FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

پَلیتہ

 

 

 

ناول

 

 

 

 

 

پیغام آفاقی

 

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

آنے  والی صدیوں  کے  نام

 

 

 

 

 

 

 

1

ہر چند کہ نوجوان خالد سہیل کی نوخیز شخصیت خود اپنی زندگی میں  پایہ تکمیل تک نہیں  پہنچ پائی لیکن جس کمرے  میں  وہ مرا تھا اس کے  در و دیوار اب لرزہ خیز انداز میں  چیخ  رہے  تھے۔  کیونکہ اس کے  علاوہ اس کی موت کے  بعد اس کے  کمرے  میں  پائی گئی  اس کی جستہ جستہ تحریروں  کو جمع کر کے  جو کتاب مرتب کی گئی تھی یہ ایک عجیب و غریب کتاب تھی جو ہر اگلے  اڈیشن کے  ساتھ موٹی ہوتی جا رہی تھی جیسے  اس کے  اندر بند خیالات میں  مسلسل ایٹمی دھماکے  ہوتے  چلے  جا رہے  ہوں۔ خود قدرت نے  بھی ایٹمی ہتھیاروں  کے  تجرباتی دھماکوں  کے  طرز پر ہی   اس کتاب کے  وجود میں  آنے  کے  لئے  معاشرے  کے  جانے  مانے  مقامات سے  بہت دور ایک گمنام بستی کا انتخاب کیا تھا جہاں  جنگل میں  واقع ایک ویران کمرے  میں  خالد سہیل نے  اس کو جنم دیا تھا اور اس کتاب کی پیدائش کے  ساتھ ہی اس کی موت ہو گئی تھی کیونکہ وہ اس کی تخلیق کے  دوران جسمانی اور ذہنی طور پر بے  حد نحیف ہو گیا تھا۔

 

 

 

2

 

یہ کتاب اس کے  مقامی شہر سے  ہی شائع ہوئی تھی۔  اس کی کتاب کے  مسودے  کو اس کے  گاؤں  والوں  نے  بار بار پڑھوا کر بہت ہی دلچسپی سے  سنا تھا اور یہ کتاب چھپنے  سے  پہلے  ہی ان کے  ذہنوں  پر چھا چکی تھی۔ اس کے  بعد یہ مسودہ چھپنے  کے  لئے  ایک مشہور پبلشر کو دیا گیا تھا۔ طباعت کے  لئے  دئے  گئے  مسودہ کے  ساتھ بھی ایک پراسرار واقعہ ہوا تھا۔ اس کتاب کے   چھپنے  سے  پہلے  اس کا اصل اور پہلا مسودہ پر اسرار انداز میں  گم کر دیا گیا تھا۔ لوگوں نے  بے  چینی کے  عالم میں  یاد داشت کی بنیاد پر اس کتاب کو  از سرِ نو قلمبند کیا تھا۔ لیکن اس کے  بعد لوگ یہ بھی سمجھنے  کی کوشش کر رہے  تھے  کہ اس کتاب کو دبانے  کی کوشش کیوں  گئی تھی۔

اس کے  علاقے  کے  عوام میں  یہ کتاب بے  حد مقبول ہوتی چلی گئی تھی۔ اتنے  کم عرصے  میں اس کتاب کے  کئی ایڈیشنوں  کی لگاتار آمد اپنے  آپ میں  ایک زبردست خبر بن گئی تھی۔ یہ کتاب او ر باتوں  سے  زیادہ خود عوام کی اپنی کمزوریوں کی اور ان کی طرف سے  ان کی درد انگیز نا امیدی کی عکاسی کرتی تھی۔ اس کتاب نے  لوگوں  کے  اندر ایک نادر قسم کا شعور بیدار کر دیا تھا۔ اس کے  علاقے  میں  لوگوں  کو محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی زندگی کے  حالات یقیناً پہلے  کے  مقابلے  میں  اتنے  بدل گئے  تھے  کہ وہ گذشتہ تمام کتابوں  کو نگل گئے  تھے  ،  اور زندگی میں  اندھیرا بہت بڑھ گیا تھا،  زندگی بہت سخت اور دشوار ہو گئی تھی ، خطرات بہت بڑھ گئے  تھے او ر قزاق زندگی کے  چاروں  طرف اس طرح گھیرا ڈال رہے  تھے  کہ کسی ضربِ کلیم کے  بغیر ان کی زد سے  نکلنا ممکن نہیں  تھا اور ایسے  میں  اس کتاب کی سخت ضرورت تھی کہ ذہنی خشک سالی کے  ایک لمبے  عرصے  میں  اس سے  پہلے  فکر و بصیرت کو جھنجھوڑنے  والی کوئی ایسی کتاب نہیں  آئی تھی اور یہ کہ زمانہ حال میں  اس کتاب کی سخت ضرورت تھی۔

اپنی تاثیر میں  یہ کتاب کچھ ایسی تھی کہ جنہوں  نے  نہیں  پڑھی تھی انہیں  اس کتاب کے  بارے  میں  جو کچھ کہا جا رہا تھا اس پر یقین ہی نہیں  آ رہا تھا۔ لیکن جنہوں  نے  یہ کتاب پڑھ لی تھی وہ اب اندر سے  بدلے  ہوئے  لوگ تھے۔ کتاب میں  کیا تھا یہ بتانے او ر سمجھانے  سے  ہر شخص قاصر تھا اور ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ یہ کتاب پڑھے  جانے  سے  تعلق رکھتی ہے او ر بغیر پڑھے  ہوئے  اس کے  بارے  میں  صرف سن کر کوئی قطعی اندازہ نہیں  لگا سکتا کہ اس کتاب میں  کیا ہے۔ اس کتاب کے  بارے  میں  کچھ متضاد رائیں  بھی تھیں۔ کچھ لوگوں  کی رائے  یہ تھی کہ اس کتاب میں  اس عہد کے  بارے  میں  کچھ بھی نہیں  تھا لیکن اس کے  بر عکس کچھ دوسرے  لوگوں  کی رائے  یہ تھی کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ ہمارے  اپنے  عہد کی تصویر کا حصہ تھا۔

غرض کہ جتنے  منھ اتنے  باتیں۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور ادراک کے  مطابق اس کتاب کے  بارے  میں  ہونے  والے  چرچوں  کی اپنی توضیح  پیش کر رہا تھا۔

اسی طرح کچھ لوگوں  کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک بے  ضر ر سی کتاب تھی تو کچھ دوسرے  لوگوں  کو برطانوی ممبر پارلیامنٹ کارلائل کی وہ تقریر یاد آ رہی تھی جس میں اس نے  کتابوں  کی اہمیت پر روشنی ڈالتے  ہوئے  انقلابِ فرانس سے  قبل فرانس میں  شائع ہوئی ایک کتابTHE SOCIAL CONTRACT کے  بارے  میں  برطانوی پارلیامنٹ میں  کہا تھا کہ جب وہ کتاب چھپی تھی تو کچھ لوگوں  نے  اس کا مذاق اڑایا تھا لیکن جب اس کتاب کا دوسرا اڈیشن چھپا تھا تو ان لوگوں  کے  چمڑے  سے  اس کتاب کی جلد باندھی گئی تھی جنہوں  نے  اس کا مذاق اڑایا تھا۔ بہر حال اس کتاب کا کسی نے  بھی مذاق نہیں  اڑایا تھا جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایسی کئی کتابوں  کی تاریخ لوگوں  کے  سامنے  تھی۔

ایک اور بات جس پر سبھی متفق تھے  وہ یہ تھی کہ اس کتاب کے  پڑھنے  اور سننے  والوں  کے  سوکھے  ہوئے  چہروں  پر آمدِ بہار والی تازگی پیدا ہونے  لگتی تھی۔ اس کتاب سے  پیدا ہونے  والی ذہنی کیفیت کے  بارے  میں  لوگوں  کا بیان یہ تھا کہ یہ کتاب گویا ساحل پر کھڑے  اپنے  پڑھنے  والوں  کو کسی سمندر کے  تلاطم میں  داخل ہونے  کا  بے  پناہ حوصلہ دیتی تھی ا و ر ساتھ ہی یہ اپنے  پڑھنے  والے  کو اس مقام پر پہنچا دیتی تھی جہاں اسے  موت اور تیراکی کے  بیچ کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا تھا  کیونکہ یہ کتاب اپنی خیرہ کن روشنیوں  سے  موجودہ زندگی کے  پر فریب ساحلوں  کے  وجود کو ہی مکمل طور پر تباہ کر دیتی تھی۔

یعنی یہ کتاب آدمی کو زندگی کے  عین منجدھار میں  بے  جھجک کود پڑنے  پر آمادہ کر دیتی تھی۔ اس کتاب کے  بارے  میں   لوگوں  کی متفقہ رائے  یہ تھی کہ یہ کتا ب اپنے  قاری کو کسی کے  بھی خلاف نہیں اکساتی تھی اور اس کے  باوجود یہ ایک انقلاب پرور کتاب تھی۔ اسے  پڑھ کر لوگ  اپنے  آپ کو ہی کوستے  تھے۔

اپنے  آپ پر تنقید کروا دینے  والی حتی کہ اپنے  آپ سے  نفرت تک پیدا کروا دینے  والی اپنی نوعیت کی یہ عجیب و غریب اور پہلی کتاب تھی۔

اکثر لوگ تو اس کتاب کو پڑھنے  کے  بعد اپنے  آپ کو گالیاں  دیتے  سنے  گئے  تھے۔

اور یہ آخری بات ہی اس کتاب کی زبردست پہچان بننے  لگی تھی۔

 

 

 

 

جس انداز میں  خالد کی موت ہوئی تھی  وہ عجیب و غریب ضرور تھا لیکن کسی بھی شخص نے  اس  تشویش کا اظہار نہیں  کیا تھا کہ اس کی موت کسی سازش کا نتیجہ تھی۔ خالد کی زندگی کے  پورے  حالات اور اس کی موت سے  متعلق ایک ایک تفصیل سب کے  سامنے  موجود تھی۔ ویسے  بھی خالد کی شخصیت میں  اتنی نرمی و بردباری اور خیالات میں  اتنی پاکیزگی تھی کہ کوئی سوچ بھی نہیں  سکتا تھا کہ کسی کے  دل میں  اس کو قتل کرنے  کا خیال آ سکتا ہے۔ اس کی فرشتہ صفت طبیعت کے  سبھی قائل تھے۔ لیکن اس کی موت ایک بہت بڑا دھماکہ تھی۔ اس کی موت اپنے  پیچھے  ایک ایسی متحرک خط منحنی چھوڑ گئی تھی جو لگاتار ایک نئی دنیا کے  اولین خاکے  کی تخلیق کرتی جا رہی تھی۔

عام طور پر لوگوں  کا خیال یہ تھا کہ خالد نے  جکارتا میں  حقوقِ انسانی کے  موضوع پر منعقد ہوئے  عالمی کانفرنس میں  اپنی جس تقریر میں  خود مختار شہریوں  پر مشتمل ملکوں  کے  قیام کی عجیب و غریب تجویز پیش کی تھی  وہی تقریر اس کی بربادی کا پیش خیمہ بن گئی اور میڈیا نے  جس شدت سے  اس تقریر کے  جملوں  کو بار بار دکھایا اور اس موضوع پر خالد کے  انٹرویوز بار بار نشر کئے  اس نے  اس کی زندگی کو مکمل طور پر سیل بند کر دیا کیونکہ اس سے  متعلقہ اربابِ اقتدار کو یہ پختہ یقین ہو گیا کہ خالد ناقابلِ اصلاح تھا۔ ایک طرح سے  یہ بات درست بھی تھی۔

پچھے  چند برسوں  میں خالد سہیل کا نام بار بار ملکی اور عالمی سطح پر اخباروں او ر ٹی۔ وی۔ کے  نیوز میں  ابھرا تھا۔ پہلی بار دنیا نے  اس کا چہرہ تب غور سے  دیکھا تھا جب اس نے  اب سے  تین چار سال قبل جمہوری قدروں  پر منعقد نوجوانوں  کے  ایک عالمی سیمینار میں  انگریزی میں  انتہائی کرشماتی  انداز میں بولتے  ہوئے  کہا تھا۔

(‘No more. No more.’  )’اب بہت ہو چکا۔ بہت ہو چکا۔ ‘

وہ انگریزی میں  تقریر کر رہا تھا لیکن ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی نشر ہو رہا تھا جسے   اس کے  بہت سے  جاننے  والے   ٹی۔ وی۔ پر دیکھ اور سن رہے  تھے۔

اس نے  اتنی خود اعتمادی سے  اپنی مخصوص صاف آواز میں  یہ الفاظ کہے  تھے  کہ اس کے  اگلے  الفاظ کی ادائیگی سے  قبل ہی ایسا محسوس ہونے  لگا تھا کہ اس جملے  کی چوٹ سے  جمہوریت مخالف قوتیں  پسپا ہونے  لگیں  تھیں او ر جمہوری قدریں زمین کے  ہر خطے  پر آسمان میں  لہرا نے  لگی تھیں۔

(No more this world will be governed by rulers.)’ اس دنیا  سے  حکمرانوں  کا اقتدار ختم ہونا چاہئے۔ ‘

(So those who want to rule this world should do away with their wish to rule.)   وہ لوگ جو دنیا پر حکومت کرنے  کی خواہش رکھتے  ہیں   وہ   اپنے  اس خواب کو سمیٹ کر رکھ دیں۔

(I can say, I should be ruled only if I offer to be ruled.) میں  اپنا یہ دعوی پیش کرنا چاہتا ہوں  کہ میری مرضی کے  خلاف میرے  اوپر کوئی حکومت  نہیں  تھوپی جا سکتی۔

سامعین اس عالمی سیمینار میں  دئے  گئے   اس پیغام پر سکتے  میں  آ گئے  تھے  اس میں  پورے  معاشرے   کو بدلنے   والے  ایک ایک نقشے  کا تصور پیش کیا  گیا تھا  جو  ہر چند کہ ایک خوشنما خواب سے  معمور تھا لیکن اس کے  ساتھ ہی بے  پناہ تغیرات او ر تنازعوں کا حامل تھا او ر اس کے  اظہار  کے  لئے  ناقابلِ یقین جرات کی ضرورت تھی۔ اس نے  اپنی بات کو اور واضح کیا۔

(I reject the very format of the rulers and ruled in which the world is divided.)میں  دنیا سے  حاکم اور محکوم کے  رشتے  کو ہی مٹا دینا چاہتا ہوں۔

اس کے  الفاظ اس دنیا کے  نظام کو ایک نئے  انداز میں  دیکھنے  کی دعوت دے  رہے  تھے۔

سمندر کے  کنارے  ایک ساحل پر لگے  خوبصورت خیموں  کے  درمیان سے  نکلنے  والی اس کی یہ آواز سمندر کی طوفانی لہروں  کی آواز سے  بے  تکلفی سے  گلے  مل رہی تھی۔ اس کی آگے  کی تقریر میں  پیغمبرانہ شان جھلک رہی تھی۔

(The world needs new mental flyovers to cross over red-lights.) اس دنیا کو ایسے  فلائی اوورس کی ضرورت ہے  جس سے  ہو کر ہم دنیا کو بانٹنے  والی لال بتیوں  کے  اوپر سے  گزر جائیں۔

(My freedom is my high way to relationship with the universe. One’s life is a matter between him and the universe. We are only his neighbors and friends not masters.) میری آزادی پوری کائنات سے  اپنا  رشتہ استوار کرنے  کا ذریعہ ہے۔ اس دنیا میں  پیدا ہونے  والے  ہر شخص کی زندگی اس کے او ر کائنات کے  بیچ کا معاملہ ہے۔ دوسرے  صرف اس کے  پڑوسی ہیں۔

(So the governments and the corporate should be enlightened and should know that they are going to clear the way for the civil society which has remained humble from time immemorial.)اس لئے   حکومتوں او ر کاروباری گھرانوں  کا ذہن اس  معاملے  میں  روشن ہو جانا چاہئے  کہ وہ اس سول سوسائٹی  کے  لئے  راستہ صاف کرنے  جا رہے  ہیں  جو نامعلوم زمانوں  سے  کم مائگی کی شکار ہے۔

(My friends, the dawn of the self confidence of the civil society and self rule must glow with our energy, and this is the supreme most task of our lives.)  دوستو، سول سوسائٹی کی خود اعتمادی کی صبح صادق نمودار ہو رہی ہے او ر اس کو ہماری قوت کی روشنی سے  چمکنا ہے او ر اس کو چمکانا ہی  ہماری زندگی کا نصب العین ہے۔

(No more human beings should be ruled with the instrument of fear.)اب وقت آ گیا ہے  کہ انسانوں  کو خوف کے  ہتھیار کے  سائے  میں  رکھ کر ان پر حکومت نہیں  کی جائے۔

(In a good democracy it is the government which should fear the people and not the vice versa.)ایک اچھی جمہوریت میں  سرکار کو عوام سے  ڈرنا چاہئے  نہ کہ عوام کو سرکار سے۔

اس کے  یہ جملے  مختلف عالمی اخباروں  میں  چھپے  تھے او ر اس کو تقریر کرتے  ہوئے  کئی  ٹی۔ وی۔ چینلوں پر دکھایا گیا تھا۔ ممکن ہے  ان میں  کچھ ایسے  بھی لوگ تھے  جنہیں  اس کی باتیں  اچھی نہیں  لگ رہی ہوں۔

No more. No more  کے  اوپر اس نے  جس  طرح زور دیا تھا  اس کا وہ  انداز دیکھنے  والوں  کے  ذہن میں  اس کے  بولتے  ہوئے  چہرے  کے  ساتھ نقش ہو کر رہ گیا تھا۔

oo

 

 

 

اس کے  بعد پچھلے  چند برسوں  میں خالد سہیل کا نام بار بار اخباروں او ر ٹی۔ وی۔ کے  اسکرین پر ابھرا تھا اور اس موضوع پر اس سے  سوالات ہوتے  رہے او ر وہ اسی انداز میں  سوالوں  کے  جواب دیتا رہا جس انداز میں  اس نے  پہلی بار پوری دنیا کے  سامنے  تقریر کی تھی۔

ایک بہت پڑھا لکھا شخص، جسے  وہ پہچانتا نہیں  تھا، ایک جلسے  میں  اس سے  ملا بھی تھا اور انگریزی میں  اس سے  کہا تھا۔

You should refrain from giving expression to such dangerous ideas and contain yourself.

خالد نے  جواب میں  پوچھا تھا۔

‘What is wrong in it.’

‘You will never be able to realize this dream. You will never be able to make it come true. The system all over the world is so vast and so powerful that it is unmanageable.’

‘But how the present system can be accepted as permanent feature of this human world. I just cannot imagine this torturing situation remaining eternal. I just cannot digest it.’

س کے  بعد سے  ہی اس کی زندگی میں  زوال آ گیا۔ کچھ دنوں  بعد اسے  محسوس ہوا

جیسے  ان تمام لوگوں  کو بھی جنہوں  نے  اسے  بلندیوں پر بٹھا کر اس کے  انٹرویو پوری دنیا کو دکھائے  تھے، سانپ سونگھ گیا ہو۔

.وہ در بدر کی ٹھوکریں  کھاتا رہا۔ کئی جگہ اس نے  جوب کے  لئے  درخواستیں  دیں  لیکن ہر جگہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے  منع کر دیا گیا جیسے  پورے  معاشرے  میں  اس کے  خلاف ایک جال سا بچھا ہوا ہو۔ جن لوگوں  نے  اس بارے  میں  سنا ان میں  بہت سے  لوگوں  نے   خالد کے  لئے  ہمدردی کا اظہار کیا کیونکہ اسے  ایک بیباک نوجوان سمجھا جاتا تھا لیکن چند لوگوں  کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہوا تھا اس کے  لئے  وہ خود ہی ذمہ دار تھا اور اب اسے  بغیر شکوہ کے  اس انجام کا سامنا کرنا چاہئے۔ ڈوبتے  ہوئے  سورج کی طرح اس کے  دوست بھی اسے  بھول بھال گئے۔

 

 

 

4

اس کے  بعد ایک دو سال گزر چکے  تھے۔ اس درمیان خالد کہاں  تھا، کیا کر رہا تھا، یہ کسی کو نہیں  معلوم تھا۔ صرف ایک بار اس کے  ایک دو دوستوں  سے  سنا گیا تھا کہ وہ مقابلے  کے  امتحان میں  بھی شریک ہوا تھا اور ناکام ہونے  کے  بعد عدالت میں  بھی گیا تھا لیکن مقدمہ ہار گیا تھا اور پھر وہاں  سے  سیدھے  اپنے  گاؤں  واپس چلا گیا تھا-

البتہ اب ایک بات سامنے  آئی تھی جس کی اہمیت اچانک اب بڑھ گئی تھی۔ اس کی موت کی خبر ملنے  پر یونیورسٹی میں  اس کے  نجی دوستوں  نے  ایک تعزیتی نشست کی تھی۔ خالد کے  ایک قریبی دوست نے  جو اس کو آخری بار اسٹیشن چھوڑنے  گیا تھا لوگوں  کو  اسی محفل میں   یہ بات بتائی تھی کہ دلی سے  واپس جاتے  وقت وہ بہت بے  چین ہو گیا تھا۔ اس کی آواز بدل گئی تھی اور جانے  سے  پہلے  اس نے  ریلوے  اسٹیشن کے  باتھ روم کی دیوار پر لکھا تھا۔

O, my city of dream. I am leaving you because you are under control of undesirable forces. I will come back and liberate you.

دیوار پر یہ الفاظ لکھنے  کے  بعد اسے  کچھ سکون مل گیا تھا۔

رفتہ رفتہ جب اس کی موت کے  بارے  میں  کچھ غیر معمولی باتیں  یہاں  پہنچنے  لگیں  تو ایک دن اس موضوع پر باقاعدہ ایک بڑا جلسہ ہوا اور اس کی موت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ طے  پایا کہ اس کے  دوستوں او ر طالب علموں  کا ایک وفد اس کے  گاؤں  میں  جا کر اس سے  متعلق حقائق کی چھان بین کرے  کہ خالد کی موت کی وجہ کیا تھی۔

راستے  بھر ٹرین میں  اس وفد میں  شامل ہو کر جا رہے  طالب علم خالد کے  متعلق ہی باتیں  کرتے  رہے۔ ان دنوں  کی باتیں  جب وہ جامعہ ملیہ میں  طالب علم تھا۔ پتلا دبلا، لمبا، ستواں  ناک اور گھنگھریالے  بالوں  والا خوبصورت خالد زیادہ تر سنجیدہ ہی رہتا لیکن جب کبھی مسکراتا یا ہنستا تو اس میں  ایک عجیب سی کشش پیدا ہو جاتی۔ انتہائی خوش دل اور ارادے  کا پکا خالد کبھی بھی کوئی بات غیر ذمہ دارانہ طور پر نہیں  کہتا تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت لائبریریوں  کی کتابوں  کے  بیچ گزرتا اور اس کے  ہاتھ میں کسی نہ کسی اہم اور مارکیٹ میں  تازہ تازہ آئی ہوئی کتاب کا ہونا اس کا Logoبن گیا تھا۔ اس کی تقریریں  بڑے  مزے  کی ہوتی تھیں۔ وہ  بہت سہل انداز میں  بات کرتا لیکن اس کی گفتگو کو تھوڑی دیر سننے  کے  بعد سننے  والا کو یہ محسوس ہونے  لگتا کہ وہ خود کہیں  سوچوں  میں  گم ہو چکا ہے۔

اس چھوٹی سی ٹیم میں  مختلف طرح کے  لوگ تھے۔ اس میں  ایک میزو نوجوان تھا جو اپنی نادر قسم کی ایسی فلمی کہانیوں  کے  لئے  مشہور تھا جو انسانی زندگی کے  نادر نادر مسائل کو اپنی کہانیوں  میں  پیش کر کے  سوچنے  والوں  کی نظر کا ایک مرکز بنتا جا رہا تھا۔ ایک لڑکا ملک کی مختلف یونیورسیٹیوں  کے  ریسرچ اسکالرز کی تنظیم کا پریزیڈنٹ تھا۔ ایک لڑکی عورتوں او ر کمزور طبقات  کی قوت افزائی کے  لئے  بنائی گئی ایک بین الاقوامی تنظیم میں  کام کر رہی تھی اور ان سب میں  سب سے  زیادہ سنجیدہ اور کم گو نوجوان جیلانی تھا جس نے  پچھلے  کئی برسوں   میں  انٹرنیٹ کی دنیا میں  اپنے  شائع کئے  ہوئے  بلوگس کے  ذریعہ ایسی غیر معمولی مقبولیت حاصل کر لی تھی کہ  اس کا شمار مقبول ترین  پانچ بلاگ نگاروں  میں  ہوتا تھا۔ ان میں  سے  ہر ایک یا تو پہلے  سے  خالد سہیل کو  ذاتی طور پر جانتا تھا یا پھر اس کی شخصیت کے  بارے  میں  سن رکھا تھا۔ ان سب کو وہ دن یاد تھے  جب خالد اپنی یونیورسٹی  کے  ذہین ترین طالب علم کے  طور پر جانا جاتا تھا اور اپنی سوچ اور شخصیت سے  نوجوانوں کے  دلوں  کی دھڑکن بنا ہوا تھا۔

ہر چند کہ خالد کی موت ہو چکی تھی لیکن اس کے  ان ساتھیوں  کو بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس کے  گاؤں  جا رہے  تھے۔ خالد کی محبت ان کے  دلوں  میں  عود کر آئی تھی۔ بلکہ وہ یہ سوچ رہے  تھے  کہ وہاں  کے  لوگوں  کو وہ اس بات کا کیا جواب دیں  گے  کہ وہ اب تک وہاں  کیوں  نہیں  آ سکے  تھے۔

خالد کی کتاب کے  نئے  ایڈیشن کی ایک دو کاپیاں  بھی ان کے  ساتھ تھیں۔ یہ کتاب بہت معمولی کاغذ پر اسی کے  شہر کے  کسی پبلشر کے  یہاں  سے  چھپی تھی۔

 

۔

نوجوانوں  کی یہ ٹیم جب خالد کی جائے  پیدائش کے  مقامی اسٹیشن پر ٹرین سے  پہنچی تو رات کے  ساڑھے  چار بج رہے  تھے۔ انہوں  نے  اسٹیشن سے  باہر نکل کر سامنے  دیکھا تو پارکنگ میں  کوئی گاڑی نہیں  تھی۔ انہوں  نے  ایک قلی سے  سواری کے  بارے  میں  دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں  رات میں پہنچنے  والے  زیادہ تر مسافر اسٹیشن پر ہی رک کر صبح کا انتظار  کیا کرتے  تھے  کیونکہ علاقہ میں  بڑھے  ہوئے  کرائم کی وجہ سے  رات میں  کہیں  جانا خطرے  سے  خالی نہیں  تھا۔ انہوں  نے  بتایا کہ ان کے  پاس کوئی خاص سامان نہیں  تھا تو قلی نے  انہیں  پھٹی آنکھوں  سے  دیکھتے  ہوئے  مختصر جملوں  میں کہا۔

’ تلاشی بعد میں  ہوتی ہے۔ خاموشی پہلے۔ ‘

پھر مزید کچھ سوچ کر بولا

’کچھ نہیں  ملنے  پر گردے  تک نکال لیتے  ہیں۔ سیدھے  جنگل میں  لے  جاتے  ہیں، اور وہاں  سے  گاڑیوں  میں  ٹھونس کر مخصوص اسپتالوں  میں۔ ‘

ٹیم کے  لوگ یہ سن کر نہ صرف حیرت زدہ ہوئے  بلکہ کانپ سے  گئے۔ انہیں  اب اندازہ ہونے  لگا تھا کہ خالد کی تقریروں  میں  جو شدت دکھائی دیتی تھی اس کے  پیچھے  کچھ بہت ہی سنگین حقائق موجود تھے۔

وہ  وہیں  رک کر چائے  پینے  لگے۔ اور چائے  کی چسکیاں  لیتے  ہوئے  پاس میں  ہی کھڑے  اس قلی سے  مزید یہاں  کے  بارے  میں  استفسار کرتے  رہے۔ قلی نے  ان کو دھیرے  دھیرے  بہت کچھ بتایا۔

’اس دھرتی نے  تو پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا تھا لیکن آج مسلسل خراب سرکاروں او ر اس کی وجہ سے  پھیلی بیکاری نے  یہاں  کے  نوجوانوں  کو درندہ بنا دیا ہے۔ ان کے  لئے  مزدوری تک کے  راستے  بند ہیں۔ اب انہیں  جو کوئی  پیسے  دے  کر کچھ بھی کرنے  کی لئے  کہ دے، وہ کرنے  کے  لئے  تیار ہو جاتے  ہیں۔ والدین تک دھیرے  دھیرے  ان کی حرکتوں  کو قبول کر لیتے  ہیں۔

صبح کو وہ ایک جیپ میں  سوار ہو کر اس علاقے  کو بغور دیکھتے  ہوئے  چلے  جہاں  بستیوں  کے  آدھے  ادھورے  اینٹوں سے  بنے  مکان، جینس اور پینٹ پہنے  ہوئے  نوجوان اور راستوں  میں  میلے  کچیلے  یونیفارم میں  پیدل اسکول جاتے  ہوئے  بچے  دکھائی دے  رہے  تھے۔ خالد کی بستی میں  پہنچے  تو یہ محسوس کر کے  انہیں  خوشی ہوئے  کہ ان کے  مقصد کو جان کر لوگ ان سے  بہت تپاک اور محبت سے  مل رہے  تھے۔ انہوں  نے  ہی بتایا کہ اپنے  اس مقصد کے  لئے  وہ اس شخص سے  ملیں  جو خالد کی قبر اور اس سے  متعلق ساری چیزوں   کا  ذمہ لئے  ہوا ہے۔

دلی سے  ایک ہزار دو سو بیس کیلومیٹر دور اس مقامی ریلوے  اسٹیشن سے  خالد کی بستی لگ بھگ بارہ تیرہ کیلو میٹر دور تھی۔

لیکن اس بستی کا یہ کرشمہ اب دور دور تک کے  لوگوں  کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا تھا۔

اس ٹیم سے  پہلے  بھی صحافی اور ٹی۔ وی۔ چینل والے  یہاں  آ چکے  تھے۔ لیکن تحقیقات کے  لئے  اس طرح ٹھہرنے  والی یہ پہلی ٹیم تھی۔ مقامی لوگوں  سے  یہ جان کر انہیں  بڑی راحت ملی کہ انہیں  یہاں  کے  جرائم  کے  ماحول سے  گھبرانے  کی کوئی وجہ نہیں  تھی کیونکہ یہاں  کا بچہ بچہ خالد کو ایک انسانیت پرست فلسفی اور ایک بڑی روحانی ہستی سمجھنے  لگا تھا اور اس کے  حوالے  سے  آنے  والوں  کا تہِ دل سے  استقبال کرتا تھا۔

خالد کی قبر سے  کچھ ہی دوری پر لوگوں  نے  ایک پھوس کی چھت والا ہال سا بنا دیا تھا جہاں  پانی نکالنے  والا ایک ہاتھ پمپ بھی لگا ہوا تھا۔ یہاں  آنے  والوں  کے  لئے  لوگ گاؤں  سے  چائے  وغیرہ بھیج دیتے  تھے۔ گاؤں  والوں  نے  ان کا سامان اتروا کر اسی ہال میں  رکھوا دیا۔ مجاور اس وقت کہیں  گیا ہوا تھا۔ ا س بیچ وہ گاؤں  والوں  سے  بہت ساری باتیں  سنتے  رہے  لیکن وہ بہت مستند باتیں  جاننا چاہتے  تھے۔

شام میں  ان کی ملاقات مجاور سے  ہوئی۔

 

 

 

5

کھچڑی بالوں  والا مجاور کوئی جاہل گنوار نہیں  تھا،  وہ ایک کالج میں  تاریخ کا لکچرر رہ چکا تھا اور کبھی خالد کو پڑھا بھی چکا تھا اور کافی دنوں  سے  رٹائرمنٹ کے  بعد تنہائی اور خلوت کی زندگی گزار رہا تھا۔ خالد کے  واقعہ میں  خصوصی دلچسپی محسوس کر کے  وہ کئی دنوں  سے  ادھر ہی آ بیٹھا تھا اور گھر بھی نہیں  گیا تھا۔ وہ پہلے  سے  ہی پھٹے  پرانے  کپڑے  پہنتا تھا ،   یہاں  بیٹھے  بیٹھے  اس کے  کپڑے  اب اور بھی میلے  کچیلے  ہو چکے  تھے۔

مجاور نے  بتایا۔

یہاں  عام طور سے  لوگوں  کا خیال ہے  کہ اس کی موت کا تعلق بنیادی طور پر اس کے  کالا پانی کے  سفر سے  تھا۔ اس سے  ایک سوال  یہ پیدا ہو جاتا ہے  کہ خالد کے  کالا پانی کے  سفر میں  وہ کون سی بات تھی جو اس کی موت کا سبب بن گئی ؟ کالا پانی کے  بارے  میں  تو ساری دنیا جانتی ہے او ر بہت سے  لوگ وہاں  جاتے  آتے  رہتے  ہیں۔

تواب میں  آپ کو اس کے  انڈمان کے  جزیروں او ر کالا پانی کے  تجربے  کے  بارے  میں  بتاتا ہوں  کیونکہ اس کے  اندر اسی تجربے  سے  بھونچال پیدا ہوا تھا اور وہ آج کی پوری دنیا کو اس سے  بھی کئی گنا زیادہ بڑا کالا پانی سمجھنے  لگا تھا۔ میں  یہ نہیں  کہ رہا ہوں  کہ وہ  اس تصویر کو جس پیمانے  پر دیکھنے  لگا تھا وہ پوری طرح حقیقی تھی۔ وہ تخلیقی ذہن رکھتا تھا اور تخلیقی ذہن والے  چیزوں  کو خورد بینی نگاہ سے  بڑا کر کے  دیکھنے  لگتے  ہیں او ر خورد بین میں  چیونٹی ہاتھی کے  برابر بھی دکھائی دی سکتی ہے  لیکن یہ بھی سچ ہے  کہ اگر خورد بین کو پلٹ کر اس سے  دیکھا جائے  تو ہاتھی چیونٹی کے  برابر دکھائی دیگا۔ لہذا اس بات کو چھوڑ دیجئے  کہ کون سی بات کتنی بڑی ہے۔ اصل بات یہ ہے  کہ کوئی چیز موجود ہے  یا نہیں او ر خورد بین کا استعمال عموماً اسی کے  لئے  ہوتا ہے۔

یہاں  عام طور سے  لوگوں  کا خیال ہے  کہ اس کی موت کا تعلق بنیادی طور پر اس کے  کالا پانی کے  سفر سے  تھا۔ لیکن خالد کے  کالا پانی کے  سفر میں  وہ کون سی بات تھی جو اس کی موت کا سبب بن گئی ؟ کالا پانی کے  بارے  میں  تو ساری دنیا جانتی ہے او ر بہت سے  لوگ وہاں  جاتے  آتے  رہتے  ہیں۔

کالا پانی جدید جمہوری نظام کے  پیٹ سے  دنیا کے  عوام کی زندگیوں  میں  ٹپکے  ہوے  ان  بچھوؤں  میں  سے  ایک تھا  جنہوں  نے  انسان کے  جمہوری خوابوں  کو خوابِ پریشاں  بنا رکھا ہے۔

کالا پانی کے  سفر کے  دوران  اس نے  دیکھا کہ کس طرح جمہوری ڈھانچے  کے  اندر کالا پانی کے  زمانے  میں  جزائر انڈمان میں  سرکاری دہشت کا ایک پورا نظام بے  روک ٹوک کار فرما تھا۔ یہ ایک ایسی بات تھی جس کی مثال اس سے  پہلے  تاریخ میں  کہیں  موجود نہیں  تھی۔ کالا پانی  جمہوری نظام کی  ایک ایسی عجیب و غریب، حیرت انگیز، چونکا دینے  والی اور بظاہر غیر فطری پیداوار تھی جس کو اس سے  پہلے  مورخ بھی  یا تو دیکھ نہیں  پائے  تھے  یا  اس سے  آنکھ بچا لی تھی یا پھر کوتاہ اندیشی میں  اس کا تجزیہ نہیں  کر پائے  تھے۔ غالباً اس لئے  بھی کہ کسی کے  خواب و خیال میں  بھی یہ بات نہیں  آ سکتی تھی کہ ایک ایسے  معاشرے  میں  جس میں  ایک پارلیامنٹ مکمل طور پر کام کر رہا ہو اور جس کی حکومت کے  چاروں  طرف صحافیوں  کا جال بچھا ہوا ہو اس معاشرے  میں  یہ سب کچھ ممکن تھا۔

کالا پانی میں  اسے  حکومتوں  کے  کردار کا مکمل اور بے  نقاب نظارہ کرنے  کا موقع اس لئے  دستیاب ہو گیا کہ جزائر انڈمان کی ناقابلِ عبور تنہائی نے  برٹش حکومت کو اپنی بربریت کا اتنا کھلا موقع دیا تھا اور حکومت نے  وہاں  اپنے  اوپر سے  احتیاط کے  پردے  نہایت بے  فکری سے  ہٹا دئے  تھے   جس کی نتیجے  میں  ان کے  ہاتھوں  وہاں  ایک ایسا بڑا واقعہ ظہور میں  آ گیا جس نے  حکومتوں  کے  کردار کو مکمل طور پر بے  نقاب کر دیا اور یہ ظاہر کر دیا کہ حاکموں  کے  دل اور دماغ دراصل کس طرح کام کرتے  ہیں۔

یہ ہے  کالا پانی کی وہ اہمیت جس کی وجہ سے  میں  نے  کہا کہ کالا پانی وہ جگہ تھی جہاں  خالد کو زندگی کی ایک پوشیدہ حقیقت کا عرفان ہوا۔ خالد کے  ذہن کے  لئے  انڈمان کا سفر ایک دھماکہ خیز واقعہ ثابت ہوا تھا۔   خالد کی موت کا ذمہ دار کالا پانی کا مردہ بھوت نہیں  بلکہ خالد کی موت کا ذمہ دار آج کی دنیا کا وہ نہ دکھائی دینے  والا بھوت ہے  جو اسی بھوت کی ترقی یافتہ اولاد ہے۔ دراصل خالد  اس تضاد پر بھی حیران تھا کہ یہ کیسے  ممکن ہے  کہ جو حکومتیں  عوام کے  تحفظ کی ذمہ داری اٹھانے  کی دعویدار ہوتی ہیں  وہی عوام کو مسلسل خوف کے  بادلوں  کے  سائے  میں  رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ  اب حکومتوں  کے  بادلوں  میں  چھپے  ہوئے  اس غیر مرئی آسیب کے  خدوخال، اس کے  ماخذ اور  اس کو مضبوطی سے  قائم رکھنے  میں  دلچسپی رکھنے  والے  انسانی دماغوں  کو سمجھنا چاہتا تھا۔

اس نے  یہ کتاب صرف اس چلمن کو تار تار کرنے او ر عوام کو براہِ راست یہ منظر دکھانے  کے  لئے  نہیں  لکھی بلکہ اس کتاب میں  اٹھنے  والا سوال یہ تھا کہ دہشت کے  اس چہرے  سے  نپٹا کیسے  جائے۔

آخری لمحے  میں  اس کو یقین ہو گیا تھا کہ آج کی مافیائی قوتیں  معاشرے  پر اس قدر حاوی ہیں  کہ لوگوں  کی رائیں  اپنے  مشاہدے  سے  نہیں  بلکہ ترسیل  و ابلاغ  کے  ذرائع سے  بنتی بگڑتی ہیں او ر دنیا اب سامنے  سے  لڑائی نہیں  کرتی بلکہ خاموشی سے  مختلف بہانوں  سے او ر مختلف شکلوں  میں  سازشوں  کے  ذریعہ امن کے  پاسبانوں او ر مجاہدوں  پر حملہ کرتی ہے  تاکہ جس پر حملہ ہو رہا ہے  اس کے  ہمدرد بھی گمراہ ہو کر اس سے  متنفر ہو جائیں۔

قدرت کس لمحے او ر زندگی اور دنیا کے  کس مقام پر انسان کے  دل و دماغ میں  روشنی ڈال دے  کوئی نہیں  جانتا۔  ایسا مفکروں  کے  ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں  تاریخ میں  موجود ہیں۔

خالد کے  لئے  کالا پانی کا سفر کسی جزیرے  کا سفر نہیں  تھا بلکہ خود اس کی اپنی موجودہ زندگی کے  اندر سے  گہرائی سے  گزرنے  کا سفر تھا۔ کالا پانی کی کہانی نے  خالد کے  سامنے  خود اپنے  زمانے  کی کئی طاقتوں  کے  ذہن میں  وقت بہ وقت ظہور میں  آ سکنے  والے  بھیانک خطرات کے  امکانات کو بے  نقاب کر دیا تھا۔ اور وہ سمجھ گیا تھا کہ ان خطروں  کو سیل بند کئے  بنا  وہ بے  خوف آسمان والی سول سوسائٹی کا تصور کر ہی نہیں  سکتا کہ ایماندار اور معصوم شہریوں  پر کسی بھی لمحے  بجلی گرائی جا سکتی تھی۔ ایسی بجلیوں  کو گرتے  ہوئے  اس نے  دیکھا بھی تھا اور یہ بجلی خود اس کے  اوپر بھی گر چکی تھی۔ یہ بجلی اس کے  ملک اور اس کی دنیا میں  یہاں  وہاں  اکثر گرتی رہتی تھی۔ اسے  کالا پانی کی کہانی میں  ہر جگہ موجودہ زندگی کا کوئی منظر گزرتا دکھائی دینے  لگا تھا اور یہ منظر وہ ہوتا تھا جو خود آج کی زندگی پر براہِ راست لکھی جانے  والی کہانیوں  میں  بھی نہیں  دکھائی دیتا تھا اور اسی وجہ سے  کالا پانی کی کہانی نے  خالد کے  دل و دماغ کو جکڑ لیا تھا کہ یہ دراصل ایک آئینے  کے  اندر دکھائی دینے  والی خود اپنے  دور کی ہی انوکھی ریکارڈنگ تھی۔ اور ایسا ہوتا ہے۔ مہابھارت کی کہانیوں  کو پڑھتے  ہوئے  آج کے  کردار زیادہ کھل کر سامنے  آنے  لگتے  ہیں  جبکہ خود آج کی کہانیاں  ان کرداروں  کے  متعلق ہمارے  ذہن کو اتنا روشن نہیں  کرتیں۔ اور خالد سہیل کیلئے  کالا پانی کی زمین کا وہ دور اپنے  آپ میں  دراصل مہابھارت کی طرح کی ہی ایک بڑی کہانی کی کتاب تھی جس میں  ہمارے  دور کے  عذابوں  کی حقیقت سے  متعلق  وہ سب کچھ تھا جو مہابھارت میں  موجود نہیں  ہے۔ یہ مہابھارت میں  اس  لئے  موجود نہیں کہ دراصل یہ جدید جمہوریت کے   عہدِ آغاز  کی کہانی ہے  جب جدید جمہوریت کے  خد و خال ابھر رہے  تھے او ر جو خدوخال بعد میں  پختہ تر ہوئے  ہیں او ر یہ کہانی جدید جمہوریت کے  اسی عہد کی روح کی ایک تاریک کروٹ کی ریکارڈنگ تھی۔

اگر ہمیں  معلوم ہوتا کہ خالد کسی اتنے  شدید طور پر الجھے  ہوئے  مسئلے  سے  نبرد آزما ہے  تو ہم اس کے  بالکل قریب ہو کر اس کے  ذہنی جدوجہد میں  شامل ہو گئے  ہوتے او ر وہ شاید اس شدید تنہائی کے  احساس سے  نہیں  گزرتا جس نے  اس کی جان لے  لی۔  اس کتاب کے  اندر کہی گئی باتوں  کو مد نظر رکھتے  ہوئے  اس کے  مصنف کی صورتحال کا موازنہ ان نبیوں  ،  اوتاروں،فلسفیوں او ر سائنسدانوں  سے  کیا جا سکتا ہے  جن کے  منظر عام پر آنے  کے  بعد شدید مخالفت ہوئی، زود وکوب ہوا، انہیں  زہر دیا گیا، جلایا گیا، جلا وطن کیا گیا۔  لیکن دراصل ہم عظیم انسانوں  کو اس وقت تک سمجھ ہی نہیں  پاتے  جب تک وہ  ہمارے  درمیان ہوتے  ہیں  کہ چاند ہو،  پہاڑ ہوں ، دریا ہو، آفتاب ہو،  ان کو دیکھنے  کے  لئے  مناسب دوری چاہئے او ر اسی لئے  لوگ اس کو بروقت سمجھ ہی نہیں  پائے او ر اب افسوس کرتے  ہیں او ر اس کی قبر پر جا جا کر خاموش نگاہوں  سے  ادھر ادھر ٹکر ٹکر تاکتے  ہیں  یا وہاں  کی اداسی سے  متاثر ہو کر رونے  لگتے  ہیں ،  ہچکیاں  شروع ہو جاتی ہیں،سینہ کوبی کرنے  لگتے  ہیں۔

آخری دنوں  میں وہ انتہائی پریشان کن افکار کی زد میں  آ گیا تھا۔ ایک عام آدمی جو صرف اپنے  بارے  میں  سوچتا ہے  وہ توایسا تصور بھی نہیں  کر سکتا کہ کوئی انسان ایسا بھی ہو سکتا ہے  جس میں  نسل انسانی کا دکھ اتنا بھرا ہو کہ وہ اس غم میں  بیمار ہو جائے۔ اس کا کھانا پینا کم ہوتے  ہوتے  بالکل بند ہو گیا تھا۔

انڈمان سے  لوٹنے  کے  بعد ہی اس کی صحت دنوں  دن گرتی چلی گئی۔ اداس رہتے  رہتے  وہ خاموش رہنے  لگا تھا۔ اس کو بھائی صاحب نے  ڈاکٹر سے  دکھایا تو ڈاکٹر نے  کہا کہ اسے  کوئی بیماری نہیں ،  بلکہ ڈاکٹر نے  اس سے  کہا بھی کہ وہ زیاد ہ سنجیدہ اور اداس نہ رہا کرے او ر اتنا زیادہ نہ سوچے۔ ایسے  انسان کا معاشرے  کے  غم میں  مرجانا ہی وہ بات ہے  جو ہر جاننے او ر سننے  والے  کے  اندر لرزہ پیدا کر کے  پاگل بنا دیتی ہے۔ اور یہ جو سب آپ دیکھ رہے  ہیں  کہ ایک نہ سمجھ میں  آنے  والا طوفان کھڑا ہوتا جا رہا ہے  یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

 

جس طرح خالد کی موت ہوئی تھی،   اس کی دوسری کوئی مثال میرے  علم میں  نہیں۔ اس نے  اپنی زندگی کے  آخری لمحے  میں  قلم نہ ملنے  پر کمرے  کی تنہائی میں  موت سے  پہلے  دیواروں  پر کچھ لکھ ڈالنے  کیلئے   اپنی انگلی کا اس طرح استعمال کیا کہ اس کی کلمہ کی انگلی آدھی سے  زیادہ گھس گئی تھی بلکہ یوں  سمجھئے  کہ جڑ تک گھس گئی تھی۔ وہ تحریر ابھی تک دیواروں  پر موجود ہے۔ مجھے  اس طرح کا ایک ہی دوسرا واقعہ پڑھنے  کو ملا جس میں  روس کے  ایک زلزلے  کے  ملبے  میں  دبی ایک عورت نے  اپنی انگلیوں  کے  خون سے  اکیس دنوں  تک اپنے  بچے  کو زندہ رکھا تھا۔

خالد کی ماں  کا کہنا ہے  کہ خالد کے  اوپر کالا پانی سے  ہی کوئی آسیب سوار ہو گیا جس نے  اس کی جان لے  لی کیونکہ وہ جگہ ہی ایسی تھی جو ہزاروں  معصوموں  کی جان مار کر پنپی اور بڑھی تھی۔ وہ بار بار بھائی صاحب کو کوستی ہیں او ر وہ چپ رہتے  ہیں۔ مجھے  لگتا ہے  کہ بھائی صاحب کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ آسیب کیا تھا۔

خالد کے  مرنے  کے  بعد ایک دن انہوں  نے  خالد کی ماں  سے  کہا تھا کہ’ میرا بیٹا مرا نہیں ،  شہید ہوا ہے۔ ‘

اس پر خالد کی ماں  نے  انہیں  جھڑک دیا کہ

’شہید وہید کی باتیں  مت کیجئے۔ آپ نے  میرے  بچے  کی جان لی ہے۔ آپ کو معلوم تھا وہ کس مزاج کا بچہ تھا پھر اس کو وہاں  بھیجنے  کی کیا ضرورت تھی۔ خود نہیں  جا سکتے  تھے  اس قبرستان اور مرگھٹ میں ،  اگر کچھ پتہ کرنا تھا تو۔ ‘

خالد کو دراصل اس کے  والد نے  ہی کالا پانی کا سفر کرنے  کا حکم دیا تھا۔

ہوا یہ تھا کہ جرنلزم کا کورس کرنے  کے  بعد سہیل پیشے  کے  طور پر اب صحافت کی دنیا میں  آ گیا تھا لیکن لوگ جانتے  ہیں  کہ کسی نے  اسے  نوکری نہیں  دی۔ ہر ادارہ اس کے  لڑنے  والے  تیور سے  گھبراتا تھا ورنہ اس کی سوچ اور قوتِ تحریر کا کوئی منکر نہیں  تھا۔ بالآخر اس نے  اپنا نجی نیوز ویب سائٹ کھول کر اس پر ایک خاص طرح کا نیوز چینل چلانے  کا فیصلہ کیا لیکن اس طرح کا ویب سائٹ چلانے  کے  لئے  خاصی رقم کی ضرورت تھی۔ اسی سلسلے  میں  وہ گھر آیا تھا۔ اور اس کی زندگی کی ایک دوسری بڑی کہانی یہیں  سے  شروع ہوتی ہے۔ یوں  تو دیکھنے  میں  ایسا لگتا ہے  کہ ساری بڑی کہانیوں  کا مرکز دار السلطنت ہی ہے  لیکن خود دار السلطنت کی جڑیں  ان دیہاتوں  تک میں  کتنی گہرائی سے  گھسی ہوئی ہیں  اس کا اندازہ صرف اہلِ نظر لگا سکتے  ہیں۔

خالد کے  والد شیخ عبدالرحمان بن خدا بخش بن میر علی کے  پاس نقد پیسے  نہیں  تھے۔ انہوں  نے  ایک زمین بیچنے  کا فیصلہ کیا۔ اور اس کے  ساتھ ہی ایک سیکڑوں  سال پرانی پوری دنیا ابھر کر سامنے  آ گئے۔

 

 

 

 

رجسٹری دفتر سے  ایک عجیب سا اعتراض ہوا کہ زمین کو بیچنے  کے  لیے  یہ ثابت کر کے  کہ اس کے  پردادا میر علی کو جو قتل کے  الزام میں  کالا پانی بھیجے  گئے  تھے ،  کوئی دوسری اولاد نہیں  تھی،  ان کی جائداد انہیں  اپنے  نام سے  کرانی پڑے  گی۔ اس نکتے  کے  ابھرنے  سے  میر علی کی جملہ جائداد کے  تئیں  ایک سنگین معاملہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جائدادیں  قیمتی تھیں۔ سبھی چونک گئے۔ شیخ عبدالرحمان کاما تھا بھی ٹھنکا کہ ہو نہ ہو دشمن خاندان نے  اسی زمانے  سے  ایسا کوئی ریکارڈ بنا رکھا ہو کہ فلاں  شخص یا فلاں  فلاں  شخص میر علی کی اولاد ہیں۔ اس تشویش کے  مد نظر فوری طور پر میر علی کے  بارے  میں  ریکارڈ سے  یہ دریافت کرنا ضروری ہو گیا۔ قبر سے  مردہ اکھاڑنے  والا مسئلہ اپنی پوری سنگینی کے  ساتھ آ کھڑا ہوا تھا۔

خالد کے  والد نے  خالد کو اپنے  کمرے  میں آواز دیکر بلایا اور پوری بات اسے  بتاتے  ہوئے  اسے  اس سلسلے  میں  فوراً جزائر انڈمان جا کر اپنے  پرداد کے  متعلق پوری تفصیل معلوم کرنے  کے   لئے  کہا۔

oo

 

 

 

’اپنے  پردادا کے  کالا پانی بھیجے  جانے  والا واقعہ سہیل کے  دل و دماغ میں  بچپن سے  ہی کھٹکتا تھا۔ اس کے  تصور میں  الثر ایک نوجوان ایک لق و دق ویرانے  میں بھوکا پیاسا بھٹکتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس زمانے  سے  جب بھی گھر میں  اس واقعہ کو دہرایا جاتا تو اس کی  روح میں  ایک سنامی سا اٹھنے  لگتا۔ اس سنامی میں  اسے  ایک جزیرے  پر ایک پچیس چھبیس سال کا مجبور نوجوان دنیا کے  لوگوں  سے  آزادی اور زندگی کی بھیک مانگتا دکھائی دیتا تھا۔ وہی واقعہ اس کے  اندر ایک بیج سے  پورا برگد کا پیڑ بن گیا۔ ‘

مجاور کی آنکھوں  میں  بھی اس واقعہ کا تصور کر کے  سیاہ شعلے  لہرا رہے  تھے۔

’ویسے  بھی یہ بات کسی بھی سننے  والے  کے  لئے  انتہائی تعجب خیز تھی۔ ہر شخص یہی سوچتا تھا کہ انگریزی سرکار سے  اتنی بڑی غلطی کیسے  ہو گئی تھی۔ ایک کتے  کے  قتل کے  مقدمے  میں  ایک شخص کو اتنی بڑی سزا ہو جائے   یہ کیسے  ہو سکتا تھا۔ یقین کرنے  والی بات نہیں  تھی۔ لیکن  پورے  گاؤں  والے  جانتے  ہیں  کہ اب سے  لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل یہ ہوا تھا۔ لوگ بتاتے  ہیں  کہ کلکتہ جا کر وائسرائے  تک کے  یہاں  سب کچھ صاف صاف لکھ کر دیا گیا تھا پھر بھی کچھ نہیں  ہوا۔ ‘

خالد ابھی پانچ سال کا بچہ تھا جب اس نے  کسی کو یہ کہتے  سنا کہ جب کالا پانی جانے  سے  پہلے  لوگوں  نے  جا کر میر علی کو سب سے  بڑی عدالت میں  بھی ان کی اپیل رد ہونے  کی خبر دی تو یہ خبر سن کر ایک لمحے  میں  ان کی آنکھیں  اندر دھنس گئی تھیں او ر وہ بچوں کی طرح چاروں  طرف ایسے  دیکھنے  لگے  تھے  جیسے  دنیا کو پہلی بار دیکھ رہے  ہوں۔

یہ سنتے  ہی خالد بے چینی کے  عالم میں  سامنے  پڑے  سامان اٹھا اٹھا کر پھینکنے  لگا تھا۔ تب سے  لوگ اس کے  سامنے  اس واقعہ کا ذکر کرنے  سے  کترانے  لگے  تھے۔

کالا پانی جانے  کے  بعد ان کے  بارے  میں  کچھ سننے  کو نہیں  ملا تھا۔ یہ ضرور سنا گیا تھا کہ وہاں  کچھ قیدیوں  نے  قیدی عورتوں  سے  شادیاں  بھی کی تھیں۔ سوال یہ تھا کہ کیا انہوں  نے  شادی کی تھی۔ سزا کے  وقت ان کی عمر ہی کیا تھی۔ اور خوبصورت اتنے  تھے  کہ کئی کہانیاں  محض ان کے  نقش قدم سے  پیدا ہو کر ان کو پریشان کر چکی تھیں۔ انتہائی شریف اور شرمیلے  لیکن پھربھی بدنامیوں  سے  جان نہیں  بچی تھی۔ بات اب اتنی پرانی ہو چکی تھی کہ ان سوالوں  کی قصے  کہانیوں  سے  زیادہ اہمیت نہیں  رہ گئی تھی۔

خالد کے  گھر میں  کئی اسلحے  جیسے  تلواریں،برچھیاں او ر ڈھال وغیرہ اور  کئی زرہ بکتر جو میر علی سے  وابستہ تھے  بڑے  احتیاط اور توجہ سے  دیواروں  پر لٹکا کر رکھے  گئے  تھے او ر ان میں  سے  کئی ایک سے  ان کی بہادری کی شاندار داستانیں  وابستہ تھیں۔ خالد سہیل کو بچپن سے  ہی بہادری اور بدقسمتی کی یہ کہانیاں سنتے  سنتے  میر علی کی کی یادوں  سے  گہرا لگاؤ ہو گیا تھا۔

خالد کو اب محسوس ہوا کہ ایسی بہت سی  باتیں  تھیں  جنہیں  اس کو جاننا چاہئے  تھا لیکن وہ نہیں  جانتا۔ اس نے  اپنے  والد سے  شکایت  کے  لہجے  میں  کہا۔

’ابا، مجھے  آپ لوگوں  نے  کبھی یہ واقعہ ٹھیک سے  نہیں  بتایا کہ پردادا کالا پانی کیوں  بھیجے  گئے۔ ‘

اس کے  والد شیخ عبدالرحمان بن خدا بخش بن میر علی سنجیدہ ہو گئے او ر اس دن انہوں  نے  بیٹے  کو تفصیل کے  ساتھ سب کچھ بتایا۔

’واقعہ کچھ یوں  ہوا تھا کہ اس بستی میں  ایک ایسا خاندان تھا جو سہیل کے  خاندان کے  مقابلے  میں  کمزور تھا۔ سہیل کا خاندان اب سے  تین پشتوں  پہلے  پورے  علاقہ میں  اپنے  دبدبہ کے  لیے  جانا جاتا تھا اور یہ خاندان اس دوسرے  خاندان کو کئی موقعوں  پر زیر کرتا آیا تھا۔ جب وہ دوسرا خاندان اپنے  مقصد میں  کسی طرح کامیاب نہیں  ہو پایا  تو اس نے  ایک انوکھی سازش رچی۔ اس خاندان نے  ایک کتا پالا اور اس کا نام چندو رکھا۔ جب وہ کتا اپنے  نام سے  مشہور ہو گیا تب ایک دن رات کے  وقت انہوں  نے  کتے  کو بھالے  سے  مار ڈالا۔ چوکیدار سازش میں  شامل تھا۔ اس نے  تھانے  میں رپورٹ درج کرائی کہ میر علی نے  چندو کو بھالا مار کر ہلاک کر دیا۔ چندو کے  باپ کی جگہ اس کے  مالک کا نام لکھوایا جو چند و کو بیٹا کہہ کر پکارتا تھا۔ چوکیدار کے  رپورٹ کا سہارا لے  کر داروغہ نے  چوکیدار کی طرف سے  قتل کا مقدمہ درج کر دیا اور تفتیش کو شدید  بارش کا موسم ہونے  کے  بہانے  التوا میں  رکھ دیا۔ مقدمہ خاموشی کے  ساتھ کاغذ پر پڑا رہا اور تفتیش میں  تاخیر ہوتی رہی۔ اسی درمیان داروغہ نے  میر علی کو مفرور قرار دے  دیا  اور عدالت سے  میر علی کی گرفتاری کا وارنٹ نکلوا  لیا۔ اس کے  بعد میر علی کو اپنے  کاغذوں  میں  مزید مفرور دکھاتے   ہوئے  یک طرفہ مقدمہ جاری رکھا گیا۔ یک طرفہ عدالتی کار روائی میں  میر علی کو سزائے  موت سنا دی گئی۔

سزائے  موت سنائے  جانے او ر اپیل کی مدت گزرنے  کے  بعد ایک دن ایک پولیس پارٹی میر علی کے  گھر پہنچی اور انہیں  حراست میں  لیکر کسی دوسری جگہ کے  جیل میں  بھیج دیا۔ میر علی کے  خاندان والوں نے  مقدمہ کی پیروی شروع کی لیکن تب تک اپیل کی مدت گزر چکی تھی اور پھانسی کی سزا کنفرم ہو چکی تھی۔ جب کہانی کی اصلیت  پولس کے  اعلی حکام اور عدالت کو بتائی گئی تو پولس اور عدالت نے  ہر قدم پر مزاحمت شروع کر دی کیونکہ بقول ان کے  اس سے  عدالت اور انتظامیہ کی بڑی بدنامی ہونے  کا اندیشہ تھا  لیکن بعد میں  یہ اندازہ ہوا کہ یہ بھی صرف ایک بہانہ تھا کیونکہ سچائی کے  سامنے  آنے  کے  باوجود ایک دن عدالت نے  سزائے  موت کو سزائے  کالا پانی میں  تبدیل کر کے  انہیں  کالا پانی بھیج دیا۔

دلی اور دوسری جگہوں  پر سرکاری، نیم سرکاری اور بڑے  تجارتی گھرانوں   کی طرف سے  اپنے  اوپر تمام دروازے  بند ہونے  کے  بعد  خالد کو احساس ہوا کہ اس سطح پر مفاد اور پالیسیوں  کی ایک گٹھ بندھن موجود ہے  لیکن ابھی بھی اسے  یہ علم نہیں  ہوا تھا کہ یہ گٹھ بندھن اتنا وسیع ہے  کہ یہ گاؤں  گاؤں  تک پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ وہ کم عمری میں  ہی دلی کے  ایک ہوسٹل میں  آ گیا تھا  اس لئے  وہ گاؤں  کے  بارے  میں  زیادہ جانتا بھی نہیں  تھا۔ لیکن اب اسے  اس بات کا ادراک ہو رہا تھا کہ اس نے  شہر میں  جس چیز کے  وجود کو محسوس کیا تھا وہ  صرف  گلیسیر کا اوپری حصہ تھا اور یہ نہ صرف  ہر جگہ موجود تھی بلکہ اس کی جڑیں  تاریخ کے  اندر بھی بہت دور تک گھسی ہوئی تھیں۔ لیکن اس انکشاف نے  اس کے  حوصلے  کو پست یا کمزور کرنے  کے  بجائے  اس کے  ارادے  کو اور مضبوط کیا۔ اور اسے  اس بات سے  اطمینان حاصل ہوا کہ ایک اندیکھی چیز اس کے  علم کا حصہ بن رہی تھی۔ اس نے  اپنے  ذہن کو اور مضبوطی سے  اپنے  نشانے  پر مرکوز کیا۔ اسے  یاد آ رہا تھا کہ جن لوگوں  نے  عظیم کارنامے  انجام دئے  ہیں  ان کے  سامنے  مہم کے  آغاز کے  بعد مخالف قوتیں  بتدریج  زیادہ وسیع ہو کر سامنے  آتی رہی ہیں۔

.خالد کے  نازک ہاتھ جس ڈھانچے  کے  ٹٹول رہے  تھے  وہ  اندر سے  ایک ایسی چکی تھی جس میں  حکمرانوں  سے  لیکر مزدوروں  تک سبھی کولہو کے  بیل کی طرح جتے  ہوئے  تھے۔ یہ ایک مشین تھی جس میں  فرد کی کوئی اہمیت تھی۔ جو شخص اس میں  جہاں  داخل ہو جاتا تھا وہیں  بے  دست وپا ہو کر اس مشین کی دی ہوئی زندگی کو جینے  پر مجبور ہو جاتا تھا اور رفتہ رفتہ اسی رنگ میں  رنگ جاتا تھا۔ مختلف عہدوں او ر پیشوں  کی طرح اس مشین میں  جتے  ہوئے  لوگوں  کو ظالم اور مظلوم کا کردار بھی یہ مشین ہی عطا کرتی تھی۔ اس میں  کوئی ایسا نہیں  تھا جو ہمیشہ حاکم رہا ہو، کوئی ایسا نہیں  تھا جو ہمیشہ بڑا تاجر رہا ہو۔ بس جس کو جو دنیا جتنی دیر کے  لئی مل جاتی تھی وہ اسی دنیا میں  مگن ہو جاتا تھا۔ یہی تو اس نظام کا کمال تھا کہ اس میں  مواقع سب کو ملے  ہوئے  تھے۔ دائمی پسِ منظر میں  اپنی آنے  والی اولاد تو دور خود اپنے  ریٹائرمنٹ کے  بعد کے  دنوں  تک کی کسی کو فکر نہیں  تھی کیونکہ وہ جانتے  تھے  کہ ان کے  سوچنے  سے  کچھ نہیں  ہونے  والا تھا۔ اس مکمل نظام کو سدھارنے  کی سوچ تو صرف خالد سہیل جیسے  کسی غیر معمولی انسان کے  ذہن میں  ہی جگہ پاسکتی تھی۔ اور خالد اب اس بھول بھلیوں  والی کائنات کے  دروازے  کے  پٹ کھول رہا تھا۔

oo

 

 

 

 

اس کا ذہن اس واقعے  کی طرف پوری طرح مڑ گیا جو اس کے  پردادا کے  ساتھ پیش آیا تھا۔ اس واقعے  نے  ہر قدم پر نئے  سوالات بھی پیدا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے  اس سفر میں  اس کے  معصوم تصورات جن میں  سے  بیشتر اسے  اپنے  ہی سماج کے  بزرگوں  سے  ملے  تھے، ایک ایک کر کے  کمزور ثابت ہونے  لگے۔

.خالد نے  انڈمان جانے  کی تیاری شروع کر دی۔

اس کے  پردادا کوکتے  کے  قتل میں  جھوٹے  طور پر پھنسایا گیا یہ بات تو اپنی جگہ سنگین طور پر غلط تھی ہی لیکن اس کے  ساتھ اس کے  ذہن میں  یہ بات بھی ایک اہم سوال بن کر ابھرنے  لگی کہ انہیں  کالا پانی کیوں  بھیجا گیا تھا کیونکہ اگر ان کی سزا عمر قید میں  تبدیل ہوئی تھی تو ان کو یہاں  کے  کسی جیل میں  بھی رکھا جا سکتا تھا۔ اور خصوصاً جب ان کی سزا اس بات کے  مدِ نظر کم کی گئی تھی کہ ان کا مقدمہ مشکوک تھا تو پھر ان کو اس قسم کی خصوصی طور پر سخت سزا دینے  کی کیا وجہ تھی۔ یہ سزا موت سے  کم کیسے  تھی یہ بات بھی اس کی سمجھ میں  نہیں  آتی تھی۔ یہ سزا کیسے  تھی یہ بات بھی سمجھ میں  نہیں  آتی تھی۔ کوئی پراسرار بات تھی جو اس سزا سے  نہیں  خود کالا پانی سے  وابستہ تھی۔ شاید انہیں  یہ سزا اس لئے  دی گئی تھی کہ وہاں  قیدیوں  کو جنگلوں  میں  رہنے  کے  لئے   کم از کم آزاد تو چھوڑ دیا جاتا تھا۔

اسے  یہ بات زیادہ سمجھ میں  آنے  والی لگی اور اس کے  ذہن میں  بیٹھ گئی۔ اسے  یہ نہیں  معلوم تھا کہ وہاں  بھی قید خانہ تھا لیکن بنا بنایا نہیں  تھا بلکہ وہاں  جا کر انہیں  خود اپنے  قید خانے  کی تعمیر کرنی تھی جس طرح حضرت عیسی کو صلیب ڈھونی پڑی تھی۔

وہ تو یہی سوچ رہا ہو گا کہ اس کے  پردادا  میر علی کے  ساتھ، جو معصوم تھے، نرمی کا رویہ قائم رکھا گیا ہو گا اور ان کا کالا پانی بھیجا جانا انگریزوں  کی حکومت کی انصاف پسندی اور دوراندیشی کی دلیل تھی۔ ‘  ’ او ر یہ کہ انگریز حکومت ضرور کرتے  تھے ‘ جنگوں  اور بغاوتوں  میں  انہوں  نے  خونریزیاں  ضرور کیں  لیکن قانون کی عملداری میں  بھی ان کا کوئی ثانی نہیں  تھا۔ ‘

حکومتوں  کے  رعب سے  متاثر ہو کر لوگ عام طور سے   حکومتوں  کی نیت پر بھی بھروسہ کرنے  لگتے  ہیں۔ کالا پانی کے  بارے  میں  جاننے  کے  بعد آپ پر یہ بات روشن ہونے  لگے  گی کہ یہ کتنی بڑی غلط فہمی ہے  اور اس غلط فہمی کو پیدا کرنے  کے  لئے   حکومتیں  کیا کیا جتن کرتی ہیں۔

کہانی سناتے  سناتے  اب مجذوب سا مجاور آدمی اپنے  آپ میں  اتنا کھو گیا کہ یوں  محسوس ہونے  لگا جیسے  وہ خالد کے  دل و دماغ کے  بارے  میں  اتنا جانتا ہو جیسے  وہ خود خالد سہیل ہو۔ اس نے  آنکھیں  بند کیں  اور گہری سانس لی۔

یہ سوچنے  کے  باوجود کوئی چیز اس کے  ذہن کو بار بار منتشر کرتی رہی اور وہ چیز تھی   وہ عجیب و غریب جگہ۔ وہ سمندری منظر جو شیر ،  اژدہا یا بھیڑیا کی طرح اس کے  دادا کو نگل گئی۔ کالا پانی سمندر میں  موجود ایک ایسا نہنگ تھا جو شکاری کی طرح اس کے  پردادا کو سمندر میں  کھینچ کر لے  گیا تھا اور کوئی انہیں  بچا نہیں  پایا تھا۔

والد کی جذباتی گفتگو نے  اس کے  دل میں  موجود اس کے   بچپن کے  اس زخم کے  کے  اس درد کو تازہ کر دیا جس کا خیال تے  ہی وہ تلملا جایا کرتا تھا۔ اس کے  والد نے  دورانِ گفتگو انتہائی جذباتی ہو کر کہا تھا کہ کبھی کوئی ان کی قبر پر جا بھی نہیں  سکا اس لئے  وہاں  پہنچ کر وہ سب سے  پہلے  ان کی قبر پر اور اگر قبر نہیں  ملے  تو متعلقہ قبرستان میں  فاتحہ پڑھے  گا۔ پھر کچھ وقفے  کے  بعد کہا تھا کہ وہ وہاں سے  ان کی قبر کی یا کم از کم قبرستان کی تصویر لانا نہیں  بھولے۔ سفر کرنے  سے  پہلے  وہ  کئی دنوں  تک اداس رہا۔ اس دوران اسے  کبھی کبھی خیال آتا کہ اس کے  خاندان پر سیکڑوں  برس پہلے  سے  ہی کوئی آسیب طاری ہو گیا تھا جو اس کآ خاندان کو کسے  گہری کھائی میں  گرا کر مکمل طور پر تباہ کرنے  پر آمادہ تھا اور وہ یہ عمل آہستہ روی سے  کر رہا تھا تاکہ اس خندان کے  افراد کو اس کی تکلیف کا  تجربہ ایک لمبے  عرصہ تک ہو۔ کبھی کبھی یہ اس آسیب کا گھونسلہ اسے  اپنے  دشمن خاندان کے  ذہنوں  میں  دکھائی دیتا تھا جہاں  سے  وقت بہ وقت نکل کر وہ حملہ آور ہوتا تھا اور اسے  بے  خبری کے  عالم میں  حملہ کرنے  میں  یاک خاص لذت محسوس ہوتی تھی۔ کبھی اسے  یہ خیال آتا تھا کہ اس آسیب کو اس بات میں  زیادہ  لذت ملتی تھ کہ وہ ایسے  لوگوں  کو ستا رہا تھا جو معصوم ہونے  کی بنا پر محفوظ رہنے  کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے  تھے۔ اسی سوچ کے  دوران اسے  محسوس ہوا کہ اس کی ذات میر علی کی تقدیر سے  باہر نہیں  تھی بلکہ یہ سب ایک ہی معاملے  کے  الگ الگ صفحات تھے۔ وہ کبھی کبھی اسے  انسانوں  کے  رویے  سے  جوڑ دیتا اور اسے  تب محسوس ہوتا کہ یہ انسانی زندگی میں   ہمہ گیر سطح پر موجود  مصیبتوں  کے  پیڑ سے  نکلے  ہوئے  زہریلے  پھلوں  کا  ایک گچھا تھا جو اس کے  خاندان کے  حصے  میں  آ گیا تھا کیونکہ انگریزوں  کی تو پوری حکومت تھی اور انہوں  نے  انگریزوں  کے  ساتھ ایسا کچھ کہاں  کیا تھا کہ وہ  انفرادی طور پر ر اس کے  دادا کے  ساتھ ایسا کرتے۔ لیکن، اسے  پھر خیال آیا، انہوں  نے  ایک ایسا ماحول اور کلچر ضرور پیدا کر رکھا تھا جس میں  اگر کوئی پولس والا ایسا کر ہی دے  تو اس کو اس کی سزا دینے  کے  بجائے  کامیابی سے  دہشت پیدا کرنے  کے  عوض میں  اس کی حمایت کی جائے۔ اور یہ کہ کہیں  نہ کہیں  انگریزوں  کی پوری اسکیم میں  اس کی بھرپور گنجائش تھی اور یہ حکومت کرنے  کی ان کی دانش اور مہارت کا ایک عملی عنصر تھا۔

یہ سوچ کر خالد کا دل اور اداس  ہو گیا کہ انگریزوں  کے  اس ملک کو چھوڑ کر چلے  جانے  کے  بعد بھی وہ آسیب اس ملک میں  زندہ تھا اور ہمہ وقت لوگوں  کو کاٹتا رہتا تھا۔ اس خیال سے  ایک بار اس کا درد اور شدت  اختیار کر گیا اور یہ سوچ کر اسے  دردناک گھٹن کا احساس ہوا کہ پورا معاشرہ اس درد میں  گرفتار ہے  لیکن جہاں  معاشرے  کے  عام لوگ اس کا خاتمہ چاہتے  ہیں  وہیں  کچھ لوگ اپنی مفاد اور مصلحت پسندی کے  تحت انگریزوں  کے  زمانے  کی اس چیز کا نہ صرف یہ کہ خاتمہ نہیں  کرنا چاہتے  بلکہ اس کو اور مضبوط کرنے  میں  کوشاں   تھے۔ اپنی ذاتی زندگی کے  پسِ منظر میں  جس میں  اس کو انسانیت کے  فلاح کا پرچم اونچائی تک بلند کرنے  کی سزا دی گئی تھی اور اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا دور ماضی تک پھیلا ہوا  یہ پیڑ سیکڑوں  سال پرانے  برگد کی طرح ایک ایسا منظر دکھا رہا تھا جس میں  ہزاروں  سانپ لٹکے  ہوئے  تھے او ر جن سے  لڑنے  کے  بجائے  لوگوں  نے  پشتوں  پہلے  ان کی ناقابلِ تسخیر قوت کو اپنے  مقدر کا آقا مان کر ان کو دیوتاؤں  کا درجہ دے  کر اس کی عبادت کرنے  لگے  تھے او ر اب معتوب وہ ہو جاتا تھا جو اس سے  بغاوت کرنے  کی بات کرتا تھا اور وہی اب آنکھوں  کا کانٹا بن جاتا تھا۔

جب وہ دلی کی عمارتوں  میں  در در ٹھکرایا گیا تھا تب تو اسے  ایسا لگا تھا کہ وہ کسی پہاڑی نالے  میں  گرایا گیا ہے  لیکن اب اسے  محسوس ہونے  لگا کہ وہ بہتے  بہتے  کسی وسیع دریا میں   آ گیا ہے  او ر اب بہتا ہوا سمندروں  کی طرف جا رہا ہے او ر اگر وہ اپنے  پردادا سے  متعلق معلومات اور کاغذات نہیں  لا سکتا تو اپنی  خوبیوں  کی بات کرنے  سے  پہلے  ایک تناؤ بھرے  معاشی جدوجہد سے  گزرنا پڑے  گا۔ اور یہی تو وہ چیز تھی جو برسرِ اقتدار طبقہ اسے  دکھا کر اس کو انسانیت نوازی اور انسانیت پرستی کے  بھیانک انجام کا سبق دینا چاہتا تھا اور ہر عہد اور ہر دور میں  انسانیت کی بات کرنے  والوں  کو اسی طرح سبق دیا گیا ہے  کہ یہ دنیا، یہ کائنات اور انسانوں  کی آبادی بنیادی طور پر ایک سیاہ رات ہے  جس میں  جرائم پیشہ اپنا کاروبار چلاتے  ہیں او ر وہ روشنیوں  کے  دشمن ہیں  لیکن روشنی پیدا ہوتی رہتی ہے  کیونکہ جب انسانیت پرست شہید کر دئے  جاتے  ہیں  تو تو ان کے  خون سے  روشنی کی کرنیں  نکلتی ہیں او ر ان میں  وہ ایٹمی توانائی ہوتی ہے  جسے  اندھیرے  پنجوں  کی مٹھیوں  میں  بند نہیں  کیا جا سکتا۔ اور وہ اب ان سمندروں  میں  جا رہا تھا جہاں  دور بہت دور روشنیاں  چمک رہی تھیں۔ وہ ابھی اس بات سے  واقف نہیں  تھا کہ دراصل ساری روشنی تو انسان کے  اندر موجود ہوتی ہے۔ اسے  تو صرف ماچس کی تلاش ہوتی ہے او ر وہ تلاش ہی اس کے  اندر وہاں  جانے  کی شدومد پیدا کر رہی تھی۔ اسے  یہ بھی نہیں  معلوم تھا کہ قدرت کچھ خاندانوں  کو سیکڑوں  سال تک آگ میں  تپا کر کندن بناتی ہے او ر پھر اس کے  بعد اس کندن سے  کچھ مخصوص کام لیتی ہے۔

’ اگر سیکڑوں  سال تک تپانے  والی آگ اپنا کام نہیں  کر رہی ہوتی تو یہ حیرت انگیز کتاب وجود میں  کیسے  آتی۔ ‘  کہانی سنتے  سنتے  جیلانی  کے  ذہن میں  خیال  آیا۔  جیلانی نے  دراصل خالد کی کتاب کو دلی سے  روانہ ہونے  سے  پہلے  ہی غور سے  پڑھ رکھا تھا اور وہ تو اب صرف اس کتاب کے  وجود میں  آنے  کے  رموز و اسرار کو سمجھنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے  بغیر کتاب کو سمجھنا اسے  ایک نامکمل عمل لگنے  لگا تھا۔ جیلانی  کو محسوس ہوا کہ کتاب کے  وجود میں  آنے  کی روئداد سننے  سے  اس کی سحر انگیزی  کی وجوہات ظاہر ہونے  لگی تھیں۔

وہ پھر مجاور کی آگے  کی باتیں  سننے  لگا۔

مجاور   اپنی آنکھیں  کبھی کھولتے  ہوئے او ر کبھی بند کرتے  ہوئے  اسی مونولاگ والے  انداز میں  دیوار سے  ٹیک لگائے  ہوئے  کہ رہا تھا۔

ان تمام باتوں  کے  گھیرے  میں  آ کر اب خالد اتنا بے  چین ہو گیا تھا کہ  وہ اب آگے  بڑھنا چاہتا تھا۔

وہ اب سوچتے  رہنے  کے  بجائے  اس جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔

خود وہاں  جا کر۔

تصویروں  میں  نہیں۔

انٹرنیٹ پر نہیں۔

اس نے  کوشش کر کے  اپنا  کلکتے  کے  ٹرین کا ریزرویشن بھی اڈوانس کروا لیا تاکہ یہاں  سے  جلدی روانہ ہو سکے۔

 

 

 

6

ٹرین میں  رات کے  وقت  سونے  سے  پہلے  کافی دیر تک اس کی نیند اچاٹ رہی اور کوشش کے  باوجود اسے  نیند نہیں   آ رہی تھی۔ اس کا وجود اندر سے  کہیں  زبردست ہیجان کا شکار تھا۔ بہت سے  باتیں  اس کے  ذہن میں  اٹھتی چلی جا رہی تھیں  جیسے  س اس کے  سونے  سے  پہلے  اپنا جواب مانگ رہی ہوں  یا اپنے  آپ کو اس کی یاد داشت میں  مضبوطی سے  قائم کر دینا چاہتی ہوں۔

اسے  انڈمان جانے  میں  جلدی نہیں  کرنی چاہئے۔  کیا پتہ وہاں  تمام ریکارڈس نہیں  ہوں۔  اس زمانے  میں  پورٹ بلیر  کا ہیڈ کوارٹر تو کلکتہ ہی رہا ہو گا۔ اس نے  فیصلہ کیا کہ جزائر انڈمان جانے  سے  پہلے  وہ کلکتہ میں  رک کر وہاں  کی لائبریریوں او ر دفتروں کے  پرانے  ریکارڈس سے  اس زمانے  کی معلومات حاصل کرے  گا۔

اسے  اپنے  مقدمے  کے  بارے  میں  معلومات حاصل کرنے او ر اس کو استعمال کرنے  کے  ساتھ ہی اسے  اپنے  پردادا کے  مقدمے  کے  حوالے  سے  اس مسئلہ کو دنیا کے  سامنے   ایک سوال بنا کر اٹھانا چاہئے  کہ اتنی بڑی حکومتیں  ایسی غلطیاں  کیوں  کرتی ہیں۔ بچپن سے  ہی اس  کا مزاج ایسا تھا۔ وہ تو بحیثیت ایک جرنلسٹ ہر اس معصوم کا وکیل ہے  جس کی معصومیت کے  بارے  میں  اس کے  پردادا کی طرح حکومتوں کو جانکاری ہونے  کے  باوجود بڑی بڑی سزائیں  دی گئی ہیں۔ اسے  یہ مقدمہ پوری تیاری کے  بعد اور پوری تیاری کے  ساتھ لڑنا چاہئے۔

ایسے  واقعات میں سرکار کی اعلی ترین سطح کا ملوث ہونا جس کے  پورے  امکانات اس کو دکھائی دے  رہے  تھے، اتنی لرزہ خیز انکشاف تھی کہ اس کے   خاندان کے  سامنے  جو معاملہ کھڑا ہوا تھا وہ محض اس کا ایک معمولی سا حصہ لگنے  لگا کیونکہ اس کے  سامنے  اس طاقت کا چہرہ ابھر آیا تھا جس کا آج بھی عالمی پیمانے  پر انسانوں  کی زندگی پر اختیار تھا اور اپنا دار السلطنت بھی اپنے  تمام بازوؤں  کے  ساتھ صرف اسی تاریخی او ر عالمی طاقت کی توسیع تھا جس نے  اس کے  پردادا کو کالا پانی بھیجا تھا۔

وہ سوچنے  والا ذہن رکھتا ہے۔

اس کی سوچ بالکل الگ اور نئی اور خطرناک تھی اور اتنی مختلف تھی کہ اس سے  ابتک کی تمام مروجہ سوچوں  کی جڑوں  کے  ہل جانے  کا خطرہ تھا۔

ایک جگہ  اپنی ڈائری میں  لکھتا ہے  کہ

’ہمیں  اپنی روایات کو محفوظ رکھنے  سے  زیادہ ان کو توڑنے  پر محنت کرنی چاہئے۔ ‘

’’دراصل خالد کے  دل و دماغ پر کالا پانی اس کے  آنکھ کھولنے  کے  بعد سے  ہی ایک عجیب و غریب تصویر بناتا چلا گیا تھا اور یہی تصویر اچانک طوفانی ہواؤں  کی طرح پوری شدت کے  ساتھ برآمد ہو کر اس کے  ذہن میں  چھا گئی تھی اور اس نے  اس کو اس طرح اپنی زد میں  لے  لیا کہ وہ اس سے  باہر آ ہی نہیں  سکتا تھا۔ ‘ مجاور نے  یہ کہتے  ہوئے  نیلے  آسمان میں  جھانکا۔

’بڑا عجیب لڑکا تھا۔ ایک دن کچھ لوگ گپ شپ کر رہے  تھے۔ ان میں  سے  کسی نے  خالد سے  پوچھا کہ اس کی سب سے  بڑی تمنا کیا ہے  تو اس نے  جواب دیا کہ اس کی تمنا ہے  کہ وہ کسی قتل کے  جھوٹے  الزام میں  پھنس جائے او ر اس کو پھانسی کی سزا مل جائے او ر وہ اس جھوٹے  مقدمے  سے  نکلنے  کی کوشش کرے۔ لیکن ایسی خواہش رکھنے  کی اس نے  ایک بہت ٹھوس وجہ بتائی۔  اس نے  کہا کہ وہ ایسا اس لئے  چاہتا ہے  کہ وہ محسوس کر سکے  کہ جب کوئی معصوم کسی جھوٹے  مقدمے  میں  پھنستا ہے او ر عدالتیں جھوٹے  مدعی اور پولس کا ساتھ دیتی ہیں  تو اس بے  قصور ملزم کو کیسا لگتا ہے۔  آپ خود سوچ سکتے  ہیں  کہ یہ ہمارے  معاشرے  کا کتنا سنگین مسئلہ ہے۔ اور اس کے  درد کو تو صرف  وہی سمجھ سکتا ہے  جو اس سے  گزرا ہے۔  اس نے  کہا کہ وہ اس بارے  میں  اس حد تک سنجیدہ ہے  کہ اگر یوں  نہیں  ہوا تو وہ سچ مچ کسی کو اسی مقصد کے  لئے  مار کر مقدمے  میں  پھنسنا چاہے  گا۔ وہ یہ بات اتنی سنجیدگی سے  کہہ رہا تھا کہ سبھی اچانک سناٹے  میں  آ گئے  تھے۔ اس نے  آگے  کہا تھا کہ جس شخص کو اس طرح کی صورتحال  کا تجربہ نہیں  ہو  وہ معاشرے  کے  لئے  لڑائی کیا کرے  گا۔ ‘

تخلیقی سوچ والے  اپنے  تصور میں  اسی طرح سوچ کر تخلیقی تجربوں  سے  گزرتے  ہیں  لیکن اس کا یہ کہنا اس کی سوچ کی طرف با معنی اشارا کرتا ہے۔

’اس طرح کی اس نے او ر بھی بہت سی ایسی باتیں  کہی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں  کہ اس کا ذہن غیر معمولی حد تک اوروں  سے  مختلف نوعیت کا تھا۔ جیسا میں  نے  ابھی بتایا تھا اس نے  لکھا ہے  کہ ’ہمیں  اپنی تہذیب کے  ڈھانچوں  کو بچانے  سے  زیادہ توڑنے  پر توجہ دینی چاہئے۔ وہ مثال دیتا ہے  کہ وقت اور ضرورت کے  مطابق ہم اپنے  مکان کو توڑ کر اسے  نئے  سرے  سے  بناتے  ہیں او ر کبھی یہ نہیں  کرتے  کہ پرانے  مکان کو صرف اس بنا پر بچا کر رکھ لیں  کہ یہ ہماری یادگار ہے۔ یہی حال ہم اپنے  شہروں  کا کرتے  ہیں۔ ہم تو آثارِ قدیمہ کو بچانے  کی بات صرف تب کرتے  ہیں  جب ان کو توڑنے  کی ضرورت نہ ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ در اصل روایتوں  کو توڑنا تخلیقی عمل ہے او ر حاکم و محکوم کے  رشتے  کو بھی وہ اسی طرح کی ایک روایت سمجھتا تھا۔ ‘

oo

 

 

 

 

کالا پانی کی سزا اور کالا پانی کا وجود ایسے  سنگین حقائق ہیں  جنھوں نے  اس کے  خاندان کے  ساتھ گھناؤنا کھلواڑ کیا ہے۔ اسے  تو اپنے  سارے  دوسرے  کاموں  کو پس پشت ڈال کراس معاملے  کی تہ میں  جانا چاہئے او ر اس جرم کے  لیے  جو  تاریخی کردار ذمہ دار ہیں  ان پر تاریخ کی عدالت میں  ایک مقدمہ قائم کر کے  اپنے  پردادا اور ان جیسے  دوسرے  قیدیوں  کو پوری دنیا کے  سامنے  سرخ رو کرنا چاہئے او ر ان ظالمانہ حملوں  کا بھر پور جواب دینا چاہئے  چاہے۔ سچ تو یہی تھا کہ میر علی جیسے  بہادر اور جری ایک معمولی انسان کے  خلاف سازش میں بے  پناہ طاقت والی سرکاری مشین کا استعمال کیا گیا تھا اور ظلم کرے  والے  یہ کردار آج بھی اپنے  کئے  پر نادم نہیں  ہیں۔

سوچتے  سوچتے  اسے  محسوس ہوا کہ اس کا پورا وجود اب دلی سے  واپس آیا ہوا وہ  شخص نہیں  رہ گیا تھا جو اپنے  طور پر کوئی روزگار حاصل کرنے  تک کو ہی ایک مسئلہ سمجھتا تھا بلکہ اس کے  خاندانی جائداد کے  حوالے  سے  جو میر علی کے  کالا پانی کے  دنوں  کے  حقائق سے  جا جڑی تھیں، اس کا وجود اس مینڈک جیسا ہو گیا تھا جسے  تختی پر ہاتھ پاؤں  میں  کیلیں  ٹھوک کر پھیلا دیا گیا ہو اور سینے  سے  پیٹ تک اسے  چاک کر کے  پیٹ کی جلد کو دونوں  طرف کھینچ کرا نہیں  بھی کیلوں  سے  ٹھوک دیا گیا ہو اورا ب  بغیر ان کیلوں  کو اکھاڑے  ہوئے او ر اپنے  آپ کو دوبارہ درست کئے  ہوئے  آزادی ممکن نہ ہو۔

دیر تک اس کا ذہن مسلسل اس سوچ میں  مشغول رہا او ر مختلف کڑیوں  میں  یہ سوچ آگے  بڑھتی رہی اور سوچتے  سوچتے  سونے  سے  پہلے  اب اس کی جمہوری فکر کو جھٹکا لگنے  لگا۔ اس نے  دنیا کے  بارے  میں  جو خواب دیکھا تھا اس خواب کے  مدِ مقابل بھیانک تاریکیاں  ابھر کر سامنے  آنے  لگی تھیں۔ ان تمام گرہوں  کے  کھل جانے  کے  بعد اسے  نیند آ گئی۔

خالد سہیل اپنے  پردادا میر علی کی زندگی کے  حالات کی دریافت کے  لیے  جا تو رہا تھا اور وہ اس مقدمے  کو ایک تاریخی لڑائی میں  بھی تبدیل کرنا چاہتا تھا لیکن اسے  اس بات کا قطعی سان و گمان ہی نہیں  تھا کہ اس دریافت کے  اندر سے  کوئی اور ایسا مقدمہ سامنے  آ جائے  گا جس کے  دائرہ کار میں  پورا کرہ ار۔ ض اور پوری انسانی تاریخ سما جائیں  گے او ر وہ مقدمہ اس مقدمے  سے  بھی کروڑوں  گنا زیادہ ناگزیر اور سنگین نوعیت کا ہو گا جس میں  اس کی خاندانی جائداد اور زندگی داؤ پر لگی تھی۔ ‘

’خالد کے  خاندانی جائداد کا مقدمہ اپنی جگہ درست لیکن ایسے  مقدمے  تو آئے  دن ہوتے  رہتے  ہیں  لیکن اس مقدمہ کو اس زمانے  سے  کیسے  جوڑا جا سکتا ہے۔ اب تو ایسا کچھ نہیں  ہے۔ یہ بات تو بہت پرانی ہو چکی۔ ‘   ایک لڑکے  نے  مجاور کو ٹوکا تو مجاور کے  اندر شدید ردِ عمل ہوا۔

’سورج کی آگ پرانی ہو گئی ہے  کیا ؟ سورج کی آگ کی طرح بالکل تازہ ہے۔ تازہ نہیں  ہوتی تو اس وقت آپ یہاں  نہیں  ہوتے۔ ‘

خالد مر چکا تھا لیکن اس کے  پیچھے  اسے  طرح کی لڑائیاں  چل رہی تھیں۔

ایک وقفے  کے  لئے  خاموش ہونے  او ر ایک لمبی سانس لینے  کے  بعد مجاور نے  آگے  کہا۔

’یہ تو محض آئینہ تھا۔ وہ تو دراصل اس بڑے  واقعہ میں  اپنے  ہی  موجودہ معاشرے او ر ملک کو دیکھ رہا تھا البتہ اس کو اس وقت اس کا بالکل شعور نہیں  تھا۔ ‘

‘ اس نے  لڑکوں  کی آنکھوں  میں  دیکھا۔

’ جیسے  آپ کو نہیں  ہے۔ ‘

سبھی مجاور کے  اس اندازِ تخاطب پر سکتے  میں  آ گئے۔

’دراصل خالد کو خود معلوم نہیں  تھا کہ اس کے  اوپر قدرت کی طرف سے  کیا عمل ہو رہا تھا۔ وہ تو قربانی کا بکرا تھا جسے  خوبصورت چراگاہ کی سیر کرائی جا رہی تھی۔ ‘

لڑکے  اس کو بہت غور سے  دیکھنے  لگے۔

’میاں،اصل نقطہ تو اسی میں  ہے۔ ‘

اس کی آنکھیں  ناچ رہی تھیں۔

oo

 

 

 

 

وفد کے  لوگ مجاور کے  ساتھ اس بستی کی مختلف جگہوں  پر بھی گھومتے  رہے او ر یہاں  کے  لوگوں  سے  ملتے  رہے  کیونکہ ان کے  کھانے  کے  بارے  میں  وہاں  کے  لوگوں  نے  طے  کر دیا تھا کہ یکے  بعد دیگرے  مخلف لوگوں  کے  یہاں  روزانہ ان کی دعوت رہے  گی۔ گاؤں  کی بہت سی بوڑھی عورتوں  سے  بھی ان کی ملاقات ہوئی جنہیں  نے  بہت پر جوش انداز میں  خالد کی شخصیت کی تعریف کی۔ دو تین دنوں  تک خالد کے  والد کی اجازت سے  وہ خالد کے  اس اسٹڈی روم میں  بھی رہے  جس میں  وہ بچپن سے  پڑھتا لکھتا اور رہتا آیا تھا۔ اس کے  کمرے  میں  ابھی تک اس کا پرانا ریمنگٹن کا انگریزی ٹائپ رائٹر رکھا ہوا تھا جس سے  اس نے  اپنی بہت سی تحریریں  ٹائپ کی تھیں۔

وہیں  انہوں  نے  وہ کمرہ بھی دیکھا جس کو خالد نے  پورٹ بلیر سے  لوٹنے  کے  بعد امیر علی  کی یادوں  سے  جڑی چیزوں  کے  ساتھ ان کی انڈمان کی زندگی سے  متعلق مختلف مقامات اور تحریروں او ر جیل میں  قیدیوں  کو اذیت پہنچانے  کی لئے  استعمال کئے  جانے  والے  اوزاروں کی تصویروں  کو جمع کر کے  اسے  ایک میوزیم میں  تبدیل کر دیا تھا۔

مجاور خالد کی کہانی  ان کو صرف اسی وقت سناتا جب سب کو مکمل ذہنی یکسوئی دستیاب ہوتی۔ وہ کبھی کسی کی چھت پر ان کو لے  کے  بیٹھ جاتا، کبھی دور جنگل میں  کسی پیڑ کے  نیچے  منڈلی جما دیتا۔ ایک دن تو وہ انہیں  لیکر اپنے  علاقے  سے  ہو کر بہنے  والی ندی میں  پہنچ گیا اور خود اپنے  ہاتھوں  سے  چپوؤں  کو چلاتا ہوا ان کو ادھر ادھر کے  مناظر بھی دکھاتا رہا اور خالد کی داستان بھی سناتا رہا۔

اِس وقت وہ گنے  کے  ایک کھیت کی ہری گھاس سے  ڈھکی ہوئی میڑ پر بیٹھا انتہائی محبت آمیز  انداز میں  ان کو گنے  کے  ٹکڑے  کاٹ کاٹ کر کھلا رہا تھا۔

’تو بات کو جاری رکھیں۔ ‘

’جی۔ ‘

’  خالد سہیل کے  سامنے  آنے  والی باتوں  میں  بہت سی باتیں  ایسی تھیں  جو اس کی سمجھ سے  بعید تھیں او ر اس کو اندازہ ہوا کہ شاید عام لوگ اس سے  واقف ہی نہیں  تھے۔ ‘

وہ محوِ بیان تھا۔

اب تصویر مزید کھل کر ابھر رہی تھی۔

’ انگریزوں نے  یہاں کے  بہادر قبائلیوں کے  ساتھ جیسا انسانیت سوز سلوک کیا تھا، یہاں  لائے  گیے  قیدیوں  کے  ساتھ اس سے  بھی بدتر سلوک کیا تھا۔ یہاں  کے  جیلر کو یہ اختیار تھا کہ بھاگنے  کی کوشش کرنے  والے  سیکڑوں  قیدیوں  کو ایک ساتھ سزائے  موت سنا دے او ر بغیر اپیل انہیں  پھانسی کے  پھندے  پر چڑھا  دے۔ ‘

’قیدیوں  کے  ذہنوں  پرکیا دہشت کا ماحول طاری رہتا ہو گا۔ ‘

’ جب خالد کو یہ سب معلوم ہوا جو اس سے  بالکل برعکس تھا جو اس نے  اپنے  طور پر انگریزوں  کے  بارے  میں  سوچا تھا تو خالد کیلئے ،ظاہر ہے، یہ ایک بہت ہی اہم اور تکلیف دہ واقعہ تھا۔ یہ تاریخ کی عجیب و غریب چیز تھی جسے  خود اس کے  پردادا نے  بدن کی آنکھوں سے  دیکھا اور یہاں  کسی کو آج تک اس کی جانکاری نہیں  ہوئی کیونکہ تاریخ کے  عجائب گھر میں  بہت سارے  چلمن لٹکے  ہوتے  ہیں۔ ‘

’اس کے  ذہن میں  کئی سوال اٹھنے  لگے۔ ‘

انگریزوں  کو اس لق و دق جگہ میں  آباد ہونے  کی ضرورت کیوں  پڑی ؟

اور پھر جب ایک اتنا بڑا واقعہ ہوا تھا کہ ایک قیدی نے  وائسرائے  لارڈ میو کا قتل کیا تھا تو اس کا ذکر تاریخ کی کتابوں  میں  دکھائی کیوں  نہیں  دیتا ؟

اور دوسری طرف ایک کتے  کی موت کے  مقدمے  میں  کسی کا یہاں  بھیج دیا جانا۔

اس کا ما تھا ٹھنکا۔ اور اچانک تاریخ سمیت کالا پانی ایک وادیِ اسرار بن گیا۔

وہ ایک ایسی وادیِ تنہائی میں  اتر گیا تھا جہاں  اسے  شاہراہ سے  اتر کر ناہموار جگہوں  سے  گزر رہا تھا۔ اس کا ذہن ہلکے  ہلکے  لڑکھڑانے  لگا تھا۔ ان راستوں  پر چلنے  میں  جہاں  سے  لوگ پہلے  گزر چکے  ہوتے  ہیں  کتنی آسانی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں  تو سب کچھ ناہموار تھا۔

وہ جان گیا تھا کہ کوئی خطرناک پس منظر ہے  جس میں  اس کا خاندان تب بھی الجھا ہوا تھا اور اب بھی الجھا ہوا ہے۔

وہ بے  چین ہو گیا تھا۔

کیا ہمارے  جیسے  لوگوں  کے  آبا و اجداد کے  دکھوں  پر سوچنے  والا کوئی نہیں۔ کیا ہم اب بھی کہیں  نہ کہیں  بادشاہوں او ر حکمرانوں  کی جاگیر سمجھے  جاتے  ہیں  کہ ہمیں  صرف انہیں  کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے ؟

اسے  محسوس ہوا جیسے  وہ کسی پنجرے  کا پنچھی ہو۔

پنجرہ کا توتا۔

اگر ان لوگوں  کی اولاد میں  جو بے  قصور کالا پانی بھیج دیئے  گیے  تھے  کوئی مورخ ہوتا تو یہ موضوع ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں  دل اور جگر جیسا مقام رکھتا لیکن کسی اور کو کیا پڑی ہے۔

دور سمندر میں  موجود اس جزیرہ مقصود کی ان پراسرار کہانیوں  کو سمجھنے  کے  لئے  اس سمندر کے  قزاقوں  کے  بارے  میں  تفصیل سے  جاننا ضروری ہو گیا تھا۔

میر علی کو اٹھا کر انڈمان نکوبار کے  دور دراز جزیروں  میں  ڈالا جانا خالد سہیل کو الف لیلی کے  سند باد کی کہانیوں  کی پر اسرار وسعتوں  میں  لے  کر چلا گیا۔

اسے  محسوس ہوا کہ اسے  دور دیسوں  کی گپھاؤں، صحراؤں او ر پہاڑوں او ر شہروں  کی نادر اور عجوبہ دنیاؤں  کے  اندیکھے  کوہ قافوں  میں  بھی جانا پڑ سکتا ہے  کہ دراصل کبھی سورج غروب نہ ہونے  والی حکومت کے  اسرار الف لیلوی داستانوں  سے  بھی زیادہ حیرت انگیز ، ہوش ربا اور ہولناک تھے۔

اسے  یہ خیال کر کے  جھر جھری سی آ گئی کہ کسی کو یہاں  بھیجنا اسے  ایک دنیا سے  دوسری دنیا  میں پہنچا دینے  کے  مترادف تھا۔ کوئی شخص نہ اپنی مرضی سے  وہاں  جا سکتا تھا نہ کوئی قیدی کسی بھی قیمت پر وہاں  سے  نکل سکتا تھا۔ اچھے  موسموں  میں  بھی بیچ سمندر میں  درختوں  کی اونچائی  کے  برابر لہریں  اٹھتی تھیں  جنھیں  پار کرنا کسی بھی معمولی کشتی یا جہاز کے  لیے  اس لئے او ر بھی ناممکن تھا کہ ان لہروں  سے  زیادہ اونچی تھیں  انگریزی فوجوں  کی وہ نگاہیں  جو دوربینوں  سے  ان سمندروں  کی نگرانی کرتی تھیں۔ اس زمانے  کی پوری دنیا الگ طرح کی تھی۔

اس کے  نشانات اسے  کتابوں  کے  اوراق اور پرانے  میوزیم میں  موجود بوسیدہ جناتی مکانوں  کی تصویروں،کتابوں او ر مجسّموں میں  مل رہے  تھے۔

اس نے  کنگھی سے  اپنے  بال ٹھیک کئے۔

انگریزوں  کے  مقامی دار السلطنت کلکتہ میں  جو بگھی تھے  ان کو گھوڑے  نہیں، ننگے  پاؤں  ہندوستانی نیم سیاہ عوام اب تک کھینچ رہے  تھے۔

اس کی انگلی گال پر آ گئی اور وہ کچھ سوچنے  لگا۔

’ جب کلکتہ میں  یہ عالم تھا تو کالا پانی میں  کیا عالم ہو گا جہاں  ہر شخص کی پیشانی پر جرم کا مہر لگا ہوا تھا۔ ‘ خالد سہیل کو اپنی پڑھی ہوئی تاریخ نئے  سرے  سے  یاد آنے  لگی۔ جن باتوں  کو وہ اب تک بے  رحمی سمجھتا تھا اس میں  مکاری کے  سائے  نمودار ہونے  لگے۔

‘ یہ وہی انگریز تھے  جنھوں  نے  بنگال میں  ایسے  ایسے  معاشی ہتھکنڈے  استعمال کیے  کہ لاکھوں لاشیں  فاقہ سے  کھیتوں، بستیوں ، سڑکوں او ر شہر کی گلیوں  میں  کتوں او ر گدِھوں  کی خوراک بن گئی تھیں۔ ‘

ان انگریزوں  نے  کالا پانی ایسی چیز بہت سوچ سمجھ کر بنائی ہو گی۔

خالد کے  ذہن نے  انگریزوں کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔

اب اسے  شک ہونے  لگا۔

’ غالباً وہ لوگ بہت سادہ لوح ہیں  جو یہ سمجھتے  ہیں کہ انگریزوں  نے  انصاف کے  تقاضے  پورا کرنے  کے  لیے  اتنی دشوار گزار جگہ پر مچھروں او ر قبائلیوں  کے  حملوں  کو جھیل کر قیدی بستیاں  آباد کی تھیں۔ ‘

ایک پرانے  رسالے  میں  اس نے  ایک تحریر پڑھی۔

’’  ۱۸۵۷ء میں  بنگال کے  ظلم کی وبا کو پورے  ہندوستان میں  پھیلنے  سے  بچانے  کے  لیے  عوام نے  جنگ آزادی کا مشعل اٹھایا تھا، اور تلواریں او ر بندوقیں  کھینچ لی تھیں۔ کہا جاتا ہے  کہ جب جنگ آزادی کے  مجاہدین کو بھوکا ننگا کر کے، جوٹ کے  کپڑے  پہنا کر کولہوں  پہ کوڑے  مار مار کر جہازوں  پر سوار کیا جاتا تھا تو انڈمان کے  اسرار سے  واقف انگریز ان کی چیخوں اور کراہوں  کو سن کر مسکراتے  تھے۔ ‘‘

’اس کے   پردادا  کی کہانی اسے  کہاں  لئے  جا رہی ہے۔ ‘ خوفناک تنہائیوں  میں  آگے  بڑھتے  ہوئے  بار بار اس خیال پر اس کے  اندر جھر جھری پیدا ہو جاتی تھی۔ وہ اتنی پرانی کہانی کا تعاقب کر رہا تھا جس میں  کسی کو دلچسپی نہیں  تھی۔

لیکن ایسے  میں  اس کو ایک آدمی ملا۔

لائبریری میں  تاریخ کا مطالعہ کرتے  ہوئے  ایک آدمی کو جب معلوم ہوا کہ وہ انڈمان کے  ماضی پر کچھ پڑھ رہا ہے  تو وہ اس کے  قریب آیا۔

’آپ جزائر انڈمان پر ریسرچ کر رہے  ہیں  ؟‘

’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں  ہے۔ ‘

’پھر اس قدر دلچسپی۔ میں  دیکھتا ہوں  آپ روزانہ اسی موضوع پر کتابیں او ر دستاویز ڈھونڈتے  ہیں۔ میں  اسی لائبریری میں  ہوں او ر آپ کو یہ سب نکال کر میں  ہی دیتا ہوں۔ آپ کو اس موضوع میں  اتنی دلچسپی کیوں  ہے ؟‘

کیوں  ؟ یہ آپ کیوں  جاننا چاہتے  ہیں، میں  بھی تو جانوں۔

میں  آپ کو اس موضوع پر بہت سی باتیں  زبانی بتا سکتا ہوں۔ انگریزوں  کے  زمانے  میں  سب کچھ لکھا تھوڑے  ہی جاتا تھا۔ آج بھی نہیں  لکھا جاتا ہے  جبکہ جمہوریت ہے۔ اصل تاریخ تو زبانی چلتی ہے۔ کاغذی تاریخ کی برتری کا دعوی تو وہ کرتے  ہیں  جن کا طباعت کے  اوپر اختیار ہوتا ہے۔

پھر خالد نے  اس کو بتایا کہ اس کے  والد نے  دراصل اس کو اپنے  پرداد کے  بارے  میں  یہ معلوم کرنے  کی لئے  بھیجا ہے  کہ کیا انہوں  نے  نے  کالا پانی کی سزا کے  دوران شادی کی تھی اور اگر کی تھی تو کیا  اس شادی سے  ان کو اولاد تھی اور اگر تھی تو وہ کون لوگ ہیں  کیونکہ کچھ لوگوں  نے  کہیں  خاموشی سے  یہ سوال اٹھا کر ان کی جائداد کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے او ر اس بات کا قوی امکان ہے  کہ اس معاملے  میں  لمبا مقدمہ چلے او ر بہت سی جعلسازیاں  سر اٹھائیں۔

لائبریری کے  اس اسٹاف نے  ہی خالد کو بتایا کہ اس دور کے  بارے  میں  اس طرح کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں  تھا اور دراصل اس زمانے  میں  پورٹ بلیر رنگون  کی عملداری سے  جڑا ہوا تھا اور رنگون اب برما میں  تھا۔

لیکن بہت ممکن ہے  کہ اس وقت کے  کچھ کاغذات کہیں  انڈمان میں  ہی پڑے  ہوں۔

جب یہ بات انجام تک پہنچی تب خالد نے  بتایا کہ وہ اس زمانے  کے  حالات کی تفصیل اس لئے  جاننا چاہتا ہے  کہ وہ اپنے  پردادا کے  اوپر ہونے  والے  ظلم کی نوعیت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ اس پر اس آدمی نے  بہت کچھ بتاتے  ہوئے  آگے  کہا۔

’مسٹر خالد، اصل معاملہ یہ تھا کہ اٹھارہویں اور انیسویں  صدی میں  مغربی قوموں  میں  سمندروں او ر دوسرے   برَ اعظموں  پر قبضہ کرنے او ر تجارت پھیلانے  کا جو مقابلہ چل رہا تھا اس میں  مشرقی ایشیا کے  ان جزائر کی حیثیت کلیدی تھی کیوں  کہ ہندوستان، ملیشیا، انڈونیشیا اور برما کے  بحری راستے  کے  درمیان واقع ہونے  کی وجہ سے  سمندری جہازوں او ر بیڑوں  کے  لیے  خراب سمندری موسم میں  پناہ گزیں  ہونے او ر پینے  کے  پانی کا ذخیرہ لینے  کے  لیے  یہ بے  حد معاون تھے  کیونکہ یہاں  چھوٹے  چھوٹے  جزیروں  کا درمیان کارآمد بندرگاہیں  بنانے  کے  لئے  مناسب ترین جگہیں  تھیں۔ ‘

وہ خالد کو ایسے  بتا رہا تھا جیسے  اسے  اپنے  دل کا غبار نکالنے  کے  لئے  بہت دنوں  کے  بعد کوئی ملا تھا۔ وہ بتاتا جاتا تھا اور اسے  دیکھتا جاتا تھا اور اس کی مشاق آنکھیں  اشارے  سے  ہر اہم نکتے  پر زور ڈالتی جاتی تھیں۔  وہ خالد کو بہت سیدھا سادہ لڑکا سمجھ کر بات کر رہا تھا۔ وہ بار بار آنکھیں  مچکاتا تھا۔ جیسے  کچھ ایسا کہنا چاہتا ہو جو اصل اور سچ ہو لیکن ایک با شعور عالم کی حیثیت سے  ویسا تبصرہ کرنا تاریخ دانی کے  اقدار اور ضابطہ علم کے  خلاف ہو۔

’شروع سے  ہی ایسٹ انڈیا کمپنی اس مفید جگہ سے  فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

’لیکن یہ آسانی سے  ممکن نہ تھا۔ انڈمان کے  گھنے  جنگلوں او ر غیر آباد جزیروں  میں  جنگلی قبائل رہتے  تھے،جو تیروں  سے  لیس تھے او ر کسی بھی اجنبی کو اپنا دشمن سمجھتے  تھے۔ زمانہ قدیم میں  ملیشیا کے  لوگ ان قبائلیوں  کو پکڑ کر تجارت کیلئے  لے  جاتے  تھے۔ اور غلام کے  طور پر فروخت کر دیتے  تھے۔ اپنے  قبیلے  کے  افراد کے  اس طرح کے  خاتمہ کو دیکھ کر نفسیاتی طور پر یہ قبائلی برافروختہ ہو گئے  تھے او ر مہذب دنیا سے  ان کو نفرت ہو گئی تھی۔

جب انڈمان کی زمین پر بدیسی چہرے  نظر آئے  تو ان قبائلیوں میں پھر کھلبلی ہوئی اور کئی جھڑپیں  ہوئیں۔ ان قبائلیوں  نے  بڑے  طاقتور حملے  کیے –

لیکن انگریز ہار ماننے  والی اور اپنا ارادہ بدلنے  والی قوم نہیں  تھی۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

’ایسٹ انڈیا کمپنی کے  برطانوی ڈائرکٹروں نے  اس بات پر زور دیا کہ جو انگریز ان جزیروں پر جاتے  ہیں  ان کی جان کی حفاظت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ اسی زمانہ میں  ۱۸۵۷ء میں  ہندوستانیوں  نے  برطانوی حکومت کے  خلاف بغاوت کی تھی۔ حکومت نے  جنگ آزادی کے  جن رہنماؤں او ر شرکاء کو قید کیا تھا انہیں  تاجروں کے  پروجکٹ کو پورا کرنے  کے   لیے  بھیج دیا۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

’تو مسٹر خالد، یہ تھا پروجکٹ’ کا لا پانی‘۔ ‘

وہ بے  حد روانی کے  ساتھ بولتا جا رہا تھا۔

پچھلی تین چار صدیوں  میں  یورپ میں  ہوئے  ان انقلابات اور تبدیلیوں او ر ترقیوں میں  صرف سائٹفیک ایجادات ہی نہیں  ہوئی تھیں  بلکہ زمینوں اور سمندروں  میں  بھیانک جنگیں  بھی ہوئی تھیں بلکہ یورپ سے  باہر کی دنیا میں  دوسرے  ملکوں او ر جزیروں  کو قبضے  میں لینے  کے  لئے  ہوئی تھیں او ر جن میں ان چھوٹے  چھوٹے  ملکوں  نے  ان بڑی بڑی لڑاکو اور مشاق فوجوں  والی حکومتیں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا تھا۔

’ خالد کے  ذہن کے  اندر انگریزی شوروم کے  نہاں  خانوں  کا چلمن دھیرے  دھیرے  اٹھتا جا رہا تھا۔ انگریزی حکومت کے  نام پر آخر یہ لوگ تھے  کون جن کا ان ذمے  داریوں  سے  کوئی لینا دینا نہیں  تھا جن ذمے  داریوں  کو انگریزی عوام کے  لیے  انگریز سیاسی بائبل کی آیات سمجھتے  تھے  ؟‘ وہ ان کے  بارے  میں او ر جاننا چاہتا تھا۔

وہ لائبریری کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔

وہ اب بال ٹھیک کرنا بھول چکا تھا۔

انگریزوں  کا پورا کردار جو خالد کے  ذہن میں  پہلے  سے  موجود تھا وہ تیزی سے  بدلنے  لگا۔

دوسرے  دن وہ آدمی پھر ملا۔

مسٹر خالد، کہاں  تک پہنچے  ؟ اس نے  خصوصی دلچسپی کے  ساتھ پوچھا۔

’کچھ اور بتائیے۔ ‘

وہ خالد کو لیکر لائبریری کی سیڑھیوں  پر بیٹھ گیا۔

’اب میں  آپ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے  مالکوں  کا کردار بتاتا ہوں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سرکاری نہیں  بلکہ اس کے  بر عکس ایک تجارتی تنظیم تھی۔ اس کے  ڈائرکٹرس برطانیہ کے  وہ تجارتی لوگ تھے  جن کے  پاس کافی کارخانے ، زمینیں، دکانیں او ر نوکر چاکر تھے۔ جن کے  پاس کوٹھیاں  تھیں۔ آرائش کے  سامان تھے ، بڑی آمدنی تھی، گھر میں  بھی نوکر چاکروں  کی کمی نہ تھی۔ جن کی بیویاں  خوبصورت ترین لباس اور قیمتی زیورات سے  مزین، ادب و فنکاری سے  شوق رکھتی تھیں، چرچ میں  جاتی تھیں، کلبوں  میں  ڈانس کرتی تھیں، اور  ان کی کوٹھیوں  کے  بڑے  بڑے  ڈرائنگ روم یورپ کی اعلیٰ ترین پینٹنگ اور پوٹریٹ سے  مزین ہوتے  تھے  جس میں  مریم کا پورٹریٹ بھی ضرور ہوتا تھا۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

’یہ لوگ برطانوی جمہوریت کے  روح رواں تھے او ر تجارتی معاملات سے  تعلق رکھنے  والی پالیسیوں میں  حکومت عملاً ان کا آلہ کار تھی۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

وہ مسکراتا جا رہا تھا اور بتاتا جا رہا تھا۔ بہت دنوں بعد اسے  کوئی ملا تھا جو انگریزوں  کی تہذیب اور علوم کے  بجائے  ان کے  کردار کو سمجھنا چاہتا تھا۔

’وہ الیکشن میں  خود حصہ لیتے  تھے  یا پھر امیدواروں  کی مدد کرتے  تھے۔ وہ  جمہوری کتابیں  چھپوانے  میں مدد کرتے  تھے   تاکہ جمہوریت کے  سرپرستوں  کے  طور پر حکومت پر ان کا اثر قائم رہے۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

خالد نے  موجودہ ہندوستان کے  اوپری تجارتی اور سیاسی طبقوں  کے  اس کردار کی روشنی میں  اس آدمی کی ان باتوں  کو سمجھنے  کی کوشش کی جو اس وقت کے  برطانوی معاشرے او ر سیاستدانوں کے  اصلی کردار کے  بارے  میں  بتا رہا تھا اور خالد کو اپنے  ہم عصر معاشرے  کی روشنی میں  اس معاشرے  کی اور اس معاشرے  کی روشنی میں  ہم عصر معاشرے  کی تصویر دکھائی دینے  لگی تھی۔ اور تھوڑی دیر میں  دونوں  اس کے  ذہن میں  اس طرح گڈ مڈ ہو گئے  کہ سنتے  سنتے  ایک ہی موضوع بن گئے۔

’ اخبارات ناول اور رسالے  خریدتے او ر پڑھتے  تھے۔ خوش لباس، ایک مخصوص قسم کی اعلیٰ آرائش کرتے  تھے۔ ملنے  جلنے  کے  طور طریقے، آداب محفل اور دوسری ضروری معاشرتی اصولوں  کے  قائل تھے۔ لیکن ان کے  اس عیش کے  لئے  دانہ پانی کہاں  سے  آتا تھا ؟‘

اس نے  خالد کو آنکھ ماری۔

’ان کی آمدنی کا ذریعہ وہ تجارت تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی سے  منسلک تھی۔ ‘

اس نے  آنکھ ماری۔

’ انہوں  نے  ایک خود ساختہ بے  حسی کا چادر اپنے  اوپر اوڑھ کر اسے  قبول کر لیا تھا۔ ‘

وہ مسکرایا۔

اور خالد کی آنکھوں  میں  یہ دیکھنے  کے  لئے  جھانکا کہ وہ  سمجھ رہا ہے  کہ نہیں۔

اس نے  آنکھ ماری۔

اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے  بنکروں  کے  انگوٹھے  کٹوائے  تھے۔

اس نے  آنکھ ماری۔ اس کی پلکوں  کے  جھپکنے  کے  ساتھ ساتھ خالد کے  ذہن کی کھڑکیاں  کھلتی چلی گئیں۔

’یہ لوگ تاجر اور حاکم نہیں  تھے ،  بہت خطرناک اور ظالم شکاری تھے۔ ان لوگوں  نے  جزائر انڈمان میں  مجرم بستی کے  نام پر جو آبادی قائم کی تھی اور اس سلسلے  میں  انہوں  نے  جو ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا وہ ہندوستان کے  مجرموں  کو صرف وطن سے  دور رکھنے  کے  لئے  نہیں  کیا تھا۔ یہ تو صرف ان کے  دکھانے  کے  دانت تھے۔ انہیں  تو انڈمان کو اپنے  فوجی مقصد کے  لئے  آباد کرنا تھا۔ اور پولس اور عدالتوں  کو باقاعدہ خفیہ ہدایات تھیں  کہ زیادہ سے  زیادہ لوگوں  کو سزائے  کالا پانی دیکر بھیجا جائے۔ ‘

’ایسا کسی سرکار کے  لئے  کیسے  ممکن ہے۔ ‘ خالد دماغ کی بہت گہرائی سے  چونک گیا۔

تو مسٹر خالد کیا آپ سمجھتے  ہیں  کہ آپ کے  دادا کو یونہی قتل کے  الزام میں  وہاں  بھیج دیا گیا؟

اور پھر وائسرائے  تک شکایت بھی تو ہوئی اور کسی نے  نہیں  سنی۔ کالا پانی ایک سرکاری پروجکٹ تھا۔ اور اس کے  لئے  پورے  ملک سے  قانونی جال کے  ذریعہ لوگوں  کا شکار کیا گیا تھا۔ بالکل ایسے  جیسے  تالاب سے  مچھلیاں  پکڑی جاتی ہیں۔

’لیکن انگریز تو قانون پرستی کے  لئے  مشہور تھے۔ ‘

’قانون پرستی کے  لئے  نہیں ،  اپنے  قانون کا خوف پیدا کرنے  کیلئے  مشہور تھے۔ اتنی دہشت بٹھا رکھی تھی کہ کسی میں  ان کی خرابیوں  کو دکھانے  کی ہمت ہی نہیں  ہو سکتی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے  کو قانون پرست دکھانا چاہتے  تھے او ر اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہتے  تھے۔

اسی لئے  تو وہ امن کے  دنوں  میں قانون کی بالا دستی کی بات کرتے  تھے۔ اور اس وقت اپنے  شکار کو قانونی جال سے  پکڑتے  تھے  تاکہ کاروبار کے  ساتھ ساتھ قانون کے  شو روم کی چمک دمک بھی باقی رہے۔ اور پھر انہیں  پوری دنیا میں  اپنی جمہوریت کا ڈنکا بھی بجانا تھا۔

ان سب  باتوں  کے  اندر سے  جو خالد کلکتے  کے  آدمی سے  سن رہا تھا اور جو مواد وہ دیکھ رہا تھا، اس کی گہری دلچسپی کچھ اس طرح تصویریں  اخذ کرتی رہی جیسے  کسی کے  محبوب کا خط ٹکڑے  ٹکڑے  کر کے  پھینک دیا گیا ہو اور وہ دن رات لگ کر ان ٹکڑوں  کو تلاش کر کے  از سر نو جوڑ رہا ہو۔ اور ان گمشدہ ٹکڑوں  کو بھی ڈھونڈ لیتا ہو جو عام آدمی کی نظر میں  آہی نہیں  سکتے  ہوں۔ اور اس طرح بالآخر تمام ٹکڑوں  کو جوڑ کر اس نے  اوریجنل خط کو تیار کر لیا ہو۔

’میں  پھر آپ سے  پوچھ رہا ہوں  کہ کیا کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ حکومتیں  تو لازمی طور پر قانون سے  چلتی ہیں۔ ‘ خالد کے  لئے  یہ انکشاف اتنا بڑا تھا کہ اسے  اپنے  اندر جذب کر نے  سے  پہلے  اس سے  متعلق ہر شبہ کو دور کر لینا لازمی ہو گیا تھا۔

وہ آدمی زور سے  ہنسا۔ جیسے  اب خالد کی سمجھ کا مذاق اڑا رہا ہو۔

خالد پریشان ہو اٹھا۔

اب خالد کو جو منظر دکھائی دے  رہا تھا وہ تیزاب کی طرح اس کے  دل کو کاٹنے  لگا تھا۔ اس کی نگاہ پوری طرح جزائر انڈمان پر ٹک گئی تھی۔

یہ حکومت تھی۔

یہ سوچ کر اس کے  رونگٹے  کھڑے  ہو گئے  کہ وہ تو دراصل اس نظام کو سمجھنے  کے  لئے  چلمنوں  کے  پیچھے  جھانک کر اس کو دیکھنے  کی سعی کر رہا ہے  جو انسانی تاریخ کا سب سے  بڑا درندہ ہے۔

اس سے  پہلے  موسیٰ، عیسیٰ، محمد، کرشن اور گاندھی۔ ہر ایک نے  اس درندے  کی جھلک دیکھی تھی۔

لائبریری میں  یہ اس کا آخری دن تھا۔

 

 

 

 

7

خالد نے  کلکتے  میں  جو چند دن گزارے  تھے  ان دنوں  میں  ان میں  وہ  وہاں  کی  ہر قدیم  سڑک او ر  ہر قدیم عمارت کو انگریزوں  کے  زمانے  کے  سائے  کے  طور پر ہی دیکھتا رہا۔ یہ وہ کلکتہ تھا جو اس عہد میں  جب اس کے  پردادا کالا پانی بھیجے  گئے  تھے، ہندوستان کا دارالسلطنت تھا اور یہیں  سے  سارے  احکامات جاری ہوتے  تھے۔ یہیں  وہ ہائی کورٹ بھی تھا اور یہیں  وہ وائسرائے  بھی رہتا تھا جہاں  سے  ان کی اپیل مسترد ہوئی تھی۔ بھلے  ہی اس زمانے  میں  انہوں  نے  اس کے  پردادا کی درخواست رد کر دی تھی لیکن آج وہ  ایک آزاد شہری ہونے  کے  ناطے  پورے  معاملے  پر خود ہی نظر ثانی کر سکتا تھا۔ وہ تو ہر اس بات پر نظر ثانی کرتا  چاہتا تھا جو  طاقت اور اقتدار کے  نشے  میں کی جا رہی تھی چاہے  وہ اس کے  پردادا کی سزا تھی یا خود اس کے  اپنے  مقابلے  کے  امتحان والے  مقدمے  کا انجام تھا یا اس کی نوکری کی درخواستوں  کو نظر انداز کئے  جانے  کی بات تھی۔ وہ یہ محسوس کرتا ہوا کہ بحیثیت ایک شہری اس کو یہ اختیار ہے  کہ وہ ان تمام باتوں  کا جائزہ لیکر خود اپنا فیصلہ سنا سکتا ہے  یہ کام پوری ذمہ داری اور دیا نتداری سے  حقائق کی مکمل چھان بین کی بنیاد پر کرنا چاہتا تھا۔

کلکتے  میں  اس نے  جو چھان بین کی، ہندوستان میں انگریزوں   کے  اولین دنوں  کے  بارے  میں  ان کی بو باس کو سونگھ کر جو اندازے  لگائے او ر لائبریری میں  اس نے  جو کچھ سنا اس کے  بعد اب یہاں  سے  اس کا دل اچاٹ ہو گیا اور وہ اب سیدھے  اس میدانِ کارزار میں  پہنچنا چاہتا تھا جس کا سامنا اس کے  پردادا نے  کیا تھا۔

 

کالا پانی اب اس کے  لئے  ایک ایسی کہانی تھا جس میں  اس کے  پردادا خود ایک سچ مچ کے  کردار تھے او ر اس طرح کالا پانی اس کے  لئے  ایک کہانی بھی تھا اور ایک مقدمہ بھی تھا۔ اور وہ بھی سوا سو سال پرانا ایک ایسا مقدمہ جو پورے  شد و مد کے  ساتھ آج بھی ایک مقدمہ  کے  طور پر زندہ تھا۔  اپنے  وجود کی کم مائگی اور اپنے  وجود کے  چاروں  طرف موجود اس بے  پناہ طاقت والی چیز کے  ادراک سے  وہ ایک بار پھر لرز گیا۔ لیکن وہ ایک ڈھیٹ شکاری کی طرح اس پر نظریں  گڑائے   رہا جیسے  اس کی نظر پھانسی کے  کسی ایسے  پھندے  پر ٹکی ہو جو کچھ دیر بعد اس کے  گلے  میں  پڑنے  والا ہو۔ اس نے  طالب علمی کے  زمانے  میں  جمہوریت اور انسانیت کے  حوالے  سے  بہت بڑی باتیں  سوچی تھیں او ر انتہائی یقین کے  ساتھ اپنی تقریروں  میں  اس کا اظہار کیا تھا اور اس پر بہت تالیاں  بجی تھیں  لیکن حقیقی جنگ میں  کیا ہوا تھا؟

اس نے  محسوس کیا کہ اس طاقت کو گہرائی سے  سمجھنے  کے  لئے   انڈمان کے  جزیروں  کی دنیا اس کے  ذہن کی بہترین آماجگاہ بن سکتی ہے۔ وہ جس جھیل میں  پاؤں  رکھ رہا تھا  وہ کس طرح ایک دن اس کی موت کا سامان بن جائیگا اس کا اس کو سان و گمان بھی نہ تھا۔ لیکن وہ اتنا  ضرور محسوس  کر رہا تھا  کہ وہ ایک ایسی گہرائی میں  اتر رہا ہے  جو اس کا مقدر ہے  کیونکہ جس سول سوسائٹی کا وہ خواب دیکھتا ہے   اس کا سامنا کن طاقتوں  سے  ہے   اس سوال کا بہت کچھ جواب  ان جزیروں  میں  ملے  گا۔  کہاں  وہ آزادی کے  اتنے  بلند خواب دیکھتا ہے  او ر کہاں  آزادی کے  نعرے  لگانے  والوں  نے  خود ہی قید و بند کا  ایک ایسا عجائب گھر قائم  کر رکھا تھا جس کے   تصور سے  اس کا دل ڈوبنے  لگتا تھا۔

اس نے  اچانک محسوس کیا کہ اس نے   سول سوسائٹی کی آزادی کا جو خواب دیکھا تھا جو کچھ سوچا تھا وہ ابھی تک صرف اس کے  تخیل کی تیز ہواؤں  کا جھونکا تھا او ر اب وہ پہلی بار اس جدو جہد کی تیاری کے  لئے  عملی قدم اٹھا رہا ہے  یعنی اپنے  خوابوں  کی رنگینی  سے  ہٹ کر ان خوابوں  کے  دشمنوں  کی تاریخ کو سمجھنے  جا رہا ہے۔  اسے  یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں  آ رہی تھی کہ اس نے  جو بات عالمی سیمینار میں  کہی تھی  یہ اسی منزل کے  راستے  کا سفر تھا۔۔

 

 

 

 

8

اس کے  بعد خالد اس وادیِ پراسرار کی طرف کوچ کر گیا تھا جہاں  سے  وہ گھر لوٹا تو ضرور لیکن اس کی ہولناکی کے  پنجوں  سے  وہ در حقیقت کبھی نکل نہیں  پایا اور ایک کتاب کی تخلیق کرتے  کرتے  اس نے  کچھ ایسا دیکھا کہ اس کتاب کی تکمیل کے  ساتھ ہی اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ خیر اس کتاب کا وہ آخری نقطہ کون سا تھا یہ میں  آپ کو آخر میں  بتاؤں  گا کیونکہ اس کو سمجھنے  کیلئے   خالد کی زندگی کے  ان دنوں  کو سمجھنا ضروری ہے  جو اس نے   انڈمان کے  جزیروں  میں  گزارے۔

مجاور خیالوں  میں  ایسے  کھو گیا جیسے  پورا بحرِ ہند اس کی آنکھوں  میں  اتر آیا ہو۔

شام ڈھل گئی تھی۔ مزار پر ایک چراغ جل رہا تھا۔ اور اس کی لو ہلکی ہلکی چلتی ہوا کے  جھونکوں  سے  ہل رہی تھی۔

مجاور مدھم آواز میں  بتاتا رہا۔ اس کے  کمرے  میں  اس وقت بجلی نہیں  ہونے  کی وجہ سے  ایک موٹی سی موم بتی جل رہی تھی جس کی لہراتی ہوئی لو کی روشنی سے  مجاور کے  بیان میں  ایک بیک گراؤنڈ میوزک سی پیدا ہو رہی تھی۔ موم بتی کی روشنی میں  اس کا چہرہ اور بھی پر اسرار لگ رہا تھا اور پوری فضا اس زمانے  کا احساس دلا رہی تھی جب اس دنیا میں  ابھی بجلی کی روشنی نہیں  آئی تھی اور راتوں  میں  بجلی کے  بلب نہیں  بلکہ مشعل جلتے  تھے۔

مجاور نے  بغل میں  رکھا ہوا ایک کمبل کھینچ کر اپنے  اوپر ڈال لیا اور اس کے  اندر پاؤں  آگے  تک پھیلا لئے۔ اس کی نظریں  خلیج بنگال میں  پہنچ گئیں۔

اب وہ تخیل کی بے  انتہا گہرائیوں  میں  ڈوب کر خالد کی داستان  اس طرح سنا رہا تھا کہ لگ رہا تھا کہ جیسے  پورا منظر اس کے  سامنے  سے  گزر رہا ہو۔

کالا پانی جانے  کے  لئے  خالد نے   مغربی بنگال کے  دمدم ہوائی اڈے  سے  جزائر انڈمان کے  شہر پورٹ بلیر کی فلائٹ لی تھی۔ ہوائی جہاز میں  جا کر بیٹھنے  سے  پہلے  اس نے  اس کلکتے  کی سڑکوں  اور عمارتوں  کو بھی دوبارہ بہت غور سے  دیکھا تھا جو کلکتہ وہ دار السلطنت تھا  جہاں  سے  جزائر انڈمان کے  لئے  سارے  احکامات  جاری ہوتے  تھے  لیکن دمدم ہوائی اڈے  سے  جب بوئنگ نے  پرواز کیا تو کالا پانی پوری طرح سے  خالد کے  ذہن میں  چھایا ہوا تھا۔ اس جگہ پر جب اس کی نظر پڑے  گی تو وہ جگہ کیسی دکھائی دے  گی یہ جاننے  کا اور اس کے  منظر کے  ابھرتے  ہی جہاز کی کھڑکی سے  اسے  دیکھنے او ر دیکھتے  جانے  کا اشتیاق اس کے  دل میں  بہت گہرائی سے  جاگا ہوا تھا۔

جب جہاز آسمان کی بلندی پر آیا اور جہاز سے  اناؤنس ہوا کہ ڈیڑھ گھنٹے  لگیں گے  تو وہ جزائر انڈمان کے  خیال کو چھوڑ کر فی الوقت دائیں  بائیں  دیکھنے  لگا۔ جہاز جنوب کی طرف مڑا تو اس جانب صرف پانی ہی پانی دکھا ئی دی جبکہ شمال کی طرف ہگلی ندی اور کلکتہ شہر کے  مناظر نیچے  دیوار پر پھیلے  کسی اٹلس کے  نقشے  کی طرح چھوٹے  دکھائی دینے  لگے۔

آسمان کی اس بلندی پر اسے  گہرائی سے  محسوس ہوا کہ کالا پانی کے  قیدی کس لق و دق دنیا میں  لے  جائے  گیے  تھے، اور وہ بھی ان دنوں  میں  جب ہوائی جہاز نہیں  تھا۔ ان قیدیوں  نے  ان دوریوں  کی شدت کا سامنا کیسے  دل و جگر سے  کیا ہو گا، انھیں  اپنا دل کیسا کڑا کرنا پڑا ہو گا۔ انہوں  نے  اس جلاوطنی سے  کیسے  جذباتی طور پر مصالحت اور ہم آہنگی پیدا کی ہو گی یہ سوچ کر اس کا کلیجہ منھ کو آنے  لگا۔ اور اس کے  ساتھ ہی اس کے  سامنے  وہ سارے  چہرے  بھی ابھرتے  چلے  گئے  جو اس زمانے  میں  وائسرائے    رہے  تھے   یا اس کے  ماتحت   بڑے  عہدوں  پر کام کر چکے  تھے  او ر جو صعوبتوں  بھری اس دنیا کو وجود میں  لانے   کے  ذمہ دار تھے۔ ان میں  بہتوں  کی تصویریں  اس نے   کلکتے  کی لائبریری میں  دیکھی تھیں۔

ہرچند کہ وہ خود ہی اس وقت ہوائی جہاز کی بلندیوں  پر تھا لیکن وہ دراصل اس منظر کو اپنے  پردادا کی نظروں  سے  دیکھ رہا تھا۔ سوچتے  سوچتے  سانس بیٹھنے  لگی اور ا سکی آنکھوں  میں  آنسو تیرنے  لگے  جسے  اس نے  اپنے  رومال سے  صرف چھپا لیا، اپنے  اداس چہرے  کو ساتھ بیٹھے  مسافر سے  چھپانے  کے  لئے۔ اور اس نے  اپنا چہرہ بھی پوری طرح جہاز کی کھڑی کی طرف موڑ لیا اور نیچے  سمندر کی طرف دیکھنے  لگا۔

انتہائی بلندی پر پہنچے  کے  بعد نیچے  چاروں  طرف پانی ہی پانی تھا یعنی پانیوں  کا ایک طویل سفر جو ہوائی جہاز کے  لیے  بھی ایک لمبا سفر تھا۔ ان پانیوں  میں اس کے  پردادا کو جانے  والے  جہاز نے  کئی دنوں  میں  سفر طے  کیا ہو گا۔ یہ ساری کہانیاں  جو وہ اپنے  پیاروں  کو ضرور سنانا چاہتے  ہوں گے  ان کے  ساتھ ہی مر چکی تھیں  لیکن چونکہ وہ ان کا پوتا تھا وہ ان کہانیوں  کو از سرِ نو دیکھ سکتا تھا۔

وہ پانی کے  رنگ کو ان بیکراں  دوریوں  کو دیکھنے  لگا تھا جہاں سمندر آسمان سے  ملتا ہوا دکھائی دے  رہا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کی دوریاں  گو یا ختم ہو گئی تھیں۔ اس سمندر میں  تو اس وقت بھی ایسا ہی پانی، لہریں، یہی ہوش ربا وسعتیں  تھیں  جو اب ہیں۔ اسے  ایک چیز تو ایسی دکھائی دے  رہی ہے۔

ایک دن اس نے  کلکتہ کے  ہوٹل کی بالکونی سے  گہری رات میں  بے  چینی کے  عالم میں  کمرے  سے  باہر آ کر کھلی فضاؤں  میں  جھانکا تھا تو اس کی نظر درختوں او ر عمارتوں  سے  کافی اوپر چاند پر پڑی تھی۔ تب بھی اسے  یہی خیال آیا تھا کہ یہ چاند بھی بالکل ان دنوں  کا تھا، اس کے  پردادا نے  جب کالا پانی میں  چاند دیکھا ہو گا تو یہ بالکل اسی طرح کا دکھا ہو گا۔ اس چاند نے  زمینوں او ر سمندروں  میں  ہوئی کتنی بھیانک جنگوں  کو دیکھا ہو گا۔ انسانوں  کو تنہا دنیاؤں  میں  آگے  بڑھتے، لڑتے  مرتے او ر تباہ ہوتے  ہوئے۔

وقت نے  تو صرف انسانی زندگی اور شہروں  کی بناوٹ میں  تھوڑی تھوڑی تبدیلی کی تھی ورنہ زمین و آسمان اور سماج و حکومت کی ہزاروں  لاکھوں  چیزیں  بالکل ویسی کی ویسی اور وہی کی وہی تھیں  جیسا اس کے  پردادا کے  زمانے  میں  تھیں۔ یہ سب اس کے  اندر، اس کے  ذہن میں، اس لیے  سماتے  جا رہے  تھے  کہ وہ اس راستے  سے  وہاں  تک پہنچنے  میں  ان مناظر کا سیڑھیوں  کے  طور پر استعمال کر رہا تھا۔ کلکتے  میں  اکتانے  کے  بعد اس نے  چاند کو دیکھا تھا، انڈمان میں  اکتانے  کے  بعد انھوں  نے  چاند کو دیکھا ہو گا۔ انھیں  یہ بھی خیال آیا ہو گا کہ اسی وقت ان کے  گاؤں  کے  کھلیانوں  میں لیٹے  ہوئے  ان کے  عزیز اور ہم وطن بھی اسی چاند کو دیکھ رہے  ہوں  گے۔ اس سے  ان کے  دل میں  اپنے  ہم وطنوں او ر عزیزوں  سے  ایک خاص طرح سے  جڑے  ہونے او ر اس حوالے  سے  ہزاروں  میل کی اس دوری کو مٹا دینے  کا احساس بھی جاگا ہو گا۔

اچانک ایک آواز پر اس کا دھیان ٹوٹا۔ جہاز میں  اعلان ہو رہا تھا۔

اب آپ اپنی سیٹ بیلٹ کھول سکتے  ہیں۔

اور اس نے  دراصل اپنے  ذہن کے  سارے  بیلٹ کھول دئے۔ ہر چند کہ وہ ایک ہوائی جہاز میں  جا رہا تھا لیکن ذہنی طور پر وہ اس وقت انیسویں  صدی میں  بیٹھا ہوا تھا اور کھڑکی سے  باہر اسے  اسی صدی کے  مناظر دکھائی دے  رہے  تھے۔

جس رفتار سے  جہاز رن وے  پر دوڑا تھا وہ تو اس نے  دیکھا ہی تھا ، اس بلندی پر جہاں  ہوا کا وزن کم تھا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گی،  یہاں  اڑتے  رہنے  کے  لیے  جہاز کی رفتار اور بڑھائی گئی ہو گی اور اس رفتار سے  چلنے  کے  بعد ایک گھنٹہ پچاس منٹ اس جزیرے  میں  داخل ہونے   میں  لگیں  گے  اس کے  بعد وہ اس جزیرے  پر چل رہا  ہو گا جہاں  اس کے  پردادا قید کے  دنوں  میں  رہ چکے  تھے۔

اس کی نظروں  کے  سامنے  آج کے  اخبار پڑے  تھے او ر ساتھ ہی ایر لائنس کا ایک انتہائی دیدہ زیب رسالہ رکھا تھا۔ اس نے  میگزین نکالا اور اس کی ورق گردانی کرنے  لگا۔ تھوڑی دیر میں  ناشتہ لگایا جانے  لگا۔ وہ ہربڑاہٹ میں  ہی بریڈ میں  مکھن اور جام لگا کر کھاتا رہا پھر کافی پی۔ اس سے  فارغ ہونے  کے  بعد گھڑی دیکھی ابھی پورا سوا گھنٹے  باقی تھا اب کھڑکی کے  باہر یک رنگی سی چل رہی تھی۔ کبھی کھلا منظر آتا اور کبھی نیچے  چمکتے  ہوئے  بادل دکھنے  لگتے۔ لیکن اس میں  اب کوئی ندرت نہیں  تھی۔ اس نے  دور تک دیکھنے  کی کوشش کی کہیں  کوئی ساحل نہیں  دکھ رہا تھا۔ اسے  معلوم تھا کہ جزائر انڈمان سے  پہلے  صرف سمندر ہی سمندر تھا۔ پانیوں  کی اس عظیم وسعت کے  سناٹے  میں  کچھ قیدیوں  نے  کیسے  اپنے  معمولی بیڑے  دوڑانے  کی کوشش کی تھی۔ اس پر سوچتے  سوچتے  اس کے  اوپر انسانی روح کی پراسرار عظمت رونما ہونے  لگی۔ کمزور انسان کو بھی جب کوئی طاقت چنوتی دیتی ہے  تو وہ کہاں  تک سوچ سکتا ہے  یہ اس کی مثال تھی۔ اسے  ان لوگوں  کی ہمت اور جرأت پر رشک آیا پھر اسے  اس صورت حال کا خیال سوال بن کر پریشان کرنے  لگا کہ جس  نے  انہیں   پھڑپھڑا کر اس طویل سمندر سے  ہو کر نکل بھاگنے  پر مجبور کیا تھا۔ اس سے  پہلے  کتنے  دنوں  تک انہوں  نے  سوچا ہو گا؟ کیا کیا پلان بنائے  ہوں گے ؟ کیسے  کیسے  اپنے  ذہن میں  موجود آدھے  ادھورے  علم کو سمندری بیڑا بنانے او ر سمندر کا خطرناک سفر طے  کرنے  کے  لیے  استعمال کیا ہو گا۔ پھر اتنے  جری اور بہادر لوگ انگریزوں  کے  چنگل میں  گرفتار کیسے  ہو گئے۔

پھر اسے  گرفتار کرنے  والوں  کے  ذہنوں  کی وسعت  کا خیال آیا۔

اپنے  ملک کے  لوگوں  کی یہ تاریخ  جو اس کے  لئے  ہمیشہ ایک  معمہ رہی تھی اور جس پر اس نے  پہلے  کبھی یکسوئی سے  دھیان نہیں  دیا تھا اس تاریخ نے  اب  اس کو اپنے  اندر جکڑنا شروع کر دیا تھا۔

ہندوستان جیسا بڑا ملک انگریزوں  جیسی چھوٹی قوم  کے  چنگل میں  اتنی بری طرح   کیسے  گرفتار ہو گیا  یہ ایک پیچیدہ سوال تھا او ر اس کا جواب جاننے  کے  لئے   انگریزوں  کی آمد،   ان سے  لڑی گئی جنگوں او ر ان کے  کردار کا گہرا مطالعہ ضروری تھا کیونکہ یہ انگریز آج بھی نہ صرف دنیا میں  تھے  بلکہ اسی مقام پر تھے  جہاں  پہلے  تھے۔ دیکھنا تو یہ تھا کہ ہندوستان بدلا تھا  یا ہندوستان بھی وہیں  تھا  جہاں  وہ پہلے  تھا۔  اگر دونوں  وہیں  تھے   تو یقیناً کالا پانی بھی وہیں  ہو گا جہاں  پہلے  تھا۔ کہیں  ایسا تو نہیں   کہ یہ سارا کھیل بیہوشی کی دوا  کی طرح ذہنوں  پر پڑے   ہوئے  پردوں  کا تھا ؟  کس کے  بل بوتے  پر انہوں  نے  نہ صرف  جنگیں  جیتیں  بلکہ پشت در پشت حکومت بھی کرتے  رہے۔ وہ کون سے  طاقت تھی جس نے   ان ہندوستانیوں  کو وفادار بنا کر  رکھا جو انگریزی حکومت کے  ستون بن کر  اپنے  ہی ملک کے  لوگوں  کا خون چوسنے  میں   انگریزوں  کی مدد کرتے  رہے  ؟  اگر یہ تب ممکن تھا تو یہ ہر زمانے  میں  ممکن ہے۔

کیا عام ہندوستانی ایک مختلف دنیا میں  تھے۔ کیا ان کے  ذہن میں  جنگ اور حکومت کے  کردار کے  بارے  میں  جو تصورات تھے ،  جو مشرق کی تہذیبی زندگی سے  وراثت میں  ملے  تھے ،   مختلف تھے۔ اور کیا اسی وجہ سے  وہ ان نئے  حاکموں او ر ان کے  کردار کو کبھی سمجھ نہیں  پائے۔ آسمان کی اس بلندی پر اس کے  یہ خیالات بھی پوری بلندی کے  ساتھ جگمگا کر ابھرنے  لگے  تھے او ر اس جگمگاہٹ میں  اسے  محسوس ہوا کہ نیچے  اسی طرح کے  عالمی نوعیت کے  سیکڑوں  سوالات ایک دوسرے  میں  گڈمڈ حالات میں  موجود ہیں او ر آج عوام کی زندگی انہیں  دالانوں  میں  پھنسی ہوئی ہے۔

یہ سوالات اس کے  ذہن میں  گونجتے  رہے، اسی بیچ سامنے  سے  جزیرے  نمودار ہونے  لگے۔ پھر ایک شہر آبادیوں  کے  ساتھ دکھائی دینے  لگا۔ کیپٹن کے  کیبن سے  سیٹ بلٹ لگانے  کی ہدایت نشر ہوئی۔

تو یہ تھے  وہ جزیرے۔ خالد کی نظر چاروں  طرف پھیلے  لامتناہی سمندر کے  درمیان ابھرتے  ہوئے  ہرے  بھرے  جزیروں  پر پڑی۔

وہ ان جزیروں  کو ایسے  دیکھنے  لگا جیسے  کوئی سرجن اس مریض کو دیکھ کر اپنا ذہن تیار کرنے  لگتا ہے  جس کا اسے  آپریشن کرنا ہوتا ہے۔

 

 

 

 

9

پورٹ بلیئر کے  ایئرپورٹ پر اترنے  کے  بعد وہ سیدھے  اس ٹورسٹ ہوم میں  گیا جہاں  اس نے  انٹرنیٹ پر ایک کمرہ بک کرا رکھا تھا۔ وہ ٹورسٹ ہوم سمندر کے  کنارے  کچھ بلندی پر واقع تھے۔ راستے  بھر وہ یہی اندازہ لگاتا رہا کہ اس جزیرے  میں  اس کے  پردادا کا قبرستان کہاں  ہو سکتا ہے۔ اپنے  دادا کی یادوں  کے  ساتھ خود کالا پانی کا تصور اس کے  ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ اسے  ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پورے  جزیرے  پر کالا پانی کے  آثار جا بجا دکھ رہے  ہونگے  لیکن یہاں  اسے  ایسا کچھ بھی نہیں  دکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کا دل کچھ ڈوبنے  سا لگا تھا لیکن پھر اس نے  یہ سوچ کر اپنے  دل کو تسلی دے  لیا کہ وہ تحقیق کے  ذریعہ سب کچھ تلاش کر لیگا۔

ٹورسٹ ہوم کے  کمرے  میں  بیٹھے  ہوئے  اس نے  شعوری طور پر اس حقیقت کو محسوس کیا کہ وہ اس جگہ آ چکا ہے  جس کو اسے  سمجھنا ہے۔ وہ اپنے  ذہن میں  یہ طے  کرنے  لگا  کہ اس جگہ کو مکمل طور پر سمجھنے  کے  لئے  وہ کن کن چیزوں  میں  دلچسپی لے۔ اسے  آج کے  پورٹ بلیر میں  دلچسپی نہیں  تھی کیونکہ یہاں  جو کچھ آج تھا  ویسا ہر جگہ موجود تھا۔ اسے  سیلولر جیل میں بھی دلچسپی نہیں  تھی کیونکہ یہ کالا پانی کے  اس دو ور کے  بہت بعد وجود میں  آیا تھا جس دور میں  اسے  دلچسپی تھی۔ پھر بھی مچھلی مارنے  والے  کانٹے  کی طرح  اپنی نظروں  کو گہرائی میں  ڈالنے  کے  لئے   وہ اپنے  کمرے  سے  باہر نکل آیا اور کاریڈار سے  ہوتا ہوا  اس نے  ٹورسٹ ہوم کے  پیچھے  جا کر دیکھا۔  اس منظر میں  اس زمانے  کی بیشمار کہانیاں  پنہاں  تھیں۔ اور عہدِ رفتہ کی انہیں  کہانیوں  کے  بیچ ، سامنے  سمندروں میں  جہاز کھڑے  تھے۔ کشتیاں  چل رہی تھیں۔ ادھر اس کے  آگے  چاروں  طرف مختلف بلندیوں  پر عمارتیں  تھیں  جن میں  کچھ اینٹوں  کی تھیں او ر کچھ لکڑی سے  بنی ہوئی تھیں۔ ٹورسٹ ہوم کے  نچلے  حصے  میں  سمندر کے  پانی سے  محض چند فٹ کی دوری پر دو جھونپڑیاں  بنی ہوئی تھیں  جو انتہائی دیدہ زیب تھیں۔ اس میں  چار پانچ سفید چہرے  والے  غیر ملکی سیاح مرد عورت اور بچے  باہر نکل کر اس جگہ کا نظارہ کر رہے  تھے۔

خالد ان کے  پیچھے  پرانے  کالا پانی کو ڈھونڈتا رہا لیکن کسی ایسی چیز کا نام و نشان باقی نہیں  رہ گیا تھا۔ یہاں  آتے  ہوئے  اس نے  سوچا تھا کہ پورٹ بلیئر میں  جا بہ جا ان جگہوں  پر تختیاں  لگی ہوں گی جہاں  لوگوں  کی قبریں  بنی تھیں  یا پرانی عمارتیں  محفوظ کر کے  رکھی گئی ہوں گی جن سے  کالا پانی کے  دنوں  کی کوئی یاد وابستہ ہو گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  تھا۔ اسے  محسوس ہونے  لگا جیسے  لوگ دنیا کو دیکھنے  سے  کتراتے  ہیں۔ ’لوگ جب زندگی کی تلخ حقیقتوں  کو دیکھنے  کی اذیت کو برداشت نہیں  کر پاتے  تو اسے  بھلانے  کی کوشش کرتے  ہیں او ر زندگی کو نئے  رنگوں  میں  ڈھال کر اپنے  آپ کو دھوکا دیتے  رہتے  ہیں  کہ اپنے  دکھوں  پر قابو پانے  کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

کئی لوگوں  سے  اس نے  دریافت کرنے  کی کوشش کی لیکن کوئی کچھ نہیں  بتا پایا۔ لیکن اس جگہ کے  ماضی کے  بارے  میں  بہت کچھ پڑھ رکھا تھا اس لئے   اسے  صاف صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس وقت اس جگہ کی محض اوپری سطح کو دیکھ رہا تھا جس میں  ایک عجیب اور حیرتناک تاریخی اور سماجی دنیا پوشیدہ تھی۔ یہ جگہ جو آج تفریح کا مرکز بن گئی تھی اس کے  پیچھے  خونی داستانیں  تھیں او ر اسی خون آشام ماحول میں  جینے  کی وہ کوششیں  تھیں  جو آج کے  لوگوں  کے  لیے  چونکانے  والی تھیں۔

اسے  معلوم تھا کہ یہاں  کی آبادی کے  ہندو اور مسلم بلا تکلف آپس میں  شادی کرتے  تھے۔ یعنی زندگی نے  ان جزیروں  میں  مذہب پر اپنی برتری قائم کر رکھی تھی لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں  بتا پا رہا تھا  کہ ایسا ماحول کیسے  پیدا ہوا۔ جب کہ یہ اس ہندوستان کا حصہ تھا جس میں  ایسی شادیاں  بغاوت کے  بغیر ممکن نہیں  تھیں۔ یہاں  کے  سماج کے  اس رویے او ر فیصلہ کے  پیچھے  ضرور کچھ نہ رہا ہو گا۔ ضرور لوگوں  کے  کوئی ایسی بات دریافت کی جسے  انہوں  نے  اس وقت بھی اپنایا اور آج بھی۔  انہوں  نے  اس روایات کو سینے  سے  لگا رکھا تھا۔ خالد کے  لیے  دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں  تھا کہ یہ سب کچھ کب اور کیوں  ہوا تھا۔

چونکہ اس کے  ذہن میں  اپنے  پردادا سے  متعلق ایک سوال اٹکا ہوا تھا کہ انہوں  نے  یہاں   شادی کی تھی یا نہیں  او ر اگر کی تھی تو اس شادی سے   کوئی اولاد تھی یا نہیں   اس لئے  اس کے  لئے  یہ بات دلچسپ پہلو رکھتی تھی۔ اب اس میں  ایک نیا سوال یہ آ ملا تھا  کہ اگر انہوں  نے  شادی کی تھی  تو کس سے  کی تھی اور اب تو یہ بھی ممکن تھا  کہ ان کی اولاد ہندوؤں  کی آبادی میں  شامل ہو۔ لیکن  یہ بات اب اس پر کھلنے  لگی تھی  کہ یہاں  کبھی زندگی ایسے  مقام پر آ پہنچی تھی  جہاں  آزادی کے  سوال کے  سامنے  یہ تمام چیزیں  بے  معنی ہو گئی تھیں۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ ایسے   ہی با معنی تجربوں  کی تو اس کو تلاش تھی۔

بالکونی سے  وہ واپس آ گیا اور ٹورسٹ ہوم کے  کاؤنٹر پر آیا۔ وہ ایک ادھیڑ آدمی بیٹھا کچھ حساب و کتاب لکھ رہا تھا۔ اس کے  قریب جا کر خالد سہیل نے  اس سے  دریافت کیا۔

یہاں  کے  قابل دید مقامات کو دیکھنے  کی کیا سہولیات مہیا ہیں۔

’یہاں  کی جیل کا ریکارڈ کہاں  مل سکتا ہے۔ ‘

’سیلولر جیل میں  جیلر کے  یہاں  ملے  گا۔ پھر اس نے  کچھ کچھ سوچ کر پوچھا  ’ آپ کو کب کا ریکارڈ چاہئے  ؟‘

’ اس وقت کا جب قیدی وائپر آئی لینڈ  میں  رکھے  جاتے  تھے۔ اس زمانے  میں  میرے  ایک دادا کو کالا پانی کی سزا ہوئی تھی۔ ‘

’اوہ۔ اس کا ریکارڈ آپ کو نہیں  مل پائیگا۔ یہاں  ایک بڑا خطرناک جیلر ہوتا تھا ڈاکٹر والکر۔ اس نے  جانے  سے  پہلے  سارے  ریکارڈ جلوا دئے  تھے او ر رپورٹ لکھ دی تھی کہ ریکارڈ روم میں  آگ لگ گئی تھی۔ اس کے  بعد کے  زمانے  کے  ریکارڈ بھی بارش کے  پانی میں  سڑ کر ختم ہو گئے۔ ایک بار یہاں  ایک ریسرچ اسکالر آئے  تھے، کلکتہ سے۔ میں  ان کو ساتھ لیکر سیلولر جیل گیا تھا۔ وہاں  صرف کافی بعد کے  زمانے  کے  کچھ ریکارڈ تھے۔ وہ بھی بہت بوسیدہ ہو گئے  تھے۔ الٹنے  سے  ٹوٹ رہے  تھے۔

اسے  بہت مایوسی ہوئی۔

’ وائپر آئی لینڈ یہاں  سے  کتنی دور ہے۔ وہاں  کیسے  جایا جا سکتا ہے۔ ‘

’ سنا ہے ، ہفتے  میں  ایک چھوٹا بوٹ وائپر آئی لینڈ جاتا ہے۔ وہاں  پرانا پھانسی گھر ہے  لیکن اب وہاں  دیکھنے  کے  لیے  کچھ نہیں  ہے۔ سب کچھ کھنڈر ہو گیا ہے۔ ‘

’اور ماؤنٹ ہیرٹ کہاں ہے  ؟‘

’ماونٹ ہیریٹ وہ سامنے  رہا۔ ‘ سامنے  دھند میں  ڈوبا ہوا ایک کالا سا اونچا پہاڑ دکھائی دے  رہا تھا۔

’’یہاں  جن لوگوں  کو پھانسی دی گئی ان کی قبریں  ہیں ؟‘‘

اس کے  بارے  میں  آپ کو ایک آدمی بتائے  گا۔ وہ اس وقت کے  جلاد کی اولاد میں  سے  ہے۔ اکیلا آدمی بچا ہے۔ وہ جنگلی گھاٹ میں  رہتا ہے۔

خالد اس کا پتہ لیکر جنگلی گھاٹ گیا۔ جن لوگوں  سے  اس نے  اس آدمی کا پتہ پوچھا ان کے  تاثرات سے  اندازہ ہوا کہ لوگ اس خاندان سے  نفرت کرتے  تھے، حالانکہ، خالد نے  سوچا، وہ تو صرف مزدوری کرتے  تھے۔

لیکن یہ خیال آتے  ہی اس کے  ذہن میں  ایک بڑا سوال آ کھڑا ہوا۔ ’ کیا یہ مزدوری جائز تھی۔ ‘ اس نے  پھر اس سوال کو ذہن سے  جھٹک دیا اور آگے  بڑھ گیا۔ اس آدمی کا مکان بالکل الگ تھلگ تھا اور صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں  شاید ہی کوئی آتا جاتا ہو گا۔

اس سے  مل کر خالد نے  اپنے  آنے  کا مقصد بتایا کہ وہ اس کی مدد سے  وائپر آئی لینڈ کے  پھانسی گھر کو دیکھنا چاہتا ہے۔

وہ آدمی تیار ہ گیا۔ وہ پھانسی گھر پہنچے۔ خالد کو لیکر وہ پھانسی والی کوٹھری میں  گیا۔ اندر غالباً نمونے  کے  طور پر پھانسی کا پھندا لٹک رہا تھا۔ خالد نے  انتہائی انہماک سے  درو دیوار کو دیکھا۔

پھانسی سے  پہلے  آخری خواہش پوچھی جاتی تھی کیا۔

یہ سب کہانیاں  ہیں۔ دراصل پھانسی کی سزا کسی نافرمانی یا گستاخی کی وجہ سے  دی جاتی تھی۔ پھانسی کی سزا سنانے  کے  بعد تو آدمی مر جاتا تھا لیکن افسروں  کا غصہ سرد نہیں  ہوتا تھا اس لئے  عموماً  اس قیدی کو یہاں  منہ پر ڈنڈے  سے  مار مارکر اس کی جان لی جاتی تھی۔

جب یہ سزا دی جاتی تھی تو پورا جیل چیخ سن کر کانپ جاتا تھا۔ انگریز صرف کہنے  کے  لئے  قانون پرست تھے۔

لیکن اس غیر قانونی حرکت کے  خلاف تو شکایت کی جا سکتی تھی۔

یہی تو بات ہے  کہ ، معاف کیجئے  گا ، ہم خوابوں  کی دنیا میں  رہنے  سے  باز نہیں  آتے۔ آپ کیا سمجھتے  ہیں  کہ جن سے  شکایت کی جا سکتی تھی ان کو یہ سب معلوم نہیں  تھا۔ یہ سب منافقت کا کھیل ہوتا ہے۔ انگریزوں  کی سرکار پوری طرح ڈھکوسلے  پر قائم تھی۔ ان کے  دکھانے  کے  دانت اور تھے او ر کھانے  کے  اور تھے۔ میرے  پردادا سے  جو یہاں  کے  جلاد تھے  صرف دست خط لے  لیا جاتا تھا۔ جن کو وہ بچانا چاہتے  تھے  ان ک کو فرار کر دیا جاتا تھا۔ سرکار کا مطلب ہوتا ہے  سرکار۔ ‘ اس نے  ایک ہاتھ نچا کر مذاق اڑانے  کے  انداز میں  کہا۔

’اور جن کو مارنا چاہتے  تھے  ان کو کچل کچل کر مارتے  تھے۔ ‘

پھانسی والی کوٹھری سے  منسلک ایک اندھیری سے  کوٹھری تھی۔ وہ خالد کو لیکر اس میں  سیڑھیوں سے  اتر گیا۔ اس کے  آگے  سامنے  کی دیوار میں  بغیر زینوں  کی ڈھلان تھی جس کے  نچلے  سرے  سے  آگے  سمندر کا پانی چمک رہا تھا۔

’مرنے  کے  بعد انہیں  اسی سرنگ میں  بہا دیا جاتا تھا۔ ‘

خالد کو جیسے  ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کے  دل میں  ایک شدید اندیشہ پیدا ہوا۔ اس نے  جیسے  ڈرتے  ڈرتے   پوچھا۔

’یہاں  مسلمانوں  کا کوئی قبرستان ہے۔ ‘

’اب تو ہے  لیکن اس وقت تو قبر یا قبرستان جو کچھ تھا یہی تھا۔ اس نے  سرنگ کی طرف ہاتھ سے  اشارہ کر کے  کہا۔  ’آگے  انہیں  مچھلیاں او ر چیل کوے  کھا جاتے  تھے۔

خالد کے  جسم کا سارا خون جیسے  سرد ہو گیا۔ اس نے  اس لمحے  کی تاب نہ لا کر زور سے  اپنی آنکھیں  بند کر لیں۔ پھر اپنے  پر قابو پاتے  ہوئے   اس نے  سرنگ کے  سرے  کی طرف دیکھا۔ خالد سہیل کو لگا جیسے  یہ سرنگ اور اس کے  آگے  کا سمندر،  یہ سب،  ایک الگ ہی قسم کا قبرستان ہوں  جو ان کے  لئے  بنائی گئی ہو جن کی پہچان ختم ہو چکی تھی۔

پھر پتہ نہیں  کہاں  سے  اس کے  اندر ہمت پیدا ہوئی اور  اس نے  لگاتار اس جگہ کے  کئی فوٹو لئے۔ کبھی سرنگ کے، کبھی سمندر کے  اس پانی کے  جو نیچے  چمک رہا تھا، کبھی چھت کے او ر کبھی فرش کے۔ ادھر سے  نکلتے  ہوئے  اس نے  اس پھانسی والی کوٹھری کی بھی انگنت تصویریں  لیں۔

جب وہ تصویریں  لینے  کے  بعد تھما تو اس کو اس آدمی نے  آگے  بتایا جیسے  یہ بات اٹکی رہ گئی تھی۔

ہاں ‘ البتہ شیر علی کے  ساتھ ایسا نہیں  ہوا تھا۔

بزرگوں  سے  سنا ہے  کہ انگریز ان کے  ساتھ بڑے  ادب سے  پیش آئے  تھے۔ یا تو اس کے  پیچھے  ان کی کوئی سیاست تھی کہ وہ قیدیوں  سے  ڈر سے  گئے  تھے  یا پھر ان کے  اوپر یہ رعب چھا گیا تھا کہ یہ وہ آدمی تھا جس نے  ان  کے  اتنے  بڑے  سربراہ کو مارا تھا۔ میرے  پردادا نے  انہیں وضو کے  لئے  پانی دیا تھا۔ انہوں  نے  پھانسی سے  پہلے  نماز پڑھی تھی۔

میں  تھوڑی دیر یہاں  بیٹھ لوں۔ وہ وہیں  فرش پر بیٹھ گیا۔ اس نے  اپنے  پردادا کو بہت یاد کیا۔ اس کی آنکھوں  سے  آنسو ٹپک گئے۔ اسے  دیکھ کر وہ آدمی بھی سمجھ گیا کہ اس جگہ سے  خالد کا کوئی خاص تعلق ہے۔ خالد کو بے  حد غمزدہ دیکھ کر اسے  بھی اس زمانے  کی کہانیاں  یاد آ گئیں او ر وہ بھی مغموم ہو گیا اور چپ چاپ خالد کو بغیر چھیڑے  ہوئے  کھڑے  کھڑے  اس کے  اٹھنے  کا انتظار کرنے  لگا۔ باہر اچانک بادل آ گئے  تھے او ر بارش ہونے  لگی تھی۔ بارش کے  ماحول نے  جیسے  خالد کے  غموں  کو دھوکر  سمندر کے  انہیں  پانیوں  میں  بہا دیا۔ بارش ختم ہوئی تو دونوں  وہاں سے  چل پڑے۔ خالد اب کچھ نارمل ہو گیا تھا۔ سامنے  ماونٹ ہیریٹ  دکھائے  دے  رہا تھا۔ اس نے  چلتے  چلتے  یوں  ہی خاموشی کو توڑنے  کے  لئے  اس آدمی سے  پوچھا۔

اور ماؤنٹ ہیریٹ پر کیا ہوا تھا؟

ماؤنٹ ہیریٹ وہ رہا۔

اس نے  سامنے  کے  سب سے  اونچے  پہاڑ کی طرف اشارہ کیا لیکن سمجھ نہیں  پایا کہ خالد اس کے  بارے  میں  کیوں  پوچھ رہا تھا۔

’وہیں  تو لارڈ میو کو مارا تھا شیر علی نے۔ اسی پہاڑ کی جڑ میں۔ اچانک شیر کی طرح اندھیرے  میں  پہنچ گیا تھا۔ ‘

کیوں  مارا تھا؟

یہ تو آج تک کوئی نہیں  سمجھ پایا کہ اچانک اسے  کیا سوجھی۔ بہت شریف آدمی تھا۔ کابل کا پٹھان تھا لیکن دماغ میں  گرمی بالکل نہیں  تھی۔

’بہت سوچ بچار کے  مارا تھا ؟‘

’سوچا تو ہو گا۔ سنا ہے  سوچتا بہت تھا۔ سوچتے  سوچتے  دماغ پر کوئی بات چڑھ گئی ہو گی۔ ‘

’ایسی کیا بات ہو سکتی تھی۔ ‘

اس نے  کوئی جواب نہیں  دیا۔

 

 

 

10

سیلولر جیل میں  جا کر اس نے  پوری تسلی کر لی۔ وہاں  بھی کوئی ریکارڈ نہیں  ملا۔

وہ اپنے  والد کو کیا بتائے  گا ؟ شروع میں  تو اسے  پریشانی ہوئی لیکن اب اس نے  سوچ لیا کہ وہ اپنے  والد کو میر علی کی پوری کہانی سنائے  گا یعنی اس جگہ اور اس کی تاریخ اور میر علی کے  زمانے  کی  قیدیوں  کی زندگی او ر حالات کی پوری تصویر وہ یہاں  سے  لے  جائے  گا اور میر علی کے  مقدمے  پر پوری زندگی کام کر کے  اس مقدمے  کو پوری دنیا میں  پھیلائے  گا تاکہ پورے  کالا پانی کو ہی میر علی کی قبر کے  طور پر یاد کیا جائے۔ کیونکہ ریکارڈ مٹے  تھے او ر میر علی کی لاش مٹ گئی تھی لیکن نہ تو یہ جگہ مٹی تھی نہ ہی وہ سمندر مٹا تھا۔

وہ ذہنی طور پر اس بات کے  لئے  پوری طرح تیار ہو چکا تھا کہ وہ اس بات کو پوری طرح پھیلا کر دیکھے  کہ میر علی کا پورا وجود یہیں  کہیں  گم تھا۔ خالد کا جی چاہا کہ وہ  یہاں  جتنے  دنوں  کے  لئے  بھی آیا ہے   اتنے  دنوں  کے  لئے  وہ یہاں  دل و جان سے  آباد ہو جائے۔ بالکل ایسے  جیسے  وہ اس کے  اجداد کی پرانی بستی ہو۔ اور سچ بھی یہی تھا کہ  یہ جگہ کبھی اس کے  پردادا کی بستی رہ چکی تھی۔  انہوں  نے  اپنی زندگی کے  دنوں  میں  کیا کیا دیکھا ہو گا، کیا کیا سوچا ہو گا، کیا کیا باتیں  کی ہونگی وہ یہ سب کچھ یہاں  رہ کر محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔

اب خالد زبانی کہانیوں ، کتابوں، رسالوں، ریکارڈس، تصاویر، مقامات، پرانی عمارتوں  کے  کھنڈروں اور پینٹنگز سے  لے  کر رسومات اور روایات، رشتوں  کی نوعیت، اقدار، زبان، الفاظ اور روز مرہ سب میں  ان کو ڈھونڈنے  لگا۔

اس نے  سیلولر جیل کے  میوزیم میں وہ مشینیں  دیکھیں  جن کو قیدیوں  کو سزا دینے  کے  لئے  استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا استعمال کتے  کے  قتل میں  سزا یافتہ اس کے  پردادا پر بھی کیا گیا ہو گا۔ اس نے  سوچا۔ اسے  وہ مشینیں  اپنے  پردادا کی جگہ خود اپنے  جسم پر چلتی ہوئی محسوس ہوئیں  جس کے  ناقابلِ برداشت درد کو محسوس کر کے  ایک بار تو اس کی چیخ نکل گئی۔

اس دن کے  بعد لگاتار بارش کی جھڑیوں  میں  گزرے  کئی دن، صبح اور شام وہ  چلتے  چلتے  آ کر کسی جزیرے  کے  اوپر ٹھٹھک جاتا اور اپنے  پیروں  کے  نیچے  کی کنکریلی زمین سے  لے  کر سامنے  کے  سمندروں او ر آسمانوں  میں  جھانکتا رہتا۔

وہ اب بآسانی سن سکتا تھا اس شور شرابے  کو جو مجرموں  کو گھسیٹتے ، زد و کوب کرنے، چلانے او ر پھانسی پر لٹکائے  جانے  سے  پیدا ہوتا تھا۔ یہ لوگ یہاں  برسوں  تک رکھے  جاتے  تھے۔ زیادہ تر پوری زندگی یہیں  کٹ جاتی تھی۔ بیشتر اپنے  وطن کے  عزیزوں  کو یاد کر کے  اداس ہوتے  یا رویا بھی کرتے  تھے او ر خود ہی اپنی سسکیوں  کو سنتے  تھے۔ خالد سہیل تاریخ کے  اس دورکی بو  باس میں  اتنا ڈوب گیا –  اب اکثر ان کے  لیے  اس کے  اندر رونے  کی خواہش پیدا ہوتی۔ وہ ان لوگوں کے  ماضی کے  درد میں  شامل ہو کر اپنے او ر ان کے  دکھوں  کی مشترکہ کہانی کو لکھ کر اسے  امر کر سکے  گا  تاکہ ان کی اگلی نسلیں  جدوجہد کریں او ر ان قوتوں  کو پہچان سکیں اور اپنے  زمانے  میں  لٹکتے  ہوئے  چلمنوں  کو سرکا کر اپنی حکومتوں کے  چہروں  کا کامیاب تجزیہ کر سکیں۔

ایک دن وہ پورٹ بلیئر کی لائبریری میں  گیا۔ وہاں  ان جزیروں  سے  متعلق ایک الگ گوشہ بنایا گیا تھا جس میں  یہاں  کی موجودہ زندگی سے  ماضی بعید کے  آثار کی نمائندگی کر نے  والی  کتابیں  اور تصویریں  لگی تھیں۔

وہ ایک کتاب لیکر پڑھنے  بیٹھ گیا۔ اس میں  ان جزیروں  می انگریزوں  کی اولین آمد کا ذکر تھا۔

پہلی بار ملٹری ان جزیروں  میں  پہنچی تھی تو ان فوجیوں  نے  قبائلیوں  پر بلا وجہ محض ان سے  خوفزدہ ہو کر اور ان کو خوفزدہ کرنے  کے  لئے  اپنے  اسلحوں  کا بے  دریغ استعمال کیا۔ اپنے  روایتی تیر کمانوں  سے  قبائلی ان کا بھلا کیا مقابلہ کرتے۔ اس سے  قبل کہ انہیں  رائفل کی گولیوں  کی طاقت کا اندازہ ہوتا بے  شمار قبائلی ڈھیر ہو گئے۔  قبائلیوں  نے  اپنے  شہیدوں او ر زخمیوں  کو اپنے  کندھوں  پر ڈھویا اور اپنی پسپائی پر بے  بسی کے  آنسو بہاتے  ہوئے  انہیں  جنگل کے  دشوار گزار راستوں  سے  اندر محفوظ مقامات پر لے  گئے۔ ان قبائلیوں  کو پہچاننے  والے  درخت اپنی محبوب آبادی کی اس تباہی پر زار و قطار روتے  رہے اور یہ پورا جزیرہ غم کے  سمندر میں  غرق ہو گیا۔ ان آبادیوں  کی باہر سے  آئے  ہوئے  فوجیوں  کو اس سے  زیادہ کوئی ضرورت نہیں  تھی کہ وہ مارے  جائیں۔ اپنی جگہ خالی کر دیں او ر سپاہیوں  کی رائفلوں  کے  مشق کا نشانہ بنیں۔ نہتے  بے  گنا ہوں  پر مظالم کی یہ داستان مقامی آبادی کی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ قبائلی بیوائیں او ر قبائلی یتیم بچے  اپنی چھاتیاں  پیٹتے  رہ گئے۔

کتابوں  میں  ان قبائلیوں  کا ذکر کچھ اس طرح کیا گیا تھا گویا  ان کے  سینوں  میں  انسانی دل نہیں  تھے۔

کیا اس کے  پیچھے  بھی کوئی اسکیم تھی ؟

اس کے  اند ر اچانک ایک عجیب سا احساس  پیدا ہوا۔

کہیں  وہ بھی  جروا قبائلیوں  کی طرح تو نہیں  ہے  ؟ ؟

آزاد، معصوم، غیر مضر او ر اس کے  باوجود پیچھے  ڈھکیلا  جاتا ہوا۔

اس کی زمین بھی تو اسی طرح چھینی جا رہی ہے۔

 

اس نے  کتاب بند کی اور اٹھ کر ان تصویروں  کو دیکھنے  لگ جو دیواروں  پر لگی ہوئی تھیں۔ انہیں  تصویروں  میں  اس کی نظر ایک پنٹنگ پر پڑی جس میں  ایک قبائلی عورت تھی جس کی گود میں  ایک بچہ تھا، ایک مرد کو جس کی نگاہیں  شرم سے  جھکی ہوئی تھیں  اس پر تھوک رہی تھی۔ اس پینتنگ کا مطلب تھا کہ اس کے  پیچھے  کوئی کہانی تھی۔

غدار گوپی

اور

یک طرفہ مورخ

اس نے  لائبریری کے  اس گوشے  کی نگرانی کرنے  والے  گائڈ سے   اس کے   پس منظر کے  بارے  میں  دریافت کیا۔

اس نے  بتایا کہ ایک بار مجرموں  کے  ایک بھاگے  ہوئے  گروہ پر جو یہاں  کے  جیل سے  فرار ہو کر  ان کے  علاقے  سے  گزر رہا تھا‘ جروا قبائلیوں  نے  حملہ کیا اور سب کو گھائل کر کے  مار دیا لیکن ان میں  ایک زندہ بچا تھا۔ جب قبائلی قریب آئے  تو اس نے  جروا سردار سے  ہاتھ جوڑ کر جان بخشنی چاہی۔ سردار نے  سب کی تلاشی لی کہ ان کے  پاس کوئی ہتھیار تو نہیں  تھا۔ یہ اندازہ ہونے  پر کہ ان کے  پاس کوئی خطرناک ہتھیار نہیں  تھا‘ سردار نے  اس زندہ بچے  ہوئے  آدمی کی جان بخش دی۔ اسے  ساتھ لے  گیا حتی کہ کچھ دنوں  کے  بعد اس نے  اس سے  اپنی بیٹی کی شادی کر دی لیکن اس کے  بعد اس آدمی سے  بھی ان کو شدید صدمہ پہنچا۔ جب جروا قبائلیوں  نے  انگریزوں  پر حملہ کرنے  اور ان کو مار بھگانے  کی ایک بے  حد کارگر حکمت عملی بنائی اور پورٹ بلیئرپر حملہ کرنے  آئے  اس سے  پہلے  وہ شخص دھوکے  سے  انگریزوں  کی طرف آ گیا اور ان کو اس حملے او ر اس کی حکمت عملی سے  آگاہ کر دیا۔ نتیجے  میں  جروا قبائلیوں کی بری طرح شکست ہوئی اور بے  شمار جروا قبائلیوں کی جان تلف ہوئی۔

کافی عرصہ بعد ایک بار وہ عورت بیمار ہوئی اور پورٹ بلیئر کے  اسپتال میں  آئی تو وہی آدمی اس سے  ملنے  گیا۔ اس لڑکی نے  اس آدمی کے  منھ پر تھوک دیا تھا۔

پورٹ بلیئر کی لائبریری کی کتاب میں  تھوکنے  والی تصویر اسی واقعہ سے  متعلق تھی۔

خالد نے   ان جزیروں  سے  متعلق ایک دوسری کتاب پڑھتے  ہوئے  دیکھا کہ ایک جگہ اس واقعے  کا اس میں  ذکر تھا لیکن  یہ ذکر یہ ظاہر کر رہا تھا کہ چونکہ گوپی کی نظر میں  چونکہ انگریز مہذب تھے   اس لئے  اس نے   غیر مہذب اور وحشی قبائلیوں   کے  حملوں  سے  ان کو بچانے  کے  لئے  ان کی مدد کی۔

مورخوں  کا یہ انداز اسے  بڑا عجیب لگا۔

ہندوستان کو غلام بنوانے  والوں  میں  جن غداروں  کا نام آیا ہے  اس میں  گوپی ناتھ کا نام کیوں  نہیں  آتا۔

ہندوستان کے  لیے  جن لوگوں  نے  جنگ آزادی لڑی اس میں  اس جروا قبیلے  کا نام کیوں  نہیں  آتا۔

اسے  ایک مفکر کے  وہ جملے  یاد آ گئے  جو اس نے  چند برسوں پہلے  پڑھے  تھے او ر جو کچھ اس طرح تھے۔

None should believe in political theories, history and scientific researches as told to the common people by those whom we believe to be gospels. The people up there are worse than common man in matters relating to political interests. Certainly they consider political interest above truth. To them suppressing truth is legal and recognizing truth is  matter of convenience.

 

پورٹ بلیر میں  کچھ دنوں  کے  بعد مقامی لوگوں  سے  اسے  معلوم ہوا کہ یہاں  کے  قبائلیوں  سے  رابطہ بڑھانے  کے  لیے  گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں  کئی مخصوص ٹیموں  نے  سمندر کے  ساحل پر تحائف رکھے  لیکن جروا اس وقت اسے  لینے  آتے  تھے  جب جہاز دور چلا جاتا تھا۔ وہ تحائف اٹھا کر لے  جاتے  تھے، لیکن کبھی بھی انہوں  نے  اپنے  رویہ میں  نرمی نہیں  برتی۔  نہ تو انگریزوں  کے  زمانے  میں او ر نہ ہی ان کے  بعد جو لوگ یہاں  رہ گئے  تھے  ان کے  زمانے  میں۔  پھر اسے  اس دوسری انتہائی پر اسرار کہانی کے  بارے  میں  ایک تحریر ملی جس کے  بارے  میں  اس نے  ابھی صرف زبانی سنا تھا۔

وائسرائے   لارڈ میو کا قتل

لائبریری کا وہ گوشہ جس میں  ان جزائر سے  متعلق  کچھ پرانی کتابیں  تھیں، کچھ اس حالت میں  پڑی تھیں  جسے  برسوں  سے  ان کو کسی نے  چھوا نہیں  ہو۔ وہ شیلف کے  قریب گیا۔ ان پرانی زرد ہوتی کتابوں  میں  اسے  ایک ایسی کتاب ہاتھ آ گئی جس میں  کالا پانی کے  اولین دنوں  کے  متعلق  واقعات میں کچھ سرکاری دستاویزوں  کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس نے  اس کتاب کی ورق گردانی کی۔ اس میں  دو تین تصویریں  اس منظر کی تھیں  جس میں  سیکڑوں  لوگوں  کو باری باری سے  پھانسی پر لٹکایا جا رہا تھا۔ ایک تصویر لارڈ مایو کے  قتل کے  منظر کا تھا جب وہ پہاڑی راستے  سے  ایک پیچیدہ جگہ سے  گزر رہا ہے، اور اچانک ایک پٹھان نمودار ہو کر اس پر خنجر سے  حملہ کرتا ہے۔ یہ کتاب وہ لائبریرین سے  اجازت لیکر ہفتے  بھر کے  لئے  ساتھ لیکر آ گیا اور رات کی تنہائی میں  اسے  متعدد بار غور سے  دیکھا اور پڑھا۔

ان تصویروں  میں  اب اس کی نگاہ  خاص طور سے  اس آدمی پر ٹکنے  لگی جس کا نام شیر علی تھا اور جس نے  اپنے  وقت کے  ہندوستان کے  وائسرائے  لارڈ میو  کا قتل کیا تھا، یقیناً یہ واقعہ تصویر کا ایک ایسا رخ پیش کر رہا تھا جس نے  ان جزائر کی کہانی میں  خالد سہیل کے  لیے  بے  انتہا گہرائی پیدا کر دی تھی۔

یہ بات اور چونکانے  والی تھی کہ اتنے  اہم واقعے  کا ذکر تاریخ کی کتابوں  میں  کبھی اس طرح نہیں  آیا جیسے  یہ کوئی اہم واقعہ ہو۔ خالد سہیل کو احساس ہوا کہ کہانی اتنی سپاٹ نہیں  جتنی دکھتی تھی۔ برٹش ریکارڈ کے  مطابق شیر علی ایک انتہائی نیک خصلت اور امن پسند مجرم تھا۔ اس کو اس کے  کردار کو مد نظر رکھتے  ہوئے  ترقی دیتے  ہوئے  پہلے  دوسرے  مجرموں  کا سربراہ بنایا گیا اور بعد میں  اس کو جیل کی اوقات کی پابندی سے  بھی مبرّا کر دیا گیا تھا۔ انگریز افسر اکثر اس کے  مشورے  پر عمل کرتے  تھے او ر دوسرے  مجرموں  کو اس کی وجہ سے  مراعات مل جاتی تھیں۔ یہ اور دوسری تفصیلات مکمل طور پر یہ گواہی دے  رہی تھیں  کہ شیر علی پوری طرح ایک ہوش و حواس میں  رہنے  والا ایسا شخص تھا جس کے  ذہن اور دل مکمل طور پر اس کے  قابو میں  تھے او ر جو  تعجب خیز حد تک زندگی کے  حقائق کو سمجھنے  پرکھنے او ر تولنے  کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ بات انتہائی چونکانے  والی تھی۔ اس شخص نے  جس نے  کبھی کسی ایسے  سپاہی سے  بھی جھڑک کر بات نہیں  کی جس نے  اس کے  اوپر جیل کے  سخت دنوں  کے  دوران ناقابل برداشت مظالم ڈھائے  ہوں  اس نے  وائسرائے  لارڈ میو کے  قتل کا ارادہ کر لیا اور اس ارادہ کو پائے  تکمیل تک پہنچا دیا۔ مزید تعجب کی بات یہ تھی کہ وائسرائے  لارڈ میو وہاں  ہیرٹ پہاڑ کے  اوپر قیدیوں  کے  لئے  ایک اسپتال بنانے  کا حکم دیا تھا اور اسی اسپتال کی  سنگ بنیاد ڈالنے  گیا تھا۔

 

 

 

 

 

11

ایک شام وہ ٹورسٹ ہوم کے  باہر کھڑا چاروں  طرف کے  دور دور تک پھیلے  سمندروں او ر پہاڑوں  کا منظر دیکھ رہا تھا۔ سورج آہستہ آہستہ پچھم کی طرف غروب ہو رہا تھا۔ آسمان میں  دور دور تک بادلوں  کے  رنگ برنگے  ٹکڑوں  کی ایک چھت سی تن گئی تھی اور سمندر کی خاموش لہریں  سورج کی پہلی روشنی میں  حد نگاہ تک چمکتی ہوئی بے  حد پراسرار لگ رہی تھیں۔

اس منظر کو دیکھتے  دیکھتے  اس کا تخیل ماضی کے  اندر دو تین سو سال کی گہرائی میں  جا پہنچا اور پھر اس کے  تخیل میں  جو کچھ ابھرا وہ رونگٹے  کھڑا کرنے  والا تھا۔ اس نے  دیکھا کہ یہی آسمان اور یہی سمندر ہیں او ر یہ پورا آسمان ٹوٹ ٹوٹ کر ہندوستان پر گر رہا تھا اور گدھ اس تباہ کن منظر میں  گردش کرتے  ہوئے  زخمی لوگوں کے  اوپر اور مرے  ہوئے  لوگوں  کی لاشوں  پر حملہ کر رہے  تھے۔

 

اور یہ کون تھا،ساحل پر کھڑا ،دوربین سے  جزیروں  کو دیکھتا ہوا۔

اور وہ یہاں  کیا کر رہا ہے  ؟

یہ کیپٹن بائیک تھا۔

خالد کو لگا جیسے  کیپٹن بئیک ابھی ابھی ہوائی جہاز کی سیڑھیوں  سے  یہاں  وارد ہوا ہے  لیکن پھر اسے  خیال آیا کہ وہ تو خود اس وقت انیسویں  صدی میں  تھا۔

 

’غالباً اس شخص سے  بھی میرے  پردادا کا واسطہ پڑا ہو گا۔ ‘ اس نے  کیپٹن بائیک کو غور سے  دیکھا۔ اس کی  اسکیچ والی ایک تصویر وہ پورٹ بلیر کی لائبریری میں  دیکھ چکا تھا۔ اس تصویر میں  اسے   ان جزیروں  کو آباد کرنے  والی شخصیت کے  طور پر پیش کرتے  ہوئے  اسے  اس جزیرے  کی تاریخ کا ایک حصہ بنا دیا گیا تھا۔

اس کیپٹن بائیک کے  بارے  میں  اس نے  کتابوں  میں  پڑھ رکھا تھا۔ وہ ملٹری یونیفارم میں  ملبوس تھا اور کیمپ کے  ایک کونے  میں  کھڑا بائیں  جانب کی پہاڑیوں  کو اور سامنے  سمندر کی وسیع دوریوں  میں  واقع جزیروں  کو دیکھ رہا تھا۔ آسمان صاف تھا لیکن کہیں  اس میں  بادل پگھلے  ہوئے  لوہے  کی طرح سفید سفید چمک رہے  تھے  کچھ پرندے  آسمان میں  اڑ رہے  تھے  جیسے  ہواؤں  میں  ہچکولے  کھانے  کا لطف لے  رہے  ہوں۔ اس کا جہاز جزیرہ کے  قریب کھڑا تھا۔ اور اس پر برطانوی پرچم سمندری ہواؤں  کے  تھپیڑوں  سے  لہرا رہا تھا۔ جہاز کے  انجن کا دھواں  آسمان کی جانب اٹھ کر مشرق کی طرف ہواؤں  کے  ساتھ بدلیوں  میں  جا رہا تھا۔

خالد سہیل کو کیپٹن بائک برطانوی سلطنت سے  چھوڑے  گئے  ان ہزاروں  شہ بازوں  میں  سے  ایک لگا تھا جو کرہ ارض کے  گوشے  گوشے  میں  اپنی خوراک ڈھونڈنے  کے  ساتھ برطانوی حکومت کا پرچم بھی گاڑنے  نکلے  تھے۔

کیپٹن بائک  اکیڈمی کے  ذہین ترین افسروں  میں  سے  ایک تھا۔ وہ تین سال  سے  برطانوی فوج میں  افریقہ میں  کام کر رہا تھا کہ اچانک ایک دن اسے  لندن کے  ہیڈ کوارٹرز میں  بلایا گیا تھا۔ کئی روز کے  پانی کے  جہاز کے  سفر کے  بعد جب وہ اپنے  چست درست یونیفارم میں  ملبوس ہو کر جب وہاں  پہنچا تو اس کی تین بڑے  افسروں   کے  سامنے  پیشی ہوئی جن کے  سامنے  اس کا ریکارڈ رکھا ہوا تھا۔ اس کے  ریکارڈ میں  جھانکتے  ہوئے  ان میں  سے  ایک نے  اس سے  کہا۔

‘We appreciate that you have been doing very well in what ever command you have been sent. Now we want to assign you more important things.’

اس کے  بعد سب سے  بڑے  افسر نے  کہا۔

‘Now we want to give some independent charge. We are making you in charge of the islands of Andaman & Nicobar.

We are sending you to Port Blair.

These islands are an important piece  of our territory and need to be exploited fully to make make the best possible gains from it. That will be exactly your task. You have to consolidate the British establishment there. We have been making efforts for the same but have not succeeded so far because all efforts have been casual. Now a serious effort has to be made.

These islands have scope for sea routs, it has forests and it has people. You have to see what best use of these resources can be made. The place is very important as it is located at a linking and turning point in the sea routs covering the south/Asia and Africa. Secondly the forests there are full of wealth. See how far it can be exploited. It has been surveyed that high quality wood is there. Thirdly you have a human resource. You have to see how far this resource can be exploited. The population is of tribals. They have been extremely hostile so far. See if that population can be increased and used as good labor. See whether it can be tamed. If not it has to be either contained or eliminated as they are a problem. Survey and give your suggestions.’

کیپٹن بائک یہاں  تاریخ کی سڑک کے  ایک مخصوص سنگ میل پر کھڑا تھا۔ ان جزیروں  پر قدیم زمانے  سے  ہی جہاز اور کشتیاں  آتے  رہے  تھے۔

چونکہ کرہ ارض کو قبضہ کرنے  کی دوڑ میں  یورپ کی کئی قومیں پوری طاقت سے  سمندروں  میں  اتر گئی تھیں۔ اس جگہ کو آباد کرنا اور یہاں  عمارتیں  بنانا ضروری ہو گیا۔ کیپٹین باٹیک اسی کام کے  لئے  یہاں  بھیجا گیا تھا۔ لیکن کیپٹن بائیک ایک آ زاد ملک کا انسان تھا جو برطانوی افسر ہونے  کے  ناطے  برطانوی حکومت کے  اقتدار کا خود ایک حصہ تھا، وہ مزدور نہیں  تھا جو صرف اپنی زندگی کو کام کام اور کام کے  نام پر نقطۂ نظر سے  دیکھتا ہے۔ وہ تاجر بھی نہیں  تھا جو ہمیشہ اپنی آمدنی بڑھانے  کی تدبیریں  سوچنے  میں  غرق رہتا۔ وہ اپنے  کام کو کام کے  دائرے  میں  رکھتا تھا اور فرصت کے  اوقات میں  زندگی اور دنیا کا لطف لینے  میں  مشغول رہتا۔ اس کے  اپنے  نقطۂ نظر سے  ان جزیروں  میں  اس کے  آنے  کا مقصد صرف یہاں  پر دئے  گئے  مہم کو پورا کرنا نہیں  تھا بلکہ اس نئی جگہ کے  حسن کا انکشاف بھی تھا۔ جیسے  ہی اس جگہ کے  ہنگامی انتظامات سے  اسے  تھوڑی فرصت ملی اس نے  اپنے  ذہن کو اس کے  جھمیلوں  سے  آزاد کر لیا اور ایک صبح صرف اس غرض سے  کہ وہ اس جگہ کو بھرپور نظر سے  دیکھ کر اس کا لطف لے  گا‘ وہ خیمہ سے  باہر نکلا۔ اپنی ٹینٹ والی جگہ سے  وہ کسی اونچے  مقام پر پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے  محافظوں  کے  ساتھ پورٹ بلیر کی سب سے  اونچی چوٹی پر پہنچا اور وہیں  گھاس پر بیٹھ گیا۔ اس کے  محافظوں  نے  وہاں  ایک چھتری گاڑ دی، کرسیاں  لگا دیں او ر ایک خوبصورت منقش گلاس میں  پینے  کا پانی نکال کر دیا۔ ایک دو سپاہی ناریل توڑ کر لانے  چلے  گئے۔ کرسی پر آرام سے  بیٹھ کر کیپٹن بائیک نے  اس جگہ کو دیکھا جو اب برطانوی حکومت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔ یہ جزائر اجتماعی طور پر ایک طویل سلسلہ تھے  جس میں  ایک ہزار سے  زیادہ جزیرے  تھے  جن میں  کچھ کے  اوپر اونچے  اونچے  پہاڑ تھے او ر کچھ سطح سمندر سے  محض چند فٹ اوپر تھے۔ چند ایک کو چھوڑ کر ان تمام جزیروں  میں  گھنے  ہرے  پودے او ر بیش قیمت لکڑیوں  والے  جنگل تھے  جن میں  کچھ درختوں  کا شمار دنیا کے  بلند ترین درختوں  میں  کیا جا سکتا تھا۔ ان میں  کچھ جزیرے  بہت بڑے  علاقوں  پر پھیلے  ہوئے  تھے  تو کچھ جزیرے  ایسے  بھی تھے  جو برطانوی افسروں  کے  بنگلوں  سے  بھی مختصر تھے۔ ساحلوں  پر کچھ مقامات پر کورل کے  ٹکروں او ر بالو سے  ایسے  خوبصورت پیٹرن بن گئے  تھے  جیسے  کوئی ہندوستانی عورت بنارسی ساڑی پہنے  ہوئی ہو اور اس کا کنارہ زمین کو چھو رہا ہو۔ ہندوستانی عورتوں  کو اس نے  انگلینڈ سے  انڈمان آتے  ہوئے  کلکتے  میں  دیکھا تھا جہاں  اسے  ایک انگریز، ایک ہندوستانی شادی کے  جشن کو دکھانے  لے  گیا تھا۔

وہاں  سے  ڈاب پینے او ر پہاڑوں  کی پینٹنگ بنانے  کے  بعد وہ نیچے  اترا اور چھوٹے  چھوٹے  جزیروں کے  اندر کشتی سے  گیا۔ یہاں  اس نے  ان جزیروں  کے  کناروں  کو بہت قریب سے  دیکھا۔

کئی جگہوں  پر ہرے  گھنے  چھوٹے  پیڑ تھے  جن کو پانی نے  نیچے  سے  ایسے  تراش دیا تھا جیسے  یہ کام کسی ماہر مالی نے  کیا ہو۔ کئی جزیروں  کے  بیچ سمندر  دور تک ندی کی طرح گھسا ہوا تھا جن میں  پانی کی اونچائی کم ہونے  کی وجہ سے  خوبصورت چھوٹے  چھوٹے  اکے  دکے  پیڑ اگے  ہوئے  ٹیلے  پیدا ہو گئے  تھے۔

ادھر جابجا اس کی نظر پانی کی سطح پر چلی جاتی جہاں سمندری مچھلیاں  اچھل اچھل کر ہوا میں آتیں او ر پھر پانی میں  چلی جاتیں۔ لیکن کہیں  کہیں  بڑے  جزیروں  کے  کنارے  سخت اور انتہائی نوکیلے  پتھر تھے  جن سے  ٹکرا کر کوئی بھی جہاز یا کشتی پاش پاش ہو سکتی تھی۔

’میر علی سے  اس شخص کی آنکھیں  ضرور ٹکرائی ہونگی۔ ‘ خالد کے  ذہن میں  یہ خیال بجلی کی طرح کوندا۔

کیپٹن بائیک یہ سب دیکھ کر بے  حد مسرور ہو رہا تھا۔ یہاں  کا پھیلا ہوا حسن اسے  اس قدر شادمانی دے  رہا تھا کہ اسے  محسوس ہو رہا تھا جیسے  یہ خوبصورت دنیا اسی کے  لیے  بنی ہو۔ اس کی اجنبیت دھیرے  دھیرے  ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے  ساتھیوں  نے  دیکھا،کیپٹن باٹیک اتنی باریک بینی سے  اس اجنبی دنیا کا معائنہ کر رہا تھا جیسے  اسے  یہاں  اپنا گھر بنانا ہو۔ شاید کیپٹن نے  سوچا یہ جگہ جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے  لیے  اس برطانوی حکومت کا حصہ بن گئی ہے  جو پورے  روئے  زمین پر پھیل چکی ہے  تو یہ اب اجنبی کہاں  رہی۔ اب اس جگہ میں او ر برطانیہ میں  کیا فرق ہے ؟اس جگہ کو سنوارنا، اس کی دولت کو اجاگر کرنا، اس کو آگے  بڑھانا تو اب ہمارا کام ہے۔ اس جگہ کو انگریزوں  کے  ایک خوبصورت شہر میں  بھی تو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

Let me think frankly

یہ جگہ تو انگلینڈ کی کسی بھی جگہ سے  زیادہ خوبصورت ہے۔

ہاں  یہ ضرور ہے  کہ ابھی یہاں  قبائلیوں  کا قبضہ ہے او ر ان کی آبادی ہے۔ ان کا یہاں  زیادہ تعداد میں  ہونا مناسب بھی نہیں۔ اگر یہاں  ہمارے  سوا صرف یہی ہوں  تو یہ کبھی بھی متفق ہو کر ہمارے  لیے  خطرناک صورت حال پیدا کر سکتے  ہیں۔ اس کو یاد آیا کہ جب اس کے  بزرگ امریکہ گئے  تھے  جہاں  ریڈ انڈین قبائلیوں کی بڑی آبادی تھی تو کس طرح اور کیوں  انہوں  نے  ریڈ انڈین قبائلیوں  کو لال چیونٹیوں  کی طرح مسل مسل کر ختم کیا تھا۔ یہاں  بھی کچھ ایسا ہی کرنا پڑے  گا۔ اگر ہم نے  یہاں  کی آبادی سے  دوستی کر کے، انہیں  تحفظ کا احساس دلا کر ان سے  مزدوروں  کا کام لیا بھی تو ایک نہ ایک دن ہمارا یہ اقدام سردردی بنے  گا۔ اس سے  بہتر ہے  کہ مین لینڈ سے  یہاں قیدی لائے  جائیں۔

اس جزیرہ میں  صرف چند ہی مقامات ایسے  تھے ، جہاز محفوظ طریقے  سے  جہاز لنگر انداز کیے  جا سکتے  تھے او ر ان میں  یہ جگہ جہاں  وہ اترے  تھے  مناسب ترین تھی۔ وہ یہ انداز ہ بھی لگا سکتا تھا کہ سمندری دنیا کے  اس علاقہ میں  جہاں  سورج سیدھے  سر کے  اوپر آ جاتا تھا سردیوں  کے  موسم میں  سمندر بہت نرم رو ہوتا تھا لیکن گرمیوں  کے  موسم میں  اپنی اونچی اونچی درختوں  جیسی اونچی لہروں او ر تیز ہواؤں  کی وجہ سے  خطرناک تھا اور صرف کسی جزیرے  کے  پیٹ میں  گھس کر ہی محفوظ رہا جا سکتا تھا۔

یہاں  بندرگاہیں  بنانا سب سے  پہلی ضرورت ہے۔

’بندرگاہوں  کی تعمیر میں  میرے  پردادا نے  غالباً  کام بھی کیا ہو۔ ‘ بار بار اسے  اپنے  پردادا کی یاد آ جاتی تھی لیکن اب اس کو اپنے  مقدمے  کی یاد نہیں  آتی تھی۔ جب یہ سب ہونا تھا تو اس مقدمہ کی سچائی میں  کیا رکھا تھا۔ یہاں  تپ اصل تماشہ ہی کچھ اور تھا۔

تفریح کے  لیے  نکلے  کیپٹن باٹیک کے  ذہن میں  اس کی سیاسی سوچ کو ابھرنے  میں  دیر نہیں  لگی تھی۔

جہاز پہنچے  ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن فوری ضرورت کی مصروفیات نے  کیپٹن باٹیک کو اتنا منہمک رکھا کہ وہ سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھ ہی نہیں  پایا لیکن ٹھہرنے  کے  انتظام کے  مکمل ہونے  کے  بعد اسے  فرصت ملی تو اس جگہ کے  وجود کو پہلی بار محسوس کیا۔

کیپٹن باٹیک انتہائی انہماک سے  ان تمام نکات کو سمجھنے  کی کوشش کر رہا تھا، صرف اس لیے  نہیں  کہ یہ سب کچھ بہت خوبصورت تھا بلکہ اس لیے  کہ ان نکات کی تجارتی اہمیت بہت بڑی تھی۔ کیپٹن باٹیک نے  اس جزیرے  کی تیز دھوپ میں  عینک لگا کر آج ایک بار اس جگہ کو گویا ٹھیک سے  دیکھا۔ اس سے  پہلے  یہ جگہ خوابناک سی ہی لگی تھی۔ وہ جہاں  کھڑا تھا اس کے  اتّر کی جانب سمندر میں  کھڑا اس کا جہاز ڈول رہا تھا۔ دن میں  سمندر میں  لہریں  ایسے  اٹھ رہی تھیں  جیسے  پانی نہیں  ہو، پہاڑیاں  ہوں، لیکن شام کے  وقت سمندر اس قدر خاموش ہو جاتا کہ اس میں  جہاز کا عکس تک دکھائی دینے  لگتا جیسے  ایک جہاز سمندر میں  سیدھا کھڑا ہو اور ایک جہاز الٹا پانی کے  اندر  لٹکا ہوا ہو۔

شام کا دھندلکا شروع ہوتے  ہی ساحل پر زور زور سے  پانی کو پٹکتی ہوئی لہریں  ایک پر اسرار سا ہنگامہ پیدا کرتی تھیں۔ ابھی پچھلی شام کو ہی وہ وہاں  اترتا چلا گیا تھا،جہاں  سیپیوں  کے  ٹکڑے  اپنی فطری شکل میں  بکھرے  ہوئے، اپنے  انوکھے  حسن کی وجہ سے  جادو جگا رہے  تھے۔ پانی دور تک اندر کی طرف سرک گیا تھا، جیسے  سمندر سو گیا ہو لیکن پھر وہ چند ہی  گھنٹوں  کے  بعد جاگ اٹھا تھا۔

سامنے  پورب کی طرف کوئی آدھ میل کی دوری پر ایک جزیرہ تھا جس میں   دوسرے  جزیروں  ہی کی طرح کافی ہری بھری جھاڑیاں او ر درخت تھے  لیکن اس کا ساحل یوں  بے  حد دلکش لگ رہا تھا کہ اس کا کوڑی بیچ ایک عجیب حسن پیدا کر رہا تھا جس کو دیکھ کر وہاں  پہنچنے  کی ایک خواہش بار بار دل میں  لہرا جاتی۔

اس بیچ کے  حصے  میں  پانیوں  میں  جا بجا کئی چھوٹے  چھوٹے  جزیرے  دکھائی دے  رہے  تھے  جس پر لگے  پیڑ ان جزیروں  کی تنہائی کو اور اجاگر کر رہے  تھے  لیکن اسے  محسوس ہوا کہ ان پیڑوں  کو کسی قسم کی تنہائی کا احساس قطعی نہیں  ہو گا کیونکہ وہ اس جزیرے  کی مٹی سے  ابھرے  تھے۔ وہ پیڑ وہیں  خوبصورت لگ رہے  تھے۔ اور واقعی بے  حد خوبصورت لگ رہے  تھے۔

پورب کے  اس جزیرے  سے  اس کی نگاہ شمال کی جانب دور کھڑی پہاڑیوں  پر ٹکی۔ اس سے  پہلے  ایک ڈیڑھ میل تک پانی ہی پانی تھا۔ لیکن وہ پہاڑیاں  مغرب کی جانب سے  دوسرے  پہاڑی سلسلوں او ر اس جزیرے  سے  بھی منسلک تھیں  جس پر وہ اس وقت کھڑا تھا۔

وہ بحرِۂ ہند کی اس جگہ پر آیا تھا جہاں  سے  آدھی دنیا کی نگرانی کی جا سکتی تھی۔

 

جہاز سے  سائرن کی پر زور آواز آئی۔ شام کے  چھ بج چکے  تھے۔ کیپٹن ہائیک اترتا ہوا نیچے  وہاں  آیا جہاں  سے  کشتی سے  وہ جہاز میں  واپس جاتا تھا۔ وہاں  اوبڑ کھابڑ پتھر تھے او ر اس سے  آگے  بائیں  جانب مین گروبھ کے  پیٹر سمندر کے  کنارے  پر اگے  ہوئے  سطحِ سمندر سے  تقریباً چپکے  ہوئے  تھے۔

وہ چلتا ہوا ڈنگی میں  بیٹھ گیا اور ڈنگی پانی میں  چل پڑی۔ اس نے  نیچے  پانی میں  ہاتھ ڈال کر اس کے  لمس کے  لطف کو محسوس کیا۔ پانی کا درجہ حرارت معتدل اور رنگ صاف تھا۔ اس کے  منہ پر ایک کیڑا اڑ کر بڑا جسے  اس نے  ہاتھ سے  اڑایا اور پھر منہ پونچھا۔ انگلیوں  کے  ہونٹ پر پڑنے  سے  اس کے  کھارے  پانی کے  نمک کا ذائقہ منہ میں  آ گیا۔ پورا سمندر کھارے  پانی سے  بھرا تھا۔

چند دن پہلے  وہ جب جہاز سے  یہاں  اترا تھا تو اسے  لگا تھا کہ اسے  اس کے  دوار سے  کسی پیڑ کی طرح اکھاڑ لیا گیا ہے او ر اسکی مٹی اس کے  اپنے  قدموں  تلے  کہیں  پیچھے  چھوٹ گئی ہے۔ لیکن آج اسے  یہ جگہ مانوس سی لگی تھی۔

اس کی جڑیں  پیاسی زباں  کی طرح کسی نئی چیز  کے  لیے  بیقرار ہو گئیں۔

ہمیں  ان جنگلوں  میں  میٹھے  پانی کی تلاش کرنی ہے۔

کوئی چشمہ، کوئی تالاب، کوئی نالا۔ لیکن تلاش کے  لیے  انھیں  ان گھنے  جنگلوں  میں  گھسنا پڑے  گا اور وہ قبائلیوں  کی زندگی اور ان کے  حربوں  سے  ابھی اس قدر ناواقف تھے  کہ ابھی ان کے  اندر خود اعتمادی پیدا نہیں  ہوئی تھی۔ لیکن پانی تلاش کرنا بے  حد ضروری اور ہنگامی ضرورت تھی چاہے  اس کے  لیے  قبائلیوں  کے  بیچ ایسے  جانا پڑے  جیسے  جنگ میں  سپاہی تیروں  کی بوچھار کے  سائے  میں  آگے  بڑھتے  ہیں۔

کیپٹن  بائیک نے  ایک نگاہ اس خیمہ پر ڈالی جو جزیرے  پر لگائی گئی تھی اور جس کے  چاروں  طرف گارڈس لگے  تھے،جس کے  قریب ایک فوجی دستہ رہتا تھا،جن کے  جسموں  پر خود تھے۔ اور ہاتھوں  میں  نوکیلی رائفلیں  تھیں۔ اور حملہ آوروں  پر یا جنگل سے  برآمد ہوئے  قبائلیوں  کو بلا تکلف گولی مار دینے  کی ہدایت تھی۔

کیپٹن بائیک انتظامات سے  کافی مطمئن تھا۔

رات میں  رقص ہوتا رہا۔ رم چلتا رہا۔

بے  تکی باتیں  ہوتی رہیں۔

’فوجی ڈرنک‘

’جی ہاں ، گھوڑے  کو پلا دو تو خچرّ سے  لڑنے  لگے ؟ ہا ہا ہا!

لیکن گھوڑے  کو رم پلائیں  کیوں ؟

خچرّ نہیں  ملا تو کیا ہو گا؟

تم کیوں  پریشان ہو۔

وہ گھوڑے  آئیں  گے او ر خچرّوں  کو نہیں  پا کر کہیں  خود ہم سے  نہ لڑنے  لگیں  اس لیے  میں  تنہائی میں  زیادہ راحت محسوس کرتا ہوں۔

کیا؟یہ تنہائی کیا چیز ہے ؟ کائنات کی ہر چیز، ہر ذرہ تنہا ہے۔

اور کچھ کہنا؟

سوری سر، سلاد بنانے  کے  لیے  کوئی سبزی باقی نہیں  رہی۔ یا تو سبزیاں  سڑ گئیں  یا پک چکیں یا پھینک دی گئیں۔

یہاں  صرف جنگل تھے  کوئی بازار نہیں  تھا,. کوئی سڑک نہیں  تھی، ہریالیاں  تھیں  لیکن انسان کے  کھا نے  لائق کوئی سبزی نہیں تھی۔ جیسے  یہ قبائلی ویسے  یہاں  کہ پیڑ پودے او ر جھاڑیاں۔ یہاں  چاروں  طرف پانی ہے او ر پھر بھی پیاسے !پانی کے  لیے  پریشان- اور ہماری تکلیف کون سمجھ سکتا ہے  کہ انسان پانی لینے  کے  لیے  ہزاروں  فٹ کی گہرائیوں  تک اتر جاتا ہے۔ اور خصوصاً عورتیں، کہ ان میں  صبر کا مادہ بہت ہوتا ہے۔

عورتیں ؟ عورتیں ؟ یہاں ؟ خوشبو؟ خیال یا کوئی رومانی چھیڑخانی، یہاں  ہم کام کرنے  آئے  ہیں  وار فوٹنگ پر۔

لیکن ان قیدیوں میں  عورتیں بھی ہونی چاہئے۔

’تو لکھئے ‘

اور اس نے  لکھا۔

اس نے  اپنے  پردادا کے  بارے  میں  ایک خاص بات یہ سن رکھی تھی کہ وہ عورت کے  بغیر ایک ساعت بھی نہیں  رہ سکتے  تھے۔ پھر وہ یہاں  کس طرح رہے  ہوں  گے۔ اس کو اپنے  پردادا کی اس جنسی بے  چینی کا احساس ہوا جس سے  وہ گزرے  ہونگے۔ وہ تھوڑی دیر کے  لئے  یہ بھول ہی گیا تھا کہ وہ اس کے  پردادا تھی اور سچ بھی یہی تھا کہ اب تو وہ اس کے  لئے  ایک قیدی رہ گئے  تھے او ر انہیں  تمام قیدیوں  کی طرح ایک قیدی تھے  جیسے  دوسرے  تھے۔ اور پھر وہ بھی تو اس وقت اسی طرح ایک نوجوان تھے  جیسے  اس وقت وہ خود تھا۔ اور دونوں  کے  دکھ بھی لگ بھگ ایک جیسے  تھا۔

’یہاں  کے  قبائلی فطرتاً خونخوار ہیں۔ ان کو پالتو بنانا ممکن نہیں۔ اس لئے  دوسرا راستہ صرف یہ ہے  کہ ان کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے  کہ یہ گھنے  جنگلوں  کے  بہت اندر رہتے  ہیں اور ان کو آسانی سے  پوری طرح ختم نہیں  کیا جا سکتا بلکہ ن کو مارنا بہت مشکل ہے  کیونکہ یہ اب سامنے  نہیں  آتے۔ ان کو ختم کرنے  میں  بہت بڑی تعداد میں  انگریز فوجوں  کا جانی نقصان ہو گا۔ ا س لئے  اس صورت میں  جو سب سے  معقول تجویز ہے  وہ یہ کہ ان کو جنگل کے  اندر دھکیل دیا جائے  یعنی ان کو ایک کونے  میں  مقید کر دیا جائے او ر بیچ میں  ایک لائن کھینچ دی جائے۔ اور دوسری طرف مزدوروں  کی جو ضرورت ہے  اس کے  لئے  کہیں او ر سے  کام کرنے  والے  لائے  جائیں۔ لیکن زہریلے  کیڑوں ‘ ملیریا اور قبائلیوں  کے  حملے کی وجہ سے  مزدوروں  کا یہاں  ٹکنا مشکل ہے  اس لئے  سب سے  مناسب تجویز یہ ہے  کہ یہاں  ایسے  مزدور لائیں  جائیں  جو یہاں  ٹکنے  کے  لئے  قانونی طور پر پابند ہو یا پھر قیدی لائے  جائیں۔

اگر قیدی لائے  گئے  تو ان سے  ہم یہاں  ایک مستقل آبادی بسا سکتے  ہیں۔ یہاں  تقریباً دس لاکھ قیدی بسائے  جا سکتے  ہیں لیکن ان سے  کام لینے  کے  لئے  ان کو صحت مند رکھنا ہو گا۔ جہاں  تک قبائلیوں  کا تعلق ہے  ان کا دھیرے  دھیرے  مکمل خاتمہ ہی کرنا ہو گا۔ لمبے  پروگرام میں  ان کو ختم کرنے  میں  نسبتاً بہت کم خرچ آئے  گا۔ لیکن فی الوقت تو ان کو علیحدہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے  بہترین تجویز یہ ہے  کہ اس جگہ کو مجرم بستی بنا دیا جائے۔

کیپٹن بائیک نے  کلکتہ کے  ہیڈکواٹر کو اگلے  خط میں  کچھ ملزم عورتیں  بھیجنے  کی گزارش کی۔ عورت ضروری ہے  ورنہ یہ جگہ آباد کیسے  ہو گی۔ ہمیں ایسے  بچے  چاہئے  جو یہاں  پیدا ہوئے  ہوں۔۔۔  ان جزیروں  پر؟ اس کھارے  پانی کے  بیچ؟ ان مچھروں  کے  بیچ ان قیدیوں  کی زنجیروں  کی آوازوں  کے  بیچ ہماری رائفلوں اور ان سے  بے  دھڑک نکلتی ہوئی گولیوں  کے  سائے  میں۔

’ میں  بھی اس مٹی میں  کیا کیا بونے  جا رہا ہوں ؟کیپٹن بائیک کا دل اداس ہو گیا۔ وہ ایک فوجی تھا اسمارٹ اور پر حوصلہ۔ کمزوری کی باتیں  اسے  پسند نہیں  تھیں۔ ہم پتھر سے  بچے  پیدا کرنے  جا رہے  ہیں۔ مچھر، مکھیاں، اور کیکڑے او ر نہ جانے  کیا کیا۔ کچھ گھناؤنے  خیالات   کائی کی طرح اس کے  دل پر جم گئے۔ ‘

oo

 

 

 

 

 

ساحل پر چلتی ہوئی تیز ہوائیں، کیپٹن ہاٹیک کے  اندر اپنے  ملک سے  ہزاروں  میل دور ہونے  کے  احساس کو گہرائی سے  بیدار کر رہی تھیں۔ وہ خیمے  کے  باہر کھلی جگہ پر کھڑا تھا۔ سامنے  سیاہ و تاریک پہاڑیاں  تھیں  جن پر ناریل کے  پیڑوں  کی جھنڈ یہاں  کی ویرانی کو اور بھی بڑھاوا دے  رہی تھیں۔ خیمہ کے  اندر ایک جلتی ہوئی لالٹین لٹک رہی تھی۔ آگے  تھوڑی دور پر پانی میں  وہ جہاز کھڑا تھا۔

یہاں  کا کام کم از کم سال دو سال کا تھا۔

وہ سوچتا ہوا خیمہ کے  اندر چلا آیا۔ ٹیبل پر اس کے  لیٹر پیڈ کا ایک ورق ہلکی ہلکی ہوا کے  جھونکوں  میں  پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس نے  اس صفحہ پر پیپرویٹ رکھنے  کے  بجائے  اسے  یوں  ہی چھوڑ دیا اور کرسی پر بیٹھ کر پھر انھیں  پہاڑیوں او ر ناریل کے  پیڑ کے  جھنڈوں  کے  تصور میں  کھو گیا جن کے  درمیان وہ تھوڑے  سے  فوجیوں  کی ایک ٹکڑی لا کر اس جگہ کو انسانوں  کی آبادی کے  قابل بنانے  کا آغاز کرنے  کے  لیے  آیا تھا۔

اس کے  خیالوں  کا تسلسل اچانک تب ٹوٹا جب نیچے  اسکی ٹانگ میں  ایک مچھر نے  زور کا سے  کاٹ لیا۔ اس نے  ہاتھ سے  پاؤں  پر بیٹھ کر خون چوستے  ہوئے  مچھر کو مارا تو اس کی ہتھیلی پر خون کا سرخ دھبہ لگ گیا۔ کہیں  قریب میں  پانی بھی نہیں  تھا جس سے  وہ اپنی گندی ہتھیلی کو دھو لیتا۔ پھر کچھ اور مچھر ہوا میں  تیرتے  ہوئے  دکھائی دیے۔ باہر ہوا مدھم ہو گئی تھی۔ اور مچھر متحرک ہو گئے  تھے۔

کیپٹن ہاٹیک نے  اپنے  کیریئر کے  آغاز سے  ہی مہم جو ہونے  کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ مسلسل ایسی ذمہ داریاں  لیتا جا رہا تھا جس میں  اسے  ایسی جگہوں  پر جانا پڑے  جہاں  دوسرے  جانے  سے  کتراتے  ہوں۔ اس نے  اپنی بیوی کو ایک خط لکھا جو برطانیہ میں  کسی اسکول میں  پڑھاتی تھی:

’’میری شیریں  شریک حیات!

مجھے  یہ جگہ بے  حد پسند ہے  لیکن یہ اسی قدر ہولناک بھی ہے۔ یہاں  کے  جنگلی انسانوں  کا شکار کر لیتے  ہیں۔ میں  یہاں  آنے  کے  بعد یہی سوچ رہا ہوں  کہ اگر کل یہاں  آبادی ہوئی تو اس میں کس سے  قسم کے  لوگ ہوں  گے ؟ اور کون سے  لوگ ہوں  گے  ؟ اور کون یہاں  آنا پسند کرے  گا۔ اور کیوں  آئے  گا۔ میں  محسوس کر رہا ہوں  کہ میری ساری محنت اکارت جائے  گی۔ اور یہ سوچ کر مجھے  مایوسی ہونے  لگتی ہے۔ حکومت نے  اس کام میں  دلچسپی لی ہے  لیکن وہ محض اس لیے  کہ ان جزائر کی فوجی اہمیت بہت ہے۔ لیکن مجھے  اس جگہ کو آباد کرنے  کے  لیے  بھیجا گیا ہے او ر یہ توقع بھی مجھ ہی سے  کی جاتی ہے  کہ میں  یہ تجویز پیش کروں  گا کہ یہاں  کی آگے  کی پلاننگ کیا ہوئی۔

لیکن میں  یہی سوچ رہا ہوں  کہ یہا ں  آئے  گا کون؟

تمہارا ہائیک

کیپٹن بائیک وہاں  اپنے  دستے  کے  ساتھ کھڑا تھا۔ پورا دستہ اس وقت وردی میں  تھا۔ کیپٹن ہائیک ان کی گنتی لے  رہا تھا۔ دور چاروں  طرف جنگل کی جانب منہ کیے  ہوئے  دس رائفل بردار چوکنا کھڑے  تھے  تاکہ اس دستے  کی ان جنگلی قبائلیوں  سے  حفاظت کر سکیں  جو اپنے  تیر کمان کے  ساتھ اچانک حملہ آور ہوتے  تھے او ر جن کا نشانہ اچوک تھا۔

کیپٹن بائیک اپنے  خیمے  میں  بیٹھا تھا کہ اس کے  ایک ماتحت نے  اس کو خبر دی کہ تین جوانوں  کو بخار آ رہا تھا اور  وہ جہاز میں  بستر علالت پر تھے او ر اس لیے  پریڈ میں  شامل نہیں  ہو سکتے  تھے۔

’ملیریا؟‘

’جی ہاں  ساری علامتیں  ملیریا کی ہیں۔ ‘

اچانک ایک سپاہی پریڈ میں  سے  اچھلا۔ اس کے  پاؤں  پر ایک کیڑا چڑھ رہا تھا۔

’یہ کیا ہے ؟‘

’یہ کوئی بہت ہی عجیب سا کیڑا ہے۔ ‘

مجھے  امید ہے  یہ زہریلا نہیں  ہے۔

لیکن میرے  ہاتھ میں  کھجلی ہو رہی ہے۔ میں  نے  اسے  اپنے  ہاتھ سے  مار کر گرایا تھا۔ یہ تو کوئی انتہائی زہریلا کیڑا لگ رہا ہے۔

خدا کرے۔ یہ بے  ضر ر ہو، یہ اس جگہ کی ایک اور اجنبی چیز ہے۔

یہ ایک  کنکھجورا تھا۔

کیپٹن بائیک سمجھ گیا کہ اس جگہ رہنے او ر کام کرنے  میں  جو دشواریاں  ہیں  وہ چند ہی دنوں  میں  اس کے  جوانوں  کا حوصلہ پست کر سکتی ہیں  اس خطرے  کو تاڑتے  ہی اس کو اپنی ٹریننگ یاد آئی۔

’’جوانوں  کا حوصلہ بلند رکھنا ضروری ہے۔ ‘‘

اسے  محسوس ہوا کہ حوصلہ افزا تقریر کرنے  کی جو تربیت اسے  ملٹری اکیڈمی میں  ملی تھی اس کے  استعمال کرنے  کا وقت آ گیا ہے۔

اس نے  شام کے  وقت خیمے  کے  سامنے  عارضی طور پر جنگل کی صفائی کر کے  بنائے  گئے  پریڈ میں  پوری فوجی ٹکڑی کو بلایا اور اچھی طرح سوچ کر اپنی تقریر تیار کی۔

پریڈ گراؤنڈ میں  اس نے  سیلوٹ لینے  کے  بعد جوانوں  کو مخاطب کیا۔

’نوجوان افسر،بنجر زمینیں  یوں  آباد نہیں  ہوتی۔ پہلے  وہاں  رہنے  کی عادت کی بو فضا میں  بسانی ہوتی ہے۔ گھر ہو یا جزیرے  رہنے  سے  آباد ہوتے  ہیں۔ یہ جگہ انتہائی خوبصورت ہے۔ اگر خدا نے  انسان کو یہاں  پہلی بار اتارا ہوتا تو شاید اسے  جنت سے  نکالے  جانے  کا اتنا افسوس نہیں  ہوتا جتنا اور جگہوں  پر اترنے  سے  ہوا، کیپٹن نے  لوگوں  کے  مذہبی اور قومی مزاج کو سامنے  رکھتے  ہوئے  اپنی تقریر میں  پوری دنیا میں پھیلتے  ہوئے  برطانوی سامراج کی اہمیت اس سلسلے  میں  ہر انگریز کی ذمہ داری اور فرض، اور زمین پر ابھرتے  ہوئے  سب سے  بڑے  اس سامراج کی عظمت کا ذکر کیا اور ہر قیمت پر اس کام کو پورا کرنے  کی ترغیب دی جس کے  لیے  برطانوی حکومت نے  ان پر مکمل بھروسہ کر کے  انہیں  یہاں  بھیجا تھا۔

تقریر کے  بعد چائے  پیتے  وقت ایک جونیئر افسر نے  کیپٹن ہائیک سے  کہا۔

’’ مجھے  ایک شک ہے  سر۔ اگر ہم محنت سے  کچھ جگہ صاف کر کے  ایک اچھا میدان تیار کر لیں  تو بھی ہمیں  اس سے  کیا حاصل ہو گا، تھوڑے  دنوں  کے  بعد وہاں پیڑ اور جنگلی جھاڑیاں  اُگ آئیں  گے۔ ‘‘

کیپٹن بائیک کو یاد آیا کہ وہ اسی بات کی نزاکتوں  پر تو پچھلے  دن سوچ رہا تھا۔ لیکن ابھی کسی نتیجے  پر نہیں  پہنچ پایا تھا کہ کیونکہ اسے  یہ خیال آ رہا تھا کہ اگر ہندوستانی مزدور لالچ یا ٹھیکہ دے  کر لائے  بھی گئے  تو اتنے  جوکھم بھرے  کام کو وہ دل سے  قبول نہیں  کریں گے او ر بالآخر واپس جانا چاہیں گے۔ اس کے  ذہن میں  ایک ترکیب آئی یہاں  ہندوستان کے  جیلوں  میں  بڑے  قیدیوں  کو لایا جا سکتا ہے او ر ہندوستان کے  مختلف علاقوں  میں  یہ ہدایت جاری کر کے  کہ زیادہ سے  زیادہ ملزموں  کو سزائے  کالا پانی دیا جائے  اس جگہ پر بھاری تعداد میں  کام کرنے  لائق لوگوں  کو لایا جا سکتا ہے۔

اس نے  سنجیدگی سے  جوانوں  کو دلاسا دیا۔

’’ہم اس کا کچھ نہ کچھ مناسب انتظام کریں  گے  کیوں  نہ ہم حکومت سے  یہ کہیں  کہ ان قیدیوں  کو یہاں  بھیج دے  جو ہندوستان کے  مختلف جیلوں  میں  عمر قید کی سزا کاٹ رہے  ہیں۔ یا جن پر پھانسی کی سزا برحق ہو؟ اگر ضائع ہوتی ہوئی انسانوں  جانوں  کا اس قدر نتیجہ خیز استعمال ہو سکتا ہو۔ اس تجویز پر غور کرنا چاہئے۔

’یہ تو ایک قابل قدر خیال ہے۔ مجھے  محسوس ہوتا ہے  کہ مجھے  اپنی اس رائے  کو فورا آگے  بھیجنا چاہئے۔ ‘

کیپٹن بائیک نے  سلوٹ لیا اور پریڈ گراؤنڈ سے  جہاز میں  آ گیا۔ جہاز سے  ساحل کو ایک چھوٹی سی کشتی جوڑتی تھی۔ یہاں اور  بندرگاہوں  کی طرح کوئی جٹّی نہیں  تھی۔ دفتر کا بیشتر حصہ ابھی جہاز پرہی تھا جیسے  جہاز ان جزیروں  میں آ کر بس ابھی لگا ہی ہو۔

کیپٹن بائیک ایک عام برطانوی طالب علم کی حیثیت سے  جمہوری اقدار کے  بارے  میں  جو کچھ پڑھایا گیا تھا وہ سب کچھ بار بار  ان غیر برطانوی علاقوں  میں  کام کرنے  کی برطانوی پالیسیوں  سے  ٹکرا جاتی تھی۔ اسے  بار بار ان فلسفوں  سے  اپنے  ذہن کو صاف کرنا پڑتا تھا۔ اکثر وہ پوری ایمانداری سے  کام کرنے  کے  لیے  کسی ایسی منطقی نتیجے او ر اصول پر پہنچنا چاہتا تھا جو ان برطانوی اقدار سے  بھی میل کھاتا ہو لیکن انتہائی شبہے  کی حالت میں  بھی اسے  ایک بات یاد رہتی کہ وہ برطانوی حکومت کا نمائندہ ہے او ر اس کی پالیسیوں  پر کام کرنا اس کی اٹل ذمہ داری ہے  صبح کی تیز روشنی میں  ان جزیروں  کے  مناظر پورے  آب و تاب کے  ساتھ ابھر آئے  تھے۔ اس لق و دق جزیرے  میں  ساحل کے  قریب لگے  خیموں  کے  سامنے  اپنے  خیمہ کے  اندر چمکتی صاف ستھری میز پر ایک کاغذ نکال کر اور اپنے  خیالات کو مجتمع کر کے  کیپٹن بائک کلکتے  میں  مقیم اپنے  حکام اعلیٰ کو انتہائی سنجیدگی کے  ساتھ ایک خط لکھ رہا تھا جس میں  اس کے  ذہن کی ایک گھناؤنی سازش کاغذ پر اتر کر ہزاروں  معصوموں  کو پرندوں  کی طرح پکڑنے  والی تھی۔

اس نے  لکھا تھا۔ :

’’کلکتے  سے  مراسلہ و مواصلہ بہت ہی مشکل اور  وقت طلب ہے او ر یہ بھی ممکن نہیں  ہو گا کہ یہاں  کوئی عدالت قائم کی جائے۔ اس لیے  ہر قسم کے  اختیارات حتی کہ عدلیہ کے  اختیارات بھی یہاں  کے  جیلر کو ہی سونپ دیے  جائیں۔ ہمیں  یہ بات بھی نظر میں  رکھنی پڑے  گی کہ خاص ہندوستان میں  تو بہت سارے  جیل ہیں  جن کے  چاروں  طرف دیواریں  ہیں  لیکن یہاں  کوئی دیوار نہیں  ہو گی، اس لیے  قیدیوں  کو فرار ہونے  کی کوششوں  سے  باز رکھنے  کے  لیے  کچھ سخت سزاؤں  کے  اختیارات دے  کر جیلر کے  ہاتھ کو مضبوط کرنا پڑے  گا۔ مثلاً جیل سے  فرار ہونے  کی سزا ’موت‘ مقرر کر دی جائے او ر اس میں  ہمیں  کوئی جھجک یوں  نہیں  ہونی چاہئے  کہ انھیں  یہ سزائے  قید سزائے  موت کے  عوض میں  ہی دی گئی ہے  اور اگر وہ اپنے  حدود سے  آگے  گزرتے  ہیں  تو ان کے  لیے  سزائے  موت مناسب ترین سزا ہو گی۔ اس کے  علاوہ ان مجرموں  کی فطرت،خصلت کو سامنے  رکھتے  ہوئے  ہمیں  ایک نہایت اہل جیلر کا انتخاب کرنا پڑے  گا جو قید خانوں  کے  انتظام میں  مہارت رکھتا ہو کیونکہ یہ کام انتہائی ندرت کا ہو گا۔ اس میں  جیلر کے  اوپر کوئی افسر نہیں  ہو گا اور سارے  فیصلے  اسے  خود ہی کرنے  پڑیں  گے۔ اس افسر کے  اندر یہ خود اعتمادی بھی پیدا کرنی پڑے گی کہ یہاں  کی چھوٹی موٹی پالیسی طے  کرنے  کی اسے  مکمل آزادی حاصل ہو گی اور اس کے  اختیارات حتمی ہوں  گے  تبھی وہ اپنے  کو ہنگامی و انتظامی امور میں  زیادہ وسعت نظری سے  فیصلہ کرنے  پر قادر محسوس کرے  گا۔ ‘‘

کلکتہ میں  بائیک کی تجویز کے  پہنچنے  کے  بعد اس تجویز نے  انتظامی حلقوں  میں  تیزی سے  لوگوں   کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ بائک کو اس خیال کے  لیے  سراہا گیا اور ایک میٹنگ طلب ہوئی جس میں  اس کے  مختلف پہلوؤں  پر غور و خوض ہوا اس تجویز کے  مختلف قانونی، سیاسی اور عملی پہلوؤں  پر رائیں  ظاہر کی گئیں۔ ایک ممبر نے  جس کا دماغ کافی قانونی تھا اور جس سے  انتظامیہ کے  لوگ اکثر نالاں  رہتے  تھے  کہا۔

"حضرات! یہ تجویزیں  اچھی ہے۔ لیکن مجھے  یہ تشویش ہے  کہ انتظامی ضرورتوں، انتظامی تدبر اور انتظامی اختیارات کے  نام پر ہم اپنے  ان بنیادی اصولوں  سے  دور جا رہے  ہیں  جن کے  اوپر برطانوی انصاف کا پورا نظام قائم ہے۔ ہمیں  یہاں  کے  لوگوں  کے  بنیادی حقوق کا بھی دھیان رکھنا چاہئے۔ مجرموں  کو جیل میں  سزا کاٹنے  کے  لیے  ڈالا جاتا ہے۔ ان میں  کئی با عزت لوگ بھی ہوتے  ہیں۔ کیا ہم ان کو بندھوا مزدور بنا سکتے  ہیں ؟ ان کی مرضی کے  خلاف انھیں  کام کرنے  پر مجبور کر سکتے  ہیں ؟بغیر اجرت اور معاہدہ کے  ہم ان سے  کام لے  سکتے  ہیں ؟‘

ایک دوسرے  افسر نے  اس کو جواب دیا

’ ہم ایک غیر ملک میں  ہیں ، ہمارا واسطہ برطانوی شہریوں  سے  نہیں  ہے۔ یہ اور لوگ ہیں او ر اس ملک کی سیاسی، معاشرتی،معاشی اور فوجی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ برطانوی شہری حق آزادی کے  ساتھ اپنی ذمہ داریوں  سے  بھی بخوبی واقف ہیں  اور انھیں  از خود نبھاتے  ہیں۔ اس کے  علاوہ وہاں  ہماری جوابدہی اپنے  ملک کے  شہریوں  کے  تئیں  ہے۔ جہاں  تک یہاں  کے  لوگوں  کا سوال ہے  ان کی فکر آپ یا برطانوی شہری کیوں  کریں  ؟ یہ  جب اپنے  حقوق کی بات کریں  گے  تب دیکھا جائے  گا۔ ابھی تو اس ملک میں  ہم جو کچھ کر رہے  ہیں  اس  میں  ہمیں  یہ دیکھنا ہے  کہ برطانوی شہری کیا چاہتے  ہیں ؟ برطانیہ کے  مقاصد کیا ہیں او ر وہ کس طرح پورے  ہونگے۔ ابھی ہمارے  سامنے  ضروری بات یہ ہے  کہ انڈمان کو بسایا جائے۔ ‘

چیرمین نے  فیصلہ کن انداز میں   میٹنگ کا نتیجہ اخذ کرتے  ہوئے  کہا۔

’ برائے  مہربانی آپ ایک فلسفی کی طرح بات نہ کریں۔ ہمارا فرض صرف اتنا ہے  کہ ہم انتظامی امور میں  کامیاب ہوں۔ ہمارے  ملک کے  قانون سازوں  نے   قانون کو عملی جامہ پہنانے  کے   طریقوں  میں  ہمارے  لئے  جو گنجائشیں  رکھی ہیں  اس کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے  ہیں۔ دراصل اس بات کی ہمیشہ ہی گنجائش رکھی جاتی ہے  کہ چاہے  قانون کسی بھی طرح کے  بن جائیں  حکومت ہمیشہ اس کی اہل رہے  کہ اس کی بالا دستی قائم رہے او ر وہ جو چاہے  وہ کرنے  میں  آخر کار کامیاب رہے  چاہے  بعد میں  کچھ بھی ہوتا رہے۔ اس لئے  آپ لوگوں  کو اس کی فکر کرنے  کی قطعی ضرورت نہیں  ہے۔ برطانیہ کے  لوگ ان ہندوستانیوں  کے  لئے  برطانوی حکومت سے  ناراض ہونے  نہیں  جا رہے  ہیں۔ ‘

اور  پھر چیرمین نے  فیصلہ سنایا دیا۔

الجھے  ہوئے ، ٹوٹے  ہوئے ، تباہ شدہ اخلاقیات کا مجسمہ بنے  ہوئے   لارڈ مار لے  یہ فیصلہ سنانے  کے  بعد اٹھ کھڑے  ہوئے۔

جب وہ اپنے  ڈرائنگ روم سے  گزر رہے  تھے او ر اس کے  بعد جب وہ اٹھانے  کے  میز پر بیٹھے  تھے  تو انھیں  محسوس ہوا کہ وہ تحت الشعور کی دنیا کہیں  اندر اندر پگھل رہی تھی اور ایک نیا پیکر اختیار کر رہی تھی۔ میں  تو کسی ایسی چیز کے  دباؤ میں  جھکتا جا رہا ہوں  جسے  میں  خود بھی ٹھیک سے  سمجھ نہیں  پا رہا ہوں۔ ‘

کالا پانی وجود میں  آ گیا۔

oo

 

 

 

سوچتے  سوچتے  خالد سہیل کو تیز بھوک کا احساس ہوا اور اس کے  ساتھ ہی وہ ڈیڑھ سو سال کی سیڑھیوں  کی اونچائی سے  نیچے  اتر آیا۔

وہ ہوٹل کے  جس کمرے  میں  ٹھہرا تھا وہ تقریباً سو سال پرانا تھا، لکڑی کا بنا ہوا جو اسے  اپنی قدامت سے  بخوبی اسے  ماضی سے  جوڑ رہا تھا۔ کھڑکی کی دیواریں، شہ تیر، فرش، فرنیچر سب انڈمان کے  جنگلوں  کے  بڑے  بڑے  درختوں  کی لکڑیوں  سے  ہی بنے  ہوئے  تھے۔ یہ لکڑی کے  مکان غالباً اس لیے  بھی بنائے  گئے  تھے  کہ یہ جزائر کسی ایسے  آتشی لاوا کے  اوپر کھڑے  تھے  جو گاہے  بہ گاہے  زلزلہ پیدا کرتا رہتا تھا۔ غالباً انہیں  زلزلوں  نے  زمانۂ قدیم میں  باہر کے  حملہ آوروں  کے  اندر خوف پیدا کر کے   ان جزیروں  کو غلامی سے  بچائے  رکھا تھا اور غالباً بائیک ایسے  ہی پر اسرار نکات کو سمجھنے  کی مسلسل کوششیں  کر رہا تھا تاکہ وہ یہاں  انگریزی حکومت کا خیمہ مضبوطی سے  ڈال سکے۔

خالد کو یقین ہو گیا کہ کالا پانی مجرموں  کو قید یا جلاوطنی میں  رکھنے  کی جگہ نہیں  تھی بلکہ یہ ویران خطرناک اور لق و دق جنگلوں  کو آباد کرنے  کا ایک پروجیکٹ تھا۔

کالا پانی کے  پہلے  جیلر  کو قیدیوں کی حیات اور موت پر جس قسم کے  آمرانہ اختیارات دیے  گئے  تھے  اس کے  پیچھے  پروجیکٹ کس طرح کار فرماں تھا یہ اب اسے  صاف صاف دکھائی دے  رہا تھا۔ ایک جیلر کو جس چابک دستی سے  ایک کاروباری کا پروجکٹ منیجر بنا دیا گیا تھا اس بات نے  اس کو انگریزی ذہن کی سوچ سے  روشناس کرا دیا تھا۔

یہ نیا رول خود کم نظر ڈاکٹر والکر کے  لیے  ایک چیلنج تھا۔ اس کو بند جیلوں  میں  احساس جرم میں  گرفتار مجرموں  پر سختی کرنے  کا تجربہ تو تھا لیکن ایسے  ملزموں  سے  ان کو کھلے  میدانوں  میں  چھوڑ کر کام لینا جن کو اپنی جان کی ہی پرواہ نہیں  تھی اس کے  تجربے  سے  باہر کی بات تھی لیکن انگریزی حکومت نے  اسے  ایک بھوتھری کلہاڑی کی طرح استعمال کرنے  کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا انتخاب اپنے  آپ میں  ان افسروں  کی ذہنیت کا غماز تھا جنہوں  نے  اس کو اس جگہ تعینات کیا تھا۔

کیپٹن بائیک کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے  کے  لیے  اس کی نزاکتوں  کو مد نظر رکھتے  ہوئے  سب سے  معقول جیلر کی تلاش  شروع ہوئی جو  جنگ آزادی کے  طاقتور کرداروں کو بندھوا غلام بنانے  میں  کامیاب ہو پائے۔

اس زمانے  کا ہر منظر خالد کے  سامنے  ایسے  ابھرتا جا رہا تھا جیسے  وہ انہیں  مناظر کے  آ س پاس کہیں  موجود ہو اور جیسے  ان کو دیکھنا اس کے  مقدر میں  نوشتہ ہو۔ وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا اس کا اگلا منظر کلکتے  میں  واقع تھا۔

چند روز بعد کلکتہ کے  عالیشان دفتر کی بڑی میز کے  پیچھے  بیٹھا ہوا افسر ڈاکٹر والکر سے  کہہ رہا تھا۔

’’ پورے  ہندوستان سے  ہم نے  تمہارا انتخاب کیا ہے۔ تمھیں  انڈمان میں  قیدی بستی آباد کرنا ہے، ہمیں  اس سے  کوئی مطلب نہیں، کہ تم کیسے  یہ کام انجام دو گے۔ لیکن تمہاری اہلیت کا ثبوت اس  بات میں  مضمر ہو گا کہ تم جلد سے  جلد اپنے  مقصد میں  کامیاب ہو کر کامیابی کا تمغہ حاصل کرو۔ ہم تمہارے  اس طویل سفر اور مشکل کام میں  کامیابی کی خواہش کرتے  ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر والکر جو سرکاری زبان سے  اچھی طرح واقف تھا اس نے  اس آواز پر غور کیا۔

’ہمیں  اس سے  کوئی مطلب نہیں  کہ تم کیسے  یہ کام انجام دو گے، ہمیں  اس سے  کوئی مطلب نہیں۔ ‘  یعنی مجھے  اس بات کا پورا اختیار ملا ہے  کہ میں  ان قیدیوں  کو جس طرح چا ہوں  استعمال کروں۔ اس نے  اس نئے  جیل کے  قوانین کو جانچا اور پرکھا۔ ’جو بھاگنے  کی کوشش کرے  اسے  قتل کی سزا جیلر خود دے  سکتا ہے  !یعنی میں  خود ان کی زندگی اور موت کا مالک ہوں۔ کوئی بھاگنے  کی کوشش کرے  نہ کرے … موت کی سزا تو میں  دے  ہی سکتا ہوں … اور پوچھنے  والا کون ہو گا؟ کون گواہ ہو گا؟ اور جب ان کو اس سے  کوئی مطلب نہیں  تو وہ کیوں  پوچھیں  گے  ؟

’ ہندوستان کے  اس ظالم ترین جیلر کو گویا اپنے  ظلم کے  کرتب کو مکمل طور پر دکھانے  کے  لیے  پہلی بار پورا موقع دیا گیا تھا-‘ خالد نے  سوچا۔ اتنے  سارے  انسانوں  کی زندگی پر بے  روک ٹوک اختیار… کوئی انگلی اٹھانے  والا بھی نہیں یہ اختیار تو شاید دنیا کے  بڑے  سے  بڑے  بادشاہوں  کو بھی حاصل نہ ہو سکا تھا کہ انہیں  بھی دیکھنے  والوں  کے  رد عمل کا دھیان رہتا تھا۔

ڈاکٹر والکر کو محسوس ہوا کہ وہ دراصل پہلی بار اختیار کی بہترین اور اعلیٰ ترین لذت سے  آشنا ہوا ہے۔ بڑی بڑی ہستیوں  کو جو قیدی کے  طور پر اسے  دیے  جا رہے  تھے  وہ اپنی مرضی سے  کیڑوں  مکوڑوں  کی طرح مار سکتا تھا یا ان کی گردنیں  پکڑ کر ان کا چہرہ پتھروں  پر رگڑ سکتا تھا۔ دل ہی دل میں  اس کے  اندر جلد از جلد اس لذت سے  ہمکنار ہونے  کی خواہش پیدا ہوئی۔

’’کہیں  ایسا تو نہیں  کہ میرے  پردادا اسی زمانے  میں  کالا پانی  لائے  گئے  تھے۔ ‘‘

خالد کو خیال آیا۔

ڈاکٹر والکر کے  ذہن میں  کلکتے  والے  افسر کی گفتگو کی آواز سمندری لہروں  کی طرح اٹھتی ڈوبتی رہی۔

’ہم نے  تمھیں  اس لیے  طلب کیا ہے  کہ تمھیں  اب خصوصی مہم سونپی جا رہی ہے۔ ہندوستان کی مختلف جگہوں پر کام کرتے  ہوئے  بہت سارے  جیلروں  میں  سے  تمہارا انتخاب تمہاری گذشتہ کارناموں  کو سامنے  رکھتے  ہوئے  کیا گیا ہے۔ اس لئے  تم سے  امید کی جاتی ہے  کہ تم آئندہ بھی اپنے  اس جذبے او ر طریقہ کار کو مشکل سے  مشکل صورتحال میں  بھی قائم رکھو گے۔ ہم اپنے  وفادار اور جفا کش ملازمین سے  یہی امید رکھتے  ہیں۔

ہمیں  امید ہے  کہ تم ہمارے  توقعات پر پورے  اترو گے۔ تمہارے  سامنے  جو مہم ہے  وہ چیلنج بھرا ہوا ہے۔ تمھیں  جزائر انڈمان میں  ایک قیدی بستی کا داغ بیل ڈالنا ہے۔ تمہیں  وہاں  جنگل صاف کروانا پڑے  گا، کچھ عمارتیں  بنانی ہونگی اور کچھ سڑکیں  نکالنی پڑیں  گی۔

سب سے  اہم بات یہ ہے  کہ تم کو کچھ قیدی دئے  جائیں  گے۔ تم ان کے  لیے  ایک سخت اور کڑا جیلر بنو گے  گا۔ یہ قیدی اور قیدیوں  سے  مختلف ہیں۔ ان میں  زیادہ تر انتہائی خطرناک باغی ہیں۔ ان میں  زیادہ تر قیدیوں  کو جزائر انڈمان میں  جانے  کے  بعد پتہ لگے  گا کہ وہ اپنے  وطن میں  لوٹ کر کبھی واپس نہیں  آ سکیں  گے او ر ان کی اپنے  خاندان کے  افراد سے  زندگی بھر پھر کبھی ملاقات نہیں  ہو گی۔ ان کے   لئے  یہ بات انتہائی تلخ ہو گی۔

ان کے  ذہن میں  بغاوت کی ہولناکیاں  اب تک تازہ ہیں۔ وہ آزادی چاہتے  ہیں  لیکن جانتے  ہیں  کہ یہ محض ایک خواب ہے۔ اور اس لیے  وہ بے  قرار ہونے  یا غصہ ظاہر کرنے  میں  کسی بھی طریقہ کو استعمال کرنے  میں  کوئی دقیقہ نہیں  اٹھا رکھیں  گے۔ یہ بھی ممکن ہے  کہ وہ جیل کے  حکام کی کھلی نافرمانی کریں او ر موقع ملنے  پر ان پر حملہ کریں۔

یہ قیدی معمولی لوگ نہیں  ہیں۔ ان میں کچھ ابھی چند ہی ماہ پہلے  تک عوام میں ممتاز مقام رکھتے  تھے او ر لوگ ان کو رہنما سمجھ کر آنکھیں  بند کر کے   ان کے  پیچھے  چلنے  کو تیار تھے۔

کچھ اور سمجھنا چا ہو گے ؟

ڈاکٹر والکر  ’’ایک معمولی سی وضاحت۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں  ایک وقت میں  کتنے  قیدیوں  کو سزائے  موت دے  سکتا ہوں ؟‘‘

’’As you think fit‘‘

ڈاکٹر والکر اپنی قوم کی انگریزی اچھی طرح سمجھتا تھا۔ وہ مطمئن ہو گیا۔

’میں  آپ کی توقعات پر پورا اترنے  کی ہر ممکن کوشش کروں  گا۔ ‘

’فی الوقت تمھیں دوسو قیدی دئے  جا رہے  ہیں۔ وہاں جانے  کے  بعد تم صورتحال کا جائزہ لے  کر اپنی ضرورت کے  بارے  میں  لکھو گے۔ ہمیشہ یہ بات ذہن میں  رکھو کہ برطانوی سرکار کے  لیے  یہ جزائر دفاعی نقطہ نظر سے  انتہائی اہم ہیں، اگر تم یہ بات اپنے  ذہن میں  رکھو گے  تو تم سے  کوئی ناپسندیدہ غلطی سرزد نہیں  ہو گی۔ ہم تمہاری ہر طرح سے  ترقی چاہتے  ہیں۔‘

ڈاکٹر والکر کی مشکلوں  کا اندازہ کوئی ادنیٰ ذہن بھی لگا سکتا تھا۔ کلکتہ میں  مقیم ہائی کمان کے  برٹش حکام اس سے  اچھی طرح واقف تھے او ر اس کے  مد نظر انہوں  نے  ڈاکٹر والکر  کو خاموشی سے  ایسے  اختیارات سے  مسلح کر رکھا تھا جن کا مجرموں  کے  خواب و خیال میں  بھی آنا ناممکن تھا-

سکریٹریٹ سے  باہر آنے  کے  بعد ڈاکٹر والکر کا ذہن دیر تک اس نئی ذمے  داری کے  مشکل دکھائی دینے  والے  پہلوؤں  میں  الجھا رہا۔ وہ اس نئے  چیلنج کے  بارے  میں  یہ سوچ کر نروس ہونے  لگا کہ اگر وہ مجرموں  کو قابو میں  نہیں  لاسکا تو اس کی یہ ناکامی اس کے  کیریئر کو برباد کر سکتی ہے  لیکن پھر اس کو اپنے  وہ غیر معمولی اختیار ات یاد آئے  جو شاید دنیا میں  پہلی بار کسی جیلر کو ملے  تھے۔

I shall hang bloody all of them !

سب کو لٹکا دوں  گا اور نئے  لوگ منگاؤں  گا اور اگر وہ بھی قابو میں  آنے  سے  انکار کریں گے  تو ان سب کو بھی لٹکا دوں  گا اور دوسرے  لوگوں  کو منگاؤں  گا۔

اس کی سوچ آواز بن کر اس کے  بڑبڑاتے  ہوئے  ہونٹوں  سے  باہر آنے  لگی تھی۔ اور وہ دیر تک اپنے  اندر کے  تناؤ کو خارج کرتا رہا۔

oo

 

 

 

او ر اب وہ اپنے  تخیل میں  اس جگہ آ گیا تھا جہاں  سے  ایک جہاز کالا پانی کے  لئے  روانہ ہونے  کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ جگہ ہگلی ندی کا کنارہ تھی۔

قیدیوں  کو کلکتہ کے  جیل کے  خیمے  لگے  احاطوں  سے  زنجیروں  میں  قطار میں  باندھ کر لے  جانے  کی تیاری ہو رہی تھی۔

’’برہمن اور شودر کو ایک ساتھ نہیں  باندھنا ہے۔ ‘‘

کوئی افسر ہدایت دے  رہا تھا۔  قیدیوں  میں  ایک قیدی پوربی  یو۔ پی۔ کا رہنے  والا مشرا تھا۔ مشرا کو ایک ایسی قطار میں  باندھا گیا تھا جس میں  زیادہ تر شودر تھے، وہاں  سے  نکال کر دوسرے  گروہ میں  لے  جایا جانے  لگا۔ اسے  اطمینان کا احساس ہوا کہ یہ انگریز کم از کم اتنے  جنگلی نہیں  ہیں۔ جہاز کے  قریب لا کر انہیں  جانوروں  کی طرح جلدی چڑھنے  کے  لیے  کہا گیا تو ڈاکٹر والکر کے  اشارے  پر مشرا کو بھی بیٹھک کے  اوپر ایک کوڑا لگا۔ مشرا کو اس کی وجہ سمجھ میں  نہیں  آئی۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔

یہ وہی جگہ تھی جہاں  سے  خالد نے  چند دنوں  پہلے  پورٹ بلیر کے  لئے  پرواز کیا تھا۔ خالد اب خیالی نہیں  بلکہ اصلی منظر کو دیکھ رہا تھا۔

جہاز اب ہبلی ندی کا کنارہ چھوڑ رہا تھا۔

قیدی زنجیروں  میں  بندھے  اس مادر وطن کو نم اور اداس آنکھوں  سے  دیکھ رہے   ہیں  جو ان کی کوئی مدد نہیں  کرپا رہی ہے۔

مشرا نے  دور جاتے  ساحل پر آخری نظر ڈالتے  ہوئے  دونوں  ہاتھ جوڑ کر وطن کو پرنام کیا۔ پھر اس نے  گھوم کر دوسرے  قیدیوں  کو دیکھا جو اب اس کے  ساتھی ہو چکے  تھے۔ ان سے  اس کی پچھلے  دس پندرہ دنوں  میں  خاصی جان پہچان ہو چکی تھی۔ ان میں  وہ بہار کا ایک پہلوان تھا جو قید میں  بھی کسرت کرنے  سے  نہیں  چوکتا تھا اور گھی دہی کثرت سے  کھانے  کے  فائدے  بتاتا رہتا تھا۔ وہ گروہ بنا کر کسی کی زمین دخل کرنے  گیا تھا او ر اس جھگڑے  میں  تین لوگوں  کا قتل ہو گیا تھا۔

ہندوستان کے  ساحلوں  کو سبز رنگ میں  ڈھکنے  والے  جنگل آنکھوں  سے  اوجھل ہو رہے  تھے اور جہاز اپنے  آگے  بڑھنے  کا راستہ تلاش کرتا ہوا آخر کار اپنی پوری طاقت سے سمندری لہروں  پر چڑھتا اترتا تھپیڑوں  سے  ٹکراتا آگے  بڑھنے  لگا۔

مشرا کی نظر بائیں  جانب اس مجنوں  نما آدمی پر پڑی جو راجستھان کے  ریگستانی علاقے  کا رہنے  والا تھا۔ مجنوں  نے  بھی اس کو دیکھا تو نہ جانے  کیوں  مسکرایا۔

مجنوں  نما داڑھی والا ادھیڑ عمر، سوچتا بہت تھا۔ اس وقت بھی اس کا دماغ دور دور تک جا رہا تھا۔ جہاز ساحل سے  دور سرکتا جا رہا تھا اور سبھی بے  چینی سے  ساحل کو دیکھ رہے  تھے  کیونکہ اس سے  پیدا ہونے  والی اداسی ان کی روح کو سکون دے  رہی تھی لیکن اس کا دھیان کہیں او ر چلا گیا تھا۔ اسے  محسوس ہو رہا تھا کہ ساحلوں  سے  دور جانا کسی پھانسی گھر میں  لٹکنے  جیسا ہے۔ اس نے  قول پور کے  قلعے  کا پھانسی گھر دیکھ رکھا تھا۔ جیسے  جیسے  جہاز جٹی اور سمندری کا کنارہ چھوڑ کر ساحل سے  دور ہوتا گیا اس کے  اندر وہی خوف جاگنے  لگا جو اب سے  بیس سال پہلے  اس پھانسی گھر کو دیکھتے  ہوئے  پیدا ہوا تھا۔ پھانسی گھر دور سے  دیکھنے  میں  ایک بلند کمرہ جیسا تھا جس میں  ایک پتلی سی ایسی گلی جاتی تھی جس میں  دونوں  طرف اونچی دیواریں  تھیں۔ غالباً اس لیے  کہ پھانسی کے  لیے  لے  جاتے  وقت بھی کہیں  ایسا نہ ہو کہ قیدی کسی طرح چھوٹ جائے او ر بھاگ جائے  یا کھلے  راستے  پر آ کر بھاگنے  کی کوشش میں  اچھل کود کرنے  کی خوامخواہ کوشش کرے  کیونکہ اس وقت اس کو  کچھ بھی کرنے   سے  کسی دھمکی سے  یا ڈسپلین کے  نام پر  روکا نہیں  سکتا تھا۔

اس گلی سے  پھانسی کے  کمرے  میں  پہنچنے  سے  پہلے  ایک کشادہ جگہ تھی۔ اس کی بھی چہار دیواری کافی اونچی تھی اور اس کے  چاروں  طرف برچھیاں  لگی ہوئی تھیں۔ یہ سب دکھاتے  ہوئے  گائڈ اسے  پھانسی گھر کے  اندر لے  گیا تھا۔ جب اس نے  پھانسی گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے  ایک موٹی سی رسی، جس میں  قیدی کی گردن میں  ڈالنے  کے  لیے  بنا ہوا پھندا لٹک رہا تھا، جھولتا ہوا دکھائی دیا جس کی گانٹھ تیل پلائی رسی پر آسانی سے  سرکنے  والا تھا۔ پھندے  کی اونچائی لگ بھگ آدمی کی گردن کے  برابر تھی۔ پھندے  کے  نیچے  فرش پر پتھر یا سیمنٹ کے  بجائے  لکڑی کا تختہ لگایا گیا تھا جس سے  لوہے  کی کچھ سلاخیں  جڑی ہوئی تھیں۔ یہ سلاخیں  پانچ چھ فٹ آگے  جا کر ایک تین فٹ اونچے  لوہے  کے  دستانے  سے  ملی ہوئی تھیں۔ گائڈ نے  بتایا کہ پہلے  قیدی کو پھندے  کے  نیچے  لکڑی کے  تخت پر کھڑا کیا جاتا ہے او ر اس کی گردن میں  پھندا ڈال کر اسے  تھوڑا سا کس دیا جاتا ہے  تاکہ قیدی سرکو ہلا کر پھندے  سے  نکل نہ سکے۔ لیکن پھندے  کو گردن میں  پوری طرح نہیں  کسا جاتا تھا تاکہ اس کی سانس چلتی رہے۔ اس کے  بعد اس کو مارنے  کے  لیے  چار پانچ فٹ دور لگے  ہوئے  لوہے  کے  اس ہینڈل کو پیچھے  کھینچا جاتا ہے۔ ہینڈل کو کھینچتے  ہی لوہے  کی وہ  ٹکڑا جس پر لٹکنے  والا لکڑی کا تختہ دوسری طرف سے  ٹکا ہوتا ہے  پیچھے  ہٹ کر لکڑی کے  تختے  کو بے  سہارا کر دیتا ہے او ر تختہ نیچے  گر کر ایک طرف جا لٹکتا ہے۔

گائڈ نے  لکڑی کے  تختے  کو ہینڈل کھینچ کر دکھایا۔ تختے  کے  گرتے  ہی اس کے  ٹھیک نیچے  ایک پتلا سا کنواں  دکھائی دینے  لگا۔ گائڈ نے  بتایا کہ تختہ کے  گرتے  ہی گویا قیدی کے  پاؤں  کے  نیچے  سے  زمین سرک جاتی ہے او ر وہ ہوا میں  جھول جاتا ہے او ر پھندا ایک جھٹکے  کے  ساتھ گردن میں  کستا ہے او ر اس کے  دباؤ سے  گردن کی نرم والی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے  کیونکہ  وہ آدمی کے  بدن کا پورا بوجھ برداشت نہیں  کر پاتی اور اس طرح قیدی کو کوئی اور نہیں  مارتا بلکہ وہ اپنی ہی بوجھ کو اپنی گردن پر برداشت نہیں  کر پانے  کی وجہ سے  مر جاتا ہے۔  ہم صرف اپنا تختہ ہٹا لیتے  ہیں۔ ‘‘ جلاد کے  پوتے  کی باتیں   اس دن کے   بعد خالد کے  ذہن میں  مسلسل گونجتی رہیں او ر وہ غور کرتا رہا کہ ظلم کرنے  والے او ر مارنے  والے  اس بات کا کتنا اہتمام کرتے  ہیں  کہ کسی ظلم او ر بے  رحمی کا الزام ان کے  اوپر نہیں  آئے او ر اس کے  لئے  وہ کس گہرائی سے  مظلوموں  کی نرم ہڈیوں  کو ٹٹول کر اس میں  پھندا ڈالتے   ہیں او ر اس طرح وہ اکثر انسانی اقدار کی  عدالت میں  مجرم ٹھہرائے  جانے  سے  صاف بچ جاتے  ہیں۔

رفتہ رفتہ ہندوستان کے  جنگلوں، پہاڑوں او ر بستیوں  کی جگہ اب چاروں  طرف صرف جہاز کے   چپوؤں  کی آوازوں او ر سمندری لہروں  اور لامتناہی دوری تک پھیلے  آسمانوں  نے  لے  لیا تھا۔ یہ آسمان وہ نہیں  تھا جو قیدیوں  نے  اپنے  گھروں  کے  آنگنوں  سے  رات میں  چارپائی پر لیٹے  ہوئے  دیکھا تھا۔ یہ آسمان کا وہ حصہ تھا جدھر صرف پانی ہی پانی تھا۔

سفر کے  دوران جہاز کے  ڈیک پر ایک قیدی جو پیاس کی شدت سے  کراہ رہا تھا، ایک سفید چرم کو دیکھ کر گڑگڑایا۔

پانی !

ایک پورا جملہ جو اگر مختصر نہ ہو تو اس کی شدت کم ہو جائے۔

اس سفید چرم کے  ساتھ دو تین اور سفید چرم تھے۔ سفید چرم کا چہرہ ہلکا سا گھوما گویا غلطی سے  گھوم گیا ہو اور پھر وہ اپنی گفتگو میں  مشغول ہو گیا۔ اس دوران ڈاکٹر والکر ادھر آیا۔

اس کے  منہ میں  دھوپ سے  گرم سلاخیں  رکھ دو!

اگر منہ نہ کھولے  تو منہ کھول کے  رکھ دو!”

سفید چرم سپاہی سکتے  میں  آ گیا تو ڈاکٹر والکر نے  اسے  ڈانٹتے  ہوئے  کہا۔

’ان کو بتلا دیا گیا ہے  کہ پانی ان کو چوبیس گھنٹے  میں  صرف ایک بار ملے  گا… لیکن وہ اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، اس کو اچھا سبق دو۔ وہ کرو جو میں نے  کہا۔ یہ جیل کی زندگی ہے۔۔۔  تم لوگ اس سے  واقف نہیں  ہو۔ اس لیے  جو کچھ کہا جاتا ہے  وہ غور سے  سنو اور اس پر بغیر تعجب کیے  عمل کرو۔ ابھی آگے  انڈمان میں  اس سے  بھی آگے  بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ ڈاکٹر والکر نے  بالکل خشک، سخت اور حاکمانہ  لہجہ میں  سامنے  ادب سے  کھڑے  سپاہیوں  کو ہدایت دی۔ اور پھر گھوما اور چلا گیا اور اپنے  پیچھے   پہلے  بوٹوں  سے  اٹھنے  والی ٹھک ٹھک کی آواز۔۔۔ او ر پھر اس کے  بعد کی بھیانک خاموشی چھوڑگیا۔

پھر فورا ہی ایک سپاہی باہر آیا اور آواز لگائی۔

’ سب ڈاکٹر والکر کے  سامنے  جاؤ!‘

تھوڑی دیر میں  ڈاکٹر والکر کا پورا عملہ اس کے  سامنے  تھا۔  ’’میں  نے  یہ ہدایت دینے  کے  لیے  بلایا ہے  کہ تم ان قیدیوں  سے  کسی قسم کی گفتگو نہیں کرو گے۔ ان کی کسی مانگ کو نہیں  سنو گے۔ ان کی کسی تکلیف کو ہمدردی سے  نہیں  سنو گے  ورنہ ان کی ہمت افزائی  ہو گی اور یہ ہم سے  باتیں  کرنے او ر اپنی تکلیفوں کو بیان کرنے  کی کوشش کریں  گے۔ ان کو کھانا، پانی اور دوائیں او ر دوسری ضرورت کی چیزیں  اسی طرح سے  دینا ہے  جیسا مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ کچھ کہنے  کی کوشش کریں  تو تم اپنے  کام میں  مشغول رہو اور اپنا کام ختم کرنے  کے  بعد واپس آ جاؤ۔ اگر وہ شور مچائیں او ر کوئی ناگوار اور نامناسب بات خواہ مخواہ کریں  تو جواب منہ سے  نہیں  بوٹ اور گرم سلاخوں  سے  دو۔ بغیر کچھ بولے  ہوئے۔ ‘‘

اس نے  نظریں  اٹھا کر قیدیوں  کو دیکھا۔

” I know those bastards.”

یہ تو سب کو باسٹارڈ ہی سمجھتا تھا۔ ممکن ہے  اس نے  کبھی میر علی کو بھی باسٹارڈ کہا ہو۔ ’باسٹارڈ  ڈاکٹر والکر، باسٹارڈ یہ قیدی نہیں، باسٹارڈ تم ہو۔  لیکن تم اس وقت ایک ایسے  جہاز کے  ڈیک پر ہو جس پر برطانوی سامراج کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس لئے  یہ سارے  قیدی باسٹارڈ ہو چکے  ہیں او ر یہ کچھ نہیں  کر سکتے۔ باسٹارڈ تم اور باسٹارڈ وہ سارے  مورخ ہیں  جنہوں  نے  تمہاری ہی طرح زبردستی غلط تاریخ لکھی۔ لیکن تمہیں  کیا معلوم تھا کہ میں  تمہارے  اس جہاز کا پیچھا کروں  گا اور دریافت کروں  گا کہ باسٹارڈ کون تھا۔ اور ثابت کروں  گا کہ میر علی باسٹارڈ نہیں  تھے  بلکہ  باسٹارڈ تم تھے۔

خالد نے  سوچا۔ ’طاقتور کمزوروں او ر شریفوں  کو باسٹارڈ کہتے  ضرور ہیں  لیکن دراصل باسٹارڈ وہ خود ہوتے  ہیں۔ ‘

او ر ڈاکٹر والکر خود ہی کتنا باسٹارڈ ہے۔  یہ کہتے  ہوئے  خالد کو بار بار یہ خیال آیا کہ حرامکاری سے  پیدا کی گئی اولاد کو گالی کے  طور پر باسٹارڈ کہنا بھی ایسے  ہی درندہ خصلت انسانوں  کا شیوہ ہے۔ وہ جو بار بار اپنے  دل میں باسٹارڈ لفظ استعمال کر گیا تھا۔ اس کے  لئے  اس نے  خود اپنے  ہاتھ سے  اپنے  کو چپت لگائی۔

اس کی نظر میں  ڈاکٹر والکر اب ایک ایسا جانور دکھائی دینے  لگا تھا جس کے  سامنے  درندہ بھے  معصوم لگنے  لگا تھا۔ کمینہ اور بے  رحم۔  وہ سپاہیوں  سے  کہ رہا تھا۔

’ان کی ہر ایک حرکت کے  لیے  ہم نے  ایک مخصوص سزا مقرر کر دی ہے۔ اگر وہ اپنی تکلیف کا اظہار منھ سے  آہستہ آواز میں  کریں  تو بوٹ سے  گال میں  مارو۔ اگر اونچی آواز میں  کریں  تو منھ یا ہونٹ پر بوٹ سے  اتنی زور سے  مارو کہ کم از کم خون نکل آئے۔ اگر کوئی چیز مانگیں  تو گرم سلاخیں  منھ میں  ڈال دو۔ اگر ضرورت سے  زیادہ بولیں  تو زبان نکال کر اس میں  لوہے  کی رنگ ڈال دو تاکہ زبان دوبارہ اندر نہ جا سکے  اور جو بھاگنے  کی کوشش کریں   تو پہلے  ان کو سانپ کی طرح کچل کچل کر ادھ مرا کرو۔ ان کو ان کی اوقات بتاؤ اور اس کے  بعد ہینگ کر دو۔

"I know those bastards very well.”

اس بات کا خاص  دھیان  رکھو کہ سزا دینے  کے  بعد ان کو بتاؤ کہ ان کا کون سا عمل جرم ہے او ر اس کی کیا سزا مقرر ہے۔

یہ  سزا دینے  کا ’ڈاکٹر والکر ‘ کا اپنا اسٹائل ہے۔

’باسٹارڈ۔ ‘  خالد  کے  ذہن میں  اس لفظ کے  ساتھ ڈاکٹر والکر کا اپنا ہی چہرہ ابھرا۔

ہدایات دینے  کے  بعد ڈاکٹر والکر اپنے  کیبن میں  ٹوائلٹ چلا گیا۔ ہاتھ منہ دھوکر آیا-

وہ بہت اکتایا سا محسوس کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کو جو ذمے  داری دی گئی ہے  اس میں  کامیاب ہونا آسان بات نہیں۔ اس نے  ڈیک پر نیم مردہ حالات میں  پڑے  قیدیوں  کو دیکھا تو اسے  خیال آیا کہ یہ سب وہ قیدی و ہی ہیں  جنہیں  کہیں  سے  بھی موت کا خیال پریشان کرتا دکھائی نہیں  دیتا اور ان کو قابو میں  لانے  کے  لیے  اس کے  ہاتھ میں  موت کی چھڑی دی گئی ہے۔ اسے  خیال آیا کہ وہ مختلف اذیتوں  سے  قیدیوں  سے  ان کی ریڑھ کی ہڈیوں  میں  گڑے  ہوئے  راز تک کو اگلوا لیتا تھا اور بڑے  بڑے  بدتمیزوں  کو سیدھے  راستے  پر کھڑا کر دیتا تھا لیکن یہ دونوں  باتیں او ر تھیں۔ اگر وہ ان قیدیوں  کو اذیتیں  دے  کر انہیں  نڈھال کرے  گا تو ان سے  کام کیسے  لے  گا۔ اس کے  ذہن میں  کوئی تدبیر آ نہیں  رہی تھی۔ اذیت تو قیدیوں  کو موت پر آمادہ کر دیتی تھی لیکن موت کے  خوف سے  اذیت برداشت کرنے  والے  اس نے  نہیں  دیکھے  تھے۔ اذیت دینا تو اس کے  اختیار میں  تھا اور اذیت کا بنیادی اصول یہ تھا کہ وہ آدمی کے  جسم اور دماغ کو اس کے  اختیار سے  باہر کھینچ لاتی ہے او ر آدمی نہ چاہتے  ہوئے  بھی  اس وقت سب کچھ کہہ دیتا ہے  جب اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے  یعنی مسلسل اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے او ر موت کا کوئی راستہ یا طریقہ دکھائی نہیں  دیتا تب لیکن قیدیوں  کو اذیت دے  کر کام کرنے  پر آمادہ کرنا بالکل الگ بات تھی۔ اس لئے  یہ ناقابلِ عمل خیال بڑے  افسروں  کے  دماغ میں  تو آ سکتی تھی لیکن اس جیسے  تجربے  کار جیلر کو معلوم تھا کہ اس خیال میں  کتنی فاش غلطی تھی۔ یہی سوچتے  ہوئے  وہ ڈیک سے  گزرتا ہوا جہاز کے  اگلے  حصے  میں  واقع جہاز کے  کیپٹن کے  کیبن کی طرف چلا گیا۔

دونوں کئی گھنٹے  ادھر ہی گپ شپ میں  لگے  رہے۔ پھر قیمتی شراب کی بوتلیں  نکالی گئیں۔ اور نقوش سے  مزین گلاس میں  نیم سرخ جھلملاتی شراب ڈالی گئی۔ دونوں  نے  چیرز کیا اور پھر ایک گھونٹ لینے  کے  بعد ڈاکٹر والکر کے  چہرے  پر ایک مسکراہٹ ابھری۔

”   دیکھو مجھے  کتنا مشکل کام دیا گیا ہے۔ ان قیدیوں  کی صورت دیکھ کر ہی لگتا ہے  کہ یہ کسی کام کے  نہیں  ہیں۔ یہ سب بڑے  مشکل قسم کے  انسان لگ رہے  ہیں۔ ایک تویہ عام طرح کے  مجرم نہیں  ہیں۔ اچھے  خاندانوں  میں  ناز اور پیار سے  پا لے  ہوئے  عیش و عشرت کی زندگی بسر کیے  ہوئے  لوگ ہیں  جنھوں  نے  پھاوڑا اٹھانا تو کیا اب تک بہتوں  نے  شاید پھاوڑا دیکھا بھی نہ ہو گا۔ اس کام کے  لیے  تو مکمل طور پر غیر تربیت یافتہ ہیں۔ مہینوں  تو ان کو تربیت دینے، ان کے  دماغوں  کو توڑنے او ر درست کرنے او ر اس کام کے  لیے  مناسب بنانے  میں لگ جائیں  گے۔ مجھے  یہ بھی شبہ ہے  کہ یہ جلد بیمار پڑیں  گے ، اس لیے  کہ خط استوا کے  قریب کی آب و ہوا کو شاید برداشت نہ کر سکیں۔ بیمار ہونے  پر تو ان سے  کام لینا ناممکن ہو گا۔ اور ہمارے  جو کام کریں  گے  وہ بھی بہت کم اور اطمینان بخش نہیں  ہو گا۔۔۔۔۔۔  لیکن مجھے  امید ہے  کہ چند مہینوں  میں  یہ ٹھیک ہو جائیں  گے۔ ‘ ‘  ڈاکٹر والکر نے  بشاش چہرے  کے  ساتھ فخریہ کہا۔

’’ وہ تو ابھی بالکل پیلے  پڑ گئے  ہیں، مجھے  تو اندیشہ ہے  کہ وہ پورٹ بلیر تک بھی زندہ نہیں  پہنچ سکیں  گے۔ ‘‘ کیپٹن نے  رائے  دی۔

’’ اس سے  کوئی فرق نہیں  پڑتا۔ جو بیکار اور کمزور ہیں  اگر وہ ختم ہو جائیں  تو اچھا ہی ہے۔ میرا سردرد تو کم ہو جائے  گا۔ میں  پھر کچھ ان کی جگہ پر دوسرے  مضبوط اور توانا مجرموں  کو تو مانگ سکتا ہوں۔

’’ ایسے  لوگوں  کو ختم کر دو۔۔۔ او ر ایک حکومت برطانیہ کے  لیے  رپورٹ بھیج دو کہ ملیریا سے  مر گئے  تاکہ وہاں  کوئی بات نہ اٹھا سکے۔ ‘‘

’’ہاں  یہ تو ہم بھی کر سکتے  ہیں، سب سے  آسان راستہ تو یہ ہے  کہ ان کو بھاگنے  کے  الزام میں  ختم کر دیا جائے۔ اور ریکارڈ کی مناسب خانہ پرکر دی جائے۔۔۔  یہ تو خیر کوئی مسئلہ نہیں۔ ‘‘

اور پھر گفتگو نے  دوسرا موڑ لے  لیا۔۔۔  برطانیہ۔۔۔ او ر برطانیہ میں  ہو رہے  پارلیمانی سوالات اور فیصلے او ر سیاسیات۔۔۔ او ر سمندری زندگی۔۔۔  اور پھر  کھانے  کے  وقت ہنسی مذاق اور لطیفے  کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔

’شب بخیر‘ گرم جوشی سے  کیپٹن سے  ہاتھ ملایا۔۔۔ او ر اپنے  کیبن کی طرف چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد۔۔۔ بستر پر دراز ہو کر محوِ خواب ہو گیا!

ادھر ڈاکٹر والکر ان قیدیوں  کے  کردار کے  بارے  میں  سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ ان کو قابو میں  لانا کتنا مشکل ہو گا۔ ادھر ان قیدیوں  کی حالت ٹھیک اس کے  برعکس تھی۔

وہ باہر مردہ سے،تھکے، ہارے  پڑے  تھے۔

ڈاکٹر والکر نے  اپنے  دل میں  سوچا اس وقت یہ خطرناک قیدی اپنے  دل میں  شاید زہر پیدا کر رہے  ہوں گے۔ بے  گناہ قیدیوں  کے  بارے  میں  اس کے  یہ اندیشے او ر خیالات انتہائی ظالمانہ رویے  کی مثال تھی کہ اس وقت ان کے  عزائم،جنگ آزادی کے  سارے  خیالات، اور اپنے   دلکش ماضی کے  واقعات،یادیں، رشتہ دار سب بہت اہم ہونے  کے  باوجود ذہن میں  ایسے  سو گئے   تھے   جیسے  کوئی بند کتاب جو اتنے  دنوں  سے  بند ہو کہ اس سے  کاغذ کی مخصوص بو آنے  لگی ہو۔

’ان کے  اندر اتنی بھی سکت نہیں  رہ گئی تھی کہ وہ اپنے  ماضی کے  بارے  میں  ٹھیک سے  سوچ سکیں۔ ‘ خالد اپنے  ذہن میں  ابھرتے  چہروں  کے  ساتھ سوچ رہا تھا۔

حالات کی تبدیلی اور تہہ و بالا ہو جانے  کے  بعد انسان کہاں  سے  کہاں  نہیں  پہنچ جاتا۔۔۔ او ر کیا سے  کیا نہیں  ہو جاتا ہے۔ پھول جیسے  بچے  جھریوں  پڑے  بوڑھے  بن جاتے  ہیں۔ محل کھنڈر بن کر بھوت نما ہو جاتے  ہیں،مالک غلام بن جاتے  ہیں اور بادشاہ تخت سے  اتر کر جھاڑو دینے  لگتے  ہیں۔

’کتنی تازہ تھی یہ ان کی کہانی۔ ‘

اس کے  ذہن میں  شاعرانہ تخیل کی ایک لکیر کی طرح مسلسل ان مناظر پر تبصروں  کی ایک آواز آ رہی تھی۔  ’ہندوستان کی زمین کے  سرخ رو چہرے  جن کے  جاہ و جلال کو دنیا سلام کرتی تھی، جن کے  یہاں  سفید و سرخ بالوں  والے  سوداگر بن کر گھومتے  تھے، آج اس جہاز پر ایک معمولی جیلر کے  کمان میں  سفر کر رہے  ہیں۔ ‘

ان کی شخصیتیں  آج کتنی مردہ،گمنام دھندلی ہو گئی ہیں۔ زندگی کی دوڑ دھوپ اور بے  حد مشغولیات میں  آج کے  انسان پھنس کر کتنے  گم ہو گئے  ہیں  کہ ان کے  ماضی کے  آباء و اجداد کی یہ کہانیاں  بھی اب ایسی قبریں  بن گئی ہیں  جن پر گھاس اُگ آئی ہے او ر بستیوں  سے  دور کہیں انجان جگہوں  پر بغیر چراغ، بغیر فاتحہ،گم ہیں۔ ہر شئے  یوں  ہی بدلتی ہے۔ سو وہ بھی جو جہاز پہ تھے  وہ صرف چند دنوں  میں  جنگِ آزادی کے  بڑے  کارنامے  انجام دینے  والے  جانباز سپاہی اور شعلہ فشاں  مقرر سے  کمزور و نحیف، خاموش، بیگار قیدیوں  میں  تبدیل ہو کر کھنڈر بن گئے  تھے۔

ڈاکٹر والکر نے  اپنے  اختیارات کے  خیالات سے  ذہن و دماغ کو نشہ آور کر کے  ان قیدیوں  کی طرف دیکھا جن کی زندگی اور موت پر اس کو اس قدر اختیار حاصل تھا جیسے  کسی شخص کو اپنے  مرغوں او ر مرغیوں  پر… جیسے  کسی شیر کو اپنے  پنجے  میں  دبے  ہوئے  چھوٹے  جانور پر … اس کو یونہی محسوس ہوا جیسے  اس کے  تمام جسم میں  بازوں، پاؤں  کے  جوتوں، سینے  حتی کے  گردن اور مغز کے  اندر اختیارات کے  چشمے  پھوٹ پڑے  تھے  جو آہستہ آہستہ نالا، اور پھر دریا، اور پھر سمندر بن گئے  جہاں  دور دور تک حد نظر سے  آگے  تک او ر کچھ بھی نہیں  تھا۔ ہر طرف صرف وہ تھا۔

جب بھی قیدی تنہا ہوتے  تو انگریز جیلر کے  اس عجیب سلوک سے  شدید نفرت کا اظہار کرتے  جیسے  اس کے  سلوک میں  کوئی ایسی بات ہو جس کی وہ بالکل توقع نہیں  کرتے  تھے۔ اور یہ بات تھی انگریز افسر اور سپاہیوں  کی انہیں  نسلی بنیاد پر اور قومی بنیاد پر ذلیل کرنے  کی عادت۔ انہوں  نے  اپنی ہار تسلیم کر لی تھی لیکن ان  سے  یہ ذلت برداشت  نہیں  ہوتی تھی۔ جب  بھی جیلر ان کو اس بنیاد پر نفرت کی نگاہ سے  دیکھتا  تھا کہ وہ ہندوستانی ہیں  تو ان کا سرد پڑا ہوا خون کھول جاتا  تھا اور تب انہیں  خیال آتا کہ انگریزوں  سے  جنگ میں  ہار ہونے  میں  ہوا کیا تھا۔ وہ سوچتے  کہ اگر ہندوستانیوں  کو معلوم ہوتا کہ انگریز انہیں  کس نگاہ سے  دیکھتے  ہیں  تو شاید کبھی بھی ہندوستان ان کے  ہاتھ نہیں  لگتا لیکن سادہ لوح ہندوستانیوں  نے  تو جنگ اور حکومت کو صرف لڑنے  بھڑنے  ‘ بانٹنے  کھانے او ر مونچھیں  اینٹھنے  کا کھیل سمجھا  لیا تھا۔

جہاز پر سفر کے  دوران مجنوں  نما داڑھی والا ادھیڑ عمر قیدی اچانک ایک سپاہی پر چیخ پڑا۔

’تم ہمیں  سزا دو نا قانون کے  مطابق۔

جرم کی سزا دے  تو رہے  ہو۔

پھر تم ہمیں  ذلیل کیوں  کر رہے  ہو ؟‘

آواز سن کر ڈاکٹر والکر وہاں  آ گیا۔

’تم نے  ہمیں  سزا سنا دی تو کیا ہم انسان نہیں  رہے  ؟

پھانسی دو پھانسی اگر دے  سکو، خصی مت بناؤ۔

سپاہی  خاموشی سے  چیختے  ہوئے   قیدی کو سنتا رہا۔

قیدی اسے  گھورتے  ہوئے  دیکھ کر اور بھی بلند آواز میں  بولنے  لگا۔

’کیا کر لے  گا تو ؟ پھانسی دے  دیگا۔ ؟‘

ڈاکٹر والکر نے  دو سپاہیوں  کو قریب آنے  کا اشارہ کیا۔

"Throw him in the sea.”‘‘

سپاہیوں  نے  اسے  پکڑکر نیچے  سمندر میں  پھینک دیا۔

نیچے  گرتے  ہی قیدی کی چیخ ایک لمحے  میں  ختم ہو گئی۔

دوسرے  قیدی ایک دوسرے  کی طرف صرف دیکھ کر رہ گئے۔

ڈاکٹر والکر ڈیک سے  ہو کر اپنی کیبن کی طرف جا رہا تھا۔

اسے  خیال آیا۔

’میں  جلاد نہیں … میں  دنیا کا …دنیا کی تاریخ کا سب سے  طاقتور… اور زیادہ اختیار والا جیلر ہوں … جیلر… ج ے  ل ر… جلاد تو جج کے  حکم کا  غلام اور سرکار کا مزدور ہے۔ جج تو خود بھی اپنی مرضی سے  کسی کو پھانسی کی سزا نہیں  دیے  سکتا۔ مجرم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ لیکن میں  وہ جج ہوں  جس کو  یہاں  کسی کو سزائے  موت دینے  کے  لئے  کسی اوپری جج، کسی گواہ، کسی وکیل، کسی دلیل، کسی سنوائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں  اتنے  سارے  لوگوں  کی زندگی کا  تنہا مالک ہوں۔ میں  ان سے  جو چا ہوں  کرا سکتا ہوں۔۔۔  جو چا ہوں  منوا سکتا ہوں۔ اور جب  تک چا ہوں  انھیں  زندہ رکھوں او ر جب چا ہوں  انھیں  موت کے  گھاٹ اتار سکتا ہوں !‘

اس نے  ایک بار پھر ان قیدیوں  کو دیکھا۔ جہاز کو دیکھا۔ سامنے  جو کچھ دکھ رہا تھا اس کو غور سے  دیکھا… کہیں  یہ سب کچھ خواب تو نہیں  ہے۔۔۔ کیا حقیقت میں  ایسا ممکن ہے۔ اس نے  کئی بار۔ دوسری بار، تیسری بار، چوتھی بار اس افسر کے  جملوں  پر غور کیا۔ کہیں میں  نے  غلط تو نہیں  سمجھ لیا تھا۔ نہیں  وہ تو بالکل وہی کہہ رہا تھا۔  ’ڈاکٹر والکر، ہمیں  اس سے  کوئی مطلب نہیں  ہے  کہ تم یہ کام کیسے  کرو گے۔ پورے  ہندوستان سے  ہم نے  تمہارا انتخاب کیا ہے  کیوں  کہ قیدیوں  کو قابو میں  کرنے  کے  فن میں  تم ماہر سمجھے  جاتے  ہو اور یہ تمہاری وہ شہرت ہے  جو تمہارے  کیریر کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ہمیں  اس سے  بالکل کوئی مطلب نہیں  کہ تم یہ کام کیسے  کرو گے۔ تمہاری اہلیت کا ثبوت یہ ہو گا کہ تم جلد سے  جلد اپنے  مقصد میں  کامیابی حاصل کرو۔ ‘ نہیں  یہ خواب نہیں ، یہ حقیقت ہے۔ بالکل حقیقت ہے۔

میرا کام اہم ہے۔ انتہائی اہم ہے۔

سمندر ی سفر کے  دوران تمام وقت وہ قیدیوں  پر اپنے  کار روائی کے  ابتدائی مشق و آزمائش کرتا رہا تھا۔ اس نے  حکم دیا تھا کہ قیدیوں  کو دن بھر کھلی دھوپ میں  رکھا جائے او ر پینے  کے  لیے  پانی صرف ایک وقت دیا جائے او ر کھانے  کے  لیے  سڑے  ہوئے  چاول بغیر دال اور سبزی کے  دیے  جائیں  تاکہ دوران سفر قیدیوں  کو بار بار ضروری حاجات کے  لیے  نہ جانا پڑے او ر اپنی جگہ پر پڑے  پڑے  وہ پیشاب پاخانے  سے  جہاز کو گندہ نہ کریں۔ زنجیروں  میں  جکڑے  ہوئے  یہ قیدی سفر طے  کرتے  رہے۔ کبھی کبھی ان کو خون کی قے  آ جاتی اور جہاز کا فرش سرخ ہو جاتا۔ قیدیوں  کو کھانا اور پانی ایک ہی برتن میں  ڈال دیا جاتا تھا اور وہ زنجیروں  میں بندھے  ہاتھوں  سے  نکال نکال کر کھانا کھاتے  اور پانی پیتے او ر کرتے  جاتے او ر زنجیروں  کی آواز کھنکھناتی رہتی۔

نتیجتاً قیدی جو بنگال کی کھاڑیوں  میں  آتے  ہی اپنی بھوک کے  باوجود سمندر کے  بدلتے  ہوئی رنگ کو بڑی دلچسپی سے  دیکھ رہے  تھے۔ ایک ڈیڑھ دن کے  بعد نیند اور تھکن سے  بوجھل ہو کر جھولنے  لگے او ر سمندر کے  سارے  نظارے ، اور وطن کی ساری یادیں  ایک دھند میں  ڈوبتے  ڈوبتے  بالکل غروب ہو گئیں اور تھکے  تھکے  ذہنوں  پر ایک کیچڑ نما سائے  کے  علاوہ اور کچھ نہ رہ گیا۔ حتی کہ جہاز کے  عملہ بھی ایک دھند سے  نکل کر تھوڑی دیر کے  لیے  ہی ان کی توجہ کو مبذول کراتے او ر پھر جسے  دھند میں  ہی کھو جاتے …اور اس طرح قیدی دھند، تھکن، اور مایوسی کی بے  پناہ تاریکی میں  لپٹے  سمندر میں  کئی روز تک سفر کرتے  رہے۔ اکثر ان کو خود محسوس ہونے  لگتا کہ وہ زندہ نہیں، مردہ ہیں۔

مہینوں  تک قید خانوں  میں  رہتے  رہتے  ان کے  جسم کا گوشت پوست تو یونہی کم ہو گیا تھا۔ چہرے  پھیکے  ہو گئے  تھے۔ اور جسم کو نا امیدی کے  گھن لگ گئے  تھے۔ اور اب ایک نامعلوم جگہ جاتے  ہوئے  انھیں  واقعی یونہی لگ رہا تھا کہ زندگی اور دنیا سے  دور …عذاب دینے  والے  فرشتوں  کے  ہاتھوں  گرفتار ہو کروہ کہیں  جا رہے  ہیں۔ ‘‘

جزیرے  دکھائی دئے  تو ایک ہنگامہ سا پیدا ہوا۔ اس حال میں  بھی قیدی اس جگہ کی پہلی جھلک دیکھنے  کے  مشتاق تھے  جہاں  ان کو لے  جایا جا رہا تھا۔ ان میں  کئی ایسے  تھے  جن کا ذہن مسلسل اسی بات پر کام کر رہا تھا کہ کیا فرار کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ انسان کی ضد کی کوئی انتہا نہیں  ہوتی اور یہی اس کی سب سے  بڑی طاقت ہے۔

اس لمحے ، آج لگ بھگ ڈیڑھ سو سال بعد، ان جزیروں  کو خالد انہماک کی انہی گہرائیوں  سے  دیکھ رہا تھا جس گہرائی سے  کیپٹن بائیک نے   دور بین لگا کر دیکھا تھا۔ شاید خالد سہیل کے  لئے  بھی ان کو گہرائی سے  دیکھنا اتنا ہی ضروری ہو گیا تھا جتنا کیپٹن بائیک کے  لئے  تھا۔

داہنی طرف جزیروں  کا ایک سلسلہ تھا۔ ڈاکٹر والکر بھی یہ دیکھنے  کے  لیے  باہر ڈیک پر نکل آیا تھا۔ ایک قیدی کو محسوس ہوا کہ اس کی سرخ داڑھی کے  نیچے  سے  دکھائی دینے  والے  جزیرے  اس کی شخصیت کا حصہ بن گئے  تھے۔ پھر وہ قیدی دوسری طرف دیکھنے  لگا۔ ادھر بھی اکّے  دکّے  جزیرے  نظر آ رہے  تھے۔ دیکھتے  ہی جزیرے  قریب آ کر بڑے  بڑے  دکھائی دینے  لگے۔

پورٹ بلیر کے  پاس آ کر جہاز کی رفتار کم ہو گئی اور وہ جزیرے  کے  قریب پہنچ گیا۔ پھر اسے  لنگر نداز کرنے  کے  لیے  جہاز کے  عملوں  میں  ہنگامی حرکتیں  شروع ہو گئیں۔ قیدی بھی چاروں  طرف پھیلے  تماشے  کو دیکھنے  لگے۔ وہ تنہائیوں  کی ایک نئی دنیا میں  داخل ہو رہے  تھے۔ تنہائی صرف دنیا کے  دوسرے  لوگوں  سے  الگ ہونے  کی تنہائی نہیں  تھی بلکہ زندگی تمام ضروریات کی چیزوں  سے  الگ ہونے  کی بھی تنہائی تھی۔

ڈاکٹر والکر نے  بھی اس تنہائی کو پہلی بار محسوس کیا۔ جب یہاں  رہنا تھا تو یہاں  کی زمین سے  یہاں  کی چیزوں  کو حاصل کر کے  یہاں  ایک خود کفیل دنیا بنانا ضروری تھا۔ اس نے  سوچا۔

جزیرہ چاتھم پر جہاز سے او ر قیدیوں  کو نیچے  اتارا جا رہا تھا۔

ایک قیدی جس کی عمر اس وقت بہت کم تھی اور جو آنے  والے  دنوں  کے  تمام طوفانوں  سے  بچ گیا تھا اس نے  45سال بعد اپنی یاد داشت میں  اس وقت کے  منظر کو بیان کیا تھا جسے  خالد نے  ایک پرانے  رسالے  میں  پڑھا تھا۔ اس کے  الفاظ خالد کے  تخیل میں  کسی فلم کے  پردے  پر الفاظ کو ٹائپ کئے  جانے  کی ٹک ٹک کی آواز کے  ساتھ کسی کہانی کے  حصے  کی طرح ابھرنے  لگے  تھے۔

رسالے  کے  الفاظ یوں  تھے۔

’’قیدی بندھے  ہوئے  جانوروں  کی طرح زنجیروں  میں  جکڑے  ہوئے  تھے۔  ان کے  ہاتھوں  میں  لگی ہوئی ہتھ کڑیوں  کی رسیاں  دوسری طرف سپاہیوں  کے  ہاتھوں  میں  تھیں۔ ‘‘ اس نے  اپنی یاد داشت میں  اسی سفر کے  ایک ابتدائی واقعے  کے  بارے  میں  بھی لکھا تھا جو اس کے  ذہن پر بری طرح نقش ہو گیا تھا (حالانکہ اس کے  بعد اس کے  مقابلے  میں  کئی گنا زیادہ ہولناک واقعات اسے  دیکھنے  پڑے  )۔ اس نے   جو واقعہ بیان کیا تھا اس کا کچھ حصہ میگزین سے  پھٹ جانے  کی وجہ سے  پڑھا نہیں  جا سکا لیکن جو پڑھا جا سکتا تھا  اس سے  پورے  واقعے  کی تصویر یوں  بنتی تھی۔

’’کمزوری کے  باعث ایک قیدی کہنی کے  سہارے  گرا تو درد محسوس ہوا۔ ایک سپاہی نے  ایک جھٹکے  سے  اسے  اٹھا کر دیکھا تو اس کا چہرہ بچ گیا  تھا لیکن  اس کی کہنی سے  خون بہنے  لگا۔ وہ ذرا بھی احتجاج نہ کر سکا۔ فائدہ کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سپاہی جو چاہتا ہے  وہ اسے  کرنا پڑے  گا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ نہ تو جسمانی طور  پر احتجاج کر سکتا ہے او ر نہ ہی سپاہی سے  کچھ باتیں  کر کے  اس کو کچھ سمجھا کر، اس کے  دل میں  ہمدردی جگا کر ہی اس سے  بچ سکتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سپاہی کوئی انسان نہیں  تھا۔ یہ تو کسی بڑے  مشین کا ایک چلتا پھرتا  حصہ تھا جو اپنا کام کرنے  پر مجبور تھا۔ ‘‘

یاد داشت کا شعری لہجہ بتا رہا تھا کہ قیدیوں  میں  احتجاج اور نفرت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ ’’وہ جیسے  ہی زمین پر گرا  تھا اس کی کمر کی ایک نازک جگہ پر سپاہی کی بھاری بوٹ کی ایک ٹھوکر لگی تھی اور درد سے  اس کی زبان خود بخود کراہ اٹھی۔ لیکن اس کی آنکھیں  صرف فرش کی ٹوٹی ہوئی اینٹوں  پر ٹھہر گئیں۔ سپاہی کا دو سرا ٹھوکا لگا تو وہ گھوم گیا۔ سپاہی کے  بھاری بوٹ بھی دکھائی دیے او ر اس کے  اوپر کئی تہہ لگی ہوئی اون کی پٹیاں  بھی جو سختی اور کرختگی کو اور بھی زیادہ نمایاں  کر رہی تھیں۔ پھر اس کی نظریں  گھوم کر اس سپاہی پر ٹھہر گئیں۔ پیچھے  سے  دو اور سپاہی رہے  تھے۔ ‘‘ آگے  لکھا تھا ’’اس نے  چاہا کہ ان ہندوستانی نسل کے  سپاہیوں  سے  کچھ بات کرے۔ ان سے  کہے  کہ  وہ اس پر اتنا ظلم نہ کریں  بلکہ ہمدردی کریں  کہ وہ تو جنگ آزادی میں  شریک ہونے  کی وجہ سے  یہاں  لائے  گئے  تھے  لیکن ان سپاہیوں  کی منحوس صورت دیکھ کر ہی اس کی ہمت جاتی رہی۔ ‘‘

پورا منظر کسی طاقتور فلم کی طرح اپنے  زمانے  کی آوازوں او ر کہانی کی بے چینی اور درد کو ابھارنے  والی میوزک کے  ساتھ اس کے  ذہن میں  گزرتا رہا او ر آنکھوں  کے  سامنے  وہ سب کچھ تھا جو ہو رہا تھا۔

ایک  دن ایک ہندوستانی نژاد سپاہی نے  کسی بات پر غصے  میں  آ کر قیدیوں  سے  کہا۔

’اب تمہارے  دن قریب آ رہے  ہیں۔ ‘

ان قیدیوں  میں  سے  ایک نے  اپنا بھاری سر ہلاتے  ہوئے  کہا۔

’ تو وہ دن جلد آنے  دو نا۔ ‘

سپاہی نے  نرم ہو کر قدرے  سمجھانے  کے  انداز میں  کہا۔

’یہ کالاپانی ہے۔ یہاں  موت آئے  گی لیکن سب سے  آخر میں  آئے  گی۔ جلد ی تھی تو کہیں او ر جاتے۔ یہاں  تم کو  بڑے  بڑے  جہازوں  پر چڑھا کر پھانسی کے  پھندے  پر لٹکانے  کے  لیے  نہیں  لایا گیا ہے۔ ملک میں  بہت سارے  پھانسی کے  پھندے  ہیں۔

تم لوگ اپنے  پرانے  دن بھولتے  کیوں  نہیں۔ تمھیں  اپنی نوابی یاد آتی ہے۔ وہ نوابی تو اب خواب و خیال ہو گئی۔ اب تو فرنگی سرکار ہے۔ تم نے  غداری کی اور اب تم کو اس کی سزا مل رہی ہے۔ کالا پانی کاٹنے  آئے  ہو۔ عیش کرنے  تو آئے  نہیں۔ اپنے  حرم کی کنیزوں  کو بھول جاؤ۔ شراب و کباب کی باتوں  کو بھول جاؤ۔ یہ دوسری دنیا ہے۔ یہاں  تم کو نئی زندگی ملی ہے۔ اس کو جیو ورنہ ختم کر دئے  جاؤ گے۔ ‘

یکایک ایک گورا ادھر آ گیا۔

’ ایڈیٹ کیا مانگتا ہے۔ کیا بات کرتا ہے  ؟ ڈال دو اسٹون کے  نیچے۔ یہ لوگ ٹورچر(اذیت) ڈیزرو کرتا ہے۔ ‘

اس یاد داشت میں ان دنوں  کی کچھ اور باتوں  کا ذکر بھی تھا۔

’ان کو جوٹ کا بنا ہوا ایک لمبا لبادہ قسم کا لباس پہننے  کو دیا گیا۔ اور پھر چند پہرے  دار ان کے  ہاتھ میں  بیڑیاں  ڈالے  ہوئے  ان کو لے  کر آگے  چلے او ر آگے  ایک مقام پر زنجیروں  کا آخری سرا ایک درخت سے  باندھ دیا۔ یہاں  پہلے  سے  نہ تو قیدیوں  کے  لیے  کوئی بیرک یا جیل تھا اور نہ کوئی سایہ،کھلے  میدان میں  ان کو مقید کر کے  رکھا گیا۔

اس وقت شام ہو رہی تھی اور سامنے   ماؤنٹ ہیریٹ اور وائپر  آئیلینڈ کی طرف سورج بادلوں  کے  پیچھے  چھپا جا رہا تھا۔ گھنے  درختوں او ر جھاڑیوں  سے  ہلکی ہلکی دھوپ کی روشنی قیدیوں  کے  اوپر اور دور پڑ رہی تھی۔ شام کا وقت ہونے  کی وجہ سے   انڈمان کی دھوپ میں  وہ جلانے  والی شدت نہیں  تھی جس سے  جسم کی چربی پگھل جاتی ہے۔ جزائر انڈمان کے  اوپر آسمان میں  گرد و غبار نہیں  ہونے  کی وجہ سے  جب سورج کی کرنیں  سیدھی پڑتی ہیں  تو دھوپ انتہائی تیز ہوتی ہے۔

قیدی پھر بھی جوٹ کے  لباس میں  پسینہ سے  شرابور ہو رہے  تھے۔ اسی حالت میں  وہ ادھر ادھرمٹی اور گھاس پر دراز ہو گئے۔ صحت مند اور زندہ رہتے  ہوئے  بھی یہ تمام لوگ مردہ یا بیمار دکھائی دے  رہی تھے۔

تھوڑی دیر میں  پہاڑیوں  کے  اوٹ سے  آسمان پر مغرب سے  بادلوں  کا غبار  ابھرنے  لگا اور پھر بادل بڑے  بڑے  چیلوں  کی طرح آسمان پر نمودار ہو کر آگے  بڑھنے  لگے۔ ادھر ماؤنٹ ہیرئٹ کے  دامن  میں  پھیلے  پہاڑیوں  سے  بھاپ پیدا ہو کر روئی کے  ٹکڑوں  کی شکل میں  آسمان پر جا رہی تھی۔ یہ دلچسپ سماں  قیدی کتنی دلچسپی سے  دیکھتے  لیکن انہوں  نے  نہیں  دیکھا۔ ان میں  یہ سب دیکھنے  کی سکت نہیں  تھی۔ قدرت کا یہ حسن ان کے  لئے  بیکار تھا۔ ان کے  پاؤں او ر ہاتھ زنجیروں  میں  بندھے   ہوئے  تھے  لیکن اس سے  زیادہ ان کی آنکھیں  تھکن، بھوک کی شدت اور جسمانی اذیت سے  بندھی ہوئی تھیں۔

خالد یہ پڑھتے  ہوئے   سوچنے  پر مجبور ہو گیا تھا کہ تنگ دستیوں، مجبوریوں، خوف اور دہشت سے  بھرے  معاشرے  میں  آج بھی بظاہر آزاد لوگ دیہاتوں، ریگستانوں او ر پہاڑیوں  کے  حسن کو کتنا محسوس کر پاتے  ہوں  گے۔ اگر زندگی اذیتوں  سے  بھر جائے  تو یہ صورتحال کس طرح آنکھوں  سے  احساسِ حسن کو چھین لیتی ہے۔

اس نوجوان نے  آگے  لکھا تھا  ’’یہ قیدی جو ہندوستان کے  گوشے  گوشے  سے  لائے  گئے   انہوں  نے  اپنی پچھلی زندگیاں  مختلف حالات میں گزاری تھیں۔ کوئی پہاڑوں  کے  دامن سے  لایا گیا تھا۔ کوئی دریاؤں  کی ترائی سے۔ کوئی سمندری ساحلوں  سے۔  اب یہ سب اس طرح ایک حالت میں  رکھ دئے  گئے  تھے  جیسے  مرے  ہوئے  لوگ ایک قبرستان میں  جمع کر دئے  جائیں۔ یہ پھر بھی ابھی میدان جنگ میں  جنگ کے  بعد گرے  ہوئے  ان شدید زخمی سپاہیوں  کی طرح  پڑے  ہوئے  تھے  جن کی سانسوں  سے  ان کا جسم ہلتا تھا۔

انہوں  نے  قیدیوں  سے  کوئی بات بھی نہ کی تھی۔ کوئی جملہ بھی نہیں  کہا تھا۔ کس قدر لاتعلق اور کتنی ظالمانہ خاموشی کام تھی۔ جیسے  انسانوں او ر پتھروں  کی دوری۔ یا انسانوں او ر  درندوں  کے  درمیان کی خاموشی! دھمکی کے  جملے  بھی کچھ انسانی رشتے   قائم کر جاتے  ہیں۔ قیدی صرف ان کے  بھاری بھاری بوٹوں  کو دیکھ کر رہ گئے  تھے۔

اور بارش ہونے  لگی۔

آہستہ آہستہ بارش تیز ہو گئی۔ پہلے  تو ان کے  جوٹ کے  بنے  ہوے  موٹے  موٹے  کرتے  بھیگنے  لگے۔ پھر وہ مکمل طور پر بھیگ گئے او ر بھیگے  ہوئے  کرتے  اپنے  پورے  بھدا پن کے  ساتھ رات بھر نہ سوکھنے  کے  لیے  ان کے  جسموں  سے  چپک کر رہ گئے   کہ اوپر سے  ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی۔ دور کافی دور شام اور بارش سے  پھیلنے  والے  اندھیرے  میں  صرف ایک روشنی تب تھوڑی تھوڑی دکھائی دینے  لگی جب بارش تھوڑی ہلکی ہوئی۔ یہ روشنی جہاز کے  اوپر جل رہی تھی جہاں  چند سنتری اور دوسرے  لوگ ادھر ادھر سایوں کی طرح آ جا رہے  تھے۔ کوئی آدھی رات کے  بعد بارش پھر آہستہ آہستہ تیز ہو گئی اور پھر رات بھر موسلا دھار  بارش ہوتی رہی!! بہت سے  قیدیوں  نے  رات کے  اندھیرے  میں  اپنے  جسموں  سے  اپنے  لبادے  کھسکا کر ہٹا دئے  تھے۔

کبھی کبھی ان کے  اوپر بجلی چمکتی تو یہ بھیگے  ہوئے  لوگ کسمسا کر رہ جاتے  کہ انہوں  نے  اپنے  جسموں  کو اپنے  بازوؤں او ر اپنی جانگھوں  سے  چھپا رکھا تھا۔ ‘

آگے  کے  کچھ صفحات پھٹ گئے  تھے۔ اس کے  بعد جیل بننے  کے  بعد کی کچھ کہانیاں  رقم تھیں۔

جن قیدیوں  کو جب پتھر توڑنے او ر  عمارتیں  بنانے  کی  جگہ تک ڈھو ڈھو کر لے  جانے  کے  کام پر لگایا گیا تو ان میں  سب سے  زیادہ ٹال مٹول کرنے  والا سلیم نکلا۔ ایک سپاہی جو اسے  بہت دیر سے  دیکھ رہا تھا اس کے  پاس پہنچا اور کھینچتے  ہوئے  اسے او ر سپاہیوں  کے  بیچ لایا۔  وہاں  اس نے  اسے   اس کے  پنجے  کو دباتے  ہوئے  سیدھے  پیچھے  گرا دیا۔ پھر اسے  اوندھے منھ لٹانے  لگا۔ سلیم بغیر کسی احتجاج کے  خموشی سے  گھوم گیا۔  سپاہیوں  نے  پھر اس کی پچھلی ٹانگوں  پر ایک بھاری پتھر رکھا۔ پھر ہتھیلیاں  کھول کر انہیں  بھاری پتھروں  سے  دبا دیا۔

’’مجھے  پانی پلا دو۔ ‘‘ وہ چلا یا۔

’’نہیں ‘‘ ایک حوالدار کڑکا۔

’’تمھیں  پانی کل شام سے  ملے  گا اگر تم محنت سے  تمام دن کام کرو گے۔ آج رات بھر تم یونہی پڑے  رہو گے۔ پاخانہ پیشاب یونہی کرتے  رہو گے۔ صبح تمہاری پیٹھ پر دس بیس کوڑے  لگیں  گے۔ دوچار سوئیاں  چبھوئی جائیں  گی۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے  گا جب تم کام نہ کرو گے، اور زندہ رہو گے او ر اگر بدزبانی کی تو زبان سامنے  نکال کر اس میں  تار ڈال کر اسے  اس دیوار سے  رات بھر کے  لیے  باندھ دیا جائے  گا۔ یہ یہاں  کے  احکامات ہیں۔ آگے  اپنا اچھا بھلا تم خود سوچ لو۔

پھر اسے   ایک بھاری کولہو چلانے  کے  لئے  دیا گیا تھا۔

جب رات ہو گئی تو  اسے  ایک الگ بند کمرے  میں  ڈال دیا گیا۔

وہ کو ٹھری بڑی بھیانک تھی۔ جیل بننے  کے  بعد جس دن قیدی اس میں  لائے  گئے  ان میں  میں  بھی تھا۔ ہم جیل کے  در و دیوار او ر انتظامات کو کافی دیر تک دیکھتے  رہے  تھی جسے  خود ہمیں  قید کرنے  کے  لئے  ہمارے  ہی ہاتھوں  سے  بنوایا گیا تھا۔

اس واقعہ کو پڑھتے  ہوئے  خالد کو اچانک پٹنہ کے  ایک جیل کی یاد آ گئی جس کی جدید کاری کر کے  اس کا افتتاح پٹنہ کے  کلکٹر نے  کیا تھا اور دو تین برسوں  بعد ایک مقدمہ میں  گرفتار ہو کر اسی جیل میں  ڈال دیا گیا تھا۔

نوجوان نے  سلیم کا آگے  کا حال لکھا تھا۔

کولہو کی مشقت کے  بعد سلیم کو اندر ڈال کر سپاہی باہر آئے او ر باہر سے  تالا پڑنے  کی آواز ہوئی تو سلیم کو کچھ راحت ملی۔ سپاہیوں  کے  جانے  کے  بعد اس کے  چاروں  طرف صرف ایک ہولناک سناٹا رہ گیا۔ چاروں  طرف اندھیرا۔ صرف ایک جانب سلاخوں  کا بنا ہوا دروازہ۔ اس کے  آگے  باہر سناٹا جہاں  اذیت رسانوں  کے  علاوہ اور کسی کی صورت کے  دکھائی دینے  کا امکان نہیں  تھا۔ ایک دن، دو دن نہیں، ایک ماہ، دو ماہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کے  لیے  وہ اس ماحول میں  لایا گیا تھا۔ باہر خوفناک سناٹا  اور تیز ہوائیں  جنگل سے  گزر رہی تھیں  ان میں  ایسی عجیب و غریب آوازیں  ملی جلی  ہوتی تھیں  کہ اکثر ایسا لگتا کہ سامنے  کے  پھانسی گھر سے  روحیں  روتی رہتی ہیں۔ اسے  ایسا لگتا تھا کہ اس کو بھی جلد ہی وہاں  جانا ہے، کتنی دور ہے  وہ… اپنے  ملک سے  … درمیان میں  کتنا وسیع سمندر… سمندر کے  اوپر پر مسرت ہوائیں، سناٹا، اونچی اونچی لہریں  جن کو جہاز نے  پانچ دنوں  میں  پار کیا تھا۔ پانچ دن اور پانچ رات مسلسل چلنے  کے  بعد…وہاں  وہ کبھی نہیں  جا سکے  گا۔ کوئی خط نہیں  لکھ سکتا۔ جو کچھ دیکھ رہا ہے۔ جو کچھ محسوس کرہا ہے ، حکومت برطانیہ کے  ان مظالم کو کوئی نہیں  دیکھ پائے  گا۔ یہ کوئی نہیں  جان پائے  گا کہ اس پر یہ ظلم اس لیے  نہیں  کیا جا رہا ہے  کہ اس نے  قتل کیا تھا یا اس نے  جنگ لڑی تھی بلکہ اس لیے  کیا جا رہا ہے  کہ انگریز جو اسے  بغاوت و غداری کے  الزام میں  شکار کی طرح پکڑ لائے  ہیں  ان سے  غلاموں او ر جانوروں  کی طرح زبردستی اذیت دے  کر کام لینا چاہتے  ہیں۔

یہ کسی جرم کی سزا نہیں  بلکہ بیگار لینے  کا بہانہ ہے۔ یکایک اس کی زبان… اور پھر گویا وہ وہیں  آ گیا جہاں  وہ تھا۔ وہیں  بند کوٹھری وہ فرش، وہی بندھے  ہوئے  ہاتھ وہی پیاس، وہی بھوک، وہی تنہائی، وہی تھپر… وہی ہولناک منظر…وہی پھانسی گھرکی طرف سے  آتی ہوئی ہوائیں …!

’میرے  لیے  یہ ممکن نہیں  کہ میں  وہ کروں  جو مجھے  پسند نہیں۔۔۔ او ر پھر اس کے  بعد رات بھر اس کے  ذہن پر یادوں  کے  ریلے  آتے  جاتے  رہا…سارا ہندوستان… آگرہ کا تاج، موسم، عہد وسطیٰ کا ہندوستان، اس کی تاریخی عظمت، اس کاجلال، اس کے  بہادر سورماؤں  کی کہانیاں، اس کی جنگیں، اس کے  مجبور و غریب لوگ، وہ لو گ بھوک سے  نڈھال ہو کر انگریزوں  کا ظلم… یہ ساری یادیں  اس کے  ذہن پر دوڑتی رہیں۔

اسے  صبح کچھ یوں  محسوس ہوا جیسے  کوئی اس سے  باتیں  کر رہا ہے  لیکن وہ نہ جانے  کیا جواب دیتا رہا۔  ذرا ہوش میں  آیا تو دیکھا کہ یہ جیل کا وارڈر تھا۔ وہ کہ رہا تھا۔

’ تم ایسا کیوں  نہیں  کرتے، برما کا ایک جہاز یہاں  پچھم کی طرف آ کر لگا ہے۔ اس میں  بیٹھ کر تم برما نکل جاؤ،میں  یہاں  سے  تیرے  نکلنے  کا انتظام کر دیتا ہوں، میں ایک لوہا کاٹنے  والی آری دیتا ہوں، رات کو تین بجے  آری سے  یہ تالا کاٹ دینا، سنتری کو میں  تھوڑا افیم کھلا دوں  گا، تم اس کی فکر مت کرو، تمہاری یہ حالت مجھ سے  دیکھی نہیں  جاتی۔ میں  نے  یہاں  صاحب کو بہت سمجھایا ہے او ر گڑگڑا کر کہا کہ بال بچے  دار آدمی ہے۔ چھوٹے  چھوٹے  بچے  ہیں۔ اس کا بڑا بھلا ہو گا لیکن اس نے  ایک نہیں سنی، تو نکل جا، جیسے  میں  کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’لیکن اگر پکڑا گیا تو؟‘

’نہیں  پکڑا جائے  گا۔ میں  تمہارے  ساتھ ہوں  گا۔ اگر پکڑا بھی جائے  گا تو کیا صاحب میری اتنی بھی بات نہیں  مانے  گا۔ ‘

رات کے  تین بجے  وہ جیسے  ہی پھاٹک سے  نکل کر جا رہا تھا اندھیرے  سے  ایک گولی آئی اور اس کی پیٹھ میں  اترگئی۔ وہ وہیں گر کر مر گیا۔ سارا خون منہ اور زخم سے  بہہ کر ٹھنڈا ہو گیا۔

’جناب یہ رپورٹ ہے ، وارڈ بوائے  نے  پیش کیا۔۔۔ ’خطرناک مجرم سلیم جیل کا تالا کاٹ کر بھاگ رہا تھا کہ سنتری جو چوکنا تھا اس نے  اس کو للکارا اور واپس لوٹ آنے  کی ہدایت کی لیکن جب وہ نہیں  مانا تو سنتری کو گولی چلانی پڑی جو اندھیرے  میں  اسکے  پاؤں  پر لگنے  کے  بجائے  سینے  میں  لگ گئی جس سے  مجرم سلیم کی موت ہو گئی۔

’اب یہ بھی انکوائری کرو کہ یہ لوہے  کو کاٹنے  کی آری کس نے  مجرم کو دی تھی۔ اور جتنے  مجرم ترقی کے  بعد مجرموں  کی دیکھ ریکھ کرنے  کے  کام پر معمور کیے  گئے  ہیں  ان کو جمع کر کے  کہا جائے  کہ ان کے  بارے  میں  انکوائری ہو رہی ہے۔ اور یہ کہ وہ اپنے  کام میں  ہوشیار رہیں۔

وارڈر سلام کر کے  چلا گیا۔

’ ان تمام باتوں  کے  باوجود کام میں  پروگریس تسلی بخش نہیں  تھا اور ڈاکٹر والکر ایک اچھی رپورٹ بھیجنا چاہتا تھا۔

’ان مجرموں  کو جو کام چور ہیں۔ الگ کرو اور انھیں  پچھمی بلاک میں  رکھو، کام کرنے  والوں  کو پوربی بلاک میں او ر اپنے  اسٹاف کو ہدایت کرو کہ ان کام چوروں  کی سزا میں  اضافہ کرے او ر خوراک کم کرے۔ ‘

’لیکن اس سے  تو یہ اور بھی کمزور ہو جائیں  گے۔ ‘

’ ہونے  دو، ہمارے  پاس اتنا رسد نہیں  ہے  کہ ہم انڈیا سے  اناج یہاں  تک جہاز میں  ڈھو کر لائیں او ر ان ناکارہ کتوں  کو پال کر رکھیں۔ سمجھے۔ جیسا میں  نے  کہتا ہوں  ویسا ہی کرو۔ ‘

اور غالباً ایسا ا ہی کچھ کیا گیا جس کے  نتیجے  میں پچھلے  بلاک کے  ایک کمرے  سے  زور زور سے  ایک مجرم کے  چیخنے  کی آواز آنے  لگی تھی۔ اس نے  اپنی چیخ سے  سب کو جگا دیا تھا۔ ابھی وہ چیخ ہی رہا تھا کہ دوسرے  مجرم نے  چیخنا شروع کیا۔ ابھی لوگ ادھر گئے  ہی تھے  کہ تیسرے  کی چیخ ابھری۔

’یہ آج ہوا کیا ہے۔ اتنے  سارے  کنکھجورے  آج اس ہال میں  کہاں  سے  پہنچ گئے  کہ سب کو کنکھجورے  کاٹ رہے  ہیں۔ ‘

’ممکن ہے  کہ برسات ہونے  کی وجہ سے  ایسا ہو رہا ہو۔ ‘

’ہو سکتا ہے  کہ یہاں  کسی کسی موسم میں  کن کھجور ے  زیادہ نکلتے  ہوں۔ ‘

جن کو کن کھجوروں  نے  کاٹا تھا وہ بے  تحاشہ چیخ رہے  تھے۔ تڑپ رہے  تھے  ان میں  ایک کا پاؤں  دوسرے  دن صبح تک پھول کر غبارہ ہو گیا۔ اسے  دن کو دوپہر میں  ڈاکٹر کے  پاس پیش کیا گیا۔ اس نے  دوا لگائی لیکن کچھ فائدہ نہیں  ہوا۔

دو چار دنوں  بعد جو چاول بنا اس میں  کنکریوں  کی اتنی تعداد تھی کہ رات تک کوئی کچھ کھا نہ سکا۔

’جناب چاول خراب ہیں۔ ‘

’ تو کیا ان کے  لیے  بانس متی آئے  گا۔ اور جو اسٹاک آ چکا  اس کی جگہ اب دوسرا اسٹاک نہیں  آئے  گا۔ ‘

oo

 

 

 

 

ڈاکٹر والکر نے  پنجڑے  کی چٹکنی خود ہی نکال رکھی تھی اس مکاری کو قید کی گھٹن او ر اذیتوں  سے  تنگ پرندے  بھلا کیا سمجھتے۔ انہیں  کیا معلوم تھا کہ انکاؤنٹر جمہوری نظام کے  اپنے  لازمی تقاضوں  کے  تحت ایک حربے  کے  طور پر ابھی ابھی ایجاد ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے   اشاروں  کنایوں  سے  خواہشِ پرواز کو بھی ہوا دلوائی اور طرح طرح سے  تکمیل کے  امکانات میں  بھی پر جڑوا دئے۔ اسے  قیدیوں سے  دشمنی تو تھی نہیں  کہ وہ ان کے  زندہ بچ جانے  کے  امکانات کو مکمل طور پر ناممکن بناتا۔ وہ تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جب ان پرندوں  کو برنا ہی ہے  تو ان سے  کباب کی لذت بھی حاصل کی جا ہے۔ یہ پرندے  اڑان بھرکر اس کی ذاتی سلطنت کی وسعتوں  کو دیکھیں او ر اس کی وسعتوں  کے  سامنے  اپنے  کھلے  ہوئے  پروں  کی حدود کو محسوس کریں۔

ایک آدھ گمراہ کن اشاروں  پر ہی جیل کے  اندر کانا پھوسی شروع ہو گئی۔ جیل میں  سنتریوں او ر دوسرے  اسٹاف کی حرکتوں، ان کے  اوقات، ان کے  طور طریقوں  کا گہرا معائنہ ہونے  لگا۔ جیل کی دیوار کا بھی معائنہ شروع ہوا۔ ’

اگر ہم نکل بھاگے  تو جائیں  گے  کیسے ؟‘

’ ہمیں  بیڑا ا بنانا پڑے  گا۔ ‘

’اس کے  لیے  رسی چاہئے، اور کاٹنے  کے  لیے  کلہاڑیاں۔ ‘

’اور جنگل میں  کھائیں  گے  کیا؟‘

’ہرن وغیرہ مارنا پڑے  گا۔ کچھوے  نکالیں  گے۔ جنگلوں  میں  بکرے  ملیں  گے۔ ‘

’لیکن ہم جنگل سے  نکل کر کہاں  جا سکیں  گے  ؟’

’ان دنوں  پچھم کی ہوا چل رہی ہے۔ مجھے  جغرافیہ کی کتاب سے  ان جزائر کے  بارے  میں  کچھ جانکاری ہے۔ اگر ہم بیڑا بنا کر ہوا کی سمت میں  چلے او ر قطب شمال کی جانب جنگل میں  آگے  بڑھے  تو آگے  کے  گھنے  جنگلوں  میں  جا پہنچیں  گے او ر اگر ہم وہاں  سے  بیڑا بنا کر ہوا کی سمت میں  چلے  تو ہم برما جا پہنچیں  گے۔ ‘

دیوار کیا ٹوٹی کہ سبھی یکے  بعد دیگرے  نکلنے  لگے۔ سامنے  کے  سنتری کی نظر پڑی لیکن اس سے  قبل کہ وہ گولی چلاتا، ایک قیدی نے  اس کی پیٹھ میں  چھرا بھونک دیا۔ بارش کی تیز آواز اور تاریکی نے  ماحول پر پردہ ڈال دیا تھا۔ قیدیوں  کی ایک بڑی تعداد جو تقریباً ڈھائی سو کی تھی، جیل کی باؤنڈری سے  نکل کر ان نئے  باغات سے  ہوتے  ہوئے  پہاڑیوں  کی طرف بھیگتے  ہوئے  آگے  بڑھی۔

 

سامنے  کی پہاڑیوں  کو دیکھنا۔

بھاگ نکلنے  کی راحت اور آزادی کو محسوس کرنا۔

تیز بھاگنا اور جگہ جگہ زخمی ہونے  کے  بعد اب ایک محفوظ حد تک دور آ جانے  کے  بعد سستانا۔

صبح کی روشنی بھوک پیاس کے  باوجود نئی زندگی لیکر آئی اور لبوں  پر مسکراہٹ کے  پھول کھلے۔

یہ جگہ جنگلوں  کے  بیچ کافی دور دور تک کھلی کھلی تھی۔

مچھلیاں او ر کیکڑے  کھائے  گئے۔

جنگل میں  زیادہ دور اندر جانا خطرناک تھا کہ وہاں کے  قبائلی پوشیدہ طور سے  رہتے  ہیں۔ وہ فوج کو دیکھتے  ہی دھواں  دھار تیر برساتے  تھے۔ تقریباً پچاس سال قبل ہی تو فوج نے  سینکڑوں  کی تعداد میں  ان قبائلیوں  کا قتل کر کے  پورٹ بلیر کے  جنوبی حصہ پر قبضہ کیا تھا۔

’سر۔۔۔  جیل ٹوٹ گیا۔ پچھم بلاک والے  قیدی سب کے  سب بھاگ گئے۔ ‘

’لیکن یہ کب ہوا؟‘

’لگتا ہے  کافی دیر پہلے  ہو۔ ا‘

’لیکن سنتری کہاں  تھے ؟‘

’ایک سنتری کا قتل ہو گیا۔ دوسرا افیم کھا کر سو رہا تھا۔ ‘

’تم  لوگ سخت لا پرواہ ہو۔ ‘

’لیکن سر میں  پہلے  بھی رپورٹ دیتا رہا ہوں  کہ جیل کی دیواریں  بہت کمزور ہیں۔ ‘

’ٹھیک ہے ، میں  یہ تو سمجھ سکتا ہوں کہ وہ جیل توڑ کر نکلنے  میں  کامیاب ہو گئے  لیکن تم نے  یہ خبر دینے  میں  اتنی دیر کیوں  کر دی۔ حکم دو کہ فوج کی ٹکڑی ان قیدیوں  کا پیچھا کرے او ر ان کو تلاش کرے۔

فوج کی ٹکڑی بوٹ پر سوار صبح کے  اجالے  میں  ساحل ساحل جا کر دوربینوں  سے  ڈھونڈتی رہی اور آگے  بڑھتی رہی۔  جنگلوں  میں  بھی تلاش کے  بہانے  قبائلیوں  سے  بچتے  ہوئے    رائفل بردار ٹکڑی جنگلوں  میں  گشت کرتی رہی۔ ساحل کے  کنارے  گھومتی رہی۔ شام تک کچھ سراغ نہیں  لگا۔ کھیتوں  میں  جہاں  سے  ہو کر وہ گزرے  تھے  ان کے  نشانات کچھ کچھ مل رہے  تھے۔ جو کچھ وہ ساتھ لے  جا رہے  تھے  ان میں  سے  کچھ گرا ہوا ملا لیکن اس سے  آگے  کوئی نشانی نہیں  مل سکی۔  شام تک کچھ بھی دکھائی نہ دینے  کے  بعد  فوجی ٹکڑی واپس آ گئی۔ قیدیوں  کے  نہیں  ملنے  کی رپورٹ جیل سپرنٹڈینٹ کو دی گئی جو۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

ادھر بیڑے  کے  لئے  لکڑیاں  توڑی گئیں او ر ان کو لکڑیوں  سے  ہی باندھا گیا۔ ہوا کی سمت کا اندازہ کیا گیا اور سمندری تھپیڑوں  میں موت کے  پورے  امکانات اور کھانے  کے  لئے  کچھ نہ ملنے  کے  امکانات اور پانی لے جانے  کا کوئی ذریعہ نہ ہونے  کے  باوجود اس سمندری مہم پر چل پڑنے  کا فیصلہ لیا گیا۔ لیکن جب لوگ بیڑے  پر چڑھے  تو وہ زیادہ نیچے  دبنے  لگا۔ بیڑے  تمام قیدیوں  کے  سوار ہونے  کیلئے  کافی نہیں  تھے۔ کچھ قیدی ان میں  سوار ہو گئے  اس طرح صرف ۵۵ لوگ بیڑوں  پر آ پائے۔ بقیہ نے  ان کو الوداع کہا اور دور تک انہیں  پانیوں  میں  شاید ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  جاتے  دیکھتے  رہے۔ جب وہ بیڑا کامیابی سے  ان کو لے جاتے  ہوئے  دور موجوں  میں  کھو گیا تو انہوں  نے  اب اپنے  بارے  میں  سوچنا شروع کیا۔

 

وہ کچھ جنگل سے  ہو کر آگے  نکل گئے۔ وہ سمندر کے  کنارے  کنارے  چلنے  لگے۔ ساحل کی ریت پر چلنے  میں  انہیں  آسانی ہو رہی تھی۔ انہوں  نے  کچھ دور چلنے  کے  بعد پھر کھانے  کی کوئی چیز تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اچانک ان پر قبائلیوں  نے  اچانک حملہ کر دیا تھا۔ انہوں  نے  بھاگنے  کی کوشش کی لیکن ان میں  سے  ایک بھی نہیں  نکل پایا۔ انگریزوں  کے  حملوں  نے  قبائلیوں  کو بہت حد تک دلیر اور خونخوار بنا دیا تھا۔ اب جنگل میں  یہاں  وہاں  لاشیں  بکھری پڑی تھیں۔ جنگلی قبائل دھیرے  دھیرے  ایک ایک کر کے  تمام گرے  ہوئے  زخمیوں  کا معائنہ کر رہے  تھے۔

گوپی کی چلتی سانس کو دیکھ کر ایک قبائلی جھکا اور اسے  غور سے  دیکھا۔ پھر ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ گوپی کے  پیٹ میں  تیر لگا تھا لیکن وہ چوٹ سے  کم اور خوف سے  زیادہ کمزور ہو کر گرا ہوا تھا۔ ہاتھوں  میں  قاتلانہ تیر کمان لیے  ہوئے  قبائلی اس کی آنکھوں  کے  سامنے  کھڑے  تھے۔ ان کے  سامنے  قیدیوں  کا گروہ کٹی ہوئی فصل کی طرح گر گیا تھا۔ اس کی نظر ٹھیک ایک قبائلی کی آنکھوں  میں  جا پڑی اور اس نے  جان بخشی کے  لیے  اس قبائلی کے  سامنے  دونوں  ہاتھ جوڑ دئے۔ آنکھیں  صاف صاف رحم کی بھیگ مانگ رہی تھیں۔

ایک نوجوان جروا نے  اپنے  پہلو سے  لٹکا ہوا چاقو نکالا اور جھک کر گوپی کے  سینے  میں  بھونکنا چاہا کہ اس جروا نے  جس کی آنکھوں  میں  جھانکتے  ہوئے  گوپی کو آنسو آ گئے  تھے، اسے  روک دیا۔

’تم مجھے  مت مارو، میں  تمہارا دشمن نہیں  ہوں۔ ‘

’تم مجھے  مت مارو‘ میں  تو قیدی ہو اور قید سے  چھوٹ کر بھاگا ہوں۔ ‘

’تم مجھے  کیوں  مارتے  ہو، میں  تمہاری سیوا کروں  گا۔ ‘

’بھگوان تم لوگوں کا بھلا کرے۔ ‘

’مجھے  بہت پیاس لگی ہے۔ ‘

’یہ کیا کہہ رہا ہے ‘

سردار کو یکایک وہ دن، وہ لمحے  یاد آ گئے  جب وہ خود ایک بار ایک کشتی پرتھا اور کشتی ڈوبنے  لگی تھی اور بچنے  کی کوئی امید نہ تھی۔ اس وقت زندہ رہنے  کی خواہش ہوئی۔

سردار نے  اس کو قتل کرنے  سے  منع کیا اور اس کو اٹھا کر لانے او ر اسکا علاج کرنے  کا حکم دے  دیا۔ سارے  قبائل گوپی کو تعجب سے  دیکھتے  رہے۔

سردار کے  اشارے  پر چند نوجوانوں  نے  گوپی کو اٹھا لیا اور مسکراتے  ہوئے  اسے  اپنی بستی کی طرف لے  گئے۔ ان کو اس بات پر حیرت تھی کہ سردار نے  اس کی جان بخش کر دی، کیونکہ سردار کا یہ روّیہ بالکل انوکھا اور روایت سے  ہٹ کر تھا۔ لیکن جب سردار نے  ان کی شرارت بھری نظروں  کو دیکھ کر انہیں  جھڑکی دی تو انہیں  اندازہ ہوا کہ سردار تو سنجیدہ تھا اور وہ اس زخمی آدمی کو زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ مسکراتے  ہوئے  انہیں  بھی پتہ نہیں  کیسے  اس آدمی پر ترس آنے  لگا۔ ان کے  لیے  انسانی ہمدردی کوئی نئی بات نہیں  تھی لیکن اپنے  دشمنوں  کو زندہ چھوڑنا ان کے  دستور میں  نہیں  تھا اور جو بھی اجنبی ان جزیروں  پر آتے  تھے  وہ عموماً پوری تیاری اور بہتر ہتھیاروں  کے  ساتھ ہی آتے  تھے او ر ان قبائلیوں  پر پہلے  سیدھے  حملہ کرتے  گویا یہ قبائلی خونخوار جانور تھے۔

گوپی کو سردار کی جھونپڑی میں  لایا گیا۔ نوجوان فوراً پانی لائے۔ اپنے  طور کی وہاں  کھڑی عورتیں  دلچسپی سے  گوپی کو دیکھ رہی تھیں۔ کسی اجنبی پر اگر پیار آ جائے  تو پھر پیار ہو جاتا ہے۔ ایک عورت کو کسی نے  زخم پر لگانے  والی دوا تیار کرنے  کی ہدایت کی۔ وہ دوا بنا کر ایک بڑے  سے  جنگلی پتے  پر رکھ کر لائی۔ ایک قبائلی نے  جس کی نظر میں  ڈاکٹر کی طرح سنجیدگی سے  گوپی کے  زخموں  کو دیکھ رہی تھیں۔ اس دوا کا لیپ اس کے  زخموں  پر لگایا۔ شام کے  وقت گوپی کو بھی وہاں  لایا گیا جہاں  آج کی جنگ کی فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔

گوپی کو یہ منظر دیکھ کر بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔

اسے  محسوس ہوا کہ اس کے  زخم پر کوئی آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہا ہے۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے  اپنے  اوپر ایک جواں  سال لڑکی کو جھکے  ہوئے  دیکھا جس کا بدن سیاہ لیکن چمکدار تھا۔ بدن اتنا خوبصورت ڈھلا ہوا جیسے  ہندوستان کے  مجسمہ ساز اپنے  بہترین مورت بناتے  تھے۔ سینے  جو کھلے  ہوئے  تھے۔ نوکیلے او ر چمکیلے  تھے او ر انتہائی تندرست۔ اس آنکھوں  میں  چمک تھی۔ اس کے  لبوں  پر ایک مسکراہٹ ابھری، کمر، کولھے، ٹانگیں  سب کھلی ہوئی تھیں۔ صرف کمر کے  گرد ایک رسی سی تھی جس سے  کچھ پتیاں  جھول کر پردہ کر رہی تھیں۔

اس کو آنکھ کھولتے  دیکھ کر وہ اور مسکرائی۔ پھر اٹھ کر کھڑی ہوئی تو گوپی اس کے  پورے  سراپا کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ لہراتی ہوئی گئی اور درخت کی پتی میں  پانی لے  کر آئی اور اسے  پلایا۔

یہ ایک نئی دنیا تھی۔ یہ ایک حقیقی دنیا تھی۔ لیکن جیل کی دنیا سے  بھی اجنبی۔ ایک مکمل عدم ترسیل کی دنیا جہاں  سرے  سے  کوئی ایسی منظم دنیا تھی ہی نہیں  جس میں  رہنے  کا وہ عادی تھا۔ یہ دنیا نہ تو اس کے  اپنے  ان لوگوں  کے  بیچ کی دنیا جیسی تھی جہاں  کا وہ رہنے  والا اور نہ انگریزوں  کے  اختیار کی اس دنیا جیسی تھی جس میں  وہ ایک قیدی کی حیثیت سے  آیا تھا۔ وہ زندہ بچ تو گیا تھا لیکن اسے  اس بات کا بھی قطعی اندازہ نہیں  تھا کہ یہ لوگ اسے  زندہ رکھیں گے  یا ان کے  ارادے  کچھ اور ہیں۔ اس نے  ان خوفناک قبائلیوں  کے  بارے  میں  سن رکھا تھا جو جنگلوں  میں  رہتے  تھے او ر وہاں  کسی کی آمد کو برداشت نہیں  کرتے  تھے او ر کسی بھی اجنبی کو جانوروں  کی طرح اپنے  قابو میں  لے  لیتے  تھے، انہیں  جان سے  مار دیتے  تھے او ر کھا جاتے  تھے۔ لیکن دھیرے  دھیرے  گوپی کو معلوم ہوا کہ اسے  تو ان لوگوں  نے  اپنا مہمان بنا لیا ہے۔ پھر دو تین دنوں  بعد دو تین جروا آئے او ر انہوں  نے  اسے  پکڑ کر کھڑا کیا۔ پھر اس کے  کپڑے  اتار کر اسے  مکمل ننگا کر دیا۔ اس کے  جسم پر دو تین لڑکے او ر لڑکیوں  نے  مٹی کی مالش کی اور کمر میں  ایک رسی سی چیز باندھ دی۔

سردار نے  اسی لڑکی کی طرف دیکھ کر جسے  وہ رتھی رتھی کہہ کر پکار رہے  تھے  اشارہ کر کے  گوپی کی دیکھ ریکھ کرنے  کو کہا۔

صبح و شام رتھی اس کی دیکھ ریکھ کرنے  لگی۔ وہ رفتہ رفتہ گوپی کو اپنی زبان کے  الفاظ اور اشارے  سمجھانے  لگی۔

’یہ رتھی کو دیکھتا رہتا ہے۔ ‘ سردار نے  اپنی بیوی سے  کہا۔

’ہاں  دیکھتا تو رہتا ہے۔ ‘

’اس کو عورت کی ضرورت ہے۔ ‘

’ہاں۔ ‘

’رتھی کی اس سے  شادی کر دو۔ ہر آدمی کی ضرورت کا پورا ہونا ضروری ہے۔ ‘

’رتھی۔۔۔  کیا تم اسے  پسند کرتی ہو۔ ‘

’بہت دلچسپ ہے۔ ‘

oo

 

 

 

 

ادھر فوجی بوٹ کئی دنوں  تک تلاش میں  سرگرداں  رہی۔ کہیں  کچھ دکھائی نہیں  دیا۔ ایک جگہ جب وہ ساحل کے  قریب سے  گزر رہے  تھے، انہیں  بیڑے  پر نہیں  جانے  والے  قیدیوں  نے  دیکھ لیا اور جنگل میں  روپوش ہو گئے۔ فوجیوں  کی ان پر نظر نہیں  پڑی تھی۔

ادھر بیڑا ہواؤں  کے  رحم و کرم پر آگے  بڑھتا رہا۔ سمت کا اندازہ لگا کر وہ بیڑے  کے  رخ کو تھوڑا موڑتے  بھی جاتے  تھے۔ تین دن ہو گئے  تھے۔ کہیں  کوئی ساحل نظر نہیں  آیا۔ ہوا تیز ہوتی تو ان کی امید بڑھ جاتی۔ ہوا مدھم ہوتی تو ان کی امیدوں  پر پانی پھرنے  لگتا۔  اب بھوک اور پیاس کی شدت جان لیوا ہو گئی۔ اگلے  دن ان میں  سے  دو تین لوگ مرے  ہوئے  ملے۔ ان کو دیکھتے  ہوئے  باقیوں  کو کچھ خیال آیا۔ سب اندر ہی اندر اس خیال سے  متفق ہو گئے  تھے۔ انہوں  نے  ان ساتھیوں  کی لاشوں  کو سمندر میں  پھینکنے  کے  بجائے  ان کو کھا کر اپنی بھوک مٹائی۔ انہیں  نہ گھن آئی نہ شرم۔ انہیں  صرف زندگی اور جنگ کی عظمت سمجھ میں  آئی جسے  بچانا تھا۔ اور جو بچنے  پر آمادہ تھی۔

’زندگی ایسی ہی ہے۔ ‘ ان میں  سے  ایک نے  اپنا ہاتھ صاف کرتے  ہوئے  کہا۔ ’یہ جس شکل میں  آئے  اسے  قبول کرنا چاہئے۔ ‘ دوسرے  خاموشی اسے  سنتے  رہے  جیسے  سر ہلا رہے  ہوں۔

سب ذرا تازہ دم ہونے  کے  بعد زور زور سے  بیڑے  کی رفتار بڑھانے  کیلئے  چپو چلانے  لگے۔ ان کا بیڑا یونہی سمندر میں  مدھم  مدھم چلتا رہا کہ اچانک موسم بدلنے  لگا اور پھر ہوا کا رخ مڑ گیا۔ سبھی نڈھال ہو چکے  تھے۔ بیڑے  کو ہوا کے  زور کے  سامنے  روکنے  کا کوئی ذریعہ نہیں  تھا۔ بیڑا اب  الٹی سمت میں  بڑھا جا رہا تھا۔ انہوں  نے  ہوا سے  لڑنے  کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہوا بہت تیز ہو گئی۔ سبھی مردوں  کا گوشت کھانے  کے  نشے او ر تکان سے  نڈھال ہونے  کے  سبب نہ چاہتے  ہوئے  بھی سونے  سے  لگے  تھے۔ رات کے  اندھیرے  میں  تاروں  کے  سائے  میں  اس اجنبی سمندر میں  جہاں  انسان کا کوئی کام نہیں  تھا‘ بیڑہ تیز لہروں  کے  ہچکولوں  پر اپنی من مانی سمت میں  چلتا رہا۔ پھر آسمان پر تارے  چھپنے  لگے او ر سیاہ بادل چاروں  طرف چھا گئے۔ سمتوں  کا اندازہ ختم ہو گیا۔ ہوا اور تیز ہونے  لگی۔ کبھی کبھی بیڑا ایک طرف سے  اتنا اٹھ جاتا کہ وہ لڑھکنے  سے  لگتے او ر ایک دوسرے  کے  اوپر گرنے  لگتے  لیکن اب ان میں  مزاحمت کی خواہش تک باقی نہیں  رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اچانک آسمان پر بجلی چمکنے  لگی لیکن ان کو دیکھنے  والا کوئی نہیں  تھا۔ سب سو گئے  تھے۔ پھر موسلا دھار بارش ہونے  لگی لیکن سبھی سوتے  رہے۔ جب بجلی چمکتی تو اس کی روشنی میں  ان کے  جسم لاشوں  کی طرح چمک جاتے  لیکن اس منظر کو قدرت کے  سوا اور کوئی دیکھنے  والا نہ رہا۔ سب کے  جسموں  نے  اپنے  کو مکمل طور پر نیند کی گود میں  ڈال دیا تھا۔ اپنے  کو تقدیر کے  سپرد کر دیا تھا۔ صرف ایک دو آنکھیں  کھلی تھیں۔ وہ بھی ایسا محسوس کر رہی تھیں  جیسے  عالمِ خواب میں  ہوں۔ انہیں  بھی محسوس ہو چکا تھا کہ اب یہ بیڑا موت کی وادی میں  داخل ہونے  جا رہا تھا اور یہ لمحے  ان کی زندگی کے  آخری لمحے  تھے۔

کاش ان کا بیڑا اب بھی کہیں  کسی ساحل پر آ جاتا چاہے  وہ کیسا بھی ملک کا ہو۔ وہاں  چاہے  کوئی قبائلی ہی کیوں  نہ ہوں۔ کون ان کی اس حالت پر ترس نہیں  کھائے  گا۔ وہ اپنی آنکھوں  سے  ان کو سب کچھ سمجھا لیں  گے۔

پھر انہیں  بھی نیند آ گئی۔ تمام رات یوں  ہی گزرتی رہی۔

بارش رک چکی تھی۔

صبح ہوئی۔

بیڑا سمندر میں  اپنی مرضی سے  بھٹک رہا تھا۔

فوجی بوٹ واپس آنے  کیلئے  تیار تھی کہ ان میں  سے  کسی نے  مشورہ دیا کہ وہ دور سمندر  سے  ہو کر چلیں۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ کسی جزیرے  کی بلندی پر چڑھ کر دیکھیں۔ جب انہوں  نے  جزیرے  پر چڑھ کر دیکھا تو دور افق کے  قریب ایک بیڑا سا بہت مدھم مدھم  دکھائی دے  گیا۔ وہ چونک گئے۔

انہوں  نے  بیڑے  کا پیچھا کیا۔

جو پہلا منظر انہوں  نے  دیکھا وہ بہت ہولناک تھا۔ فوجی بوٹ نے  ان کو دیکھ لیا تھا۔

بوٹ کو دیکھ کر یہ تقدیر کے  بحر عظیم میں  اترے  ہوئے  قیدی بھی گھبرا گئے۔

بوٹ کے  قریب آتے  ہی کچھ قیدیوں  نے  سمندر میں  چھلانگ لگا دی۔ کچھ نے  اپنے  کو ان کے  رحم وکرم کے  حوالے  کر دیا۔ چھلانگ لگائے  قیدیوں  میں  سے  کچھ پکڑے  گئے۔ کچھ ڈوب گئے۔

کل ۳۳ قیدی پکڑ کر واپس لائے  گئے۔

جو قیدی بیڑوں  پر سوار ہوئے  تھے  انہیں  فوجی جہاز اور کشتیوں  پر آئے  ہوئے  مسلح سپاہیوں  نے  پکڑلیا۔ دوسرے  دن دوپہر تک ڈاکٹر والکر کے  حکم سے  ان تمام پکڑے  گئے 33   قیدیوں  کو پھانسی دے  دی گئی۔

سمندر کی یہ کہانی ایک قیدی نے  پھانسی سے  پہلے  والی رات میں  ایک ہندوستانی چوکیدار کو سنائی تھی۔ یہ والی کہانی قیدی ایک دوسرے  کو اکثر سناتے  رہتے  تھے۔ اور اب وہاں  لوگ اسے  کالا پانی کی پرانی کہانیوں  کے  طور پر سنایا کرتے  تھے۔

( جاری )