں ہے۔ ملّا صاحب کو یہ قطعاً معلوم نہ تھا کہ سلیم بھائی نعیم صاحب کے بھائی ہیں۔ جلسہ ختم ہو گیا تو دوسری باتیں کرتے کرتے ملا صاحب نے کہا: ’’نعیم صاحب شاید یہیں کہیں رہتے ہیں۔ میں جاؤں تو ملاقات ہو سکتی ہے۔ ‘‘ میں کیا جواب دیتا۔ ان کے ساتھ نعیم بھائی کے گھر کی طرف جو بمشکل چند قدم کے فاصلے پر سڑک کی دوسری جانب تھا، چل پڑا اتفاق سے نعیم بھائی موجود تھے۔

’’نعیم بھائی نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا۔ چائے اور ناشتے سے ضیافت کی۔ دوران گفتگو ملّا صاحب کے استفسار پر نعیم بھائی نے کہا:

’’ہمارے لیے سچ اور جھوٹ کے پیمانے عام پیمانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب ہم کو کسی ملزم کے بارے میں یقین ہو جاتا ہے کہ مجرم وہی ہے تو اس پر الزام ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہیاں فراہم کرنے کو ہم جھوٹ نہیں سمجھتے۔ کسی خونخوار مجرم کے خلاف کوئی شریف انسان گواہی دینے کے لیے کیسے تیار ہو گا؟‘‘

ملّا صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن رخصت ہوتے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے انھوں نے نعیم بھائی سے کہا:

’’آپ بھی سچے تھے اور قانون بھی سچا۔ ‘‘

لطف کی بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے دوران انتخابات کے سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔

یہ تھے پنڈت آنند نرائن ملاؔ

ملّا صاحب کو دوسری ملک گیر بلکہ اردو دنیا گیر شہرت ان کے اس جملے کی وجہ سے ملی جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں لیکن زبان نہیں بدل سکتا۔ ‘‘

یہ جملہ ملّا صاحب کی اس عالمانہ تقریر کا حصہ تھا جو انھوں نے اردو متحدہ محاذ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کی تھی۔ جہاں سے ایک بھی جذباتی تقریر نہیں کی گئی تھی۔ اردو کے مسئلہ کو عملی، اصولی اور منطقی نقطہ نظر سے دیکھا اور پیش کیا گیا تھا چنانچہ اس کی گونج ایوان اقتدار میں دیر تک سنائی دیتی رہی۔ سچ پوچھیے تو اردو کے حق میں ذاکر صاحب اور حیات اللہ انصاری صاحب کی قیادت میں لاکھوں دستخطوں کے حصول اور انھیں اس وقت کے صدر جمہوریہ کی خدمت میں پیش کیے جانے کے بعد مدلل طور پر اٹھائی جانے والی یہ پہلی آواز تھی۔

اس کانفرنس کی تیاریوں کے دوران مجھے ملّا صاحب کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ اس کی تیاری کے لیے جو ۹ رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں آخری نام میرا بھی تھا۔ اردو ان کا جزو ایمان تھی، ہر کام وہ نہایت سلیقے سے کرتے تھے، ایک ایک تفصیل پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ انھیں ہندی پریمیوں کے خدشات کا بھی احساس تھا۔ چنانچہ اردو کا مقدمہ اس قدر مدلل اور غیر جذباتی طریقہ سے پیش کیا گیا تھا کہ کسی ہندی پریمی کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا موقع نہ ملا۔

اردو اور اپنے مذہب کے متعلق ملا صاحب کا یہ جملہ الفاظ کی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ انھوں نے ان خیالات کا اظہار جامعہ میں تقریر کرتے ہوئے کیا تھا اور بعض دوسرے اسے جے پور کانفرنس سے منسوب کرتے ہیں جب کہ ان کا یہ جملہ رفاہِ عام کلب کی اس کانفرنس کی دین ہے جس میں سید احتشام حسین، مولانا اسحاق سنبھلی، قاضی عدیل عباسی اور ڈاکٹر فریدی ایسے مستند ادیب اور سیکولر ذہنیت کے مالک افراد شریک تھے۔ یہ واقعہ غالباً اگست ۱۹۶۴ء کا ہے۔

ملّا صاحب اتر پردیش اردو اکادمی کی خشت اول رکھنے والوں میں شامل تھے اور ان کے دور میں اس ادارہ کی کیا آن بان تھی۔ بعد میں اردو اکادمی نے ’’بین تفاوت رہ ازکجاست تابہ کجا‘‘ کے جو نمونے پیش کیے ان کے پیش نظر اب اس دورِ زریں کو یاد کرنا بھی مشکل ہے۔

بعد میں ملّا صاحب دہلی منتقل ہو کر سپریم کورٹ میں وکالت کرنے لگے، کانگریس کے ٹکٹ پر دوبار راجیہ سبھا ممبر چنے گئے۔ا نجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر رہے، ہندو پاک ٹیریبونل کے چیئر مین تھے۔ لیکن ان عہدوں سے ان کی عزت و وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ صورت حال اس کے برعکس تھی۔

ملّا صاحب فرد ہی نہیں، انجمن بھی تھے۔ اردو سے ان کی محبت عملی تھی محض جذباتی نہیں۔ شاعر وہ بہت بڑے نہیں تھے۔ ان کی شاعری اور خاص طور سے نظموں پر اقبالؔ کا اثر دیکھا جا سکتا ہے، کہیں براہ راست اور کہیں کچھ اس قسم کا جس کے سبب شبلی سرسید اسکول سے متعلق گردانے جاتے ہیں۔

وہ مشاعروں کے شاعر بھی نہ تھے تاہم ان میں شرکت کرتے تھے اور بیشتر صورتوں میں خاصے ناکامیاب ثابت ہوتے تھے۔ ان کی ناکامی کا سبب ان کی غزل یا نظم کا معیار ہرگز نہ تھا کیوں کہ خراب تخلیق پیش کرنے والے تک اکثر داد کے ڈونگرے بٹور لے جاتے تھے۔ مشاعروں میں ان کی ناکامی کا اصل سبب ترنم سے کلام سنانے پر ان کا اصرار تھا اور کمرہ عدالت میں گونجنے والی ان کی آواز مشاعروں میں جادو جگانے سے قاصر رہتی جس کے سبب اچھے اشعار سنا کر بھی وہ اکثر ہوٹ ہو جاتے تھے۔

ملّا صاحب کو مشاعروں میں ہوٹ ہو جانا منظور تھا لیکن ترنم کے بغیر، جسے مشکل ہی سے یہ نام دیا جا سکتا تھا، غزل سنانا منظور نہ تھا۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ آپ چاہیں تو باتوں کے بجائے ضد بھی کہہ سکتے ہیں۔

ملّا صاحب کے اٹھ جانے سے ہم ایک ایسی شخصیت سے محروم ہو گئے جو شرافت، مروت، اردو پرستی اور لکھنؤی تہذیب و اخلاق سے عبارت تھی۔ پنڈت سندر لال کی طرح اب ان کے ایسا اردو کا دوسرا شیدائی شاید ہی ان آنکھوں کو دیکھنے کو ملے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آنند نرائن ملّا: کچھ یادیں !

 

                ……… رفعت سروش

 

’’ہیلو۔ ‘‘

’’رفعت صاحب! میں خلیق انجم بول رہا ہوں، آج ملّا صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے، ساڑھے پانچ بجے ’بجلی گھاٹ‘ پر ان کی آخری رسوم ادا کی جائیں گی۔ ‘‘

’’میں پہنچ رہا ہوں۔ ‘‘

ساڑھے چار بج چکے تھے، میں نے سب سے پہلے گلزار دہلوی کو فون کیا۔ خیال تھا کہ ان کے پاس گاڑی ہو گی۔ گلزار بھی اس خبر کو سن کر سناٹے میں آ گئے۔ حالانکہ یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی مگر افسوس ناک ضرور تھی۔ ملّا صاحب گذشتہ ایک سال سے صاحبِ فراش تھے۔ گلزار نے کہا، اس وقت گاڑی کا ڈرائیور نہیں ہے، میں نے کہا، کوئی بات نہیں، تھری وہیلر سے چلیں گے … میرے ذہن میں ملّا صاحب سے متعلق سیکڑوں باتوں اور یادوں کا ہجوم عود کر آیا… جلدی جلدی لباس تبدیل کیا۔ ادھر سے گلزار آ گئے ان کا گھر میرے قریب ہی سیکٹر ۲۶ میں ہے، ہم دونوں دو ڈھائی سال سے نوئیڈا ہی آبسے ہیں … ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ مگر دل نہ مانا اور ہم دونوں تھری وہیلر نہ ملنے پر ایک بس میں ہی سوار ہو گئے … راستہ بھر ملّا صاحب کی باتیں ہوتی رہیں، ان کی شرافت نفس، اردو سے ان کا عشق، ان کی خاندانی شرافت اور نجابت، گلزار دہلوی تو معلومات کی کھان ہیں۔ پھر کشمیر برہمن ہونے کی وجہ سے وہ پنڈت آنند نرائن ملّا کے رشتہ دار بھی ہیں۔ گلزار مسلسل میری معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ لال قلعہ کے قریب ہم بس سے اترے اور بھیگتے بھاگتے ایک اسکوٹر پکڑ کر بجلی گھاٹ پہنچ گئے۔ گلزار کو راستہ معلوم تھا ورنہ دیر ہوتی۔ ہم اس احاطے میں چھ بجے داخل ہوئے، تین موٹریں ہمارے سامنے ہی تیزی سے باہر نکلیں۔ ’نذر برق‘ کرنے کی جگہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں کسی اور مردے کی آخری رسوم ادا کیے جانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ملّا صاحب کے اعزا تو ابھی ابھی اپنا فرض ادا کر کے گئے ہیں۔ وہاں پھولوں کے دو چکرے (ریتھ) ایک دیوار سے لگے رکھے تھے۔ ایک پر ایک کاغذ لگا ہوا تھا۔ ’اردو اکادمی، دہلی‘ ہم نے اس کاغذ پر اپنا اپنا نام بھی لکھ دیا اور اس جگہ کو دیکھ کر الٹے پاؤں واپس ہو گئے جہاں ابھی چند منٹ پہلے ایک ۹۶ برس کے ماہر قانون، ادیب، شاعر اور دانشور کو برقی لہروں کے سپرد کیا گیا تھا۔ جب تک انسان کے سینے میں سانس ہے تب تک سب کچھ ہے اور جہاں یہ دولت نایاب سلب ہوئی، جسد خاکی گویا اس روئے زمین پر بوجھ ہے۔ یا تو اسے نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے یا منوں مٹی کے نیچے سڑنے اور حشرات الارض کی خوراک بننے کے لیے دفنا دیا جاتا ہے۔ وجود و عدم کے یہ مظاہر بار بار دیکھنے میں آتے ہیں مگر پھر بھی مرنے والے کی دائمی مفارقت پر شدید درد و غم کی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات کسی کی موت دیکھ کر اپنے وہ پیارے پھر یاد آ جاتے ہیں جو پہلے اس دارِ فانی سے گزر چکے۔

میں نے سب سے پہلے ۱۹۳۶ء میں ملّا صاحب کا کلام پڑھا۔ کانپور کانگریس کے اجلاس کے موقع پر ایک انقلابی مشاعرہ بھی ہوا تھا۔ اس مشاعرہ میں جو کلام پڑھا گیا تھا وہ ایک گلدستے کی صورت میں شائع ہوا تھا اس گلدستے میں پنڈت آنند نرائن ملّا کی نظم بھی تھی:

انقلاب انقلاب زندہ باد انقلاب

اس نظم کو کسی جلسے میں میرے بڑے بھائی مولوی ممتاز علی مرحوم نے پڑھا اور وہ گلدستہ میں نے ان سے لے لیا۔ گویا ملّا صاحب کی وہ نظم بچپن سے میرے ذہن پر نقش تھی۔ پھر کچھ عرصہ بعد ان کی ایک نظم ’تم‘ کسی رسالہ میں دیکھی اور اپنی ڈائری میں اتار لی جس میں بہت سے شعرا کا کلام جمع کیا تھا۔ وہ نظم زندگی میں میں نے نہ جانے کتنی بار گنگنائی ہو گی:

سحر کی یاد ہو تم اور خیال شام ہو تم

جو بن چکا ہے مرا جزو لب وہ نام ہو تم

پھر تو مجھے جہاں ملّا صاحب کا کلام نظر آیا میں نے ذوق و شوق سے پڑھا۔ ۴۹۔ ۱۹۵۰ء کی بات ہے، مشہور فلم ایکٹرس یشودھرا  کاٹجو کے پاس میں نے ملّا صاحب کا مجموعہ کلام ’جوئے شیر‘ دیکھا جو تازہ تازہ چھپا تھا، یشو دھرا، جسے ہم لوگ ’چنو‘ کہتے تھے ملّا صاحب کی سگی بھانجی تھیں اور ان کو نندو ماما کہتی تھیں۔ اس مجموعہ میں ملّا صاحب کی بہت سی نظمیں تھیں، چنو ان کی نظم ’ٹھنڈی کافی‘ بہت خوبصورت انداز سے سنایا کرتی تھی۔

ملّا صاحب کے بارے میں بہت سنا، ان کو پڑھا، بحیثیت جسٹس ہائی کورٹ کے ان کے اس فیصلے کو سن کر تو ان کے لیے دل میں عقیدت کے جذبات جاگ اٹھے کہ ہندوستان میں غنڈوں کا سب سے منظم گروہ پولیس ہے۔ ان سے پہلی بار ملنے کا اتفاق ہوا اپنے اردو مجلس کے دفتر میں غالباً ۶۵ء میں۔ وہ سرکاری نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد لکھنؤ سے لوک سبھا کا الیکشن جیت کر دہلی آئے تھے اور یہاں انھوں نے سپریم کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی تھی۔ ایک خوش قامت شخص، گورا چٹا، چوڑی دار پاجامہ اور گھٹنوں سے نیچے شیروانی اور اسی کپڑے کی کشتی نما ٹوپی پہنے جب پہلی بار میرے نظروں کے سامنے آیا تو دل میں عزت کرنے کا جذبہ بے اختیار جاگا۔ میں جس قدر انکساری اور خاکساری سے مل سکتا تھا، ان سے ملا۔ اسٹوڈیو میں ان کا کلام ریکارڈ کیا تو ان کا اچھا خاصہ کلام ان کی کرخت آواز اور بھونڈے ترنم میں سن کر بد حظ ہو گیا۔ مگر کیا کرتا، میں ان کے سامنے طفلِ مکتب۔ وہ ہندوستان کی سب سے پہلی اردو اکادمی کے جو یوپی میں بنی تھی، بانی اور صدر تھے۔ اور اکادمی نے میری کتاب ’جہاں آرا‘ کو اس وقت اچھے ایوارڈ سے نوازا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ ہے۔ دہلی آنے کے بعد ملّا صاحب بہت جلد دلی کی ادبی زندگی کی اہم شخصیت بن گئے۔ حکومت وقت نے ان سے جانے کیا کیا کام لیے اور انہیں کن کن کمیٹیوں کا چیئرمین یا سربراہ بنایا ہے اس سے مجھے زیادہ سروکار نہیں۔ مجھے عقیدت ان کے کلام سے تھی اب ان کی شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملا تو محسوس ہوا کہ وہ نہ تو سستی شہرت کے طلب گار ہیں نہ مشاعروں کی گھناؤنی سیاست سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ایلے میلے آدمی سے ملتے ہیں۔ وہ نہایت خلیق ہونے کے باوجود جس سے جتنا فاصلہ رکھنا چاہیں اس پر قادر تھے اور اپنے نظام الاوقات پر سختی سے کار بند رہنے والے با اصول شخص تھے۔ مصلحت کوشی ان کے مزاج میں تھی ہی نہیں۔

مجھے اردو مجلس پروگرام کے سلسلے میں ہی کبھی کبھار ان کے پاس جانا پڑتا تھا تو وہ نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور کبھی کبھار بہت مختصر اور جامع الفاظ میں میری حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ طویل عرصے تک انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر رہے اور اس لیے ان کو انجمن کے جلسوں میں جانا پڑتا تھا۔ وہ بہت مدلل تقریر کرتے تھے، اپنی رائے بہت واضح اور ٹھوس الفاظ میں پیش کرتے تھے ان کی گفتگو میں ایسا جھول نہیں ہوتا تھا کہ کوئی گرفت کر سکے یا بحث و مباحثہ شروع کر دے۔

ایک بار غالب اکیڈمی میں ان کے اعزاز میں کسی جلسے کا اہتمام کیا گیا، کافی اہم جلسہ تھا انھوں نے منتظمین کو رائے دی کہ جلسے کی نظامت رفعت سروش سے کرائی جائے اور جب مجھ سے یہ کہا گیا تو ظاہر ہے میں نے مسرت محسوس کی۔ اس جلسے میں پڑھنے کے لیے میں نے ان پر ایک نظم بھی لکھی تھی۔ میں شخصیات پر نظمیں لکھنے سے گریز کرتا ہوں، اپنی ساٹھ سال کی ادبی زندگی میں صرف تین زندہ ادیبوں پر نظمیں لکھی ہیں۔ ایک فیض احمد فیض پر (افکار کے مخصوص فیض نمبر کے لیے ) ایک علی سردار جعفری پر اور ایک ملّا صاحب پر۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ملّا صاحب میرے بارے میں اتنی اچھی رائے رکھتے ہیں، مارچ ۸۴ء میں میری کتاب ’نقوشِ رفتہ‘ کا اجرا ہوا۔ ایوانِ غالب میں جلسہ تھا، ملّا صاحب کی صدارت تھی اور مالک رام نے کتاب کا اجرا کیا۔ مالک رام صاحب نے میری نثر کی اس پہلی کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رفعت سروش شاعری تو بہت کر چکے، وہ غالب تو بننے سے رہے، اب انھیں چاہیے کہ شاعری اور ڈرامہ بازی کچھ دن کے لیے چھوڑ دیں، وہ نثر بہت اچھی لکھتے ہیں اور آئندہ نثر ہی لکھیں۔ (مالک رام صاحب کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا) اپنی صدارتی تقریر میں ملّا صاحب نے مالک رام صاحب کی رائے سے سخت اختلاف کیا اور کہا کہ بے شک رفعت نثر اچھی لکھتے ہیں۔ مگر ان کی شاعری بھی اتنی ہی اچھی ہے۔ ایک اور جلسے میں، جب اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر شنکر دیا شرما نے ’’فکر و آگہی‘‘ کے رفعت سروش نمبر کا افتتاح کیا تھا۔ ۸۹ء میں تو ملّا صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے اپنی زندگی میں جوش ملیح آبادی کے بعد رفعت سروش سے زیادہ پر گو شاعر نہیں دیکھا۔ ظاہر ہے یہ ان کی محبت تھی۔ وہ مصلحت سے دور تھے، عام طور پر کسی پر مضمون نہیں لکھتے تھے مگر رفعت سروش نمبر کے لیے انھوں نے خاص طور پر مضمون لکھا جو اس مجلہ کی زینت ہے۔ میں نے ملّا صاحب پر ان کی زندگی پر دو مضمون لکھے۔ ایک مضمون کا عنوان تھا… ’’متحدہ تہذیب کے علم بردار‘‘ یہ تاثراتی مضمون ہے، ملّا صاحب نے کہا، آپ نے میری شاعری نہیں پڑھی۔ میں نے انھیں ان کی بہت سی نظموں کے اشعار سنائے تو ایک طمانیت ان کے چہرے پر آئی اور جب انجمن ترقی اردو نے ملّا صاحب پر خصوصی کتاب چھاپی تو اس کے لیے میں نے ملّا صاحب کے مجموعہ کلام ’’جادۂ ملّا‘‘ پر مضمون لکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر بڑے شاعر کی طرح ان کو بھی آخر یہ احساس تھا کہ ان کی سماجی شخصیت کے سائے میں ان کی شاعرانہ شخصیت دب گئی ہے اور ادب میں ان کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتے تھے۔ انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے علاوہ اقبال سمان بھی مل چکا تھا اور ان کا نام ’گیان پیٹھ ایوارڈ‘ کی پینل کے سامنے بھی زیر غور تھا مگرجیسا کہ سب جانتے ہیں جب سے ادب میں ’سیاسی مزاج‘ مصلحت اور ’دھڑ پکڑ‘ شروع ہوئی ہے، خالص ادبی سطح پر فیصلے نہیں ہوتے۔ دھڑے بندی نے ادب کی عظمت اور توانائی چھین لی ہے۔

ایک بار میں نے دور درشن کے لیے ان پر آدھے گھنٹے کی فلم بنائی۔ جب میں نے اس فلم کے بارے میں ان سے کہا تو بولے کیا ضرورت ہے، ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اردو اکادمی والوں نے مجھ پر ایک فلم بنائی ہے، ان سے لے لو۔ (یہ بھی ان کا بڑ پن تھا ورنہ کوئی اس طرح منع نہیں کرتا) کہنے لگے میرے پاس اس فلم کی کاپی ہے۔ وہ فلم ہم لوگوں نے ان کے ویڈیو پر دیکھی۔ وہ فلم واقعی اس قابل نہیں تھی کہ اسے ٹی وی پر دکھایا جا سکے۔ خراب تصویریں، دھندلی دھندلی اور آواز بالکل گھٹی گھٹی۔ میں نے معذرت پیش کی کہ ملّا صاحب اب تو میرے پاس کیمرہ وغیرہ سب کچھ ہے۔ ہم نئی فلم ہی بنائے لیتے ہیں۔ کہنے لگے کہ پھر اس فلم کا کیا ہو گا۔ میں نے کہا اردو اکیڈمی کی الماری میں بند رہے گی۔ در اصل انہیں کم اور ان کے اہلِ خانہ کو زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ فلم کی شوٹنگ کرتے وقت ان کا نہایت خوبصورتی اور سلیقے سے سجا ہوا ڈرائنگ روم اور زیبائش کی چیزیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ ہمارے اسٹاف نے یقین دلایا کہ شوٹننگ کے بعد ہر چیز وہیں رکھ دی جائے گی جہاں ہے۔ فلم بنی، ٹیلی کاسٹ ہوئی اور ملّا صاحب کو پسند بھی آئی۔

ملّا صاحب میرے ان کرم فرماؤں میں تھے کہ اگر غیر حاضری زیادہ طویل ہو جاتی تو احباب سے پوچھتے تھے کہ رفعت کا کیا حال ہے، اب کہاں ہیں۔ ایسی شفقت کرنے والے بزرگ اب کہاں ہیں۔ ملّا صاحب سے میری آخری ملاقات اس موقع پر ہوئی جب میں دیگر احباب کے ساتھ ان کی بیگم کے انتقال کے موقع پر تعزیت کے لیے گیا۔ محرومی ان کے چہرے سے ظاہر تھی، وہ غم و حسرت کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ آخری عمر میں بیوی کی رفاقت سے محرومی ایک ایسا دکھ ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بیوی کو مرد کا نصف بہتر کہا گیا ہے، گویا اس شخصیت کا نصف بہتر تو ختم ہی ہو جاتا ہے اور بچا کھچا دھیرے دھیرے ٹوٹتا بکھرتا رہتا ہے اور اپنی عمر کے آخری دور میں پنڈت آنند نرائن ملّا بھی اس اذیت سے دوچار ہوئے۔

ٍ        ملّا صاحب کے ساتھ اس صدی کا آخری چراغ بھی گل ہو گیا۔ ان کی پیدائش ۱۹۰۱ء کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اردو کے معروف ادیبوں شاعروں اور دانشوروں میں آج کوئی ایسا شخص زندہ نہیں ہے جس کی عمر ۹۶ سال ہو۔ اور صرف عمر ہی نہیں، ملّا صاحب اس دور کی یاد گار تھے جب فن کی قدر کی جاتی تھی اور فنکار بالخصوص شاعر اور ادیب کو سماج میں عزت اور مقام حاصل تھا۔ ادیب و شاعر ہونا فخر کی بات تھی اور قلم کار اس بات کی علامت تھا کہ یہ شخص اپنے ماضی کی عظیم اقدار کا پاسدار ہے اسے انسانیت رواداری اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی مثبت اقدار پر یقین و اعتماد ہے۔ تہذیب دس پانچ سال میں جلوہ گر نہیں ہوتی، لمحہ لمحہ ہزاروں سال کا سفر کرتی ہوئی انسانی تہذیب جدید دور تک پہنچی ہے۔ ملّا صاحب کو انسانیت کی اعلا اقدار اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی تھیں۔ وہ کشمیری برہمنوں کی اس برادری سے تعلق رکھتے تھے جس نے وادیِ کشمیر سے نکل کر بالخصوص شمالی ہند دہلی، لکھنو اور الہ آباد میں شرافت نفس کو فروغ دیا، نستعلیق زندگی گزارنے کا سلیقہ مثال کے طور پر پیش کیا۔ علم و تعلیم کو اپنے لیے لازمی قرار دیا اور جس برادری کے افراد نے دیگر علوم کے علاوہ اردو زبان و ادب کی آبیاری کی۔ نام گنانے کی ضرورت نہیں، پنڈت موتی لال نہرو سے لے کر آنند نرائن ملّا تک اور رتن ناتھ سرشار سے لے کر پنڈت برج نرائن چکبست اور سرتیج بہار سپرو تک کتنے ہی نام ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں آفتاب و ماہتاب کی طرح جگمگا رہے ہیں۔

ملّا صاحب نے اس دانشورانہ روایت کو آگے بڑھایا اور اپنی سات آٹھ کتابوں کے علاوہ جو اردو شعر و ادب کا وقیع سرمایہ ہیں، زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً قانون اور تنظیمی اصلاحات کے میدان میں اور بحیثیت مجاہد اردو اپنے کردار اور کام کے ایسے نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ جن کے مطالعہ کی ازسرِ نو ضرورت ہے۔ وہ آخر وقت تک فعال رہے اور کچھ عرصہ قبل کولھے کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باوجود بھی انھوں نے سپریم کورٹ سے سلسلہ منقطع نہیں کیا بلکہ بحث کے لیے جاتے رہے اور اپنے آبائی پیشے سے ان کا یہ لگاؤ حصول دولت کے لیے نہیں بلکہ ایک مشن کے طور پر تھا۔ وکالت اور اردو سے انھیں عشق تھا۔ وکالت کی خاطر انھوں نے گورنری کو قبول کرنے سے ان کار کر دیا تھا اور اردو تو ان کی روح میں اس طرح تحلیل ہو گئی تھی کہ انھوں نے بہ بانگِ دہل اعلان کیا۔ میں اپنے مذہب سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ مگر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔

پنڈت آنند نرائن ملّا کا انتقال میرے لیے ایک ذاتی سانحہ بھی ہے۔ ان کی وفات سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرا ایک سرپرست اس دنیا سے اُٹھ گیا۔ ان کا جسدِ خاکی تو برقی لہروں میں تحلیل ہو گیا، مگر وہ انسانی معاشرے اور ادبی و تہذیبی اقدار کی روح بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کیونکہ نیکی کو فنا نہیں ہے۔

٭٭٭ً

 

 

 

 

 

ایک خیالی بات چیت

 

                ……… اسلم پرویز

 

ملّا صاحب کو میں ان کی شاعری اور سماجی شہرت کے تعلق سے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ بیسیوں بار انھیں دیکھا ہے اور چار چھ بار ان سے ملنے کا اتفاق بھی ہو چکا ہے۔ ایک بار ان سے اس وقت قدرے تفصیلی ملاقات کا موقع بھی ملا جب میں نے ان کے گھر پر اردو گھر سے متعلق ریڈیو کے لیے ان کا ایک انٹرویو لیا تھا۔ میری ایک کمزوری یہ رہی ہے کہ جہاں دو چار بڑے آدمی جمع ہوتے ہیں، میں بڑھ بڑھ کر ان کے درمیان گھسنے کے بجائے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیتا ہوں اور ایسے موقعے پر کم گو ہی نہیں بلکہ بے زبان بنا بیٹھا رہتا ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر بڑے لوگوں کے ساتھ کئی کئی بار بیٹھنے کا موقع ملنے کے باوجود میں اپنے وجود کا کوئی نقش ان پر نہیں چھوڑ پاتا۔ ایسا ہی کچھ میں ملّا صاحب کے بارے میں سوچتا رہا ہوں یعنی یہ کہ میں تو ان سے بخوبی واقف ہوں لیکن شاید وہ مجھے نہیں جانتے۔ پچھلے دنوں جب ملّا صاحب کو ایک حادثے کا شکار ہو کر ولنگڈن ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو اس خبر سے ان کے بہت سے چاہنے والوں کو تکلیف ہوئی۔ میں ملّا صاحب کے معمولاتِ زندگی اور ان کی فعال شخصیت کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، خاص طور پر ڈاکٹر خلیق انجم کے ساتھ اپنے انتہائی قریبی تعلقات کی وجہ سے۔ میرا رد عمل اس حادثے پر جس کا ملّا صاحب شکار ہوئے تھے، کچھ مختلف تھا۔ یعنی کہ وہ شخص جو اس صدی کا لگ بھگ ہم عمر ہے وہ نہ صرف یہ کہ الحمد للہ آج تک بقیدِ حیات ہے بلکہ اس کی زندگی میں حادثوں کے گزرنے کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے۔ یہ بات میرے لیے اتنی قابلِ رشک تھی کہ اس حادثے کی خبر سن کر مجھے ملا صاحب سے نہ تو کوئی ہمدردی ہوئی اور نہ ان پر رحم آیا۔ ہاں دل میں یہ خواہش ضرور جاگی کہ وہ جلد اچھے ہو جائیں۔ در اصل انتہائی مصروف زندگی گزارنے والے لوگ اپنے جسمانی نظام کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو بہت سے غریب اکّے تانگے والے اپنے ٹٹو کے ساتھ کرتے ہیں، یعنی انھیں اس ٹٹو کو بس ہر وقت جوتنے سے کام رہتا ہے لیکن جب کسی نہ کسی دن یہ بات اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ ٹٹو ان کے اکّے تانگے کو لے کر پوری سواریوں کے ساتھ بیچ سڑک پر بیٹھ جاتا ہے اور باوجود بے شمار چابک کھانے کے اس وقت تک سڑک پر سے نہیں اٹھتا جب تک کہ وہ اپنی ماندگی کا وقفہ پورا نہ کر لے۔ کچھ ایسا ہی سلوک شاید ملا صاحب نے بھی اپنی بے انتہا فعال شخصیت کے سبب اپنے جسمانی نظام کے ساتھ کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے اعضائے جسمانی نے اپنے واسطے کچھ عرصے کی لازمی چھٹی خود ہی حاصل کر لی اور اس بہانے خود ان کے اردگرد پھیلے ہوئے کام کو بھی سستانے کا موقع مل گیا۔ کام کرنے والے لوگ جب تھکن اتارنے کے بعد چھٹی سے واپس لوٹتے ہیں تو اتنے تازہ دم دکھائی دیتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر ان کے کام کو پسینہ آنے لگتا ہے۔ خیر تو ملّا صاحب کے حادثے کی خبر سن کر میں ان کو بستر استراحت پر دیکھنے کے اشتیاق میں ڈاکٹر خلیق انجم کے ساتھ ولنگڈن ہسپتال پہنچا۔ کمرے میں بڑا آدمی صرف ایک ہی تھا، وہ بھی لاچار سا بستر پر پڑا تھا ٹھیک اسی طرح جس طرح قصباتی میلے کے چلتے پھرتے چڑیا گھر میں کوئی شیر کسی ڈبے میں بند دکھائی دیتا ہے۔ اس خلوت سے میری کچھ ہمت بڑھی اور کچھ ہی دیر میں مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہسپتال کے کمرے کے یہ لمحے ملّا صاحب کے ساتھ انتہائی قربت میں گزر رہے ہیں۔ ملّا صاحب بڑی دیر تک میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے باتیں کرتے رہے۔ میں اور ڈاکٹر خلیق انجم ان سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ وہ ہماری کمپنی سے کافی خوش دکھائی دیتے تھے اس لیے بھی کہ ہم نے ملّا صاحب کو بقول خود ان کے ’نگاہ ترحم سے شرمسار‘ نہیں کیا تھا۔

ادھر انجمن میں جب ملّا صاحب کے جشن کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو میرا جی چاہا کہ ملّا صاحب کے بارے میں، میں بھی کچھ لکھوں۔ ذہن پر لکھنے کے لیے زور ڈال رہا تھا لیکن کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ پھر اچانک ایک روز دماغ میں بجلی سی کوندی، کیوں نہ ملّا صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات چیت ہی کی جائے، بالواسطہ ہی سہی۔ چناں چہ اس بالواسطہ ملاقات کا منصوبہ میں نے اس طرح بنایا کہ پہلے تو میں نے کچھ سوالات قائم کیے اور پھر ملّا صاحب کی شاعری کو اور کہیں کہیں ان کی شخصیت کو بھی سامنے رکھ کر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے یا ترتیب دینے شروع کیے۔ آخر میں اچھا خاصا انٹرویو تیار ہو گیا جس کی خبر خود ملا صاحب کو بھی نہیں۔ تصور کیجیے، ملّا صاحب میرے سامنے تشریف فرما ہیں۔ میں ان سے کچھ باتیں پوچھ رہا ہوں اور وہ میری باتوں کا جواب ایک ایک کر کے دے رہے ہیں۔ انٹرویو بالواسطہ لیا جائے یا بلا واسطہ، انٹرویو لینے والے کو اس بات کا موقع ہر وقت حاصل رہتا ہے کہ جب وہ اس انٹرویو کو قلم بند کرے تو کہیں کہیں اپنے الفاظ بھی اپنے مخاطب کے منہ میں ڈالتا چلے۔ اس لیے اس بات چیت سے ملّا صاحب کی جو تصویر بھی آپ کے ذہن میں بنے اسے کیمرے کی تصویر نہ سمجھیے۔ مصور کا نقش سمجھیے اور نقش کی قسمت میں ’شوخی تحریر کا فریادی‘ ہونا تو لکھا ہی ہے۔

میں : ملّا صاحب! کشمیری پنڈتوں کے وہ گھرانے جو خصوصاً دہلی اور یوپی میں آ کر آباد ہوئے، انتہائی مہذب اور شائستہ اور اس ہندوستانی مغل تہذیب میں رچے بسے نظر آتے ہیں جس میں اردو اور فارسی کا ستھرا مذاق بھی شامل ہے۔

ملّا: دیکھیے اگر آپ زمانہ حال کی بات چھوڑ دیں تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیر بر صغیر کا وہ خطہ ہے جو کسی بھی قسم کے مذہبی تعصب سے بالا تر ہے۔ کشمیر کے پنڈت اعلانیہ طور پر گوشت خور ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی بہت سی رسوم میں بھی گوشت کا استعمال ہوتا ہے۔ اس طبقے کے لوگ جب کشمیر سے اتر کر نیچے آئے تو دہلی اور لکھنؤ کی جاگیرداری تہذیب کی وضع داریاں انھیں بہت بھائیں۔ چھپ کر گوشت نہ کھاسکنے والے کشمیری پنڈتوں نے اپنی زندگی میں ریاکاری کے خلا کو پر کرنے کی لاشعوری کوشش میں جاگیرداری تہذیب کی ان خوب صورت اور مستحسن ریا کاریوں کو گلے لگایا جن میں اپنی عزت آبرو کا پاس، لباس کی تہذیب، گفتگو کا وقار، لب و لہجے کی شائستگی، مجلسی آداب، رواداری، نیک سلوک، سماجی پیچیدگیوں کی پوری سمجھ رکھنے کے باوجود نظریاتی الجھنوں سے خود کو بچائے رکھنے کا سلیقہ اور دانش ورانہ فکر، غرض یہ تمام چیزیں شامل تھیں۔ اس تہذیب کی حیثیت ہم کشمیری پنڈتوں کی نظر میں راستِ شر انگیز کے مقابلے میں دروغِ مصلحت آمیز کی تھی جس پر ہم پوری طرح ایمان لائے۔ اسی لیے دہلی اور یوپی کے اردو بولنے اور گوشت کھانے والے مسلمانوں کو ہم کشمیری پنڈت اپنے سے زیادہ مسلمان اور کائستھوں کو اپنے سے زیادہ کائستھ نظر آتے ہیں۔

میں : پروفیسر آل احمد سرور نے ’جوئے شیر‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ آنند نرائن ملّا کی شاعری نئے لکھنؤ کی آواز ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

ملّا: نئے لکھنؤ سے سرور صاحب کی کیا مراد ہے، اس کی وضاحت تو وہ اسی دیباچے میں آگے چل کر کر چکے ہیں لیکن میرے نزدیک نئے لکھنؤ کے کیا معنی ہیں، وہ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ ملحوظ رہے کہ اس بات کا جواب صرف اپنی ذات اور شاعری کے حوالے سے دے رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نئے لکھنؤ نے ناسخ کی اس مرصع زبان کی تقلید نہیں کی جس کی تقلید میں غالبؔ کہاں کے کہاں پہنچ گئے، یہاں غالبؔ کی عظمت زیر بحث نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ نئے لکھنؤ کی آواز میں آپ کو زبان اور شعری موضوعات دونوں کو شامل کرنا پڑے گا۔ یہ نیا لکھنؤ اس صاف اور واضح پیرایۂ اظہار میں یقین رکھتا ہے جس کی مقبولیت داغ اور ان کے شاگردوں کے سلسلے سے ہندوستان میں چاروں طرف عام ہوئی۔ چناں چہ شاید داغ ہی کے اثر سے اقبال جیسے عظیم شاعر کے ہاں بھی تمام تر بلندیِ فکر اور فارسی الفاظ کی کثرت استعمال کے باوجود پیرایہ اظہار صاف ہے۔ اب آپ اگر اپنی نخوتِ ابہام میں اس شاعری کو بیانیہ کہتے ہیں تو کہتے رہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شعر کی تہ سے اچھل کر کچھ آنا چاہیے اور بیانیہ میں یہ کام اور بھی مشکل یوں ہو جاتا ہے کہ وہاں شاعر قاری کے قیاس کا فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے پیٹ میں کچھ چھپا نہیں چھوڑتا۔ جہاں تک شعری موضوعات کا تعلق ہے، اسی لکھنؤ میں مجاز اور ملّا دونوں طرح کے شاعر پیدا ہوئے۔ ایک ترقی پسندوں کی پالی کے اندر کا شاعر ہے اور دوسرا پالی کے باہر کا مگر پالی کے اندر کا شاعر ہو یا پالی کے باہر کا دونوں کا سماجی سیاق و سباق تو ایک ہی ہے۔ ایک سچے شاعر کے لیے سماجی سیاق و سباق سے جڑا رہنا پہلی شرط ہے اب اس سیاق و سباق کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کی کتنی سکت یا جرأت اس کے اندر ہے یہ اس سے آگے کی بات ہے۔

میں : آپ انسان دوست ہیں، انسانیت کے علم بردار ہیں۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ انسان کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟

ملّا: میں انسان کو مرکزِ کائنات سمجھتا ہوں۔ یہ نظام کائنات اپنی تمام تر ہیئت اور عظمت کے باوجود بے حس اور بے زبان ہے۔ انسان ہی نظام کائنات کی زبان بھی ہے اور حس بھی اور جب میں آپ سے انسان کی بات کر رہا ہوں تو اس میں انسان کے تمام ہی متنوع اور متضاد روپ شامل ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ میں کسے سینے سے لگاؤں اور کسے مردود قرار دوں۔ اور جب تک مجھ پر کائنات کی اصل اور تمام تر حقیقت منکشف نہیں ہو جاتی، خدا جانے وہ دن کبھی آئے گا یا نہیں، میں کائنات کی اصل حقیقت انسان کو ہی سمجھتا رہوں گا۔ انسان کے سارے روپ میرے اپنے روپ ہیں۔ انسان کا ہر دین اور انسان کی لادینی میرا دین اور میری لادینی ہے۔

میں : گناہ کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ملّا: جو فرق وہم اور حقیقت میں ہے، وہی میرے نزدیک عبادت اور عصیان میں ہے۔ عقیدہ گھپ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر، بچ بچا کر، نپے تلے قدموں کے ساتھ، بغیر کسی چیز سے ٹکرائے یا ٹھوکر کھائے آگے بڑھنے یا کسی سمت کے تعین کے احساس کے بغیر صرف ٹامک ٹوئیاں مارنے کا نام ہے جس میں شاید کہیں بہت دور تک اور بالکل سیدھے چلتے چلتے جانے کا امکان کم ہی ہے۔ اس کے برعکس گناہ نام ہے ایک خود اعتمادی اور خود اختیاری کا۔ گناہ کے جہاں میں نصف النہار کا سا سماں ہوتا ہے جہاں ہر چیز روشن اور صاف ہوتی ہے۔ ایسے میں دانستہ ٹھوکر کھانے میں جو لطف آتا ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ عقیدے کا دائرہ جتنا تنگ ہوتا ہے، گناہ کے حدودِ اربعہ اتنے ہی لامتناہی ہوتے ہیں۔ گناہ کی بارگاہ میں کوئی سجدہ نا مقبول نہیں ہوتا ہے۔ جہاں جستجو گناہ ہو، گفتگو جرم ہو، جرأت پہ تعزیریں ہوں، اظہار پر پہرے ہوں، حسن پر مخرب اخلاق ہونے کی فرد جرم عائد ہو، جہاں میرے دوش پر خود میری خطا کے بار کے علاوہ اور کوئی بار نہ ہو، وہ فضا مجھے کائنات کی وسعتوں سے بھی زیادہ کھلی لگتی ہے، اس فضا میں میرا دیر تک سانس لینے کو جی چاہتا ہے، اجزائے عناصر کے پریشاں ہونے تک۔

میں :ملّا صاحب آپ اپنی گفتگو میں خاصے رومانی ہوتے جا رہے ہیں۔

ملّا: ہاں ! شاید اسی لیے کہ شاعری میں نہیں ہو سکا۔ ہمیشہ صاف اور دو ٹوک باتیں کرتا رہا جسے آپ کے زمانے کی بقراطی تنقید سپاٹ بھی کہہ سکتی ہے۔

میں : آپ کا تعلق نئے لکھنؤ سے ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پرانے لکھنؤ میں تو معاملہ بندی کی شاعری بہت ہوئی۔ آپ کے کلام کے مطالعے سے کہیں کہیں ایسا پتا چلتا ہے کہ طبیعت آپ کی بھی کافی رنگین رہی ہے۔ میرا اشارہ آپ کی بعض طویل عشقیہ نظموں کی جانب ہے۔

ملّا: دیکھیے پرانے لکھنؤ کی شاعری میں پنچائتی قسم کی معاملہ بندی کا رواج تھا۔ دہلی میں مومن جیسے شاعروں کے ہاں انفرادی معاملات کا ذکر زیادہ نجی اور مہذب انداز میں ملتا ہے۔ جہاں تک میرے معاملات عشق و عاشقی کا تعلق ہے ان میں نہ تو وہ بازاری پن ہے کہ مجھے یہ کہنا پڑے کہ:

کودا یوں ترے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہو گا

اور نہ میرے ہاں جاگیرداری گھرانوں کے اس چوری چھپے عشق والا معاملہ ہے، جس کے بارے میں مجھے یہ خوف لاحق ہو کہ:

زندگی پردہ در نہ ہو جائے

یہ صحت مند اور بے ریا عشق کی وہ سیدھی سچی نظمیں ہیں جو طویل اس لیے ہیں تاکہ خوش ذائقہ یادوں کا چسکا میں دیر تک لے سکوں۔ ان نظموں کا معاملہdown memory laneکا سا ہے۔

میں : کیا آپ یہاں زندگی کی حسین واردات کا ذکر کرنا پسند کریں گے ؟ـ

ملّا: اب اس عمر میں ان وارداتوں کو دوہرانا ٹھنڈی کافی کے پیالے پر گرم گفتگو کرنے کے مترادف ہو گا۔

میں : آج کی نوجوان نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بالکل گمراہ، بے راہ رو اور اپنی قدروں سے بے گانۂ محض ہے۔ کیا آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں ؟

ملّا: ہم جب تک قدروں کے خزانے پر سانپ بنے بیٹھے رہیں گے اور انھیں نئی نسل میں اس طرح تقسیم کریں گے جیسے کنجوس خیرات دیتا ہے تو پھر نتیجہ تو یہی ہونا ہے۔ آپ تو نئی نسل کی بات کر رہے ہیں، آپ نے یہ تماشا بھی تو دیکھا ہے کہ جب آپ نے شاعری کو قدامت کے جوئے کے نیچے سے نکلنے سے روکا تو کچھ دنوں کے لیے آپ کی شاعری تک ہپّی ہو گئی اور یہ لٹک اس میں تھوڑی بہت اب بھی ہے۔ لیکن اس کے لیے ذمے دار کون ہے ؟ چاہے شاعری ہو یا سماج جب تک آپ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل تیار کر کے نہیں رکھیں گے تو نتیجہ افراتفری کے علاوہ اور کیا ہونا ہے۔

میں : آزاد ہندوستان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

ملّا: سماجی انصاف کی لڑائی حکومتیں بدلنے سے نہیں ختم ہو جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی بھی ملک کے آزاد ہونے کے بعد اس کے عدالتی نظام کو بھی تہ کر کے رکھ دیا جاتا۔ پیروں کی بیڑیاں ہر آدمی کاٹ کر پھینک دینا چاہتا ہے لیکن گردن کی طلائی زنجیر کوئی نکال کر پھینکنے کو تیار نہیں اور پھر ایک آزاد ملک میں انسان کو روٹی کپڑا مکان ہی نہیں اپنی تہذیب، اپنی زبان بھی تو چاہیے ہوتی ہے۔ روٹی کپڑے مکان کی ضمانت ہر ہندوستانی کو آج آزادی ملنے کے تقریباً نصف صدی کے بعد بھی حاصل نہیں ہو سکی لیکن زبان اور تہذیب پر تو آزاد ہوتے ہی راتوں رات ڈاکا پڑ گیا۔

میں : بس آخر میں ایک سوال اور دریافت کرنا ہے۔ ہماری شاعری میں نظیر اکبر آبادی اور پھر ان کے بعد انجمن پنجاب سے لے کر آج تک نظم کی ایک توانا روایت موجود تھی پھر بھلا آپ غزل کو شبستاں سے میدان میں کیوں کھینچ لائے ؟

ملّا: آپ جانتے ہیں، میں نے نظمیں بھی کافی کہی ہیں پھر بھی اتنی نہیں جتنی غزلیں کہیں ہیں۔ در اصل آپ خود ہی کہہ چکے ہیں، میری تمام تر غیر رسمی اور غیر روایتی فکر کے باوجود میری شخصیت کی اصل شناخت میری جاگیردارانہ شائستگی ہے۔ آپ اس جاگیردارانہ شائستگی کو ایک مستحسن تہذیبی ریا کاری کا نام دیتے ہیں اور آپ کی اسی بات سے مجھے آپ کی بات کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ غزل بڑی ریا کار صنف ہے۔ کہنا کچھ چاہتی ہے کہتی کچھ ہے۔ اب آپ ہی بتائیے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی غلامی کی اس آزاد دنیا میں اگر ملّاغزل کی ریاکاری کے پردے میں اپنی بات نہ کہتا تو کیا لوگ اسے زندہ چھوڑ تے۔ در اصل میں نے اکثر غیر متنازع باتیں نظم میں بیشتر متنازع باتیں غزل کی زبان میں بیان کی ہیں۔ جو شخص پیشے کے اعتبار سے حاکمِ وقت کا وکیل ہو، اس کے اندر کا شاعر تو غزل کی یہی زبان استعمال کر سکتا ہے نا:

وہ داد و ستدِ دل نہ وہ بزم نہ وہ رند

انساں کی جگہ آج ہے وردی میں سپاہی

ملّا صاحب کے ساتھ اس طویل گفتگو کا ایک مقصد ان سے ذہنی قربت حاصل کرنا بھی تھا جو میری حد تک تو پورا ہو ہی گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک اور کھپچی

 

                ……… مخمور سعیدی

 

پنڈت آنند نرائن ملا اس وقت اردو کے بزرگ ترین شاعر ہیں۔ یہ بزرگی عمر کے لحاظ سے بھی ہے اور ان کے شاعرانہ مرتبے کے اعتبار سے بھی۔ ابھی کچھ ماہ قبل مدھیہ پردیش کی صوبائی حکومت نے ان کی شاعرانہ فتوحات کے اعتراف میں انھیں اپنا سب سے بڑا اعزاز اقبال سمان پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی اہم سرکاری، اور غیر سرکاری، مرکزی اور صوبائی اداروں کی طرف سے ان کا اعزاز و اکرام ہوا ہے۔

ملا صاحب ہندوستان کی اس گنگا جمنی تہذیب کا زندہ مرقع ہیں جس کا بہترین اظہار اردو زبان و ادب میں ہوا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ ملا صاحب کے بے پناہ تعلق خاطر کا سبب بھی غالباً اس زبان کا یہی وصف ہے۔ آزاد ہندوستان میں اردو کے تحفظ و ترقی کی کوششوں میں ملا صاحب نے جو قائدانہ کردار ادا کیا اس سے کون واقف نہیں ؟

پنڈت جواہر لال نہرو کی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی لیکن ان کے خاندانی پس منظر میں مشرقیت رچی بسی تھی۔ ان کے والد پنڈت موتی لال نہرو ہندوستان کی اسی تہذیبی روایت کے پروردہ اور اس کے نگہدار تھے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ جواہر لال جی کی شادی کا دعوت نامہ انھوں نے اردو میں چھپوایا تھا۔

پنڈت جواہر لال نہرو اور ملا صاحب کے باہمی تعلقات کی اساس یوں تو ان کی خاندانی قرابت رہی ہو گی لیکن اس میں کچھ دخل اس ذہنی ہم آہنگی کو بھی رہا ہو گا جو ان دونوں کے درمیان ابتدا ہی سے پیدا ہو گئی تھی۔ پنڈت نہرو کے منتخب انگریزی مضامین کا یہ ترجمہ جو کتابی صورت میں آپ کے پیش نظر ہے اسے پنڈت نہرو کے ساتھ ملا صاحب کی اسی ذہنی قربت کی دین کہا جا سکتا ہے۔

مضامین نہرو کی اشاعت اول کا دیباچہ ملا صاحب نے ’’بانس کی کھپچی‘‘ کے عنوان سے بہت دلچسپ انداز میں تحریر کیا تھا۔ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب کی اہمیت اور افادیت کو بھی خاطر خواہ طور پر سامنے لے آتا ہے اس کی موجودگی میں کسی اور تحریر کی شمولیت ضروری نہیں تھی لیکن ملا صاحب کے ایما پر مجھے یہ شرف بخشا گیا کہ اشاعتِ ثانی کا پیش لفظ میں تحریر کروں۔ یہ کام میرے لیے مشکل تھا لیکن ملا صاحب کی حکم عدولی بھی آسان نہ تھی۔ میں نے طے کیا کہ اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے میں ملا صاحب کو مصاحبے کی زحمت دوں اور وہ جو کچھ فرمائیں اسی کو قلمبند کر کے قارئین تک پہنچا دوں۔

چنانچہ ایک صبح وقت لے کر میں ملا صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گیا۔ میں کوٹھی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ملا صاحب برآمدے میں بیٹھے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ملا صاحب کی نگاہیں کہیں دور خلاؤں میں کچھ کھوجنے لگیں جیسے عمرِ رفتہ کے گم شدہ لمحوں کی متلاشی ہوں۔ کہنے لگے : پنڈت نہرو جنھیں میں جواہر بھائی کہتا تھا، عمر میں مجھ سے ۱۱ سال بڑے تھے۔ مسز وجے لکشمی پنڈت مجھ سے ایک سال بڑی تھیں۔ پنڈت نہرو کی طرح وہ بھی مجھے بہت عزیز رکھتی تھیں۔ دوسری بہن کرشنا ہتھی سنگھ مجھ سے چھوٹی تھیں۔ ہم مسز پنڈت کو سروپ اور کرشنا کو بٹی کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے اور ہمارے خاندان میں آپس میں شادیاں بھی ہوئی ہیں۔ میری بہن شوراج دلی کی شادی نہرو جی کے کزن کشن لال نہرو سے اور دوسری بہن کیلاش وتی کی شادی نہرو جی کے موسیرے بھائی سے ہوئی تھی۔ ۱۹۳۸ء میں جب پنڈت نہرو، مسز پنڈت اور ان کے شوہر رنجیت پنڈت نینی جیل الہ آباد میں تھے تو مسز پنڈت اپنی لڑکیوں کو میری نگرانی میں چھوڑ کر گئی تھیں۔

ملا صاحب بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گئے اور ان کے چہرے پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس اثنا میں ملازمہ چائے لے کر آئی تھی دیگر لوازمات بھی تھے۔ ملا صاحب نے چائے کی پیالی ہاتھ میں لی۔ ایک گھونٹ بھرا اور پھر بولے : ۱۹۲۵ء میں میں نے لکھنو میں وکالت شروع کی تھی۔ نہروج ی کبھی لکھنو آتے تو میں انھیں اپنی بے بی آسٹن کار میں بٹھا کر شام کی سیر کے لیے لے جاتا اسٹیشن روڈ پر مسز بخشی رہا کرتی تھیں۔ من موہن جی بھی وہیں رہتے تھے جو ہمارے اچھے واقفوں میں تھے ہم ان کے ہاں بھی چلے جاتے اور سیاست سے علم و ادب تک بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہم ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ نہرو جی میں استدلال کی زبردست قوت تھی۔ اختلاف کی صورت میں اکثر یہی ہوتا کہ ہم بالآخر ان دلیلوں کے سامنے سپر انداز ہو جاتے۔

ملا صاحب نے پھر تھوڑا توقف کیا جیسے منتشر یادوں کو جمع کر رہے ہوں۔ مجھ سے کچھ کھانے کو کہا اور بولے : ۱۹۳۶ء میں لکھنو میں کانگریس کا سیشن ہوا۔ نہرو بہ حیثیت صدر مدعو کیے گئے اس موقع پر ہم نے ایک مشاعرہ رکھا۔ مشاعرہ کمیٹی کے سکریٹری امین سلونوی تھے اور میں صدر تھا۔ مشاعرے کی صدارت مسز سروجنی نائیڈو نے کی اور اس وقت کے تمام بڑے بڑے شعرا اس میں شریک ہوئے۔ مشاعرے کے ٹکٹ فروخت کیے گئے تھے، صرف یہی نہیں کہ جتنے ٹکٹ چھپوائے گئے تھے وہ سب فروخت ہو گئے بلکہ آخر میں ٹکٹوں کے کائنٹر فائل بھی ٹکٹوں کے طور پر لوگ خرید لے گئے اس مشاعرے کا مقصد کانگریس کے لیے فنڈ جمع کرنا تھا جو خاطر خواہ طور پر پورا ہوا مشاعرے میں میں نے اپنی نظم ’’جواہر لال نہرو‘‘ پڑھی جو بہت پسند کی گئی اور دوبارہ کانگریس کے کھلے اجلاس میں ساغر نظامی کی آواز میں پڑھوائی گئی جو بہت خوش الحان تھے۔

ملا صاحب اب عمر کی دسویں دہائی میں ہیں۔ جسم کمزور ہو گیا ہے لیکن ان کے ذہن اور آواز پر بڑھاپا اثر انداز نہیں ہوا ہے۔ کہنے لگے : نہرو جی کو اردو سے بڑا لگاؤ تھا۔ کبھی کبھی وہ اردو شعراء کی خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تو مجھ سے ہی ایک شاعر کو دو سو روپے دلوائے تھے جو اس زمانے میں قابلِ لحاظ رقم تھی۔ لیکن مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو میں آپ کو سناتا ہوں۔ غالباً یہ ۱۹۳۹ء کا ذکر ہے کانپور میں مسز سروجنی نائیڈو کی صدارت میں ایک مشاعرہ ہوا۔ اس زمانے میں بھی تحت اللفظ پڑھنے والوں کے مقابلے میں مترنم شاعروں کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ میری باری آئی اور میں اپنی نظم سنانے کھڑا ہوا تو مسز سروجنی نائیڈو نے کہا ملا تمہاری نظم ساغر نظامی پڑھیں گے۔ چنانچہ میری نظم ’’تم‘‘ جو ایک عاشقانہ نظم تھی ساغرؔ نظامی نے ترنم سے پڑھی اور بہت زیادہ پسند کی گئی۔ کچھ دن بعد الہ آباد میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت امرناتھ جھا نے کی۔ مشاعرے میں سروجنی نائیڈو بھی تھیں اور پنڈت نہرو بھی موجود تھے جو تازہ تازہ چین کے سفر سے لوٹے تھے اور وہیں کا چوغہ پہنے ہوئے تھے۔ میں کچھ اور پڑھنا چاہتا تھا لیکن مسز سروجنی نائیڈو نے اصرار کیا کہ میں وہی کانپور کے مشاعرے والی اپنی نظم ’’تم‘‘ دوبارہ اس مشاعرے میں پڑھوں نظم میں نے پڑھی لیکن یہاں اس کی کچھ زیادہ پذیرائی نہیں ہوئی بلکہ میں نے محسوس کیا کہ نظم سن کر پنڈت نہرو قدرے مکدر ہو گئے ہیں۔ ہندی کے شاعر ہری ونش رائے بچن نے بھی اس مشاعرے میں اپنی ایک نظم پڑھی جس کا محوری مصرعہ تھا:

سیج پر کب تک رکوں میں آج موجوں کا نمنترن

یہ نظم لوگوں نے بہت پسند کی۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد پنڈت نہرو نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: اردو شاعروں کا حال عجب ہے، چہرے پر جھریاں پڑ جائیں گی، جسم ضعیف ہو جائے گا مگر زبان ہائے دل ہائے دل پکارتی رہے گی۔ در اصل مجھ سے انھیں یہ امید تھی کہ میں ان کی موجود گی میں وطن پرستانہ کلام سناؤں گا۔

ملا صاحب نے ایک گہری اور لمبی سانس لی اور بولے : پنڈت جی انگریزی کے شاعر رابرٹ فراسٹ کے بہت قائل تھے۔ پنڈت جی کے انتقال کے بعد ان کی میز کی دراز سے رابرٹ فراسٹ کے چند قطعے بھی برآمد ہوئے تھے۔ خیر اس وقت بھی انھوں نے مجھے اس کا ایک قطعہ سنایا اور کہا دیکھو! شاعری یہ ہوتی ہے تم اس کا اردو میں ترجمہ کرو۔ میں نے ان کے ارشاد کی تعمیل کی۔ وہ ترجمہ یوں ہے۔

مسکن ہے خاک میرا خود خاک سر بسر ہوں

دامِ حیات میں اک مرغِ شکستہ پر ہوں

پالا ہوا ہوں لیکن تاروں بھرے فلک کا

اس تیرہ خاکداں میں اک جلوۂ سحر ہوں

ہوں مشتِ خاک لیکن فردوس در نظر ہوں

ملا صاحب کو ایک کے بعد ایک واقعہ یاد آ رہا تھا۔ کہنے لگے : فراقؔ گورکھپوری جن کا نام رگھوپتی سہائے تھا، پنڈت جی کے قریبی لوگوں میں تھے۔ پنڈت جی ان کی شاعری کی وجہ سے بھی ان کی قدر کرتے تھے اور اس جذبے کی وجہ سے بھی جو فراقؔ صاحب کے دل میں آزادی وطن کے لیے موجزن تھا۔ ایک بار وہ پنڈت جی سے ملنے آنند بھون گئے اور ان کے نوکر سے کہلوایا کہ سہائے صاحب آئے ہیں۔ پنڈت جی باہر آئے تو دیکھا فراقؔ ہیں، ہنسنے لگے اور بولے، آج تو سہائے بن کر آئے ہو، کل ایسا نہ ہو کہ ہائے بن کر آؤ۔ اس سے پنڈت جی کی حس مزاج کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ملا صاحب کہنے لگے : جو تراجم اس کتاب میں شامل ہیں، وہ سب پنڈت جی کے سنے ہوئے ہیں۔ میرا طریقِ کار یہ تھا کہ جب ایک مضمون کا ترجمہ مکمل ہو جاتا تو میں پنڈت جی کو سنا لیتا پھر دوسرے مضمون کا ترجمہ شروع کرتا۔ جب میں نے جج کی ذہنیت کا ترجمہ پورا کیا تو پنڈت جی نینی جیل میں تھے۔ نینی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کرنل اوبرائے تھے جو نہرو جی کی عزت کرتے تھے۔ جیل کے ضابطوں کے مطابق یہ ضروری تھا کہ جو لوگ قیدیوں سے ملنے آئیں ان کی تلاشی لے کر اندر بھیجا جائے اور وہ باہر آئیں تو پھر تلاشی لی جائے۔ لیکن کرنل اوبرائے نے جن کا سلوک دوسرے قیدیوں کے ساتھ بھی اچھا تھا، پنڈت جی کے پاس آنے جانے والوں کو اس قاعدے سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ کم از کم انھوں نے میری تلاشی کبھی نہیں لی۔ خیر میں ترجمہ لے کر جیل میں پہنچا اور پنڈت جی کو سنایا۔ مسز وجے لکشمی پنڈت کے شوہر رنجیت پنڈت بھی موجود تھے۔ پنڈت جی نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے : یہ میرے مضمون کا ترجمہ مجھے اس طرح سنا رہے ہیں جیسے خود مضمون پڑھ رہے ہوں۔ پنڈت جی اس طرح شائستہ مذاق اکثر کیا کرتے تھے۔

ملا صاحب بہ ظاہر تکان بول رہے تھے مگر میں نے ان کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھے اور قطع کلام کی جسارت کرتے ہوئے ان سے پوچھا:

ملا صاحب! انشا پردازی کے لحاظ سے تو یہ مضامین سدا بہار ہیں۔ بحالتِ موجودہ عملی نقطۂ نظر سے ان کی کیا قدر و قیمت ہے، کیا آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں گے ؟

ملا صاحب چند لمحے خاموش رہے، جیسے کچھ سوچنے لگے ہوں۔ پھر فرمایا: دنیا بڑی تیز رفتاری سے بدلی ہے۔ اس زمانے میں جو خیالات ہمارے ذہنوں میں پرورش پا رہے تھے اور جو مقاصد ہمارے سامنے تھے وہ بھی بڑی حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔ دنیا اور ہمارا ملک بھی نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ افق در افق ہم ایک نیا سفر طے کر رہے ہیں اور اس سفر میں نسلِ انسانی کو کچھ نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے جس دور بینی اور دور اندیشی کی ضرورت ہے اس سے یہ مضامین مملو ہیں اس لیے ان کی افادیت آج بھی ہے، کل بھی رہے گی۔

پنڈت جی کے طرزِ نگارش پر روشنی ڈالتے ہوئے ملا صاحب نے فرمایا: ان کی زبان رسمی نہیں، تخلیقی ہے۔ وہ ایک صاف دل اور صاف گو انسان تھے۔ سیاسی لوگ عام طور پر نقاب پوش ہوتے ہیں لیکن پنڈت جی کی دلچسپی پردہ داری میں نہیں پردہ دری یا نقاب کشائی میں تھی۔ وہ اپنے گرد و پیش سے مطمئن نہیں تھے اور ان کی پوری زندگی ایک طرح کی نبرد آزمائی میں بسر ہوئی۔ ان کی تحریریں اسی نبرد آزمائی کی کہانی ہمیں سناتی ہیں۔ وہ اب بھی انگریزی زبان کے بڑے قلمکاروں میں ہیں لیکن اگر گاندھی جی سے متاثر ہو کر عملی سیاست سے وابستہ نہ ہو گئے ہوتے تو ان کے قلم سے اور بھی بیش بہا تحریریں معرضِ وجود میں آتیں اور ہماری روشن خیالی میں اضافے کا موجب بنتیں۔

(مضامین نہرو پر مشتمل کتاب ’’ایک اور کھپچی‘‘ کا دیباچہ، جس کا ترجمہ آنند نرائن ملّا نے کیا تھا۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

ملّا صاحب سے ایک ملاقات

 

                ……… شمیم جہاں

 

اردو تحریک کے روحِ رواں، سفیرِ اردو پنڈت آنند نرائن ملا، اردو کے مشہور و معروف شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے انگریزی میں ایم۔ اے کیا اور شاعری کا آغاز بھی انگریزی شاعری سے کیا انگریزی ادب سے انھیں گہری دلچسپی رہی۔ لیکن اس کے باوجود ملا صاحب نے اردو کا چراغ ہمیشہ اپنے دل میں جلائے رکھا۔ اردو کے قافلۂ سالار کی حیثیت سے ان کے ہاتھوں میں ہمیشہ اردو کا علم رہا اور ان کے ہاتھ کبھی نہیں تھکے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا صاحب کا نام اردو دنیا میں انتہائی عقیدت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

پنڈت آنند نرائن ملا کا جنم ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ ۱۹۲۳ء میں ایم۔ اے کیا اور ۱۹۲۵ء میں وکالت پاس کی اور لکھنؤ ہی میں پریکٹس شروع کر دی۔ ۱۹۵۴ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقر ر ہوئے۔ بہ حیثیتِ جج ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء تک کسی قسم کا بیرونی دباؤ قبول کیے بغیر لوگوں کو انصاف دیا۔ اور اب ان کا شمار سپریم کورٹ کے کامیاب ترین وکیلوں میں ہے۔

۱۹۷۵ء میں جب میں انجمن میں آئی، اس وقت ملا صاحب انجمن ترقی اردو کے صدر تھے ملا صاحب کا نام میں نے انجمن میں آنے کے بعد ہی سنا۔ پنڈت اور ملا۔ ان دو لفظوں نے مجھے کافی دنوں تک الجھائے رکھا۔ اسی نام کی وجہ سے مجھے ملا صاحب کو دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی۔ جب ملا صاحب کا ذکر ہوتا تو کبھی ملا صاحب، ملا کے مخصوص لباس میں میرے تصور میں ہوتے اور کبھی ٹھیٹ پنڈت کے دستوں میں گلے میں جینؤ پہنے۔ بہرحال میری یہ الجھن جلد ہی دور ہو گئی۔ جب ۱۹۷۶ء میں انجمن کی مجلس طلبہ کے جلسے میں ملا صاحب تشریف لائے اور مجھے ان سے ملنے اور انھیں دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ منظر بالکل الٹا تھا۔ نہ وہ ملا تھا، نہ پنڈت۔ نہایت معقول، وجیہہ اور متاثر کر دینے والی بزرگ شخصیت میرے سامنے تھی۔ اس کے بعد ملا صاحب جب بھی اردو گھر میں تشریف لاتے تو میں انھیں سلام کرتی اور موقع ملتا تو ایک دو بات بھی کرتی۔ کیوں کہ ان سے باتیں کر کے مجھے اچھا لگتا تھا۔ ملا صاحب واقعی ایسی شخصیت ہیں، جن کا احترام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ملا صاحب کے پاس بیٹھوں۔ ان کی باتیں سنوں۔ اگر چہ بار ہا ان کے دولت خانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن سلام دعا اور رسمی بات چیت کے علاوہ ان سے تفصیلی گفتگو کا موقع نہ ملا۔ اب جب کہ انجمن ترقی اردو (ہند) اور جامعہ اردو علی گڑھ، ملا صاحب کا جشنِ سال گرہ منا رہے ہیں۔ اس مبارک موقع پر میرا دل چاہا کہ میں بھی ان کی شخصیت پر کچھ لکھوں، ان سے گفتگو کی روشنی میں۔ لیکن ڈر رہی تھی کہ ملا صاحب اپنی کمزور صحت اور مصروفیات کے پیش نظر وقت دینے سے ان کار نہ کر دیں۔ بہر حال ہمت مرداں مدد خدا پر یقین کیا اور ملا صاحب کو فون ملایا۔ زہے نصیب کہ وقت مل گیا۔ انھوں نے فرمایا آپ چار بجے آ جائیے۔ میں ٹھیک چار بجے ملا صاحب کے یہاں پہنچ گئی۔

ملا صاحب اپنی وسیع کوٹھی کے وسیع برآمدے میں کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے یا شاید میرا ہی انتظار کر رہے ہوں۔ ملا صاحب کافی ہشاس بشاش نظر آ رہے تھے۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی، کہنے لگے ’’اچھا آپ میرا انٹرویو لینے آئی ہیں … کیا خلیق انجم نے آپ کا نام بھی شامل کیا ہے، مقالہ نگاروں میں ‘‘ میں نے عرض کیا، جی ہاں ! یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میرا نام بھی اس فہرست میں ہے۔

ملا صاحب کے ساتھ گفتگو کے ان لمحات کو میں نے صفحات میں قید کر لیا۔ آئیے ان لمحات کی بازگشت سنیں۔ میرا پہلا سوال ان کی شاعری کے بارے میں تھا۔

آپ نے اردو شاعری کا آغاز کب کیا؟

ملّا صاحب: انگریزی میں شاعری تو میں ۱۹۱۸ء سے کر رہا ہوں، جب میں بی۔ اے میں تھا۔ اردو شاعری کا آغاز بہت بعد میں ہوا۔ غالباً ۱۹۲۵ء میں۔

سوال: لکھنؤ کی سر زمین شاعری کے لیے بڑی زرخیز اور شاعری کو بہت راس آئی ہے کیا آپ بھی لکھنؤ کے شعر و سخن کے ماحول میں متاثر ہوئے ؟

ملّا صاحبَ یہ درست ہے، ماحول کا اثر یقیناً ہوتا ہے، مجھ پر بھی ہوا ہو گا۔ میں اکثر ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شریک ہوتا تھا۔

سوال: آپ کی پہلی غزل یا نظم کونسی ہے ؟

ملّا صاحب: میں نے روایت سے ہٹ کر اپنی شاعری نظم سے شروع کی۔ میری پہلی نظم ’’پرستارِ حسن‘‘ ہے، جو مسدس کے فارم میں ہے۔ دس (۱۰) بارہ(۱۲) بند پر مشتمل ہے۔

سوال: شاعری میں آپ کا لہجہ منفرد ہے اور یہ کہ آپ کی شاعری کسی فرد واحد کی آواز نہیں ہے۔ بلکہ یہ تمام عالمِ انسانیت کی آواز ہے، جس میں مذہب پر انسانیت کو فوقیت حاصل ہے اور انسان دوستی کا جو جذبہ اور اس جذبے میں جو خلوص و صداقت آپ کے یہاں ہے، کیا اس کے پیچھے کوئی تجربہ، مشاہدہ یا تحریک ہے یا یہ محض ایک نظریہ کے طور پر آپ کے یہاں ہے ؟

اس ضمن میں مجھے آپ کا ایک شعر یاد آ گیا۔

تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے

ترے ہاتھوں، بہت توہینِ آدم ہوتی جاتی ہے

ملّا صاحب یہ سوال مشاہدے یا تجربے کا نہیں ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان دوستی کل کے لیے اور کل کے بعد کے لیے ہے۔ نوعِ انسان کی ترقی میں، انسان دوستی ہی مددگار ہوتی ہے ورنہ ہم کسی وقت بھی فنا ہو سکتے ہیں … مجھے ایک شعر یاد آیا سناتا ہوں۔

مجھے اے خالقِ کون و مکاں خاموش کر دینا

مرے لب پر نہ جس دن دردِ انساں کی پکار آئے

سوال: آپ اردو تحریک کے سرگرم رُکن ہیں اور آپ کا نام اردو تحریک میں سرِ فہرست ہے۔ تحریک کے سلسلے میں آپ کی کیا سرگرمیاں رہی ہیں ؟

ملّا صاحب:یہ تو لوگوں کی محبت ہے جو مجھے اتنا بڑا درجہ دیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کوئی ایسا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہاں اردو کے جائز حقوق کے لیے میں نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ بہت سے میمورنڈم حکومت کو پیش کیے خطبات دیئے۔ میں نے خود کو ہمیشہ اردو کا خادم سمجھا ہے۔ اور میں اسے اپنا حق سمجھتا ہوں اور یہ حق زائل نہ ہونے پائے اس کی پوری کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زبان کی حفاظت کی جائے۔ میں نے قومی حکمت کے طور پر اردو کی خدمت کی ہے، جو بھی میں کر سکا۔ ‘‘

سوال: ملا صاحب! یہ حقیقت ہے کہ اردو کے معاملے میں آپ زیادہ حساس ہیں اور آپ کا رویہ دوسروں سے الگ ہے۔ تقسیم ملک کے بعد اردو کو محدود کر کے ایک فرقے کی زبان قرار دے دیا گیا اور اس کی ترقی کی تمام راہیں مسدود  کر دی گئیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور تحریک کے محاذ سے اردو کی جنگ لڑتے رہے ؟

آپ کا یہ فقرہ(جو اب تاریخی اختیار کر گیا ہے ) ’’میں مذہب بدل سکتا ہوں، زبان نہیں بدل سکتا‘‘۔ یہ اردو سے آپ کی بے پناہ محبت کا اظہار ہے۔ اس سلسلے میں آپ کچھ کہنا چاہیں گے۔

ملّا صاحب نے بہت جذباتی انداز میں کہا: جی ہاں میں نے یہ فقرہ جامعہ اردو کے ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اور کچھ جملے بھی کہے تھے ’’اردو میری میراث ہے، اردو میں ہوں۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ جہاں تک اردو سے محبت کا سوال ہے، آپ دیکھ رہی ہیں کہ میرا نیچر ایمان میں بلیوBelieveنہیں کرتا ہے۔ انسان میں بلیوBelieveکرتا ہے۔ انسانی قدریں جو ہیں، ان کی حفاظت ضروری ہے۔ اور ادبی زبان ایک ایسی انسانی قدر ہے جس کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اپنی مادری زبان نہیں جانتا۔ اور گویا ہم اس کو نکال دیتے ہیں کہ تم سارے مقابلے میں نیچے درجے پر رہو اور یہ میں کیسے قبول کر سکتا ہوں اور کوئی کیسے قبول کر سکتا ہے، جو انسانیت میں یقین رکھتا ہے۔ اردو کے ساتھ محبت میرا آئینی حق ہے۔ اور انسانی حق بھی ہے۔ اسی وجہ سے اردو کی جو بھی خدمت میں کر سکا میں نے کی۔ ‘‘

سوال: ملا صاحب! آپ سیاست سے کب وابستہ ہوئے ؟

ملّا صاحب: میں سیاست سے کبھی وابستہ نہیں ہوا۔

سوال: لیکن آپ ممبر پارلیمنٹ ہیں آپ نے کبھی اردو کا سوال پارلیمنٹ میں اٹھایا؟

ملّا صاحب” پارلیمنٹ میں اردو کا سوال کبھی نہیں اٹھایا لیکن جب اردو کے لیے پارلیمنٹری کمیٹی بنی تو میں اس کا صدر تھا۔ ممبر پارلیمنٹ ہونا یہ لوگوں کے دلوں میں میری شخصی محبت کا نتیجہ تھی۔ میں ان ڈیپنڈنٹ کینڈیڈیٹ کی حیثیت سے ۱۹۶۷ء میں لوک سبھا کے لیے لکھنو کے پارلیمنٹری الیکشن میں منتخب ہو کر آیا اور عوام نے مجھے ان لوگوں کے مقابلے میں پسند کیا جو کسی سیاسی گروہ سے وابستہ تھے۔ میری انسانی قدروں کی وجہ سے لوگوں کا مجھ میں اعتماد تھا۔ میں نے انسانی قدروں پر عمل کیا ہے، زندگی میں پیشے میں، ادب میں اور قانون میں، فقط زبان سے ہی نہیں کیا ہے۔

سوال: آپ راجیہ سبھا کے ممبر کب نامزد ہوئے ؟

ملّا صاحب: میں ۱۹۶۷ء میں لوک سبھا میں آیا اور ۱۹۷۰ء میں وہ ہاؤس ختم کر دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں دوبارہ الیکشن ہوئے لیکن کانگریس نے مجھے نامزد نہیں کیا۔ اس وقت کانگریس کا اتنا زور تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں جیت نہیں پاؤں گا۔ اس لیے ۱۹۷۰ء میں میں نے الیکشن نہیں لڑا۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں کانگریس نے مجھے خود نامزد کیا ۱۹۷۸ء تک میں راجیہ سبھا کا ممبر رہا۔ ‘‘

سوال: تو کیا اس سے پہلے کانگریس سے آپ کا قطعی تعلق نہیں تھا؟

ملّا صاحب: کانگریس تو بچپن سے میرے ساتھ تھی، جب میں ۱۶ برس کا تھا۔ لکھنؤ میں کانگریس کا اجلاس ہوا، میرے والد ریسپشن کمیٹی کے چیرمین تھے۔ میں ان کا پیش تھا۔ لیکن کانگریس سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا اور نہ ہی کانگریس نے مجھے قریب لانے کی کوشش کی۔ لیکن میں عوام میں مقبول ہو چکا تھا۔ میں لوک سبھا میں آیا اور ثابت کیا کہ میں، میں ہوں۔

سوال: آپ کبھی پاکستان تشریف لے گئے؟

ملّا صاحب: میں ۱۹۵۲ء میں ٹربیونل کا چیئر مین ہو کر پاکستان گیا۔ وہاں میری بڑی قدر ہوئی۔ اس زمانے میں شوکت تھانوی وغیرہ تھے۔ مجھے پاکستان میں ’’سفیر اردو‘‘ کا خطاب دیا گیا لیکن یہاں تو مجھے کوئی خطاب کسی نے نہیں دیا، لیکن پاکستان نے دیا۔

(ملا صاحب کے لہجے میں، میں نے ایک شکایت محسوس کی جو ہر اس انسان کو ہوتی ہے جو کوشش کرتا ہے اور اسے نہیں ملتا) چائے آ گئی اور گفتگو کا سلسلہ تھوڑی دیر کے لیے رک گیا۔ چائے کے بعد گفتگو کے سلسلے کی کڑیاں جوڑتے ہوئے میں نے ملا صاحب سے پوچھا۔

سوال: کیا اب بھی شاعری اور لکھنے کا سلسلہ جاری ہے ؟

ملّا صاحب: اب شاعری بھی چودہ پندرہ سال سے غائب ہے اور نثر بھی غائب ہے لیکن کبھی کوئی اپنی کتاب کے مقدمے کے طور پر لکھوانے آ جائے تو لکھ دیتا ہوں۔ ابھی رفعت سروش تشریف لائے تھے، اسی سلسلے میں۔

سوال: کیا وکیل آپ کو والدین کی خواہش کی وجہ سے بننا پڑا یا آپ نے اپنی پسند سے یہ پیشہ اختیار کیا؟

ملّا صاحب: یہ میرا خاندانی پیشہ سمجھیے، میرے والد بھی وکیل تھے۔ ان کی وجہ سے میری طبیعت بھی اس طرف آ گئی اور یہ میری روٹی کا ذریعہ بن گیا۔ میں نے آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان بھی دیا تھا۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ نو(۹) لڑکے چنے جانے والے تھے۔ میں تیرویں نمبر پر تھا۔

سوال: انجمن میں آپ کب آئے ؟

ملّا صاحب: انجمن میں مجھے سجاد ظہیر لائے اور براہِ راست صدر کی حیثیت سے میں دس سال تک انجمن میں صدر رہا۔ دلی میں اردو کے بہت سے ادارے ہیں لیکن انجمن سے میرا ایک رشتہ ہے۔ ایک تعلق ہے۔

(میں نے ملا صاحب سے کہا کہ میں کچھ ذاتی قسم کے سوالات کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو، انھوں نے کہا، ضرور پوچھیے۔ )

سوال: جوانی میں آپ کے کیا کیا شوق تھے ؟

ملّا صاحب: مجھے کھیلوں میں بہت دلچسپی تھی۔ میں اس وقت ایک اچھا سپورٹ مین مانا جاتا تھا۔ ٹینس بہترین کھیلتا تھا۔ تاش کا ہر گیم میں نے کھیلا ہے۔ برج کا بہت اچھا کھلاڑی تھا، پوکھر کھیلتا تھا۔ کلب کا سکریٹری ہوا کرتا تھا، مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شرکت کا بڑا شوق تھا۔

سوال: کھانے میں آپ کیا پسند کرتے تھے اور اب کیاپسند کرتے ہیں ؟

ملّا صاحب: جوانی میں مرغن کھانے مجھے بہت پسند تھے خوب کھاتا تھا اور اب سادہ کھانا کھاتا ہوں کیوں کہ مرغن کھایا نہیں جاتا۔

سوال(ایک بہت نجی سوال معذرت کے ساتھ کر رہی ہوں ) کیا آپ کی ازدواجی زندگی میں کبھی کوئی اتار چڑھاؤ آیا، آپ کے اور بیگم صاحبہ کے خیالات میں کبھی اختلاف ہوا؟

ملّا صاحب: مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری اور بیگم صاحبہ کی پسند میں یا خیالات میں اختلاف ہوا ہو۔

سوال: ملا صاحب! جو لباس آپ پہنتے ہیں اس میں بیگم صاحبہ کی پسند بھی شامل ہے یا آپ اپنی پسند کے کپڑے پہنتے ہیں۔

ملّا صاحب: میں نے ہمیشہ وہی کپڑے پہنے ہیں جو کشمیری مرد پہنتے تھے۔ شیروانی، پاجامہ۔ کبھی سوٹ نہیں پہنا، لیکن بیگم صاحبہ نے کبھی نا پسند نہیں کیا۔

سوال: آج کل آپ کے شب و روز کیسے گزر تے ہیں ؟

ملّا صاحب: بھئی جب سے میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں ہیں سونٹھا لے کر چلتا ہوں۔ نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔ اس لیے صبح کو سیر کو بھی بہت کم جاتا ہوں۔ اب پڑھتا بھی نہیں ہوں جو کتابیں آتی ہیں میں دے دیتا ہوں۔ دو کتابیں ساہتیہ اکیڈمی سے آئی ہیں وہ میں آپ کو دوں گا۔

اب تو بس وکالت کرتا ہوں۔ عدالت میں بحث کرتا ہوں۔ بحث کی تیاری کرتا ہوں۔ اب میں اردو کو کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔ اس قابل اب نہیں سمجھتا خود کو

سوال: صبح کتنے بجے اٹھتے ہیں ؟

ملّا صاحب: ۶ بجے اٹھ جاتا ہوں۔ ساڑے آٹھ تک ضروریات سے فارغ ہو کر بریک فاسٹ لیتا ہوں … بریک فاسٹ میں کیا لیتے ہیں ؟ دلیا، پاپڑی وغیرہ نو بجے تک عدالت چلا جاتا ہوں۔ لنچ گھر پر ایک بجے لیتا ہوں۔ آرام کر کے چار بجے چائے پیتا ہوں چائے کے ساتھ کیلا، پپیتا یا کوئی اور پھل۔ رات کو آٹھ بجے ڈنر کھاتا ہوں۔ ہندی کی نیوز سنتا ہوں اور پھر انگریزی کی بھی نیوز سنتا ہوں۔ ساڑھے نو بجے بستر پر چلا جاتا ہوں۔

سوال: ملا صاحب! بس آخری سوال۔ کیا شادی آپ نے اپنی پسند سے کی تھی یا والدین کی پسند سے ؟

سو فیصدی اپنی پسند سے کی تھی۔ میری بیگم کا نام اپنورنا ہے۔ کشمیری ہیں۔ ان  کے بھائی سے میری دوستی تھی، گھر میں آنا جانا تھا۔ مجھے لڑکی پسند تھی میں نے شادی کر لی۔

ملا صاحب سے گفتگو کر کے مجھے بہت لطف آیا، جو سادگی، صفائی ان کی زندگی میں ہے وہی ان کی زبان پر بھی ہے … اس زحمت کے لیے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی گفتگو کے لطیف اور شیریں احساس کے ساتھ واپس آ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

آنند نرائن ملّا کے افکار کی معنویت

 

                ……… فرحت رضوی

 

’سفیراردو‘یہ خطاب آنند نارائن ملا کوپاکستان نے اس وقت دیا تھا جب وہ ۱۹۵۲میں اردو ٹریبونل کے چئیرمین کی حیثیت سے گئے تھے۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے اس بات پر فخراورپاکستان کے تئیں تشکرکا اظہار کیا ہے۔ آج بات ملا صاحب کی ادبی خدمات، حیات اور کارناموں کی ہو رہی ہے۔ اس سیمنارمیں بڑے بڑے اس کالروں کے سامنے کچھ کہنے کی جرأت کرنے کے لئے جب ایک نظر ملا صاحب کی تخلیقات اور ان پر لکھے گئے مضامین، مبصرین اور ناقدین کی رائے پر ڈالی تو میں نے اپنی بات کہنے کے لیے ان کی شاعری اور دیگر تخلیقات سے قطع نظر آنند نرائن ملا کی عملی زندگی سے کچھ ایسے واقعات کا انتخاب کیا، جن سے اردو زبان کے تئیں ان کی والہانہ محبت کے ساتھ زبان کے فروغ کے لئے ان کی کوششوں اور تنظیمی صلاحیتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ہندوستان جیسے multi-cultural، multi-religious اورmulti-lingualملک میں، جہاں زبانوں کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس ماحول میں آنند نرائن ملا کے لسانی افکار جو بہت واضح ہیں، زبان کی تاریخی روایت، آئینی سطح پران کا تجربہ اور تجاویز کی روشنی میں اردو کی بقا کے لئے ان کا طریقۂ عمل صحیح نظر آتا ہے۔ ہمہ جہت شخصی خوبیوں کے مالک، آنند نارائن ملا نہ صرف ایک شاعر یا ادیب تھے، بلکہ اردو کے کئی اداروں کے سربراہ اور اہم کمیٹیوں کے ممبر رہ چکے تھے، سیاسی میدان میں فعال کارکن اور ماہر قانون تھے۔ ملک میں اردو کواس کا جائز حق دلوانے کے لئے جس طرح انہوں نے کئی جہت میں اپنی لڑائی لڑی، آج کم سے کم اسے سمجھنا ضرور چاہئے۔ کسی تحرک یا مہم کو چلانے کے لئے تنظیمی صلاحیت اورجس تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان کے پاس تھا۔ دوسرے لسانی حقوق کے ضمن میں آئینی جان کاری لازم ہے۔ ایک کامیاب وکیل اور ہائی کورٹ کے سابق جج ہونے کی وجہ سے اس یہ قابلیت بھی ان کے پاس تھی۔ اس لئے اردو کے لیے انہوں نے آئینی نکتہ نظرسے جو تجاویز دیں وہ بیحد اہم تھیں اور آج بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے وکالت کے پیشے کے دوران سیکڑوں مقدمے لڑے، بحیثیت جج فیصلے سنائے اور بہت سے کمزور مقدموں میں بھی کامیابی ملی۔ لیکن ان سب مقدموں میں اردو کا مقدمہ سب سے مضبوط ہے۔ ظاہر ہے یہ بات آنند نرائن دستورہند میں مادری زبان اور اردو کو دی گئی مراعات کی بناء پر ہی کہ رہے تھے۔ لیکن اردو کی وکالت کرنے والوں کی توجہ اس طرف کم ہی جاتی ہے۔ آج اگرکوئی سچے دل سے انہیں خراج پیش کرنا چاہتا ہے، تو ان پہلوؤں پرسوچناناگزیرہے۔

دو ڈھائی برس قبل جب ملک میں مردم شماری کا کام چل رہا تھا۔ سرکاری ملازمین گھروں میں جا کر فارم بھر رہے تھے، اس وقت جن کی مادری زبان اردو ہے، فارم بھرنے والوں نے مادری زبان کے کالم میں ہندی کا اندراج کیا اورایسا کرنے کے لئے ان کے پاس دلیلیں بھی تھیں۔ اس طرح کی دھاندلی کی بہت شکایتیں آئیں تھیں اردو اخبارات میں لوگوں نے مضامین بھی لکھے۔ اردو مخالف طاقتیں جتنی آج مضبوط ہیں آج سے ۴۵ برس پہلے بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی اور اس دھاندلی کا شکار کوئی اور نہیں، بلکہ محب اردو، سفیراردو اور زبان اردو کے فروغ کی مہم کے سپہ سالار آنند نرائن ملا خود ہوئے تھے۔ ۱۶اپریل ۱۹۶۶۵کو قومی آواز میں شائع ایک خبر میں بعنوان اردو ہندی کی شیلی نہیں کے مطابق۔ ۔ ۔ ۔ آنند نرائن ملا کے حوالے سے لکھا ہے کہ لکھنؤ کے کارلٹن ہوٹل میں روٹری کلب کے ایک جلسے میں اپنی تقریر میں ملا صاحب نے ۱۹۶۱کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ ۱۹۶۱کی مردم شماری کے اعتبارسے جن لوگوں کی مادری زبان اردو لکھی گئی تھی ان کی تعداد ۲کروڑ۲۸لاکھ تھی۔ انہوں نے اس وقت اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ان سے پوچھے بغیر فارم میں ان کی مادری زبان ہندی لکھ دی گئی۔ بعد میں جسے انہوں نے درست کرایا۔ حال کی بات کریں تو موجودہ صورتحال اور بھی بد تر ہے۔ مردم شماری کے وقت بغیر پوچھے مادری زبان کا کالم بھرنے کے علاوہ، جامعہ جیسے علاقے میں جو لوگ خود فارم بھر رہے تھے اور صاف طور پر اپنی مادری زبان اردو لکھ رہے تھے انہیں فارم بھرنے کے لئے پینسل دی گئی، جبکہ دوسرے علاقوں میں پین سے فارم بھرے گئے، جہاں درست کرنے کی گنجائش معدوم ہو گئی۔

آنند نرائن ملا کی مادری زبان کے حوالے سے ایم حبیب خاں اپنے مضمون ملا صاحب کی اردو خدمات میں لکھتے ہیں کہ میں نے بہت سے ہندو ادیبوں اور شاعروں کا مطالعہ کیا ہے، جنہوں نے اردو کی بدولت اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ لیکن انہوں نے مردم شماری کے موقع پر اپنی مادری زبان اردو کے بجائے ہندی درج کرائی اور کراتے ہیں۔ لیکن ملا صاحب کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی مادری زبان اردو ہی درج کراتے ہیں۔ اور ملا صاحب نے اس بارے میں اردو کی کئی محفلوں میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اردو والوں کے لئے یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ ان کے مبصرین نے ملا کی لسانی فکر کا اعتراف کیا ہے۔ اردوسے والہانہ محبت کے اظہار میں ملا صاحب کا یہ جذباتی جملہ کہ ’’ میں اپنا مذہب چھوڑسکتا ہوں، لیکن اردو زبان نہیں چھوڑسکتا‘‘ تو ایک تاریخ بن گیا۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے لکھا ہے کہ انجمن ترقی ہند کے اجلاس کے موقع پر ملا صاحب کے اس اعلان نے اردو تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی اور محبان اردو کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا کر دیا تھا۔

آنند نرائن ملا کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم کی خامیوں اور نا انصافیوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ پیشے سے وہ ایک وکیل تھے اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے فیصلے سنائے لیکن دیانتداری کا دامن یہاں بھی نہیں چھوڑا ملا صاحب نے عدالتی خامیوں کی بھی نشاندہی کی اور نظام کی بھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے عدالتی نظام میں فوجداری مقدموں میں زیادہ تر نا  انصاٖفی ہوتی ہے۔ دیوانی کے معاملوں میں صرف دیر ہوتی ہے اس دیری کا ذمہ دار انہوں نے وکیلوں کو ٹھہرایا۔ اور فوجداری مقدموں میں نا انصافی کے لیے سیدھے انڈئن پولس کو۔ ۔ ایک فیصلہ دیتے ہوئے انہوں نے انڈئن پولس فورس کے بارے میں لکھا تھا کہ فوجداری میں زیادہ تر نا انصافی کی بنیادپولس ہے۔ وہ جھوٹے گواہ پیش کرتی ہے۔ س

برسراقتدارپارٹی کانگریس سے قریبی رشتوں کے باوجود مرکز اور صوبائی حکومتوں کی خام پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی خاص طورسے اردو کے حوالے سے۔ اردو کواس کا جائز حق دلوانے کے لئے کتنی مرتبہ انہوں نے حکومتوں کو میمورنڈم پیش کئے۔ اردو کے معاملے میں وہ کافی حساس تھے اور ان کا طریقۂ کار مختلف تھا۔

لکھنؤ کی ادبی و سماجی زندگی میں آنند نرائن ملا کافی مقبول تھے اسی لئے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہو کر پارلیمنٹ پہنچے۔ اس کے بعد دو مرتبہ راجیہ سبھا کے بھی رکن رہے۔ اردو کے لئے جب پارلیمانی کمیٹی تشکیل ہوئی تووہ اس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۴۶میں اردو ٹربیونل کے چئیرمین مقر ر ہوئے اوراس ٹریبیونل کے تحت۱۹۵۲میں پاکستان گئے۔ انجمن ترقی اردو ہند، اردو اکادمی اتر پردیش اور جامعہ علیگڑھ کے ذمہ دار عہدوں پر رہتے ہوئے اردو کے فروغ کے لئے کوشاں رہے۔ سات سال تک الہ آباد ہائی کورٹ کے جج رہے اور ان تمام مصروفیات کے دوران ادبی مشاغل اور تخلیقی سفر جاری رہا۔ اس طرح ملا صاحب نے عوامی، سیاسی، تنظیمی اور آئینی سطح پر کام کیا۔ عوامی مقبولیت، تنظیمی شعور اور آئینی نہج کے ذریعہ انہوں نے اردو کی وکالت کی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اردو کاسوال میرے لئے مادری زبان کا سوال ہے۔ جب تک اس دیس میں جمہوری نظام قائم ہے اور میری دعا ہے کہ روز بروز یہ اور مضبوط ہو۔ اس وقت مجھے آئین نے کچھ بنیادی حقوق دئے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں اپنی مادری زبان پڑھوں، لکھوں اور بولوں اوراسی زبان میں اپنے جذبات و افکار کو پیش کروں ‘‘۔

آنند نرائن ملا تخریبی قوتوں سے خائف نہیں تھے کیونکہ ان کا یقین تعمیری قوتوں پرتھا۔ تخریبی قوتوں کو انہوں نے وقتی بتایا۔ وہ ایمان میں نہیں بلکہ انسان اورانسانی قدروں میں یقین رکھتے تھے۔ اورانسانی اقدار کے بغیرانسان کی ترقی ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زبان در اصل صدیوں کے تاریخی عمل، تہذیب و تمدن کی رفتار، انداز فکر اور اخلاقی قدروں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اردوجسے وہ اپنی مادری زبان مانتے تھے، برملا اس کا انکشاف بھی کرتے تھے۔ اسی لئے اردو کی وکالت ہر طریقے سے ہرسطح پرکی۔ کبھی تاریخی حوالوں سے، تو کبھی آئینی حوالے سے اپنی دلیلوں کو مضبوطی سے پیش کیا۔ لیکن افسوس کئی دہائی گزر جانے کے بعد اردو کو اس کا جائز حق ملنا تو دور کی بات، جن کی مادری زبان اردو تھی ان کی نئی نسل بھی آج اردوسے بے بہرہ ہے۔ بقول خود ان کے۔

ہو گئی گم کہاں سحر اپنی

رات جا کر بھی رات آئی ہے

ڈاکٹر مرزا احمد خلیل بیگ لکھتے ہیں کہ ۱۹۶۱میں جب تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی حکومت کے وزیروں کی میٹنگ میں طلباء کو تین زبانیں پڑھانے کا فیصلہ ہوا تھا تو ملا صاحب نے اس فارمولے کا دل سے خیرمقدم کیا تھا۔ اس فارمولے کے تحت طلباء اسکول کے نصاب میں اپنی مادری زبان بحیثیت تیسری زبان پڑھ سکتے تھے۔ اگر ذریعہ تعلیم مادری زبان میں نا صحیح، لیکن اسکولوں میں مادری زبان آپشن کے طور پڑھ سکیں اس پر فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن اس وقت اتر پردیش سرکارنے ڈھکے چھپے طریقے سے اس سہ لہسانی فارمولے کی مخالفت کی تھی۔ اس بات سے آنند نرائن ملا کو جو تکلیف پہنچی تھی اس کا اظہار انہوں نے واضح طور پرکیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ریاستی حکومت نا آئین کی پرواہ کرتی ہے اور نا انصاف کی، وہ لسانی تعصب کا شکار ہو چکی ہے۔ در اصل یوپی سرکار نے سہ لہسانی فارمولے کے لئے آئینی دفع سے ایسا نکتہ نکالا اور اردو کی جگہ سنسکرت کو نصاب میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ۱۹۶۳میں منعقدریاستی سہ لسانی کنوینشن اتر پردیش کے موقع پر بھی ملا صاحب نے اس ضمن میں یوپی سرکارکے رویے کی سخت تنقید کی تھی۔

۷۰کی دہائی کے شروع میں اردو کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے ہماری سرکار نے ایک بار پھر ڈرامہ شروع کیا۔ اسے ڈرامہ ہی کہنا بہتر ہے۔ اندر کمار گجرال کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کے ممبران میں علی سردارجعفری اور آنند نرائن ملا شامل تھے۔ اردو کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے پھر قواعد شروع ہوئی۔ سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں تجاویز مرتب کی گئیں۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات ۸مئی ۱۹۷۵کو مرکزی وزارت تعلیم کو سونپی۔ اندرا گاندھی جو اس وقت وزیر اعظم تھیں اگرچہ انہوں نے ان سفارشوں کا خیر مقدم کیا تھا لیکن تعجب کی بات ہے کہ ایوان میں جب گجرال کمیٹی کی سفارشیں پیش کی گئیں تو بابو جگجیون رام نے مخالفت کی تھی۔ بہرحال ایمرجنسی نافذ ہو گئی اوراس طرح اردو کے لئے کی گئی کوششیں بھی گجرال کمیٹی کے ساتھ ٹھنڈے بستے میں چلی گئیں۔ سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو کو نصاب میں شامل کرنے کی وکالت کرنے والوں کو ایک بار پھر دھچکا لگا۔

ابھی کچھ روز قبل سبھی نے ٹی وی چینلوں پر یہ خبر دیکھی اورسنی ہو گی کہ ۲۱ویں صدی میں ڈیجیٹل تکنیک کے دور میں ہمارے وزیر اعظم نے یومِِ ہندی کے موقع پر جن تین طاقتور زبانوں کا ذکر کیا جو بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہیں ان میں انگریزی اور چینی زبان کے بعد تیسری زبان ہندی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بالی ووڈ فلموں کے ذریعہ پوری دنیا میں ہندی نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ میرا واضح طور پر یہ ماننا ہے کہ بالی ووڈ فلموں کے مکالمے اور فلمی نغموں کی لفظیات کا اگر تجزیہ کیا جائے اور اکثر کیا جاتا ہے تو یہ مذاق بہت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا کہ کس طرح گاجروں میں گٹھلیاں ملائی جاتی ہیں۔ اب رہی بات دنیا کی تین مائٹی لینک لینگویجز کی تواگر رسم الخط کے اعتبارسے امریکہ، یوکے، یورپین اور خلیج ممالک سے شائع ہونے والے روزناموں، ہفت روزہ اور ماہناموں کا جائزہ لیں توتعدادفارسی رسم الخط میں شائع ہونے والے اخباروں کی زیادہ ہے یا دیوناگری کی۔ ۔ ۔ جواب خود مل جائے گا۔ انگریزی و چینی زبان کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان کے زمرے میں اگر اردو کا نام لینے میں کسی طرح کی قباحت ہوتی ہے تو کم سے کم اسے ہندوستانی کہا جا سکتا تھا۔ آنند نرائن ملانے بہت سال پہلے لکھنؤ کے روٹری کلب کے جلسے میں اردو کو دنیا کی چار بڑی زبانوں میں گنوایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بھلے ہی اردو اب پاکستان کی سرکاری زبان بن گئی ہے لیکن وہاں بھی اردو کا وہ درجہ نہیں ہے کیونکہ یہ ان کی مادری زبان نہیں ہے اور یہ فخرہندوستان کی ریاستوں کوہی حاصل ہے۔ یہاں انہوں نے دیگر تین زبانوں کا نام نہیں لیا، ممکن ہے کسی اور موقع پر یا مضمون میں ذکر کیا ہو لیکن ایک تو انگریزی ہی ہے دوسرے انہوں نے اردو کو ہندوستان کی کسی ایک ریاست کی نہیں بلکہ ریاستوں کی زبان بتا کراس کے وسیع علاقے کی طرف بھی نشاندہی کی ہے۔

آج جبکہ اردو اپنی ہی ریاستوں میں بے گھر ہو کر رہ گئی ہے تو ملا صاحب کی حکمت عملی، لسانی شعور اور آئینی جان کاری رکھنے والے شخصیت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جو ادبی گروہ کے مفادوں سے اوپر اٹھ کر قیادت کر سکے۔ محبان اردو کا قافلہ اگر خیموں اور نظریاتی گروہ بندی میں منقسم نا ہوا  ہوتا تو شاید ملک میں اردو کا مقام و منصب کچھ اور ہوتا۔ وہ چاہتے تھے اوراسی نکتے پر زور دیتے تھے کہ آئین میں مادری زبان کو جو مراعات دی گئی ہیں، ہمیں ان کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور جوش کے بجائے ہوش سے متحد ہو کر منظم طریقے سے اردو کے فروغ کے لئے اپنے مطالبات رکھنے چاہئے۔

مادری زبان کامسئلہ ہو یا ملک کے عدالتی نظام کا یا پھر انڈئن پولس فورس کے طریقۂ کار کا۔ ملا صاحب کی انسان دوستی اور انصاف پسند طبیعت نے ہمیشہ بدعنوانی اور نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے شاہین اور عقاب جیسے بلندیوں پر رہنے والے پرندوں کے بجائے اپنی شاعری میں اپنی بات کہنے کے لئے چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو ترجیح دی، اسے سماجی تحریک کی علامت قرار دیا کیونکہ چڑئیں غول میں رہتی ہیں اور یہ اجتماعیت کی علامت ہے۔

صد شکر کہ میں ایک چڑیا ہوں

اک ننھی منی سی چڑیا

عقاب نہیں، شاہین نہیں

یہ چونچ میری تلوار نہیں

میرے پنجوں میں خون نہیں

میں اڑتی ہوں اور گاتی ہوں

یہ وایومنڈل میرا ہے

چھوٹی چھوٹی چڑیوں آؤ

ہم اپنا پورا دل لے کر

اک بادل بن کر چھا جائیں

اور اپنی کروڑوں چونچوں میں

چھوٹے چھوٹے کنکر لے کر

ان عقابوں پربرسائیں

شاہینوں پر پتھراؤ کریں

ان کے پنجے بازو توڑیں

اور اپنے وایو منڈل میں

یہ خون غارت بند کریں

کانگریس کے قریب ہوتے ہوئے بھی آنند نرائن ملا ترقی پسندتحریک کے ہمنوا لگتے ہیں حالانکہ جب بھی کسی نے تحریک کے تئیں ان کی حمایت کا ذکر کیا  تو انہوں نے ہمیشہ ان کار کیا۔ در اصل انہوں نے خود کو کبھی کسی ایک نظریہ سکاپابند نہیں رکھا۔ بنیادی طور پروہ انصاف پسنداورانسان دوست تھے اور یہ اقدار انہیں جہاں نظر آئیں ان کی حمایت میں گریز نہیں کی۔ سجاد ظہیر اپنی کتاب روشنائی میں لکھتے ہیں ’’ہماری خوش قسمتی ہے کہ وکیلوں کے خیمے میں چند ترقی پسندبھی تھے۔ آنند نرائن ملا حالانکہ ترقی پسندادبی خیالات سے اختلافات رکھتے تھے لیکن وہ بھی ایک اچھے شاعر، محب وطن اور ادب نواز انسان تھے اور شروع سے ہماری تحریک میں شامل تھے۔ ان کی اور بعض لوگوں کی کوشش سے رفاہ عام ہال ہمیں مفت مل گیا اور ہماری سب سے بڑی پریشانی دور ہو گئی۔ واضح ہو کہ ۱۹۳۶میں لکھنؤ میں منعقد ترقی پسندمصنفین کی پہلی کانفرنس میں آنند نارائن ملا نے بھی شرکت کی تھی۔ سجاب ظہیر سے ان کی کافی قربت تھی اور بنے بھائی ہی ملا صاحب کو انجمن ترقی ہند میں لائے، جہاں صدر کے عہدے پر۱۰سال تک ملا صاحب نے ذمہ داری سنبھالی۔

جس شخص نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ہر محاذ پر اردو کی وکالت کی شاید عمر کے آخری پڑاؤ تک آتے آتے ان کو ملک میں اردو کے مستقبل اور اردو کی گروہ بندیوں کا اندازہ ہو چلا تھا۔ کیونکہ شمیم جہاں کو دئے گئے ایک انٹرویو میں ان کی تھکان اوراردوسے بیزاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اپنے معمولات روزمرہ اور اردو کے مطالعے کے بارے میں ان کے جواب کچھ ایسے ہی تھے۔ ۔

نظر کمزور ہو گئی ہے، اب پڑھتا بھی نہیں ہوں۔ جو کتابیں آتی ہیں دوسروں کودے دیتا ہوں۔ دو کتابیں ساہتیہ اکادمی سے آئی ہیں وہ آپ کودوں گا۔ پھر آگے کہتے ہیں اب تو بس وکالت کرتا ہوں۔ عدالت میں بحث کرتا ہوں۔ بحث کی تیاری کرتا ہوں۔ اب میں اردو کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔ اس قابل اب نہیں سمجھتاخودکو۔ ۔ ۔ ہندی نیوز سنتا ہوں اور پھر انگریزی کی بھی نیوزسنتا ہوں۔ لیکن یہاں وہ اردو نیوز سننے کی بات نہیں کرتے۔ جسے وہ اپنی مادری زبان کہتے تھے اس زبان سے یہ بیزاری کیوں ؟

اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں

پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں تو چلیں

آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

ایک آخری گیت گالیں تو چلیں

٭٭٭

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا کا نظریۂ شعر و ادب

 

                ……… سید راشد حامدی

 

پچھلی صدی کے پانچویں دہے سے شعر و ادب کے نام نہاد ناقدین ایک جھوٹ بڑے تو اتر سے بولتے آ رہے ہیں کہ ’’اگر سچ زیادہ ہو تو فن کم ہو جاتا ہے ‘‘۔ اگر اس جملے کی تقلیب کر کے یوں کہا جائے کہ ’’اگر جھوٹ زیادہ ہو تو فن بڑھ جاتا ہے ‘‘۔ تو ان ناقدین کی تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے اور کہنے والے کا ادبی مقاطعہ کرنے میں انہیں دیر نہیں لگے گی۔ حالانکہ یہ اس صدی کا ہی نہیں بلکہ ماقبل تاریخ کا بھی سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ سچ اور سچائی سے فن کم ہو جاتا ہے اور جھوٹ سے فن یا فنی معیار بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ جھوٹ اور جھوٹ کی تبلیغ و ترسیل سے فن کا معیار تو کبھی نہیں بڑھا ہاں یارانِ میکدہ نے ’’سرخ جنت‘‘ اور ’’سفید جنت‘‘ کے ایوانوں میں اپنا قد ضرور بڑھا لیا۔

ان ناقدین نے شعر و ادب کو کیا دیا یہ ایک مختلف فیہ موضوع ہے مگر یہ متفقہ حقیقت ہے کہ انہوں نے فرد کا مذہب اور مذہبی اقدار سے رشتہ منقطع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ انہیں جھوٹ کو سچ میں ملفوف کرنے یا بالفاظِ دیگر زہر کو شوگر کو ٹیڈ بنا کر پیش کرنے کا ہنر آتا ہے۔

اس جھوٹ نے کیا کیا گل کھلائے اور اس زہر کی خطرناکی نے کتنے ذہنوں کو مسموم کیا اس سے اہلِ نظر بخوبی واقف ہیں۔ شعر و ادب میں جھوٹ، اباحیت پسندی، فحاشی، مذہب بیزاری، وطن دشمنی اور اقدار شکنی کے فروغ سے ادب، ادب عالیہ کے بازارِ حصص میں اپنی سب سے نچلی سطح پر آ گیا ہے لیکن ہمارے نام نہاد ناقدین اور شعر و ادب کے اجارہ داروں کا حال اس بندریا سے مختلف نہیں ہے جو اپنے مرے ہوئے بچے کو بھی کئی کئی دن تک اپنے سینے سے چمٹائے پھرتی ہے کیمونزم، سوشلزم اور مادیت کی ناکامی اور خرابی پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے مگر وہ آج بھی اُن ڈیڈ اور ریجیکٹیڈ نظریاتی اصنام کو سینے سے لگائے ہوئے مشرق کے مقدس اور پاکیزہ حرم ڈھانے پر کمر بستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی روح اور ضمیر ہی نہیں اپنے ایمان و ایقان کو بھی مغرب سے در آمد شدہ، خود ساختہ اور اخلاق باختہ اصول و نظریات کے ہاتھوں رہن رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کے بنیادی سر چشمے اور شعر و ادب کے فطری سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ آغاز میں اردو شعر و ادب کے معنیاتی دائرے محدود تھے مگر جو تھا وہ اپنا تھا، مشرق کا تھا، ہندوستان کا تھا جس میں ہند۔ اسلامی تہذیب کا مشترکہ ورثہ تھا جو مغرب سے مستعار تھا نہ در آمد شدہ، اس میں سچائی تھی، معصومیت تھی، پاکیزگی تھی، تقدس تھا، تاثیر تھی، تاثر تھا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی بنیادیں مذہب و اخلاق اور ایمان و یقین سے وابستہ و پیوستہ تھیں۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا، معنیاتی دائرے بڑھنے لگے۔ لفظوں میں گہرائی اور گیرائی آتی گئی۔ معنویتیں توسع اور ہمہ گیری اختیار کرنے لگیں مگر اس توسع کا فائدہ اٹھا کر کچھ موذی اور جان لیوا جونکیں اردو کے نازک اور سیم تن وجود سے چمٹ گئیں۔ سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی، نم راشد اور میرا جی وغیرہ ہم نہایت خاموشی کے ساتھ چور دروازے سے شعر و ادب میں داخل ہو گئے اور انہوں نے دھیرے دھیرے اس کی رگوں میں زہر سرایت کر کے اس کی شکل اور ماہیت ہی بدل ڈالی۔ حالیؔ کے مقدمہ شعر و ادب اور شبلیؔ کے شعر العجم کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مقصدی اور نظریاتی شعر و ادب کی معنویتیں اس طور پر تبدیل کر دیں کہ اس کی معنویت اور اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔

شعر و ادب کی اس ہمہ گیر آلودگی اور تہذیب و اقدار سے عاری اس اخلاق سوز طوفان میں کچھ شعراء، ادباء اور ناقدین ایسے بھی تھے جو اپنی پاکیزگی فکر و نظر کی بنا پر اس فکری فساد، فحش نگاری، عریاں نویسی اور اباحیت پسندی کے سامنے ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر کھڑے تھے۔ ان میں پنڈت آنند نرائن ملّا کا کردار سب سے اہم، لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔ انہوں نے نہ صرف شاعری میں انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ نثر میں بھی تھوڑا ہی سہی جو سرمایہ چھوڑا ہے وہ اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ آبِ زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

پنڈت آنند نرائن ملّا ہندوستان کی لازوال تہذیبی، مذہبی، اور اخلاقی روایتوں کا گہرا شعور ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ زندگی بھر اس کی صالح قدروں کی تبلیغ و ترسیل اور امن کی بنیادوں پر ہندوستانی معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنا خون جگر تحلیل کرتے رہے۔ قومی یکجہتی، مذہبی رواداری اور ہند۔ اسلامی تہذیب کی مشترکہ وراثت ان کے جہان شعر و ادب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے خیال میں ہندوستان کی بقا اور سالمیت میں مشرق کا اقداری نظام مرکزی نوعیت کا حامل ہے۔ یوں تو ان کے شعری و ادبی کینو اس میں کافی توسع پایا جاتا ہے مگر جب ہم ان کی تفہیم کے لئے انہیں مختلف دائروں میں تقسیم کر کے ان کی جرح و تعدیل کرتے ہیں تو ان کی تمام فکری و شعری جہتیں محض اس نکتہ پر مرکوز نظر آتی ہیں جسے ہم انسانیت اور ہندوستانیت کہتے ہیں۔ جس میں انہوں نے صالح اور تعمیری اقدار کی شرط کا اضافہ کر کے اسے مزید وقیع اور اس کے دائرے کو امکانی حد تک وسیع کر دیا ہے۔

آج عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو جیسے ادیبوں کی تفہیم کے لئے نئی قرأت اور نئی پڑھت کی جا رہی ہے جنہوں نے اردو کو جنسی ہیجان انگیزی، عریاں نویسی اور فحش نگاری سے بھر دیا ہے۔ ان کی مختلف جہتیں اور نئی معنویتیں تلاش کرنے کے لئے رسائل و جرائد کے خاص نمبر جاری کئے جا رہے ہیں، ملک اور بیرون ملک سمپوزیم اور سیمنار منعقد ہو رہے ہیں اور ان کو ادب کے اس مقام بلند پر فائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے وہ قطعی مستحق نہیں ہیں۔ پروفیسر قدوس جاوید لکھتے ہیں :

’’آج صورتِ حال مختلف ہے۔ ادب کا پورا Paradigmبدل چکا ہے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب بھی نئی تھیوریز اور تازہ فکریات کے مرکز میں آ چکا ہے۔ مذہبی مابعد جدے دیت، مابعد مارکسی سماجیات اور مابعد جدید جمالیات کی آمیزش اور آویزش کے سبب ادب اور ادیب کو نئے زاویوں سے Rediscoverکرنے کا عمل بھی تیز سے تیز تر ہو رہا ہے۔ اس لئے اب افسانہ نگار کے طور پر منٹو کے انفراد اور عظمت کا گراف بھی نئی بلندیاں چھورہا ہے ‘‘۔ (صفحہ ۱۰، منٹو، ممتاز شیریں اور لذت گناہ، ایوانِ اردو دہلی)

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔ حیرت ہے اباحیت پسندی، عریانیت اور فحاشی کو فروغ دینے کے لئے شعر و ادب میں فنی، فکری اور جمالیاتی نظام کی نئی جہتیں دریافت کی جا رہی ہیں۔ نئی فکریات اور نئی تھیوریز کی آڑ میں مشرق کے اقداری نظام پر مبنی معاشرت کو سبوتاژ کرنے اور مغرب کی بے خدا، مذہب بیزار، اخلاق و کردار سے عاری بلکہ اباحیت زدہ بکھرے، منشتر اور بے اساس سماجی ڈھانچے کو فوقیت دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ سعادت حسن منٹو ہوں یا عصمت چغتائی، نم راشد ہوں یا میرا جی، سجاد ظہیر ہوں یا واجدہ تبسم، سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کو کیا دیا؟ اباحیت کا فروغ خواہ کسی بھی سطح پر ہو تخلیقات کی معراج ہے نہ انہیں تخلیقی حقائق Creative Realitiesکہا جا سکتا ہے۔ یہ مسموم ذہن، محروم اللذات نفسیات اور جنس زدہ اباحیت پسند لوگوں کی ذہنی عیاشیاں ہیں جسے آج ناقدین ادبی معراج قرار دے رہے ہیں۔ ایسے افسانے، کہانیاں، ناول اور شاعری جسے آپ بہن، بیٹی اور بہو کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے شرمائیں۔ جس سے کوئی سبق اور سیکھ لینا تو دور لوگوں کے جذبات جس سے برانگیختہ ہوں۔ کچے اور نابالغ ذہن اور معصوم و پاکیزہ نگاہیں مردو عورت کو ٹٹولتی نگاہوں سے دیکھنے اور اس ’’شجر ممنوعہ‘‘ کا پھل چکھنے کے لئے انسانیت کو شرمسار کر دینے والی حرکات کے مرتکب ہونے لگیں، اسے ادب کے زمرے میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

شاید یہی سبب ہے کہ ناقدین شعر و ادب نے ملّا کے شعری و ادبی سرمایہ کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔ ننگوں کے انفراد اور عریاں نویسوں اور فحش نگاروں کی عظمت کے بڑھتے ہوئے گراف میں ستر پوش، صالح اقدار کا حامل شریف النفس ملّا بھلا کیسے کھپ سکتا تھا۔ کیوں کہ ان میں سے ہر شخص اپنے الگ الگ تحفظات رکھتا تھا۔ کسی کا دل ماس کو کے لئے ہمکتا تھا تو کسی کے دماغ پر واشنگٹن مستولی تھا۔ کوئی لینن ایوارڈ کی دوڑ میں تھا تو کوئی نوبل پرائز کی ہوڑ میں۔ کوئی سرخ جھنڈے کو سلامی دے رہا تھا تو کوئی وہائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر سجدہ ریز تھا۔ ایسے میں کسی پنڈت کی ملّائیت اور کسی ملّاؔ کی ہندوستانیت کو کون خاطر میں لاتا کیوں کہ وہ ترقی پسندی اور جدے دیت دونوں ہی سے بے زار تھے۔

ہو سکتا ہے کہ ناقدین شعر و ادب ملّاؔ کی شاعری کو شہکار ادب نہ قرار دیں کیوں کہ وہ شعر و ادب کو اپنے خود ساختہ نظریات اور مغرب سے مستعار لئے ہوئے معیارات سے جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ویسے سرِ دست یہ میرا موضوعِ سخن بھی نہیں ہے کہ اس پر بحث کروں مگر اس میں شک نہیں کہ انہوں نے ادبِ عالیہ کے لئے جو فنی معیارات وضع کئے ہیں وہ بذات خود شہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذاق فکر و نظر اتنا بالیدہ اور ان کے سماجی اور تہذیبی شعور میں اس قدر ترفع اور توسع ہے کہ ان کے ہم عصر ناقدین ان کے آگے بونے اور بالشتیے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے شعر و ادب کے جو ادبی معیارات اور تنقیدی خطوط قائم کئے ہیں وہ ریب و تشکیک کے گرد و غبار سے پاک صاف اور شفاف آئینہ کے مثل ہیں جس میں مغرب و مشرق کے ناقدین اپنے بگڑے خد و خال بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو ملّا صاحب حالیؔ اور شبلیؔ سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں جنہیں اردو تنقید کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیؔ پر اکثر ناقدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ان کے معیارات مغربی ناقدین کے وضع کردہ معیارات سے مستعار ہیں یا وہ ان سے متاثر ہیں۔ ان پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو شاعری بالخصوص غزل کے روایتی اور کلاسیکی مزاج کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھا مگر ملّا صاحب کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ادبی معیارات ان کے اپنے ہیں۔ ان کے تمام تر تنقیدی رویے مشرق اور ہندوستان کی ہند۔ اسلامی تہذیب سے ماخوذ ہیں اور ان کی تمام شقیں اور دفعات باہم دگر اتنی مربوط اور مضبوط ہیں کہ تلاشِ بسیار کے بعد بھی ان میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے ملّا صاحب کی تنقیدی بصیرت، ان کے تنقیدی رویوں اور ان کے فلسفۂ نقد پر کوئی سیر حاصل بحث کی ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے اس کا ذکر بھی کیا ہو گا تو صرف زیب داستاں کے طور پر۔ یار لوگ تو ان کے اس جملے کو لے اڑے کہ ’’ میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں زبان نہیں ‘‘۔ اس کا قدر پرپیگنڈا کیا گیا کہ ملّا صاحب کے دیگر فنی معیارات اور تنقیدی امتیازات پر منوں مٹی ڈال دی گئی۔ حالانکہ ملّا صاحب کا نثری سرمایہ قلیل ا البضاعۃ اور مختصر ہوتے ہوئے بھی نہایت وقیع ہے ان کا یہ اختصار قطرے میں دجلے کا سماں پیدا کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے ادبی و فنی رویوں کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کی فکر کی ہمہ گیریت کا بھی احساس ہوتا ہے جو ان کے ہم عصر ناقدین میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔

شبلی شعر العجم میں فلسفۂ شاعری اور اس کی غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’کلام کی غرض و غایت صرف سامعین کو محظوظ کرنا نہیں بلکہ عدل کی سفارت اور پیغمبری ہے۔ کلام کی خوبی سچائی پر موقوف ہے ‘‘۔

آگے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا شاعری سے بہتر اور کوئی آلہ نہیں ہو سکتا‘‘۔

پنڈت آنند نرائن ملا نے اس بات کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا ہے وہ کہتے ہیں :

’’میں شاعر کو صرف فنکار نہیں سمجھتا بلکہ دانائے راز اور پیغمبر بھی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک کوئی شاعر یا افسانہ نگار نوعِ انساں سے بے پناہ محبت کئے بغیر عظیم نہیں ہو سکتا اور نہ ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے ‘‘۔

شعر و ادب کو فطرت اور قدرت کی تجلیات کا آئینہ کہا جاتا ہے بالخصوص شاعری انسان کے داخلی شعور و وجدان اور اس کے خارجی حرکات وسکنات کا عکاس تسلیم کیا جاتا ہے۔ شعر و ادب کی رست و خیز آفریدہ کائنات سے نا آفریدہ کائنات تک ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور بھی ہے اور دعوت فکر بھی دیتی ہے کہ جو شعر و ادب عالم موجودات سے عالم امکانات پر کمندیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ انسانی اذہان و قلوب کو مسخر کرنے اور اسے مقاصد کائنات سے ہم آہنگ کرنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہو اس کا مقصد محض حظ نفس نہیں ہو سکتا۔ ملّا صاحب اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میرا اپنا عقیدہ تو یہی ہے کہ جس ادب میں ا انسانی درد کی آواز نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن دل و دماغ کی تربیت نہیں کر سکتا‘‘۔

ملا صاحب نے تقریباً اسی بات کو اپنے شعر میں یوں کہا ہے ؎

اظہار درد و دل کا تھا اک نام شاعری

یارانِ بے خبر نے اسے فن بنا دیا

اور فن بھی کیسا جسے فن کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ در اصل ملّا صاحب نہایت خوبصورت اور حکمت کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ سے اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مقصدیت اور اخلاقی قدروں کے اظہار سے شاعری بے جان اور سپاٹ ہو جاتی ہے اور غزل تغزل سے محروم۔ جیسا کہ ناقدین کا عام رجحان ہے مگر ملّا صاحب کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو شعری جمال و کمال اور تغزل پیغام کی ندرت، دل کشی اور اس کی اثر آفرینی میں ہوتا ہے، طرز بیان اور حسن بیان میں ہوتا ہے۔ زلفِ لب و رخسار اور تغافل یار طرحدار کا ذکر اگر استعاراتی نظام کو مربوط و مضبوط کرنے کے لئے کیا جائے تو ایک حد تک اسے گورا ا کیا جا سکتا ہے مگر یہ شعر و ادب کا مقصد ہے نہ اس کا مقام۔

اگر شعر میں حسن ہے، دلکشی ہے، لطافت ہے، تازگی ہے، تاثیر ہے، زندگی ہے، سوزدروں ہے، جذبے کی پاکیزگی ہے، حقیقت ہے، بصیرت ہے، حکمت اور نکتہ آفرینی ہے، خواہ اس میں قصۂ زلف و لب ورخسار، داستان دل بیمار اور حکایت حسن یار طرح دار ہو یا نہ ہو اسے سچا اور اچھا شعر کہا جائے گا۔ خواہ آپ اس کے لئے علامتی طور پر تغزل کے لفظ کا استعمال نہ کریں مگر اس میں تغزل بھی ہے اور فنی اور شعری جمالیات بھی۔ اس بات کو خود ملّا صاحب کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے :

’’کلام میں تاثیر خلوص سے پیدا ہوتی ہے اور عظمت، انسانی درد کی آواز شامل کرنے سے۔ وہی شاعر ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود ہوں۔ ممکن ہے کہ غلط قدروں کو اپنا کر آج ہم دھوکا کھا جائیں اور کسی مصنوعی یا روایتی پینترے کو ہی شاعر کے کلام کا آئنہ دار سمجھ لیں لیکن اس فریب کا جادو زیادہ دنوں تک چلنے والا نہیں ‘‘۔

آگے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

’’میری رائے میں وہی ادب، ادب عالیہ کہلائے جانے کا مستحق ہے جو پائندہ انسانی قدروں کا حامل ہو۔ ۔ ۔ ۔ میں تو اس فنکار کو عظیم فنکار سمجھتا ہوں جو نوعِ انسانی کی اکائی بن کر انسانی درد و غم سہے اور اس غم کا مکمل علم اور احساس ہونے کے باوجود اس کی ذات میں اتنی لوچ اور اس کے فن میں اتنی سکت ہو کہ وہ اس زہر کو امرت سمجھ کر پی جائے۔ اپنے دل و دماغ کی معصومیت، تازگی اور حسن برقرار رکھے اور پھر دانائی کی چوٹیوں سے کل نوع انسانی کو جس میں گمراہ انسان بھی شامل ہوں، ایک طفل معصوم کے میٹھے اور سریلے بولوں میں پکارے اور منزل انسانیت کی طرف قدم بڑھانے کا پیغام دے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر کو پیغمبری ملتی ہے اور جہاں اس کا فن عروج پر پہنچتا ہے۔ میرے نزدیک انسانیت کے درد کا مداوا دل کی تہذیب و تربیت میں مضمر ہے نہ کہ ذہن کی بڑھتی ہوئی واقفیت میں، اور دل کی تہذیب و تربیت محبت سے ہو سکتی ہے، تشدد اور نفرت سے نہیں ‘‘۔

ملّا صاحب کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ وہ ادب کو ادب عالیہ کا مقام دے کر اس کے جو معیارات متعین کر رہے ہیں وہ وقت کی رائج قدروں سے مختلف ہی نہیں متصادم بھی ہیں مگر انہوں نے بلا خوف لومتہ لائم حق گوئی کا فریضہ انجام دیا اور اس بات کی قطعاً پروانہ کی کہ دنیا انہیں کس نظر سے دیکھ رہی ہے، ان کی آواز زسنی جا رہی ہے یا صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔ حق کا واشگاف اور علی الاعلان اظہار ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ اس لئے وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی پروا کئے بغیر اپنی بات کہتے رہے۔ وہ خود فرماتے ہیں :

’’میری ادبی قدریں رائج قدروں سے بہت مختلف ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں صحیح ہوں اور خلاف رائے رکھنے والے غلط۔ ۔ ۔ اس دور کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم اپنا ذہن دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور جس نظریے کی اشاعت اور تبلیغ بہتر ہوتی ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ آج نقاد، نقاد کم ہیں Publicity Agentزیادہ‘‘۔

پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کو اردو کا ایسا نمائندہ شاعر، ادیب اور نقاد کہا جا سکتا ہے جس کی شخصیت، شاعری اور ادبی نظریات کے مابین کوئی خلیج اور کھائی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی شعری اور فکری راہیں خود متعین کی ہیں۔ انہوں نے ترقی پسندی کی ہاں میں ہاں ملائی نہ جدے دیت کو اپنے اوپر سوار ہونے دیا۔ جو کہا خوب سوچ سمجھ کر واضح دلائل اور مثبت بنیادوں پر کہا۔ ان کی فکر اور ان کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس بات میں اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ ان کے نظریات ان کے اپنے ہیں، جس میں انفرادیت اور عظمت دونوں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’میں ممکن ہے کہ اچھا شاعر نہ ہوں لیکن اس بات میں غالباً یہ شک نہیں کیا جائے گا کہ میری فکر میری ہے۔ میرا انداز میرا ہے، میری زبان میری ہے۔ وہ میرے اشعار ہوں یا میرے فیصلے، میری تحریر ہو یا میری تقریر۔ میں نے ان سب پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دی ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر سوالِ زندگی کا حل خود سوچا ہے۔ لہٰذا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ادبی تخلیقات کو بھی میں اپنی ہی میزان پر تولنا چاہتا ہوں اور بازار کے بانٹوں سے کام لینا نہیں چاہتا۔ ‘‘۔

ملّا صاحب کے یہاں یہ صرف نظریاتی اصول نہیں ہیں بلکہ ان کی شاعری میں ان اصولوں کا عکس صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں جمال فکر و نظر بھی ہے اور یک رنگیِ قول و عمل بھی۔ قدیم سے مثبت انحراف بھی اور جدید سے اختلاف بھی۔ لیکن اس انحراف اور اختلاف کے اسباب کیا ہیں ؟ اس کی وضاحت ان کی تنقیدی نظریات سے ہوتی ہے۔ وہ قدیم اور جدید کے درمیان کوئی رخنہ اور خلیج دیکھنا پسند نہیں کرتے، انہوں نے مغرب سے اکتساب فیض بھی کیا ہے مگر اپنی شرطوں اور اپنے اصولوں پر۔ انہوں نے ’’خذ ماصفا‘‘ اور ’’دع ماکدر‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مغرب کی بھی خوشہ چینی کی ہے اور مشرق کی بھی عطر بیزیوں سے بھی دل و دماغ کو معطر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’نظریات کی ان آویزشوں سے ہٹ کر ادب کو پڑھنے کا ایک آسان طریقہ اور بھی ہے۔ سترہویں صدی کے ایک فرانسیسی نقاد لابروئے (La brayere)نے کہا تھا: ’’ جب تم کوئی کتاب پڑھو اور اس سے تمہاری روح میں بلندی، جرأت اور شرافت کے جذبات پیدا ہوں تو پھر اس کی خوبی جانچنے کے لئے کسی اور معیار کی حاجت نہیں ‘‘۔

ملّا صاحب نے لابروئے کے اصولی موقف میں ذہنِ صالح کی قید لگا کر لابروئے کے معیار کو نہ صرف وقیع اور معیاری بنا دیا بلکہ ادبی رویوں اور تنقیدی زاویوں میں صالحیت کو سب سے اہم ا اور بنیادی عنصر قرار دینے کی سعی بھی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’میرے نزدیک اس معیار کو آج تین سو سال بعد بھی کسی پس و پیش کے بغیر قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذہن صالح ادب سے یہی تقاضا کرتا ہے جو ادب اسے یہ چیزیں دیتا ہے وہی اسے ذہنی اور جذباتی آسودگی بخشتا ہے ‘‘۔

مقطع میں پھر ایک سخن گسترانہ بات آ پڑی کہ لوگوں کی فطرت اور اس کی ذہنی آسودگی کے پیمانے الگ ہو سکتے ہیں۔ ہر شخص کا ادبی ذوق الگ ہوتا ہے۔ اس لئے ہر شخص اپنے ذوق اور اپنے معیار کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کسے ادبی شہکار قرار دے اور کسے درخورِ اعتناء سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ آج کے دور میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں میرا جی کے جنسی تجربوں میں بھی روحانیت نظر آتی ہے۔ جیسے کہ حقانی القاسمی نے فیاض رفعت کی جنس زدگی کو سند توثیق عطا کرنے میں بڑی سخاوت سے کام لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’فیاض رفعت چوں کہ ’شجر ممنوعہ‘ کے ذائقہ میں پوری دنیا کو شریک کرنا چاہتے ہیں اس لئے نقادوں نے انہیں جلا وطن کر دیا ہے۔ ان کی تحریروں سے انہیں جلوت میں تو ابکائی آنے لگتی ہے مگر وہی خلوت میں لذت بن جاتی ہے۔ فیاض رفعت کے تازہ افسانوی مجموعہ ’میرے حصہ کا زہر‘ میں جنس کا جس طرح واشگاف اور کھلم کھلا بیان ملتا ہے وہ شاید میرا جی کے یہاں بھی نہیں ہے۔ ان کے سارے افسانے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جسم اور جنس کے اردگرد چکر کاٹتے رہتے ہیں اور جنسی حسیات اور ادراکات کے حوالے سے وہ جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ آج کے دور کا ہی نہیں ماقبل تاریخ کا بھی سب سے بڑا سچ ہے۔ جسم جو کہ ایک (Healing Power)ہیلنگ پاور ہے اس میں وہ شکتی ہے جو نہ کسی حکیم کے حبوب و  قروص میں ہے اور نہ ہی کسی دیا گرا میں۔ اگر جسم کی اس طاقتور لہر کے حوالے سے گفتگو کرنا گناہ ہے تو پھر ہم سب اپنے جسم کو پیدا ہوتے ہی کیوں نہ دفن کر دیں ‘‘۔

آگے وہ قاری سے سوالیہ انداز میں مخاطب ہوتے ہیں :

’’کوئی ہمیں یہ افسانے پڑھ کر بتائے کہ یہ افسانے برے کیوں ہیں ؟ کیا صرف اس لئے کہ اس میں جنس کا اور جسم کا بے حجابانہ اور واشگاف اظہار ہے یا اس میں روغن ملے ہوئے گلابی پستانوں کا ذکر ہے یا یہ افسانوی مجموعہ برجنڈا کی بلیو فلم کا پرنٹ نظر آتا ہے۔ اگر ان کی وجہ سے یہ افسانے برے ہیں کہ یہ کہنے دیجئے کہ ابھی ہم ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں۔ جب کہ ہمارے ٹین ایجر ہم سے زیادہ بالغ اور ہم سے زیادہ جوان بن چکے ہیں ‘‘۔

(طوافِ دشت جنوں صفحہ ۲۷، ۲۸)

ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم اپنے ٹین ایجر یا جوان ہوتی ہوئی نسل کو ادب کے نام پر اس قسم کا ادب پیش کریں گے تو ان میں قبل از وقت بلوغت کے آثار پیدا ہونے لازمی ہیں۔ حقانی القاسمی کا قلم اتنے پر ہی رکتا نظر نہیں آتا ہے بلکہ کچھ اور بھی گل کھلاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

’’ان کے افسانوں کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے، ہم نے کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کے افسانے پڑھے ہیں تو ہم پر نئی کائنات منکشف ہوئی ہے۔ ایک ایسی کائنات جس میں صدیاں چکر کاٹنے کے بعد بھی ہم اس کی ماہیت سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہ نئے ڈائمینشن کی بولڈ کہانیاں ہیں جو فیاض رفعت جیسا بولڈ افسانہ نگار ہی لکھ سکتا ہے۔ کوئی بزدل، خوف زدہ، غبی، سہماہوا تخلیق کار نہیں جو اصل قوت تخلیق سے بھی محروم ہے۔ (طوافِ دشتِ جنوں صفحہ ۲۸)

پنڈت آنند نرائن ملّا نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ سب کا ذوق ایک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری نہیں کہ کوئی ادبی شہکار سب کو ذہنی آسودگی بخش سکے۔ گندگی اور غلاظت میں رہتے والوں کو غلاظت ہی پسند آئے گی۔ غلیظ فطرت لوگوں کو پاکیزہ ماحول کبھی بھی پسند نہیں آ سکتا۔ پسند تو چھوڑئیے وہ اس پاکیزہ ماحول کو بھی غلیظ بنانے پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے ملّا صاحب نے فرانسیسی نقاد لابرائے کے معیار ادب میں ذہن صالح کی شرط کا اضافہ کیا ہے جو ملّا صاحب کی ذہنی اور فکری کینواس کے توسع کا مظہر ہے۔

کچھ لوگ فحش نگاری، عریاں نویسی اور شہوت انگیز بیانیہ کو حقیقت نگاری سے تعبیر کرتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ حقیقت نگاری نہیں فحاشی کا فروغ ہے۔ یہ بولڈ ذہنی نہیں بلکہ جنس زدگی، دماغی دیوالیہ پن اور غلیظ ذہن میں بھری غلاظت ہے جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ حقیقت نگاری کے نام پر جس اباحیت اور ابتذال کی وکالت کی جا رہی ہے وہ در اصل فنکار کی اپنی جنسی محرومیوں کی ازالہ کی کوشش ہے جس سے وہ سماج اور معاشرے سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے۔

اس میں سب سے مناسب اور متوازن فکر یہ ہے کہ جس حقیقت نگاری سے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں، جذبات میں ہیجان برپا ہو اور برائی کے میلان اور رجحان میں اضافہ ہو اور حقیقت نگاری کا اصل مقصد پس پشت چلا جائے، اسے کبھی بھی ادب عالیہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ خواہ پوری دنیا اسے ایک سر میں شہکار ادب قرار دیدے۔ گندگی، غلاظت اور تعفن زدہ موشگافیوں کو ادب عالیہ تو دور ادب کے کسی بھی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ چند سطور کے بعد ملّا صاحب اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ذہن صالح اور بیمار ذہن سے ان کی مراد کیا ہے ؟ فرماتے ہیں :

’’میں اس ذہن کو صالح قرار دیتا ہوں جو انسانیت کی ایک اکائی بن کر سوچتا ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے نفس امّارہ پر قابو پا سکتی ہے، جو انسان کے مستقبل سے مایوس نہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام رائج ہو جس میں انسان آزادی، شادمانی اور امن کے ساتھ اپنی پسند کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کر سکے اور جس وقت تک یہ مقصد حاصل نہ ہو اس وقت تک اس نظام کو لانے کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کرے۔ بیمار ذہن وہ ہے جس کے سامنے کوئی انسانی مقصد نہیں، جو صرف اپنی ذات میں محصور ہے اور جو وقتی لذت اور جنسی آسودگی کو زندگی کی سب سے اہم قدر سمجھتا ہے اور اسے یہ شکایت ہے کہ وہ جتنی آزادی سے اپنے لذت طلب تقاضوں کو پورا کرنا چاہتا ہے دنیا اسے اتنی آزادی کیوں نہیں دیتی‘‘۔

پھر حقیقت نگاری کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ادب میں حقیقت نگاری زندگی کا عکس پیش کرنا نہیں بلکہ زندگی کے راز بے نقاب کرنا ہے۔ اس میں پس منظر منظر سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ۔ ۔ ۔ فنکار محض منظر نہیں دکھاتا بلکہ منظر کو آڑ بنا کر اپنا پیام سناتا ہے ‘‘۔

ملّا صاحب نے حقیقت نگاری کے ذیل میں ادب کے تعمیری اور مقصدی پہلو کو کس خوبصورتی اور اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی داد نہ دینا یقیناً نا انصافی ہو گی۔ اس سلسلے میں حقانی القاسمی کے ’’شذرات‘‘ بھی ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے کہانی اور افسانے کے باب میں قلم بند کئے ہیں :

’’کہانی جب کرشن کی بانسری بن جاتی ہے تو کہانی کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ جس کہانی میں کرشن کی بانسری نہ ہو وہ کہانی کہانی نہیں ہوتی۔ کہانی تو مدھو بن میں جنم لیتی ہے لکشمی کے مدور استنوں ( بھرے پرے پستانوں ) پر وشرام کرتی ہے ‘‘۔

شاید ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’شاید استنوں سے لذت اور قوت کشید کرنے کا نام ہی کہانی ہے۔ اندر کی زعفرانی شراب بھی کہانی ہے اور محافے میں بیٹھی ہوئی حسین دلربا باقتالۂ عالم رقاصۂ فلک بھی۔

(طواف دشتِ جنوں صفحہ ۱۳)

میرے خیال میں اس کتاب کا نام ’’طوافِ دشتِ جنوں ‘‘ نہیں ’’رقصِ نارِ جہنم‘‘ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ کتاب کا بڑا حصہ فحش نگاری، جنس زدگی اور عریاں نویسی اور بیمار ذہنیتوں کو سندِ توثیق عطا کرتا نظر آتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ ادیب ہیں نہ ناقد بلکہ نیم حکیم خطرۂ جاں ہیں جو ’’شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ایک بار ضرور ملیں ‘‘ کا بورڈ لگا کر ’’قوت مردانگی‘‘ کے حبوب و لبوب بیچ رہے ہیں جن کا کاروبار رات کے اندھیرے میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔

ظہیر کیفی کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی صاحب رقم طراز ہیں :

’’مسکوٹ‘‘ میں یوں تو ۱۷؍ افسانے ہیں مگر صرف دو افسانوں سے میرے قلب و نظر کا رشتہ استوار ہو سکا ہے۔ یہ دو افسانے اتنے سحر آفریں اور پر اثر ہیں کہ قاری اس کے طلسماتی سحر میں بندھ سا جاتا ہے۔ ان دو افسانوں میں کہانی کار نے اپنے مشاہدے کی وسعت اور اس کی شدت کو جس طرح فنی پیکر عطا کیا ہے اس کی داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی‘‘۔ (طواف دشتِ جنوں، صفحہ ۳۵)

مگر یہ دو افسانے حقانی القاسمی کو کیوں پسند آئے۔ آگے کی سطور سے ان کے قلب و نظر کی ’’طہارت‘‘ کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب میں کس طرح کی ’’غلاظت‘‘ کو پسند فرماتے ہیں اور کن چیزوں سے ان کے قلب و نظر کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’یہ ان کی رنگین راتوں، پر شباب لمحوں، جوانی کی بے قابو لہروں کی کہانی سناتی ہے۔ یہ کہانی ہم کناریِ جاناں سے لطف اندوزی، نوشانوشی، جوش و شہوت، ولولۂ مباشرت، دہنِ صدف میں قطرۂ نسیاں کے لئے بیتاب گل اندام، یاسمین پیکروں کی زندگی اور ہنگامۂ صحبتِ طرفین کا بیان ہے۔ اس میں فرخندہ خووں اور خوگرانِ وصل کے ساغر لالہ رنگ کی مستیوں اور ترنگوں کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ‘‘۔ (طوافِ دشتِ جنوں، صفحہ ۳۵۔ ۳۶)

یہ ادب ہے یا کسی بلیو فلم کا ٹریلر۔ انہوں نے کس خوبصورتی اور فنی چابکدستی کے ساتھ فحش، عریاں اور اباحیت زدہ کہانیوں کو تخلیقی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔ اس میں انہیں ظہیر کیفیؔ کی ذہنی رفعتوں اور فنی عظمتوں کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ فکشن کے ناقدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان افسانوں کی سنجیدگی سے پڑھیں تاکہ وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اسی قسم کے تخلیقی بیانیہ اور حقیقت نگاری سے شعر و ادب کا وقار مجروح ہوتا ہے اور اس قسم کی بے سروپا تنقید تنقید کا اعتبار ختم کر دیتی ہے۔ ملّا صاحب نے اس قسم کے ادیبوں اور تنقید نگاروں پر نہایت خوبصورت اور مدلل انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’انسان کے دل میں شیطان بھی ہے اور فرشتہ بھی لیکن یہ کس قسم کی حقیقت نگاری ہے جو دل میں جھانکتی ہے تو اسے شیطان ہی نظر آتا ہے۔ فرشتہ ہمیشہ کسی تاریک گوشے میں چھپا رہ جاتا ہے۔ دوزخ اور جنت دونوں کے دروازے ایک ہی کنجی سے کھلتے ہیں لیکن یہ فنکار ہمیشہ دوزخ کا ہی دروازہ کیوں کھولتے ہیں، کبھی بھول کر بھی جنت کا دروازہ کیوں نہیں کھولتے ‘‘۔

ملّا صاحب کی اس بات سے مجھے کلی اتفاق ہے کہ جب تک کوئی بڑا انسانی مقصد ذہن میں نہ ہو اس وقت تک حقیقت نگاری کو عریاں نگاری کی کثافت سے بچانا ممکن نہیں۔ انہوں نے جس وقت یہ بات کہی تھی اس وقت بھی بالکل سولہ آنے صحیح تھی اور آج بھی جبکہ فحاشی، ابتذال اور اباحیت کو نئے فنی اور ادبی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اتنی ہی بر محل اور حقیقت پر مبنی ہے بلکہ اس کی صحت اور صداقت کی اہمیت آج کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ممتاز شیریں جن کی وجہ سے ’’منٹو شناسی کی با وقار شروعات ‘‘ ہوئی۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں :

’’منٹو کے افسانے جنسی نفسیات کے مطالعے کے لئے بہت اچھا مواد فراہم کرتے ہیں ‘‘۔

ممتاز شیریں کی جنسی نفسیات "Sex Theory”کیا ہے۔ اس کی وضاحت خود ان کے الفاظ میں سنیے اور بتائیے کہ بلی تھیلے سے باہر آئی یا نہیں۔

’’فطری جبلّتوں کو جب بندشوں سے روکا جاتا ہے اور وہ بندشوں کو توڑ کر باہر نکل آتی ہیں تو جنسی زندگی میں افراتفری اور بے راہ روی پیدا ہو سکتی ہے۔ اخلاقی بندشوں نے انسان کو گناہ سے بچانے کے بجائے گناہ کی پستیوں میں دھکیل دیا ہے اور منٹو کا فطری انسان گمراہ اور گناہگار بن گیا ہے ‘‘۔

آج منٹو شناسی اور عصمت نوازی کا حال یہ ہے کہ کل تک جو ناقدین منٹو اور عصمت کے نام سے ناک بھوں چڑھاتے تھے آج وہی انہیں چادر عظمت مرحمت فرما رہے ہیں۔ ان کی اقدار شکنی، بے راہ روی اور فحش گوئی فنی ادبی اور جمالیاتی محاسن کے ساتھ پیش کر کے انہیں عظمتیں اور بلند یاں عطا کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر ناقدین ایک نئے قسم کی فحاشی، ابتذال اور اباحیت کو ادب کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔

ملّا صاحب کی حقیقی فکر پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بات بہت زور و شور کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں انتہائی نامساعد حالات میں اردو کی بقاء کی لڑائی بڑی جرأت، بے باکی اور بے جگری کے ساتھ لڑی مگر اکثر ناقدین فن اس بات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ گول کر جاتے ہیں کہ انہوں نے یہ لڑائی کن کن محاذوں پر لڑی۔ وہ دیدہ و دانستہ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ ملّا صاحب نے سب سے اہم جنگ شعر و ادب کی صحت، پاکیزگی اور اردو کے تہذیبی،ا خلاقی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کے لئے لڑی تھی۔ ان کی نظر میں ادب کا جو ارفع و اعلیٰ مقام تھا ترقی پسند اور جدے دیت کے علمبردار بوجوہ اسے تہ تیغ کرنے کے پر آمادہ کمر بستہ تھے۔ حالی اور شبلی کے بعد اردو تنقید کو جو مردان کار میسر ہوئے سب کے اعصاب پر ترقی پسندی اور جدے دیت سوار تھی۔ اس لئے انہوں نے ملّاؔ کی فکر کو فریز ہی نہیں سیز بھی کر دیا۔ ملّا صاحب کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا مگر انہوں نے محاذ جنگ سے قدم پیچھے نہیں کھینچے، نہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی قسم کی مداہنت کو راہ دی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ذکر نہایت طمطراق سے کرتے ہیں۔ا پنے کلیات کے مقدمہ میں ’’ کچھ اپنے پڑھنے والوں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔

’’اس دور کے بہت سے نقاد جب موجودہ ادب کا جائزہ لیتے ہیں اس وقت ان کے حافظے سے میرا نام اس طرح غائب ہو جاتا ہے جس طرح چینی نقشوں سے میک ماہن لائن Mac Mahan Line۔ بعض دوسرے نقاد نام تو لیتے ہیں لیکن چونکہ میری قدریں مختلف ہیں، وہ مجھے گمراہ سمجھتے ہیں ‘‘۔

اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر عبادت بریلوی کے اس تنقیدی رویے کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’’جدید شاعری ’’ میں ان کی مشہور نظم‘‘ گمراہ مسافر ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اختیار کیا تھا۔

’’ملّا صاحب کی اس نظم میں سماجی اور تاریخی شعور موجود ہے لیکن دولت کی ’’مساویانہ تقسیم‘‘ سے انہوں نے جو شکوہ کیا ہے وہاں کچھ جذباتیت آ گئی ہے اور یہ بات ملّا صاحب کی صرف اس نظم میں نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری میں اکثر جگہ یہ کیفیت ملتی ہے کہ وہ کسی مخصوص نظام کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، محبت کا پیغام دیتے ہیں لیکن کسی مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے ‘‘۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی کے اس اقتباس کو پڑھ کر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود ترقی پسندی کے محبس میں قید ہیں۔ جہاں تک ملّا صاحب کی نظم میں جذباتیت کی بات ہے وہ بھی سراسر غلط ہے بلکہ مجھے تو ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت میں جذباتیت کے ساتھ ساتھ جماعتی تعصب بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ کیوں کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’وہ (ملّا صاحب ) انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، محبت کا پیغام بھی دیتے ہیں لیکن کسی مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے ‘‘۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کے مصداق ڈاکٹر صاحب معاملہ بین بین رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ واضح انداز میں یہ نہیں کہتے کہ چونکہ ملّا صاحب اشتراکیت پر یقین نہیں رکھتے، سرخ جھنڈے کو سلام نہیں کرتے، سرخ جنت کے خواب نہیں دیکھتے اس لئے ان کے یہاں واضح نقطۂ نظر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ آگے ملّا صاحب کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’وہ اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن ترقی پسندوں پر جگہ جگہ برستے بھی ہیں۔ وہ انسانیت کے تو قائل ہیں، لیکن ان نظریات کو اہمیت نہیں دیتے جن کے بطن سے انسانیت پرستی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ تضاد کی یہ کیفیت ملّا صاحب کی شاعری میں ضرور نظر آتی ہے۔ ویسے ان کی نظریں سماجی اور معاشرتی موضوعات کی گہرائیوں تک جاتی ہیں کیوں کہ وہ حالات کا صحیح شعور رکھتے ہیں۔ ‘‘

ملّا صاحب ڈاکٹر صاحب کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ڈاکٹر صاحب کے اس اقتباس میں بہت سے مفروضات ہیں جو نگاہ استدلال کی تاب نہیں لا سکتے۔ ایک یہی لیجئے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک انسان دوستی کا واضح نقطۂ نظر کا ہونا یا نہ ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی اشتراکیت پر ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ مجھ میں اور چاہے جو بھی خامیاں ہوں لیکن میرے ذہن میں نہ تو کوئی الجھاؤ ہے اور نہ کہیں جالے لگے ہیں میں ڈاکٹر صاحب سے صرف یہ عرض کروں گا کہ انھوں نے مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ ان کو کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ خود چوں کے اپنے نظریہ کا شکار ہیں لہٰذا وہ کسی اور نظریے کی تاب نہیں لا سکتے۔ میرے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ انسانیت کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اور انسانیت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صرف اشتراکیت ہی ایک راستہ نہیں میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نظام جس کی تبلیغ تشدد اور نفرت سے کی جائے وہ انسانیت کی راہ میں رہزن ہے رہبر نہیں۔ اس نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ اشتراکیت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص واضح نقطۂ نظر نہیں رکھتا کسی قدر تنگ دلی اور کم نظری ظاہر کرتا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت سے ہوش مند اور سلجھی ہوئی ذہنیت رکھنے والے انسان ایسے بھی ہیں جو لال جھنڈے کو سلامی نہیں دیتے ‘‘۔

یہی نہیں ملّا صاحب نے بقلم خود کے عنوان کے تحت علی الاعلان اشتراکیت سے اظہار بیزاری کیا ہے اور بالکل صاف الفاظ میں یہ بتایا ہے کہ ان کا اشتراکیت اور ترقی پسندی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں :

’’مجھے یہ پڑھ کر یقیناً بڑی حیرت ہوئی کہ احتشام نے اشارتاً اور سرور نے صریحاً میرا شمار ترقی پسند شعرا میں کیا ہے۔ آخر میں ترقی پسند کس طرح سے ہو گیا؟ نہ تو میں مزدور کو فرشتۂ رحمت سمجھتا ہوں اور نہ مزدور راج کو قائم کرنے کے لیے کشت و خون کی ترغیب دینے ہی کو شاعری کا اصل مقصد قرار دیتا ہوں۔ رہ گئی انسانیت دوستی تو اب یہ بھی اس مخصوص حلقۂ ادب میں جس پر بمبئی کی مہر لگی ہے مشکوک نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہے۔ مستند ترقی پسند نظریہ اب اسے بھی ایک فریب سمجھتا ہے جیسے کسی بچے کو چاند دکھا کر اس کے سامنے سے مٹھائی کی طشتری غائب کر دینا‘‘۔

آل احمد سرور نے سماجی شعور کی جن اہم اور زندہ قدروں کے حوالے سے ملّا صاحب کو ترقی پسند شعرا میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ایک الگ موضوع بحث ہے جس کا جواب ملّا صاحب نے خود بہت ہی سخت لہجے میں دیا ہے مگر انہوں نے ملّا صاحب کی انسانیت نوازی اور انسان دوستی کے حوالے سے علامہ اقبال کو مطعون کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ادب کے ان شکاریوں کا یہ عجب حال ہے کہ وہ نئی نئی ترکیبیں اور اصطلاحات وضع کر کے ایک قسم کا ادبی ہانکا لگاتے ہیں اور شکار کو اپنے بنائے ہوئے گڈھے کی طرف لا کر اس طرح اس کا شکار کرتے ہیں کہ اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ شکاری کی زد پر ہے، وہ پہلے خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے پھر قعر مذلت کا۔ انہوں نے علامہ اقبال کو بھی اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ترقی پسند ثابت کرنا چاہا مگر جب اس میں کامیاب نہ ہوئے تو ان کی فکر کو مطعون کرنے کے لیے نئے نئے فلسفیانہ زاویے اور فکری رویے دریافت کئے جانے لگے تاکہ انھیں شعر و ادب کے اس مقام بلند سے گھسیٹ کر نیچے لا سکیں جو ان جیسے ترقی پسندوں کو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حاصل نہیں ہو سکا۔ آل احمد سرور کے فکری شذرات ملاحظہ فرمائیں :

’’اقبال کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف جو میلان ملتا ہے وہ قومی نقطۂ نظر سے بڑا مایوس کن ہے۔ اقبال کی وطنی شاعری میں بڑی دلکشی تھی۔ بڑا جوش اور جذبہ تھا، مگر یوروپ کے قیام نے انھیں قومیت کے تصور سے نکلنا سکھایا، انھیں بین الاقوامیت اور انسانیت کا پرستار بنایا۔ اقبال کے نزدیک آفاقیت سب سے بڑا نصب العین بن گئی، مگر اس آفاقیت کے لیے انھوں نے جو خد و خال لیے وہ مذہب سے لیے۔ اقبال کے لیے مذہب کی ظاہری رسوم سے زیادہ اس کی مذہبی تعلیم اہم ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اقبال کی مذہبی اصطلاحیں، ان کی مذہبی زبان اور ایک مذہبی تہذیب و تمدن سے وابستگی اس آفاقیت کو مجروح بھی کرتی ہے۔ ہندوستان کی قومی تحریک کے دوش بدوش ایک تحریک مسلمانوں کے مذہبی احیا کی بھی چل رہی تھی، ملّا جیسے انسانیت پرست جو مندر و مسجد دونوں سے بیزار ہیں اور انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں، اقبال کی اس آفاقیت کو جب مذہبیت اور مذہبی تحریکوں میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ اقبال سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اقبال اور ملا دونوں میں انسان دوستی، جدید، ذہن اور سماجی شعور ملتا ہے۔ ملّا جو شروع میں اقبال کی طرح وطن کے پجاری تھے جب موجودہ دور میں وطنیت کے نام پر ہنگامے اور کشت و خون دیکھتے ہیں تو آزادی کی دیوی، جس کے جلووں کے لیے انھوں نے کتنی ہی راتیں تارے گن گن کر گزاری تھیں، اپنی معصومیت کھو بیٹھتی ہے۔ وہ اس آزادی کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر خوش نہیں ہیں۔ ‘‘

دیکھئے سرور صاحب کو کتنی دور کی کوڑی لائے ہیں۔ کتنے زور دار انداز میں ہان کا لگایا ہے۔ پہلے اقبال کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف میلان کا تذکرہ کیا پھر ان کی وطنی شاعری کی دلکشی کے قصیدے پڑھے۔ پھر ان کے قومیت کے تصور سے نکل کر بین الاقوامیت اور انسانیت کے پرستار بننے میں یوروپ کے قیام کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بین الاقوامیت سے آفاقیت نے جنم لیا۔ پھر تان اس پر ٹوٹی کہ انھوں نے اس آفاقیت کے لیے جو خدوخال لیے وہ مذہب سے لیے۔ اور اقبال کا یہی وہ جرم ہے جسے نہ سرور صاحب بخشنا چاہتے ہیں اور نہ ان جیسے مذہب کے منکر، مذہبی اقدار سے الرجک اور مذہب کی اخلاقی و تہذیبی تعلیم کے دشمن ترقی پسند حضرات انھیں عالمی ادب میں کوئی مقام دینے کو تیار ہیں۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ساری خوبیاں جو اچھے شاعر میں ہونی چاہئے وہ علامہ اقبال کے یہاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں اور علامہ اقبال کی جس آفاقیت کو انھوں نے یوروپ کے سر منڈھنے کی کوشش کی ہے اس کا تعلق تو سدا سے مذہب سے ہی رہا ہے لیکن اقبال کی آفاقیت کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے انھوں نے اس کے خدوخال مذہب سے اخذ کرنے کی بات کہی ہے تاکہ نزلہ اقبال کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اقدار پر بھی گرایا جا سکے۔ کیونکہ اس بات میں کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا کہ آفاقیت کا تصور مذہب کی دین ہے کیونکہ ’’ سب انسان بنو آدم ہیں ‘‘ یہ مذہب کا تصور ہے۔ بحیثیت انسان گورے اور کالے میں کوئی تفریق نہیں، یہ بھی مذہبی تصور ہے۔ اور تصور ہی نہیں بلکہ اسلام نے اس پر باقاعدہ عمل بھی کر کے دکھایا۔ سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے یہ بھی مذہب ہی کی دین ہے۔ سب انسانوں کو سماج میں برابر کے حقوق حاصل ہیں، اور اس کے علاوہ دنیا میں جنتے اعلیٰ انسانی اقدار ہیں وہ سب مختلف مذاہب کی دین ہیں۔ لیکن آج کل کا چلن یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے نت نئی اصطلاحیں وضع کی جا رہی ہیں اور ان کا اس پر قدر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے گویا کہ مذہب کا اس کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سب انسان کے خود ساختہ نظاموں کی دین ہیں۔ اور جہاں ان کی کوئی کوڑی بے ڈھب بیٹھی ہے وہاں وہ راست طریقہ چھوڑ کر ایسا طریقۂ کار استعمال کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہاں آلِ احمد سرور ملّاؔ کو انسانیت پرست قرار دے کر مسجد اور مندر سے بیزار درشانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یا وہ گوئی دیکھئے، وہ لکھتے ہیں ’’ وہ انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے تھے ‘‘۔ ملّا کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی ہو گی مگر ان کی جسارت دیکھئے کہ انھوں نے پنڈت آنند نرائن ملّا کی انسان دوستی کو ترقی پسندی کے دائرے میں لانے کے لئے کس فنکارانہ چابکدستی کا مظاہرہ کیا۔ چونکہ وہ حالی، اکبر اوراقبال سے متاثر ہیں اس لئے وہ بدرجۂ مجبوری اقبال کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے فکر اور فن دونوں کو مذہب اور مذہبی اقدار کے حوالے سے مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ملّا نہ وطن کے خلاف تھے اور نہ مذہب اور مذہبی اقدار کے۔ ان کی مخالفت کا نشانہ مذہبی شدت پسندی اور مذہبی اوبام پرستی تھی۔ اس طرح وہ حب الوطنی اور دیش پریم کے خلاف بھی نہیں تھے۔ ہاں وہ ایسی وطن پرستی کے خلاف تھے جو بنی نوع آدم کو خانوں میں بانٹ کر حق و انصاف کی بات کہنے اور اس پر عمل کرنے سے روک دے۔ ہاں وہ اس مذہبیت کے خلاف تھے جس سے خوں ریزیاں جنم لیتی ہیں۔ ہاں وہ اس وطنیت سے آخری وقت تک برسر پیکار ہے جس نے ہندوستان کی سالمیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ہاں وہ مذہبی شدت پسندی کے سبب ہونے والی اس خوں ریزی اور کشت و خون کے خلاف تھے جس کا مظاہرہ ۱۹۴۷ میں مذہب اور وطن کے اشتراک سے بر صغیر ہندو پاک میں کیا گیا۔

اور جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے وہ ایسی مذہبی شدت پسندی اور اوہام پرستی کے خلاف تھے جو چادرِ عظمتِ انسانیت کو چاک کر دے۔ انھوں نے نہاد صوفیوں کو بھی نشانہ بنایا اور ترکِ دنیا کی تعلیم دینے والی خانقاہیت کو بھی نہیں بخشا۔ انھوں نے کیپٹلزم کے مادہ پرستانہ نظریات اور مارکسزم کے ’’جبری اور غیر فطری مساوات‘‘ دونوں کو ہی غیر عادلانہ، نا قابل عمل اور انسانیت کے لیے سم قاتل قرار دے کر اس پر سخت تنقیدیں کیں۔ یہی سبب ہے کہ ترقی پسندوں کی نظر میں اقبال اور ملّا دونوں قابلِ گردن زدنی قرار پائے۔

پنڈت آنند نرائن ملّا کے نظریۂ شعر و ادب کو جاننے اور پرکھنے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ غزل کے سلسلے میں ان کی کیا رائے ہے کیونکہ غزل ہی وہ صنف سخن ہے جو ترقی پسندوں کی نظر میں سب سے زیادہ معتوب رہی ہے اور جسے ختم کرنے اور اسے اس کے منصب سے معز ول کرنے کی انھوں نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے حالانکہ اس میں بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ملّا غزل کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’غزل میں وہ خوبیاں ہیں جو اور کسی صنف سخن میں نہیں اور وہ لوگ جو اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ خالی اردو زبان کی تاریخ ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کی تہذیب و معاشرت بھی بھول جاتے ہیں۔ غزل اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر۔ اگر اردو نظم مٹا دی جائے تو یقیناً اردو ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ اپنا مقام کھودے گا لیکن اگر غزل مٹا دی جائے تو اردو زبان ہی زندہ نہ بچ سکے گی۔ میرے نزدیک غزل ایک مشرب ہے، ایک تہذیب ہے، ایک صلح جو پیمانہ لبریز ہے، محض ایک مٹنے والی ادبی روایت نہیں۔ مجھے اس کا خوف کم ہے کہ کوئی اس صنف کو مٹاسکتا ہے کیونکہ ایک طرف اس میں گزری ہوئی صدیوں کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز ہے اور دوسری طرف اس کے رشتے عوام کے جذبات اور احساسات سے وابستہ ہو چکے ہیں لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ کوتاہ بیں نقادوں اور ان نقادوں کی نظر سے دیکھنے والے فنکاروں میں گھر کر یہ کہیں خود کشی نہ کر لے۔ غزل اردو زبان کا وہ ہدیۂ دوستی ہے جو اس نے اس ملک کے باقی سب زبانوں کو نذر کیا ہے ‘‘۔

میرا خیال ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملّا صاحب نے یہاں بھی بغیر کسی لاگ لپٹ اور مروت کے ان ترقی پسندوں کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا ہے جو غزل کو اس کی مذہبی، اخلاقی اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی علامت ہونے کی وجہ سے مٹا دینے کے درپے تھے۔

آخر میں ملّا صاحب جو اصولی بات تحریر کی ہے وہ یقیناً آبِ زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’شاید جو کچھ باتیں میں نے اوپر لکھی ہیں ان سے آپ کو میرا نظریۂ ادب سمجھنے میں مدد ملے گی۔ میرا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ بحیثیت شاعر میں اس مقام پر ہوں جو میں نے اپنے نظریہ میں ایک عظیم فنکار کو دیا ہے۔ لیکن میرا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ صحیح راستے پر کچھ قدم آگے بڑھانا غلط منزل پر پہنچ جانے سے بہتر ہے۔ اگر آپ میرے نظریوں سے اتفاق کریں گے تو ممکن ہے کہ آپ یہ قبول کر لیں کہ میں اس گمرہی کے دور میں بھی غلط راستے پر گامزن نہیں ہوں۔ ‘‘

موجودہ دور کے بے سمت، بے نشان اور بے منزل ہندوستان میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی شعری وراثت، فنی بصیرت اور ہندوستانی پسِ منظر میں ٹھوس اور زندہ حقائق اور سچائیوں پر مبنی تمناؤں، آرزوؤں اور ان کے فکری و شعری سرمایے کو نشانِ منزل کے طور پر سامنے رکھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید