فہرست مضامین
- مجروحؔ سلطان پوری
- (آمد:۱۹۱۹ء ۔ رفت:۲۴ مئی ۲۰۰۰ء)
- جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
- دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
- یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
- آخر غم جاناں کو اے دل، بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا
- جب ہُوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
- مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
- دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
- چمن ہے مقتلِ نغمہ اب اور کیا کہیے
- جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
- ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
- مسرتوں کو یہ اہلِ ہوس نہ کھو دیتے
- ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
- آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
- Related
انتخاب
مجروحؔ سلطان پوری
انتخاب: عزیز نبیل، اعجاز عبید
مجروحؔ سلطان پوری
(آمد:۱۹۱۹ء ۔ رفت:۲۴ مئی ۲۰۰۰ء)
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے
دیار شام نہیں منزل سحر بھی نہیں
عجب نگر ہے یہاں دن چلے نہ رات چلے
ہمارے لب نہ سہی وہ دہانِ زخم سہی!
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
ہُوا اسیر کوئی ہمنوا تو دور تلک!
بپاسِ طرزِ نوا ہم بھی ساتھ سات چلے
بچا کے لائے ہم اے یار پھر بھی نقدِ وفا
اگرچہ لُٹتے ہوئے رہزنوں کے ہات چلے
پھر آئی فصل کہ مانندِ برگِ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے
قطار شیشہ ہے یا کاروانِ ہم سفراں
خرامِ جام ہے یا جیسے کائنات چلے
بُلا ہی بیٹھے جب اہلِ حرم تو اے مجروحؔ
بغل میں ہم بھی لیے اِک صنم کا ہات چلے
٭٭٭
دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل، ہر نگہ رگِ جاں ہے
بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے
میرے شکوۂ غم سے عالمِ ندامت میں
اُس لبِ تبسّم پر شمع سی فروزاں ہے
یہ نیازِ غم خواری، یہ شکستِ دل داری
بس نوازشِ جاناں، دل بہت پریشاں ہے
منتظر ہیں پھر میرے حادثے زمانے کے
پھر مرا جنوں تیری بزم میں غزل خواں ہے
فکر کیا انہیں جب تو ساتھ ہے اسیروں کے
اے غم اسیری تُو خود شکستِ زنداں ہے
اپنی اپنی ہمت ہے، اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے، موت بھی فراواں ہے
٭٭٭
یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یونہی کب تلک خدایا، غم زندگی نباہیں
کہیں ظلمتوں میں گھِر کر، ہے تلاشِ دست رہبر
کہیں جگمگا اُٹھی ہیں مرے نقشِ پا سے راہیں
ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں
مرے عہد میں نہیں ہے، یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کُلاہیں
٭٭٭
آخر غم جاناں کو اے دل، بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا
اس قطرے کو بننا تھا دریا، اس موج کو طوفاں ہونا تھا
ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ابھی فردوس و جناں کے شیدائی
تجھ کو تو ابھی کچھ اور حسیں، اے عالم امکاں ہونا تھا
وہ جس کے گدازِ محنت سے پُر نور شبستاں ہے تیرا
اے شوخ اسی بازو پہ تری زلفوں کو پریشاں ہونا تھا
آتی ہی رہی ہے گلشن میں اب کے بھی بہار آئی ہے تو کیا
ہے یوں کہ قفس کے گوشوں سے اعلانِ بہاراں ہونا تھا
آیا ہے ہمارے ملک میں بھی اِک دورِ زلیخائی یعنی
اب وہ غمِ زنداں دیتے ہیں جن کو غمِ زنداں ہونا تھا
اب کھل کے کہوں گا ہر غمِ دل، مجروحؔ نہیں وہ وقت کہ جب
اشکوں میں سنانا تھا مجھ کو، آہوں میں غزل خواں ہونا تھا
٭٭٭
جب ہُوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
٭٭٭
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جھکا سکے
اُڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کہہ سکے، مرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا، قدحِ شراب میں ڈھل گئے
وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں
دلِ راز تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمی ٔ بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے
مرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں !
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
٭٭٭
دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رسوا سرِ بازار سہی
پھر بھی کہلاؤں گا آوارۂ گیسوئے بہار
میں ترا دام خزاں لاکھ گرفتار سہی
جست کرتا ہوں تو لڑ جاتی ہے منزل سے نظر
حائلِ راہ کوئی اور بھی دیوار سہی
غیرتِ سنگ ہے ساقی یہ گُلوئے تشنہ
تیرے پیمانے میں جو موج ہے تلوار سہی
میں نے دیکھی ہے اُسی میں غم دوراں کی جھلک
بے خبر رنگ جہاں سے نگہِ یار سہی
اُن سے بچھڑے ہوئے مجروحؔ زمانہ گزرا
اب بھی ہونٹوں میں وہی گرمیِ رخسار سہی
٭٭٭
چمن ہے مقتلِ نغمہ اب اور کیا کہیے
بس اک سکوت کا عالم جسے نوا کہیے
اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعا کہیے
یہی ہے جی میں کہ وہ رفتۂ تغافل و ناز
کہیں ملے تو وہی قصّۂ وفا کہیے
اُسے بھی کیوں نہ پھر اپنے دلِ زبوں کی طرح
خرابِ کاکُل و آوارۂ ادا کہیے
یہ کوئے یار، یہ زنداں، یہ فرشِ میخانہ
انہیں ہم اہل تمنا کے نقش پا کہیے
وہ ایک بات ہے کہیے طلوعِ صبح نشاط
کہ تابشِ بدن و شعلۂ حنا کہیے
وہ ایک حرف ہے کہیے اُسے حکایتِ زلف
کہ شکوۂ رسن و بندشِ بلا کہیے
رہے نہ آنکھ تو کیوں دیکھیے ستم کی طرف
کٹے زبان تو کیوں حرف ناروا کہیے
پکاریے کف قاتل کو اب معالجِ دل
بڑھے جو ناخنِ خنجر، گرہ کشا کہیے
پڑے جو سنگ تو کہیے اسے نوالۂ زر
لگے جو زخم بدن پر اسے قبا کہیے
فسانہ جبر کا یاروں کی طرح کیوں مجروحؔ
مزہ تو جب ہے کہ جو کہیے برملا کہیے
٭٭٭
جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے
مگر اے ہم قفس، کہتی ہے شوریدہ سری اپنی
یہ رسمِ قید و زنداں، ایک دیوارِ کہن تک ہے
کہاں بچ کر چلی اے فصلِ گل، مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے
میں کیا کیا جرعۂ خوں پی گیا پیمانۂ دل میں
بلا نوشی مری کیا اک مئے ساغر شکن تک ہے
نہ آخر کہہ سکا اُس سے مرا حالِ دل سوزاں
مہ تاباں کہ جو اُس کا شریک انجمن تک ہے
نوا ہے جاوداں مجروحؔ جس میں روح ساعت ہو
کہا کس نے مرا نغمہ زمانے کے چلن تک ہے
٭٭٭
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اُٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آگیا ہے دولتِ بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شے نگہِ یار کی طرح
سیدھی ہے راہِ شوق، پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوئے دل دار کی طرح
بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح
٭٭٭
مسرتوں کو یہ اہلِ ہوس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں ترے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب، کہ ترے گیسوؤں کے سائے میں
خیالِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لئے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
جو دیکھتے مری نظروں پہ بندشوں کے ستم
تو یہ نظارے مری بے بسی پہ رو دیتے
کبھی تو یوں بھی امنڈتے سر شکِ غم مجروحؔ
کہ میرے زخمِ تمنا کے داغ دھو دیتے
٭٭٭
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ
چاکِ جگر محتاجِ رفو ہے، آج تو دامن صَرفِ لہو ہے
اک موسم تھا ہم کو رہا ہے، شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبھائیں، نازِ حریفاں ہنس کے اُٹھائیں
جب ہمیں ارماں تم سے سوا تھا، اب ہیں پشیماں تم سے زیادہ
ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے، جان کا نقصاں تم سے زیادہ
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت جشن چراغاں تم سے زیادہ
دیکھ کے اُلجھن زلفِ دو تاکی، کیسے الجھ پڑتے ہیں ہوا سے
ہم سے سیکھو، ہم کو ہے یارو فکرِ نگاراں تم سے زیادہ
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ، مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں، عالم زنداں تم سے زیادہ
٭٭٭
آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
حادثے اور بھی گزرے تری الفت کے سوا
ہاں دیکھ مجھے اب مری تصویر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پہ منزل یہ اجالا یہ سکوں
خواب کو دیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
کچھ بھی ہوں پھر بھی دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ تلخی تقریر نہ دیکھ
وہی مجروح وہی شاعر آوارہ مزاج
کون اٹھا ہے تری بزم سے دلگیر نہ دیکھ
٭٭٭
٭٭٭
ماخذ:
’دستاویز‘ کے پہلے شمارے سے، مدیر: عزیز نبیلؔ
اور دوسرے مآخذ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید