FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

نسیم ہدایت کے جھونکے

 

 

احمد اوّاہ ندوی

 

جلد چہارم

ماہنامہ ارمغان، پھلت سے ماخوذ

 

 

 

 

 

محمد اکبر {مہیش چندر شرما} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکبر     :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : آپ سے  ارمغان کے  قارئین اور عام مسلمانوں کے  فائدے  کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب   : ضرور کیجئے۔

سوال  :  آپ اپنا تعارف کرایئے ؟

جواب  : میرا نام اب الحمد للہ محمد اکبر ہے  میں ضلع کرنال کے  ایک قصبہ کا رہنے  والا ہوں (تھوڑے  توقف کے  بعد ) اب سے  نو سال تین ماہ آٹھ روز ۳ گھنٹہ قبل اللہ تعالی نے  مجھے  اسلام کی دولت سے  نوازا۔ میرا پہلا نام مہیش چندر شرما تھا میں ایک برہمن خاندان سے  تعلق رکھتا ہوں میرے  والد پنڈت سندر لال شرما جی علاقے  کے  مشہور پنڈت تھے، پتریاں بنانا، ہون کرنا اور دوسری دھارمک رسمیں کرنا ان کا کام تھا۔ میرے  اسلام لانے  سے  ایک سال پہلے  ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میری ایک والدہ اور ایک بہن ہیں جو اب الحمدللہ میرے  ساتھ مسلمان ہیں بہن کا نام فاطمہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے  ہم سبھی لوگ اللہ کا شکر ہے  خوش و خرم دہلی میں رہ رہے  ہیں۔

سوال  :  آپ کی عمر اب کتنی ہے ؟

جواب  : میری حقیقی عمر نو سال آٹھ دن تین گھنٹے  اور اس وقت ۱۵ منٹ ہے  مگر میں اس دنیا میں اپنے  والدین کے  یہاں تقریباً چھبیس سال پہلے  ۷ جولائی ۱۹۷۷ء کو آ گیا تھا۔

سوال  :  آپ اپنے  اسلام لانے  کا حال بتایئے۔

جواب   : میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو مجھے  اپنے  پتاجی (والد صاحب ) کا سب پیشہ ڈھونگ لگتا تھا انہوں نے  گھر کے  باہر ایک چھوٹا سا مندر بنایا ہوا تھا، میں اکثر جب بھی کوئی بات کھٹکتی تو ان سے  کہتا، وہ مجھے  سمجھاتے، بیٹا پیٹ تو پالنا ہی ہے  ورنہ ان اندھ وشواسیوں میں کیا رکھا ہے  ان کے  کہنے  سے  مجھے  اور بھی دھرم پر اعتماد کم ہوتا گیا، میں صبح سویرے  اٹھنے  کا عادی تھا گھر کے  رواج کے  مطابق صبح سویرے  نہا کر پوجا کے  لئے  اپنے  مندر جاتا تھا، میں دسویں کلاس میں پڑھتا تھا، میرے  امتحان شروع ہوئے، امتحان کے  دن میں اور بھی جلدی اٹھا اشنان کیا اس خیال سے  کہ بت مہاراج سے  امتحان میں فرسٹ ڈویزن آنے  کی پرارتھنا کروں گا، صبح سویرے  مندر پہنچا، میں نے  دیکھا کہ ایک کتا وہاں موجود ہے، جو چڑھے  پرساد کو کھا کر بچی کچی مٹھائی چاٹ رہا ہے  وہ بت کے  منھ پر مٹھائی کے  اثر کو چاٹ رہا تھا۔

میں رک گیا کہ دیکھوں یہ کتا کیا کرتا ہے، اب تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے  اللہ نے  حقیقت دکھانے  کے  لئے  میرے  دل میں ڈالا کہ میں تماشا دیکھوں، میں یہ سوچنے  لگا کہ یہ بت اپنے  منہ سے  کتے  کو بھی نہیں ہٹا سکتا، مگر میری خاندانی آستھا نے  مجھے  سمجھایا، بے  وقوف یہ دیکھ کتا بھی آستھا اور عقیدت سے  کرپا ( رحم ) کی امید میں بت کے  بوسے  لے  رہا ہے  اور ان کا مکھ دھو رہا ہے  مگر تھوڑی دیر بعد میری ساری آستھا کی عمارت زمین پر آ گری، کتے  نے  ساری مٹھائی چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر پیشاب کی دھار جو بت پر لگائی تو وہ ڈاڑھی سے  اٹھ کر منہ تک پہونچی میں پوجا کے  بغیر ہی واپس آیا اور میں نے  آنکھیں بند کر کے  اکیلے  سچے  مالک کو یاد کیا میرے  مالک یہ بت جب کتے  کو اپنے  اوپر پیشاب کرنے  سے  نہیں روک سکتے  ہیں تو مجھے  امتحان میں کیسے  پاس کراسکتے  ہیں بس آپ مجھ پر کرم کیجئے  اس کے  بعد مندر جانا میں نے  بند کر دیا اور روزانہ صبح آنکھ بند کر کے  اپنے  مالک سے  دعا کرتا، میرے  پیپر اچھے  ہوتے  رہے، امتحان ختم ہوئے، ایک ایک دن رزلٹ کا انتظار رہا رزلٹ آیا میں نے  دس روپئے  اخبار والے  کو دے کر رزلٹ دیکھا تو میری فرسٹ ڈویزن تھی، میں نے  مالک کا بہت شکر ادا کیا، میں گیارہویں کلاس میں تھا کہ میرے  والد بیمار ہوئے  ان کے  پیٹ میں درد ہوا میری ماں نے  مجھے  بہت مجبور کیا میں مندر جاؤں، جا کر والد صاحب کی صحت کے  لئے  پرارتھنا کروں میں نے  منع کیا تو انھوں نے  مجھے  ڈرایا کہ بت ناراض ہو جائیں گے، میں چلا گیا میں نے  جا کر پرارتھنا کی، ما تھا شیوجی کے  چرنوں میں رکھ کر گھنٹوں میں وہاں پر گڑگڑایا، مجھے  اپنے  پتاجی سے  بہت پریم ہے، آپ ان کو اچھا کر دیجئے  ایک گھنٹہ میں وہاں گڑ گڑا تا رہا، واپس آیا تو مجھے  خیال تھا کہ وہ اچھے  ہو گئے  ہوں گے، گھر آ کر دیکھا ان کی موت ہو چکی تھی میں بہت پچھتایا کہ کاش میں اپنے  مالک سے  فریاد کرتا میری عقل کو کیا ہو گیا تھا، بت اپنے  منہ سے  کتے  کو نہ ہٹا سکیں وہ میرے  والد صاحب کو کیا صحت دے  سکتے  تھے۔

اس کے  بعد اپنے  دھرم سے  میرا اعتماد اٹھ گیا اور میں کسی راستے  کی تلاش کرنے  لگا، میں چرچ میں گیا مگر وہاں بھی میں نے  یسوع کی مورتیاں دیکھیں مجھے  میرے  ایک ایمانی ساتھی نے  بتایا کہ یہاں مدرسہ مسجد میں ان کے  ایک دھرم گرو حضرت مولانا کلیم صاحب آتے  رہتے  ہیں اور وہ کل صبح کو دس بجے  آنے  والے  ہیں میں صبح آٹھ بجے  پہنچ گیا دس بج گئے  وہ نہیں آئے  وہ گیارہ بجے  پہنچے  مسجد میں آس پاس کے  سب مسلمان جمع تھے، مولانا صاحب سیدھے  مسجد میں پہنچے  اور راستہ میں گاڑی کے  خراب ہونے  کی وجہ سے  دیر سے  آنے  کی سب سے  معافی مانگی، میں ان کی اس بات سے  بہت متاثر ہوا، اس کے  بعد انہوں نے  تقریر کی انھوں نے  اس موضوع پر تقریر کی کہ انسان پر کوئی ایک احسان کر دیتا تو ساری زندگی اس کے  گن گا تا ہے  اور اسے  ناراض کرنا نہیں چاہتا ہمارے  خدا کے  ہم پر بے  شمار احسانات ہیں، انسان کو اس کے  راضی رکھنے  کی فکر کرنی چاہئے، تقریر کے  بعد چائے  کے  لئے  اوپر مدرسہ میں گئے، میں نے  مولانا سے  ملاقات کی میرے  والد صاحب کے  انتقال کی وجہ سے  مولانا نے  مجھے  گلے  لگا لیا، پاس میں بٹھا یا چائے  پلائی چائے  کے  بعد انھوں نے  مجھے  بتایا کہ آپ کے  سچے  مالک کو آپ پر خاص پیار آیا اور وہ آپ کو سچا راستہ دکھانا چاہتے  ہیں شاید اسی لئے  یہ حالات آپ پر آ رہے  ہیں پھر اسلام کے  بارے  میں مجھ کو بتایا اور اپنی ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی اور یہ بھی کہا کہ بہت جلد آپ کو فیصلہ کرنا چاہئے، اس لئے  کہ جس طرح آپ کے  والد کا انتقال ہوا اسی طرح ہمارا آپ کا بھی ہونا ہے  اور موت کے  بعد کوئی موقع نہیں۔

جو سانس اندر گیا باہر آنے  کا اطمینان نہیں اور جو باہر گیا اس کے  اندر آنے  کا بھروسہ نہیں، انھوں نے  کہا میری تو درخواست ہے  کہ آپ فوراً کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہو جائیں میں نے  کہا یہ کتاب پڑھ لوں، انھوں نے  اجازت دے دی، میں باہر آ کر کتاب پڑھنے  لگا ۳۲ صفحوں کی کتاب تھوڑی دیر میں پڑھ لی، میرے  سارے  پردے  ہٹ چکے  تھے۔

۹ مئی۱۹۹۴ء ساڑھے  بارہ بجے  میں نے  کلمہ پڑھا اور مولانا صاحب نے  میرا نام محمد اکبر رکھ دیا اور مجھے  تاکید کی کہ ابھی وہ اپنے  مسلمان ہونے  کو راز میں رکھیں، آپ یہاں کے  امام صاحب کے  پاس آ کر نماز سیکھیں اور چپکے  چپکے  نماز پڑھنا شروع کر دیں، انھوں نے  کہا کہ آپ سے  ایمان چھنے  گا نہیں اور حق کبھی چھنتا بھی نہیں، مگر ابھی ماحول بھی اچھا نہیں، آپ کے  لوگ دشمن ہو جائیں گے۔

سوال  : اس کے  بعد کیا حالات آئے  اور آپ کی بہن اور ماں کس طرح مسلمان ہوئیں۔

جواب  : میں اپنے  اسلام کو چھپا کر لٹریچر پڑھتا رہا نماز یاد کر لی مجھے  اپنے  والد کے  ایمان کے  بغیر مرنے  کا بہت افسوس تھا میرے  خیال میں وہ بہت پیارے  آدمی تھے، مجھے  یہ احساس ہوتا رہتا کہ اگر یہ مسلمان مجھے  پہلے  اسلام کے  بارے  میں بتاتے  اور میں والد صاحب کی زندگی میں مسلمان ہو گیا ہوتا تو میں ان کے  پاؤں پڑ کر کسی طرح ضرور ان کو اسلام کے  لئے  تیار کر لیتا مجھے  یہ خیال ہوا کہ کہیں میری بہن اور میری ماں بھی کسی روز اسی طرح بے  ایمان کے  اس  دنیا سے  نہ چلی جائیں، میں نے  ایک دوکان پر نوکری کر لی جس روز تنخواہ ملی میں اپنی ماں اور بہن کے  لئے  کپڑا لایا مٹھائی لایا وہ بہت خوش ہوئیں  میں نے  موقع سے  فائدہ اٹھا کر اپنے  مسلمان ہونے  کی خبر ان کو دی ان سے  مسلمان ہونے  کو کہا میں رو رو کر ان سے  درخواست کرتا رہا میری ماں اور میری بہن بہت ناراض ہوئیں کپڑا میرے  منہ پر پھینک مارا مٹھائی کا ڈبہ بھی باہر پھینک دیا اور بہت روئیں کہ تو ادھرم ہو گیا، تو نے  برہمن ہونے  کی لاج بھی نہ رکھی اب وہ مجھے  پھر دوبارہ ہندو بننے  کی ضد کرنے  لگیں جب میں راضی نہ ہوا تو انھوں نے  مجھ سے  بولنا چھوڑ دیا تقریباً وہ مجھ سے  چھ مہینے  بولی نہیں، میری کمائی سے  کھانا چھوڑ دیا اور مجھ سے  گھر سے  نکلنے  کو کہا میں نے  ایک کوٹھری کرایہ پرلی اور وہاں پر رہنے  لگا اللہ تعالی سے  اپنی ماں اور بہن کی ہدایت کی دعا کرتا رہا اور دوسرے  لوگوں سے  اسلام کو چھپائے  رکھا، میں جس کوٹھری میں رہتا تھا، اس کے  پاس ایک مندر تھا میں دیکھتا روزانہ لوگ صبح و شام وہاں اپنا سر جھکاتے، مجھے  دکھ بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا ایک روز مجھ سے  رہا نہ گیا میں نے  ایک ہتھوڑا لے  کر صبح سویرے  بت کا سر پھوڑ دیا اور گردن تک اڑا دیا اور خیال کیا کہ جب میں حق پر ہوں تو کب تک گھٹتا رہوں گا، یہ لوگ شرک کو کھلے  عام کریں اور اپنے  مالک کی دنیا میں رہ کر ہم اپنے  حق کو چھپائیں ایسی زندگی سے  مرنا اچھا ہے  اور اسی جذبہ میں میں نے  لال رنگ سے  کٹے  ہوئے  بت کے  سینے  پر اپنا نام ’’ محمد اکبر سپوتر پنڈت سندر لال شرما ( مہیش چندر شرما)  لکھ دیا دن نکلنے  تک شہر میں ہا ہا کار مچ گئی کہ یہ محمد اکبر کون ہے ؟ لوگ میری ماں کے  گھر چڑھ آئے  میری ماں نے  کہہ دیا کہ ہم نے  بہت دنوں سے  اسے  گھر سے  نکال دیا ہے  لوگ مجھے  تلاش کر رہے  تھے  تھانہ کے  سامنے  مجھے  کچھ لوگوں نے  پکڑ لیا، تھانہ میں لے  گئے  پولیس نے  مجھے  بہت مارا، مگر میں حق پر مرنے  کے  لئے  تیار تھا میرے  اللہ نے  اب مار سے  میرا ایمان اور پکا کر دیا اور جوش بڑھ گیا میری ماں کو کسی نے  بتایا کہ تیرے  بیٹے  کو تھانے  میں مار لگ رہی ہے  ان کا ممتا بھرا دل پگھل گیا وہ اور میری بہن تھانے  آئیں پولیس والے  مجھے  ڈنڈوں سے  مار رہے  تھے  میری ماں ان پر لپٹ گئی کہ مسلمان ہونے  پر مارتے  ہو ہم بھی مسلمان ہوتے  ہیں میری خوشی کی انتہا نہ رہی میں نے  پٹتے  پٹتے  ماں سے  کلمہ پڑھنے  کو کہا انھوں نے  اور بہن نے  کلمہ پڑھا یہ منظر دیکھ کر پولیس والے  رکے  !

میرے  اللہ نے  ایک اور کرشمہ دکھایا علاقہ کے  بی جے  پی ایم ایل اے  مہتا کو شہر کا حال پتہ لگا کہ ایک ادھرم نے  بت کے  ساتھ یہ سلوک کیا اور اب پکڑا گیا، تھانے  میں مار کھا رہا ہے، وہ تھانے  میں آئے  انھوں نے  کوتوال کو دھکا دیا کہ اچھا نہ ہو گا اگر اب اسکو مارا اسکا وشواس اور استھا ہے، بھارت میں ہر کوئی آزاد ہے  جو دھرم چاہے  مانے  اور مجھ سے  کہا کہ بیٹا تمہیں جو دھرم ماننا ہو مانو مگر دوسرے  دھرم والوں کو ٹھیس نہ پہنچاؤ، کہا تمہارا اسلام یہ نہیں بتاتا اور مجھے  چھڑا کر لے  آئے  مجھے  ماں اور بہن کے  مسلمان ہونے  کی اتنی خوشی تھی کہ ایسی سو مار کھانے  کے  بعد بھی مسلمان ہوتی تو مجھے  منظور تھا، میں ماں سے  گلے  مل مل کر خوشی سے  رو رہا تھا میں نے  ماں کا نام حافظ صاحب سے  معلوم کر کے  آمنہ اور بہن کا نام فاطمہ رکھا۔

سوال  :  اس کے  بعد آپ دہلی کیوں چلے  گئے ؟

جواب   :شہر کا ماحول میری وجہ سے  گرم ہو گیا شہر میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور ہے   ۱۹۴۷ء کے  بعد تو پورا ہریانہ اجڑ گیا یہاں بھی مسلمان لوگ ہندوؤں کی طرح رہتے  تھے، نام بھی ہندوؤں جیسے  ہماری مسجد کی کمیٹی کے  ایک ذمہ دار شخص ہیں جن کا نام دھرما ہے  ایک انوپ سنگھ ہیں۔

سبھی نے  مجھے  مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہئے  سونی پت گیا، حضرت مولانا کلیم صاحب نے  بھی مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہئے، مگر میں کسی کے  رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتا تھا، سوال میں کبھی اپنے  پتاجی سے  بھی نہیں کرتا تھا ان سے  اپنے  دل کی بات کہی انھوں نے  ایک اسکول میں ہندی پڑھانے  کے  لئے  مجھے  فرید آباد بھیج دیا میں نے  اپنے  دل میں عہد کر لیا تھا کہ میں سارے  بت اور خداؤں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لایا ہوں میں سوال بھی اس کے  علاوہ کسی سے  نہیں کروں گا میرے  اللہ نے  میرا امتحان بھی بار بار لیا اور پھر مجھے  سمجھ داری دی، استقامت سے  نوازا اور مجھے  پار اتارا، میں اپنی ماں اور بہن کو دہلی لے  آیا اپنا مکان بیچ کر دہلی میں چھوٹا سا مکان خرید لیا اور وہاں پیسے  بھی اللہ نے  تھوڑے  تھوڑے  سے  ادا کر دئے، ہر موڑ پر میرے  اللہ نے  میری مدد کی۔

سوال  :  کوئی خاص واقعہ بتایئے، ؟

جواب   : ایک بار میں نے  ایک دوکان پر نوکری کی، پہلے  مہینے  کی تنخواہ ملی تو مکان کے  ۲۵۰۰ روپئے  کی ایک قسط باقی تھی، اس نے  تقاضہ کیا شرم کی وجہ سے  میں پوری تنخواہ اس کو دے دی، گھر میں ماں سامان کا انتظار کر رہی تھی، کئی روز تک ان کو کل پر ٹالتا رہا، ایک روز گھر میں کھانا نہیں بنا، میں نے  مغرب کی نماز پڑھ کر دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھی، میرے  اللہ آپ کے  علاوہ میں کسی سے  سوال نہیں کر سکتا میں مسجد سے  نکلا جوتوں کے  سامنے  ایک نوٹ پانچ سو روپئے  کا پڑا ملا، میں بہت خوش ہوا، جلدی سے  نوٹ اٹھایا اور خیال کیا کہ میری دعا قبول ہوئی، نوٹ جیب میں رکھا، دوکان کی طرف گیا تاکہ کچھ آٹا وغیرہ خریدوں، پھر مجھے  خیال ہوا کہ یہ نوٹ تو کسی کا گرا ہو گا نہ جانے  یہ میرے  لئے  حلال بھی ہے  یا نہیں میں دوکان کے  بجائے  مولانا صاحب کے  پاس گیا، مولانا صاحب کو اپنا حال بتائے  بغیر نوٹ ملنے  کا واقعہ بتایا، امام صاحب نے  مسئلہ بتایا کہ اس نوٹ کا اعلان مسجد میں کرنا چاہئے  آپ کے  لئے  یہ نوٹ لینا جائز نہیں ہے !

میں نے  نوٹ امام صاحب کے  حوالہ کیا اور گھر واپس آیا، دل میں خوشی بھی تھی کہ اللہ کے  حکم کو ماننے  کی توفیق ہوئی اور دل بھی دکھا کہ ماں انتظار میں ہے۔

رات کے  گیارہ بجے  کسی نے  دروازہ کھٹکھٹا یا میں نے  دروازہ کھولا محلہ کے  ایک صاحب ایک حاجی صاحب کو لے کر آئے  تھے  انھوں نے  کہا یہ مغربی دہلی سے  آئے  ہوئے  تھے  مغرب کے  وقت سے  مختلف محلوں میں آپ کو تلاش کر رہے  ہیں، میں نے  ملاقات کی انھوں نے  بتایا کہ میرا کڑھائی کا کارخانہ ہے  میرا بیٹا اس کو چلاتا تھا اس نے  شارجہ میں کمپیوٹرائزڈ مشین لگا لی ہے، اب اس کارخانے  کو دیکھنے  والا کوئی نہیں، علاقہ کے  ایک صاحب نے  بتایا کہ آپ نے  کارخانہ میں منیجر کی حیثیت سے  کام کیا ہے  میں آپ کو منیجر رکھنا چاہتا ہوں، چھ مہینے  ۵۰۰۰ روپیے  ماہانہ دوں گا اس کے  بعد تنخواہ بڑھا دی جائے  گی، ہمارے  علاقے  کے  لوگ آپ کی بہت تعریف کرتے  ہیں، اور جیب سے  پانچ ہزار کی ایک گڈی نکال کر دی یہ ایڈ وانس تنخواہ اور ہر ماہ پہلی تاریخ کو ایڈوانس مل جایا کرے  گی میں نے  اس کو اللہ کی طرف سے  تحفہ سمجھا معاملہ طئے  ہو گیا رات کو ہوٹل سے  کھانا لایا، ماں اور بہن کے  ساتھ خوشی خوشی کھایا، دو رکعت شکرانہ نماز پڑھی میرے  اللہ نے  پانچ سو روپئے  ناجائز سے  بچایا اور اتنی ہمت دی اور ۵۰۰ روپئے  کی بجائے  ۵۰۰۰ ہزار عطا کئے، بارہا میرے  سامنے  اس طرح کے  واقعات پیش آئے۔

سوال  :  آپ دعوت کا کام کرتے  ہیں، ؟

جواب  :  الحمدللہ حضرت مولانا کلیم صاحب کی رہنمائی میں میں زندگی کا مقصد دعوت کو سمجھتا ہوں میرے  اللہ نے  دہلی اور ہریانہ میں پچاسوں لوگوں کی ہدایت کا اس گندے  کو ذریعہ بنایا اس کے  علاوہ مقامی کام کی تبلیغی ترتیب سے  جڑا ہوں اور سالانہ چلہ پابندی سے  لگاتا ہوں۔

سوال  :  آپ ارمغان کے  واسطہ سے  مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہتے  ہیں، ؟

جواب  :  میں کیا میری حیثیت کیا، دل چاہتا ہے  کہ ہمارے  مسلمان بھائی مجھ جیسے  شکستہ دلوں پر ترس کھائیں، کتنے  لوگ صرف راہ نہ معلوم ہونے  کی وجہ سے  دوزخ کی آگ کی طرف جا رہے  ہیں، ان کی فکر کریں، دوسری ایک ضروری بات نو مسلموں کے  بارے  میں عرض ہے  کہ ان کی زیست کی فکر کریں اور ان کو اپنا محتاج بنانے  کے  بجائے  ان کو اپنے  پاؤں پر کھڑا کرنے  کی فکر کریں اور ان میں خود داری اور استغنا پیدا کرنے  کی فکر کریں سارے  خداؤں سے  بچ کر جو ایک مالک پر ایمان لایا ہے، اس کو سوال کسی سے  کرنا کیسے  روا ہو سکتا ہے ؟ عموماً لوگ اس کی مدد کر کے  صدقہ دے  کر ان کی عادت بگاڑ تے  ہیں اس سے  ضمیر مر جاتا ہے  خود تو ان کے  ساتھ تعاون کرنا اپنا فرض سمجھیں مگر اس کو ہر گز یہ خیال نہ کرنا چاہئے  کہ میرا کھانا شادی اور گزارہ ان سب کا نظم مسلمانوں کے  ذمہ ہے، میرے  لحاظ سے  یہ ان کے  لئے  زہر قاتل ہے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ، جزاکم اللہ آپ نے  بڑے  کام کی اور مفید باتیں بتائیں۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

جواب   :   میں نے  تو حقیقت حال بیان کی، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

   ایک نومسلم بھائی عبدالرشید دوستم {سنیت کمار سوریہ ونشی} سے  مفید ملاقات

احمد اواہ    :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبدالرشید  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : آپ کی تعریف؟

جواب  : میرا نام عبدالرشید دوستم ہے  اور میں الحمدللہ ایک مسلمان ہوں، میں اب سے  چھ سال قبل مسلمان ہوا تھا، میرا پرانا نام سنیت کمار سوریہ ونشی تھا، میں ہری دوار کے  قریب ایک گاؤں کے  ہندو مذہبی گھرانہ میں پیدا ہوا، میں نے  سائنس بایو سائڈ سے  گریجویشن کیا ہے۔

سوال  :آپ کا نام عبدالرشید دوستم کس نے  رکھا؟

جواب   : اصل میں میرا نام مولانا محمد اسلم کاظمی نے  عبدالرشید رکھا تھا، مگر میں کچہری میں سرٹیفکٹ بنوانے  گیا تو اس زمانہ میں افغانستان کے  عبدالرشید دوستم کا پوری دنیا میں تذکرہ تھا، وکیل نے  مجھ سے  نام پوچھا، میں نے  عبدالرشید بتایا، اس نے  کہا عبدالرشید دوستم تو میں نے  بھی عبدالرشید دوستم ہی کہہ دیا کہ دوستی تو اچھی ہی چیز ہے۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کا واقعہ بتایئے ؟

جوا ب  : میں گروکل میں تعلیم حاصل کرتا تھا، گروکل بہت مذہبی ہندوؤں کے  ادارے  ہوتے  ہیں میں کھیلنے  اور پڑھنے  میں ہوشیار تھا، اسکول کے  ہر فنکشن میں حصہ لیتا تھا اور پوزیشن لاتا تھا، میں بہت اچھا بریک ڈانس کرتا تھا، بریک ڈانس کے  لئے  جوڑوں کی ایک خاص ساخت کی ضرورت ہوتی ہیں، وہ اللہ نے  مجھے  دی تھی، ممبئی کی کئی پارٹیاں مجھے  لینے  آئیں کہ آپ بریک ڈانس میں دنیا میں نام پیدا کر سکتے  ہیں، آپ کے  جوڑوں میں گھومنے  کی بہت صلاحیت ہے، ہمارے  گاؤں میں مندر اور مسجد بہت قریب قریب ہیں، مجھے  بچپن سے  یہی خیال ہوتا تھا کہ یہ دونوں مالک کی پوجا کے  استھان ہیں، دونوں میں کیا فرق ہے ؟ ان دنوں ہمارے  گاؤں کے  ایک بہت سلیم الفطرت اور نیک انسان محمد عمر بھائی سے  میرا تعلق ہو گیا،  وہ مجھے  ناچنے  کے  لئے  منع کرتے  تھے، وہ کہتے  تھے  جس اللہ نے  اتنے  اچھے  جوڑ بنائے  ہیں وہ اللہ ناچنے  سے  منع کرتا ہے  وہ ان جوڑوں کا حساب لے  گا، وہ میرے  لئے  ہدایت کی دعا کرتے  اور مجھے  مسجد میں لے  جانے  کی کوشش بھی کرتے، میں مسجد میں باہر کھڑا ہو کر پانچوں وقت لوگوں کو پابندی سے  نماز پڑھتے  دیکھتا، سردی، گرمی اور برسات میں ایسے  نظم اور پابندی کے  ساتھ نماز پڑھنے  والوں کو دیکھ کر مجھے  اچھا لگتا، مندر میں جا کر یہ بات نہیں لگتی تھی، دل کو لگتا کہ مندر میں تو بس ایک رسم ہے، مجھے  حسرت ہوتی کہ کاش میں بھی مسلمان ہوتا تو میں بھی مسجد میں جا کر اپنے  مالک کی نماز پڑھتا، محمد عمر بھائی مجھے  ایک بار دیوبند دکھانے  کے  لئے  لے  گئے  وہاں ہم مولانا محمد اسلم کاظمی کے  پاس عطر لینے  گئے، میں نے  ان سے  اسلام کے  بارے  میں کچھ سوال کئے، وہ ایک اچھے  داعی ہیں، انہوں نے  مجھے  بہت اچھی طرح سمجھایا اور توحید رسالت آخرت کے  بارے  میں سمجھایا اور زور دیا کہ میں مسلمان ہو جاؤں، مسلمان ہو کر نماز پڑھنا ہی انسان کی سب سے  بڑی کامیابی ہے، میں نے  اسلام قبول کر لیا اور دوسرے  روز انہوں نے  مجھے  پھلت حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی کے  پاس بھیج دیا، جن کو ہم ابوجی کہتے  ہیں۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

جواب  : میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں، اس خیال سے  میرے  رونگٹے  کھڑے  ہو جاتے  ہیں کہ اگر میں اسلام قبول نہ کرتا تو کیا ہوتا؟ یہ میرے  اللہ کا کرم ہے، اس نے  مجھے  اس گندگی سے  نکالا اور شرک سے  بچایا، ورنہ کھیل، کود، تعلیم، ڈانس، میری دلچسپی کے  سب سامان مجھے  ملے  تھے، میں نے  ریڈیو پر گروپ سانگ بھی گائے  نجیب آباد  ریڈیو سے  آج بھی ریلے  ہوتے  ہیں، ایک گانا جواب سے  بہت پہلے  گایا تھا وہ مجھے  اب تک یاد ہے ’’آؤ مل کر اتہاس رچائیں ‘‘

میرے  اللہ کا احسان ہے  کہ اس نے  مجھے  عمر بھائی اور پھر مولانا اسلم صاحب اور سب سے  بڑھ کر ابوجی کے  پاس بھیجا، اصل بات یہ ہے  کہ جس طرح پھول کی فطرت کھِلنا ہے، مگر پھول کو پانی نہ ملے  بارش نہ ہو تو وہ مرجھا جاتا ہے، اسی طرح ایک انسان کی فطرت مسلمان ہونا ہے  اسلام فطری مذہب ہے  مگر اس کو ماحول اور دعوت کی بارش کی ضرورت ہوتی ہے  اگر اس کو خاندانی طور پر اسلامی ماحول، یا دعوت کی بارش نہ ملے  تو وہ کھلنے  سے  پہلے  مرجھا کر کافر رہ جاتا ہے، میں اپنے  کریم اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے  مجھے  مرجھانے  سے  بچایا۔

سوال  : اسلام لانے  کے  بعد آپ کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

جواب  : اصل میں اگر انسان صرف اللہ سے  اپنا تعلق رکھے  تو ہر وقت اس کا کرم شامل حال رہتا ہے، مگر انسان کمزور ہے  اس سے  غفلت ہو جاتی ہے  میں خاص طور پر بہت کمزور وحساس ہوں اور مجھ میں قوت برداشت بہت کم ہے، آدمی سوچے  کہ اللہ تعالی کے  کتنے  احسانات ہیں، ایمان و اسلام صرف اللہ کے  لئے  ہو، صبح کو سورج نکلا، اگر آدمی یہ خیال کرے  کہ یہ سورج نکلا ہے  میرے  اللہ نے  میرے  لئے  نکالا ہے، یہ دن صرف میرے  لئے  نکالا گیا ہے  یہ رات میرے  آرام کے  لئے  ہے  یہ ہوا میری راحت کے  لئے  چل رہی ہے  تو آدمی کو اللہ سے  کتنی محبت ہو جائے، مگر انسان کمزور ہے  کسی ایک ماحول سے  دوسرے  ماحول میں اس کو مشکل ہوتی ہے  نئے  معاشرے  میں اس کوسیٹ ہوتے  دیر تو لگتی ہے، خصوصاً آج کے  دور میں جب حالات ایسے  ہیں کہ شک کرنا پڑتا ہے، مجھے  سب سے  زیادہ تکلیف اپنے  مسلمان بھائیوں کے  ان سوالات سے  ہوتی رہی جن سے  ایک شک سا ٹپکتا تھا، مگر اللہ کا شکر ہے  کہ مجھے  بے  انتہا محبت کرنے  والے  ملے، خصوصاً ہمارے  ابّوجی جنہوں نے  ہر موڑ پر میری رہنمائی کی۔

سوال  :آپ کے  والدین حیات ہیں ؟ کیا آپ کا ان کے  ساتھ کچھ ربط ہے، کبھی آپ نے  ان کو بھی اسلام میں لانے  کی کوشش کی؟ کچھ ان کا حال بھی سنایئے۔

جواب   : میرے  والدین الحمدللہ حیات ہیں، چند سال قبل ابّوجی نے  مجھے  ان سے  ملنے  کے  لئے  کہا تھا اور ان کی ہدایت کے  لئے  دعا کرنے  پر زور دیا، میں نے  فون پر والدہ سے  بات کی، انہوں نے  مجھے  بہن کی شادی میں آنے  کو کہا اور یہ بھی کہا کہ بہن کی شادی میں تین بھائی شریک ہوں اور ایک نہ ہو تو وہ ڈولی کیا ارتھی (میّت) ہو گی، ہم نے  بہن کی سسرال والوں سے  بات کر لی ہے  انہوں نے  اجازت دے  دی ہے  کہ اس نے  دھرم بھرشٹ کر لیا اور وہ ادھرم (لامذہب) ہو گیا تھا، تو ہمیں کیا؟ میں بہن کے  لئے  کچھ تحفے لے  کر گیا، میں شادی میں شریک ہوا کسی نے  کچھ نہیں کہا اور سب خوش ہوئے، مگر شادی کے  بعد میرے  بھائی اور رشتہ دار ٹہلانے  کے  بہانے  سے  لے  گئے  اور زبر دستی نائی کی دکان میں گھسا دیا اور کہا اس کی داڑھی مونڈ دو، میں روتا رہا خوشامد کرتا رہا مگر وہ نہ مانے  میں نے  ہاتھ سے  استرا پکڑ ا اور ان سے  کہا کہ تم میر اگلا کاٹ دو، مگر میرے  نبی کی سنت نہ کٹاؤ، نائی نے  بھی ان کو منع کیا مگر وہ مجھے  دبوچ کر داڑھی منڈا کر باز آئے، میں کسی طرح جان بچا کر وہاں سے  بھاگ آیا، روتا پھرتا تھا، مجھے  آئینہ دیکھنے  کا شوق تھا، مگر مجھے  رونا آتا تھا کہ میں اپنا منھ نبی کی سنت کے  بغیر کس طرح دیکھوں، شرم کی وجہ سے  پھلت نہ آیا، ابّوجی نے  تلاش کرایا اور کہلوایا کہ اس میں شرم کی بات نہیں، تمہارے  لئے  اس میں کوئی حرج نہیں تم دعوت کی راہ میں گئے  تھے  تمہیں ایک ایک بال کے  بدلے  میں نیکیاں ملیں گی، اس کے  بعد میں کھل کر گھر نہیں گیا، البتہ بار بار رات کو والدہ سے  ملنے  ابوجی نے  مجھے  بھیجا، اب والدہ اسلام کے  بہت قریب ہیں اور ہم سب دعا کر رہے  ہیں، مجھے  امید ہے  کہ اب کی بار وہ ضرور کلمہ پڑھ لیں گی وہ گھر میں سب سے  زیادہ مجھ سے  محبت کرتی ہیں، اب اور بھی کرنے  لگی ہیں، اس کے  بعد والد صاحب پر کام کروں گا۔

سوال  :سنا ہے  آج کل آپ دعوت کے  لئے  بہت سرگرم ہیں، اپنی دعوتی کارگزاری کے  بارے  میں بھی کچھ بتایئے۔

جواب   :  اسلام قبول کرنے  کے  بعد الحمدللہ میں نے  دینی تعلیم حاصل کی پھر ابوجی نے  مجھے  کمپیوٹر کورس کرایا اور آج کل موانہ میں کمپیوٹر لگا کر ڈی، ٹی، پی ورک کر رہا ہوں، مگر ظاہر ہے  زندگی کا مقصد تو دعوت ہے، ابوجی ہمیں سفر میں ساتھ لے جاتے  ہیں، پوری انسانیت تک دعوت پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، یہ بتاتے  ہیں ہمارے  لئے  تندولکر، اگرکر اور سلمان خان آئیڈیل نہیں ہیں، ہمارے  لئے  ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی نمونہ ہے، ہمارے  نبی ایک ایک کے  پاس ستر مرتبہ جاتے  تھے، اپنے  دشمن یہودیوں کا پاخانہ اپنے  پاکیزہ ہاتھوں سے  صاف کرتے  تھے، طائف میں پتھر کھائے  اور پاؤں لہو لہان ہوئے  تھے، پھر زخمی حالت میں انگور کے  باغ میں جا کر اپنے  اللہ کے  سامنے  گڑگڑائے، یا ارحم         الراحمین یا ارحم الراحمین آواز لگاتے  اور ستانے  والوں اور پتھر برسانے  والوں کے  لئے  دعا کرتے  ہیں، مجھے  بھی حسرت ہے  کہ میں بھی ایک ایک کے  پاس ستر مرتبہ نہیں تو سات مرتبہ تو جاؤں، میں بھی دعوت کی راہ میں زخمی ہوں اور انگور کا باغ نہ ملے  تو آم کے  باغ میں اپنے  مالک کو  یا ارحم الراحمین کہہ کر یاد کروں اور اپنے  خونی رشتے  کے  بھائیوں کی ہدایت کے  لئے  دعا کروں، گزشتہ چند ماہ میں اللہ نے  مجھے  ہمت دی، ابوجی کارگزاری سنتے  ہیں بہت خوش ہوتے  ہیں حوصلہ بڑھاتے  ہیں، دعائیں دیتے  ہیں، اللہ کے  ایک نیک بندے  اور داعی کو خوش کرنے  کا شوق ہمارے  لئے  اس راہ میں بڑا حوصلہ دیتا ہے، الحمدللہ چند ماہ میں ۲۳ لوگوں نے  اس حقیر کے  ہاتھ پر اسلام قبول کیا، جن میں بڑے  کام کے  اور اہم لوگ شامل ہیں میں اپنے  اللہ کا بہت بہت شکر ادا کرتا ہوں مجھے  امید ہے  اب ہمیں لائن مل گئی ہے، اللہ تعالی ہم سے  خوب کام لیں گے، پہلے  بھی کچھ لوگ مسلمان ہو جاتے  مگر میں ان کو کلمہ نہیں پڑھواتا تھا، ابوجی نے  بتایا کہ کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  کسی کے  پاس لے  جانے  کا انتظار نہیں کرنا چاہئے  اگر موت آ جائے  تو کیا ہو گا، جب سے  میں ہی کلمہ پڑھوانے  لگا۔

سوال  :  اپنے  مسلمان بھائیوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب   : میری کیا حیثیت ہے  کہ میں کوئی پیغام دوں مگر مجھے  احساس ہوتا ہے  کہ ہمیں اپنے  کفر و شرک میں پڑے  ہوئے  بھائیوں کی فکر کرنی چاہئے، خصوصاً پسماندہ طبقہ کے  غیر مسلموں کی جن کو شودر یا کالے  سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے، آپ دیکھتے  ہیں ہمارے  علاقہ میں کاوڑکاکس قدر زور بڑھتا جا رہا ہے  پہلے  صرف تین روز کے  لئے  راستہ بند ہوتا تھا اب آدھے  ماہ راستہ بند رہتا ہے  سب کام بند ہو جاتے  ہیں کس قدر تکلیف ہوتی ہے  تعداد بھی کتنی بڑھ رہی ہے، یہ سینکڑوں میل گرمی میں کاوڑ کاسفر پیدل ہماری دشمنی میں نہیں ہو سکتا، یہ اس لئے  ہے  کہ لوگوں میں اپنے  مذہب سے  تعلق بڑھ رہا ہے  یعنی اپنے  مالک کو خوش کرنے  کا شعور اور جذبہ بڑھ رہا ہے  اگر ہم دعوت کو مقصد بنا کر ان کو یہ سمجھائیں کہ یہ راستہ مالک کو خوش کرنے  کا نہیں بلکہ مالک کو ناراض کرنے  کاہے  اور شرک کے  ساتھ یہ قدم دھرم (مذہب) کے  لئے  نہیں بلکہ ادھرم (گناہ)کے  لئے  بڑھ رہے  ہیں تو یہ لوگ اسی جوش اور جذبہ کے  ساتھ حج کے  لئے  جانے  والے  بن سکتے  ہیں، اصل یہ ہے  کہ ہم غیر شعوری اور رسمی طور پر مسلمان ہیں میں ابوجی سے  کہہ رہا تھا کہ مجھے  سات سال ہونے  والے  ہیں، میں نے  ۲۲۳/نکاحوں میں شرکت کی جن میں سے  سات سال میں پانچ دولہا داڑھی والے  دیکھے  ان میں بھی صرف دو پوری داڑھی والے  تھے، جب اسلام اور نبی کے  طریقہ سے  تعلق کا ہمارا یہ حال ہے  تو ہم دوسروں کو کس طرح دعوت دیں، جب ہم خود ہی اسلامی طریقہ کو پسند نہیں کرتے  ہماری نمازوں کا بھی یہی حال ہے  دس فیصد لوگ بھی نمازی نہیں اور جو نمازی ہیں وہ بھی سارے  کاموں کو مقدم کر کے  دوسرے  درجہ پر نماز پڑھتے  ہیں۔

سوال  :آپ ماشاء اللہ نماز کی بڑی فکر رکھتے  ہیں، آپ کا نماز کے  بارے  میں کیا خیال ہے ؟

جواب   : اللہ کا شکر ہے  میں نے  نماز کی کشش میں اسلام قبول کیا تھا میرے  اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ گذشتہ پانچ سال میں میری ایک بھی نماز قضاء نہیں ہوئی، کل ملا کر میری ۶۷ /بار جماعت نکلی، ۷/بار  ۲۰۰۲ء میں ۱۳/بار  ۲۰۰۰ء میں ۱۶/بار  ۱۹۹۹ء میں ۲۱/بار اور ۱۹۹۸ء میں سفر کم ہوئے  اس سال دس بار میری جماعت نکلی مگر اللہ کا شکر ہے  کہ یہ جماعتیں شرعی عذر سے  نکلی ہیں۔

سوال  :آپ نے  حساب بالکل یاد کر رکھا ہے ؟

جواب   :  ایک آدمی اپنے  نفع نقصان کا حساب رکھتا ہے  اپنی پراپرٹی، اپنی جیب اور بینک بیلنس کا حساب رکھتا ہے  کہ اتنے  روپئے  ہیں اتنی دکانیں ہیں، اتنے  مکان ہیں، دکان میں اتنا اتنا سامان ہیں وغیرہ، مسلمان کا اصل مال اور دولت تو یہ ہی ہے  کیا نمازوں کی  دکان اور مال وسامان سے  بھی کم اہمیت ہے، خصوصاً نقصان تو آدمی کو اور بھی یاد رہتا ہے، نماز قضا ہو جانا یا جماعت نکل جانا کیا کم نقصان ہے  کہ آدمی اس کا حساب بھی نہ رکھے، اصل میں ہم نے  نماز کی وقعت اور قیمت ہی نہ جانی ورنہ اگر آدمی کو نماز ادا کرنا بلکہ ابوجی کی بقول نماز قائم کرنا آ جائے  تو پوری زندگی بلکہ پوری دنیا صحیح ہو جائے۔

سوال  :بہت شکریہ !  جزاک اللہ آپ نے  بہت مفید باتیں بتائیں۔

جواب   : آپ میرے  لئے  دعا کریں یہ باتیں میرے  لئے  حال بن جائے  اور اللہ تعالی مجھے  چلتا پھرتا قرآنی اور مجسم دعوت بنا دیں اور اللہ تعالی میری جان اس راہ محبت میں قبول کر لے  کہ شہادت کی موت ہی ایمان والے  کی اصل معراج ہے۔

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

محمد اکرم {وکرم سنگھ} سے  ایک دلچسپ ملاقات

 

احمد اواہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکرم   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  اکرم بھائی !  قارئین ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب   :  ضرور احمد بھیا آپ ضرور کیجئے۔

سوال  :  آپ اپنا مختصر تعارف کرایئے ؟

جواب   :  اب محمد اکرم ہے  اسلام سے  پہلے  میرا نام وکرم سنگھ تھامیں میرٹھ ضلع کے  ایک گاؤں کا جو اب شہر میں آ گیا ہے، رہنے  والا ہوں میرے  والد صاحب کا نام شری تلک رام ہے، وہ درمیانی درجہ کے  ایک کسان ہیں میرے  چار بھائی اور تین بہنیں ہیں میں نے  نانک چند کالج سے  تاریخ میں ایم اے  کیا تھا اس کے  بعد ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا دوسرے  سال میری زندگی میں کچھ حالات آئے  جس کی وجہ سے  مجھے  درمیان میں تعلیم موقوف کرنی پڑی میں نے  ۲/اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اسلام قبول کیا۔

سوال  :اسلام کی طرف آپ کی کشش کی وجہ کیا ہو ئی ا پنے  قبول اسلام کے  سلسلہ میں تفصیل سے  بتایئے ؟

جواب   : میرا بچپن بڑا عجیب گزرا، میرا گھرانہ بڑا مذہبی ہندو گھرانہ تھامیں جب ذرا بڑا ہوا تو میرے  دل و دماغ پر اپنے  مالک اور اپنے  خدا کی تلاش کا جذبہ طاری ہوا میں اکیلا بیٹھا تو میرے  دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سارے  سنسار کا بنانے  والا کون ہے  اور کونسی ذات ہے  جو اتنے  سارے  انسانوں کو پیدا کرنے  والی ہے  اور سارے  انسان بالکل الگ الگ یہاں تک کے  ایک ماں ایک باپ کی اولاد بھی بالکل الگ الگ ہیں ؟ کوئی کمپنی کار بناتی ہے  تو ایک سی بناتی ہے  اور ہمیں نمبر پلیٹ سے  پہچاننا پڑتا ہے  مگر اس دنیا میں کروڑوں لوگ ایک مالک کے  بنائے  ہوئے  بغیر نمبر پلیٹ کے  پہچانے  جاتے  ہیں ایسا بنا نے  والا وہ کون ہے  ؟سورج نکلتا ہے  تو آگ برستی ہے  چاند چمکتا ہے  تو ٹھنڈی ہوتی ہے  اتنا بڑا آسمان بغیر ستونوں کے، بغیر دیوار کے  کس طرح ٹکا ہوا ہے، اس کو کون سنبھالے  ہوئے  ہے ؟ انسان کا جسم اس کی آنکھیں، کان، چلنے  پھرنے  کے  لئے  پاؤں کیسا پیارا نظام ہے  اس کو بنانے  والا کیسا عظیم ہے ؟ کسی انسان کی آنکھ پھوٹ جائے  تو یہ ڈاکٹر پتھر کی آنکھ تو لگا سکتے  ہیں مگر اس جیسی آنکھ سارید نیا کے  ڈاکٹر مل کر نہیں بنا سکتے  یہ سوالات مجھے  اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے  اس کے  بنانے  والے  کو تلاش کرنے  پر مجبور کرتے، میں نے  اپنے  دل کی تسکین کے  لئے  مذہب کو سہارا سمجھا۔

پہلے  میں مندروں میں جاتا تھا مگر میں دیکھتا تھا کہ اپنے  ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کو لوگ پوجتے  ہیں مجھے  عجب لگتا، مجھے  مورتی کی پوجا کرنے  والوں کی عقل پر افسوس آتا، میرے  گھر والے  مورتیوں کو کھانا کھلاتے  ان کو سردی گرمی میں کپڑا اور ہوا کا انتظام کرتے، میں گھر والوں سے  کہتا کہ تم ان کو کھلاتے  ہو پلاتے  ہو مگر ان کو جنگل میں پاخانے  کے  لئے  نہیں لے  جاتے  وہ مجھے  ڈانٹتے  اور کہتے  یہ تو پاگل ہو گیا ہے  اس کی عقل کو بھگوان نے  سلب کر لیا ہے۔

ایک بار میں اپنے  چھوٹے  بھائی کے  ساتھ ہری دوار کی نیل کنٹھ پہاڑی پر گھومنے  گیا، میں نے  وہاں دیکھا کہ مندر پر پولیس کی کافی بھیڑ ہے  میں نے  لوگوں سے  پوچھا یہاں اتنی پولیس کیوں ہے ؟ انہوں نے  جواب دیا مندر میں بھگوان شیوجی کا سونے  کا سانپ رکھا ہے  جو بڑا بھاری اور قیمتی ہے  اس کی حفاظت کے  لئے  پولیس ہے  کوئی بھگوان کا سانپ چوری کر کے  نہ لے  جائے  اس لئے  یہاں ہر وقت پولیس کا پہرہ لگا رہتا ہے، یہ سن کر مجھے  بڑا جھٹکا لگا کہ جو شیوجی اپنے  سانپ کی حفاظت نہ کر سکتا ہو وہ ان لوگوں کی کیا حفاظت کرے  گا؟ جو خود اپنی حفاظت کے  لئے  پولیس کا محتاج ہے  وہ کیسے  پوجا کے  لائق ہو سکتا ہے ؟ میرے  دل میں خیال آیا کہ اگر ان مورتیوں کو حس ہوتی اور ان میں جان ڈال دی جائے  تو یہ خود ہماری پوجا کریں کہ ہم ان کے  بنانے  والے  ہیں اور بنانے  والے  کی پوجا کی جاتی ہے۔

کئی بار اخباروں میں خبریں پڑھتا کہ آج اس مندر میں بھگوان کی چاندی کی مورتی چوری ہو گئی اور آج  فلاں مندر سے  بھگوان کا تر شول چوری ہو گیا، اس طرح کی باتوں سے  میرا دل مندروں سے  سخت متنفر ہو گیا اور اس کے  بعد میں نے  اپنی مذہبی تسکین کے  لئے  ست سنگ میں جانا شروع کیا۔

میں ست سنگوں میں جانے  لگا میں نے  وہاں دیکھا جب گرو مہاراج پروچن کرتے  ہیں تو لوگوں کو کہتے  ہیں کہ (موہ مایا )  یعنی دنیا کے  لالچ سے  دور رہو مگر جب کوئی ان کو پانچ سو کا نوٹ دیتا تو بہت خوش ہو جاتے  اور جلدی سے  جیب میں رکھ لیتے  جو لوگ ان کو نوٹ دیتے  ان کو پاس بٹھاتے  اور جو نوٹ نہ دیتے  تو ان کی طرف توجہ بھی نہ دیتے، میرے  دل میں بات آئی کہ یہ کیسا دھرم ہے  کہ خود تو مال سے  پیار کرو اور لوگوں کو دور رکھو، میں نے  کچھ گروؤں کے  کالے  کرتوتوں اور جوان لڑکیوں کے  ساتھ ان کے  مذاق کو بھی دیکھا، میں نے  دیکھا کہ گرو لوگوں کو وصیت کر رہے  ہیں کہ ان کی سمادھی بنائی جائے  ان کو جلایا نہ جائے  اور لوگوں کو جلانے  سے  منع نہیں کرتے  مجھے  ایسا لگتا تھا کہ یہ اپنے  دل میں اسلام قبول کر لیتے  ہیں مگر دوسروں کو دور رکھتے  ہیں، ان باتوں کی وجہ سے  میرا دل ست سنگ سے  پھر گیا۔

میں نے  ہندو مذہب چھوڑ کر عیسائیوں کی طرف رخ کیا میں نے  وہاں بھی حضرت عیسیؑ اور مریم کی تصویریں دیکھیں جن کی پوجا ہوتی ہے، خدا کے  بیٹا کیسے  ہو سکتا ہے ؟ میں نے  عیسائیوں کو دیکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی مورتی کی پوجا کرتے  ہیں ان سے  پرارتھنا کرتے  ہیں حالانکہ ان کا ماننا ہے  کہ ان کو خود سولی پر چڑھا دیا گیا تھا جس خدا کے  لئے  خود خدا کو سولی پر چڑھا دیا گیا ہو اس کی پوجا کونسی عقل کی بات ہے  ؟ بیٹے  سے  پرارتھنا کرنے  کی پرارتھنا کریں خود خدا سے  پرارتھنا کیوں نہیں کرتے  ؟میرا دل عیسائیت کی طرف سے  بھی مایوس ہو گیا ایک روز گرجا گھر سے  دکھے  دل کے  ساتھ واپس آیا تو راستہ میں مجھے  جینیوں کے  منیوں کا ایک قافلہ ملا۔

چار پانچ ننگے  لوگ بے  شرمی سے  جا رہے  تھے  راستہ میں ایک جگہ ان کا سوا گت ہونا تھا جو ان لڑکیاں ان کے  ننگے  جسم کو دھوکر پانی پی رہی تھیں میں بہت مایوس ہوا اور میری آتما شرم کے  مارے  ڈوب مرنے  کو چاہی کہ انسان کی بدھی (عقل ) اندھے  رواجوں کے  سامنے  کہاں تک چلی جاتی ہے۔

اسلام کے  دروازے  پر: سارے  دروں سے  مایوس ہو کر میں نے  اسلام کی کھوج شروع کی، میرے  گاؤں میں بہت سے  مسلمان رہتے  تھے  میں نے  جیسے  جیسے  اسلام کو جاننا شروع کیا میرے  دل نے  کہا کہ یہ پراکرتک دھرم (فطری مذہب) ہے۔

مجھے  آخرت کے  عقیدہ کے  علم نے  سب سے  زیادہ متاثر کیا دنیا کی ہر چیز فنا ہو جانے  والی ہے  اور اللہ تعالی کے  سامنے  ہر چیز کا حساب دینا ہے  یہ بات انسان کو انسان باقی رکھنے  کے  لئے  مجھے  بہت اچھی لگی، اس دنیا کو چھوڑ کر سب کو جانا ہے  اور اپنے  مالک کے  سامنے  اس دنیا میں کئے  گئے  کرموں (اعمال ) کا حساب دینا ہے  اس مالک کے  سامنے  جانا ہے  جو سارے  جہاں کو بنانے  والا ہے  ساری دینا کے  لوگ اس کے  بندے  ہیں، یہاں تک کہ اسلام کے  رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ کے  بندے  اور ایک انسان ہیں میں نے  اسلام کو جاننے  کے  لئے  کچھ مسلمان لڑکوں سے  دوستی کر لی میرے  ایک دوست فاروق کی نانی کا انتقال ہو گیا، میں ان کے د فن میں شریک ہوا، میں نے  قبر میں دفنانے  کے  طریقے  کو دیکھا، مجھے  بہت اچھا لگا اور مجھے  ہندو مذہب کے  مطابق ظالمانہ طریقہ پر جلانے  کے  مقابلہ میں یہ دفن بالکل سورگ کی طرح لگا، میں گھر جا کر سویا تو میں نے  خواب دیکھا دو قبریں ہیں، کچھ اچھے  لوگ مجھے  دونوں قبریں کھول کر دکھانے  لگے، ایک آدمی خوبصورت کپڑوں میں آرام سے  سورہا تھا اور دوسرے  کی قبر میں خون تھا، لوگوں نے  بتایا کہ سونے  والا نیک مسلمان تھا اور خون پیپ والا برا آدمی تھا اس کے  بعد اپنے  دوست کی نانی کو دیکھا وہ بہت خوبصورت جو ان شہزادی سی لگ رہی تھی حالانکہ وہ بہت بوڑھی اور کالے  رنگ کی تھی، لوگوں نے  بتایا کہ یہ نانی بہت نیک تھی اس کی وجہ سے  ان کو خوبصورت بنا دیا گیا، میری آنکھ کھل گئی، اس خواب کے  بعد مجھے  مرنے  کے  بعد حالات کا آنکھوں دیکھی باتوں سے  زیادہ یقین ہو گیا اور مجھے  روز اچھے  اچھے  خواب دکھائی دینے  لگے،

میرے  مسلمانوں کے  ساتھ رہنے  کی وجہ سے  میرے  گھر والوں کو مجھ پر شک ہونے  لگا انہوں نے  مجھے  ڈانٹنا شروع کیا میں نے  گھر والوں سے  کہہ دیا کہ مجھے  مسلمان ہونے  سے  اب کوئی نہیں روک سکتا،

اس کے  بعد مجھ گناہ گار پر میرے  اللہ نے  احسان کیا میرے  گاؤں میں ۱۲/اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اللہ کے  نیک بندے  اور انسانیت کے  سچے  دوست مولانا کلیم صاحب کو بھیج دیا، لوگ مجھے  ان کے  پاس لے  گئے  انہوں نے  موت کے  خوف سے  دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے  کلمہ پڑھایا میرا نام پوچھا اور کہا اسلام میں نام بدلنا کچھ ضروری نہیں مگر میں نے  ہندوانہ نام بدلنے  پر اصرار کیا تو انہوں نے  میرا نام محمد اکرم رکھ دیا،

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب   : ایمان قبول کرنے  کے  بعد مجھ پر پانچ وقت کی نماز فرض ہو گئی، میں نماز سیکھنے  لگا اور نماز پڑھنے  مسجدوں میں جانے  لگا یہ بات آس پاس کے  گاؤں میں پھیل گئی بعض مسلمان بھی ڈرنے  لگے  میں ان مسلمانوں سے  کہتا آپ کیوں ڈرتے  ہیں ؟ پولیس اگر مجھے  مجرم سمجھتی ہے  تومیں خود جواب دوں گا جب چور خود نہیں ڈرتا تو آپ کو کیا ڈر ہے، میں بالغ ہوں، پوسٹ گریجویٹ ہوں جاہل نہیں، میں نے  سوچ سمجھ کر سارے  دھرموں کو دیکھ کر فیصلہ کیا ہے، میرے  گھر والے  مجھے  ستانے  لگے، مجھ پر سختیاں کی گئیں، میرے  والد نے  مجھے  پانچ پانچ دن کمرہ میں بند رکھا، کمرہ میں بند رہ کر بھی میں نے  نماز نہیں چھوڑی میرے  دل میں خیال آیا کہ دنیا والے  غلط کام کر کے، چوری کر کے  جیلوں میں بند ہو جاتے  ہیں اور پولیس کی سختیاں سہتے  ہیں، میں اپنے  مالک کی بہت ہی سچی بات کے  لئے  اپنے  گھر میں بند ہوں میرے  گھر والے  ہی مجھے  مار رہے  ہیں یہ سوچ کر مجھے  اس پٹائی اور تکلیف میں عجیب مزہ آتا تھا۔

میں ایک روز موقع پا کر گھر سے  نکل گیا اور مرکز نظام الدین جا کر چلہ کی جماعت میں چلا گیا، واپس آ کر میں گاؤں میں مسلمانوں کے  گھر رہنے  لگا، پورے  علاقہ خاص طور پر گاؤں میں بہت ہنگامہ ہو گیا میرے  خاندان والے  مجھے  جان سے  مارنے  کی سوچنے  لگے، میں نے  عدالت میں اور پولیس میں جان کا خطرہ کے  لئے  درخواست دے دی، پولیس مجھے  پرتاپور تھانے  میں لے  گئی پولیس افسران نے  مجھے  ملازمت کا لالچ دیا کہ تمہیں داروغہ بنا دیں گے، میں نے  کہا دودن کا داروغہ بن کر پھر ہمیشہ کی دوزخ کی جیل اور سزا سے  مجھے  کون بچائے  گا، مجھے  شادی کا لالچ دیا، میرے  سامنے  اللہ کے  سامنے  کھڑے  ہونے  اور آخرت کے  گھر کی کامیابی تھی میرے  اللہ نے  مجھے  ثابت قدم رکھا۔

ایس پی سٹی نے  مجھ سے  پوچھا تم گاؤں کے  علاوہ کہیں دوسری جگہ بھی رہ سکتے  ہو؟ میں نے  کہا نظام الدین دہلی جا سکتا ہوں وہ مجھے  نظام الدین لے  گئے  مگر وہاں ان لوگوں نے  معذرت کر دی، پولیس والے  بہت غصہ ہوئے  مجھ سے  کہا اب ہم تمہارا کیا کریں، میں نے  کہا ایک گاؤں پھلت ہے  شاید وہ لوگ مجھے  وہاں رکھ لیں، دوپولیس والے  مجھے  پھلت لے  چلے، وہ لوگ بھی تھک گئے  تھے، بھوکے  بھی تھے، کھتولی نہر پر پہنچ کر وہ آپس میں کہنے  لگے  اس کو مار کر نہر میں ڈال دو اس نے  ہم کو ستا کر رکھ دیا میں نے  کہا اگر میرے  اللہ نے  میری زندگی لکھ دی ہے  تو ساری دنیا بھی مل کر مجھے  مار نہیں سکتی، کہنے  لگے  چالیس دن میں مسلمانوں نے  اس کو مولبی (مولوی) بنا دیا، دیر رات کو پھلت پہنچے، مدرسہ میں مولانا کلیم صاحب موجود نہیں تھے  پولیس والوں نے  مدرسہ والوں سے  کہا کہ اگر آپ لکھ کر دیں کہ آپ اس کی حفاظت کریں گے  تو ہم اس کو چھوڑ دیں ورنہ ہم اس کو مار کر نہر میں ڈال جائیں گے، اللہ تعالی جزائے  خیر دے  بھائی ا لیاس صاحب کو اور بھائی سخاوت کو انہوں نے  لکھ کر دے  دیا، اللہ کا شکر ہے  اب میں خوش خوش پھلت میں رہ رہا ہوں، ہمارے  ابو مولانا کلیم صاحب میرے  ماں باپ ہیں، وہ ماں باپ سے  بھی زیادہ مجھ سے  پیار کرتے  ہیں مجھے  گھر کی یاد بھی نہیں آتی۔

سوال  :اس کے  بعد آپ کا گھر والوں سے  کچھ رابطہ ہے ؟

جواب   : میرے  والد اور بہت سے  رشتہ دار آتے  رہتے  ہیں اور مجھے  اپنے  دھرم میں واپس جانے  کو کہتے  ہیں، پہلے  میں ان کو بہت سخت جوا ب دیتا تھا مگر حضرت مولانا کلیم صاحب نے  مجھے  بہت سمجھا یا کہ گھر والے  تمہارے  ماں باپ، رشتہ دار سب بڑے  ہیں انہوں نے  تمہاری پرورش کی ہے  ان کا بڑا حق ہے  ان کا بڑا ادب کرنا چاہیے  اور بہت خدمت اور پیار سے  ان کو دوزخ سے  بچانے  کی فکر کرنی چاہئے، میری سمجھ میں یہ بات آ گئی اب جب آتے  ہیں تو میں بہت ادب کرتا ہوں وہ ناشتہ بھی کرتے  ہیں، کھانا بھی کھاتے  ہیں میں ان کے  لئے  اپنے  اللہ سے  دعا بھی کرتا ہوں۔

سوال  :اس کے  علاوہ اور لوگوں میں بھی آپ کچھ دعوت کی فکر رکھتے  ہیں ؟

جواب   : اپنے  سبھی دوستوں اور رشتہ داروں میں، میں نے  دعوت کا کام شروع کیا ہے، اللہ کا شکر ہے، ان میں کئی لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے  ہیں اور مجھے  امید ہے  کہ اور بھی لوگوں کو میرے  اللہ ہدایت دیں گے۔

سوال  :ارمغان کے  قارئین مسلمان بھائیوں سے  آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟

جواب   : میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ساری دینا کے  انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی بہن ہیں اور اگر نا سمجھی میں نفرت اور ظلم کر رہے  ہیں تو ہم تو نبی کے  ماننے  والے  قرآن کے  ماننے  والے  ہیں ہم کو ان تک درد کے  ساتھ دعوت پہنچانی چاہئے، خصوصاً ہمارے  ملک میں ۳۳ کروڑ سے  زیادہ دلت کہلانے  والے  وہ لوگ آباد ہیں جن کو مذہب کے  ٹھیکے  داروں نے  اچھوت کہہ کر ذلیل کیا ہے  ان میں کام بہت آسان ہے  وہ لوگ  اندر سے  سے  ٹوٹے  ہوئے  ہیں اگر ہم اسلامی مساوات سے  ان کے  دلوں کو جیت سکیں تو یہ ان پر اور اپنے  ملک پر احسان ہو گا۔

سوال  :بہت بہت شکریہ، جزاکم اللہ

جواب   :  آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے  مجھے  عزت بخشی۔

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 جناب شیخ محمد عثمان {ستیش چندر گوئل} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ ا للہ و برکاتہٗ

محمد عثمان   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  سیٹھ عثمان صاحب آپ دہلی کب تشریف لائے ؟

جواب   : مولانا احمد صاحب ! آج ہی صبح آیا تھا اور رات میں واپس جانا ہے، مولانا صاحب سے  ملنے  کو دل کر رہا تھا میں نے  فون کیا معلوم ہوا کہ دہلی میں ہیں، مولانا نے  بتایا کہ مجھے  بھی آپ سے  ضروری کام ہے، مجھے  پرانی دہلی سے  کچھ مال خریدنا ہے، صدر اور چاندنی چوک میں کچھ کام ہو گیا ہے، کچھ شام کو ہونا ہے، میں نے  خیال کیا کہ دوپہر میں حضرت سے  مل آؤں، حضرت نے  بتایا کہ احمد آپ سے  ارمغان کے  لئے  ایک انٹر ویو لیں گے۔

سوال  :آپ کی ابی سے  ملاقات ہو گئی ؟

جواب   : جی الحمدللہ ہو گئی، اصل میں میں پیر اور شیخ کی حیثیت چارجر کی سی ہوتی ہے، حضرت سے  مل کر ایمان کی بیٹری، یعنی اندر دل کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے، حدیث میں بھی نیک صحبت کی اتنی فضلیت آئی ہے، یہ ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ہی تو تھی کہ صحابہ، صحابہ بنے۔

سوال  :آپ نے  بالکل سچ فرمایا، آپ نے  خود ہی بتایا کہ ابی نے  آپ سے  فرمایا ہے  کہ احمد کو ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے، اسی کے  لئے  آپ کو تکلیف دے  رہا ہوں ؟

جواب   :کیسی بات کر رہے  ہیں، تکلیف کیسی یہ تو میری خوش قسمتی ہے  کہ کسی دینی دعوتی کام میں مجھ گندے  کا نام آ جائے (روتے  ہوئے ) ورنہ کہاں میں بت پرست اور کہاں ایمان کی مبارک دولت۔

سوال  :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے۔

جواب  :  مغربی یوپی کے  مشہور ضلع بلند شہر میں، جو راجا برن کی راجدھانی تھی وہاں میری پیدائش ایک تاجر لالہ خاندان میں ہوئی، میرے  والد کی ایک کرانہ کی بڑی دکان تھی، میرا نام انہوں نے  ستیش چندر گوئل رکھا، میرا ایک چھوٹا بھائی ہے، میرے  والد کے  انتقال کے  بعد میں نے  کاروبار سنبھالا، بھائی کو ایک تھوک تجارت کا کاروبار کرایا، اللہ نے  خوب کاروبار میں ترقی دی اور والد صاحب کے  کاروبار کو ہم نے  الحمدللہ بہت بڑھایا، انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی پھر والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور آگے  تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور کاروبار سنبھالنا پڑا، میری شادی مظفر نگر کے  ایک بڑے  تاجر گھرانے  میں ہوئی بیوی بہت شریف خاتون ہیں، وہ پوسٹ گریجویٹ ہیں، ہمارے  دو بیٹے  اور ایک بیٹی تین بچے  اللہ نے  دیئے  ہیں، والدہ میرے  ساتھ رہتی ہیں۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب  : ہمارا خاندان ایک مذہبی ہندو گھرانہ تھا، مذہبی کاموں میں ہم نے  اپنے  والد کو بہت خرچ کرتے  ہوئے  دیکھا ہے  خصوصاً دان اور بھنڈارے  میں تو بہت ہی خوشی سے  خرچ کرتے  تھے  اور ہم نے  اس خرچ سے  کاروبار بڑھتے  دیکھا تو مجھے  بھی مذہبی کاموں میں خرچ کا بہت شو ق ہوا، اس لئے  ہندو مذہب کے  علاوہ دوسرے  مذہبی کاموں میں بھی خرچ کرتا، کہیں مسجد بنتی یہ سوچتا کہ ہے  تو یہ بھی مالک کا گھر، میں ضرور مسلمانوں کے  نہ چاہتے  ہوئے  پیسے  دیتا، ہمارے  یہاں تبلیغی اجتماع ہوتا میں ذمہ داروں کو تلاش کر کے  خوشامد کر کے  پیسے  دے  کر آتا، شاید اللہ کو میرا یہ کام پسند آ گیا اور میرے  لئے  ہدایت کا فیصلہ ہو گیا۔

سوال  : ظاہر ہے  کہ ہدایت کا فیصلہ تو اللہ کے  یہاں ہوتا ہے، مگر ذریعہ کیا ہوا اور کس طرح آپ مسلمان ہوئے، ذرا بتایئے ؟

جواب   : ہمارے  والد نے  ایک مارکیٹ بنائی تھی اور وہ مارکیٹ مسلمانوں کے  محلے  کے  قریب تھی، دس دکانوں میں سے  چھ دکانیں مسلمانوں نے  کرایہ پر لی تھیں، میرا کاروبار بڑھا، مجھے  ایک گودام کی ضرورت تھی، خیال ہوا کہ اس مارکیٹ کو خالی کرایا جائے  اور نئے  سرے  سے  نقشہ بنوا کر گودام تعمیر کرایا جائے، ایک بینک نے  ہم سے  وہ جگہ کرایہ پر لے  کر خود تعمیر کرانے  کی خواہش ظاہر کی، زبانی معاملہ طئے  ہو گیا، کرایہ داروں سے  پگڑی لے  کر دکان خالی کرنے  کے  لئے  کہا گیا، آدھے  کرایہ دار راضی ہو گئے  جو راضی نہ ہوئے  ان کو خالی کرانے  کا نوٹس جاری کر دیا گیا، تعمیر چونکہ نئی تھی اس لئے  عدالت سے  امید تھی  ہمارے  ایک کرایہ دار سعید احمد چائے  کی دکان کرتے  تھے  اور ایک کرایہ دار نے  جنرل اسٹور کر رکھا تھا ان کا نام محمد عرفان تھا، قدرت کا فیصلہ کہ ان کا اسٹور پہلے  بہت اچھا چلتا تھا مگر اب کاروبار بالکل ٹھنڈا تھا، مقدمہ کی شروعات ہوئی، سعید احمد محلہ کی مسجد کے  امام صاحب مولانا معین الدین کے  پاس دعا کے  لئے  گئے، مولانا صاحب حضرت مولانا کلیم صاحب کے  مرید ہیں، سعید نے  اپنی پریشانی بتا کر دعا کے  لئے  کہا، مولانا نے  ان سے  معلوم کیا کہ کرایہ داری میں وقت کتنا طئے  ہوا تھا، انہوں نے  کہا کہ معاملہ گیارہ مہینے  کا ہوا تھا پھر ہر سال تازہ ہوتا رہتا ہے  اب تین سال سے  کرایہ  نامہ پر تجدید بھی نہیں ہے، مولانا صاحب نے  معلوم کیا کہ زبانی بھی کوئی معاملہ طئے  نہیں ہوا ؟انہوں نے  کہا کہ نہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ لالہ جی دکان کے  مالک ہیں اور آپ ان کی دکان دبانا چاہتے  ہیں، میں تو لالہ جی کے  حق میں دعا کروں گا، تم تو غاصب ہو تمہارے  حق میں دعا کیسے  کر سکتا ہوں ؟ سعید صاحب بے  چارے  مایوس ہو کر واپس آ گئے۔

محمد عرفان انہیں کے  مقتدی ہیں انہوں نے  مولانا سے  مشورہ کیا کہ لالہ جی نے  پہلے  زبانی دکان خالی کرنے  کے  لئے  کہا اور اب نوٹس بھیجا ہے، دکان یوں بھی بالکل ٹھپ ہے، کیا کیا جائے  ؟ مولانا نے  ان سے  بھی معاملہ اور معاہدے  کی تفصیلات معلوم کیں، مولانا نے  ان سے  بہت سختی سے  کہا کہ وہ دکان فوراً خالی کر دیجئے، اگر یہاں کی عدالت میں آپ کے  حق میں فیصلہ ہو بھی گیا تو آخرت کی عدالت میں آپ بہت برے  پھنسیں گے، نہ جانے  ہم کیسے  مسلمان ہوتے  ہیں کہ نماز میں تو مسلمان ہوتے  ہیں اور کاروبار میں ہم مسلمان نہیں رہتے، واقعی ہمارے  حضرت سچ کہتے  ہیں، ایک جملہ میں تقریر کر رہے  تھے  : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہٗ‘ یہ فرمان ہمارے  پیارے  نبی ﷺ جمعہ کے  ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے  تھے  اور جب معاہدہ گیارہ مہینہ کا ہوا ہے  تو پھر ایک دن بھی بغیر لالہ کی اجازت کے  دکان پر رہنا غاصبانہ قبضہ، جرم سراسر بے  ایمانی ہے، میری رائے  ہے  کہ آپ فوراً دکان خالی کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کے  کاروبار کو اور اچھا چلائیں گے۔

محمد عرفان یوں بھی اسٹور چھوڑنے  کو تھے، مولانا صاحب کی بات سے  ان پر بہت اثر ہوا اور اگلے  روز دکان سے  سامان اٹھانے  لگے، میں ڈر گیا ہمارے  یہاں ایک مشہور بدمعاش تھا، لوگ زمینوں اور مکانوں کے  معاملہ میں اس سے  فائدہ اٹھاتے  تھے، خالی کرنے  کے  بجائے  اس کو قبضہ دے  دیتے  تھے، اس سے  کسی کو کہنے  کی ہمت نہ ہوتی، مجھے  ڈر لگا کہ شاید عرفان نے  اس کو قبضہ دینے  کی بات کر لی ہے، مگر ایساکچھ نہ ہوا دوسرے  روز شام کو محمد عرفان میرے  گھر آئے  اور بڑے  اخلاق سے  ملے  اور بولے  لالہ جی بہت بہت شکریہ کہ آپ نے  اتنے  دنوں تک ہمیں کرایہ پر دکان دی، اب میں نے  آپ کے  حکم سے  دکان خالی کر دی، خالی کرنے  میں جو تاخیر ہوئی اس کے  لئے  مجھے  آپ معاف کر دیں۔

میں نے  کہا کہ ایک لاکھ روپئے  پگڑی کے  آپ کو لادوں، عرفان بولا نہیں لالہ جی کیسی بات کرتے  ہو، پگڑی کیسی دکان آپ کی تھی آپ کے  حوالہ، میں ادھر ادھر دیکھنے  لگا کہ کوئی بدمعاش تو نہیں آ رہا ہے، تھوڑی دیر تک تو مجھے  چابی لینے  کی ہمت نہیں ہوئی، میں نے  معلوم کیا کہ خیریت تو ہے  عرفان بولا جی لالہ جی بالکل خیریت ہیں میں نے  کہا اتنی جلدی کو ئی دکان خالی کہاں کرتا ہے، مجھے  تو یقین نہیں آ رہا ہے، عرفان بولا کہ غلطی ہماری ہے  کہ ہم نے  اسلام کو اپنے  معاملہ اور اپنے  لین دین سے  نکال دیا، اس لئے  آپ کو اسلامی معاملہ ہوتے  دیکھ کر یقین نہیں آ رہا ہے، میں نے  پھر کہا کہ پہلے  تو آپ نے  دکان خالی کرنے  کے  لئے  منع کر دیا تھا، عرفان نے  بتایا کہ میری غلطی تھی، میں مسجد کے  امام صاحب کے  پاس گیا انھوں نے  مجھے  بہت دھمکایا اور اسلامی ضابطہ بتایا اور سمجھایا کہ مرنے  کے  بعد اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں بہت برے  پھنسو گے  اور مولانا صاحب نے  جو انہیں کہا وہ سب مجھے  بتایا، میں نے  کہا کہ آپ مولانا صاحب سے  مجھے  ملا دیں گے ؟ انھوں نے  کہا کہ ابھی چلئے  کہ میں نے  اسکوٹر اسٹارٹ کیا، عرفان کے  ساتھ مسجد میں پہنچا، مولانا کتاب پڑھ رہے  تھے، مسجد کے  کمرے  میں ان سے  ملاقات ہوئی، میں نے  امام صاحب سے  کہا کہ مولانا آپ نے  عرفان کو دکان خالی کر نے   کے  لئے  کیسے  کہا، مولانا نے  کہا کہ ہمارے  دین اور ہمارے  قرآن نے  ہمیں یہ قانون بتایا ہے، میں نے  حیرت سے  یہ سوال کیا کہ مولانا آپ کے  دھرم میں کرایہ دار ی کا قانون بھی ہے، امام صاحب نے  کہا ہمارے  نبی ﷺ نے  ہمیں کھاناکس طرح کھانا ہے، کھانا کھا کر انگلیاں چاٹنی ہے  تو اس میں کیا ترتیب ہو گی، نا خن کاٹنے  ہیں تو کس طرح یعنی کون سا ناخن سب سے  پہلے  کون سا اس کے  بعد یہ تک بتایا ہے، میں نے  کہا پھر یہ قانون تو صرف مسلمانوں کے  لئے  ہے  یا ہم بھی اسے  جان سکتے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا یہی تو ہمارا سب سے  بڑا جرم ہے  کہ ہم نے  آپ تک نہیں پہنچایا، اسلام کا قانون اور قرآن صرف مسلمانوں کے  لئے  نہیں بلکہ اس کا ماننا ہرا نسان کے  لئے  ضروری ہے  اور ہمارے  ذمہ ہمارے  اللہ  نے  اسے  سب تک پہنچا نا رکھا تھا، ہم نے  غفلت کی اور اس جرم میں ساری دنیا کے  مسلمان ذلیل ہو رہے  ہیں، میں نے  کہا کہ تو پھر آپ نے  ہمیں کیوں نہیں پہنچایا، مولانا نے  کہا کہ یہی تو غلطی ہے  اب آپ تشریف رکھئے  کہ میں آپ کو بتانا چاہوں، میں بیٹھ گیا سردیوں کی رات تھی مولانا نے  چائے  منگوائی اور بات شروع کی چلتے  وقت کتابیں بھی دیں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ میں روزانہ آپ کے  پاس دس پندرہ منٹ کے  لئے  آ سکتا ہوں، مولانا نے  کہا کہ شوق سے۔

میں پابندی سے  مولانا صاحب کے  یہاں جاتا رہا وہاں سے  اٹھنے  کو دل نہ کرتا، بس ان کے  آرام کے  خیال سے  اٹھ کر آ جاتا، پانچویں روز میں نے  مولانا صاحب سے  مسلمان ہونے  کی درخواست ظاہر کی، ۱۱/ جنوری ۱۹۹۲  ء کو عشاء کے  بعد مولانا نے  مجھ کو کلمہ پڑھایا، وہ روزانہ اپنے  حضرت مولانا کلیم صاحب کا ذکر کرتے، ہم نے  اسی روز حضرت سے  ملنے  کا پروگرام بنایا اتوار کے  روز پھلت پہنچے، مولانا صاحب ہم سے  مل کر بہت خوش ہوئے، میرا نام اسی روز محمد عثمان رکھا اور مولانا نے  بتایا کہ حضرت عثمان ہمارے  نبیﷺ کے  بہت پیارے  ساتھی تھے  بڑے  تاجر تھے  اور دان بہت کرتے  تھے  اس لئے  میں آپ کا نام محمد عثمان رکھتا ہوں، مولانا نے  مجھے  ماں اور بچوں پر کام کرنے  کو کہا اور بہت تاکید کی کہ گھر والوں کے  ساتھ آپ کا رویہ تبدیل ہونا چاہیے  اب آپ ان کا بہت خیال کیجئے  ان پر خوب خرچ کیجئے  گھر والوں پر خرچ کرنے  میں، میں ذرا محتاط تھا، مولانا نے  کہا، وقت بھی زیادہ دیجئے  اور محبت کا اظہار چاہے  تکلف سے  زبردستی کرنا پڑے، آپ کیجئے  اور محبت کے  ساتھ ان سے  مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنے  کی فکر کے  لئے  کہئے، ایک دفعہ گھر والوں کو بٹھا کر ذرا درد کے  ساتھ آپ کی امانت ان کو پڑھ کر سنائیے  بلکہ ایسا کیجئے  کہ ایک روز گھر میں گھر والوں کی پسند کی کچھ چیزیں کھانے  کی لایئے، مزے  سے  ساتھ کھایئے  اور پھر آپ کی امانت سنایئے، پہلے  ان کو آمادہ کر لیجئے  جب وہ خود کہیں کہ سنائیے  تو پڑھئے، پھر مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟ تھوڑی تھوڑی پڑھئے۔

سوال  :   تو آپ نے  پھر کام کس طرح کیا؟

جواب   : میں گھر آیا، سب گھر والوں کے  گرم کپڑے  نئے  تین تین، چار چار خریدے، ماں اور بیوی کی کئی کئی شالیں لیں، جوتے  اور موزے  اچھے  خریدے، روزانہ گھر میں کچھ لے  کر آنے  لگا، گھر والے  حیرت کرتے  ایک روز بیوی کے  بہت معلوم کرنے  پر میں نے   بتایا کہ میں نے  اسلام قبول کر لیا ہے  اور اسلام کے  پیغمبر ﷺ نے  فرمایا کہ تم میں سب سے  بہتر وہ ہے  جو اپنے  گھر والوں کے  ساتھ بہتر ہو اور جو مال حلال کمائی سے  اپنے  بال بچوں پر خرچ ہو، وہ اللہ کو سب سے  زیادہ پسند ہے، بیوی کو اسلام سے  دلچسپی بڑھی، ایک روز میں نے  گھر والوں سے  کہا کہ آج کھانا گھر  نہیں پکے  گا میں لے کر آؤںگا، میں ایک اچھے  ریسٹورینٹ سے  بہت سارے  کھانے  لے  کر آیا، مزے  لے  کر گھر والوں نے  کھایا پھر میں نے  ان سے  کہا کہ انسانیت کے  بہت سچے  پریمی ( محبت کرنے  والے ) کی ایک بھینٹ میں لے  کر آیا ہوں، دیکھو نام بھی کتنا پیارا ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘ ‘آج ہم یہ سنیں گے، اسے  کون پڑھے  گا ؟ میری بیوی نے  کہا میں پڑھوں گی، میں نے  کہا کہ آپ پڑھئے، پڑھتے  پڑھتے  وہ رونے  لگی، وہ پڑھ نہ سکی تو میں نے  کتاب لی اور پڑھنا شروع کیا، پوری کتاب میں نے  پڑھی، میری ماں بھی کئی بار روئی، میں نے  ماں سے  کہا :ماں !کیا ارادہ ہے ؟اب نرک میں جلنے  کا، یا بچنے  کا؟ ماں نے  کہا کہ ایک تنکا تو ہاتھ پر رکھ نہیں سکتے، نرک میں کیسے  جلیں گے ؟ کتاب میں بالکل سچ لکھا ہے، میں نے  کلمہ پڑھنے  کی درخواست کی، اللہ کا کرنا وہ تیار ہو گئیں، پھر کیا تھا میری بیوی اور میرے  تین بچے  جو چھوٹے  تھے، سب نے  مل کر  میرے  کلمہ پڑھنے  کے  گیارہویں روز کلمہ پڑھ لیا، میں ان کو لے  کر اگلے  پیر کو پھلت پہنچا، مولانا صاحب نے  میری والدہ کا نام آمنہ اور میری اہلیہ کا زینب، دونوں بیٹوں کا محمد حسن اور حسین اور بیٹی کا نام فاطمہ رکھا، مولانا بہت خوش ہوئے  ہمارے  امام صاحب کو اور مجھے  بار بار دعا دیتے  رہے۔

سوال  :  آپ نے  اپنے  خاندان والوں میں فوراً اعلان کر دیا ؟

جواب   :  مولانا نے  سختی سے  اعلان کرنے  سے  منع کر دیا تھا، کیونکہ ہمارے  گھر میں سب ساتھ تھے، اس لئے  ابتدا میں کچھ مشکل نہ ہوئی، سن  ۱۹۹۲ء کے  حالات تو آپ جانتے  ہیں، آخری درجہ میں آگ لگی ہوئی تھی، بابری مسجد کی شہادت کو ابھی ایک مہینہ ہوا تھا، ایک سال کے  بعد رفتہ رفتہ لوگوں میں بات کھل گئی، خاندان والوں نے  بہت مخالفت کی، ہندو تنظیموں نے  بہت دھمکیاں دیں، بہت مرتبہ زیادتیاں کیں، سسرالی لوگ میری بیوی اور بچوں کو اٹھا کر لے  گئے  ان پر بھی بہت سختیاں کیں، میں نے  جماعت میں جا کر اور پھر گھر میں حیاۃ الصحابہ ؓ اور حکایت الصحابہؓ پڑھنی شروع کر رکھی تھی، میری بیوی، بچوں کو سناتی تھیں اللہ کا شکر ہے  کہ ان سختیوں سے  ہم سبھی کو فائدہ ہوا۔

سوال  : کچھ خاص واقعات کی تفصیل سنائیے، ابی بتا رہے  تھے  کہ آپ پر بڑ ے  حالات آئے ؟

جواب   : اصل میں احمد بھائی! میرا تجربہ ہے  کہ جب میں ان حالات کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے  ایسا لگتا ہے  آپ اپنی پونجی کم کر رہا ہوں، دل کو ان کا ذکر اچھا نہیں لگتا، آدمی کے  زندگی بھر کیڑے  پڑیں، اس کی کھال اتاری جائے  اور اس کے  جسم کی بوٹی بوٹی کر کے  بھی، اس زمانے  میں جب ایمان جانے  کا زمانہ ہے  اللہ تعالیٰ کسی خوش قسمت کو ایمان عطا فرما دیں تو بھی کتنا انعام ہے  اور سودا کتنا سستا ہے، پھر میرے  ساتھ تو بہت کم ہوا، میرے  اللہ نے  مجھے  اتنے  سستے  داموں بلکہ مفت میں ایمان دے  دیا، پھر میں چند سالوں کی مشکلوں کا ذکر کروں تو ایسا لگتا ہے  کہ یہ کریم آقا کی غیروں کے  سامنے  شکایت کرنا ہے، جبکہ یہ بات بھی ہے  کہ خاندان والوں اور ناسمجھوں کی طرف سے  ہر مشکل اور تکلیف سے  میں نے  اور گھر والوں نے  اپنے  ایمان کو بڑھتا دیکھا، مجھے  ہر تکلیف اور مشکل کے  وقت صاف محسوس ہوتا کہ میرے  پیارے  اللہ میاں، بڑی محبت سے  مجھے  قربانی دیتے  دیکھ رہے  ہیں اور اس احساس میں احمد بھائی مجھے  تکلیف کے  بجائے  ہمیشہ مزہ آتا تھا۔

سوال  :  بعد میں آپ نے  ہجرت بھی کر لی تھی ؟

جواب   :  حضرت کے  مشورہ کی وجہ سے  میں نے  غازی آباد میں سکونت اختیار کر لی تھی مگر بعد میں حالات اچھے  ہو گئے  اور کچھ دعوتی مصلحتوں کی وجہ سے  واپس آ گیا ہوں۔

سوال  :  کیا محمد عرفان کو آپ نے  وہ دکان، دوبارہ واپس کرایہ پر دے  دی تھی ؟

جواب   :  مجھے  یہ خیال ہوا کہ یہ کرایہ دار اور یہ مارکیٹ میرے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بن گئی ہے، اس لئے  میں نے  نئی تعمیر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور محمد عرفان کو دکان کی چا بی واپس کی اور کہا کہ میری زندگی بھر کے  لئے  دکان آپ کے  پاس رہے  گی اور ایک لاکھ روپے  قرض حسنہ کے  طور پر کاروبار کے  لئے  دیئے، الحمد للہ ان کا کاروبار چل گیا اور اللہ کا کرنا سعید صاحب کے  خلاف عدالت نے  دکان خالی کرنے  کا حکم جاری کر دیا، وہ مولانا معین  الدین صاحب کے  بہت معتقد ہو گئے  ہیں کہ مولانا لالہ جی کے  حق میں دعا کے  لئے  کہا تھا، اللہ نے  لالہ جی کے  حق میں فیصلہ کروا دیا، بار بار مولانا صاحب سے  معذرت کرتے  اور مجھ سے  بھی معافی مانگتے  ہیں کہ ہم نے  اللہ کے  قانون کو نہیں مانا اب آپ کو مقدمہ میں خرچ کرنا پڑا وہ آپ ہم سے  لے  لیجئے، میں نے  ان کو بھی دکان واپس دے  دی ہے۔الحمد للہ

سوال  :  میں نے  سنا ہے  کہ آپ نے  بعد میں اور لوگوں پر بھی دعوت کا کام کیا ہے  ؟

جواب   : بس اللہ نے  مجھے  اپنے  ہدایت یاب ہونے  والے  بندوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا لیا، ورنہ میں کہاں اور دعوت کا عظیم کام کہاں، اصل میں، میں نے  ایک بھٹہ لگایا تھا، بھٹہ میں آگ چھوڑنے  کے  لئے  یعنی افتتاح کے  لئے  میں نے  حضرت سے  درخواست کی، مولانا صاحب نے  علی گڑھ کے  ایک سفر میں وعدہ فرما لیا، پھر مجھے  ان مزدوروں پر کام کے  لئے  کہا اور کہا کہ بھٹہ میں دہکتی آگ سے  آپ دوزخ کو اچھی طرح سمجھا سکتے  ہیں، الحمد للہ آٹھ سالوں میں ایک سو سے  زیادہ مزدور مسلمان ہو گئے  ہیں اور الحمد للہ میں نے  ۸۶ لوگوں کے  چلے  بھی لگوا دئے  ہیں اس کے  علاوہ بھی ادھر ادھر اللہ نے  مجھ گندے  کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

سوال   : خیر کے  کاموں میں خرچ کا بھی آپ کو بہت شوق ہے  ؟

جواب  : اصل میں سچ بات تو یہ ہے  کہ ہم چوکیدار ہیں مال ہمارے  پاس امانت ہے  جس کے  پاس زیادہ مال ہو وہ زیادہ خطرے  میں ہے، اللہ کے  یہاں حساب دینا ہے  جو مال ہم خرچ کر دیں وہ ہمارے  پاس امانت کے  بجائے  ملکیت ہو جاتا ہے  تو پھر کیسی بے  وقوفی ہے  کہ امانت کو ہم اپنے  آخرت کے  اکاونٹ میں جمع نہ کرائیں جب کہ یہ تجربہ ہے  کہ خرچ سے  مال اور کاروبار بڑھتا ہے  الحمد للہ میں حضرت سے  بیعت ہوں تو ہم نے  اپنے  کو سازو سامان کے  ساتھ حضرت کو سونپا ہے  دو سال پہلے  حضرت نے  ایک مدرسہ بھی میرے  ذمہ کر دیا ہے  الحمد للہ بہت کام بڑھ گیا ہے  اللہ پورا کرا رہے  ہیں۔

سوال   :  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے  ؟

جواب  :  ہمیں اسلام کی امانت کو پہنچا نے  کے  لئے  نکالا گیا ہے  اسلام کی ہر بات میں انسانوں کے  لئے  کشش ہے  ہم کچھ نہ کچھ تو اسلامی معاشرت، اسلامی اخلاق بلکہ اسلامی عبادات کو لوگوں کے  سامنے  دعوت کی نسبت سے  ظاہر کریں اب آپ دیکھئے  کہ غلط روش اور ہندوستانی طرز سے  ہٹ کر محمد عرفان نے  ذرا اسلامی حکم کو مانا تو یہ کام نہ صرف یہ کہ میں اور میرے  ساتھ کتنے  لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا بلکہ خود ان کو دنیاوی لحاظ سے  نقصان کے  بجائے  کتنا نفع ہوا۔

سوال   : بہت بہت شکریہ سیٹھ محمد عثمان صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ کہ مجھے  ارمغان کے  قافلہ میں شامل کر لیا۔

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

بھائی علاء الدین {راجیشور} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ         :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

بھائی علاء الدین  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :بھائی علاء الدین صاحب آج آپ کہاں سے  آئے  ہیں ؟

جواب  :نندی گرام سے  آیا ہوں، حضرت سے  ملنے  کو بیتاب ہو رہا تھا، کتنے  دنوں سے  تو ہم بھی بڑے  ہنگامہ میں پھنسے  ہوئے  تھے، اللہ تعالی نے  رحم کیا، ہمارے  حضرت کی دعا کی برکت سے  امن ہوا۔

سوال  : آپ دو سال پہلے  پھلت آئے  تھے  تو ابی نے  کہا تھا کہ ارمغان کیلئے  آپ سے  انٹرویو لوں، مگر کھتولی کسی ضروری کام سے  چلا گیا تھا جب میں واپس آیا تو آپ جا چکے  تھے ؟

جواب  :ہاں بھائی احمد مولانا صاحب، حضرت نے  مجھ سے  فرمایا تھا اور میں انتظار کر رہا تھا، مگر پھر مولانا صاحب کا فون آ گیا، حضرت نے  فرمایا پھر کبھی آؤ گے  تو اس وقت انٹر ویو دینا۔

سوال  :   ہر کام کے  لئے  اللہ نے  وقت طئے  کر رکھا ہے، بس آج ہی کا وقت اللہ نے  لکھا تھا، دیر آید درست آید۔اب آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب  :اللہ آپ کا بھلا کرے، مولانا احمد صاحب، میں ہریانہ میں پانی پت ضلع کے  ایک گاؤں کے  دھینور کا بیٹا ہوں، میرا نام میرے  پتاجی(والد صاحب)نے  راجیشور رکھا تھا، دو تین کلاس پڑھ کر میں پتاجی کے  ساتھ کھیت پر جانے  لگا، ہمارے  ایک کلّہ زمین تھی اسی میں سبزی بو کر ہمارے  والد صاحب گزارا کیا کرتے  تھے، میں اپنے  والد کا اکیلا بیٹا تھا، میری دو بہنیں تھیں، جو مجھ سے  بڑی تھیں۔

سوال  :آپ کو مسلمان ہونے  کا کیسے  خیال آیا اور آپ کس طرح مسلمان ہوئے، ذرا اس کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :احمد بھائی مجھے  اسلام قبول کرنے  کا کیا خیال آیا بس میرے  مالک کو رحم آ گیا اور اس نے  بغیر طلب کے  مجھے  بھی خاندانی مسلمانوں کی طرح اسلام عطا فرما دیا، اصل میں میری دو بڑی بہنیں تھیں، والد صاحب نے  ان کی شادی کی اور ان کی شادی کے  بعد میری شادی ہو گئی، ہریانہ میں شراب بہت عام ہے، دوستوں کے  ساتھ مجھے  شراب کی کچھ زیادہ ہی لت لگ گئی، جمنا کے  کنارے  کچی شراب ذرا سستی مل جاتی ہے، شادی کے  تین سال بعد میرے  والد صاحب کا انتقال ہو گیا، اگلے  سال ماں کا بھی انتقال ہو گیا، ماں باپ کے  انتقال کے  غم کو بھلانے  کے  لئے  میں نے  شراب اور زیادہ کر دی، شراب کے  نشہ میں دھت میں بالکل ناکارہ ہوتا گیا، میری بیوی بہت ہی بھلی اور محنتی عورت ہے، وہ بیچاری مجھے  کہاں کہاں سے  اٹھا کر لائی، بے  چاری فاقے  کرتی، ایک کے  ایک بچے  ہوتے  رہے، اللہ نے  آٹھ بچے، پانچ بیٹے  اور تین بیٹیاں مجھے  دیں، اس بیچاری کے  لئے  زچگی میں ایک پاؤ گھی یا کوئی چیز میں نہ لاسکا، زمین بھی رفتہ رفتہ میں نے  شراب میں بیچ دی، میری بیوی بیچاری بچوں کا پیٹ پالنے  کے  لئے  مزدوری کرتی، بعد میں اس نے  کچھ پیسے  جمع کر کے  گاؤں میں سبزی کی دوکان کھول لی، تقریباً تیس سال اس طرح گزر گئے، میری بیوی بیچاری میرے  بچوں کو بھی پالتی اور مجھے  بھی کبھی وہاں سے  اٹھا کر لاتی کبھی یہاں سے، میری شراب نے  اس کی زندگی کو دوزخ بنا رکھا تھا، میں شراب پی کر اس کو مارتا بھی تھا، ہمارے  گاؤں میں ایک حافظ صاحب مدرسہ چلاتے  تھے، ایک رات میری گھر والی مجھے  تالاب کے  کنارے  سے  شراب میں دھت اٹھا کر لائی، صبح کو وہ بے  چاری حافظ صاحب کے  پاس جا کر بہت روئی اور ان سے  کوئی تعویذ شراب چھڑانے  کا دینے  کو کہا، حافظ صاحب نے  کہا ہمارے  حضرت ہیں ہم تمھیں ان سے  ملوائیں گے  اور دعا کروائیں گے، وہ تعویذ تو دیتے  نہیں، دعا کرتے  ہیں، مالک کے  پیارے  بندے  ہیں وہ ان کی دعا سنتا ہے، ہمیں امید ہے  یہ شراب چھوڑ دے  گا، مگر پھر تم سب لوگوں کو مسلمان ہو نا پڑے گا، اس بیچاری نے  کہا اس کی شراب چھڑا دو تم ہمیں مسلمان چھوڑ اپنا بھنگی بنا لینا، حافظ صاحب نے  حضرت صاحب (مولانا محمد کلیم صدیقی )کو فون کیا اور پھلت اس عورت کو لے  کر آنے  کی اجازت چاہی، مولانا نے  اسے  لے  کر آنے  کی اجازت تو نہیں دی، لیکن فون پر حافظ صاحب کوپھلت بلایا، حافظ صاحب نے  میری گھر والی کی ساری پریشانی بتائی، مولانا صاحب نے  کہا، ایک انسان کی حیثیت سے  سب لوگوں کے  دکھ درد بانٹنا ہماری ذمہ داری ہے، مگر آپ کو یہ نہیں کہنا چاہئے  تھا کہ تمھیں مسلمان ہو نا پڑے  گا، اس کی پریشانی ختم ہو جائے  تو اسے  آخرت کی پریشانی سے  بچانے  کیلئے  دعوت دینا چاہئے، مولانا صاحب نے  کہا ہم دعا کریں گے، اللہ تعالی اس غریب کے  حال پر رحم فرمائے  اور مشورہ دیا ہمارے  ایک جاننے  والے  ڈاکٹر وی سی اگروال شنکر کلینک کے  نام سے  مظفر نگر میں کلینک چلاتے  ہیں، وہ شراب چھڑانے  کی دوا دیتے  ہیں، وہ میرے  پاس آئے  تھے  انھوں نے  مجھ سے  کہا، اگر کوئی دین کا نفع ہو تو میں دوا کے  پیسے  نہیں لوں گا، آپ ان سے  ملتے  چلے  جائیں، ان سے  میرا سلام کہیں اور میرا نام لے  کر دوا لے  آئیں، وہ کم پیسے  لیں گے، حافظ صاحب مظفر نگر گئے  ڈاکٹر صاحب مولانا کا نام سن کر بہت خوش ہوئے  اور پندرہ دن کی دوا دی اور بہت کوشش کے  باوجود دوا کے  پیسے  نہیں لئے  اور بولے  مولانا صاحب دین کا بڑا کام کر رہے  ہیں، کیا ہم ان کے  اتنے  کام بھی نہیں آ سکتے، حافظ صاحب نے  دوا لا کر میری بیوی کو دی اور بتایا کہ حضرت نے  دعا کرنے  کو کہا ہے  اور یہ دوا کھلانے  کو بھی کہا ہے، میری بیوی نے  چائے  دودھ میں وہ دوا دی، ۱۰/ روز میں میری شراب چھٹ گئی، یکم جنوری ۱۹۹۶ء کو حافظ صاحب مجھے  اور میری بیوی کو مولانا صاحب سے  ملوانے  سونی پت لے  کر گئے، وہاں ہر مہینے  کی پہلی تاریخ کو مولانا صاحب آتے  ہیں، بہت بھیڑ تھی بڑی مشکل سے  حضرت سے  الگ وقت لے  کر ہمیں ملوایا میری گھر والی حضرت کے  پاؤں پر گر گئی اور بولی حضرت جی آپ تو ہمارے  بھگوان ہیں، مولانا صاحب بہت پریشان ہوئے  اس کو اٹھوایا اور سمجھایاکہ بس بھگوان اور خدا تو وہ ہی ہے  جس نے  ہم سب کو پیدا کیا، اسی کا کرم ہے  کہ اس نے  آپ کو پریشانی سے  نکالا، مولانا صاحب نے  ہم سے  کہا، جس طرح شرابی کو نشہ میں اپنی خرابی اور برائی کا پتہ نہیں ہوتا، اسی طرح باپ دادوں سے  ملے  غلط راستوں میں بھی انسان کو اپنی برائی کا احساس نہیں ہوتا، شراب کی برائی سے  کروڑوں گنا برائی ہے  کہ اس اکیلے  مالک کے  علاوہ کسی کو بھگوان یا خدا سمجھنا یا کسی اور کی پوجا کرنا اور کسی کے  سامنے  اپنا ما تھا رکھنا، حافظ صاحب نے  کہا کہ یہ لوگ کلمہ پڑھنے  کے  لئے  آئے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ شراب اب تو چھٹ گئی، اب آپ کو ان کو شرابیوں کی سنگتی(صحبت) سے  بچانا ہے، اب اس کیلئے  کلمہ پڑھنے  کی ضرورت نہیں، حافظ صاحب نے  نا سمجھی میں کہہ دیا ہو گا کہ مسلمان ہونا پڑے  گا، البتہ اپنے  مالک کو راضی کرنے  اور مرنے  کے  بعد ہمیشہ کی نرک سے  بچنے  کے  لئے  اسلام لا کر مسلمان ہونا ضروری ہے  اور یہ فیصلہ انسان کو اندرسے  اپنی مرضی سے  کرنا چاہئے، وہ بولی، نہیں جی ہماری آتما کہتی ہے  کہ آپ کی بات سچی ہے، اب یہ اگر شراب نہ بھی چھوڑے، آپ ہمیں مسلمان بنا لو، حضرت صاحب نے  ہمیں کلمہ پڑھوایا، میرا نام علاء الدین رکھا، میری بیوی کا نام فاطمہ اور بیٹوں کا محمد علیم، محمد سلیم، محمد کلیم، محمد نعیم، محمد نسیم اور بیٹیوں کاشمیمہ، سارہ، ذکیہ، نام رکھ دئیے، میری بیوی کو مشورہ دیا کہ ان کو جماعت میں بھیج دو تو ان کو اللہ کا دھیان اور ڈر پیدا ہو جائے  گا پھر ان کو دوا دوبارہ پلانی نہیں پڑے  گی، اس نے  معلوم کیا کہ کتنا خرچہ ہو گا؟ مولانا صاحب نے  بتایا کہ خرچہ زیادہ نہیں ہو گا، ایک ہزار روپئے  کافی ہوں گے، میری بیوی نے  آٹھ سو روپئے  مولانا صاحب کو دئیے، اس کو آج ہی بھیج دو اور دو سو روپئے  کا اور انتظام کر دوں گی۔

سوال  :جماعت میں کہاں آپ کا وقت لگا؟

جواب  :پہلے  میں مولانا صاحب کے  ساتھ پھلت گیا، پھر میرٹھ جا کر کچہری میں سرٹیفکٹ بنوایا اور پھر مرکز نظام الدین سے  بہرائچ جماعت میں وقت لگایا، بہار کے  ایک مولانا صاحب امیر تھے، انھوں نے  مجھ پر بہت محنت کی اور ایک چلہ میں مجھے  پوری نماز یاد کرا دی، کھانے  سونے  کے  آداب اور جو چھ نمبر ہیں ان کو خوب اچھی طرح میں سنانے  لگا۔

سوال  :اس کے  بعد آپ نے  گاؤں میں جا کر کیا کیا، آپ کے  خاندان کے  لوگوں نے  مخالفت نہیں کی؟

جواب  :شروع شروع میں لوگ خوش تھے، روز یہاں پڑا ہے  وہاں پڑا ہے، اس سے  بچ گیا، مگر کچھ دنوں کے  بعد پریوار کنبہ والے  پریشان کرنے  لگے، حافظ صاحب کو ستانے  لگے، حضرت صاحب کے  مشورہ سے  ہم نے  گاؤں چھوڑ دیا ایک مدرسہ میں چو کی داری کی اور ایک پرچون کی دوکان کر لی، بچوں کو مدرسہ میں داخل کر دیا، میری بیوی نے  کچھ تو حافظ صاحب کی بیوی کے  پاس جا کر گاؤں میں نماز سیکھ لی تھی، اب یہاں اسے  پوری نماز یاد ہو گئی۔

سوال  :آپ کے  بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟

جواب  :بچے  الحمد للہ حافظ ہو گئے  ہیں، ایک بچہ مولویت میں پڑھ رہا ہے، تین ابھی اسکول ہی میں ہیں اور لڑکیاں تینوں مولویت کے  مدرسہ میں حضرت صاحب کے  مشورہ سے  داخل کرا دی ہیں، میرا دوسرا بیٹا سلیم درمیان میں پڑھائی سے  بھاگ گیا، شیطان نے  اسے  بہکا دیا، میری بیوی کو سب سے  زیادہ اس سے  محبت ہے، وہ محبت میں پاگل سی ہو رہی تھی، میں نے  کئی لوگوں سے  تعویذ بھی منگایا کاندھلہ سے  کسوری بھی لکھوا کرلایا مگر نہ آیا، کسی نے  میری بیوی کو بتا دیا کہ اس کوتو تمھارے  خاندان والوں نے  مار دیا بس اسکا حال اور بھی زیادہ خراب ہو گیا، پریشان ہو کر میں حضرت صاحب کے  یہاں پھلت گیا، حضرت صاحب نے  کہا یہ تعویذ تو پرانے  کمزور اور بیمار مسلمانوں کیلئے  ہوتے  ہیں، میرے  بھائی آپ نئے  اور تازہ ایمان والے  ہیں یہ سوچ کر میرے  اللہ ہر چیز پر قادر ہیں اور وہ میری دعا ضرور سنیں گے، دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر دعا کیجئے، کہا کہ آپ کو جماعت میں نہیں بتایا گیا تھا کہ صحابہ دو رکعت پڑھ کر اپنے  اللہ سے  ہر کام کرا لیتے  تھے  میں نے  پھلت جامع مسجد میں جا کر عشاء کے  بعد دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور خوب دعا مانگی یا اللہ صحابہ کے  رب آپ ہی تھے  اور ہم گندوں کے  بھی آپ ہی رب ہیں اور دینے  والے  کرنے  والے  آپ ہی ہیں، لینے  والا ہی تو بدلا ہے، دینے   والے  تو آپ اپنی شان کی طرح ہمیشہ سے  ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمارے  بچے  کو خیریت سے  بھیج دیجئے  خوب رو رو کر دعا مانگی، میں تو اللہ میاں آپ سے  اپنے  بچے  کو بلوا کر رہوں گا، کبھی سجدے  میں پڑتا کبھی بیٹھ کر دعا کرتا، میرے  اللہ کو مجھ پر ترس آ گیا وہ توسننے  والا ہے  کوئی مانگنے  والا تو ہو، صبح آٹھ بجے  مولانا صاحب نے  بتایا کہ علاء الدین مبارک ہو تمھارے  گھر سے  فون آیا ہے، تمھارا بچہ سلیم تمھارے  گھر آ گیا ہے، میں نے  خوشی میں اپنی جیب کے  سارے  پیسے، ایک نابینا پھلت میں آیا ہوا تھا اس کو صدقہ کر دئیے  اور کرایہ ادھار لے کر گھر پہنچا، الحمد للہ بچہ موجود تھا، اس کے  بعد اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا اور اس نے  اس سال محراب سنائی، پورے  قرآن مجید میں سات غلطیاں آئیں، احمد بھائی مولانا صاحب، بس یہ میرے  اللہ کا کرم ہے، کہاں میں کافر اور میرے  بچے  حافظ ہو گئے، اب دوسری بچی سارہ کو بھی اس سال حفظ شروع کرا دیا ہے۔

سوال  :اب آج کل آپ کہاں رہ رہے  ہیں ؟نندی گرام کا آپ ذکر کر رہے  تھے، وہاں کیوں رہ رہے  ہیں ؟

جواب  :حضرت صاحب نے  مجھے  کلکتہ کے  ایک ٹھیکیدار کے  ساتھ کام پر لگا دیا تھا پہلے  تومیں مزدوری کرتا تھا، بعد میں اس نے  مجھے  اسٹور کیپر بنا دیا، نو مسلم ہونے  کی وجہ سے  وہ میرا بہت خیال رکھتے  ہیں، نندی گرام میں ایک فیکٹر ی کا انھوں نے  ٹھیکہ لیا مجھے  بھی وہاں لے  گئے   اللہ کا کرنا وہاں پر فساد ہو گیا، پچھلے  دنوں اخبار، ریڈیو، ٹی وی پر روز وہاں کے  جھگڑے  کی خبر تھی،  کتنے  لوگ پولس کی گولی سے  مارے  گئے، میں بہت پریشان ہوا، ایک سال سے  میری بد قسمتی کہ میں حضرت صاحب کو کوئی فون بھی نہ کر سکا حالانکہ میں سچے  دل سے  ان کا مرید ہوں، جب وہاں حالات زیادہ خراب ہوئے  اور ہم بہت پریشان ہوئے  تو میری بیوی نے  حضرت صاحب سے  دعا کرنے  کو کہا، میں نے  بہت کوشش کی ایک ہفتہ کے  بعد فون ملا مولانا صاحب سفر پر تھے  مولانا صاحب نے  کہا دو رکعت پڑھ کر صحابہ کی طرح دعا کو کیوں بھول گئے ؟ میں نے  کہا اجی میری دعا میں کیا رکھا ہے، آپ دعا کیجئے، حضرت صاحب نے  فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا، دینے  والا وہ اکیلا ہے  کیا تمھاری دعا اس نے  سنی نہیں، میں نے  کہا اچھا آج ہی دعا کروں گا میں نے  عشا کے  بعد پھر مسجد میں خوب دعا کی میرے  اللہ نے  سن لی، ایک دم ایسا امن ہو گیا کہ جیسے  کسی نے  پانی ڈال دیا ہو، میں نے  اپنے  ساتھیوں سے  کہہ دیا تھا کہ آج رات کو دعا کروں گا اور انشاء اللہ کل سے  حالات ٹھیک ہو جائیں گے  میں صحابہ کی طرح اپنے  اللہ سے  منواؤں گا، مانگنے  والا تو بدلا ہے  دینے  والا تو وہی ہے  جو صحابہ کی سنتا تھا، اس دن سے  سارے  ساتھی میری بہت عزت کرنے  لگے، میں نے  کہا بھی کہ میں نے  حضرت صاحب کا حکم سمجھ کر دعا کی ہے  ورنہ اصل میں تو حضرت صاحب نے  دعا کی ہے، میرا تو دعا پر یقین بنانے  کے  لئے  مولانا صاحب نے  مجھے  حکم کیا ہے، مولانا صاحب سے  میں نے  فون پر بتایا کہ اللہ نے  امن کر دیا اور ساتھی میرے  بہت معتقد ہو رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا اگر کچھ غیر مسلم بھی ہوں تو فائدہ اٹھاؤ وہ تمھاری بات محبت سے  سنیں گے، ان کو دوزخ سے  بچا کر ایمان میں لانے  کی فکر کرو میں نے  بات کرنی شروع کی اللہ کا شکر ہے  کہ چار مزدور، ایک راج (معمار ) اور ایک پلمبر مسلمان ہو گے  ہیں۔

سوال   :نندی گرام میں تم نے  مستقل رہائش کر لی ہے ؟

جواب  :میں نے  الحمد للہ ایک پلاٹ خرید لیا ہے، کچھ پیسے  جمع بھی کر لئے  ہیں، اللہ کو منظور ہو گا اور میری قسمت میں وہاں کا دانہ پانی ہو گا تو اللہ گھر بھی بنوا دیں گے۔

سوال   :جماعت کا کام بھی وہاں کرتے  ہو یا نہیں ؟

جواب   :الحمد للہ تین دن تو مہینے  کے  میں ضرور لگاتا ہوں، چلہ تو ہر سال نہیں لگ پاتا روزانہ کی تعلیم اور مسجد کا گشت یہاں میں نے  شروع کر دیا ہے  اور لوگ جڑ رہے  ہیں۔

سوال  :ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ خاص بات، کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

جواب  :احمد بھائی مولانا صاحب، پوری دنیا ہدایت کی پیاسی ہے، مجھ گندے  کو دیکھیں، شراب جیسی نجس چیز ہی میری ہدایت کا ذریعہ بن گئی، ہمیں اپنے  نبی کا امتی ہونے  کا حق ادا کرنا چاہئے، ساری دنیا کے  انسان ہمارے  نبی  ﷺ کے  امتی ہیں، ان کو غیر سمجھ کر ہم نے  ان تک دین نہیں پہنچایا، یہ بہت بڑا ظلم ہے، مسلمان کو ظالم نہیں ہو نا چاہئے، ان تک ان کی امانت نہ پہنچانا بہت بڑا ظلم ہے  ہمیں اپنی سی کوشش لوگوں کو دوزخ سے  بچانے  کی ضرور کرنی چاہئے۔

سوال  :بہت بہت شکریہ علاء الدین بھائی، السلام علیکم

جواب  :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ، احمد بھائی مولانا صاحب۔

اللہ حافظ۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جنوری  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

   جناب محمد اکبر {جتیندر کمار} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکبر   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : بھائی محمد اکبر میرا نام احمد ہے، میں حضرت کا بیٹا ہوں ہمارے  یہاں سے  ایک ماہنامہ نکلتا ہے، یہ ارمغان کے  نام سے  ایک اردو میگزین ہے، اس میں اسلام قبول کرنے  والے  نئے  بھائیوں کے  قبول اسلام کی کہانیاں چھاپی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں میں اپنے  ان بھائیوں کی فکر پیدا ہو جو مسلمان نہیں ہوئے  اور جو چتاؤں کی آگ کے  راستے  سے  نرک کی طرف جا رہے  ہیں اور دوسرے  غیر ایمان والے  بھائیوں کے  لئے  بھی اسلام کی طرف آنے  کا ذریعہ بنے، مجھے  ابی نے  آپ کے  پاس بھیجا ہے  کہ میں آپ سے  انٹرویو لوں، کیا آپ اس وقت کچھ باتیں بتائیں گے ؟

جواب   :بھائی احمد صاحب ! آپ شاید مولانا صاحب ہیں، مجھے  معاف رکھئے، ایک تو میں اس لائق کہاں ابھی مجھے  مسلمان ہوئے  چند دن ہوئے  ہیں، مجھے  تو ابھی اس میں بھی شک ہے  کہ میں مسلمان ہو بھی گیا ہوں یا نہیں، دوسری بات یہ ہے  کہ اب میں نے  اپنے  آپ کو حضرت کو سونپ دیا ہے، دس دن پھلت رہنے  کے  بعد کل اللہ نے  کرم کیا کہ ملاقات ہوئی، ایک روز سرسری ملاقات ہوئی تھی، حضرت نے  مجھ سے  کہا تھا، آپ کو سب سے  پہلے  جماعت میں جانا ہے، اس کے  علاوہ کچھ سوچنا بھی نہیں، اب میں حضرت کا حکم مانوں گا، پہلے  جماعت میں جاؤں گا پھر کچھ اسلام بھی میرے  اندر آ جائے  گا، شاید کچھ ایمان بھی بن جائے، تب آنے  کے  بعد آپ مجھ سے  معلومات کر لیجئے۔

سوال   : نہیں نہیں !کبر بھائی! میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں، ابی نے  ہی مجھے  بھیجا ہے، میں آپ سے  جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ؟

جواب   : نہیں مولانا احمد بھائی مجھے  معاف کریں، میرے  حضرت مجھے  کہیں، تو میں آپ سے  کچھ کہہ سکتا ہوں۔

سوال   : اچھا میں فون پر بات کروا دوں ؟

جواب   : جی اچھا، حضرت سے  اجازت دلوا دو (فون کرتے  ہیں تو فون بند ملتا ہے ) اچھا مولانا وصی صاحب سے  بات کروا دوں ؟ آپ ان پر تو یقین کریں گے، ہاں وہ ہی تو حضرت سے  ملوانے  گئے  تھے، ٹھیک ہے  ان سے  بات کروا دیں، مولانا وصی صاحب کا فون مل جاتا ہے، مولانا صاحب آپ نے  مجھے  اکبر کا انٹرویو لینے  کے  لے  بھیجا تھا مگر یہ منع کر رہے  ہیں، آپ ذرا ان سے  بات کر لیجئے۔

جواب  :  جی مولانا صاحب، حضرت نے  ہمیں کہا تھا پہلے  جماعت میں جانا، اس سے  پہلے  کچھ سوچنا بھی نہیں، اب ہم حضرت کے  حکم کے  بغیر کیسے  کچھ کریں ؟

سوال   : حضرت سے  بات ہو گئی تھی، ان کو حضرت نے  ہی بھیجا ہے، آپ ان کو انٹرویو دے دیں، میں ذمہ دار ہوں۔

جواب   : جی اچھا۔

سوال   :  :مولانا دیکھئے  برا مت مانئے  گا، جب آدمی نے  اپنے  آپ کو کسی کے  سپرد کر دیا تو مکمل سپرد کرنا چاہئے، اس سے  اللہ اور اس کے  رسول کے  حکم کے  سامنے  ارپن کرنا(سپردکرنا) آئے  گا، اب آپ بتائیے  کیا معلوم کرنا چاہتے  ہیں ؟

سوال   : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب   : میرا نام جتندر کمار تھا، میں لکھنو کے  قریب یوپی کے  ہردوئی ضلع کے  ایک گاؤں میں ۲۲/ سال پہلے  پیدا ہوا، میرے  والد کسان تھے، ابتدائی تعلیم اسکول میں ہوئی، ہائی اسکول کیا، انٹر مکمل کرنے  سے  پہلے  تعلیم چھوڑ دی، میرے  بھائی بہن اور بڑا خاندان ہے۔

سوال   : اپنے  قبول اسلام کا واقعہ ذرا تفصیل سے  سنائیے ؟

جواب  : ہمارے  قصبہ اور علاقہ میں مسلمان ہیں مگر نام کے  اور بدعتی اکثر ہیں، لیکن کچھ مسجدوں میں تبلیغ کا کام ہوتا ہے، وہاں مسجد میں جب نماز ہوتی تو صبح اور رات کو امام صاحب زور زور سے  قرآن مجید پڑھتے  تھے، میں ایک روز مسجد کے  پاس سے  گزر رہا تھا تو مجھے  قرآن کی آواز آئی، آواز اتنی اچھی تھی کہ میں دروازے  کے  باہر  کھڑا ہو گیا، دیر تک سنتا رہا، صبح کو گھر سے  جب اپنے  گھر کی طرف جاتا تھا تو صبح کو امام صاحب لمبی نماز پڑھاتے، قرآن کی آواز میرے  دل کو بہت چھو تی تھی، کئی بار میری آنکھوں سے  آنسو بہتے  تھے، میرے  دل میں اندر سے  کوئی کہتا تھا کہ یہ کس قدر سچا کلام ہے، جو دل پر اتنا اثر کرتا ہے، بغیر سمجھے  اس کا جب اتنا اثر ہے  تو یہ مسلمان جب سمجھتے  ہوں گے  تو ان پرکیا حال ہوتا ہو گا، ہماری مسجد میں جماعت والے  گشت کرتے  تھے، میں نے  ایک حافظ صاحب کو گشت میں روکا اور کہا کہ حافظ صاحب جماعت کا کام تو بہت پرانا ہے، یہ تو حضرت محمد صاحب (ﷺ )کے  زمانے  سے  ہے، کیا حضرت محمد صاحب منھ دیکھ کر بلاتے  تھے  اور اسلام کی بات بتاتے  تھے  کہ مسلمان کو دیتے  ہوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کو یا وہاں یہودی ہوتے  ان کو نہ دیتے  ہوں، ہمارے  مسلمان ساتھی تو یہ کہتے  ہیں کہ اس وقت شروع میں تو کوئی مسلمان تھا ہی نہیں، تو حضرت محمد صاحب تو عیسائیوں اور یہودیوں کو ہی دعوت دیتے  ہوں گے۔آپ ہندوؤں کو کیوں مسجد کی طرف نہیں بلاتے  اور انھیں اسلام کے  بارے  میں کیوں نہیں بتاتے، میں روزانہ قرآن سنتا ہوں تو محبت میں پاگل سا ہو جاتا ہوں، بغیر جانے  اور سمجھے  جب اس میں اتنا اثر ہے  اور آنند (مزہ)آتا ہے  تو سمجھ کر مجھے  کتنا مزہ آئے  گا، وہ بولے  ابھی اصل میں مسلمان ہی بگڑے  ہوئے  ہیں، ہم پہلے  ان کو تو سنوار لیں، ہمارے  بڑوں کی طرف سے  اجازت نہیں ہے، ہاں ہندوستان کے  باہر جماعت والے   مسلمانوں کے  علاوہ سب کو بھی دعوت دیتے  ہیں، میں نے  ان سے  کہا کہ کام تو ہمارے  دیش نظام الدین سے  چل رہا ہے، مگر ہمارے  دیش کے  ہندو تو محروم اور باہر دیش کے  لوگ فائدہ اٹھائیں، اللہ کے  سامنے  جب  جاؤ  گے  تو کیا وہاں یہ سوال ہو گا کہ ہندوستان کے  بڑوں کا کہنا کیوں نہیں مانا، یا یہ سوال ہو گا کہ حضرت محمد ﷺ کی طرح سب کو دعوت کیوں نہیں دی۔

سوال   : آپ کو یہ بات کیسے  معلوم تھی کہ یہ کام حضرت محمد ﷺ نے  کیا اور ان کے  زمانے  میں کوئی مسلمان نہیں تھا اور یہ کام نظام الدین سے  شروع ہوا؟

جواب   : اصل میں ہمارے  گھر کے  پاس مسجد میں جماعت کا کام ہوتا ہے، ہمارے  پڑوس میں کئی لوگ جماعت سے  جڑے  ہوئے  ہیں، سب سے  زیادہ میرا اسکول کا ایک ساتھی ہے  صدام، وہ جماعت میں لگ گیا ہے  اس نے  داڑھی بھی رکھ لی ہے، اس سے  میری بہت پکی دوستی ہے، اس سے  میں ہر وقت اسلام اور جماعت کے  بارے  میں پوچھتا رہتا ہوں، جب اسے  کوئی بات نہ آتی  تو حافظ جی سے  ملواتا تھا۔

سوال  : کیا وہ آپ کے  سب سوالوں کا جواب دے دیتے  تھے ؟

جواب  : وہ سب سوالوں کا جواب نہیں دے  پاتے  تھے  بلکہ ان کے  جواب سے  میرے  دل میں اور سوال کھڑے  ہوتے  تھے، میں نے  ایک بار صدام کو گشت کرتے  ہوئے  پکڑ لیا، لکھنو سے  جماعت آئی ہو ئی تھی، امیر صاحب بھی گشت میں تھے، میں نے  ان سے  کہا آپ لوگ صورت دیکھ کر صرف مسلمانوں کو کیوں دعوت دیتے  ہو؟ یہ بات ہزاروں ہندو بھائیوں کو کیوں نہیں بتاتے  ہو، امیر صاحب نے  جواب میں کہا کہ ابھی مسلمان ہی بہت بگڑے  ہوئے  ہیں، پہلے  ہم ان کو سنوار دیں، میں نے  کہا کہ جب اللہ کے  سامنے  مرنے  کے  بعد کھڑا ہونا پڑے  گاتو ہم اللہ سے  کہہ دیں گے  :مالک !  یا تو آپ ہمیں اپنے  محبوب نبی کے  زمانے  میں پیدا کرتے، نہیں تو پھر آپ ہمارے  ساتھیوں کو پکڑیں، یہ صدام اور جماعت والے  ہمارے  ساتھ رہتے  ہیں، ہمارے  محلہ میں تبلیغ کا کام کرتے  ہیں مگر ہمیں نہیں بتاتے، ہماری کیا خطا؟جب آپ نے  ہمارے  لئے  بتانے  والوں کا انتظام نہیں کیا۔ ہمیں یقین ہے  یا تو آپ ہمیں اسلام کے  بارے  میں بتائیے، ورنہ اللہ ہمارے  بدلے  آپ کو پکڑیں گے، امیر صاحب مولانا صاحب تھے، انھوں نے  کہا، اس کے  لئے  ہمارے  دوسری جماعت والے  کام کر رہے  ہیں، آپ ایسا کریں موقع لگا کر پھلت چلے  جائیں، وہاں پر مولانا وصی صاحب اسی ضلع کے  رہنے  والے  ہیں، مدرسے  جا کر ان سے  مل لیں، وہ آپ کو مولانا کلیم صاحب سے  ملوا دیں گے، میں نے  ان سے  پتہ معلوم کیا اور اگلے  روز ماتا پتا سے  کہہ کر کہ ہم جماعت میں جا رہے  ہیں  چلا آیا۔

سوال   : کیا ان کو معلوم تھا کہ آپ مسلمان ہو نے  کے  لئے  جا رہے  ہیں ؟

جواب  :  نہیں ان کو معلوم نہیں ہے  کہ جماعت کیا ہو تی ہے، البتہ وہ سمجھتے  ہیں یہ کوئی بھلا کام ہے، یہ لوگ نماز کی طرف مسلمانوں کو بلاتے  ہیں۔

سوال   :  اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب : میں پھلت آیا، مولانا وصی صاحب سے  ملا، مولانا نے  مجھے ’’ آپ کی امانت‘‘ کتاب دی، وہ میں نے  چار دفعہ پڑھی اتفاق سے  حضرت مولانا کلیم صاحب، شام کو دیر میں باہر سے  آ گئے، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور قاری صاحب کو بلا کر سپرد کیا کہ ان کو نماز اور قاعدہ وغیرہ پڑھاؤ، میں نے  پڑھنا شروع کیا، الحمد للہ ۱۵/ دن میں قاعدہ پڑھ لیا، نماز یا د کر لی۔

حضرت کے  لگاتار سفر کی وجہ سے  میں شدت سے  ان سے  ملنے  کے  لئے  بے  چین تھا، میں نے  محسوس کیا کہ حضرت سے  ملنے  کے  لئے  وہاں رہنے  والے  سبھی لوگ ایسا انتظار کرتے  ہیں جیسے  جانور اپنے  چارہ ڈالنے  والے  مالک کا، خانقاہ میں رہنے  والے  سبھی مسلمانوں کا حال یہی دیکھا، کتنی مشکل سے  کوئی پہنچا، کسی نے  بے  عزت کر دیا، کسی نے  مارکھائی، مگر حضرت سے  مل کرجیسے  دھوپ سے  چھاؤں میں آ گیا ہو، چاہے  مہینوں میں ملاقات ہو مگر ایک ملاقات کے  بعد جیسے  سارے  زخموں پر مرہم نہیں، سارے  زخم ٹھیک ہو گئے  ہوں، ہر آدمی حضرت کے  بارے  میں یہ سوچتا ہے  کہ مجھ سے  زیادہ کسی کو نہیں چاہتے، دو ہفتوں کے  بعد حضرت پھلت آئے، اندر ایک ایک کو بلایا مجھ سے  حال پو چھا، گلے  لگایا دوبار گلے  لگایا اور جماعت میں جانے  کا پروگرام بنایا، صبح کو میں نے  قانونی کاغذات بنوائے، وکیل نے  مجھ سے  پو چھا تمھا را اسلامی نام کیا ہے ؟ حضرت نے  تو بتایا تھا کہ نام بدلناکچھ ضروری نہیں، ہمارے  نبی ﷺ سب کے  نام نہیں بدلتے  تھے، تم بدلنا چاہو تو جو نام تمھیں اچھا لگے  رکھ لینا، میں نے  وکیل صاحب سے  کہا مجھے  اذان میں اللہ اکبر بہت اچھا لگتا ہے، کیا محمد اکبر میرا نام ہو سکتا ہے، انھوں نے  کہا مسلمانوں کا نام محمد اکبر ہو تا ہے، اکبر بادشاہ کا نام تو آپ نے  سنا ہو گا، میں نے  کہا تو بس اذان سے  نام ہو جائے  گا، موذن سب کو نماز کے  لئے  بلاتا ہے، اسی دعوت میں میرا نام آیا کرے  گا، آپ میرا نام محمد اکبر رکھ دو۔

سوال   : آپ نے  آنے  کے  بعد گھر فون نہیں کیا ؟

جواب  : اصل میں حضرت نے  بھی فون پر ماں سے  بات کرنے  اور تسلی دینے  کے  لئے  کہا تھا، مگر مجھے  ڈر لگا کہ ابھی میرا ایمان کمزور ہے  اور مجھے  اپنی ماں سے  بے  حد محبت ہے، کہیں میں اپنی ماں سے  بات کروں وہ رونے  لگیں میرا دل پگھل جائے  اور میرا من جانے  کو چاہنے  لگے  اور پھر وہاں جا کر ایمان خطرے  میں پڑجائے، اس لئے  بہت یاد آنے  کے  باوجود میں نے  اپنی ماں کو فون نہیں کیا، اب جماعت میں سے  آ جاؤں گا، تو پھر گھر جا کر مجھے  سب گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے۔

سوال  : آپ کیا سمجھتے  ہیں کہ وہ آپ کی مخالفت نہیں کریں گے  اور آپ پر مشکل نہیں آ جائے  گی؟

جو اب : زیادہ امید تو نہیں ہے، میرے  گھر والے  بہت اچھے  لوگ ہیں، اسلام سے  محبت بھی رکھتے  ہیں، پھر میں شروع میں ان کو حضرت کی کتاب’’ آپ کی امانت‘‘ پڑھوا دوں گا، میں جا کر ایک ہزار چھپوا لوں گا، یہ کتاب ایسی محبت بھری، دل اور دماغ کو چھونے  والی ہے  کہ سچے  من سے  آدمی اس کو پڑھ لے  تو مسلمان ہونے  کے  لئے  انکار کرنے  کو اسے  سوبار سوچنا پڑے  گا، مجھے  امید ہے  گھر والے  اسلام میں ضرور آ جائیں گے  اور اگر مخالفت ہو گی تو ہوا کرے، ہمارے  قاری صاحب نے  ہمیں صحابہ کے  قصے  سنائے، میں نے  فضائل اعمال ہندی میں پڑھی ہیں، جب ہمارے  صحابہ نے  قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی دیں گے  اس راہ میں اگر جان بھی چلی گئی تو پھر جان کی قیمت بن جائے  گی مرنا تو ہے  ہی، ایک تو مفت میں جان دینا ہے  اور ایک ہے  جان کی قیمت بنا لینا وہ بھی جنت میں جانے  کے  لئے  اور پیارے  نبی سے  ملنے  کے  لئے، میں جب اپنے  اندر سے  ٹٹولتا اور تولتا ہوں میرا دل یہ کہتا ہے  کہ اکبر !اللہ کی محبت میں، دعوت کی راہ میں، اللہ کے  بندوں کو دوزخ سے  بچانے  کے  غم میں جان دینا، یوں ہی مرنے   سے  کتنا اچھا لگے  گا اور کتنا مزا آئے  گا۔

سوال   : ماشاء اللہ، اللہ تعالی ہمیں بھی یہ جذبہ عطا فرمائیں ؟

جواب  :مولانا احمد صاحب اصل بات یہ ہے  کہ ہم ہی ڈرتے  ہیں ورنہ پوری دنیا پیاسی ہے، ہمارے  علاقہ میں بس حضرت مولانا کے  جاننے  والے  دو تین لوگ ہیں جو لوگوں کو کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں، ۲۵/ لوگ ہمارے  علاقے  میں پچھلے  سال سے  اب تک کلمہ پڑھ چکے  ہیں، مگر سینکڑوں تیار ہیں، یہ لوگ بھی ذرا ڈر ڈر کر کلمہ پڑھواتے  ہیں، اکثر تو پھلت جانے  کے  لئے  ہی کہتے  ہیں، ہمارے  علاقہ میں اکثر لوگ بدعتی اور قبر پرست ہیں نماز تک نہیں پڑھتے۔

سوال   : آپ کو یہ کیسے  معلوم ہوا کہ یہ بدعت غلط چیز ہے ؟

جواب  :یہ چیز آدمی کو اپنی عقل سے  بھی غلط لگتی ہے، اللہ کے  علاوہ کسی کو نہ پوجنا تو اسلام ہے، اب قبر کو پوجنا کیسے  صحیح ہو جائے  گا، میں تو بدعتی مسلمانوں سے  کہتا تھا، تم میں ہم میں کیا فرق ہے، ہم تم سے  پھر بھی صحیح ہیں کہ ہمارے  سامنے  وہ دِکھ رہا ہے، تم جس قبر والے  کو پوج رہے  ہو، تو کیا خبر وہ آدمی کی قبر ہے  یا گھوڑے  کی، لکھنو میں ایک گھوڑے  شاہ پیر تھے، بہت دنوں تک اس کا عرس ہوتا رہا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی نواب کا گھوڑا تھا، یہ تو میں ان سے  کہتا ہوں تم سے  ہم صحیح ہیں، مگر ظاہر ہے  مورتی پوجا کس طرح صحیح ہو سکتی ہے، جس کو ہم نے  ہاتھوں سے  بنایا تو ہم بنانے  والے  ہوئے، وہ خود ہماری پوجا کرے، بنانے  والے  کی پوجا کی جاتی ہے، میں اسلام لانے  سے  پہلے  بھی اپنے  ہندو بھائیوں سے  کہتا تھا کہ وہ بھگوان کیسا بھگوان ہے  جو شرم گاہ کی پوجا کروانے  کو کہے، عقل پر پردے  پڑ جاتے  ہیں، ورنہ ذرا آدمی عقل پر زور ڈالے  تو اس اکیلے  کے  علاوہ کون پوجا کے  لائق ہو سکتا ہے۔

سوال   : اسلام میں آ کر آپ کیسا محسوس کر رہے  ہیں، آپ کو اسلام کی کیا بات اچھی لگی؟

جواب  :اسلام کی کون سی ایسی بات ہے  جو اچھی نہ لگے، ہمارے  نبی ﷺ کی تو چھوٹی سے  چھوٹی سنت بھی ایسی نہیں کہ آدمی اس پر غور کر لے  اور صرف اسی کو دیکھ کر مسلمان نہ ہو جائے، سب سے  بڑی بات یہ ہے  کہ اسلام پوری زندگی گزارنے  کا مکمل طریقہ ہے، یہ نہیں کہ دھرم کو مندر تک رکھا جائے  اور اپنے  کاروبار، پریوار میں من مانی کرے، بلکہ اسلام نے  پوری زندگی گزارنے  کا طریقہ بتایا ہے  اور طریقہ بھی ایساپیاراکہ بس آدمی دیوانہ ہو جائے۔

سوال   : ماشاء اللہ، اللہ نے  آپ کے  لئے  خاص ہدایت کے  دروازے  کھول دئیے  ہیں، جماعت سے  آنے  کے  بعد آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب   : جماعت سے  واپس آنے  کے  بعد میرا ارادہ اپنے  گھر جا کر کام کرنے  کاہے، میرا ارادہ مسلمانوں میں بھی کام کر نے  کاہے، خصوصاً بدعتی مسلمانوں میں کام کرنے  کاہے  اور پھر اپنے  ہندو بھائیوں میں کام کرنے  کا، ہمارے  علاقہ میں بہت بھولے  اور سچے  لوگ ہیں، دو چار جیالے  بس اپنے  کو کچھ دنوں کے  لئے  کھپا دیں، تو بس پورا علاقہ دوزخ سے  بچ جائے  گا، ابھی کچھ روز پہلے  ہمارے  علاقے  میں ایک لالہ جی اسلام میں آئے  تھے، انھوں نے  رام مندر بنانے  اور بابری مسجد شہید کرنے  میں ۲۵/ لاکھ روپئے  اپنی جیب سے  خرچ کئے، اللہ کو ان پر ترس آ گیا، شاید وہ رام مندر کو اللہ کی رضا کا ذریعہ سمجھ کر بنوانے  کی کوشش کر رہے  تھے، اللہ کو ان پر پیار آ گیا، ان کا اکیلا جوان بیٹا اکسیڈنٹ میں مرگیا، دوکان میں آگ لگ گئی خود بھی بیمار رہنے  لگے۔

سوال   : آپ اس کو اللہ کا پیار کہہ رہے  ہیں ؟

جواب  :جی مولانا احمد صاحب، ان حادثوں سے  دل میں خیال آیا کچھ غلطی ہوئی ہے، تو دل میں آیا کہ مالک کا گھر ڈھایا ہے  اسلام پڑھنا شروع کیا، مسلمان ہونا چاہتے  تھے  لوگ ڈر کی وجہ سے  ان سے  ملتے  نہیں تھے، کلمہ پڑھوانے  کو تیار نہیں تھے، حضرت مولانا کلیم صدیقی نے  ایک ساتھی کو بھیجا، کلمہ پڑھوایا، ایک مسجد بنوا رہے  ہیں، اس کے  ساتھ مدرسہ بھی، مولانا احمد صاحب ایک بیٹا اور کچھ مال اور صحت گنوا کر ایمان آ گیا تو اس کو آپ اللہ کا پیار کہیں گے  یا اللہ کا غضب۔

سوال   : واقعی آپ صحیح کہتے  ہیں۔

جواب  :مجھ سے  کئی مسلمان بھائیوں نے  کہا کہ تو گھر بار چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے ؟ میں نے  جواب دیا دھوکے  کا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے  جنت کے  محل خریدنے  جا رہا ہوں اور شاید میں گھر بار نہ چھوڑتا تو مجھے  ایمان نہ ملتا، میرا گھربار چھڑانا اللہ کی رحمت ہے  پیار ہے  یا غصہ؟

سوال  :  بلاشبہ۔ جزاکم اللہ، مسلمانوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے۔

جواب  :ہم کیا پیغام دے  سکتے  ہیں، ہم تو چھٹ بھیّے  ہیں، ہمیں تو اپنے  ایمان میں بھی شک ہے، ہاں اتنا ضرور کہتے  ہیں کہ مرنے  سے  پہلے  اپنے  علاقہ کے  غیر مسلم بھائیوں کی فکر کریں ورنہ وہ حشر کے  میدان میں پکڑیں گے  ضرور، وہاں آپ پھنسیں گے، یہ سمجھنا کہ اسلام کون لائے  گا، کل شام پنجاب کے  ایک صاحب کا فون آیا تھا حضرت کے  پاس، ایک صاحب جو سکھ تھے  مسلمان ہوئے، وہ ان کو حضرت سے  دوبارہ کلمہ پڑھوا رہے  تھے، حضرت نے  بتایا کہ کہہ ر ہے  ہیں اس ہفتہ میں یہ سردار جی چالیسویں آدمی ہیں جنھوں نے  میرے  ہاتھ پر کلمہ پڑھا ہے، ایک ہفتہ میں ایک  ایک آدمی چالیس کو کلمہ پڑھوا دے  تو چند مہینوں میں دنیا کا حال کیا ہو جائے  گا اور میرے  لئے  اور میرے  خاندان کے  لئے  دعا کریں، خاص طور پر بس ایمان باقی رہے  اور میں ڈھل مل نہ ہو جاؤں، اس کی خاص دعا کی آپ سے  درخواست ہے۔

سوال   : بہت بہت شکریہ اکبر بھائی  السلام علیکم

جواب  :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب سیٹھ محمد عمر {رام جی لال گپتا} سے  ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد عمر     :  مولوی صاحب وعلیکم السلام

سوال  :سیٹھ صاحب، دو تین مہینے  سے  ابی آپ کا بہت ذکر کر رہے  ہیں، اپنی تقریروں میں آپ کا ذکر کرتے  ہیں اور مسلمانوں کو ڈراتے  ہیں کہ اللہ تعالی اپنے  بندوں کی ہدایت کے  لئے  ہر چیز سے  کام لینے  پر قادر ہیں۔

جواب   : مولوی صاحب، حضرت صاحب بالکل سچ کہتے  ہیں، میری زندگی خود اللہ کی دیا و کرم کی کھلی نشانی ہے، کہاں مجھ جیسا خدا اور خدا کے  گھر کا دشمن اور کہاں میرے  مالک کا مجھ پر کرم، کاش کچھ پہلے  میری حضرت صاحب یا حضرت صاحب کے  کسی آدمی سے  ملاقات ہو جاتی تو میرا لاڈلا بیٹا ایمان کے  بغیر نہ مرتا، (رونے  لگتے  ہیں اور بہت دیر تک روتے  رہتے  ہیں، روتے  ہوئے ) مجھے  کتنا سمجھا تا تھا اور مسلمانوں سے  کیسا تعلق رکھتا تھا وہ اور ایمان کے  بغیر مجھے  بڑھاپے  میں اپنی موت کا غم دے  کر چلا گیا۔

سوال  :سیٹھ صاحب، پہلے  آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیے ؟

جواب   : میں لکھنو کے  قریب ایک قصبے  کے  تاجر خاندان میں پہلی بار اب سے  ۶۹/ سال پہلے  ۶/ دسمبر ۱۹۳۹ ء میں پیدا ہوا، گپتا ہماری گوت ہے، میرے  پتاجی کرانہ کی تھوک کی دکان کرتے  تھے، ہماری چھٹی پیڑھی سے  ہر ایک کے  یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے، میں اپنے  پتاجی کا اکیلا بیٹا تھا، نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا، میرا نام رام جی لال گپتا میرے  پتاجی نے  رکھا۔

سوال  :پہلی مرتبہ ۶/ دسمبر کو پیدا ہوئے  توکیا مطلب ہے ؟

جواب   : اب دوبارہ اصل میں اسی سال ۲۲/ جنوری کو چند مہینے  پہلے  میں نے  دوبارہ جنم لیا اور سچی بات یہ ہے  کہ پیدا تو میں ابھی ہوا، پہلے  جیون کو اگر گنیں ہی نہیں تو اچھا ہے، وہ تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

سوال  :جی !  تو آ پ خاندانی تعارف کرا رہے  تھے ؟

جواب   : گھر کا ماحول بہت دھارمک(مذہبی) تھا، ہمارے  پتاجی ضلع کے  بی جے  پی، جو پہلے  جن سنگھ تھی، کے  ذمہ دار تھے، اس کی وجہ سے  اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے  گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے  گھٹی میں پڑی تھی، ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے  سے  لے  کر بابری مسجد کی شہادت کے  گھناؤنے  جرم تک میں اس پوری تحریک میں آخری درجہ کے  جنون کے  ساتھ شریک رہا، میری شادی ایک بہت بھلے  اور سیکولر خاندان میں ہوئی، میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے  ان کے  گھر والوں کے  بالکل گھریلو تعلقات تھے، میری بارات گئی، تو سارے  کھانے  اور شادی کا انتظام ہمارے  سسر کے  ایک دوست خاں صاحب نے  کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے  وہاں انتظام میں تھے  جو ہم لوگوں کو بہت برا لگاتھا اور میں نے  ایک بار تو کھانا کھانے  سے  انکار کر دیا تھا کہ کھانے  میں ان مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے  ہم نہیں کھائیں گے  مگر بعد میں میرے  پتاجی کے  ایک دوست تھے  پنڈت جی، انھوں نے  سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے  کہ مسلمانوں کے  ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہئے، بڑی کراہیت کے  ساتھ بات نہ بڑھانے  کے  لئے  میں نے  کھانا کھا لیا،  ۱۹۵۲ء میں میری شادی ہوئی تھی، نو سال تک ہمارے  کوئی اولاد نہیں ہوئی، نو سال کے  بعد مالک نے   ۱۹۶۱ء  میں ایک بیٹا دیا، اس کا نام میں نے  یوگیش رکھا، اس کو میں نے  پڑھایا اور اچھے  سے  اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے  کہ پارٹی اور قوم کے  نام اس کو ارپِت(وقف)کروں گا، اس کو سماج شاستر میں پی ایچ ڈی کرایا، شروع سے  آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے  اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے  مقابلے  مسلمانوں کی طرف مائل رہتا، فرقہ وارانہ مزاج سے  اس کو الرجی تھی، مجھ سے  بہت ادب کرنے  کے  باوجود اس سلسلہ میں بحث کر لیتا تھا، دو بار وہ ایک ایک ہفتہ کے  لئے  میرے  رام مندر تحریک میں جڑنے  اور اس پر خر چ کرنے  سے  ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا، اس کی ماں نے  فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں ذرا تفصیل سے  بتائیے ؟

جواب   : مسلمانوں کو میں اس ملک پر آ کرمن (قبضہ)کرنے  والا مانتا تھا، یا پھر مجھے  رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنانے  کی وجہ سے  بہت چڑھ تھی اور میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے  لئے  میں نے  تن، من، دھن سب کچھ لگایا، ۸۷ئسے  لے  کر۲۰۰۵ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے  والے   کارسیوکوں پروشو ہندو پریشد کو چندہ میں کل ملا کر ۲۵/ لاکھ روپئے  اپنی ذاتی کمائی سے  خرچ کئے، میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے  تھے، یوگیش کہتا تھا اس دیش پر تین طرح کے  لوگ آ کر باہر سے  راج کرتے  آئے، ایک تو آرین آئے  انھوں نے  اس دیش میں آ کر ظلم کیا، یہاں کے  شودروں کو داس بنایا اور اپنی ساکھ بنائی، دیش کے  لئے  کوئی کام نہیں کیا، آخری درجہ میں اتیاچار (ظلم)کئے، کتنے  لوگوں کو موت کے  گھاٹ اتارا، تیسرے  انگریز آئے  انھوں نے  بھی یہاں کے  لوگوں کو غلام بنایا، یہاں کا سونا، چاندی، ہیرے  انگلینڈ لے  گئے، حد درجہ اتیاچار کئے، کتنے  لوگوں کو مارا قتل کیا، کتنے  لوگوں کو پھانسی لگائی۔

دوسرے  نمبرپرمسلمان آئے، انھوں نے  اس دیش کو اپنا دیش سمجھ کر یہاں لال قلعے  بنائے، تاج محل جیسا دیش کے  گورو کا پاتر(قابل فخر عمارت)بنائی، یہاں کے  لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا، بولناسکھایا، یہاں پر سڑکیں بنوائیں، سرائیں بنوائیں، خسرہ کھتونی   ڈاک کا نظام اور آپ پاشی کا نظام بنایا، نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے  ایک بڑا بھارت بنایا، ایک ہزار سال الپ سنکھیا (اقلیت)میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی، وہ مجھے  تاریخ کے  حوالوں سے  مسلمان بادشاہوں کے  انصاف کے  قصے  دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی وہ نہ بدلی۔

۳۰/دسمبر ۱۹۹۰ء میں بھی میں نے  بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء میں تو میں خود ایودھیا گیا، میرے  ذمہ ایک پوری ٹیم کی کمان تھی، بابری مسجد شہید ہوئی تو میں نے  گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی، میرا بیٹا یوگیش گھر سے  ناراض ہو کر چلا گیا، میں نے  خوب دھوم دھام سے  جیت کی تقریب منائی، رام مندر کے  بنانے  کے  لئے  دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے  ایک عجیب سا ڈر میرے  دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے  والی ہے، ۶/ دسمبر ۱۹۹۳ء آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے  پر تھے  بجلی کا تار شارٹ ہونے  سے  دونوں میں آگ لگ گئی اور تقریباً دس لاکھ روپئے  سے  زیادہ کا مال جل گیا اس کے  بعد سے  تو اور بھی زیادہ دل سہم گیا، ہر ۶/ دسمبر کو ہمارا پورا پریوار سہماسا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا، ۶/ دسمبر ۲۰۰۵ء کو یوگیش ایک کام کے  لئے  لکھنو جا رہا تھا اس کی گاڑی ایک ٹرک سے  ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے  اس کا نوسال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے، یہ حادثہ میرے  لئے  ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا، کاروبار چھوڑ کر دربدر مارا پھرا، میری بیوی مجھے  بہت سے  مولانا لوگوں کو دکھانے  لے  گئی، ہردوئی میں بڑے  حضرت صاحب کے  مدرسے  میں لے  گئی، وہاں پر بہار کے  ایک قاری صاحب ہیں، تو کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر میرے  دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستہ پر ہوں، مجھے  اسلام کو پڑھنا چاہئے  اسلام پڑھنا شروع کیا۔

سوال  :اسلام  کے  لئے  آپ نے  کیا پڑھا؟

جواب  : میں نے  سب سے  پہلے  حضرت محمد ﷺ کی ایک چھوٹی سیرت پڑھی، اس کے  بعد’’ اسلام کیا ہے ؟‘‘ پڑھی’’اسلام ایک پریچے ‘‘ مولانا علی میاں جی کی پڑھی، ۵/ دسمبر ۲۰۰۶ء کو مجھے  حضرت صاحب کی چھوٹی سی کتاب’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ ایک لڑکے  نے  لا کر دی، ۶/ دسمبر اگلے  روز تھی، میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا، اس کتاب نے  میرے  دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرہ سے  جان بچ سکتی ہے  اور میں ۵/ دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے  پاس گیا مجھے  مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے  رہے، کوئی آدمی مجھے  مسلمان کرنے  کو تیار نہ ہوا۔

سوال  :آپ ۶/ دسمبر  ۲۰۰۶ء کو مسلمان ہو گئے  تھے، آپ تو ابھی فرما رہے  تھے  کہ چند مہینے  پہلے  ۲۲/جنوری ۲۰۰۹ء کو آپ مسلمان ہوئے۔

جواب   : میں نے  ۵/ دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمان ہونے  کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر ۲۲/ جنوری کو اس سال تک مجھے  کوئی مسلمان کرنے  کو تیار نہیں تھا، حضرت صاحب کو ایک لڑکے  نے  جو ہمارے  یہاں سے  جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو بابری مسجد کی شہادت میں بہت خرچ کرتے  تھے  مسلمان ہو نا چاہتے  ہیں، تو حضرت نے  ایک ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجدکی شہادت میں سب سے  پہلے  کدال چلانے  والے  تھے ) بھیجا، وہ پتہ ٹھیک نہ معلوم ہو نے  کی وجہ سے  تین دن تک دھکے  کھاتے  رہے، تین دن کے  بعد ۲۲/ جنوری کو وہ مجھے  ملے  اور انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور حضرت صاحب کا سلام بھی پہنچایا، صبح سے  شام تک وہ حضرت صاحب سے  فون پر بات کرانے  کی کوشش کرتے  رہے  مگر حضرت مہاراشٹر کے  سفر پر تھے، شام کو کسی ساتھی کے  فون پر بڑی مشکل سے  بات ہوئی ماسٹر صاحب نے  بتایا کہ سیٹھ جی سے  ملاقات ہو گئی ہے  اور الحمد للہ انھوں نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، آپ سے  بات کرنا چاہتے  ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں، حضرت صاحب نے  مجھے  دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔

میں نے  جب حضرت صاحب سے  عرض کیا کہ حضرت صاحب، مجھ ظالم نے  اپنے  پیارے  مالک کے  گھر کو ڈھانے  اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے  میں اپنی کمائی سے  ۲۵لاکھ روپئے  خرچ کئے  ہیں، اب میں نے  اس گناہ کی معافی کے  لئے  ارادہ کیا ہے  کہ ۲۵لاکھ روپئے  سے  ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا آپ اللہ سے  دعا کیجئے  کہ جب اس کریم مالک نے  اپنے  گھر کو گرانے  اور شہید کرنے  کو میرے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے  تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے  والوں کی فہرست سے  نکال کر اپنا گھر بنانے  والوں میں لکھ لیں اور میرا کوئی اسلامی نام بھی آپ رکھ دیجئے، حضرت صاحب نے  فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی اور میرا نام محمد عمر رکھا، میرے  مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا، مولوی صاحب اگر میرا رواں رواں، میری جان میرا مال سب کچھ مالک کے  نام پر قربان ہو جائے  تو بھی اس مالک کا شکر کیسے  ادا ہو سکتا ہے  کہ میرے  مالک نے  میرے  اتنے  بڑے  ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ  بنا دیا۔

سوال  :آگے  اسلام کو پڑھنے  وغیرہ کے  لئے  آپ نے  کیا کیا؟

جواب   : میں نے  الحمد للہ گھر پر ٹیوشن لگایا ہے، ایک بڑے  نیک مولانا صاحب مجھے  مل گئے  ہیں وہ مجھے  قرآن بھی پڑھا رہے  ہیں سمجھا بھی رہے  ہیں۔

سوال  :آپ کی بیوی اور پوتے  پوتی کا کیا ہوا؟

جواب   :  میرے  مالک کا کرم ہے  کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے  مسلمان ہو گئے  ہیں اور ہم سبھی ساتھ میں پڑھتے  ہیں۔

سوال   :آپ یہاں دہلی کسی کام سے  آئے  تھے ؟

جواب   : نہیں صرف مولانا نے  بلایا تھا، ایک صاحب مجھے  لینے  کے  لئے  گئے  تھے، حضرت صاحب سے  ملنے  کا بہت شوق تھا بار بار فون کرتا تھا مگر معلوم ہوتا تھا کہ سفر پر ہیں اللہ نے  ملاقات کرا دی  بہت ہی تسلی ہوئی۔

سوال  :ابی سے  اور کیا باتیں ہوئیں ؟

جواب   : حضرت صاحب نے  مجھے  توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے  ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی بابری مسجد کی شہادت میں غلط فہمی میں شریک رہے، آپ کو چاہئے  کہ ان پر کام کریں، ان تک سچائی کو پہنچانے  کا ارادہ تو کریں، میں نے  اپنے  ذہن سے  ایک فہرست بنائی ہے، اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں مگر جتنا دم ہے  وہ تو اللہ کا اور اس کے  رسول  ﷺ کا کلمہ اس کے  بندوں تک پہنچانے  میں لگنا چاہئے۔

سوال  :مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

جواب   : میرے  یوگیش کا غم مجھے  ہر لمحہ ستاتا ہے، مرنا تو ہر ایک کو ہے، مولوی صاحب ! موت تو وقت پر آتی ہے  اور بہانہ بھی پہلے  سے  طئے  ہے، مگر ایمان کے  بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے  ظالم اور اسلام دشمن بلکہ خدا دشمن کے  گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو وہ اسلام کے  بغیر مر گیا، اس میں مسلمانوں کے  حق ادا نہ کرنے  کا احساس میرے  دل کا ایسا زخم ہے  جو مجھے  کھائے  جا رہا ہے، ایسے  نہ جانے  کتنے  جوان، بوڑھے  موت کی طرف جا رہے  ہیں ان کی خبر لیں۔

سوال  : بہت بہت شکریہ سیٹھ عمر صاحب ! اللہ تعالی آپ کو بہت بہت مبارک فرمائے، یو گیش کے  سلسلہ میں تو ابی ایسے  لوگوں کے  بارے  میں کہتے  ہیں کہ فطرت اسلامی پر رہنے  والے  لوگوں کو مرتے  وقت فرشتے  کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں، ایسے  واقعات ظاہر بھی ہوئے  ہیں، آپ اللہ کی رحمت سے  یہی امید رکھیں یوگیش مسلمان ہو کر ہی مرے  ہیں۔

جواب   : اللہ تعالی آپ کی زبان مبارک کرے، مولوی احمد صاحب اللہ کرے  ایسا ہی ہو، میرا پھول سا بچہ مجھے  جنت میں مل جائے۔

سوال  :آمین  ثم آمین انشاء اللہ ضرور ملے  گا، السلام علیکم

جواب   : وعلیکم السلام                                        مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جون  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

جناب عبداللہ صاحب {گنگا رام چوپڑا جی} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبداللہ    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : عبداللہ صاحب بہت زمانہ پہلے  ابی اپنے  ایک مضمون میں جو ہمارے  یہاں کی اردو میگزین ارمغان میں چھپا تھا آپ کے  قبول اسلام کے  واقعہ کا ذکر کیا تھا، اسی وقت سے  آپ سے  ملاقات کا اشتیاق تھا اور دلی خواہش تھی کہ ارمغان میں جو اسلام قبول کرنے  والے  خوش قسمت لوگوں کے  انٹرویو شائع کرنے  کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، آپ سے  بھی ایک ملاقات ہو جائے، تو خود آپ کی زبان سے  باتیں معلوم ہوں، اللہ نے  بڑا کرم کیا کہ آپ آ گئے  میں آپ کا کچھ وقت لینا چاہتا ہوں اور آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : بڑی اچھی بات ہے، آپ سے  مل کر بہت خوشی ہوئی، حضرت نے  تعارف کرایا کہ یہ احمد میرے  بیٹے  ہیں، بہت اچھا لگا آپ کی صورت دیکھی دل کو لگا کہ اللہ نے  حضرت کو اولاد بھی بہت پیاری دی ہے، اصل میں میں اسکوٹ ہارٹ ہاسپٹل میں زیر علاج ہوں، میرا آج چیک اپ کا دن تھا، مجھے  معلوم ہوا تھا کہ مولانا صاحب دہلی میں مل سکتے  ہیں، میرا دل واقعی بہت چاہ رہا تھا کہ کسی طرح مولانا کے  درشن ہو جائیں کئی سال ہو گئے  کوشش کے  باوجود مل بھی نہیں سکا، میرے  رب کا احسان ہے  کہ آج اچھی طرح ملاقات ہو گئی اور کئی سال کی ساری کہانی سنا کر دل بہت خوش ہو ا، مولانا صاحب بھی بہت ہی خوش ہوئے، آپ میرے  لائق جو خدمت ہو ضرور بتائیے۔

سوال  :آپ پہلے  اپنا تعارف کرائیے ؟ اور اپنے  خاندان کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  : میرا پہلا نام گنگا رام چوپڑا تھا، میں روہتک کے  ایک گاؤں میں ایک پڑھے  لکھے  زمیندار گھرانے  میں ایک جنوری ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوا گاؤں کے  اسکول سے  پرائمری تعلیم حاصل کی پھر روہتک داخلہ لیا، ۱۹۶۷ ء میں بی کام کرنے  کے  بعد ایک اسکول میں پڑھانے  لگا پھر ایک تعلق سے  میری سیل ٹیکس میں نوکری لگ گئی، میں روہتک ضلع کا سیل ٹیکس افسر تھا، چار سال پہلے  میں نے  اپنی بیماری کی وجہ سے  رٹائرمنٹ لے  لیا، میری شادی ایک بڑے  گھرانے  میں ہوئی، میری بیوی مجھ سے  زیادہ پڑھی لکھی تھی اور شادی کے  وقت و ہ ضلع شکشا  ادھیکاری ((B.S.A  پر ملازم تھی، میری خواہش تھی کہ میری بیوی گھریلو عورت بن کر سکون سے  رہے، میرے  لئے  عورتوں کی نوکری گائے  کو ہل میں جوتنے  کی طرح غلط تھا، میں نے  شادی کے  تین سال بعد زور دے  کر ان سے  نوکری چھڑوا دی، مگر ان کی مرضی کے  خلاف یہ فیصلہ ہوا تھا اس لئے  ہماری گھر یلو زندگی نا خوش گوار ہو گئی، بات بڑھتی گئی، وہ اپنے  گھر چلی گئی اور ان کے  گھر والے  میری جان کے  دشمن ہو گئے  اور بات عدالت تک پہنچی مقدمہ بازی چلتی رہی اور گھریلو زندگی کی یہ ناخوشگوار ی میرے  سسرال والوں کی مجھ سے  دشمنی اور مقدمہ بازی میرے  لئے  مسیحا بن گئی اور میرے  کفر سے  نکلنے  کا ذریعہ بنی۔

سوال  : ماشاء اللہ عجیب بات ہے، آپ ذرا اس ہدایت ملنے  اور قبول اسلام کے  واقعہ کو ضرور بتائیے ؟

جواب  : مقدمہ بازی زوروں پر تھی، عدالت کا رخ میری بیوی کی طرف لگ رہا تھا اور خیال تھا کہ مجھے  سزا اور جرمانہ دونوں کا سامنا کرنا پڑے  گا  میرے  وکیل نے  مجھے  مشورہ دیا کہ اگر آپ کہیں سے  مسلمان ہونے  کا سرٹیفکٹ حاصل کر لیں تو اسے  عدالت میں پیش کر کے  آپ کی بہت آسانی سے  جان بچ سکتی ہے، مجھے  کسی مسلمان نے  بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک مفتی صاحب ہیں، ان کا سرٹیفکٹ سرکار مانتی ہے، میں وہاں گیا مفتی صاحب تو نہیں ملے  مگر لوگوں نے  مجھے  بتایا کہ یہ تو ۱۵۔ ۲۰ ہزار روپیئے  لیتے  ہیں، میرے  لئے  کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر مفتی صاحب حیدرآباد کے  سفر سے  چار روز بعد لوٹنے  والے  تھے، اتنا انتظار کرنا میرے  لئے  مشکل تھا، میں واپس آ رہا تھا، راستہ میں ایک مسجد دکھائی دی، میں نے  اپنے  ڈرائیور سے  گاڑی روکنے  کو کہا اور خیال ہوا کہ یہاں کے  میاں جی سے  معلوم کروں، کیا اور کہیں بھی یہ کام ہو سکتا ہے ؟ امام صاحب سہارن پور کے  رہنے  والے  تھے، انھوں نے  بتایا کہ یو پی کے  ضلع مظفر نگر میں ایک جگہ پھلت ہے، وہاں پر مولانا کلیم صاحب رہتے  ہیں، آپ وہاں چلے  جائیے  اور کسی سے  کچھ معلوم نہ کریں اور وہاں آپ کا ایک پیسہ بھی نہ لگے  گا اور سارا کام قانونی طور پر وہ خود پکا کروا دیں گے  اور انھوں نے  مجھے  پورا راستہ لکھ کر دیا۔

کچھ دفتری مصروفیت کی وجہ سے  میں وہاں فوراً نہ جاسکا تقریباً ۲۵ دن کے  بعد میں نے  موقع نکالا، ۲۹ جنوری  ۱۹۹۴ء کو میں پھلت پہنچا، رمضان کا مہینہ چل رہا تھا، دن چھپنے  کے  ذرا بعد میں اپنے  گارڈ اور ڈرائیور کے  ساتھ پھلت پہنچا، مولانا صاحب مسجد میں اعتکاف میں تھے، ایک صاحب مجھے  مسجد میں مولانا صاحب کے  پاس لے  گئے، مسجد کے  چھوٹے  کمرے  میں مولانا صاحب سے  میری ملاقات ہو گئی اور میں نے  صاف صاف اپنے  آنے  کا مقصد بیان کیا اور مولانا صاحب سے  کہا کہ مجھے  اسلام قبول کرنے  کا سرٹیفکٹ چاہئے، اپنی بیوی کے  مقدمہ سے  بچنے  کے  لئے  عدالت میں جمع کرنا ہے، مجھے  مسلمان ہونا نہیں ہے، نہ دھرم بدلنا ہے  اور نہ میں دھرم بدل سکتا ہوں، صرف سرٹیفکٹ چاہئے  مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا :کیا آپ عدالت میں بھی یہی کہہ کر سرٹیفکٹ داخل کریں گے، کہ مسلمان نہیں ہوا ہوں بلکہ صرف جعلی سرٹیفکٹ بنوایا ہے، میں نے  کہا :بھلا یہ کیسے  ہو سکتا ہے  :عدالت میں تو میں یہی کہوں گا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اس لئے  میری بیوی سے  اب میرا کوئی تعلق نہیں، مولانا صاحب نے  کہا : جہاں آپ بیٹھے  ہیں یہ مسجد ہے، مالک کا گھر ہے، اس کی بڑی عدالت میں آپ کو ہم کو، سب کو، پیش ہونا ہے، وہاں سب سے  پہلے  اس ایمان اور اسلام کے  سرٹیفکٹ کے  بارے  میں سوال ہو گا اور وہاں جعلی سرٹیفکٹ پر گذر نہیں ہو گا، اس پر وہاں ہمیشہ کی نرک (دوزخ) کی جیل میں سزا ہو گی، خیر یہ تو آپ کا آپ کے  مالک کا معاملہ ہے ؟ مگر میرا کہنا یہ ہے  کہ آپ ہم سے  کیوں کہتے  ہیں، کہ مجھے  مسلمان نہیں ہونا ہے، آپ ہم سے  یہ کہئے  کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، مجھے  مسلمان کر لیجئے  اور ایک سر  ٹیفکیٹ بھی چاہئے، ہم آپ کو کلمہ پڑھواتے  ہیں، دلوں کا بھید تو ہم نہیں جانتے، ہم تو یہ سمجھ کر آپ کو مسلمان کر لیں گے، کہ آپ سچے  دل سے  مسلمان ہو رہے  ہیں، اس میں ہمارا یہ فائدہ ہو گا کہ ہمارے  مالک نے  ایک آدمی کے  ایمان کا ذریعہ بننے  پر ہمارے  لئے  جنت کا وعدہ کیا ہے،  ہمارا کام ہو جائے  گا، جہاں تک دل کا معاملہ ہے  وہ دلوں کے  بھید جاننے  والا مالک دلوں کو پھیرنے  والا بھی ہے، کیا خبر آپ اس کے  گھر میں اتنی دور سے  سفر کر کے  آئے  ہیں آپ کو سچا ایمان والا بنا دیں پھر آپ کو ہم سرٹیفکٹ بھی بنوا دیں گے  اور وہ ہمارے  نزدیک سچا سرٹیفکٹ ہو گا، ہم جعلی کوئی کام نہیں کرتے، میں نے  کہا :جی ٹھیک ہے  میں سچے  دل سے  مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور مجھے  سرٹیفکٹ بھی چاہئے، مولانا صاحب نے  مجھے  اسلام کے  بارے  میں کچھ بتایا اور یہ بھی کہا کہ موت کے  بعداس بڑے  حاکم اور بڑی عدالت میں ہم سب کو پیش ہونا ہے، نہ جھوٹی گواہی چلے  گی نہ سرٹیفکٹ، اگر آپ اس مالک کے  لئے  سچے  دل سے  یہ کلمہ جو میں آپ کو پڑھوا رہا ہوں، پڑھ لو گے  تو موت کے  بعد کی ہمیشہ کی زند گی میں آپ کے  لئے  سورگ(جنت) ہو گی، چاہے  آپ باہر سے  کسی سے  مسلمان ہونے  کو بھی نہ کہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور اس کا ہندی ارتھ (ترجمہ ) بھی کہلوایا اور مجھ سے  ہمیشہ اکیلے  اللہ کی پوجا کرنے  اور اس کے  سچے  رسول کی تابعداری کا عہد بھی کرایا اور میرا اسلامی نام عبداللہ بتایا۔

مولانا نے  بتایا کہ ہمارے  مدرسے  کا دفتر اب بند ہے  آپ رات کو رکیں، صبح نو بجے  انشا ء اللہ میں آپ کو سرٹیفکٹ بنوا دوں گا، آپ چاہیں تو مسجد میں ہمارے  اور ہمارے  ساتھیوں کے  ساتھ قیام کر لیں، یہاں آپ کو اچھے  لوگوں کی سنگتی (صحبت ) ملے  گی اور چاہیں تو ہمارے  گھر بیٹھک میں آرام کریں، میں نے  مسجد میں قیام کے  لئے  کہا سیکڑوں لوگ مولانا کے  ساتھ مسجد میں رہ رہے  تھے، جن میں ہریانہ کے  کافی لوگ تھے  ان میں سونی پت کے  سب سے  زیادہ تھے، میں سونی پت میں کئی سال رہ چکا تھا، آدھی رات کے  بعد سب لوگ اٹھ گئے  اپنے  مالک کے  سامنے  رونے  اور اس کا بڑی لئے  میں ذکر کرنے  والے  یہ لوگ مجھے  بہت اچھے  لگے، میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور میں بھی ان کے  ساتھ لا الہ الا اللہ کا ذکر کرتا رہا، دشمنی مقدمہ بازی اور گھریلو زندگی کی اس بے  چینی میں میری یہ رات ایسی گذری جیسے  تھکا بچہ اپنی ماں کی گود میں آ گیا ہو، مولانا نے  مجھے  سر ٹیفکیٹ صبح کو بنوا کر دے  دیا، میں نے  فیس معلوم کی تو مولانا نے  سختی سے  منع کر دیا، شانتی اور سکون کے  اس ماحول میں میرا دل چاہا کہ کچھ اور وقت گذاروں، میں نے  مولانا صاحب سے  اجازت چاہی کے  ایک رات میں اور رکنا چاہتا ہوں، مولانا نے  کہا: بڑی خوشی کی بات ہے، ایک رات نہیں جب تک آپ کا دل چاہے  آپ ہمارے  مہمان ہیں، یہاں گاؤں میں آپ کو جو تکلیف ہو اس کو معاف کر دیجئے، شام تک مولانا الگ الگ وقتوں میں اللہ والوں کے  قصے، قرآن کی باتیں اور دین کی جو باتیں اپنے  مریدوں کو بتاتے  رہے، میں بھی سنتا رہا اور میرا گارڈ بھی ساتھ رہا، وہ بڑا دھارمک آدمی ہے، شام کو سونی پت کے  ایک ساتھی کو میں لے  کر کھتولی گیا اور وہاں سے  ۲۵ کلو لڈو لایا، میرا دل چاہا کہ اللہ کے  ان سچے  بھکتوں کو اپنے  ایمان کی خوشی میں مٹھائی کھلاؤں، رات کے  کھانے  کے  بعد میں نے  دوساتھیوں سے  وہ لڈو تقسیم کرائے، دل تو اگلے  روز بھی ایسے  ماحول سے  جانے  کو نہ چاہتا تھا، مگر دفتر کی مجبوری اور تیسرے  روز میرے  مقدمہ کی تاریخ ہونے  کی وجہ سے  میں واپس آ گیا، دو رات کی وہ شانتی بھرا ماحول میرے  بے  چین جیون کو سکھی اور شانت کر گیا، واپسی میں میرا گارڈ جس کا نام مہندر تھا مجھ سے  کہنے  لگا: سر!جینا تو یہاں آ کر سیکھنا چاہئے، آپ نے  مولانا صاحب کے  بھاشن (تقریر ) ست سنگ سنی ؟ مجھے  ۱۵سال ہو گئے، رادھا سوامی ست سنگ میں جاتے  ہوئے، جو سچائی، پریم اور شانتی یہاں ملی، اس کی ہوا بھی وہاں نہیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے  ہر بات گات ( دل) میں گھس رہی ہو، سر چھوڑئیے  سب سنسار !مولانا صاحب کے  چرنوں میں آ کر رہیں، چین اور سکھ تو بس یہاں ہی ملے  گا، سارے  ساتھی بھی کیسے  سیدھے  سادے، ایسا لگ رہا تھا کہ سچوں کا سنسار ہے، میں نے  اس سے  کہا تو بھی کلمہ پڑھ لیتا، اس نے  کہا کہ سر، جب آپ کو کلمہ پڑھوا رہے  تھے  تو میں بھی آہستہ آہستہ کلمہ پڑھ رہا تھا اور دل دل میں اپنے  مالک سے  کہہ رہا تھا، کہ مالک !جب آپ دلوں کے  بھید جانتے  ہیں، تو اگر یہ دھرم سچاہے  تو ہمارے  سر کے  دل کو پھیر دے  اور مجھے  بھی ان ساتھ کر دے۔

مولانا صاحب نے  مجھے  اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پانچ عدد دی تھی، کہ آپ اس کو پڑھیں اور اپنے  ساتھیوں کو بھی پڑھوائیں، میں نے  گھر جا کر ایک کتاب اپنے  گارڈ مہندر کو دی اور خود بھی پڑھی، اب مجھے  اسلام کے  بارے  میں سوفیصد اطمینان ہو گیا تھا، اس لئے  کہ میں دو روز میں ایمان والوں کو دیکھ چکا تھا، میرے  وکیل نے  مجھے  فون کیا، مجھے  سرٹیفیکٹ دکھا دیں، میں نے  اگلے  روز ملنے  کو کہا، مگر صبح ہوئی تو میرے  دل میں آیا کہ مجھے  اس سرٹیفیکٹ کو اپنے  مالک کی عدالت میں پیش کرنا ہے، اس لئے  مجھے  اس عدالت میں دھوکہ کے  لئے  نہیں پیش کرنا چاہئے، میں نے  آپ کی امانت اٹھائی اور مالک کو حاضر ناظر جان کر ایک بار کلمہ کو اس میں دیکھ کر سچے  دل سے  دوہرایا، ، مقدمہ کی تاریخیں لگیں، فیصلہ میری بیوی کے  حق میں ہوا، مجھ پر ایک لاکھ روپیہ جرمانہ اور ماہانہ خرچہ ہوا، عید کے  بعد میں سونی پت مدرسہ گیا، وہاں کے  پرنسپل صاحب سے  ملا اور اپنے  دین لینے  کی خوشی میں بچوں اور اسٹاف کی دعوت کی اور مٹھائی بھی تقسیم کی، مجھے  موت سے  بہت ڈر لگتا تھا،  ایک روز دفتر میں تھا کہ میرے  سینہ میں درد شروع ہوا اور درد بڑھتے  بڑھتے  میں بے  ہوش ہو گیا، مجھے  ہسپتال لے  جایا گیا، ڈاکٹروں نے  ہارٹ اٹیک بتایا، میں ۲۴ روز ایمرجنسی اور I.C.Uمیں رہا، کچھ طبیعت سنبھلی، چار پانچ مہینے  آرام کے  بعد دفتر جانے  لگا، ان چار پانچ مہینوں میں، میں گھر پر رہا، مجھے  موقع ملا کہ میں اسلام کو پڑھوں میں نے  تلاش کیا تو مولانا صاحب کے  بھیجے  ہوئے  ہمارے  قریب میں دوجانہ میں ایک حافظ صاحب امام تھے  ان کے  پاس جانے  لگا اور میں نے  نماز سیکھی اور نماز پڑھنے  لگا، دہلی سے  اسلام کیا ہے  ؟ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟ وغیرہ کتابیں منگا کر پڑھیں مولانا صاحب سے  ملنے  کو میرا دل بہت چاہتا تھا، ایک روز دو جانہ کے  ایک صاحب نے  بتایا کہ مولانا کا پروگرام آج باغپت میں ہے  اور مجھے  ملنے  جانا ہے، میں نے  کہا میرے  ساتھ چلیں، میرا دل بھی ملنے  کو بہت چاہ رہا ہے، ہم لوگ باغپت پہنچے، مسجد میں پروگرام شروع ہو چکا تھا تقریر کے  بعد میں مولانا صاحب سے  ملا، مولانا بہت خوش بھی ہوئے  کہ اتنے  دنوں میں ملاقات ہوئی، مجھے  اتنا کمزور دیکھ کر پریشان بھی ہوئے، میں نے  بتایا کہ مجھے  سخت ترین دل کا دورہ ہوا اور ۲۵روز میں ایمرجنسی میں رہا، پروگرام کے  بعد ایک صاحب کے  یہاں دعوت تھی، میزبان ہمیں بھی زور دے کر ساتھ لے  گئے، مولانا نے  معلوم کیا کہ چوپڑا جی آپ کاتو پرہیز چل رہا ہو گا؟ میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ حضرت آپ تو اب چوپڑا نہ کہیں، آپ نے  خود میرا نام عبداللہ رکھا تھا، مولانا صاحب نے  کہا کہ اچھا عبداللہ صاحب آپ کے  لئے  پرہیز کا انتظام کریں ؟ میں نے  کہا : مولانا صاحب آپ کے  ساتھ کھاؤں گا وہ مجھے  بیمار کرنے  کے  بجائے  اچھا ہی کرے  گا، مولانا صاحب سے  میں نے  بتایا کہ میں نے  آپ کی امانت پڑھی، اصل میں تو آپ کے  ساتھ رہ کر ہی میں کافی حد تک مسلمان ہو گیا تھا، مگر آپ کی امانت پڑھنے  کے  بعد تو مجھے  اندر سے  اطمینان ہو گیا اور میں نے  تنہائی میں مالک کو حاضر ناظر جان کر دوبارہ کلمہ پڑھا اور پھر عدالت میں سرٹیفیکٹ بھی جمع نہیں کیا اور اللہ کے  شکر سے  یہ حافظ صاحب جانتے  ہیں، پانچوں وقت نماز پڑھتا ہوں اور آپ میری نماز سن لیجئے، جب میں نے  نماز اور جنازے  کی دعا سنائی تو مولانا مجھے  کھڑا کر کے  چمٹ گئے  اور میرے  ہاتھ کو خوشی اور پیار سے  چوما، بار بار مبارکباد دی اور بتایا کہ ہم اور ہمارے  ساتھیوں نے  بہت دل سے  دعا کی تھی کہ میرے  مالک زبان سے  کہلوانے  والے  ہم ہیں آپ دل میں ڈالنے  والے  ہیں، ان کو سچا مسلمان بنا دیجئے  اللہ کا شکر ہے  میرے  مالک نے  ان گندے  ہاتھوں کی لاج رکھ لی۔

سوال  :آپ کے  گارڈ جن کا آپ ذکر کر رہے  تھے، مہندر، آپ نے  پھر ان کے  ایمان کی فکر نہیں کی؟

جواب  : احمد صاحب میں اس کی فکر کہاں کرنے  والا تھا، وہ تو بہت اونچا اڑا۔

سوال  : وہ آج کل کہاں ہیں ؟

جواب  : وہ تو جنت میں ہے، جنت میں۔۔

سوال  : وہ کس طرح ؟ ذرا سنائیے ؟

جواب  : میں بتایا نا کہ وہ بہت دھارمک (مذہبی ) آدمی تھا، وہ جاٹ فیملی سے  تعلق رکھتا تھا، پھلت سے  آ کر تو بس اس کے  آگ سی لگ گئی، اس نے  آپ کی امانت پڑھی، تو پڑھ کر میرے  پاس آیا اور کہنے  لگا سر! آپ نے  وہ کتاب پڑھی ؟ میں نے  کہا کہ ابھی نہیں پڑھی، اس نے  کہا کہ سر آپ نے  بڑی نا قدری کی، دو روز سورگ میں رہ کر بھی آپ کو وہاں کا مزا نہ لگا، سر آپ وہ کتاب ضرور پڑھیں، میں اب سچا مسلمان ہوں، میں نے  اپنا نام محمد کلیم رکھا ہے، سرآپ تو اب مجھے  محمد کلیم ہی کہا کریں، اس کے  بعد اس کو دین سیکھنے  کا شوق لگ گیا، روہتک میں چورا ہے  پر ایک مسجد ہے  اس کو لال مسجد کہتے  ہیں، کہتے  ہیں، یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے، یہاں پر بہت بڑے  پیر اور مولانا صاحب رہتے  تھے، جنھوں نے  پورے  ہندستان میں دین پھیلایا، ان کا نام ہی ولی اللہ تھا، وہ اس مسجد کے  امام کے  پاس روز جاتا تھا اور پھر چار مہینے  کی چھٹی لے کر جماعت میں چلا گیا، ڈاڑھی رکھ کر آیا، ایک دن میں کسی کام سے  دہلی گیا تھا، وہ مجھ سے  جمعہ کی نماز پڑھنے  کی اجازت لے  کر گیا، دفتر سے  وضو کر کے  گیا، سڑک پار کر رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل والے  نے  ٹکّر ماردی، سر کے  بل گر ا اور سر میں چوٹ آئی، بے  ہوش ہو گیا، ڈرائیور نے  مجھے  بتایا، ہم اسے  اسپتال لے  کر گئے، آٹھ روز تک پنتھ میں رہا، مگر ہوش نہیں آیا، گھر والے  علاج کرتے  رہے، ۱۵ روز کے  بعد میں اس کو اسپتال میں دیکھنے  گیا، وہ بے  ہوش تھا اچانک اس کے  پاؤں ہلے، میں نے  آواز دی، اس نے  آنکھ کھول دی، مجھے  اشارہ سے  قریب کیا اور آہستہ سے  بولا، سر میرا سرٹیفیکٹ قبول ہو گیا، زور سے  ایک با ر  کلمہ پڑھا اور چپ ہو گیا، (روتے  ہوئے ) وہ مجھ سے  بہت آگے  نکل گیا، واقعی بہت سچا آدمی تھا۔

سوال  : اب وہ کہاں ہے  ؟

جواب  : احمد بھائی میں یہی تو کہہ رہا ہوں، پھر وہ ہمیشہ کے  لئے  چپ ہو گیا، وہاں اس کی یہ زبان چپ ہو گئی، مگر وہ ہمیشہ میرے  کان میں کہتا ہے، سر میرا سرٹیفیکٹ قبول ہو گیا، لا الہ الا اللہ  محمد رسول اللہ اس دن سے  میں روز اپنے  اللہ سے  دعا کرتا ہوں کہا اے  اللہ ! آپ نے  ایک سچے  کا سرٹیفیکٹ تو قبول کر لیا، ا س سچے  کے  صدقہ میں  بلکہ اپنے  سچے  رسول کے  صدقہ میں مجھ فراڈ کا جعلی سرٹیفیکٹ بھی قبول کر لیجئے  ( روتے  ہوئے )

سوال  : آپ کی بیوی کہاں ہیں ؟ آپ کے  کوئی بچہ بھی ہے ؟اس بارے  میں آپ نے  نہیں بتایا۔

جواب  : میں خود ہی آپ کو ان کے  بارے  میں بتانے  والا تھا، ہوا یہ کہ پانچ وقت کی نماز کے  ساتھ میں نے  ایک زمانہ سے  تہجد پڑھنی شروع کی تھی، پھلت میں اس آدھی رات کی عبادت میں، میں نے  بڑا مزا دیکھا، ایک رات میں نے  اپنی بیوی کو خواب میں دیکھا، ایک کٹہرے  میں بند ہیں اور مجھ سے  فریاد کر رہی ہیں، میں جیسی بھی ہوئی ہوں، آپ مجھے  اس کٹہرے  سے  نکال دیں، میرے  گھر والوں نے  مجھے  کتنا کہا، کہ میں دوسرے  سے  شادی کر لوں مگر میں نے  کبھی گوارہ نہیں کیا، جب میں آپ کی ہوں تو آپ کے  علاوہ مجھے  کون اس کٹہرے  سے  نکالے  گا اور بہت رو رہی ہے  مجھے  ترس آ گیا، میں نے  دیکھا، بڑا تالہ لگا ہوا ہے، چابی میرے  پاس نہیں ہے، میں بہت پریشان ہوا کہ اس تالہ کو کیسے  کھولا جائے، اچانک میرا گارڈ کلیم (مہندر) آ گیا اور جیب سے  چابی نکال کر بولا، سر! یہ  لا الہ الا اللہ، کی چابی ہے  آپ اپنی میڈم کو کیوں نہیں نکالتے  ؟میری آنکھ کھل گئی، صبح کے  تین بجے  تھے، میں نے  وضو کیا نماز پڑھی، مجھے  خیال آیا کہ اس عورت نے  ساری جوانی میرے  لئے  گنوا دی، حتیٰ کے  خرچ بھی مجھ سے  لیا، میکے  والوں کے  یہاں رہنا بھی گوارہ نہ کیا مجھے  بہت یاد آئی، اکیلے  رہنے  رہتے  میں بھی تنگ آ گیا تھا، ٹوٹے  ہوئے  دل سے  میں نے  اپنے  بے  کس ہاتھ اللہ کے  آگے  پھیلا دیے، میرے  مولا! میرے  کریم ! میرے  رب میں نے  اب سارے  جھوٹے  خداؤں کو چھوڑ کر آپ کی بندگی کا عہد کیا ہے  اور کون سا در ہے، جو میرا سوال پورا کرے  گا؟ میرے  اللہ جب اس نے  میری رہ کر ساری جوانی گنوا دی، تو پھر آپ اس کو میرے  پاس بھیج دیجئے، آپ کے  لئے  کچھ مشکل نہیں جب آپ ایک گنگا رام اور مہندر کا دل پھیر کر عبداللہ اور کلیم بناسکتے  ہیں، تو آپ ایک سریتا دیوی کو فاطمہ یا آمنہ بنا کر میری مسلمان بیوی کیوں نہیں بناسکتے، میں نے  بہت دعا کی اور میرا رواں رواں میرے  ساتھ دعا میں شریک تھا، میرے  خواب کی وجہ سے  مجھ پر توحید کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔

سوال   :  پھر کیا ہوا؟

جواب  : ایک گندے  بھکاری بندہ نے  کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا، یہ کیسے  ممکن تھا کہ دروازہ نہ کھلتا، دو روز گذرے  تھے، تیسرے  روز میں اپنے  گھر میں، دو پہر کو بیٹھا تھا، گھنٹی بجی، میں نے  نو کر سے  دروازہ کھولنے  اور دیکھنے  کے  لئے  کہا، میری آنکھ حیرت سے  پھٹی کی پھٹی رہ گئی، جب میں نے  دیکھا کہ بجائے  اس کے  کہ نو کر آ کر مجھے  بتاتا کہ فلاں صاحب آئے  ہیں، دونوں بچوں کیساتھ سریتا میرے  سامنے  تھی، وہ آ کر مجھ سے  چمٹ گئی  دس سال بعد میں نے  اس کو دیکھا تھا وہ جوانی کھو چکی تھی، بلک بلک کر دیر تک روتی رہی، بیٹا بیٹی جو اب بڑے  ہو گئے  تھے، وہ بھی رونے  لگے، کہنے  لگی جب آپ نے  میرے  ساتھ پھیرے  پھرے  ہیں، تو، میری عزت میرا دل آپ کے  علاوہ کون رکھے  گا، میں نے  اس کو تسلی دی اور میرے  دل میں چونکہ یہ بات تھی، کہ میرے  اللہ نے  میرے  گندے  ہاتھوں کو یہ بھیک دی ہے، اس لئے  یہ آئی ہے  مگر میں نے  پھر بھی اس سے  کہا کہ اب بات ہاتھوں سے  نکل گئی ہے  اس نے  پوچھا، کیوں ؟ میں نے  کہا میں اب مسلمان ہو گیا ہوں اس نے  کہا میں نرک میں بھی آپ کے  ساتھ رہوں گی، میں آپ کی بیوی ہوں آپ کے  ساتھ رہوں گی، میں آپ کی ہوں آپ کی رہوں گی، میں نے  اس سے  کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا وہ فوراً تیار ہو گئی، میں نے  کلمہ پڑھوایا اور اس کا نام آمنہ رکھا، بچوں کا نام حسن اور فاطمہ رکھا، اصل میں ہوا یہ کہ وہ اپنے  میکہ میں الگ کمرہ میں رہتی تھی، بچوں کی لڑائی میں اس کی بھابھی کے  ساتھ اس کی لڑائی ہو گئی، اس نے  اس کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر تو کسی لائق ہوتی تو پتی کے  در کو کیوں چھوڑتی، اگر اصل کی ہوتی تو پتی کے  ساتھ ستی ہو جاتی، جسے  پتی نے  دھتکار دیا وہ عورت کیا ڈائن ہے، بس اس کے  دل کو لگ گئی یہ تو بہانہ ہو گیا ورنہ میرے  رب کو تو مجھے  بھیک دینی تھی الحمدللہ ڈیڑھ سال سے  وہ میرے  ساتھ ہے، ہم خوشی خوشی اسلامی زندگی جی رہے  ہیں۔

سوال   :عبداللہ صاحب، واقعی یہ قبولیت دعا کا عجیب واقعہ ہے، آپ کو کیسا لگا؟

جواب  : احمد بھائی اس واقعہ کے  بعد میرا میرے  اللہ کے  ساتھ ایک دوسرا ہی تعلق پیدا ہو گیا، میرا اب یہ حال ہے  کہ مجھے  ایسا یقین ہے  کہ اگر میں اپنے  اللہ سے  آج ضد کروں کہ آج سورج پچھم سے  نکالئے  تو میرے  اللہ ضرور پورا کریں گے۔

سوال  :آپ بڑے  خوش قسمت ہیں، قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

جواب  : میری آپ سے  اور سبھی سے  درخواست ہے  کہ میرے  لئے  اس کی دعا کریں کہ اللہ میرا ایمان اور سجدہ کی حالت میں خاتمہ فرمائیں، میں نے  اپنی بیوی کو وہ سرٹیفیکٹ دیا ہے، کہ میں مر جاؤں، وہ میری قبر میں میرے  کفن کے  ساتھ سرٹیفکٹ رکھ دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا یہ جعلی سرٹیفیکٹ قبول کر لے   بلکہ میرے  لئے  کیا ساری دنیا کے  لئے  بھی میری یہی دعا ہے  اور سب سے  دعا کی درخواست ہے  کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کے  ساتھ موت عطا کرے۔

سوال   : آمین !بہت بہت شکریہ، عبداللہ صاحب آپ کو جلدی بھی ہے، ابی بتا رہے  تھے  کہ ڈاکٹر صاحب سے  وقت لیا ہوا ہے، معاف کیجئے  آپ کی باتیں ایسی دلچسپ تھیں، دل چاہتا تھا کہ کچھ اور باتیں کروں، باقی، انشاء اللہ کسی دوسری ملاقات میں۔

جواب   : بہت بہت شکریہ، فی امان اللہ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان اپریل۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

دعائے  مغفرت کی درخواست

آپ کو یہ خبر سن کر یقیناً حیرت، رشک و افسوس ہو گا کہ جناب عبداللہ صاحب (گنگا رام چوپڑا جی) جمعہ کے  روز ۱۸/مارچ ۲۰۰۵ء کو عشاء کی نماز میں سجدہ کی حالت میں اپنے  ہادی و خالق اللہ کے  حضور میں حاضر ہو گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،   حیرت اس بات پر کہ عبداللہ صاحب کا اللہ کے  ساتھ کیسا قوی تعلق تھا، جو مانگا اللہ پاک نے  عطا فرمایا، رشک اس پر کہ اے  کاش کہ ایسی پیاری موت اللہ ہمیں بھی عطا فرمائے، افسوس اس پر کہ اللہ کا ایک نیک بندہ اس دنیا سے  چلا گیا، قارئینِ ’’نسیم ہدایت کے  جھونکے  ‘‘سے  ان کے  لئے  دعائے  مغفرت کی درخواست ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جناب محمد لیاقت صاحب {چوبل سنگ} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ   : السلام و علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمد لیاقت    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : لیاقت صاحب اچھا ہوا کہ آپ آ گئے  مجھے  آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔

جواب  :  پھلت میں تو آتا ہی رہتا ہوں مگر آپ کے  ابا کا ملنا تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے  جب آؤ معلوم ہوتا ہے  سفر میں ہیں میں نے  ایک روز افتخار بھیا سے  فون پر معلوم کیا کہ مولانا صاحب کہاں ملیں گے  وہ کہاں رہتے  ہیں انھوں نے  کہا (ا۶۳۰)میں رہتے  ہیں یعنی کار میں رہتے  ہیں خیر بھیا احمد آپ سناؤ آپ کو کیا باتیں کرنی ہیں۔

سوال   : برائے  کرم اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

جواب  : بھیا میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں مجھ سے  دیسی بھاشا میں بات کرو۔

سوال  : میرا مطلب یہ ہے  کہ آپ اپنے  بارے  میں بتائیں، اپنے  خاندان اور گھر والوں کے  بارے  میں سنائیں۔

جواب  : میرا نام اب اللہ کا شکر ہے  محمد لیاقت ہے  کچھ سال پہلے  میرا نام چوبل سنگھ تھا، ہم مظفر نگر ضلع کی تحصیل جانسٹھ کے  ایک گاؤں کے  رہنے  والے  ہیں ہم لوگ گوجر برادری سے  تعلق رکھتے  ہیں اچھے  کسان ہیں ہم پانچ بھائی ہیں اللہ کا شکر ہے  کہ چار بھائی پورے  خاندان کے  ساتھ اسلام قبول کر چکے  ہیں میرے  بڑے  بھائی گاؤں کے  بڑے  چودھری کانگریس کے  علاقے  کے  اچھے  لیڈر ہیں وہ ابھی ہندو ہیں میرا نمبر دوسرا ہے  مجھ سے  چھوٹے  بھائی جن کا پہلا نام رام سنگھ تھا ان کا نام محمد ریاست ہے  ان سے  چھوٹے  جن کا پہلا نام پرکاش چند تھا اب ان کا نام محمد فراست ہے  میرے  چھوٹے  بھائی جن کا پہلا نام راجیندر سنگھ تھا محمد بشارت ہے  میرے  دو لڑکے  اور دو لڑکیاں ہیں اور ریاست کے  دو لڑکے  اور ایک لڑکی ہے، فراست کے  تین لڑکے  ہیں اور بشارت کے  دو لڑکے  اور چار لڑکیاں ہیں اس طرح ابھی تک اللہ کے  کرم سے  ہمارے  خاندان کے  ۲۴ لوگ مسلمان ہو چکے  ہیں اللہ کا شکر ہے  سب بچے  پڑھ رہے  ہیں چاروں بھائیوں کے  پانچ بچے  اور تین بچیاں حفظ کر رہی ہیں۔

سوال   : اپنے  اسلام قبول کرنے  کا واقعہ سنایئے، آپ کے  مسلمان ہونے  کا کیا سبب ہوا؟

جواب  : بھیا مالک کی مہربانی ہوئی مجھے  شیوجی کی مورتی نے  مسلمان ہونے  کو کہا۔

سوال  : شیوجی کی مورتی نے  وہ کیسے ؟

جواب  : اب سے  شاید نو سال پہلے  کی بات ہے  کہ ہمارے  یہاں گنیّ کا بھاؤ اچھا رہا اور فصل بھی بہت اچھی ہوئی ہم نے  اپنا پرانا مکان گرا کر نیا مکان بنایا، نئے  مکان میں ایک چھوٹا کمرہ پوجا کے  لئے  بنایا، خوب ٹایل وغیرہ لگائے، گھر میں ایک چھوٹا سامندر بنا لیا، اس میں لگانے  کے  لئے  شیوجی کی مورتی خریدنے  کے  لئے  مظفر نگر گیا، ایک قیمتی مورتی پانچ ہزار روپے  کی خریدی، دوکاندار نے  اس کو ایک اخبار میں پیک کر کے  دے  دیا، میں مظفر نگر میں شیو چوک سے  پہلے  ایک مسجد کے  سامنے  سے  گذر رہا تھا اچانک میرے  دل میں خیال آیا بلکہ میرے  اللہ کی طرف سے  ہدایت کی ہوا چلی، میں نے  سوچا اگر یہ مورتی میرے  ہاتھ سے  چھوٹ جائے  تو یہ گرے  گی اور گر کر ٹوٹ جائے  گی، جو گر کر خود ٹوٹ جائے  وہ بھگوان میرے  کس کام آ سکتا ہے  ؟ یہ خیال آ ہی رہا تھا کہ مورتی میرے  ہاتھ سے  چھوٹ کر گری اور اسطرح گری جیسے  کسی نے  میرے  ہاتھ سے  چھین کر دے  ماری ہو، گر کر دو چار ٹکڑے  ہو کر چور چور ہو گئی جیسے  کسی نے  ارادتاً اسے  چور چور کیا ہو، میرے  دل و دماغ میں انقلاب آ گیا اور میں نے  اپنے  آپ سے  کہا کہ مسلمانوں کا دھرم ہی اچھا ہے  ان کا خدا نہ ٹوٹے  نہ پھوٹے  ہر جگہ موجود، بس ایک کی پوجا کرو اور آرام سے  رہو اس خیال میں جذباتی ہو کر میں سامنے  مسجد کی طرف چڑھ گیا اور اونچی مسجد میں زینہ چڑھ کر داخل ہونا پڑتا ہے  وہاں ایک صاحب رہتے  ہیں وہ حضرت جی کا ندھلہ والوں کے  مرید بھی ہیں کالے  کپڑے  پہنتے  ہیں ان سے  میں نے  کہا میاں جی مجھے  مسلمان کر لو، وہ ہچکچائے  میں نے  ان سے  زور دے کر کہا شک نہ کرو گھبراؤ نہیں میں خوب سمجھ کر آیا ہوں مسلمانوں کا دھرم ہی سچاہے، ان کا خدا نہ ٹوٹے  نہ پھوٹے  ہر جگہ موجود ہر ایک کو دیکھتا ہے، مجھے  مسلمان کر لو وہ بھی میرے  جذبہ سے  متاثر ہو گئے  انہوں نے  کلمہ پڑھایا اور میر ا نام محمد لیاقت رکھ دیا، کلمہ پڑھنے  اور اسلام میں آ جانے  کے  بعد میں نے  اپنے  من میں ایک عجیب سکون و شانتی محسوس کی، میں خوشی خوشی گھر گیا گھر والے  معلوم کرنے  لگے  کہ مورتی کیوں نہیں لائے  میں نے  کہا کہ بتا دوں گا، رات میں سب سے  پہلے  میں نے  اپنی بیوی کو بتا یا بیوی پورا قصہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کہنے  لگی میں تو خود بہت دنوں سے  مسلمان ہونے  کو سوچتی تھی مسلمان گھروں میں جب جاتی تھی تو مجھے  مسلمان عورتیں نماز پڑھتی بہت اچھی لگتی تھیں ایک لڑکی ہے  شائستہ، وہ مجھے  تبلیغ کی کتاب بھی سناتی تھی میں نے  اس سال تین جمعوں کے  روزے  بھی رکھے  ہیں، میں جمعہ کو اس کو اپنے  گاؤں کے  امام صاحب کے  پاس لے  گیا اور مع بچوں کے  کلمہ پڑھوایا میری بیوی کا نام امام صاحب نے  فاطمہ رکھ دیا بچیوں کا نام عائشہ اور زینب اور لڑکوں کا محمد حامد اور محمود احمد رکھا۔

سوال  : اسکے  بعد باقی بھائیوں نے  کس طرح اسلام قبول کیا؟

جواب  : میرے  تینوں بھائیوں اور ان کے  پریوار نے  آپ کے  والد صاحب کے  یہاں اسلام قبول کیا، میری بیوی اور بچوں کے  کلمہ پڑھنے  کے  بعد میں نے  سب سے  چھوٹے  بھائی راجندر کے  سامنے  بہت محبت اور دردسے  بات رکھی اس نے  اپنی گھر والی سے  مشورہ کیا وہ راضی ہو گئی مگر ہمارے  یہاں جو امام تھے  وہ گاؤں سے  چلے  گئے  دوسرے  امام صاحب جو آئے  انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  منع کر دیا، وہ ڈر گئے  میں نے  گاؤں کے  کچھ مسلمانوں سے  ذکر کیا انہوں نے  مجھے  پھلت جانے  کا مشورہ دیا دو پہر کو پھلت پہنچے  مولانا کلیم صاحب سفر پر جانے  کے  لئے  گاڑی میں بیٹھ چکے  تھے  میں نے  گاڑی میں ان سے  ملاقات کی اور اپنے  بھائی اور بھابھی کو ملوایا، وہ گاڑی سے  اترے  ہمیں کلمہ پڑھوایا اور قانونی کاروائی کا طریقہ بتایا، ا پنے  سامنے  کھانا کھلایا چائے  پلائی اور ڈیڑھ گھنٹے  بعد سفر پر گئے، ہمیں ہندی کی کتابیں بھی دیں اور باقی بھائیوں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے  بچانے  کی فکر کے  لئے  ان کو اسلام کی دعوت دینے  کا وعدہ مجھ سے  لیا، گھر جانے  کے  بعد میں نے  وہ کتابیں پڑھیں اور پھر گھر کے  لوگوں کو سنائیں، خاص طور پر آپ کی امانت مولانا صاحب نے  بڑے  درد کے  ساتھ لکھی ہے، وہ دل کے  اندر گھسنے  والی کتاب ہے  اس کو پڑھنے  کے  بعد اسلام کی قدر ہم نے  اور پہچانی، دوسال میں کوشش کرتا رہا اور اللہ کا کرم ہے  کہ میرے  اور دو بھائی اور انکے  بچے  مسلمان ہونے  کو تیار ہو گئے  اور میں نے  انہیں پھلت لا کر کلمہ پڑھوایا۔

سوال   : گھر کے  لوگوں نے  بات مان لی ؟خصوصاً عورتوں کا ماننا تو بہت مشکل ہے۔

جواب  : اصل میں اللہ کی طرف سے  ہدایت کی ہوا چل رہی تھی جب بھی تو شیو کی مورتی نے  مجھ سے  کہا میں پوجا کے  لائق نہیں ہوں اور اسلام ہی سچا مذہب ہے، مورتی ٹوٹ گئی تو میں عیسائی بن جاتا، بودھ مذہب کو پڑھتا یا جاننے  کی کوشش کرتا، مگر مسجد کے  سامنے  میرے  دل میں کوئی خیال ہی نہیں آیا، یہ صرف اللہ کی طرف سے  ہدایت کا فیصلہ اور اس کی رحمت تھی، پرکاش کی بیوی مایا نے  تو شروع میں بہت مخالفت کی اور پورے  علاقہ میں شور مچانے  کی دھمکی دی، مگر ہم  لوگ اس کے  پیر پکڑ لیتے  اور راتوں کو اللہ سے  دعا کرتے، اللہ نے  اس کا دل پھیر دیا۔

سوال   : اسلام قبول کرنے  کی خبر سے  ہندوؤں نے  مخالفت نہیں کی اور خاندان کے  لوگوں کی طرف سے  آپ لوگوں پر دباؤ نہیں پڑا؟

جواب  : میں اب یہ بتانے  جا رہا تھا کہ میرے  چھوٹے  بھائی راجندر نے  اسلام قبول کیا تو ہمارے  بڑے  بھائی نیتا جی کو اس کا پتہ لگ گیا وہ آپے  سے  باہر ہو گئے، لاٹھی لے کر ہم دونوں کو بہت مارا، ہم دونوں مار کھاتے  رہے  اور انکی خوشامد کرتے  رہے  کہ آپ اسلام کے  بارے  میں جان تو لیں مگر وہ سننے  کو تیار نہ تھے، انہوں نے  دباؤ دینے  کے  لیے  علاقے  کے  تھانے  دار کو دو ہزار روپئے  دیئے، میں تو بھاگ کر پھلت چلا گیا، چھوٹے  بھائی کو پولس لے  گئی اور تھانے  میں بہت پٹائی کی چھوٹا بھائی بشارت کسی طرح تیار نہ ہوا تو انہوں نے  اس کو طرح طرح سے  اذیت دی اور شکنجہ لگایا جس سے  اس کی ایک پاؤں کی ہڈی بھی دو جگہ سے  ٹوٹ گئی، مجھے  دو روز بعد کسی طرح پتہ لگا، رات کو اندھیرے  میں اسے  تانگے  میں ڈال کر گھر سے  اٹھا کرلایا اور مظفر نگر ڈاکٹر خان کے  یہاں پلاسٹر کرایا مولانا کلیم صاحب کے  پر چہ کی وجہ سے  ڈاکٹر خان صاحب نے  کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ ہمارے  کھانے  کا انتظام بھی اپنے  آپ کیا، اسکے  بعد ہم نے  قانونی کاروائی پوری کی اور مشورہ سے  ایس پی اور کلکٹر کے  یہاں درخواستیں لگائیں، مظفر نگر میں ایک اے  ایس پی جین صاحب تھے  وہ بڑے  اچھے  آدمی تھے  انہوں نے  مظفر نگر سے  ایک داروغہ کو ہمارے  تھانے  بھیجا اور ہمارے  بڑے  بھائی اور گاؤں والوں کو بھی خبر دار کیا، اس طرح ہمارے  اللہ نے  ہمارے  لئے  مصیبت سے  بچنے  کا انتظام کر دیا۔

سوال   : اب آپ کے  بڑے  بھائی نیتا جی کا کیا حال ہے ؟

جواب  : اصل میں انکے  کوئی اولاد نہیں ہے، انہوں نے  ریاست عرف رام سنگھ کے  چھوٹے  بچے  کو گود لے  رکھا تھا، اس مسئلہ کے  بعد ہم لوگوں نے  مشورہ کیا کہ اپنے  لڑکے  کو واپس لے  لیں اور اسکو ان کے  گھر جانے  سے  روک دیا اس کو پیار سے  گڈو کہتے  تھے  اس کا پہلا نام رام پال تھا اب محمد بلال ہے، اسکو مدرسہ میں پڑھنے  بھیج دیا ایک دن بڑے  بھائی نیتا جی کے  پیٹ میں درد ہوا کئی انجکشن لگے  درد ٹھیک نہیں ہوا، میں مظفر نگر جماعت میں گیا ہو ا تھا گڈو کو معلوم ہوا تو وہ انکے  پاس گیا وہ دردسے  رو رہے  تھے  گڈو کو چمٹا کر خوب روئے  اس نے  ان سے  کہا کہ ڈیڈی لیاقت تاؤ سے  دعا کرالو، وہ ان کو ڈیڈی کہتا تھا وہ اس پر ناراض ہوئے  ایک ہفتہ تک مظفر نگر اور مختلف ڈاکٹروں کے  علاج کے  باوجود بھی درد ٹھیک نہیں ہوا، تھوڑی بہت دیر دوا کے  اثر سے  آرام ہو جاتا تھا اور پھر وہ تڑپنے  لگتے  تھے، گڈو نے  بار بار ان سے  مجھ سے  دعا کرانے  کے  لئے  کہا ایک دن ریاست سے  معافی مانگنے  کے  لئے  بھی کہا، میں دس دن جماعت میں لگا کر کر آیا تو معلوم ہوا کہ بھائی صاحب دو بار میرے  گھر آئے، میں سوچ رہا تھا کہ مجھے  ان کی طبیعت پوچھنے  جانا چاہئے  یہ میرا اسلامی فریضہ ہے، کہ وہ خود کراہتے  کولتے  آ گئے، مجھ سے  چمٹ گئے، خوب روئے، ریاست بھی آ گیا اس سے  بھی لپٹ گئے  اور معافی مانگنے  لگے  ہم سبھی رونے  لگے  میں نے  موقع غنیمت جانا اور کہا بھیا آپ ذراسا درد نہیں سہ سکے  ہمیشہ کی نرک کی آگ کو کیسے  برداشت کرو گے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  کہا، انہیں یہ بات اچھی تو نہ لگی مگر درد کی وجہ سے  وہ پریشان تھے، کہنے  لگے  میں ٹھیک ہو جاؤں گا تو سوچوں گا تم اپنے  اللہ سے  پرارتھنا (دعا) کرو، وہ چلے  گئے  میں نے  دو رکعت نماز پڑھی اور خوب دل سے  دعا کی اللہ کا کرم ہے  میرے  اللہ نے  میری باتوں کی لاج رکھ لی اور شام تک ان کو آرام ہو گیا اور ابھی تک ٹھیک ہیں۔

سوال  : پھر آپ نے  ان کو دعوت نہیں دی؟

جواب  : میں نے  ان کو دعوت دی اور وعدہ یاد دلایا اور ڈرایا کہ جس اللہ نے  آپ کو اچھا کیا وہ پھر بیمار کر سکتا ہے، مگر ابھی ان کے  لئے  ہدایت نہیں آئی اصل بات ہدایت کے  اوپر سے  آنے  کی مگر وہ اب ہمارے  ساتھ اچھی طرح ملتے  ہیں اور شاید ہمیں ناراض کرنے  سے  ڈرتے  بھی ہیں، دوسری ایک بڑی بات یہ ہوئی کہ ہماری زمینیں ایک ساتھ ان ہی کے  قبضہ میں تھیں ہم چاروں بھائیوں کی زمین بھی پچھلے  سال انہوں نے  ہمیں دے  دی ہے۔

سوال  : آپ نے  اپنے  خاندان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام کیا؟

جواب  : اللہ کا کرم ہے  ہمارے  چاروں بھائیوں کے  گھر والوں میں دین پڑھنے  کا شوق ہے  ہمارے  پانچ بچے  اور تین بچیاں حفظ کر رہی ہیں، ہمارا ارادہ ہے  کہ ان سب کو عالم اور داعی بنائیں گے، بلال تو بہت ہونہار ہے   بے  دھڑک اپنے  رشتہ داروں کومسلمان ہونے  کے  لئے  کہتا ہے  گھر کی تعلیم پابندی سے  ہوتی ہے  اور ایک ایک کر کے  ہم میں سے  کوئی ایک مستقل جماعت میں رہتا ہے۔

سوال   : آپ اسلام قبول کر کے  کیسا محسوس کرتے  ہیں، پچھلی زندگی کے  بارے  میں آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

جواب  : ہمارا اسلام ہمارے  مالک کا ہم پر خاص اور بہت خاص کرم ہے، میرے  اللہ کی رحمت ہے  کہ اس نے  خود شیوجی کی مورتی سے  ہمیں دعوت دلائی، مجھے  جب بھی اسلام اور پھر اپنے  خاندان کے  لوگوں کی اتنی آسانی سے  ہدایت کا خیال آ جاتا ہے  تو میرا دل میرے  اللہ کے  شکر سے  جھک جاتا ہے  کبھی کبھی تو بے  اختیار میں چلتے  چلتے  سجدہ میں پڑ جاتا ہوں، اگر خدا نہ کر ے  خدا نہ کرے  میرے  اللہ مجھ پر مہربانی نہ کرتے  اور ہم کفر پر رہتے  اور ہندو مر جاتے  تو ہم کیا کر سکتے  تھے  ہماری اللہ کی ذات پر زبردستی تو تھی نہیں، میرے  اللہ مالک کے  صدقہ جاؤں (روتے  ہوئے ) کہاں ہم گندے  اور کہاں ایمان کی دولت، الحمدللہ الحمدللہ

سوال  : اپنے  حالات کے  بارے  میں اور کچھ بتائیں ؟

جواب  : ہماری زندگی کا ہر پل اللہ کی رحمت کا نمونہ ہے، ہر دن رحمت کا کوئی کرشمہ سامنے  آتا ہے، سچی بات یہ ہے  کہ ہماری زندگی کیا دنیا کے  ہر انسان کی کی زندگی کے  ہر پل میں اسے  اللہ کی خاص رحمت دکھائی دے  گی اگر انسان کے   پاس دیکھنے  والی آنکھیں ہوں، بس انسان اس ایک سے  لو لگا لے  اور اسی کا بن جائے  اور زندگی کی ہر ضرورت اور  اپنی ہر پریشانی اللہ سے  کہے  اور اپنی ہمت بھر اس کے  دین پر چلنے  کی کوشش کرے  پھر دیکھئے  کہ وہاں سے  ہر سوال پورا ہوتا ہے  کہ نہیں،

سوال  : آپ دعا مانگتے  ہیں ؟ آپ کی دعائیں اکثر قبول ہوتی ہیں کوئی خاص واقعہ بتائیے ؟

جواب  : ہر انسان کو اپنے  اللہ سے  خوب مانگنا چاہیے  وہ سبھی کی دعائیں قبول کرتا ہے  میری تو آج تک کوئی دعا بھی لوٹائی نہیں گئی، میرے  لئے  تو زندگی کا ہر دن اللہ کی نئی رحمت کے  ساتھ آتا ہے، میں تو صبح کے  بعد انتظار کرتا ہوں کہ کیا خاص رحمت کا معاملہ سامنے  آتا ہے، میں دو روز پہلے  جماعت سے  چلہ لگا کر آیا ہوں، جماعت میں جانے  سے  پہلے  میری بیوی بیمار تھی ان کا آپریشن کرانا پڑا میرے  پچیس تیس ہزار روپیئے  خرچ ہوئے  کچھ اور بھی مسائل تھے  ہمارے  علاقہ میں جوڑ تھا ساتھیوں نے  مجھ سے  کہا کہ آپ کا جماعت میں جانے  کا نمبر ہے، میں نے  ابھی موقع نہ ہونے  کا عذر کیا، جانسٹھ کے  ایک ساتھی نے  زور دے  کر نام لکھوا دیا اور کہا کہ خرچ کی فکر نہ کرو خرچ میرے  ذمہ ہے، شاید نو مسلم سمجھ کر انھوں نے  ایساکیا، نو مسلم سمجھ کر جب میرے  ساتھ کوئی تعاون کا معاملہ کرتا ہے  تو نہ جانے  کیوں مجھے  بہت تکلیف ہوتی ہے، ہم نے  اسلام قبول کیا ہے  غیروں کے  آگے  بھکاری بننا تو اسلام نہیں ؟ میں نے  آج تک اس طرح کا تعاون نہ خود قبول کیا ہے  نہ الحمدللہ بھائیوں وغیرہ کو قبول کرنے  دیا ہے، سختی برداشت کی، ابتداء میں تو بہت مالی پریشانی رہی مگر اللہ نے  مجھے  جمائے  رکھا اور میرے  بھائیوں کو بھی ہمت دی میرا ارادہ تھا کہ اگر وقت پر خرچ کا انتظام نہ کر سکا تو منع کر دوں گا، دوسروں سے  قرض لے  کر نہیں جاؤں گا، جماعت کا وقت آ گیا خرچ کا انتظام نہ ہو سکا دوسو روپیئے  صرف میرے  پاس تھے، ساتھیوں نے  اصرار کیا، اس قدر دباؤ دیا کہ میں منع کرنے  کے  حال میں نہیں رہا اور دل میں خیال کیا کہ میں سوال تو نہیں کیا خود پیشکش کر رہے  ہیں، تو کیا حرج ہے  میں جماعت میں چلا گیا ۱۵۰۰ روپیئے  خرچ کی جماعت تھی، جماعت مرکز سے  گجرات پالن پور حلقہ میں گئی، ساتھیوں نے  پیسے  جمع کرنے  شروع کئے  تھے  ہمارے  ساتھی نے  ہمارے  پیسے  جمع کرنے  چاہے، مگر عین وقت پر میرے  دل نے  مجھے  اجازت نہیں دی میں نے  ان کو منع کر دیا اور دوسوروپیئے  ابتدائی خرچ وغیرہ کے  امیر صاحب کو دئیے  اور کہا انشاء اللہ بقیہ میں جمع کر دوں گا، جماعت پالن پور پہنچ گئی روز خرچ جمع کرنا تھا، میں نے  دو رکعت صلوۃالحاجۃ پڑھی اپنے  اللہ کے  سامنے  فریاد کی، رات کو سویا تو ہمارے  حضورﷺ کی زیارت ہوئی مجھے  تسلی دے  رہے  ہیں کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں شرمندہ نہیں کریں گے  اگلے  روز ظہر کے  بعد میں یہ دیکھ کر حیرت میں رہ گیا کہ ہمارے  بڑے  غیر مسلم بھائی نیتا جی پالن پور مرکز کے  ایک ساتھی کو لے  کر میری تلاش میں میرے  پاس آئے، میں تعجب میں تھا، تو انہوں نے  بتایا کہ دو روز پہلے  میں نے  تم کو دیکھا تم بہت رو رہے  ہو، مجھے  خیال ہوا کہ تمہارے  پاس پیسے  نہیں ہیں میں تمہارے  گھر گیا تو پتہ چلا کہ تم جماعت میں گئے  ہو، میں منشی ریاض کو لے کر دہلی مرکز نظام الدین آیا وہاں سے  تمہارا پتہ چلا کہ پالن پور گئے  ہو، احمد آباد میل سے  پالن پور آیا، یہ بتا کر دو ہزار روپیئے  دیئے  کہ وہ جو دس ہزار روپیئے  تمہارے  مجھ پر ہیں ان میں سے  دو یہ ہیں، آٹھ ہزار گاؤں میں آ کر لے  لینا ایک روز وہ میرے  ساتھ رہے  اگلے  روز واپس آئے  میں بار بار شکرانے  کی نماز پڑھتا رہا، یہ دس ہزار روپیئے  اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  کے  تھے  اور انہوں نے  دینے  کے  لئے  بالکل منع کر دیا تھا اس طرح نہ جانے  کتنے  واقعات زندگی میں روز روز ہوتے  رہتے  ہیں۔

سوال   : لیاقت بھائی واقعی آپ پر اللہ کا بڑا کرم ہے  اور آپ کا اللہ سے  خاص تعلق ہے  آپ ہمارے  لئے  بھی دعاء کیجئے۔

جواب  : مولوی احمد بھائی، اللہ کا کرم تو سب پر ہی ہوتا ہے، ہم پر یہ کرم خاص ہے  کہ وہ اپنے  کرم اور رحمت کا احساس بھی کرا دیتا ہے، آپ کے  لئے  میں کیوں دعاء نہ کروں گا آپ کی تو نسلوں کے  لئے  بھی میں دعاء کرتا ہوں، مولانا کلیم صاحب تو ہمارے  رہبر ہیں، ہمارے  بڑے  محسن ہیں، اپنے  محسن کا حق ہم نہیں پہچانیں گے  تو کون پہچانے  گا، اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں میں چمکائے

سوال   : آپ مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہیں گے ؟

جواب  : بس میرا کہنا تو یہ ہے  کہ میرے، میرے  گھر والوں کے  اسلام و ایمان پر موت کے  لئے  اور جو عزیز رہ گئے  ہیں بلکہ سارے  انسانوں کے  لئے  ہدایت کی دعاء کریں کہ اصل ہدایت کا فیصلہ اللہ کے  یہاں سے  ہو کر آتا ہے  پھر تو خود راستے  ملتے  جاتے  ہیں۔

 

منزلیں کسی کے  گھر حاضری نہیں دیتیں

راستوں پہ چلنے  سے  راستے  نکلتے  ہیں

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان مارچ ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب {کمل سکسینہ} سے  ملاقات

 

احمد اواہ         : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبدالرحمٰن   : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : آپ خیریت سے  ہیں آج کل آپ کہاں رہ رہے  ہیں ؟

جواب  : الحمد للہ خیریت سے  ہوں، آج کل میں پونہ مہاراشٹر میں رہ رہا ہوں الہ آباد جا رہا ہوں وہاں یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ میں ایک پوسٹ نکلی ہے  اسکے  انٹرویو کے  لئے  وہاں جانا ہے، راستے  میں مولانا صاحب(مولانا محمد کلیم صاحب) سے  ملنے  کے  لئے  دہلی آیا ہوں۔

سوال  : بہت اچھا ہوا آپ تشریف لائے  ہمارے  یہاں پھلت کے  میگزین ارمغان میں کچھ داعیوں اور اسلام میں نئے  آنے  والے  خوش قسمت بھائیوں کے  انٹرویو کا سلسلہ چل رہا ہے  اس سلسلہ میں آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : ضرور ضرور یہ بڑا اچھا سلسلہ ہے  اس سے  پڑھنے  والوں کو بہت فائدہ ہو گا، انشاء اللہ

سوال   : اپنا مختصر تعارف کرائیے ؟

جواب  : میرا نام اب الحمدللہ عبدالرحمٰن ہے  جو ۹/جون ۱۹۹۵ء سے  قبل کمل سار سکسینہ(کے  سی سکسینہ) تھا ہندو کا یستھ فیملی سے  میرا تعلق ہے  پرتاپ گڑھ کا قصبہ رانی گنج ہمارا آبائی وطن ہے  میرے  والد آئی پی ایس آفیسر ہیں اور آج کل مغل سرائے  میں ڈی آئی جی ہیں کایستھ ہونے  کی وجہ سے  ہمارے  یہاں اردو ہماری گھر یلو تہذیب کا لازمی جز ہوتی ہے، ہمارے  والد بہت اچھے  شاعر ہیں اور ساحرؔ تخلص ہے  میں نے  سائیکالوجی میں ایم اے  کیا اور علم نفسیات میں الہ آباد سے  ۱۹۹۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میری تاریخ پیدائش ۹/جون ۱۹۶۵ء کی ہے  اسطرح میری عمر اب تقریباًانتالیس سال ہے، مگر حقیقی عمر میری نو سال ہے  آپ سمجھ گئے  ہوں گے، میں اپنے  بہن بھائیوں میں سب سے  بڑا ہوں، میری ایک چھوٹی بہن اور ان سے  چھوٹا ایک بھائی ہے  جو انجینئر ہیں انہوں نے  روڑ کی آئی ٹی آئی سے  الیکٹرونکس میں انجینئرنگ کی ہے  پچھلے  سال بی ایچ ایل میں ملازم ہو گئے  ہیں میں آج کل پونہ میں ایک ڈگری کالج میں نفسیات پڑھا رہا ہوں۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائے ؟

جواب  : اصل میں آج دنیا میں مغرب کی حکمرانی ہے، تہذیب، کلچر، ثقافت سبھی میں لوگ ان کی ڈَگر پر چلتے  ہیں، آج کل مغربی ممالک میں ایک علم بڑا عروج پر ہے  اس کا نام انہوں نے  پیراسائیکالوجی رکھا ہے  اس میں ماور ائے  عقل باتوں اور چیزوں پر ریسرچ ہوتی ہے  اس میں ایک جز علم الہیات کا بھی انہوں نے  رکھا ہے  آپ آج کل یورپ کے  ناولوں کو دیکھیں تو اس میں ڈائن چڑیل وغیرہ کی بڑی اہمیت دکھائی دے  گی بلکہ بعض بڑے  پڑھے  لکھے  اور چاند تاروں پر کمند ڈالنے  والے  سائنس دانوں کی ذاتی زندگی میں جناّت اور آسیب وغیرہ کی داستانیں دکھائی دیں گی دراصل ہمارے  مولانا محمد کلیم صاحب صحیح کہتے  ہیں کہ انسان کی فطرت میں اور اس کی روح کی سرشت میں اللہ نے  یہ جذبہ رکھا ہے  کہ وہ کسی ایسی ذات کے  آگے  جھکے  اور اس کے  سامنے  اپنے  دل اور اپنے  دماغ اور عقل کو جھکائے  جو عقل و تصور سے  ماور ا ہو اس لئے  آدمی جب کہیں کچھ ماور ائے  عقل شعبدہ دیکھتا ہے  فوراً متاثر، مرعوب بلکہ معتقد ہو جاتا ہے، اصل میں یہ عالم ازل میں میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے  سبق کا کرشمہ ہے  اسی جذبے  کی تسکین کے  لئے  مغرب کی مادی دنیا نے  پیراسائیکالوجی کا سہارا لیا ہے۔

نوجوانوں میں اس علم میں ریسرچ کا بہت شوق بڑھ رہا ہے  میں اور میرے  تین ساتھی سائیکالوجی پر ریسرچ کر رہے  تھے  ہم لوگوں کو شوق ہوا کہ ہم جرمنی جا کر پیراسائیکالوجی میں ریسرچ کریں، میں نے  اپنے  لئے  جنوں پر ریسرچ کرنا طے  کیا، مجھے  خیال ہوا کہ اس کی بنیادی معلومات کے  لئے  ہندوستان سب سے  بہتر جگہ ہے  نوجوانی کی عمر میں مجھے  اپنے  مشن کی دھن تھی اس سلسلے  میں بہت سے  لوگوں سے  ملا، بہت سے  سیانے  اور تانترک لوگوں سے  ملنا ہوا، بہت سے  عالموں سے  ملاقاتیں کیں، بنگال کے  سفر کئے، دیوبند گیا، میں نے  بہت سے  عمل کئے  چلّے  کئے  جلالی اور جمالی پرہیز کے  ساتھ بہت سے  وظیفے  پڑھے  بہت سے  تعویذ مجھے  آ گئے  اور آسیب وغیرہ کا علاج کرنے  لگا، الہ آباد کے  بڑے  عالموں سے  ملا ندوہ بار بار آتا رہا، میری خواہش تھی کہ کوئی جن میرے  تابع ہو جائے  یا کسی جن سے  میری ملاقات ہو جائے  مگر کوئی عامل کوئی تانترک میری خواہش پوری نہ کر سکے، کئی بار عملیات کے  دوران مجھے  کچھ ڈراؤنی آوازیں بھی آئیں مگر کوئی جن مجھے  نظر نہ آیا کچھ مریضوں کے  منہ سے  جن بولا میں نے  علاج بھی کیا۔

ایک روز میں ندوہ گیا وہاں مولانا عبداللہ حسنی نے  مجھے  بتایا کہ ہمارے  ایک دوست ایک دو روز میں پھلت سے  آنے  والے  ہیں، وہ آپ کا مسئلہ حل کر سکتے  ہیں انہوں نے  مجھ سے  کہا کہ میں تو اتوار کے  روز تکیہ رائے  بریلی آ جاؤں، جون کا مہینہ تھا میں تین بجے  کے  قریب تکیہ پہنچا سب لوگ کھانے  کے  بعد آرام کر رہے  تھے  میں باہر تخت پر بیٹھا ہوا تھا ایک مولانا ضرورت کے  لئے  استنجاء خانہ گئے  واپس آئے  مجھے  بیٹھا دیکھ کر کہنے  لگے  : آپ ڈاکٹر کے  سی سکسینہ ہیں ؟میں حیرت میں آ گیا اور تعجب سے  جواب دیا : جی ہاں، مگر آپ کو میرا نام کیسے  معلوم ہوا؟وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے  ہوئے  اندر لے  گئے  اور ٹھنڈا پانی پلایا پھر بولے  میں ایک انسان ہوں مالک کا بندہ ہوں، مجھے  غیب کا علم نہیں ہے  اور اللہ کے  علاوہ کسی کو غیب کا علم نہیں ہوتا، اصل میں مولانا عبداللہ حسنی نے  مجھ سے  کہا تھا کہ ڈاکٹر کے  سی سکسینہ نام کے  ایک نوجوان آپ سے  ملنا چاہتے  ہیں وہ اتوار کے  روز تکیہ آئیں گے  میں صبح سے  انتظار میں تھا میں نے  آپ کو دیکھا تو حلیہ دیکھ کر مجھے  خیال ہوا کو آپ ہی ڈاکٹر سکسینہ ہیں اس لئے  میں نے  سوال کر لیا۔

میں اس صاف گوئی سے  بہت متاثر ہوا میں نے  جن عاملوں اور تانترکوں سے  ملاقات کی تھی ان میں سے  ہر آدمی اپنے  کمال کا معتقد بنانا چاہتا تھا، مولانا کلیم صاحب کی اس بات نے  مجھ کو بہت متاثر کیا، مجھے  خیال ہوا کہ ضرور مجھے  یہاں مدد ملے  گی یا کم از کم حقیقت معلوم ہو جائے  گی، مولانا نے  مجھ سے  کہا آپ خدمت بتائیے، میرے  لائق کیا خدمت ہے  جو اتنی شدید گرمی میں آپ نے  زحمت کی میں نے  جو اب میں اپنا پورا مدعا بتا دیا کہ میں پیرا سائیکالوجی میں ریسرچ کرنا چاہتا ہوں مجھے  اس کے  لئے  جرمنی جانا ہے، میں وہاں جانے  سے  قبل کسی جن کو تابع یا کم از کم چند روز کے  لئے  اس سے  ملاقات کرنا چاہتا ہوں مولانا عبداللہ نے  بتایا تھا کہ آپ میری اس سلسلے  میں ضرور مدد کریں گے  میں نے  اپنی پوری کار گزاری بھی سنائی، جو چلّے  اور عملیات کئے  اور نقش و تعویذ سیکھے  وہ بتائے  جس پر مولانا نے  بڑی حیرت کا اظہار کیا مولانا نے  ہنستے  ہوئے  جواب دیا آپ بہت بہادر آدمی ہیں میں تو بہت بزدل ہوں مجھے  تو جن کے  نام سے  ڈر لگتا ہے  ہمارے  گاؤں میں چند ویران مکانات اور کھنڈر پڑے  تھے  مشہور تھا کہ وہاں جن رہتے  ہیں، ہم لوگ بچپن میں پاس سے  دوڑ کر نکلتے  تھے، ڈرتے  ڈرتے  پیچھے  دیکھتے  رہتے  تھے  کہ کوئی جن آ کر دبوچ نہ لے  ایسا بزدل آدمی آپ کے  کس کام آ سکتا ہے  میں نے  کہا آپ کو میری مدد کرنی ہو گی کئی سال مجھے  مارے  مارے  پھرتے  ہو گئے  ہیں مجھے  یقین ہے  کہ آپ ضرور میری خواہش پوری کر سکتے  ہیں، میرے  بہت اصرار پر مولانا نے  کہا اول تو جس مخلوق کو اللہ نے  آزاد بنایا ہے  اس کو تابع کرنا جائز نہیں یہ ظلم ہے، جس طرح شیر کی سواری ہمارے  مذہب میں جائز نہیں، دوسری بات یہ ہے  کہ جن عملیات کے  ذریعہ لوگ جنوں کو تابع کرتے  ہیں ان میں اثر کے  لئے  ایمان لانا ضروری ہے  ایمان کے  بغیر ان میں تاثیر نہیں ہو سکتی اس لئے  اس کے  لئے  مسلمان ہونا ضروری ہے  مجھے  جن تابع کر نے  کی دھن سوار تھی اس لئے  میں مذہب کو بھی قربان کر سکتا تھا میں نے  فوراً مولانا سے  کہا میں اس کے  لئے  مسلمان ہونے  کے  لئے  تیار ہوں۔

مولانا نے  جواب دیا جلدی مت کیجئے  بات یہ ہے  کہ میری غیرت اس کو گوارہ نہیں کرتی کہ محض جن تابع کرنے  لئے  میں آپ کو کلمہ پڑھاؤں اور مسلمان کروں پھر آپ جو اسلام، جن تابع کرنے  کے  لئے  قبول کریں گے  وہ اسلام اللہ کے  یہاں کہاں قبول ہو گا، میری بات سنئے  اور اطمینان سے  فیصلہ کر لیجئے، میں اس وقت کچھ دیر آپ کو اسلام کے  بارے  میں کچھ بتاتا ہوں اس کا مختصر تعارف کراتا ہوں مجھے  امید ہے  کہ اگر آپ نے  غورسے  سن لیا اور اسلام کی حقیقت کو جان لیا تو آپ کو جن تابع کرنے  یا اس سے  ملاقات کرنے  سے  زیادہ، اسلام کی دھن لگ جائے  گی کچھ کتابیں آپ کو بتاتا ہوں آپ اسلام کو اچھی طرح پڑھ لیں اگر آپ مطمئن ہو گئے  اور آپ نے  جان لیا کہ اسلام کے  بغیر نجات نہیں ہو گی تو آپ کلمہ پڑھ کر سچے  دل سے  مسلمان ہو جائیں، مسلمان ہونے  کے  بعد میرا وعدہ ہے  کہ آپ پھلت آ جائیں میں ایک یا چند جنوں سے  ملاقات کرا دوں گا جو آپ کے  ساتھ اس وقت تک رہیں گے  جب تک آپ پوری معلومات حاصل نہ کر لیں اس کے  لئے  نہ کسی عمل کی ضرورت ہو گی نہ وظیفے  کی۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : جی میں بتا رہا ہوں، میں نے  ان کی بات سے  اتفاق کیا وہ تقریباً ایک گھنٹے  تک اسلام کے  بارے  میں بتلاتے  رہے  حضوراقدس ﷺ کی سیرت پاک کی مختصر طور پر رہنمائی کی اور مجھے  اس بات پر زور دیتے  رہے  کہ پیراسائیکالوجی میں ریسرچ اور جن سے  ملاقات سے  پہلے  ضروری یہ ہے  کہ اول وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤں اس لئے  کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کتابوں کی ایک فہرست تیار کر دی مجھے  پھلت کا پتہ بتایا مجھ سے  فون اور ایڈریس مانگا میں نے  جواب دیا کہ میرے  والد کا پر موشن ہو رہا ہے  نیا پتہ اور فون نمبر میں ڈاک سے  بھیج دوں گا اور جولائی کے  شروع میں اپنے  تینوں ساتھیوں کے  ساتھ پھلت آؤں گا، پونے  پانچ بجے  حضرت مولانا صاحب اٹھ گئے  مولانا کلیم صاحب مجھے  بڑے  حضرت مولانا علی میاں صاحب سے  ملوانے  لے  گئے  اور ان سے  میرے  مقصد میں کامیابی اور ہدایت کے  لئے  دعا کو کہا، مجھے  لکھنؤ جانا تھا اتنی دیر کی ملاقات کے  بعد میرا دل اسلام کے  لئے  کافی مطمئن ہو گیا تھا میں نے  لکھنؤ آ کر ’’ اسلام کیا ہے ‘‘ اور ’’ خطبات مدارس‘‘ دو کتابیں خریدیں جن کو سب سے  پہلے  پڑھنے  کا مشورہ دیا تھا ان کتابوں کو پڑھنے  کے  بعد مجھے  کسی طرح کوئی شبہ نہیں رہا کہ اسلام ہی اللہ کے  یہاں مقبول مذہب ہے  اور میں ایک ہفتہ کے  بعد حضرت مولانا کے  پاس تکیہ جا کر مشرف با اسلام ہوا یہ ۹/جون ۱۹۹۵ء گیارہ بجے  دن کی بات ہے  حضرت نے  میرا نام عبدالرحمٰن رکھا۔

سوال  : اس کے  بعد آپ جولائی میں پھلت آئے  تھے  ؟

جواب  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد مجھے  اسلام کے  مطالعہ کی دھن لگ گئی اور اسلام کی حقانیت اور اس کی لذت، میرے  وجود پر چھا گئی مجھے  خیال ہوا کہ مجھے  جنوں کی نہیں جنوں کے  مالک کی تلاش تھی، جو قرآن حکیم کی زبان میں شہ رگ سے  بھی زیادہ قریب تھا اسلام کا مطالعہ کرنے  اور تھوڑی تھوڑی نماز و ذکر وغیرہ سے  مجھے  یہ لگا کہ مجھ کو جنوں کے  تابع کرنے  اور ان سے  ملاقات کے  لئے  نہیں بلکہ جنوں کے  مالک کا تابع و فرماں بردار بننے  کے  لئے  اور اس کی لقا کا شوق پیدا کرنے  کے  لئے  پیدا کیا گیا ہے۔

سوال  : پیراسائیکالوجی کی ریسرچ کا کیا ہوا؟

جواب  : اسلام قبول کرنے  اور اس کا گہرائی سے  مطالعہ کرنے  کے  بعد میرے  دل و دماغ کے  پردے  اٹھ گئے  مجھے  احساس ہوا کہ مالک کائنات کی دی ہوئی یہ چھوٹی سی زندگی مجھے  اللہ کے  بندوں کو اللہ سے  ملانے  کے  لئے  دی گئی ہے  میں نے  رحمت اللعالمین کا مطالعہ کیا اس کتاب کے  مطالعہ سے  مجھ میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں رحمت اللعالمین نبی کا امتی اور ان کا پیرو سارے  عالم کے  لئے  نہیں تو کم از کم پوری انسانیت کے  لئے  خیر خواہ اور داعی بنے  بغیر ہرگز نہیں کہلاسکتا، میں نے  ارادہ کیا کہ مجھے  زندگی اسلام کی دعوت کے  لئے  وقف کرنی ہے  اور الحمد للہ میرے  اللہ نے  مجھ سے  کام لیا، میں نے  ریسرچ کا ارادہ ترک کر دیا۔

سوال  : اس کے  بعد مولانا کلیم صاحب سے  ملاقات ہوئی ؟

جواب  : کئی ماہ کے  بعد ایک بار میں تکیہ حضرت مولانا کی خدمت میں چند روز رہنے  کے  لئے  گیا مغرب کی نماز کے  بعد مولانا صاحب سے  میری ملاقات ہو گئی میں نے  ہلکی سی داڑھی رکھ لی تھی کرتا پاجامہ پہنے  ہوا تھا مجھے  اچانک ان کو دیکھ کر خوشی ہوئی، میں ان سے  چمٹ گیا وہ مجھے  نہیں پہچان سکے  جب میں نے  بتایا کہ میں ڈاکٹر سکسینہ اب عبدالرحمٰن ہوں وہ بہت خوش ہوئے  مجھے  بار بار مبارک باد دی کئی روز ہم ساتھ رہے  وہ سوچ رہے  تھے  کہ میں اب ان سے  اپنی ریسرچ کے  لئے  جن سے  ملاقات کے  لئے  کہوں گا جب کئی روز تک میں نے  اپنا مطالبہ نہیں رکھا تو انہوں نے  ایفائے  وعدہ کے  خیال سے  مجھ سے  کہا کہ اب اگر آپ کسی جن سے  ملاقات کرنا چاہتے  ہیں تو دہلی یا پھلت چند روز کے  لئے  آ جانا میں ایک یا چند جنوں سے  آپ کی ملاقات کرا دوں گا آپ ان سے  اطمینان کی حد تک معلومات حاصل کر لیں میں نے  جواب دیا کہ مجھے  اب کسی جن سے  نہیں ملنا ہے  میرے  اللہ نے  میرے  لئے  میری راہ مجھ پر کھول دی ہے۔

سوال  : اس کے  بعد آپ نے  اپنے  گھر والوں سے  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتا دیا؟

جواب  : ہمارا گھرانہ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ ہے  میں نے  چند روز کے  بعد گھر کے  لوگوں سے  بتا دیا شروع شروع میں انہوں نے  مجھے  سمجھایا اور خاندانی اور مذہبی روایات کی لاج رکھنے  کو کہا بعد میں انہوں نے  کہنا چھوڑ دیا بعض دوسرے  رشتہ داروں اور جونپور کے  بعض مذہبی لوگوں نے  مجھ پر بہت دباؤ دیا چند مرتبہ مجھے  دھمکیاں بھی دی گئیں، مگر وہ سب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے  الحمد للہ زیادہ مخالفتوں کی وجہ سے  میرے  والد نے  مجھے  دور چلے  جانے  کا حکم دیا میں اپنے  ایک دوست کے  ساتھ ممبئی چلا گیا اس کے  بعد کچھ روز تمل ناڈو میں پھر چدمبرم کے  علاقہ میں رہا وہاں پر عیسائیوں اور دلتوں میں اللہ نے  خوب دعوت کا کام لیا ہماری ایک فعال جماعت بن گئی ایک بہت بڑے  پادری فادر پیٹر جیمس نے  اسلام قبول کیا ایک بڑے  بدھ رہنما اس حقیر کے  واسطے  سے  مشرف باسلام ہوئے، پانچ سال کے  بعد میں پونے  آ گیا اور آج کل وہیں رہ رہا ہوں۔

سوال  : آپ کی شادی ہو گئی؟

جواب  : میرا ارادہ پہلے  شادی کا نہیں تھا مجھے  خیال تھا کہ خاندان کے  ساتھ مشغولی میرے  لئے  دعوتی مشن میں رکاوٹ ہو گی کم از کم وقت اور صلاحیت تقسیم ہو گی مگر ہمارے  مولانا کلیم صاحب نے  مجھے  زور دیا اور کہا کہ ہمارے  نبی ﷺ کی زندگی ہمارے  لئے  نمونہ ہے  اگر شادی دعوت میں رکاوٹ ہوتی تو آپ ﷺ ہر گز شادی نہ کرتے  شادی کے  بغیر آدمی کی زندگی ادھوری ہے  اور ایمان بھی مکمل نہیں، ہر وقت یوں بھی آدمی کے  ساتھ نفس کا خطرہ لگا رہتا ہے  میں نے  شادی کے  بارے  میں سوچنا شروع کیا حیدر آباد کے  ایک چرچ میں ہم لوگوں کی ایک دعوتی سفر کے  دوران ایک بہت مخلص عیسائی راہبہ سے  ملاقات ہوئی جس نے  یسوع کی رضا کے  لئے  اپنے  جان گھلا رکھی تھی پہلے  ان کی شادی ہوئی تھی ان کے  شوہر ان کو دھوکہ دے  کر بھاگ لئے  ان کا دل ٹوٹا اور انہوں نے  مذہبی زندگی اختیار کر لی ۴۲/سال ان کی عمر تھی مجھے  ان کے  خلوص نے  بہت متاثر کیا میں نے  ان پر کام کرنا شروع کیا اور میں اپنے  ساتھیوں سے  اجازت لے  کر پندرہ روز حیدر آباد رہا الحمدللہ اللہ نے  ان کو ہدایت دے  دی مولانا عاقل حسامی نے  ان کو کلمہ پڑھایا بعد میں، میں نے  ان سے  شادی کی پیشکش کی، انہوں نے  معذرت کی، اپنے  پہلے  تجربے  کی تلخی اور اپنی عمر کا عذر کیا میں نے  ان کو شرعی تقاضے  بتائے  وہ راضی ہو گئی اور پونہ آ کر ہم نے  نکاح کر لیا، الحمد للہ وہ بڑی وفا دار رفیقہ حیات ہیں ان کے  والد کی ساری جائیداد ان کو ملی تھی وہ وجے  واڑہ کی رہنے  والی تھی ان سے  شادی کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  روز گار کے  سلسلے  میں مجھے  فارغ کر دیا ہمارے  یہاں گزشتہ سال ایک بچی پیدا ہوئی ہے  میں نے  ان کا نام زینب رکھا ہے  میری اہلیہ کا پہلا نام لوئیس رانی تھا مولانا عاقل حسامی اس کا اسلامی نام سمیّہ رکھا تھا میں نے  شادی کے  بعد بدل کر اس کا نام خدیجہ رکھ دیا۔

سوال  : اب آپ کا مشغلہ کیا ہے ؟

جواب  : اپنی زندگی کو مولانا صاحب کے  مشورہ سے  گزارنا چاہتا ہوں انہوں نے  مجھے  حکم دیا ہے  کہ دعوتی مقاصد کے  لئے  کوئی مشغلہ ہونا چاہئے  میں نے  پونہ کے  ایک ڈگری کالج میں عارضی طور پر پڑھانا شروع کر دیا ہے  الہ آباد یونیورسٹی میں ایک ریڈر کی جگہ نکلی ہے  اس کے  لئے  جا رہا ہوں کہ اپنے  اہل تعلق اور پریاگ پیٹھ میں دعوت کا کام کرنے  کا موقع ملے  گا۔

سوال  : سنا ہے  آپ ایک عرصے  سے  دعوتی مشن میں لگے  ہیں اب تک آپ کے  واسطے  سے  کتنے  لوگوں نے  اسلام قبول کیا ہو گا؟

جواب  : ہمارے  مولانا صاحب کہتے  ہیں جو چل لئے  اس کو کیا دیکھنا جو راستہ طے  کرنا ہے  اس کو دیکھنا چاہئے، پانچ ارب لوگ اسلام سے  محروم دوزخ کی راہ پر چل رہے  ہیں ان کے  مقابلے  میں جو لوگ ہدایت یاب ہوئے  ہو بالکل نا کے  برابر ہیں، کبھی کبھی حوصلے  کے  لئے  مڑ کر دیکھ لینا بھی برا نہیں ہے، الحمدللہ ثم الحمدللہ اس حقیر کے  واسطے  سے  کم از کم دو سو لوگ تو ایسے  مشرف باسلام ہوئے  ہوں گے  جو کم از کم گریجویٹ ہیں اس کے  علاوہ بعض مقامات  پر اجتماعی طور پر بھی چند گھرانوں نے  اسلام قبول کیا ہے۔ الحمدللہ ثم ا لحمد للہ

سوال  : آپ نے  اپنے  گھر والوں پر کام نہیں کیا ؟

جواب  : واقعی میں نے  ان کا حق ادا نہیں کیا۔ ان پر سرسری طور پر کام کرتا رہا حالانکہ سب سے  زیادہ ان کا حق تھا چند ماہ سے  اپنے  والد سے  رابطہ شروع کیا ہے  پہلی چند ملاقاتوں میں تو ہنستے  تھے  اور کہا کرتے  تھے ’’ خودتو ڈوبے  ہیں صنم تم کو بھی لے  ڈوبیں گے ‘‘

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جون ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب محمد انس صاحب {ورن کمار چکرورتی} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ    : السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمدانس : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  انس بھائی آپ خیریت سے  ہیں ؟ کافی روز کے  بعد آپ سے  ملاقات ہوئی۔

جواب  : الحمد للہ خیریت سے  ہوں، واقعی بہت روز کے  بعد آ سکا، پھلت دو تین بار حاضر ہو ا مگر وہاں پر حضرت مولانا محمد کلیم صاحب سے  ملاقات نہیں ہوئی، وہ سفر پر گئے  ہوئے  تھے، اب دہلی کا پتہ معلوم کر کے  فون کر کے  یہاں آیا ہوں۔

سوال  : اللہ کا شکر ہے  آج آپ آ گئے  اصل میں پھلت سے  جوار دو ماہ نامہ ارمغان نکلتا ہے  اس میں مشرف باسلام ہونے  والے  خوش قسمت بھائی بہنوں کے  انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، تاکہ دعوت کا کام کرنے  والوں کی رہنمائی ہو، میں لکھنو سے  آیا ہوا تھا اور فکر میں تھا کہ اس ماہ کس کا انٹر ویو شائع کیا جائے، اللہ کا شکر ہے  اس نے  آپ کو بھیج دیا، میں آپ سے  ماہنامہ ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : احمد بھیا میں اس لائق کہاں ! آپ اگر کچھ معلوم کرنا چاہیں کر لیں، میرے  لئے  خوش قسمتی ہو گی کہ دعوتی میگزین میں میرا نام آئے۔

سوال  : آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

جواب  : میرا نام الحمد للہ محمد انس ہے، ۲۴مئی ۲۰۰۰ء کو اللہ نے  مجھے  پھلت میں آپ کے  والد صاحب کے  ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت عطا فرمائی میرا اصلی وطن کلکتہ ہے  میرا پہلا نام  ’ورن کمار چکرورتی  تھا ہم لوگ چکرورتی بر ہمن خاندان سے  تعلق رکھتے  ہیں میرے  والد شری ارون کمار جی بڑے  تاجر تھے  ہم لوگوں کا کلکتہ کے  ایک بڑے  بازار میں چمڑے  کی جیکٹ، پرس وغیرہ کا کاروبار تھا میں سب سے  بڑا بھائی ہوں مجھ سے  چھوٹے  دو بھائی اور بہن ہیں ایک بہن اور ایک بھائی زیر تعلیم ہیں، میں نے  انگریزی میں ایم اے  کیا ہے  میرا ارادہ انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے  کا تھا مگر میرے  والد کی بیماری اور ان کے  انتقال کی وجہ سے  مجھے  اپنی تعلیم چھوڑ نی پڑی اور دوکان پر بیٹھنا پڑا بعد میں مجھ سے  چھوٹے  بھائی بھی دوکان میں بیٹھنے  لگے، میری ایک بڑی بہن جو مجھ سے  دوسال بڑی تھی شادی کے  دوسال بعد انتقال کر گئیں، وہ مجھے  بہت پیار کرتی تھیں۔

سوال  : آپ اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں ذرا بتائیں ؟

جواب  : ۱۹۹۷ء میں میرے  والد کے  پیٹ میں درد ہوا کئی روز تک شدید تکلیف ہوئی بعد میں جانچوں کے  بعد ڈاکٹروں نے  بتایا کہ ان کی آنت میں کینسر ہے  آپریشن ہوا کچھ وقت کے  لئے  فوری آرام ہو گیا مگر پھر تکلیف بڑھی اور ڈیڑھ سال سخت تکلیف کے  بعد ۱۶ مارچ ۱۹۹۹ء میں ان کا دیہانت(انتقال ) ہو گیا، ان کے  کریا کرم میں بڑا بیٹا ہونے  کی وجہ سے  مجھے  ہی آگ لگانی تھی آگ لگانے  اور جلانے  کا درشیہ (منظر) میرے  لئے  بڑا تکلیف دہ تھا اس کریا کرم اور اس میں پنڈتوں کے  ڈھونگ سے  اور ایسے  غم کے  موقع پر طرح طرح کے  مطالبات سے  مجھے  ہندو دھرم سے  نفرت سی ہو گئی، مگر یہ نفرت ایسی نہیں تھی کہ میں کوئی بڑا قدم اٹھاتا، پانچ مہینے  بعد میری بہن کو دماغی بخار ہوا اور وہ ایک مہینے  بیمار پڑ کر انتقال کر گئی وہ مجھ سے  بے  پناہ محبت کرتی تھی مجھے  بھی اس سے  حد درجہ محبت تھی وہ چھ سات مہینے  کی حاملہ تھی ان کی انتیسٹھی ( یعنی مرنے  کے  بعد کی آخری رسومات ) کے  لئے  ہم شمشان لے  کر گئے  وہاں کے  پجاری پنڈت جی نے  لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس عورت کے  پیٹ میں بچہ ہے، اس کو تو جلایا نہیں جاسکتا اس کو تو گاڑنا (دفن) کرنا ہو گا اس بچہ کو اس کے  پیٹ سے  نکالو، میں نے   پنڈت جی سے  کہا کہ اب مری ہوئی اس بہن کا پیٹ پھاڑا جائے  گا؟ ہم سے  یہ نہیں ہو گا، انہوں نے  کہا تو پھر ہمارے  شمشان میں یہ نہیں ہو سکتا، ہم نے  کہا کہ ہم خود جلا لیں گے، انہوں نے  کہا کہ شمشان سے  باہر کہیں اور اس کا کریا کرم کر لو، میں نے  رشتہ داروں سے  اصرار کیا کہ کہیں دوسری جگہ لے  چلتے  ہیں مگر وہ نہ مانے  کہ یہ دھارمک بندھن (مذہبی پابندیاں ) ہیں ان کو ماننا چاہئے  اتنے  سارے  لوگوں کے  سامنے  میری نہ چلی اور میرے  سامنے  میری بہن کو ننگا کر کے  اس کا پیٹ چیرا گیا اور اس کا بچہ نکالا گیا، میرا دل بہت ٹوٹ گیا ا ور میں ہندو دھرم کو تھوک کر کلکتہ سے  آ گیا اور گھر بار چھوڑ آیا کچھ دن پٹنہ رہا وہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے  یہاں چھوٹے  سے  نرسنگ ہوم پر اسپتال میں ملازمت کر لی ڈاکٹر صاحب مسلمان تھے  چند روز بعد جب بے  تکلفی ہوئی تو میں نے  ان سے  اپنی دکھی داستان سنائی، وہ بہت متاثر ہوئے  اور مجھے  اسلام قبول کرنے  کا اور مجھے  دہلی جانے  کا مشورہ دیا میں جامع مسجد گیا شاہی امام عبداللہ بخاری سے  ملا، انہوں نے  کچھ مؤقر لوگوں کی تصدیق مانگی جو میرے  پاس نہیں تھی، اسکے  بعد میں ابوالفضل جماعت اسلامی کے  دفتر گیا وہاں مولانا لوگوں نے  مجھ سے  بہت سوالات کیے  پریشاں حالی اور ذہنی انتشار کی وجہ سے  شاید میں ان کو مطمئن نہیں کر سکا اور ان کو شک ہوا اسلئے  وہ مجھے  کلمہ پڑھوانے  میں دیر کرتے  رہے، دو  روز میں وہاں رہا، مجھے  بھی چوروں اور مجرموں کی طرح تفتیش سے  تکلیف ہوئی اور میں وہاں سے  چلا آیا تین ماہ تک میں کسی روزگار کی تلاش کے  لئے  اور قبول اسلام کے  لئے  بہت سے  مولانا اور اماموں کے  پاس گیا، مگر نہ جانے  کیوں ہر آدمی ڈرتا رہا، میں نے  پٹنہ واپسی کی سوچی اس لئے  کہ نہ مجھے  کوئی روزگار مل سکا اور نہ ہی چھتیس لوگوں کے  پاس جانے  کے  باوجود مجھے  کسی نے  کلمہ پڑھوایا میں نے  چار روز مزدوری کی اور کرائے  کے  پیسوں کا انتظام کر کے  پٹنہ واپسی کے  ارادہ سے  نئی دہلی اسٹیشن  ٹرین آنے  میں دیر تھی پلیٹ فارم پر میری ملاقات جوالا پور ہردوار کے  ایک مولانا اسلم صاحب سے  ہوئی بات بات میں تعارف ہوا مولانا سمجھ کر میں نے  ایک بار ان سے  بھی اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  ارادہ کو ظاہر کیا اور اتنے  لوگوں کے  پاس جانے  کے  باوجود نا کامی پر اپنے  دکھ کا اظہار کیا انھوں نے  تعجب کیا کہ آپ سے  کسی نے  پھلت کا پتہ نہیں بتایا میں نے  کہا پھلت میں کیا ہے  ؟ انہوں نے  بتایا کہ آپ پھلت جائیں آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہیں اور انہوں نے  ساتھ چلنے  کے  لئے  کہا اور کہا میں آپ کو پھلت مولانا کلیم صاحب سے  ملا کر پھر جوالاپور چلا جاؤں گا بیچارے  میرا ٹکٹ لے کر خودواپس کر کے  آئے  اور میرا ٹکٹ خود خرید ا اور کھتولی پہنچے  دوسری سواری سے  دن چھپنے  کے  بعد پھلت پہنچے  مولانا کلیم صاحب باہر اپنی بیٹھک میں بیٹھے  ہوئے  تھے  وہ ہمارے  ساتھ جانے  والے  مولانا صاحب کو جانتے  تھے  جاتے  ہی مولانا سے  میرا تعارف کرایا مولانا کلیم صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نے  سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ؟ میں نے  کہا کہ بہت سوچ سمجھ کر، جب میں اتنے  روز سے  دھکے  کھا رہا ہوں اتنے  لوگوں کے  پاس جا چکا ہوں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا، مولانا کھڑے  ہو گئے  مجھے  گلے  لگایا اور کہنے  لگے  آپ کھڑے  کھڑے  کلمہ پڑھنا چاہتے  ہیں تو کھڑے  کھڑے  پڑھ لیجئے  ورنہ بیٹھ جائیے، میں بیٹھ گیا فوراً پڑھوایا بعد میں اس کا ترجمہ کہلوایا اور میرا نام معلوم کر  کے  میرا اسلامی نام محمد انس رکھ دیا۔ الحمدللہ

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسامحسوس کیا ؟

جواب  : آپ کے  والد صاحب کے  پیار سے  گلے  لگانے  اور بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے  پہلے  مرحلہ میں مجھے  کلمہ پڑھوانے  سے  میری ساری تھکن دور ہو گئی، اتنی جگہ در در مارے  مارے  پھرنے  کا غم بالکل دھل گیا اور مجھے  ایسا لگا جیسے  میں تو مسلمان ہونے  کے  لئے  پیدا کیا گیا تھا بلکہ جیسے  جیسے  میں اسلام کو سمجھتا اور مانتا گیا مجھے  یہ محسوس ہوتا گیا کہ میں فطرتاً مسلمان ہی پیدا ہوا تھا، جو غلط ماحول میں رہنے  کی وجہ سے  میں کچھ روز ہندو رہا، ۲۴ مئی ۲۰۰۰ء کو جس روز میں نے  اسلام قبول کیا مولانا صاحب کے  پاس بہت سے  لوگ بیٹھے  ہوئے  تھے  بعد میں مولانا صاحب نے  لوگوں سے  میرا تعارف کرایا، مجھے  حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ صبح سے  آج وہاں ۹ لوگ اسلام قبول کرنے  آ چکے  ہیں اور اس سے  زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مجھ سے  پہلے  آٹھ اور میں خود نواں تھا، ہم ۹ میں سے  ایک آدمی کو بھی کسی مسلمان نے  اسلام کی دعوت نہیں دی تھی، کسی کو اسلام کی کسی چیز میں کشش محسوس ہوئی، کسی کو خود اسلام کو پڑھنے  کا شوق ہوا اور اکثر کو اپنے  مذہب کے  اندھ وشواسوں اور اندھی رسموں سے  ری ایکشن (انفعال) نے  اسلام کی طر ف آنے  کو کہا، مولانا صاحب نے  بتایا کہ ان ۹ کے  علاوہ صبح تڑکے  فیروزپور کی ایک بہن کو مولانا صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھایا ان کا نام آشا تھا، مولانا صاحب نے  ان کا نام عائشہ رکھا۔

سوال  : اس کے  بعد آپکی تعلیم و تربیت کا کیا ہوا؟

جواب  : جوالاپور والے  مولانا صاحب رات کو چلے  گئے، مولانا کلیم صاحب نے  مجھ سے  کہا کہ یہاں آپ کا گھر ہے  اطمینان سے  رہئے، انشاء اللہ کل آگے  کے  لئے  مشورہ کر لیں گے،  ۲۵مئی کو مولانا صاحب سے  کچھ مہمان ملنے  آئے، مولانا صاحب نے  کل صبح فون پر جن بہن کو کلمہ پڑھوایا تھا انکا قصہ بتایا کہ وہ پھلت آ کر کلمہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میرے  دل میں آیا کہ موت زندگی کا کچھ پتہ نہیں، اسلئے  فون پر ہی کلمہ پڑھنے  کے  لئے  اصرار کیا وہ پھلت آ کر کلمہ پڑھنے  پر اصرار کرتی رہی مگر میں نے  بہت اصرار کیا وہ مان گئی اور آج مالیر کوٹلہ سے  ایک بہن کا فون آیا کہ وہ عائشہ بہن جن کو کلمہ پڑھوایا گیا تھا ان کا رات میں انتقال ہو گیا، خود مولانا صاحب پر اس کا بڑا اثر تھا مجھ پر بھی بڑا اثر ہوا میں نے  مولانا صاحب کی کتاب آپ کی امانت آپ کی سیوا میں پڑھ لی تھی مجھ پر بجلی سی کوند گئی اگر اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  مرگیا ہوتا ہو میرا کیا ہوتا؟اور ان سبھی لوگوں پر غصہ بھی آیا کہ ایک منٹ کے  کلمہ پڑھوانے  کے  کام میں اتنا ڈرتے  رہے، میں نے  مولانا صاحب سے  اس کا اظہار بھی کیا ا ور کہا کہ اگر اس دوران میری موت آ جاتی تو میرا کیا ہوتا؟ مولانا صاحب نے  مجھے  تسلی دی کہ آپ تو ارادہ اور پکے  نیت سے  چل رہے  تھے  تو آپ نے  جب ارادہ کر لیا تھا اس وقت سے  مسلمان ہو گئے  تھے  آپ کی موت اگر آتی تو ایمان پر آتی اور مجھے  سمجھایا کہ زمانہ خراب ہے  بہت سازشیں چل رہی ہیں لوگ دھوکہ دیتے  ہیں اس لئے  لوگ احتیاط کرتے  ہیں اگر آپ ان کی جگہ ہوتے  تو آپ ان سے  زیادہ احتیاط کرتے  میں نے  ان سے  کہا کہ آپ نے  فوراً کلمہ کیوں پڑھوا دیا تو کہنے  لگے  ہم تو دیہاتی گنوار لوگ ہیں، گاؤں کے  لوگوں کو اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ بہت دور کی سوچیں ہم تو سوچتے  ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا آج تو ہم اپنا دل خوش کر لیں کہ ہمارا خونی رشتہ کا ایک بھائی ہمارے  سامنے  کفر و شرک اور اس کے  نتیجہ میں دوزخ کی آگ سے  بچ کر اسلام اور جنت کے  سائے  میں آ گیا ہے  کل کو اللہ مالک ہے  سازش ہو گی یا جو ہو گا دیکھا جائے  گا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا۔

جواب  : مولانا صاحب نے  مجھے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا، میں نے  کہا آپ جو کہیں میں تیار ہوں تیسرے  روز مجھے  مولانا صاحب دہلی لے  گئے  میرے  ساتھ دو نو مسلم ساتھی اور بھی تھے  مولانا صاحب کے  بہنوئی ہم تینوں کو مرکز نظام الدین لے  گئے  اور ایک جماعت میں ہمارا نام لکھوایا جو اگلے  روز صبح کو ۱۰ بجے  فیروزآباد جانی تھی صبح کو امیر صاحب نے  ساتھیوں کو اکٹھا کیا ہمارے  ساتھ سہارنپور کے  گاؤں کے  ایک ساتھی عبداللہ بھی تھے  انہوں نے  ایک ساتھی سے  بتلا دیا کہ ہم  تینوں نو مسلم ہیں، انہوں نے  امیر صاحب سے  بتا دیا امیر صاحب ہمیں میوات کے  ایک میاں جی جو جماعتوں کے  بھیجنے  کے  ذمہ دار ہیں انکے  پاس لے  گئے  انہوں نے  ہم سے  معلوم کیا کہ آپ نے  قانونی کاروائی کرالی؟ ہم نے  بتایا کہ ہم آ کر کرائیں گے، انہوں نے  ہمیں جماعت میں جانے  سے  روک دیا کہ آپ واپس جائیں ہم تینوں ساتھیوں کو بہت تکلیف ہوئی ہم لوگوں نے  مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے  ہمارے  تیسرے  ساتھی ذرا غصہ والے  تھے  بلال بھائی جو آگرہ کے  پاس فتح پور کے  رہنے  والے  تھے  وہ کہنے  لگے  کہ اپنے  گھر چلو، یوں کب تک دھکے  کھاتے  رہیں گے  ؟ میں نے  ان سے  کہا کہ نہیں یہ شیطان ہمیں اسلام سے  محروم کرنا چاہتا ہے، ہمیں پھلت جانا چاہئے  ہم لوگ پھلت پہنچے  مولانا صاحب تین روز کے  بعد سفر سے  لوٹے  ہمیں پھلت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئے  پوچھا آپ لوگ جماعت سے  کیوں آ گئے  ؟ میں نے  سارا واقعہ سنایا اور مجھے  بہت رونا آیا، مولانا صاحب نے  پھر مجھے  گلے  سے  لگا لیا اور ہم سے  کہا کہ آپ نے  یہ کیوں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں آپ نو مسلم کہاں ہے  ؟ پیارے  نبی ﷺ کی بات کو سچا جاننا ہی تو اسلام و ایمان ہے  ہمارے  نبی ﷺ نے  فرمایا کہ ہر پیدا ہونے  والا اسلامی فطرت پر یعنی مسلمان پیدا ہوتا ہے، اس کے  والدین اسکو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے  ہیں، تو آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں اور بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے  تو آپ نو مسلم کہاں ہیں ؟ پیدائشی مسلمان نو مسلم کہاں ہوتا ہے  ؟ آپ کچھ روز کے  لئے  مرتد ہو گئے  تھے، ہندو بن گئے  تھے، آپ نے  ہی غلطی کی کہ اپنے  کو نو مسلم کہا، آپ دیکھیں گے  کہ ہر بچہ کسی بھی مذہب کا ہو اسکو دفنایا جاتا ہے  جلایا نہیں جاتا اللہ نے  انتظام کیا ہے  کہ اس کے  مسلمان ہونے  کو وجہ سے  اسکو دفنایا جاتا ہے  آپ کی بہن کے  پیٹ سے  بھی بچہ کو نکلوا کر جلنے  سے  بچایا گیا کہ نہیں ؟

مولانا نے  اس کے  بعد مرکز کے  لوگوں کی مجبوری سنائی اور کچھ واقعات سنائے  کہ کچھ لوگوں نے  سازش کر کے  جھوٹا اسلام ظاہر کیا اور پھر بعد میں پولیس کچہری ہوتی رہی، اسلئے  وہ احتیاط کرنے  لگے، ان کو ایسا ہی کرنا چاہئے، ہم لوگ مطمئن ہوئے  اور غیر آدمی کی طرف سے  اس طرح صفائی اور ہر ایک کو بے  قصوروار ٹھہرانے  کی بات نے  میرے  دل میں بہت جگہ بنا لی رات کو میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ کے  ساتھ دو چار روز رہ کر میں نے  یہ محسوس کیا کہ اگر آپ سے  کوئی شیطان کی بھی شکایت کرے  گا تو آپ اسکو بھی بے  قصور اور اس کی مجبوری ثابت کر دیں گے، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں نے  زندگی میں تجربہ کیا کہ کسی بھی برے  سے  برے  آدمی کی جگہ جب میں اپنے  کو کھڑا کرتا ہوں کہ میں ایسے  گھرانے  میں پیدا ہوتا اور ایسے  ماحول میں تربیت پاتا اور میری سوچ اور فکر اس طرح کی نہیں ہوتی تو دشمن سے  دشمن آدمی کو بھی معذور پاتا ہوں بلکہ مجھے  تو اکثر خیال ہوتا ہے  کہ میں اس سے  زیادہ برا ہوتا، مولانا صاحب نے  کہا کہ یہ بات آپ کی تسلی یا اپنی انکساری کی وجہ سے  نہیں کر رہا ہوں بلکہ بہت تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔

سوال  : اس کے  بعد پھر کیا ہوا؟ آپ جماعت میں نہیں گئے ؟

جواب  : اگلے  روز بھائی عبدالرشید دوستم کے  ساتھ ہم لوگ میرٹھ کچہری گئے  تین لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر منشی سراج صاحب بھی پریشان ہو گئے  کہنے  لگے  حضرت سے  کہنا کہ ایک ساتھ اتنے  لوگوں کو نہ بھیجا کریں کل دو تین لوگ آئے  تھے  دو روز پہلے  دو آئے  تھے  بہرحال انہوں نے  قانونی کاروائی پوری کی دو روز کے  بعد پھر ہم مرکز پہنچ گئے  جماعت میں نام لکھوا لیا الگ الگ جماعتوں میں نام لکھ دیئے  گئے  ہم نے  کسی کو نہیں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں ساراوقت بخیر و عافیت لگا، جماعت سے  واپس آئے  تو معلوم ہوا کہ بلال کو میاں جی نے  پہچان لیا تم تو نو مسلم ہو دوچار روز پہلے  آئے  تھے  اس نے  کہا نہیں ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں، بہت دیر تک بحث ہوئی پھر انہوں نے  کاغذات دکھائے  اور وہ بھی جماعت میں گئے  ہماری جماعت کے  امیر صاحب زیادہ پڑھے  لکھے  نہیں تھے  اردو بھی بہت اٹک اٹک کر پڑھتے  تھے  انہوں نے  ہمیں نماز یا د کرا دی ایک نوجوان سے  کچھ اردو بھی پڑھ لی مگر یہ میرے  اپنے  شوق کی وجہ سے  ہوا، ہمارا جماعت میں وقت زیادہ اچھا نہیں گزرا، مجھے  جماعت میں اس کا احساس ہوا اور روز بروز تقاضا بڑھتا چلا گیا کہ ہم مسلمانوں کو دستر خوان اسلام پہ آنے  والے  مہمانوں کے  لئے  ایک تعلیم و تربیت کا نظام قائم کرنا چاہئے  اگر ان نئے  مسلموں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی مسائل کے  حل کا نظام بنا لیا جائے  تو خود بخود وہ اپنے  خاندانوں کے  لئے  اسلام کی دعوت کا بہترین ذریعہ ہوں گے  پھر ہمیں دعوت کے  لئے  زیادہ کوشش کرنے  کی ضرورت نہیں ہو گی اسلام ایک روشنی ہے  وہ خود اپنے  اندر بڑی کشش رکھتی ہے  اس سلسلے  میں کوئی تربیت کا نظام ہو اس کی بڑی ضرورت ہے  جماعت میں بھجوانا اس کا مکمل حل نہیں البتہ کچھ فائدہ تو ہوہی جاتا ہے۔

سوال  :  اب آپ کیا کر رہے  ہیں ؟آپ کی شادی ہو گئی ہے  کہ نہیں ؟

جواب  : میں آج کل پونہ میں رہ رہا ہوں بجنور ضلع کے  ایک مولانا صاحب ایک بیکری کا کاروبار کرتے  ہیں وہ مجھے  مولانا کے  حکم سے  اپنے  ساتھ لے  گئے  تھے  مولانا نسیم ان کا نام ہے  ان کی بیکری میں مینجر کی حیثیت سے  کام کر رہا ہوں الحمدللہ میں نے  قرآن بھی پڑھ لیا اور اردو بھی سیکھ لی ہے  مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ میری کوئی لڑ کی نہیں ہے  ورنہ میں تمہاری شادی ان سے  کر دیتا ہمارے  بیکری کے  قریب ایک لڑکی کلکتہ کی رہنے  والی تھی کپڑے  کے  شوروم میں استقبالیہ ریسیپشن پر کام کرتی ہے  ایک دو بار کپڑا خرید نے  گیا بنگالی ہونے  کی وجہ خیریت معلوم کی اس کے  ماں باپ کا انتقال ہو گیا تھا شادی شدہ بھائیوں میں وہ بالکل داسیوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی میں نے  مولانا نسیم صاحب سے  ا س کو ملوایا اور اس کو دعوت دی وہ تیار ہو گئی مولانا نسیم صاحب نے  اس کو اپنی بیٹی بنا لیا اور میری شادی اس سے  کر دی الحمدللہ وہ بہت اچھی مسلمان ہے  ملازمت چھوڑ دی ہے، مولانا نسیم صاحب کی اہلیہ سے  اسلام کی تعلیم حاصل کر رہی ہے  دو ماہ پہلے  میرے  ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کا نام میں نے  ابوبکر رکھا میرا ارادہ ہے  کہ اس کو عالم حافظ بنائیں گے  میری اہلیہ بھی جن کا نام فاطمہ ہے  اس کے  لئے  تیار ہے  آپ دعا کر دیجئے  وہ اچھا داعی بنے۔

سوال  : الحمدللہ آپ مطمئن ہیں گھر والوں کیلئے  بھی آپ نے  کچھ سوچا ؟

جواب  : میرے  چھوٹے  بھائی جو کارو باری ہیں ان کی شادی ہو گئی ہے  وہ آج بھی میرا احترام کرتے  ہیں دو چھوٹے  بھائی بہن میرے  پاس آ گئے  ہیں بھائی نے  انٹر کا امتحان دیا ہے  بہن نے  گیارہویں کا امتحان دیا ہے  الحمدللہ دونوں نے  کلمہ پڑھ لیا ہے  مجھے  امید ہے  میرے  باقی دونوں بھائی بھی اسلام قبول کر لیں گے  وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتے  ہیں میری والدہ نابینا ہو گئی ہیں وہ ذرا مذہب کے  سلسلے  میں سخت ہیں مگر وہ مجھے  بہت محبت کرتی ہیں۔

سوال  : بہت بہت شکریہ بات لمبی ہو گئی آپ سے  تو بہت باتیں کرنی چاہئیں مگر خیر آئندہ پھر ایک ملاقات کریں گے  دوبارہ آپ ادھر آئے  تو میرے  فون پر مجھے  اطلاع کر دیں، بتائیے  کہ آپ ارمغان کے  واسطے  سے  مسلمانوں سے  یا قارئین ارمغان سے  کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

جواب  : میں تو اپنی ضرورت ہی پیش کر سکتا ہوں کہ دوسرے  مذاہب سے  ان اسلام کی طرف آنے  والوں کی تربیت اور ان کے  معاشرتی مسائل کا نظام بنانا دعوت کی اولین ضرورت ہے  اس کے  لئے  ہمارے  بڑوں کو سوچنا چاہئے  اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے  بس ایک ٹیم کھڑی ہو جائے  جو مدینے  کی مواخاۃ سے  سبق لے  کربس یہ کام شروع کر دے  اگر ایک مسلمان، ایک آدمی یا ایک گھرانے  کی ذمہ داری لے  لے  کہ ان کی تربیت کرے  گا اور تھوڑی سی رہنمائی اس کے  روز گار کے  سلسلے  میں کرے  اور وقتی طور پر کسی کام میں لگا کر بس ضمانت لے  لے  تو یہ کام آسانی سے  ہو سکتا ہے  بڑا سرما یہ اکٹھا کر کے  اجتماعی نظام تو واقعی ذرا مشکل ہے  مگر یہ دوسرا طریقہ بہت آسان ہے۔

سوال  : بہت بہت شکریہ۔ہمارے  لئے  دعا کریں۔

جواب  :  ہمارے  لئے  بھی دعا کریں۔

 

حفاظت جس  سفینے  کی  انھیں  منظور  ہوتی ہے

کنارے  پر انھیں خود لا کے  طوفاں چھوڑ جاتے  ہیں

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان مئی۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

 جناب ڈاکٹر قاسم صاحب {پرمودکیسوانی} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ                  : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ

ڈاکٹر محمد قاسم : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : ڈاکٹر صاحب، آپ کا ذکر اکثر ابی سے  سنتے  رہتے  تھے  اور اپنے  دلچسپ دعوتی تجربات کے  ذیل میں آپ کا ذکر خیر کرتے  رہتے  تھے، آپ سے  ملاقات کا اشتیاق تھا، آپ سے  آج خوب ملاقات ہو گئی۔

جواب  : ہاں مجھے  بھی مولانا صاحب کی فیملی والوں سے  ملاقات کا اشتیاق تھا۔

سوال  : شاید آپ کے  علم میں تو نہیں ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ارمغان ‘‘ کے  نام سے  نکلتی ہے، تقریباً دو سالوں سے  دعوتی کام کرنے  والوں کے  نفع کیلئے  اسلام میں آنے  والے  نو واردوں کے  انٹر ویو شائع کئے  جا رہے  ہیں، مجھے  خود یہ خیال تھا کہ آپ سے  ضرور اس کے  لئے  انٹر ویو لیا جائے۔

جواب  : میری باتیں دعوت کا کام کرنے  والوں کے  لئے  کیا سود مند ہو سکتی ہیں، ابھی تو میری اسلام میں ابتدائی زندگی ہے۔

سوال  : آپ کی زندگی تو واقعی ہم سب کے  لئے  قابل رشک ہے  پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  : میرا پرانا نام پرمودکیسوانی تھا، میں گوہاٹی کایستھ گھرانے  میں ۱۷ جنوری ۱۹۷۴ء کو شری ہنس راج کیسوانی کے  گھر میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم انگریزی میڈیم اسکول میں ہوئی، پھر گوہاٹی میں کمپیوٹر سائنس سے  بی ایس سی کیا، اس کے  بعد دہلی سے  کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور نیویارک میں کمپیوٹر سافٹ ویئر میں بی ایس ڈی کیا، میرے  بڑے  بھائی ڈاکٹر ونودکیسوانی بہت اچھے  سر جن ہیں، نیویارک میں رہتے  ہیں، میرے  والد سائنس کے  لیکچرر تھے، میرے  نیویارک کے  قیام کے  دوران ان کا انتقال ہو گیا تھا، اب آج کل میں امریکہ کی ایک سافٹ ویر کمپنی کی گڑگاواں برانچ کا ڈائرکٹر ہوں۔

مجھے  اللہ تعالیٰ نے  اپنی ہدایت کا کرشمہ دکھا کر اس زمین سے  اوپر ایک الگ عالم میں ۶ فروری ۲۰۰۳ کو ہدایت سے  نوازا، میں نے  ایسی جگہ اسلام قبول کیا کہ شاید پوری دنیا میں بس ہم دو لوگوں کے  علاوہ کسی کو وہاں ہدایت نہ ملی ہو۔

سوال  : کچھ کچھ تو ہم نے  بھی سنا ہے، مگر آپ خود اپنی زبان سے  واقعہ سنائیے ؟

جواب  : بچپن سے  ہمارا گھرانہ ہندو مذہبی گھرانہ تھا، پہلے  ہمارے  دادا اصل میں لکھنؤ کے  رہنے  والے  تھے، وہ ملازمت کے  سلسلہ میں گوہاٹی چلے  گئے  تھے  اور وہیں پر مقیم ہو گئے، ہمارے  گھرانہ میں اردو خصوصاً لکھنؤ کی تہذیب کا خاصا اثر ایک عرصہ تک گوہاٹی میں رہنے  کے  باوجود تھا، انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھ کر میرا مذہب سے  تعلق ذرا کمزور پڑا، پھر دہلی میں کچھ ایسا ماحول ملا کہ وہاں مذہب کی بات کرنا تو گویا دیہاتی اور گنوار یا فنڈامنٹلست(بنیاد پرست) ہونا سمجھا جاتا تھا، سونے  پر سہاگا یہ ہوا کہ نیویارک میں ایم ڈی کرنے  چلا گیا، وہاں تو مذہب اور خاص کر ہندو مذہب سے  آستھا بالکل اٹھ گئی، میرے  نیویارک کے  قیام کے  دوران ۱۱/ ستمبر کا واقعہ پیش آیا، اس واقعہ سے  ٹی وی، اخبارات اور  دوسرے  میڈیا نے  مسلمانوں کو دہشت گردی خصوصاً (Islamic terrorism) اسلامی دہشت گردی کا بہت رچا کیا، میرے  ذہن میں اس وقت مسلمانوں کے  سلسلہ میں بس اتنی بات تھی کہ مسلمان پرانے  زمانے  کی داستانوں میں یقین رکھنے  والی ایک بے  حقیقت اور پسماندہ قوم ہے، مگر ۱۱/ ستمبر کے  بعد مسلمان کچھ ہیں، کیا ہیں، اسلام کیا ہے، کیوں اس کو ماننے  والے  ا س قدر اس سے  تعلق رکھتے  ہیں اور اتنی بڑی قربانیاں کیوں دیتے  ہیں، خصوصاً مسلمانوں اور اسلام سے  دنیا کو کیا کیا خطرہ ہے  اور یہ دنیا کے  امن کے  دشمن کس طرح ہیں ؟ اس طرح کے  سوال عام طور پر پوری مغربی دنیا خصوصاً امریکہ میں رہنے  والوں کے  دماغ میں اٹھ رہے  تھے  ایک زمانہ میں میڈیا سے  تعلق رکھنے  والا کوئی امریکہ کا آدمی کم از کم کسی داڑھی والے  مسلمان سے  خوف زدہ ہونے  لگا تھا، میرے  اسلام قبول کرنے  سے  چھ روز پہلے  میں نیویارک میں تھا، اپنی بھتیجیوں کو ایک پارک میں لے  کر گھومنے  گیا تو وہاں ایک داڑھی والے  مسلمان ملے، تو فوراً بچہ میرے  پاس آ گیا اور ڈر سے  بولا، انکل اسامہ ہے، بچہ کے  اس جملہ سے  میری ذہنیت اور مغربی دنیا میں رہنے  والے  ہر آدمی کی کیفیت کو سمجھ سکتے  ہیں میں کمپنی کے  کام سے  ہیڈ آفس گیا تھا، ایر انڈیا سے  میرا ٹکٹ تھا، مجھے  دبئی سے  کچھ آ فس کے  لئے  خریداری کرنی تھی اور ایک کمپنی کی شاخ کو دینا تھا، دوبئی پانچ روز قیام کر کے  ۶ جنوری ۲۰۰۳  ء کو میں ایر انڈیا کے  جہاز پر سوار ہوا، تقریباً آخر تک میرے  برابر والی سیٹ خالی رہی، بالکل اخیر میں ۲۰ منٹ پہلے  آپ کے  ابی میرے  برابر والی سیٹ پر آئے، میں نے  ان سے  ہاتھ ملایا، ان سے  تعارف حاصل کیا تو انھوں نے  کلیم صدیقی اپنا نام بتایا، ان سے  پتہ معلوم کیا تو انھوں نے  بتایا کہ دہلی کے  پاس رہتا ہوں، میں نے  ان کا استقبال کیا اور چھیڑنے  اور چٹکی لینے  کے  لئے  ان سے  کہا : ویر ی گڈ، بہت اچھا، میرا نام اسامہ ہے، شاید ان کو میری بات پر ہنسی نہیں آئی، انھوں نے  تعجب سے  پوچھا کہ آپ کا نام اسامہ ہے، میں نے  کہا کہ اصل میں چار پانچ روز پہلے  نیویارک میں اپنے  بھتیجے  کو لے  کر پارک میں گھومنے  گیا تھا، وہاں ایک ڈاڑھی والے  صاحب آ گئے  تو بچہ ڈر کر بھا گا اور بولا، انکل اسامہ ہے، مولانا صاحب نے  مجھے  بعد میں بتایا کہ آپ کا طنز سن کر ذراسی دیر کو میرا دل دکھا، مگر میں نے  دل میں سوچا کہ تین گھنٹے  ساتھ بیٹھنا ہے  اگر اللہ نے  لاج رکھی تو آج آپ کا نام اسامہ رکھ کر ہی جہاز سے  اتریں گے۔

جہاز کی پرواز کرنے  سے  پہلے  میں نے  اپنا تعارف کرایا اور مولانا صاحب سے  تعارف معلوم کیا تو انھوں نے  بتایا کہ وہ عجمان (یو اے  ای) میں ایک عربی اور اسلامی سینٹر چلاتے  ہیں میں نے  ان سے  کہا کہ پھر تو آپ مذہب کے  بارے  میں خوب جانتے  ہوں گے  ؟ میں بہت زمانے  سے  کسی مذہب کے  جاننے  والے  سے  باتیں کرنا چاہتا ہوں، اچھا رہے  گا، آپ سے  باتیں ہو جائیں گی، مولانا صاحب نے  کہا : مذہب تو بڑی چیز ہے  اس کے  بارے  میں سب کچھ جاننا تو بڑی بات ہے، البتہ جتنا میں جانتا ہوں آپ سے  باتیں کر کے  خوشی ہو گی۔

جہاز نے  پرواز شروع کی اور میں نے  باتوں کا سلسلہ جاری رکھا، میں نے  مولانا صاحب سے  سوال کیا کہ یہ بتائیے  کہ مذہب والے  کہتے  ہیں کہ اس سنسار کو بنانے  والا اور چلانے  والا ایک بھگوان (اِیشور) ہے، وہ سنسار کو بنانے  والا ہے  وہی سنسار کے  سارے  کام چلا رہا ہے  اب تو سائنس کا زمانہ ہے  ہر خیال کو ترکوں (دلیلوں ) پر پرکھا جانا ہے، آپ کے  پاس اس کا کیا ثبوت ہے  کہ وہ مالک ہے  اور سنسار کا بنانے  والا ہے  ؟ مولانا صاحب نے  کہا کہ آپ کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹر ہونے  کے  باوجود پرانے  زمانہ کی ایک جاہل بڑھیا جیسی بات بھی نہیں سمجھتے، جس سے  جب کسی آپ جیسے  نے  سوال کیا کہ ماں یہ بتا کہ اس سنسار کو بنانے والا اور چلانے  والا کون ہے  ؟ اس نے  جواب دیا کہ بیٹا اس سارے  سنسار کو چلانے  والا صرف اور صرف ایک مالک ہے، سوال کرنے  والے  نے  پوچھا کہ ماں یہ بات آپ کس طرح کہتی ہیں ؟ اس نے  جواب دیا کہ میرے  چرخہ نے  مجھے  یہ بات بتائی ہے، سوال کرنے  والے  نے  معلوم کیا کہ کس طرح ؟ اس نے  کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے  اور اگر رک جاتی ہوں تو رک جاتا ہے  اور میں اکیلے  چرخہ چلاتی ہوں تو چرخہ بھلی طرح چلتا ہے  اور سوت کاتتا ہے  اور اگر ایک چھوٹے  بچے  نے  سوت کی انٹی کو ہاتھ لگایا تو سوت الگ اور سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اس سے  مجھے  پتہ لگا کہ جب ایک چھوٹا سا چرخہ بغیر کسی کے  چلائے  نہیں چلتا تو یہ کائنات، سورج، چاند، دن رات، گرمی، برسات، سردی کا پورا چرخہ ضرور کوئی چلانے  والا چلا رہا ہے، ضرور اس کا چلانے  والا کوئی ہے  اور وہ اکیلا ہے، اس لئے  کہ ذراسی بچی میرے  چرخے  پر انگلی لگا دے  تو ساراسوت کاتنے  کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، تو اگر ایک کے  علاوہ کئی خدا ہوتے  تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

مولانا صاحب نے  بتایا کہ قرآن حکیم نے  اس حقیقت کو بیان کیا ہے  کہ ایک خدا کے  علاوہ کئی خدا ہوتے  تو سرشٹی(کائنات ) میں جھگڑا اور فساد ہو جاتا  لَوْ کَانَ فِیْھِمَاآلِھََۃٌ اِلاَّاللّٰہُ لَفَسَدَتَا  (۱۷رکوع۲)  ترجمہ: اگر ان دونوں (زمین وآسمان)میں اللہ کے  علاوہ کوئی معبود ہوتے  تو دونوں جھگڑ پڑتے۔

اگر کئی بھگوان ہوتے  یا دیوی دیوتاؤں کو کچھ اختیار ہوتا تو روزآسمان زمین میں فساد رہتا، ایک کہتا کہ اب دن بڑا ہو گا دوسرا کہتا کہ نہیں چھوٹا ہو گا، ایک کہتا سردی ہو گی دوسرا کہتا کہ نہیں گرمی ہو گی، ایک کہتا کہ بارش ہو گی دوسرا کہتا کہ نہیں دھوپ نکلے  گی، ایک نے  اپنے  اپاسک (پوجا کرنے  والے ) سے  کسی چیز کا وعدہ کر لیا تو دوسرا اس کے  خلاف کرنے  کو کہتا، مگر ہم دیکھتے  ہیں کہ سنسار کا سارا نظام اتنے  نظم و ضبط کے  ساتھ سلیقہ سے  چل رہا ہے، یہ پورا نظام یہ بتا رہا ہے  کہ اس کا بنانے  اور چلانے  والا صرف اور صرف ایک مالک ہے۔

مولانا صاحب نے  کہا کہ اس اکیلے  مالک نے  ساری دنیا کے  سردار انسان کی فطرت اور اس کے  نیچر میں یہ خوبی رکھی ہے  کہ کسی بنی ہوئی چیز کو دیکھ کر اس کے  بنانے  والے  کو پہچانتا اور اس کی بڑائی کو سمجھتا ہے، آپ دیکھیں جب آپ کوئی اچھا کھانا کھاتے  ہیں تو کھانے  کے  ذائقہ اور اچھائی سے  زیادہ آپ کا ذہن اس طرف جاتا ہے  کہ یہ کھانا کس نے  بنایا ؟ کوئی اچھا سلا ہوا کپڑا دیکھتے  ہیں تو فوراً آپ کا سوال یہ ہوتا ہے  کہ کس نے  سیا ہے  ؟ کوئی اچھی تعمیر دیکھتے  ہیں تو فوراً یہ خیال آتا ہے  کہ یہ تعمیر کس نے  کی؟ غرض کسی مصنوع سے  انسان اس کے  صانع کو اور مخلوق سے  اس کے  خالق کو پہچاننے  کا فطری جذبہ رکھتا ہے، ایسے  بڑے  سنسار کی ایسی پیاری پیاری چیزیں، یہ ستاروں سے  جگمگ آسمان، یہ چاند اور سورج، یہ دن اور رات، یہ زمین یہ پھل یہ پھول، یہ پہاڑ یہ سمندر، یہ جانور یہ پرندے، یہ پتنگے، یہ سب بتا رہے  ہیں اور آپ کا اور ہمارا دل و دماغ یہ خود کہہ رہا ہے  کہ اس کا بنانے  والا کوئی بڑا حکیم اور علیم خدا ہے۔

مولانا صاحب کی اس سادہ مثال میں ایسی بڑی بات سمجھانے  سے  میں اندر سے  بہت متاثر ہوا کہ یہ شخص مذہبی ہے  مگر بڑے  ترک (دلیل) کے  ساتھ بات کرنے  والا ہے، میں نے  ان سے  دوسرا سوال کیا کہ چلئے  یہ بات تو میرا دل اندر سے  کہتا ہے  کہ سنسار کا کوئی بنانے  والا اور چلانے  والا ہے، ایشور اور خدا ضرور ہے، مگر یہ بات تو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں لگتی ہے  کہ گیتا کو مانو، قرآن کو مانو، بائبل کو مانو، اس نے  انسان کو بدھی دی ہے، اپنی عقل سے  سوچ لے  اور مان لے، مولانا صاحب نے  کہا کہ واہ جی واہ ڈاکٹر صاحب!آپ بھی خوب آدمی ہیں، واجپئی کو تو مانتے  ہیں کہ بھارت کا کوئی چلانے  والا ہے  مگر بھارت کے  سنودھان (آئین ) کو نہیں مانتے، جب اس کائنات اور دنیا کا کوئی مالک ہے  تو پھر اس کا قانون ہونا بھی ضروری ہے، انسانوں کے  لئے  زندگی گذارنے  کا وہ قانون جو اکیلے  مالک نے  اپنی طرف سے  طے  کیا ہے  اس کو مذہب کہتے  ہیں، اس طرح مذہب کو مانے  بغیر مالک اور خدا کو ماننے  کا کوئی تصور ہی نہیں۔

مولانا صاحب نے  کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے  لئے  سب سے  ضروری بات سمجھنے  کی یہ ہے  کہ وہ مالک جس نے  آپ کو اور سارے  انسانوں کو پیدا کیا وہ اس دنیا کا اکیلا مالک اور بادشاہ ہے، جب وہ مالک اکیلا ہے  تو وہ سچا قانون اور دین جو اس کی طرف سے  بھیجا گیا ہے  وہ بھی صرف ایک ہی ہو گا، انسان کو اللہ نے  عقل دی ہے  یہ اس کی ذمہ داری ہے  کہ وہ اس اکیلے  سچے  دھرم کو معلوم کر کے  اس کو مانے  اور اس اللہ نے  اپنی آخری کتاب میں یہ بات صاف بتائی ہے  کہ وہ سچا دھرم اور دین صرف اسلام ہے  اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلاَمُ جب سے  آدمی پیدا ہوا ہے  تب سے  آج تک اسلام ہی اکیلا سچا دین ہے، جو انسان اس اکیلے  سچے  مالک کو اور اس کے  بنائے  ہوئے  سچے  دین اسلام کو نہ مانے، وہ اس دنیا میں غدار اور اسے  اس سنسار کی کسی بھی چیز سے  فائدہ اٹھانے  کا اختیار نہیں، اس کو اللہ کی زمین کی نیشنلٹی ہی نہیں ملے  گی اور باغی یا غدار کی سزا پھانسی یا ہمیشہ کی جیل ہے، اس مالک کے  یہاں بھی غیر ایمان والے  کو ہمیشہ نرک کی جیل ہے  اور اس دنیا میں بھی وہ جب چاہے  سزادے  سکتا ہے، ورنہ موت کے  چیک پوسٹ پر جب اس دیش سے  پر لوک کے  دیش میں انسان جائے  گا تو اللہ کا امیگریشن اسٹاف وہاں سب سے  پہلے  ایمان ہی کو چیک کر ے  گا، یہ کہہ کر مولانا صاحب نے  میرے  ہاتھ پکڑ لئے  اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے  ساتھ سفر کر رہے  ہیں، یوں بھی میرا ایمان ہے  کہ ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد اور خونی رشتہ کے  بھائی ہیں اور اب تو آپ میرے  ہم سفر ہیں اور ہم سفر کا بڑا حق ہوتا ہے  اس لئے  آپ سے  محبت کی بات کہتا ہوں کہ موت کا کچھ پتہ نہیں کہ کب آ جائے  اس لئے  اس سے  اچھا کوئی وقت نہیں ہو سکتا کہ آپ مسلمان ہو جائیے  اور کلمہ پڑھ لیجئے۔

میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ کی باتیں تو مجھے  بہت لوجک لگ رہی ہیں اور میں ضرور سوچوں گا مگر یہ دھرم بدلنا کوئی مذاق تھوڑی ہے  کہ اتنی جلدی فیصلہ کر لیا جائے، مولانا صاحب نے  کہا کہ یہ فیصلہ بہت جلدی کرنے  کاہے، ڈاکٹر صاحب آپ مجھے  ستایئے  نہیں، فوراً کلمہ پڑھ لیجئے۔

میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ مجھے  وقت دیجئے، مولانا صاحب نے  کہا وقت نکل چکا فوراً کلمہ پڑھئے۔ اس لئے  امریکہ کا ایک طیارہ کولمبیا جاتے  ہوئے  ابھی چار روز پہلے  گر ا ہے، اگر ہمارا جہاز بھی اترتے  ہوئے  خدا نہ کرے  حادثہ کا شکار ہو گیا تو پھر کہاں وقت رہے  گا، دیر تک مولانا صاحب مجھے  سمجھاتے  رہے  اور بار بار بیتاب ہو کر کہتے  کہ دیر نہ کریں جلدی مسلمان ہو جائیں، نہ جانے  آپ کی موت آ جائے  یا میں مر جاؤں۔

اسلام کے  اکیلے  سچے  مذہب ہونے  پر مولانا صاحب نے  ہمارے  ملک بھارت کے  نظام حکومت کی مثال دی اور اب سے  پہلے  کے  سارے  وزیر اعظموں کو بھی سچا بتا کر باجپئی جی کے  زمانہ کے  قانون کو ماننا ضروری بتا کر، میرے  دل کو مطمئن کر دیا۔

مرنے  کے  بعد کے  سورگ اور نرک پر جب میں نے  شک جتایا کہ مرنے  کے  بعد کس نے  دیکھا ہے  آدمی مرگیا گل سڑ گیا ؟ تو انھوں نے  پہلے  تو سچے  نبی کی زبان اور سچے  قرآن کی بات کہی، پھر ایک مچھلی کا قصہ مثال کے  طور پر سنایا، جس سے  میرا دل بہت مطمئن ہوا، میرے  دل میں اچانک خیال آیا تو میں نے  مولانا صاحب سے  سوال کیا کہ اچھا یہ بتائیے  کہ مسلمانوں کو اپنے  دھرم اور مذہب کی باتوں پر جو وشواس اور یقین ہوتا ہے  وہ ہم ہندوؤں کو کیوں نہیں ہوتا ؟ مولانا صاحب نے  جواب دیا کہ یقین اور وشواس انسان کا سچ پر جمتا ہے، جھوٹ پر انسان کے  اندر شک رہتا ہے، کیوں کہ قرآن اسلامی اصول، اس کو لانے  والے  آخری رسول اور ان کی زندگی (اتہاس) کے  واسطہ سے  ہمارے  پاس بہت پکی سند کے  ساتھ موجود ہے، اس لئے  ہمیں اسلام کی ہر بات پر اندر سے  یقین ہوتا ہے، اسلام اور قرآن ایسے  سچے  نبی کے  واسطہ سے  ہم تک پہنچا ہے  جس کو دشمن بھی الصادق الا مین ( سچا اور ایماندار ) کہتے  تھے  بلکہ اس کا نام ہی سچا اور ایماندار ان لوگوں نے  رکھ دیا تھا۔

میرے  دل کو یہ بات بہت لگی، بار بار مولانا صاحب مجھ سے  اسلام قبول کرنے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  کہتے، مگر دھرم بدلنا اتنا آسان کام نہیں تھا، جب وہ بار بار کہتے  رہے  تو میں جان بچا کر اٹھ کر پیشاب کے  بہانے  جہاز کے  ٹائلیٹ میں چلا گیا، ٹائلیٹ سے  واپس آ کر میں سیٹ پر واپس آنے  کے  بجائے  ایک طرف کھڑا ہو کر دیر تک سوچتا رہا، کہ یہ آدمی میرا کوئی رشتہ دار نہیں، اس کو مجھ سے  کچھ لالچ نہیں، ایسا پڑھا لکھا اور ترک سے  بات کرتا ہے، میں ایک ڈاکٹر تعلیم یافتہ آدمی ہوں، جب میرا دل و دماغ سو فیصد اس کی باتوں سے  مطمئن ہے، تو مجھے  فیصلہ کرنے  میں یہ سوچنا کہ سماج کیا کہے  گا جہالت ہے، یہ نیا زمانہ ہے  اور ہر آدمی کم از کم مجھ جیسا سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے  والا تو سو فیصد آزاد ہے  اور میں نے  فیصلہ کر لیا کہ مجھے  اس سچے  اور بھلے  آدمی کی اس درد بھری پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہئے۔

مولانا صاحب نے  مجھے  بتایا کہ دوبئی کے  سفر میں وہ بہت دکھی تھے، آپ جب اٹھ کر گئے  تو میں نے  اپنے  مالک سے  تڑپ کر دعا کی کہ میرے  اللہ ! جب آپ ہی دلوں کو پھیرنے  والے  ہیں، تو ان کا دل اسلام کے  لئے  کھول دیجئے، آپ کے  دل شکستہ بندے  کا دل بہت دکھا ہوا ہے  میرے  اللہ ذرا ساخوش کر دیجئے۔

سوال   : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : اس کے  بعد کیا ہوتا، فیصلہ اوپر سے  ہو چکا تھا، بہت اعتماد اور عزم کے  ساتھ میں سیٹ پر پہنچا، مجھے  آج بھی اس عزم کا مزہ محسوس ہوتا ہے، جیسے  کوئی سپہ سالار ایک دنیا فتح کر کے  بیٹھا ہو، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا مجھے  مسلمان کر لیجئے، مولانا صاحب نے  میرے  ہاتھ چوم لئے  اور خوشی سے  مجھے  کلمہ پڑھایا، میرا اسلامی نام محمد قاسم رکھا اور مجھے  بتایا کہ یہ اسلام اب آپ کی ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے  اور آپ قاسم ہیں، ہمارے  نبی کا ایک لقب قاسم تھا، اب سب تک پہنچانا ہے، جہاز میں اعلان ہوا کہ اب ہم دہلی پہنچ رہے  ہیں، جہاز اترا، ہم دونوں اپنے  ملک ایک مذہب کے  ساتھ آسمان سے  اترے، میں نے  اپنے  لگیج سے  وہ مٹھائی کا ڈبہ نکال کر اور چاکلیٹ اور   بسکٹ نکال کر مولانا کو خوشی سے  پیش کیا جو میں اپنے  خاندانی دھرم گرو کے  لئے  لے  کر آیا تھا اور خوشی خوشی میں گڑ گاؤں پہنچا۔

اس کے  بعد ایک لطیفہ سناتا ہوں، مولانا صاحب کو پھلت جا کر یہ خیال آیا کہ مجھے  پرمود کا نام اسامہ رکھنا تھا، انھوں نے  مجھے  فون کیا کہ غلطی سے  میں نے  آپ کا نام محمد قاسم رکھ دیا، آپ نے  تو اپنا نام اسامہ رکھا تھا، آپ اپنا نام اسامہ رکھ لیں، میں نے  کہا نہیں مولانا صاحب، اسامہ نام رکھ کر لوگ مجھے  جینے  نہیں دیں گے، حضرت محمد صاحب کا ایک نام قاسم ہے  وہ اسامہ سے  بہت اچھا ہے، مولانا صاحب نے  ہنس کر فون رکھ د یا۔

سوال   : آپ نے  قاسم نام رکھنے  کا کیا حق ادا کیا؟

جواب  : میں تو کچھ حق ادا نہیں کر پایا، البتہ میرے  اکیلے  بھائی امریکہ میں رہتے  ہیں بڑے  ڈاکٹر ہیں ان کے  لئے  ہدایت کی دعا کرنی شروع کی تھی، ستمبر میں ان کا خط آیا کہ وہ اپنے  نرسنگ ہوم کی ایک نرس سے  متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے  ہیں اور انھوں نے  اس سے  شادی بھی کر لی ہے، یہ ان کی دوسری شادی ہے۔

سوال   : آپ کی بھابھی کی طرف سے، مخالفت نہیں ہوئی؟

جواب  : فون پر بات ہوتی رہتی ہے  شروع شروع میں تو وہ بہت برہم تھیں، ہندوستان واپس آنا چاہ رہی تھیں، مگر اب یہ معلوم ہو کر حیرت ہوئی کہ اس مسلمان نرس کی خدمت اور اخلاق سے  متاثر ہو کر وہ بھی مسلمان ہو گئی ہیں۔

سوال   : واقعی آپ کی باتیں بڑے  مزے  کی ہیں، آپ کو اللہ نے  زمین اور آسمان کے  درمیان ہدایت نصیب فرمائی آپ نے  شروع میں بتایا تھا کہ ہم دو آدمیوں کو یہ سعادت ملی، دوسراآدمی کون ہے ؟

جواب  : مولانا نے  مجھے  بتایا تھا کہ ان کے  پیر مولانا علی میاں صاحب نے  بھی جہاز میں کسی کو کلمہ پڑھوایا تھا۔

سوال   : آپ نے  اسلام کے  مطالعے  کے  لئے  کیا کیا ؟

جواب  : میں نے  گڑ گاؤں میں ایک مولانا صاحب سے  رابطہ کیا روز رات کو ایک یا آدھے  گھنٹہ کے  لئے  جاتا ہوں، اللہ کا شکر ہے  کہ میں نے  قرآن شریف پڑھ لیا ہے، جنازے  کی نماز تک پوری نماز یاد ہو گئی ہے  اور روزانہ کسی نہ کسی کتاب کو بھی پڑھتا ہوں۔

سوال  : آپ کی شادی کا کیا ہوا؟

جواب  : اللہ کا شکر ہے  میرا رشتہ ایک دیندار مسلم پڑھے  لکھے  گھرانے  میں ممبئی میں ہو گیا ہے۔

سوال  : واقعی آپ کا بہت بہت شکریہ !ڈاکٹر صاحب، اخیر میں ارمغان کے  واسطہ سے  مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام ؟

جواب  : میرا پیغام تو بس یہ ہے  کہ اسلام جب ایک سچائی ہے  اور یہ سچائی جب سب کے  لئے  ہے  تو اس کو سب تک پہنچنا چاہئے، انسان تو سچائی کے  سامنے  بے  بس ہوتا ہے، اس کی مجبوری ہے  کہ وہ سچائی کو قبول کرے۔

سوال  : بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

جواب  :  واقعی شکریہ تو آپ کاہے  کہ آپ نے  مجھے  عزت بخشی۔ وعلیکم السلام

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 جناب محسن صاحب {رمیش سین} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ          : السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمدمحسن  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   :  محسن صاحب آپ بہت موقع پر تشریف لائے  ؟

جواب  :  جی احمد صاحب! بلاشبہ میں بہت موقع سے  آیا، فون پر حضرت سے  رابطہ ایک ماہ تک کوشش کے  بعد نہیں ہو سکا، تو اللہ کے  بھروسے  چل پڑا کہ جا کر پڑجاؤں گا کبھی تو ملاقات ہو گی، مگر اللہ کا فضل کہ ٹرین سے  اتر کر فوراً خلیل اللہ مسجد پہنچا کہ اگر حضرت ہوں گے  تو مسجدمیں ضرور مل جائیں گے، اللہ کا شکر ہے  کہ ملاقات ہو گئی۔

سوال   : آپ اپنے  مطلب کی بات کہہ رہے  ہیں اور میں اپنے  مطلب کی، اصل میں آج بائیس تاریخ ہو گئی ہے  اور میں ارمغان کے  لئے  کوئی انٹرویو نہ لے  سکا تھا، دو روز کے  اندر رسالہ کو پریس میں جانا ہے  میں شام سے  سوچ رہا تھا کہ کس کو فون کروں، اچانک ابی نے  بتایا کہ ایک بہت اچھے  دوست بھائی محسن آئے  ہیں ان سے  جا کر ارمغان کے  لئے  انٹرویو لے  لو؟

جواب  : اچھا اچھا، ہاں !حضرت مجھ سے  بھی فرما کر گئے  ہیں کہ میں کچھ وقت انتظار کروں، احمد  ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں معلوم کریں گے۔

سوال   : آپ اپنا خاندانی پریچے (تعارف) کرایئے  ؟

جواب  : میں مدھیہ پردیش کے  گوا لیار ضلع کا رہنے  والا ہوں میری پیدائش ایک تاجر گھرانہ میں ۱۹/اپریل ۱۹۶۲ء میں ہوئی میرے  والد صاحب کھل چوکر  کے  تھوک ویاپاری  تھے، ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، کئی بار ان کا کاروبار بالکل ختم سا ہو گیا، مگر وہ بڑے  بہادر اور ہمت والے  آدمی تھے، میرے  دو چھوٹے  بھائی اور ایک بہن ہیں، انٹر میڈیٹ سائنس سے  کرنے  کے  بعد میں نے  بی فارما کیا اور پھر میڈیکل اسٹور میرے  والد نے  مجھ کرا دیا، جھانسی میں ہماری ایک پڑھے  لکھے  پریوار میں شادی ہو گئی، میری اہلیہ ایم ایس سی کرنے  کے  بعد بی ایڈ کر کے  ایک کالج میں لکچرر ہو گئی تھیں، شادی کے  بعد ان کی ملازمت کی وجہ سے  بہت مشکل رہی اللہ نے  مسئلہ حل کر دیا اور ان کا گوا لیار میں ٹرانسفر ہو گیا، الحمد للہ ہمارے  یہاں دو بیٹے  اور ایک بیٹی ہیں۔

سوال   : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  : میرے  پڑوس میں ایک دوکاندار اسپئر پارٹس کی دوکان کرتے  تھے، ان کا نام سعیداحمد صاحب تھا بڑے  اچھے  انسان اور مذہبی مسلمان ہیں، ہماری مارکیٹ میں بس وہ  اکیلے  مسلمان دوکان دار ہیں، مگر مجھ ساری مارکیٹ میں ان سے  زیادہ کسی سے  مناسبت نہیں تھی، ان کی سسرال بھوپال میں ہے، ان کی سسرال کے  لوگ گوا لیار آتے  تو وہ میرے  لئے  کچھ نہ کچھ لاتے، ان کی سسرال میں ایک شادی میں ان کی بیوی کے  بھائی مجھ کو بہت زور دے  کر دعوت دے  گئے، بازار کی چھٹی بھی تھی میں نے  سعید صاحب کے  ساتھ پروگرام بنا لیا، بھوپال میں آپ کے  والد صاحب حضرت مولانا کلیم صاحب کا پروگرام تھا، سعید صاحب مولانا صاحب سے  واقف تھے، ایک اٹارسی کے  حاجی صاحب جن کے  ہاتھوں پر سیکڑوں لوگ اسلام کے  سایہ میں آئے  ہیں انکے  واسطہ سے  حضرت صاحب سے  سعید صاحب واقف ہوئے  اور ملنے  کے  لئے  بے  تاب تھے، مجھ سے  ان کا ذکر کرتے  تھے، بار بار پھلت چلنے  کے  لئے  کہتے  تھے، شادی چھوڑ کر سعید صاحب نے  مولانا صاحب سے  ملاقات کے  لئے  تلاش شروع کی، سچی طلب تھی الحمدللہ ایک انجینئیر صاحب کے  یہاں صبح کو ملاقات طے  ہو گئی وہاں مولانا صاحب کو ناشتہ کے  لئے  بلایا تھا، بہت سے  مولانا لوگ بھی ساتھ تھے  سعید صاحب اور میں وہاں پہنچے  سعید صاحب نے  بتایا کہ یہ رمیش سین صاحب میرے  بہت اچھے  پڑوسی ہیں بلکہ پڑوسی سے  زیادہ بڑے  بھائی ہیں، ہم لوگ آپ سے  ملنے  پھلت آنا چاہتے  تھے، ہمارا مقدر کہ گوا لیار سے  آج ایک شادی میں بھوپال آنا ہوا، آپ کی خبر معلوم ہوئی تو شادی بھول گئے، کل صبح سے  تلاش کرتے  کرتے  آج اللہ نے  مراد پوری کی، آپ ان سے  کچھ بات کر لیں، مولانا نے  بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ پھلت تو آپ کو آنہ ہی پڑے  گا، یہ رمیش صاحب آپ کے  تو  ہیں ہی ہمارے  بھی بھائی ہیں اور خونی رشتہ کے  حقیقی بھائی، مجھ سے  بولے  رمیش صاحب !ہم سب ایک ماتا پتا( ماں باپ ) کی اولاد ہیں نا ؟ میں نے  کہا جی ہاں اس میں کیا شک ہے، تو بولے  کہ ایک ماں باپ کی اولاد کو ہی تو خونی رشتہ کا حقیقی بھائی کہا جاتا ہے  حضرت صاحب نے  مالک مکان انجینئر صاحب سے  کسی الگ کمرے  میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی سب لوگوں نے  کہا آپ اسی کمرے  میں بات کر لیں ہم لوگ باہر چلے  جاتے  ہیں، سب لوگ چلے  گئے  تو مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا: رمیش سین صاحب !آپ ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں اور محبت میں مجھے  اچھا ایک آدمی سمجھ کر ملنے  کے  لئے  آئے  ہیں، میری ذمہ داری ہے  کہ آپ کے  لئے  جوسب سے  زیادہ ضروری اور بھلائی کی بات ہے  آپ سے  کہوں اور آپ کے  لئے  جو بہت خطرہ کی بات ہے  اس سے  خبردار کروں، دیکھئے  جس دیش میں آدمی رہتا ہو، اس کے  حاکم کو تسلیم نہ کرے  اور نہ مانے  اور وہاں کے  قانون (سنودھان اور کانسٹی ٹیوشن)کو نہ مانے  نہ تسلیم کرے  وہ باغی اور غدار ہے، اس لئے  کسی دیش کے  کسی عہدہ پرپر مقرر کرنے  سے  پہلے  ہر شہری کو دیش کے  منشور اور سن وِدھان کے  پرتی وچن بدھتا اور وفاداری کی شپتھ اور حلف دلایا جاتا ہے، یہ پوری کائنات اور سرشٹی کا اکیلا مالک، بادشاہ وہ اکیلا خدا ہے  اور اس کا فائنل اور آخری دستور اور منشور قرآن مجید ہے، جو اس نے  اپبے  آخری رسول اور انتم سندیشٹا حضرت محمدﷺ پر بھیجا ہے، انسان کی سب سے  بڑی ضرورت یہ ہے  کہ وہ ہوش سنبھالنے  کے  بعد سب سے  پہلے  غداری سے  بچ کر اس اللہ کے  اکیلا مالک ہونے  اور قرآن کے  آخری دستور ہونے  کا حلف لے، اس حلف کے  بغیر آدمی باغی اور غدار ہے  اور اس کو اللہ کی زمین پر چلنے، یہاں کی چیزوں سے  فائدہ اٹھانے، یہاں تک کہ اس کی ہوا میں سانس لینے  کا حق حاصل نہیں اور اللہ کے  باغی کو جو یہ حلف نہ لے  اور کلمہ پڑھ کر ایمان نہ لائے  غداری اور بغاوت کے  جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کی نرک میں جلنا پڑے  گا، اس لئے  رمیش بھائی اس حلف کو کلمہ شہادت کہتے  ہیں میں آپ کو پڑھواتا ہوں آپ یہ سوچ کر کہ اپنے  سچے  مالک کو حاضر و نا ظر جان کر بغاوت سے  توبہ کر کے  اس کے  اور اس کے  قانون قرآن کا پالن کرنے  کے  لئے  یہ حلف لے  رہاہوں سچے  دل سے  دولائنیں پڑھ لیجئے، یہ کہہ کر مجھے  کلمہ شہادت پڑھوایا، میں نے  پڑھا، کلمہ پڑھوا کر مولانا نے  مجھ سے  کہا جو اس کلمہ کو سچے  دل سے  پڑھ لے  اس کو ہی مسلمان کہتے  ہیں، اللہ کا شکر ہے  آپ مسلمان ہو گئے، اب آپ کو پاک ہونے  کے  طریقے  سیکھنے  ہیں، نماز یاد کرنی ہے  اور اسلام کو پڑھنا ہے، آپ جب پڑھیں گے  تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سعید صاحب نے  آپ کے  ساتھ کیسا بھائی ہونے  کا حق ادا کیا اور اصل تو مرنے  کے  بعد اس نعمت کی قدر معلوم ہو گی۔

ناشتہ کا تقاضا تھا سب لوگوں کو بلوا لیا گیا، ناشتہ کے  دوران مولانا صاحب نے  مجھے  کچھ کتابوں کے  نام لکھوائے  اور اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘  انجینئر صاحب سے  منگوا کر دی، یا ہادی یا رحیم اور کچھ اور کلمات پڑھنے  کے  لئے  لکھ کر دیئے، میں نے  مولانا صاحب سے  عرض کیا کہ جو دولائنیں آپ نے  مجھے  پڑھائی ہیں وہ بھی کہیں مل جائیں گی، پھر میں نے  کہا (اور احمد صاحب یہ بالکل میرے  اندر کا عجیب حال تھا کہ ) کلمہ شہادت پڑھ کر مجھے  بالکل ایسا لگا جیسے  کہ میں ایک جال اور بندھن میں بندھا تھا، یہ کلمہ پڑھ کر ہزاروں من بوجھ کے  تلے  سے، بڑے  بندھن اور جال سے  میں آزاد ہو گیا اور بالکل ہلکا پھلکا میں اپنے  آپ کو محسوس کر رہا ہوں۔

سوال   : کیا آپ کا نام ابی نے  ہی محمد محسن رکھا ہے  ؟

جواب   :  مولانا صاحب نے  میرے  نام کو بدلنے  کے  لئے  نہیں کہا، البتہ قانونی کاروائی کا طریقہ بتایا، بہت دنوں کے  بعد میں اپنی پسند سے  محسن انسانیت کتاب پڑھ کر محمد محسن نام رکھنے  کی خواہش ظاہر کی تو سعید صاحب نے  میرا نام محمد محسن رکھا۔

سوال   : کیا یہ حالات آپ نے  اپنے  گھر والوں سے  جا کر فوراً بتایئے ؟

جواب  : ہم لوگ بھوپال سے  گوا لیار پہنچے، میرا خیال تھا کہ غداری اور بغاوت سے  توبہ کر کے  وفاداری کے  لئے  حلف لینا ہر انسان کی ضرورت ہے، یہ ایک بہت ضروری بلکہ انسان کے  لئے  سب سے  ضروری اور اچھا کام ہے، میں نے  جا کر اپنی بیوی سے  بتایا اور ان کو بھی کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا مجھے  اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس بات سے  اس قدر چڑھ جائیں گی، انھوں نے  پورے  خاندان والوں کو اکھٹا کر لیا اور اس قدر سخت رخ اختیار کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، میں سارے  پریوار کے  سامنے  معافی مانگی اور ان سے  وعدہ کیا کہ میں اپنے  ہندو دھرم ہی میں رہوں گا، مگر جب میں اکیلا ہوتا تو ضمیر مجھے  کچوکے  دیتا، کہ ایک مالک کی کائنات میں باغی اور غدار تو کفرو شرک پر اتنے  جری اور بہادر اور تو حق پر ہوتے  ہوئے  اتنا بزدل اور گیدڑ کا گو، اس سے  موت اچھی ہے، اندر سے  مجھ سے  کوئی سوال کرتا کیا اللہ اکیلا اس کائنات کا مالک نہیں ؟ کیا قرآن اللہ کا سچا کلام نہیں ؟ کیا حضرت محمدﷺ جیسا کوئی اور ایسا سچا دنیا میں ہوا ہے  ؟ کیا جنت دوزخ حق نہیں ہے  ؟ کیا دیوی دیوتا پوجا کے  لائق ہیں ؟ کیا یہ سب مل کر مکھّی بنا سکتے  ہیں ؟ کیا کفر و شرک پر مر کر ہمیشہ کی دوزخ نہیں ہے  ؟ یہ سوالات میرے  اندر ایک آگ سی لگا دیتے  اور بار بار میرا دل چاہتا تھا کہ سارے  کفر و شرک کے  پرستاروں سے  ٹکرا جاؤں۔

سوال   : اس دوران آپ نے  کچھ اسلام پڑھ لیا تھا؟

جواب  : روزانہ ایک کتاب میں اسلام جاننے  کے  لئے  پڑھتا تھا اور میری پیاس بھڑکتی جاتی تھی، اس مطالعہ کی روشنی میں میرے  اندر یہ سوالات اٹھتے  تھے۔

سوال   : پھر کیا ہوا؟

جواب  : پھر وہی ہوا جو ہونا چاہئے  تھا، میرے  ایمان نے  مجھے  ابھارا اور سارے  خداؤں کے  پرستاروں سے  میں نے  بغاوت کا اعلان کر دیا اور اکیلے  خدا کی وفاداری میں آخری سانس تک لڑنے  کا میں نے  عزم کر لیا، میں نے  اپنی بیوی اور اپنے  گھر والوں سے  کہہ دیا کہ میں مسلمان ہوں، مسلمان رہوں گا اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا، میں آپ لوگوں کے  دباؤ اور رشتوں کی محبت میں اسلام کے  کسی چھوٹے  سے  چھوٹے  حکم سے  دست بردار نہیں ہو سکتا۔

سوال  : اس پر لوگ برہم نہیں ہوئے ؟

جواب  : کیوں نہیں ہوئے، خوب ہوئے، روز خاندان کے  لوگ اکھٹا ہوتے، مجھے  بلاتے، سمجھانے  کی کوشش کرتے، برہم ہوتے، شروع شروع میں تو، میں بلانے  پر چلا جاتا تھا، بعد میں میں نے  پنچایتوں میں جانے  سے  منع کر دیا، گھر والوں نے  میرے  خلاف اسکیمیں شروع کر دیں، میں نے  عدالت میں اپنی حفاظت و قبول اسلام کے  لئے  کاروائی کی، میرے  خلاف بہت جھوٹے  مقدمے  لگائے  گئے، چھ بار مجھے  زہر دینے  کی کوشش کی گئی، کئی لوگوں سے  مجھے  قتل کرانے  کی کوشش کی، مگر میرے  اللہ نے  مجھے  بچایا، فون پر مولانا صاحب سے  مشورہ ہوا، مولانا نے  کہا اچھا ہے  کہ اس طرح کے  حالات میں آپ گوا لیار چھوڑ دیں، دین کے  لئے  ہجرت کے  بڑے  فضائل ہیں، انشاء اللہ آپ کو اجر بھی ملے  گا اور راحت بھی، کچھ روز کے  لئے  میں دہلی آ گیا، دہلی میں وقتی مخالفتوں سے  تو راحت ملی مگر بہت سی مشکلات بھی سامنے  آئیں، میں جو رقم گوا لیار سے  لے  کر آیا تھا ختم ہو گئی اور کوئی کاروبار لگ نہ سکا، ایک کمپنی میں ایم۔آر کی ملازمت مل گئی تو راحت ہوئی، حضرت کے  ایک دوست مجھے  راجستھان لے  گئے، آج کل راجستھان میں رہ رہا ہوں، الحمدللہ راحت میں ہوں۔

سوال  : جس طرح کی مشکلات کا آپ کو سامنا کرنا پڑا اس میں آپ کا حوصلہ نہیں ٹوٹا؟

جواب  : بس اللہ کا فضل ہے  کہ اس نے  سنبھالا، اصل میں گھر والوں اور غیر مسلموں کی طرف سے  جو زیادتیاں ہوئیں ان سے  تو بڑا حوصلہ بڑھا اور ہمت نہیں ٹوٹی، مگر زندگی میں چار پانچ بار مجھے  پرانے  خاندانی مسلمانوں سے  ایسی تکلیفیں پہنچیں کہ شیطان نے  مجھے  بالکل ارتداد میں دھکیل دیا تھا، مگر اللہ کا شکر ہے  کہ حضرت مولانا جیسا مومن، اللہ کی رحمت کا فرشتہ بن کر ہمارے  لئے  کفر کی تباہی سے  بچانے  کا ذریعہ بن گیا، سچی بات یہ ہے  کہ میں ایمان اور اسلام کے  اہل ہی نہ تھا، میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ اللہ نے  اپنے  فضل سے  سعید صاحب کو ہدایت کا فرشتہ بنا کر ہمارے  پڑوس میں بھیج دیا اور اللہ نے  اپنی مرضی سے  ہدایت عطا فرمائی، مگر واقعی حالات اتنے  سخت سامنے  آئے  کہ اگر اپنے  بل بوتے  پر ان سے   نمٹنا چاہتا تو چند روز میں اسلام کو چھوڑ دیتا، مگر اللہ کی رحمت تھی کہ سالہا سال جمائے  رکھا۔

سوال  : کچھ خاص باتیں ان میں سے  بتائیں ؟

جواب  : مولانا احمد صاحب، ایمان جتنا قیمتی ہے  اللہ نے  جس طرح اپنے  فضل سے  مجھے  دیا ہے، اس کے  مقابلے  میں وہ مشکلات کچھ بھی نہیں، جب مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا تھا تو میں مسلمان ہونے  یا دھرم چھوڑنے  کی نیت سے  تو کلمہ نہیں پڑھ رہا تھا، مگر کلمہ پڑھ کر میں نے  جیسا بندھنوں سے  اپنے  کو آزاد محسوس کیا اس کے  لئے  اسلام کو میں نے  سمجھا، اب اس راہ کی مشکل کو میں بیان کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے  کہ میں اپنے  اللہ کی شکایت کر رہا ہوں، اس لئے  مجھے  ان واقعات کو بیان کرتے  ہوئے  بھی شرم آتی ہے، جب ہر مشکل سے  میرا ایمان اور نکھرا بھی ہو۔

سوال  : پھر بھی ایک آدھ واقعہ سنایئے ؟

جواب  : بس اس کے  لئے  مجھے  ابھی معاف کریں، وہ حالات بھی نعمت کے  طور پر تھے، مگر اب الحمدللہ راحت اور عافیت کی نعمت میں اللہ نے  مجھے  رکھا ہے، میری بیوی عائشہ بن کر میرے  ساتھ ہیں، میرے  دونوں بیٹے  محمد حسن محمدحسین اور میری بیٹی فاطمہ، اللہ نے  بس میرے  لئے  خاندان میں سب کو ہدایت دے  دی ہے، کیا اس انعام کے  بعد ایمان کی راہ کی ان آزمائشوں کا ذکر کرنا، جو ایمان کے  مزہ کے  لئے  عطا کی گئی تھیں کم ظرفی اور نا شکری نہ ہو گی۔

سوال  : سنا ہے  آپ اس سال عمرہ کے  لئے  بھی گئے  تھے ؟

جواب  : الحمدللہ ہم دونوں اپنے  بچوں کے  ساتھ عمرہ کو گئے  تھے۔

سوال  : وہاں آپ کو کیسا لگا؟

جواب  : سچی بات یہ ہے  کہ میرے  گھر والوں کے  لئے  اسلام ان کی چاہت وہیں جا کر بنا، ورنہ یہاں تو بس حالات نے  انھیں میرے  ساتھ آنے  پر مجبور کر دیا تھا، عمرے  کے  بعد الحمدللہ سب کو دین کا شوق ہو گیا ہے۔

سوال  : گوا لیار میں اپنے  خاندان والوں کو ساتھ کچھ آپ کا رابطہ ہے ؟

جواب  : عمرہ کے  بعد کچھ رابطہ شروع کیا ہے، مجھے  لگتا ہے  کہ حرمین کی دعائیں قبول ہو رہی ہیں، میرے  چچا زاد بھائی مجھ سے  ملنے  آنا چاہتے  ہیں، میں نے  ان کو جولائی میں بلایا ہے، وہ ایک بڑے  سرکاری عہدہ پر ہیں، اگر وہ اسلام میں آ جاتے  ہیں تو سب گھر والوں کو سوچنا پڑے  گا، انھوں نے  حضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت ‘‘ پڑھی ہے، ’’ اسلام ایک پریچے ‘‘ بھی میں نے  ان کو بھیجی ہے۔

سوال  : ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کوئی پیغام ؟

جواب  : اسلام دین فطرت ہے، جس طرح پیاسے  کو ٹھنڈے  پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اسلام کی انسان کو ضرورت ہے، کسی پیاسے  کو جس کی زبان خشک ہو رہی ہو، ہونٹوں پر پیاس کی شدت سے  پپڑیاں جم رہی ہوں، آپ ٹھنڈا پانی ہونٹوں تک لائیں تو وہ دھتکارنے  کے  بجائے  جھپٹ کر لے  گا اسی طرح اسلام کو دل کے  ہونٹوں تک لگانے  کی ضرورت ہے، ساری انسانیت کفر و شرک کے  جال اور بوجھ کے  تلے  دبی ہے، اسلام ان کے  لئے  آزادی ہے، اس لئے  اسلام کے  خلاف جھوٹے  پروپیگنڈہ کی پرواہ نہ کر کے  یہاں انسانیت تک اسلام کو ہمیں پہنچانے  کو کوشش کرنا چاہئے، بس ارمغان کے  پڑھنے  والوں کے  لئے  میری یہی درخواست ہے۔

سوال  : شکریہ محسن بھائی، میرا خیال تھا کہ آپ ان آزمائشوں کی کہانی سنائیں گے  جو راہ وفا میں آپ کو پیش آئی ہیں، مگر خیر کسی اور موقع پر۔

جواب  : معاف کیجئے  احمد بھائی، سچی بات یہ ہے  کہ میں آج جس حال میں ہوں مجھے  نہیں لگتا کہ میں نے  آزمائشوں سے  گذر کر یہ راہ پائی ہے، اب اس کا ذکر مجھے  ناشکری سا لگتا ہے، میرے  لئے  دعا کیجئے  کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت اسلام کی قدر کی توفیق عطا فرمائے  اور ہمیں استقامت بھی عطا فرمائے۔

سوال  : دینی تعلیم کے  لئے  آپ نے  کچھ کیا؟

جواب  : الحمد للہ پہلے  روز سے  دین پڑھنا میری پہلی چاہت ہے، الحمدللہ میں نے  قرآن مجید پڑھ لیا ہے، اردو خوب پڑھ لیتا ہوں، کچھ لکھ بھی لیتا ہوں، میرے  سب گھر والے  بھی قرآن مجید پڑھ رہے  ہیں، ہم لوگوں نے  عزم کیا ہے  کہ اول مرحلہ میں اتنا قرآن آ جائے  کہ ہم اپنے  نبی ﷺ کی اتباع میں ایک منزل روزانہ پڑھنے  لگیں، میں نے  جماعت میں جب سے  یہ سنا تھا کہ ہمارے  نبی ﷺ کا معمول سات روز میں قرآن مجید ختم کرنے  کا تھا میں نے  گھر والوں سے  یہ عہد لیا کہ قرآن مجیدسات یا پانچ روز میں ضرور ختم کیا کریں گے، میرے  بچوں اور بیوی تینوں نے  عزم کیا ہے، مجھے  امید ہے  اس سال کے  آخر تک یا کم از کم جنوری سے  ہم لوگ اس لائق ہو جائیں گے  کہ ہر ایک، ایک منزل روزانہ تلاوت کرے، الحمدللہ ابھی بھی فجر کے  بعد ہم پانچوں پابندی سے  تلاوت کرتے  ہیں، اس کے  بعد کچھ ترجمہ یاد کراتا ہوں۔۔

سوال  : ماشاء اللہ بہت خوب اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے، ابی بتا رہے  تھے  کہ اللہ تعالیٰ نے  آپ کو مستجاب الدعوات بنایا ہے، آپ کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں، کوئی واقعہ بتائیے ؟

جواب  : مولوی احمد صاحب میرے  اللہ نے  ہر مسلمان  بلکہ سچی بات یہ ہے  کہ سارے  انسانوں سے  وعدہ کیا ہے  :اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھ سے  دعا مانگو، میں قبول کروں گا، اللہ کا ہر بندہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے، بس اس کو کارساز سمجھ کر مانگے، یہ بات الگ ہے  کہ کسی کے  بارے  میں مشہور ہو جاتا ہے، ورنہ میرا خیال ہے  کہ دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں، جس کی دعا  اللہ نے  قبول نہ کی ہو، میرا تو یقین ہے  مانگنے  کے  طریقے  سے  مانگے  جس طرح دنیا میں فقیر مانگتے  ہیں، اس طرح سے  بھی مانگے  اور آدمی اپنا رب سمجھ کر اڑ جائے  کہ آج اپنے  اللہ سے  سورج مشرق کے  بجائے  مغرب سے  نکلواؤں گا، تو رحمن و رحیم اللہ، بندے  کے  گندے  اور محتاجی کے  ہاتھوں کی لاج رکھتے  ہیں، یہ بات بھی سچ ہے  کہ عادت اللہ کے  خلاف مانگنا نہیں چاہئے، مگر مجھے  اعتماد اتنا ہی ہے، میری بیوی کا مسلمان ہونا اور خود لے  کر میرے  بچوں کو میرے  پاس آ جانا، اس عورت کا جو مجھے  کئی بار زہر دے  چکی ہو اور ایسی مسلمان بن جانا، سورج کے  مشرق کے  بجائے  مغرب سے  نکلنے  سے  کم نہیں ہے، اس گندے  نے  جب بھی دامن احتیاج پھیلا کر خالی ہاتھ اٹھائے  اور میرے  اللہ نے  جھولی بھر دی۔

سوال  : واقعی بات تو یہی ہے، بس مانگنے  والے  ہی نہیں، آپ نے  بتایا کہ خاندانی مسلمانوں سے  آپ کو کچھ تکلیفیں پہنچیں وہ کس طرح کی تھیں کہ آپ کو اس درجہ ملال رہا؟

جواب  : مولوی احمد، بس ان کا ذکر بھی ایسے  کریم آقا کی ناشکری لگتی ہے  انسان کم زور  ہے  زبان سے  بات نکل گئی اللہ معاف فرمائے، میرے  اللہ کا مجھ پر کرم ہی کرم ہے، ایمان مل جانے  کے  بعد کہاں کی تکلیف اور کہاں کی آزمائش، بس میرے  اللہ مجھے  شکر گذار بنا دیں، اس کی دعا آپ ضرور کر دیں اور کفران نعمت سے  بچائیں۔ آمین۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جولائی ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

ایک خوش قسمت نو مسلم داعی و عالم دین مولانا محمد عثمان صاحب قاسمی {سنیل کمار} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ         :     السلام علیکم

محمد عثمان  :           وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   :  قارئین ارمغان کے  لئے  آنجناب سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : ضرور فرمائیے، میرے  لئے  سعادت کی بات ہے۔

سوال  : آپ ہمارے  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  اپنا کچھ مختصر تعارف کرائیں۔

جواب  : میرا نام محمد عثمان ہے  پَلوَل ضلع فرید آباد (ہریانہ) کے  قریب ایک گاؤں میں ایک غیر مسلم راجپوت گھرانے  میں پیدا ہوا، میرا پہلا نام سنیل کمار تھا میرے  والد اپنے  گاؤں کے  ایک معمولی کسان ہیں، فروری  ۱۹۹۲ء میں اللہ تعالیٰ نے  مجھے  اسلام کی دولت سے  نوازا میری عمر اب تقریباً ۲۵ سال ہے، میں نے  دینی تعلیم کا آغاز ۱۹۹۲ ء میں مدرسہ ہر سولی میں کیا، ناظرہ قرآن پاک کے  بعد حفظ شروع کیا، بعد میں دارالعلوم دیوبند میں میں نے  حفظ اور عا  لمیت کی تکمیل کی فالحمد للہ علی ذلک۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  سلسلہ میں کچھ بتائیے ؟

جواب  :  میری زندگی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم ایک نشانی ہے، میرے  اللہ نے  مجھ گندے  کو ہدایت سے  نوازنے  کے  لئے  عجیب و غریب حالات اور نشانیاں دکھائیں، گھریلو حالات کی وجہ سے  آٹھویں کلاس کے  بعد میں نے  تعلیم بند کر دی اور کچھ روزگار وغیرہ تلاش کرنا شروع کئے، میری کلاس کا ایک میواتی لڑکا عبدالحمید میرا دوست تھا جو قصبہ ہتھین کے  پاس کا رہنے  والا تھا، ہم دونوں میں بے  انتہا محبت اور دوستی تھی، عبدالحمید بھی گھریلو حالات کی وجہ سے  پلول میں کار مکینک کا کام سیکھنے  لگا اور کچھ دن کے  بعد میں بھی اس کے  ساتھ ورکشاپ جانے  لگا، عبدالحمید کے  والد میاں جی تھے  اور وہ ہتھین کے  قریب ایک گاؤں میں جمعیت شاہ ولی اللہ کی طرف سے  امام تھے۔

اس گاؤں کے  پسماند ہ مسلمان ۱۹۴۷ ء میں اور اس سے  پہلے  مرتد ہو گئے  تھے، یہ وہ علاقہ ہے  جہاں حضرت تھانویؒ نے  اپنے  چند خدام کو دعوت کے  کام کے  لئے  لگایا تھا اور یہاں کام کرنے  والوں کے  لئے  بڑی دعائیں بلکہ بعض بشارتیں بھی سنائی تھیں، اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی، ایک مزار تھا اس مزار کی یہ خصوصیت پورے  علاقہ میں مشہور تھی کہ اس پر کبھی کسی نے  کوئی تنکا بھی پڑا ہوا نہیں دیکھا ہر وقت انتہائی صاف رہتا ہے، اوپر طاقوں میں کبوتر بھی رہتے  ہیں مگر وہ بھی بیٹ نہیں کرتے  اسی مزار کے  ایک حصہ میں وہ میاں جی صاحب رہتے  تھے  بستی کے  لوگ ان کو کھانا بھی نہیں دیتے  تھے، وہ اکیلے  اذان دیتے  اور نماز پڑھتے  کچھ بچے  کبھی کبھی ان کے  پاس آ جاتے  تھے، وہ ان کو کلمہ یاد کراتے  وہاں کے  مرتد ہو چکے  مسلمان بھینسا بوگی سے  بھاڑے  کا کام کرتے  تھے، یہاں ایک مٹی کا بڑا اونچا ٹیلہ تھا یہ سب لوگ وہاں سے  مٹی اٹھاتے  اور لوگوں کے  یہاں ڈالتے، ایک روز دو لوگ یہاں مٹی سے  کاٹ رہے  تھے  ا چانک انھوں نے  دیکھا کہ وہاں ایک خالی کھوہ میں سفید کپڑا دکھائی دیا، انھوں نے  اور آگے  سے  مٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لاش ہے، یہ لوگ ڈرے  اور میاں جی کو بلایا اور کہنے  لگے  کہ یہ کوئی جن یا پریت ہے، میاں جی آئے  انھوں نے  دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش کی میت ہے  اور اس طرح پڑی ہے  جیسے  آج ہی انتقال ہوا ہو، انھوں نے  لوگوں سے  بتایا کہ یہ کسی اللہ والے  مومن کی میت ہے  اللہ کے  نیک بندوں کی یہی شان ہوتی ہے  کہ مرنے  کے  بعد ان کو دلہن کی طرح سلا دیا جاتا ہے  اور مٹی بھی ان کی حفاظت کرتی ہے، اس واقعہ سے  گاؤں والوں پر بڑا اثر ہوا اور ان میں سے  خاصے  لوگ ارتداد سے  توبہ کر کے  مسلمان ہو گئے، اپنے  بچوں کو بھی میاں جی کے  پاس پڑھنے  بھیج دیا اور مسجد کے  لئے  جگہ دی، جو اللہ نے  بنوا بھی دی، ایک روز عبدالحمید صاحب اپنے  والد کے  پاس اس گاؤں میں گئے  میں بھی ان کے  ساتھ چلا گیا میاں جی کے  کھانے  کا انتظام کرایا، اتفاق سے  پلیٹ ایک ہی تھی، کھا نے  سے  پہلے  میاں جی صاحب نے  کہا تم ذرا ٹھہرو، میں گاؤں سے  دوسری پلیٹ لے  آؤں، ہم دونوں نے  کہا کہ الگ پلیٹ لانے  کی ضرورت نہیں ہم دونوں ایک پلیٹ میں ہی کھاتے  ہیں، یہ کہہ کر ہم دونوں کھانا کھانے  لگے، میاں جی نے  عبدالحمید سے  کہا کہ بیٹا جب تم دونوں میں اتنی محبت اور دوستی ہے  تو اپنے  دوست کو مسلمان کیوں نہیں بنالیتا، یہ کیسی محبت ہے، یہ ہندو مرگیا تو کیا ہو گا؟ یہ کیسی دوستی ہے  کہ ایک ہندو ایک مسلمان، کھانے  کے  بعد عبدالحمید اور ان کے  والد نے  مجھ سے  کلمہ پڑھنے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  بہت خوشامد کی اور اصرار کیا، کئی بار رونے  بھی لگ گئے، میں نے  ان سے  کہا کہ آپ اسلام کا کوئی منتر( کلمہ ) مجھے  بتائیے  میں اس منتر کو پڑھوں گا، اگر میں نے  کوئی چمتکار (کرشمہ) دیکھا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا، میاں جی کو جماعت والوں نے  ایک دعا یاد کرائی تھی وہ انھوں نے  مجھے  یاد کرائی، اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیِ مِنَ النَّار ترجمہ: ’اے  اللہ مجھے  دوزخ سے  پناہ دیجئے ‘ اور کہا کہ چلتے  پھرتے  پڑھا کروں۔

میں نے  ان سے  کہا کہ اس کا مطبل( مطلب) مجھے  بتاؤ، انھوں کہا مطلب تو مجھے  بھی معلوم نہیں کل ہتھین مفتی رشید صاحب کے  پاس جاؤں گا، ان سے  معلوم کر کے  بتاؤں گا، اگلے  روز وہ ہتھین گئے  میں بھی دوسرے  دن شام کو ہتھین گیا میں بھی ان سے  مطلب معلوم کرنے  پہنچا، انھوں نے  بتایا کہ اس دعا کا مطلب یہ ہے  کہ اے  اللہ ! اے  میرے  مالک ! مجھے  دوزخ (نرک) کی آگ سے  بچا، میں نے  سوال کیا کہ نرک کی آگ سے  بچانے  کا کیا مطلب ہے  انھوں نے  بتایا کہ جو آدمی مسلمان ہوئے  بغیر اور ایمان کے  بنا مر جائے، وہ ہمیشہ نرک کی آگ میں جلے  گا اور جو ایمان پر مرے  گا وہ جنت میں جائے  گا، میں نے  کہا کہ کیا واقعی یہ بات سچی ہے، انھوں نے  کہا کہ یہ بالکل سچی ہے، مجھے  بہت دکھ ہوا اور میں نے  عبدالحمید سے  کہا کہ تو میرا کیسا دوست ہے  اگر میں اسی طرح مر جاتا تو ہلاک ہو جاتا، تو نے  کبھی مجھ سے  نہیں کہا، میاں جی نے  کہا واقعی بیٹا تم صحیح کہتے  ہو، عبدالحمید کو تمہارے  ایمان کی بہت فکر کرنی چاہئے  تھی، بیٹا اب جلدی کلمہ پڑھ لو، میں تیار ہو گیا وہ مجھے  لے کر اگلے  روز ہتھین مدرسہ گئے  مفتی صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عثمان رکھ دیا، الحمدللہ علیٰ ذالک

سوال  :  اس کے  بعد آپ نے  مسلمان ہونے  کا اعلان کر دیا یا گھر والوں سے  چھپائے  رکھا؟

جواب  : اس کے  بعد کا ہی حال سننے  کاہے، تیسرے  روز مجھے  مفتی صاحب نے  قانونی کاروائی کے  لئے  ایک صاحب کے  ساتھ فرید آباد بھیج دیا، میں نے  فرید آباد ضلع جج کے  سامنے  بیان حلفی دے  دئے، ضلع جج متعصب قسم کے  آدمی تھے  انھوں نے  نابالغ کہہ کر مقامی تھانہ انچارج کے  حوالہ کرنے  اور تحقیقات کا حکم جاری کر دیا، ہتھین تھانہ کے  انچارج جناب اومیش شرما تھے  وہ کسی ضروری تفتیش کے  لئے  جا رہے  تھے  انھوں نے  انسپکٹر بلبیر سنگھ کو میرا کیس سونپا اور چلے  گئے، بلبیر سنگھ بہت ظالم اور متعصب تھے، انھوں نے  مجھے  بہت دھمکایا اور بے  دردی سے  پہلے  ہاتھوں سے  مار لگائی اور جب میں نے  ایمان سے  پھرنے  سے  انکار کیا تو ڈنڈے  سے  بے  تحاشا مارا، جگہ جگہ میرے  خون بہنے  لگا، میں ہر وقت اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیِ مِنَ النَّار پڑھتا تھا مار کھاتے  وقت کبھی کبھی زور سے  یہ دعا نکل گئی، اس نے  کہا یہ کیا پڑھتا ہے  اور گا لیاں دیں، میں نے  دعوت کی نیت سے  اسے  اس دعا کا مطلب بتایا، اس کو اور بھی غصہ آیا، اس نے  دو سپاہیوں کو کہا کہ لوہار کی بھٹی پر جا کر لوہے  کے  سریے  گرم کرو اور لال کر کے  لنگا کر کے  اسکو داغ دو، ہم دیکھیں گے  کہ یہ آگ سے  کیسے  بچے  گا اور جب تک یہ اپنے  دھرم میں واپس آنے  کو نہ کہے  اس وقت تک اسکو نہ چھوڑنا، وہ سپاہی پاس میں لوہار کی بھٹی پر گئے  اور چار لوہے  کے  سریے  گرم کر کے  بالکل آگ کی طرح لال کر کے  مجھے  لے  کر تھانہ میں لائے، میرے  اللہ کا کرم ہے  دعا پڑھتا رہا، انھوں نے  میری شرٹ اتاری اور میری کمر پر سریوں سے  داغ دینا چاہا مگر اللہ کا فضل کہ مجھے  ذرا بھی اثر نہیں ہوا، وہ سپاہی حیرت میں آ گئے  اور انسپکٹر بلبیرسے  کہا اس وقت تک سریوں کی لالی ختم ہو گئی تھی، جب اس نے  دیکھا کہ میری کمر پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو اس نے  غصہ میں سپاہیوں کو گالی دیتے  ہوئے  کہا کہ تم سریے  گرم کر کے  نہیں لائے  ہو یہ کہہ کے  ایک سریہ اٹھایا، اس کا ہاتھ بری طرح جل گیا، وہ تکلیف کے  مارے  بے  تاب ہو گیا ور دو سپاہیوں کو کہا اسکو سامنے  بھگا کر گولی مار دو ورنہ یہ بہت سارے  لوگوں کے  دھرم بھرشٹ کر دے  گا، میں ڈاکٹر کے  پاس جاتا ہوں انسپکٹر چلا گیا، وہ دونوں سپاہی مجھے  زور دیتے  رہے  کہ میں دوڑوں، میں کہا میں چور نہیں ہوں مجھے  گولی مارنی ہو تو سامنے  سے  ماردو، یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تھانہ انچارج جناب اومیش شرما آ گئے  انھوں نے  سارا ماجرا سنا، پولیس والوں کو دھمکایا کہ اس کا وشواس ( یقین ) ایسا پکّا ہے  کہ تم گولی بھی ماردو گے  تواس کو نہیں لگے  گی، اس نے  مجھے  کھانا کھلایا اور پھر ایک چارج شیٹ لگا کر رہتک جیل چالان کر دیا اور مجھ سے  کہا کہ بیٹا تیرے  لئے  اسی میں بھلائی ہے  کہ میں تجھے  جیل بھیج دوں ورنہ تجھے  کوئی مار دے  گا، اللہ کا کرم میری اس مصیبت سے  جان چھوٹی اور اللہ کی رحمت پر میرا یقین اور مضبوط ہو گیا۔

سوال  :  سنا تھا کسی کوتوال نے  آپ کے  ساتھ اسلام قبول کیا تھا، اس کا کیا واقعہ ہے  ؟

جواب  : میں آگے  سناتا ہوں، یہ تھانہ انچارج کوتوال اومیش شرما جی بہت ہی اچھے  آدمی تھے، تیسرے  روز رہتک جیل آئے  اور مجھ سے  میرے  اسلام قبول کرنے  اور آگ کا اثر نہ کرنے  کا پورا ماجرا سنا اور اس کی تحقیق کی کہ واقعی تجھ پر ان گرم سریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، میں نے  کہا آپ میرے  خیر خواہ (ساؤ) ہیں آپ سے  سچ نہ بتاؤں گا تو کس سے  بتاؤں گا۔

جب ان کو یقین ہو گیا کہ اللہ نے  مجھے  آگ سے  بچایا تو وہ اور متاثر ہوئے، میری ضمانت کرائی فائنل رپورٹ لگائی، مجھے  جیل سے  چھڑایا اور مجھ سے  کہا کہ مجھے  بھی ان مولانا صاحب سے  ملاؤ جنھوں نے  تمہیں مسلمان کیا ہے، ہتھین آ کر مفتی رشید احمد صاحب سے  ملے  اور کچھ دیر اسلام کی باتیں معلوم کیں اور وہیں مسلمان ہو گئے  مفتی صاحب نے  ان کو اسلام کو ظاہر نہ کرنے  کا مشورہ دیا، کچھ زمانہ کے  بعد بابری مسجد شہید ہو گئی، پورے  میوات میں فسادات ہوئے  ہتھین کا علاقہ ہمیشہ فسادات کا گڑھ رہتا تھا مگر  کوتوال شرما جی ( جو اب عبداللہ ہیں ) کی وجہ سے  اس علاقہ میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہوا اور انھوں نے  مسلمانوں کی بڑی مدد کی۔

سوال  : آج کل آپ کا کیا مشغلہ ہے  ؟

جواب  : میں آج کل اَلور ضلع میں جمعیت شاہ ولی اللہ کے  تحت دعوتی کام کر رہا ہوں، وہاں پر ایک ادارہ کی ذمہ داری میرے  سپرد ہے، حضرت مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی کے  واسطہ ہی سے  ہر سولی مدرسہ میں مرا داخلہ ہو گیا تھا میں نے  ان کی ہی نگرانی میں زندگی گزارنے  کا عزم کیا ہے۔

سوال  : قارئین ارمغان کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

جواب  : قارئین ارمغان کے  لئے  میری ایک گذارش ہے  کہ ارمغان ایک تحریک ہے  جس کا مقصد ملت اسلامیہ کے  ہر فرد کو اپنے  دعوتی مقصد کے  لئے  کھڑا کرنا اور عملی میدان میں اتار کر ہم جیسے  کفر اور شرک زدہ لوگوں کی فکر کرنا ہے، صرف تائید یا تصویب کر کے  یا واہ واہ کر کے  گھر بیٹھے  رہنے  کی ہمیشہ اصحابِ ارمغان نے  مذمت کی ہے، قارئین کو ارمغان کے  قاری کی حیثیت سے  اس نسبت کی لاج رکھنی چاہئے  اور زندگی میں لوگوں کو تو کفر سے  نکالنے  کی عملی کوشش ضرور کرنی چاہئے

دوسری ضروری درخواست یہ ہے  کہ میرے  گھر والوں اور اہل خاندان کی ہدایت کے  لئے  دعا کریں اور اس کی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے  بھی نبی کے  درد کا کچھ حصہ نصیب فرما دیں۔ آمین

سوال  : بہت بہت شکریہ۔ فی امان اللہ۔

جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ، مجھ کو تحدیثِ نعمت کا موقع عطا فرمایا۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جولائی۲۰۰۳ء

٭٭٭