FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ریاض الصالحین

 

امام نوویؒ

جلد اول – ج

 

 

 

متفرق احادیث او ر علامات قیامت کا بیان

 

۳۷۰۔ باب:متفرق احادیث اور علامات قیامت

 

۱۸۰۸۔ حضرت نواس بن سمعان ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا تو آپ نے اس فتنے کو گھٹا یا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اسے بڑا خطرناک بتایا، یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) حتیٰ کہ ہم نے سمجھا کہ وہ قریب ہی کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ پس جب ہم شام کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق ہمارے اندر اثرات محسوس کیے تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ!آپ نے صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا۔ آپ نے اسے کبھی حقیر اور کبھی بڑا خطر ناک کر کے بیان کیا حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ قریب ہی کھجوروں کے جھنڈ میں ہے آپ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ اور چیزوں سے زیادہ شدید اندیشہ ہے ، اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں تمہارے علا وہ اکیلا ہی اس سے نمٹ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلے گا تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا جانشین ہے۔ اور وہ (دجال) نوجوان اور گھنگریالے بالوں والا ہو گا اور اس کی ایک آنکھ ابھری ہوئی ہو گی گویا کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص اسے پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر سورۂ کہف کا ابتدائی حصہ پڑھے۔ بے شک وہ شام اور عراق کے درمیانی راستے پر ظاہر ہو گا اور وہ دائیں بائیں سب پھر جائے گا، اے اللہ کے بندو! تم ثابت قدم رہنا۔ ‘‘ صحابہ کہتے ہیں : ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ زمین میں کتنی مدت ٹھہرے گا ؟آپ نے فرمایا: ’’چالیس دن اور (ان میں سے پہلا) دن ایک سال کی طرح ہو گا اور (دوسرا) دن ایک مہینے کی طرح اور (تیسرا)دن ایک جمعہ کی طرح اور اس کے باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وہ دن جو ایک سال کی طرح ہو گا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی (پانچ) نمازیں ہی کافی ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں ! بلکہ تم اس دن کا اس کے مطابق اندازہ کرنا (اور اس کے حساب سے نمازیں پڑھتے رہنا)۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا اس کی زمین میں چلنے کی رفتار اور تیزی کا کیا حال ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’بارش کی طرح، جس کے پیچھے ہوا ہو۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی بات مان لیں گے۔ پس وہ آسمان کو حکم دے گا تو بارش برسائے گا اور ز مین کو حکم دے گا تو وہ نبا تات اگائے گی۔ جب ان کے جانور شام کو ان کے پاس واپس آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے کہیں لمبے ہوں گے ، ان کے تھن مکمل طور پر بھرے ہوں گے ، ان کی کوکھیں  (سیر ہونے کی وجہ سے) زیادہ پھیلی ہو ئی اور کشادہ ہوں گی۔ پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا لیکن وہ اس کی دعوت قبول نہیں کریں گے ، وہ ان کے پاس سے واپس جائے گا تو وہ فورا قحط زدہ نہیں ہو جائیں گے اور ان کے مال میں سے ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ وہ کسی بنجر زمین پر سے گزرے گا تو اسے کہے گا : اپنے خزانے نکال دو، تو اس کے خزانے شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ پھر وہ ایک بھر پور جوانی والے آدمی کو بلائے گا اور اس پر تلوار کا وار کرے گا جو اسے تیر انداز کے نشانے کی طرح دو ٹکڑے کر دے گا پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ آئے گا اور اس کا چہرہ چمکتا دمکتا اور ہنستا ہوا ہو گا۔ پس دجال اس (فتنہ و فساد کی) حالت میں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا۔ پس وہ (آسمان سے) دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے اتریں گے ، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے اور جب سر کو اٹھائیں گے تو ان سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی  (یعنی ان سے پانی کے قطرے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں بن کر یعنی نہایت سفید چمکدار بن کر گریں گی) آپ کے سانس کی بھا پ جس کا فر کو بھی پہنچے گی وہ مر جائے گا اور آپ کا سانس آپ کی حد نظر تک پہنچے گا، آپ دجال کا تعاقب کریں گے ،حتیٰ کہ اسے ’’باب لد‘‘ کے پا س جا لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر عیسی ؑ ایسے لوگوں کے پاس آئیں گے جنہیں اللہ نے اس دجال کے فتنے سے بچا لیا ہو گا، حضرت عیسیٰؑ ان کے چہروں پر ہاتھ پھریں گے۔ اور انہیں جنت میں ان کے درجات کے بارے میں بتائیں گے۔ پس وہ (عیسیٰ ؑ) ابھی اسی حالت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف وحی فرمائے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں جن کے لڑ نے کی کسی میں طاقت نہیں ، آپ میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جا کر ان کی حفاظت فرمائیں۔ اور اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے پستی کی طرف تیزی سے دوڑیں گے۔ ان کا پہلا قافلہ بحیرہ طبریہ سے گزرے گا اور وہ اس کا سارا پانی پی جائے گا اور جب ان کا بعد والا قافلہ وہاں سے گزرے گا تو وہ کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہو تا تھا اور اس عرصے میں اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی محصور رہیں گے حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک کو بیل کی ایک سری تمہارے آج کے کسی ایک کے سو دینار سے بہتر معلوم ہو گی۔ پس اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے تو اللہ ان (یاجوج ماجوج) کی گر دنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس سے وہ ایک جان کی طرح مر جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو وہ زمین میں ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں پائیں گے جو ان کی (لاشوں کی) گندگی اور سخت بدبو سے خالی ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے تو اللہ ایسے بڑے پرندے بھیجے گا جیسے بختی اونٹوں کی گردنیں ہوتی ہیں۔ پس وہ پرندے ان کی لاشوں کو اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا پھینک دیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا جو ہر مکان اور خیمے پر برسے گی اور وہ ساری زمین کو دھو دے گی حتیٰ کہ وہ اسے شیشے کی طرح صاف کر دے گی۔ پھر زمین سے کہا جائے گا اپنے پھل اگا اور اپنی برکت پھیر لا۔ پس اس دور میں ایک جماعت ایک انار کھائے گی اور وہ اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں برکت ڈال دی جائے گی حتیٰ کہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی لوگوں کی ایک جماعت کو کافی ہو گی اور ایک دودھ دینے والی گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہو گی۔ اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہو گی پس وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اللہ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جوان کو ان کی بغلوں کے نیچے سے لگے گی اور وہ ہر مومن اور مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور پھر صرف بد ترین لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو اس زمین پر گدھوں کی طرح اعلانیہ لوگوں کے سامنے عورتوں سے جماع کریں گے۔ پس انہی لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۳۷) (۱۱۰)

۱۸۰۹۔ حضرت ربعی بن حراش بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو مسعود انصاری کے ساتھ حضرت حزیفہ بن یمان ؓ کے پاس گیا تو حضرت ابو مسعود ؓ نے انہیں کہا : آپ نے رسول اللہﷺ سے دجال کے بارے میں جو سنا ہے وہ مجھے بتائیں ؟ انھوں نے کہا: ’’بیشک دجال نکلے گا اس کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی۔ پس لوگ جسے پانی سمجھیں گے وہ آگ ہو گی۔ جو جلا دینے والی ہو گی اور لوگ جسے آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہو گا۔ پس تم میں سے جو کوئی اسے پائے تو وہ جسے آگ سمجھتا ہو اس میں گرے ، اس لیے کہ وہ تو شیریں اور عمدہ پانی ہو گا۔ ‘‘ پس حضرت ابو مسعود ؓ نے فرمایا: ’’میں نے بھی یہ حدیث۔ رسول اللہﷺ سے سنی ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۴۹۴۔ فتح)،و مسلم (۲۹۳۴و۲۹۳۵)

۱۸۱۰۔ حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا، میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال، پھر اللہ عیسیٰؑ ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا، وہ اسے تلاش کریں گے اور اسے قتل کریں گے ، پھر لوگ سات سال تک اسی طرح رہیں گے کہ کسی دو آدمیوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہو گی،پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ٹھنڈی ہوا بھیجے گا۔ تو روئے زمین پر کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں بچے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھلائی یا ایمان ہو گا مگر وہ ہوا اس کی روح قبض کر لے گی، حتیٰ کہ اگر تم میں سے کو ئی شخص پہاڑ کے اندر بھی گھسا ہو گا تو ہوا وہاں بھی پہنچ کر اس کی روح قبض کر لے گی۔ اور پھر بد ترین لوگ ہی باقی رہ جائیں گے ، جن میں (شر انگیزی اور قضائے شہوت کے اعتبار سے) پرندوں کی سی پھرتی اور (ایک دوسرے کے تعاقب اور خونریزی میں) خودبخود جانوروں کی سی۔ درندگی ہو گی۔ وہ کسی نیکی کو نیکی سمجھیں گے نہ کسی برائی کو برائی۔ پس شیطان ان کے پاس انسانی شکل میں آئے گا اور کہے گا : کیا تم میری بات نہیں مانتے ؟ وہ کہیں گے : تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ پس وہ انہیں بتوں کی پوجا کرنے کا حکم دے گا اور وہ اپنے رزق سے فائدہ حاصل کرتے ہوں گے اور ان کی زندگی بڑے آرام سے گزر رہی ہو گی۔ پھر صور پھونکا جائے گا۔ پس جو شخص بھی اسے سنے گا وہ اپنی گر دن کو جھکا لے گا ور پھر اسے اٹھائے گا۔ سب سے پہلا شخص جو اسے سنے گا وہ ہے جو اپنے اونٹوں کے حوض کی لپائی اور درستی کر رہا ہو گا تو وہ بے ہو ش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا یا فرمایا اللہ بارش نازل فرمائے گا، گو یا کہ وہ بارش شبنم کی طرح ہو گی، جس سے لوگوں کے جسم اگیں گے ، پھر وہ دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو پھر سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔ پھر انہیں کہا جائے گا : اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو اور (فرشتوں سے کہا جائے گا) انہیں ٹھہراؤ۔ اس لیے کہ ان سے باز پرس ہو گی پھر کہا جائے گا :ان سے جہنمیوں کو نکال لو۔ پوچھا جائے گا : کتنے ؟ جواب دیا جائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننا نوے۔ پس یہ ایسا دن ہو گا جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھولی جائے گی۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۴۰)

۱۸۱۱۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دجال مکہ اور مدینہ کے علا وہ ہر شہر میں داخل ہو گا اور مکہ اور مدینہ کے ہر داخلے کے راستے اور پہاڑ ی درے پر فرشتے صفیں باندھے ان دونوں کی حفاظت کرنے پر مقرر ہوں گے۔ پس وہ (مدینے کے قریب) شور والی زمین پر اترے گا تو مدینہ تین مرتبہ زلزلوں سے لرز اٹھے گا اور اللہ تعالیٰ مدینے سے ہر کافر و منافق کو باہر نکال دے گا۔ ‘‘  (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۴۳)

۱۸۱۲۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے ، جنھوں نے جسموں پر سبز چادریں لپٹی ہوں گی۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۴۴)

۱۸۱۳۔ حضرت ام شریک ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’لوگ دجال کے خوف سے فرار ہو کر پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۴۵)

۱۸۱۴۔ حضرت عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کر فرماتے ہوئے سنا : ’’حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے لے کر قیام قیامت تک دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۴۶)

۱۸۱۵۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’دجال نکلے گا تو مومنوں۔ میں سے ایک آدمی اس کی طرف جائے گا، جس راستے میں دجال کے پہرے دار ہوں جاسوس اسے ملیں گے ، وہ اس سے پوچھیں گے :تم کہاں کا ارادہ رکھتے ہو؟ وہ کہے گا : میں اس کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ اسے کہیں گے : کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں رکھتے ہو؟ وہ جواب دے گا :ہمارے رب میں تو کوئی پوشیدگی نہیں۔ پس وہ کہیں گے : اسے قتل کر دو، پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے : کیا تمہارے رب نے تمہیں منع نہیں کیا کہ تم نے اسکی اجازت کے بغیر کسی کو قتل نہیں کرنا۔ تب وہ اسے دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب مومن اسے دیکھے گا تو کہے گا : اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کا رسول اللہﷺ نے ذکر فرمایا تھا۔ دجال اس کے بارے میں حکم دے گا کہ اسے پیٹ کے بل لٹا یا جائے ، پھر کہے گا کہ اسے پکڑ و اور اس کے سر اور چہرے پر مارو۔ پس اس طرح مار مار کر اس کی پیٹھ اور پیٹ کو کشادہ کر دیا جائے گا، پھر وہ پو چھے گا : کیا تم مجھ پو ایمان لاتے ہو ؟ وہ مومن جواب دے گا: تو تو مسیح کذاب ہے۔ پس اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس کو۔ سر کے درمیان سے ارے کے ساتھ چیر دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں دو ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔ پھر دجال اس کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا۔ پھرے اسے کہے گا : کھڑا ہو جا!تو وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے گا۔ پھر وہ دجال اس سے پو چھے گا : کیا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو۔ مومن جواب دے گا : تیرے بارے میں تو میری بصیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پھر وہ کہے گا : اے لوگو! (سن لو!) میرے بعد یہ لوگوں میں سے کسی کے ساتھ بھی اس طرح نہیں کر سکے گا۔ پس دجال اسے پکڑ لے گا تا کہ اسے ذبح کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی گردن اور ہنسلی تک کے حصے کو تانبا بنا دے گا۔ پھر وہ اسے قتل کر نے کی کوئی سبیل نہیں پائے گا تو وہ اسے ہاتھوں اور پاؤں سے پکڑ کر پھینک دے گا، لوگ سمجھیں گے کہ اس نے اسے آگ میں پھینکا ہے حالانکہ اسے۔ جنت میں ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’رب العالمین کے نزدیک یہ شخص سب لوگوں سے زیادہ بڑ ی شہادت والا ہو گا۔ ‘‘ (مسلم۔ بخاری نے بھی اسی مفہوم میں بعض حصہ روایت کیا ہے۔ )

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۳۸) (۱۱۳)، واما بعضہ الذی اخرجہ البخاری (۱۳!۱۰۱فتح)۔

۱۷۱۶۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دجال کے بارے میں مجھ سے زیادہ کسی نے سوال نہیں کیے ،آپ نے مجھے فرمایا: اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچے گا۔ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی۔ آپ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ پر اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۸۹۱۳۔ فتح)و مسلم (۲۹۳۹) (۱۱۵)۔

۱۸۱۷۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے (دجال)سے نہ ڈرایا ہو۔ خبر دار !دجال کا نا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے ،اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’ک۔ ف۔ ر‘‘ لکھا ہوا ہو گا۔ (متفق علیہ)

۱۸۱۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں ایسی بات نہ بتاؤں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی، سن لو!وہ کانا ہے اور جب وہ آئے گا تو اس کے ساتھ جنت اور دوزخ جیسی دو چیزیں ہوں گی، پس وہ چیز جسے وہ جنت کہے گا وہ دوزخ ہو گی۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۰۶)و مسلم (۲۹۳۶)۔

۱۸۱۹۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کے سامنے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کا نا نہیں ہے ، سن لو! مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے ، گو یا اس کی آنکھ ابھرا ہوا انگور ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۶!۳۷۰۔ فتح)و مسلم (۴!۲۲۴۷) (۱۰۰)

۱۸۲۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں گے اور پھر یہودی جس پتھر یا درخت کے پیچھے چھپے گا تو وہ پتھر اور درخت بول کر کہے گا:اے مسلمان ! یہ یہودی میرے پیچھے ہے ،پس آؤ اور اسے قتل کرو،سوائے غرقد درخت کے اس لیے کہ یہ یہودیوں کا درخت ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۰۳۶۔ فتح)و مسلم (۲۹۲۲)۔

۱۷۲۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا ختم نہیں ہو گی حتیٰ کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو گا اور کہے گا : کاش!اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا اور یہ دین کی وجہ سے نہیں کہے گا بلکہ اس کا سبب آزمائش ہو گا۔         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۴۱۳۔ ۷۵۔ فتح)و مسلم (/۲۲۳۱۴) (۵۴)۔

۱۷۲۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ دریائے فرات (خشک ہو کر) سونے کا پہاڑ ظاہر کرے گا،اس پر لڑ آئی ہو گی اور ہر سو میں سے ننانوے آدمی مارے جائیں گے۔ پس ان میں سے ہر آدمی یہ کہے گا کہ شاید میں بچ جاؤں۔

اور ایک اور روایت میں ہے :قریب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہو کر) سونے کے خزانے ظاہر کر دے۔ پس جو شخص اس وقت حاضر ہو تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔            (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۸۱۳۔ ۷۹۔ فتح)و مسلم (۲۸۹۴)۔

۱۸۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگ مدینہ کو خیرو بھلائی میں ہونے کے باوجود چھوڑ جائیں گے صرف درندے اور پرندے ہی اس طرف رخ کریں گے آخر۔ میں مزینہ قبیلے کے دو چروا ہے اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے مدینے کو جا رہے ہوں گے ، تو وہ اسے وحشی جانوروں (اور پرندوں)کا مسکن پائیں گے حتیٰ کہ جب وہ ثنیۃ الوداع کے مقام پر پہنچیں گے تو وہ دونوں اپنے چہروں کے بل گر پڑیں گے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۸۹۴۔ ۹۰۔ فتح)و مسلم (۱۳۸۹) (۳۹۹)۔

۱۸۲۴۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: آخر ی زمانے میں تمہارے خلیفوں میں سے ایک خلیفہ ہو گا جو لپ بھر بھر کر لوگوں کو مال دے گا اور وہ اسے شمار بھی نہیں کرے گا۔        (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۱۴)۔

۱۸۲۵۔ حضرت ابو موسی اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: البتہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ آدمی سونے کے مال کا صدقہ لیے چکر لگائے گا لیکن وہ کوئی ایسا آدمی نہیں پائے گا جو اسے لے لے اور یہ حالت بھی دیکھی جائے گی کہ چالیس چالیس عورتیں ایک آدمی کی حفاظت میں ہوں گی اور یہ آدمیوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ہو گا۔  (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۰۱۲)۔

۱۸۲۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے زمین خریدی، پس جس شخص نے زمین خریدی اس نے اپنی زمین میں سونے کا ایک گھڑا پایا ،تو اس نے۔ زمین بیچنے والے سے کہا : اپنا سو نا لے لو،میں نے تو تم سے زمین خریدی تھی ، سونا نہیں خریدا تھا۔ زمین کے مالک نے اسے کہا : میں نے تمہیں زمین اور جو کچھ اس میں تھا سب فروخت کیا تھا۔ پس وہ دونوں اپنا فیصلہ کرانے کے لیے ایک آدمی کے پاس گئے۔ تو اس آدمی نے جس کے پاس وہ فیصلہ کرانے کے لیے گئے تھے ،کہا : کیا تم دونوں کی اولاد ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا : میرا ایک لڑ کا ہے اور دوسرے نے کہا : میری ایک لڑ کی ہے۔ پس اس فیصلہ کرنے والے شخص نے کہا : لڑ کے اور لڑ کی کا نکاح کر دو اور اس سونے میں سے ان پر خرچ کرو اور دونوں صدقہ کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۶!۵۱۲۔ ۵۱۳۔ فتح)و مسلم (۱۷۲۱)۔

۱۸۲۷۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’دو عورتیں تھیں اور ان دونوں کے ساتھ ان کے بیٹے بھی تھے ، بھیڑ یا آیا اور وہ ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا۔ پس اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا :بھیڑ یا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے ، دوسری نے کہا :وہ تو تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے۔ پس وہ فیصلہ کرانے کے لیے حضرت داؤدؑ کے اس گئیں تو انھوں نے بڑ ی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ یہ وہاں سے نکلیں اور سلیمان بن داؤدؑ کے پاس چلی گئیں ، پس انھوں نے انہیں بتایا تو حضرت سلیمانؑ نے فرمایا: ’’مجھے چھری دو ،میں اسے دو ٹکڑے کر کے تم دونوں میں تقسیم کر دوں۔ پس چھوٹی نے کہا : آپ ایسے نہ کریں ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ، یہ بیٹا اسی کا ہے۔ پس انھوں نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۴۵۸۔ فتح)،و مسلم (۱۷۲۰)

۱۸۲۸۔ حضرت مرداس اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’نیک لوگ ایک دوسرے کے بعد ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھ جائیں گے اور جو یا کھجور کی بھوسی کی مانند نکمے قسم کے لوگ باقی رہ جائیں گے ، اللہ ان کی کوئی پر وا نہیں فرمائے گا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔  (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۷!۴۴۴۔ فتح)۔

۱۸۲۹۔ حضرت رفاعہ بن رافع زرقیؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا : تم اہل بدر کو اپنے میں کیسا شمار کرتے ہو ؟ آپ نے فرمایا: ’’تمام مسلمانوں میں سے افضل۔ ‘‘ یا آپ نے اسی قسم کا کوئی کلمہ فرمایا تو حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا: ’’اسی طرح وہ فرشتے بھی سب فرشتوں سے افضل ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے تھے۔ ‘‘۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۷!۳۱۱۔ ۳۱۲۔ فتح)۔

۱۸۳۰۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو یہ عذاب اس قوم میں موجود تمام افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر قیامت والے دن وہ اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۳!۶۰۔ فتح)،و مسلم (۲۸۷۹)

۱۸۳۱۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ کھجور کا ایک تنا تھا، دو ران خطبہ نبیﷺ اس کا سہارا لیا کرتے تھے ، پس جب منبر (بنا کر) رکھا گیا تو ہم نے اس تنے سے دس ماہ کی حا ملہ اونٹنی کی آواز کی مانند رونے کی آواز سنی حتیٰ کہ نبیﷺ منبر سے نیچے اترے اور آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔

اور ایک روایت میں ہے : جب جمعہ کا دن ہوا تو نبیﷺ منبر پر بیٹھے تو کھجور کا وہ تنا جس کے پاس آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ، چیخ کر رونے لگا حتیٰ کہ قریب تھا کہ وہ پھٹ جاتا۔

اور ایک اور روایت میں ہے : وہ تنا بچے کی طرح چیخ کر رونے لگا، پس نبیﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے حتیٰ کہ آپ نے اسے پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا، اس نے اس بچے کی طرح سسکیاں لینا شروع کر دیں جسے چپ کر آیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ خاموش ہو گیا، آپ نے فرمایا: ’’یہ اس لیے رویا کہ یہ اللہ کا ذکر جو سنا کرتا تھا۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۳!۳۹۷، ۶!۶۰۲۔ فتح)

۱۸۳۲۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی جر ثوم بن ناشر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض کی ہیں انہیں ضائع نہ کرو، اس نے حدیں مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، اس نے کئی چیزیں حرام قرار دی ہیں ان کا ارتکاب کر کے ان کی حرمت کو نہ توڑ و اور اس نے تم پر رحمت و مہربانی کر تے ہوئے بغیر بھول کے کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار فرمائی ہے ، پس تم ان کے بارے میں بحث و جستجو نہ کرو۔ ‘‘ (حدیث حسن ہے۔ دار قطنی وغیرہ)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ الدارقطبی (۴!۱۸۴)، والبیھقی

(۱۰!۱۲۔ ۱۳) اس کی سند ضعیف ہے ، اس میں دو علتیں ہیں ، ایک یہ کہ مکحول کا ابو ثعلبہ سے سماع سے ثابت نہیں اور دوسری یہ کہ ابو ثعلبہ تک اس کی سند پہنچنے میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت ابو درداؓ کی حدیث اس کا شاہد ہے لیکن شاہد کے لیے وہ بھی درست نہیں۔ اس حدیث کے دو طریق ہیں : وہ ایک اصرم بن حوشب کے طریق سے اور دوسرا نہشل خراسانی کے طریق سے اور یہ دونوں کذاب ہیں۔ اس معنی کی حدیث مستدرک حاکم (۲! ۳۷۵) میں ہے جو حضرت ابو درداؓ سے مروی ہے اور اسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

۱۸۳۳۔ حضرت عبدا للہ بن ابی اوفیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، ہم ٹڈیاں (مکڑیاں) کھاتے تھے۔

اور ایک روایت میں ہے : ہم آپ کے ساتھ ٹڈیاں کھاتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۹!۶۲۰۔ فتح)،و مسلم (۱۹۵۲)

۱۸۳۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مومن ایک بل سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۰!۵۲۹۔ فتح)،و مسلم (۲۹۹۸)

۱۸۳۵۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ روز قیامت کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا : ایک وہ آدمی جس کے پاس جنگل میں ضرورت سے زیادہ پانی ہے اور وہ مسافر کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا، دوسرا وہ آدمی جو کسی آدمی سے نماز عصر کے بعد اپنے سامان کا سودا کرے اور اللہ کی قسم اٹھائے کہ اس نے یہ سامان اتنے اتنے میں لیا تھا، پس وہ دوسرا آدمی اس کی تصدیق کر دے حالانکہ حقیقتاً اس کے بر عکس ہو اور تیسرا وہ آدمی جو کسی امام کی حصول دنیا کی خاطر بیعت کرے ، اگر وہ امام دنیا کے مال میں سے کچھ اسے دے دے تو وہ اس سے وفا کرے اور اگر وہ اس میں سے اسے کچھ نہ دے تو وہ وفا نہ کرے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۵!۳۴۔ فتح)َ،و مسلم (۱۰۸)

۱۸۳۶۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’دو نفخوں کے درمیان چالیس کا وقفہ ہو گا، لوگوں نے عرض کیا : اے ابو ہریرہ ! چالیس دن کا ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے بتانے سے انکار کر دیا، لوگوں نے کہا : چالیس سال کا ؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ لوگوں نے پوچھا : چالیس مہینوں کا ؟ حضرت ابو ہر یرہ ؓ نے کہا : مجھے معلوم نہیں ’’اور انسان کے جسم کی ہر چیز بو سیدہ ہو جاتی ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخر ی مہرے کے ، اسی سے انسان کو دوبارہ تخلیق کیا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل فرمائیگا تو لوگ اسی طرح اگیں گے جس طرح سبزی اگتی ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۸!۵۵۱۔ فتح)،و مسلم (۲۹۵۵)

۱۸۳۷۔ سابق راوی ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبیﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا، اس نے عرض کیا : قیامت کب آئیگی ؟ رسول اللہﷺ نے اپنی بات کو جاری رکھا، پس بعض لوگوں نے کہا آپ نے وہ بات سن لی ہے جو اس نے کہی ہے لیکن آپ نے اس کی بات کو ناپسند فرمایا ہے اور بعض لوگوں نے کہا (ایسی بات نہیں) بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ حتیٰ کہ جب آپ نے اپنی گفتگو مکمل فرمائی تو فرمایا : ’’قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ ‘‘ اس نے عرض کیا : امانت کا ضائع کرنا کیسے ہو گا ؟ آپ نے فرمایا: ’’جب معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں گے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱!۱۴۱۔ ۱۴۲۔ فتح)۔

۱۸۳۸۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’وہ (حکمران) تمہیں نماز پڑھائیں گے ، اگر تو وہ درست پڑھائیں گے تو تمہارے لیے اجر ہے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو تمہارے لیے تو اجر ہے اور غلطی کا گناہ اور بوجھ انہی پر ہے۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۲! ۱۸۷۔ فتح)۔

۱۸۳۹۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ آیت ﴿کنتم خیر أمہ أخر جت للناس﴾ کی تفسیر اس طرح ہے کہ لوگوں کے لیے لوگوں میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو انہیں ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لاتے ہیں حتیٰ کہ وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۸!۲۲۴۔ فتح)۔

۱۸۴۰۔ سابق راوی ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خوش ہو تا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ ‘‘ (بخاری)

اس کامعنی یہ ہے کہ انہیں قید کر کے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے پھر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ الخاری (۶!۱۴۵۔ فتح)۔

۱۸۴۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو شہروں کے تمام حصوں میں سے وہ حصے زیادہ پسند ہیں جہاں مساجد ہیں اور اللہ تعالیٰ کو شہروں کے تمام حصوں میں سے ناپسندیدہ وہ حصے ہیں جہاں بازار ہیں۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۷۱)

۱۸۴۲۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے موقوف روایت ہے ، انھوں نے فرمایا: ’’اگر تم استطاعت رکھو تو سب سے پہلے بازار میں داخل ہونے والے اور سب سے آخر۔ میں وہاں سے نکلنے والے نہ بنو، اس لیے کہ وہ شیطان کا اڈا ہے اور وہ اپنا جھنڈا بھی وہیں نصب کرتا ہے۔ (مسلم)

اور امام برقانی نے اپنے ’’صحیح‘‘ میں حضرت سلمان فارسیؓ سے مر فوعاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم بازار میں سب سے پہلے داخل ہونے والے اور وہاں سے سب سے آخر۔ پر نکلنے والے نہ بنو، اس لیے کہ شیطان وہیں انڈے اور بچے دیتا ہے۔ ‘‘

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۴۵۱)

۱۸۴۳۔ حضرت عاصم احوآل عبداللہ بن سر جس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے فرمایا: ’’اور اللہ تیری بھی مغفرت فرمائے۔ ‘‘ عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا : کیا رسول اللہﷺ نے آپ کے لیے مغفرت طلب کی ؟ انھوں نے کہا: ہاں !اور تیرے لیے بھی مغفرت فرمائی۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’اور آپ اپنے لیے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے مغفرت طلب فرمائیں۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۳۴۶)

۱۸۴۴۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں نے پہلے انبیا ءؑ کے کلام سے جو باتیں حاصل کیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ تم شرم وحیا نہیں کرتے تو پھر جو چا ہو کرو۔ ‘‘  (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۶!۵۱۵۔ فتح)۔

۱۸۴۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’قیامت والے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (قتل)کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۱!۳۹۵۔ فتح)،و مسلم (۱۶۷۸)

۱۸۴۶۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’فرشتے نور سے، جن آگ کی لو سے اور آدمؑ اس (مٹی) سے پیداکیے گئے ہیں جو تمہارے لیے بیان کی گئی ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثٖیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۹۹۶)

ٔ۱۸۴۷۔ حضرت عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ (مسلم نے اسے ایک لمبی حدیث کے ضمن میں روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۴۶)

۱۸۴۸۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ۔ : ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے ؟ تو ہم سب ہی موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ : ’’یہ بات نہیں ہے ،البتہ (بوقت موت) جب مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کی رضا مندی اور اس کی جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے توا للہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور بے شک (بوقت موت) کافر کو جب اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ملاقات کی نا پسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے  ملاقات کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۸۴)

۱۸۴۹۔ ام المومنین حضرت صفیہ بنت حییؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے کہ میں ایک رات کو آپ سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ سے بات چیت کی پھر میں واپس آنے کے لیے کھڑ ی ہوئی تو آپ بھی میرے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے تا کہ آپ مجھے رخصت کریں۔ اتنے میں انصار کے دو آدمی ادھر سے گزرے (اللہ ان سے راضی ہو) جب انھوں نے نبیﷺ کو دیکھا تو وہ تیز تیز چلنے لگے تو آپ نے فرمایا: ’’ذرا ٹھہرو، یہ صفیہ بن حیی ہیں۔ ‘‘ ان دونوں نے عرض کیا : سبحان اللہ یا رسول اللہ! (ہمیں آپ پر کیسے شک ہو سکتا ہے)۔ ا پ نے فرمایا: ’’بے شک شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح دوڑ تا ہے جس طرح خون رگوں میں دوڑ تا ہے۔ اور مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بری بات نہ ڈال دے‘‘ یا فرمایا: ’’کوئی چیز نہ ڈال دے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۴!۲۷۸۔ فتح)،و مسلم (۲۱۷۵)

۱۸۵۰۔ حضرت ابو فضل عباس بن عبدالمطلب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ حنین کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ حاضر تھا۔ پس میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ ساتھ رہے اور ہم آپ سے جد انہیں ہوئے۔ رسول اللہﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا تو (شروع میں) مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے لیکن رسول اللہﷺ کفار کی طرف بڑھنے کے لیے اپنے خچر کو ایڑھ لگا تے تھے۔ اور میں رسول اللہﷺ کے خچر کی لگام تھا مے ہوئے اسے روکتا تھا تاکہ وہ تیز نہ چلے اور ابو سفیان رسول اللہﷺ کی رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے عباس! درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ساتھیوں کو بلاؤ۔ ‘‘ حضرت عباس فرماتے ہیں ؛ میں بلند آواز آدمی تھا، پس میں نے اپنی بلند آواز سے کہا : درخت کے نیچے بیعت رضوان کرنے والے کہاں ہیں ؟ اللہ کی قسم ! جب انھوں نے میری آواز سنی تو وہ اس طرح پلٹے جس طرح گائے اپنی اولاد کی طرف (اس کی آواز سن کر) پلٹی اور متوجہ ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا: ہم حاضر ہیں ، ہم حاضر ہیں۔ پھر ان کی اور کافروں کی خوب لڑ آئی ہوئی اور انصار یہ کہہ کر رہے تھے : اے انصار کی جماعت ! اے انصار کی جماعت! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو گئی۔ پس رسول اللہﷺ اپنی خچر پر بیٹھے ہوئے گردن بلند کر کے ان کی معرکہ آرائی دیکھ رہے تھے۔ پس آپ نے فرمایا: ’’یہ جنگ کے زور پکڑ نے اور شدت اختیار کرنے کا وقت ہے۔ ‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے چند کنکریاں لیں اور انہیں کافروں کے چہروں کی طرف پھینکا، پھر فرمایا: ’’محمدﷺ کے رب کی قسم ! کافر شکست کھا گئے‘‘ حضرت عباس ؓ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بھی یہ منظر دیکھنے گیا تو اس وقت معرکہ خوب زوروں پر تھا، پس اللہ کی قسم !جب آپ نے کنکریاں پھینکیں تو تب سے ان کافروں کی قوت کمزور ہوتی گئی اور پھر وہ پیٹھ پھیر نے پر مجبور ہو گئے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۷۵۵)

۱۸۵۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ : ’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی پسند فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی چیز کو حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ‘‘ اور فرمایا: ’’اے ایماندار و! ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں۔ ‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ایک آدمی طویل سفر کرتا ہے ، اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے اور اے رب ! اے رب ! کہہ کر دعا کرتا ہے ، اس حال میں کہ اس کا کھا نا حرام ہے ، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام ہے اور اسے غذا ہی حرام دی گئی ہے ، پس ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول کی جائے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۰۱۵)

۱۸۵۲۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ :‘‘ تین قسم کے آدمی ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام فرمائے گا نہ انہیں پا ک کرے گا اور نہ ہی (نظر رحمت سے) ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۱۷) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۵۳۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘ سیحان، جیحان، فرات اور نیل یہ سب جنت کی نہروں میں سے ہیں۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۳۹)

۱۸۵۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:‘‘ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتے کے دن پیدا فرمایا:‘‘ اتوار کے دن اس میں پہاڑ پیدا کیے ، پیر کے دن درخت پیدا فرمائے، ناپسندیدہ چیزیں منگل کے دن پیدا کیں ، بدھ کے دن روشنی پیدا کی اور جمعرات کے دن اس میں جانور پیدا کیے اور حضرت آدمؑ کو مخلوق کے آخر۔ میں جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخر ی ساعت میں عصر سے رات تک کے وقت میں پیدا فرمایا:‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۸۹)

۱۸۵۵۔ حضرت ابو سلیمان خالد بن ولید ؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگ موتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں اور میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی تلوار باقی رہی۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۷!۵۱۵)

۱۸۵۶۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’جب حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے ، پھر وہ درست بات تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اور اگر وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرنے میں اس سے غلطی ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۳!۳۱۸۔ فتح)،و مسلم (۱۷۱۶)

۱۸۵۷۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا۔ : ’’بخار جہنم کی شدید حرارت سے ہے ، پس تم اسے پانی سے ٹھنڈا کر و۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۳۳۰۔ فتح)،و مسلم (۲۲۱۰)

ٌ۱۸۵۸۔ حضرت عائشہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے (نذر کے)روزے ہوں تو اس کا (قریبی) ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

پسندیدہ بات یہی ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزے رکھنا جائز ہے۔ ولی سے مراد قریبی عزیز ہے خواہ وہ وارث ہو یا نہ ہو۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۴!۱۹۲۔ فتح)،و مسلم (۱۱۴۷)

۱۸۵۹۔ حضرت عوف بن مالک بن طفیل سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کیا گیا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہؓ کے کسی سودے یا عطیے کے بارے میں جو انھوں نے دیا تھا، کہا : اللہ کی قسم ! عائشہ ؓ       رک جائیں یا میں ان پر پابندی لگا دوں گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’کیا انھوں نے ایسے ہی کہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ! تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے لیے یہ مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر ؓ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ جب یہ قطع تعلقی لمبی ہو گئی تو ابن زبیر ؓ نے حضرت عائشہؓ کی طرف سفارش بھجوائی تو انھوں نے فرمایا: ’’نہیں اللہ کی قسم ! میں اس کے بارے میں سفارش قبول نہیں کروں گی اور میں اپنی نذر تو ڑ نے کے گناہ کا ارتکاب نہیں کروں گی۔ جب ابن زبیر ؓ پر یہ معاملہ مزید لمبا ہو گیا تو انھوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث سے بات کی اور انہیں کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم مجھے حضرت عائشہؓ کے پاس لے چلو، اس لیے کہ ان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ مجھ سے قطع تعلقی کی نذر پر قائم رہیں۔ پس حضرت مسور اور عبد الرحمن انہیں لے کر گئے حتیٰ کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی، انھوں نے کہا۔ السلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ کیا ہم داخل ہو سکتے ہیں ؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’آ جاؤ! انھوں نے کہا : کیا ہم سب  آ جائیں ؟ انھوں نے فرمایا: ’’ہاں تم سب آ جاؤ۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ابن زبیرؓ بھی ہیں ، جب وہ اندر گئے تو ابن زبیر ؓ پر دے کے اندر چلے گئے اور حضرت عائشہؓ (اپنی خالہ)سے لپٹ گئے اور انہیں قسمیں دے دے کر رونے لگے اور مسورا ور عبد الرحمن بھی (پردے کے باہر سے) انہیں قسمیں دے کر کہنے لگے کہ آپ ابن زبیرؓ سے بات کریں اور ان کا عذر قبول کریں اور وہ کہہ رہے تھے کہ نبیﷺ نے قطع تعلقی سے منع فرمایا ہے اور آپ خوب جانتی ہیں اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کر وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ پس جب انھوں نے حضرت عائشہؓ سے وعظ و نصیحت اور تر ک تعلق کے گناہ ہونے کی باتیں کثرت سے کرنا شروع کر دیں تو انھوں نے بھی ان دونوں کو نصیحت کرنا شروع کر دی اور رونے لگیں ، نیز فرمانے لگیں : بے شک میں نے نذر مانی تھی اور نذر کا معاملہ بڑا شدید ہے۔ پس وہ دونوں برابر اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ حضرت عائشہؓ نے ابن زبیر ؓ سے بات چیت کر لی اور اپنی اس نذر توڑ نے کے کفارے میں چالیس گردنیں آزاد کیں۔ حضرت عائشہؓ اس کے بعد جب بھی اپنی اس نذر کو یاد کرتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کے آنسو ان کی اوڑھنی تر کر دیتے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۰!۴۹۱۔ ۴۹۲۔ فتح)۔

۱۸۶۰۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ شہدائے احد کی طرف تشریف لے گئے ، پس آپ نے اٹھ سال گزر جانے کے بعد ان۔ کے لیے اس طرح دعا فرمائی جیسے کوئی زندوں اور مُردوں کو رخصت کرنے والا دعا کرتا ہے ، پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : ’’میں تمہارا پیش رو (میر ساماں) ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں گا اور بے شک تمہارے وعدے کی جگہ حوض کوثر ہے اور میں اسے اپنے اس مقام سے دیکھ رہا ہوں۔ سن لو! مجھے تم سے یہ اندیشہ نہیں کہ تم شرک کرو گے لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم دنیا کے بارے میں رغبت کرنے لگو گے۔ ‘‘ حضرت عقبہؓ بیان کرتے ہیں : یہ آخر نظر تھی جو میں نے رسول اللہﷺ پر ڈالی تھی (یعنی ا س کے بعد آپ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے)۔ (متفق علیہ)

اور ایک روایت میں ہے : ’’لیکن مجھے تمہارے بارے میں دنیا کی بابت اندیشہ ہے کہ تم اس میں زیادہ رغبت کرنے لگو گے جس وجہ سے تم آپس میں لڑ و گے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے ، جس طرح تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ‘‘ حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں۔ پس یہ آخر ی مرتبہ تھا جو میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر دیکھا تھا۔

اور ایک روایت میں ہے : ’’میں تمہارا پیش رو اور میر ساماں ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں گا اور اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں ، مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا زمین کی چابیاں دی گئی ہیں اور میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتاکہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم اس دنیا کے بارے میں بہت رغبت رکھو گے۔ ‘‘

شہدائے احد پر ’’صلوٰۃ‘‘ سے مراد دان کے لیے دعا کرنا ہے ، معروف نماز جنازہ پڑھنا مرادنہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۷!۳۴۸۔ فتح)،و مسلم (۲۲۹۶)،والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۲۲۹۶) (۳۱) ،والثانیۃ عند البخاری (۳!۲۰۹۔ فتح)

۱۸۶۱۔ حضرت ابو زید عمرو بن اخطب نصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی اور منبر پر چڑھ گئے ، آپ نے ہمیں خطاب فرمایاحتیٰ کہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا، پس آپ منبر سے نیچے تشریف لائے ، نماز پڑھی پھر منبر پر تشریف لے گئے حتیٰ کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ آپ نیچے تشریف لائے ، نماز پڑھی، پھر منبر پر شریف لے گئے حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا۔ پس آپ نے ہمیں جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہونا ہے ان سب واقعات کی خبر دی۔ پس ہم میں سے سب سے زیادہ عالم وہ ہے جو ان باتوں کو ہم میں سے سب سے زیادہ یادرکھنے والا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۹۲)

۱۸۶۲۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس (اللہ تعالیٰ) کی اطاعت کرنی چاہیے اور جو شخص یہ نذر مانے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا تواسے اس کی نافرمانی نہیں کر نی چاہیے۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۱!۵۸۱، ۵۸۵۔ فتح)۔

۱۸۶۳۔ حضرت ام شریک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں چھپکلیوں کے مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا: ’’یہ ابراہیمؑ (کی اگ) پر پھونکیں مارتی تھیں۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۶!۳۵۱۔ فتح)،و مسلم (۲۲۳۷)

۱۸۶۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص پہلی چوٹ میں چھپکلی کو مارے تو اس کے لیے تو اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جو شخص اسے دوسری چوٹ میں مارے تو اس کے لیے پہلے بار سے کم اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور اگر وہ اسے تیسری مرتبہ میں مارے تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں۔ ‘‘

اور ایک اور روایت میں ہے : ’’جو شخص پہلی چوٹ میں چھپکلی مار دے تو اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دوسری چوٹ میں مارنے پر اس سے کم اور تیسری چوٹ میں مارنے پر اس سے کم ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : أخر جہ مسلم (۲۲۴۰)،والر وایۃ الثانیۃ عندہ (۲۲۴۰) (۱۴۷)

۱۸۶۵۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی نے کہا (اج رات) میں ضرور صدقہ کروں گا۔ پس وہ اپنا صدقہ لے کر باہر نکلا تو اسے ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پس صبح ہو ئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ پس اس شخص نے کہا : اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں (اج رات)۔ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ پس وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے ایک زانیہ کے ہاتھ پر رکھ دیا، صبح ہو ئی تو لو گ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں ، کیا ایک زانیہ پر (صدقہ ہو گیا ہے) ؟ میں (آج رات) ضرور صدقہ کر دوں گا۔ پس وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے ایک مالدار شخص کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پس صبح ہو ئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک مالدار آدمی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں ، یہ کہا، چور پر، زانیہ پر اور مالدار شخص پر (صدقہ ہو گیا ہے)۔ پس رات کو اسے خواب آیا اور اسے کہا گیا : تیرا وہ صدقہ جو چور پر کیا گیا شاید کہ وہ اس صدقے کی وجہ سے اپنی چوری سے باز۔ آ جائے اور زانیہ پر تو شاید کہ وہ اپنے زنا سے بچ جائے اور ر ہاوہ غنی شخص تو شاید کہ وہ عبرت حاصل کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو اسے عطا کیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرے۔ ‘‘ (امام بخاری نے اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور مسلم میں اس کے ہم معنی روایت ہے۔ )

توثیق الحدیث : اخرجہ الخاری (۳!۲۹۰۔ فتح)،و مسلم (۱۰۲۲)

۱۸۶۶۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دعوت میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا اور وہ آپ کو پسند تھا، آپ اسے کھانے لگے اور فرمایا: ’’میں قیامت والے دن تمام لوگوں کا سر دار ہوں گا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس لیے ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ اگلے پچھلے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع فرمائے گا۔ پس دیکھنے والا ان سب کو دیکھے گا اور ایک پکارنے والا ان سب کو اپنی آواز سنا سکے گا، سورج ان کے قریب ہو گا، لوگ غم اور تکلیف کی ایسی کیفیت سے دوچار ہوں گے جو ان کی طاقت اور بر داشت سے باہر ہو گی۔ لوگ کہیں گے : کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو تکلیف تمہیں پہنچی اس وجہ سے تم کس حالت میں ہو، کیا تم ایسا کوئی شخص نہیں دیکھتے جو تمہارے رب کے پاس تمہارے لیے سفارش کر سکے ؟ پس لوگ آپس میں کہیں گے تمہارے باپ آدم ؑ جو ہیں۔ پس وہ ان کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے آدم ! آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا: ’’آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا تو انھوں نے آپ کو سجدہ کیا اور ۔ آ پ کو جنت میں ٹھہرایا، کیا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش نہیں کرتے ؟ کیا آپ ہماری حالت نہیں دیکھ رہے جس میں ہم ہیں اور جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے ؟ وہ فرمائیں گے بے شک میرا رب (آج) اس قدر غصے میں ہے کہ وہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں آیا ہے اور نہ اس کے بعد اس طرح غضبناک ہو گا او راس نے مجھے ایک درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی، مجھے تو اپنی فکر ہے، مجھے تو اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے ، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، تم نوحؑ کے پاس جاؤ۔ پس وہ نوحؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے نوحؑ !آپ زمین والوں کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم کس تکلیف سے دو چار ہیں اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہمیں کس قدر بے چینی اور تکلیف پہنچی ہے ؟ کیا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش نہیں کرتے ؟ وہ جواب دیں گے بے شک میرا رب جس قدر  آج غصے میں ہے وہ اس قدر اس سے پہلے غصے میں ہوا ہے نہ اس کے بعد اس قدر غصے میں ہو گا اور مجھے ایک دعا کرنے کا حق تھا لیکن میں نے وہ دعا اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی، مجھے تو اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے ، اس لیے تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ۔ پس وہ ابراہیمؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے ابراہیم !آپ اللہ کے نبی اور زمین والوں میں سے اس کے خلیل ہیں ، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کریں ، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس تکلیف میں مبتلا ہیں ؟ وہ انہیں فرمائیں گے : بے شک میرا رب آج جس قدر غصے میں ہے اس قدر وہ اس سے پہلے کبھی ناراض ہوا ہے نہ اس کے بعد اس قدر ناراض ہو گا، میں نے تین باتیں ایسی کی تھیں جو بظاہر واقعے کے خلاف تھیں (تور یہ کیا تھا) مجھے تو اپنی فکر ہے۔ اپنی فکر ہے۔ اپنی فکر ہے ، اس لیے تم میرے علا وہ کسی اور کے پاس جاؤ، تم موسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ۔ پس وہ موسیٰؑ کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے : اے موسیٰؑ ! آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی اور اپنی ہم کلامی عطا فرما کر تمام لوگوں پر فضیلت دی، آپ اپنے رب سے ہمارے سفارش کریں ،کیا آپ وہ حالت نہیں دیکھ رہے جس میں ہم مبتلا ہیں ، وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میرا رب جس قدر آج غضبناک ہے، وہ اس قدر غضبناک اس سے پہلے کبھی ہوا ہے نہ اس کے بعد کبھی اس قدر غضب ناک ہو گا اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کر دیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، مجھے تو اپنی فکر ہے ، فکر ہے ، مجھے اپنی فکر ہے، پس تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ تم عیسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ۔ پس وہ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے : اے عیسیٰؑ ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے حضرت مریم کی طرف القا کیا تھا اور اس کی روح ہیں اور آپ نے گہوارے میں لوگوں سے گفتگو کی ہے ، آپ اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں ، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس کیفیت میں مبتلا ہیں ؟ پس عیسیٰؑ فرمائیں گے : بے شک میرا رب جس قدر آج غضبناک ہے وہ اس قدر آج سے پہلے غضبناک ہوا ہے نہ اس کے بعد اس قدر غضبناک ہو گا۔ انھوں نے اپنے کسی قصور کا ذکر نہیں فرمایا (اور فرمایا) مجھے اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ تم محمدﷺ کے پاس جاؤ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں ہے (آپ نے فرمایا) ’’پس میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے : اے محمدﷺ ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیا ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں ، آپ ہمارے بارے میں اپنے رب سے سفارش کریں۔ کیا آپ وہ تکلیف نہیں دیکھ رہے جس میں ہم مبتلا ہیں ؟ پس میں وہاں سے چل کر عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حمد اور حسن ثنا کے ایسے کلمات القا فرمائے گا کہ مجھ سے پہلے وہ کلمات کسی پر القا نہیں کیے گئے ہوں گے ، پھر کہا جائے گا:۔ اے محمد ! اپنا سر  اٹھایئے ! مانگئے آپ کو وہ عطا کیا جائے گا، سفارش کیجیے ، سفارش قبول کی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھاؤں گا تو کہوں گا :اے میرے رب !میری امت۔ اے میرے رب !میری امت۔ پس کہا جائے گا۔ : اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے دائیں طرف کے دروازے سے لے جائیں جن کے ذمہ کوئی حساب نہیں ہے اور وہ دوسرے دروازوں میں بھی اس دروازے کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ ‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان یا جتنا فاصلہ مکہ اور بصریٰ کے درمیان ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۶!۳۷۱۔ فتح)،و مسلم (۱۹۴)

۱۸۶۷۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سید نا ابراہیم سیدنا اسماعیل ؓ کی والدہ اور ان کے بیٹے اسماعیل کو لائے جب کہ وہ ان کو دودھ پلاتی تھیں حتیٰ کہ انہیں بیت اللہ کے نزدیک مسجد حرام کے بالائی حصے میں زمزم کے اوپر واقع ایک درخت کے پاس ٹھہرا دیا۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان تھا نہ پانی (کا نام و نشان)۔ پس انھوں نے ان دونوں کو وہاں چھوڑا اور ان کے نزدیک ایک تھیلی رکھ دی جس میں کھجوریں تھیں اور ایک مشکیزہ رکھ دیا جس میں پانی تھا، پھر ابراہیمؑ واپس جانے لگے تو اسماعیلؑ کی والدہ ان کے پیچھے گئیں اور کہا: اے ابراہیم ! کیا آپ ہمیں اس وادی میں ، جہاں کوئی غم خوار ہے نہ کوئی اور چیز ہے ، چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟ انھوں نے یہ بات ان سے کئی مرتبہ کہی، لیکن حضرت ابراہیمؑ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے۔ آخر۔ انھوں نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا : کیا اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم فرمایا ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ’’ہاں ! ام اسماعیل نے کہا : تب وہ ہمیں ضائع کر نہیں کرے گا۔ پھر وہ واپس۔ آ گئیں۔ اور حضرت ابراہیمؑ اپنی منزل کی طرف چلے حتیٰ کہ جب وہ ثنیہ کے مقام پر پہنچے ، جہاں سے وہ انہیں دیکھ نہیں رہے تھے تو حضرت ابراہیمؑ نے اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کیا پھر ہاتھ بلند کیے اور ان کلمات کے ساتھ دعا کی : ’’اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں آباد کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ اور یہاں تک تلاوت فرمائی : ’’تاکہ وہ شکر کریں۔ ‘‘ اسماعیل کی والدہ اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں اور خود اس (مشکیزے) کے پانی سے پانی پیتی رہیں حتیٰ کہ جب مشکیزے کا پانی ختم ہو گیا تو انہیں بھی پیاس لگی اور ان کے بیٹے کو بھی اور وہ اسے زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھنے لگیں۔ پس وہ اس منظر کو ناگوار سمجھتے ہوئے (پانی کی تلاش میں) چلیں تو انھوں نے صفا پہاڑ کو اپنے سب سے قریب پایا۔ پس وہ اس پر کھڑ ی ہو گئیں پھر وادی کی طرف متوجہ ہو کر دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص انہیں نظر آتا ہے ؟لیکن انہیں کوئی نظر نہ آیا تو وہ صفا سے نیچے اتریں حتیٰ کہ وادی میں پہنچیں۔ پس انھوں نے اپنی قمیض کا کنارہ اوپر اٹھا یا پھر اس طرح دوڑیں جس طرح کوئی سخت مصیبت زدہ انسان دوڑ تا ہے حتیٰ کہ وہ وادی سے پار گزر گئیں پھر مروہ پہاڑ ی پر آئیں اور اس پر کھڑ ی ہو کر نظر دوڑ آئی کہ کوئی شخص دکھائی دیتا ہے ؟ لیکن انہیں کوئی بھی نظر نہ آیا۔ انھوں نے سات مرتبہ ایسے کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:پس لوگ جو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں یہ وہی ان کی متابعت (سنت)میں ہے جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی ،انھوں نے اپنے آپ سے کہا خاموش رہ،انھوں نے پھر کان لگائے توا یک آواز سنی تو انھوں نے کہا:تم نے اپنی آواز تو سنا دی ہے ،اگر تمہارے پاس کچھ مدد کا سامان ہے تو پھر مدد کو پہنچو۔  پس اچانک دیکھا کہ زم زم کی جگہ ایک فرشتہ ہے ، اس نے اپنی ایڑھی سے یا اپنے پر کے ساتھ زمین کو کریدا حتیٰ کہ پانی نکل آیا۔ اسماعیل کی والدہ اس کے لیے حوض بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ کے ساتھ منڈیر بنانے لگیں اور اپنے مشکیزے کو پانی سے بھر نے لگیں ، وہ جو نہی چلو بھرتیں تو اتنا پانی اور ابل اتا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے چلو بھرنے کی مقدار کے برابر پانی ابلتا۔ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اسمٰعیل کی والدہ پر رحم فرمائے ، اگر وہ زم زم کو یو نہی چھوڑ دیتیں‘‘ یا فرمایا: ’’چلو سے پانی اکٹھا نہ کرتیں تو زم زم روئے زمین پر بہنے والا چشمہ ہوتا۔ ‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ پس فرشتے نے انہیں کہا : تم اپنے ہلاک ہو جا نے کا اندیشہ نہ کرو، اس لیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک گھر ہے ، جسے یہ لڑ کا اور اس کا والد (از سر نو) تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اور اس وقت بیت اللہ کی جگہ ٹیلے کی طرح زمین سے بلند تھی۔ وہاں سیلاب آتے تو وہ اس ٹیلے کے دائیں بائیں سے گزر جاتے۔ پس ایک عرصہ تک یہی کیفیت رہی حتیٰ کہ جرہم قبیلے کا قافلہ یا اس کا کوئی گھرانا کدا کے راستے سے آتا ہوا ان کے پاس سے گزرا، انھوں نے مکہ کے زیریں حصے میں پڑ آؤ کیا تو انھوں نے ایک پرندے کو ادھر چکر لگاتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے کہا : یہ پرندہ لازمی طور پر پانی پر گھوم رہا ہے لیکن ہمیں تو اس وادی سے گزرتے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے ، پہلے تو یہاں پانی نہیں ہوتا تھا۔ پس انھوں نے ایک یا دو قاصد بھیجے تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں پانی ہے ، انھوں نے واپس آ کر اپنے قافلے والوں کو بتا یا کہ وہاں پانی انھوں نے کہا کیا آپ ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم آ پ کے پاس آئیں۔ وہ وہاں پہنچے تو حضرت ہاجرہ وہاں پانی پر موجود تھیں ، پڑ آؤ ڈال لیں ؟ انھوں نے کہا : ٹھیک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’یہ بات حضرت ہاجرہ کی خواہش کے مطابق ہوئی، وہ انس و محبت کو پسند کرتی تھیں ، پس انھوں نے وہاں پڑ آؤ ڈال لیا اور اپنے گھر والوں کو پیغام بھیجا تو انھوں نے بھی انہی کے ساتھ پڑ آؤ ڈال لیا حتیٰ کہ وہاں بہت سے گھر آباد ہو گئے اور حضرت اسماعیل جوان ہو گئے اور انھوں نے ان لوگوں سے عربی سیکھ لی۔ وہ ان میں سب سے زیادہ پر کشش اور سب سے زیادہ پسندیدہ تھے۔ ، پس جب وہ بالغ ہوئے تو انھوں نے اپنی ایک عورت سے ان کی شادی کر دی۔ حضرت ہاجرہ فوت ہو گئیں۔ حضرت اسماعیل کی شادی کے بعد حضرت ابراہیم ؓ اپنی چھوڑ ی ہوئی چیزوں کو دیکھنے آئے تو انھوں نے حضرت اسماعیل کو نہ پایا، انھوں نے ان کی بیوی سے ان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں گئے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہمارے لیے شکار کرنے کے لیے باہر گئے ہوئے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے اس سے ان کی گزران اور عام حالات کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا: ہم بہت برے حالات میں ہیں ، تنگی اور تکلیف سے وقت گزا رہے ہیں۔ اور اس نے حضرت ابراہیم ؑ سے شکایت کی، انھوں نے فرمایا: ’’جب تمہارا خاوند آئے تو انہیں میرا سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ اپنے دروازے کی دہلیز بدل دیں‘‘ ۔ پس جب حضرت اسماعیل ؑ واپس آئے تو انھوں نے کسی چیز کو محسوس کیا تو پوچھا : کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا ؟ اس نے کہا: جی ہاں ! اس اس طرح کے ایک بزرگ آئے تھے ، انھوں نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتا دیا پھر انھوں نے پوچھا کہ ہماری گزران کیسی ہے ؟ تو میں نے بتایا کہ ہم تنگی اور تکلیف میں ہیں۔ حضرت اسمٰعیل نے پوچھا : کیا انھوں نے کوئی وصیت کی تھی ؟َ اس نے کہا:ہاں !انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور آپ کے لیے کہہ گئے تھے کہ آپ اپنے دروازے کی دہلیز بدل دیں۔ حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا: ’’وہ میرے والد تھے اور مجھے حکم دے دوں ، تم اپنے گھر والوں کے ہاں چلی جاؤ‘‘ ۔ انھوں نے اسے طلاق دے دی اور ان کی کسی اور عورت سے شادی کر لی۔ پس حضرت ابراہیمؑ جتنی دیر اللہ نے چاہا گزارنے کے بعد ان کے پاس آئے تو حضرت اسماعیل ؑ کو نہ پایا، وہ ان کی بیوی کے پاس گئے اور اس سے حضرت اسماعیل ؑ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں گئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا : تمہارا کیا حال ہے : تمہاری گزران اور عام حالات کیسے ہیں ؟ اس نے بتایا:ہم خیریت سے ہیں اور فراخی میں ہیں اور اس نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ انھوں نے پوچھا : تمہاری خوراک کیا ہے ؟ اس نے کہا گوشت۔ انھوں نے کہا : تم پیتے کیا ہو ؟ اس نے کہا پانی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی۔ : اے اللہ ! ان کے لیے گوشت اور پانی میں برکت فرما۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ان دنوں ان کے لیے غلہ نہیں تھا اور اگر ان کے لیے ہوتا تو آپ اس کے بارے میں بھی ان کے لیے برکت کی دعا کرتے‘‘ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’اگر کوئی شخص مکہ کے علاوہ کسی اور جگہ صرف ان دو چیزوں (گوشت، پانی) پر گزارہ کرے تو اسے موافق نہیں آئیں گی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ آئے تو انھوں نے پوچھا : اسماعیل کہاں ہیں ؟ ان کی بیوی نے کہا: وہ شکار کرنے گئے ہیں ، پھر ان کی بیوی نے کہا: کیا آپ تشریف نہیں رکھیں گے تاکہ آپ کچھ کھا پی لیں ؟ انھوں نے پوچھا : تم کیا کھاتے پیتے ہو؟ا س نے کہا:ہمارا کھانا گوشت ہے اور پینا پانی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی ’’اے اللہ ! ان کے کھانے اور پینے میں بر کت عطا فرما۔ ‘‘

راوی بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم ؑ نے فرمایا: ’’یہ سب حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی برکت ہے۔ ‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’جب تمہارا خاوند آئے تو انہیں میرا سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو بر قرار رکھیں۔ جب حضرت اسماعیل ؑ آئے تو انھوں نے پوچھا : کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟ا س نے کہا : جی ہاں ! اچھی شکل و صورت والے ایک بزرگ آئے تھے ، اس نے ان (ابراہیم ؑ) کی تعریف کی، انھوں نے آپ کے بارے میں پوچھا تھا تو میں نے انہیں بتا دیا پھر انھوں نے مجھ سے ہماری گزران کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ حضرت اسماعیل ؑ نے پوچھا : کیا انھوں نے تجھے کوئی وصیت کی  تھی ؟ اس نے کہا : جی ہاں ؟ وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور آپ کو حکم دیتے تھے کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو برقرار رکھو۔ حضرت اسماعیل ؑ نے کہا وہ میرے والد تھے اور تم میری دہلیز ہو۔ انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس رکھوں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ جب تک اللہ نے چاہا کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ان کے پاس آئے تو حضرت اسماعیل ؑ زم زم کے قریب ایک درخت کے نیچے تیر درست کر رہے تھے ،  جب انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور پھر ویسے ہی کیا جیسے والد اپنے بیٹے سے اور بیٹا اپنے والد کے ساتھ محبتو احترام کا سلوک کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا: ’’اے اسماعیل ! اللہ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم فرمایا ہے انھوں نے کہا: آپ کے رب نے جس کام کرنے کا حکم دیا ہے آپ کر گزریں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پوچھا : تم میری مدد کرو گے ؟ انھوں نے کہا: میں آپ کی مدد کروں گا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس جگہ ایک گھر تعمیر کروں اور انھوں نے ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کیا جو اپنے اردگرد کے حصوں سے بلند تھا۔ پس اسی وقت انھوں نے اس گھر کی دیواریں اٹھائیں۔ پس حضرت اسماعیل ؑ پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور حضرت ابراہیم ؑ تعمیر کرتے حتیٰ کہ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو وہ یہ (مقام ابراہیم ؑ) پتھر لائے اور اسے آپ کے لیے رکھا تو وہ اس پر کھڑے ہو گئے۔ پس حضرت ابراہیم ؑ۔ تعمیر کرتے جاتے اور حضرت اسماعیل ؑ انہیں پتھر پکڑا تے جاتے او وہ دونوں یہ دعا پڑھتے تھے : ’’اے ہمارے پروردگار ! ہم سے یہ عمل قبول فرما، بے شک تو بہت سننے والا، جاننے والا ہے۔ ‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کو لے کر نکلے ، ان کے پاس ایک مشکیزہ تھا جس میں پانی تھا، پس اسماعیل کی والدہ مشکیزے سے پانی پیتیں تو بچے کے لیے ان کی چھاتی میں دودھ خوب اتر تا حتیٰ کہ وہ مکہ۔ آ گئے۔ یہاں حضرت ابراہیم ؑ نے انہیں ایک درخت کے نیچے بٹھایا پھر حضرت ابراہیم ؑ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے تو حضرت ہاجرہ بھی ان کے پیچھے چلتی رہیں حتیٰ کہ جب وہ کدا کے مقام پر پہنچے تو انھوں نے انہیں پیچھے سے آواز دی :۔ اے ابراہیم ! ہمیں کس کے سپرد کر کے چھوڑ چلے ہو ؟ انھوں نے کہا : اللہ کے سپرد۔ حضرت ہاجرہ نے کہا: میں اللہ کے سپرد کیے جانے پر راضی ہوں۔ پس وہ واپس۔ آ گئیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور بچے کے لیے ان کی چھاتی میں دودھ اتر تا رہا، حتیٰ کہ جب پانی ختم ہو گیا تو انھوں نے کہا: میں ادھر ادھر جاؤں اور دیکھوں کہ شاید کوئی آدمی نظر۔ آ جائے۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ گئیں اور صفا پر چڑھ گئیں اور غور سے دیکھنے لگیں کہ کیا کوئی نظر آتا ہے ؟ لیکن انہیں کوئی نظر نہ آیا، پھر وہ وادی میں اتر آئیں او دوڑیں اور مروہ پر۔ آ گئیں اور انھوں نے اس طرح کئی چکر لگائے (یعنی صفا سے مروہ آئیں اور گئیں) پھر کہا : میں جا کر بچے کو تو دیکھوں کہ اس کا کیا حال ہے ؟ وہ گئیں تو دیکھا کہ وہ اسی حال میں تھا گویا کہ وہ زندگی کے آخر ی سانس لے رہا تھا۔ حضرت ہاجرہ کے نفس نے قرار نہ پکڑا اور پھر کہا کہ میں جاؤں تو سہی، شاید میں کسی کو پالوں۔ وہ پھر گئیں اور صفا پر چڑھ گئیں اور غور سے دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا حتیٰ کہ انھوں نے سات چکر پورے گئے ، پھر انھوں نے کہا میں جاؤں اور دیکھوں کہ بچے کا کیا حال ہے ؟ پس وہ وہاں آئیں تو ایک آواز سنی، انھوں نے کہا: اگر تیرے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کر۔ پس یہ جبریل ؑ تھے ، انھوں نے اپنی ایڑھی زمین پر ماری اور اپنی ایڑھی سے زمین کو بھینچا تو زمین سے پانی پھوٹ پڑ ا، جسے دیکھ کر حضرت ہاجرہ خوف زدہ ہو گئیں اور اپنی ہتھیلیوں سے پانی لے کر مشکیزے میں ڈالنے لگیں۔ (اور راوی نے حدیث پوری تفصیل سے بیان کی، یہ ساری روایات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ۔ نے بیان کیں)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶! ۳۹۵۔ ۳۹۹۔ فتح)

 

 

توبہ و استغفار کا بیان

۳۷۱۔ باب: مغفرت طلب کرنے کا حکم اور اس کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ مغفرت طلب کیجیے اپنی لغزش کے لیے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے‘‘ (سورۃ محمد: ۱۹)

نیز فرمایا: ’’اللہ سے مغفرت طلب کیجیے ، بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ ‘‘ (سورۃ النساء :۱۰۶)

اور فرمایا: ’’اپنے رب کی خوبیوں کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کیجیے اور اس سے بخشش طلب کریں ، وہ خوب توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘ (سورۃ النصر:۳)

نیز فرمایا: ’’متقی لوگوں کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانا تک :

’’اور رات کے آخر ی پہر میں استغفار کرنے والے ہیں۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران :۱۵۔ ۱۷)

اور فرمایا: ’’جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔ ‘‘ (سورۃ النساء:۱۱۰)

نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے اور (اسی طرح) اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ ‘‘ (سورۃ الأانفال :۳۳)

اور فرمایا: ’’اور وہ لوگ جب کسی برائی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور وہ اپنے گنا ہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی گنا ہوں کا معاف کرنے والا نہیں وہ اپنے کیے (یعنی گناہ) پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران :۱۳۵)

۱۸۶۹۔ حضرت اغرمزنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میرے دل پر بھی پردہ سا۔ آ جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث۔ کے لیے حدیث نمبر (۱۴) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۷۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فر ماتے ہوئے سنا: ’’اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر بار سے زائد اللہ سے مغفرت طلب کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۳) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۷۱۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں ختم کر کے ایسے لوگ لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ سے مغفرت طلب کریں گے ، پس وہ انہیں معاف فرما دے گا۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۲۲) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۷۲۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کو ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ کہتے ہوئے گن لیتے تھے : ’’اے میرے رب ! مجھے بخش دے َ مجھے پر رجوع فرما، بے شک تو بہت رجوع فرمانے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داود (۱۵۱۶)،و الترمذی (۳۴۳۴)،و ابن ماجہ (۳۸۱۴) بآساند صحیح

۱۸۷۳۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص استغفار کی پابندی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا را ستہ بنا دیتا ہے ، ہر غم سے نجات دے دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمایا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ ‘‘ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۵۱۸)،و ابن ماجہ (۳۸۲۹)،والنسائی فی ( (عمل و الیوم واللیلۃ)) (۴۵۶)اس کی سند میں حکم بن مصعب راوی مجہول ہے۔

۱۸۷۴۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص یہ دعا پڑھے ’’میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ، تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں خواہ وہ میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگا ہو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ ترمذی۔ حاکم امام حاکم نے کہا یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (التاریخ الکبیر)) (۳!۸۷۹۔ ۳۸۰)، وابوداؤد (۱۵۱۷)،و الترمذی (۳۵۷۷)والحاکم (۱!۵۱۱)

یہ حدیث ترمذی اور ابو داؤد میں ابن مسعود ؓ کے بجائے زید مولیٰ رسول اللہﷺ سے ہے ، ابن مسعود ؓ سے مستدرک حاکم میں ہے۔

۱۸۷۵۔ حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’سید الا ستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے ’’اے اللہ !تو میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا ہوں اور میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اور میں اپنے کیے ہوئے عمل کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں ان نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور میں اپنے گنا ہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں ، پس تو مجھے معاف کر دے ، بے شک تیرے سوا کوئی گنا ہوں کا معاف کرنے والا نہیں‘‘ جو شخص یہ کلمات دن کے وقت یقین کے ساتھ کہے اور وہ اسی روز شام ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ جتنی ہے اور جو شخص رات کے وقت یقین کے ساتھ کہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ جتنی ہے۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۱!۹۷۔ ۹۹)

۱۸۷۶۔ حضرت ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ سلام پھیر کر اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو آپ اللہ سے تین بار استغفار فرماتے تھے اور پھر یہ دعا پڑھتے تھے : ’’اے اللہ ! تو سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ، اے عزت و جلال کے مالک ! تو بڑ ی برکتوں والا ہے۔ ‘‘

حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی امام اوزاعی سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے استغفار فرماتے تھے ؟ تو انھوں نے بتایا کہ آپ فرماتے تھے : ’’أستغفر اللہ، أستغفراللہ‘‘ (میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں)۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۴۱۵) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۷۷۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے پڑھتے تھے : ’’اے اللہ ! میں تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں تیری حمد کے ساتھ، اے اللہ، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع (توبہ) کرتا ہوں۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۱۴) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۷۸۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا خواہ تو جس حالت پر بھی ہو گا اور میں کوئی پروا نہیں کروں گا۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ، پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے معاف کر دوں گا اور میں کوئی پروا نہیں کروں گا اے ابن آدم ! اگر تو زمین کے بھرنے کے بقدر گنا ہوں کے ساتھ میرے پاس آئے گا، البتہ تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں بھی زمین بھر نے کے بقدر مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملاقات کروں گا۔ ‘‘ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے۔ )

توثیق الحدیث :صحیح بشواھدہ۔ أٰخرجہ الترمذی (۳۵۴۰)

۱۸۷۹۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، اس لیے کہ میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے۔ ‘‘ ان عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا :ہم عورتوں کا زیادہ جہنمی ہونے کا سبب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم عورتوں سے زیادہ عقل مندوں پر غالب آنے والا کوئی نہیں دیکھا:‘‘ اس عورت نے پوچھا : عقل اور دین کے ناقص ہونے سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’دو عورتوں کی گواہی ایک آدمی کے برابر ہے (یہ عقل کی کمی ہے) اور (حیض و نفاس کی وجہ سے) کئی روز نماز نہیں پڑھتی ہو (یہ دین کی کمی ہے)۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۷۹)

 ۳۷۲۔ باب: اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو کچھ جنت میں تیار کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے ، (انہیں کہا جائے گا) امن و سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ اور جو بغض و کینہ (ایک دوسرے کے بارے میں) ان کے سینوں میں ہو گا وہ ہم نکال دیں گے۔ وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ ان میں ان کو کوئی تھکاوٹ ہو گی نہ، وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ ‘‘ (سورۃ الحجر : ۴۵۔ ۴۸)

نیز فرمایا: ’’اے میرے بندو!اج تم پر کوئی خوف ہو گا نہ تم غمگین ہو گے۔ وہ لوگ جو ہمارے آیتوں پر ایمان لائے اور وہ مسلمان تھے (ان سے کہا جائے گا) تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جاؤ، تمہارے لیے سامان مسرت بہم پہنچا دیے گئے ہیں۔ ان پر سونے کی رکابیوں اور پیالوں کا دور چلا یا جائے گا اور اس میں وہ ہو گا جو ان کے نفس چاہیں گے اور جن کو دیکھ کر وہ لذت محسوس کریں گے اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے جس کا تمہیں تمہارے عملوں کے بدلے میں وارث بنا یا گیا ہے ، تمہارے لیے اس میں میووں کی فراوانی ہو گی جن میں سے تم کھاؤ گے۔ ‘‘ (سورۃ الزخرف : ۶۸۔ ۷۳)

اور فرمایا: ’’بے شک متقی لوگ امن کی جگہ، باغات اور چشموں میں ہوں گے ، اس میں وہ باریک اور موٹا ریشم پہنیں گے ، آمنے سامنے بیٹے ہوں گے (اور اسی طرح رہیں گے)۔ ہم ان کی شادی موٹی آنکھوں والی حوروں سے کریں گے۔ اس میں وہ ہر قسم کے پھل امن و اطمینان سے منگوائیں گے۔ وہاں موت کا مزہ چکھیں گے سوائے اس موت کے جس کا مزہ وہ پہلی مرتبہ چکھ چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔ تیرے رب کے فضل سے یہی وہ کامیابی بڑ ی۔ ‘‘ (سورۃ الدخان: ۵۱۔ ۵۷)

نیز فرمایا: ’’بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے، تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے ، تو ان کے چہروں پر آرام و راحت کی ترو تازگی اور رونق بہجت محسوس کرے گا۔ ان کو سر بمہر خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر ہو گی (یا اس کے آخر۔ میں تلچھٹ کی بجائے کستوری ہو گی) اور یہی وہ چیز ہے جس میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہو گی۔ یہ وہ چشمہ ہے جس سے بندگان مقرب پئیں گے۔ ‘‘ (سورۃ المطففین :۔ ۲۲۔ ۲۸)

۱۸۸۰۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنتی جنت میں کھائیں پیں گے لیکن انہیں بول و براز کی حاجت ہو گی نہ ان کے ناک سے رینٹ نکلے گی اور ان کا یہ کھانا ایک ڈکار ہو گا جو کستوری کی خوشبو کی طرح ہو گا۔ انہیں تسبیح وتکبیر اس طرح القا کی جائے گی جیسے ان کے اندر سانس ڈال دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۸۳۵) (۱۹)

۱۸۸۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے (اس کی تصدیق کے لیے) اگر تم چا ہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے عملوں کے بدلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے ؟‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۳۱۸۔ فتح)،و مسلم (۲۸۲۴)

۱۸۸۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’پہلا گر وہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے ، پھر بعد میں داخل ہونے والوں کے چہرے آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرف ہوں گے ، وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ اور وہ تھوکیں گے نہ ان کی رینٹ بہے گی۔ ان کی گنگھیاں سونے کی اور ان کا پسینا کستوری کا سا ہو گا اور ان کی انگیٹھیوں میں جلانے کے لیے خوشبو دار لکڑ ی ہو گی، ان کی بیویاں موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ سب ایک ہی آدمی کی ساخت پر اپنے والد آدم ؑ کی صورت پر ہوں گے اور ان کے قد ساٹھ ساٹھ ہاتھ بلند ہوں گے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

اور بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے : ’’اس میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے ، ان کے پسینے کی خشبو کستوری کی طرح ہو گی اور ان میں سے ہر ایک کے لیے دو دو بیویاں ہوں گی، ان کے حسن کا یہ عالم ہو گا کہ ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آتا ہو گا، ان کے درمیان کوئی اختلاف ہو گا نہ بغض، ان کے دل قلب واحد کی طرح ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کریں گے۔ ‘‘

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۳۶۲۔ فتح)،و مسلم (۲۸۳۴) (۱۵)،والروایۃ الثانیۃ عند البخاری (۶!۳۱۸۔ فتح)،و مسلم (۲۸۳۴)

۱۸۸۳۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رب سے دریافت سے کیا : جنتیوں میں سے سب سے کم تر درجے کا جنتی کیسا ہو گا ؟ اللہ نے فرمایا: ’’یہ وہ آدمی ہو گا جو تمام جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد آئے گا، اسے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں کیسے داخل ہو جاؤں جب کہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ رہائش اختیار کر چکے ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے ؟اسے کہا جائے گا :کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تیرے لیے دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کی طرح بادشاہی (ملکیت) ہو جائے ؟ وہ عرض کرے گا : میرے رب ! میں (اس عطا پر) راضی ہوں۔ اللہ فرمائے گا :تمہارے لیے وہ بادشاہی ہے اور مزید اس کی مثل، اس کی مثل، اس کی مثل، اس کی مثل اور پانچویں مرتبہ وہ کہے گا : میرے رب ! میں راضی ہوں۔ پس اللہ فرمائے گا : یہ تمہارے لیے ہے اور اس کی مثل دس گناہ مزید اور تیرے لیے وہ بھی جس کو تیرا دل چاہے اور جسے دیکھ کر تیری آنکھیں لذت حاصل کریں۔ پس وہ عرض کرے گا: میرے رب ! میں راضی ہوں۔ موسیٰؑ نے عرض کیا : میرے رب ! ان میں سے سب سے اعلیٰ درجے والا کیسا ہو گا ؟ اللہ نے فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو میری مراد ہیں ، میں نے ان کی عزت کے درخت کو اپنے ہاتھ سے لگایا اس پر مہر لگا دی، پس اسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے ؟‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۸۹)

۱۸۸۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں اس شخص کے بارے میں یقیناً جانتا ہوں جسے جہنمیوں میں سب سے آخر۔ میں جہنم سے نکالا جائے گا اور جنتیوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ شخص سرین کے بل گھسٹتا ہوا جہنم سے نکلے گا۔ پس اللہ اسے فرمائے گا جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ وہاں آئے گا تو یہ سمجھے گا کہ جنت تو بھری ہو ئی ہے ، پس وہ لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے تو اسے بھرا ہوا پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر اسے یہی فرمائے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پس وہ وہاں آئے گا اور اس کے دل میں یہی خیال آئے گا کہ یہ تو بھری ہو ئی ہے پس وہ پھر واپس جائے گا اور عرض کرے گا: اے میرے رب !میں نے تو اسے بھرا ہوا پایا ہے۔ اللہ پھر فرمائے گا :جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ،تمہارے لیے دنیا کے برابر اور اس سے دس گناہ مزید جنت کا حصہ ہے ، یا فرمائے گا : تیرے لیے دنیا کی دس مثل حصہ ہے۔ وہ عرض کرے گا‘‘ کیا تم میرے ساتھ مذاق کرتے ہو یا میرے ساتھ ہنسی کرتے ہو حالانکہ آپ تو بادشاہ ہیں‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ اس قدر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں ، آپ فرمایا کرتے تھے : ’’یہ سب سے ادنی درجے کا جنتی ہو گا۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۱!۴۱۸۔ فتح)،و مسلم (۱۸۶)

۱۸۸۵۔ حضرت ابو موسیٰؑ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’مومن کے لیے جنت میں ایک کھو کھلے موتی کا خیمہ ہو گا، جس کی لمبا ئی بلندی میں ساٹھ میل ہو گی، مومن کے اس میں کئی گھر والے ہوں گے ، مومن ان کے پاس آئے جائے گا لیکن ان میں سے کوئی کسی کو دیکھ نہیں سکے گا۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۳۱۸۔ فتح)،و مسلم (۲۸۳۸)

۱۸۸۶۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:۔ ’’جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ ایک اچھا سوار سبک رو گھوڑے پر سوار ہر کر سو سال چلے ، تب بھی اسے طے نہیں کر سکے گا۔ ‘‘  (متفق علیہ)

اور بخاری و مسلم کی یہ روایت حضرت ابو ہریرہؓ سے بیان ہو ئی ہے ،ا س میں آپ نے فرمایا: ’’ایک گھڑ سوار اس کے سائے میں سو سال چلے تو بھی اس کا سایہ ختم نہیں ہو گا۔ ‘‘

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۱!۴۱۶۔ فتح)،و مسلم (۲۸۲۸)،والروایۃ الثانیۃعندالبخاری (۶!۳۱۹۔ ۳۲۰۔ فتح)،و مسلم (۲۸۲۶)

۱۸۸۷۔ حضرت ابو سعید خدریؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جتنی اپنے سے بلند تر درجے والے بالا نشینوں کوا س طرح دیکھیں گے جس طرح تم مشرق یا مغرب کے افق پر چمکدار ستارے کو دیکھتے ہو اور یہ فرق ان کے درمیان باہم مراتب و فضیلت کی وجہ سے ہو گا۔ ‘‘ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ مراتب کیا انبیا ءؑ کے ہوں گے کہ ان تک ان کے علاوہ کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی (وہ بھی ان مراتب پر فائز ہوں گے)۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶!۳۲۰۔ فتح)،و مسلم (۲۸۳۱)

۱۸۸۸۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں ایک کمان کی مقدار کے برابر جگہ ان تمام چیزوں  (تمام جہان) سے بہتر ہے۔ جس پر سورج طلوع ہوتا یا غروب ہوتا ہے۔ ‘‘

(متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۲!۳۲۰)

۱۸۸۹۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں ایک بازار ہو گا جس میں جنتی ہر جمعے کو آیا کریں گے ، پس شمال کی طرف سے ایک ہوا چلے گی، وہ ان کے چہروں اور کپڑوں پر ایسے اثرات چھوڑ دے گی جس سے ان کی حسن و جمال میں مزید اضافہ ہو جائے گا، جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں گے تو ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔ پس ان کے گھر والے ان سے کہیں گے : اللہ کی قسم ! تم تو مزید حسین و جمیل ہو گئے ہو۔ تو وہ کہیں گے : اللہ کی قسم ! ہمارے بعد تو تم بھی حسن و جمال میں بڑھ گئے ہو۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۲۸۳۳)

۱۸۹۰۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنتی جنت میں بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۱!۴۱۶۔ فتح)،و مسلم (۲۸۳۰)

۱۸۹۱، حضرت سہل بن سعد ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی اس مجلس میں حاضر تھا جس میں آپ نے جنت کا تذکرہ فرمایا حتیٰ کہ آپ نے اختتام کلام پر فرمایا: ’’اس میں ایسی نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا گزر ہوا ہے‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک۔ : ’’پس کوئی نفس نہیں جانتا جو ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈ ک چھپا کر رکھ گئی ہے۔ ‘‘ (بخاری)

توثیق الحدیث :مسلم (۲۸۲۵)واللفظ لہٗ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے اس حدیث کو روایت نہیں کیا بلکہ یہ روایت صحیح مسلم میں ہے۔

۱۸۹۲۔ حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو ایک منادی آواز دے گا : جنتیو! اب تم ہمیشہ کے لیے جنت میں زندہ رہو گے ، تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی، تم ہمیشہ صحت مند رہو گے ، کبھی بیمار نہیں ہو گے ، تم ہمیشہ جوان رہو گے ، کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور یہ کہ تم ہمیشہ نعمت و راحت میں رہو گے ، کبھی تکلیف نہیں اٹھاؤ گے۔ ‘‘  (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۲۸۳۷)

۱۸۹۳۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ادنیٰ اور کم مرتبہ جنتی کا یہ مقامو مرتبہ ہو گا کہ اسے کہا جائے گا: تمنا کر، پس وہ تمنا کرے گا پھر تمنا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : کیا تو نے تمنا کر لی ؟ وہ عرض کرے گا : جی ہاں ! اللہ اسے فرمائے گا : تیرے لیے جو کچھ تو نے تمنا کی ہے وہ بھی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل اور بھی ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۸۲) (۳۰۱)

۱۸۹۴۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائے گا : اے جنتیو! وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں ، تمام خیرو سعادت تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ فرمائے گا : کیا تم راضی ہو ؟ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! ہم راضی کیوں نہ ہوں جب کہ آپ نے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جن سے آپ اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں نوازا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمہیں اسے بھی افضل چیز نہ دوں ؟ وہ عرض کریں گے : اس سے افضل چیز کون سی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر اپنی رضامندی نازل کرتا ہوں ، اب اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۱!۴۱۵۔ فتح)،و مسلم (۲۸۲۹)

۱۸۹۵۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’بلاشبہ تم اپنے رب کو واضح طور پر ایسے ہی دیکھو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۰۵۱) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۹۶۔ حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم کسی اور چیز کی خواہش رکھتے ہو کہ میں تمہیں مزید دوں ؟ وہ عرض کریں گے : کیا تو نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور جہنم سے نجات نہیں دی ؟ پس اللہ پردہ ہٹا دے گا (اور وہ سب اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے) پس وہ کوئی چیز ایسی نہیں دیے گئے ہوں گے جو انہیں اپنے رب کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱۸۱)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ان کو ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے (جنت کا) راستہ دکھائے گا، جن کے نیچے نعمت والے باغوں میں نہریں جاری ہوں گی۔ ان کی پکار اس میں ’’سبحانک اللھم‘‘ ہو گی اور ان کی آپس کی ملاقات سلام (کے ساتھ) ہو گی اور ان کی آخر ی دعا و پکار ہو گی کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘ (سورۃ یونس :۹۔ ۱۰)

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اس کام کی ہدایت عطا فرمائیں اگر اللہ ہمیں اس کی ہدایت سے نہ نوازتا تو ہم خود ہدایت حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

اے اﷲ! محمد پر اور آل محمد پر رحمت نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیمؑ پر اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد پر اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی۔ بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔

اس کتاب کے مؤلف امام یحییٰ نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، فرمایا: ’’میں اس کتاب کی تالیف سے بروز پیر ۱۴رمضان المبارک ۶۷۰ھ میں (بمقام دمشق) فارغ ہوا۔ ‘‘

اس کتاب کے شارح ابو اسامہ سلیم بن عید بن محمد بن حسین الہلالی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ جو عقیدہ اور منہج کے لحاظ سے سلفی ہیں ، اردن میں پیدا ہوئے اور وہ پیر کی رات ۱۵رجب ۱۴۱۵ھ میں اردن کے دارالخلافہ عمان میں اس کتاب کی شرح و تخریج سے فارغ ہوئے۔

وَآخر دَعُوَانَا أَنِا الْحَمْدُلِلّٰہِ رَِبِّ الْعَالَمِیْنَ

***

٭٭٭

ماخذ:

تشکر  عبد اللہ حیدر:

 

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید