FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 خلاق زمین و زمان

اردوئے معلّیٰ

فہرست مضامین

یعنی

کارنامہ فصاحت و سرمایہ بلاغت، رقعات اردو

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب

جو بلحاظ زبان دانی تعلیم اطفال کے لئے ایک دستور العمل ہے

جمع و ترتیب: سید اویس قرنی

ماخذ:نسخہ جو سید عبد السلام کے اہتمام سے مطبع فاروقی واقع دہلی میں طبع ہوا ۱۳۲۶ ھ ۱۹۰۸ء

(حصہ دوّم )

بنام چودھری عبد الغفور المتخلص بہ سُرور

جناب چو دھری صاحب آپ کا عنایت نامہ اس وقت پہنچا اور یہ وقت صبح کا ہے دن بدھ کا ربیع الثانی کی چوبیسویں اور دسمبر کی پہلی۔ کتاب کے پارسل کی رسید معلوم ہوئی حکیم عبدالرحیم خاں کوئی نامی اور نامور نہیں ہیں یہاں کے قاضی زادوں میں سے ایک شخص ہیں طبابت کرنے لگے ہیں میرے بھی آشنا ہیں صرف سلام علیک زیادہ ربط نہیں ہے سو ان کا حال مجھ کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرح ہیں آگے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ جو کچھ لکھیں وہ بقلم چودھری صاحب لکھا جائے حضرت نے نہ مانا اور پھر عبارت بدستخط خاص لکھی واللہ باللہ نہ مجھ سے نہ اور کسی سے پڑھی گئی ناچار آپ کا خط پھر آپ کو بھیجتا ہوں۔ حضرت سے کچھ نہ فرمائیے گا مگر اس عبارت کو اپنے ہاتھ سے نقل کر کے مجھ کو بھجوائیے گا ضرور اور جلد۔ شفیق مکرم جناب چودھری غلام رسول صاحب کی خدمت میں سلام پہنچے۔

ایضاً

جنابِ عالی آج آپ کا تفقد نامہ مرقومہ یازدہم شعبان مطابق پنجم مارچ بقید روز دو شنبہ پہنچا پہلے تو ان تاریخوں کے حساب سے تطابق میں میں الجھا پھر خط کے پہنچنے سے بہت خوش ہوا۔ ڈاک کیا ہے خاک ہے خیر ادھر پڑھا ادھر جواب لکھا خدا کرے یہ میرا خط جلد پہنچے ورنہ یہ آپ کو خیال ہو گا کہ غالب نے ہمارے خط کا جواب نہ لکھا حقیقت میری مجملاً یہ ہے کہ راہ و رسم مرسلت حکام عالی مقام سے بدستور جاری ہو گئی ہے نواب لفٹنٹ گورنر بہادر غرب و شمال کو نسخہ دستنبو بسبیل ڈاک بھیجا تھا ان کا خط فارسی شعر تحسین عبارت و قبول صدقِ ارادت و مودّت بسبیلِ ڈاک آ گیا۔ پھر قصیدہ بہاریہ تہنیت و مدحت میں بھیجا گیا اس کی رسید آ گئی وہی خان صاحب بسیار مہربان دوستان القاب اور کاغذ افشانی ازاں بعد ایک قصیدہ جناب رابرٹ منٹگمری صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر قلمرو پنجاب کی مدح میں بتوسط کمشنر بہادر کل مجھ کو آ گیا۔ پنشن ابھی تک مجھ کو نہیں ملی۔ جب ملے گی حضرت کو اطلاع دی جائے گی۔ پیرو مرشد عالم ہیں اور میں جاہل ہوں ان کی تسلیم نہ کرنے کو میں نے تسلیم کیا اور پھر تسلیم بجا لایا۔ اے حضرت جناب مخدوم مکرم چودھری غلام رسول صاحب کی خدمت میں انہیں الفاظ میں رسم مبارکباد ادا کی گئی تھی نہ عبارت آرائی نہ طبع آزمائی۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ خط بھی مئی و جون میں آپ کو پہنچ جائے آپ کا بھی تو مارچ کا خط مجھ کو اب آخر اپریل میں پہنچا ہے۔ جناب شیخ صاحب کیوں مجھ کو محجوب کرتے ہیں اس باب میں اس سے زیادہ عرض نہیں کر سکتا کہ افادہ مشترک ہے قصیدہ و مثنوی بھیج دیجئے لطف اٹھاؤں گا اور جو کچھ میرے خیال میں آئے گا بے تکلف عرض کر دوں گا۔ میرا سلام کہیئے اور مثنوی اور قصیدہ ان سے لے کر جلد بھیج دیجئے۔ اپنے عم عالی مقدار کی خدمت میں میرا سلامپہنچائیے اور کہیئے کہ حضرت خلاصہ مکتوب سابق یہی الفاظ ہندی تھے۔ شاید کچھ تغیر بالمعروف ہو تو یہ شادی بصد ہزار مسرت آپ کو مبارک ہو اور ان کی اولاد دیکھنی اور اسی طرح ان کی شادی کرنی نصیب ہو۔ فیض علی خاں صاحب کو میرا سلام پہنچے۔ میں بھی آپ کی ملاقات کا مشتاق اور آپ کا مداح رہوں گا۔ خط کا لفافہ اس خط میں ملفوف کر کے یہ بھیجتا ہوں یہ آج پہنچا اور آج ہی میں نے اس کا جواب لکھا۔ کاتب وہ ہی ہے جو لفافہ ملفوفہ کا مکتوب الیہ ہے۔

ایضاً

جناب چودھری صاحب آپ کے تلطف نامہ کے ورود کی مسرت اور پارسل کے نہ پہنچنے کی حیرت باعث اس کے ہوئی کہ آپ کو پھر تکلیف دوں اور با آنکہ خط جواب طلب نہ تھا جواب لکھوں۔ بندہ پرور میں نے پارسلکی رسید لے لی تھی۔ اب آپ کے خط کو پڑھ کر کار پردازانِ ڈاک کے پاس وہ رسید بھجوائی انہوں نے کتاب دیکھ کر میرے آدمی سے کہہ دیا کہ سکندرہ راؤ کی رسید موجود ہے اب پارسل کی جواب دہی وہاں والوں کے ذمہ ہے یہ سن کر میں نے یہ مناسب جاناکہ وہ رسید آپ کے پاس بھیج دوں آپ سکندرہ راؤ کے ڈاکخانہ میں بھجوا کر ان سے پارسل منگوا لیں اور اب اس رسید کا میری طرف راجع ہونا کسی صورت میں ضرور (ضروری)نہیں۔ والسلام۔

ایضاً

جناب چودھری صاحب کی یاد آوری اور مہر گستری کا شکر بجا لاتا ہوں آپ کا خط مع قصیدہ و مثنوی پہنچا۔ مثنوی کو جداگانہ بطریق پیم فلٹ (پمفلٹ) پاکٹ بھیجتا ہوں اور یہ خط جداگانہ ارسال کرتا ہوں لفافہ اس کا بھی آپ کے نام کا ہے آپ کے خواب کا ماجرا اور صبح کو ادھر کا قصد اور پھر اپنے چچا صاحب کے کہنے سے نظر تابستان پر اس عزم کا ملتوی رکھنا معلوم ہوا آپ کے چچا صاحب نے کرامت کی کہ جو آپ کو منع کیا۔ ڈاک کی سواری پر اگر آپ اس شہر میں میرے مکان تک آ جاتے تو ممکن تھا مگر رہنا شہر میں بے حصول اجازت حاکم احتمال ضرور رکھتا ہے۔ اگر خبر نہ ہو تو نہ ہو اگر خبر ہو جائے تو البتہ قباحت ہے۔ زنہار کبھی یہ گمان نہ کیجئے گا کہ دلی کی عملداری میرٹھ اور آگرہ اور بلاد شرقیہ کی مثل ہے۔ یہ پنجاب احاطہ میں شامل ہے نہ قانون نہ آئیں۔ جس حاکم کی جو رائے میں ہو وہ ویسا ہی کرے بہرحال ؎ اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ۔ انشاءاللہ العظیم دو تین مہینے میں یہاں بھی صورت امن و امان کی ہو جائے گی مگر میری آرزو با ستیفا اس صورت میں بھی بر نہ آئے گی میں یہ تاکے ہوئے ہوں کہ میری اور تمہاری ملاقات اس طرح ہو کہ ہم تم ہوں اور حضرت صاحبِ عالم صاحب ہوں اور باہم حرف و حکایت کریں اگر زمانہ میری خواہش کے موافق نقش قبول کرتا ہے تو میں مارہرہ کو آتا ہوں۔ حضرت پیر و مرشد کا اشتیاق اور اسی جلسہ میں تمہارے دیدار کا شوق ایسا نہیں ہے کہ مجھ کو آرام سے بیٹھا رہنے دے گا۔ صاحب یہ مثنوی تو میرے واسطے ایک مرثیہ ہو گئی ہے اس بزرگوار کے جگر میں کیا کیا گھاؤ پڑے ہوں گے تب یہ تراوش خوننابہ ظہور میں آئی ہو گی۔ مزا یہ ہے کہ عنوانِ بیان سے حق بجانب انہیں کے معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ اصل کاغذ میری نظر میں نہیں اور اصل حقیقت ِ حال مجھ پر مجہول ہے اس واسطے انجام و آغاز اندازہ و انداز کچھ نہیں سمجھا۔ حک و اصلاح کو آپ بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیں میں نے بحسبِ دستور ہر جگہ منشا ء اصلاح لکھ دیا ہے شیخ صاحب سے میرا سلام کہیئے گا اور کہیئے گا کہ کیا کروں دور اور معذور ہوں مدد نہیں کر سکتا اعانت کے مراسم تقدیم کو نہیں پہنچا سکتا۔ خدا تمہارا نگہبان رہے۔ والسلام۔

ایضاً

شفیق مکرم مظہر لطف و کرم جناب چودھری صاحب کی خدمت میں بعد سلام یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کا مہربانی نامہ آیا میرا رنج و تشویش مٹایا۔ میری خدمت مقبول ہوئی خوشی حصول ہوئی۔ میر امداد علی شاہ کو میری دعا کہنا ان کا باپ میرا بڑا یار تھا۔ میری طرف سے خاطر جمع کر دیجئے گا۔ اب سبیل اچھی نکل آئی۔ چودھری صاحب کے ذریعے سے جو کچھ مجھ کو بھیجنا ہو گا بھجوا دوں گا۔ جناب چودھری صاحب آج کا میرا خط کاسئہ گدائی ہے یعنی تم سے کچھ مانگتا ہوں تفصیل یہ کہ مولوی باقر علی دہلوی کے مطبع میں سے ایک اخبار ہر مہینے میں چار بار نکلتا ہے مسمیٰ بدہلی اردو اخبار۔ بعض اشخاص سنین ماضیہ کے اخبار جمع کر رکھا کرتے ہیں اگر احیاناً آپ کے یا کسی آپ کے دوست کے ہاں جمع ہوتے چلے آئے ہیں تو اکتوبر ۱۸۳۷ء سے دو چار مہینے کے آگے کے اوراق دیکھے جائیں جس میں بہادر شاہ کی تخت نشینی کا ذکر اور میاں ذوق کے دو سکہ ان کے نام کہہ کر نذر کرنے کا ذکر مندرج ہو بے تکلف وہ اخبار چھاپہ کا اصل بجنسہٖ میرے پاس بھیج دیجئے آپ کو معلوم رہے اکتوبر کی ساتویں آٹھویں تاریخ ۱۸۳۷ ء میں یہ تخت پر بیٹھے ہیں اور ذوق نے اسی مہینے میں یا دو ایک مہینے کے بعد سکے کہہ کر گزرانے ہیں۔ احتیاطاً پانچ بار چار مہینے تک کے اخبار دیکھ لیے جائیں۔ یہاں تکمیری طرف سے ابرام ہے کہ اگر بمثل کسی اور شہر میں کوئی آپ کا دوست جامع ہو اور آپ کو اس پر علم ہو تو وہاں سے منگوا بھیجئے۔ والسلام مع الاکرام۔

 

ایضاً

شفیق میرے عنایت فرما۔ تمہاری مہربانی کا شکر بجا لاتا ہوں نہایت سعی یہ تھی کہ آپ کی طرف سے ظہور میں آئی میں نے کلکتہ میں مہتمم مطبع جام جہاں نما کو لکھ بھیجا ہے اور ترک سعی کیا ہے آپ بھی فکر نہ کیجئے۔ اگر کہیں سے آپ کے پاس آ جائے تو مجھ کو بھیج دیجئے میرے پاس آئے گا تو میں تم کو اطلاع دے دوں گا۔ عنایت ِ الہی کا کون شخص مشتاق نہ ہو گا۔ اس کی پرسش زاید میں خدمت گزاری کو حاضر ہوں وہ جب چاہیں اپنا کلام بھیج دیں میرا سلام اور یہ پیام کہیئے گا۔ صاحب تم نے ہمارے پیرو مرشد کو ہم پر خفا کر دیا بھلا وہ خط نہ لکھیں نہ لکھیں کبھی تم کو فرماویں کہ غالب کو میری دعا لکھ بھیجنا بہرحال میرا سلام و نیاز عرض کیجئے اور ان کے مزاج مبارک کی خیر و عافیت لکھیے اور یہ لکھیے کہ اگر خدانخواستہ وہ مجھ سے ناخوش ہیں تو ناخوشی کی وجہ کیا ہے اپنے چچا صاحب کی خدمت میں سلام پہنچائیے گا اور مولانا عطا کو سلام شوق کہیئے گا۔

ایضاً

میرے شفیق ولی چودھری عبد الغفور صاحب کو خدا سلامت رکھے۔ دیکھو میرے حواس کا اب یہ عالم ہے کہ تمہارے نام کی جگہ تمہارے چچا صاحب کا نام لکھا تھا اسی طرح سابق کے خط میں سر نامے پر یہ لکھا گیا ہو گا؎

بہار پیشہ جوانے کہ غالبش نامند

کنوں بہ بیں کہ چہ خوں میچکد ز ہر نفسش

جو خط کہ آپ کے خطوط کے جواب میں آئے ہیں ان کے بھیجنے کی کیا حاجت تھی آپ کی سعی اور اپنی ناکامی پہلے سے میرے دلنشین اور خاطر نشاں ہے جیسا کہ کوئی استاد کہتا ہے ؎

تہیدستانِ قسمت را چہ سود از رہبر کامل

کہ خضر از آب ِ حیواں تشنہ مے آرد سکندر را

وہ اخبار نہ کہیں سے ہاتہ (ہاتھ)آیا اور نہ آئے گا میں اپنے خدا سے امید وار ہوں کہ میرا کام بغیر اس کے نکل جائے گا۔ بندہ پرور میرا کلام کیا نظم کیا نثر کیا اردو کیا فارسی کبھی کسی عہد میں میرے پاس فراہم نہیں ہوا۔ دو چار دوستوں کو اس کا التزام تھا کہ وہ مسودات مجھ سے لے کر جمع کر لیا کرتے تھے سو ان کے لاکھوں روپے کے گھر لٹ گئے جس میں ہزاروں روپے کے کتب خانے بھی گئے اس میں وہ مجموعہ ہائے پریشان بھی غارت ہوئے میں خود اس مثنوی کے واسطے خون در جگر ہوں ہائے کیا چیز تھی۔ پارسل میں خطوط بھیجنے محل اندیشہ ہے خدا نے بچایا چونکہ اب وہ خط آپ کے کچھ کام کے نہ سمجھا از راہ احتیاط پارسل میں سے نکال لیے۔

ایضاً

میرے کرم فرما میرے شفیق ؎

شرط اسلام بود ورزش ایماں بالغیب

اے تو غائب ز نظر مہر تو ایمانِ من است

آپ کے اس خط کا جواب بعد لکھنے اس شعر کے منحصر التماس پر ہے کہ میری طرف سے تحریر جواب خط میں کبھی تقصیر نہ ہو گی لیکن اغلب و اکثر ابتدا بہ تحریر نہ ہو گی یہ خط ناچار از روئے اضطرارواپس بھیجتا ہوں واسطے خدا کے میرے پیرو مرشد کے ارشادات کو ایک اور کاغذ پر اپنے ہاتہ (ہاتھ) سے نقل کر کے بھیج دیجئے تاکہ مجھ بد نصیب کو معلوم ہو کہ حضرت نے کیا لکھا ہے۔ جناب چودھری غلام رسول صاحب کی خدمت میں سلام نیاز۔ استاد شیخ عطا حسین صاحب کی جناب میں سلام۔

ایضاً

میرے شفیق ولی کو میرا سلام پہنچے۔ کل انشاء کا پارسل پہنچا اور آج خط۔ انشا ء کا نام بہارستان اور آپ کا تخلص سُرور۔ بہارستان مضاف اور سرور مضاف الیہ۔ بہارستان ِ سرور اچھا نام ہے قطعہ کا وعدہ نہیں کرتا۔ کس واسطے کہ اگر بے وعدہ پہنچ جائے گا تو لطف زیادہ دے گا۔ اور اگر نہ پہنچے گا تو محل شکایت نہ ہو گا رفع فتنہ و فساد اور بلاد میں مسلم۔ یہاں کوئی طرح آسائش کی نہیں ہے اہلِ دہلی عموماً بُرے ٹھہر گئے۔ یہ داغ ان کے جبین حال سے عموماً مٹ نہیں سکتا۔ میں اموات میں ہوں مردہ شعر کیا کہے گا۔ غزل کا ڈھنگ بھول گیا۔ معشوق کس کو قرار دوں جو غزل کی روشن ضمیر میں آوے۔ رہا قصیدہ ممدوح کون ہے۔ ہائے انوری گویا میری زبان سے کہتا ہے ؎

اے دریغا نیست ممدوحے سزاوار مدیح

اے دریغا نیست معشوقے سزاوار غزل

گورنمنٹ کے دربار میں ہمیشہ میری طرف سے قصیدہ نذر گزرتا ہے اشرفیاں نہیں اور خلعت ریاست دودمانی کا سات پارچہ اور تین رقم جیغہ سرپیچ مالائے مروارید مجھ کو ملا کرتا ہے اب نواب گورنر جنرل بہادر یہاں آتے ہیں دربار میں بلائے جانے کی توقع نہیں پھر کس دل سے قصیدہ لکھوں صناعت شعر اعضائے و جوارح(اعضا و جوارح) کا کام نہیں دل چاہیے۔ دماغ چاہیے۔ ذوق چاہیے۔ امنگ چاہیے۔ یہ ساماں کہاں سے لاؤں جو شعر کہوں۔ چونسٹھ برس کی عمر ولولہ شباب کہاں۔ رعایتِ فن اس کے اسباب کہاں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

 

ایضاً

پیرو مرشد سلام نیاز پہنچے۔ کف الخضیب صُور جنوبی میں سے ایک صورت ہے اس کے طلوع کا حال مجھ کو معلوم نہیں۔ اختر شناسانِ ہند کو اس کا حال کچھ معلوم نہیں اور ان کی زبان میں اس کا نام بھی یقین ہے کہ نہ ہو گا۔ قبول دعا وقت طلوع منجملہ مضامین شعری ہے جیسے کتان کا پرتوِ ماہ میں پھٹ جانا اور زمرد سے افعی کا اندھا ہو جانا۔ آصف الدولہ نے افعی تلاش کر کے منگوایا اور قطعات زمرد اس کے محاذی چشم رکھے کچھ اثر نہ ہوا۔ ایران و روم و فرنگ سے انواع کپڑے منگوائے چاندنی میں پھیلائے مَسکا بھی نہیں۔ تحویلِ آفتاب بہ حمل کے باب میں موٹی بات یہ ہے کہ ۲۱ مارچ کو واقع ہوتی ہے کبھی کبھی ۲۲ کبھی ۲۳ بھی آ پڑتی ہے۔ اس سے تجاوز نہیں رہا طالع وقت تحویل درست کرنا بے کتب فن اور مبلغ علم ممکن نہیں میرے پاس یہ دونوں باتیں نہیں ؎

ندانم کہ گیتی چہ ساں مے رود

چہ نیکو چہ بد در جہاں مے رود

میں تو اب روز و شب اسی فکر میں ہوں کہ زندگی تو یوں گزری اب دیکھئے موت کیسی ہو ؎

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ

مر گئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا

میرا ہی شعر ہے اور میرے ہی حسبِ حال ہے۔ سکہ کا وار تو مجھ پر ایسا چلا جیسے کوئی چھرا یا کوئی گراب کس سے کہوں کس کو گواہ لاؤں۔ یہ دونوں سکے ایک ہی وقت میں کہے گئے ہیں۔ یعنی جب بہادر شاہ تخت پر بیٹھے تو ذوق نے یہ دونوں سکے کہہ کر گزرانے۔ بادشاہ نے پسند کیے۔ مولوی محمد باقر جو ذوق کے معتقد ین میں تھے انہوں نے دلی اردو اخبار میں یہ دونو(دونوں ) سکے چھاپے۔ اس سے علاوہ اب وہ لوگ موجود ہیں کہ جنہوں نے اوس (اس) زمانے میں مرشد آباد اور کلکتہ میں یہ سکے سنے ہیں اور ان کو یاد ہیں اب یہ دونو(دونوں ) سکے سرکار کے نزدیک میرے کہے ہوئے اور گزرانے ہوئے ثابت ہوئے۔ میں نے ہرچند قلمرو ہند میں دلی اردو اخبار کا پرچہ ڈھونڈا کہیں ہاتھ نہ آیا یہ دھبا مجھ پر رہا۔ پنشن بھی گئی اور وہ ریاست کا نام و نشان خلعت و دربار بھی مٹا۔ خیر جو کچھ ہوا چونکہ موافق رضائے الہی کے ہے اس کا گلہ کیا ؎

چوں جنبشِ سپہر بہ فرمان ِ داور ست

بیداد نبود انچہ بما آسماں دہد

یہ تحریر بطریق حکایت ہے نہ بسبیل شکایت۔ گویند از ابو الحسن خرقانی رحمہ اللہ علیہ پُرسش رفت کہ چہ حال داری فرمود کدام حال خواہد بود کسے را کہ خدا ازوے فرض طلبد و پیمبر سنّتوزن مال خواہد و ملک الموت جان۔ قصہ مختصر اب زیست باُمید ِ مرگ ہے۔ قاطع منطبعہ دیکھا جائے اور بے حیف و بے میل از راہِ انصاف دیکھا جائے مرشد زادوں کو سلام مسنون اور دعائے افزونی عمر و دولت پہنچے۔

ایضاً

میرے مشفق آپ کا خط آیا اور اس کے آنے نے تمہاری رنجش کا وسوسہ میرے دل سے مٹایا۔ ایک قاعدہ آپ کو بتاتا ہوں اگر اس کو منظور کیجیئے گا تو خطوط کے نہ آنے کا احتمال اٹھ جائے گا اور رجسٹری کا دردِ سر جاتا رہے گا۔ آدھ آنہ نہ سہی ایک آنہ سہی آپ بھی خط بیرنگ بھیجا کیجیئے اور میں بھی بیرنگ بھیجا کروں۔ پیڈ خطوط تلف بھی ہوتے ہیں۔ اس قاعدہ کا جیسا کہ میں واضع ہوا ہوں بادی بھی ہوا اور یہ خط بیرنگ بھیجا۔ پنشن جاری ہو گیا۔ تین برس کا چڑھا ہوا روپیہ مل گیا۔ بعد ادائے قرض۔۔۔۔ بچے۔ اب ماہ بماہ روپیہ ملتا ہے مگر یہی تین مہینے ستمبر اکتوبر نومبر ملیں گے۔ ستمبر ۱۸۶۰ سے تنخواہ ششماہی ہو جائے گی۔ اس سے بڑھ کریہ بات ہے کہ چار روپیہ سینکڑاسالانہ عموماً وضع ہوا کرے گا۔ اس حساب سے میرے حصہ میں ڈھائی روپیہ مہینا آیا۔۔۔۔ کے ساٹھ رہیں گے۔ کچھ رام پور سے ماہ بماہ آتا ہے یہ دونو (دونوں ) آمدنییں مل کرخوش و ناخوش گزارا ہو جاتا ہے۔ یہاں شہر ڈھ رہا ہے۔ بڑے بڑے نامی بازار خاص بازار اور اردو بازار اور خانم کا بازار کہ ہر ایک بجائے خود ایک قصبہ تھا اب پتہ بھی نہیں کہ کہا ں تھے۔ صاحبانِ امکتہ و د کاکین نہیں بتا سکتے کہ ہمارا مکان کہاں تھا اور دکان کہاں تھی۔ برسات بھر مینہ نہیں برسا اب تیشہ اور کلند کی طغیانی سے مکانات گر گئے۔ غلہ گراں ہے موت ارزاں ہے میوہ کے مول اناج بکتا ہے۔ ماش کی دال ۸ سیر۔ باجرہ ۱۲ سیر۔ گیہوں ۱۳ سیر۔ چنے ۱۶ سیر۔ گھی ۱ سیر۔ ترکاری مہنگی۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ کنوار کا مہینا جسے جاڑے کا دوار کہتے ہیں پانی گرم۔ دھوپ تیز۔ اور لو چلتی ہے۔ جیٹھ اساڑھ کی سنی گرمی پڑتی ہے۔ حضرت رفعت درجات جناب صاحبِ عالم کی خدمت میں دوستانہ سلام اور مریدانہ بندگی بانکسار تمام عرض کرتا ہوں۔ حضرت کو کس راہ سے میرے آنے کا انتظار ہے۔ میں نے مرشد زادہ کے خط میں کب اپنا عزم لکھا یا کسی نے آپ سے میری زبانی کہا کہ آپ روزِ روانگی کے تقرر سے اطلاع چاہتے ہیں۔ ہاں آپ کی قدمبوسی کی تمنا اور انوار الدولہ کے دیدار کی آرزو حد سے زیادہ ہے اور ایسا جانتا ہوں کہ یہ آرزو گور میں لے جاؤں گا۔ تنخواہ کے اجرا کا حال اور مستقبل میں اس کے وصول کی صورت ان سطروں سے جو آغاز مکتوب چودھری عبد الغفور صاحب کی خدمت میں لکھی گئی ہیں مع روداد شہر معلوم کر لیجئے گا۔ لالہ گوبند پرشاد صاحب ہنوز میرے پاس نہیں آئے ہیں۔ دنیا دار نہیں فقیر خاکسار ہوں تواضع میری خو ہے۔ انجاح مقاصد خلق میں حتی الوسع کمی کروں تو ایمان نصیب نہ ہو۔ انشاءاللہ العزیز وہ فقیر سے راضی و خوشنود رہیں گے۔ جناب مستطاب حضرت محمد امیر صاحب کی خدمت میں بعد سلام و نیاز یہ گزارش ہے کہ میرے پاس حضرت کا سلام پیام سوائے اب کی بار کے کبھی نہیں پہنچا اب ان سطور کو اپنا ذریعہ افتخار سمجھا اور نوید مقدم مبارک سے بہت خوش ہوا یہ جو خانہ کوچی و گریز پائی اور بے اطمینانی کا آپ کو مجھ پر گمان ہے اور اس کا رنج ہے یہ خلاف واقع کسی نے آپ سے کہا ہے۔ میں مع زن و فرزند ہر وقت اسی شہر میں قلزم خون کا شناور رہا ہوں۔ دروازہ سے باہر قدم نہیں رکھا نہ پکڑا گیا نہ قید ہوا نہ مارا گیا۔ کیا کہوں میرے خدا نے مجھ پر کیسی عنایت کی اور کیا نفس مطمئنہ بخشا جان و مال و آبرو میں کسی طرح کا فرق نہیں آیا۔ تنخواہ جس کو حضرت نے یومیہ لقب دیا ہے اس کا حال اوپر کی تحریر سے دریافت ہو گا۔ فقیر کو اپنا دوست اور معتقد اور مشتاق تصور فرماتے رہیئے گا۔ مرشد زادہ مرتضوی دودمان سید شاہ عالم کو سلام و دعا۔ ڈپٹی صاحب سے مجھ کو ملاقات کثرت سے نہیں ہے ان کو کثرت اشغال سے فرصت نہیں مجھ کو افراط ضعف سے طاقت نہیں اگر بحسب اتفاق کہیں ملاقات ہو گئی تو آپ کا سلام کہہ دوں گا آپ اپنے اخوان عالی شان کو میرا سلام پہنچا دیجئے گا؎بندہ شاہ شمائیم و ثناخوانِ شما۔

 

ایضاً

میرے مشفق چودھری عبد الغفور صاحب اپنے خط اور قصیدہ بھیجنے کا مجھ کو شکر گزار اور قصیدہ سابق کی اب تک اصلاح نہ پانے سے شرمسار تصور فرمائیں اور ان دونو (دونوں )قصیدوں کے باہم پہنچنے کا انتظار کریں ؎

نوید وصل ویم مے دہد ستارہ شناس

نکردہ ژرف نگاہے مگر دراخترِ من

تحقیق کہ اب روئے سخن جناب فیض نصاب جامع مدارج جمع الجمع بزمِ وحدت کے فروزندہ شمع مستغرق مشاہد شاہد ذات حضرت صاحب عالم صاحب قدسی صفات کی طرف سے اور یہ شعر افتتاح ِ کلام ہے پہلے کچھ باتیں کہ بادی النظر میں خارج از بحث معلوم ہوں گے لکھی جاتی ہیں۔ میں پانچ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا۔ نو برس کا تھا کہ چچا مرا۔ اس کی جاگیر کے عوض میری اور میرے شرکا ء حقیقی کے واسطے شامل جاگیر نواب احمد بخش خاں دس ہزار روپیہ سال مقرر ہوئے انہوں نے نہ دئیے مگر تین ہزار روپیہ سال اس میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپیہ سال۔ میں نے سرکار انگریزی میں یہ غبن ظاہر کیا کہ کولبرگ صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی اور اسٹرلنگ صاحب بہادر سکرٹر(سیکرٹری)گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے میرا حق دلانے پر رزیڈنٹ معزول ہوئے۔ سکرٹر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے بعد ایک زمانے کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپیا مہینا مقرر کیا۔ ان کے ولی عہد نے چار سو روپے سال۔ ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے واجد علی شاہ بادشاہِ اودھ کی سرکار سے بہ صلہ مدح گستری پانسو(پانچ سو) روپیہ سال مقرر ہوئے وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جیئے یعنی اگرچہ اب تک جیتے ہیں مگر سلطنت جاتی رہی۔ اور تباہی سلطنت دو ہی برس میں ہوئی۔ دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی سات برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی۔ ایسے طالع مربی کش اور محسن سوز کہا ں پیدا ہوتے ہیں۔ اب میں جو والیِ دکن کی طرف رجوع کروں یاد رہے کہ متوسط یا مر جاوے گا یا معزول ہو جائے گا۔ اور اگر یہ دونو(دونوں )امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع جائے گی اور والیِ شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً اگر اس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی۔ اور ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے اے خداوند بندہ پرور یہ سب باتیں وقوعی اور واقعی ہیں۔ اگر ان سے قطع نظر کر کے قصیدہ کا قصد کروں۔ قصد تو کر سکتا ہوں تمام کون کرے گا سوائے ایک ملکہ کے کہ وہ پچاس پچپن برس کی مشق کا نتیجہ ہے۔ کوئی قوت باقی نہیں رہی۔ کبھی جو سابق کی اپنی نظم و نثر دیکھتا ہوں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ تحریر میری ہے مگر حیران رہتا ہوں کہ میں نے یہ نثر کیونکر لکھی تھی اور کیونکر یہ شعر کہے تھے عبدالقادر بیدل کا یہ مصرع گویا میری زبان سے ہے ؎ عالم ہمہ افسانہ ما دارد و ماہیچ۔ پایانِ عمر ہے۔ دل و دماغ جواب دے چکے ہیں۔ سو روپیہ رامپور کے ساٹھ روپیہ پنشن کے روٹی کھانے کو بہت ہیں۔ گرانی اور ارزانی امور عامہ میں سے ہے۔ دنیا کے کام خوش و نا خوش چلے جاتے ہیں۔ قافلے کے قافلے آمادہ رحیل ہیں۔ دیکھو منشی نبی بخش عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ ماہِ گزشتہ میں گزر گئے۔ مجھ میں قصیدے لکھنے کی قوت کہاں۔ اگر ارادہ کروں تو فرصت کہاں۔ قصیدہ لکھوں آپ کے پاس بھیجوں آپ دکن کو بھیجیں متوسط کب پیش کرنے کا موقع پائے پیش کیے پر کیا پیش آئے۔ ان مراحل کے طے ہونے تک میں کیونکر جیوں گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لا الہ الا اللہ و الا معبود الا اللہ و لا موجود الا اللہ کان َ اللہ وَ لَم یَکُن شَے واللہ اَلانَ کما کانَ۔

ایضاً

جناب چودھری صاحب کو سلام پہنچے۔ آپ نے اپنے مزاج کی ناسازی کا حال کچھ نہ لکھا۔ اگر پیرو مرشد بھی نہ لکھتے تو میں کیونکر اطلاع پاتا۔ اور اگر اطلاع نہ پاتا تو حصول صحت کی دعا کیونکر مانگتا۔ کل سے وقتِ خاص میں مَیں دعا مانگ رہا ہوں۔ یقین ہے کہ پہلے تم تندرست ہو جاؤ گے ازاں بعد یہ خط پاؤ گے۔ اکثر صاحب اطراف و جوانب سے ماہ نیم ماہ بھیجنے کا حکم بھیجتے ہیں۔ اور میں جی میں کہتا ہوں کہ جب مہر نیم روز کی عبارت کو نہیں سمجھے تو ماہ نیم ماہ کو لے کر کیا کریں گے۔ صاحب مہر نیمروز کے دیباچہ میں مَیں نے لکھ دیا ہے کہ اس کتاب کا نام پرتوستان ہے۔ اور اس کے دو مجلد ہیں۔ پہلی جلد میں ابتدائے خلقتِ عالم سے ہمایوں کی سلطنت کا ذکر۔ دوسرے حصے میں اکبر سے بہادر شاہ تک کی سلطنت کا بیان پہلے حصہ کا نام مہر نیمروز اور دوسرے حصہ کا نام ماہ نیم ماہ۔ بارے پہلا حصہ تمام ہوا۔ چھاپا گیا۔ جا بجا بھیجا گیا۔ قصد تھا جلال الدین اکبر کے حالات لکھنے کا کہ امیر تمر تک کا نام و نشان مٹ گیا۔ آں دفتر را گاؤ خورد وگاؤ را قصاب بُرد و قصاب در راہ مُرد۔ جو کتاب میں نے لکھی ہی نہ ہو وہ بھیجوں کہاں سے۔ پیرو مرشد کو میری بندگی۔ اور صاحبزادوں کو دعا۔ خداوند مجھے مارہرہ بلاتے ہیں اور میرا قصد مجھے یاد دلاتے ہیں۔ ان دنوں میں کہ دل بھی تھا اور طاقت بھی تھی۔ شیخ محسن الدین مرحوم سے بطریق تمنا کہا گیا تھا کہ جی یوں چاہتا ہے کہ برسات میں مارہرہ جاؤں اور دل کھول کر اور پیٹ بھر کر آم کھاؤں۔ اب وہ دل کہاں سے لاؤں طاقت کہاں سے پاؤں۔ وہ آموں کی طرف رغبت نہ معدہ میں اتنی آموں کی گنجایش۔ نہار منہ میں آم نہ کھاتا تھا۔ کھانے کے بعد میں آم نہ کھاتا تھا۔ رات کو کچھ کھاتا ہی نہیں جو کہوں بین الطعامین۔ ہاں۔ آخر روز بعد ہضم معدی آم کھانے بیٹھ جاتا تھا۔ بے تکلف عرض کرتا ہوں اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دم پیٹ میں نہ سماتا تھا۔ اب بھی اسی وقت کھاتا ہوں مگر دس بارہ۔ اگر پیوندی آم بڑے ہوئے تو پانچ سات

 ؎ دریغا کہ عہد جوانی گزشت

جوانی مگو زندگانی گزشت

اب اس کے واسطے کیا سفر کروں مگر حضرت کا دیکھنا اس کے واسطے متحمل رنج ِ سفر ہوں تو جاڑے میں نہ برسات میں ؎ اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ۔

ایضاً

بندہ پرور بہت دن کے بعد آپ کا خط آیا سر نامہ پر دستخط اور کے اور نام آپ کا پایا۔ دستخط دیکھ کر مفہوم ہوا۔ خط کے پڑھنے سے معلوم ہوا کہ تمہارے دشمن بعارضہ تپ و لرزہ رنجور ہیں۔ اللہ اللہ ضعف کی یہ شدت کہ خط کے لکھنے سے معذور ہیں۔ خدا وہ دن دکھائے کہ تمہارا خط تمہارا دستخطی آئے۔ سر نامہ دیکھ کر دل کو فرحت ہو۔ خط پڑھ کر دونی مسرت ہو جب تک ایسا خط نہ آئے گا۔ دل سودازدہ آرام نہ پائے گا۔ قاصد ِ ڈاک کی راہ دیکھتا رہوں گا جناب ایزدی میں سرگرم دعا رہوں گا۔ آپ کے عم عالی مقدار اور بزرگ آموزگار کو میرا سلام مع صنوفِ اشتیاق و الوف احترام۔ جناب چودھری صاحب آؤ۔ ہم تم حضرت صاحب عالم کے پاس چلیں اور اپنی آنکھیں ان کے کف پائے مبارک سے ملیں۔ میں سلام عرض کروں گا تم معرف ہونا کہ غالب یہی ہے۔ اہل دہلی میں آپ کے دیدار کا طالب یہی ہے۔ میں نے عزمِ قدمبوسی کیا۔ پیرو مرشد نے مجھے گلے لگایا۔ فرماتے ہیں کہ غالب تو اچھا ہے ؟۔ عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ۔ حضرت کا مزاج مقدس کیسا ہے۔ ارشاد ہوا کہ مولوی سید برکات حسین تیرے بہت تعریف کرتے رہتے ہیں۔ جناب یہ ان کی خوبیاں ہیں۔ میں ایسا نہیں ہوں۔ جیسا وہ کہتے ہیں۔ کاش وہ میری رنجوری کا حال کہتے۔ ضعف قویٰ و اضمحلال کہتے۔ تاکہ میں ان کے کلام کی تصدیق کرتا۔ ان کی غمخواری اور دردمند نوازی کا دم بھرتا

؎ درکشاکش ضعفم نگسلد رُواں از تن

ایں کہ من نمی میرم ہم ز ناتوانیہا ست

حضرت نے میری گرفتاری کا نیا رنگ نکالا۔ بوستانِ خیال کے دیکھنے کا دانہ ڈالا۔ مجھ میں اتنی طاقتِ پرواز کہاں کہ بلا سے اگر پھنس جاؤں دام پر گر کے دانہ زمیں پر سے اٹھاؤں۔ حضرت سچ تو یوں ہے کہ غمہائے روزگار نے مجھ کو گھیر لیا ہے۔ سانس نہیں لے سکتا۔ اتنا تنگ کر دیا ہے ہر بات سو طرح سے خیال میں آئی۔ پر دل نے کسی طرح تسلی نہ پائی اب دد باتیں سونچا(سوچا) ہوں ایک تو یہ کہ جب تک جیتا ہوں یوں ہی رویا کروں گا۔ دوسرے یہ کہ آخر ایک نہ ایک دن مروں گا۔ یہ صغریٰ و کبریٰ دل نشین ہے۔ نتیجہ اس کا تسکین ہے ہیہات؎

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا امیدی اس کی دیکھا چاہیئے

اے حضرت شاہ عالم صاحب میرا سلام لیجئے۔ کاغذ باقی نہیں رہا۔ اپنے سب بھائیوں کو مع میر وزیر علی صاحب میرا سلام کہہ دیجیئے گا۔

ایضاً

جناب چودھری صاحب۔ سیاہی پھیکی۔ کاغذ پتلا۔ پیر و مرشد کی عبارت ایک طرف آپ کی تحریر بھی مغشوش ہو گئی۔ بہر اہو گیا ہوں۔ مگر بصر ہنوز باقی ہے۔ تمہاری عبارت کا جو لفظ پڑھ لیا۔ قرینہ سے اس کا محاورہ بھی معلوم ہو گیا۔ حضرت کی تحریر کا ایک لفظ سوائے سعادت توام شاہ عالم کے اگر پڑھا گیا ہو تو دیدے پھوٹیں۔ ایمان نصیب نہ ہو۔ وہ خط بدستور آپ کے پا س واپس بھیجتا ہوں۔ اَرولی سفید کاغذ پر حرف بحرف اس کی نقل کر کے پھر مجھے بھیج دیجیئے۔ تاکہ اس کے جواب لکھنے میں سعادت حاصل کروں لیکن بہت جلد بہت جلد۔ آپ کی نگارش سے اتنا دریافت ہو گیا کہ اب آپ اچھے ہیں۔ الحمد للہ۔

ایضاً

بندہ پرور پرسوں تمہارا خط آیا۔ آج جواب لکھتا ہوں۔ کل ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ میرا حال کیوں پوچھو اپنے کو دیکھو جو تمہارا ڈھنگ ہے وہی میرا رنگ ہے۔ بثور دادرام مَرض خاص اور رنج عام یہ ایک اجمال۔ دوسرا اجمال سنو کہ مہینا بھر سے صاحب فراش ہوں۔ صبح سے شام تک پلنگ پر پڑا رہتا ہوں محل سرائے اگرچہ دیوان خانہ کے بہت قریب ہے پر کیا امکان جو جا سکوں۔ صبح کو نو بجے کھانا یہیں آ جاتا ہے۔ پلنگ سے کھسل پڑا۔ ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھایا۔ پھر ہاتھ دھوئے۔ کلی کے پلنگ پر جا پڑا۔ پلنگ کے پاس حاجتی لگی رہتی ہے اٹھا اور حاجتی میں پیشاب کیا اور پڑ رہا۔ مدتوں سے یہ مرض ہے کہ پیشاب جلد جلد آتا ہے۔ اس صاحب فراش ہونے کو دیکھو اور دم بدم تقاضائے بول کو دیکھو۔ پاخانے اگرچہ دن رات میں ایک دفعہ جاتا ہوں مگر صعوبت کو تصور کرو ایک پھوڑا دائیں پہنچے میں جس کو ساعد کہتے ہیں۔ دو پھوڑے بائیں پہنچے میں یہ سہل ہیں۔ بائیں پانو(پاؤں )میں کفِ پا و پشتِ پا سے لے کر آدھی پنڈلی تک ورم اور ورم بھی سخت ردّ ادِعات و مُحِلّلات سے کچھ نہ ہوا اب تجویز ہے کہ نیب کا بھُرتا باندھیے۔ جب پکے پھوٹے تب مرہم لگائیے۔ کہو کفِ پا میں جراحت کا عمل ہوا تو قیام کا کہاں ٹھکانہ۔ یہ حال جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں مجمل و جزوی ہے۔ میرا قیاس اسکا مقتضی ہے کہ پیر و مرشد حضرت صاحب عالم مجھ سے آزردہ ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ میں نے ممتاز و اختر کی شاعری کو ناقص کہا تھا اس رقعہ میں ایک میزان عرض کرتا ہوں۔ حضرت صاحب ان صاحبوں کے کلام کو یعنی ہندیوں کے اشعار کو قتیل اور واقف سے لے کر بیدل اور ناصر علی تک اس میزان میں تولیں۔ رودکی و فردوسی سے لے کر خاقانی و ثنائی و انوری وغیرہم تک ایک گروہ ان حضرات کا کلام تھوڑی تھوڑی تفاوت سے ایک وضع پر ہے۔ پھر حضرت سعدی طرزِ خاص کے موجد ہوئے۔ فغانی اور ایک شیوہ خاص کا مبدع ہوا خیال ہائے نازک و معانی بلند لایا۔ اس شیوہ کی تکمیل کی ظہوری و نظیری و عرفی و نوعی نے۔ سبحان اللہ قالبِ سخن میں جان پڑ گئی۔ اس روش کو بعد اس کے صاحبانِ طبع نے سلامت کا چربا دیا۔ صائب و کلیم و سلیم و قدسی و حکیم شفائی اس زمرہ میں ہیں رودکی و اسدی و فردوسی یہ شیوہ سعدی کے وقت میں ترک ہوا اور سعدی کی طرز نے بسبب سہل ممتنع ہونے کے رواج نہ پایا۔ فغانی کا انداز پھیلا۔ اور اس میں نئے نئے رنگ پیدا ہونے لگے تو اب طرزیں تین ٹھہریں ہیں۔ خاقانی اور اس کے اقران۔ ظہوری اس کے امثال۔ صائب اس کے نظائر خالصاً للہ۔ ممتازو اختر وغیرہم کا کلام ان تینوں طرزوں میں سے کس طرز پر ہے ؟ بے شبہ فرماؤ گے یہ طرز اور ہی ہے۔ پس تو ہم نے جانا کہ ان کی طرز چوتھی ہے کیا کہنا خوب طرز ہے۔ اچھی طرز ہے مگر فارسی نہیں ہے۔ ہندی ہے۔ دار الضرب شاہی کا سکہ نہیں ہے ٹکسال سے باہر ہے۔ داد داد۔ انصاف انصاف ؎

اگرچہ شاعرانِ نغز گفتار

زیک جام اند در بزمِ سخن مست

ولے بابا دہ بعضے حریفاں

خمارِ چشم ساقی نیز پیوست

مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم

ورائے شاعری چیزے دگر ہست

وہ چیز دگر پارسیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہاں اردو زبان میں اہل ہند نے وہ چیز پائی ہے۔ میر تقی علیہ الرحمۃ؎

بدنام ہو گے جانے بھی دو امتحان کو

رکھے گا کونتم سے عزیز اپنی جان کو

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار

خواہاں نہیں لیکن کوئی وہاں جنس گراں کا

(قائم)

قائم اور تجھے طلب بوسے کی کیونکر مانوں

ہے تو نادان مگر اتنا بھی بد آموز نہیں

(مومن خاں )

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ناسخ کے ہاں کمتر اور آتش کے ہاں بیشتر یہ تیز نشتر ہیں مگر ان کا کوئی شعر اس وقت یاد نہیں آتا۔ یاد کیا آوے لیٹا ہوا ہوں۔ دمبدم پانو(پاؤں )کے ورم کی ٹیس ہوش اڑائے دیتی ہے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

ایضاً

ایک عبارت لکھتا ہوں چونکہ لفافہ جناب چودھری عبد الغفور صاحب کے نام کا ہو گا پہلے وہ پڑھیں پھر میرے پیر و مرشد کی نظر سے گزرانیں۔ پھر مرشد زادہ شاہ عالم صاحب کو دکھائیں۔ برس دن سے فساد خون کے عوارض میں مبتلا ہوں بثور دادرام میں لد رہا ہوں۔ برس دن میں اوجاع سہتے سہتے روح تحلیل ہو گئی نشست و برخاست کی طاقت نہ رہی اور پھوڑے تو خیر۔ مگر دونوں پنڈلیوں میں ہڈیوں کے قریب دو پھوڑے ہیں۔ کھڑا ہوا اور پنڈلیوں کی ہڈیاں چرانے لگیں اور رگیں پھٹنے لگیں۔ بائیں پانو(پاؤں ) پر کفِ پا سے جہاں وہ پھوڑا ہے۔ پنڈلی پر ورم ہے۔ رات دن پڑا رہتا ہوں۔ پلنگ کے پاس حاجتی لگی رہتی ہے۔ کھسل پڑا بعد رفع حاجت پھر لیٹ رہا۔ اسی صورت سے روٹی کھاتا ہوں۔ اشعار کی اصلاح یک قلم موقوف۔ خطوط ضروری لیٹے لیٹے لکھتا ہوں۔ دو خط چودھری صاحب کے آئے اور ایک خط شاہ عالم صاحب کا اور دو خط حضرت صاحب کے آئے جواب نہ لکھ سکا۔ آج اپنے کو طعنے دے کر مرد بنایا۔ جب یہ عبارت لکھی۔ چودھری صاحب کو سلام۔ شاہ عالم کو سلام۔ حضرت صاحب کو بندگی۔

٭٭٭

 

بنام میر سرفراز حسین صاحب

میری جان کے چین مجتہد العصر میر سرفراز حسین تم کو اور تمہارے بھائی اور تمہارے دوست کو دعا اور پھر یہ بیان کہ غدر سے پہلے ہر دربار میں خلعت پاتا تھا۔ بعد غدر دربار اور خلعت اور ملاقات سکرٹروں (سیکرٹریوں ) کی یہ سب موقوف۔ اب جو لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب آئے تو انہوں نے خود مجھے بلا بھیجا اور خلعت دیا اور فرمایا کہ یہ ہم اپنی طرف سے از راہِ محبت دیتے ہیں اور یہ نوید علاوہ کہ گورنر جنرل بہادر کے ہاں کا بھی دربار اور خلعت کھل گیا۔ انبالے جاؤ گے تو پاؤ گے۔ میں انبالے نہ جا سکا بالفعل نائب گورنر کے خلعت پر قناعت کی۔ اس خلعت کو بشرط حیات اور وقت پر موقوف رکھا۔ ہملٹن صاحب الور میں آ گئے۔ راجہ صاحب دربار ر وز کرتے ہیں۔ اہل اغراض کے عرائض جو حضور میں گزرتے ہیں وہ حضور بنچوں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خریطہ یعنی حکم تحریری اختیار پانے کا ابھی نہیں آیا۔ یقین ہے کہ لارڈ صاحب بعد اختتام سفر جب شملے پہنچیں گے تو خریطہ جاری ہو گا۔ آج جمعہ ساتویں شوال کی اور ستائیسویں مارچ کی ہے۔ چار گھڑی دن چڑھا ہے۔ میں یہ خط لکھ کر بھیجتا ہوں تم بھی پڑھو اور میر مہدی کو بھی پڑھا دو۔ اب شاید تھوڑے دنوں تک میں خط نہ لکھ سکوں۔ تفصیل اس کی یہ کہ رجب کے مہینے میں سیدھے ہاتھ پر ایک پھنسی ہوئی۔ پھنسی پھوڑا ہو گئی۔ پھوڑا پھوٹ کر زخم بنا زخم بگڑ کر غار ہو گیا۔ اب بقدر ایک کفِ دست وہ گوشت مردار ہو گیا۔ انبالے نہ جانے کی بھی یہی وجہ ہوئی۔ دو ہفتہ سے انگریزی علاج ہوتا ہے۔ کالا ڈاکٹر روز آتا ہے۔ آج اس نے ارادہ اُس مردار گوشت کے کاٹنے کا کیا ہے اب وہ آتا ہو گا۔ میں جلد جلد یہ لکھ کر روانہ کرتا ہوں۔ تاکہ پھر ہاتھ کے بُندے اڑا دوں۔ نجات کا طالب غالب۔

 

ایضاً

نور چشم راحتِ جان۔ میر سرفراز حسین جیتے رہو اور خوش رہو۔ تمہارے دستخطی خط نے میرے ساتھ وہ کیا جو بوئے پیرہن نے یعقوب ؑ کے ساتھ کیا تھا۔ میاں یہ ہم تم بوڑھے ہیں یا جوان ہیں۔ توانا ہیں یا ناتوان ہیں۔ بڑے بیش قیمت ہیں یعنی بہرحال غنیمت ہے کوئی جلا بھنا کہتا ہے ؎

یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ

یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ

وہی بالا خانہ ہے اور وہی میں ہوں۔ سیڑھیوں پر نظر ہے کہ وہ میر مہدی آئے وہ میر سرفراز حسین آئے۔ وہ یوسف میرزا آئے۔ وہ میرن آئے۔ وہ یوسف علی خان آئے۔ مرے ہوؤں کا نام نہیں لیتا۔ بچھڑے ہوؤں میں سے کچہ (کچھ)گنے نہیں۔ اللہ اللہ ۔ ہزاروں کا میں ماتم دار ہوا۔۔۔۔۔ میں مروں گا تو مجھ کو کون روئے گا۔ سنو غالب رونا پیٹنا کیا کچھ اختلاط کی باتیں کرو۔ کہو میر سرفراز حسین سے کہ یہ خط میر مہدی کو پڑھواؤ اور میرن صاحب کو بلاؤ۔ کل شام کو یا پرسوں شام کو میر اشرف علی صاحب میرے پاس آئے تھے۔ کہتے تھے کہ کل یا پرسوں پانی پت کو جاؤں گامیں نے ان کی زبانی کچھ پیام میرن صاحب کو بھیجا ہے اگر بھول نہ جائیں گے پہنچائیں گے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ صاحب اَ بّن نہیں ہے نہ ہو۔ غلام اشرف نہیں ہے نہ ہو۔ اگر منظور کیجئے تو میں صوفی ہوں ہمہ اوست کا دم بھرتا ہوں بموجب مصرع کے ؎ دل بدست آور کہ حج اکبر ست۔ تم سے کب انکار کرتا ہوں اگر مرزا گوہر کی جگہ مانو تو خوش۔ اگر غلام اشرف جانو تو راضی۔ رات کو اپنے گھر میں باتیں بناؤ۔ دن کو مجھ سے جی بہلاؤ۔ قصہ مختصر آؤ اور جلد آؤ۔ سید انور کا جو حال لکھتے ہو وہ سچ ہے۔ راجپوت ایسا ہی کچہ (کچھ)کرتے ہیں۔ مگر مہاراجہ مسلمانوں کا دم بھرتے ہیں۔ کچھ دن جاتے ہیں کہ یہ لوگ پھر وہاں آتے ہیں۔ کیا مجمع برہم ہوا ہے۔ مجھ کو کیسا غم ہوا ہے۔ تم اس جرگے سے جدا ہو۔ تم کو اندیشہ کیا ہے۔ میر قربان علی صاحب جیسا لکھیں ویسا کرو۔ میر مہدی صاحب سارا خط پڑھ کر کہیں گے مجھ کو دعا بھی نہ لکھی۔ بھائی میری دعا پہنچے۔ میر نصیر الدین ایک دن میرے ہاں آئے تھے اب میں نہیں جانتا یہاں ہیں یا وہاں۔ ہوں تو دعا کہنا۔ میرن صاحب کے نام تو اتنا کچہ (کچھ) پیام ہے دعا سلام کی حاجت کیا۔ دیکھو ہم اپنا نام نہیں لکھتے۔ بھلا دیکھیں تو سہی تم جان جاتے ہو کہ یہ خط کس کا ہے۔

٭٭٭

 

بنام میر مہدی حسین صاحب مجروحؔ

بھائی تم سچ کہتے ہو ؎ بر سرِ فرزند ِ آدم ہر چہ آید بگزرد۔ لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ زیر باری میری تحریر کے بھروسے پر ہوئی اور خلاف میری مرضی کے ہوئی جس طرح یہ آئے ہیں اگرچہ میری طبیعت اور میری خواہش کے منافی ہے لیکن واللہ میرے عقیدہ اور تصور اور قیاس کے مطابق ہے یعنی میں یہی سمجھا تھا کہ البتہ یوں ہی ہو گا۔ دیوان اردو چھپ چکا ہے لکھنؤ کے چھاپے خانے نے جس کا دیوان چھاپا تھا اس کو آسمان پر چڑھا دیا۔ حسنِ خط سے الفاظ کو چمکا دیا۔ دلّی پر اور اس کے پانی پر اور اس کے چھاپے پر لعنت۔ صاحبِ دیوان کو اس طرح یاد کرنا جیسے کوئی کتے کو آواز دے۔ ہر کاپی کو دیکھ رہا ہوں۔ کاپی نگار اور تھا۔ متوسط جو کاپی میرے پاس لایا کرتا تھا وہ اور تھا۔ اب جو دیوان چھپ چکے حق التصنیف ایک مجھ کو ملا۔ غور کرتا ہوں تو الفاظ جوں کے توں ہیں یعنی کاپی نگار نے نہ بنائے ناچار غلط نامہ لکھا وہ چھپا۔ بہرحال خوش و ناخوش کئی جلدیں مول لوں گا۔ اگر خدا چاہے تو اسی ہفتہ میں تین مجلد اصحابِ ثلثہ کے پاس پہنچ جائیں نہ میں خوش ہوا ہوں نہ تم خوش ہو گے۔ اور یہ جو لکھتے ہو کہ یہاں خریدار ہیں۔ قیمت لکھ بھیجو۔ میں دلال نہیں۔ سوداگر نہیں۔ مہتمم مطبع نہیں۔ مطبع احمدی کے مالک محمد حسین خاں مہتمم مرزا امو جان مطبع شاہدرہ میں۔ محمد حسین خاں دلّی شہر رائے مان کے کوچے میں۔ مصوروں کی حویلی کے پاس قیمت کتاب ۶/۔ محصول ڈاک خریدار کے ذمے۔ طالبانِ کتاب کو اطلاع دو۔ دو چار دس پانچ جلدیں جس کو منگانی ہوں۔ محمد حسین خاں کے نام پر دلّی رائے مان کے کوچے مصوروں کی حوایلی کا پتہ لکھ کر خط ڈاک میں بھجوا دو۔ کتاب ڈاک میں پہنچ جائے گی۔ قیمت چاہو نقد چاہو ٹکٹ ارسال کرو مجھ کو اور تم کو کیا جو کہے اس کو یہ جواب دے دو۔ وبا تھی کہاں جو میں لکھوں کہ اب کم ہے یا زیادہ۔ ایک چھیاسٹھ برس کا مرد۔ ایک چوسٹھ (چونسٹھ) برس کی عورت۔ ان دونوں میں سے ایک بھی مرتا تو ہم جانتے کہ وبا آئی تھی۔ تف بریں وبا۔ پنجشنبہ ۸ ماہ اگست کے مہینے کا حال کچھ معلوم نہیں۔ کل شام کو دو دو مونڈھے رکھ کر کئی آدمی دیکھا کیے۔ ہلال نظر نہیں آیا۔ نجات کا طالب غالب۔

 

ایضاً

بھائی نہ کاغذ ہے نہ ٹکٹ ہے۔ اگلے لفافوں میں سے ایک بیرنگ لفافہ پڑا ہے۔ کتاب میں سے یہ کاغذ پھاڑ کر تم کو خط لکھتا ہوں اور بیرنگ لفافے میں لپیٹ کر بھیجتا ہوں۔ غمگین نہ ہونا۔ کل شام کو کچھ فتوح کہیں سے پہنچ گئی ہے۔ آج کاغذ و ٹکٹ منگا لوں گا۔ سہ شنبہ ۸ نومبر صبح کا وقت ہے۔ جس کو عوام بڑی فجر کہتے ہیں۔ پرسوں تمہارا خط آیا تھا۔ آج جی چاہا کہ ابھی تم کو خط لکھوں اس واسطے یہ چند سطریں لکھیں۔ برخوردار میر نصیر الدین پر ان کی بیٹی کا قدم مبارک ہو۔ نام تاریخی تو مجھ سے ڈھونڈا نہ جائے گا۔ ہاں عظیم النسا ء بیگم نام اچھا ہے۔ کہ اس میں ایک رعایت ہے۔ شاہ محمد عظیم صاحب رحمہ اللہ علیہ کے نام کی۔ مجتہد العصر کو میری دعا کہنا۔ تم کو کیا ہوا ہے کہ تم ان کو اپنا چھوٹا بھائی جان کر مجتہد العصر نہیں لکھا کرتے۔ یہ بے ادبی اچھی نہیں۔ میرن صاحب کو بہت بہت دعا کہنا۔ اور میری طرف سے پیار کرنا۔ شہر کا حال میں کیا جانوں کیا ہے۔ پون ٹوٹی کوئی چیز ہے وہ جاری ہو گئی ہے۔ سوائے اناج اور اپلے کے کوئی چیز ایسی نہیں جس پر محصول نہ لگا ہو۔ جامع مسجد کے گرد پچیس پچیس فٹ گول میدان نکلے گا۔ دکانیں حویلیاں ڈھائی جاویں گی۔ دار البقا فنا ہو جائے گی۔ رہے نام اللہ کا۔ خان چند کا کوچہ شاہ بولا کے بڑھ تک ڈھیئے گا۔ دونوں طرف سے پھاؤڑہ چل رہا ہے۔ باقی خیر و عافیت ہے۔ حاکم اکبر کی آمد آمد سن رہے ہیں۔ دیکھئے دلّی میں آئیں یا نہیں۔ آئیں تو دربار کریں یا نہیں۔ دربار کریں تو میں گنہگار بلایا جاؤں یا نہیں۔ بلایا جاؤں تو خلعت پاؤں یا نہیں۔ پنشن کا نہ کہیں ذکر ہے نہ کسی کو خبر ہے۔ غالب۔ سہ شنبہ ۸ نومبر ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

میاں آج یکشنبہ کا دن ساتویں فروری کی اور شاید بائیسویں جمادی الثانی کی ہے۔ دوپہر کے وقت شیخ مشرف علی رہنے والے اُستا حامد٭(اللہ جانے یہ لفظ واقعی اُستا حامد ہے یا کاتب کی غلطی سے استاد کی دال لکھے جانے سے رہ گئی ہے۔ واللہ اعلم:۔ چھوٹا غالب)کے کوچہ کے میرے پاس آئے اور انہوں نے تمہارا خط لکھا ہوا ۱۵ جمادی الثانی کا دیا۔ ڈاک کا خط ہر گز مجھ تک نہیں پہنچا۔ اور نہ میں شہر سے کہیں گیا۔ جہاں رہتا تھا وہیں ہوں۔ خدا جانے وہ خط مسترد کیوں ہوا۔ بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہارا خط آوے اور میں پھیروں۔ تم خود کہتے ہو کہ اس پر یہ لکھا ہوا آیا کہ مکتوب الیہ یہاں نہیں ہے۔ میں ہوتا اور یہ لکھتا کہ میں نہیں ہوں۔ آگرہ اور الور اور کول سے برابر خط چلے آتے ہیں۔ تمہاری والدہ کا مرنا سن کر مجھ کو برا غم ہوا۔ خدا تم کو صبر دے اور عفیفہ کو بخشے۔ میرا حقیقی بھائی میرزا یوسف خان دیوانہ بھی مر گیا۔ کیسا پنشن اور کہاں اس کا ملنا یہاں جان کے لالے پڑے ہیں۔

 ؎ ہے موجزن ایک قلزم خوں کاش یہی ہو

آتا ہے ابھی دیکھیئے کیا کیا مرے آگے

اگر زندگی ہے اور پھر مل بیٹھیں گے تو کہانی کہی جائے گی۔ تم کہتے ہو کہ آیا چاہتا ہوں۔ اگر آؤ تو بے ٹکٹ کے نہ آنا۔ میر احمد علی صاحب کو لکھتے ہو کہ یہاں ہیں مجھ کو نہیں معلوم کہ کہاں ہیں۔ مجھ سے ملتے تو اچھا کرتے۔ میں مخفی نہیں ہوں نہ روپوش ہوں۔ حکام جانتے ہیں کہ یہ یہاں ہے مگر نہ باز پرس و گیرودار میں آیا ہوں نہ خود اپنی طرف سے قصد ملاقات کا کیا ہے۔ با ایں ہمہ ایمن بھی نہیں ہوں دیکھیئے انجام کار کیا ہے۔ نثر کیا لکھوں گا اور نظم کیا کہوں گا۔ وہ نثر جو تم دیکھ گئے ہو وہی دو چار ورق اور بھی سیاہ کیے گئے ہیں۔ بھیجنا ممکن نہیں جب آؤ گے یا مجھ کو جیتا پاؤ گے تو دیکھ لو گے۔ مَیکش چین میں ہے باتیں بناتا پھرتا ہے۔ سلطان جی میں تھا اب شہر میں آ گیا ہے۔ دو تین بار میرے پاس بھی آیا۔ پانچ سات دن سے نہیں آیا۔ کہتا تھا کہ بی بی کو اور لڑکے کو بہرام پور میر وزیر علی کے پاس بھیج دیا ہے۔ خود یہاں لوٹ کی کتابیں خریدتا پھر رہا ہے۔ میرن صاحب کی خیروعافیت معلوم ہوئی مگر نہ معلوم ہوا کہ وہ وہاں مع قبائل ہیں یا تنہا ہیں اگر تنہا ہیں تو قبائل کہاں ہیں۔ تمہارے چھوٹے بھائی کو تو میں جانتا ہوں کہ وہ یہاں ہیں اور اچھی طرح ہیں۔ بڑے بھائی کا حال کیوں نہ لکھا۔ یقین ہے کہ وہ اور تم یک جا ہو۔ گو ان کو ربط مجھ سے زیادہ نہیں لیکن فرزند ہونے میں تم اور وہ برابر ہو۔ خط بھیجنے میں تردّد نہ کرو۔ اور ڈاک میں بے تامل بھیجا کرو۔ زیادہ زیادہ۔ غالب یکشنبہ ہفتم فروری ۱۸۵۸ء وقت رسیدن نامہ۔

ایضاً

نور چشم میر مہدی کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ کلیاتِ فارسی کا پہنچنا مجھ کو معلوم ہوا۔ میاں اس میں اغلاط بہت ہیں۔ مبارک ہو تمہیں اور میر سرفراز حسین کو اور میرن صاحب کو اور بھائی خدا کرے مجھ کو بھی۔ لو صاحب اجنٹ (ایجنٹ) بہادر راجستان کا حکم الور کے اجنٹ کو آیا کہ تم پہلی ستمبر کو راج کے کاغذ جو تمہارے پاس ہیں اور راج کا اسباب جو تمہارے تحت میں ہے وہ سب راجہ صاحب کو دو اور تم الگ ہو جاؤ۔ ستمبر کی بیسویں کو ہم الور جائیں گے راجہ صاحب کو مسند پر بٹھائیں گے خلعتِ شاہی انہیں پہنائیں گے ؎ ستم بر ستم بُرد آورد داد۔ شنبہ ۲۲ اگست ۱۸۶۳ ء۔ از غالب۔

ایضاً

برخوردار کامگار میر مہدی دہلوی۔ اردو بازار کے مولوی صاحب لوائے ولائے مرتضوی پر عَلمِ عباس ابن علی کا سایہ۔ راجہ صاحب کے سلوک کا حال ہم پہلے ہی سن چکے تھے۔ الحمدللہ علیٰ کُلِّ حالٍ۔ دیکھیئے اب معاودت کب کرتے ہیں۔ موافق اپنے وعدہ کے ہم کو کب طلب کرتے ہیں۔ کلکتہ جاتے وقت فرما گئے ہیں کہ میں آ کر اسد کو بلاؤں گا۔ البتہ اگر وہ بلائیں گے تو میں کیونکر نہ جاؤں گا۔ ظاہراً ہمارے تمہارے واسطے زمانہ انتہائے مصیبت اور وقت پیش آمد دولت ہے۔ اب مجھ کو میرن صاحب کی خوشامد کرنی پڑے گی وہ مقرب بنیں گے۔ اگر میری قسمت لڑے گی تم کامیابی کا سامان کر رکھنا۔ میرن صاحب کو مجھ پر مہربان کر رکھنا۔ بھائی صاحب یہ جو میرن صاحب ہیں یا امیرن صاحب ہیں حضور کے۔۔۔۔۔۔۔ بڑے مصاحب ہیں۔ جس گروہ میں سے جس کو چاہیں حضور سے ملوا دیں۔ فرقہ شعرا میں سے جس کو جو کچھ چاہیں دلوا دیں۔ ان کو اور مجتہد العصر کو میری دعا کہنا۔ نجات کا طالب غالب۔

ایضاً

میاں تمہاری تحریر کا جواب یہ ہے کہ وہ تصویر جو میں نے میاں محمد افضل کو دی تھی وہ انہوں نے واپس کر دی اور اس کی نقل کے باب میں یہ کہا کہ ابھی تیار نہیں ہے جب وہ تیار ہو جائے گی میں ان کو روپیہ دے کر لے لوں گا۔ خاطر جمع رکھو۔ پنشن سراسر سب کو ششماہی ملنے کا حکم ہو گیا ہے۔ ہر مہینے میں سودلے لو اور کھاؤ۔ کشمیری کٹڑہ گر گیا ہے وہ اونچے اونچے در اور وہ بڑی بڑی کوٹھڑیاں دو رویہ نظر نہیں آتیں کہ کیا ہوئیں۔ آہنی سڑک کا آنا اور اس کی رہگذر کا صاف ہونا ہنوز ملتوی ہے۔ چار دن سے پُروا ہوا چلتی ہے۔ ابر آتے ہیں مگر صرف چھڑکاؤ ہوتا ہے۔ مینہ نہیں برستا۔ گیہوں۔ چنا۔ باجرا۔ تینوں اناج ایک بھاؤ ہیں نو سیر ساڑھے نو سیر۔ میر سرفراز حسین اور میرن صاحب کو میں اچھی طرح نہیں سمجھا کہ جیند میں ہیں۔ یا یہاں ہیں۔ میر نصیر الدین دو بار میرے پاس آئے اب مجھ کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔ قاسم علی خاں قطب الاقطاب ایک دن کہتے تھے کہ میر احمد صاحب کے قبائل یہاں آئے ہوئے ہیں آخر وہ شادی بھی کب ہونے والی ہے اور کہاں ہونے والی ہے اس خط کا جو جواب لکھو تو سب حالات مفصل لکھو۔ غالب صبح چار شنبہ نہم جنوری ۱۸۶۱ء۔

ایضاً

میاں تمہارے خط کا جواب منحصر تین باتوں پر ہے دو کا جواب لکھتا ہوں۔ تیسری بات کا جواب تم بتاؤ کہ تمہیں کیا لکھوں۔ پہلی بات میاں محمد افضل تصویر لے گئے اب وہ تصویر کھینچا کریں اور تم انتظار۔ دوسری بات میری نصیر الدین آئے اور تینوں صاحبوں کا جیند کے جانے کا حال مفصل معلوم ہوا۔ حق تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرماوے۔ تیسری بات میرن صاحب کو جب تک تم نہ کہو میں دلی نہ بلاؤں گویا ان کے عاشق تمہیں ہو میں نہیں۔ بھائی ہوش میں آؤ۔ غور کرو یہ مقدور مجھ میں نہیں کہ ان کو یہاں بلا کر ایک الگ مکان رہنے کو دوں۔ اور اگر زیادہ نہ ہو تو تیس روپیہ مہینا مقرر کروں کہ بھائی یہ لو اور دریبہ اور چاوڑی اور اجمیری دروازہ کا بازار اور لاہوری دروازہ کا بازار ناپتے پھرو اور اردو بازار اور خاص بازار اور ُبلاقی بیگم کا کوچہ اور خان دوراں خاں کی حویلی کے کھنڈر گنتے پھرو۔ اے میر مہدی تُو درماندہ و عاجز پانی پت میں پڑا رہے۔ میرن صاحب وہاں پڑے ہوئے دلّی دیکھنے کو ترسا کریں۔ سرفراز حسین نوکری ڈھونڈتا پھرے۔ اور میں ان غمہائے جانگداز کی تاب لاؤں۔ مقدور ہوتا تو دکھا دیتا کہ میں نے کیا کیا ؎ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اللہ اللہ اللہ ۔ سہ شنبہ ۴ جمادی الثانی۔ ۱۸ دسمبر۔

ایضاً

قرۃ العینین میر مہدی و میر سرفراز حسین مجھ سے ناخوش اور گلہ مند ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ دیکھو ہمیں خط نہیں لکھتا۔

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ ماجرا کیا ہے ؟

ماجرا یہ ہے کہ تمہارا بھی تو کوئی خط نہیں آیا میں جس کا جواب لکھتا۔ میرن صاحب سے تمہاری خیر و عافیت پوچھنی اور کہہ دینا کہ میری دعا لکھ بھیجنا۔ بس اتنا ہی دم باقی ہے۔ کل میرن صاحب آئے پوچھا کہ الور سے کوئی خط آیا فرمایا کہ اس ہفتہ میں کوئی خط میں نے نہیں پایا کیا کہوں کیا حال ہے بیش ازیں اپنا یہ شعر پڑھا کرتا تھا ؎

بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائیں گے

یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے

اب اس زمزمہ کا بھی محل نہ رہا۔ یعنی سعی بے حاصل کی لذت خاک میں گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرگ ِ ناگاہ کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۱۸ شعبان ۱۲۸۱ ہجری۔

ایضاً

صاحب تمہارے دو خط بسبیلِ ڈاک آئے۔ کل دوپہر ڈھلے ایک صاحب اجنبی سانولے سلونے۔ ڈاڑھی منڈے۔ بڑی بڑی آنکھوں والے تشریف لائے تمہارا خط دیا۔ صرف ان کی ملاقات کی تقریب میں تھا۔ بارے ان سے اسم شریف پوچھا گیا فرمایا اشرف علی۔ قومیت کا استفسار ہوا معلوم ہوا سید ہیں۔ پیشہ پوچھا حکیم نکلے۔ یعنی حکیم اشرف علی۔ میں ان سے مل کر خوش ہوا۔ خوب آدمی ہیں اور کام کے آدمی ہیں۔ کتنے اوچھے ہو۔ مصطلحات ِ الشعرا مصطلحات ِ الشعرا۔ بھائی وہ کتاب تمہاری ہے میں نے غضب نہیں کی۔ میرے پاس مستعار ہے۔ دیکھ چکوں گا۔ بھیج دوں گا۔ تقاضا کیوں کرو۔ میاں محمد افضل تصویر کھینچ رہے ہیں جلدی نہ کرو۔ دیر آید درست آید۔ سرفراز حسین اور میرن صاحب اور میر نصیر الدین کو دعائیں۔ غالب صبح چہار شنبہ۔ ہفتم رمضان۔ ہشتم مارچ۔

ایضاً

میاں تم کو پنشن کی کیا جلدی ہے۔ ہر بار پنشن کو کیوں پوچھتے ہو۔ پنشن جاری ہو اور میں تم کو اطلاع نہ دوں۔ ابھی تک کچھ حکم نہیں دیکھوں کیا حکم ہو اور کب ہو۔ میرن صاحب جے پور پہنچے۔ تم شاہ پور ہی بتاتے ہو۔ شاید سچ یہی ہو۔ ہاں میر محمود علی اور یہ بیر برادر ابوالفضل تو تھے مگر دیکھا چاہیے درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر بدشواری جمتا ہے۔ خلاصہ میرے فکر کا یہ ہے کہ اب بچھڑے ہوئے یار کہیں قیامت ہی کو جمع ہوں تو ہوں۔ سو وہاں کیا خاک جمع ہوں گے۔ سنی الگ۔ شیعہ الگ۔ نیک جدا۔ بد جدا۔ میر سرفراز حسین کو دعا۔ میر نصیر الدین کو پہلے بندگی۔ پھر دعا۔ کتاب کا نام دستنبو رکھا گیا۔ آگرہ میں چھاپی جاتی ہے تم سے تمہارے ہاتھ کے اوراق لکھے لے لوں گا۔ تب ایک کتاب تم کو دوں گا۔ از غالب روز ورود نامہ پنجشنبہ ۷ ستمبر ۱۸۵۸ ء۔

 

ایضاً

میر مہدی تم میرے عادات کو بھول گئے۔ ماہ مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے میں اس مہینے میں رام پور کیوں رہتا۔ نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے۔ برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے۔ مگر بھائی میں ایسے انداز سے چلا کہ چاند رات کے دن یہاں آ پہنچا۔ یکشنبہ کو غرّہ ماہ مقدس ہوا۔ اسی دن سے ہر صبح کو حامد علی خاں کی مسجد میں جا کر جناب مولوی جعفر علی صاحب سے قرآن سنتا ہوں۔ شب کو مسجد جامع جا کر نما ز تراویح پڑھتا ہوں۔ کبھی جو جی میں آتی ہے تو وقتِ صوم مہتاب باغ میں جا کر روزہ کھولتا ہوں اور سرد پانی پیتا ہوں واہ واہ کیا اچھی طرح عمر بسر ہوتی ہے۔ اب اصل حقیقت سنو۔ لڑکوں کو ساتھ لے گیا تھا وہاں انہوں نے میرا ناک میں دم کر دیا۔ تنہا بھیج دینے میں وہم آیا کہ خدا جانے اگر کوئی امر حادث ہو تو بدنامی عمر بھر رہے اس سبب جلد چلا آیا۔ ورنہ گرمی برسات وہاں کاٹتا۔ اب بشرط ِ حیات جریدہ بعد برسات جاؤں گا اور بہت دن تک یہاں نہ آؤں گا۔ قرارداد یہ ہے کہ نواب صاحب جولائی ۱۸۵۹ء سے کہ جس کو یہ دسواں مہینا ہے سو روپیہ مجھے ماہ بماہ بھیجتے ہیں اب جو میں وہاں گیا تو سو روپے مہینا بنام دعوت اور دیا یعنی رام پور ہوں تو دو سو روپیے مہینا پاؤں اور دلّی رہوں رو سو روپیے۔ بھائی سو دو سو میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ نواب صاحب دوستانہ و شاگردانہ دیتے ہیں مجھ کو نوکر نہیں سمجھتے ہیں۔ ملاقات بھی دوستانہ رہی معانقہ و تعظیم۔ جس طرح احباب میں رسم ہے وہ صورت ملاقات کی ہے۔ لڑکوں سے میں نے نذر دلوائی تھی۔ بس بہرحال غنیمت ہے رزق کے اچھی طرح ملنے کا شکر چاہیے۔ کمی کا شکوہ کیا۔ انگریز کی سرکار سے دس ہزار روپیہ سال ٹھہرے اس میں سے مجھ کو ملے ساڑھے سات سو روپیے سال۔ ایک صاحب نے نہ دئیے۔ مگر تین ہزار روپیے سال۔ عزت میں وہ پایہ جو رئیس زادوں کے واسطے ہوتا ہے بنا رہا۔ خان صاحب بسیار مہربان دوستان القاب۔ خلعت سات پارچہ اور جیغہ و سرپیچ و مالائے مروارید۔ بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی۔ ناظر۔ حکیمکسی سے توقیر کم نہیں۔ مگر فائدہ وہی قلیل سو میری جان یہاں وہی نقشہ ہے۔ کوٹھڑی میں بیٹھا ہوں۔ ٹٹی لگی ہوئی ہے۔ ہوا آ رہی ہے۔ پانی کا جھجھر دھرا ہوا ہے۔ حقہ پی رہا ہوں۔ یہ خط تم کو لکھ رہا ہوں تم سے باتیں کرنے کو جی چاہا یہ باتیں کر لیں۔ میر سرفراز حسین اور میرن صاحب اور میر نصیر الدین صاحب کو یہ خط پڑھا دینا اور میری دعا کہہ دینا۔ جمعہ ۱۶ اپریل۔

ایضاً

جویائے حالِ دہلی و الور سلام لو۔ مسجد جامع واگذاشت ہو گئی۔ چتلی قبر کی طرف سیڑھیوں پر کبابیوں نے دکانیں بنا لیں۔ انڈا مرغی کبوتر بکنے لگا۔ دس آدمی مہتمم ٹھہرے۔ مرزا الہی بخش۔ مولوی صدر الدین۔ تفضل حسین خاں تین یہ سات اور۔ ۷ نومبر ۱۴ جمادی الاول سالِ حال جمعہ کے دن ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ قید فرنگ و قید جسم سے رہا ہوئے انا للہ و انا الیہ راجعون، جاڑا پڑ رہا ہے ہمارے پاس شراب آج کی اور ہے کل سے رات کو نری انگیٹھی پر گزارا ہے۔ بوتل گلاس موقوف۔ راجہ پٹیالہ مر گیا۔ مہندر سنگھ اس کے خلف پر خطاب فرزندی اور القاب بحال و برقرار رہا۔ بالفعل دیوان نہال چند کام کر رہا ہے۔ ظاہراً جو رنگ اس ریاست کا ہونے والا ہے۔ وہ نواب گورنر جنرل بہادر کے آنے پر کھلے گا۔ اور وہ فروری کے مہینے میں یہاں آئیں گے۔ الور کی ریاست کا حال بدستور ہے گورنر صاحب ہی انہیں اختیار دیں گے یعنی پٹیالہ اور الور کے راج کا انتظام اسی وقت پر ہو گا۔ بالفعل امپی صاحب ایجنٹ الور اور دلی ہوتے ہوئے میرٹھ گئے ہیں۔ راجہ صاحب تجارہ تک ان کی مشایعت کر گئے۔ یہاں امپی صاحب سے کوئی صاحب سنگہ (سنگھ)ٹھیکہ دار الور کی سڑک کا ہے اس نے کچھ کہا تھا جواب دیا کہ الور کے مقدمات میں پنچوں کو اختیار ہے ہم کچھ حکم نہ دیں گے۔ اسفند یار بیگ متوفی کا کوئی متبنی متدعی پرورش ہوا اس کو بھی یہی جواب ملا۔ اب اور بولو کیا لکھوں۔ دھوپ میں بیٹھا ہوں۔ یوسف علی خاں اور لالہ ہیرا سنگہ (سنگھ)بیٹھے ہیں۔ کھانا تیار ہے۔ خط لکھ کر بند کر کر آدمی کو دوں گا اور میں گھر جاؤں گا وہاں ایک دالان میں دھوپ آتی ہے اس میں بیٹھوں گا۔ ہاتھ منہ دھوؤں گا۔ ایک روٹی کا چھلکا سالن میں بھگو کر کھاؤں گا۔ بیسن سے ہاتھ دھوؤں گا۔ باہر آؤں گا پھر اس کے بعد خدا جانے کون آئے گا کیا صحبت ہو گی۔ مجتہد العصر میر سرفراز حسین صاحب اور ذاکر الحسین میر افضل علی عرف میرن صاحب کودعا۔ منگل کا دن جمادی الثانی ۱۶ دسمبر۔ پھر (پہر) دن چڑھے۔ غالب۔

ایضاً

پنجشنبہ ۱۵ ذیقعدہ و مئی باہم۔ صاحب آج تمہارا خط دوپہر کو آیا۔ اس میں میں نے مسودہ تاریخ کا پایا۔ قلمدان میں رکھ لیا۔ خط پڑھ کر میر سرفراز حسین کو بھیج دیا۔ کل وہ کہتے تھے کہ انتیس روپیے کو تین گاڑیاں مقرر ہو گئی ہیں۔ میں کل یعنی آج شام کو سوار ہو جاؤں گا۔ اب اس وقت میں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ پہر دن باقی ہے لکھ کر کھلا رکھ چھوڑوں گا شام کو مجتہد العصر میرے گھر ضرور آئیں گے اگر آج آئیں گے تو واسطے تودیع کے اور اگر نہ جائیں گے تو موافق معمول کے آئیں گے۔ ان کے جانے نہ جانے کا حال صبح کو اسی ورق پر لکھ کر خط بند کر کے بھیج دوں گا۔ خدا کرے اردو کی نثر کا لفافہ انہوں نے ڈاک میں بھیج دیا ہو۔ شام کو مجھے دے جائیں گے تو میں کل اس خط کے ساتھ اسے بھی بھجوا دوں۔ مہاراج اگر دورہ کو گئے تو کیا اندیشہ ہے گرمی کا موسم ہے لنبا (لمبا)چوڑا سفر کیوں کریں گے۔ آٹھ سات دن میں پھر آئیں گے۔ یہاں کی تلاش کا نتیجہ دیکھو تب کہیں جائیو۔ میرن صاحب کی تمہاری چوما چاٹی کے لکھنے کا مجھ میں دم نہیں۔ تم جانو وہ جانیں۔ کلیات کے چھاپے کی حقیقت سنو۔ ۶۰ صفحے چھاپے گئے تھے کہ مولوی ہادی علی مصحح بیمار ہو گئے۔ کاپی نگار رخصتی اپنے گھر گیا۔ اب دیکھئے کب چھاپہ شروع ہو۔ قاطع برہان کا چھاپا ختم ہوا ایک جلد بطریق نمونہ آ گئی۔ میں نے پچاس جلدوں کی درخواست پہلے سے دے رکھی ہے۔ اب پچاس روپیے بھیجوں تو انچاس جلدیں منگاؤں۔ دیکھئے نو من تیل کب میسر ہو۔ اور رادھا کب ناچے۔ میاں کل شام کو میر سرفراز حسین میرے گھر نہیں آئے یا تو الور کو مجھ سے بغیر رخصت ہوئے گئے یا نہیں گئے۔ میں تو آج جمعہ ۱۶ مئی صبح کے وقت یہ خط ڈاک میں بھیجتا ہوں۔ نجات کا طالب غالب۔

ایضاً

لو صاحب یہ تماشا دیکھو۔ میں تو تم سے پوچھتا ہوں کہ میر سرفراز حسین اور میر نصیر الدین کہاں ہیں حالانکہ میر نصیر الدین شہر میں ہیں اور مجھ سے نہیں ملتے۔ میر سرفراز حسین آئے ہیں اور میرے ہاں نہیں اترے۔ لاحول ولاقوۃ اترنا کیسا ملنے کو بھی نہیں آئے۔ افسوس ہے جن کو میں اپنا سمجھتا ہوں وہ مجھ کوبے گانہ جانتے ہیں اب تم یہ پوچھو کہ نصیر الدین کا دلّی میں ہونا اور مجتہد العصر کا یہاں آنا تو نے کیونکر جانا۔ بھائی آج جمعہ کا دن ۲۸ جمادی الثانی کی اور ۱۱ جنوری کی صبح کے وقت منہ اندھیرے اسی وقت میری آنکھ کھلی تھی لحاف میں لپٹا ہوا پڑا تھا کہ ناگاہ میر نصیر الدین صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ اب میں جاتا ہوں اور میر حسن صاحب بھی جاتے ہیں۔ میں سمجھا میر سرفراز حسین۔ جب بعد تکرار معلوم ہوا تو میر حسن جے پور سے آئے اور خدا جانے کہاں اترے اور اب کہاں جاتے ہیں۔ ہے ہے مجھے غیر سمجھا یا مرا ہوا سمجھا کہ میرے ہاں نہ آئے اور مجھ سے نہ ملے اپنی سسرال میں رہے۔ اور میکے کو چھوڑا۔ واللہ میرا جی ان کے دیکھنے کو بہت چاہتا تھا۔ اب اٹھا ہوں۔ سردی رفع ہو لے دھوپ نکل لے آغا جان کے ہاں آدمی کو بھیجتا ہوں۔ میں کمبخت بھی تو نہیں جانتا کہ آغا جان کہاں رہتے ہیں۔ اب میر احمد علی کی بی بی پاس حبش خاں کے پھاٹک آدمی بھیجوں گا۔ جب آغا جان کے گھر کا پتہ معلوم ہو جائے گا اور آدمی دیکھ آئے گا اور یہ بھی معلوم کر آئے گا کہ امیر حسن صاحب ہیں تو میں سوار ہو کر جاؤں گا اور ان سے ملوں گا۔ تم اس خط کا جواب جلد لکھو اور اپنے چچا کے آنے کا منشا اور ان کا احوال مفصل لکھو۔ تصویر کا حال آگے لکھ چکا ہوں خاطر جمع رکھو۔ اور مجتہد العصر اور میرن صاحب کا حال لکھو۔ نجات کا طالب غالب۔ صبح جمعہ ۱۱ جنوری ۱۸۶۱ء۔

ایضاً

میاں لڑکے کہاں پھر رہے ہو ادھر آؤ خبریں سنو۔ دربار لارڈ صاحب کا میرٹھمیں ہوا دلّی کے علاقہ کے جاگیردار بموجب حکم کمشنر دہلی میرٹھ گئے۔ موافق دستور قدیم مل آئے۔ غرضکہ پنجشنبہ ۲۹ دسمبر کو پہر دن چڑھے لارڈ صاحب یہاں پہنچے۔ کابلی دروازہ کی فصیل تلے ڈیرے ہوئے۔ اسی وقت توپوں کی آواز سنتے ہی میں سوار ہو کر گیا میر منشی سے ملا ان کے خیمہ میں بیٹھ کر صاحب سکرٹر کو خبر کروائی جواب آیا کہ فرصت نہیں یہ جواب سن کر نومیدی کی پوٹ باندھ کر لے آیا۔ ہر چند پنشن کے باب میں ہنوز لاونعم نہیں مگر فکر کر رہا ہوں دیکھوں کیا ہوتا ہے لارڈ صاحب کل یا پرسوں جانے والے ہیں یہاں کچھ کلام و پیام نہیں۔ ممکن تحریر ڈاک میں بھیجی جائے گی دیکھئے کیا صورت درپیش آئے گی۔ مسلمانوں کی املاک کے واگزاشت کا حکم ِ عام ہو گیا ہے۔ جن کو کرایہ پر ملی ہے ان کو کرایہ معاف ہو گیا ہے آج یکشنبہ یکم جنوری ۱۸۶۰ ء ہے پہر دن چڑھا ہے کہ یہ خط تم کو لکھا ہے اگر مناسب جانو تو آؤ۔ اپنی املاک پر قبضہ پاؤ چاہو یہیں رہو چاہو پھر چلے جاؤ۔ میر سرفراز حسین میر نصیر الدین میرن صاحب کو میری دعائیں کہنا اور حکیم میر اشرف علی کو بعد دعا کے یہ کہہ دینا کہ وہ حبوب جو تم نے مجھ کو دی تھیں ان کا نسخہ جلد لکھ کر بھیج دو۔ واللہ موجد و ماسواۃ معدوم۔ اپنی مرگ کا طالب غالب۔

ایضاً

برخوردار تمہارا خط آیا حال معلوم ہوا۔ میں اس خیال میں تھا کہ الور کا کچھ حال معلوم کر لوں اور کپتان الگزنڈر کا خط آئے اور میں اس کو میر سرفراز حسین کے مقدمہ میں لکھ لوں تو اس وقت تمہارے خط کا جواب لکھوں۔ چونکہ آج تک ان کا خط نہ آیا۔ میں سونچا (سوچا) کہ اگراسی انتظار میں رہوں گا۔ اور خط کا جواب نہ بھیجوں گا۔ تو میرا پیارا میر مہدی خفا ہو گا ناچار جو کچھ الور کا حال سنا ہے وہ اور کچھ اپنا حال لکھتا ہوں۔ ہر چند میں نے دریافت کرنا چاہا حکیم محمود علی کا وہاں پہنچنا اور یہ کہ وہاں پہنچنے کے بعد کیا طور قرار پایا کچھ معلوم نہیں ہوا صرف خبر واحد ہے کہ ان کو راؤ راجہ نے صاحب ایجنٹ سے اجازت لے کر بلا لیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ صاحب ایجنٹ الور نے راجہ کے بالغ اور عاقل ہونے کی رپورٹ صدر کو بھیجی ہے کیا عجب ہے کہ ان کا راج ان کو مل جائے۔ مولانا غالب علیہ الرحمۃ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساٹھ جزو کی کتاب امیر حمزہ کے داستان کی اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستانِ خیال کی آ گئی ہے۔ سترہ بوتلیں بادہ ناب کی توشک خانہ میں موجود ہیں۔ دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں رات بھر شراب پیا کرتے ہیں ؎

کسے کیں مرادش میسر بود

اگر جم نباشد سکندر بود

میر سرفراز حسین کو اور میرن صاحب کو اور میر نصیر الدین صاحب کو دعائیں اور دیدار کی آرزوئیں۔

ایضاً

اے جناب میرن صاحب السلام علیکم۔ حضرت آداب۔ کہو صاحب آج اجازت ہے میر مہدی کے خط کا جواب لکھنے کو۔ حضور میں کیا منع کرتا ہوں۔ میں نے تو یہ عرض کیا تھا کہ اب وہ تندرست ہو گئے ہیں بخار جاتا رہا ہے صرف پیچش باقی ہے وہ بھی رفع ہو جائے گی۔ میں اپنے ہر خط میں آپ کی طرف سے دعا لکھ دیتا ہوں آپ پھر کیوں تکلیف کریں۔ نہیں میرن صاحب اس کے خط کو آئے ہوئے بہت دن ہوئے ہیں وہ خفا ہوا ہو گا جواب لکھنا ضرور ہے۔ حضرت وہ آپ کے فرزند ہیں آپ سے خفا کیا ہوں گے۔ بھائی آخر کوئی وجہ تو بتاؤ کہ تم مجھے خط لکھنے سے کیوں باز رکھتے ہو۔ سبحان اللہ ! اے لو حضرت آپ تو خط نہیں لکھتے اور مجھے فرماتے ہیں کہ تو باز رکھتا ہے۔ اچھا تم باز نہیں رکھتے مگر یہ تو کہو کہ تم کیوں نہیں چاہتے کہ میں میر مہدی کو خط لکھوں۔ ؟ کیا عرض کروں سچ تو یہ ہے کہ جب آپ کا خط جاتا تو میں سنتا اور حظ اٹھاتا اب جو میں وہاں نہیں ہوں تو نہیں چاہتا کہ تمہارا خط جاوے۔ میں اب پنجشنبہ کو روانہ ہوتا ہوں میری روانگی کے تین دن بعد آپ خط شوق سے لکھیئے گا۔ میاں بیٹھو ہوش کی خبر لو۔ تمہارے جانے نہ جانے سے مجھے کیا علاقہ۔ میں بوڑھا آدمی بھولا آدمی تمہاری باتوں میں آ گیا اور آج تک اسے خط نہیں لکھا۔ لاحول ولا قوۃ۔ سنو میر مہدی صاحب ! میرا کچھ گناہ نہیں میرے خط کا جواب لکھو۔ تپ تو رفع ہو گئی۔ پیچش کے رفع ہونے کی خبر شتاب لکھو۔ پرہیز کا بھی خیال رکھا کرو۔ یہ بڑی بات ہے کہ وہاں کچھ کھانے کو ملتا ہی نہیں۔ تمہارا پرہیز اگر ہو گا بھی تو عصمت بی بی از بے چادری ہو گا۔ حالات یہاں کے مفصل میرن صاحب کی زبانی معلوم ہوں گے۔ دیکھو بیٹھے ہیں کیا جانوں حکیم میر اشرف علی میں اور ان میں کچھ کونسل تو ہو رہی ہے۔ پنجشنبہ روانگی کا دن ٹھہرا تو ہے اگر چل نکلیں اور پہنچ جائیں تو ان سے یہ پوچھو کہ جناب ملکہ انگلستان کی سالگرہ کی روشنی کی محفل میں تمہاری کیا گت آئی تھی۔ اور یہ بھی معلوم کر لیجیو کہ یہ جو فارسی مثل مشہور ہے کہ دفتر را گاؤ خورد اس کے معنی کیا ہیں۔ پوچھیو اور نہ چھوڑیو جب تک نہ بتائیں۔ اس وقت پہلے تو آندھی چلی پھر مینہ آیا۔ اب مینہ برس رہا ہے۔ میں خط لکھ رہا ہوں۔ سر نامہ لکھ کر چھوڑ دوں گا جب ترشح موقوف ہو جائے گا تو کلیان ڈاک کو لے جائے گا۔ میر سرفراز حسین کو دعا پہنچے اللہ اللہ تم پانی پت کے سلطان العلما اور مجتہد العصر بن گئے۔ کہو وہاں کے لوگ تمہیں قبلہ و کعبہ کہنے لگے یا نہیں۔ میر نصیر الدین کو دعا کہنا۔

ایضاً

آہا ہا ہا میرا پیارا میر مہدی آیا۔ آؤ بھائی مزاج تو اچھا ہے۔ بیٹھو یہ رامپور دارالسرور ہے جو لطف یہاں ہے وہ اور کہاں ہے۔ پانی سبحان اللہ شہر سے تین سو قدم پر ایک دریا ہے اور کوسی اس کا نام ہے بے شبہ چشمہ آب حیات کی کوئی سوت اس میں ملی ہے خیر اگر یوں بھی ہے تو بھائی آب حیات عمر بڑھاتا ہے لیکن اتنا شیریں کہاں ہو گا۔ تمہارا خط پہنچا تردد عبث۔ میرا مکان ڈاک گھر کے قریب اور ڈاک منشی میرا دوست نہ عرف لکھنے کی حاجت۔ نہ محلے کی حاجت۔ بے وسواس خط بھیج دیا کیجیئے۔ اور جواب لیا کیجیئے۔ یہاں کا حال سب طرح خوب ہے اور صحبت مرغوب ہے اس وقت مہمان ہوں دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ تعظیم و توقیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہے۔ لڑکے دونوں میرے ساتھ آئے ہیں۔ اس وقت اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔

ایضاً

آؤ میاں سید زادہ دلی کے عاشق دلدادہ ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے۔ نہ دل میں مہر و آزرم نہ آنکھ میں حیا شرم۔ نظام الدین ممنون کہاں۔ ذوق کہاں۔ مومن خاں کہاں۔ ایک آزردہ سو خاموش۔ دوسرا غالب وہ خود بے خود و مدہوش۔ نہ سخنوری رہی نہ سخندانی۔ کس برتے پر تتا پانی۔ ہائے دلی وائے دلی۔ بھاڑ میں جائے دلی۔ سنو صاحب پانی پت کے رئیسوں میں ایک شخص ہیں احمدحسین خاں ولد سردار خاں ولد دلاور خاں۔ اور نانا اس احمد حسین خاں کے غلام حسین خاں ولد مصاحب خاں۔ اس شخص کا حال ازروئے تحقیق مشرح اور مفصل لکھو۔ قوم کیا ہے۔ عمر کیا ہے۔ طریق کیا ہے۔ احمد حسین خاں کی ذاتی لیاقت کا کیا رنگ ہے طبیعت کا کیا ڈھنگ ہے۔ بھائی لکھ اور جلد لکھ۔

ایضاً

سید خدا کی پناہ عبارت لکھنے کا ڈھنگ کیا ہاتھ آیا ہے کہ تم نے سارے جہاں کو اٹھایا ہے۔ ایک غریب سید مظلوم کے چہرہ نورانی پر مہاسا نکلا ہے تم کو سرمایہ آرایش ِ گفتار بہم پہنچا ہے۔ میری دعا ان کو پہنچاؤ۔ اور ان کی خیرو عافیت جلد لکھو۔ بھائی یہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہے۔ سمجھ میں کسی کے نہیں آتا کہ کیا طور ہے۔ اوائل ماہِ انگریزی میں روک ٹوک کی شدت ہوتی تھی۔ آٹھویں دسویں سے وہ شدت کم ہو جاتی تھی اس مہینے میں برابر وہی صورت رہی ہے۔ آج ۲۷ مارچ کی ہے۔ پانچ چار دن مہینے میں باقی ہیں۔ آنچ ویسی ہی تیز ہے خدا اپنے بندوں پر رحم کرے مجھ پر میرے اللہ نے ایک اور عنایت کی ہے اور اس غمزدگی میں ایک گونہ خوشی اور کیسی بڑی خوشی دی ہے۔ تم کو یاد ہو گا کہ ایک دستنبو نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کا خط مقام الہ آباد سے بسبیل ڈاک آیا وہی کاغذ افشانی وہی القاب ِ قدیم کتاب کی تحسین مہربانی کے کلمات کبھی خدا تم کو یہاں لائے گاتو اس کی زیارت کرنا پنشن ملنے کا بھی حکم آج کل آیا چاہتا ہے اور یہ بھی توقع پڑی ہے کہ گورنر جنرل بہادر کے ہاں سے بھی کتاب کی تحسین اور عنایت کے مضامین کی تحریر آ جائے۔ میرن صاحب کو سلام پہلے لکھ چکا ہوں۔ میر سرفراز حسین اور میر نصیر الدین کو دعا کہہ دینا اور یہ خط دکھا دینا۔

ایضاً

برخوردار نور چشم میر مہدی کو بعد دعائے حیات و صحت کے معلوم ہو۔ بھائی تم نے بخار کو کیوں آنے دیا تپ کو کیوں چڑھنے دیا۔ کیا بخار میرن صاحب کی صورت میں آیا تھا جو تم مانع نہ آئے تپ ابّن بن کر آئی تھی جو اس کو روکتے ہوئے شرمائے۔ حکیم اشرف علی ابھی آ گئے ہیں کہتے تھے کہ میں نے نسخہ لکھ کر آج ڈاک میں بھیج دیا ہے چونکہ یہ خط بھی آج روانہ ہوتا ہے کیا عجب ہے کہ دونوں خط ایک دن بلکہ ایک وقت پہنچیں۔ دل تمہارے واسطے بہت کڑھتا ہے حق تعالیٰ تم کو جلد شفا دے اور تمہاری تندرستی کی خبر مجھ کو سنائے۔ سنو میاں سرفراز حسین ہزار برس میں تم نے مجھ کو ایک خط لکھا وہ اس طرح کہ جیسا جلال اسیر کہتا ہے ؎ بغیر در شکر آبست رُوبما دارد۔ پڑھتا ہوں اس خط کو اور ڈھونڈتا ہوں کہ میرے واسطے کونسی بات ہے مجھ کو کیا پیام ہے کچھ نہیں۔ شاید دوسرے صفحہ میں کچھ ہو۔ ادھر خاتمہ بالخیر ہے۔ یارب سرنامہ میرے نام کا آغاز تحریر میں القاب میرا پھر سارے خط میں میرن صاحب کا جھگڑا۔ یہ کیا سیر ہے میں ایسے خط کا جواب کیوں لکھوں میری بلا لکھے۔ اب جو تم خط لکھو گے اور اس میں اپنے بھائی کی خیر و عافیت رقم کرو گے اور میرن صاحب کا نام اور ان کے لئے سلام تک بھی اس میں نہ ہو گا تو میں اس کا جواب آنکھوں سے لکھوں گا۔ اور ہاں میاں تم نے میر اشرف علی کو کیا لکھا کہ ہم نے سنا ہے کہ چچا نے اس کا مرنا سنا ہو گا۔ اس غریب کا قول یہ ہے کہ میری دونوں بہنیں اور پانچ بھانجیاں پانی پت میں ہیں کیا چچا کو نہ معلوم ہو گا کہ کون سی لڑکی مری۔ کاش اس کے باپ کا نام لکھتے تاکہ میں جانتا کہ کونسی بھانجی مری ہے۔ اب میں کس کا نام لے کر روؤں اور کس کی فاتحہ دلواؤں۔ اس امر میں حق بجانب اس مظلوم کے ہے توضیح بقید نام لکھو۔

ایضاً

بھائی ایک خط تمہارا پہلے پہنچا اور ایک خط کل آیا پہلے خط میں کوئی امر جواب طلب نہ تھا اگرچہ کل کے خط میں بھی صرف کتابوں کی رسید تھیلیکن چونکہ دو امر لکھنے کے لائق تھے اس واسطے ایک لفافہ تمہاری پسند کا تمہاری نذر کرنا پڑا۔ پہلا امر یہ کہ آج میر نصیر الدین دوپہر کو میرے پاس آئے تھے ان کو دیکھ کر دل خوش ہوا۔ تم نے بھی خط میں لکھا تھا کہ میر سرفراز حسین الور گئے تھے اور میر نصیر الدین بھی کہتے تھے کہ میں اور وہ ایک دن پانی پت سے چلے وہ ادھر گئے۔ میں ادھر آیا۔ ظاہراً پارسل کے پہنچنے سے پہلے وہ روانہ ہوئے ہیں ان کی کتاب رہ گئی اب ان تک کیونکر پہنچے گی۔ خدا خیر کرے۔ میاں لڑکے سنو میاں نصیر الدیناولاد میں سے ہیں شاہ محمد اعظم صاحب کے۔ وہ خلیفہ تھے مولوی فخر الدین صاحب کے اور میں مرید ہوں اس خاندان کا۔ اس واسطے میر نصیر الدین کو پہلے بندگی لکھتا ہوں اور پھر تمہارے علاقہ سے دعا۔ صوفی صافی ہوں۔ اور حضرات صوفیہ حفظ مراتب ملحوظ رکھتے ہیں ؎ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی۔ یہ جواب ہے تمہارے اس سوال کا کہ جو پہلے خط میں تم نے لکھا تھا۔ اب کے خط میں تم نے میرن صاحب کی خیر و عافیت کیوں نہ لکھی۔ یہ بات اچھی نہیں میں تو ڈر گیا کہ اگر تمہارے خط میں ان کو دعا سلام لکھوں گا تو ان سے تم کاہے کو کہو گے۔ پیرزادہ صاحب یعنی میر نصیر الدین نے ان کی بندگی مجھ سے کہی ہے خدا کے واسطے میری دعا ان سے کہہ دینا۔

ایضاً

میری جان سنو ! داستانِ صاحب کمشنر بہادر دہلی یعنی جناب سانڈرس صاحب بہادر نے مجھ کو بلایا پنجشنبہ ۲۴ فروری کو میں گیا۔ صاحب شکار کو سوار ہو گئے تھے میں الٹا پھر آیا۔ جمعہ ۲۵ فروری کو گیا۔ ملاقات ہوئی۔ کرسی دی۔ بعد پرسشِ مزاج کے ایک خط انگریزی چار ورق کا اٹھا کر پڑھتے رہے۔ جب پڑھ چکے تو مجھ سے کہا کہ یہ خط ہے منگلوڈ صاحب حاکم اکبر صدر بورڈ پنجاب کا تمہارے باب میں لکھتے ہیں کہ ان کا حال دریافت کر کے لکھوسو ہم پوچھتے ہیں کہ تم ملکہ معظمہ سے خلعت کیا مانگتے ہو۔ حقیقت کہی گئی۔ ایک کاغذ آمدہ ولایت لے گیا تھا وہ پڑھوا دیا پھر پوچھا تم نے کتاب کیسی لکھی ہے اس کی حقیقت بیان کی کہا ایک منگلوڈ صاحب نے دیکھنے کو مانگی ہے اور ایک ہم کو دو۔ میں نے عرض کیا کل حاضر کروں گا پھر پنشن کا حال پوچھا وہ گزارش کیا اپنے گھر آیا اور خوش آیا۔ دیکھو میر مہدیحاکم پنجاب کو مقدمہ ولایت کی کیا خبر۔ کتابوں سے کیا اطلاع۔ پنشن کی پرسش سے کیا مدعا۔ یہ استفسار بحکم نواب گورنر جنرل بہادر ہوا ہے اور یہ صورت مقدمہ فتح و فیروزی ہے۔ غرض کہ دوسرے دن یکشنبہ یوم التعطیل تھا۔ میں اپنے گھر رہا۔ دو شنبہ ۲۸ فروری کو گیا۔ باہر کے کمرے میں بیٹھ کر اطلاع کروائی۔ کہا اچھا توقف کرو۔ بعد تھوڑی دیر کے گڑھ کپتان کی چٹھی آئی۔ سواری مانگی۔ جب سواری آ گئی باہر نکلے میں نے کہا وہ کتابیں حاضر ہیں کہا منشی جیون لال کو دے جاؤ۔ وہ ادھر سوار ہو گئے میں ادھر سوار ہو کر اپنے مکان پر آیا۔ سہ شنبہ یکم مارچ کو پھر گیا بہت التفات سے باتیں کرتے رہے۔ کچھ سارٹیفیکٹ (سرٹیفیکٹ ) گورنروں کے ساتھ لے گیا تھا وہ دکھائے۔ ایک خط منگلوڈ صاحب بہادر کے نام کا لے گیا تھا وہ دے کر یہ استدعا کی کہ کتاب کے ساتھ یہ بھی بھیجا جاوے بہت اچھا کہہ کر رکھ لیا۔ پھر مجھ سے کہا کہ ہم نے تمہاری پنشن کے باب میں اجرٹن صاحب کو کچھ لکھا ہے تم ان سے ملو۔ عرض کیا بہتر۔ اجرٹن صاحب بہادر جیسا کہ تم کو معلوم تھا گئے ہوئے تھے کل وہ آئے آج میں نے ان کو خط لکھا ہے جیسا کہ وہ حکم دیں گے اس کے موافق عمل کروں گا۔ جب بلائیں گے تب جاؤں گا۔ دیکھو سید اسد اللہ الغالب علیہ السلام کی مدد کو کہ اپنے غلام کو کس طرح سے بچایا ۲۲ مہینے تک بھوکا پیاسا بھی نہ رہنے دیا پھر کس محکمہ سے کہ وہ آج سلطنت کا دہندہ ہے میرے تفقد کا حکم بھجوایا۔ حکام سے مجھ کو عزت دلوائی۔ میرے صبر و ثبات کی داد ملی۔ صبر و ثبات بھی اسی کا بخشا ہوا تھا۔ میں کیا اپنے باپ کے گھر سے لایا تھا۔ میر سرفراز حسین کو یہ خط پڑھا دینا اور ان کو اور نصیر الدین چراغ دہلوی کو اور میرن صاحب کو دعا کہنا۔

ایضاً

واہ واہ سید صاحب تم تو بڑی عبارت آرائیاں کرنے لگے۔ نثر میں خود نمائیاں کرنے لگے۔ کئی دن سے تمہارے خط کے جواب کی فکر میں ہوں مگر جاڑے نے بے حس و حرکت کر دیا ہے۔ آج جو بسبب ابر کے وہ سردی نہیں تو میں نے خط لکھنے کا قصد کیا ہے مگر حیران ہوں کہ کیا سحر سازی کروں۔ بھائی تم تو اردو کے مرزا قتیل بن گئے ہو۔ اردو بازار میں نہر کنارے رہتے رہتے رودِ نیل بن گئے ہو۔ کیا قتیل کیا رود نیل یہ سب ہنسی کی باتیں ہیں لو سنو اب تمہاری دلی کی باتیں ہیں۔ چوک میں بیگم کے باغ کے دروازے کے سامنے حوض کے پاس جو کنواں تھا اس میں سنگ و خشت و خاشاک ڈال کر بند کر دیا۔ بلی ماروں کے دروازہ کے پاس کئی دکانیں ڈھا کر راستہ چوڑا کر لیا۔ شہر کی آبادی کا حکم خاص و عام کچھ نہیں ہے۔ پنشن داروں سے حاکموں کا کام کچھ نہیں ہے۔ تاج محل۔ مرزا قیصر۔ مرزا جواں بخت کے سالے ولایت علی بیگ جے پور کی زوجہ ان سب کی الہ آباد سے رہائی ہو گئی۔ دیکھئے کیمپ میں رہیں یا لندن جائیں خلق نے ازروئے قیاسجیسا کہ دلی کے خبر تراشوں کا دستور ہے یہ بات اڑا دی ہے سو سارے شہر میں مشہور ہے کہ جنوری شروع سال ۱۸۵۹ ء میں عموماً شہر میں آباد کیے جائیں گے۔ اور پنشن داروں کو جھولیاں بھر بھر کر روپیے دیے جائیں گے۔ خیر آج بدھ کا دن ۲۲ دسمبر کی ہے اب شنبہ کو برا دن اور اگلے شنبہ کو جنوری کا پہلا دن ہے اگر جیتے ہیں تو دیکھ لیں گے کہ کیا ہوا تم اس خط کا جواب لکھو اور شتاب لکھو۔ میری جان سرفراز حسین تم کیا کر رہے ہو اور کس خیال میں ہو۔ اب صورت کیا ہے اور آئندہ عزیمت کیا ہے میر نصیر الدین کو صرف دعا اور اشتیاق دیدار۔ میرن صاحب کہاں ہیں کوئی جائے اور بلا لائے حضرت آئیے سلام علیکم۔ مزاج مبارک کہیئے مولوی مظہر علی نے آپ کے خط کا جواب بھیجا یا نہیں اگر بھیجا تو کیا لکھا۔ میں جانتا ہوں کہ میر اشرف علی صاحب اور میر سرفراز حسینکم اور یہ ستم پیشہ میر مہدی بہت آپ کی گستاخیاں کرتے ہیں۔ کیا کروں میں کہیں تم کہیں وہاں ہوتا تو دیکھتا کہ کیونکر تم سے بے ادبیاں کر سکتے انشاء اللہ تعالیٰ جب ایک جا ہوں گے تو انتقام لیا جائے گا۔ ہے ہے کیوں کر ایک جا ہوں گے۔ دیکھیئے زمانہ اور کیا دکھاتا ہے۔ اللہ اللہ اللہ ۔

ایضاً

میری جان تو کیا کر رہا ہے۔ بنیے سے سیانا سو دیوانہ۔ صبر و تسلیم و توکل و رضا شیوہ صوفیہ کا ہے۔ مجھ سے زیادہ اس کو کون سمجھے گا جو تم مجھ کو سمجھاتے ہو کیا میں یہ جانتا ہوں کہ ان لڑکوں کی پرورش میں کرتا ہوں استغفرا للہ لامؤثر فی الوجود الا اللہ یا تم یہ سمجھے ہو کہ میں شیخ چلی کی طرح سے یہ خیال باندھتا ہوں کہ مرغی مول لوں گا اور اس کے انڈے بچے بیچ کر بکری خریدوں گا اور پھر کیا کروں گا اور آخر کیا ہو گا بھائی یہ تو میں نے اپنا راز دل تم سے کہا تھا کہ آرزو یوں ہی تھی اور اب وہ نقش باطل ہو گیا۔ ایک حسرت کا بیان تھا نہ خواہش کا۔ دیکھا اس پنشن قدیم کا حال۔ میں تو اس سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہوں لیکن جب تک جواب نہ پاؤں کہیں اور کیونکر چلا جاؤں۔ حاکمِ اکبر کے آنے کی خبر گرم ہے دیکھیئے کب آئے۔ آئے تو مجھے بھی دربار میں بلائے یا نہ بلائے خلعت ملے یا نہ ملے۔ اس پیچ میں ایک اور پیچ آ پڑا ہے اس کو دیکھ لوں اور پھر صرف اسی کا انتظار نہیں اس مرحلے کے طے ہونے کے بعد پنشن کے ملنے نہ ملنے کا تردد بدستور رہے گا۔ سُبک سر کیوں جاؤں کہ یہ سب امور ملتوی چھوڑ کر نکل جاؤں۔ پنشن جاری ہوئے پر بھی تو سوا رامپور کے کہیں ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہاں تو جاؤں اور ضرور جاؤں۔ تین برس ثبات قدم اختیار کیا ہے ا ب انجام کار میں اضطراب کی کیا وجہ۔ چُپکے ہو رہو اور مجھ کو کسی عالم میں غمگین اور مضطر گمان نہ کرو۔ ہر وقت میں جیسا مناسب ہوتا ہے ویسا عمل میں آتا ہے۔ صاحب میرن صاحب نے دو سطریں دستخط خاص سے لکھی تھیں واللہ کچھ نہیں سمجھا کہ یہ کس مقدمہ کا ذکر ہے۔

ایضاً

سید صاحب اچھا ڈھکوسلا نکالا ہے بعد القاب کے شکوہ شروع کر دینا اور میرن صاحب کو اپنا ہم زبان کر لینا۔ میں میر مہدی نہیں کہ میرن صاحب پر مرتا ہوں۔ میر سرفراز حسین نہیں کہ ان کو پیار کرتا ہوں۔ علی کا غلام اور سادات کا معتقد ہوں اس میں تم بھی آ گئے۔ کمال ہے کہ میرن صاحب سے محبت قدیم ہے۔ دوست ہوں۔ عاشقِ زار نہیں۔ بندہ مہر و وفا ہوں گرفتار نہیں تمہارے بھائی نے سخت مشوش بلکہ نعل در آتش کر رکھا ہے ایک سلام اصلاح کے واسطے بھیجا اور لکھا بعد محرم کے میں بھی آؤں گا۔ میں نے سلام رہنے دیا۔ اور منتظر رہا کہ ڈاک میں کیوں بھیجوں وہ آئیں گے تو یہیں ان کو دوں گا۔ محرم تمام ہوا آج سہ شنبہ غرّہ صفر ہے حضرت کا پتا نہیں ظاہراً برسات نے آنے نہ دیا۔ برسات کا نام آ گیا۔ سو پہلے تو مجملاً سنو ایک غدر کالوں کا۔ ایک ہنگامہ گوروں کا۔ ایک فتنہ انہدام مکانات کا۔ ایک آفت وبا کی۔ ایک مصیبت کال کی اب یہ برسات جمیع حالات کی جامع ہے۔ آج اکیسواں دن ہے آفتاب اس طرح نظر آ جاتا ہے جس طرح بجلی چمک جاتی ہے رات کو کبھی کبھی اگر تارے دکھائی دیتے ہیں تو لوگ ان کو جگنو سمجھ لیتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی ہے کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کی چوری کا حال نہ سنا جائے۔ مبالغہ نہ سمجھنا ہزار ہا مکان گر گئے۔ سینکڑوں آدمی جا بجا دب کر مر گئے۔ گلی گلی ندی بہہ رہی ہے۔ قصہ مختصر وہ ان کال تھا کہ مینہ نہ برسا اناج نہ پیدا ہوا۔ یہ پن کال ہے پانی ایسا برسا کہ بوئے ہوئے دانے بہہ گئے۔ جنہوں نے ابھی نہیں بویا تھا وہ بونے سے رہ گئے۔ سن لیا دلّی کا حال۔ اس کے سوا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جناب میرن صاحب کو دعا۔

ایضاً

بے مے نہ کند در کفِ من خامہ روانی

سر دست ہوا آتش بے دود کجائی

میر مہدی صبح کا وقت ہے جاڑا خوب پڑ رہا ہے۔ انگیٹھی سامنے رکھی ہوئی ہے۔ دو حرف لکھتا ہوں۔ ہاتھہ (ہاتھ)تاپتا جاتا ہوں۔ آگ میں گرمی نہیں۔ مگر ہائے آتشِ سیال کہاں کہ جب دو جرعے پی لئے فوراً رگ و پے میں دوڑ گئی دل توانا ہو گیا۔ دماغ روشن ہو گیا نفسِ ناطقہ کو تواجد بہم پہنچا۔ ساقی کوثر کا بندہ اور تشنہ لب۔ ہائے غضب ہائے غضب۔ میاں تم پنشن پنشن کر رہے ہو۔ گورنر جنرل کہاں اور پنشن کہاں۔ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر۔ صاحب کمشنر بہادر۔ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر۔ جب ان تینوں نے جواب دیا ہو تو اس کا مرافعہ گورنمنٹ میں کروں۔ مجھے تو دربار و خلعت کے لالے پڑے ہیں۔ تم کو پنشن کا فکر ہے۔ یہاں کے حاکم نے میرا نام فرد میں نہیں لکھا۔ میں نے اس کا اپیل نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کے ہاں کیا ہے۔ دیکھیئے کیا جواب آتا ہے۔ بہرحال جو کچھ ہو گا تم کو لکھا جائے گا۔ اجی وہ یوسف ہند نہ سہی یوسف دہر سہی۔ یوسفِ عصر سہی۔ یوسف کشور سہی۔ ان کی زلیخا نے ستم برپا کر رکھا ہے۔ مجھے تو خبر نہیں کہیں حضرت کہہ گئے ہیں کہ میں ساڑھے سات روپیے مہینا بھیجے جاؤں گا۔ اب ان کا تقاضا ہے رحیم بخش روز آتا ہے اور کہتا ہے کہ پھوپھا جان کو لکھو کہ پھوپھی جان بھوکی مرتی ہیں۔ خرچ جلد بھیجو۔ ورنہ نالش کی جائے گی اور تم کو گواہ قرار دیا جائے گا۔ بہرحال میرن صاحب کو یہ عبارت پڑھوا دینا۔ میر سرفراز حسین کو دعا۔ میر نصیر الدین کو دعا۔ حکیم میر اشرف علی کو دعا۔ یوسف ہفت کشور کو دعا۔

ایضاً

واہ حضرت کیا خط لکھا ہے اس خرافات کے لکھنے کا فائدہ۔ بات اتنی سی ہے کہ میرا پلنگ مجھ کو ملا میرا بچھونا مجھ کو ملا۔ میر ا حجام مجھ کو ملا۔ میرا بیت الخلا مجھ کو ملا۔ رات کا وہ شور کوئی آئیو کوئی آئیو فرو ہو گیا۔ میری جان بچی۔ میرے آدمیوں کی جان بچی ؎ اکنون شبِ من شب است روام روز است۔بھئی تم نے یہ نہ لکھا کہ میرن صاحب کو میرا خط پہنچا یا نہ پہنچا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ نہیں پہنچا اگر پہنچتا تو بے شک وہ تمہاری نظر سے گزرتا اور میرن صاحب اس کی اصل حقیقت تم سے پوچھتے اور اس صورت میں یہ بھی ضرور تھا کہ تم اس واہیات کے بدلے مجھ کو وہ روداد لکھتے جو میرن صاحب میں اور تم میں پیش آئی۔ پس اگر جیسا کہ گمان ہے خط نہیں پہنچا تو خیر جانے دو۔ اگر خط پہنچا ہے تو میرن صاحب کے خط کے جواب لکھوانے میں تم نے میرا دم ناک میں کر دیا تھا اب ان سے میرے خط کے جواب کا تقاضا کیوں نہیں کرتے۔ حُسن بھی کیا چیز ہے۔ قادر کا اتنا خوف نہیں جتنا حسین آدمی کا ڈر ہوتا ہے۔ تم ان سے خواہش وصالکرتے ہوئے ڈرو میرے خط کے جواب کے باب میں کیوں نہیں کہتے۔ نہ صاحب کچھ بات نہیں میرے خط کا جواب ان سے لکھوا کر بھجواؤ۔ یہاں کا وہ حال ہے جو دیکھ گئے ہو۔ پانی گرم۔ ہوا گرم۔ تپیں مستولی۔ اناج مہنگا۔ بیچارہ منشی میر احمد حسین کا بھتیجا میر امداد علی آشوب کا بیٹا۔ محمد میر۔ شبِ گزشتہ کو گزر گیا۔ آج صبح کو اس کو دفن کر آئے۔ جوان صالح۔ پرہیز گار۔ مومنین کا پیشِ نماز تھا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مجتہد العصر کا حکم بجا لاؤں گا۔ اور نہ رئیس کو بلکہ مدار المہام ریاست کو لکھوں گا۔ رئیس میرے سوال کا جواب قلم انداز کر جائے گا اور مدار المہام امر واقعی لکھ بھیجے گا۔ میرن صاحب کو دعا۔ اور کہنا بھلا صاحب تم نے ہمارے خط کا جواب نہیں لکھا۔ ہم بھی تمہاری طرز کا اتباع کریں گے۔ حکیم میر اشرف علی کو دعا کہنا۔ اور کہنا کہ اگر تم میں اور ان میں راہ و رسمِ تعزیت و تہنیت ہو تو میر احمد حسین کو خط لکھو اور یہ بھی ان کو معلوم ہو کہ حفیظ یہاں آیا ہوا ہے۔ قبائل تمہارے یہیں ہیں۔ اگر وہاں کچھ رسائی حاصل ہو تو خیر ورنہ یہاں کیوں نہ چلے آؤ؎

میں بھولا نہیں تجھ کو اے میری جاں

کروں کیا کہ یہاں گر رہے ہیں مکاں

برسات کا حال نہ پوچھو خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی سعادت خاں کی نہر ہے۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں۔ عالم بیگ خاں کے کٹڑہ کی طرف کا دروازہ گر گیا۔ مسجد کی طرف کے دالان کو جاتے ہوئے جو دروازہ تھا گر گیا۔ سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں۔ صبح کے بیٹھنے کا حجرہ جھک رہا ہے۔ چھتیں چھلنی ہو گئی ہیں۔ مینہ گھڑی بھر برسے تو چھت گھنٹہ بھر برسے۔ کتابیں قلمدان سب توشہ خانہ میں۔ فرش پر کہیں لگن رکھا ہوا۔ کہیں چلمچی دھری ہوئی۔ خط کہاں بیٹھ کر لکھوں۔ پانچ چار دن سے فرصت ہے۔ مالک مکان کو فکر مرمت ہے۔ آج ایک امن کی صورت نظر آئی کہا کہ آؤ میر مہدی کے خط کا جواب لکھوں۔ الور کی ناخوشی۔ راہ کی محنت کشی۔ تپ کی حرارت۔ گرمی کی شرارت۔ یاس کا عالم۔ کثرتِ اندوہِ غم۔ حال کی فکر۔ مستقبل کا خیال۔ تباہی کا رنج۔ آوارگی کا ملال جو کچھ کہو وہ کم ہے۔ بالفعل تمام عالم ایک سا عالم ہے۔ سنتے ہیں کہ نومبر میں مہاراجہ کو اختیار ملے گا۔ مگر وہ اختیار ایسا ہو گا جیساخدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے قبضہ قدرت میں رکھا۔ آدمی کو بدنام کیا ہے۔ بارے رفع مرض کا حال لکھو۔ خدا کرے تپ جاتی رہی ہو۔ تندرستی حاصل ہو گئی ہو۔ میر صاحب کہتے ہیں ؎ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ ہائے پیش مصرع مرزا قربان علی بیگ سالک نے کیا خوب بہم پہنچایا ہے مجھ کو پسند آیا ہے ؎

تنگدستی اگر نہ ہو سالک

تندرستی ہزار نعمت ہے

مجتہد العصر میر سرفراز حسین صاحب کو دعا۔ آہاہاہا میر افضل علی صاحب کہاں ہیں۔ حضرت یہاں تو اس نام کا کوئی نہیں ہے۔ لکھنؤ کے مجتہد العصر کے بھائی کا نام میرن صاحب تھا۔ جے پور کے مجتہد العصر کے بھائی میرن صاحب کیوں نہ کہلائیں۔ ہاں بھائی میرن صاحب بھلا ان کو ہماری دعا کہنا۔

ایضاً

میری جان تم کو تو بے کاری میں خط لکھنے کا ایک شغل ہے قلم دوات لے بیٹھے۔ اگر خط پہنچا ہے تو جواب ورنہ شکوہ و شکایت و عتاب و خطاب لکھنے لگے۔ کل حکیم اشرف علی آئے تھے سر منڈوا ڈالا ہے۔ مُحَلّقینَ رُؤسَکُم پر عمل کیا ہے۔ میں نے کہا سر منڈوایا ہے۔ تو ڈاڑھی رکھو۔ کہنے لگے دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم۔ واللہ ان کی صورت قابل دیکھنے کے ہے۔ کہتے تھے کہ میر احمد علی صاحب آ گئے اور برقرارو بحال رہے خدا کا شکر بجا لایا کبھی تو ایسا بھی ہو کہ کسی عزیز کی خبر سنی جائے۔ میرا سلام کہنا اور مبارکباد دینا۔ خبردار بھول نہ جائیو۔ تمہاری شکایتہائے بے جا کا جواب یہ ہے کہ تم نے جو خط مجھ کو پانی پت سے بھیجا تھا اور کرنال کی روانگی کی اطلاع دی تھی۔ میں نے تجویز کر لیا تھا کہ جب کرنال سے خط آئے گا تو میں جواب لکھوں گا۔ آج شنبہ ۱۵ اکتوبر صبح کا وقت ابھی کھانا پکا بھی نہیں تبرید پی کر بیٹھا تھا کہ تمہارا خط آ یا اور پڑھا اور یہ جواب لکھا۔ کلیان بیمار ہے۔ ایاز کو خط دے کر ڈاک گھر روانہ کیا۔ بولو تمہارا گلہ بے جا یا بجا۔ بھائی گلہ کرو تو اپنے سے کرو کہ تم نے کرنال پہنچ کر خط لکھنے میں کیوں دیر کی اور ہاں یہ کیا سبب ہے کہ بہت دن سے میر نصیر الدین کا نام تمہاری قلم سے نہیں نکلتا۔ ؟ ان کی خیرو عافیت نہ ان کی بندگی۔ بندگی نہ لکھتے تو خیر و عافیت تو لکھتے۔ یہ باتیں اچھی نہیں۔ میرن صاحب کے باب میں حیران ہوں تنہا تمہارے ساتھ گئے ہیں والدہ ان کی پانی پت میں ہیں وہاں کوئی مکان لے کر والدہ کو وہیں بلا لیں گے یا خود بعد چند روز کے یہاں آ جائیں گے۔ یہ دو باتیں جواب طلب ہیں۔ میر نصیر الدین کی بندگی نہ لکھنے کا سبب اور میرن صاحب کے بود و باش کی حقیقت لکھو۔ رہا میرا پنشن۔ اس کا ذکر نہ کرو۔ اگر ملے گا تو تم کو اطلاع دی جائے گی۔ شہر کی آبادی کا چرچا ہوا۔ کرایہ کو مکان ملنے لگے۔ چار پانسو (پانچ سو) گھر آباد ہوئے تھے کہ پھر وہ قاعدہ مٹ گیا اب خدا جانے کیا دستور جاری ہوا ہے۔ آیندہ کیا ہو گا۔ سلطان العلما مجتہد العصر مولوی سید سرفراز حسین کو اگرچہ نظر ان کے مدارج علم و عمل پر بندگی چاہیے مگر خیر میں عزیز داری و یگانگی کی راہ سے دعا لکھتا ہوں۔ میرن صاحب کو دعا بعد دعا کے بہت سا پیار۔ میر نصیر الدین کو دعا۔ زیادہ کیا لکھوں۔

ایضاً

میاں کیوں ناسپاسی و ناحق شناسی کرتے ہو۔ چشمِ بیمار ایسی چیز ہے کہ جس کی کوئی شکایت کرے تمہارا منہ چشمِ بیمار کے لائق کہاں۔ چشمِ بیمار میرن صاحب قبلہ کی آنکھ کو کہتے ہیں جس کو اچھے اچھے عارف دیکھتے رہتے ہیں۔ تم گنوار چشمِ بیمار کو کیا جانو۔ خیر ہنسی ہو چکی اب حقیقت مفصل لکھو۔ تم زحیر کی عادت رکھتے ہو۔ عوارضِ چشم سے تم کو کیا علاقہ۔ میرے نور چشم کی آنکھ کیوں دُکھی۔ میں نے خط تمہیں جان کر نہیں لکھا۔ تم نے لکھا تھا کہ بعد عید میں وہاں آؤں گا مجھ کو بھی خط بھیجنے میں تامل ہوا۔ لکھتے کچھ ہو کرتے کچھ ہو۔ تنخواہ کی سنو۔ تین برس کے دو ہزار دو سو پچاس روپیے ہوئے۔ سو مدّ خرچ کے جو پائے تھے وہ کٹ گئے۔ ڈیڑھ سو متفرقات میں اٹھ گئے۔ مختار کا ر دو ہزار لایا۔ چونکہ میں اس کا قرضدار ہوں روپیہ اس نے اپنے گھر میں رکھے اور مجھ سے کہا کہ میرا حساب کیجیئے۔ حساب کیا۔ سود۔ مولسات کم پندرہ سو ہوئے۔ میں نے کہا میرے قرضہ متفرق کا حساب کر۔ کچھ اوپر گیارہ سو روپے نکلے۔ میں کہتا ہوں یہ گیارہ سو بانٹ دے۔ نو سو بچے آدھے تو لے آدھے مجھے دے وہ کہتا ہے پندرہ سو مجھ کو دو۔ پانسو سات تم لو۔ یہ جھگڑا مٹ جائے گا تب کچھ ہاتہ (ہاتھ)آئے گا۔ خزانہ سے روپیہ آ گیا ہے۔ میں نے آنکھ سے دیکھا ہو تو آنکھیں پھوٹیں بات رہ گئی پَت رہ گئی۔ حاسدوں کو موت آ گئی دوست شاد ہو گئے ہیں جیسا ننگا بھوکا ہوں جب تک جیوں گا ایسا ہی رہوں گا۔ میرا دارو گیر سے بچنا کرامت اسداللہ ی ہے ان پیسوں کا ہاتہ (ہاتھ)آنا عطیہ ید اللہ ی ہے۔ حاکمِ شہر لکھ دے کہ یہ شخص ہرگز پنشن پانے کا مستحق نہیں حاکم صدر مجھ کو پنشن دلوائے اور پورا دلوائے۔ میرن صاحب کو دعا کہتا ہوں اور مزاج کی خبر پوچھتا ہوں۔ جواب ترکی بترکی جواب عربی بعربی جو انہوں نے لکھا وہ میں نے بھی لکھا۔ مجتہد العصر کو بندگی لکھوں دعا لکھوں کیا لکھوں۔ نہیں بھئی وہ مجتہد ہوں ہوا کریں میرے تو فرزند ہیں۔ میں دعا ہی لکھوں گا اور اسی طرح میر نصیر الدین کو بھی دعا۔

ایضاً

بھائی کیا پوچھتے ہو کیا لکھوں دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ ۱ قلعہ۔ ۲ چاندنی چوک۔ ۳ ہر روز مجمع بازار جامع مسجد کا۔ ۴ ہر ہفتہ سیر جمنا پل کی۔ ۵ ہر سال میلہ پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں پھر کہو دلّی کہاں۔ ہاں کوئی شہر قلمرو ہند میں اس نام کا تھا۔ نواب گورنر جنرل بہادر ۱۵ دسمبر کو یہاں داخل ہوں گے۔ دیکھیئے کہاں اترتے ہیں اور کیونکر دربار کرتے ہیں۔ آگے کے درباروں میں سات جاگیردار تھے کہ ان کا الگ الگ دربار ہوتا تھا۔ جھجھر۔ بہادر گڈہ (گڑھ)۔ بلب گڈہ (گڑھ)۔ فرخ نگر۔ دوجانہ۔ پاٹودی۔ لوہارو۔ چار معدوم محض ہیں جو باقی رہے۔ اس میں سے دوجانہ و لوہارو تحتِ حکومتِ ہانسی حصار پاٹودی حاضر۔ اگر ہانسی حصار کے صاحب کمشنر بہادر ان دونوں کو یہاں لے آئے تو تین رئیس ورنہ ایک رئیس۔ دربار عام والے مہاجن لوگسب موجود۔ اہل اسلام میں سے صرف تین آدمی باقی ہیں۔ میرٹھ میں مصطفیٰ خاں۔ سلطان جی میں مولوی صدر الدین خان۔ بلی ماروں میں سگِ دنیا موسوم اسد۔ تینوں مردود و مطردد و محروم و مغموم؎

توڑ بیٹھے جبکہ ہم جام و سُبو پھر ہم کو کیا

آسمان سے بادہ گلفام گر برسا کرے

تم چلے آتے ہو چلے آؤ۔ جاں نثار خاں کے چھتے کی۔ خان چند کے کوچہ کی سڑک دیکھ جاؤ۔ بُلاقی بیگم کے کوچہ کا ڈھنا۔ جامع مسجد کے گرد ستر بہتر گز میدان نکلنا سن جاؤ۔ غالب افسردہ دل کو دیکھ جاؤ۔ چلے جاؤ۔ مجتہد العصر میرسرفراز حسین کو دعا۔ حکیم الملک حکیم میر اشرف علی کو دعا۔ قطب الملک میر نصیر الدین کو دعا۔ یوسفِ ہند میر افضل علی کو دعا۔ غالب۔

ایضاً

جانِ غالب تمہارا خط پہنچا غزل اصلاح کے بعد پہنچتی ہے ؎ ہر اک سے پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے۔ مصرع بدل دینے سے یہ شعر کس رتبہ کا ہو گیا۔ اے میر مہدی تجھے شرم نہیں آتیمیاں یہ اہل دہلی کی زبان ہے۔ ارے اب اہل دہلی ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں۔ ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی باقی ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ خس کی ٹٹی پروا ہوا اب کہاں لطف وہ تو اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔ بہرحال میگزرد مصیبت عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنویں یک قلم کھاری ہو گئے۔ خیر کھاری پانی ہی پیتے گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنوؤں کا حال دریافت کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں تو ہو کا مکان ہو جائے۔ یاد کرو مرزا گوہر کے باغیچہ کے اس جانب کو کئی بانس نشیب تھا۔ اب وہ باغیچہ کے صحن کے برابر ہو گیا۔ یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہو گیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہے ہیں باقی سب اٹ گیا ہے۔ کشمیری دروازہ کا حال تم دیکھ گئے ہو اب آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازہ سے کابلی دروازہ تک میدان ہو گیا۔ پنجابی کٹڑہ۔ دھوبی واڑہ۔ رامجی گنج۔ سعادت خاں کا کٹڑہ۔ جرنیل کی بی بی کی حویلی۔ رام جی داس گودام والے کے مکانات۔ صاحب رام کا باغ حویلی۔ ان میں سے کسی کا پتہ نہیں ملتا۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہو گیا تھا اب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا۔ تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہو جائے گا۔ اللہ اللہ دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھاکہے جاتے ہیں واہ رے حسنِ اعتقاد۔ ارے بندہ خدا اردو بازار نہ رہا اردو کہاں دلّی کہاں واللہ اب یہ شہر نہیں کیمپ ہے چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ اور الور کا حال کچھ اور ہے مجھے اور انقلاب سے کیا کام۔ الگزنڈر مدرنی کا کائی خط نہیں آیا ظاہراً ان کی مصاحبت نہیں ورنہ مجھ کو ضرور خط لکھتا رہتا۔ میر سرفراز حسین اور میرن صاحب اور میر نصیر الدین کو دعا۔

 

ایضاً

جانِ غالب اب کے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ مجھ کو خود افسوس تھا۔ پانچویں دن غذا کھائی اب اچھا ہوں۔ تندرست ہوں۔ ذی الحجہ ۱۲۷۶ ھ تک کچھ کھٹکا نہیں ہے۔ محرم کی پہلی تاریخ سے اللہ مالک ہے۔ میر نصیر الدین آئے کئی بار میں نے ان کو دیکھا نہیں اب کی بار درد میں مجھ کو غفلت بہت رہی۔ اکثر احباب کے آنے کی خبر نہیں ہوئی جب سے اچھا ہوا ہوں سید صاحب نہیں آئے۔ تمہاری آنکھوں کے غبار کی وجہ یہ ہے کہ جو مکان دلّی میں ڈھائے گئے اور جہاں جہاں سڑکیں نکلیں جتنی گرد اڑی اس کو آپ نے از راہِ محبت اپنی آنکھوں میں جگہ دی بہرحال اچھے ہو جاؤ اور جلد آؤ مجتہد العصر میرسرفراز حسین کا خط آیا تھا۔ میں نے میرن صاحب کی آزردگی کے خوف سے اس کا جواب نہیں لکھا۔ یہ رقعہ ان دونوں صاحبوں کو پڑھا دینا کہ میر سرفراز حسین صاحب اپنے خط کی رسید سے مطلع ہو جائیں اور میرن صاحب میرے پاس اُلفت پر اطلاع پائیں۔

ایضاً

سید صاحب کل پہر دن رہے تمہارا خط پہنچا یقین ہے کہ اسی وقت یا شام کو میر سرفراز حسین تمہارے پاس پہنچ گئے ہوں۔ حال سفر کا جو کچہ(کچھ)ہے ان کی زبانی سن لو گے میں کیا لکھوں میں نے بھی جو کچہ (کچھ)سنا ہے انہیں سے سنا ہے اُن کا اس طرح ناکام پھر آنا میری تمنا اور میرے مقصود کے خلاف ہے لیکن میرے عقیدے کے اور میرے تصور کے مطابق ہے میں جانتا تھا کہ وہاں کچہ(کچھ) نہ ہو گا۔ سو روپیہ کی ناحق زیر باری ہوئی چونکہ یہ زیر باری میرے بھروسے پر ہوئی تو مجھے شرمساری ہوئی میں نے اس چھیاسٹھ برس میں اس طرح کی شرمساریاں اور روسیاہیاں بہت اٹھائی ہیں جہاں ہزار داغ ایک ہزار ایک سہی۔ میر سرفراز حسین کی زیر باری سے دل کڑھتا ہے۔ وبا کو کیا پوچھتے ہو قدر انداز قضا کے ترکش میں بھی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام۔ لوٹ ایسی سخت۔ کال ایسا بڑا۔ وبا کیوں نہ ہو۔ لسان الغیب نے دس برس پہلے فرمایا ہے ؎

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

میاں ۱۲۷۷ کی بات غلط نہ تھی مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا۔ واقعی اس میں میری کسرِ شان تھی بعد رفع فساد ہوا سمجھ لیا جائے گا۔ کلیاتِ اردو کا چھاپا تمام ہوا۔ اغلب کہ اسی ہفتہ میں غایت اسی مہینہ میں ایک نسخہ بسبیلِ ڈاک تم کو پہنچ جائے گا۔ کلیاتِ نظم فارسی کے چھاپنے کی بھی تدبیر ہو رہی ہے اگر ڈول بندھ گیا تو وہ بھی چھاپا جائے گا۔ قاطع برہان کے خاتمہ میں کچھ(کچھ) فوائد بڑھائے گئے ہیں اگر مقدور مساعدت کرے گا تو میں بے شرکتِ غیر اس کو چھپواؤں گا۔ مگر یہ خیال محل ہے۔ میرے مقدور کی تیاری کا حال مجتہد العصر کو معلوم ہے۔ واللہ علیٰ کل شی قدیر۔ خدا کا بندہ ہوں۔ علی کا غلام۔ میرا خدا کریم۔ میر خدا وند سخی۔ علی دارم چہ غم دارم۔ وبا کی آنچ مدھم ہو گئی ہے۔ پان(پانچ)سات دن بڑا زور شور رہا۔ پرسوں خواجہ مرزا ولد خواجہ امان مع اپنی بی بی بچوں کے دلی میں آیا۔ کل رات کو اس کا نو برس کا بیٹا ہیضہ کر کے مر گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ الور میں بھی وبا ہے۔ الگزنڈر مدرنی مشتہر بہ الک صاحب مر گیا۔ واقعی بے تکلف وہ میرا عزیز اور ترقی خواہ اور راج میں اور مجھ میں متوسط تھا۔ اس جرم میں ماخوذ ہو کر مرا۔ خیر یہ عالمِ اسباب ہے اس کے حالات سے ہم کو کیا۔

ایضاً

ہاں صاحب تم کیا چاہتے ہو۔ مجتہد العصر کے مسودہ کو اصلاح دے کر بھیج دیا۔ اب اور کیا لکھوں تم میرے ہم عمر نہیں جو سلام لکھوں۔ فقیر نہیں جو دعا لکھوں۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے لفافہ کو کریدا کرو۔ مسودہ کو بار بار دیکھا کرو۔ پاؤ گے کیا۔ یعنی تم کو وہ محمد شاہی روشیں پسند ہیں۔ یہاں خیریت ہے وہاں کی خیر و عافیت مطلوب ہے۔ خط تمہارا بہت دن کے بعد پہنچا۔ جی خوش ہوا مسودہ بعد اصلاح کے بھیجا جاتا ہے۔ برخوردار میر سرفراز حسین کو دینا اور دعا کہنا۔ اور ہاں حکیم میر اشرف علی اور میر افضل علی کو بھی دعا کہنا۔ لازمہ سعادت مندی یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح خط بھیجتے رہو۔ کیوں سچ کہیو اگلوں کے خطوط کی تحریر کی یھی (یہی) طرز تھی۔ ہائے کیا اچھا شیوہ ہے۔ جب تک یوں نہ لکھو وہ خط ہی نہیں ہے۔ چاہ آب ہے۔ ابر بے باراں ہے۔ نخل بے ثمر ہے۔ خانہ بے چراغ ہے۔ چراغ بے نور ہے۔ ہم جانتے ہیں تم زندہ ہو تم جانتے ہو ہم زندہ ہیں۔ امر ضروری لکھ لیا۔ زوائد کو اور وقت پر موقوف رکھا۔ اور اگر تمہاری خوشنودی اسی طرح کی نگارش پر منحصر ہے تو بھائی ساڑھے تین سطریں ویسی بھی میں نے لکھ دیں کیا قضا نہیں پڑھتے اور وہ مقبول نہیں ہوتی۔ خیر ہم نے بھی وہ عبارت جو مسودہ کے ساتھ لکھی تھی اب لکھ بھیجی قصور معاف کرو خفا نہ ہو۔ میر نصیر الدین ایک بار آئے تھے پھر نہ آئے۔ فارسی نئی میں نے کہاں لکھی کہ تمہارے چچا کو یا تم کو بھیج دوں نواب فیض محمد خاں کے بھائی حسن علی خاں مر گئے۔ حامد علی خاں کی ایک لاکھ تیس ہزار کئی سو روپیہ کی ڈگری بادشاہ پر ہو گئی۔ کلو داروغہ بیمار ہو گیا تھا آج اس نے غسلِ صحت کیا۔ باقر علی خاں کو مہینے بھر سے تپ آتی ہے۔ حسین علی خاں کے گلے میں دو غدود ہو گئے ہیں۔ شہر چپ چاپ۔ نہ کہیں پھاؤڑا بجتا ہے نہ سرنگ لگا کر کوئی مکان اڑایا جاتا ہے۔ نہ آہنی سڑک آتی ہے نہ کہیں دمدمہ بنتا ہے دلی شہر خموشاں ہے۔ کاغذ نبڑ گیا ورنہ تمہارے دل کی خوشی کے واسطے ابھی اور لکھتا۔

ایضاً

سید صاحب تمہارے خط کے آنے سے وہ خوشی ہوئی جو کسی دوست کے دیکھنے سے ہو لیکن زمانہ وہ آیا ہے کہ ہماری قسمت میں خوشی ہی نہیں خط سے معلوم ہوا تو کیا معلوم ہوا اک ڈھائی سو دیے ان دنوں میں ڈھائی روپے بھی بھاری ہیں ڈھائی سو کیسے۔ سبحان اللہ باوجود اس تہیدستی کے پھر بھی کہنا پڑ تا ہے کہ روپے گئے بلا سے آبرو بچی۔ اب میر سرفراز حسین کو چاہیے کہ الور چلے جائیں شاید نئے بندوبست میں کوئی صورت نوکری کی نکل آئے۔ میری دعا کہو اور یہ کہو کہ اپنا حال اور اپنا قصہ اپنے ہاتھ سے مجھ کو لکھیں۔ پنشن کا حال کچہ (کچھ)معلوم ہو تو کہوں۔ حاکم خط کا جواب نہیں لکھتا۔ عملہ میں ہر چند تفحص کیجیئے کہ ہمارے خط پر کیا حکم ہوا کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ بہرحال اتنا سنا ہے اور دلائل اور قرائن سے معلوم ہوا ہے کہ میں بے گناہ قرار پایا ہوں اور ڈپٹی کمشنر بہادر کی رائے میں پنشن پانے کا استحقاق رکھتا ہوں پس اس سے زیادہ مجھے معلوم نہ کسی کو خبر۔ میاں کیا باتیں کرتے ہو۔ میں کتابیں کہاں سے چھپواتا روٹی کھانے کو نہیں شراب پینے کو نہیں۔ جاڑے آتے ہیں لحاف توشک کی فکر ہے۔ کتابیں کیا چھپواؤں گا۔ منشی امید سنگہ(سنگھ)اندور والے دلی آئے تھے۔ سابقہ معرفت مجھ سے نہ تھا۔ ایک دوست ان کو میرے گھر لے آیا انہوں نے وہ نسخہ دکھایا۔ چھپوانے کا قصد کیا۔ آگرہ میں میرا شاگرد رشید منشی ہر گوپال تفتہ تھا۔ اس کو میں نے لکھا اس نے اس اہتمام کو اپنے ذمہ لیا۔ مسودہ بھیجا گیا۔ ۸/۔ فی جلد قیمت ٹھہری۔ پچاس جلدیں منشی امید سنگہ (سنگھ)نے لیں۔ پچیس روپیہ چھاپے خانہ میں بطریق ہنڈوی بھجوا دیے۔ صاحبِ مطبع نے بشمول سعی منشی ہر گوپال تفتہ چھاپنا شروع کیا آگرہ کے حکام کو دکھایا اجازت چاہیے ہے۔ حکام نے بکمالِ خوشی اجازت دی۔ پان سو(پانچ سو)جلد چھاپی جاتی ہے۔ اس پچاس جلد میں شاید پچیس جلد منشی امید سنگہ(سنگھ)مجھ کو دیں گے۔ میں عزیزوں کو بانٹ دوں گا۔ پرسوں خط تفتہ کا آیا تھا وہ لکھتے ہیں کہ ایک فرمہ چھپنا باقی رہا ہے۔ یقین ہے کہ اسی اکتوبر میں قصہ تمام ہو جائے۔ بھائی میں نے ۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء سے اکیسویں جولائی ۱۸۵۸ تک کا حال لکھا ہے اور خاتمہ میں اس کی اطلاع دے دی ہے۔ امین الدین خاں کی جاگیر کے ملنے کا حال اور بادشاہ کی روانگی کا حال کیونکر لکھتا۔ ان کو جاگیر اگست میں ملی۔ بادشاہ اکتوبر میں گئے کیا کرتا اگر تحریر موقوف نہ کرتا۔ منشی امید سنگہ(سنگھ)اندور جانے والے تھے۔ اگر ختم کر کے مسودہ ان کے سامنے آگرہ نہ بھیج دیتا تو پھر چھپواتا کون۔

ایضاً

خوبی دین و دنیا روزی باد۔ میر اشرف علی صاحب نے تمہارا خط دیا وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا۔ صاحب قصور تمہارا ہے کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو۔ جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتا ہوں نہ کوئی اپنا ہمنام ہونے دیا نہ کوئی اپنا عرف بننے دیا۔ نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔ فقط پنشن کی صورت یہ ہے کہ کوتوال سے کیفیت طلب ہوئی اس نے اچھی لکھی۔ کل ہفتہ کا دن ساتویں اگست کی مجھ کو اجرٹن صاحب بہادر نے بلایا۔ کچھ سہل سوال مجھ سے کئے۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تنخواہ ملے اور جلد ملے۔ تردد اگر ہے تو اس میں ہے کہ ۱۵ مہینے پچھلے بھی ملتے ہیں یا صرف آیندہ کو مقرر ہوتی ہے۔ غلام فخر الدین خاں کی ایک دو روبکاریاں ہوئی ہیں۔ صورت اچھی ہے۔ خدا چاہے تو رہائی ہو جائے۔ صاحب ہم نے گھبرا کر اس تحریر فارسی کو تمام کیا۔ دفتر بند کیا۔ اور یہ لکھ دیا کہ یکماگست ۱۸۵۸ ء تک میں نے ۱۵ مہینے کا حال لکھا اور آئندہ لکھنا موقوف کیا تم کو آگے اس سے لکھا تھا کہ تم اپنے اوراق کا فقرہ اخیر لکھ بھیجو۔ اب پھر تم کو لکھا جاتا ہے کہ جلد لکھو تاکہ میں اس کے آگے کی عبارت تم کو لکھ کر بھیج دوں۔ ہاں صاحب میر اشرف علی صاحب بھی یہی فرماتے تھے کہ میر سرفراز حسین پانی پت آیا چاہتے ہیں اگر آ جائیں تو مجھ کو اطلاع کرنا۔

ایضاً

مار ڈالا یار تیری جواب طلبی نے اس چرخ کج رفتار کا برا ہو ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا ملک و مال جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے ایک گوشہ و توشہ تھا۔ چند مفلس و بے نوا ایک جگھ (جگہ)فراہم ہو کر کچھ ہنس بول لیتے تھے ؎

سو بھی نہ تو کوئی دم دیکھ سکا اے فلک

اور تو یہاں کچھ نہ تھا ایک مگر دیکھنا

یاد رہے یہ شعر خواجہ میر درد کا ہے۔ کل سے مجھ کو مے کش بہت یاد آتا ہے۔ سو صاحب اب تم ہی بتاؤ کہ میں تم کوکیا لکھوں وہ صحبتیں اور تقریریں جو یاد کرتے ہو اور تو کچھ بن نہیں آتی مجھ سے خط پر خط لکھواتے ہو۔ آنسوؤں سے پیاس نہیں بجھتی۔ یہ تحریر تلافی اس تقریر کا نہیں کر سکتی۔ بہرحال کچھ لکھتا ہوں دیکھو لکھتا ہوں۔ سنو پنشن کی رپورٹ کا ابھی کچہ(کچھ)حال نہیں معلوم۔ دیر آید درست آید۔ بھئی میں تم سے بہت آزردہ ہوں۔ میرن صاحب کی تندرستی کے بیان میں نہ اظہارِ مسرت نہ مجھ کو تہنیت بلکہ اس طرح سے لکھا ہے گویا ان کا تندرست ہونا تم کو ناگوار ہوا ہے۔ لکھتے ہو کہ میرن صاحب ویسے ہی ہو گئے جیسے آگے تھے اچھلتے کودتے پھرتے ہیں۔ اس کے یہ معنی کہ ہے ہے کیا غضب ہوا کہ یہ کیوں اچھے ہو گئے یہ باتیں تمہاری ہم کو پسند نہیں آتیں تم نے میر کا وہ مقطع سنا ہو گا بہ تغیر الفاظ لکھتا ہوں ؎

کیوں نہ میرن کو مغتنم جانوں

دلّی والوں میں اک بچا ہے یہ

میر تقی کا مقطع یوں ہے ؎

میر کو کیوں نہ مغتنم جانیں

اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

میر کی جگہ میرن اور رہا کی جگہ بچا کیا اچھا تصرف ہے۔ ارے میاں تم نے کچھ اور بھی سنا کل یوسف مرزا کا خط لکھنؤ سے آیا وہ لکھتا ہے کہ نصیر خاں عرف نواب جان والد ان کا دائم الحبس ہو گیا۔ حیران ہوں کہ یہ کیا آفت آئی۔ یوسف مرزا تو جھوٹ کاہے کو لکھے گا خدا کرے اس نے جھوٹ سنا ہو۔ لو بھئی اب تم چاہو جاؤ اپنے گھر میں روٹی کھانے جاتا ہوں اندر باہر سب روزہ دار ہیں یہاں تک کہ بڑا لڑکا باقر علی خاں بھی۔ صرف ایک میں اور ایک میرا بیٹا حسین علی خاں یہ ہم روزہ خور ہیں۔ وہی حسین علی خاں جس کا روز مرّہ ہے کھلونے منگا دو۔ میں بھی بجار جاؤں گا۔ میر سرفراز حسین کو دعا کہنا اور یہ خط ان کو ضرور سنا دینا۔ برخوردار میر نصیر الدین کو دعا پہنچے۔

ایضاً

میر مہدی جیتے رہو۔ آفرین صد آفرین۔ اردو عبارت لکھنے کا اچھا ڈھنگ پیدا کیا ہے کہ مجھ کو رشک آنے لگا۔ سنو دلی کے تمام مال و متاع و زر و گوہر کی لوٹ پنجاب احاطہ میں کی گئی ہے۔ یہ طرز عبارت خاص میری دولت تھی سو ایک ظالم پانی پت انصاریوں کے محلہ کا رہنے والا لوٹ لے گیا۔ مگر میں نے اس کو بِہَل کیا۔ اللہ برکت دے۔ میری پنشن اور ولایت کے انعام کا حال کَمَا ہُوَ حَقّہٗ سمجھ لو وَلِلّرحمٰن ِالطاف خفیۃ ایک طرزِ خاص پر تحریک ہوئی۔ نواب گورنر جنرل بہادر نے حاکمِ پنجاب کو لکھا کہ حاکمِ دہلی سے فلاں شخص کی پنشن کے چڑھے ہوئے روپیہ کے یک مشت پانے اور آیندہ ماہ بماہ ملنے کی رپورٹ منگوا کر اپنی منظوری لکھ کر ہمارے پاس بھیج دو تاکہ ہم حکم منظوری دے کر تمہارے پا س بھیج دیں سو یہاں اس کی تعمیل بطرز مناسب ہو گی۔ کم و بیش دو مہینہ میں سب روپیہ مل جائے گا اور ہاں صاحب کمشنر بہادر نے یہ بھی کہا کہ اگر تم کو ضرورت ہو تو سو روپیہ خزانہ سے منگوا لو۔ میں نے کہا صاحب یہ کیسی بات ہے کہ اوروں کو برس دن کا روپیہ ملا اور مجھے سو روپیہ دلواتے ہو۔ فرمایا کہ تم کو اب چند روز میں سب روپیہ اور اجرا حکم مل جائے گا۔ اوروں کو یہ بات برسوں میں میسر آئے گی۔ میں چپ ہو رہا۔ آج دو شنبہ یکم شعبان اور ہفتم مارچ ہے۔ دوپہر ہو جائے تو اپنا آدمی مع رسید بھیج کر سو روپیہ منگا لوں۔ پر یار ولایت کے انعام کی توقع خدا ہی سے ہے حکم تو اسی کے حکم کے ساتھ اس کی رپورٹ کرنے کا بھی آیا ہے مگر یہ بھی حکم ہے کہ اپنی رائے لکھو۔ اب دیکھیئے یہ دو حاکم یعنی حاکم دہلی اور حاکم پنجاب اپنی رائے کیا لکھتے ہیں۔ حاکم پنجاب کے گورنر بہادر کا یہ بھی حکم ہے کہ دستنبو منگا کر اور تم دیکھ کر ہم کو لکھو کہ وہ کیسی ہے اور اس میں کیا لکھا ہے چنانچہ حاکم دہلی نے ایک کتاب بھی کہہ کر مجھ سے مانگی اور میں نے دی۔ اب دیکھوں حاکم پنجاب کیا لکھتا ہے اس وقت تمہارا ایک خط اور یوسف مرزا کا ایک خط آیا مجھ کو باتیں کرنے کا مزا ملا تو دونوں کا جواب ابھی لکھ کر روانہ کیا۔ اب میں روٹی کھانے جاتا ہوں۔ میر سرفراز حسین۔ میرن صاحب۔ میر نصیر الدین کو دعا۔

ایضاً

 سید صاحب نہ تم مجرم نہ میں گنہگار۔ تم مجبور میں لاچار۔ لو اب کہانی سنو۔ میری سرگزشت میری زبانی سنو۔ نواب مصطفے ٰ خاں بمیعاد سات برس کے قید ہو گئے تھے سو ان کی تقصیر معاف ہو ئی اور ان کو رہائی ملی۔ صرف رہائی کا حکم آیا ہے۔ جہانگیر آباد کی زمینداری اور دلی کی املاک اور پنشن کے باب میں ہنوز حکم کچھ نہیں ہوا لاچار وہ رہا ہو کر میرٹھ ہی میں ایک دوست کے مکان میں ٹھہرے ہیں۔ میں بمجرد و استماع اس خبر کے ڈاک میں بیٹھ کر میرٹھ گیا ان کو دیکھا۔ چار دن وہاں رہا۔ پھر ڈاک میں اپنے گھر آیا۔ تاریخ آنے جانے کی یاد نہیں مگر ہفتہ کو گیا۔ منگل کو آیا۔ آج بدھ دوم فروری ہے مجھ کو آئے ہوئے نواں دن ہے۔ انتظار میں تھا کہ تمہارا خط آئے تو اس کا جواب لکھا جائے آج صبح کو تمہارا خط آیا دوپہر کو میں جواب لکھتا ہوں ؎

روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

میرٹھ سے آ کر دیکھا کہ یہاں بڑی شدت ہے اور یہ حالت ہے کہ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے لاہوری دروازہ کا تھانہ دارمونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھتا ہے جو باہر کے گورے کی آنکھ بچا کر آتا ہے اس کو پکڑ کر حوالات میں بھیج دیتا ہے حاکم کے ہاں پانچ بید لگتے ہیں یا دو روپیہ جرمانہ لیا جاتا ہے آٹھ دن قید رہتا ہے اس سے علاوہ سب تھانوں پر حکم ہے کہ دریافت کرو کون بے ٹکٹ مقیم ہے اور کون ٹکٹ رکھتا ہے۔ تھانوں میں نقشے مرتب ہونے لگے یہاں کا جمعدار میرے پاس بھی آیا۔ میں نے کہا بھائی تو مجھے نقشے میں نہ رکھ۔ میری کیفیت کی عبارت الگ لکھ۔ عبارت یہ کہ اسد اللہ خاں پنشن دار ۱۸۵۰ ء سے حکیم پٹیالے والے کے بھائی کی گلی میں رہتا ہے۔ نہ کالوں کے وقت میں کہیں گیا۔ اور نہ گوروں کے زمانہ میں نکلا اور نکالا گیا۔ کرنیل برون صاحب بہادر کے زبانی حکم پر اس کی اقامت کا مدار ہے اب تک کسی حاکم نے وہ حکم نہیں بدلا۔ اب حاکم وقت کو اختیار ہے۔ پرسوں یہ عبارت جمعدار نے محلہ کے نقشے کے ساتھ کوتوالی میں بھیج دی ہے۔ کل سے یہ حکم نکلا کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان دکان کیوں بناتے ہیں جو مکان بن چکے ہیں انہیں ڈھا دو۔ اور آیندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ پانچ ہزار ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ جو مسلمان شہر میں اقامت چاہے بقدر مقدور نذرانہ دے۔ اس کا اندازہ قرار دینا حاکم کی رائے پر ہے روپیہ دے اور ٹکٹ لے گھر برباد ہو جائے آپ شہر میں آباد ہو جائے آج تک صورت یہ ہے دیکھیئے شہر کے بسنے کی کون مہورت ہے جو رہتے ہیں وہ بھی اخراج کیے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہوئے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ نور چشم میر سرفراز حسین اور برخوردار میر نصیر الدین کو دعا اور جناب میرن صاحب کو سلام بھی اور دعا بھی۔ اس میں سے وہ جو چاہیں قبول کریں۔

ایضاً

میری جان خدا تم کو ایک سو بیس برس کی عمر دے۔ بوڑھا ہونے کو آیا۔ ڈاڑھی میں بال سفید آ گئے۔ مگر بات سمجھنی نہ آئی۔ پنشن کے باب میں الجھے ہو اور کیا بے جا الجھے ہو۔ یہ تو جانتے ہو کہ دلّی کے سب پنشن داروں کو مئی ۱۸۵۷ ء سے پنشن نہیں ملا۔ اب فروری ۱۸۵۹ ء بائیسوا ں مہینہ ہے۔ چند اشخاص کو اس بائیس مہینے میں سال بھر کا روپیہ بطریق مدد خرچ مل گیا۔ باقی چڑھے ہوئے روپیہ کے باب میں اور آیندہ ماہ بماہ ملنے کے واسطے ابھی کچھ حکم نہیں ہوا۔ تم اب اپنے سوال کو یاد کرو کہ اس واقعہ سے اس کو کچھ نسبت ہے یا نہیں یہ حضرت کا سوال امیر خسرو کی انملی ہے ؎ چیل بسولا لے گئی تو کاہے سے پھٹکوں راب۔ علی بخش خاں پچاس روپے مہینا پاتے تھے بائیس مہینے کے گیارہ سو ہوتے ہیں ان کو چھ سو روپیہ مل گئے۔ باقی روپیہ چڑھا رہا آیندہ ملنے میں کچھ کلام نہیں۔ غلام حسن خاں سو روپیہ مہینے کا پنشن دار۔ بائیس مہینے کے بائیس سو روپے ہوتے ہیں اس کو بارہ سو ملے۔ دیوان کشن لال کا ڈیڑہ (ڈیڑھ)سو روپیہ مہینا۔ بائیس مہینے کے تین ہزار تین سو ہوتے ہیں۔ اس کو اٹھارہ سو ملے۔ مَنّا جمعدار دس روپیہ مہینے کا سکھ لمبر سال بھر کے ایک سو بیس لے آیا اسی طرح پندرہ سولہ آدمیوں کو ملا ہے۔ آیندہ کے واسطے کسی کو کچھ حکم نہیں۔ مجھ کو پھر مدد خرچ نہیں ملا۔ جب کئی خط پر خط لکھے تو اخیر خط پر صاحب کمشنر بہادر نے حکم دیا کہ سائل کو بطریق مدد خرچ سو روپیہ مل جاویں۔ میں نے وہ سو روپے نہ لئے۔ اور پھر صاحب کمشنر بہادر کو لکھا کہ میں باسٹھ روپیہ آٹھ آنہ مہینا پانے والا ہوں۔ سال بھر کے ساڑھے سات سو روپے ہوتے ہیں۔ سب پنشن داروں کو سال سال بھر کا روپیہ مجھ کو سو روپیہ کیسے ملتے ہیں۔ مثل اوروں کے مجھے بھی سال بھر کا روپیہ مل جاوے۔ ابھی اس میں کچھ جواب نہیں ملا۔ آبادی کا یہ رنگ ہے کہ ڈھنڈھورا(ڈھنڈورا) پِٹوا کر ٹکٹ چھپوا کر اجرٹن صاحب بہادر بطریق ڈاک کلکتہ چلے گئے۔ دلّی کے حمقا جو باہر پڑے ہوئے ہیں منہ کھول کر رہ گئے۔ اب جب وہ معاودت کریں گے تب شاید آبادی ہو گی یا کوئی اور نئی صورت نکل آئے۔ میر سرفراز حسین اور میر نصیر الدین اور میرن صاحب کو دعائیں پہنچیں۔ برخوردار کامگار میر مہدی قطعہ تم نے دیکھاسچ مچ میرا حلیہ ہے واہ اب کیا شاعری رہ گئی ہے جس وقت میں نے یہ قطعہ وہاں کے بھیجنے کے واسطے لکھا ارادہ تھا کہ خط بھی لکھوں لڑکوں نے ستایا کہ دادا جان چلو کھانا تیار ہے ہمیں بھوک لگی ہے تین خط اور لکھے ہوئے رکھے تھے میں نے کہا کہ اب کیوں لکھوں اسی کاغذ کو لفافے میں رکھ کر ٹکٹ لگا کر سر نامہ لکھ کر کلیان کے حوالہ کر گھر چلا گیا۔ اور ہاں ایک چھیڑ بھی تھی کہ دیکھوں میر میر مہدی خفا ہو کر کیا باتیں بناتا ہے سو وہی ہوا۔ تم نے جلے پھپھولے پھوڑے۔ لو اب تبادلہ خط لکھنے بیٹھا ہوں کیا لکھوں یہاں کا حال زبانی میرن صاحب کے سن لیا ہو گا مگر وہ جو کچھ تم نے سنا ہو گا بے اصل باتیں ہیں۔ پنشن کا مقدمہ کلکتہ میں نواب گورنر جنرل بہادر کے پیش نظر۔ یہاں کے حاکم نے اگر ایک روبکاری لکھ کر اپنے دفتر میں رکھ چھوڑی میر ا اس میں کیا ضرر۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ دو ایک آدمی آ گئے دن بھی تھوڑا رہ گیا۔ میں نے بکس بند کیا۔ باہر تختوں پر آ بیٹھا۔ شام ہوئی چراغ روشن ہوا۔ منشی سید احمد حسین سرہانے کی طرف مونڈھے پر بیٹھے ہیں۔ میں پلنگ پر لیٹا ہوا ہوں کہ ناگاہ چشم و چراغ دودمان علم و یقین سید نصیر الدین آیا۔ ایک کوڑا ہاتھ میں اور ایک آدمی ساتھ۔ اس کے سر پر ایک ٹوکرا، اس پر گھاس ہری ہری بچھی ہوئی۔ میں نے کہا آہا ہاہا سلطان العلما مولانا سرفراز حسین دہلوی نے دوبارہ رسد بھیجی ہے۔ بارے معلوم ہوا کہ وہ نہیں ہے یہ کچھ اور ہے فیضِ خاص نہیں عام ہے شراب نہیں آم ہے۔ خیر یہ عطیہ بھی بے خلل ہے بلکہ نعم البدل ہے ایک ایک آم کو ایک ایک سر بہر گلاس سمجھا بادہ انگور سے بھرا ہوا مگر واہ کس حکمت سے بھرا ہے کہ پینسٹھ گلاس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں گرا ہے میاں کہتا تھا کہ یہ اسی تھے پندرہ بگڑ گئے بلکہ سڑ گئے۔ تا ان کی برائی اوروں میں سرایت نہ کرے ٹوکرے میں سے پھینک دیے۔ میں نے کہا بھائی یہ کیا کم ہے مگر میں تمہاری تکلیف اور تکلف سے خوش نہیں ہوا۔ تمہارے پاس روپیہ کہاں جو تم نے آم خریدے خانہ آباد دولت زیادہ۔ لیکور ایک انگریزی شراب ہوتی ہے۔ قوام کی بہت لطیف اور رنگت کی بہت کوب۔ اور طعم کی ایسی میٹھی جیسا قند کا قوام پتلا دیکھو اس لغت کے معنی کسی فرہنگ سرور میں مجتہد العصراور حکیم میر اشرف علی کو کہ وہ ان کے علم کی کنجی ہیں اور ٹکے ٹکے کی کتابیں چالیس پچاس روپیہ کو لے گئے ہیں۔ میری دعا کہہ دینا۔

ایضاً

کیوں یار کیا کہتے ہو۔ ہم کچھ آدمی کام کے ہیں یا نہیں۔ تمہارا خط پڑھ کر دو سو بار یہ شعر پڑھا ؎

وعدہ وصل چوں شود نزدیک

آتش شوق تیز تر گردد

کلو کو مولوی مظہر علی صاحب کے پاس بھیج کر کہلا بھیجا کہ آپ کہیں جائیے گا نہیں میں آتا ہوں۔ بھلا بھائی اچھی حکمت کی کیا وہ میرے بابا کے نوکر تھے کہ میں ان کو بلاتا۔ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ تکلیف نہ کریں میں حاضر ہوتا ہوں۔ دو گھڑی کے بعد وہ آئے۔ ادھر کی بات ادھر کی بات۔ کوئی انگریزی کاغذ دکھایا۔ کوئی فارسی خط پڑھوایا۔ اجی کیوں حضرت آپ میرن صاحب کو نہیں بلاتے۔ صاحب میں تو ان کو لکھ چکا ہوں کہ تم چلے آؤ اور ایک مقام کا ان کو پتا لکھا ہے کہ وہاں ٹھہر کر مجھ کو اطلاع کرو میں شہر میں بلا لوں گا۔ صاحب اب وہ ضرور آئیں گے۔ آخر کار ان سے اجازت لے کر اب تم کو لکھتا ہوں کہ ان سے مختصر یہ کہہ دو کہ بھائی یہ تو مبالغہ ہے کہ روٹی وہاں کھاؤ تو پانی یہاں پیو۔ یہ کہتا ہوں کہ عید وہاں کرو تو باسی عید یہاں کرو۔ یہ میرا حال سنو کہ بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آ گیا ہے۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینا روزہ کھا کھا کر کاٹا۔ آیندہ خدا رزاق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔ بس صاحب ایک چیز کھانے کو ہوئی اگرچہ غم ہی ہو تو پھر کیا غم ہے۔ میر سرفراز حسین کو میری طرف سے گلے لگانا اور پیار کرنا۔ میر نصیر الدین کو دعا کہنا اور شفیع احمد صاحب کو اور میر احمد علی صاحب کو سلام کہنا۔ میرن صاحب کو نہ سلام نہ دعا۔ یہ خط پڑھا دو اور ادھر کو روانہ کرو۔ کیا خوب بات یاد آئی ہے کیوں وہ شہر سے باہر ٹھہریں اور کیوں کسی کے بلانے کی راہ دیکھیں۔ شکرم میں۔ کرانچی میں چوپہیے میں یعنی ڈاک میں آئیں۔ بلی ماروں کے محلہ میں میرے مکان پر اتریں۔ میرزا قربان علی بیگ کے مکان میں مولوی مظہر علی رہتے ہیں میرے ان کے مسکن میں ایک میر خیراتی کی حویلی درمیان ہے۔ ڈاک کو زنہار کوئی نہیں روکتا یہ اصلاح تو ایسی ہے کہ اگر اس خط کے پہنچتے ہی چل دیں تو عید یہیں کریں۔

ایضاً

میاں کیوں تعجب کرتے ہو۔ یوسف مرزا کے خطوط نہ آنے سے۔ وہ وہاں اچھی طرح ہے حاکموں کے یہاں آنا جانا نوکری کی تلاش میں۔ حسین مرزا صاحب بھی وہیں ہیں۔ وہاں کے حکام سے ملتے ہیں وہاں پنشن کی درخواست کر رہے ہیں۔ ان دونوں صاحبوں کے ہر ہفتہ میں ایک دو خط مجھ کو آتے ہیں جواب بھیجتا ہوں۔ بھائی لکھنؤ میں وہ امن و امان ہے کہ نہ ہندوستانی عملداری میں ایسا امن و امان ہو گا نہ اس فتنہ و فساد سے پہلے انگریزی عملداری میں یہ چین ہو گا۔ امرا اور شرفا کی حکام سے ملاقاتیں بقدر رتبہ و تعظیم و توقیر۔ پنشن کی تقسیم علی العموم آبادی کا حکم عام لوگوں کو کمال لطف اور نرمی سے آباد کرتے جاتے ہیں۔ اور ایک نقل سنو وہاں کے صاحب کمشنر بہادر اعظم نے جو دیکھا کہ عملہ میں ہنود بھرے ہوئے ہیں۔ اہل اسلام نہیں ہیں۔ ہنود کو اور علاقوں پر بھیج دیا اور ان کی جگہ سب مسلمانوں کو بھرتی کیا۔ یہ تو آفت دلّی ہی پر ٹوٹ پڑی ہے۔ لکھنؤ کے سوا اور شہروں میں عملداری کی وہ صورت ہے جو غدر سے پہلے تھی۔ اب یہاں ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ میں نے بھی دیکھے۔ فارسی عبارت یہ ہے۔ ٹکٹ آبادی درونِ شہر دہلی بشرطِ ادخال ِ جرمانہ مقدار روپیہ کی حاکم کی رائے پر ہے۔ آج پانچ ہزار ٹکٹ چھپ چکا ہے۔ کل اتوار التعطیل ہے۔ پرسوں دو شنبہ سے دیکھیئے یہ کاغذ کیوں کر تقسیم ہوں یہ تو کیفیت عموماً شہر کی ہے۔ میرا حال سنو۔ بائیس مہینے کے بعد پرسوں کوتوال کو حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنشن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے یا نہیں کوتوال نے موفق ضابطہ کے مجھ سے چار گواہ مانگے ہیں۔ سو کل چار گواہ کوتوالی چبوترے جائیں گے اور میری بے مقدوری ظاہر کر آئیں گے۔ تم کہیں یہ نہ سمجھنا کہ بعد ثبوت مفلسی چڑھا ہوا ہوا روپیہ مل جائے گا اور آیندہ کو پنشن جاری ہو جائے گا۔ نہ صاحب یہ تو ممکن ہی نہیں بعد ثبوت افلاس مستحق ٹھہروں گا چھ مہینے یا برس دن کا روپیہ علی الحساب پانے کا۔ میرن صاحب جو بلائے گئے ہیں اس طلب کے جواب میں بھی کیوں نہیں لکھتے کہ ٹکٹ میرے نام کا حاصل کر کے بھیج دو تو میں آؤں۔ دیکھو اب دس پانچ دن میں سب حال کھلا جاتا ہے۔ میر سرفراز حسین کو دعا کہنا اور میری طرف سے گلے لگانا اور پیار کرنا میر نصیر الدین کو دعا کہنا اور میرن صاحب کو مبارکباد کہنا۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام شاہ عالم صاحب

مخدوم زادہ والا تبار حضرت شاہ عالم سلام و دعائے درویشانہ قبول فرماویں آپ کا مع الخیر وطن پہنچنا اور بزرگوں کے قدمبوس اور بھائیوں کے ہم آغوش ہونا آپ کو مبارک ہو ؎

یوسف از مصر بکنعان آمد۔

تفرقہ اوقات و سفر رام پور و شدت تموز مقتضی اس کی ہوئی کہ ہنوز تمہارے مسودات دیکھے نہیں گئے۔ تا نزول بارانِ رحمت الہی اور بھی چپکے بیٹھے رہو۔ اپنے ماموں صاحب کو نیاز معتقدانہ اور اپنے بھائیوں کو سلام مخلصانہ کہیئے گا۔ اور اپنے والد ماجد یعنی میرے مرشد ہم عمر و ہم فن کو وہ سلام جس سے محبت ٹپکے اور اشتیاق برسے پہنچائیے گا اور عرض کیجیئے گا کہ آرزوئے دیدار حد سے گزر گئی۔ یارب جب تک حضرت صاحب عالم کو مارہرہ میں اور انوار الدولہ کو کالپی میں نہ دیکھ لوں اور ان سے ہم کلام نہ ہو لوں میری روح کو قبض کا حکم نہ ہو۔ لیکن ۱۲۷۷ھ میں دو مہینے باقی ہیں اب کے محرم سے اس ذی الحجہ تک میرا مدعا حاصل ہو جائے۔ مشفقی مکرمی چودھری عبد الغفور صاحب کو میرا سلام کہیئے گا اور یہ پیام پہنچائیے گا کہ حضرت صاحب عالم کی تمنائے دیدار بقید مارہرہ کنایہ اس سے ہے کہ اور کسی کا بھی دیدار مطلوب ہے ؎ خواہش ِ وصل مقدر ہے جو مذکور نہیں۔ ان کے اس خط کا جواب جو پرسوں مجھ کو پہنچا ہے موم جامہ میں لپیٹ کر بھیجوں گا ان شاء اللہ العزیز۔ ہاں جناب شاہ عالم صاحب پھر روئے سخن آپ کی طرف ہے۔ جناب میر وزیر علی صاحب بلگرامی یہاں تشریف لائے اور میرے مسکن سے ایک تیر پرتاب کے فاصلہ پر چاندنی چوک میں قطب الدین سوداگر کی حویلی میں اترے ہیں۔ مرفی صاحب کا کام ان کے سپرد ہوا ہے۔ یعنی ڈپٹی کلکٹر اور ڈپٹی مجسٹریٹ ہیں اور ایک ہزار روپیہ تک کا مقدمہ عدالت دیوانی کا بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہنوز قائم مقام ہیں۔ وہ صاحب جن کا نام لکھ آیا ہوں بطریق رخصت سپاٹو گیا ہے۔ ایک دن فقیر بھی ان کے مکان پر چلا گیا تھا۔ حسنِ صورت اور حسنِ سیرت دونوں ان میں جمع ہیں آنکھیں ان کے حسنِ صورت سے روشن ہو گئیں اور دل ان کی سیرت سے خوش ہو گیا۔ واہ خاک پاک بلگرام میں نے وہاں کے جس بزرگوار کو دیکھا بہت اچھا پایا۔

ایضاً

مخدوم زادہ عالی شان مقدس دودمان حضرت شاہ عالم امن و مان و عزو شان و علم و عمر سے برخوردار رہیں۔ ہمارے حضرت ہم کو بھول گئے۔ ہاں سچ ہے ان کا لطف چودھری عبد الغفور صاحب کے جوہر مہر و محبت کا عرض تھا۔ جب جوہر نہ رہا تو عرض کہاں بہرحال جناب حضرت شاہ عالم صاحب کو میری بندگی پہنچ جائے اور یہ سطریں ان کی نظر سے گزر جائیں۔ چودھری عبد الغفور خاں صاحب کو سلام کہیئے گا اور یہ پوچھیے گا کہ قصیدہ کا بعد اصلاح کے نہ پہنچنا میرا گناہ ہے یا اس کے سوا کوئی اور قصور ہے اگر وہی جرم ہے تو معاف کیجیئے۔ اگر کوئی جرم بھی ہے تو مجھے اطلاع دیجئے۔ ان دو پیام کی تبلیغ کے بعد پھر روئے سخن آپ کی طرف ہے آپ کا خط میرے نام کا اور اس کے ساتھ ایک خط ڈپٹی میر وزیر علی صاحب کے نام کا پہنچا وہ پڑھا وہ بھجوایا۔ جو آدمی خط لے کر گیا تھا وہ دو بار جواب مانگنے گیا۔ پہلی بار حکم ہوا کہ کل آئیو دوسری بار حضرت نہ ملے۔ میں نے اس کے جواب سے قطع نظر کر کے اپنی خدمت گزاری کی آپ کو اطلاع دی۔ یائے تحتانی لکھ چکا تھا کہ ایک چپراسی آیا اور اس نے خط تمہارے نام کا ٹکٹ لگا ہوا دیا۔ اور کہا کہ ڈپٹی صاحب نے سلام کہا ہے اور یہ خط دیا ہے اب میں یہ خط اپنا مع ان کے خط کے ڈاک گھر میں بھیجتا ہوں۔ صبح کا وقت یکشنبہ کا دن ۸ صفر اور ۲۵ اگست کی ہے ڈپٹی صاحب چاندنی چوک حافظ قطب الدین سوداگر کی حویلی میں رہتے ہیں باقی ان کے حالات ان کے خط سے معلوم ہو جائیں گے۔ اپنے ماموں صاحب کی خدمت میں سلامِ نیاز اور اپنے بھائی صاحبوں کی خدمت میں فقیر کی دعا پہنچائیے گا۔ والسلام۔

٭٭٭

 

بنام صاحب عالم صاحب

پیرو مرشد اس مطلع و حسن مطلع کو کیا سمجھوں اور اس کا شکر کیونکر بجا لاؤں۔ خدا کی بندہ نوازیاں ہیں کہ مجھ ننگِ آفرینش کو اپنے خاصانِ درگاہ سے بھلا کہلواتا ہے۔ ظاہراً میرے مقدر میں یہ سعادت عظمیٰ تھی کہ میں اس وبائے عام میں جیتا بچ رہا اللہ اللہ ایسے کُشتنی سوختنی کو یوں بچایا۔ اور پھر اس رتبہ کو پہنچایا۔ کبھی عرش کو اپنا نشیمن قرار دیتا ہوں اور کبھی بہشت کو اپنا پائینِ باغ تصور کرتا ہوں واسطے خدا کے اور اشعار نہ فرمائیے گا ورنہ بندہ دعویٰ خدائی کرنے میں محابا نہ کرے گا۔ کتاب افادت مآب پنج آہنگ نسخہ لطیف شریف تالیف اس کے آگے غلام سے کچھ نہ پڑھا گیا۔ مگر چودھری صاحب اور حضرت سید شاہ امیر صاحب اور مولوی فضل احمد صاحب یہ تین اسم معلوم ہوئے پھر بھی دوسرے اسم میں متردد ہوں کہ آیا میرا قیاس مطابق واقع ہے یا نہیں۔ ہاں چودھری صاحب اور مولوی فضل احمد صاحب ان دو ناموں میں تردد باقی نہیں معہذا یہ نہ سمجھا کہ مقصود کیا ہے۔ اگر پنج آہنگ مطلوب ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرا ایک سببی بھائی ہے۔ نواب ضیاء الدین خاں سلمہ اللہ تعالیٰ۔ وہ میری نظم و نثر کو فراہم کرتا رہتا تھا چنانچہ مجموعہ نثر اور کلیات نظم فارسی اور کلیات نظم اردوسب نسخے اس کے کتب خانہ میں تھے۔ وہ کتب خانہ ڈر کر عرض کرتا ہوں بیس ہزار روپیہ کی مالیت کا ہو گا لٹ گیا۔ ایک ورق نہیں رہا ہاں چھاپے کی پنج آہنگیں اب بھی بکتی ہیں اور معیوب بہ دو عیب ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو بعد انطباع از قسم نثر تحریر ہوا ہے وہ اس میں نہیں۔ دوسرے کاپی نویس نے وہ اصلاح میری نثر کو دی کہ میر اجی جانتا ہے۔ اگر کہوں کوئی سطر غلطی سے خالی نہیں تو اغراق ہے بے مبالغہ یہ ہے کہ کوئی صفحہ اغلاط سے خالی نہیں۔ بہرحال اگر فرمائیے تو لے کر بھیج دوں۔ مخدوم زادہ ہائے والا تبار میں پہلا نام سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر پہلے ان کی خدمت میں اور پھر سید مقبول عالم کی خدمت میں سلام مسنون اور اشتیاق روز افزوں عرض کرتا ہوں۔

ایضاً

بعد حمد خدا و نعت رسول صلہ وسلمل۔ پہلے قبلہ روح و روان جناب صاحب عالم صاحب کو بندگی۔ اور حضرت مقبول عالم کی شادی کی مبارک باد۔ کیا عرض کروں کہ میرا کیا حال ہے اضمحلال قُویٰ کا حال مختصر یہ ہے کہ اگر کوئی دوست ایسا کہ جس سے تکلف کی ملاقات ہے آ جائے تو اٹھ بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ جو کچہ (کچھ) لکھنا ہوتا ہے وہ بھی اکثر لیٹے لیٹے لکھتا ہوں۔ آج دوپہر کو میر عبدالعزیز صاحب آئے ہیں بے کلاہ و پیرہن پلنگ پر لیٹا ہوا تھا ان کو دیکھ کر اٹھا مصافحہ کیا انہوں نے جناب شاہ عالم کا خط مع مسودات اشعار دیا اور فرمایا پرسوں جاؤں گا۔ عرض کیا کہ کل آخر روز آپ تشریف لائیں خط کا جواب اور اصلاحی٭ (کتاب میں اصطلاحی لکھا ہوا ہے :۔ چھوٹا غالب) مسودہ لے جائیں وہ تشریف لے گئے میں لیٹ رہا۔ دن کے سونے کی عادت نہیں ہے۔ جی میں کہا آؤ بے کار کیوں رہو۔ خط کا جواب آج لکھ رکھو۔ اٹھے کون بکس کھولے کون۔ لڑکوں کی دوات قلم مونڈھے پر پلنگ کے پاس رکھ لی۔ ادب مقتضی اس کا ہوا کہ آغاز نامہ بنام اقدس ہو۔ حضرت نسخہ قاطع برہان تیسری چوتھی نظر میں مکمل ہو کر مسودات کاتب کے حوالے ہوئے۔ آٹھ جزو لکھے گئے کم و بیش دو جزو باقی ہیں۔ پرسوں تک آ جائیں گے بعد اس کے انطباع کی فکر ہو گی۔ جب وہ عزیمت امضا پذیر ہو جائے گی۔ حضرت کی نظر سے بھی شرف پائے گی۔ حضرت سید عالم کو نیاز۔ خورشید عالم کو سلام۔ چودھری صاحب کو نہ سلام نہ نیاز۔ صرف یہ پیام کہ ہم تمہارے خط کو مفرح روح سمجھتے تھے باتوں کا مزا ملتا تھا۔ خیر و عافیت معلوم ہو جاتی تھی وہ وظیفہ روحانی منقطع کیوں ہوا۔ صاحب یہ روش اچھی نہیں۔ گاہ گاہ رسل و رسائل کا طور بنا رہے۔

٭٭٭

 

بنام مولوی عبد الغفور خاں بہادر نسّاخ

جناب مولوی صاحب قبلہ۔ یہ درویش ِ گوشہ نشین جو موسوم بہ اسد اللہ اور متخلص بہ غالب ہے مکرمت ِ حال کا شاکر اور آیندہ افزایش عنایت کا طالب ہے دفتر بے مثال کو عطیہ کبریٰ اور موہبتِ عظمیٰ سمجھ کر یاد آوری کا احسان مانا۔ پہلے اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ حضرت نے اس ہیچ میرزا ہچمداں کو قابلِ خطاب اور لائق عطائے کتاب جانا۔ میں دروغ گو نہیں۔ خوشامد میری خُو نہیں۔ دیوان فیض عنوان اسم با مسمیٰ ہے۔ دفتر بے مثال اس کا نام بجا ہے۔ الفاظ متین۔ معانی بلند۔ مضمون عمدہ۔ بندش دلپسند۔ ہم فقیر لوگ۔ اعلانِ کلمۃ الحق میں بے باک و گستاخ ہیں۔ شیخ امام بخش طرزِ جدید کے موجد اور پرانی ناہموار روشوں کے ناسخ تھے آپ ان سے بڑھ کر بصیغہ مبالغہ نسّاخ ہیں۔ تم دانائے رموز اردو زبان ہو۔ سرمایہ نازش قمر و ہندوستان ہو۔ خاکسار نے ابتدائے سنِ تمیز میں اردو زبان میں سخن سرائی کی ہے پھر اوسط عمر میں بادشاہِ دہلی کا نوکر ہو کر چند روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی ہے نظم و نثر فارسی کا عاشق و مائل ہوں۔ ہندوستان میں رہتا ہوں مگر تیغ ِ اصفہانی کا گھائل ہوں جہاں تک زور چل سکا فارسی زباں میں بہت کچھ بَکا۔ اب نہ فارسی کی فکر نہ اردو کا ذکر نہ دنیا میں توقع نہ عقبیٰ کی امید۔ میں ہوں اور اندوہ ناکامی جاوید جیسا کہ خود ایک قصیدہ نعت کی تشبیب میں کہتا ہوں ؎

چشم کشودہ اند بکردار ہائے من

زآیندہ نا امیدم و از رفتہ شرمسار

ایک کم ستر برس دنیا میں رہا اب اور کہاں تک رہوں گا۔ ایک اردو کا دیوان ہزار بارہ سو بیت کا ایک فارسی کا دیوان دس ہزار کئی سو بیت کا۔ تین رسالے نثر کے یہ پانچ نسخے مرتب ہو گئے اب اور کیا کہوں گا۔ مدح کا صلہ نہ ملا۔ غزل کی داد نہ پائی۔ ہرزہ گوئی میں ساری عمر گنوائی بقول طالب آملی علیہ الرحمۃ ؎

لب از گفتن چنان بستم کہ گوئی

دہن پر چہرہ زخمے بود بہ شد

سچ تو یوں ہے کہ قوت ناطقہ پر وہ تصرف اور قلم میں وہ زور نہ رہا۔ طبیعت میں وہ مزہ سر میں وہ شور نہ رہا۔ پچاس پچپن برس کی مشق کا ملکہ کچھ باقی رہ گیا ہے اسی سبب سے فنِ کلام میں گفتگو کر لیتا ہوں۔ حواس کا بھی بقیہ اسی قدر ہے کہ معرض گفتار میں موافق سوال جواب دیتا ہوں۔ روز و شب یہ فکر رہتی ہے کہ دیکھیئے وہاں پیش کیا آتا ہے اور یہ بال بال گنہگار بندہ کیونکر بخشا جاتا ہے۔ حضرت سے یہ التماس ہے کہ آپ جو اِہدا کی آبادی اور مجھ کو ارسال نامہ کی سبیل کے ہادی ہوئے ہیں جب تک میں جیتا رہوں نامہ و پیام سے شاد۔ اور بعد میرے مرنے کے دعائے مغفرت سے یاد فرماتے رہیئے گا۔ والسلام بالوف الاحترام۔

٭٭٭

 

بنام مرزا یوسف علی خاں صاحب عزیز

بھائی تم کیا فرماتے ہو جان بوجھ کر ان جان بنے جاتے ہو۔ واقعی غدر میں میرا گھر نہیں لُٹا۔ مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا کہ نہ لُٹتا۔ ہاں بھائی ضیاء الدین خان صاحب اور ناظر حسین مرزا صاحب ہندی فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کر لیا کرتے تھے سو ان دونو(دونوں ) گھروں پر جھاڑو پھر گئی نہ کتاب رہی نہ اسباب رہا پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں۔ ہاں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ مئی کی گیارھویں ۱۸۵۷ سے جولائی کی اکتیسویں ۱۸۵۸ء تک پندرہ مہینے کا اپنا حال میں نے نثر میں لکھا ہے اور نثر فارسی زبان قدیم میں ہے۔ کہ جس میں کوئی لفظ عربینہ آئے اور ایک قصیدہ فارسی متارف عربی و فارسی ملی ہوئی زبان میں حضرت فلک رفعت جناب ملکہ معظمہ انگلستان کی ستایش میں اس نثر کے ساتہ (ساتھ)شامل ہے۔ یہ کتاب مطبع خلایق آگرہ میں منشی نبی بخش صاحب حقیر اور مرزا حاتم علی بیگ اور منشی ہر گوپال تفتہ کے اہتمام میں چھاپی گئی ہے۔ فی الحال مجموعہ میری نظم و نثر کا اس کے سوا اور کہیں نہیں۔ اگر جناب منشی امیر علی خاں صاحب میرے کلام کے مشتاق ہیں تو نسخہ موسوم بہ دستنبو مطبع مفید خلایق سے منگا لیں اور ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

بنام قاضی عبدالجمیل صاحب

مخدوم مکرم و معظم جناب مولوی عبدالجمیل صاحب کی خدمت میں ابلاغ سلام مسنون الاسلام کے بعد عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کی ارادت میرا ذریعہ فخر و سعادت ہے۔ دو عنایت نامے آپ کے اوقات مختلف میں پہنچے۔ پہلے خط کے حاشیہ پر اور پشت پر اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ سیاہی اس طرح پھیکی کہ حروف اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔ اگرچہ بینائی میری اچھی ہے اور میں عینک کا محتاج نہیں لیکن با ایں ہمہ اس کے پڑھنے میں بہت تکلف کرنا پڑتا ہے علاوہ اس کے جگہ اصلاح کی باقی نہیں چنانچہ اس خط کو آپ کی خدمت میں واپس بھیجتا ہوں تاکہ آپ یہ نہ جانیں کہ میرا خط پھاڑ کر پھینک دیا ہو گا اور معہذا میرا اندیشہ آپ کو بھی معلوم ہو جائے آپ خود دیکھ لیں اس میں اصلاح کہاں دی جائے واسطے اصلاح کے جو غزل بھیجئے اس میں بین الافراد و بین المصرعین فاصلہ زیادہ چھوڑئیے۔ آپ کے خط میں جو کاغذ اشعار کا ہے حروف اس کے روشن ہیں مگر بین السطور مفقود۔ اور اصلاح کی جگہ معدوم۔ آپ کی خاطر رنج کتابت اٹھاتا ہوں اور اس (ان)دونوں غزلوں کو بعد اصلاح لکھتا جاتا ہوں۔ مسودہ تو آپ کے پاس ہو گا اس سے مقابلہ کر کے دیکھ لیجیئے گا کہ کس شعر پر اصلاح ہوئی اور کیا اصلاح ہوئی اور کون سی بہت موقوف ہوئی مشاعرہ یہاں شہر میں کہیں نہیں ہوتا۔ قلعہ میں شہزادگانِ تیموریہ جمع ہو کر کچھ غزل خوانی کر لیتے ہیں۔ وہاں کے مصرع طرحی کو کیا کیجیئے گا اور اس پر غزل لکھ کر کہاں پڑھیئے گا۔ اس محفل میں جاتا ہوں اور کبھی نہیں جاتا۔ یہ صحبت خود چند روزہ ہے۔ اس کو دوام کہاں۔ کیا معلوم ہے اب کے نہ ہو۔ اور اب کے ہو تو آیندہ نہ ہو۔ والسلام مع الاکرام۔

 

ایضاً

قبلہ آپ کو خط بھیجنے میں تردد کیوں ہوتا ہے۔ ہر روز دو چار خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں۔ گاہ گاہ انگریزی بھی۔ ڈاک کے ہرکارے بھی میرا گھر جانتے ہیں۔ پوسٹ ماسٹر میرا آشنا ہے مجھ کو جو دوست خط بھیجتا ہے۔ وہ صرف شہر کا نام اور میرا نام لکھتا ہے محلہ بھی ضرور (ضروری)نہیں۔ آپ ہی انصاف کریں کہ آپ لال کنواں لکھتے رہے اور مجھ کو بلی ماروں میں خط پہنچتا رہا۔ خلاصہ یہ کہ خط آپ کا کوئی تلف نہیں ہوا جو آپ نے بھیجا وہ مجھ کو پہنچا۔ بات یہ ہے کہ شوقیہ خطوط کا جواب کہاں تک لکھوں میں نے آئینِ نامہ نگاری چھوڑ کر مطلب نویسی پر مدار رکھا ہے۔ جب مطلب ضروری التحریر نہ ہو تو کیا لکھوں۔ اب کے آپ کے خط میں تین مطلب جواب لکھنے کے قابل تھے ایک تو وہ رباعی جو آپ نے ایک ننگِ آفرینش کی مدح میں لکھی ہے اس کا جواب بندگی ہے۔ اور کورنش اور آداب۔ دوسرا مدعا خط کے نہ پہنچنے کا وسوسہ سو اس کا جواب لکھ چکا۔ تیسرا امر جناب مولوی امتیاز خاں صاحب کا میرے ہاں آنا۔ اور میرا اس وقت مکان پر موجود نہ ہونا۔ واللہ مجھ کو بڑا رنج ہوا۔ اگر آپ سے ملیں تو میرا سلام کہیئے گا۔ اور میرا ملال ان سے بیان کیجیئے گا۔ صبح کو میں ہر روز قلعہ کو جاتا ہوں۔ ظاہراً مولوی صاحب اول روز آئے ہوں گے۔ جب سوار ہو جاتا ہوں تب بھی دوچار آدمی مکان پر ہوتے ہیں مولوی صاحب بیٹھے حقہ پیتے۔ اگر قلعہ جاتا ہوں تو پہر دن چڑھے آتا ہوں۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں۔

ایضاً

پیرو مرشد نواب صاحب کا وظیفہ خوار گویا اس در کا فقیر تکیہ دار ہوں۔ مسند نشینی کی تہنیت کے واسطے رام پور آیا۔ میں کہاں اور بریلی کہاں۔ ۱۲ اکتوبر کو یہاں پہنچا۔ بشرطِ حیات آخر دسمبر تک دہلی جاؤں گا۔ نمایشگاہ ِ بریلی کی سیر کہاں۔ خود اس نمایشگاہ کی سیر میں جس کو دنیا کہتے ہیں دل بھر گیا۔ اب عالمِ بے رنگی کا مشتاق ہوں لا الہ الا اللہ لاموجود الا اللہ لامؤثر فی الوجود الا اللہ ۔

ایضاً

قبلہ ایک سو بیس آم پہنچے۔ خدا حضرت کو سلامت رکھے۔ دس قلمیں اور چھٹانک بھر سیاہی کہار کے حوالے کر دی ہے۔ خدا کرے بحفاظت آپ کے پاس پہنچے۔ میں مریض نہیں ہوں۔ بوڑھا ہوں اور ناتوان۔ گویا نیم جاں رہ گیا ہوں۔ ایک کم ستر برس دنیا میں رہا۔ کوئی کام دین کا نہیں کیا۔ افسوس صد ہزار افسوس۔ وہ غزل جو کہار لایا تھا وہاں پہنچی جہاں اب میں جانے والا ہوں یعنی عدم۔ مدعا یہ کہ گم ہو گئی۔

ایضاً

جناب قاضی صاحب کو سلام اور قصیدہ کی بندگی۔ اگر مجھے قوتِ ناطقہ پر تصرف باقی رہا ہوتا تو قصیدہ کی تعریف میں ایک قطعہ اور حضرت کی مدح میں ایک قصیدہ لکھتا۔ بات یہ ہے کہ میں اب رنجور نہیں۔ تندرست ہوں مگر بوڑھا ہوں۔ جو کچھ طاقت باقی تھی وہ اس ابتلا میں زائل ہو گئی۔ اب ایک جسم بے روح متحرک ہوں ؎یکے مردہ شخصم بہ مردی رواں۔ اس مہینے میں رجب ۱۲۸۰ سے سترواں برس شروع اور ا س مقام و آلام کا آغاز ہے۔

ایضاً

جناب مخدوم مکرم کو میری بندگی۔ تفقد نامہ مرقومہ ۲۱ ستمبر میں نے پایا۔ حضرت کے سلامت حال پر خدا کا شکر بجا لایا۔ کوئی محکمہ تخفیف میں آئے کوئی گانو(گاؤں )مثلاً لٹ جائے آپ کا عہدہ آپ کو مبارک آپ کا دولت خانہ سلامت۔ ہاں وہ جو اپنے ابن الخال کا اس محکمہ میں وکیل ہونے کا کھٹکا ہے البتہ بجا ہے۔ جب آپ ظاہر کر چکے ہیں تو آپ کو اس کا اندیشہ کیا ہے۔ حاکم سمجھ لے گا۔ وہ وکیل ہیں محکمہ منصفی میں نہ رہیں گے مگر صدر امین اور ششن (سیشن) جج میں کام کریں گے۔ میں تندرست ہوں نہ رنجور ہوں زندہ بدستور ہوں دیکھیئے کب بلاتے ہیں اور جب تک جیتا رہوں اور کیا دکھاتے ہیں۔ والسلام بالوف الاحترام۔

ایضاً

جناب قاضی صاحب کو میری بندگی پہنچے۔ مکرمی مولوی غلام غوث خاں صاحب بہادر میر منشی کا قول سچ ہے۔ اب میں تندرست ہوں پھوڑا پھنسی کہیں نہیں۔ مگر ضعف کی وہ شدت ہے کہ خدا کا(کی) پناہ۔ ضعف کیونکر نہ ہو۔ برس دن صاحب فراش رہا ہوں ہوں ستر برس کی عمر جتنا خون بدن میں تھا بے مبالغہ آدھا اس میں سے پیپ ہو کر نکل گیا سِن کہا ں جو اب پھر تولید دمِ صالح ہو۔ بہرحال زندہ ہوں اور ناتوان اور آپ کی پُرسشہائے دوستانہ کا ممنون احسان۔ والسلام مع الاکرام۔

ایضاً

جناب مولوی صاحب آپ کے دونوں خط پہنچے۔ میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ اصل صاحب فراش میں ہوں۔ بیس دن سے پانو(پاؤں )پر ورم ہو گیا ہے۔ کفِ پا و پشتِ پا سے نوبت گزر کر پنڈلی تک آماس ہے۔ جوتی میں پانو (پاؤں )سماتا نہیں۔ بول و براز کے واسطے اٹھنا دشوار۔ یہ سب باتیں ایک طرف درد محلل روح ہے۔ ۱۲۷۷ ھ میں میرا نہ مرنا صرف میری تکذیب کے واسطے تھا۔ مگر اس تین برس میں ہر روز مرگِ نو کا مزا چکھتا رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں۔ پھر میں کیوں جیتا ہوں۔ روح میرے اب جسم میں اس طرح گھبراتی ہے جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل۔ کوئی اختلاط۔ کوئی جلسہ کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب سے نفرت۔ شعر سے نفرت۔ جسم سے نفرت۔ روح سے نفرت۔ یہ جو کچھ لکھا ہے بے مبالغہ اور بیان واقع ؎ خرم آں روز کزیں منزل ویراں بردم۔ ایسے مخمصہ میں اگر تحریر جواب میں قاصر رہوں تو معاف ہوں مجھے کیوں شرمندہ کیا۔ میں اس ثنا و دعا کے قابل نہیں مگر اچھوں کا شیوہ ہے بروں کو اچھا کہنا۔ اس مدح گستری کے عوض میں آداب بجا لاتا ہوں۔

ایضاً

جناب قاضی صاحب کو بندگی پہنچے۔ عنایت نامہ کے ورود نے شادماں کیا مگر مبہمہ جو نگارش پذیر تھی انہوں نے حیران کیا۔ ابہام کی توضیح اور اجمال کی تفصیل کا مشتاق ہوں آموں کے باب میں جو کچھ لکھا یہ کیوں لکھا۔ اہدا کو دوام کیا ضرور ہے۔ خصوصاً جبکہ بذات خود حادث ہو۔ حضرت اب کے سال ہر جگہ آم کم ہے اور جو کچھ ہے وہ خشک و بے مزہ ہے۔ آم کہاں سے ہو نہ مہاوٹ نہ برسات۔ دریا پایاب ہو گئے۔ کنویں سوکھ گئے اثمار میں طروات کہاں سے ہو۔ جناب اس کا خیال نہ فرماویں اپنے کشف کو غلط کر دوں گا برشکال آیندہ تک جیوں گا آپ کے موہبی آم کھاؤں گا۔

ایضاً

حضرت بہت دنوں میں آپ نے مجھ کو یاد کیا۔ سالِ گزشتہ ان دنوں میں مَیں رامپور تھا۔ مارچ ۱۸۶۰ء میں یہاں آ گیا ہوں۔ اب یہیں ہوں۔ میں نے آپ کا خط پایا ہے۔ آپ نے سرنامہ پر رامپور کا نام نا حق لکھا۔ حق تعالیٰ والی رامپور کو صدوسی سال سلامت رکھے ان کا عطیہ ماہ بماہ مجھ کو پہنچتا ہے۔ کرم گستری اور استاد پروری کر رہے ہیں۔ میرے رنج سفر اٹھانے کی اور رام پور جانے کی حاجت نہیں۔ خلیفہ حسین علی صاحب رام پور میں مجھے ملے ہوں گے مگر واللہ مجھ کو یاد نہیں۔ نسیان کا مرض لاحق ہے۔ حافظہ گویا نہ رہا۔ شامہ ضعیف۔ سامعہ باطل۔ باصرہ میں نقصان نہیں۔ البتہ حدت کچھ کم ہو گئی ہے ؎ پیری و صد عیب چنین گفتہ اند۔ بہرحال چونکہ میں دلّی میں ہوں اور وہ رامپور گئے ہیں تو البتہ وہ آپ کے پیام جو ان کی زبان کے محول تھے بدستور ان کی تحویل میں رہے۔ اور مجھ تک نہ پہنچے۔ یہ شہر بہت غارت زدہ ہے نہ اشخاص باقی نہ امکنہ کتاب فروشوں سے کہہ دوں گا اگر میری نظم و نثر کے رسالوں میں سے کوئی رسالہ آ جائے گا تو وہ مول لے کر خدمت میں بھیج دیا جائے گا ؎ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔ ایک دوست کے پاس بقیہ النہیب والغارۃ کچھ میرا کلام موجود ہے اس سے یہ غزل لکھوا کر بھیج دوں گا۔

ایضاً

پیرو مرشد فقیر ہمیشہ آپ کی خدمت گزاری میں حاضر رہا ہے جو حکم آپ کا ہوتا ہے اس کو بجا لاتا ہوں۔ مگر معدوم کو موجود کرنا میرے وسع قدرت سے باہر ہے۔ اس زمیں میں کہ جس کا آپ نے قافیہ درد دل لکھا ہے میں نے کبھی غزل نہیں لکھی۔ خدا جانے مولوی درویش حسن صاحب نے کس سے اس زمین کا شعر لے کر میرا کلام گمان کیا ہے۔ ہر چند میں نے خیال کیا اس زمیں میں میری کوئی غزل نہیں۔ دیوانِ ریختہ چھاپے کا یہاں کہیں کہیں ہے۔ اپنے حافظہ پر اعتماد نہ کر کے اس کو بھی دیکھا۔ وہ غزل نہ نکلی سنیئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اور کی غزل میرے نام پر لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ چنانچہ انہیں دنوں ایک صاحب نے مجھے آگرہ سے لکھا کہ یہ غزل بھیج دیجیئے ؎ اسد اور لینے کے دینے پڑے ہیں۔ میں نے کہا لاحول ولا قوۃ۔ اگر یہ میرا کلام ہو تو مجھ پر لعنت اسی طرح زمانہ سابق میں ایک صاحب نے میرے سامنے یہ مطلع پڑھا ؎

اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی

میرے شیر شاباش رحمت خدا کی

میں نے سن کر عرض کیا کہ صاحب جس بزرگ کا یہ مطلع ہے اس پر بقول اس کے رحمت خدا کی اور اگر میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ اسد اور شیر اور بت اور خدا اور جفا اور وفا میری طرز گفتار نہیں ہے۔ بھلا ان دونوں شعروں میں تو اسد کا لفظ بھی ہے وہ شعر میرا کیونکر سمجھا گیا واللہ باللہ وہ شعر خدنگ رنگ کے قافیہ کا میرا نہیں۔

ایضاً

آداب بجا لاتا ہوں آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ غزلیں دیکھی گئیں۔ فقیر کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کلام میں اغلاط و اسقام دیکھتا ہوں تو رفع کر دیتا ہوں اور اگر سقم سے خالی پاتا ہوں تو تصرف نہیں کرتا۔ پس قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان غزلوں میں کہیں اصلاح کی جگہ نہیں۔ سبحان اللہ سر آغاز فصل میں ایسے ثمر ہائے پیش رس کا پہنچنا نوید ہزار گونہ میمنت اور شادمانی ہے۔ یہ ثمر رب النوع اثمار ہے اس کی تعریف کیا کروں۔ کلام اس باب میں کیا چاہتا ہوں کہ میں یاد رہا اور اہدا کا آپ کو خیال آیا۔ پروردگار آپ کو با ایں ہمہ رُواں پروری اور کرم گستری و یاد آوری سلامت رکھے۔ جمعہ کے دوپہر کے وقت کہار پہنچا۔ اور اسی وقت خط کا جواب لے کر اور آم کے دو ٹوکرے خالی دے کر روانہ کیا۔ یہاں سے اس کو حسب الحکم کچھ نہیں دیا گیا خاطر جمع رہے۔

٭٭٭

 

بنام مردان علی رعنا

خانصاحب عالی شان مردان علی خان صاحب کو فقیر غالب کا سلام۔ نظم و نثر دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ آج اس فن میں تم یکتا ہو۔ خدا تم کو سلامت رکھے۔ بھائی جفا کے مؤنث ہونے میں اہل دہلی و لکھنؤ کو باہم اتفاق ہے۔ کبھی کوئی نہ کہے گا کہ جفا کیا۔ ہاں بنگالہ میں جہاں بولتے ہیں کہ ہتنی آیا۔ اگر جفا کو مذکر کہیں تو کہیں ورنہ ستم و ظلم و بیداد مذکر اور جفا مؤنث ہے بے شبہ بے شک۔ والسلام مع الاکرام۔

ایضاً

خانصاحب شفیق عالیشان کو میرا سلام۔ کل تمہارا عنایت نامہ پہنچا۔ رامپور کا لفافہ آج رام پور کو روانہ ہوا۔ کاغذ اشعار میں نے دیکھ لیا۔ کہیں اصلاح کی حاجت نہ تھی۔ نالہدر الخ شعر رعنا؎

گزرا ہے مرا نالہ دل چرخ کہن سے

تھا روح کا ہمدم نہ پھرا جا کے وطن سے

نالہ دل بنا دیا۔ نواب صاحب اردو کا تذکرہ لکھتے ہیں۔ فارسی غزل تم نے بے فائدہ لکھی دیکھو صاحب تم نے اپنے مسکن کا پتا لکھا۔ سو میں نے دوسرے دن تمہارے خط کا جواب روانہ کیا۔ منشی نول کشور صاحب یہاں آئے تھے مجھ سے ملے بہت خوبصورت اور خوش سیرت سعادت مند اور معقول پسند آدمی ہیں۔ تمہارے وہ مداح اور میں ان کا ثنا خواں۔

٭٭٭

بنام مولوی عبدالرزاق شاکر

جناب مولوی صاحب مخدوم مولوی عبدالرزاق شاکر کی خدمت میں بعد سلام یہ التماس ہے کہ مولوی صاحب عالی شان مولوی مفتی اسد اللہ خان بہادر کی خدمت میں فقیر کا سلام پہنچائیے۔ میں تو آپ سے عرض کرتا ہوں مگر آپ مفتی صاحب سے کہیئے کہ مجھ کو باوجود شدت نسیان آپ کا تشریف لانا یاد ہے۔ چھاپے کے اجزا اٹھا کر میں نے آپ کے سامنے ایک غزل اپنی پڑھی تھی جس کے دو شعر قطعہ بند یہ ہیں ؎

ارزندہ گوہرے چو من اندر زمانہ نیست

خود را بخاک ِ رہ گزر حیدر افگنم

منصور فرقہ علیُّ اللّٰہ یاں منم

آوازہ انا اسد اللہ در افگنم

خدا کرے حضرت کو ابھی واقعہ یاد ہو۔ اتحاد اسمی دلیل مؤدتِ روحانی ہے۔ اخی مکرمی میر قاسم علی خاں کو سلام پہنچے۔ سالِ گزشتہ کی تعطیل کی طرح دلّی آ کر مجھ سے بے ملے نہ چلے جائیے گا۔ پھر حضرت مکتوب الیہ سے کلام ہے اشعار بعد حک و اصلاح کے پہنچتے ہیں یہ رتبہ میری ارزش کی فوق ہے کہ میں آپ کے کلام میں دخل و تصرف کروں۔ بندہ نواز زبانِ فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے پیرانہ سری و ضعف کے صدموں سے محنت پڑوہی و جگر کاہی کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ حرارت غریزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے ؎

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب

وہ عناصر میں اعتدال کہاں

کچھ آپ ہی کی تخصیص نہیں سب دوستوں کو جن سے کتابت رہتی ہے اردو ہی میں نیاز نامے لکھا کرتا ہوں جن جن صاحبوں کی خدمت میں آگے میں نے فارسی زبان میں خطوط لکھے اور بھیجے تھے ان میں سے جو صاحب الآن موجود ہیں ان سے بھی عند الضرورت اسی زبان مروج میں مکاتبت و مراسلت کا اتفاق ہوا کرتا ہے۔ پارسی مکتوبوں اور رسالوں اور نسخوں اور کتابوں کے مجموع اجزا چھاپا ہو کر اطراف و اقصائے عجم میں پھیل گئے۔ حال کی نثروں کو کون فراہم کرے جو نثریں کہ مجموع و یکجا ہو کر جہاں جہاں منتشر ہو گئی ہیں اور آیندہ ہوں اُنہیں کو جناب احدیت جلت عظمۃ مقبول قلوب اہل سخن و مطبوع طبائع ارباب فن فرمائے اور میں اب انتہائے عمر ناپائدار کو پہنچ کر آفتابِ لبِ بام اور ہجومِ امراض جسمانی و آلامِ روحانی سے زندہ درگور ہوں کچھ یادِ خدا بھی چاہیے۔ نظم و نثر کی قلمرو کا انتظام ایزد ِ دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہو چکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا۔ پس امید وار ہوں کہ آپ انہیں نذورمحقّرہ یعنی تحریرات روز مرہ اردوئے سادہ و سرسری کو غنیمت جان کر قبول فرماتے رہیں اور درویش دل ریش و فروماندہ کشاکش معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا مانگیں۔ اللہ بس ما سویٰ ہوس۔

ایضاً

قبلہ و کعبہ فقیر پا در رکاب ہے۔ سہ شنبہ چار شنبہ ان دونوں دنوں میں سے ایکدن عازم زائچہ ہووے گا۔ تقریب وہاں جانے کی رئیس مرحوم کی تعزیت اور رئیس حال کی تہنیت دو چار مہینے وہاں رہنا ہو گا۔ اب جو کوئی خط آپ بھیجیں تو رامپور بھیجیں مکان کا پتا لکھنا ضرور نہیں شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے مخمس بعد اصلاح بھیجا جاتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ شعر آپ کہتے ہیں اور حظ میں اٹھاتا ہوں حسنِ اتفاق سے اصلاح خمسہ کے وقت دوست ِ غمگسار یارِ وفا شعار علامہ روزگار ختم العلما ء المتبحرین مولوی مفتی صدر ا لدین خاں بہادر صدر الصدور سابق دہلی المتخلص بہ آزردہ دام بقا ؤہ و زاد علاؤہ مجھ سے ملنے کو غم خانہ پر تشریف لائے ہوئے موجود تھے خمسہ کو دیکھ کر پسند فرمایا حضور کی بلاغت کی تحسین عربی مصرعوں کے میرے ساتھ شریک غالب ہو کر مزے لوٹے اور آپ کی شیرینی گفتار کے وصف میں تا دیر عذب البیان اور رطب اللسان رہے اور مجھ سے بقدر میرے معلوم اور بیان کے آپ کے صفاتِ حمیدہ سے واقف و آگاہ ہو کر بہت شاد و خُرسند ہوئے نادیدہ و غائبانہ یعنی محض مشتاقانہ بتمنائے ملاقات سلام لکھنے کو ارشاد کر گئے ہیں لہذا میں لکھتا ہوں قبول فرمائیے گا۔

٭٭٭

 

بنام مولوی عزیز الدین صاحب

صاحب کیسی صاحبزادوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ دلّی کو ویسا ہی آباد جانتے ہو جیسی آگے تھی۔ قاسمجان کی گلی میر خیراتی کے پھاٹک سے فتح اللہ بیگ خاں کے پھاٹک تک بے چراغ ہے۔ ہاں اگر آباد ہے تو یہ ہے کہ غلام حسن خاں کی حویلی ہسپتال ہے اور ضیاء الدین خاں کے کمرے میں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں اور کالے صاحب کے مکانوں میں ایک اور صاحب عالی شان انگلستان تشریف رکھتے ہیں۔ ضیاء الدین خاں اور ان کے بھائی مع قبائل اور عشائر لوہارو میں ہیں۔ لال کنویں کہ محلہ میں خاک اڑتی ہے۔ آدمی کا نام نہیں۔ تمہارے مکان میں جو چھوٹی بیگم رہتی تھی وہ لاہور گئی ہوئی ہے۔ کھبی کی دکان میں کتے لوٹتے ہیں۔ مولوی صدر الدین خان لاہور ہیں ایزد بخش تراب علی ان لوگوں سے میری ملاقات نہیں۔ میں نے آپ مہر کر دی حکیم احسان اللہ خان اور میاں غلام نجف اور بہادر بیگ اور نبی بخش خاں ساکن دریبہ ان کی مہریں ہو گئیں۔ محضر آپ کے پاس بھیجتا ہوں خط ازروئے احتیاط بیرنگ بھیجا ہے۔ پوسٹ پیڈ خط اکثر تلف ہو جاتے ہیں چنانچہ قاضی عبدالجمیل صاحب کا خط جس کا آپ نے ذکر لکھا ہے آنکھیں پھوٹ جائیں اگر میں نے دیکھا ہو۔ آپ ان سے میرا سلام نیاز کہیئے۔ اور خط کے نہ پہنچنے کی ان کو خبر پہنچائیے۔

٭٭٭

 

بنام مفتی سید محمد عباس صاحب

قبلہ حضرت کا نوازش نامہ آیا۔ میں نے اس کو حرز بازو بنایا۔ آپ کی تحسین میرے واسطے سرمایہ عز و افتخار ہے فقیر امید وار ہے کہ یہ دفتر بے معنی سراسر دیکھا جائے نہ پیش نظر دھرا رہے بلکہ اکثر دیکھا جائے۔ میں نے جو نسخہ بھجوایا ہے گویا کسوٹی پر سونا چڑھایا ہے نہ ہٹ دھرم ہوں نہ مجھے اپنی بات کی پچ ہے دیباچہ و خاتمہ میں جو کچھ لکھ آیا ہوں سب سچ ہے کلام کی حقیقت کی داد جدا چاہتا ہوں۔ طرز عبارت کی داد جدا چاہتا ہوں۔ نگارش لطافت سے خالی نہ ہو گی۔ گزارش لطافت سے خالی نہ ہو گی۔ علم و ہنر سے عاری ہوں لیکن پچپن برس سے محو سخن گزاری ہوں مبدا فیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے۔ ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبت ازلی و سرمدی لایا ہوں۔ مطابق اہل پارس کے منطق کا بھی مزہ ابدی لایا ہوں۔ مناسبت خدا داد۔ تربیت استاد۔ حسن و قبح۔ ترکیب پہچاننے فارسی کے غوامض جاننے لگا۔ بعد اس تکمیل کے تلامذہ کی تہذیب کا خیال آیا۔ قاطع برہان کا لکھنا کیا ہے۔ گویا باسی کڑھی میں ابال آیا۔ لکھنا کیا تھا کہ سہام ملامت کا ہدف ہوا ہے کہ یہ تُنک مایہ معارض اکابر سلف ہوا۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ قاطع برہان کی ترکیب غلط ہے۔ عرض کرتا ہوں کہ حضرت برہان قاطع اور قاطع برہان کی ایک نمط ہے۔ برہان قاطع نے کیا لٹھا۔ نینو۔ نین سکھ قطع کیا ہے جو آپ نے اس کو قاطع کا لقب دیا ہے۔ برہان جب تک غیر کے برہان کو قطع نہ کرے کیونکر برہان قاطع نام پائے گی۔ برہانِ قاطع کی صحت میں جتنی تقریر کیجیئے گا وہ قاطع برہان کی صحت ہونے کے کام آئے گی۔ قطع(قطعہ)تاریخ کا کیا کہنا گویا یہ کتاب معشوق اور یہ قطع(قطعہ)اس کا گہنا ہے جناب نواب صاحب کا نیاز مند اور بندہ فرمانبردار ہوں۔ بعد سلام کے شعر کے پسند آنے کا شکر گزار ہوں۔ آپ کے علم و فضل و فہم و ادراک کی جو تعریف کی جائے وہ حق ہے۔ لیکن میرے شعر کی تعریف صرف خریداری دکان ِ بے رونق ہے۔

٭٭٭

بنام عضد ،الدولہ حکیم غلام نجف خاں صاحب

سعادت و اقبال نشان حکیم غلام نجف خاں طال بقاؤہ۔ تمہارا رقعہ پہنچا۔ جو دم ہے غنیمت ہے اس وقت تک مع عیال و اطفالجیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتہ (ہاتھ)میں لیے پر جی بہت لکھنے کو چاہتا ہے مگر کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ نواسی کا حال معلوم ہوا۔ حق تعالیٰ اس کی ماں کو صبر دے اور زندہ رکھے۔ میں یوں سمجھتا ہوں کہ یہ چھوکری قسمت والی اور حرمت والی تھی۔ تمہاری استانی تم کو اور ظہیر الدین کو اور اس کی ماں کو اور اس کی بہن کو دعا کہتی ہیں اور میں پیار کرتا ہوں اور دعا دیتا ہوں۔ غالب۔ سہ شنبہ۔ ۱۹ جنوری ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

میاں حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ لُٹا نہیں۔ کسی محکمہ میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا آیندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ شیر زماں خاں نے مجھے آگرہ سے خط لکھا اس میں ایک رقعہ شیخ نجم الدین حیدر صاحب کی طرف سے بنام ظہیر الدین کے۔ اب مجھ کو ضرور آ پڑا کہ اس کو تمہارے پاس بھیجوں۔ آدمی کوئی ایسا نظر نہ چڑھا۔ ناچار بطریق ڈاک بھیجتا ہوں اگر پہنچ جائے تو آگرہ کا جواب لکھ کر میرے پاس بھیج دینا۔ میں یہاں سے آگرہ کو روانہ کر دوں گا۔ غالب۔ مرسلہ دو شنبہ۔ چہارم جمادی الاول۱۲ ۷۴ ھ۔ جواب طلب۔

ایضاً

صبح شنبہ ۲۱ ماہ اکتوبر ۱۸۶۵ ء۔ اقبال نشان عضد الدولہ حکیم غلام نجف خان کو غالب علی شاہ کی دعا پہنچے۔ تمہارے خط سے معلوم ہوا کہ تم کو میرے کھانے پینے کی طرف سے تشویش ہے۔ خدا کی قسم میں یہاں خوش و تندرست ہوں۔ دن کا کھانا ایسے وقت آتا ہے کہ پہر دن چڑھے تک میرے آدمی بھی روٹی کھا چکتے ہیں۔ شام کا کھانا بھی سویرے آتا ہے کئی طرح کے سالن پلاؤ متنجن پسندے دونوں وقت روٹیاں خمیری۔ چپاتیاں۔ مربے اچار۔ میں بھی خوش لڑکے بھی خوش۔ کلو اچھا ہو گیا ہے۔ سقا مشعلچی۔ خاکروب سرکار سے متعین ہے۔ حجام اور دھوبی نوکر رکھ لیا ہے۔ آج تک دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ تعظیم تواضع اخلاق کسی باب میں کمی نہیں۔ ظہیر الدین خاں بہادر کو دعا پہنچے۔ یہ خط لے کر تم اپنی دادی صاحب کے پاس جاؤ اور یہ خط پڑھ کر سناؤ۔ اور ان سے یہ کہہ دو کہ وہ بات جو میں نے تم سے کہی تھی وہ غلط ہے۔ اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔ باقی خیر و عافیت۔

ایضاً

میاں تمہارا خط پہنچا آج میں نے اس کو اپنے خط میں ملفوف کر کے آگرہ کو روانہ کیا۔ تم جو کہتے ہو کہ تم نے کبھی مجھ کو خط نہیں لکھا اور اگر شیخ نجم الدین حیدر کا خط نہ آتا تو اب بھی نہ لکھتے۔ انصاف کرو لکھوں تو کیا لکھوں کچھ لکھ سکتا ہوں۔ کچھ قابل لکھنے کے ہے تم نے جو مجھ کو لکھا تو کیا لکھا اور اب جو میں لکھتا ہوں تو کیا لکھتا ہوں بس اتنا ہی ہے کہ اب تک ہم تم جیتے ہیں زیادہ اس سے نہ تم لکھو گے نہ میں لکھوں گا۔ ظہیر الدین کو دعا کہنا اور میری طرف سے پیار کرنا۔ تم کو اور ظہیر الدین کو اور اس کی ماں کو اور اس کی بہن کو اور اس کی لڑکی کو تمہاری ماں (محترمہ امراؤ بیگم صاحبہ ) دعا کہتی ہے اور دعائیں دیتی ہے۔ یہ رقعہ حیدر حسن خاں کے نام کا ہے ان کو حوالہ کر دینا۔ اسد اللہ نگاشتہ شنبہ ۲۶ دسمبر ۱۸۵۷ء۔

ایضاً

میاں تم کو مبارک ہو کہ حکیم صاحب پر سے وہ سپاہی جو ان کے اوپر متعین تھا اٹھ گیا اور ان کو حکم ہو گیا کہ اپنی وضع پر رہو مگر شہر میں رہو باہر جانے کا اگر قصد کرو تو پوچھ کر جاؤ اور ہر ہفتہ میں ایک بار کچہری میں حاضر ہوا کرو۔ چنانچہ وہ کچے باغ کے پچھواڑے مرزا جاگن کے مکان میں آرہے۔ صفدر میرے پاس آیا تھا۔ یہ اس کی زبانی ہے۔ جی ان کے دیکھنے کو چاہتا ہے مگر از راہِ احتیاط جا نہیں سکتا۔ مرزا بہادر بیگ نے بھی رہائی پائی۔ اب اس وقت سنا ہے کہ وہ خاں صاحب کے پاس آئے ہیں یقین ہے کہ بعد ملاقات باہر چلے جائیں گے یہاں نہ رہیں گے۔ قدم شریف میں وہ رہتے ہیں آج پانچواں دن ہے کہ حکیم محمود خاں مع قبائل اور عشائر پٹیالہ کو گئے ہیں بمقتضائے وقت اپنی سکونت کے مکان چھوڑ کر یہاں آ رہا ہوں اس طرح کہ محلسرا میں زنانہ اور دیوان خانہ میں مردانہ۔ پنشن کی درخواست کا ابھی کچھ حکم نہیں معلوم ہوا۔ کلکٹر سے کیفیت طلب ہوئی ہے۔ دیکھیئے بعد کیفیت کے جانے کے پنشن ملتا ہے یا جواب۔ پنجشنبہ ۱۶ شعبان ۱۲۷۴ ھ مطابق یکم مئی ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

بھائی ہوش میں آؤ میں نے تم کو خط کب بھیجا اور رقعہ میں کب لکھا کہ شیر زماں کا خط تمہارے پاس بھیجتا ہوں میں نے ایک لطیفہ لکھا تھا کہ شیر زماں خاں نے میرے خط میں بندگی لکھی تھی اور میں نے وہ بندگی اس رقعہ میں لپیٹ کر تم کو بھیجتا ہوں۔ بس بات اتنی ہی تھی۔ وہ ہی بندگی لکھی ہوئی گویا لپٹی ہوئی تھی سو حضرت کو پہنچ گئی۔ خاطر عاطر جمع رہے۔ غالب۔

 

ایضاً

میاں چاول بُرے۔ بڑھتے نہیں۔ لمبے نہیں۔ پتلے نہیں۔ اب زیادہ قصہ نہ کرو پرانے اور پتلے چاول آئیں۔ ایک روپیہ کے خرید کر کے بھیج دو۔ یاد رہے نئے چاول قابض ہوتے ہیں اور پرانے چاول قابض نہیں ہوتے۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ شام کو میر مجدد الدین صاحب کہتے تھے کہ حکیم غلام نجف خاں کے پاس ایک کاتب ہے۔ بھائی دس بارہ جزو کی ایک کتاب نثر کی مجھ کو لکھوانی ہے یہ معلوم کر لو کہ وہ صاحب روپیہ کے کَے جزو لکھیں گے۔ اور روز کس قدر لکھ سکتے ہیں یہ تو اب لکھو اور پھر دوپہر کے بعد ان کو میرے پاس بھیج دو تاکہ میں ان کو کاغذ اور منقول عنہ حوالہ کر دوں۔ ظہیر الدین کو دعا کہو اور اس کا حال لکھو۔ غالب۔

ایضاً

حکیم غلام نجف خاں سنو اگر تم نے مجھے بنایا ہے یعنی استاد اور باپ کہتے ہو۔ یہ امر ازروئے تمسخر ہے تو خیر اور اگر ازروئے اعتقاد ہے تو میری عرض مانو۔ اور ہیرا سنگہ (سنگھ) کی تقصیر معاف کرو۔ بھائی انصاف کرو اس نے اگر حکیم احسن اللہ خاں سے رجوع کی اور وہ تمہارے بھائی بھی ہیں اور تم کو ان سے استفادہ بھی ہے اگر گھبرا کر حکیم محمود خاں کے پاس گیا تو ان کے باپ سے تم کو نسبت تلمذ کی ہے ابتدا میں ان سے پڑھے ہو۔ پس یہ غریب سوائے تمہارے اگر گیا تو تمہارے ہی علاقہ میں گیا وہ بھی گھبرا کر۔ اور خفقان سے تنگ آ کر۔ اب جو حاضر ہوتا ہے تو لازم ہے کہ اس پر بہ نسبت سابق کے توجہ زیادہ فرماؤ اور بدل اس کا معالجہ کرو۔ التفات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

میاں پہلے ظہیر الدین کا حال لکھو پھر حکیم صاحب کی حقیقت لکھو۔ کہیں اور جائیں گے یا یہاں آئیں گے اگر یہاں آئیں گے تو کب تک آئیں گے پھر تم خط لکھو میا ں نظام الدین کو اور اس میں لکھو کہ تم نے غالب کے خط کا جواب نہیں لکھا وہ کہتا ہے کہ میں حیران ہوں کہ میاں نظام الدین اور میرے خط کا جواب نہ لکھیں۔ خدا جانے مجھ سے ایسی کیا تقصیر ہوئی ہے۔ نجات کا خدا سے اور تم سے اس رقعہ کے جواب کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

بھائی میں تم کو کیا بتاؤں کہ میں کیا ہوں۔ طاقت یک قلم جاتی رہی ہے۔ پھوڑا بدستور ہے۔ رستا ہے۔ خیر محل اندیشہ نہیں ہے رِ س رِ س کر مادہ نکل جائے گا۔ اس سے اور زیادہ خستہ و افسردہ ہوں قبض کہ وہ دشمنِ جانی ہے ان دنوں میں حد کو پہنچ گیا ہے۔ بہرحال ؎ مر گے ست بنام زندگانی۔ حضرت غور کی جگہ ہے۔ ایک مکان دلکشا۔ کوچہ کی سیر۔ بازار کا تماشا۔ دو کمرے۔ دو کوٹھڑیاں۔ آتشدان۔ صحن وسیع اس کو چھوڑ کر وہ مکان لوں جو ایک تنگ گلی کے اندر ہے دروازہ وہ تاریک کہ دن کو بغیر چراغ کے راہ نہ ملے۔ اور پھر ڈیوڑھی پر حلال خوروں کا مجمع گوہ کے ڈھیر۔ کہیں حلال خوروں کا بچہ ہگ رہا ہے۔ کہیں بیل بندھا ہوا ہے۔ کہیں کوڑا پڑا ہوا ہے۔ عیاذاً باللہ خدا نہ لے جائے ایسے مکان میں۔ تم نے وہ مسودہ کیوں نہیں بھیجا۔ میں خدمت گزاری کو آمادہ ہوں۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

صاحب تم سچ کہتے ہو۔ بھائی فضل اللہ خاں کی غمخواری اور مددگاری کا کیا کہنا ہے مگر الور سے مجھ کو لینا نہیں یاد رکھنا کہ وہاں سے مجھے کچھ نہ آئے گا۔ بفرض محال اگر ملا تو ڈھائی سو روپیہ سو وہ بھی مجھے بھائی فضل اللہ خاں کا دینا ہے۔ ان کا قرض ادا ہو جائے گا۔ احیاناً اگر خلاف میرے عقیدے کے پان سو (پانچ سو) روپیہ کا حکم ہوا اور وہ آ جائیں تو تم بعد اطلاع ڈھائی سو میاں فضل کو دے کر مجھ کو لکھنا۔ باقی کے واسطے میں جس طرح لکھوں اس طرح کرنا۔ لو صاحب شیخ چلی بنا خیالی پلاؤ پکا لیا۔ اب روداد سنو۔ نواب صاحب کا اخلاص و التفات روز افزوں ہے آج منگل کا دن۔ ۴ جمادی الثانی کی اور ۲۴ اکتوبر کی ہے۔ کھانے کی اور گھوڑوں اور بیلوں کی گھانس (گھاس)دانے کی نقدی ہو گئی لیکن اس میں میرا فائدہ ہے نقصان نہیں۔ دسمبر کی پہلی سے جشن شروع ہو گا ہفتہ دو ہفتہ کے مدت اس کی ہے۔ بعد جشن کے رخصت ہوں گا۔ خدا چاہے تو آخر دسمبر تک تم کو آ دیکھتا ہوں۔ ظہیر الدین خاں کو دعا۔

ایضاً

صاحب کل آخر روز تمہارا خط آیا میں نے پڑھا۔ آنکھوں سے لگایا۔ پھر بھائی ضیاء ا لدین خاں صاحب کے پاس بھجوایا۔ یقین ہے کہ انہوں نے پڑھ لیا ہو گا ماکتب فیہ معلوم کیا ہوا۔ تمہارے یہاں نہ ہونے سے ہمارا جی گھبراتا ہے۔ کبھی کبھی ناگاہ ظہیر الدین کا آنا یاد آتا ہے۔ کہو اب خیر سے کب واپس آؤ گے۔ کَے برس، کَے مہینے ، کَے دن راہ دکھاؤ گے۔ یہاں کاحال جیسا کہ دیکھ گئے ہو بدستور ہے ؎ زمین سخت ہے آسمان دور ہے۔ جاڑا خوب پڑ رہا ہے۔ تونگر غرور سے مفلس سردی سے اکڑ رہا ہے۔ آبکاری کے بندوبست جدید نے مارا۔ عرق کے نہ کھینچنے کی قید ِ شدید نے مارا۔ اِدھر انسداد دروازہ آبکاری ہے۔ اُدھر ولایتی عرق کی قیمت بھاری ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولوی فضل رسول صاحب حیدرآباد گئے ہیں۔ مولوی غلام امام شہید آگے سے وہاں ہیں محی الدولہ محمد یار خاں سُورتی نے ان صورتوں کو وہاں بلایا ہے پر یہ نہیں معلوم کہ وہاں ان کو کیا پیش آیا ہے اگر تم معلوم کر سکو یا تم کو معلوم ہو گیا ہو تو مجھ کو ضرور لکھو۔ زیادہ کیا لکھوں۔ کیوں ظہیر الدین کیا میں اس لائق نہ تھا کہ تو ایک خط مجھ کو الگ لکھتا یا اپنے باپ کے خط میں اپنے ہاتھ سے اپنی بندگی لکھتا حکیم غلام نجف خاں خط لکھنے بیٹھے تیری بندگی کر دی۔ تیرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں اس بندگی کے آگے آنے کی مجھے کیا خوشی۔ غالب۔ صبح یکشنبہ ۱۱ جنوری ۱۸۶۳ء۔

ایضاً

بھائی میرا ذکر سنو۔ ہر شخص کو غم موافق اس کی طبیعت کے ہوتا ہے۔ ایک تنہائی سے نفور ہے ایک کو تنہائی منظور ہے۔ تامل میری موت ہے۔ میں کبھی اس گرفتاری سے خوش نہیں رہا۔ پٹیالے جانے میں ایک سبکی اور ذلت تھی اگرچہ مجھ کو دولتِ تنہائی میسر آ جاتی لیکن اس تنہائی چند روزہ اور تجرید مستعار کی کیا خوشی۔ خدا نے لا ولد رکھا تھا شکر بجا لاتا تھا خدا نے میرا شکر مقبول و منظور نہ کیا یہ بلا بھی قبیلہ داری کی شکل کا نتیجہ ہے۔ یعنی جس لوہے کا طوق اسی لوہے کی دو ہتھکڑیاں بھی پڑ گئیں۔ خیر اس کا کیا رونا ہے یہ قید جاودانی ہے۔ جناب حکیم صاحب ایک روز از راہِ عنایت یہاں آئے کیا کہوں کہ ان کے دیکھنے سے کیا دل خوش ہوا ہے خدا ان کو زندہ رکھے۔ میاں میں کثیر الاحباب شخص ہوں۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں دوست اس باسٹھ برس میں مر گئے۔ خصوصاً اس فتنہ و آشوب میں تو شاید کوئی میرا جاننے والا نہ بچے گا۔ اس راہ سے مجھ کو جو دوست اب باقی ہیں بہت عزیز ہیں۔ واللہ دعا مانگتا ہوں کہ اب ان احباب میں سے کوئی میرے سامنے نہ مرے کیا معنی کہ جو میں مروں کوئی میرا یاد کرنے والا اور مجھ پر رونے والا بھی تو دنیا میں ہو۔ مصطفے ٰ خاں کا حال سنا ہو گا۔ خدا کرے مرافعہ میں چھوٹ جائے ورنہ حبس ہفت سالہ کی تاب اس ناز پروردہ میں کہاں۔ احمد حسین میکش کا حال کچھ تم کو معلوم ہے یا نہیں مخنوق ہوا۔ گویا اس نام کا آدمی شہر میں تھا ہی نہیں۔ پنشن کی درخواست دے رکھی ہے بشرط اجرا بھی میرا کیا گزارہ ہو گا۔ ہاں دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ میری صفائی اور بے گناہی کی دلیل ہے۔ دوسرے یہ کہ موافق قول عوام چولہے دلدر نہ ہو گا۔ تجھ کو میری جان کی قسم اگر میں تنہا ہوتا تو اس وجہ قلیل میں کیسا فارغ البال اور خوش رہتا یہ بھی خبط ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ خدا جانے پنشن جاری ہو گا یا نہ ہو گا۔ احتمال تعیش و تنعم بشرط تجرید صورت اجرائے پنشن میں سونچتا (سوچتا) ہوں اور وہ موہوم ہے۔ بیدل کا شعر مجھ کو مزا دیتا ہے ؎

نہ شامِ مار سحر نویدی نہ صبح مارا دَمِ سپیدی

چو حاصل ِ ماست نا امیدی غبار دنیا بفرق عقبے ٰ

اس وقت جی تم سے باتیں کرنے کو چاہا جو کچھ دل میں تھا وہ تم سے کہا۔ زیادہ کیا لکھوں۔ از غالب۔

٭٭٭

 

بنام حکیم غلام نجف خاں

جان و جانان و از جان و جانان عزیز تر حکیم غلام نجف خان سلمہ اللہ تعالیٰ۔ قبلہ یہ تو معلوم ہوا کہ بعد قتل ہونے دس آدمی کے کہ دو اس میں عزیز بھی تھے یہ سب وہاں سے نکالے گئے مگر صورت نہیں معلوم کہ کیونکر نکلے۔ پیادہ یا سوارتھے تنگدست یا مالدار۔ مستورات کو تو رتھیں دے دی تھیں ذکور کا حال کیا ہوا۔ اور پھر وہاں سے نکلنے کے بعد کیا ہوا۔ کہاں رہے اور کہاں رہیں گے۔ سرکار انگریزی کی طرف سے مورد تفقد و ترحم ہیں یا نہیں۔ رنگ کیا نظر آتا ہے۔ جبرِ کسر کی توقع ہے یا نہیں۔ تفضل حسین خاں کا حال خصوصاً اور ان سوالات کا جواب عموماً لکھو۔ میرزا مغل میرا حقیقی بھانجا کہ وہ منشی خلیل الدین خاں مرحوم کا خویش ہے اس کی بی بی ہے اور شاید ایک یا دو بچے بھی ہیں اوغانی ہے یہ امر کہ وہ بھی قافلہ کے ساتھ ہو گا۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو اس کا حال بانفراد لکھیئے۔ خواجہ جان اور خواجہ امان کی حقیقت بھی بشرطِ اطلاع ضروری فرمائی اور ہاں صاحب آپ جانتے ہوں گے۔ علی محمد خاں کو وہ جو میر منشی عزیز اللہ خاں کا خویش ہے اگر کچھ اس کا بھی ذکر سنا ہو تو میں اس کا خیر طلب ہوں۔ غالب۔ جواب طلب۔

ایضاً

بھائی تمہارے رقعہ کا جواب پہلے تم کو شیر زماں خاں نے دیا ہو گا پھر ظہیر الدین خاں نے تم سے کہا ہو گا۔ کہو کوئی طرح شہر میں تمہارے آنے کی بھی ٹھہری یا نہیں۔ بعد تیس کوس اور آدھ کوس کا برابر ہے۔ میری جان تم ہنوز دوجانے میں ہو مجھ کو بھی تم جانتے ہو کہ میرا شہر میں رہنا باجازت سرکار کے نہیں اور باہر نکلنا بے ٹکٹ ممکن نہیں پھر میں کیا کروں کیوں کر وہاں آؤں شہر میں تم ہوتے تو جرات کر کے تمہارے پاس چلا آتا۔ شیر زماں خاں صاحب ایک بار آئے تھے کہہ گئے تھے کہ پھر بھی آؤں گا مگر نہیں آئے۔ خدا جانے ان کے والد کی رہائی ہوئی یا نہیں۔ اگر تم سے ملیں تو میرا سلام کہنا اور ان کو میرے پاس بھیج دینا۔ اور تم کو ان کے والد کا جو حال ان کی زبانی معلوم ہوا ہو وہ مجھ کو لکھ بھیجو۔ ظہیر الدین کو دعا۔ از غالب۔

ایضاً

بھائی ہاں غلام فخر الدین خاں کی رہائی زندگی دوبارہ ہے۔ خدا تم کو مبارک کرے سنا ہے کہ لوہارو بھی ان دونوں صاحبوں کو مل گیا۔ یہ بھی ایک تہنیت ہے۔ خدا سب کا بھلا کرے۔ مجھ کو ڈپٹی کمشنر نے بلا بھیجا تھا صرف اتنا ہی پوچھا کہ غدر میں تم کہا ں تھے جو مناسب ہوا وہ کہا گیا دو ایک خط آمد ولایت میں نے پڑھائے تفصیل نہیں لکھ سکتا۔ انداز ادا سے پنشن کا بحال و برقرار رہنا معلوم ہوتا ہے۔ مگر پندرہ مہینے پچھلے ملتے نظر نہیں آتے۔ میاں یہ الور میں کیا فساد برپا ہوا ہے۔ خدا خیر کرے۔ واسطے خدا کے جو تم کو معلوم ہوا ہو اور جو معلوم ہو جائے اس سے مجھ کو بھی اطلاع دینا۔ غالب۔

ایضاً

برخوردار سعادت نشان حکیم غلام نجف خان کو میری دعا پہنچے۔ تمہاری تحریر پہنچی تم جدا گانہ خط کیوں نہ لکھا کرو۔ خط لکھا اور بیرنگ یا پوسٹ پیڈ جس طرح چاہا اپنے آدمی کے ہاتھ ڈاک گھر بھیج دیا۔ مکان کا پتا ضرور نہیں۔ ڈاک گھر میرے گھر کے پاس۔ ڈاک منشی میرا آشنا۔ اب تم ایک کام کرو آج یا کل ڈیوڑھی پر جاؤ اور جتنے خط جمع ہیں وہ لو مان سنگی مضبوط کاغذ کا لفافہ کرو اور بیرنگ لکھ کر کلیان کے ہاتھ ڈاک گھر میں بھجوا دو۔ اور اپنے خط میں جو حال شہر میں ہو وہ مفصل لکھو۔ جناب حکیم صاحب کو سلام نیاز اور ظہیر الدین احمد خاں کو دعا کہنا۔ اب میرا حال سنو تعظیم و توقیر بہت۔ ملاقاتیں تین ہوئی ہیں۔ ایک مکان کہ وہ تین مکانوں پر مشتمل ہے رہنے کو ملا ہے۔ یہاں پتھر تو دوا کو بھی میسر نہیں۔ خشتی مکان گنتی کے ہیں۔ کچی دیواریں اور کھپریل سارے شہر کی آبادی اس طرح پر ہے۔ مجھ کو مکان ملے ہیں وہ بھی ایسے ہیں۔ ہنوز کچھ گفتگو درمیان نہیں آئی۔ میں خود ان سے ابتدا نہ کروں گا وہ بھی مجھ سے بالمشافہ نہ کہیں گے مگر بواسطہ کارپردازانِ سرکار۔ دیکھوں کیا کہتے ہیں اور کیا مقرر کرتے ہیں۔ میں سمجھا تھا کہ میرے پہنچنے کے بعد جلد کوئی صورت قرار پائے گی۔ لیکن آج تک کہ جمعہ آٹھواں دن میرے پہنچنے کو ہے کچہ(کچھ) کلام نہیں ہوا۔ کھانا دونوں وقت سرکار سے آتا ہے اور وہ سب کو کافی ہوتا ہے۔ غذا میرے بھی خلاف طبع نہیں۔ پانی کا شکر کس منہ سے ادا کروں۔ ایک دریا ہے کوسی سبحان اللہ اتنا میٹھا پانی کہ پینے والا گمان کرے کہ یہ پھیکا شربت ہے۔ صاف، سبک اور سریع النفوذ۔ اس آٹھ دن میں قبض و انقباض کے صدمہ سے محفوظ ہوں۔ صبح کو بھوک خوب لگتی ہے۔ لڑکے بھی تندرست۔ آدمی بھی توانا۔ مگر ہاں ایک عنایت دو دن سے کچھ بیمار ہے۔ خیر اچھا ہو جائے گا۔ والدعا۔ جمعہ۔ ۳ فروری ۱۸۶۰ء۔

ایضاً

میاں تم نے برا کیا کہ لفافہ کھول کر نہ پڑھ لیا۔ بارے آج سہ شنبہ ۱۴ فروری صبح کے وقت یہ لفافہ پہنچا۔ اور اسی وقت پڑھوایا گیا۔ خط لفٹنٹ گورنر بہادر کا نہیں یہ خط نواب گورنر جنرل بہادر کے چیف سکرٹر (سیکرٹری) کا ہے ترجمہ اس کا یہ ہے۔ از دفتر خانہ سکرٹر اعظم۔ حکم دیا جاتا ہے عرضی دینے والے کو کہ جواب اس عرضی کا نواب گورنر جنرل بہادر بعد دریافت کے ارشاد فرمائیں گے۔ از کیمپ لودھیانہ۔ ۲۸ جنوری ۱۸۶۰ ء۔ یہاں کا یہ حال ہے کہ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر آگرہ مراد آباد آیا چاہتے ہیں۔ مرادآباد یہاں سے بارہ کوس ہے۔ نواب صاحب دو چار دن میں پھر آئیں گے اگر ان سے ملاقات کو مراد آباد جائیں گے۔ میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ اگرچہ گورنر غرب و شمال کو دلی سے کچھ علاقہ نہیں مگر دیکھوں کیا گفتگو درمیاں آتی ہے جو واقع ہو گا تمہیں لکھوں گا۔ یہ تم کیا لکھتے ہو کہ گھر میں خط جلد جلد لکھا کرو۔ تم کو جو خط لکھتا ہوں گویا تمہاری استانی کو لکھتا ہوں کیا تم سے نہیں ہو سکتا کہ جاؤ اور پڑھ کر سناؤ ؟۔ اب ان کو خیال ہو گا کہ انگریزی خط میں کیا لکھا ہے۔ تم یہ خط میرا ہاتھ میں لئے جاؤ اور حرف بحرف پڑھ سناؤ۔ لڑکے دونوں اچھی طرح ہیں۔ کبھی میرا دل بہلاتے ہیں۔ کبھی مجھ کو ستاتے ہیں۔ بکریاں۔ کبوتر، بٹیریں ، تُکل، کنکوا۔ سب سامان درست ہے۔ فروری مہینے کے دو دو روپے لے کر دس دن میں اٹھا ڈالے۔ پھر پرسوں چھوٹے صاحب آئے کہ دادا جان کچہ(کچھ)ہم کو قرض حسنہ دو۔ ایک روپیہ دونوں کو قرض حسنہ دیا گیا۔ آج ۱۴ ہے مہینا دور ہے دیکھیئے کَے (کتنی) بار قرض لیں گے یہاں کا رنگ نواب صاحب کے آنے پر جو ہو گا اور جو قرار پائے گا وہ مفصل تم کو لکھوں گا اور تم اپنے والد کو سنا دینا۔ اور ہاں بھائی یہ بھی گھر میں پوچھ لینا کہ کدار ناتھ نے اندر باہر کی تنخواہ بانٹ دی میں نے تو وفادار اور حلال خوری تک کی بھی تنخواہ بھیج دی ہے۔ غالب سہ شنبہ ۱۴ فروری ۱۸۶۱ء۔

ایضاً

صاحب تمہارے دو خط متواتر آئے۔ ظہیر الدین خاں کا آگرہ جانا میرا خط اس کا موسومہ تمہارے پاس پہنچا اور اس کا آگرہ کو روانہ ہونا۔ ظہیر الدین کی دادی کا بعارضہ سرقہ و سعال رنجور ہونا کدار ناتھ کا مجھ سے خفا ہونا مکان روکنے کی اجازت کا مانگنا۔ فضل حسن سے میرے واسطے دریوزہ تفقد کرنا۔ یہ مداح و مطالب معلوم ہوئے۔ ظہیر الدین کا خط تم نے کیوں کھولا وہ مغلوب الغضب ہے تم پر خفا ہو گا اس کی دادی اس موسم میں ہمیشہ ان امراض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ایک نسخہ اس کے پاس ماءاللحم کا ہے وہ کھچوا دو اور ذرا خبر لیتے رہو۔ کدار ناتھ لڑکا ہے وہ مجھ سے کیا خفا ہو گا۔ روپیہ جو خزانہ میں جمع ہو گا آخر وہی لائے گا۔ خفا میں ہوں کہ روپیہ دام دام پایا اور میر ا تمسک نہ دیا اور چِٹھا کا نہ بانٹا۔ مکان کے روکنے کو اور کس طرح لکھوں۔ شہاب الدین خاں کو لکھا۔ شمشاد علی بیگ کو لکھا۔ اب تم کو لکھتا ہوں۔ ستمبر کے دے آیا ہوں۔ اکتوبر، نومبر، دسمبر یہ آ کر دوں گا۔ بلکہ اگر موقع بنے گا تو یہ سہ ماہہ یہاں سے بطریق ہنڈوی بھی دوں گا۔ اسمعیل خاں صاحب کو میری دعا کہو اور یہ کہ ڈیوڑھی کی سیڑھی بنوا دیں اور حویلی کے پائے خانہ کی صورت درست کروا دیں۔ ہائے قسمت اس قسمت پر لعنت کہ میاں فضل حسن میرے مربی و محسن بنیں اور پھر وائے محرومی کہ مطلب برآری نہ ہو۔ خدا کرے نہ ہو۔ لونڈوں کا احسان زہرِ قاتل ہے۔ فضل اللہ خاں میرا بھائی ہے اس کا احسان مجھ کو گوارا۔ سو بار اس سے کہا اور ہزار بار کہوں گا۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اب آپ اس سے زنہار نہ کہیئے گا اور نہ لکھیئے گا اگر کچہ(کچھ)کہو تو فضل سے کہو۔ واِلّا لا۔ نواب صاحب دورے سے آج شام کو یا کل آ جائیں گے۔ جشن جمشیدی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ یکشنبہ ۱۲ نومبر ۱۸۶۰ ء۔ صبح کا وقت۔

ایضاً

شنبہ ۴ ذیقعد۔ یکم اپریل۔ میاں تمہارا گلہ میرے سر و چشم پر۔ لیکن میرا حال سن لو اور اپنے وہم و قیاس پر عمل نہ کرو۔ پہلے ظہیر دلپذیر کا خط آیا۔ پڑھتے ہی اس کا جواب لکھ رکھا۔ دوسرے دن ڈاک میں بھجوایا۔ مضمون بہ تغیر الفاظ یہ تم جو پھوڑے پھنسی میں مبتلا رہتے ہو اس کا سبب یہ کہ مجھ میں تمہارا لہو ملتا ہے اور میں احتراقِ خون کا پُتلا ہوں۔ پھر تمہارا خط آیا۔ تیسرے دن اس کا جواب بھجوا دیا۔ مضمون یہ کہ تم سے تو میرا پیارا پوتا ظہیر الدین اچھا کہ جاتے وقت مجھ سے مل گیا۔ اور وہاں پہنچتے ہی مجھ کو خط لکھا۔ رسید ڈاک گھر سے ملتی نہیں۔ خط دونوں پیڈ تھے۔ یہاں کے ڈاک گھر میں ممکن نہیں کہ میرے وہ دونوں خط رہ گئے ہوں۔ شیخوپور کی کی ڈاک کے ہرکاروں نے نہ پہنچایا میرا کیا قصور۔ البتہ سر نامہ پر صرف بستی کا نام اور تمہارا نام تھا۔ محلہ کا نام نہ تھا۔ شاید اس سبب سے خط نہ پہنچا ہو ایسے وقت تمہارا خط آیا۔ میں نے لیٹے لیٹے یہ سطریں لکھیں۔ اب عنایت اللہ کو تمہارے گھر بھیجتا ہوں اور پُچھوا منگواتا ہوں کہ پتا وہاں سے کیا لکھا جاتا ہے۔ لو صاحب عنایت اللہ آیا اور یہ پرزہ لایا ہے۔ پتہ سرنامہ پر لکھتا ہوں مگر ڈاک کا وقت نہیں رہا۔ کل بھیج دوں گا حکیم ظہیر الدین خاں کو دعا۔ بیٹا اب اس وقت مجھ میں دم نہیں دعا پر قناعت کر۔ تیرے خط کا جواب جیساکہ اوپر لکھ آیا ہوں بھیج چکا ہوں۔ جھوٹے پر لعنت تو بھی کہہ بیش باد۔ نواب مصطفے ٰ خاں کل شہر میں آ گئے مع قبائل آئے ہیں۔ ذیقعدہ میں چھوٹے لڑکوں کے ختنہ اور ذی الحجہ میں محمد علی خاں کی شادی کریں گے۔ آج پانچواں دن ہے شہر میں مرغ کے انڈے برابر اولے پڑے کہیں کہیں اس سے بڑے بھی۔ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر جدید آئے۔ دربار کیا۔ میری تعظیم اور مجھ پر عنایت میری تمنا سے زیادہ کی۔ آؤ گے تو مفصل سن لو گے۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

میاں آج صبح کو تم آئے تھے۔ میں اس ٹکٹ کے قصہ میں الجھا کہ تم سے کہنا بھول گیا اب میر عنایت حسین صاحب تمہارے پاس پہنچتے ہیں۔ جس امر میں یہ تم سے کوشش چاہیں تم کو میری جان کی قسم بدل متوجہ ہو کر اس کام کو انجام د و۔ امر سہل ہے کچھ بات نہیں ہے مگر در صورت سعی خدا کے ہاں سے تم کو بڑا اجر ملے گا۔ اور میں تمہارا ممنون ہوں گا۔ نجات کا طالب غالب۔

ایضاً

میاں تم سے رخصت ہو کر اس دن مراد نگر میں رہا۔ دوسرے دن یعنی جمعہ کو میرٹھ پہنچا۔ نواب مصطفے ٰ خاں نے ایک دن رکھ لیا آج شنبہ ۲۱ جنوری یہاں مقام ہے۔ نو بج گئے ہیں۔ بیٹھا ہوا یہ خط لکھ رہا ہوں۔ مفت کا کھانا ہے خوب پیٹ بھر کر کھاؤں گا۔ کل شاہجہان پور، پرسوں گڑھ مکٹیسر رہوں گا۔ مراد آباد سے پھر تم کو خط لکھوں گا۔ لڑکوں کے ہاتھ کے دو خط لکھے ہوئے ان کی دادی کو بھجوا دیے ہیں۔ تم ا س اپنے نام کے خط کو لے کر ڈیوڑھی پر جانا اور استانی جی کو پڑھ کر سنا دینا اور خیر و عافیت کہہ دینا۔ جناب خان صاحب کو میرا نیاز اور ظہیر الدین کو احمد کو دعا کہہ دینا۔ ہاں بھائی میں ازروئے مصلحت اپنے کو مقامات مختلف کا عازم کہہ آیا ہوں اب جو شخص تم سے پوچھا کرے اس سے پردہ نہ کرنا اور صاف کہہ دینا کہ رام پور کو گیا ہے یعنی سب کو معلوم ہو جائے اور کوئی تذبذب میں نہ رہے۔ مرقومہ چاشتگاہ شنبہ ۲۱ جنوری۔

ایضاً

برخوردار حکیم غلام نجف خاں کو فقیر غالب علی شاہ کی دعا پہنچے۔ بدھ کا دن پہر بھر دن چڑھا ہو گا کہ میں فقط پالکی پر مراد آباد پہنچا۔ ۲۰ جمادی الاول کی اور ۱۱ اکتوبر کی ہے۔ دونوں لڑکے دونوں گاڑیاں اور رتھ اور آدمی سب پیچھے ہیں اب آئے جاتے ہیں۔ رات بخیر گزرے بشرطِ حیات کل رام پور پہنچ جائیں گے گھبرایا ہوا ہوں تیسرا دن ہے پاخانہ پھرنے کو۔ لڑکے بخیر و عافیت ہیں اپنی استانی سے کہہ دینا۔ مرزا شہاب الدین خاں کو نواب ضیاء الدین کو سلام۔ میرا رقعہ ان دونوں صاحبوں کو پڑھا دینا۔ ضرور ضرور۔ ظہیر الدین دعا سے خفا ہو گا اس کو میری بندگی کہنا۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام حکیم ظہیر الدین احمد خاں صاحب

پنجشنبہ ۲ نومبر ۱۸۶۵ء۔ اقبال نشان حکیم ظہیر الدین احمد خاں کو فقیر غالب علی شاہ کی دعا پہنچے۔ کہو میاں تمہارا مزاج کیسا ہے اور تمہارے بھائی مرزا تفضل حسین خاں کیسے ہیں اگر ملو تو میری دعا کہنا اور مزاج کی خبر پوچھنا اور اپنے والد ماجد کو میری دعا کہنا کہ تمہارا خط میرے خط کے جواب میں تھا اس میں اور کوئی بات جواب طلب نہ تھی۔ سنو میاں ظہیر الدین تم اپنی دادی کے پاس ابھی چلے جاؤ اور ان سے میری اور دونوں لڑکوں کی خیر و عافیت کہو۔ اور پوچھو کہ شہاب الدین خاں نے اکتوبر کے مہینے کی تنخواہ کے پچاس روپے پہنچا دئیے یا نہیں۔ کدار ناتھ ڈیوڑھی پر آ کر جعفر بیگ وفادار وغیرہ کی تنخواہ بانٹ گیا یا نہیں۔ اچھا میرا بیٹا۔ یہ دونوں باتیں اپنی دادی سے پوچھ کر جلد مجھ کو لکھیو دیر نہ کیجیو۔ خط کے جواب کا طالب۔ غالب۔

٭٭٭

 

از جانب حکیم ظہیر الدین احمد خاں بنام نجم الدین حیدر صاحب عمِ ایشاں

جناب فیض مآ ب چچا صاحب قبلہ و کعبہ دو جہاں کے حضور میں کورنش و تسلیم پہنچاتا ہوں اور ہزار زبان سے اس توپ کے مرحمت فرمانے کا شکر بجا لاتا ہوں۔ سبحان اللہ کیا توپ جس کی آواز سے رعد کا دم بند۔ اور رنجک کے رشک سے بجلی کو رنج۔ گولہ اس کا خدا کا قہر۔ دھواں اس کا دریائے عشق کی لہر استغفراللہ کیا باتیں کرتا ہوں جھوٹ سے دفتر بھرتا ہوں۔ کیسی رنجک کیسا دھواں۔ کیسا گراب یہ وہ تو پ ہے کہ بغیر ان عوارض کے صرف اس کی آواز سے رستم کا زہرہ آب ہو جائے۔ اب بارود ہو تو رنجک اڑے آگ دہکائیں تو دھواں ہو۔ گولہ چھرّا کچھ اس میں بھریں تو ظاہر میں کہیں نشان ہو۔ صرف اس کی آواز پر مدار ہے۔ نئی ترکیب اور نیا کاروبار ہے۔ ایک آواز اور اس میں یہ اعجاز کہ دوست کو فتح کی شلک کی صدا سنائی دے۔ دشمن سنے تو ہیبت سے اس کا کلیجہ پھٹ جائے۔ آواز کا صدمہ اگرچہ صدائے صور سے دونا ہے مگر ہمیں یہی کہتے بن آتا ہے کہ صور کا نمونا ہے۔ کیا خدا کی قدرت ہے دیکھو تو کیسی مدت ہے توپ کا گولہ توپ ہی میں رہ جائے اور جو قلعہ روبرو آئے وہ ڈھ جائے۔ دانا آدمی اسے زنجیری گولا کہتا ہے۔ کہ توپ میں سے نکل کر پھر وہیں الجھ رہتا ہے اچھے میرے چچا جان یہ توپ کس نے بنائی اور تمہارے ہاتھ کہاں سے آئی جو دیکھتا ہے وہ حیران ہوتا ہے اب شہر میں جا بجا اسی کا بیان ہوتا ہے حق تعالیٰ شانہٗ تم کو ہمارے سر پر سلامت رکھے اور ہمیشہ بدولت و اقبال و عز و کرامت رکھے۔

٭٭٭

 

بنام نواب میر ابراہیم علی خاں صاحب بہادر المتخلص بہ وفا

ولی نعمت کو غالب کی بندگی۔ بسبب ضعف پیری کے خدمت گزاری میں درنگ واقع ہو جائے تو معاف رہوں۔ قاصر کبھی نہ رہوں گا ان شاء اللہ العظیم۔ دو غزلوں میں سے ایک غزل بعد اصلاح پہنچتی ہے۔ دوسری غزل ہفتہ آیندہ میں پہنچ جائے گی۔ ضعفِ اعضا اور دوامِ مرض سے علاوہ اختلال حواس کا کیا حال لکھوں۔ دو تین دن ہوئے کہ قبلہ و کعبہ میر عالم علی خاں کا خط آیا وہ لکھتے ہیں کہ آزردہ تخلص کی دو غزلیں اصلاحی پہنچیں۔ دیکھیئے اس سہو کو کہ کس کی غزلیں کس کو پہنچیں۔ مزا اس میں ہے کہ اب یہ بھی یاد نہیں آتا کہ آزردہ کا نام کیا ہے اور وہ کون ہے اور کہاں کا ہے۔ شاید اس بندہ خدا کو حضرت کی غزلیں بھیجی ہوں گی۔ خدا کرے وہ بزرگوار میر صاحب کی غزلیں میر صاحب کی طرح میرے پاس بھیج دے تو میر صاحب کی خدمت میں بھیج دوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ان غزلوں کو جو اب آئی ہیں دیکھوں گا۔ یہ اکہتر برس کی خوبی ہے اب میر صاحب قبلہ کو خط پڑھوا دیجیئے گا۔ لطف و کرم کا طالب غالب۔ ۲ اکتوبر ۱۸۶۶ ء۔

ایضاً

سید صاحب قبلہ نواب میر ابراہیم علی خاں بہادر غالب علی شاہ کا سلام۔ وہ غزل جس کا مطلع یہ ہے ؎ بس شوقِ قتل سے ہے الخ۔ گم ہو گئی ہے پھر لکھ کر بھیجئے اور قصور معاف کیجیئے۔ یہ غزل جو اس غزل کے بعد بھیجی ہے فی الحال بعد اصلاح کے پہنچتی ہے میر صاحب قبلہ سید عالم علی خاں بہادر کی دو غزلیں پہنچیں۔ مگر وہ یہ لکھتے ہیں کہ میں رجب کے مہینے میں وطن کو جاؤں گا اور وہاں سے تیرے پاس آؤں گا آج بحساب جنتری۲۷ اور ازروئے رویت۲۶ رجب کی ہے۔ غزلیں ان کی موجود مگر بھیج نہیں سکتا۔ آپ میری بے گناہی کے گواہ رہیں۔ قبلہ ضعف نے مضمحل کر دیا ہے۔ حواس بجا نہیں۔ اس مہینے یعنی رجب کی آٹھویں تاریخ سے تہترواں برس شروع ہو گیا ہے۔ غذا باعتبار آرد و برنج مفقود نہیں۔ صبح کو پان (۵) سات بادام کا شیرہ ۱۲ بجے آبِ گوشت۔ شام کو چار کباب تلے ہوئے۔ بس آگے خدا کا نام۔ ہاں حضرت جناب حکیم سید احسن صاحب کی تحریر سے کچہ(کچھ)حال ناسازی کا اخوان و احباب سے معلوم ہوا اور وہ علم باعث توزّع ضمیر ہے متوقع ہوں کہ اس فساد کے رفع ہونے سے اور اپنی طمانیت خاطر سے فقیر کو آگہی بخشئے۔ اور اس خط کا جواب مع رسید غزل جلد ارسال فرمائیے گا۔ اسدِ بے دست گاہ۔ پنجم دسمبر ۱۸۶۶ء۔ رجب کی تاریخ اوپر لکھ آیا ہوں۔

ایضاً

پیر و مرشد جناب سید ابراہیم علی خاں صاحب کو بندگی۔ غزل پہنچتی ہے خط ازروئے احتیاط بیرنگ بھیجا ہے۔ قبلہ آپ کے بھائی صاحب میر عالم علی خاں صاحب مجھ پر کیوں خفا ہیں کہ اپنی غزل نہیں بھیجتے۔ یہ امر ان کے خاطر نشان ہو جائے کہ غالب آپ کے دادا کا غلام اور خدمت بجا لانے کو آمادہ ہے۔ جواب کا طالب غالب۔ نہم ربیع الثانی ۱۲۸۳ہجری۔

ایضاً

بخدمت قبلہ سید احمد حسن صاحب مودودی تسلیم۔ و بجناب میر ابراہیم علی خاں بہادر کورنش مقبول باد۔ تصویر مہر تنویر مجھے پہنچی۔ اور میں نے رسید لکھ بھیجی۔ عجب ہے کہ آپ کو اس کے پہنچنے میں تردد ہے۔ امسال فقیر نے جو اپنی خاکساری کا یعنی تصویر میاں داد خاں کی معرفت نذر کی ہے یقین ہے کہ وہ بھی پہنچی ہو گی۔ دونوں غزلیں بعد اصلاح کے بھیجتا ہوں۔ اپنی غزل آپ رہنے دیں اور سید صاحب کی غزل ان کو حوالہ کر دیں۔ نجات کا طالب غالب۔ جمعہ ۱۷ اگست ۱۸۶۸ء۔

ایضاً

جناب تقدس انتساب سید صاحب و قبلہ والا مناقب عالیشان نواب سید ابراہیم علی خان بہادر مدظلہ العالی۔ بعد بندگی معروض ہے حضرت سید احمد حسن خاں صاحب مد ظلہ العالی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آپ کے گھر مولود مسعود پیدا ہوا۔ ایک عبارت رنگین مرتب کر کے اکمل الاخبار میں مَیں نے چھپوا دی ہے۔ ایک رباعی اور ایک قطعہ اپنا اور ایک قطعہ سید صاحب ممدوح کا جو انہوں نے یہاں بھیجا تھا وہ بھی چھپوا دیا۔ اور تین قطعے تاریخی بہاری لال منتظم اور میر فخر الدین مہتمم مطبع نے جو یہاں تاریخیں لکھی تھیں وہ چھپوا دیں۔ چنانچہ اپنی لکھی ہوئی رباعی اور قطعہ عرض کرتا ہوں۔

رباعی

حق داد بہ سید ز پے انعامش

فرّخ پسرے کہ واجب ست اکرامش

تاریخ ولادتش بود بے کم و بیش

ارشاد حسین خاں کہ باشد نامش

قطعہ

غالب حال سنین ہجری

معلوم کن از خجستہ فرزند

چوں یکصد و بست و چار ماند

این ست شمار عمر دلبند

یہ تو ظاہر ہے کہ۱۳۸۵ ھ ہیں جب خجستہ فرزند کے اعداد میں سے ۱۲۸۵لے لیے تو ایک سو چوبیس بچتے ہیں ان کو میں نے دعائے عمر مولود قرار دیا۔ حق تعالیٰ اس مولود کو تمہارے سامنے عمر طبعی کو پہنچائے۔ خط کی رسید کا طالب۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام مولوی احمد حسن صاحب قنوجی

یارب یہ ایک خط مجھ کو بڑودہ گجرات سے آیا ہے کاتب نے اپنے کو احمد حسن قنوجی بتایا ہے اُدھر سے اظہارِ آشنائی ہے۔ میری طرف سے یہ بے حیائی ہے کہ مجھ کو ان کی اور اپنی ملاقات یاد نہیں آتی۔ سونچتا (سوچتا) ہوں کوئی بات یاد نہیں آتی خانہ نسیان خراب۔ عشرہ قتالہ کے مرحلہ کا رہ پیما ہوں شاید اگر جیوں گا تو اس کا بھی مجھ کو علم نہ رہے گا۔ کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں۔ ۶۵ برس کی عمر ہوئی حواس ظاہری میں سے سامعہ و شامہ باطل۔ حواس باطنی میں سے حافظہ زائل بسبب نسیان کے اکثر مطالب ضروری تلف ہو جاتے ہیں۔ خدایا کیا اس عمر میں سب آدمی ایسے خزف ہو جاتے ہیں۔ حیران ہوں کہ آپ کو سید لکھوں ، مولوی لکھوں ، خان لکھوں۔ خط میں تو خیر کچھ لکھ دوں گا خط کا کیا عنوان لکھوں۔ بندہ پرور فقیر معاف رہے۔ حضرت کا دل غبار کدورت سے صاف رہے۔ مولوی عبدالجمیل صاحب بریلوی کو جانتا ہوں اکثر ان کے خطوط آتے رہتے ہیں گویا وہ اپنا نام ہمیشہ مجھ کو یاد دلاتے رہتے ہیں۔ نہ آپ کہ بعد ایک عمر کے ناگاہ بنامہ یاد فرمائیں اور اپنی اور میری ملاقات کا زمانہ یاد نہ دلائیں۔ بہرحال تمہارا دعا گو ہوں۔ خیر میں جو ہوں۔ اس خط کے جواب میں ایسا کچھ لکھو کہ تم کو پہچان جاؤں۔ کب ملے تھے کَے (کتنی)ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ یہ سب مدارج جان جاؤں نثر کے شیوہ و انداز کا ڈھنگ اچھا ہے۔ خود تمہاری تحریر سے معلوم ہوا کہ شاعر ہو۔ شاعر بھی ہو تخلص کیا ہے۔ ؟ نامہ نگار کا حال بسبیل اجمال یہ ہے کہ سیاست سے محفوظ رہا ہوں اور حکام کی عنایت سے محفوظ رہا ہوں۔ بے وفائی کا داغ نہیں لگا ہے پنشن قدیم کو بدستور حکم اجرا ہے۔ زندگی کا رنگ اچھا دیکھتا ہوں۔ دیکھیئے مرنے کے بعد کیا دیکھتا ہوں۔ یہ مکرم مخدوم آپ کے ہم نام یعنی جناب مولوی احمد حسن صاحب عالی مقام ظاہراً بہت درویش نواز ہیں کہ اس گمنام گوشہ نشین کو حضرت نے سلام لکھا ہے۔ میری طرف سے سلام باشتیاق تمام پہنچائیے۔ والسلام۔ راقم جواب کا طالب۔ اسد اللہ ۔ المتخلص بہ غالب۔

ایضاً

مخدوم مکرم مولوی سید احمد حسن خاں صاحب باور کریں کہ یہ درویش گوشہ نشین تمہارا دوست اور تمہارا دعا گو ہے۔ تمہاری نثر کی طرز پسند تمہاری خواہش مقبول۔ سید احمد حسن صاحب کی خدمت گزاری منظور ؎

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

۶۵ برس کی عمر ہوئی اضمحلال ِ قویٰ۔ ضعفِ دماغ۔ فکرِ مرگ۔ غمِ عقبیٰ۔ جو آپ مجھے دیکھ گئے ہیں میں اب وہ نہیں ہوں۔ نظم و نثر کا کام صرف پچاس برس کی مشق کے زور سے چلتا ہے۔ ورنہ جوہر فکر کی رخشندگی کہاں۔ بوڑھا پہلوان پیچ بتاتا ہے زور نہیں دلوا سکتا۔ بہرحال حکیم صاحب کو میرا سلام کہیئے اور کہیئے کہ آپ بے تکلف اپنا کلام بھیج دیا کریں یہاں سے بعد حک و اصلاح خدمت میں پہنچ جایا کرے گا۔ غالب۔ ۲۱ ستمبر ۱۸۶۰ ء۔

٭٭٭

بنام حکیم سید احمد حسن صاحب مودودی

حضرت قبلہ پہلے التماس یہ ہے کہ آپ سید صحیح النسب تمام امتِ مرحومہ محمد علیہ السلام (صلی اللہ و آلہ وسلم) کے قبلہ و کعبہ۔ جب آپ مجھ کو قبلہ و کعبہ لکھیں تو پھر میں آپ کو کیا لکھوں۔ خدا کے واسطے غور کیجیئے کہ قبلہ قبلہ اور کعبہ کعبہ یہ کیا ترکیب ہے۔ چونکہ آپ نے مجھے استاد گردانا ہے اس التماس کو بھی از قسم اصلاح تصور کیجیئے۔ زنہار قبلہ ء قبلہ کبھی نہ لکھیئے یہ سوءِ ادب ہے بہ نسبت قبلہ عیاذاً باللہ ۔ آپ کا عطوفت نامہ پہنچا۔ میرے پہلے خط کا بدیر پہنچنا اور اس کی دیررسی کا سبب مجھ کو معلوم ہوا۔ اب اس کا خیال رکھوں یہ آپ کو معلوم رہے کہ آپ کے کسی خط کا جواب میرے ذمہ باقی نہیں ہے۔ وہ باتیں جس خط کا جواب نہیں پہنچا اس کو یہ سمجھیئے کہ وہ خط راہ میں تلف ہوئے اور میرے پاس نہیں پہنچے ؎ بہارِ گلستان احمد حسن۔ یہ سجع کیا برا ہے ؎ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن۔ یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انہیں دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیئے۔ غزل بعد اصلاح کے پہنچتی ہے۔ غالب۔ ۱۹۔ ذی الحجہ۔

ایضاً

حضرت پیرو مرشد غزل بعد اصلاح کے پہنچتی ہے۔ غزل سہو سے لکھ گیا ہوں۔ دونوں غزلیں پہنچتی ہیں۔ جناب مولوی انصار علی صاحب سے مجھ کو تعارف اسمی ہے ان کو میر ا سلام کہیئے اور کہیئے کہ حضرت جناب مولوی صدر الدین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا روبکاریاں ہوئیں آخر صاحبان کورٹ نے جان بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائیداد ضبط، ناچار و تباہ لاہور گئے۔ فنانشل کمشنر اور لفٹنٹ گورنر نے از راہِ ترحّم نصف جائیداد واگزاشت کی، اب نصف جاداد (جائیداد)پر قابض ہیں۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں۔ کرایہ پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ یہ امداد ان کی گزارے کو کافی ہے۔ کس واسطے کہ ایک آپ اور ایک بی بیتیس چالیس روپے مہینے کی آمد لیکن چونکہ امام بخش چپراسی کی اولاد ان کی عترت ہے اور وہ دس بارہ آدمی ہیں لہذا فراغ بالی سے نہیں گزرتی۔ ضعفِ پیری نے بہت گھیر لیا ہے۔ عشرہ ثامنہ کے اواخر میں ہیں خدا سلامت رکھے بہت غنیمت ہیں۔ غالب۔ یکشنبہ ۱۹ جنوری ۱۸۶۲ء۔

ایضاً

سید صاحب و قبلہ عنایت نامہ پہنچا۔ پس و پیش ایک رافت نامہ پیر و مرشد سید ابراہیم علی خاں صاحب بہادر اور ایک عطوفت نامہ قبلہ و کعبہ سید عالم علی خاں بہادر کا پہنچا میں علی کا غلام اور اولاد علی کا خانہ زاد لیکن بوڑھا و ناتوان اور مسلوب الحواس اور بے سر سامان۔ خدمت بجا لانے میں عذر کروں تو گنہگار درنگ و توقف کا مضائقہ نہیں لا یکلف اللہ نفساً الا وسعہا۔ خداوند نعمت کیا تم دلّی کو آباد اور قلعہ کو معمور اور سلطنت کو بدستور سمجھے ہوئے ہو۔ جو حضرت شیخ کا کلام اور صاحبزادہ شاہ قطب الدین ابن مولانا فخر الدین علیہ الرحمۃ کا حال پوچھتے ہو۔ ایں دفتر را گاؤ خورد و گاؤ را قصاب برد و قصاب در راہ مرد۔ بادشاہ کے دم تک یہ باتیں تھیں۔ خود میاں کالے صاحب مغفور کا گھر اس طرح تباہ ہوا کہ جیسے جھاڑو دی۔ کاغذ کا پرزہ سونے کا تار پشمینہ کا بال باقی نہ رہا۔ شیخ کلیم اللہ جہان آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا مقبرہ اجڑ گیا۔ کیا ایک اچھے گانو(گاؤں )کی آبادی تھی ان کی اولاد کے لوگ تمام اس موضع میں سکونت پذیر تھے۔ اب ایک گھنا جنگل ہے اور میدان میں قبر۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہاں کے رہنے والے اگر گولی سے بچے ہوں گے تو خدا ہی جانتا ہو گا کہ کہاں ہیں۔ ان کے پاس شیخ کا کلام بھی تھا کچھ تبرکات بھی تھے۔ اب جب وہ لوگ ہی نہیں تو کس سے پوچھوں۔ کیا کروں کہیں سے یہ مدعا حاصل نہ ہو سکے گا۔ سید صاحب قبلہ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ اگر یہی مرضی ہے تو اتحاف و اہدا تکلفِ محض ہے۔ فقیر بے سوال ہوں اگر کچھ بھیج دیں گے رد نہ کروں گا۔ کم و بیش پر نظر نہ کریں جتنے کا چاہیں نوٹ خط میں لپیٹ کر بھیج دیں۔ والسلام از اسد اللہ ۔ روز شنبہ۔ یکم ستمبر ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

پیر و مرشد۔ تین برس عوارض احتراق خون میں ایسا مبتلا رہا ہوں کہ اپنے جسم و جان کی بھی خبر نہیں رہی۔ آپ کے خطوط آئے ہوں گے کوئی خط پڑھ لیا ہو گا۔ کوئی عنوان ناکشودہ پڑا رہا ہو گا۔ البتہ حاجی مصطفے ٰ خاں کا آنا مجھ کو یاد ہے۔ یقین کرتا ہوں کہ انہوں نے از روئے مشاہدہ میری خستگی تن کا حال حضرت کو لکھا ہو گا اب میں اپنی زبان سے یہ کیونکر کہوں کہ اچھا ہوں مگر بیمار اور عوارض میں گرفتار نہیں ہوں۔ بوڑھا، بہرا، اپاہج، بدحواس، ناتوان، فلک زدہ آدمی ہوں۔ عہد کرتا ہوں کہ جب آپ کا خط آئے گا اس کا جواب لکھوں گا۔ جب غزل آئے گی اس کو دیکھ کر پھر بھیج دوں گا۔ مگر حضرت کے مسکن کا پتا بھول گیا ہوں۔ یہ خط تو مصطفے ٰ خاں سوداگر کو بھیجے دیتا ہوں وہ آپ کو بھجوا دیں گے۔ آیندہ جو عنایت نامہ ڈاک میں آئے اس میں مسکن و مقام و شہر کا نام لکھا جائے۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ ۲۴ جولائی ۱۸۶۵ ء۔

ایضاً

حضرت پیر و مرشد ان دنوں میں اگر فقیر کے عرائض نہ پہنچے ہوں یا ارشاد کے جواب ادا نہ ہوئے ہوں موجب ملال ِ خاطر اقدس نہ ہو ؎

اتفاق ِ سفر افتادہ بہ پیری غالب

آنچہ از پائے نیامد ز عصامے آمد

رامپور کی سرکار کا فقیر تکیہ دار و روزینہ خوار ہوں۔ رئیس حال نے مسند نشینی کا جشن کیا۔ دعا گوئے دولت کو درِ دولت پر جانا واجب ہوا۔ ہفتم اکتوبر کو دلّی سے رامپور روانہ ہوا۔ بعد قطع منازل ِستہ وہاں پہنچا۔ بعد اختتام بزم عازم وطن ہوا۔ ہشتم جنوری کو دلّی پہنچا۔ غرض راہ میں بیمار ہوا پانچ دن مراد آباد میں صاحب فراش رہا اب جیسا فرسودہ رُواں ناتواں تھا ویسا ہوں۔ جواب خطوطِ مجتمعہ لکھ سکتا ہوں۔ نواب میر جعفر علی خاں مبرور و مغفور کا خاندان سبحان اللہ ۔ ؎

ایں سلسلہ از طلائے ناب ست

ایں خانہ تمام آفتاب ست

نواب میر غلام بابا خاں میرے دوست اور میرے محسن ہیں۔ راہ و رسم نامہ و پیام مدت سے باہمدگر جاری ہے آپ کا حکم بے تکلف مانوں گا۔ جناب میر ابراہیم علی خاں صاحب اور حضرت منیر علی خان صاحب کی خدمت گزاری کو اپنا فخر و شرف جانوں گا۔ اس وقت بکس کھولا ہے خطوط اطراف و جوانب دیکھ رہا ہوں پہلے حضرت کے خط کا جواب بطریق اختصار لکھا ہے۔ اب جب اس کا جواب آئے گا تب فقیر حکم بجا لائے گا۔ اسد اللہ ۔ چار شنبہ۔ ۱۷ جنوری ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

پیر و مرشد۔ آپ کو میرے حال کی بھی خبر ہے۔ ضعف نہایت کو پہنچ گیا۔ رعشہ پیدا ہو گیا۔ بینائی میں بڑا فتور پڑا۔ حواس مختل ہو گئے۔ جہاں تک ہو سکا احباب کی خدمت بجا لایا۔ اوراق اشعار لیٹے لیٹے دیکھتا تھا اور اصلاح دیتا تھا اب آنکھ سے اچھی طرح سوجھے نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جائے کہتے ہیں کہ شاہ ِ شرف بو علی قلندر کو بسبب کِبر سن کے خدا تعالیٰ نے فرض اور پیمبر نے سنت معاف کر دی تھی۔ میں متوقع ہوں کہ میرے دوست خدمت اصلاح اشعار معاف کریں۔ خطوط شوقیہ کا جواب جس صورت ہو سکے گا لکھ دیا کروں گا۔ زیادہ حد ادب۔ راقم اسد اللہ خان غالب۔ ۸ اپریل۱۸۶۶ء۔

ایضاً

پیر و مرشد۔ یکم محرم کا خط کل ۱۸ محرم کو پہنچا۔ آج ۱۹ کو جواب لکھتا ہوں۔ آپ پر اور میر ابراہیم علی خاں اور میر عالم علی خاں پر میری جان نثار ہے۔ مضیٰ ما مضیٰ۔ اب ایک ایک غزلآپ تینوں صاحب بھیج دیا کیجیئے۔ اسی طرح میں فرداً فرداً بعد اصلاح بھیج دیا کروں گا۔ مگر میرے قبلہ و کعبہ واسطے خدا کے شجرہ منظومہ ارسال نہ فرمائیے گا۔ اس کی اصلاح میری حد و سع سے باہر ہے۔ میرا شیوہ نہیں ہے۔ خط بیرنگ بھیج دیا۔ یہ خط عمداً بیرنگ بھیجتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ پیڈ کے تلف ہونے کا احتمال ہے اور بیرنگ کا نہیں۔ اسد اللہ ۔ شنبہ دوم جون ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

قبلہ ڈاک کے ہرکارہ نے کل دو خط ایک بار پہنچائے ایک آپ کا خط مع غزل اور ایک نواب میر ابراہیم علی خان کا خط مع غزل۔ آج تین باتیں ضروری لکھنی تھیں۔ اس واسطے یہ خط آج روانہ کرتا ہوں۔ ایک بات یہ کہ غزل کا کاغذ واپس بھیجتا ہوں نہ اس کو پھاڑ سکوں نہ پانی میں دھو سکوں۔ شہیدی کی غزل ان قافیوں میں بتغیر ردیف ایسی ہے کہ اب ان قافیوں کا باندھنا ہر گز نہ چاہیے۔ آپ اور غزل لکھیئے اس کو ہرگز دیوان میں نہ رکھیئے۔ یہ بھی اس ضمن میں مناسب ہے کہ میر ابراہیم علی خاں صاحب نے اپنی اصلاحی غزل کی رسید کل کے خط میں لکھدی تھی اپنے خط میں کس راہ سے لکھتے ہیں کہ وہ غزل اصلاحی مانگتے ہیں۔ اسی فصل میں یہ بھی اطلاع دیتا ہوں کہ آپ کی یہ غزل سلا کر سوئے اور نہا کر سوئے اور تاریخ ہائے بنائے مسجد دیکھ کر اور اصلاح دے کر آج پانچواں دن ہے کہ ڈاک میں بھیج چکا ہوں اور دوسری یہ بات ہے کہ آپ سید صاحب کا حال مفصل لکھیئے۔ ایسا کَے لاکھ کا مُلک بڑودہ کی سرکار سے ہمارے محسن کو ملا ہے کہ ان سے دو لاکھ روپیہ نذرانہ مانگا جاتا ہے۔ آگے اس راج میں حسام الدین حسین خان بڑے معزز اور مکرم متوسل تھے اور سیر حاصل جاگیریں رکھتے تھے۔ سید ابراہیم علی خان صاحب اسی خاندان مین سے ہیں اور ہاں یہ بھی لکھیئے کہ میر عالم علی خاں کو ان سے اور آپ کو ان دونوں صاحبوں سے کیا قرابت ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب نوٹ بھیجئے تو اہلِ کلکتہ کی طرح آدھا آدھا دو بار کر کے نہ بھیجئے گا۔ میرے نام کا لفافہ جس شہر سے چلے اسی شہر کے ڈاک گھر میں رہ جائے تو رہ جائے ورنہ دلّی کے ڈاکخانہ میں پہنچ کر کیا امکان ہے کہ تلف ہو۔ اسد اللہ ۲۵ ستمبر ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

حضرت یہ آپ کے جد امجد کا غلام تو مر لیا۔ کثرت احکام تواتر ورود اشعار پھر یہ ہنجار کہ سو روپیہ کے نوٹ کے رسید سو بار مانگتے ہو۔ میر ابراہیم علی خاں صاحب کی غزل جس کا ایک شعر یہ ہے ؎

علی علی جو کہا تا سحر تو یوں سمجھے

کہ ذوالفقار سے کٹتی ہے اب ہماری رات

بعد اصلاح بھیج چکا ہوں اور آپ اس کا تقاضا کیے جاتے ہیں۔ غزلیں آپ کی برستی ہیں کہاں تک دیکھوں۔ آپ کی غزلوں کے ساتھ اور غزلیں بھی گم ہو جاتی ہیں۔ بہتر برس کا آدمی پھر رنجور دائمی غذا یک قلم مفقود۔ آٹھ پہر میں ایک بار آبِ گوشت پی لیتا ہوں۔ نہ روٹی نہ بوٹی نہ پلاؤ نہ خشکہ۔ آنکھ کی بینائی میں فرق۔ ہاتھ کی گیرائی میں فرق۔ رعشہ مستولی۔ حافظہ معدوم۔ جہاں جو کاغذ رہا وہ وہیں رہا۔ میر عالم علی خاں صاحب کی دو غزلیں آئی ہوئی کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں خلاصہ یہ کہ نوٹ عطیہ سید صاحب کا آپ کے خط میں پہنچا۔ روپیہ وصول ہوا۔ معاً خرچ ہوا۔ ان کی ایک غزل ساری رات ہماری رات، جس کا ایک شعر اوپر لکھ آیا ہوں بعد اصلاح بھیج چکا ہوں اور کوئی غزل ان کی اب میرے پاس نہیں۔ اور جناب میر عالم علی خاں صاحب کی دو غزلیں یاد ہے کہ آئی ہیں اگر مل جائیں گی تو بعد اصلاح بھیجوں گا۔ آپ کی غزلیں شمار سے باہر ہیں بکس میں دیکھوں گا کتابوں میں ڈھونڈوں گا۔ مدعا یہ کہ آپ اور دونوں سید صاحب اس کا التزام کریں کہ ایک غزل اپنے خط میں بھیجیں جب وہ غزل اور اس کا جواب پہنچ جائے تب دوسری غزل خط میں ملفوف ہو کر بھیجی جائے اور خط ہر صاحب کا جدا ہو۔ آپ یہ میرا خط غور سے پڑھ لیں اور دونوں سید صاحبوں کو پڑھوا دیں از روئے احتیاط بیرنگ بھیجتا ہوں۔ اسد یکرنگ۔ ۱۸ اکتوبر ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

سید صاحب و قبلہ حکیم سید احمد حسن صاحب کو غالبِ نیم جاں کا سلام پہنچے۔ آگے ناتواں تھا اب نیم جاں ہوں۔ خط نہیں لکھ سکتا۔ ایک لڑکے سے یہ چند سطریں لکھوا دیں ہیں جو میں کہتا گیا ہوں وہ غریب لکھتا گیا ہے۔ آپ سید ہیں اور بزرگ ہیں میرے حق میں دعا کریں کہ اب تہتر برس سے آگے نہ بڑھوں۔ اور اگر زندگی اور ہے تو حق تعالیٰ تھوڑی صحت اور طاقت عنایت کرے تاکہ دوستوں کی خدمت بجا لاتا رہوں۔ غالب۔ ۳ جولائی ۱۸۶۷ء۔

ایضاً

جناب سید صاحب و قبلہ سید احمد حسن صاحب کو غالب نیم جاں کی بندگی مقبول ہو اور یہ عرض بھی قبول ہو کہ جناب معلیٰ القاب نواب ابراہیم علی خاں بہادر کی خدمت میں میری بندگی عرض کریں۔ بارے بصورت تصویر دونوں صاحبوں کی خدمت میں میرا سلامپہنچنا معلوم ہو ا۔ اگرچہ اس صورت میں چلنا پھرنا خدمت بجا لانی نہیں ہو سکتی مگر خیر حضرت کے پیشِ نظر حاضر رہوں گا۔ عنایت کی نظر رہے میرے حال پر یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ نواب صاحب قبلہ کے ہاں اس مہینے میں لڑکا پیدا ہونے والا ہے مجھ کو تاریخ تولد کا خیال رہے گا۔ جب آپ کی تحریر سے نوید تولد معلوم کر لوں گا تب قطعہ یا رباعی جو کچھ ہو گئی ہو گی وہ بھیج دوں گا۔ اور یہ جو آپ نے اپنی اور نواب صاحب کی غزلوں کی اصلاح کے واسطے لکھا ہے مجھے اس حکم کی تعمیل بدل منظور ہے۔ جس مہینے تک میں زندہ ہوں اس مہینے تک خدمت بجا لاؤں گا۔ ۱۷ جولائی ۱۸۶۸ء۔

٭٭٭

 

بنام تفضل حسین خاں صاحب

کیوں صاحب یہ چچا بھتیجا ہونا اور شاگردی و استادی سب پر پانی پھر گیا۔ اگر کوئی ہزار پانسو (پانچ سو)کی چیز ہوتی اور میں تم سے مانگتا تو خدا جانے تم کیا غضب ڈھاتے۔ میرا کلام خرید آٹھ دس روپیہ کی سو وہ بھی میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ کو دے ڈالو تم کو مبارک رہے مجھ کو مستعار دو۔ میں اس کو دیکھ لوں جو میرے پاس نہیں ہے اس کی نقل کر لوں پھر تم کو واپس بھیج دوں۔ اس طرح طلب پر نہ دینا دلیل اس کی ہے کہ مجھ کو جھوٹا جانتا ہو۔ میرا اعتبار نہیں یا کہ مجھ کو آزار دینا اور ستانا بدل منظور ہے وہ کتاب ابھی میرے آدمی کو دے دو۔ باللہ واللہ اس میں سے جو میرے پاس نہیں ہے نقل کر کے تم کو بھیج دوں۔ اگر تم کو واپس نہ دوں تو مجھ پر لعنت اور اگر تم میری قسم کو نہ مانو اور کتاب حامل رقعہ کو نہ دو تم کو آفرین۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام مرزا حاتم علی صاحب مہر

بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے

غلام ساقیِکوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے

سخن کو خامہ غالب کی آتش فشانی

یقین ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے

علاقہ محبت ازلی کو برحق مان کر اور پیوند غلامی جناب مرتضیٰ علی کو سچ جان کر ایک بات اور کہتا ہوں کہ بینائی اگرچہ سب کو عزیز ہے مگر شنوائی بھی تو آخر ایک چیز ہے۔ مانا کہ روشنائی اس کے اجالے میں آئی ہے یہ بھی دلیل آشنائی ہے۔ کیا فرض ہے کہ جب تک دید و ادید نہ ہو لے اپنے کو بے گانہ یک دگر سمجھیں۔ البتہ ہم تم دوستِ دیرینہ ہیں اگر سمجھیں سلام کے جواب میں خط بہت بڑا احسان ہے خدا کرے خط جس میں مَیں نے آپ کو سلام لکھا تھا آپ کی نظر سے گزر گیا ہوا حیاناً اگر نہ دیکھا ہو تو اب مرزا تفتہ سے لے کر پڑھ لیجئے گا۔ اور خط کے لکھنے کے احسان کو اس خط کے پڑھ لینے سے دوبالا کیجیئے گا۔ ہائے میجر جان جاکوب کیا جوان مارا گیا ہے۔ سچ اس کا یہ شیوہ تھا کہ اردو کے فکر کو مانع آتا اور فارسی زبان میں شعر کہنے کی رغبت دلواتا۔ یہ بھی انہیں میں ہے کہ جن کا میں ماتمی ہوں۔ ہزار ہا دوست مر گئے کس کو یاد کروں اور کس سے فریاد کروں۔ جیوں تو کوئی غمخوار نہیں۔ مروں تو کوئی عزا دار نہیں۔ غزلیں آپ کی دیکھیں۔ سبحان اللہ ۔ چشم بد دور۔ اردو کی راہ کے تو سالک ہو گویا اس زبان کے مالک ہو۔ فارسی بھی خوبی میں کم نہیں۔ مشق شرط ہے اگر کہے جاؤ گے لطف پاؤ گے۔ میرا تو گویا بقول طالب آملی اب یہ حال ہے ؎

لب از گفتن چنان بستم کہ گوئی

دہن بر چہرہ زخمے بود بہ شد

جب آپ نے بغیر خط کے بھیجے خط مجھ کو لکھا ہو تو کیوں کر مجھ کو اپنے خط کے جواب کی نہ تمنا ہو۔ پہلے تو اپنا حال لکھیئے کہ میں نے سنا تھا کہ اب کہیں کے صدر امیں ہیں۔ پھر اکبر آباد میں کیوں خانہ نشین ہیں اس ہنگامہ میں آپ کی صحبت حکام سے کیسی رہی۔ راجہ بلوان سنگہ (سنگھ) کا بھی حال لکھنا ضرور (ضروری) ہے کہ کہاں ہیں۔ اور وہ دو ہزار روپیہ مہینا جو ان کو سرکار انگریزی سے ملتا تھا اب بھی ملتا ہے یا نہیں ؟ ہائے لکھنؤ کچھ نہیں کھلتا کہ اس بہارستان پر کیا گزری۔ اموال کیا ہوئے اشخاص کہاں گئے۔ خاندان شجاع الدولہ کے زن و مرد کا انجام کیا ہوا۔ قبلہ و کعبہ حضرت مجتہد العصر کی سرگزشت کیا ہے۔ ؟ گمان کرتا ہوں کہ بہ نسبت میرے تم کو کچھ زیادہ آگہی ہو گی امیدوار ہوں کہ جو آپ پر معلوم ہے۔ وہ مجھ پر مجہول نہ رہے۔ پتا مسکن مبارک کا کشمیری بازار سے زیادہ نہیں معلوم۔ ظاہراً اسی قدر کافی ہو گا ورنہ آپ زیادہ لکھتے۔ مرزا تفتہ کو دعا کہیئے گا اور ان کے اس خط کے پہنچنے کی اطلاع دیجیئے گا جس میں آپ کے خط کی انہوں نے نوید لکھی تھی۔ والسلام۔

ایضاً

بھائی صاحب از روئے تحریر مرزا تفتہ آپ کا چھ کتابوں کی تزئین کی طرف متوجہ ہونا معلوم ہوا۔ پھر بھائی نبی بخش نے دو بار لکھا کہ میں با جمال لکھتا ہوں مفصل مرزا حاتم علی صاحب نے لکھا ہو گا۔ یا رب ان کے دو خط آ گئے مرزا صاحب نے اگر لکھا ہو گا تو ان کے خط کیوں نہ آتا۔ اپنے حسن و اعتقاد سے یوں سمجھا کہ نہ لکھنا بمقتضائے یکدلی ہے جب اپنا کام سمجھ لیے تو مجھ کو لکھنا کیا ضرور ہے مگر اس کو کیا کروں کہ جواب طلب باتوں کا جواب نہیں۔ مطبع اخبار آفتاب عالمتاب میں یکم ستمبر ۱۸۵۸ ء حال سے حکیم احسن اللہ خاں کا نام لکھوا دینا۔ اور دو نمبروں کا اخبار ایک بار بھجوا دینا۔ اور آیندہ ہر ہفتہ اس کے ارسال کا طور ٹھہرا دینا۔ کیوں صاحب یہ یہ امر کیا دشوار تھا کہ آپ نے نہ کیا اور اگر دشوار تھا تو اس کی اطلاع دینی کیا دشوار تھی ابھی شکایت نہیں کرتا پوچھتا ہوں کہ آیا یہ امور مقتضی شکایت ہیں یا نہیں۔ مرزا تفتہ کے ایک خط میں یہ قصہ لکھ چکا ہوں۔ کیا انہوں نے بھی وہ خط تم کو نہیں پڑھایا۔ ہر چند عقل دوڑائی کوئی درنگ کی وجہ خیال میں آئی اب حصول مدعا سے قطع نظر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ دیکھوں چھ مہینے بعد برس دن بعد اگر مرزا صاحب خط لکھتے تو اس امر خاص کا جواب کیا لکھتے ہیں۔ میں بھی شاعر ہوں اگر کوئی مضمون ہوتا تو میرے خیال میں آ جاتا۔ کوئی عذر ایسا میرے ذہن میں نہیں آتا کہ قابل سماعت کے ہو۔ میں بھی تو دیکھوں تم کیا لکھتے ہو۔

ایضاً

صاحب میرے۔ عہدہ وکالت مبارک ہو۔ مؤکلوں سے کام لیا کیجیئے۔ پریوں کو تسخیر کیا کیجیئے۔ مثنوی پہنچی۔ جھوٹ بولنا میرا شعار نہیں۔ کیا خوب بول چال ہے۔ انداز اچھا، بیان اچھا، روز مرہ صاف، حبشیوں کا استغاثہ کیا کہوں کیا مزہ دے رہا ہے۔ اس مثنوی نے اگلی مثنویوں کو تقویم پارینہ کر دیا۔ بیان بخشایش ہم گنہگاروں تک کیوں پہنچے گا مگر ہاں اس راہ سے ؎ کہ مستحق کرامت گنہگار رانند۔ بخشش متوقع ہوں۔ میں ابھی تک یہ نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ نظم ہے یا کہ نثر ہے۔اور مضمون اس کا کیا ہے۔ مرزا یوسف علی خاں آٹھ دس مہینے سے مع عیال و اطفال اسی شہر میں مقیم ہیں میرے مسکن کے پاس ایک مکان کرایہ کو لے لیا ہے۔ اس میں رہتے ہیں ان کو خط بھیجو تو میرے مکان کا پتہ لکھ دینا۔ اور یہ بھی آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سر نامہ پر محلہ کا نام لکھنا ضرور نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام قصہ تمام۔ ہاں یار عزیز کے خط پر میرے مکان کے قریب کا پتہ ضرور ہے۔ دو روز سے شعاع مہر کو دیکھ رہے ہیں۔ اکثر تمہارا ذکر خیر رہتا ہے وہ تو اب ہر وقت یہیں تشریف رکھتے ہیں۔ رات کو تو پھر چھ گھڑی کی نشست رہتی ہے ابھی یہیں سے اٹھ کر گئے ہیں۔ تم کو سلام کہتے ہیں اور شعاع مہر کے مداح اور بیان بخشایش کے مشتاق ہیں۔

ایضاً

جناب مرزا صاحب آپ کا غم فزا نامہ پہنچا۔ میں نے پڑھا۔ یوسف علی خاں عزیز کو پڑھوا دیا۔ انہوں نے جو میرے سامنے اس مرحومہ کا اور آپ کا معاملہ بیان کیا۔ یعنی اس کی اطاعت اور تمہاری اس سے محبت۔ سخت ملال ہوا اور رنج کمال ہوا۔ سنو صاحب شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں یہ تین آدمی تین فن میں سر دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے۔ فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے۔ عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو۔ لیلیٰ اس کے سامنے مری تھی۔ تمہاری محبوبہ تمہارے سامنے مری بلکہ تم اس سے بڑھ کر ہوئے کہ لیلیٰ اپنے گھر میں اور تمہاری معشوقہ تمہارے گھر میں مری۔ بھئی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔ خدا ان دونوں کو بخشے اور ہم تم دونوں کو بھی کہ زخم مرگ ِ دوست کھائے ہوئے ہیں مغفرت کرے۔ چالیس بیالیس برس کا یہ واقعہ ہے۔ باآنکہ یہ کوچہ چھٹ گیا۔ اس فن سے میں بے گانہ محض ہو گیا ہوں لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں۔ اس کا مرنا زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ جانتا ہوں کہ تمہارے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ صبر کرو اور اب ہنگامہ عشق مجازی چھوڑو ؎

سعدی اگر عاشقی کنی و جوانی

عشق محمد بس ست و آل محمد ﷺ۔

اللہ بس ماسویٰ ہوس

ایضاً

شرط ایمان بود ورزش ایمان بالغیب

اے تو غائب زنظر مہر تو ایمان من ست

حلیہ مبارک نظر افروز ہوا۔ جانتے ہو کہ مرزا یوسف علی خاں عزیز نے جو کچھ تم سے کہا اس کا منشا کیا ہے کبھی میں نے بزم احباب میں کہا ہو گا کہ مرزا حاتم علی کے دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ سنتا ہوں کہ وہ طرحداری کا ذکر میں نے مغل جان سے سنا تھا جس زمانہ میں کہ وہ نواب حامد علی خاں کے نوکر تھے۔ اور اس میں مجھ میں بے تکلفانہ ربط تھا تو اکثر مغل سے پہروں اختلاط ہوا کرتے تھے اس نے تمہارے شعر اپنی تعریف کے بھی مجھ کو دکھائے۔ بہرحال تمہارا حلیہ دیکھ کر تمہارے کشیدہ قامت ہونے پر مجھ کو رشک نہ آیا ہو۔ کس واسطے میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے۔ تمہارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا۔ کس واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی (چمپئی) تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا وہ رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے ہاں مجھ کو رشک آیا اور میں نے خونِ جگر کھایا تو اس بات پر کہ ڈاڑھی گھٹی ہوئی ہے وہ مزے یاد آ گئے۔ کیا کہوں جی پر کیا گزری۔ بقول شیخ علی حزیں ؎

تا دسترسم بود زدم چاک گریباں

شرمندگی از خرقہ پشمینہ ندارم

جب ڈاڑھی موچھ (مونچھ)میں بال سفید آ گئے ، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے ناچار مسی بھی چھوڑ دی اور ڈاڑھی بھی۔ مگر یاد رکھیئے کہ اس بھونڈے شہر میں ایک وردی ہے عام۔ ملا، حافظ، بساطی، نیچہ بند، سقہ، بھٹیارہ، جولاہہ، کنجڑا۔ منہ پر ڈاڑھی سر پر بال۔ فقیر نے جس دن ڈاڑھی رکھی اسی دن سر منڈایا۔ لاحول ولا قوۃ لا باللہ العلی العظیم کیا بک رہا ہوں۔ صاحب بندہ نے دستنبو جناب اشرف الامرا جارج فریڈرک ایڈ منشٹن صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر غرب و شمال کی نذر بھیجی تھی۔ سو ان کا فارسی خط محررہ دہم مارچ مشتمل بر تحسین و آفرین و اظہار خوشنودی بطریق ڈاک آ گیا۔ پھر میں نے تہنیت میں لفٹنٹ گورنری کے قصیدہ فارسی بھیجا اس کی رسید میں نظم کی تعریف اور اپنی رضامندی پر متضمن خط فارسی بسبیل ڈاک مرقومہ چار دہم آ گیا۔ پھر ایک قصیدہ فارسی مدح و تہنیت میں جناب رابرٹ منٹگمری صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب کے خدمت میں بواسطہ صاحب کمشنر بہادر دہلی بھیجا تھا۔ کل ان کا مہری خط بذریعہ صاحب کمشنر بہادر دہلی آ گیا۔ پنشن کے باب میں ابھی کچھ حکم نہیں۔ اسباب توقع کے فراہم ہوتے جاتے ہیں۔ دیر آید درست آید اناج کھاتا بھی نہیں ہوں آدھ سیر گوشت دن کو پاؤ بھر شراب رات کو ملے جاتی ہے ؎

ہر ایک بات میں کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

اگر ہم فقیر سچے ہیں اور اس غزل کے طالب کا ذوق پکا ہے تو یہ غزل اس خط سے پہلے پہنچ گئی ہو گی رہا سلام وہ آپ پہنچا دیں گے۔

ایضاً

مرزا صاحب ہم کو یہ باتیں پسند نہیں۔ پینسٹھ برس کی عمر ہے۔ پچاس برس عالم رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے یہ نصیحت کی کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں۔ ہم مانع فسق و فجور نہیں۔ پیو، کھاؤ، مزے اڑاؤ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کا غم کرے جو آپ نہ مرے۔ کیسی اشک فشانی کہاں کی مرثیہ خوانی۔ آزادی کا شکر بجا لاؤ۔ غم نہ کھاؤ اور اگر ایسے ہی اپنی گرفتاری سے خوش ہو تو چنا جان نہ سہی منا جان سہی۔ میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا۔ اور ایک حور ملی اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی زمردین کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ۔ چشم بد دور، وہی ایک حور۔ بھائی ہوش میں آؤ کہیں اور دل لگاؤ ؎

زنِ نو کن اے دوست در نوبہار

کہ تقویم پارینہ ناید بہ کار

مرزا مظہر کے اشعار کی تضمین کا مسدس دیکھا فکر سراپا پسند۔ ذکر بہمہ جہت ناپسند۔ اپنے نام کا خط مع ان اشعار کے مرزا یوسف علی خاں عزیز کے حوالہ کیا۔ مکرمی نواب محمد علی خاں صاحب کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں پروردگار ان کو سلامت رکھے۔ مولوی عبدالوہاب صاحب کو میرا سلام۔ دم دے کے مجھ سے فارسی کی عبارت میں خط لکھوایا۔ میں منتظر رہا کہ آپ لکھنؤ جائیں گے وہ عبارت جناب قبلہ و کعبہ کو دکھائیں گے ان کے مزاج اقدس کی خیر و عافیت مجھ کو رقم فرمائیں گے۔ میں کیا جانوں کہ حضرت میرے وطن میں جلوہ افروز ہیں ؎ یار درخانہ و من گرد جہاں میگردم۔ اب مجھے ان سے یہ استدعاہے کہ دستخط خاص سے مجھ کو خط لکھیں اور لکھنؤ نہ جانے کا سبب اور جناب قبلہ و کعبہ کا حال جو کچھ معلوم ہو وہ سب اس خط میں درج کریں۔

ایضاً

؎مرا بسادہ دلیہائے من توان بخشید

خطا نمودہ ام و چشم ِ آفرین دارم

کل دو شنبہ کا دن ۲۰ ستمبر کی تھی۔ صبح کو میں نے آپ کو شکایت نامہ لکھا اور بیرنگ ڈاک میں بھیج دیا۔ دوپہر کو ڈاک کا ہرکارہ آیا۔ تمہارا خط اور ایک مرزا تفتہ کا خط لایا معلوم ہوا کہ جس خط کا جواب میں آپ سے مانگتا ہوں وہ نہیں پہنچا کچھ شکوہ سے شرمندگی اور کچھ خط کے نہ پہنچنے سے حیرت ہوئی۔ دوپہر ڈھلے مرزا تفتہ کے خط کا جواب لکھ کر ٹکٹ نکالنے لگا۔ بکس میں سے وہ تمہارے نام کا خط لکھ کر بھول گیا ہوں اور ڈاک میں نہیں بھیجا اپنے نسیان کو لعنت کی اور چپ ہو رہا۔ متوقع ہوں کہ میرا قصور معاف ہو۔ بعد چاہنے عفو کرم کے آپ کے کُل خط کا جواب لکھتا ہوں۔ سبحان اللہ جلدوں کی آرایش کے باب میں کیا اچھی فکر کی ہے۔ میرے دل میں بھی ایسی ہی ایسی باتیں تھیں۔ یقین ہے کہ متاع شاہوار ہو جائیں گے۔ اہار مہرہ اگر ہو جائے گا تو حرف خوب چمک جائیں گے اس کا خیال ان چار جلدوں میں ہے۔ رہی بارہ روپیہ کی ہنڈوی پہنچتے ہی روپیہ وصول کر کے مجھ کو اطلاع دیجیئے گا ورنہ میں مشوش رہوں گا حضرت یہاں دو چیزیں مشہور ہیں۔ ان کے باب میں آپ سے تصدیق چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ لوگ کہتے ہیں کہ آگرہ میں اشتہار جاری ہو گیا ہے اور ڈھنڈورا پٹ گیا ہے کہ کمپنی کا ٹھیکہ ٹوٹ گیا اور بادشاہی عمل ہندوستان میں ہو گیا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ جناب اڈمنشٹن صاحب بہادر گورنمنٹ کلکتہ کے چیف سکرٹر اکبرآباد کے لفٹنٹ گورنر ہو گئے۔ خبریں دونو(دونوں) اچھی ہیں خدا کرے سچ ہوں اور سچ ہونا ان کا آپ کے لکھنے پر منحصر ہے ہاں صاحب ایک بات اور ہے اور وہ محل غور ہے۔ میں نے حضرت ملکہ معظمہ انگلستان کی مدح میں ایک قصیدہ ان دنوں میں لکھا ہے۔ تہنیت فتح اور عملداری شاہی ساٹھ بیت ہے۔ منظور یہ تھا کہ کتاب کے ساتھ قصیدہ ایک اور کاغذ مذہّب پر لکھ کر بھیجوں۔ پھر یہ خیال میں آیا کہ دس سطر کے مسطر پر کتاب لکھی گئی ہے یہ یعنی چھاپا ہوئی اگر یہ چھ صفحے یعنی تین ورق اور چھپ کر اس کتاب کے آغاز میں شامل جلد ہو جائیں تو بات اچھی ہے آپ اور منشی نبی بخش صاحب اور مرزا تفتہ، منشی شیو نراین صاحب سے کہہ کر اس کا طور درست کریں اور پھر مجھ کو اطلاع دیں تو میں مسودہ آپ کے پاس بھیج دوں۔ جب کتاب چھپ چکے تو یہ چھپ جائے۔ دو باتیں ہیں ا یک تو یہ کہ چھپے بعد کتاب کے اور لگایا جائے پہلی کتاب سے دوسرے یہ کہ اس کی سیاہ قلم کی لوح الگ ہو اور پہلے صفحہ پر جس طرح کتاب کا نام چھاپتے ہیں اس طرح یہ بھی چھاپا جائے کہ قصیدہ در مدح س جناب ملکہ انگلستان خلداللہ ملکہا۔ میرا نام کچھ ضرور نہیں کتاب کے پہلے صفحہ پر تو ہو گا۔ ہنڈوی کی رسید اور اس مطلب خاص کا جواب با صواب یعنی نوید قبول جلد لکھیئے۔

ایضاً

بندہ پرور۔ آپ کا مہربانی نامہ آیا۔ آپ کی مہر انگیز اور محبت خیز باتوں نے غم بے کسی بھلایا۔ کہاں دھیان لڑا ہے کہاں سے دستنبو کی مناسبت کے واسطے ید بیضا ڈھونڈھ نکالا ہے آفرین آفرین صد ہزار آفرین۔ تیسرا مصرع اگر یوں ہو تو فقیر کے نزدیک بہت مناسب ہے ؎ نامہ خود سالِ خویش داد نشاں۔ مرزا تفتہ کا خط ہاترس سے آیا ان کے لڑکے بالے اچھے ہیں آپ گھبرائیں نہیں وہ آئے کے آئے ہیں۔ اگر تمہیں بدون ان کے آرام نہیں توان کو بغیر تمہارے چین کہاں صاحب بندہ اثنا عشری ہوں۔ ہر مطلب کے خاتمہ پر بارہ کا ہندسہ کرتا ہوں خدا کرے میرا خاتمہ اسی عقیدے پر ہو۔ ہم تم ایک آقا کے غلام ہیں تم جو مجھ سے محبت کرو گے یا میری غم گساری میں محبت کرو گے کیا تم کو غیر جانوں جو تمہارا احسان مانوں۔ تم سراپا مہر و وفا ہو۔ واللہ اسم بامسمیٰ ہو۔ مبالغہ اس کتاب کے تصحیح میں اس واسطے کرتا ہوں کہ عبارت کا ڈھنگ نیا ہے صحیح کا درست پڑھنا بڑی بات ہے اگر غلط ہو جائے تو پھر وہ عبارت نری خرافات ہے۔ بارے بسبب التفات بھائی منشی نبی بخش صاحب کے صحت الفاظ سے خاطر جمع ہے متوقع ہوں کہ وہ تکلیف سہیں اور ختم کتاب متوجہ رہیں۔ منشی نراین صاحب نے میری کاپی دیکھنے کو بھیجی تھی۔ سب طرح میرے پسند آئی۔ چنانچہ ان کو لکھ بھیجا ہے اگر ہو سکے تو سیاہی ذرا اور بھی رنگت کی اچھی ہو۔ حضرت چار جلدیں یہاں کے حکام کو دوں گا اور دو جلدیں ولایت کو بھیجوں گا۔ اللہ اللہ کیا غفلت ہے اور کیا اعتماد ہے زندگی پر۔ بہرحال یہ ہوس تھی اور شاید اب بھی ہو کہ اب چھ جلدوں کی کچھ تزئین اور آرایش کی جاوے آپ اور بھائی صاحب اور ان کا فرزند رشید منشی عبد اللطیف اور منشی شیو نراین یہ چاروں صاحب فراہم ہوں اور باجلاس کونسل یہ امر تجویز کیا جاوے معہذا دو روپیہ کتاب سے زیادہکا مقدور بھی نہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ چار جلدیں چھ روپیہ میں اور دو جلدیں چھ روپیہ میں تیار ہوں پھر سوچتا ہوں کہ یا رب آرایش کی گنجایش کہاں۔ ناچار چار کتابوں کی جلد ڈیڑھ ڈیڑھ روپیہ کی اور دو کتابوں کی جلد تین تین روپیہ کی بنائی جاوے۔ قصہ مختصر کچھ کیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ تیری رائے کونسل میں مقبول اور صرف جلدوں کی تیاری منظور ہوئی بارہ روپیہ بھیج دئیے۔ مطالب و مقاصد تمام ہوئے اور ہم تم بزبانِ قلم باہمدگر ہم کلام ہوئے۔

ایضاً

مرزا صاحب میں نے وہ انداز تحریر ایجاد ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کرو۔ ہجر میں قصال کے مزے لیا کرو۔ کیا تم نے مجھ سے بات کرنے کی قسم کھائی ہے۔ اتنا تو کہو کہ یہ کیا بات تمہارے جی میں آئی ہے۔ برسوں ہو گئے کہ تمہارا خط نہیں آیا۔ نہ اپنی خیر و عافیت لکھی نہ کتابوں کا بورا بھجوایا۔ ہاں مرزا تفتہ نے ہاترس سے یہ خبر دی ہے کہ پانچ ورق پانچوں کتابوں کے آغاز کے ان کو دے آیا ہوں اور انہوں نے سیاہ قلم کی لوحوں کی تیاری کی ہے یہ تو بہت دن ہوئے جو تم نے مجھ کو خبر دی ہے کہ دو کتابوں کی طلائی لوح مرتب ہو گئی ہے۔ پھر اب کتابوں کی جلدیں بن جانے کی کیا خبر ہے اور ان پانچوں کتابوں کے تیار ہونے میں درنگ کس قدر ہے۔ مہتمم مطبع کا خط پرسوں آیا تھا وہ لکھتے ہیں کہ تمہاری چالیس کتابیں بعد منہائی لینے سات جلدوں کے اسی ہفتہ میں تمہارے پاس پہنچ جائیں گی اب حضرت کیا ارشاد کریں کہ یہ سات جلدیں کب آئیں گی۔ ہر چند کاریگروں کے دیر لگانے سے تم بھی مجبور ہو۔ مگر ایسا کچھ لکھو کہ آنکھوں کی نگرانی اور دل کی پریشانی دور ہو خدا کرے ان تینتیس جلدوں کے ساتہ (ساتھ)یا دو تین روز کے آگے پیچھے یہ سات جلدیں آپ کی عنایتی بھی آئیں تا خاص و عام جا بجا بھیجی جائیں۔ میرا کلام میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ نواب ضیاء الدین خاں اور نواب حسین مرزا جمع کر لیتے تھے جو میں نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ ان دونوں کے گھر لٹ گئے۔ ہزاروں روپیہ کی کتاب خانے برباد ہو گئے اب میں اپنے کلام کے دیکھنے کو ترستا ہوں۔ کئی دن ہوئے کہ ایک فقیر کہ وہ خوش آواز بھی ہے اور زمزمہ پرداز بھی ہے ایک غزل میری کہیں سے لکھوا لایا اس نے وہ کاغذ جو مجھ کو دکھایا یقین سمجھنا کہ مجھ کو رونا آیا۔ غزل تم کو بھیجتا ہوں۔ اور صلہ میں اس خط کے جواب چاہتا ہوں۔

غزل

درد منت کشِ دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دلستانی ہے

لے کے دلستاں روانہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما

کا م گر رک گیا روا نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کچھ تو پڑھیئے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا۔

ایضاً

بھائی صاحب آپ کے خامہ مشکبار کے صریر نے کتابوں کی لوح طلائی کا آوازہ یہاں تک پہنچایا بلکہ مجھ کو ان کی لوحوں کا خط طلائی مانند شعاع آفتاب نظر آیا۔ کیا پوچھنا ہے اور کیا کہنا ہے مجھ کو تو بموجب اس مصرعہ کے ؎ خاموش از ثنائے تو حد ِ ثنائے تست۔ دل میں خوش ہو کر چپ رہنا ہے۔ حضرت مدح کو ایک موقع ضرور ہے۔ مجھ کو آپ کا حکم بجا لانا منظور ہے۔ اس نذر کے بعد جب کوئی ان کا عنایت نامہ آئے گا تو بندہ درگاہ مدح گستری کا جوہر دکھائے گا اس نظم میں آپ کا ذکر خیر بھی آ جائے گا۔ اب یہ تو فرمائیے کہ مدت انتظار کب انجام پائے گی اور کتابوں کی روانگی کی خبر مجھ کو کب آئے گی آپ کے فرط توجہ کا سب طرح یقین ہے۔ سیاہ قلم کی پانچوں لوحیں بھی اگر بن گئی ہوں تو عجب نہیں ہے۔ جلدوں کا بنانا البتہ چھاپے کے اختتام پر موقوف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھائی نبی بخش صاحب اور ہمارے شفیق منشی شیو نراین صاحب کی ہمت اس کے جلد انجام ہونے پر مصروف ہے۔ یا رب اسی اکتوبر کے مہینے میں یہ کام انجام پا جائے اور چالیس جلدوں کا پشتارہ میرے پاس آ جائے۔ مرزا تفتہ کو کیا دوں اور کیا لکھوں۔ مگر دعا دوں اور دعا لکھوں۔ صاحب اب ڈھیل نہ کرو کام میں تعجیل کرو ؎ اے زفرصت بے خبر در ہر چہ باشی زود باش۔ خدا کرے نثر کی تحریر انجام پا گئی ہو۔ اور قصیدہ کے چھاپنے کی نوبت آ گئی ہو۔ قصیدہ کا نثر سے پہلے لگانا از راہِ اکرام و اعزاز ہے ورنہ نثر میں اور صنعت اور نظم کا اور انداز ہے۔ یہ اس کا دیباچہ کیوں ہو۔ بلکہ صورت ان دونوں کے اجماع کی یوں ہو کہ سررشتہ آمیزش توڑ دیا جائے اور قصیدے کے اور دستنبو کے بیچ میں ایک ورق سادہ چھوڑ دیا جائے۔ رائے امید سنگہ (سنگھ) کا کوئی خط اگر اندور سے آیا ہو تو مجھ کو بھی آ گہی دو۔ چاہو تمہیں ابتدا کرو اور ایک خط ان کو لکھو اور اس کا پرداز اس بات پر رکھو کہ اب وہ کتابیں تیار ہو نے کو آئی ہیں۔ آپ کی خدمت میں کہاں بھیجی جائیں اور کیا پتا لکھا جائے۔ یہ خط جواب طلب ہو جائے گا اور ان کو جواب لکھنا پڑے گا۔

ایضاً

بھائی صاحب مطبع میں سے سادہ کتابیں یقین ہے کہ آج کل پہنچ جائیں اور پس و پیش سات جلدیں آپ کی بنوائی ہوئی آئیں۔ بالفعل ایک اور عقدہ سرشتہ خیال میں پڑا ہے یعنی ازروئے اخبار مفید خلائق ذہن لڑا ہے کہ اس ہفتہ میں جناب اڈمنشٹن صاحب بہادر آگرہ آئیں گے اور دساؤہ لفٹنٹ گورنری پر اجلاس فرمائیں گے۔ اس صورت میں اغلب ہے کہ ولیم میور صاحب بہادر ان کی جگہ چیف سکرٹر بن جائیں گے۔ پھر دیکھیئے کہ یہ محکمہ لفٹنٹ گورنری میں اپنا سکرٹر کس کو بنائیں گے۔ میر منشی اس محکمہ کے تو وہی منشی غلام غوث خاں بہادر رہیں گے۔ ہمارے منشی مولوی قمر الدین خاں کہاں رہیں گے۔ بہرحال آپ سے یہ استدعا ہے کہ پہلی کتابوں کا احوال لکھیئے اور پھر جدا جدا جواب ہر سوال کا لکھیئے۔ جب تک اڈمنشٹن صاحب بہادر چیف سکرٹر تھے تو یہ خیال تھا کہ ان کی نذر اور نواب گورنر جنرل بہادر کی نذر یعنی دو کتابیں مع اپنے خط کے ان کے پاس بھیجوں گا اب حیران کہ کیا کروں۔ آیا ان کی جگہ سکرٹر کون ہوا اور یہ جو لفٹنٹ گورنر ہوئے تو انہوں نے سکرٹر کس کو کیا۔ میر منشی لفٹنٹ گورنر کا کون رہا اور گورنر جنرل کا منشی کون ہے۔ جو آپ کو معلوم ہوا اور جو نہ معلوم ہو وہ دریافت کر کے لکھیئے۔ قمر الدین خان کا حال ضرور۔ منشی غلام غوث خان کا حال پُر ضرور۔ بھائی میرے سرکی قسم اس خط کا جواب ضرور لکھنا اور مفصل لکھنا اور ایسا واضح لکھنا کہ مجھ سا کند ذہن اچھی طرح اس کو سمجھ لے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ غالب۔

ایضاً

بھائی صاحب خدا تم کو دولت و اقبال روز افزوں عطا کرے اور ہم تم ایک جگہ رہا کریں۔ خدا کرے قصیدے کے چھاپے کی منظوری اور ہنڈوی کی رسید آئے گویا صفر کے مہینے میں عید آئے۔ ہنڈوی کا روپیہ جب چاہو منگواؤ۔ اور کتابوں کی لوحیں اور جلدیں موافق اپنی رائے کے بنوا لو۔ اب آپ دو ورقہ کا ڈاک میں بھیجنا موقوف رکھیں اور کتابوں کی درستی پر ہمت مصروف رکھیں۔ قصیدہ کے مسودہ کا ورق مرزا تفتہ کے خط میں پہنچ گیا ہو گا آپ نے اور مرزا تفتہ نے اور بھائی نبی بخش صاحب نے قصیدہ کو دیکھا ہو گا قصیدہ کا کتاب میں شامل ہونا بہت ضرور ہے۔ پر دیکھا چاہیے کہ صاحبِ مطبع کو کیا منظور ہے۔ اگر وہ کاغذ کی قیمت کا عذر کریں گے تو ہم پانچ سات روپیہ سے اور بھی ان کا بھرنا بھریں گے۔ جناب اڈمنشٹن صاحب بہادر سے میں صورت آشنا نہیں۔ کبھی میں نے ان کو دیکھا نہیں۔ خطوں کی میری ان کی ملاقات ہے اور نامہ و پیام کی یوں بات ہے کہ جب کوئی نواب گورنر جنرل بہادر نئے آتے ہیں تو میری طرف سے ایک قصیدہ بطریقِ نذر جاتا ہے بذریعہ جناب صاحب ایجنٹ بہادر دہلی اور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر آگرہ بھجواتا ہوں اور صاحب سکرٹر بہادر گورنمنٹ کا خط اس کی رسید میں بسبیل ڈاک پاتا ہوں۔ جب جناب لارڈ کیننگ صاحب بہادر نے کرسی گورنری پر اجلاس فرمایا تو میں نے موفق دستور کے قصیدہ کا ڈاک بھجوایا۔ اڈمنشٹن صاحب بہادر چیف سکرٹر کا جو مجھ کو خط آیا تو انہوں نے باوجود عدم سابقہ معرفت میرا القاب بڑھایا۔ قبل ازیں خان صاحب بسیار مہربان دوستان میرا القاب تھا۔ اس قدر شناس نے از راہِ قدر افزائی خانصاحب مشفق بسیار مہربان مخلصان لکھا۔ اب فرمائیے ان کو کیونکر اپنا محسناور مربی نہ جانوں کیا کافر ہوں جو احسان نہ مانوں۔ برخوردار مرزا تفتہ کو دعا کہتا ہوں۔ بھائی اب میں اس کا منتظر رہتا ہوں تم اور مرزا صاحب مجھ کو لکھو کہ لو صاحب دستنبو کا چھاپا تمام کیا گیا اور قصیدہ چھاپ کر ابتدا میں لگا دیا گیا۔ مادّہ تاریخ میں کیا برائی ہے جو تمہارے جی میں یہ بات آئی ہے کہ مجھ سے بار بار پوچھتے ہو مادّہ اچھا ہے۔ قطعہ لکھ لو اور خاتمہ کتاب پر لگا دو۔ ایک قطعہ مرزا صاحب کا ایک قطعہ تمہارا۔ یہ دونوں قطعے رہیں۔ اور اگر وہاں کوئی اور صاحب شاعر ہوں تو وہ بھی کہیں۔ اس عبارت سے یہ نہ سمجھنا کہ روئے سخن ساری خدائی کی طرف ہے بلکہ خاص اشارہ بھائی کی طرف ہے۔ مولانا حقیر کو توجہ اس باب میں چاہیئے اور ان کا نام بھی اس کتاب میں چاہیے۔ اس خط کو لکھ کر بند کر چکا تھا کہ ڈاک کا ہرکارہ میرے مشفق منشی شیو نراین صاحب کا خط لایا۔ بارے قصیدہ کا مسودہ پہنچ گیا اور منشی صاحب نے اس کا چھاپنا قبول کیا۔ یہ تشویش بھی رفع ہو گئی۔ ان سے میرا سلام کہیئے اور یہ کہیئے گا ؎ شکر رافتہائے تو چندانکہ رافت ہائے تو۔ اور یہ ان کو اطلاع دیجئے گا کہ اخبار کا لفافہ مجھ کو نہیں پہنچا ورنہ کیا امکان کہ میں اس کی رسید نہ لکھتا۔

ایضاً

خود شکوہ دلیل رفع آزار بس ست

آید بزبان ہر انچہ از دل برود

بندہ پرور فقیر شکوہ سے برا نہیں مانتا مگر شکوہ کے فن کو سوائے میرے کوئی نہیں جانتا۔ شکوہ کی خوبی یہ ہے کہ راہِ راست سے منہ نہ موڑے اور معہذا دوسرے کے واسطے جواب کی گنجایش نہ چھوڑے۔ کیا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو آپ کا فرخ آباد جانا معلوم ہو گیا تھا اس واسطے آپ کو خط نہیں لکھا تھا۔ کیا میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں نے ا س عرصہ میں کئی خط بھجوائے اور وہ الٹے پھر آئے آپ شکوہ کاہے کو کرتے ہیں اپنا گناہ میرے ذمہ دھرتے ہیں نہ جاتے وقت لکھا کہ میں کہاں جاتا ہوں نہ وہاں جا کر لکھا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ کل آپ کا مہربانی نامہ آیا۔ آج میں نے اس کا جواب بھجوایا۔ کہیئے اپنے دعوے میں صادق ہوں یا نہیں۔ پس درد مندوں کو زیادہ ستانا اچھا نہیں۔ مرزا تفتہ سے آپ فقط ان کے خط نہ لکھنے کے سبب سرگراں ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ ان دنوں کہاں ہیں۔ آج توکلت علی اللہ سکندرآباد خط بھیجتا ہوں دیکھوں کیا دیکھتا ہوں۔

ایضاً

بھائی صاحب تمہارا خط و قصیدہ پہنچا۔ اصل خط تمہارا لفافہ میں لپیٹ کر مرزا تفتہ کو بھیج دیا تاکہ حال ان کو مفصل معلوم ہو جائے۔ بعد اس رپورٹ کے تم کو تہنیت دیتا ہوں پروردگار بتصدق ائمہ اطہار یہ پیش آمد اقبال تم کو مبارک کرے۔ اور منصب ہائے خطیر اور مدارج عظیم کو پہنچا دے۔ واقعی یہ کہ تم نے بڑی جرات کی فی الحقیقت اپنی جان پر کھیلتے تھے۔ بات پیدا کی مگر اپنی مردمی و مردانگی سے دولت کا ہاتھ آنا مع نیک نامی اس سے بہتر دنیا میں کوئی بات نہیں۔ اب یقین یہ ہے کہ خدمت منصفی ملے اور جلد ترقی کرو ایسا کہ سال آیندہ تک صدر الصدور ہو جاؤ۔ اللہ اللہ ایک وہ زمانہ تھا کہ مغل نے تمہارا ذکر مجھ سے کیا تھا اور وہ اشعار جو تم نے اس کے حسن کے وصف میں لکھے تھے تمہارے ہاتہ (ہاتھ)کے لکھے ہوئے مجھ کو دکھائے تھے۔ اب یہ ایک زمانہ ہے کہ طرفین سے نامہ و پیام آتے جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ دن بھی آ جائے گا کہ ہم تم بیٹھیں اور باتیں کریں۔ قلم بے کار ہو جائے۔ زبان بر سر گفتار آئے۔ انشاءاللہ خان کا بھی قصیدہ میں نے دیکھا ہے۔ تم نے بہت بڑھ لکھا ہے اور اچھاسماں باندھا ہے۔ زبان پاکیزہ مضامین اچھوتے ، معانی نازک، مطالب کا بیان دلنشین۔ زیادہ کیا لکھوں۔

ایضاً

خدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ آپ کو اپنی طرف متوجہ پاتا ہوں۔ مرزا تفتہ کا خط جو آپ نے نقل کر کے بھیج دیا ہے میں نے منشی شیو نراین کا بھیجا ہوا اصل خط دیکھ لیا ہے۔ اگر تم مناسب جانو تو ایک بات میری مانو۔ رقعاتِ عالمگیری یا انشاء خلیفہ اپنے سامنے رکھ لیا کرو جو عبارت اس میں سے پسند آیا کرے وہ خط میں لکھ دیا کرو۔ خط مفت میں تمام ہو جایا کرے گا اور تمہارے خط کے آنے کا نام ہو جایا کرے گا۔ اگر کبھی قصیدہ کہا اس کا دیکھنا مشاہدہ اخبار پر موقوف رہا ؎ براتِ عاشقاں بر شاخِ آہو۔ واقعی جو اخبار آگرہ سے دلّی آتے ہیں وہ میرے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔ صاحب ہوش میں آؤ اور مجھ کو بتاؤ کہ یہاں جو پارسیوں کی دکانوں میں فرنچ اور شام پین کے درجن دھرے ہوئے ہیں یا ساہو کاروں اور جوہریوں کے روپیہ اور جواہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں کہاں وہ شراب پینے جاؤں گا اور وہ مال کیونکر اٹھاؤں گا۔ بس زیادہ باتیں نہ بنائیے اور وہ قصیدہ مجھ کو بھجوائیے۔ میں نے کتابیں جا بجا بسبیل پارسل ارسال کی ہیں۔ اگرچہ پہنچنے کی خبر پائی ہے مگر نوید قبول ابھی کہیں سے نہیں آئی ہے ؎

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچہ(کچھ) نہ کچہ گھبرائیں کیا

دیکھنا بھائی اس غزل کا مطلع کیا ہے ؎

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

موجِ خون سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

غزل ناتمام ہے

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغِ نہاں اور

ابرو سے کیا اس نگہ ناز کو پیوند

ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور

یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے

جلاد سے لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب ’ کا ہے اندازِ بیاں اور

دو شنبہ کا دن۔ ۲۰ دسمبر کی۔ صبح کا وقت ہے۔ انگیٹھی رکھی ہوئی ہے۔ آگ تاب رہا ہوں اور خط لکھ رہا ہوں یہ اشعار یاد آ گئے تم کو لکھ بھیجے۔ والسلام۔

 

ایضاً

بھائی جان کل جو جمعہ روز مبارک و سعید تھا گویا میرے حق میں روز عید تھا۔ چار گھڑی دن رہے نامہ فرحت فرجام اور چار گھڑی کے بعد وقت شام سات جلدوں کا پارسل پہنچا واہ کیا خوب بر محل پہنچا۔ آدمی کو موافق اس کی تمنا کے آرزو بر آنی بہت محال ہے۔ میری آرزو ایسی بر آئی کہ وہ برتر از وہم و خیال ہے۔ یہ بناؤ تو میرے تصور میں بھی نہیں گزرنا تھامیں تو صرف اس قدر خیال کرتا تھا کہ جلدیں بندھی ہوئی، دو کی لوحیں زریں ، اور پانچ کی لوحیں سیاہ قلم کی ہوں گی۔ واللہ اگر تصور میں بھی گزرتا ہو کہ کتابیں اس رقم کی ہوں گی۔ جب تک جہاں ہے تم جہان میں رہو۔ آئمہ اطہار علیہم السلام کی امان میں رہو۔ میرا مقصود یہ تھا کہ ایک کتاب مثل ان چار کے بن جائے نہ یہ کہ دو کتابوں کا رنگ دکھلائے اب میں حیران ہوں کہ آیا شمار آئمہ نے ان بارہ روپوں میں برکت دی یا کچہ (کچھ)اور تمہارا روپیہ صرف ہوا۔ دو پارسلوں کا محصول۔ دو رجسٹریوں کا معمول۔ تین کتابوں کی لوحیں طلائی۔ یہ ساری بات اس روپیہ میں کیونکر بن آئی۔ اور کیونکر معلوم کروں۔ کس سے پوچھوں۔ خدا کرے تم تکلف نہ کرو اور اس ا مر کے اظہار میں توقف نہ کرو۔ خفقانی آدمی کو بغیر حال معلوم ہوئے آرام نہیں آتا۔ جہاں محبتیں دینی اور روحانی ہوں وہاں تکلف نہیں آتا۔ زیادہ اس سے کہ شکر گزار ہوں اور شرمسار ہوں۔ کیا لکھوں۔

ایضاً

بندہ پرور آپ کا خط کل پہنچا آج جواب لکھتا ہوں۔ داد دینا کتنا شتاب لکھتا ہوں۔ مطالب مندرجہ کے جواب کا بھی وقت آتا ہے پہلے تم سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ برابر کئی خطوں میں تم کو غم و اندوہ کا شکوہ گزار پایا ہے۔ پس اگر کسی بے درد پر دل آیا ہے تو شکایت کی کیا گنجایش ہے۔ بلکہ یہ غم تو نصیب دوستان در خور افزایش۔ بقول غالب علیہ الرحمۃ؎

کسی کودے کے دل کوئی نوا سنج ِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی پہلو میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

ہے ہے حسن مطلع ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوا تُو دوست جس کا دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

افسوس ہے کہ اس غزل کے اور اشعار یاد نہ آئے۔ اگر خدانخواستہ باشد غمِ دنیا ہے تو بھائی ہمارے ہمدرد ہو ہم اس بوجہ(بوجھ) کو مردانہ اٹھا رہے ہیں۔ تم بھی اٹھاؤ اگر مرد ہو۔ بقول غالب مرحوم؎

دلا یہ درد و الم ہے تو مغتنم ہے کہ آخر

نہ گریہ سحری ہے نہ آہِ نیم شبی ہے

سحر ہو گی۔ خبر ہو گی۔ اس زمین میں وہ شعر یعنی ؎

تمہارے واسطے دل سے مکان کوئی نہیں بہتر

جو آنکھوں میں تمہیں رکھوں تو ڈرتا ہوں نظر ہو گی

کتنا خوب ہے اور اردو کا کیا اچھا اسلوب ہے۔ قصیدہ کا مشتاق ہوں خدا کرے جلد چھاپا جاوے تو ہمارے دیکھنے میں بھی آ جائے۔ کیا کہیئے بھلا کہیئے۔ یہ زمین ایک بار جہاں طرح ہوئی تھی مگر بحر اور ہی تھی ؎

کہوں جو حال تو کہتے ہو مدّعا کہیئے

تم ہی کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیئے

رہے نہ جان تو قاتل کو خون بہاد دیجیئے

کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیئے

سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ

خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیئے

اور جو فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یہ بحر ہے۔ اس میں میرا ایک قطعہ ہے کہ وہ میں نے کلکتہ میں کہا تھا۔ تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین ایک میرے دوست تھے انہوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کفِ دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی کچھ تشبیہات نظم کیجئے میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے نو دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلہ میں وہ ڈلی ان سے لے لی۔ اب سوچ رہا ہوں جو شعر یا د آتے جاتے ہیں لکھتا جاتا ہوں

قطعہ

ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی

زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیئے

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیئے

ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیئے

اختر سوختہ قیس سے نسبت دیجیئے

خال مشکیں ِ رخِ دلکشِ لیلیٰ کہیئے

حجرالاسود دیوارِ حرم کیجیئے فرض

نافہ آہوئے بیابانِ ختن کا کہیئے

صومعہ میں اسے ٹھہرائیے گر مہرِ نماز

میکدہ میں اسے خشتِ خمِ صہبا کہیئے

مسی آلودہ انگشتِ حسیناں لکھیئے

سر پستانِ پریزاد سے مانا کہیئے

غرضکہ بیس بائیس پھبتیاں ہیں۔ اشعار سب کب یاد آتے ہیں۔ اخیر کی بیت یہ ہے ؎

اپنے حضرت کے کفِ دست کو دل کیجیئے فرض

اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیئے

لو حضرت آپ کے خط کے جواب نے انجام پایا۔ اب میرا دردِ دل سنو برخوردار منشی شیو نراین نے میرے دو خطوں کا جواب نہیں لکھا اور دو خطوط جواب طلب تھے۔ تم ان کو میری دعا کہو اور کہو کہ میاں میرا کلام بند ہے۔ اس مطلب خاص کا جواب جلد لکھو اگر وہ کتاب بن چکی ہے تو جلد بھیجو اور اگر اس کے بھیجنے میں دیر ہے تو یہ لکھ بھیجو کہ وہ سیاہ قلم کی لوح ہے یا طلائی۔

ایضاً

جناب مرزا صاحب دلّی کا حال تو یہ ہے ؎

؎گھر میں تھا کیا جو ترا غم اسے غارت کرتا

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے

یہاں دھرا کیا ہے جو کوئی لوٹے گا۔ وہ خبر محض غلط ہے اگر کچھ ہے تو بدیں نمط ہے کہ چند روز گوروں نے اہل بازار کو ستایا تھا۔ اہلِ قلم اور اہلِ فوج نے باتفاقِ رائے ہمدگر ایسا بندو بست کیا کہ وہ فساد مٹ گیا اب امن و امان ہے۔ ناسخ مرحوم جو تمہارے استاد تھے میرے بھی دوستِ صادق الوداد تھے مگر یک فنے تھے۔ صرف غزل کہتے تھے قصیدہ اور مثنوی سے ان کو کچھ علاقہ نہ تھا۔ سبحان اللہ تم نے قصیدہ میں وہ رنگ دکھایا کہ انشا کو رشک آیا۔ مثنوی کے اشعار جو میں نے دیکھے کیا کہوں کیا حظ اٹھایا؎

خداسے میں بھی چاہوں از رہ مہر

فروغِ میرزا حاتم علی مہر

اگر اسی انداز پر انجام پائے گی تو یہ مثنوی کارنامہ اردو کہلائے گی۔ خدا تم کو جیتا رکھے۔ تمہارا دم غنیمت ہے۔ صاحب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ معیار الشعرا میں تم نے اپنا خط کیوں چھپوایا تمہارے ہاتھ کیا آیا۔ سنو تو سہی اگر سب کلام اچھا ہو تو امتیاز کیا ہے۔

٭٭٭

 

بنام منشی نبی بخش صاحب مرحوم

بھائی صاحب آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ میاں کاغذ مقبول و مسموع حق تعالیٰ ان کو زندہ اور تندرست اور خوش و خرم رکھے اور دولت و اقبال عطا کرے۔ بالفعل جناب مرزا حاتم علی صاحب کا خط پایا انہوں نے جو صورت چھ کتابوں کی آرایش کی جس تفریق سے ٹھہرائی وہ مجھ کو پسند آئی ہے۔ کل میں نے ان کو اجازت اسی طرح کی تزئین کی لکھ بھیجی ہے۔ حال تصحیح کا بتصریح آپ کو لکھ چکا ہوں اسی پر عمل رہے۔میں نے مرزا تفتہ کو کہ وہ غیاث اللغات کے کے بہت معتقد ہیں اس امر کی اطلاع کر دی ہے۔ بھائی جان میں نے ایک قصیدہ جناب ملکہ معظمہ انگلستان کی مدح میں لکھا ہے۔ ساٹھ شعر ہیں چھ صفحہ یعنی تین ورق پر چھپ کر دستنبو سے پہلے شیرازہ میں شامل کر دئیے جائیں تو کتاب کو قصیدہ سے عزت اور قصیدہ کو کتاب کے سبب شہرت ہو جائے گی۔ کل جناب مرزا صاحب کو یہ خط لکھ چکا ہوں یقین ہے کہ وہ بھی آپ سے کہیں گے اور آپ اور مرزا صاحب اور مرزا تفتہ اور منشی شیو نراین صاحب اس خواہش کو منظور اور اس قاعدہ کو مقبول کر یں گے اور جب باتفاق تم چاروں صاحب پسند کرو گے تو گویا باجلاس کونسل اس قانون کا اجرا منظور ہو جائے گا اور امیدوار ہوں کہ اجرائے قانون سے پہلے مجھ کو منظوری کی اطلاع ہو جائے تاکہ مسودہ اس قصیدہ کا بھیج دوں۔ مہتمم مطبع کو اگر کچھ تامل ہو تو تو ہو ورنہ بات آسان ہے۔ منشی عبد اللطیف کو دعا کہنا۔ اور ان کے عذر مقبول ہونے کی ان کو اطلاع دینا۔ بیگم کو دعا پہنچے اور سب لڑکے بالوں کو یہاں باقر علی اور حسین علی تم کو بندگی اور اپنے بھائی بہنوں کو علیٰ قدر مراتب بندگی سلام دعا کہتے ہیں۔ ہاں حضرت اب ایک امر مختصر کہ واسطے جداگانہ خط مرزا تفتہ کو کیا لکھوں۔ میری طرف سے دعا کہہ کر ان کو کہیئے گا کہ اخبار گزشتہ کے اوراق مع خط مہتمم مطبع آفتاب عالمتاب حکیم صاحب کو پہنچ گئے۔ کل وہ چار روپیہ کی ہنڈوی اور ان کے خط کا جواب روانہ کریں گے۔ آپ چتر بھوج سہائے سے کہہ دیجیئے گا اور تاکید کر دیجیئے گا کہ چار نمبر سابق کا منتخب کاتب سے نقل کروا کر جلد بھیجیں۔ بھائی مجھ کو اس مصیبت میں کیا ہنسی آتی ہے کہ یہ ہم تم اور مرزا تفتہ میں مراسلت گویا مکالمت ہو گئی ہے روز باتیں کرتے ہیں۔ اللہ اللہ یہ دن بھی یاد رہیں گے خط سے خط لکھے گئے ہیں۔ مجھ کو اکثر اوقات لفافے بنانے میں گزرتے ہیں اگر خط نہ لکھوں گا تو لفافے بناؤں گا غنیمت ہے کہ محصول آدھ آنہ ہے ورنہ باتیں کرنے کا مزا معلوم ہوتا۔ چار شنبہ ۲۲ ستمبر ۱۸۵۸۔ ء۔ جو باتیں جواب طلب ہیں ان کا جواب طلب ہے۔

ایضاً

بھائی میں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ آج میرے پاس لکھنؤ سے ایک پارسل کی رسید آ گئی۔ دوسرا بھی یقینی پہنچ گیا ہو گا۔ خاطر جمع رکھو۔ جناب ارنلڈ صاحب بہادر آج تشریف لے گئے۔ سنتا ہوں کہ کلکتے جائیں گے۔ میم اور بچوں کو ولایت بھیج کر پھر آئیں گے۔ مجھ سے وہ سلوک کر گئے ہیں اور مجھ پر وہ احسان کر گئے ہیں کہ قیامت تک ان کا شکر گزار رہوں گا۔ مرزا حاتم علی صاحب اگر آ جائیں تو ان کو میرا سلام کہنا مرزا تفتہ کو اگر کبھی خط لکھو تو میری دعا لکھنا۔ از غالب۔ مرقومہ دو شنبہ۔ ہفتدہم جنوری ۱۸۵۹ء۔

(کاتب نے معلوم نہیں کس خیال میں سنہ تاریخ ۱۹۵۹ ء لکھ دیا ہے۔ چھوٹا غالب)

٭٭٭

 

بنام منشی عبد اللطیف صاحب ابن منشی نبی بخش

صاحب آگے تمہارا ایک خط پھر بارہ کتابوں اور ایک جنتری کا پارسل پہنچا بعد اس کے کل ایک خط اور پایا۔ ریڈ صاحب کے وہاں سے آنے کا حال معلوم ہوا۔ آج ۶ دسمبر کی ہے۔ ۷ کو بموجب تمہارے لکھنے کے وہ وہاں سے جانے والے ہیں اور مجھ کو معلوم ہے کہ میرٹھ آئیں گے۔ دو دن بعد بمقام میرٹھ خط روانہ کروں گا خاطر جمع رکھو۔ وہ صاحب مہر جیسا لکھیں مجھ کو اطلاع دینا۔ رہی تمہاری مہر اس کا کچھ خیال نہ کرو وہ جس طرح تم نے لکھا ہے بن جائے گی۔ مگر بھائی ۱۸۵۸ء میں کَے دن باقی رہے ہیں۔ آج ۶ دسمبر کی ہے۔ ۲۴، ۲۵ دن باقی رہے ہیں۔ ۱۸۵۹ء جنوری مہینے میں خدا چاہے تو کھد جائے گی۔ تم میرے بجائے فرزند ہو۔ میرے بھتیجے ہو۔ جو تمہارا کام ہو بے تکلف کہو شرم کیا اور تکلف کیوں یہ مہر کھدوانا کونسا کام ہے۔ میرزا حاتم علی صاحب ملیں تو میرا سلام کہنا اور مرزا تفتہ کو خط لکھو تو میری سفارش لکھنا وہ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں اور خط نہیں لکھتے۔ غالب۔ ۶ دسمبر ۱۸۵۸ء۔

٭٭٭

 

بنام خواجہ غلام غوث خان صاحب میر منشی المتخلص بہ بیخبرؔ

قبلہ اس نامہ مختصر نے وہ کیا وہ پارہ ابر کشتِ خشک سے کرے۔ یعنی خط اور پارسل کا پہنچ جانا ایسا نہیں کہ اس سے خبر پا کر بخت کی رسائی کا سپاس گزار نہ ہوں۔ یہ تو حضرت کو لکھ چکا ہوں کہ دوسرا پارسل اور خط معاً اس خط کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اور ہر گونہ توقع کا خیال اسی پارسل پر ہے۔ کس واسطے کہ اس خط میں حاکمِ اعظم کے نام عرضی ملفوف ہے۔ جانتا ہوں کہ محکمہ ایک ڈاک ایک دونوں پارسل اور دونوں لفافے ایک دن پہنچے ہوں گے۔ مگر دل نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ نہ مانوں گا جب تک کہ حضرت اس سر رشتہ سے معلوم کر کے نہ لکھیں گے۔ اب آپ جانیے اور یہ دل سودا زدہ۔ میں اس کی سفارش کرنے والا اور اس کے مدعا کا گزارش کرنے والا کون۔ ہاں اتنی بات ہے کہ آپ لکھ سکتے ہیں بلکہ یہ بھی آپ مجھ پر حالی کر سکتے ہیں کہ نذر ولایت کی ولایت کو روانہ ہوئی یا نہیں۔ میرے جگر کاوی کی قدردانی ہوئی یا نہیں۔ پیشگاہ حکام سے موافق دستور کے خط کا امید وار ہوں یا نہیں۔ اپنے حسنِ طبع کا شکر گزار ہوں یا نہیں۔ اس خط کا جواب جتنا جلد عنایت کیجیئے گا مجھ کو جِلا لیجیئے گا۔ لوہارو کا خط ایک معتمد کے ہاتھ بھیج دیا گیا۔

ایضاً

قبلہ کبھی آپ کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ کوئی ہمارا دوست جو غالب کہلاتا ہے کیا کھاتا پیتا ہے اور کیونکر جیتا ہے۔ پنشن قدیم اکیس مہینے سے بند۔ اور میں سادہ دل فتوح جدید کا آرزو مند۔ پنشن کا احاطہ پنجاب کے حکام پر مدار ہے۔ سو ان کا یہ شیوہ اور یہ شعار ہے کہ نہ روپیہ دیتے ہیں نہ جواب نہ مہربانی نہ عتاب۔ خیر اس سے قطع نظر کی۔ اب سنیئے اودھ کی ۱۸۵۶ ء سے بموجبِ تحریر وزیر عطیہ شاہی کا امیدوار ہوں۔ تقاضا کرتے ہوئے شرماؤں اگر گنہگار ٹھہرتا تو گولی یا پھانسی سے مرتا۔ اس بات پر کہ میں بے گناہ ہوں مقید اور مقتول نہ ہونے سے آپ اپنا گواہ ہوں۔ پیشگاہ گورنمنٹ کلکتہ میں جب کوئی کاغذ بھجوایا ہے بقلم چیف سکرٹر بہادر اس کا جواب پایا ہے اب کی بار دو کتابیں بھیجیں ایک پیشکش گورنمنٹ اور ایک نذر شاہ ہے۔ نہ اس کے قبول کی اطلاع نہ اس کے ارسال سے آگاہی ہے۔ جناب ولیم میور صاحب بہادر نے بھی عنایت نہ فرمائی ان کی بھی کوئی تحریر مجھ کو نہ آئی۔ یہ سب ایک طرف اب خبریں ہیں مختلف۔ کہتے ہیں کہ چیف سکرٹر بہادر لفٹنٹ گورنر ہوئے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی جگہ کون سے صاحبِ عالی شان چیف سکرٹر ہوئے۔ مشہور جناب ولیم میور صاحب بہادر صدر بورڈ میں تشریف لے گئے یہ کوئی نہیں بتاتا کہ لفٹنٹ گورنری کے سکرٹری کا کام کس کو دے گئے۔ آپ کا حال کوئی نہیں کہتا کہ اب کہاں ہیں۔ ہاں ازروئے قیاس جانتا ہوں کہ آپ اسی منصب اور اسی دفتر میں شاد و شادماں ہیں جوا ب لفٹنٹی کے سکرٹری ہوئے ہوں گے ان سے علاقہ رہتا ہو گا۔ میور صاحب بہادر سے کاہے کو ملنا ہوتا ہو گا۔ لفٹنٹ گورنری اور صدر بورڈ یہ دونوں محکمہ الہ آباد آ گئے یا آئیں گے۔ بہر حال اب کیوں آگرہ کو جائیں گے۔ نواب گورنر جنرل بہادر کی روانگی کی خبر میں اختلاف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ۲۰ جنوری کو گئے۔ کوئی کہتا ہے فروری میں کوچ فرمائیں گے۔ میں تو ادھر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہر طرح اپنی قسمت کو رو بیٹھا۔ مگر یہ چاہتا ہوں حقیقت واقعی پر کماحقہٗ اطلاع حاصل ہوتا کہ تسلی خاطر اور تسکین دل ہو۔ اگر ان مطالب کا جواب مجمل بلکہ مفصل نہ دیر بلکہ جلد مرحمت کیجیئے گا تو مجھ کو مول لے لیجیئے گا۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں۔

ایضاً

جناب عالی آج دو شنبہ ۳ جنوری ۱۸۵۹ ء کی ہے۔ پہر دن چڑھا ہو گا کہ ابر گھر رہا ہے ترشح ہو رہا ہے۔ ہوا سرد چل رہی ہے۔ پینے کو کچھ میسر نہیں ناچار روٹی کھائی ہے ؎

اُفق ہا پر از ابر بہمن مہی

سفالینہ جامِ من از مے تہی

غمزدہ دردمند بیٹھا تھا کہ ڈاکخانہ کا ہرکارہ تمہارا خط لایا۔ سر نامہ کو دیکھ کر اس راہ سے کہ دستخط خاص کا لکھا ہوا ہے بہت خوش ہوا۔ خط پڑھ کر اس رو سے کہ حصول مدعا کے ذکر پر حاوی نہ تھا افسردگی حاصل ہوئی ؎

ما خانہ رمیدگان ظلمیم

پیغامِ خوش از دیار ما نیست

اسی افسردگی میں جی چاہا کہ حضرت سے باتیں کروں با آنکہ خط جواب طلب نہ تھا۔ جواب لکھنے لگا۔ پہلے تو یہ سنیئے کہ آپ کے دوست کو آپ کا خط پہنچ گیا مگر وہ دو بار مجھ کو لکھ چکا ہے کہ میں جواب اس کا نشان مرقومہ لفافہ کے مطابق ڈاک میں بھیج چکا ہوں۔ جواب الجواب کا منتظر ہوں آپ جانتے ہیں کہ کمال یاس مقتضی استغنا ہے۔ بس اب اس سے زیادہ یاس کیا ہو گی کہ با مید مرگ جیتا ہوں۔ اس راہ سے کچھ مستغنی ہوتا چلا ہوں۔ دو ڈھائی برس کی زندگی اور ہے ہر طرح گزر جائے گی۔ جانتا ہوں کہ تم کو ہنسی آئے گی کہ یہ کیا بکتا ہے مرنے کا زمانہ کون بتا سکتا ہے چاہے الہام سمجھیئے چاہے اوہام سمجھیئے۔ بیس برس سے یہ قطعہ لکھ رکھا ہے

قطعہ

من کہ باشم جاوداں باشم

چوں نظیری نماند و طالب مُرد

در بگویند در کدامی سال

مُرد غالب بگو کہ غالب مُرد

اب بارہ سو پچھتر ہیں اور غالب مُرد کے بارہ ستتر ہیں۔ اس عرصہ میں جو کچھ مسرت پہنچتی ہو پہنچ لے ورنہ پھر ہم کہاں۔

ایضاً

پیر و مرشد یہ خط ہے یا کرامت، صاف صفائی ضمیر و کشف حجت کی علامت ہے۔ مدعا ضروری التحریر اور اندیشہ نشان مسکن دامنگیر۔ اگر یہ خط کل نہ آ جاتا تو آج خط کیونکر لکھا جاتا۔ سبحان اللہ جس دن یہاں مجھ کو وہ مطلب خطیر پیش آیا ہے اسی دن آپ نے وہاں لکھنے کو قلم اٹھایا ہے آپ کو عارفِ کامل کیونکر نہ لکھوں اور کیا کہوں ولی اگر نہ کہوں۔ مدعا بیان کرتا ہوں مگر یہ گمان کرتا ہوں کہ یہ خط پہنچنے نہ پائے گا کہ وہ راز سر بستہ آپ پر کھل جائے گا۔ یعنی یک شنبہ ۲۸ نومبر کو دو خط اور دو پارسل ایک میں دستنبو کا ایک مجلد اور ایک میں تین معاً بسبیل ڈاک روانہ کر چکا ہوں۔ خطوں کا چوتھے پانچویں دن اور پارسلوں کا چھٹے ساتویں دن پہنچنا خیال کرتا ہوں۔ پارسلوں کے عنوان پر خطوں کی معیت رقم کی ہے اور خطوں کے سر نامہ پرپارسلوں کے ارسال کی اطلاع دی ہے۔ تین کتاب والے پارسل اور ایک خط پر جناب چیف سکرٹر بہادر اول کا نام نامی ہے۔ اور ایک کتاب والے پرسل اور ایک خط پر جناب سکرٹر دوم کا اسم سامی ہے۔ آج پانچواں دن ہے۔ خط دونوں اگر پہنچ گئے ہوں تو کیا عجب ہے بلکہ سچ تو یوں ہے کہ اگر نہ پہنچے ہوں تو بڑا غضب ہے۔ اگلے عرائض کے نہ پہنچنے میں کوئی شک نہیں۔ جواب امر آخری دفتر میں اس کا پتا آج تک نہیں۔ اب کار پردازانِ ڈاک ڈاکو نہ بن جائیں اور میرے ان دونوں خطوں اور پارسلوں کو باحتیاط پہنچائیں۔ صرف عنایت کی گنجایش تو آپ جب پائیں کہ وہ خط اور پارسل پہنچ جائیں گے ابھی تو آپ سے مجھ کو ان کے نہ پہنچنے کا سوال ہے۔ کس واسطے کہ جب تک آپ مجھ کو اطلاع نہ دیں گے ان کے نہ پہنچنے کی بھی خبر مجھ تک پہنچنی محال ہے۔ بہرحال یہ نیاز نامہ جس دن پہنچے اس کے دوسرے دن جواب لکھیئے۔ جیسامیں نے جلد لکھا ایسا ہی آپ بھی شتاب لکھیئے۔ آپ کے عنایت نامہ میں کوئی امر ایسا نہ تھا کہ جس کا جواب لکھا جائے۔ یا اس باب میں کچھ اور عرض کیا جائے۔ لوہارو کی روانگی کا خط آئے گا۔ لوہارو کو بھیج دیا جائے گا۔ جناب منشی نواب جان صاحب اور منشی اظہار حسین صاحب میں اور آپ میں اگر ربط بے تکلف ہو تو ان دو صاحب کی خدمت میں میرا سلام نیاز پہنچانے میں نہ توقف ہو؎

تم سلامت رہو قیامت تک۔

 

ایضاً

مولانا بندگی۔ آج صبح کے وقت شوقِ دیدار میں بے اختیار نہ ریل نہ ڈاک توسنِ ہمت پر سوارچل دیا ہوں۔ جانتا ہوں کہ تم تک پہنچ جاؤں گا مگر یہ نہیں جانتا کہاں پہنچوں گا اور کب پہنچوں گا اتنا بے خود ہوں کہ جب تک تم جواب نہ دو گے میں نہ جانوں گا کہ کہاں پہنچا اور کب پہنچا۔ آپ کا پہلا خط رامپور سے دلّی آیا میں راہ میں تھا۔ پھر دلّی سے خط رامپور پہنچا۔ میں وہاں بھی نہ تھا۔ خط دلّی روانہ ہوا اب کئی دن ہوئے کہ میں نے ڈاک سے پایا اس حال میں کہ میں بیمار تھا۔ معہذا جاڑے کی شدت مہاوٹ کا مینہ۔ دھوپ کا پتا نہیں۔ پردے چھٹے ہوئے۔ نشیمن تاریک۔ آج نیرّ اعظم کی صورت نظر آئی دھوپ میں بیٹھا ہوں۔ خط لکھ رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کیا لکھوں۔ اس خط کے مضامین اندوہ فزا نے دل کو مضمحل کر دیا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مغفور تمہارے ماموں ہیں مگر ان کے اور تمہارے معاملات مہر و ولا جیسے کہ تمہاری تحریر سے اب معلوم ہوئے میرے دل نشین نہ تھے۔ ایسے محب کا فراق اور پھر بقید ِ دوام کیونکر جان گزا نہ ہو۔ حق تعالیٰ ان کو بخشے اور تم کو صبر دے۔ حضرت میں بھی اب چراغ سحری ہوں۔ رجب ۱۲۷۳ ھ حال کی آٹھویں تاریخ سے اکہترواں سال شروع ہو گیا۔ طاقت سلب حواس مفقود، امراض مستولی، بقول نظامی ؎ یکے مردہ شخصم بمردی رواں۔ آج میں اور بھی باتیں کرتا۔ مگر خاص تراش آ گیا۔ مہینا بھر سے حجامت نہیں بنوائی۔ خط لپیٹ کر ڈاک میں بھیجتا ہوں اور خط بنواتا ہوں۔

ایضاً

قبلہ پیری و صد عیب ساتویں دہا (دہائی)کے کَے مہینے گن رہا ہوں۔ قولنج آگے دوری تھا۔ اب دائمی ہو گیا ہے۔ مہینا بھر میں پانچ سات بار فضولِ مجتمعہ دفع ہو جاتے ہیں اور یہی منشاء حیات ہے۔ غذا کم ہوتے ہوتے اگر معدوم نہ کہو تو بمنزلہ مفقود کہو۔ پھر گرمی نے مار ڈالا۔ ایک حرارتِ غریبہ جگر میں پاتا ہوں جس کی شدت سے بُہنا(بھُنا)جاتا ہوں۔ اگرچہ جُرعہ جُرعہ پیتا ہوں مگر صبح سے سوتے وقت تک نہیں جانتا کہ کتنا پانی پی جاتا ہوں۔ میرے ایک رشتہ کے بھتیجے نے بوستانِ خیال کا اردو میں ترجمہ کیا ہے میں نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ ایک دو ورقہ اس کا بصورت پارسل بلکہ بہیئت خط بھیجتا ہوں۔ آپ کا مقصود دیباچہ ہے سو نقل کر لیجیئے۔ میرا مدعا اس دو ورقہ کے ارسال سے یہ ہے کہ اگر آپ کے پسند آوے یا اور اشخاص خرید کرنا چاہیں تو چھ روپیہ قیمت اور محصول ذمہ خریدار ہے۔

ایضاً

بندہ گنہگار شرمسار عرض کرتا ہے کہ پرسوں غازی آباد کا اٹھا ہوا گیارہ بجے اپنے گھر پر مثل بلائے ناگہانی نازل ہوا ہوں ؎

باید کہ کنم ہزار نفرین بر خویش

اماّ بہ زبان جادہ راہ وطن

خواجہ صاحب کی رحلت کا اندوہ بقدر قرب و قرابت آپ کو اور باندازہ مہر و محبت مجھ کو۔ وہ مغفور میرا قدردان اور مجھ پر مہربان تھا۔ حق تعالیٰ اس کو اعلیٰ علیین میں بسبیل دوام قیام دے۔ رامپور ہی میں تھا کہ اودھ اخبار میں حضرت کی غزل نظر فروز ہوئی کیا کہنا ہے ابداع اس کو کہتے ہیں۔ جدت طرز اس کا نام ہے جو ڈھنگ تازہ نوایانِ ایران کے خیال میں نہ گزرا تھا وہ تم بروئے کار لائے خدا تم کو سلامت رکھے اور میرے اور دکھنی برہان قاطع کے جھگڑے میں بخلاف اور فارسی دانوں کے توفیق انصاف عطا کرے۔ لو اب خط کا جواب جلد بھیجو تا یہ طریقہ مسلسل ہو جائے۔

ایضاً

قبلہ آپ کا خط پہلا آیا۔ اور میں اس کا جواب لکھنا بھول گیا۔ کل دوسرا خط آیا مگر شام کو اسی وقت پڑھ لیا۔ آدمی کے حوالہ کیا آج صبح دم مجھ کو دیا۔ میں جواب لکھ رہا ہوں بعد اختتام تحریر معنوں کر کے ڈاکخانہ میں بھجوا دوں گا۔ والی رامپور کو خدا سلامت رکھے۔ اپریل مئی ان دونوں مہینوں کا روپیہ موافق دستور قدیم آیا۔ جون ماہ آیندہ کا روپیہ خدا چاہے تو آ جائے آج جمعہ ۷ جولائی ہے معمول یہ کہ دسویں بارھویں کو رئیس کا خط مع ہنڈوی آیا کرتا ہے۔ میں نے قصیدہ تہنیت جلوس بھیجا اس کا جواب آ گیا۔ اب میں نظم و نثر کا مسودہ نہیں رکھتا۔ دل اس فن سے نفور ہے۔ دو ایک دوستوں کے پاس اس کی نقل ہے ان کو اس وقت کہلا بھیجا ہے اگر آج وہ آ گیا۔ کل اور اگر کل آ گیا پرسوں بھیج دوں گا۔ بھائی امین الدین خاں صاحب کے اصرار سے خسرو کی غزل پر ایک غزل لکھی ہے۔ علاؤ الدین خاں نے اس کی نقل ان کو بھیج دی۔ میں دیوان پر نہیں چڑھاتا۔ مسودہ بھیجتا ہوں۔ تقدیم و تاخیر ہندسوں کے مطابق ملحوظ رہے۔ گرمی کی شدت سے حواس بجا نہیں۔ معہذا امراضِ جسمانی و آلامِ روحانی۔

ایضاً

در نا امیدی بسے امید است

پایانِ شب ِ سیہ سپید است

قبلہ آج آپ کی خوشی اور خوشنودی کے واسطے اپنی روداد لکھتا ہوں۔ توطیہ ۱۸۶۰ء میں لارڈ صاحب بہادر نے میرٹھ میں دربار کیا۔ صاحب کمشنر بہادر دہلی کو ساتھ لے گئے۔ میں نے کہا میں بھی چلوں فرمایا کہ نہیں۔ جب لشکر میرٹھ سے دلّی آیا۔ موافق اپنے دستور کے روز ورود لشکر مخیم میں گیا۔ میر منشی صاحب سے ملا۔ ان کے خیمہ میں سے اپنے نام کا ٹکٹ صاحب سکرٹر بہادر کے پاس بھیجا۔ جواب آیا کہ تم غد رکے دنوں میں بادشاہی باغی کی خوشامد کیا کرتے تھے۔ اب گورنمنٹ کو تم سے ملنا منظور نہیں۔ میں گدائے مبرم اس حکم پر ممنوع نہ ہوا۔ جب لارڈ صاحب بہادر کلکتہ پہنچے میں نے قصیدہحسبِ معمول قدیم بھیج دیا۔ مع اس حکم کے واپس آیا کہ آپ یہ چیزیں ہمارے پاس نہ بھیجا کرو۔ میں مایوس مطلق ہو کر بیٹھ رہا۔ حکام ِ شہر سے ملنا ترک کیا۔ واقع اواخر ماہ گذشتہ یعنی فروری ۱۸۶۲ میں نواب لفٹنٹ گورنر پنجاب دلّی آئے۔ اہالی شہر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر و صاحب کمشنر بہادر کے پاس دوڑے اور اپنے نام لکھوائے۔ میں تو بے گانہ محض اور مطردد حکام تھا، جگہ سے نہ ہلا۔ کسی سے نہ ملا۔ دربار ہوا ہر ایک کامگار ہوا۔ شنبہ ۸ فروری کو آزادانہ منشی من پھُول سنگہ(سنگھ) صاحب کے خیمہ میں چلا گیا۔ اپنے نام کا ٹکٹ صاحب سکرٹر بہادر پاس بھیجا۔ بلایا گیا۔ مہربان پا کر نواب صاحب کی ملازمت کیا استدعاکی وہ بھی حاصل ہوئی۔ دو حاکم جلیل القدر کی وہ عنایتیں دیکھیں جو میرے تصور میں بھی نہ تھیں۔

جملہ معترضہ

میر منشی لفٹنٹ گورنر سے سابقہ تعارف نہ تھا وہ بطریق حسنِ طلب میرے خواہاں ہوئے تو میں گیا۔ جب حکام بمجرد و استدعا مجھ سے بے تکلف ملے تو میں قیاس کر سکتا ہوں کہ میر منشی کی حسن طلب بایمائے حکام ہو گی۔ وللرحمن ِ الطاف خُفیۃبقیہ روداد یہ کہ دو شنبہ دوم مارچ کو سواد شہر مخیم خیام گورنری ہوا۔ آخر روز میں اپنے شفیقِ قدیم مولوی اظہار حسین خان بہادر کے پاس گیا۔ اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ تمہارا دربار و خلعت بدستور بحال و برقرار ہے۔ متحیرانہ میں نے پوچھا کہ حضرت کیونکر۔ حضرت نے کہا کہ حاکم ِ حال نے ولایت سے آ کر تمہارے علاقہ کے سب کاغذ انگریزی و فارسی دیکھے اور باجلاس کونسل حکم لکھوایا کہ اسد اللہ خاں کا دربار اور نمبر اور خلعت بدستور بحال و برقرار ہے۔ میں نے پوچھا کہ حضرت یہ امر کس اصل پر متفرع ہوا فرمایا کہ ہم کو کچھ معلوم نہیں بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ حکم دفتر میں لکھوا کر ۱۴ دن یا ۱۵دن بعد ادھر کو روانہ ہوئے ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ ؎

کار سازِ ما بفکرِ کارِ ما

فکرِ ما در کارِ ما آزارِ ما

سہ شنبہ ۲۳ مارچ کو ۱۲ بجے نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے مجھ کو بلایا خلعت عطا کیا اور فرمایا کہ لارڈ صاحب بہادر کے ہاں کا دربار و خلعت بھی بحال ہے۔ انبالہ جاؤ گے تو دربار و خلعت پاؤ گے۔ عرض کیا گیا حضور کے قدم دیکھے خلعت پایا۔ لارڈ صاحب بہادر کا حکم سن لیا۔ نہال ہو گیا۔ اب انبالہ کہاں جاؤں۔ جیتا رہا تو اور دربار میں کامیاب ہو رہوں گا ؎

کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد

ہر چہ گیرید مختصر گیرید

ایضاً

حضور خدا کا شکر پھر آپ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ آپ نے خط لکھا اور میرا حال پوچھا۔ یہ یہ پرسش حکم نشتر کا رکھتی ہے اب رگ قلم کی خوننابہ فشانی دیکھو۔ گورنر اعظم نے میرٹھ میں دربار کا حکم دیا۔ صاحب کمشنر بہادر دہلی نے سات جاگیرداروں میں سے جو تین بقیۃ السیف تھے ان کو حکم دیا اور دربار عام میں سے سوائے میرے کوئی نہ تھا یا چند مہاجن۔ مجھ کو حکم نہ پہنچا جب میں نے استدعا کی تو جواب ملا کہ اب نہیں ہو سکتا۔ جب یہ سر زمین مخیم خیام ِ گورنری ہوئی میں اپنی عادتِ قدیم کے موافق خیمہ گاہ میں پہنچا۔ مولوی اظہار حسین خان صاحب بہادر سے ملا۔ چیف سکرٹر بہادر کو اطلاع کی جواب آیا کہ فرصت نہیں۔ میں سمجھا کہ اس وقت فرصت نہیں دوسرے دن پھر گیا۔ میری اطلاع کے بعد حکم ہوا کہ ایام غدر میں تم باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے اب گورنمنٹ سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔ اس دن چلا آیا دوسرے دن میں نے انگریزی خط ان کے نام لکھ کر ان کو بھیجا۔ مضمون یہ کہ باغیوں سے میرا اخلاص مظنّہ محض ہے امید وار ہوں کہ اس کی تحقیقات ہو تاکہ میری صفائی اور بے گناہی ثابت ہو یہاں کے مقامات پر جواب نہ ہوا۔ اب ماہ گزشتہ یعنی فروری میں پنجاب کے ملک سے جواب آیا کہ لارڈ صاحب بہادر فرماتے ہیں کہ ہم تحقیقات نہ کریں گے پس یہ مقدمہ طے ہوا دربار و خلعت موقوف پنشن مسدود۔ وجہ نامعلوم۔ لا موجود الا اللہ و لا مؤثر فی الوجود الا اللہ ۔ ۱۸۵۵ء میں نواب یوسف علی خاں بہادر والی رامپور کہ میرے آشنائے قدیم ہیں اس سال ۱۸۵۵ء میں میرے شاگرد ہوئے۔ ناظم ان کو تخلص دیا گیا۔ بیس پچیس غزلیں اردو کی بھیجتے ہیں۔ میں اصلاح دے کر بھیج دیتا۔ گاہ گاہ کچھ روپیہ ادھر سے آتا رہتا۔ قلعہ کی تنخواہ جاری۔ انگریزی پنشن کھلا ہوا۔ ان کے عطایا فتوح گنے جاتے تھے۔ جب یہ دونوں تنخواہیں جاتی رہیں۔ تو زندگی کا مدار ان کے عطیہ پر رہا۔ بعد فتح دہلی وہ ہمیشہ میرے مقدم کے خواہاں رہتے تھے۔ میں عذر کرتا تھا۔ جب جنوری ۱۸۶۰ ء میں گورنمنٹ سے وہ جواب پایا کہ اوپر لکھ آیا ہوں تو میں آخر جنوری میں رامپور گیا۔ چھ سات ہفتہ وہاں رہ کر دلّی آیا۔ یہاں آپ کا خط محررہ ۸ مارچ پایا۔ جواب بھیجا جاتا ہے۔

ایضاً

قبلہ میں نہیں جانتا کہ ان روزوں میں بقول ہندی اختر شناسوں کے کونسی کھوٹی گرہ آئی ہوئی ہے کہ ہر طرف سے رنج و زحمت کا ہجوم ہے۔ مولوی صاحب سے میری ایک ملاقات جب وہ دلّی آئے تھے اور میر خیراتی کے گھر میں اترے ہوئے تھے شرفا ء میں تعارف نیائے محبت اور مؤدت ہے چہ جائے آنکہ معانقہ اور مکالمہ اور مشاعرہ واقع ہوا ہو روز ملاقات سے اس دن تک کہ حضرت دکن کو روانہ ہوں کوئی امر ایسا کہ باعث ناخوشی کا ہو درمیان نہیں آیا۔ اور میرے اس قول کی اس راہ سے کہ مولوی صاحب آپ کے ہمنشین و ہمدم تھے۔ اور مجھ میں آپ میں پیوند و لائے روحانی محقق ہے۔ آپ بھی گواہ ہو سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ مجھ میں ان میں رنج پیدا ہوتا تو آپ بہت جلد اصلاح بین الذاتین کی طرف متوجہ ہوتے۔ اب سنیے ، حال منشی حبیب اللہ کا میں نے ان کو دیکھا ہو تو آنکھیں پھوٹیں۔ تین چار برس ہوئے کہ ناگاہ ایک خط حیدرآباد سے آیا۔ اس میں دو غزلیں خط کا مضموں یہ کہ میں مختار الملک کے دفتر میں نوکر ہوں۔ آپ کا تلمذ اختیار کرتا ہوں۔ ان دونوں غزلوں کو اصلاح دیجیئے۔ اس امر کی فقط وہ بادی نہیں۔ بریلی اور لکھنؤ اور کلکتہ اور بمبئی اور سورت سے اکثر حضرات نظم و نثر فارسی اور ہندی بھیجتے رہتے ہیں۔ میں خدمت بجا لاتا ہوں اور وہ صاحب میرے حک و اصلاح کو مانتے ہیں۔ کلام کا حسن و قبح میری نظر میں رہتا ہے اور ایک کا پایہ اور دستگاہ فن شعر میں معلوم ہو جاتا ہے۔ عادات و عندیات عدم ملاقات ظاہری کے سبب میں کیا جانوں۔ آمدم بر سرِ مطلب۔ منشی حبیب اللہ ذکا کے اشعار آتے رہے اور میں اصلاح دے کر بھیجتا رہا بعد وارد ہونے مولوی صاحب کے ایک غزل ان کی آئی اور انہوں نے یہ لکھا کہ مولوی غلام امام شہید اکبر آبادی کی غزل پر یہ غزل لکھ کر بھیجتا ہوں۔ میں نے حسب معمول غزل کو اصلاح دے کر بھیجا اور لکھا کہ مولانا شہید اکبر آباد کے نہیں لکھنؤ اور الہ آباد کے ہیں۔ اس کلمہ سے زیادہ کوئی بات میں نے نہیں لکھی۔ اس میں سے توہین کے معنی مستنبطہوں تو میں ان کا مستہن سہی۔ اب میں نہیں جانتا کہ منشی صاحب نے مولوی صاحب سے کیا کہا اور مولوی صاحب نے آپ کو کیا لکھا۔

ایضاً

قبلہ میرا ایک شعر ہے ؎

خود پیش خود کفیل گرفتاری من است

ہر دم بہ پرسش ِ دل مایوس میرسد

یہ معاملہ میرا اور آپ کا ہے۔ خارج سے مسموع ہوا کہ میں نے جو اغلاط برہانِ قاطع کے نکال کر ایک نسخہ موسوم بہ قاطع برہان لکھا ہے اور ایک مجلد اس کا آپ کو بھی بھیج دیا ہے۔ آپ اس کی تردید میں کوئی رسالہ لکھ رہے ہیں اگرچہ باور نہیں آیا لیکن عجب آیا۔ ایک مولوی نجف علی صاحب ہیں۔ باوجود فضیلت علم عربی فارسی میں ان کا نظیر نہیں وہ جو ایک شخص مجہول الحال نے اہل دہلی میں سے میرے کلام کی تردید میں کتاب تصنیف کی ہے مسمیٰ بہ محرق قاطع برہان۔ انہوں نے اس کی توہین اور مسودہ کی تفضیح میں دو جزو کا ایک نسخہ مختصر لکھا ہے اور ایک طالب علم مسمیٰ عبدالکریم نے سعادت علی مؤلف محرق قاطع سے سوالات کیے ہیں اور ایک محضر اس نے بفجوائے علمائے شہر مرتب کیا ہے۔ ایک میرے دوست نے بصرف زر اس کو چھپوایا ہے۔ ایک نسخہ اس کا آج اسی خط کے ساتھ بسبیل پارسل ارسال کیا ہے اس شہر میں ایک میلا ہوتا ہے۔ پھول والوں کا میلا کہلاتا ہے۔ بھادوں کے مہینے میں ہوا کرتا ہے۔ امرائے شہر سے لے کر اہلِ شہر قطب جاتے ہیں۔ دو تین ہفتہ تک وہیں رہتے ہیں۔ مسلمانوں و ہنود دونوں فرقے کی شہر میں دکانیں بند پڑی رہتی ہیں۔ بھائی ضیاء الدین خان اور شہاب شہاب الدین خان اور میرے دونوں لڑکے سب قطب گئے ہوئے ہیں اب دیوانخانہ میں ایک میں ہوں اور ایک داروغہ اور ایک بیمار خدمتگار۔ بھائی صاحب وہاں سے آئیں گے تو مقرر آپ کو خط لکھیں گے۔ بڑے پہاڑ سے اترے چھوٹے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ عدم تحریر کی وجہ یہ ہے۔

ایضاً

قبلہ حاجات قطعہ میں جو حضرت نے الہام درج کیا ہے وہ تو ایک لطیفہ بسبیلدعا ہے مگر ہاں یہ کشفِ یقینی ہے اور مخدوم کی روشن دلی اور دور بینی ہے کہ جو سوالات میں نے ۳۰ جنوری کو کئے ان کے جواب تم نے ۲۷ جنوری کو لکھ کر بھیج دئیے۔ کیوں نہ کہوں روشن ضمیر ہو۔ اگرچہ جوان ہو مگر پیر ہو۔ خلاصہ تقریر یہ کہ ۳۰ جنوری کو آخر روز میں نے ڈاک میں خط بھجوایا اور ۳۱ کو ڈاک کا ہرکارہ پہر دن چڑھے تمہارا خط لایا۔ سوالات میں ایک سوال کا جواب باقی رہا ہے۔ یعنی جناب اڈمنشٹن صاحب بہادر کی جگہ چیف سکرٹر گورنمنٹ کلکتہ کون ہوا۔ یہ دل میں پیچ و تاب باقی رہا۔ کتاب کے باب میں جو کچھ لکھا ہے واقعی درست اور بجا ہے جو کچھ واقع ہوا اس کو مفید مطلب فرض کروں لیکن اگر اجازت پاؤں تو اسی باب میں یہ عرض کروں کہ پیشگاہِ گورنمنٹ میں بتوسط چیف سکرٹر بہادر سابق اور لفٹنٹ گورنر بہادر حال دو مجلد پیش کئے ہیں۔ ایک نذر گورنمنٹ میں اور دوسری کے واسطے یہ سوال کہ میرے عزت بڑھائی جاوے اور یہ مجلد حضور حضرت شاہنشاہی میں بھجوائی جاوے۔ اچھا نذر گورنمنٹ میں تو مولوی اظہار حسین صاحب کا وہ اظہار ہے۔ نذر سلطانی کے ارسال و عدم ارسال میں کیا دارو مدار ہے۔ دو نسخے جو ان دونوں صاحبوں کے پیشکش مقرر ہوئے ان میں سے ایک صدر بورڈ کے حاکم اور لفٹنٹ گورنر ہوئے۔ رد و قبول۔ نفرین و آفرین کچھ بھی نہیں قیاساً جو چاہوں سو کروں یقین کچھ بھی نہیں۔ ۱۷ دسمبر ۱۸۵۶ کا لکھا ہوا حکم وزیر اعظم کا ولایت کی ڈاک میں مجھ کو آیا ہے کہ اس قصیدہ کے صلہ اور جائز کے واسطے کہ جو بتوسط لارڈ الن برا سائل نے بھجوایا ہے۔ خطاب اور خلعت اور پنشن کی تجویز ضرور ہے جو حکم صادر ہو گا۔ سائل کو بتوسط گورنمنٹ اس کی اطلاع دینی ضرور ہے۔ یہ حکم مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۸۵۶ ء آخر جنوری ۱۸۵۷ ء میں نے پایا۔ فروری، مارچ، اپریل خوشی اور توقع میں گزرے۔ مئی ۱۸۵۷ ء میں فلک نے یہ فتنہ اٹھایا۔ اب اس کتاب اور دوسرے قصیدے کی جا بجا نذر کرنے کا یہ سبب ہے کہ سائل محکمہ ولایت کو یاد دہی کرتا ہے اور گورنمنٹ سے تحسین طلب ہے۔ جب یہاں سے نوید تحسین نہیں تو ولایت کو نذر کے ارسال کا بھی یقین نہیں۔ تحسین و آفرین سے گزرا۔ نذر کے ولایت جانے کا یقین کیونکر حاصل ہو۔ جہاں یہ تفرقہ اور بے التفاتی اور یہ دشواری اور یہ مشکل ہو۔ جی میں آتا ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر اور نواب لفٹنٹ بہادر اور حاکم صدر بورڈ کو ایک ایک عریضہ جدا جدا لکھوں پھر یہ سوچتا ہوں کہ انگریزی لکھواؤں۔ فارسی لکھوں اور دو صورتوں میں کیا لکھوں۔ کل کا بھیجا ہوا خط اور یہ آج کا خط یقین ہے کہ دونوں معاً ایک وقت میں پہنچیں وہ تو جواب طلب نہیں اس کا جواب لکھیئے اور بہت شتاب لکھیئے۔

ایضاً

میں سادہ دل آزردگی یار سے خوش ہوں۔ یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا۔ پیر و مرشد خفا نہیں ہوا کرتے یوں سنا مجھے باور نہ آیا۔ یہاں تک تو میں مورد نہیں ہو سکتا۔ جھگڑا استعجاب پر ہے۔ محل استعجاب وہ ہے کہ آپ کا دوست کہتا ہے کہ میر منشی نواب لفٹنٹ گورنر بہادر میرے شاگرد ہیں اور وہ قاطع برہان کا جواب لکھ رہے ہیں۔ اولیا کا یہ حال ہے۔ وائے بر حال ہم اشقیا کے یہ حکایت شکایت نہیں۔ میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہا ہوں۔ لیکن فقیر آزاد ہوں نہ شیّاد و کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے بے مبالغہ کہتا ہوں۔ ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہو ں گے۔ زمرہ خواص میں سے۔ عوام کا شمار نہیں۔ دو مخلص صادق الولا دیکھے۔ ایک مولوی سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ دوسرا منشی غلام غوث سلمہ اللہ تعالیٰ۔ لیکن وہ مرحوم حسنِ صورت نہیں رکھتا تھا۔ اور خلوص اخلاص ا س کا خاص میرے ساتھ تھا۔ اللہ اللہ ۔ دوسرا دوست خیر خواہِ خلق۔ حسن و جمال چشم بد دور کمال مہر وفا صدق و صفا نوراً علیٰ نور۔ میں آدمی نہیں۔ آدم شناس ہوں ؎

نگہم نقب ہمیزد نہ نہاں خانہ دل

مژدہ باد اہل ِ را کہ زمیداں رفتم

عنایت مہر و محبت جس کے ملکہ کا تم کو مالک سمجھا ہوں وہ بہ نسبت اپنے اس قدر یقین کرتا ہوں کہ پہلے دو آدمیوں کو اپنے بعد اپنا ماتم دار سمجھا ہوا تھا ایک کو تو میں رو لیا۔ اب اللہ آمین کا ایک دوست رہ گیا۔ دعائیں مانگتا ہوں کہ خدایا اس کا داغ نہ مجھے دکھائیو۔ اس کے سامنے مروں یہاں میں تمہارا عاشقِ صادق ہوں۔ بھائی ابھی قطب سے نہیں آئے۔ دافع ہذیان کے دو مجلد اور بھیج دوں گا۔

٭٭٭

بنام نواب ضیاء الدین احمد خاں صاحب بہادر

جناب قبلہ و کعبہ آپ کو دیوان کے دینے میں تامل کیوں ہے۔ روز آپ کے مطالعہ میں نہیں رہتا بغیر اس کے دیکھے آپ کو کھانا نہ ہضم ہوتا ہو یہ بھی نہیں۔ پھر آپ کیوں نہیں دیتے۔ ایک جلد ہزار جلد بن جائے۔ میرا کلام شہرت پائے۔ میرا دل خوش ہو۔ تمہاری تعریف کا قصیدہ اہل عالم دیکھیں۔ تمہارے بھائی کی تعریف کی نثر سب کی نظر سے گزرے۔ اتنے فوائد کیا تھوڑے ہیں۔ رہا کتاب کے تلف ہونے کا اندیشہ۔ یہ خفقان ہے۔ کتاب کیوں تلف ہو گی۔ احیاناً اگر ایسا ہوا اور دلی لکھنؤ کی عرض راہ میں ڈاک لٹ گئی تو میں فوراً بسبیل ڈاک رامپور جاؤں گا۔ اور نواب فخر الدین خاں مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیوان تم کو لا دوں گا۔ اگر یہ کہتے ہو کہ اب وہاں سے لے کر بھیج دو۔ وہ نہ کہیں گے کہ وہیں سے کیوں نہیں بھیجتے۔ ہاں یہ لکھوں کہ نواب ضیاء الدین خاں صاحب نہیں دیتے تو کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب وہ تمہارے بھائی اور تمہارے قریب ہو کر نہیں دیتے تو میں اتنی دور سے کیوں دوں۔ اگر تم یہ کہتے ہو کہ تفضل سے لے کر بھیج دو وہ اگر نہ دیں تو کیا کروں۔ اگر دیں تو میرے کس کام کا۔ پہلے تو ناتمام پھر ناقص بعض بعض قصائد اس میں سے اور کے نام کر دئیے گئے ہیں اور اس میں اسی ممدوح سابق کے نام پر ہیں۔ شہاب الدین خاں کا دیوان جو یوسف مرزا لے گیا ہے۔ اس میں یہ دونوں قباحتیں موجود۔ تیسری یہ کہ سراسر غلط ہر شعر غلط، ہر مصرعہ غلط۔ یہ کام تمہاری مدد کے بغیر انجام نہ پائے گا اور تمہارا کچہ(کچھ)نقصان نہیں ہاں احتمال نقصان وہ بھی از روئے وسوسہ و وہم۔ اس صورت میں میں تلافی کا کفیل جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں۔ بہرحال راضی ہو جاؤ اور مجھ کو لکھو تو میں طالب کو اطلاع دوں اور طلب اس کی جب دوبارہ ہو تو کتاب بھیج دوں۔ رحم و کرم کا طالب۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام مرزا شہاب الدین احمد خاں صاحب

بھائی تمہارا خط حکیم محمود خاں صاحب کے آدمی کے ہاتھ پہنچا۔ خیر و عافیت معلوم ہوئی۔ انصاف کرو کتاب کوئی سی ہو اس کا پتہ کیونکر لگے۔ لوٹ کا مال چوری چوری کہتے (کھاتے )کھتریوں میں بک گیا اور اگر سڑک پر بکا تو میں کہاں جو دیکھوں۔ صبر کرو اور چپ ہو رہو؎

بر دل نفسِ اندوہ گیتی بسر آرید

گیرید کہ گیتی ہمہ یکسر بسر آمد

آدمی تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ خدا کرے یہاں کا حال سن لیا کرتے ہو۔ اگر جیتے رہے اور ملنا نصیب ہوا تو کہا جائے گا۔ ورنہ قصہ مختصر قصہ تمام ہوا لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ اور وہ بھی کون سی خوشی کی بات ہے جو لکھوں۔ اپنے گھر میں اور اپنے بچوں کو میری اور میرے گھر کی طرف سے دعا کہہ دینا۔ اور تم کو بھی تمہاری استانی دعا کہتی ہیں زیادہ زیادہ۔ از غالب۔ دو شنبہ ۸ فروری ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

بھائی شہاب الدین خاں واسطے خدا کے تم نے اور حکیم غلام نجف خاں نے میرے دیوان کا کیا حال کر دیا ہے۔ یہ اشعار جو تم نے بھیجے ہیں خدا جانے کس ولد الزنا نے داخل کر دئیے ہیں۔ دیوان تو چھاپے کا ہے متن میں اگر یہ شعر ہوں تو میرے ہیں اور اگر حاشیہ پر ہوں تو میرے نہیں ہیں۔ بالفرض اگر یہ تین شعر متن میں پائے بھی جاویں تو یوں سمجھنا کہ کسی ملعون زن جلب نے اصل کلام کو چھیل کر یہ خرافات لکھ دیئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جس مفسد کے یہ شعر ہیں اس کے باپ پر اور دادا پر اور پردادا پر لعنت اور وہ ہفتاد پشت، ولد الحرام اس کے سوا اور کیا لکھوں۔ ایک تو لڑکے میاں غلام نجف دوسرے تم میرے کمبختی بڑھاپے میں آئی کہ میرا کلام تمہارے ہاتھ آ پڑا۔ بعد ان سطروں کے لکھنے کے تمہارا خط پہنچا یہ دوسرا حادثہ مجھ کو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا۔ قضا و قدر کے امور میں دم مارنے کی گنجایش نہیں ہے۔ کہیں جاگیر پر جلد جانے کی اجازت ہو جائے تاکہ سب یک جا بہم آرام سے رہو۔ اپنے کاتب کو کہہ دینا کہ یہ خرافات متن میں نہ لکھے۔ اگر لکھ دیئے ہوں تو وہ ورق نکلوا ڈالنا اور ورق اس کے بدلے لکھوا کر لگا دینا۔ مناسب تو یوں ہے کہ تم کسی کے آدمی کے ہاتھ وہ دیوان جو تمہارے کاتب نے نقل کیا ہے میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس کو ایک نظر دیکھ کر پھر تم کو بھیج دوں۔ زیادہ زیادہ۔ آج میرے پاس ٹکٹ ہے ورنہ دام معاف رکھنا۔ والسلام۔

ایضاً

بھائی تمہارا خط پہنچا۔ کوئی مطلب جواب طلب نہیں تھا کہ میں اس کا جواب لکھتا۔ پھر سوچا کہ مبادا تم آزردہ ہواس واسطے آج یہ رقعہ تم کو لکھتا ہوں۔ میرا جی تو یہ چاہتا تھا کہ اب جو خط تمہیں لکھوں اس کے آغاز میں یہ لکھوں کہ مبارک ہو۔ تمہارے اب و عم مع الخیر اپنی جاگیر کو روانہ ہو گئے ان شاء اللہ تعالیٰ اب کے جو خط تم کو لکھوں گا اس کا مضمون یہی ہو گا۔ خاطر جمع رکھنا۔ اور اگر میرا خط دوچار دن نہ پہنچے تو مجھ کو اسی مضمون کے ظہور کا منتظر سمجھنا اور گلہ نہ کرنا اور ہاں صاحب تم جو خط لکھتے ہو تو اس میں احمد سعید خاں کا کچھ ذکر نہیں لکھتے۔ لازم ہے کہ ا سکی خیر و عافیت اور اس کی بہن کی خیر و عافیت لکھتے رہا کرو۔ یہاں تمہاری پھوپھی اور تمہارے دونوں بھتیجے اچھی طرح ہیں۔ والدعا۔ از غالب۔ یکشنبہ ۱۲ اپریل ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

مرزا شہاب الدین خاں۔ اچھی طرح ہو۔ غازی آباد کا حال شمشاد علی سے سنا ہو گا۔ ہفتے کے دن دو تین گھڑی دن چڑھے احباب کو رخصت کر کے راہی ہوا۔ قصد یہ تھا کہ پلکنوے رہوں وہاں قافلے کی گنجایش نہ پائی۔ ہا پور کو روانہ ہوا۔ دونوں برخوردار گھوڑوں پر سوار پہلے چل دیئے۔ چار گھڑی دن رہے میں ہا پور کی سرائے میں پہنچا۔ دونوں بھائیوں کو بیٹھے ہوئے اور گھوڑوں کو ٹہلتے ہوئے پایا۔ گھڑی پھر(پہر)دن رہے قافلہ آیا۔ میں نے چھٹانک بھر گھی داغ کیا۔ دو شامی کباب اس میں ڈال دئیے۔ رات ہو گئی تھی۔ شراب پی لی کباب کھائے۔ لڑکوں نے ارہر کی کھچڑی پکوائی خوب گھی ڈال کر آپ بھی کھائی اور سب آدمیوں کو بھی کھلائی۔ دن کے واسطے سادہ سالن پکوایا ترکاری نہ ڈلوائی۔ بارے آج تک دونوں بھائیوں میں موافقت ہے۔ آپس کی صلاح مشورے سے کام کرتے ہیں۔ اتنی بات زائد ہے کہ حسین علی منزل پر اتر کر پاپڑ اور مٹھائی کے کھلونے خرید لاتا ہے۔ دونوں بھائی مل کر کھا لیتے ہیں۔ آج میں نے تمہارے والد کی نصیحت پر عمل کیا۔ چار بجے پانچ کے عمل میں ہاپور سے چل دیا۔ سورج نکلے بابو گڈھ(گڑھ) کی سرائے پر آ پہنچا۔ چارپائی بچھائی، اس پر بچھونا بچھا کر حقہ پی رہا ہوں اور یہ خط لکھ رہا ہوں۔ دونوں گھوڑے کوتل آ گئے دونوں لڑکے رتھ میں سوار آتے ہیں۔ اب وہ آئے اور کھانا کھا لیا اور چلے۔ تم اپنی استانی کے پاس جا کر یہ رقعہ سراسر پڑھ کر سنا دینا۔ شمشاد کو کتاب کے مقابلہ اور تصحیح کی تاکید کر دینا۔

ایضاً

میاں وہ قاضی تو مسخرہ چوتیا ہے۔ ان کا خط دیکھ لیا۔ خیر ہاں علاؤ الدین خاں کا خط گھنٹہ بھر بھانڈ کے طائفہ کا تماشہ ہے اب تم کہو استاد میر جان کو کیونکر بھیجو گے ان کو کہاں پاؤ گے۔ اور علاؤ الدین خاں نے حسب الحکم تمہارے چچا کے لکھا ہے۔ لوہارو کی سواریاں آئی ہوئی شاید کل یا پرسوں جائیں اس کی فکر آج کرو۔ امین الدین خاں بے چارہ اکیلا گھبراتا ہو گا۔ چکیدن دہیم، رسیدن دہیم۔ یہ غزل علاؤ الدین کو بھیج چکا ہوں۔ تم علاؤ الدین خان کو لکھو کہ بڑی شرم کی بات ہے کہ ؎ہر دم آزرگی غیر سبب را چہ علاج۔ اس غزل کو حافظ کی غزل سمجھتے ہو۔ واہ، واہ غیر سبب یہ کہاں کی بولی ہے ؟ ؎ از خواندن قرآنِ تو قاری چہ فائدہ۔ عیاذاً باللہ امیر خسرو قرآن کو کہ بسکون رائے قرشت و الف ممدودہ ہے۔ قرآن بر وزن پُران لکھیں گے۔ یہ دونوں غزلیں دو گدھوں کی ہیں۔ شاید ایک نے مقطع میں حافظ اور ایک نے مقطع میں خسرو لکھ دیا ہو۔ غالبؔ

ایضاً

نور چشم شہاب الدین خاں کو دعا کے بعد معلوم ہو یہ جو رقعہ لے کر پہنچتے ہیں ان کا نام حسین علی ہے اور یہ سید ہیں۔ دوا سازی میں یگانہ۔ رکاب داری میں یکتا۔ جان محمد ان کا باپ ملازم سرکار شاہی تھا۔ اب ان کا چچا میر فتح علی پندرہ روپیہ مہینے کا الور میں نوکر ہے۔ بہرحال ان سے کہا گیا کہ پانچ روپیہ مہینا ملے گا اور لوہارو جانا ہو گا۔ انکار کیا کہ پانچ روپیہ میں مَیں کیا کھاؤں گا۔ یہاں زن و فرزند کو کیا بھجواؤں گا۔ جواب دیا گیا کہ سرکار بڑی ہے اگر کام تمہارا پسند آئے گا تو اضافہ ہو جائے گا۔ اب وہ کہتا ہے کہ خیر توقع پر یہ قلیل٭ (کتاب میں قیل لکھا ہوا کاتب کی غلطی ہے :۔ چھوٹا غالب)مشاہرہ قبول کرتا ہوں مگر دونوں وقت روٹی سرکار سے پاؤں۔ بغیر اس کے کسی طرح نہیں جا سکتا۔ سنو میاں حق بجانب اس غریب کے ہے روٹی کے بغیر بات نہیں بنتی۔ یقین ہے کہ تم رپورٹ کرو گے تو اس امر کی منظوری کا حکم آ جائے۔ یہ قصہ فیصل ہوا۔ اب یہ کہتا ہے کہ دو ماہہ مجھے پیشگی دو تاکہ کچہ(کچھ)کپڑا لتا بناؤں اور کچھ گھر میں دے جاؤں۔ راہ میں روٹی اور سواری سرکار سے پاؤں تو یہاں بھی حق بجانب سائل کے جانتا ہوں مگر کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اپنی رائے اس باب میں لکھ نہیں سکتا۔ خیر تم بھی میرا رقعہ علائی مولائی کو بھیج دو۔ غالب۔ سہ شنبہ۔ ۲۴ ستمبر ۱۸۶۱ء۔

ایضاً

تمہارے بھائی کا خط تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ کلیات اردو جو تم نے خریدے ہیں ایک اس میں سے چاہو اپنے چچا کی نذر کرو چاہو بھائی کو تحفہ بھیجو۔ میں نے اس وقت ان کے نام کا خط لوہارو کو روانہ کیا ہے بعد ارسال خط مولوی سدید الدین خاں صاحب میرے ہاں آئے اثنائے حر ف و حکایت میں مَیں نے شاہیں کی حقیقت پوچھی جواب دیا کہ ہاں عربی میں ایک باجے کا نام شاہیں ہے۔ صورت اس کی پوچھی گئی تو کہا مجھے معلوم نہیں۔ صراح میں مَیں نے دیکھا ہے فقط تم مولانا علائی کو خط لکھو۔ یہ رقعہ ملفوف کر دو۔ غالب۔

رباعی

رقعہ کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے

ثاقب حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے

حاجی کلو کو دے کے بے وجہ جواب

غالب کا پکا دیا کلیجہ تم نے

ایضاً

اے روشنی دیدہ شہاب الدین خاں

کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رمضاں

ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک

سنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں

٭٭٭

 

بنام نواب انوار الدولہ سعد الدین خاں صاحب شفق

ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت ست برجریدہ عالم دوامِ ما

خداوند نعمت آج دو شنبہ ۶ رمضان کی اور ۱۵ فروری کی ہے۔ اس وقت کہ بارہ پر تین بجے ہیں۔ عطوفت نامہ پہنچا۔ ادھر پڑھا۔ ادھر جواب لکھا۔ ڈاک کا وقت نہ رہا۔ خط کو معنون کر رکھتا ہوں۔ کل شنبہ ۱۶ فروری کو ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ حال گزشتہ مجھ پر بہت سخت گزرا۔ ۱۲، ۱۳ مہینے صاحبِ فراش رہا اٹھنا دشوار تھا۔ چلنا پھرنا کیسا۔ نہ تپ نہ کھانسی نہ اسہال نہ فالج نہ لقوہ ان سب سے بدتر ایک صورت پر کدورت یعنی احتراق کا مرض مختصر یہ کہ سر سے پاؤں تک بارہ پھوڑے۔ ہر پھوڑہ پر ایک زخم۔ ایک غار ہر روز بے مبالغہ بارہ تیرہ پھائے اور پاؤ بھر مرہم درکار نو دس مہینے بے خور و خواب رہا ہوں اور شب و روز بے تاب۔ راتیں یوں گزری ہیں کہ اگر کبھی آنکھ لگ گئی دو گھڑی غافل رہا ہوں گا کہ ایک آدھ پھوڑے میں ٹیس اٹھی۔ جاگ اٹھا، تڑپا کیا پھر سو گیا پھر ہوشیار ہو گیا۔ سال بھر میں سے تین حصے دن یوں گزرے۔ پھر تخفیف ہونے لگی۔ دو تین مہینے میں لوٹ پوٹ کر اچھا ہو گیا۔ نئے سر سے روح قالب میں آئی اجل نے میری سخت جانی کی قسم کھائی اب اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتوان و سست ہوں حواس کھو بیٹھا۔ حافظہ کو رو بیٹھا۔ اگر اٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں ایک قد آدم دیوار اٹھے۔ آپ کی پرسش کے کیوں نہ قربان جاؤں کہ جب تک میرا مرنا نہ سنا میری خبر نہ لی۔ میری مرگ کے مخبر کی تقریر اور مثلہ میری یہ تحریر آدھی سچ اور آدھی جھوٹ در صورت مرگ نیم مردہ اور در حالتِ حیات نیم زندہ ہوں ؎

در کشاکش ِ ضعفم نگسلد رُوان از تن

اینکہ من نمے میرم ہم زناتو انیہا ست

اگر ان سطور کی نقل میرے مخدوم مولوی غلام غوث خان صاحب بہادر میر منشی لفٹنٹ گورنری غرب و شمال کے پاس بھیج دیجیئے گا تو ان کو خوش اور مجھ کو ممنون کیجیئے گا۔

ایضاً

پیر و مرشد حضور کا توقیع ِ خاص اور آپ کا نوازش نامہ۔ یہ دونوں حرز بازو ایک دن اور ایک وقت پہنچے۔ توقیع کا جواب دو چار دن میں لکھوں گا۔ ناسازی مزاج مبارک موجب تشویش و ملال ہوئی۔ اگرچہ حضرت کی تحریر سے معلوم ہوا کہ مرض باقی نہیں مگر ضعف باقی ہے۔ لیکن تسکین خاطر منحصر اس میں ہے کہ آپ بعد اس تحریر کے ملاحظہ فرمانے کے اپنے مزاج کا حال پھر لکھیں (۔۔۔۔ ) کی ہنڈوی پہنچی۔ اس کا بھی حال سابق ہی کی ہنڈوی کا سا ہے۔ یعنی ساہوکار کہتا ہے کہ ابھی ہم کو کالپی کے ساہوکار کی اجازت نہیں آئی جو ہم روپیہ دیں۔ اگر سرکار کے کار پرداز وہاں کے ساہو کار سے کہہ کر اجازت لکھوا بھیجیں تو مناسب ہے۔ صہبائی کے تذکرے کی ایک جلد میرے ملک میں سے میرے پاس تھی۔ وہ میں اپنی طرف سے بسبیل ارمغاں آپ کو بھیجتا ہوں۔ نذر قبول ہو۔ اب میں حضرت سے باتیں کر چکا۔ خط کو سر نامہ کر کے کہار کو دیتا ہوں کہ ڈاک میں دے آوے۔ بارہ بجے پر دو بجے کتاب کا پارسل بطریق بیرنگ روانہ کروں گا۔ پیشگاہ وزارت میں میری بندگی پہنچے۔ عرضداشت بعد اس کے پہنچے گی۔ جناب میر صاحب قبلہ امجد علی صاحب کو سلام دینا اور جناب منشی نادر حسین صاحب کو سلام۔

ایضاً

پیر و مرشد اگر میں نے امید گاہ بکافِ عربی از راہِ شکوہ لکھا تو کیا گناہ کیا نہ خط کا جواب نہ قصیدہ کی رسید ؎

دریں خستگی پوزش از من مجوئے

بود بندہ خستہ گستاخ گوئے

اور یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ ان مواقع کے سبب سے میں قصیدہ کی تحسین نہیں لکھ سکا۔ بندہ بے ادب نہیں تحسین طلب نہیں۔ ایسے مجمع میں محشور ہوں کہ سوائے احترام الدولہ کے کوئی سخندان نہیں۔ میں جو اپنا کلام آپ کے پاس بھیجتا ہوں گویا اپنے اوپر احسان کرتا ہوں ؎ وائے بر جانِ سخن گر بہ سخندان نہ رسد۔ افسو س کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار آپ کی نظر میں نہیں ورنہ آپ جانیں کہ اس بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔ نواب صاحب اب نہ دل میں وہ طاقت نہ قلم میں وہ زور سخن گستری کا ایک ملکہ باقی ہے بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آ جائے وہ لکھ لوں ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بقول مرزا عبدالقادر بیدل؎

جہد ہا درخورِ توانائی است

ضعف یکسر فراغ مے خواہد

مہر کا حال معلوم ہوا پہلے آپ لکھ بھیجئے کہ کیا کھودا جائے گا۔ مہدی حسن خاں ، مہدی حسین خاں بہادر لکھ رہا ہوں۔ صرف یا د پر لکھ رہا ہوں ورنہ خط لڑکوں نے کھو دیا یاد پڑتا ہے کہ نگینہ یہاں سے بھیجنے کو آپ نے لکھا ہے سو اب میں مکرر خواہاں ہوں کہ یہ معلوم ہو جائے کہ نگینہ بھیجئے گا۔ یہاں خریدا جائے گا اور نقش و نگین کیا ہو گا تاکہ شمار حروف کا مجھ کو معلوم رہے اب جب آپ دیکھیں گے تب میں اس کا جواب لکھوں گا۔ حافظ صاحب کا پہنچنا تقریباً معلوم ہوا یعنی ان کی طرف سے آپ نے مجھ کو سلام لکھا ہے سو میں بھی ان کی خدمت میں بندگی اور جناب نادر حسین خاں صاحب کی جناب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ زیادہ حد ادب۔

ایضاً

قبلہ حاجات قصیدہ دوبارہ پہنچا۔ چونکہ پیشانی پر دستخط کی جگہ نہ تھی ناچار اس کو ایک اور دو ورقہ پر لکھوایا اور حضور میں گزرانا اور تمنائے دیرینہ حاصل کی یعنی دستخط خاص مشتمل اظہار خوشنودی طبع اقدس ہو گئے۔ احترام الدولہ بہادر میرے ہم زباں اور آپ کے ثنا خواں رہے گویا اس امر خاص میں وہ شریک غالب ہیں۔ ہم بطریق کسرہ اضافی وہم بطریق کسرہ توصیفی پروردگار ان بزرگوار کو سلامت رکھے۔ قدر دان کمال بلکہ حق تو یوں ہے کہ خیر محض ہے غیاث اللغات کتاب نام مؤقر و معزز جیسے الفربہ خواہ مخواہ مردِ آدمی آپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے ایک معلم فرومایہ رامپور کا رہنے والا۔ فارسی سے ناآشنائے محض اور صرف نحو میں ناتمام انشاء خلیفہ مشبات مادھو رام کا پڑھانے والا چنانچہ دیباچہ میں اپنا ماخذ بھی اس نے خلیفہ شاہ محمد مادھو رام نیمت و قتیل کے کلام کو لکھا ہے۔ یہ لوگ راہِ سخن کے غول میں آدمی کے گمراہ کرنے والے۔ فارسی کو کیا جانیں۔ ہاں طبع موزوں رکھتے تھے شعر کہتے تھے ؎

راہ شتاب و پے جادہ شناساں بردار

اے کہ در راہ سخن چوں تو ہزار آمد و رفت

میرا دل جانتا ہے کہ آپ کے دیکھنے کا میں کس قدر آرزو مند ہوں۔ میرا یک بھائی ماموں کا بیٹا وہ نواب ذوالفقار بہادر کی حقیقی خالہ کا بیٹا ہوتا تھا اور مسند نشین حال کا چچا تھا۔ اور وہ میرا ہمشیر بھی تھا یعنی میں نے اپنی ممانی اور اس نے اپنی پھوپھی کا دودھ پیا تھا وہ باعث ہوا تھا۔ میرے باندا بوندیل کھنڈ آنے کا۔ میں نے سب سامان سفر کر لیا۔ ڈاک میں روپیہ ڈاک کا دے دیا۔ قصد یہ تھا کہ فتح پور تک ڈاک میں جاؤں گا۔ وہاں سے نواب علی بہادر کے ہاں کی سواری میں باندے جا کر ہفتہ بھر کالپی ہوتا ہوا آپ کے قدم دیکھتا ہوا بسبیل ڈاک دلّی چلا آؤں گا۔ ناگاہ حضور والا بیمار ہو گئے۔ اور مرض نے طول کھینچا وہ ارادہ قوت سے فعل میں نہ آیا اور پھر مرزا اور نگ خاں میرا بھائی مر گیا ؎ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ واللہ وہ سفر اگرچہ بھائی کی استدعا سے تھا مگر میں نتیجہ اس شکل کا آپ کے دیدار کو سمجھا ہوا تھا۔ ہر زہ سرائی کا جرم معاف کیجیئے گا میرا جی آپ کے ساتھ باتیں کرنے کو چاہا۔ اس واسطے جو دل میں تھا وہ اس عبارت سے زبان پر لایا۔

 

ایضاً

پیر و مرشد۔ کورنش۔ مزاج اقدس۔ الحمد للہ تو اچھا ہے۔ حضرت دعا کرتا ہوں۔ پرسوں آپ کا خط مع سارٹیفکٹ (سرٹیفکٹ)کے پہنچا۔ آپ کو مبدا فیاض سے اشرف الوکلا ء کا خطاب ملا۔ محتانہ، محتانہ ایک لطیفہ نشاط انگیز سنیئے۔ ڈاک کا ہرکارہ جو بلّی ماروں کے خطوط پہنچاتا ہے ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا حرف شناس کوئی فلاں ناتھ ڈھمک داس ہے۔ میں بالا خانہ پر رہتا ہوں حویلی میں آ کر اس نے داروغہ کو خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے مبارک ہو آپ کو جیسا کہ دلّی کے بادشاہ نے نوابی کا خطاب دیا تھا اب کالپی سے خطاب کپتانی کا ملا۔ حیران کہ یہ کیا کہتا ہے۔ سر نامہ کو غور سے دیکھا۔ کہیں قبل از اسم مخدوم نیاز کیشاں لکھا تھا۔ اس قرّم ساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے کیشاں کو کپتان پڑھا۔ بھائی ضیاء الدین خاں صاحب شملہ گئے ہوئے ہیں۔ شاید ماہِ حال یعنی جولائی۔ یا اول ماہِ آیندہ یعنی اگست میں یہاں آ جائیں۔ آپ کو نوید تخفیف تصدیع دیتا ہوں۔ آپ نواب صاحب سے کتاب کیوں مانگیں اور زحمت کیوں اٹھائیں۔ جس قدر کہ علم ان کو اس خاندان محدث نشان کے حال پر حاصل ہو گیا ہے کافی ہے۔ مولانا قلق کے نام کی عرضی اس کو پہنچا دیجیئے گا اور جناب نادر حسین خان صاحب کو میرا سلام فرما دیجیئے گا۔

ایضاً

پیر و مرشد۔ شب رفتہ کو مینہ خوب برسا۔ ہوا میں فرط برودت سے گزند پیدا ہو گیا۔ اب صبح کا وقت ہے ہوا ٹھنڈی بے گزند چل رہی ہے۔ ابر تنک محیط ہے۔ آفتاب نکلا ہے پر نظر نہیں آتا ہے۔ میں عالم تصور میں آپ کو مسند عز و جاہ پر جانشین اور منشی نادر حسین خاں صاحب کو آپ کا جلیس مشاہدہ کر کے آپ کی جناب میں کورنش بجا لاتا ہوں اور منشی صاحب کو سلام کرتا ہوں۔ کافر نعمت ہو جاؤں اگر یہ مدارج بجا نہ لاؤں۔ حضرت نے اور منشی صاحب نے میری خاطر سے کیا زحمت اٹھائی ہے۔ بھائی صاحب بہت خوشنود ہوئے۔ منت پذیری میں میرے شریک غالب ہیں۔ فی الحال بتوسط میرے سلام نیاز عرض کرتے ہیں۔ اغلب ہے کہ نامہ جداگانہ بھی ارسال کریں۔ حضرت آپ غالب کی شرارتیں دیکھتے ہیں سب کچھ کہے جاتا ہے اور اس اصل کا کہ جس پر یہ مراتب متفرع ہوں ذکر نہیں کرتا۔ فقیر کو یہ طرز پسند نہ آئی۔ مطلب اصلی کو مقدر چھوڑ جانا کیا شیوہ ہے۔ یوں لکھتا تھا کہ آپ کا عنایت نامہ اور اس کے ساتھ نسب نامہ خاندان مجدد علا کا پارسل پہنچا میں ممنون ہوا۔ نواب ضیاء الدین خاں بہادر بہت ممنون و شاکر ہوئے۔ جناب عالی میں تو غالب ہرزہ سرا کا معتقد نہ رہا۔ آپ نے اس کو مصاحب بنا کر رکھا ہے اس سے اس کا دماغ چل رہا ہے۔ قبلہ و کعبہ جناب مولانا قلق میں حضرت شفق نے جو غالب کی شکایت کی تھی وہ مقبول نہ ہوئی۔ اب جناب ہاشمی کو اپنا ہم زبان اور مدد گار بنا کر پھر کہتے ہیں۔ آپ کی بات اس باب میں کبھی نہ مانوں گا جب تک سید صاحب کا خوشنودی نامہ نہ بھجوائیے گا۔ اس سارٹیفکٹ (سرٹیفکٹ)کے حصول میں رشوت دینے کو بھی موجود ہوں۔ والسلام۔

ایضاً

پیرو مرشد میں آپ کا بندہ فرمانبردار۔ اور آپ کا حکم بطیب خاطر بجا لانے والا ہوں مگر سمجھ تو لوں کہ کیا لکھوں۔ وہ مکتوب کہاں بھیجوں۔ آپ کے پاس بھیج دوں یا انہیں منشی صاحب کے پاس بھیج دوں اور وسیم الدین ظہیر الدین کو منشی، میر، شیخ، خواجہ، کیا کر کے لکھوں۔ دو حاکم کی رائے کے شمول کا قیدی اور اس زمانہ میں سینکڑوں جزیرہ نشین رہائی پا کر اپنے اپنے گھر آ گئے بایں ہمہ منشی کو کیا اختیار ہے کہ وہ چھوڑ دے۔ یہ آپ کی تحریر سے نہیں معلوم ہوتا کہ اب سعی منحصر اس میں ہے کہ قیدی دریائے شور کو نہ جاوے اور یہیں محبوس رہے یا یہ منظور ہے کہ جزیرہ کو بھی نہ جاوے اور یہاں کی قید سے بھی رہائی پاوے۔ خواہش کیا ہے اور کار پرداز سے کس طرح کی اعانت چاہوں۔ پہلے تو یہ سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں۔ پھر جو کچھ لکھوں اس کو کہاں بھیجوں۔ طریق یہ ہے کہ میاں امیر الدین وہ نگارش لے کر منشی صاحب کے پاس جائیں اور بذریعہ اس خط کے روشناس ہوں۔ میں کیا جانوں کہ امیر الدین کا مسکن کہاں ہے۔ منشی صاحب کو خط بھیج دوں ان کے نزدیک احمق بنوں کہ کس امر موہوم مجہول میں مجھ کو لکھا ہے۔ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اس خط کو پڑھ کر تفحص کریں کہ امیر الدین کون ہے۔ اس میں صرف ایک خط موسومہ منشی صاحب ہے۔ کھُلا ہوا اس کو پڑھ کر میاں امیر الدین کے پاس بھیج دیجیئے گا۔ مگر گوند لگا کر۔ اور اگر یہ منظور نہ ہو تو میری طرف سے منشی صاحب کے نام کا خط کا مسودہ لکھ کر میرے پاس بھیجئے کہ اس مسودہ کو صاف کر کے کہاں بھیجوں۔

ایضاً

خداوند نعمت۔ شرف افزا نامہ پہنچا۔ شاہ اسرار الحق کے نام کا مکتوب ان کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ جناب شاہ صاحب سالک مجذوب یا مجذوبِ سالک ہیں۔ اگر جواب بھجوا دیں گے تو جناب میں ارسال کیا جائے گا۔ قصیدہ کو بارہا دیکھا اور غور کی جس طور پر ہے اس میں گنجایش اصلاح کی نہ پائی۔ یعنی لفظ کی جگہ لفظ مرادف بالمعنی لانا صرف اپنی دستگاہ کا اظہار ہے اور نہ کوئی لفظ بے محل اور بے موقع نہیں ٭( یہ جملہ یقیناً کاتب کی کارستانی ہے ورنہ غالب کے قلم سے ایسا بے جوڑ جملہ سمجھ سے باہر ہے۔ غالب نے شاید اس طرح لکھا ہو گا :۔ ۱٭اور نہ کوئی لفظ بے محل اور بے موقع ہے۔۔ ۲٭اور کوئی لفظ بے محل اور بے موقع نہیں۔۔ اس سے پہلے بھی کچھ خطوں میں غالب نے کاتبوں کے زبردستی اصلاح دینے کا رونا رویا ہے۔ چھوٹا غالب)کوئی ترکیب فارسی ٹکسال سے باہر نہیں مگر ہاں طرز گفتار کا بدلنا اس کے واسطے چاہیے۔ دوسرا قصیدہ اس زمین میں ایک اور لکھنا اور وہ تکلف بارد ہے۔ بلکہ شاید حضرت کو یہ منظور بھی نہ ہو۔ پس شرم کم ہمتی سے دل ریش اور فرط خجلت سے سردرپیش ہو کر قصیدہ کو اس لفافہ میں بھیجتا ہوں۔ خدا کرے موردِ عتاب نہ ہوں۔ غلہ کی گرانی آفت آسمانی امراض دموی بلائے جانی انواع اقسام کے ادرام و بثور شائع۔ چارہ ناسود مند و سعی ضائع۔ میں نہیں جانتا کہ ۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو پہر دن چڑھے وہ فوج باغی میرٹھ سے دلّی آئی تھی۔ یا خود قہرِ الہی کا پے بہ پے نزول ہوا تھا۔ بقدر خصوصیت سابق دلّی ممتاز ہے ورنہ سر تا سر قلمرو ہند میں فتنہ و بلا کا دروازہ باز ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جناب میر امجد علی صاحب کو بندگی۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کو سلام۔

ایضاً

پیر و مرشد ۱۲ بجے تھے میں ننگا اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ آدمی نے آ کر خط دیا۔ میں نے کھولا پڑھا۔ بھلے کو انگرکھا یا کُرتا گلے میں نہ تھا اگر ہوتا تو میں گریبان پھاڑ ڈالتا حضرت کا کیا جاتا میرا نقصان ہوتا۔ سرے سے سنیئے آپ کا قصیدہ بعد اصلاح پہنچا اس کی رسید آئی۔ کٹے کٹے ہوئے شعر الٹے آئے ان کی قباحت پوچھی گئی۔ قباحت بتائی گئی۔ الفاظ قبیح کی جگھ٭(جگہ)بے عیب الفاظ لکھ دئیے گئے۔ لو صاحب یہ اشعار بھی قصیدہ میں لکھ لو۔ اس نگارش کا جواب آج تک نہیں آیا۔ شاہ اسرارالحق کے نام کا کاغذ ان کو دیا جواب میں جو کچھ انہوں نے زبانی فرمایا۔ آپ کو لکھا گیا۔ حضرت کی طرف سے اس تحریر کا بھی جواب نہ ملا؎

پُر ہوں مَیں شکوہ سے یوں راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیئے کیا ہوتا ہے

سونچتا (سوچتا )ہوں کہ دونوں خط بیرنگ کئے تھے۔ تلف ہونا کسی طرح متصور نہیں۔ خیر اب بہت دن کے بعد شکوہ کیا لکھا جائے۔ باسی کڑھی میں ابال کیوں آئے۔ بندگی بے چارگی۔ پانچ لشکر کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں کا اس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکین و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ تیسرا لشکر کال کا اس میں ہزار ہا آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضہ کا۔ اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا اس میں تاب و طاقت نہ پائی اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا۔ میرے گھر دو آدمی تپ میں مبتلا ہیں۔ ایک بڑا لڑکا۔ ایک داروغہ۔ خدا ان دونوں کو جلد صحت دے۔ برسات یہاں بھی اچھی ہوئی ہے لیکن نہ ایسی کہ جیسی کالپی اور بنارس میں۔ زمیندار خوش۔ کھیتیاں تیار ہیں۔ خریف کا بیڑا پار ہے۔ ربیع کے واسطے پوہ ماہ میں مینہ درکار ہے۔ کتاب کا پارسل پرسوں ارسال کیا جائے گا۔ آہا ہا ہا جناب حافظ محمد بخش صاحب میری بندگی۔ مغل علی خاں غدر سے کچھ دن پہلے مستسقی ہو کر مر گئے۔ ہے ہے کیونکر لکھوں حکیم رضی الدین خان کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی اور احمد حسین خاں ، ان کے چھوٹے بھائی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے غدر کے سبب نہ جا سکے یہیں رہے۔ بعد فتح دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ طالع یار خاں ٹونک میں زندہ ہیں پر یقین ہے کہ مردہ سے بدتر ہوں گے۔ میر چھوٹم نے بھی پھانسی پائی۔ حال صاحبزادہ میاں نظام الدین کا یہ ہے کہ جہاں سب اکابر شہر کے بھاگے تھے وہاں وہ بھی بھاگ گئے۔ بڑودہ میں رہے۔ اور نگ آباد میں رہے حیدرآباد میں رہے۔ سال گزشتہ یعنی جاڑوں میں یہاں آئے۔ سرکار سے ان کی صفائی ہو گئی لیکن صرف جان بخشی۔ روشن الدولہ کا مدرسہ جو عقب کوتوالی چبوترہ ہے وہ اور خواجہ قاسم کی حویلی جس میں مغل علی خاں مرحوم رہتے تھے اور اور خواجہ صاحب کی حویلی یہ ا ملاک خاص حضرت کالے صاحب کی اور کالے صاحب کے بعد میاں نظام الدین کی قرار پا کر ضبط ہوئی اور نیلام ہو کر روپیہ سرکار میں داخل ہو گیا۔ ہاں قاسم جان کی حویلی جس کے کاغذ میاں نظام کی والدہ کے نام ہیں وہ ان کو یعنی میاں نظام الدین کی والدہ کو مل گئی۔ فی الحال میاں نظام الدین پاک پٹن گئے ہیں۔ شاید بہاولپور بھی جائیں گے۔

ایضاً

پیرو مرشد آداب۔ غلط نامہ قاطع برہان کو بھیجے ہوئے تین دن۔ اور آپ کی خیر و عافیت مولوی حافظ عزیز الدین کی زبانی سنے ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ کل آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ قاطع برہان کے پہنچنے سے اطلاع پائی معتقدان ِ برہان قاطع برچھیاں اور تلواریں پکڑ پکڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہنوز دو اعتراض مجھ تک پہنچے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قاطع برہان غلط ہے یعنی ترکیب خلاف قاعدہ ہے۔ کلام قطع کیا جاتا ہے برہان قاطع نہیں ہو سکتی۔ لو صاحب ! برہان قاطع صحیح اور قاطع برہان غلط۔ مگر برہان قطع کی فاعل ہو سکتی ہے اور قطع کا فعل آپ نہیں قبول کرتے قاطع برہان میں جو برہان کا لفظ ہے یہ مخفف برہان قاطع ہے۔ برہان قاطع کے رد کو قطع سمجھ کر قاطع برہان نام رکھا تو گناہ ہوا۔ دوسرا ایراد یہ ہے کہ ؎ با انگلشیان ستیزہ بے جا۔ انگلش کا نون تلفظ میں نہیں آتا۔ میں پوچھتا ہوں خدا کے واسطے انگلش اور انگریز کا نون باعلان کہاں ہے ؟ اور اگر ہے بھی تو ضرورت شعر کے واسطے لغاتِ عربی میں سکون و حرکت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اگر انگلش کے نون کو غنہ دیا تو گناہ ہوا۔ وہ ورق جو چھاپے کا آپ کے پاس بھیجا ہے اس کو غلط نامہ شاملہ کے بعد لگا کر جلد بڑھوا لیجیئے گا۔ حضرت کیوں آپ نے مراسلہ اور میرے مکتوب کا حال پوچھا؎ ایں ہم کہ جوابے سید جواب است۔ سمجھ لو اور چپ رہو۔ میں نے مانا جس کو تم نے لکھا ہے وہ لکھے گا کہ میں نے مختار سے پوچھا اس نے یوں کہا پھر میں نے یوں کہا۔ اب یہ بات قرار پائی ہے تو اس تقریر کو حضرت ہی باور کریں گے پھر کبھی نہ مانے گا۔ ایک حکایت سنو۔ امجد علی شاہ کی سلطنت کے آغاز میں۔ ایک صاحب میرے نیم آشنا تھے۔ خدا جانے کہاں کے رہنے والے کسی زمانہ میں وارد اکبر آباد ہوئے تھے۔ کبھی کہیں کے تحصیلدار بھی ہو گئے تھے۔ زبان آور اور چالاک اکبر آباد میں نوکری کی جستجو کی کہیں کچھ نہ ہوا۔ میرے ہاں دو ایک بار آئے تھے پھر وہ خدا جانے کہاں گئے مَیں دلی آ رہا۔ کم و بیش بیس برس ہوئے ہوں گے۔ واجد علی شاہ کے عہد میں ان کا خط ناگاہ مجھ کو بسبیل ڈاک آیا۔ چونکہ ان دنوں میں دماغ درست اور حافظہ برقرار تھا میں نے جانا کہ یہ وہی بزرگوار ہیں۔ خط میں مجھ کو پہلے یہ مصرعہ لکھا ؎ از بخت شکر دارم و روز گار ہم۔ آپ سے جدا ہو کر بیس برس آوارہ پھرا جے پور نوکر ہو گیا وہاں سے دو برس کے بعد کہا ں گیا اور کیا کیا۔ اب لکھنؤ میں آیا ہوں وزیر سے ملا ہوں۔ بہت عنایت کرتے ہیں۔ بادشاہ کی ملازمت انہیں کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے۔ بادشاہ نے خان اور بہادر کا خطاب دیا ہے۔ مصاحبوں میں نام لکھا ہے۔ مشاہرہ ابھی قرار نہیں پایا۔ وزیر کو میں نے آپ کا بہت مشتاق کیا ہے۔ اگر آپ کوئی قصیدہ حضور کی مدح میں اور عرضی یا خط جو مناسب جانیں وزیر کے نام لکھ کر میرے پاس بھیج دیجیئے تو بے شک بادشاہ آپ کو بلائیں گے اور وزیر کا خط فرمان طلب آپ کو پہنچے گا۔ میں نے اسی عرصہ میں ایک قصیدہ لکھا تھا جس کی بیت اسم یہ ہے ؎

امجد علی شاہ آنکہ بہ ذوق دعائے او

صدرہ نمازِ صبح قضا کرد روزگار۔۔ الخ

متردد تھا کہ کس کی معرفت بھیجوں۔ توکلت علی اللہ بھیج دیا۔ رسید آ گئی صرف پھر دو ہفتہ کے بعد ایک خط آیا کہ قصیدہ وزیر تک پہنچا۔ وزیر پڑھ کر بہت خوش ہوا۔ بآئین شائستہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ میں متوقع ہوں کہ میاں بدر الدین مہر کن سے میری مہر خطابی کھدوا کر بھیج دیجیئے چاندی کا نگینہ مربع اور قلم جلی فقیر نے سر انجام کر کے بھیج دیا۔ رسید آئی۔ اور قصیدہ کی بادشاہ تک گزرنے کی نوید۔ پس پھر دو مہینے تک ادھر سے کوئی خط نہ آیا۔ میں نے جو خط بھیجا الٹا پھر آیا۔ ڈاک کا یہ توقیع کہ مکتوب الیہ یہاں نہیں۔ ایک رات کے بعد حال معلوم ہوا کہ اس بزرگ کا وزیر تک پہنچنا اور حاضر رہنا سچ۔ بادشاہ کی ملازمت اور خطاب ملنا غلط۔ بہادری کی مہر تم سے بغیر حاصل کر کے مرشد آباد کو چلا گیا۔ چلتے وقت وزیر نے دو سو روپے دئیے تھے۔ ایک قاعدہ کلیہ دلّی کا سمجھ لو۔ خالق کی قدرت مقتضی اس کے ہے کہ جو اس شہر پناہ کے اندر پیدا ہوا۔ مرد یا عورت۔ خفقان، مراق اس کی خلقت و فطرت میں ہو۔ آٹھ دس برس کے بعد ساون کے آخر میں مینہ خوب برسا۔ لیکن نہ دریا جاری ہوئی نہ طوفان آیا۔ ہاں شہر کے باہر ایک دن بجلی گری۔ دو ایک آدمی کچھ جانور تلف ہوئے ، مکان گرے۔ دس بیس آدمی دب کر مرے۔ دو تین شخص کوٹھے پر سے گر کر مرے۔ مراقیوں نے غل مچانا شروع کیا۔ اپنے اپنے عزیزانبسفر رفتہ کو لکھا۔ جا بجا اخبار نویسوں نے ان سے سن کر درج اخبار کیا۔ لو اب دس بارہ دن سے مینہ کا نام نہیں۔ دھوپ آگ سے زیادہ تر تیز ہے۔ وہی دہقانی جو اب روتے پھرتے ہیں کہ کھیتیاں جلی جاتی ہیں اگر مینہ نہ برسا تو پھر کال پڑے گا۔ مکانات کے گرنے کا حال یہ ہے کہ چار پانچ برس ضبط رہے۔ یغمائی لوگ، کڑی، تختہ، کیواڑ، چوکھٹ، بعض مکانات کی چھت کا مصالح سب لے گئے۔ اب ان غربا کو وہ مکان ملے تو ان میں مرمت کا مقدور کہاں۔ فرمائیے مکانات کیوں نہ گریں۔

ایضاً

پیرو مرشد ایک نوازش نامہ آیا اور دستنبو کے پہنچنے کا مژدہ پایا۔ اس کا جواب یہی کہ کارپردازان ڈاک کا احسان مانا۔ اور اپنی محنت کو رائگاں نہ جانا۔ چند روز کے بعد ایک عنایت نامہ اور پہنچا۔ گویا ساغر التفات کا دوسرا دور پہنچا اب ضرور آ پڑا کہ کچھ حال اس ستارہ دم دار کا لکھوں۔ چنانچہ جس وقت وہ خط پڑھا ہے سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ چونکہ بسبب فقدان اسباب یعنی عدم رصد و کتاب کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ناچار مرزا صاحب کا مصرع زبان پر آ جاتا ہے ؎ از یں ستارہ دنبالہ دار می ترسم۔ یہ مطلع ہے اور یہ پہلا مصرع ہے ؎ زخال ِ گوشہ ابروئے یار مے ترسم۔ کیا آپ مجھ کو بے ہنری اور ہیچ میرزی میں صاحب کمال نہیں جانتے۔ اور اس عبارت فارسی کو میرا مصداق حال نہیں مانتے۔ پیشِ ملّا طبیب و پیشِ طبیب ملّا پیش ہیچ ہر دو پیش ہر دو ہیچ۔ آرایش مضامین شعر کے واسطے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے ورنہ سوائے موزونی طبع کے یہاں اور کیا رکھا ہے۔ بہر حال علم نجوم کے قاعدہ کے موافق جب زمانہ کے مزاج میں فساد کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں تب فلک پر یہ شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جس برج میں یہ نظر آئے اس کا درجہ دقیقہ دیکھتے ہیں۔ ہزار طرح کی چال ڈالتے ہیں تب ایک حکم نکالتے ہیں۔ شاہجہان آباد میں بعد غروب آفتاب افق غربہ شہر پر نظر آتا تھا اور ان دنوں میں آفتاب اول میزان میں تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صورت عقرب میں ہے درجہ دقیقہ کی حقیقت نامعلوم رہی۔ بہت دن شہر میں اس ستارہ کی دھوم رہی اب وہ دس بارہ دن سے نظر نہیں آتا۔ وہاں شاید اب نظر آتا ہے جو آپ نے اس کا حال پوچھا ہے۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ صورتیں قہر الہی کی ہیں۔ اور دلیلیں ملک کی تباہی کی۔ قران النحسین پھر کسوف، پھر خسوف، پھر یہ صورت پُر کدورت عیاذاً باللہ و پناہ بخدا۔ یہاں پہلی نومبر کو بدھ کے دن حسب الحکم حکام کوچہ و بازار میں روشنی ہوئی اور شب کو کمپنی کا ٹھیکہ ٹوٹ جانا اور قلمرو ہند کا بادشاہی عمل میں آناسنایا گیا۔ نواب گورنر جنرل لارڈ کینگ بہادر کو ملکہ معظمہ انگلستان نے فرزند ارجمند خطاب دیا اور اپنی طرف سے نائب اور ہندوستان کا حاکم کیا۔ میں قصیدہ پہلے ہی اس تہنیت میں لکھ چکا ہوں چنانچہ یہ شمول دستنبو نظر انور سے گزرا ہو گا

 ؎ تانہال دوستی کے بر دہد

 حالیا رفتیم و تخمی کاشتیم۔

ایضاً

حضرت پیرو مرشد اگر آج میرے سب دوست و عزیز یہاں فراہم ہوتے اور ہم اور وہ باہم ہوتے تو میں کہتا کہ آؤ اور رسم تہنیت بجا لاؤ۔ خدا نے پھر وہ دن دکھایا کہ ڈاک کا ہرکارہ انوار الدولہ کا خط لایا ؎ ایں کہ مے بینم بہ بیدار یست یا رب یا بخواب۔ منہ پیٹتا ہوں اور سر پٹکتا ہوں کہ جو کچھ لکھا چاہتا ہوں نہیں لکھ سکتا ہوں۔ الہی حیات جاودانی نہیں مانگتا پہلے انوار الدولہ سے مل کر سر گزشت بیان کروں۔ پھر اس کے بعد مروں۔ روپیہ کا نقصان اگرچہ جانکاہ اور جان گزا ہے پر بموجب تلف المال خلف العمر عمر فزا ہے۔ جو روپیہ ہاتھ سے گیا ہے اس کو عمر کی قیمت جانیئے اور ثبات ذات و بقائے عرض و ناموس کو غنیمت جانیئے۔ اللہ تعالیٰ وزیر اعظم کو سلامت رکھے اور اس خاندان کے نام و نشان و عز و شان کو برقرار تا قیامت رکھے۔ میں نے گیارھویں مئی ۱۸۵۷ ء سے اکتیسویں جولائی ۱۸۵۸ ء تک روداد نثر میں بعبارت فارسی نا آمیختہ عربی لکھی ہے اور دہ پندرہ سطر کے مسطر سے چار جزو کی کتاب آگرہ کو مفید الخلائق میں چھپنے کو گئی ہے۔ دستنبو اس کا نام رکھا ہے۔ اور اس میں صرف اپنی سرگزشت اور اپنے مشاہدہ کے بیان سے کام رکھا ہے بعد چھپ جانے کے وہ نسخہ حضرت کی نظر سے گزرانوں گا اور اس کو ہم سخنی اور ہم زبانی جانوں گا۔ جناب میر امجد علی صاحب کا جو آپ کے خط میں ذکر نہیں آیا ہے تو اس خیرخواہ احباب کا دل گھبرایا ہے اب جو خط لکھیئے تو ان کی خیر و عافیت بہر نمط لکھیئے ، ان کو بندگی اور جناب منشی نادرحسین خان صاحب کو سلام پہنچے۔

ایضاً

پیرو مرشد معاف کیجئے گا۔ میں نے جمنا کا کچھ حال نہ لکھا۔ یہاں کبھی کسی نے اس دریا کی کوئی حکایت ایسی کی کہ جس سے استعباد اور استعجاب پایا جائے۔ پرسش کے بعد بھی کوئی بات نہیں سنی۔ سنیئے تو سہی موسم کیا ہے ، گرمی، جاڑا، برسات تین فصلیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ تگرک باری علاوہ ایک بحر روان کی حقیقت متغیر ہو جائے تو محل استعجاب کیوں ہو۔ اور یہ بات کہ دلی میں تغیر نہ ہو۔ اور یورپ٭(غالب نے شاید "پورب” لکھا تھا جو کاتب نے بزعمِ اصلاح "یورپ” میں تبدیل کر دیا۔۔ واللہ اعلم:۔ چھوٹا غالب) میں ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمنا بانفراد بہہ رہی ہے اور وہاں کہیں کیں کہیں اور ندی کہیں گنگا باہم مل گئی ہیں۔ مجمع البحار ہے۔ حضرت نے خوب وکالت کی۔ مولانا قلق سے تقصیر میری معاف نہ کروائی۔ کہہ دو کہ گناہ معاف ہو گیا۔ میں بغیر سارٹیفکٹ(سرٹیفکٹ )کے کب مانوں گا یہ دن مجھ پر برے گزرتے ہیں۔ گرمی میں میرا حال بعینہٖ وہ ہوتا ہے۔ جیسا زبان سے پانی پینے والے جانوروں کا۔ خصوصاً اس تموز میں کہ غم وہم کا ہجوم ہے۔

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوز غم ہائے نہانی اور ہے۔

ایضاً

قبلہ و کعبہ وہ عنایت نامہجس میں حضرت نے مزا ج کی شکایت لکھی تھی پڑھ کر بے چین ہو گیا ہوں اور عرض کر چکا ہوں کہ مزاج کا مفصل لکھیئے چونکہ آپ نے کچھ نہیں لکھا تو اور زیادہ مشوش ہوں۔ نسخہ رفع تشویش یعنی شفقت نامہ جلد بھیجئے۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں ، حضرت میر امجد علی صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں۔ متوقع ہوں کہ ان دونوں صاحبوں کی خدمت میں میرا سلام پہنچے اور آپ ان کی خیر و عافیت لکھیں۔ کبوتروں کا نسخہ جیسا کہ میرے پاس آیا ہے بجنسہٖ ا رسال کرتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ میرن صاحب نے انتقال کیا۔ یہ چھوٹے بھائی تھے۔ مجتہد العصر لکھنؤ کے نام ان کا سید حسین اور خطاب سید العلما نقش نگین۔ میر حسین ابن علی میں نے ان کی رحلت کی ایک تاریخ پائی۔ اس میں پانچ بڑھتے ہیں یعنی ۱۲۷۸ ہوتے تھے۔ تخرجہ نئی روش کا میرے خیال میں آیا۔ میں تو جانتا ہوں اچھا ہے دیکھوں آپ پسند فرماتے ہیں یا نہیں۔

قطعہ

حسین ابن علی آبروئے علم و عمل

کہ سید العلما نقش خاتمش بودے

نماند و ماندے اگر بودے پنج سال دگر

 غم حسین علی سال ماتمش بودے

زیادہ حد ادب فقط۔

ایضاً

پیرو مرشد یہ خط لکھنا نہیں ہے باتیں کرنی ہیں اور یہی سبب ہے کہ میں القاب و آداب نہیں لکھتا خلاصہ عرض کار یہ ہے کہ آج شہر میں بدر الدین علی خاں کا نظیر نہیں۔ بس مہر اور کون کھودسکے گا۔ ناچار میں نے آپ کا نوازش نامہ جو میرے نام تھا وہ ان کے پاس بھجوا دیا۔ انہوں نے رقعہ میرے نام آج بھیجا۔ سو وہ رقعہ حضرت کی خدمت میں بھیجتا ہوں آپ پڑھ لیں سمجھ لیں اور نگین باحتیاط ارسال فرما دیں۔ پھر اس کے بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں ہے جب میں عرض کروں گا تب بھیجئے گا۔ تعجب ہے کہ جناب میر امجد علی صاحب قلق کا اس خط میں سلام نہ تھا۔ متوقع ہوں کہ چھاپے کے قصیدے ان کو سنا دیے جاویں۔ اور میری بندگی کہی جاوے۔ جناب منشی نادر حسین صاحب کو میرا سلام ہزار اشتیاق پہنچے۔

ایضاً

للہ الشکر کہ پیر و مرشد کا مزاج اقدس بہ خیر و عافیت ہے۔ پہلے نوازش نامہ کا جواب با آنکہ وہ مشتمل ایک سوال پر تھا۔ ہنوز لکھنے نہیں پایا کہ کل ایک مکرمت نامہ آیا۔ بندہ عرض کر چکا ہے کہ مسہل میں ہوں چنانچہ کل میرا مسہل ہو گا۔ اس سبب سے اس توقیع کا پاسخ نگار نہ ہو سکا تھا اور لکھتا بھی تو یہی لکھتا جو آپ نے لکھا ہے۔ ارنی کی رے کی حرکت و سکون کے باب میں قول فیصل یہی ہے جو حضرت نے لکھا ہے۔ اگر تقطیع شعر مساعدت کر جائے اور ارنی بر وزن خمپے گنجایش پائے تو نعم الاتفاق ہے ورنہ قاعدہ تصرف مقتضی جواز ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل ؎

چو رسی بطور ہمت ارنی مگو و مگریز

 کہ نیرزد ایں تمنا بجواب ِ لن ترانی

اسد اللہ بیگ غالب؎

رفت آنکہ با ازحسن مدارا طلب کنیم

سررشتہ درکف ارنی گوئے طور بود

زوائد سے فارغ ہو کر عرض کرتا ہوں کہ ہائے کیا غزل لکھی ہے۔ قبلہ آپ فارسی کیوں نہیں کہا کرتے کیا پاکیزہ زبان ہے اور کیا طرز بیان۔ کیا میں سخن ناشناس اور نا انصاف ہوں کہ ایسے کلام کے حک و اصلاح پر جرات کروں ؎ چہ حاجت ست بمشاطہ روئے زیبا را۔ ہاں ایک جگہ آپ تحریر میں سہو کر گئے ہیں۔ ؎ اے مطرب جادو فن بازم رہ ہوشم زن۔ دو میم آ پڑے ہیں۔ ایک میم بے کار ہے دیگر کی جگہ آپ بازم لکھ گئے ہیں ؎ اے مطرب جادو فن دیگر رہ ہوشم زن۔ اب دیکھیئے اور صاحبوں کی غزلیں کب آتی ہیں۔ اتنی عنایت فرمائیے گا کہ صاحب تخلص کے ساتھ ان کا اسم مبارک اور کچھ حال رقم کیجیئے گا۔ زیادہ حد ادب۔

ایضاً

کیونکر کہوں کہ میں دیوانہ نہیں ہوں۔ ہاں اتنے ہوش باقی ہیں کہ اپنے کو دیوانہ سمجھتا ہوں واہ کیا ہوشمندی ہے۔ کہ قبلہ ارباب ہوش کو خط لکھتا ہوں نہ القاب نہ آداب نہ بندگی نہ تسلیم۔ سن غالب ہم تجھ سے کہتے ہیں بہت مصاحب نہ بن۔ اے ایاز حد خود بشناس۔ مانا کہ تو نے کئی برس کے بعد نو بیت کی غزل لکھی ہے اور آپ اپنے کلام پر وجد کر رہا ہے مگر یہ تحریر کی کیا روش ہے۔ پہلے القاب لکھ پھر بندگی عرض کر۔ پھر ہاتھ جوڑ کر مزاج کی خبر پوچھ پھر عنایت نامہ کے آنے کا شکریہ ادا کر اور یہ کہہ کہ جو میں قصور کر رہا تھا وہ ہوا یعنی جس دن صبح کو میں نے خط بھیجا۔ اسی دن آخر روز حضور کا فرمان پہنچا۔ معلوم ہوا کہ حرارت ہنوز باقی ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ رفع ہو جائے گی۔ موسم اچھا آ گیا ہے ؎

گرمی از آب بروں رفت و حرارت ز ہوا

محمل مہر جہانتاب٭ بمیزان آمد

(٭کتاب میں لفظ جہانتات لکھا ہے۔ اللہ جانے واقعی جہانتات کوئی لفظ ہے یا کاتب نے جہانتاب کو جہانتات کر دیا ہے۔ چھوٹا غالب)

اگر صرف تبرید و تعدیل سے کام نکل جائے تو کیا کہا کہنا ہے ورنہ بحسب رائے طبیب تنقیہ کر ڈالیے۔ مجھ کو بھی آج دسواں منضج ہے۔ پانچ سات دن کے بعد مسہل ہو گا۔

ایضاً

پیرو مرشد۔ آداب، مزاج مقدس۔ میرا جو حال آپ نے پوچھا اس پرسش کا شکر بجا لاتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ آپ کا بندہ بے درم خریدہ اچھی طرح ہے۔ ایک فصد بائیں ، منضج چار مسہل کہاں تک آدمی کو ضعیف نہ کرے بارے آفتاب عقرب میں آ گیا۔ پانی برف آب ہو گیا ہے۔ کابل و کشمیر کا میوہ بکنے لگا ہے۔ یہ ضعف ضعفِ قسمتتو نہیں کہ ایسے ایسے امور اس کو زائل کر سکیں۔ غزلوں کو پرسوں سے پڑھ رہا ہوں ہوں اور وجد کر رہا ہوں۔ خوشامد میرا شیوہ نہیں ہے جو ان غزلوں کی حقیقت میری نظر میں ہے وہ مجھ سے سن لیجیئے اور میری داد دینے کی داد دیجیئے۔ مولانا قلق نے متقدمین یعنی امیر خسرو و سعدی و جامی کی روشکو سرحد کمال پہنچایا ہے اور میرے قبلہ و کعبہ مولانا شفق اور مولانا ہاشمی اور مولانا عسکری متاخرین یعنی صائب و کلیم و قدسی کے انداز کو آسمان پر لے گئے ہیں۔ اور تکلف و تملق سے کہتا ہوں تو مجھ کو ایمان نصیب نہ ہو۔ یہ جو آپ نے اپنے کلام کے حک و اصلاح کے واسطے مجھ سے فرماتے ہیں۔ یہ آپ میری آبرو بڑھاتے ہیں۔ کوئی بات بجا ہو کوئی لفظ ناروا ہو تو میں حکم بجا لاؤں۔ زیادہ حد ادب۔

ایضاً

قبلہ و کعبہ کیا لکھوں۔ امور نفسانی میں اضداد کا جمع ہونا محالات عادیہ میں سے ہے کیونکر ہو سکے ایک وقتِ خاص میں ایک امر خاص موجب انشراح کا بھی ہو اور باعث انقباض کا بھی ہو۔ یہ بات میں نے آپ کے اس خط میں پائی کہ اس کو پڑھ کر خوش بھی ہوا اور غمگین بھی ہوا۔ سبحان اللہ ۔ اکثر امور میں تم کو ہم طالع پاتا ہوں۔ عزیزوں کی ستم کشی اور رشتہ داروں سے ناخوشی میرا ہم قوم تو سراسر قلمرو ہند میں نہیں۔ سمر قند میں دو چار، یا دشت خفچاق میں سو دو سو ہوں گے مگر ہاں اقربائے سببی ہیں۔ سو پانچ برس کی عمر سے ان کے دام میں اسیر ہوں۔ اکسٹھ برس ستم اٹھائے ہیں ؎

گر دہم شرح ستم ہائے عزیزاں غالبؔ

رسمِ امید ہما ناز جہاں برخیزد

نہ تم میری خبر لے سکتے ہو نہ میں تم کو مدد دے سکتا ہوں۔ اللہ اللہ دریا سارا تیر چکا ہوں۔ ساحل نزدیک ہے دو ہاتھ لگائے اور بیڑا پار ہے ؎

عمر دیکھا کیا مرنے کی راہ

مر گئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا

شاہ اسرار الحق کو حافظ نظام الدین صاحب کا خط بھجوا دیا۔ ہفتہ بھر کے بعد جواب مانگا۔ جواب دیا کہ اب بھیجتا ہوں۔ دس بارہ دن ہوئے کہ حضرت خود تشریف لائے۔ جواب آپ کے اور حافظ جی کے خط کا مانگا کہا کل بھیج دوں گا۔ اس واقعہ کو آج قریب دو ہفتہ کے عرصہ ہوا۔ ناچار ان کے جواب سے قطع نظر کر کے آپ کو یہ چند سطریں لکھیں ؎

از خونِ دل نوشتم نزدیک دوست نامہ

انی رایت ُ دھراً فی ہجرک القیامہ

حافظ جی صاحب کو میری بندگی کہیئے گا اور یہ خط ان کو پڑھوا دیجیئے گا۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کو میرا سلام پہنچے۔ اگرچہ آپ مبتلائے رنج و الم ہو مگر یہ شرف کیا کم ہے ہ انوار الدولہ کے ہمدرد ہو مورد ستم ہائے روزگار ہونا شرافت ذاتی کی دلیل ہے۔ ساطع اور برہان ہے قاطع۔ ہاں حضرت بہت دن سے جناب میر امجد علی صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں ان کے تخلص نے مجھ کو حیران کر رکھا ہے یعنی قلق میں مبتلا ہوں۔ آپ ان کا حال لکھیئے۔ خواجہ اسمٰعیلخاں صاحب کہاں ہیں اور کس طرح۔ سنیئے قبلہ میں تو آپ سے شاہ انوار الحق کے خط کے جواب کا طالب نہیں ہوں کہ آپ ان کے خط حاصل ہونے کے انتظار میں مجھ کو خط نہ لکھ سکیں۔ مترصد ہوں کہ اس اپنے خط کا جواب جلد پاؤں۔

٭٭٭

 

بنام میر افضل علی عرف میرن صاحب

سعادت و اقبال نشان میر افضل علی صاحب المعروف بہ میرن صاحب خدا تم کوسلامت رکھے۔ اور پھر تمہاری صورت مجھ کو دکھا دے۔ تمہارا خط پہنچا۔ آنکھوں سے لگایا۔ آنکھوں میں نور آیا۔ دل پر رکھا مزا پایا۔ کل تک اس نام کو سن کر شرماتے تھے اور آپ ہی آپ کھلے جاتے تھے اب بن بن کر باتیں بناتے ہو اور ہم کو کڑیاں سناتے ہو۔ کاشکے ٭ (کاش کہ) تم یہاں آ جاؤ تب اس تحریر کا مزا پاؤ۔ میر مہدی صاحب وہ تحریر تمہاری بہ نسبت میرے دیکھ کر بہت خفا ہوئے چنانچہ اب جو تمہاری ان سے ملاقات ہو گی تو تم کو معلوم ہو گا بھائی تمہارے سالے صاحب غرور کے پتلے ہیں دو ایک بار میں نے ان کو بلایا انہوں نے کرم نہ فرمایا۔ تم سچ کہتے ہو یہ لوگ اور ہی آب و گل کے ہیں۔ تمہاری ان کی کبھی نہ بنے گی اور گھری٭ (گاڑھی) نہ چھنے گی۔ وہیں بیٹھے رہو دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ رنج و عذاب کا زمانہ جلد گزرتا ہے۔ میر سرفراز حسین صاحب کو میری دعا کہنا اور کہنا بھائی وہ زمانہ آیا ہے کہ سینکڑوں عزیز راہی ملک عدم ہوئے سینکڑوں ایسے مفقود الخبر ہوئے کہ ان کی مرگ و زیست کی خبر نہیں دو چار جو باقی رہے ہیں خدا جانے کہاں بستے ہیں کہ ہم ان کے دیکھنے کو ترستے ہیں۔ میر نصیر الدین کو پہلے بندگی پھر دعا۔ دو شنبہ ۹ نومبر ۱۸۵۸ بین الظہر و العصر۔ حوالہ میر مہدی طال عمرہٗ۔

ایضاً

برخوردار کامگار میر افضل علی عرف میرن صاحب طول عمرہٗ۔ بعد دعا کے واضح رائے سعادت اتمائے ہو آپ کا خط پہنچا۔ اگرچہ میں نے صرف پڑھا۔ میر مہدی کے جلانے کو لکھتا ہوں کہ میں نے آنکھوں سے لگایا۔ ہاں صاحب تم نے جو لکھا ہے قبلہ و کعبہ کہنے سے وہ صاحب بہت خوش ہوتے ہیں کیوں نہ خوش ہوں خوشی کی بات ہے۔ تمہارے سر کی قسم میں گویا دیکھ رہا ہوں اور میری نظر میں پھر رہا ہے۔ وہ میر سرفراز حسین کا شرما کر آنکھیں نیچی کرنی اور مسکرانا خدا کبھی مجھ کو بھی وہ صورت دکھائے۔ میر نصیر الدین یہاں آ گئے ہیں۔ تم مجتہد العصر اور حکیم میر اشرف علی کو میری دعا کہنا اور میر مہدی پوچھیں تو کہنا کہ تم کو کچھ یہاں لکھا۔ کل میں نے خبر منگائی تھی سو لڑکی کو ابھی تک تپ آئے جاتی ہے۔ یقین ہے کہ تم نے وہاں پہنچ کر مولوی مظہر علی کو خط لکھا ہو گا۔ ہاں تم کو ضرور ہے ان سے نامہ و پیام کی رسم رکھنی۔ والدعا۔ چار شنبہ۔ ششم جولائی ۱۸۵۹ ء۔ غالب۔

ایضاً

میری جان تمہارا رقعہ پہنچا۔ نہ کھلا کہ میر سرفراز حسین جے پور کیوں جاتے ہیں۔ بہرحال میر مہدی کو دعا کہنا۔ اور میر سرفراز حسین سے یہ پوچھنا کہ تم جے پور چلے میں نے تم کو خدا کو سونپا۔ تم مجھے کس کو سونپ چلے۔ جواب کا طالب غالب۔ ۲۱ جولائی ۱۸۶۴ ء۔

٭٭٭

 

بنام مرزا قربان علی بیگ خان صاحب سالکؔ

وللرحمن الطاف خفیہ۔ خیر و عافیت تمہاری معلوم ہو ئی۔ دم غنیمت ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ کہتے ہیں خدا سے نا امیدی کفر ہے۔ میں تو اپنے باب میں خدا سے نا امید ہو کر کافر مطلق ہو گیا۔ موافق عقیدہ اہل اسلام جب کافر ہو گیا تو مغفرت کی بھی توقع نہ رہی۔ چل بھئی نہ دنیا نہ دین۔ مگر تم حتی الوسعمسلمان بنے رہو اور خدا سے نا امید نہ ہو۔ ان مع العسر یسراً کو اپنے نصب العین رکھو ؎ در طریقت ہر چہ پیش سالکآید خیر اوست۔ گھر میں تمہارے سب طرح خیر و عافیت ہے۔ محمد میرزا پنجشنبہ اور جمعہ کو داستان کے وقت آ جاتا ہے۔ رضوان ہر روز شب کو آتا ہے۔ یوسف علی خاں عزیز سلام اور باقر علی اور حسین علی بندگی کہتے ہیں۔ کلو داروغہ کورنش عرض کرتا ہے۔ اوروں کو یہ پایہ حاصل نہیں کہ وہ کورنش بھی بجا لائیں خط بھیجتے رہا کرو۔ والدعا۔ اپنی مرگ کا طالب غالب۔ صبح دو شنبہ ۲ صفر ۱۱ جولائی سالِ حال۔

ایضاً

میری جان کن اوہام میں گرفتار ہے۔ جہاں باپ کو پیٹ چکا اب چچا کو بھی رو۔ تجھ کو خدا جیتا رکھے۔ اور تیرے خیالات و احتمالات کو صورت وقوعی دے۔ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔ آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کیا ہے جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں کہ لو غالب کے ایک اور جوتی لگی بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں۔ آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب تو قرضداروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا بڑا ملحد مرا برا کافر مرا۔ ہم نے از راہ تعظیم جیسا بادشاہوں کو بعد ان کے جنت آرامگاہ و عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں۔ چونکہ یہ اپنے شاہ قلمرو سخن جانتا تھا۔ بسقر مقر اور ہاویہ زاویہ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ آئے نجم الدولہ بہادر ایک قرضدار کا گریبان میں ہاتھ ایک قرضدار بھوگ سنا رہا ہے (کتاب میں "بھُوک قار ہے ” لکھا ہے واللہ اعلم۔ چھوٹا غالب) میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔ اجی حضرت نواب صاحب۔ نواب صاحب کیسے ، اور خان صاحب آ پ جوقی٭(سلجوقی) اور افراسیابی ہیں۔ یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے۔ کچھ تو اکسو کچھ تو بولو۔ بولے کیا، بے حیا، بے عزت، کوٹھی سے شراب، گندگی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے جاتا ہے یہ بھی تو سونچا (سوچا) ہوتا کہ کہاں سے دوں گا۔

٭٭٭

 

بنام مرزا شمشاد علی بیگ خان صاحب رضواں

فرزند دلبند شمشاد علی بیگ خاں کو۔ اگر خفا نہ ہوں تو دعا اگر آزردہ ہوں تو بندگی۔ غازی آباد سے جا کر طبع اقدس ناساز ہو گئی ؎از آمدنِ کعبہ پشیمانی شدہ باشی۔ قربان علی بیگ خاں کو دعا کہنا مرزا تفضل حسین خان کو دعا کہنا۔ اور ان کا حال لکھنا۔ آج شنبہ ۴ نومبر کی ہے۔ پرسوں نواب صاحب دورہ کو گئے ہیں۔ فرما گئے ہیں کہ دو ہفتہ میں آؤں گا۔ اگر چار روز یہاں رہیں گے پھر نمایشگاہ بریلی کی سیرکو جائیں گے۔ وہاں سے پھر کر جب آئیں گے تو صاحب کمشنر بریلی کا انتظار فرمائیں گے وہ پنجم دسمبر تک آ جائیں گے۔ تین دن جشن رہے گا۔ اس کے دو چار روز بعد غالب رخصت ہو گا۔ خدا کرے تم تک زندہ پہنچ جائے۔ پیر جی بہت یاد آ تے ہیں ان کو دعا کہنا اور یہ کاغذ پہلے تم پڑھنا پھر سالک کو پڑھانا۔ پھر میاں خواجہ امان اور حکیم رضا خان کو دکھانا۔ پھر مرزا تفضل حسین خاں کے پاس لے جانا۔ اس قصیدہ کے ساتھ کی نثر نواب ضیاء الدین خاں یا مرزا ثاقب سے مانگ لینا اور اس کی نقل کر لینا اور قاطع برہان کا حال لکھنا۔ میں نے تیس روپیہ کی ہنڈویسو روپیہ کی باقی حکیم جی کو بھیج دی ہے حضرت نے رسید بھی نہیں لکھی اس سے رسید بھی نہیں لکھی ان سے رسید لکھوا بھیجو اور سب جلدوں کے شیرازے بندھ جائیں اور موٹا کاغذ دونوں طرف لگ جائے۔ خبردار کوئی نسخہ بے جلد نہ رہے۔ تین سو مجلد کے تیار ہونے کی خبر اور بقیہ حساب میرے پاس بھیج دینا یا روپیہ فوراً بھیج دوں گا یا آ کر دوں گا۔ گورنر کا حال لکھو۔ کون کون حاضر ہوا کس کس کی ملاقات ہوئی۔ فرّخ سیر کے دادا صاحب آئے ہیں یا نہیں۔ اگر آئے ہیں تو روداد مفصل لکھو۔ ہاں بھائی ٹونک والے سید سراج احمد کا بھی حال ضرور لکھنا۔ علی نقی خاں وزیر شاہ اودھ کی حقیقت بھی ضرور لکھنا اور مجھ کو ان مقاصد کے جواب کا منتظر سمجھنا آج دو شنبہ ۴ نومبر کی ہے آٹھ دن میں خط کی آمدو شد یقینی ہے۔ نو دن راہ دیکھوں گا۔ دسویں دن اگر تمہارا خط نہ آیا تو میں تمہارا رافضی بن جاؤں گا۔ مطالب مندرجہ کے جواب کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

مرزا رسم تحریر خطوط بسبب ضعف ترک ہوتی جاتی ہے۔ تحریر کا تارک نہیں ہوں بلکہ متروک ہوں اب مجھے ویسا نہ سمجھو جیسا چھوڑ گئے ہو۔ رامپور کے سفر میں تاب و طاقت، حسن فکر لطف طبیعت یہ سب اسباب لٹ گیا۔ اگر تمہارے خط کا جواب نہ لکھوں تو محل ترحم ہے نہ مقام شکایت۔ سنو میرے خط کے نہ پہنچنے سے تم کو تشویش کیوں ہو۔ جب تک زندہ ہوں غمزدہ و افسردہ ناتواں و نیم جاں ہوں۔ جب مر جاؤں گا تو میرے مرنے کی خبر سن لو گے۔ پس جب تک میرے مرنے کی خبر نہ سنو جانو کہ غالب جیتا ہے۔ خستہ و نثر رنجور و درد مند یہ سطریں لکھ کر اس وقت تمہارے بھائی پاس بھیجتا ہوں مگر ان کو ہمیشہ سفر در وطن ہے۔ بفرض محال اگر گھر میں ہیں تو عنایت اللہ ان کو ورنہ محمد مرزا کو دے آئے گا، ربیع الثانی جمعہ کا دن صبح کا وقت ہے۔

٭٭٭

 

بنام مرزا باقر علی خاں صاحب کامل

اقبال نشان مرزا باقر علی خاں کو غالب نیم جاں کی دعا پہنچے۔ تمہارا خط آیا۔ تمہارے روزگار کی درستی آگے سن چکا تھا۔ اب تمہارے لکھنے سے دیکھ بھی لی۔ دل میرا خوش ہوا اور تم خاطر جمع رکھو جیساکہ مہاراج نے تم سے کہا ہے تمہاری ترقی انشاءاللہ تعالیٰ جلد ہو گی۔ مجھ سے جو تم گلہ کرتے ہو خط کے نہ بھیجنے کا۔ بھائی اب میری انگلیاں نکمی ہو گئی ہیں اور بصارت میں بھی ضعف آ گیا ہے۔ دو سطریں نہیں لکھ سکتا۔ اطراف و جوانب کے خطوط آئے ہوئے دھرے رہتے ہیں۔ جب کوئی دوست آ جاتا ہے۔ میں اس سے جواب لکھوا دیتا ہوں۔ پرسوں کا تمہارا خط آیا ہوا دھرا تھا اب اس وقت مرزا یوسف علی خاں آ گئے میں نے ان سے یہ خط لکھوا دیا۔ تمہاری دادی اچھی طرح، تمہارا بھائی اچھی طرح ہے۔ تمہارے گھر میں سب طرح خیر و عافیت ہے۔ تمہاری لڑکی اچھی طرح ہے۔ کبھی روز کبھی دوسرے تیسرے میرے پاس آ جاتی ہے۔

ایضاً

نورِ چشم و راحت جان مرزا باقر علی خان کو فقیر غالب کی دعا پہنچے۔ تمہارا خط جو میرے خط کے جواب میں تھا وہ مجھ کو پہنچا۔ اس میں کوئی بات جواب طلب نہ تھی۔ اس خط میں ایک نئے امر کی تمہیں اطلاع دیتا ہوں وہ امر یہ ہے کہ میں نے اگلے مہینے سبد چین کی ایک جلد مع عرضی اقبال نشان مرزا تفضل حسین خان کی معرفت الور کو بھجوائی تھی۔ سو اب کے ہفتے میں حضور پر نور مہاراجہ راؤ بہادر کا خط انہیں کی معرفت مجھ کو آیا۔ حضور نے از راہ بندہ پروری و قدر افزائی القاب بہت بڑا مجھے لکھا اور خط میں فقرے بہت عنایت اور التفات کے بھرے ہوئے درج کیے۔ تم تو وہیں ہو تم کو اس کی اطلاع ہو گئی تھی یا نہیں۔ اور اگر ہو گئی تھی تو تم نے مجھ کو کیوں نہیں لکھا اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کبھی دربار میں کچھ میرا بھی ذکر آتا ہے یا نہیں اور اگر آتا ہے تو کس طرح آتا ہے۔ حضور سن کر کیا فرماتے ہیں۔ غالب۔ ۷ دسمبر ۱۸۶۷ء۔

ایضاً

اقبال نشان باقر علی خان کو غالب نیم جان کی دعا پہنچے۔ بہت دن ہوئے کہ تمہارا خط آیا مگر تم نے اپنے مکان کا پتا تو لکھا ہی نہ تھا۔ فقط الور کا نام لکھ کر چھوڑ دیا۔ میں کیونکر خط بھیجتا۔ بارے اب شہاب الدین خان کی زبانی پتا معلوم ہوا۔ سو اب میں تم کو خط لکھتا ہوں۔ جینا بیگم اچھی طرح ہے میرے پاس آتی رہتی ہے اور تمہارے گھر میں سب طرح خیر و عافیت ہے۔ اکتوبر کے مہینے کی تمہاری تنخواہ تمہارے گھر بھیج دی۔ مرزا حسین علی خان بندگی عرض کرتا ہے۔ اسد اللہ ۔ تحریر تاریخ ۱۶ نومبر ۱۸۶۷ ء۔

٭٭٭

 

بنام ذوالفقار الدین حیدر خاں عرف حسین مرزا صاحب

بھائی تمہارے خطوں کا اور یوسف مرزا کے خطوں کا جواب بھیج چکا ہوں۔ محمد قلی خاں صاحب ہمہ تن مصروف ہیں۔ دووالی (دیوالی)کی تعطیل ہو چکی ہے۔ نوند رائے کی بی بی مر گئی ہے۔ وہ غمزدہ ہو رہا ہے مگر خیر کام کرے گا۔ کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ صاحب ہی کو لکھتے ہیں۔ یہ امر اس پر ظاہر نہ ہو کہ میں نے تمہیں یوں لکھا ہے۔ مطلب اپنا اس کو لکھو میں کیا کروں۔ اگر کہوں کہ میری جان بھی تمہارے کام آئے تو میں حاضر ہوں یہ کہنا تکلف محض ہے۔ کون جان دیتا ہے اور کون کسی سے جان مانگتا ہے مگر جو فکر مجھ کو تمہاری ہے اور جو میری دسترس ہے اس کو میرا خدا اور میرا خداوند جانتا ہے۔ دسترس کو تو تم بھی جانتے ہو۔ انشاءاللہ اوائل ماہ آیندہ یعنی نومبر میں نیر والا مقدمہ درست ہو جائے۔ ان سطور کی تحریر سے مراد یہ ہے کہ ابھی چنی لال تمہارا قرض خواہ آیا تھا۔ تمہارا حال پوچھتا تھا کچھ جھوٹ بول کر اس کو اس راہ پر لایا ہوں کہ سو دو سو روپیہ تم کو بھیج دے۔ بنیوں کی طرح تقریر اس کو سمجھائی ہے کہ لالا جس درخت کا پھل کھانا منظور ہوتا ہے تو اس کو پانی دیتے ہیں۔ حسین مرزا تمہارے کھیت ہیں۔ پانی دو تو اناج پیدا ہو۔ بھائی کچھ تو نرم ہوا ہے۔ تمہارے مکان کا پتا لکھوا کر لے گیا ہے اور یہ کہہ گیا ہے کہ میں اپنے بیٹے رام جی داس سے صلاح کر کے جو بات ٹھہرے گی آپ سے آ کر کہوں گا۔ اگر وہ روپیہ ہی بھیج دے تو کیا کہنا ہے اور اگر وہ خط لکھے اور تم اس کا جواب لکھو تو یہ ضرور لکھنا کہ اسد اللہ نے جوتم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور وہ امر ظہور میں آنے والا ہے بس زیادہ کیا لکھوں۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ سردار مرزا صاحب تشریف لائے۔ میں نے خط ان کو نہیں دکھایا۔ مگر عندالاستفسار کہا گیا کہ حسین مرزا صاحب کو لکھتا ہوں انہوں نے کہا کہ میرا سلام لکھنا اور لکھنا کہ یہاں سب خیر و عافیت سے ہیں اور سب کو دعا سلام کہتے ہیں۔ یوسف مرزا کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ اس وقت سردار مرزا سے دریافت ہو گیا کہ عباس مرزا کے نام کا تمہارا رقعہ ان کو پہنچ گیا۔ شنبہ ۲۹ اکتوبر۔

ایضاً

نواب صاحب آج تیسرا دن ہے کہ تم کو حال لکھ چکا ہوں۔ محمد قلی خاں آئے۔ ہم میں ان میں باہم گفتگو ہوئی۔ نواب گورنر کی آمد آمد میں کچھریاں ٭ (کچہریاں ) بند۔ حکام میرٹھ کو چلے جاتے ہیں۔ ۱۹ یا ۲۰ دسمبر کو میرٹھمخیم خیام ہو گا۔ دربار وہیں ہو گا۔ رہا دلّی کا آنا۔ مشبہ فیہ ہے۔ کوئی کہتا ہے نہ آئیں گے۔ کوئی کہتا ہے جریدہ بسبیل ڈاک آئیں گے۔ کوئی کہتا ہے مع لشکر آئیں گے۔ ۱۳ دن یہاں رہیں گے۔ آج ۱۵ دسمبر کی ہے جو کچھ واقع ہو گا وہ تم کو لکھوں گا۔ نقل حکم کی درخواست اور اس مقدمہ کی فکر بعد اس ہنگامہ کے عمل میں آئے گی۔ خاطر عاطر جمع رہے۔ تمہارا دوست بھی حسب الحکم کمشنر ہانسی حصار کل یا پرسوں میرٹھ کو جائے گا اور ادھر سے امیں الدین خاں بھی وہاں آئے گا۔ میرا دربار و خلعت دریا برد ہو گیا۔ نہ پنشن کی توقع نہ دربار و خلعت کی صورت نہ سزا نہ انعام نہ رسم معمولی قدیم۔ یوسف مرزا صاحب کو دعا پہنچے۔ پرسوں کلو جوتا لے آیا۔ کل دونوں طرف سے کھلا ہوا لے کر گیا۔ ڈاک کے کار پردازوں نے الٹا پھیر دیا اور کہا کہ پولندہ بنا کر لاؤ۔ پولندہ بنا کر لے گیا کہا بارہ پر دو بجے لے لیا۔ بیٹھا رہا، رات کو نو بجے اس کے سامنے روانہ ہوا۔ رسید لے کر اپنے گھر آیا۔ خدا کرے تم کو پہنچ جائے اور پسند آئے۔ قصیدہ کے باب میں میں مایوس مطلق ہوں مگر خیر جو کچھ واقع ہو بطریق خبر لکھ بھیجنا۔ مثنوی باد مخالف کی تمہاری تحریر سے معلوم ہو گئی۔ خیر مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ فیلخانہ ملک پیرا لال ڈکی کے محاذی کے مکانات سب گرائے گئے۔ بلاقی بیگم کا کوچہ التوا میں ہے اہل فوج ڈھانا چاہتے ہیں۔ اہل قلم بچاتے ہیں۔ پایان کار دیکھئے کیا ہو۔ جمعہ ۱۶ دسمبر ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

جناب عالی۔ کل آپ کا خط لکھا ہوا سہ شنبہ یکم نومبر کا پہنچا۔ لطف یہ کہ کل وہی سہ شنبہ کا دن ۸ نومبر کی تھی۔ آج بدھ کا دن ۹ نومبر کی صبح کے وقت میں تم کو خط لکھنے بیٹھا تھا کہ برخوردار یوسف مرزا خان کا خط لکھا ہوا ۳ نومبر کا پہنچا۔ اب میں دونوں خطوں کا جواب باہم لکھتا ہوں۔ دونوں صاحب باہم پڑھ لیں۔ مرزا آغا جانی صاحب اچھی طرح ہیں ان کو تپ آ گئی تھی اب تپ مفارقت کر گئی ہے مگر ضعف باقی ہے۔ آج چوتھا دن ہے کہ میرے پاس آئے تھے۔ کاشی ناتھ سراسر پہلو تہی کرتا ہے۔ نوند رائے کو تاکید کرتے ہیں۔ آج کل یہاں پنجاب احاطہ کے بہت حاکم فراہم ہیں۔ پون ٹوٹی کے باب میں کونسل ہوئی۔ پرسوں ۷ نومبر سے جاری ہو گئی۔ سالگ رام خزانچی۔ چھٹا مل مہیش داس ان تینوں شخصوں کو یہ کام بطریق امانی سپرد ہوا ہے۔ غلہ اور اپلے کے سوا کوئی جنس ایسی نہیں کہ جس پر محصول نہ ہو۔ آبادی کا حکم عام ہے۔ خلق کا ازدحام ٭( اژدہام )ہے۔ آگے حکم تھا کہ مالکان مکان رہیں کرایہ دار نہ رہیں پرسوں سے حکم ہو گیا کہ کرایہ دار بھی رہیں۔ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ تم یا میں یا کوئی اپنے مکان میں کرایہ دار کو آباد کرے۔ وہ لوگ جو گھر کا نشان نہیں رکھتے اور ہمیشہ سے کرایہ کے مکان میں رہتے تھے وہ بھی آ رہیں مگر کرایہ سرکار کو دیں۔ تم انصاف کرو ہمشیرہ کی درخواست کیونکر گزرے۔ جب وہ خود آئیں اور درخواست دیں اور منظور ہو اور مکان ملے تو اس تمام شہر ستان ویران میں سے ایک حویلی ملے گی اور ان کو یہاں رہنا ہو گا کیونکر اس ویرانہ میں تنہا رہیں گی۔ سہم کر دم نکل جائے گا۔ مانا کہ جبر اختیار کر کر رہیں۔ کھائیں گی کہاں سے۔ بہرحال یہ سب خیالات ِ خام اور جملے ناتمام ہیں ہاں نقل لینی اور مرافعہ نہ کرنا اور نقل حکم لینی اور پھر مرافعہ کرنا پھر اس حکم کی نقل لینی یہ امور ایسے نہیں کہ جلد فیصل ہو جائیں۔ حکام بے پروا۔ مختار کار عدیم الفرصت۔ میں پا شکستہ۔ محمد قلی خاں کبھی یہاں کبھی وہاں۔ وقت پر موقوف ہے۔ گھبراؤ نہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں کے مکاناتِ شہر ان کو مل گئے اور یہ حکم ہے کہ شہر سے باہر نہ جاؤ۔ دروازہ سے باہر نہ نکلو۔ اپنے گھر میں بیٹھے رہو۔ نواب حامد علی خاں کے مکانات سب ضبط ہو گئے۔ وہ قاضی کے حوض پر کرایہ کے مکانات میں مع ممتوعہ کے رہتے ہیں۔ باہر جانے کا حکم ان کو بھی نہیں۔ مرزا الہی بخش کو حکم کرانچی بندر جانے کا ہے۔ انہوں نے زمین پکڑی ہے۔ سلطان ہی میں رہتے ہیں عذر کر رہے ہیں۔ دیکھیئے یہ جبر اٹھ جائے یا یہ خود اٹھ جائیں۔

ایضاً

نواب صاحب پرسوں صبح کو تمہارا خط پہنچا۔ پہر دن چڑھے لارڈ صاحب کا لشکر آیا۔ کابلی دروازہ کی فصیل کے قریب بھولو شاہ کی قبر کے سامنے خیمہ خاصہ پا ہوا۔ اور باقی لشکر تیس ہزاری باغ میں اترا ہے۔ پنجشنبہ ۲۹ دسمبر ۱۸۵۹ ء۔ اب غالب کے مصیبت کی داستان سنیے۔ پرسوں تمہارا خط پڑھ کر لشکر کو گیا۔ میر منشی سے ملا۔ ان کے خیمہ میں بیٹھ کر صاحب سکرٹر بہادر کو اطلاع کروائی۔ چپراسی کے ساتھ کلو بھی گیا تھا۔ جواب آیا کہ ہمارا سلام دو اور کہو کہ فرصت نہیں ہے۔ خیر میں اپنے گھر آیا۔ کل پھر گیا۔ خبر کروائی۔ حکم ہوا کہ غدر کے زمانہ میں تم باغیوں کی خوشامد کرتے رہتے تھے اب ہم سے ملنا کیوں مانگتے ہو۔ عالم نظر میں تیرہ و تار ہو گیا۔ یہ جواب پیام نومیدی جاوید ہے۔ نہ دربار نہ خلعت نہ پنشن انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بقیہ خبرِ لشکر یہ ہے کہ راجہ بھرتپور برات لے کر پٹیالہ گیا تھا اور اس سبب سے آگرہ میں لارڈ صاحب سے نہیں ملا تھا۔ ایک ہفتہ سے معاودت کر کے یہاں آیا ہوا تھا آج اس کی ملازمت ہے۔ شنبہ۳۱ دسمبر ۱۸۵۹ ء گیارہ بجے ہوں گے۔ میں خط لکھ رہا ہوں توپیں چل رہی ہیں۔ شاید راجہ صاحب کی ملاقات اسی وقت ہوئی۔ کل یکشنبہ ہے۔ پرسوں دو شنبہ کو سہ شنبہ کو لارڈ صاحب کا کوچ ہے۔ کہتے ہیں کہ پشاور تک جائیں گے۔ کل صبح کو محمد قلی خاں آئے ایک عرضی انگریزی ان کے ہاتھ میں۔ کہنے لگے یہ عرضی طالب علی فیلبان نے مجھ کو پھیر دی ہے اور کہا ہے اس کے گزراننے کا موقع نہیں۔ میں اس وقت سوار ہوا چاہتا تھا۔ تمہاری یاس سن کر گیا۔ اپنا داغِ حسرت جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں لے کر آیا۔ ابراہیم علی خان الور میں مستسقی ہو کر مر گئے۔ خدا ان کو بخشے اور مجھ کو بھی یہ دن نصیب کرے۔ کمشنر صاحب کا نائب یہاں کوئی نہیں اور نہ کسی انگریزی خواں سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اتنا مسموع ہوا ہے کہ ایک محکمہ لاہور معاوضہ نقصان رعایا کے واسطے تجویز ہوا ہے اور حکم یہ ہے کہ جو رعیت کا مال کولوں نے لوٹا ہے البتہ اس کا معاوضہ بحساب دو ایک سرکار سے ہو گا۔ یعنی ہزار روپے کے مانگنے والے کو سو روپیہ ملیں گے اور جو گوروں کے وقت کی غارتگری ہے وہ مِدر اور مجل ہے اس کا معاوضہ نہ ہو گا۔ شاید یہ وہی کمشنر ہوں مکانات کو حامد علی خاں کا کر کر کیوں لکھتے ہو وہ تو مدت سے ضبط ہو کر سرکار کا مال ہو گیا۔ باغ کی صورت بدل گئی تھی۔ محل سرا اور کوٹھی میں گورے رہتے تھے۔ اب پھاٹک اور سرتاسردکانیں گرا دی گئیں۔ سنگ و خشت کا نیلام کر کے روپیہ داخل خزانہ ہوا مگر یہ نہ سمجھو کہ حامد علی خاں کے مکان کا عملہ بکا ہے۔ سرکار نے اپنا مملو کہ و مقبوضہ ایک مکان ڈھا دیا۔ جب بادشاہِ اودھ کی املاک کا وہ حال ہو تو رعیت کی املاک کو کون پوچھتا ہے۔ تم اب تک سمجھے نہیں ہو کہ حکام کیا سمجھتے ہیں اور نہ کبھی سمجھو گے۔ کیسا نوند رائے کیسی نقل حکم مرافعہ۔ جو احکام کہ دلی میں صادر ہوئے ہیں وہ احکام قضا و قدر ہیں ان کا مرافعہ کہیں نہیں۔ اب یوں سمجھ لو کہ نہ ہم کبھی کہیں کے رئیس تھے نہ جاہ و حشم رکھتے تھے ، نہ املاک رکھتے تھے ، نہ پنشن رکھتے تھے۔ رامپور زندگی میں میرا مسکن اور بعد مرگ میرا مدفن ہو گیا۔ جب تم لکھتے ہو کہ للہ تم وہاں جاؤ تو مجھ کو ہنسی آتی ہے میں یقین کرتا ہوں کہ ہلال ماہ رجب المرجب رامپور میں دیکھوں۔ جو تدبیر وثیقہ کے باب میں تم نے کی ہے وہ بہت مناسب ہے بشرط پیش ہونے کے اور ولایت پہنچنے کے۔ سجاد مرزا اور اکبر مرزا اپنی پیران سری میں اس پر قابض ہو رہیں گے۔ انشاءاللہ العظیم۔ یوسف مرزا خاں کو دعا پہنچے۔ حال قصیدہ و مخمس کا معلوم ہوا۔ قبلہ و کعبہ وہ کر رہے ہیں جو آباء اولاد سے اور آقا غلام سے سلوک کرتا ہے ان کو منظور ہے کہ دعا کا عطیہ جدا پاؤں اور ثنا کا صلہ جدا پاؤں ؎ کارساز ما بفکر کار ما۔ لیکن میری جان انصاف تو کر۔ ان صلوں میں زندگی تو بسر نہیں ہوتی۔ یہ فکر بھی بیہودہ ہے۔ زندگی میری کب تک سات مہینے یہ اور بارہ مہینے سال آیندہ کے۔ اسی مہینے میں اپنے آقا کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ وہاں نہ روٹی کی فکر نہ پانی کی پیاس نہ جاڑے کی شدت۔ نہ گرمی کی حدت، نہ حکم کا خوف نہ مخبر کا خطر نہ مکان کا کرایہ دینا پڑے نہ کپڑا خریدنا پڑے نہ گوشت گھی منگاؤں نہ روٹی پکواؤں عالمِ نور سراسرسُرور؎

یارب ایں آرزوئے من چہ خوش ست

تو بدیں آرزو مرا برسان

بندہ علی ابن ابی طالب۔ آرزو مند مرگ۔ غالب۔ روز سہ شنبہ ۳۱ دسمبر ۱۸۵۹ ء۔

٭٭٭

 

بنام یوسف مرزا صاحب

کوئی ہے ؟ ذرا یوسف مرزا کو بلائیو۔ لو صاحب وہ آئے۔ میاں مَیں نے کل خط تم کو بھیجا ہے مگر تمہارے ایک سوال کا جواب رہ گیا ہے۔ اب سن لو تفضل حسین خاں اپنے ماموں مویّد الدین خاں پاس میرٹھ ہے۔ شاید دلّی آیا ہو مگر میرے پاس نہیں آیا۔ والد ان کے غلام علی خاں اکبر آباد میں مکتب داری کرتے ہیں۔ لڑکے پڑھاتے ہیں۔ روٹی کھاتے ہیں۔ تم لکھتے ہو کہ پچا س محل واجد علی شاہ کے کلکتہ گئے۔ تمہارے ماموں محمد قلی خاں کے خط میں لکھتے ہیں کہ شاہِ اودھ بنارس آ گئے۔ اس خبر کواس خبر کے ساتھ منافات نہیں ہے۔ ادھر سے آپ بنارس کو چلے ہوں۔ ادھر سے بیگمات کو وہاں بلا ہو مگر میری جان ہم کو کیا ؎عالم پسِ مرگ ِ ما چہ دریا چہ سراب۔

ایضاً

آؤ صاحب میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ آج یکشنبہ کا دن ہے۔ ساتویں تاریخ رمضان کی اور انیسویں اپریل کی صبح کو بھائی فضلو جن کو میر کاظم علی بھی کہتے ہیں۔ اور ہم نے احتلام الدولہ خطاب دیا ہے وہ تین پاؤ کھجوریں ایک ٹین کا لوٹا اور دو سوت کی رسیاں لے کر بھٹیارے کے ٹٹو پر سوار ہو کر الور  کو روانہ ہوئے۔ پہر دن چڑھے ڈاک کا ہرکارہ تمہارا خط میرے نام کا اور ایک حکمنامہ محکمہ لاہورموسومہ میر کاظم علی لایا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ تمہارے ماموں صاحب مع سجاد مرزا تشریف لائے۔ تمہارا خط ان کو دے دیا وہ اس کو پڑھ رہے ہیں اور میں یہ خط تم کو لکھ رہا ہوں۔ پہلے تو یہ لکھتا ہوں کہ حکمنامہ میر کاظم علی کو دے دینا اور میری طرف سے تعزیت کرنا کہ میر بھائی صبر کرو اور چپ ہو رہو۔ تاریخ کے دو قطعوں میں ایک قطعہ رہا۔ ماہرو خوش خرام کی جگھ(جگہ)مہ رخ خوش خرام بنا دیا ہے۔ قطعہ اچھا ہے بشرط آنکہ متوفیہ کا شوہر یہ الفاظ اپنی زوجہ کے واسطے گوارا کرے۔ خواجہ جان جھوٹ بولتا ہے والی رامپور کو اس پنشن کے اجرا میں کچھ دخل نہیں یہ کام خدا ساز ہے۔ بہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ناظرجی نے تمہارے قول کی تصدیق کی اور کہا کہ ہاں مسودہ عرضی کا میرے پاس آ گیا۔ میں تم کو دکھاؤں گا خیر تم نے جو لکھا ہو گا وہ مناسب ہو گا خدا راس لائے اور کام بن جائے۔ الگزنڈر بدرلی صاحب میرے دوست کے فرزند ہیں اور نیک بخت اور سعادت مند ہیں۔ میر کاظم علی وغیرہ کی تنخواہ میں میری سپارش (سفارش)کو دخل نہیں ہے۔ تم کاظم علی سے دریافت کر لو۔ ہاں دو مقدموں میں مَیں نے ان کو دو خط لکھے مگر انہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں لکھا۔ اور ان مقدموں میں کوشش بھی نہیں کی۔ اب اس کو سمجھ کر جو کچھ لکھو اس کے موافق عمل میں لاؤ۔ ناظر جی صاحب اور سجاد مرزا اپنے گھر گئے وہ تم کو دعا اور سجاد بندگی کہہ گیا ہے۔ اپنے آنے میں جلدی نہ کرو۔ ماں کی رضا جوئی کو سب امور پر مقدم جانو۔ میں ابھی رامپور نہیں جاتا۔ برسات کے بعد بشرط حیات جاؤں گا یعنی اواخر اکتوبر یا اوائل نومبر میں قصد ہے۔ یقین ہے کہ یہ خط دو دن میر کاظم علی کے پہنچنے سے پہلے تمہارے پاس پہنچے۔ ان کے نام کا حکمنامہ بہت احتیاط سے اپنے پاس رہنے دینا۔ خبردار جاتا نہ رہے۔ جب وہ پہنچیں تب ان کو حوالہ کرنا۔ صاحب نہ خمس نہ نذر۔ یہ باتیں غیرت کی ہیں۔ جس طرح اپنے اور بچوں کو دوں گا مظفر میرزا اور تم کو بھی اسی طرح بھجواؤں گا۔ ہمشیرہ عزیزہ کو یعنی اپنی والدہ کو میری دعا کہنا۔ مرقومہ یکشنبہ وقت نیمروز ہفتم رمضان ۲۹ اپریل۔ غالب۔

ایضاً

یوسف مرزا کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ تمہارا خط کل منگل کو پہنچا۔ آج بدھ ۱۷ شوال اور ۹ مئی کی ہے۔ اس کا جواب بھیجتا ہوں۔ خدا کی قسم ٹامس ہڈرلی صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے۔ ہاں الک صاحب سے ہے سو ان کے نام کا خط کھلا ہوا تم کو بھیجتا ہوں۔ پڑھ کر بند کر کر ان کو دو اور ان سے ملو اور جو کچھ وہ کہیں مجھ کو لکھو۔ احتلام الدولہ بھائی فضلو میر کاظم علی بہادر کیا جانے کتاب کس کو کہتے ہیں۔ اور آگرہ کس ہتھیار کا نام اور سکندر شاہ کون سے درخت کا پھل ہے۔ میرا اردو دیوان میرٹھ کو گیا۔ سکندر شاہ لے گئے مصطفے ٰ خاں کو دے آئے۔ ڈاک میں اس کی رسید آ گئی۔ نہ برہان قاطع نہ قاطع برہان۔ کل جس وقت تمہارا خط آیا اس وقت منشی میر احمد حسین میرے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت سالکِ مجذوب بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دونوں صاحب تم کو اور بھائی فضلو کو سلام کہتے ہیں۔ اور بھائی فضلو سے یہ کہہ دینا کہ باتفاق رائے منشی میر احمد حسین ابباغ کی درخواست کی عرضی بے فائدہ بلکہ مضر ہے۔ تمہارا کاغذ قیمتی ایک روپیہ کا منشی جی کے پاس موجود ہے۔ وہ اس کو بیچ کر روپیہ تم کو بھجوا دیں گے۔ غالب۔

ایضاً

یوسف مرزا کیونکر تجھ کو لکھوں کہ تیرا باپ مر گیا۔ اور اگر لکھوں تو پھر آگے کیا لکھوں کہ اب کیا کرو مگر صبر۔ یہ ایک شیوہ فرسودہ ابنائے روزگار کا ہے۔ تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہی کہا کرتے ہیں کہ صبر کرو۔ ہائے ایک کا کلیجہ کٹ گیا ہے اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نہ تڑپ۔ بھلا کیونکر نہ تڑپے گا۔ صلاح اس میں نہیں بتائی جاتی۔ دعا کو دخل نہیں۔ دوا کا لگاؤ نہیں۔ پہلے بیٹا مرا پھر باپ مرا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ بے سر و پا کس کو کہتے ہیں تو میں کہوں گا یوسف مرزا کو۔ تمہاری دادی لکھتی ہیں کہ رہائی کا حکم ہو چکا تھا یہ بات سچ ہے۔ اگر سچ ہے تو جوانمرد ایک بار دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا۔ نہ قیدِ حیات رہی نہ قیدِ فرنگ۔ ہاں صاحب وہ لکھتے ہیں کہ پنشن کا روپیہ مل گیا تھا وہ تجہیز و تکفین کے کام آیا۔ یہ کیا بات ہے کہ مجرم ہو کر ۱۴ برس کو مقید ہوا اس کا پنشن کیونکر ملے گا۔ اور کس کی درخواست سے ملے گا۔ رسید کس سے لی جائے گی۔ مصطفے ٰ خاں کی رہائی کا حکم ہوا مگر پنشن ضبط۔ ہر چند اس پرسش سے کچھ حاصل نہیں لیکن بہت عجیب بات ہے تمہارے خیال میں جو کچھ آئے وہ مجھ کو لکھو۔ دوسرا امر یعنی تبدُّل مذہب عیاذاً باللہ ۔ علی کا غلام کبھی مرتد نہ ہو گا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حضرت چالاک اور سخن ساز اور ظریف تھے سونچے (سوچے )ہوں گے کہ ان دموں میں اپنا کام نکالو اور رہا ہو جاؤ عقیدہ کب بدلتا ہے۔ اگر یہ بھی تھا تو ان کا گمان غلط تھا۔ اس طرح رہائی ممکن نہیں۔ قصہ مختصر تمہاری دادی کا جو خط تمہارے بھائی نے مجھ کو بھیجا تھا وہ میں نے تمہارے ماموں کے پاس بھیج دیا۔ ان کی جاداد(جائیداد) کی واگذاشت کا حکم ہو تو گیا ہے اگر ان کے بڑے بھائی کے یاران کو چھوڑیں۔ دیکھیئے انجام کار کیا ہوتا ہے۔ مظفر میرزا کو دعا پہنچے۔ تمہارا خط جواب طلب نہ تھا۔ تمہارے چچا کا آغاز اچھا ہے خدا کرے انجام اسی آغاز کے مطابق ہو۔ ان کا مقدمہ دیکھ کر تمہاری پھوپھی کا اور تمہارا سر انجام دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ ہو گا کیا اگر جاداد(جائیداد) ملی بھی تو قرضدار دام لے لیں گے۔ رزّاق حقیقی پنشن دلوا دے کہ روٹی کا کام چلے۔ جناب میر قربان علی صاحب کو میرا سلام نیاز اور میر کاظم علی کو دعا۔ غالب۔ مرقومہ شنبہ ۲۷ شوال ۹ مئی سالِ حال۔

ایضاً

اے میری جان اے میری آنکھیں

؎ زہجراں طفلے کہ در خاک رفت

چہ نالی کہ پاک آمد و پاک رفت

وہ خدا کا مقبول بندہ تھا۔ وہ اچھی روح اور اچھی قسمت لے کر آیا تھا یہاں رہ کر کیا کرتا۔ ہر گز غم نہ کرو۔ اور ایسی ہی اولاد کی خوشی ہے تو ابھی تم خود بچے ہو خدا تم کو جیتا رکھے اولاد بہت۔ نانا نانی کے مرنے کا ذکر کیوں کرتے ہو وہ اپنی اجل سے مرے ہیں۔ بزرگوں کا مرنا بنی آدم کی میراث ہے۔ کیا تم یہ چاہتے تھے کہ وہ اس عہد میں ہوتے اور اپنی آبرو کھوتے۔ ہاں مظفر الدولہ کا غم منجملہ واقعات کربلائے معلیٰ ہے۔ یہ داغِ ماتم جیتے جی نہ مٹے گا۔ والد کی خدمت بجا لانے کا ہر گز افسوس نہ چاہیے کچھ ہو سکتا ہو اور نہ کیا ہو تو مستحق ملامت ہوتے کچھ ہو ہی نہ سکے نہ کیا کرو۔ اب تو یہ فکر پڑی ہوئی ہے کہ رہیئے کہاں اور کھائیے کیا۔ مولانا کا حال کچھ تم سے مجھ کو معلوم ہوا کچھ تم مجھ سے معلوم کرو۔ مرافعہ میں حکم دوام حبس بحال رہا۔ بلکہ تاکید ہوئی کہ جلد دریائے شور کی طرف روانا (روانہ) کرو۔ چنانچہ تم کو معلوم ہو جائے گا۔ ان کا بیٹا ولایت میں اپیل چاہتا ہے۔ کیا ہوتا جو ہونا تھا سو ہو لیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ناظر جی کو سلام کہنا اور کہنا کہ حال اپنا مفصل لکھ چکا ہوں۔ وہ دہلی اردو اخبار کا پرچہ اگر مل جائے تو بہت مفید مطلب ہے ورنہ خیر کچھ محل خوف و خطر نہیں ہے۔ حکام صدر ایسی باتوں پر نظر نہ کریں گے میں نے سکہ کہا نہیں اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا یہ گناہ نہیں اور اگر گناہ بھی ہے تو کیا ایسا سنگین ہے کہ ملکہ معظمہ کا اشتہار بھی اس کونہ مٹا سکے۔ سبحان اللہ گولہ انداز کا بارود بنانا اور توپیں لگانی اور بنک گھر اور میگزین کا لوٹنا معاف ہو جائے اور شاعر کے دو مصرعے معاف نہ ہوں۔ ہاں صاحب گولہ کا بہنوئی (گولہ انداز کا بہنوئی۔۔۔ واللہ اعلم :۔ چھوٹا غالب) مددگار ہے اور شاعر کا سالا بھی جانب دار نہیں۔ لو حضرت میر عنایت حسین صاحب کل آئے۔ میر ارتضیٰ حسین کا خط دے دیا۔ عینک لگا کر خوب پڑا (پڑھا)۔ کہہ گئے ہیں کہ اس کا جواب کل لاؤں گا۔ میں تو صبح کو یہ خط روانہ کرتا ہوں وہ آج یا کل جب خط لاویں گے اس کو جداگانہ لفافہ میں روانہ کر دوں گا۔ مظفر مرزا دیکھیئے کب تک آوے اور مجھ سے کیونکر ملے۔ ایک لطیفہ پرسوں کا سنو۔ حافظ ممّوں بے گناہ ثابت ہو چکے۔ رہائی پا چکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہوا کرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہو چکا ہے صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مثل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا حافظ محمد بخش کون ؟۔ عرض کیا کہ میں۔ پھر پوچھا حافظ مموں کون؟۔ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے۔ مموں مموں مشہور ہوں۔ فرمایا یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم اور حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہان بھی تم۔ جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں۔ مثل داخل دفتر ہوئی۔ میاں مموں اپنے گھر چلے آئے۔ ہاں صاحب خواجہ بخش درزی کل سہ پہر کو میرے پاس آیا میں نے جانا ایک ہاتھی کوٹھے پر چڑھ آیا۔ کہتا تھا کہ آغا صاحب کو میری بندگی لکھ بھیجنا۔ میرن صاحب آج کل پانی پت کو جایا چاہتے ہیں۔ میر کاظم علی ابن میر قلندر علی الور سے آئے ہوئے سلطان جی میں اترے ہوئے ہیں۔ دن پندرہ ایک ہوئے محمد قلی خاں میری ملاقات کو آئے تھے۔ علی جی میں رہتے ہیں۔ رضا شاہ پٹودی ہوئے ہیں۔ میر اشرف علی ابن میر اسد علی مرحوم نے رہائی پائی۔ ابھی املاک کی درخواست نہیں دی۔ ہماری بھابھی صاحبہ یعنی زوجہ میر احمد علی خاں مغفور اپنی حویلی میں چین کر رہی ہیں۔ ایک آدھ دن میں جاؤں گا۔ خدا جانے جمعہ کے دن ناظر جی کی درخواست پر کیا گزری۔ اس وقت تک ان کا کوئی خط نہیں آیا۔ دھیان لگا ہوا ہے۔ زیادہ کیا لکھوں۔

ایضاً

میری جان خدا تیرا نگہبان۔ میں نے گڑ پھنک کو دام میں پھنسایا۔ پھر قفس میں بند کر کے یہ رقعہ لکھوایا۔ میر ارتضی حسین کو فقط ان کے نام کی جو عبارت ہے وہ پڑھا دینا تاکہ ان کی خاطر جمع ہو جائے۔ مثنوی کبھی اصلاح نہ پائے گی جب تک تمام نہ ہو۔ مثنوی جب تک سب نہ لکھی ہو کیونکر اصلاح دی جائے۔ اپنے چھوٹے ماموں صاحب کو میرا سلام باعتبار محبت کے اور بندگی باعتبار سیادت کے۔ اور دعا باعتبار یگانگی اور استادی کے کہنا اور کہنا کہ بھائی اور کیا لکھوں۔ جس حکم کی نقل کے واسطے تم لکھتے ہو وہ اصل کہاں ہے جس کی نقل لوں۔ ہاں زبان زد خلق ہے کہ قدیم نوکروں سے باز پرس نہیں۔ مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔ اے لو کئی دن ہوئے کہ حمید خاں گرفتار آیا ہے۔ پاؤں میں بیڑیاں ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں حوالات میں ہیں۔ دیکھیئے حکم اخیر کیا ہو۔ صرف نوند رائے کی مختار کاری پر قناعت کی گئی۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہو رہے گا۔ ہر شخص کی سر نوشت کے موافق حکم ہو رہے ہیں نہ کوئی قانون ہے نہ قاعدہ ہے۔ نہ نظیر کام آئے نہ تقریر پیش جائے۔ ارتضی خاں ابن مرتضی خاں کی پوری دو سو روپے کی پنشن کی منظوری کی رپورٹ گئی اور ان کی بہنیں سو سو روپیہ مہینہ پانے والیوں کو حکم ہوا کہ چونکہ تمہارے بھائی مجرم تھے تمہاری پنشن ضبط۔ بطریق ترحم دس دس روپیہ مہینا تم کو ملے گا ترحم یہ ہے تو تغافل کیا قہر ہو گا۔ میں خود موجود ہوں اور حکام صدر کا روشناس۔ پشم نہیں اکھیڑ سکتا ۵۳برس کا پنشن تقرر اس کا بہ تجویز لارڈ لیک و منظوری گورنمنٹ اور پھر نہ ملا ہے نہ ملے گا۔ خیر احتمال ہے ملنے کا۔ جانتے ہو علی کا بندہ ہوں۔ اس کی قسم کبھی جھوٹ نہیں کھاتا۔ اس وقت کلو کے پاس ایک روپیہ سات آنہ باقی ہیں۔ بعد اس کے نہ کہیں سے قرض کی امید ہے نہ کوئی جنس رہن و بیع کے قابل۔ اگر رامپور سے کچھ آیا تو خیر ورنہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بعض لوگ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ اس مہینے میں پنشن کی تقسیم کا حکم آ جائے گا۔ دیکھیئے آتا ہے یا نہیں۔ اگر آتا ہے تو میں مقبولوں میں ہوں یا مردودوں میں۔ مظفر مرزا کا خط الور سے آ گیا۔ بخیر و عافیت پہنچے۔ میر قاسم علی کا قافلہ بھی وہیں ہے۔ میر قاسم علی کی بی بی الور کی تنخواہ میں سے بموجب سہام شرعیہ دو ثلث مظفر مرزا کو اور ایک ثلث اپنے کو تجویز کرتی ہے۔ ظاہراً بموجب تعلیم قاسم علی کے ہے۔ غالب۔ محررہ جمعہ ۱۳ ذی الحجہ و ۱۵ جولائی سالِ حال۔

ایضاً

میاں پرسوں قریب شام مرزا آغا جانی صاحب آئے وہ اور ان کے متعلق سب اچھی طرح ہیں۔ حسّو بیگ ہانسی گئے۔ کل تمہارا خط آیا۔ بھائی تمہیں خارش کیوں ہوئی۔ حسین مرزا صاحب کیوں بیمار ہوئے۔ خدایا ان آوارگان ِ دشت غربت کو جمعیت جب تو چاہے عنایت کر۔ مگر تصدق مرتضی علی کا تندرست رکھ۔ اللہ اللہ حسین مرزا کی ڈاڑھی سفید ہو گئی۔ یہ شدت غم و رنج کی خوبیاں ہیں۔ اس خط کے پہنچتے ہی اپنی اور ان کی خیر و عافیت لکھنا جہاں تم نے اپنے نام کا خط پڑھا وہاں کا حال یہ ہے ؎

بگفت احوالِ ما برقِ جہان است

دمے پیدا و دیگر دم نہان است

گہے بر طارمِ اعلی نشینم

گہے بر پشت پائے خود نہ بینم

ہمارے خداوند ہیں۔ ہمارے قبلہ و کعبہ ہیں خدا ان کو سلامت رکھے۔ آغا باقر کا امام باڑہ اس سے علاوہ کہ خداوند کا عزا خانہ ہے ایک بنائے قدیم رفیع مشہور۔ اس کے انہدام کا غم کس کو نہ ہو گا یہاں دو سڑکیں دوڑتی ہیں۔ ایک ٹھنڈی سڑک اور ایک آہنی سڑک۔ محل ان کا الگ الگ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ گوروں کا بارگ(بارک ) بھی شہر میں بنے گا۔ اور قلعہ کے آگے جہاں لال ڈگی ہے ایک میدان نکالا جائے گا۔ محبوب کی دکانیں ، بہیلیوں کے گھر، فیل خانہ، بُلاقی بیگم کے کوچہ تک سوائے لال ڈگی اور دو چار کنووں کے آثار عمارت باقی نہ رہے گی۔ آج جاں نثار خاں کے چھتے کے مکان ڈھنے شروع ہو گئے ہیں۔ کیوں میں دلّی کے ویرانے سے خوش نہ ہوں۔ جب اہل شہر ہی نہ رہے۔ شہر کو لے لے کے کیا چولھے میں ڈالوں۔ حسین مرزا صاحب کو میرا سلام کہنا یہ رقعہ پڑھا دینا۔ ان کا خط موسومہ محمد قلی خان آیا۔ کلو کے ہاتھ ان کے گھر بھجوایا۔ ان کا گھر کہاں وہ تو میر احمد علی خاں مرحوم کی بی بی کے ہاں رہتے ہیں۔ وہ نہ تھے جب بھابھی صاحب کو معلوم ہوا کہ میرے دیور کا آدمی ہے۔ انہوں نے مدعا دریافت کر کے خط رکھ لیا اور کلو سے کہا کہ بھائی کو سلام کہنا کہ محمد قلی خاں علی جی گئے ہوئے ہیں۔ خط ان کے پاس بھجوا دوں گی۔ کل رضا شاہ آئے تھے میں نے ان کو کہا تھا کہ تم میر احمد علی خاں کی بی بی کو تاکید کر دینا کہ خط ضرور کاہے ان کو باحتیاط پہنچا دینا۔ صاحب تمہاری انّا کو میں کیا جانوں۔ کس پتے سے ڈھونڈھوں۔ ددّا سے میں پوچھا۔ امیر النساء کو وہ نہ سمجھی واجد علی کی ماں کر کے پہچانا۔ سو وہ کہتی تھی کہ واجد علی مع اپنی ماں کے پہاڑ گنج ہے۔ ہمشیرہ کی عرضی کے روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا۔ تم سمجھو اگر وہ عرضی فی الحقیقت کمشنر نے بھیج دی ہے تو بے شک مدعائے سائلہ قبول کر کے بھیجی ہے۔ اگر خود یہ منظور کرتا تو کبھی نہ بھیجتا۔ باقر علی اور حسین علی اپنی دادی کے ساتھ نواب ضیاء الدین خاں کی والدہ کے پاس قطب صاحب گئے ہوئے ہیں۔ ایاز اور نیاز علی ان کے ساتھ ہیں دو بندگیاں اور ایک دعا اور دو آداب ملتوی۔ ددّا اور کلو اور کلیان کی بندگیاں پہنچیں۔ قمر الدین خاں پرسوں آیا تھا اب آئے گا تو دعا تمہاری اس کو کہہ دوں گا۔ غالب۔

ایضاً

حق تعالیٰ تمہیں دولت و اقبال و عزت دے خط محررہ دوم محرم میں کوئی مطلب جواب طلب نہ تھا۔ مرزا حیدر بیگ صاحب کی رحلت کی خبر تھی اور بس۔ کل بدھ کا دن دو مہینوں کی ۱۷ تاریخ تھی۔ صبح کے وقت مرزا آغاجانی صاحب آئے اور انہوں نے فرمایا کہ حسین مرزا کی حرم لکھنؤ سے آئی تھی۔ بی فتّن کے ہاں اتری تھی اب وہ پٹودی کو اپنے بیٹے کے پاس گئی۔ کہتی تھی کہ نصیب اعدا ناظر جی بہت بیمار ہیں۔ خدا خیر کرے۔ یوسف مرزا میری جان نکل گئی کیا کروں۔ کیونکر خبر منگاؤں ؟۔ یا علی یا علی یا علی دس بارہ بار دل میں کہا ہو گا کہ مداری کا بیٹا دوڑا ہوا آیا اور تین خط لایا۔ یعنی وہ نیچے حویلی میں تھا۔ ڈاک کے ہرکارہ نے خط لا کر دئیے۔ نیاز علی اوپر لے آیا۔ ایک خط یارِ عزیز کا اور ایک خط ہر گوپال تفتہ کا اور ایک خط ذو الفقار الدین حیدر مولوی کا۔ میاں قریب تھا کہ خوشی کے مارے مجھ کو رونا آ جائے بارے اس خط کو میں نے آنکھوں سے لگایا۔ مچھیاں لیں۔ اب تم تماشا دیکھو۱۳ محرم کا خط ۱۷ کو مجھے پہنچا۔ اس میں مندرج کے جمعہ کے دن ۱۹ کو بسبیل ڈاک کلکتے جاؤں گا۔ اور پھر حضرت مجھ سے مطلب کا جواب مانگتے ہیں۔ ہاں جب کلکتہ پہنچ لیں گے اور وہاں سے مجھ کو خط بھیجیں گے اور اپنے مسکن کا پتہ لکھیں گے تب جو کچھ مجھ کو لکھنا ہو گا لکھوں گا۔ آغا صاحب کو سب خط سنا دیا۔ اور ان کو اسی وقت کاشی ناتھ کے پاس بھیجا ہے۔ تاکہ وہ اس کو گرمائیں اور شرمائیں اور کچھ سجاد مرزا کے واسطے بھجوائیں۔ ضیاء الدین خاں دو ہفتہ سے یہاں ہیں اپنے باغ میں اترے ہوئے ہیں۔ دو بار میرے پاس بھی دو دو گھڑی کے واسطے آئے تھے کچھ ان کو منظور ہے۔ برعایت اخلاص و محبت قدیم خدا چاہے تو سجاد مرزا کو اور کلکتے سے ان کے خط آنے کے بعد کچھ ناظر جی کو ان سے بھجواؤں۔ میرا وہی حال ہے۔ بھوکا نہیں ہوں مگر کسی خدمت گزاری کی توفیق نہیں ہے۔ برے بھلے حال سے گزرے جاتی ہے۔ افسوس ہزار افسوس جو تم سے اور ناظر جی سے میرے دل کا حال ہے۔ اگر کہوں تو کون باور کرے اور وہ بات خود کہنے کی نہیں کرنے کی ہے۔ سو کرنے کا مقدور نہیں۔ تفضل حسین خان ابن غلام علی خاں میرٹھ میں اپنے ماموں صاحب کے پاس ہے شہر میں آیا تھا۔ میرے پاس بھی آیا تھا۔ تمہارا سلام کہہ دیا۔ پرسوں پھر وہ میرٹھ گیا۔ بھائی فضلو عرب سرا میں رہتے ہیں۔ پرسوں سے آئے ہوئے ہیں۔ دوڑتے پھرتے ہیں۔ عرضیاں دیتے پھرتے ہیں۔ کوئی سنتا نہیں۔ تم کو سلام کہتے ہیں۔ آمد و رفت کا ٹکٹ موقوف ہو گیا۔ فقیر اور ہتھیار جس پاس ہو وہ نہ آئے اور باقی ہندو، مسلماں ، عورت، مرد سوار، پیادہ جو چاہے چلا جائے چلا آئے۔ مگر غیر آبادی رات کو شہر میں رہنے نہ پائے۔ وہ شور و غل تھا کہ سڑکیں نکلیں گی اور گوروں کی چھاؤنی بنے گی کچھ بھی نہ ہوا۔ مَر پٹ کر ایک جاں نثار خاں کے چھتے کی سڑک نکلی ہے۔ دلی والوں نے لکھنؤ کا خاکہ اڑا رکھا ہے کہتے ہیں کہ لاکھوں مکان ڈھا دیے اور صاف میدان کر دیا۔ میں جانتا ہوں ایسا نہ ہو گا۔ بات اتنی ہی ہے ، جو تم نے لکھی ہے۔ بہرحال اب جو کچھ ہو لکھو۔ اور ناظر جی کے روانہ ہو جانے کی خبر اور سجاد اور اکبر اور ان کی ماں کی خیریت اور اپنے باپ کا حال لکھو۔ پنجشنبہ۔ ۱۸ محرم الحرام۔

ایضاً

میری جان شکوہ کرنا سیکھو۔ یہ باب میں نے تم کو ابھی پڑھایا نہیں۔ کوئی خط تمہارا نہیں آیا کہ میں نے اسی دن یا دوسرے دن جواب نہ لکھا ہو۔ بلکہ میں ایسا جانتا ہوں کہ یہ جو تم نے مجھ کو شکایت نامہ بھیجا ہے اس کے بعد ایک خط میرا بھی تم کو پہنچا ہو گا یہ خط کل آیا آج میں اس کا جواب لکھتا ہوں۔ سنو صاحب تم جانتے ہو کہ میں ۱۴ پارچہ کا خلعت ایک بار اور ملبوس خاص شال دوشالہ ایک بار پیشگاہ حضرت سلطان عالم سے پا چکا ہوں۔ مگر یہ بھی جانتے ہو کہ وہ خلعت مجھ کو دوبارہ کس ذریعہ سے ملا ہے۔ یعنی جناب قبلہ و کعبہ حضرت مجتہد العصر مد ظلہ العالی۔ اب آدمیت اس کی مقتضی نہیں ہے کہ میں بے ان کے توسط کے مدح گستری کا قصد کروں۔ چنانچہ قصیدہ لکھ کر اور جیسا کہ میرا دستور ہے کاغذ کو بنوا کر حضرت پیرو مرشد کی خدمت میں بھیج دیا ہے یقین ہے کہ حضرت نے وہاں بھیج دیا ہو گا۔ اور میں تم کو بھی لکھ چکا ہوں کہ میں نے قصیدہ لکھنؤ کو بھیج دیا ہے۔ اسی خط میں یہ بھی تم کو لکھا ہے کہ حضرت زبدۃ العلما سید نقی صاحب اگر کلکتے پہنچ گئے ہوں تو مجھ کو اطلاع دو۔ داروغگی املاک کے باب میں جو مناسب اور معقول اور واقعی ہے تو میں بے پردہ عالی شان مظفر حسین خان کے خط میں لکھتا ہوں۔ یہ ورق پڑھ کر ان کی خدمت میں گزران دو اور جو وہ ارشاد کریں مجھ کو لکھو۔ تمہارے اس خط کے مطالب مندرجہ کا جواب ہو چکا۔ اس سے زیادہ میرے پاس کوئی بات اس وقت لکھنے کو نہیں ہے مگر یہ کہ ایک خط تمہارے ماموں صاحب کے نام کا بھیج چکا ہوں اگر وہ پہنچے گا اور خدا کرے پہنچے تو اس سے تم کو ایک حال معلوم ہو گا۔ غالب۔ شنبہ ۵ نومبر ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

یوسف مرزا میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرت غم سے سودائی ہو جاتے ہیں۔ عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجوم غم میں میری قوت متفکرہ میں فرق آ گیا ہو تو کیا عجب بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے۔ پوچھو کہ غم کیا ہے ؟ غمِ مرگ، غمِ فراق، غمِ رزق، غمِ عزت۔ غمِ مرگ میں قلعہ نا مبارک سے قطع نظر کر کے اہل شہر کو گنتا ہوں۔ مظفر الدولہ میر ناصر الدین مرزا عاشور بیگ میرا بھانجا۔ اس کا بیٹا احمد مرزا انیس برس کا بچہ۔ مصطفی خاں ابن اعظم الدولہ اس کے دو بیٹے۔ ارتضی خاں اور مرتضی خاں۔ قاضی فیض اللہ ۔ کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا اے لو بھول گیا۔ حکیم رضی الدین خاں ، میر احمد حسین میکش اللہ اللہ ان کو کہاں سے لاؤں۔ غمِ فراق ِ حسین مرزا، یوسف مرزا، میر مہدی، میر سرفراز حسین، میرن صاحب خدا ان کو جیتا رکھے کاش یہ ہوتا کہ جہاں ہوتے وہاں خوش ہوتے۔ گھر ان کے بے چراغ وہ خود آوارہ۔ سجاد اور اکبر کے حال کو جب تصور کرتا ہوں کلیجا ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے۔ کہنے کو ہر کوئی ایسا کہہ سکتا ہے مگر میں علی کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ ان اموات کے غم میں اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ و تار ہے۔ حقیقی میرا ایک بھائی دیوانہ مر گیا۔ اس کی بیٹی اس کے چار بچے ، اس کی ماں یعنی میری بھاوج جے پور میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس تین برس میں ایک روپیہ ان کو نہیں بھیجا۔ بھتیجی کیا کہتی ہو گی کہ میرا بھی کوئی چچا ہے۔ یہاں اغنیا اور امرا کے ازواج و اولاد بھیک مانگتے پھریں اور میں دیکھوں۔ بس مصیبت کی تاب لانے کو جگر چاہیے۔ اب خاص اپنا دکھ روتا ہوں۔ ایک بیوی دو بچے تین چار آدمی گھر کے۔ کلو کلیاں ایاز یہ باہر مداری کے جورو بچے بدستور گویا مداری موجود ہے۔ میاں گھمن گئے گئے مہینا بھر سے آ گئے کہ بھوکا مرتا ہوں۔ اچھا بھائی تم بھی رہو۔ ایک پیسے کی آمد نہیں۔ بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود۔ مقام معلوم سے کچھ آئے جاتا ہے وہ بقدر سدّ رمق ہے۔ محنت وہ ہے کہ دن رات میں فرصت کام سے کم ہوتی ہے۔ ہمیشہ ایک فکر برابر چلی جاتی ہے۔ آدمی ہوں دیو نہیں بھوت نہیں۔ ان رنجوں کا تحمل کیونکر کروں۔ بڑھاپا، ضعف قویٰ۔ اب مجھے دیکھو تو جانو کہ میرا کیا رنگ ہے۔ شاید کوئی دو چار گھڑی بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ گویا صاحب فراش ہوں نہ کہیں جانے کا ٹھکانا نہ کوئی میرے پاس آنے والا۔ وہ عرق بقدر ِ طاقت بنائے رکھتا تھا اب میسر نہیں۔ سب سے بڑھ کر آمد آمد گورنمنٹ کا ہنگامہ ہے۔ دربار میں جاتا تھا۔ خلعتِ فاخرہ پاتا تھا۔ وہ صورت اب نظر نہیں آتی۔ نہ مقبول ہوں نہ مردود ہوں نہ بے گناہ ہوں نہ گناہ گار ہوں ، نہ مخبر نہ مفسد۔ بھلا اب تم ہی کہو۔ اگر یہاں دربار ہوا اور میں بلایا جاؤں تو نذر کہاں سے لاؤں۔ دو مہینے دن رات خونِ جگر کھایا اور ایک قصیدہ چونسٹھ بیت کا لکھا۔ محمد افضل مصور کو دے دیا وہ پہلی دسمبر کو مجھ کو دے گا یہ اس کا مطلع ہے ؎

زسال دگر آبے بروئے کار آمد

ہزار و ہشت صد و شصت در شمار آمد

اس میں التزام اپنی تمام سرگزشت کے لکھنے کا کیا ہے اس کی نقل تم کو بھیجوں گا۔ میر آقا زادہ روشن گہر جناب مفتی میر عباس صاحب کو دکھانا اس بجھے ہوئے بلکہ مرے ہوئے دل پر کلام کا یہ اسلوب ہے۔ جہاں پناہ کی مدح کی فکر نہ کر سکا۔ یہ قصیدہ ممدوح کی نظر سے گزرا نہ تھا۔ میں نے اسی میں امجد علی شاہ کی جگہ واجد علی شاہ بٹھا دیا۔ خدا نے بھی تو یہی کہا تھا انوری نے بارہا ایسا کیا ہے کہ ایک کا قصیدہ دوسرے کے نام پر کر دیا۔ میں نے باپ کا قصیدہ بیٹے کے نام کر دیا تو کیا غضب ہوا۔ اور پھر کیسی حالت اور کیسی مصیبت میں کہ جس کا ذکر بطریق اختصار اوپر لکھ آیا ہوں۔ اس قصیدہ سے مجھ کو غرض دستگاہ سخن منظور نہیں۔ گدائی منظور ہے بہرحال یہ تو کہو قصیدہ پہنچا یا نہیں پہنچا۔ پرسوں تمہارے ماموں کا خط آیا۔ وہ قصیدہ کا پہنچنا لکھتے ہیں۔ کل تمہارا خط آیا اس میں قصیدہ کے پہنچنے کا ذکر نہیں۔ اس تفرقہ کو مٹاؤ اور صاف لکھو کہ قصیدہ پہنچایا نہیں ؟ اگر پہنچا تو حضور میں گزرا یا نہیں ؟ اگر گزرا تو کس کی معرفت گزرا اور کیا حکم ہوا ؟ یہ امور جلد لکھو اور ہاں یہ بھی لکھو کہ املاک واقع شہر دہلی کے باب میں کیا حکم ہوا۔ میں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ کل میں نے فہرست دیہات و باغات و املاک مع حاصل ہر ایک باغ و دِہ و مِلک ناظر جی کو بھیج دی ہے۔ اس خط سے ایک دن پہلے وہ فرد پہنچے گی۔ یہ فرد کلکٹری کے دفتر سے لی ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ شہر کی عمارت جو سڑک میں نہیں آئی اور برسات میں ڈھ نہیں گئی وہ سب خالی پڑی ہے کرایہ دار کا نام نہیں۔ مجھ کو یہاں کی املاک کا علاقہ حسین مرزا صاحب کے واسطے مطلوب ہے میں تو پنشن کے باب میں حکم اخیر سن لوں پھر رامپور چلا جاؤں گا۔ جمادی الاولسے ذی الحجہ تک ۸ مہینے اور پھر محرم سے ۱۲۷۷ ھ سال شروع ہو گا۔ اس سال کے دو چار دس گیارہ مہینے غرضکہ انیس بیس مہینے ہر طرح بسر کرنے ہیں۔ ہمیں رنج و راحت و ذلت و عزت جو مقسوم میں ہے وہ پہنچ جائے اور پھر علی علی کہتا ہوا ملک عدم کو چلا جاؤں۔ جسم رامپور میں اور روح عالم نور میں۔ یا علی، یا علی، یا علی۔ میاں ہم تمہیں ایک اور خبر لکھتے ہیں ، برہما کا پتر دو دن بیمار پڑا۔ تیسرے دن مر گیا ہے ہے کیا نیک بخت لڑکا تھا باپ اس کا شیو جی رام اس کے غم میں مردہ سے بدتر ہے۔ یہ دو مصاحب میرے یوں گئے ایک مردہ دل افسردہ کون ہے جس کو تمہارا سلام کہوں ؟یہ خط اپنے ماموں صاحب کو پڑھا دینا اور یہ فرد ان سے لے کر پڑھ لینا اور جس طرح ان کی رائے میں آئے اس پر حصول مطلب کی بنا اٹھا نا اور ان سب مدارج کا جواب شتاب لکھنا۔ ضیاء الدین خاں رہتک چلے گئے اور وہ کام نہ کر گئے دیکھیئے آ کر کیا کہتے ہیں یا رات کو آ گئے ہوں یا شام تک آ جائیں۔ کیا کروں کس کے دل میں اپنا دل ڈالوں۔ بمرتضی علی پہلے سے نیت میں یہ ہے کہ جو شاہِ اودھ سے ہاتھ آئے حصہ برادرانہ کروں۔ نصف حسین مرزا اور تم اور سجاد۔ نصف میں مفلسوں کا مدار حیات خیالات پر ہے۔ مگر اُسی خیالات سے ان کا حسنِ طبیعت معلوم ہو جاتا ہے۔ والسلامخیر ختام۔ دو شنبہ۔ دوم جمادی الاول ۱۲۷۶ ہجری۔ مطابق ۲۸ نومبر ۱۸۵۹ ء وقت صبح۔

ایضاً

میاں صبح کو تمہارے نام کا خط روانہ کیا۔ شام کو تمہارا ایک خط اور آیا۔ حضرت زبدۃ العلما کا اب تک وہاں نہ پہنچنا تعجب کی بات ہے۔ حق تعالیٰ ان کو جہاں رہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ جب چاہیں وہاں پہنچیں میرا مقصود تو اتنا ہی ہے کہ قصیدہ گزرے اور کچھ ہمارے تمہارے ہاتھ آئے لیکن کل کے خط کی پشت جو سطریں ناظر جی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔ اس کے دیکھنے سے آس ٹوٹ گئی۔ کچھ ہاتھ آتا نظر نہیں آتا۔ املاک واقع شہر دہلی کے سوال کا جواب اب کی بار قلم انداز ہوا۔ مکرر اگر کہا جائے گا تو بے شک یہ جواب آئے گا کہ ہم نے تو عوض ان مکانات کے یہ مکانات دیے معاوضہ ہو گیا۔ بھائی میں پہلے ہی جانتا تھا کہ یہ املاک قتل ہوئی اور وہ سوا لاکھ روپیہ جو علاوہ زر مقررہ ملا ہے وہ دلّی کی املاک کا خون بہا ہے۔ پرسوں ناظر جی کے نام کے سر نامے میں فرد فہرست مجموع املاک بھیج چکا ہوں۔ خیر یہ وار بھی خالی گیا۔ مولانا غالب علیہ الرحمۃ خوب فرماتے ہیں ؎

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

تمہارے ماموں صاحب کی دستخطی تحریر نے جو میرا حال کیا ہے وہ کس زبان سے ادا کروں۔ ہے ہے حسین مرزا اور یہ کہے کہ میں کہاں جاؤں اور کیا کروں۔ اور مجھ کمبخت سے اس کا جواب سر انجام نہ ہو سکے۔ بہت بڑا آسرا تھا اور سرکار کی خدمت نہ سہی۔ عہدہ نہ سہی علاقہ نہ سہی۔ سو ڈیڑہ(ڈیڑھ)سو روپیہ دو ماہہ مقرر ہو جانا کیا مشکل تھا۔ دلّی کے آدمی خصوصاً امرائے شاہی ہر شہر میں بدنام اتنے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ بھاگتے ہیں۔ مرشد آباد بھی ایک سرکار تھی۔ حیدر آباد بہت بڑا گھر ہے مگر بے ذریعہ و واسطہ کیونکر جائے اور جائے تو کس سے ملے کیا کہے ناچار وہیں رہو۔ کسی طرح شاہِ اودھ کا سامنا ہو جائے اور میں کہاں کی صلاح بتاؤں وہ صاحب رہتک گئے ہیں۔ کل یقین ہے کہ آ گئے ہوں گے۔ مجھے ابھی خبر نہیں آئی۔ اگر مشیت ِ الٰہی میں ہے تو دسمبر مہینے میں کچھ ظہور میں آ جائے گا۔ نواب گورنر جنرل بہادر یقین ہے کہ آج آگرہ میں رونق افروز ہو گئے۔ الور، جے پور، دھولپور، گوالیار، ٹونک، جاورہ۔ چھ رئیسوں کی وہاں ملازمت کی خبر ہے۔ خیر ہم کو کیا۔ لیث الدولہ حسین علی خاں بہادر کی خدمت میں میرا سلام نیاز اور شکر یاد آوری۔ مرقومہ صبح سہ شنبہ ۲۹ نومبر ۳ جمادی الاولی بحساب جنتری۔

ایضاً

میاں تمہارا خط رامپور پہنچا اور رام پور سے دلّی آیا۔ میں ۲۳ شعبان کو رامپور سے چلا اور ۳۰ شعبان کو دلّی پہنچا۔ اسی دن چاند ہوا۔ یکشنبہ رمضان کی پہلی آج دو شنبہ ۹ رمضان کی ہے۔ سو نواں دن یہاں آئے ہوئے ہے۔ میں نے حسین مرزا کو رامپور سے لکھا تھا ک یوسف مرزا کو میرے آنے تک الور نہ جانے دینا۔ ان کی زبانی معلوم ہواکہ وہ میرا خط ان کو تمہاری روانگی کے بعد پہنچا۔ تم جو مجھ کو اپنے ماموں کے مقدمہ میں لکھتے ہو۔ کیا مجھ کو ان کے حال سے غافل اور ان کی فکر سے فارغ جانتے ہو۔ کچھ بنا ڈال آیا ہوں۔ اگر خدا چاہے تو کوئی صورت نکل آئے۔ اب تم کہو کہ کب تک آؤ گے۔ صرف تمہارے دیکھنے کو نہیں کہتا۔ شاید تمہارے آنے پر کچھ کام بھی کیا جائے۔ مظفر مرزا کا اور ہمشیرہ صاحبہ کا آنا تو کچھ ضرور نہیں شاید آگے بڑھ کر کچھ حاجت پڑے۔ بہرحال جو ہو گا وہ سمجھ لیا جائے گا۔ تم چلے آؤ ہمشیرہ عزیزہ کو میری دعا کہہ دینا۔ مظفر مرزا کو دعا پہنچے۔ بھائی تمہارا خط رامپور پہنچا۔ ادھر کے چلنے کی فکر میں جواب نہ لکھ سکا۔ بخشی صاحبوں کا حال یہ ہے کہ آغا سلطان پنجاب کو گئے۔ جگراؤں میں منشی رجب علی کے مہمان ہیں۔ صفدر سلطان اور یوسف سلطانوہاں ہیں۔ نواب مہدی علی خاں بقدر قلیل بلکہ اقّل کچھ ان کی خبر لیتے ہیں۔ میر جلال الدین خوشنویس اور وہ دونو(دونوں )بھائی باہم رہتے ہیں۔ میں وہیں تھا کہ صفدر سلطان دلّی کو آئے تھے۔ اب جو میں یہاں آیا تو سنا کہ وہ میرٹھ گئے۔ خدا جانے رامپور جائیں یا کسی اور طرف کا قصد کریں۔ تباہی ہے۔ قہر الہی ہے۔ مجھ کو لڑکوں نے بہت تنگ کیا ورنہ چند روز اور رامپور میں رہتا۔ زیادہ کیا لکھوں۔ راقم غالب۔ مرقومہ دو شنبہ ۹ رمضان و ۲ اپریل۔

٭٭٭

 

بنام منشی شیو نراین صاحب

صاحب خط پہنچا۔ اخبار کا لفافہ پہنچا۔ لفافوں کی خبر پہنچی۔ آپ نے کیوں تکلیف کی۔ لفافے بنانا دل کا بہلانا ہے۔ بے کار آدمی کیا کرے۔ بہرحال جب لفافے پہنچ جائیں گے ہم آپ کا شکریہ بجا لائیں گے ؎ ہر چہ از دوست میرسد نیکوست۔ یہاں آدمی کہاں ہے کہ اخبار کا خریدار ہو۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہوں گے تو جنس پوری تول دیں گے۔ کاغذ روپیہ مہینہ کا کیوں مول لیں گے۔ کل آپ کا خط آیا رات بھر میں نے فکر شعر میں خون جگر کھایا۔ ۶۱ شعر کا قصیدہ کہہ کر تمہارا حکم بجا لایا۔ میرے دوست خصوصاً میرزا تفتہ جانتے ہیں کہ میں فنِ تاریخ کو نہیں جانتا۔ اس قصیدہ میں ایک روش خاص سے اظہار ۱۸۵۸ کا کر دیا ہے۔ خدا کرے تمہاری پسند آوے تم خود قدر دانِ سخن ہو اور تیناستاد اس فن کے تمہارے یار ہیں۔ میری محنت کی داد مل جائے گی

قصیدہ

ملاذِ کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ

جنابِ عالی ایلن برون والا جاہ

بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر

کہ، باج تاج سے لیتا ہے ، جس کا طرفِ کلاہ

وہ محض رحمت و رافت، کہ بہرِ اہلِ جہاں

نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے ، جس کی نگاہ

وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی

بنے ہے ، شعلۂ آتش، انیسِ پَرّۂ کاہ

زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے ، بجائے غبار

جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاہ

وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں الٰہی شکر

وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے خدا کی پناہ

یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش

کہ دشت و کوہ کے اطراف میں ، بہر سرِ راہ

ہزبر، پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا

کبھی جو، ہوتی ہے الجھی ہوئی، دُمِ رو باہ

نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم

نہ بادشاہ، ولے مرتبہ میں ہمسرِ شاہ

خدا نے اوس(اُس) کو دیا ایک خوبرو فرزند

ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماہ

زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے

شعاعِ مہرِ درخشاں ہو، اس کا تارِ نگاہ

خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں

بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ

جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہانبانی

کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ

کہے گی خلق اسے داورِ سپہر شکُوہ

لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستارہ سپاہ

عطا کرے گا خداوندِ کارساز اسے

روانِ روشن و خوئے خوش و دلِ آگاہ

ملے گی اس کو وہ عقلِ نہفتہ داں کہ اسے

پڑے نہ، قطعِ خصومت میں ، احتیاجِ گواہ

یہ ترکتاز سے ، برہم کرے گا کشورِ روس

یہ لے گا، بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاہ

سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون

یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے ، شام و پگاہ

یہ جتنے سینکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں

دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاہ

امید وارِ عنایات شیو ناراین

کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ

یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عزّ و جاہ کے ساتھ

تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا، اللہ

(۱:۔ میں "ایلن برون” کی بجائے ایمن برون لکھا تھا۔ ۲:۔ شعاعِ مہرِ درخشاں ہو، اس کا تارِ نگاہ۔ میں "اس کا”کی بجائے "جس کا” لکھا تھا۔۔ یہ دونوں کتابت کی غلطیاں ہیں : چھوٹا غالب)

ایضاً

شفیق میرے مکرم میرے منشی شیو نراین صاحب تم ہزاروں برس سلامت رہو۔ تمہارا مہربانی نامہ اس وقت پہنچا اور میں نے اسی وقت جواب لکھا۔ بات یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ دو جزو یا چار جزو کی ہو۔ چھ جزو سے کتاب کم نہ ہو۔ مسطر دس گیارہ سطر ہو مگر حاشیہ تین طرف بڑا رہے۔ شیرازہ کی طرف کا کم ہو۔ یہ باتیں سب تفتہ کو لکھ چکا ہوں۔ اس یار بے پروا نے تم سے شاید کچھ نہیں کہا اس کے سوا یہ ہے کہ کاپی کی تصحیح ہو۔ غلط نامہ کی حاجت نہ پڑے۔ آپ خود متوجہ رہیئے گا اور منشی نبی بخش صاحب کو اگر کہیئے گا تو وہ بھی شریک رہیں گے اور مرز اتفتہ تو مالک ہی ہیں۔ کاغذ شیو رام پور ی ہو خیر مگر سفیدو مہرہ کیا ہوا اور لعاب دار ہو۔ پھر یہ ہو کہ حاشیہ پر جو لغات کے معنی لکھے جائیں تو اس کی طرز تحریر اور تقسیم دل پسند اور نظر فریب ہو۔ حاشیہ کا قلم بہ نسبت متن کی قلم کے خفی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان جلدوں میں سے دو جلدیں ولایت کو جائیں گی۔ ایک جناب فیض مآب ملکہ معظمہ انگلستانکی نذر اور ایک میرے آقائے قدیم لارڈ الن برا بہادر کی نذر۔ اور چار جلدیں یہاں کے چار حاکموں کی نذر کروں گا۔ میرزا تفتہ کو پانچ جلدوں کو لکھا تھا لیکن اب چھ جلدیں تیار کر دیجئے گا۔ یعنی شیرازہ اور جلد اور جدول اور ان چھ جلدوں کی جو لاگت پڑی روپیہ جلد سے لے کر دو روپیہ جلد تک وہ مجھ سے منگوا بھیجئے گا۔ میں بمجرد طلب کے فوراً ہنڈوی بھیج دوں گا۔ ایک خریدارپچاس جلد کے واسطے وہاں پہنچے ہیں واسطے خدا کے مرزا تفتہ سے کہیئے کہ ان سے ملیں یعنی راجہ امید سنگہ (سنگھ)بہادر اندور والے وہ چہلی اینٹ میں پولس کے پچھواڑے رہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ کا خط آ گیا۔ اور میرزا تفتہ نے مجھے پارسل کی رسید نہیں لکھی۔ اب میرا خط فارسی اپنے نام کا اور یہ خط دونوں خط ان کو دکھا دیجیئے گا اور راجہ امید سنگہ(سنگھ) سے ملنے کو کہیئے گا۔ اور ہاں صاحب یہ ان کو تاکید کیجیئے گا کہ وہ رباعی جو میں نے لکھ بھیجی ہے اس کو سب سے پہلے جہاں اس کا نشان دیا ہے اسی فقرے کے آگے ضرور ضرور اور وہ رباعی بیسویں صفحہ میں اس فقرے کے آگے ہے۔ نے نے اختر بخت خسرو در بلندی بجائے رسید کہ رخ از خاکیاں نہفت۔ تم ان کو یاد دلا کران سے لکھوا لینا ضرور ضرور۔ یہ جو تم نے لکھا کہ صاحب نے سن کر اس کو پسند کیا میں حیران ہوں کہ کونسا مقام تم نے پڑھا ہو گا۔ کیونکر کہوں کہ صاحب اس عبارت کو سمجھتے ہوں گے۔ اس کی جو حقیقت ہو مفصل لکھو۔ زیادہ زیادہ۔ راقم اسد اللہ ۔ سہ شنبہ۔ ۳۱۔ ماہ اگست ۱۸۵۸ ء۔ ضروری جواب طلب۔

ایضاً

مہاراج سخت حیرت میں ہوں کہ منشی ہر گوپال صاحب نے مجھ کو خط لکھنا کیوں چھوڑا۔ اگر مجھ سے خفا ہیں تو کیوں خفا ہیں۔ اور اگر شہر میں نہیں تو کہاں گئے اور کیوں گئے ہیں اور کب تک آئیں گے آپ مہربانی فرما کر یہ امور مجھ کو لکھ بھیجئے۔ اس سے علاوہ ایک رباعی مرزا تفتہ کو بھیجی ہے اور ان کو لکھا ہے کہ اس کو دستنبو میں فلاں جگہ درج کر دینا اور ایک دو فقرے بھائی منشی نبی بخش کو لکھے ہیں اور ان کو بھی دستنبو میں لکھنے کا محل بتا دیا ہے۔ میں نہیں جانتا ان دونوں صاحبوں نے میرے کہنے پر عمل کیا اور انہوں نے نظم کو اور انہوں نے نثر کو کتاب کے حاشیہ پر چڑھا دیا یا نہیں۔ تم سے بہزار آرزو خواہش کرتا ہوں کہ اگر وہ رباعی اور وہ فقرے حاشیہ پر چڑھ گئے ہیں تو مجھ کو ان کے لکھے جانے کی اطلاع دیجیئے کہ تشویش رفع ہو اور اگر ان دونوں صاحبوں نے بے پروائی کی ہے تو واسطے خدا کے آپ مرزا تفتہ سے رباعی اور منشی نبی بخش صاحب سے دونوں فقرے لے لیجیئے اور محل تحریر میرے خط سے معلوم کر کے ان کو جا بجا حاشیہ پر رقم کیجیئے اور مجھ کو اطلاع دیجیئے ضرور ضرور۔ اور ایک اور کام آپ کو کرنا چاہیے کہ شاید تیسرے صفحے کے آخر میں یا چوتھے صفحہ کے اول میں یہ فقرہ ہے اگر دردم دیگر نہیب مباش بہم بردند۔ نہیب کا لفظ عربی ہے یہ سہو سے لکھا گیا ہے اس کو چھیل ڈالیے گا اور اس کی جگہ نوائے مباش بنا دیجیئے گا۔ حقیقت لکھ کر اب سوالات الگ الگ لکھتا ہوں۔ پہلا سوال میرزا تفتہ کا حال اور انکے خط نہ آنے کی وجہ لکھیئے۔ دوسرا سوال میرزا تفتہ نے اگر رباعی دستنبو کے حاشیہ پر لکھ دی ہے تو اس کی اطلاع ورنہ ان کے نام کے خط سے رباعی اور تحریر کا حال معلوم کر کے آپ حاشیہ پر لکھ دیں۔ اور مجھ کو اطلاع دیں۔ تیسرا سوال منشی نبی بخش صاحب نے اگر میری بھیجی ہوئی نثر درج کر دی ہے تو اس کی اطلاع ورنہ اس نثر سے لے کر اور محل معلوم کر کے حاشیہ کتاب پر لکھ دیجیئے اور مجھ کو لکھ بھیجئے۔ چوتھا سوالاب جس طرح لکھ آیا ہوں نہیب کی جگہ نوا کا لفظ بنا کر مجھ کو عنایت کیجیئے۔ پانچواں سوال۔ خریدار پچاس جلدوں کے پہنچے۔ میرزا تفتہ سے ملے روپیہ پچاس جلد کی قیمت کا دیا یا ہنوز یہ امور وقوع میں آئے اس کی اطلاع ضرور دیجیئے۔ چھٹا سوال۔ چھاپا شروع ہو گیا یا نہیں۔ اگر شروع نہیں ہوا تو کیا سبب۔ متوقع ہوں کہ میرے یہ سب کام از راہ عنایت بنا کر ان چھ سوال کا جواب اسی طرح جدا جدا لکھیئے اور ضرور لکھیئے اور جلد لکھیئے۔ راقم اسد اللہ خاں۔ روز جمعہ۔ سوم ستمبر ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

نورِ بصر، لخت جگر منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ خط اور رپورٹ کا لفافہ پہنچا۔ اور سب حال تمہارے خاندان کا دریافت ہوا۔ سب میرے جگر کے ٹکڑے ہیں تم اپنے دودمان کے چشم و چراغ ہو العلمہ طاقۃ شوق سے لکھو آخر کے صفحہ کی دو سطریں ازروئے مضمون سراسر کتاب کے مضمون کے خلاف ہیں۔ میں نے سرکار کی فتح کا حال نہیں لکھا صرف اپنی پندرہ مہینے کی سرگزشت لکھی ہے۔ تقریباً شہر و سپاہ بھی ذکر آیا ہے اور وہ اپنی سرگزشت جو میں نے لکھی ہے سو ابتدا۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء سے ۳۱ جولائی ۱۸۵۸ ء تک لکھی ہے۔۔ شہر ستمبر میں فتح ہوا اس کا بیان ضمناً آ گیا۔ خوب ہوا جو تم نے مجھ سے پوچھا ورنہ بڑی قباحت ہوتی۔ اب میں جس طرح سے کہوں سو کرو۔ پہلے سونچو (سوچو)کہ تقسیم یوں ہے تین سطریں اوپر اور تین سطریں نیچے اور بیچ میں ایک سطر اس میں کتاب کا نام۔ کیوں میاں تقسیم یوں ہی ہے اب میں دوسرے صفحہ پر ساتویں سطر لکھ دیتا ہوں اس کو ملاحظہ کرو اور میرا کہا مانو ورنہ کتاب کی حقیقت غلط ہو جائے گی اور مطبع پر بات آئے گی۔ اس صفحہ میں دو ایک باتیں اور سمجھا دوں کہ وہ ضروری ہیں۔ سنو میری جان نوابی کا مجھ کو خطاب ہے۔ نجم الدولہ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو نواب لکھتے ہیں۔ بلکہ بعض انگریز بھی۔ چنانچہ صاحب کمشنر بہادر دہلی نے جو ان دنوں ایک روبکاری بھیجی ہے تو لفافہ پر اسد اللہ خاں لکھا لیکن یہ یاد رہے نواب کے لفظ کے ساتھ میرزا یا میر نہیں لکھتے۔ یہ خلاف دستور ہے یا نواب اسد اللہ خاں لکھو یا میرزا اسد اللہ خاں لکھو اور بہادر کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔

 

ایضاً

برخوردار نور چشم منشی شیو نراین کو معلوم ہو کہ میں کیا جانتا تھا کہ تم کون ہو جب یہ جانا کہ تم ناظر بنسی دھر کے پوتے ہو تو معلوم ہوا کہ میرے فرزند دلبند ہو۔ اب تم کو مشفق و مکرم لکھوں تو گنہگار۔ تم کو ہمارے خاندان اور اپنے خاندان کی آمیزش کا حال کیا معلوم ہے ؟ مجھ سے سنو۔ تمہارے دادا کی والدہ عہد نجف خانو ہمدانی میں میرے نانا صاحب مرحوم خواجہ غلام حسین خاں کے رفیق تھے۔ جب میرے نانا نے نوکری ترک کی اور گھر بیٹھے تو تمہارے پردادا نے بھی کمر کھولی اور پھر کہیں نوکری نہ کی۔ یہ باتیں میرے ہوش سے پہلے کی ہیں۔ مگر جب میں جوان ہوا تو میں نے یہ دیکھا کہ منشی بنسی دھر خان صاحب کے ساتھ ہیں اور انہوں نے جو کیٹھم گانوں (گاؤں )اپنی جاگیر کا سرکار میں دعویٰ کیا تو منشی بنسی دھر اس امر کے منصرم ہیں اور وکالت اور مختاری کرتے ہیں اور وہ ہم عمر تھے۔ شاید بنسی دھر مجھ سے ایک دو برس بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ انیس بیس برس کی میری عمر اور ایسی ہی عمر ان کی۔ باہم شطرنج اور اختلاط اور محبت آدھی آدھی رات گزر جاتی ہے چونکہ گھر ان کا بہت دور تھا اس واسطے جب چاہتے تھے چلے جاتے تھے بس ہمارے اور ان کے مکان میں مچھیا رنڈی کا گھر اور ہمارے دو کٹڑے درمیان میں تھے۔ ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب لکھمی چند نے مول لی ہے اسی کے دروازہ کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی۔ اور پاس اس کے ایک کٹھیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیہ کے پاس دوسری حویلی اور کالے محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اور اس سے آگے بڑھ کر ایک کٹڑہ کہ وہ گڈریوں والا مشہور تھا اور ایک کٹڑہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا اس کٹڑے کے ایک کوٹھے پر میں پتنگ اڑا رہا تھا اور راجہ بلوان سنگہ (سنگھ)سے پتنگ لڑا کرتے تھے واصل خاں نامی ایک سپاہی تمہارے دادا کا پیش دست رہتا تھا اور وہ کٹروں کا کرایہ اوگا کر ان کے پاس جمع کرواتا تھا۔ سنو تو سہی تمہارا دادا بہت کچھ پیدا کر گیا ہے۔ علاقے مول لیے تھے اور زمیندارا اپنا کر لیا تھا۔ دس بارہ ہزار روپے کی سرکار کی مالگزاری کرتا تھا۔ آیا وہ سب کارخانے تمہارے ہاتھ آئے یا نہیں۔ اس کا حال ازروئے تفصیل جلد مجھ کو لکھو۔ اسداللہ روز شنبہ۔ ۱۹ اکتوبر وقت ورود خط۔

ایضاً

برخوردار اقبال نشان منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو، تمہارے دو خط متواتر پہنچے۔ میرے بھی دو خط پس و پیش پہنچے ہو ں گے موافق اس تحریر کے عمل کیا ہو گا۔ دو جلدیں پر تکلف اور پانچ جلدیں بہ نسبت اس کے کم تکلف مرزا حاتم علی صاحب کے عہد اہتمام میں ہیں۔ اس سے ہم کو اور تم کو کچھ کام نہیں وہ جیسی چاہیں بنوا کر بھیج دیں۔ تم ایک جلد بس زیادہ صرف کیوں کرو۔ اپنے طور پر اپنی طرف سے جیسی چاہو بنوا کر بھیج دو۔ میں تم کو اپنے پیارے ناظر بنسی دھر جانتا ہوں۔ اس کو تمہاری نشانی جان کر اپنی جان کے برابر رکھوں گا۔ باقی حال اپنے خاندان اور تمہارے خاندان اور باہم پل کر اپنا اور بنسی دھر کا بڑے ہونا سب تم کو لکھ چکا ہوں۔ مکرر کیوں لکھوں۔ بادشاہ کی تصویر کی یہ صورت ہے کہ اجڑا ہوا شہر نہ آدمی نہ آدم زاد مگر ہاں دو ایک مصوروں کی آبادی کا حکم ہو گیا ہے وہ رہتے ہیں سو وہ بھی بعد اپنے گھروں کے لٹنے کے آباد ہوئے ہیں۔ تصویریں بھی ان کے گھروں میں سے لٹ گئیں کچھ جو رہیں وہ صاحبان انگریز نے بڑی خواہش سے خرید لیں۔ ایک مصور کے پاس ایک تصویر ہے وہ تیس روپے سے کم کو نہیں دیتا۔ کہتا ہے تین تین اشرفیوں کو میں نے صاحب لوگوں کے ہاتھ بیچی ہیں تم کو دو اشرفی کو دوں گا۔ ہاتھی دانت کی تختی پر وہ تصویر ہے۔ میں نے چاہا کہ اس کی نقل کاغذ پر اتار دے اس کے بھی بیس روپیہ مانگتا ہے اور پھر خدا جانے اچھی ہو یا نہ ہو۔ اتنا صرفِ بے جاکیا ضرور ہے۔ میں نے ایک دو آدمیوں سے کہہ رکھا ہے اگر کہیں سے ہاتھ آ جائیں گی تو لے کر تم کو بھیج دوں گا۔ مصوروں سے خرید کرنے کا نہ خود مجھ میں مقدور نہ تمہارا نقصان منظور۔ اب چھاپا تمام ہو گیا ہو گا وہ پانچ اور دو سات کتابیں جو میرزا صاحب کی تحویل میں ہیں وہ اور ایک جلد جو تم نے مجھے کو دینی کی ہے وہ یہ سب لوح اور جلد کی درستی کے بعد پہنچ جائیں گے۔ مگر وہ چالیس کتابیں سراسری (سرسری)جو مجھے چاہیے ہیں وہ تو آج کل میں روانہ کر دو۔ اور ہاں میری جان یہ چالیس کتابوں کا پُشتارہ کیونکر پہنچے گا اور محصول اس کا کیا ہو گا اور یہ بھی تو بتاؤ کہ وہ دس جلدیں رائے امید سنگھ کے پاس کہاں بھیجی جائیں گی۔ میرزا تفتہ ہاترس کو جاتے ہوئے ان کا اندور نہ ہونا اور شاید پھر آگرہ اور دلّی کا آنا مجھ کو لکھ چکے ہیں۔ ان باتوں کا جواب مجھ کو لکھو۔ تصویر کے باب میں جو کچھ لکھو وہ کروں اور ان مقامات سے اطلاع پاؤں جواب جلد لکھو اور مفصل لکھو۔ از غالب۔ نگاشتہ وردوان داشتہ۔ شنبہ ۲۳ اکتوبر ۱۸۵۶ ء۔

ایضاً

میاں تمہارے کمال کا حال معلوم کر کے میں بہت خوش ہوا۔ اگر مجھ کو کبھی انگریزی لکھوانا ہو گا تو یہاں سے اردو میں لکھ کر بھیج دوں گا۔ تم وہاں سے انگریزی لکھ کر بھیج دیا کرنا۔ قصہ قاصدان شاہی میں نے دیکھا۔ اصلاح کے باب میں سونچا(سوچا)کہ اگر سب فقروں کو مقفّیٰ اور عبارت کو رنگین بنانے کا قصد کروں تو کتاب کی صورت بدل جائے گی۔ اور شاید تم کو بھی یہ منظور نہ ہو۔ ناچار اس پر قناعت کی کہ جو الفاظ ٹکسال سے باہر تھے وہ بدل ڈالے۔ مثلاً "وے "کو کہ یہ گنوارو بولی ہے۔ وہ۔ یہ۔ ٹھیٹ اردو ہے۔ "کرانا”یہ بیرون جات کی بولی ہے۔ "کروانا” یہ صحیح ہے۔ "راجے "یہ غلط ہے۔ "راجہ” صحیح ہے۔ کہیں کہیں روابط و ضمائر نامربوط تھے ان کو مربوط کر دیا ہے۔ اور ایک جگہ "گھنے بسے "یہ لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اس کو تم سمجھ لینا۔ باقی اور سب مربوط اور خوب اور صاف ہے۔ حاجت اصلاح کی نہیں۔ صاحب کتابیں کب روانہ ہوں گی۔ دوا لی بھی ہولی۔ اگر گنگا جانے کا قصد ہو تو بھائی میری کتابیں بھیج کر جانا۔ اور ہاں یہ میں نہیں سمجھا کہ مرزا مہر کی بنائی ہوئی سات کتابیں بھی انہیں کتابوں کے ساتھ بھیجو گے یا وہ اپنے طور پر جدا روانہ کریں گے وہ تم نے اپنی بنوائی ہوئی کتاب کا آٹھ دن کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ سے یہ بات تراوش کرتی تھی کہ سادہ کتابیں پہلے روانہ ہوں گی اور وہ ایک کتاب ہفتہ کے بعد سو وہ ہفتہ بھی گزر گیا۔ یقین ہے کہ اب وہ سب ایک جا پہنچیں۔ اور شاید کل پرسوں آ جائیں۔ وہ نمبر اخبار کا جو تم نے مجھ کو بھیجا تھا۔ اس میں اڈمنشٹن صاحب کے لفٹنٹ ہونے کی اور بہت جلد آگرہ آنے کی خبر لکھی تھی۔ یہاں مجھ کو کئی باتیں پوچھنی ہیں ایک تو یہ کہ چیف سکرٹر نواب گورنر جنرل کے تھے۔ جب یہ لفٹنٹ گورنر ہوئے تو اب وہاں چیف سکرٹر کون ہو گا۔ یقین ہے کہ ولیم میور صاحب اس عہدہ پر مامور ہوں۔ پس اگر یوں ہی ہے تو ان کے محکمہ میں چیف سکرٹر کون ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ میر منشی ان کے تو وہی منشی غلام غوث خاں صاحب رہیں گے۔ یقین ہے کہ ان کے ساتھ ہیں۔ تیسری بات یہ کہ گورنر جنرل کے فارسی دفتر کے میر منشی ایک بزرگ تھے بلگرام کے رہنے والے منشی سید جان خاں آیا اب بھی وہی ہیں یا ان کی جگہ کوئی اور صاحب ہیں۔ ان سب باتوں میں سے جو آپ کو معلوم ہوں وہ اور جو نہ معلوم ہواس کو معلوم کر کے مجھ کو لکھیئے اور جلد لکھیئے اور ضرور لکھیئے۔ یقین تو ہے کہ تم سمجھ گئے ہو کہ میں کیوں پوچھتا ہوں۔ کتابیں جا بجا بھیجنے میں جب نام اور مقام معلوم نہ ہو تو کیونکر بھیجوں۔ جواب لکھو اور شتاب لکھو۔ کتابیں بھیجو جلد بھیجو۔ سہ شنبہ ۹ نومبر ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

برخوردار کامگار منشی شیو نراین طال عمرہٗ دراز قدرہٗ۔ کل جمعہ کے دن ۱۲ نومبر کو ۳۲ کتابیں آ گئیں۔ میں بہت خوش ہوا اور تم کو دعائیں دیں۔ خط تمہارے نام کا ابھی میرا کہار ڈاک میں لے گیا ہے اس رقعہ کی تحریر سے مقصود یہ ہے کہ میاں عبدالحکیم بہت نیک بخت اور اشراف اور ہنر مند آدمی ہیں۔ دلّی گزٹ میں حرفوں کے چھاپے کا کام کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ چھاپا خانہ اب آگرہ میں ہے یہ بھی وہیں آتے ہیں۔ تمہارے پاس حاضر ہوں گے ان پر مہربانی رکھنا بھلا وہ شہر بے گانہ ہے ان کو تمہاری خدمت میں شناسائی رہے گی تو اچھی بات ہے۔ صحافی کا کام بھی بقدر ضرورت کر سکتے ہیں شاید۔ اگر دہلی گزٹ میں ان کا طور درست نہ ہو تو اس صورت میں بشرط گنجایش اپنے مطبع میں ان کو رکھ لینا۔ راقم اسد اللہ ۔ نگاشتہ شنبہ ۱۳ نومبر ۱۸۵۸ء۔

(کتاب میں ۱۸۵۸ ء کی بجائے تاریخ ۱۲۵۸ ء درج ہے۔ کاتب کی کتابت اور پروف ریڈر حضرات کو چھوٹے غالب کا سلام پہنچے )

ایضاً

صاحب تمہارا خط آیا دل خوش ہوا دیکھئے مرزا مہر کب روانہ کرتے ہیں۔ اگر بھیج چکے ہیں تو یقین ہے کہ آج یہاں آ پہنچیں آج نہ آئیں کل آئیں۔ کل سے میں شام تک راہ دیکھتا ہوں۔ مہر نیم نہیں اس کا نام نیم روزہے اور وہ سلاطین تیموریہ کی تواریخ ہے۔ اب وہ بات ہی گئی گزری بلکہ وہ کتاب اب نہ چھپانے کے لائق ہے نہ چھپوانے کے قابل۔ اردو کے خطوط جو آپ چھاپا چاہتے ہیں یہ بھی زائد بات ہے۔ کوئی رقعہ ایسا ہو گا کہ جو میں نے قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھا ہو گا ورنہ صرف تحریر سرسری ہے۔ اس کی شہرت میری سخنوری کے شکوہ کے منافی ہے اس سے قطع نظر کیا ضرور ہے کہ ہمارے آپس کے معاملات اوروں پر ظاہر ہوں خلاصہ یہ کہ ان رقعات کا چھپانا میرے خلاف طبع ہے۔ محررہ پنجشنبہ ۱۸ نومبر ۱۸۵۸ ء۔

ایضاً

برخوردار اقبال نشان کو دعا پہنچے۔ کل جمعہ کے دن ۱۹ نومبر ۱۸۵۸ ء کو سات کتابوں کے دو پارسل پہنچے۔ واقعی کتابیں جیسا کہ میرا جی چاہتا تھا اسی روپ کی ہیں۔ حق تعالیٰ میرزا مہر کو سلامت رکھے۔ رقعوں کے چھاپنے کے باب میں ممانعت لکھ چکا ہوں البتہ اس باب میں میری رائے پر تم کو اور میرزا تفتہ کو عمل کرنا ضرور ہے۔ مطلب عمدہ جو اس خط کی تحریر سے منظور ہے وہ یہ ہے کہ جو کتاب تم نے بنوائی ہے اور میں نے تم کو لکھا تھا کہ پہلے ورق کے دوسرے صفحہ پر انگریزی عبارت لکھ کر بھیجنا۔ خدا کرے وہ عبارت تم نے نہ لکھی ہو۔ اگر لکھ دی ہو تو ناچار اور اگر نہ لکھی ہو تو اب نہ لکھنا اور صفحہ سادہ رہنے دینا۔ اور اسی طرح میرے پاس بھیج دینا۔ یہ بھی معلوم رہے کہ اب ان کتب کی تقسیم اس کتاب کے آنے تک ملتوی رہے گی اور وہ کتاب میرے پاس جلد پہنچ جائے تو بہتر ہے۔ ۲ نومبر ۱۸۵۸ ء جواب طلب بلکہ کتاب طلب۔

ایضاً

صاحب تم کندھولی کب آئے اور جب آئے تو میرا خط بیرنگ کے جس میں سات روپیہ کی ہنڈوی ملفوف تھی پایا یا نہیں پایا۔ اگر پایا تو موافق اس تحریر کے عمل کیوں نہ فرمایا۔ اور اس خط میں ایک مطلب جواب طلب تھا اس کا جواب کیوں نہ بھجوایا۔ اچھا اگر تم ایک آدھ دن کے واسطے کندھولی گئے تھے تو کار پردازانِ مطبع نے خط لے کر رکھ چھوڑا ہو گا اور جب تم آئے ہو گے تو وہ خط تمہیں دیا ہو گا پھر کیا سبب جو تم نے جواب نہ لکھا یا ابھی کندھولی سے تم نہیں آئے یا وہ خط میرا تلف ہو گیا۔ تاریخ تحریر خط مجھے یاد نہیں۔ اب یہ لکھتا ہوں کہ اگر خط پہنچا تو مجھ کو خط کی اور ہنڈوی کی رسید اور میرے سوال کا جواب لکھو اور اگر خط نہیں پہنچا تو اس کی تدبیر بتاؤ کہ اب میں ساہو کار سے کیا کہوں اور ہنڈوی مثنی کس طرح سے مانگوں۔ از اسد اللہ مضطرب۔ روز سہ شنبہ ۳ نومبر ۱۸۵۸ ء۔ جواب طلب۔ شتاب طلب۔

ایضاً

صاحب تم خط کے جواب نہ بھیجنے سے گھبرا رہے ہو گے حال یہ ہے کہ قلم بنانے میں میرا ہاتھ انگوٹھے کے پاس سے زخمی ہو گیا۔ اور ورم کر آیا۔ چار دن روٹی بھی مشکل سے کھائی گئی ہے۔ بہرحال اب اچھا ہوں۔ پنج آہنگ تم نے مول لے لی۔ اچھا کیا۔ دو چھاپے ہیں۔ ایک پادشاہی چھاپے خانے کا اور ایک منشی نور الدین کے چھاپے خانے کا۔ پہلا ناقص ہے۔ دوسرا سراسر غلط ہے کیا کہوں تم سے ضیاء الدین خاں جاگیردار لوہارو میرے سببی بھائی اور میرے شاگرد رشید ہیں جو نظم و نثر میں نے کچھ لکھا وہ انہوں نے لیا اور جمع کیا چنانچہ کلیات نظم فارسی چون پچپن جزو۔ اور پنج آہنگ اور مہر نیم روز اور دیوان ریختہ سب مل کر سوا سو جزو۔ مطلیٰ اور مذہب اور انگریزی ابری کی جلدیں الگ الگ کوئی ڈیڑھ سو اور سو روپیہ کے صرف میں بنوائی۔ میری خاطر جمع کہ کلام میرا سب جا فراہم ہے پھر ایک شاہزادہ نے اس مجموعہ نظم و نثر کی نقل کی۔ اب دو جگھ (جگہ)میرا کلام اکٹھا ہوا۔ کہاں سے یہ فتنہ برپا ہوا اور شہر لٹے۔ وہ دونوں جگھ(جگہ)کا کتاب خانہ خوانِ یغما ہو گیا۔ ہر چند میں نے آدمی دوڑائے کہیں سے ان میں سے کوئی کتاب ہاتھ نہ آئی وہ سب قلمی ہیں۔ غرض اس تحریر سے یہ ہے کہ قلمی فارسی کا کلیات قلمی ہندی کا کلیات قلمی پنج آہنگ قلمی مہر نیمروز۔ اگر کہیں ان میں سے کوئی نسخہ بکتا ہوا آوے تو اوسکو (اُس کو )میرے واسطے خرید کر لینا اور مجھ کو اطلاع کرنا۔ میں قیمت بھیج کر منگوا لوں گا۔ جناب ہنری اسٹورٹ ریڈ صاحب کو ابھی میں خط نہیں لکھ سکتا ان کی فرمایش ہے اردو کی نثر انجام پائے تو اس کے ساتھ ان کو خط لکھوں مگر بھائی تم غور کرو اردو میں مَیں اپنی قلم کا زور کیا صرف کروں گا اور اس عبارت میں معانی نازک کیونکر بھروں گا۔ ابھی تو یہی سونچ(سوچ)رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ کونسی بات کونسی کہانی کونسا مضمون تحریر کروں اور کیا تدبیر کروں تمہاری رائے میں کچھ آئے تو مجھ کو بتاؤ ایک قرینہ سے مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ شاید گورنمنٹ سو دو سو دستنبو کی خریداری کرے گی اور ان نسخوں کو ولایت بھیجے گی۔ کیا بعید ہے کہ ہفتہ دو ہفتہ میں تمہارے پاس الہ آباد سے حکم پہنچے۔ روز شنبہ ۱۱ دسمبر ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

بھائی یہ بات تو کچھ نہیں کہ تم خط کا جواب نہیں لکھتے۔ خیر دیر سے لکھو اگر شتاب نہیں لکھتے۔ تمہارا خط آیا اس کے دوسرے دن میں نے جواب بھجوایا۔ آج تک تم نے اس کا جواب نہ بھیجا۔ حالانکہ اس میں جواب طلب باتیں تھیں۔ یعنی میں نے اپنی نظم و نثر کی کتب کا حال تم کو لکھ کر تم سے یہ استدعا کی تھی کہ قلمی جو نسخہ تمہارے ہاتھ آ جاوے وہ تم خرید کر کے مجھے بھیج دینا۔ ریڈ صاحب کے باب میں مَیں نے یہ لکھا تھا کہ جب کچھ اردو کی نثر ان کے واسطے لکھ لوں گا تو دستنبو کی خریداری کی خواہش کروں گا۔ معہذا تم سے صلاح پوچھی تھی کہ کس حکایت اور کس روایت کو فارسی سے اردو کروں۔ تم نے اس بات کا بھی جواب نہ لکھا۔ سید حفیظ الدین احمد کی مُہر کھدوانے کو تم نے لکھا تھا کہ ملتوی رہے۔ پھر اس کا بھی کچھ بیورا نہ لکھا۔ میں اس کو ابھی کچھ نہیں سمجھا۔ اس کو یکسو کرو۔ ہاں ناں کچھ بھیجو۔ تمہاری مہر بد الدین علی خاں کو دی گئی ہے۔ یقین تو یہ ہے کہ اسی دسمبر مہینے میں تمہارے پاس پہنچ جائے اور ۱۸۵۸ سن کھدیں۔ شاید کچھ دیر ہو تو جنوری ۱۸۵۸ء میں کھدے اس سے زیادہ درنگ نہ ہو گی۔ تم کو روپیہ حرف سے آٹھ آنہ حرف سے کیا علاقہ۔ تم کو اپنی مُہر سے کام۔ سچ تو کہو کیا پھر کندھولی گئے ہو۔ کس شغل میں ہو یا مجھ سے خفا ہو۔ اگر خفا ہو تو اور کچھ نہ لکھو خفگی کی وجہ لکھو۔ بہرحال اس خط کا جواب شتاب لکھو۔ اور اسی خط میں بعد اس سب باتوں کے جواب کے مولوی قمر الدین خاں کا ھال لکھو کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرح ہیں۔ برسرکار ہیں یا بے کار ہیں۔ اچھا میرا بھائی اس خط کے جواب میں دیر نہ ہو۔ غالب۔ مرسلہ چہار شنبہ ۱۵ دسمبر ۱۸۵۸ء۔

ا ایضاً

برخوردار آج اس وقت تمہارا خط مع لفافوں کے آیا۔ دل خوش ہوا۔ بھائی میں اپنے مزاج سے لاچار ہوں۔ یہ لفافے از مقام در مقام و تاریخ و ماہ مجھ کو پسند نہیں۔ آگے جو تم نے مجھے بھیجے تھے وہ بھی میں نے دوستوں کو بانٹ دئیے۔ اب یہ لفافوں کا لفافہ اس مراد سے بھیجتا ہوں کہ ان کی عوض یہ لفافے جو در مقام و از مقام سے خالی ہیں جن میں تم اپنے خط بھیجا کرتے ہو مجھ کو بھیج دو اور یہ لفافے اس کے عوض مجھ سے لے لو اور اگر اس طرح کے لفافے نہ ہوں تو ان کی کچھ ضرورت نہیں۔ مُہر کے واسطے صاحب زمرد کا نگینہ اور پھر چنے کی دال کے برابر اور ہشت پہلو۔ اس اجڑے شہر میں کہا ں ملے گا۔ عقیق بہت خوش رنگ سیاہ یا سرخ جیسا تم نے آگے لکھا ہے ہشت پہلو ہو گا۔ یہ مہر میری طرف سے تم کو پہنچے گی تم کو ۴ حرف ۶ حرف سے کچھ مدعا نہیں۔ آپ اپنی مہر چاہو زمرد پر چاہو الماس پر کھدواؤ۔ میں تو عقیق کی مہر تم کو دوں گا۔ رہی وہ دوسری مہر جب تمہاری مہر کھد چکے گی جس طرح تم کہو گے کھد جائے گی۔ میاں کیا قرینہ بتاؤں گورنمنٹ کی خریداری کا۔ ایک بات ایسی ہے کہ ابھی کہہ نہیں سکتا۔ خدا کرے اس کا ظہور ہو جائے۔ ابھی مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ جناب ریڈ صاحب صاحبی کرتے ہیں۔ میں اردو میں اپنا کمال کیا ظاہر کر سکتا ہوں۔ اس میں گنجایش عبارت آرائی کی کہاں ہے۔ بہت ہو گا تو یہ ہو گا کہ میرا اردو بہ نسبت اوروں کی اردو کے فصیح ہو گا۔ خیر بہرحال کچھ کر دوں گا اور اردو میں اپنا زور قلم دکھاؤں گا۔ قے کا ہونا اور دستوں کا آنا یہ چاہتا ہے کہ تم نے رات کو بُری قسم کی شراب مقدار میں زیادہ پی ہو گی۔ کچھ تبرید کرو اور شراب زیادہ نہ پیا کرو۔ میرا رقعہ تمہارے نام کا حسب الحکم تمہارے پاس واپس بھیجا جاتا ہے میں نے تفتہ کا خفا ہونا اسی طرح لکھا تھا جیسا تم کو تمہارا خفا ہونا لکھا تھا۔ بھلا وہ میرے فرزند کی جگہ ہیں۔ مجھ سے خفا کیوں ہوں گے۔ اس دن سے آج تک دو تین خط ان کے آ چکے ہیں۔ چنانچہ ایک خط ابھی تمہارے خط کے ساتھ ڈاک کا ہرکارہ دے گیا ہے۔ محررہ شنبہ ۱۸ دسمبر ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

اب ایک امر خاص کو سمجھو۔ دو جلدیں دستنبو کی مجھ کو لکھنؤ بھیجنی ہیں اور میرے پاس کوئی جلد نہیں ہے۔ اب جو تم سے منگاؤں اور یہاں سے لکھنؤ بھجواؤں تو ایک قصہ ہے۔ یہ صاحب لوگ اطراف و جوانب سے مجھ پر فرمایشیں بھیجتے ہیں۔ تم سے بقیمت کوئی نہیں منگواتا۔ چالیس جلدیں پہلی اور بارہ یہ حال کی سب تقسیم ہو گئیں ان دونو(دونوں )صاحبوں کی خاطر مجھ کو بہت عزیز ہے۔ ایک روپیہ کے ۳۲ ٹکٹ اور ۲ آنے کے دو ٹکٹ اس خط میں ملفوف کر کے تم کو بھیجتا ہوں۔ دو پارسل الگ الگ لکھنؤ کو ارسال کرو۔ آنے آنے کے ٹکٹ اس پر لگا دو۔ ایک پارسل پر یہ لکھو۔ ایں پارسل بصیغہ پیم فلٹ پاکٹ اسٹامپ پیڈ در لکھنؤ۔ بہ محلہ نخاس۔ در امام باڑہ اکرام اللہ خاں۔ بمکان میرزا عنایت علی بخدمت میر حسین علی صاحب برسد۔ مرسلہ شیو نراین مہتمم مطبع مفید خلائق۔ از آگرہ۔ دوسرے پارسل پر بھی یہی عبارت مگر مکان کا پتہ اور نام اور۔ در لکھنؤ بہ احاطہ خانساماں۔ متصل تکیہ شیر علی شاہ۔ بمکانات مولوی عبدالکریم مرحوم بخدمت مولوی سراج الدین احمد صاحب برسد۔ سمجھ لیے ؟ یعنی دو پارسل اسٹامپ پیڈ دونوں لکھنؤ کو۔ ایک بنام میر حسین علی اور ایک بنام سراج الدین احمد بسبیل ڈاک روانہ کر دو۔ اور ہاں صاحب ان دونوں پارسلوں کی روانگی کی تاریخ مجھ کو لکھ بھیجو تاکہ میں اپنے خط میں ان کو اطلاع دوں۔ ایک امر اور ہے اگر تم بھی اس رائے کو پسند کرو یعنی جس طرح سے تم نے ایک جلد ہنری اسٹورٹ ریڈ صاحب کو اپنی طرف سے بھیجی ہے اسی طرح دو جلدیں ان دونوں صاحبوں کو جن کا نام کاغذ میں لکھا ہوا ہے بھیج دو۔ مگر اپنی ہی طرف سے۔ میرا اس میں اشارہ نہ پایا جائے۔ یہ دونوں صاحب بالفعل دلّی میں وارد ہیں۔ یہ بات ایسی نہیں ہے کہ خواہی نخواہی اس کو کیا ہی چاہیے۔ ایک صلاح ہے اور نیک صلاح ہے۔ مناسب جانو کرو ورنہ جانے دو۔ میاں اردو کیا لکھوں۔ میرا یہ منصب ہے کہ مجھ پر اردو کی فرمایش ہو خیر ہوئی۔ اب میں کہانیاں قصے کہاں ڈھونڈھتا پھروں۔ کتاب نام کو میرے پاس نہیں۔ پنشن مل جائے۔ حواس ٹھکانے ہو جائیں تو کچھ فکر کروں۔ پیٹ میں پڑیں روٹیاں تو سبھی گلاں موٹیاں۔ زیادہ زیادہ۔ غالب روز سہ شنبہ۔ ۴ جنوری ۱۸۵۹ ء۔ جواب طلب۔

ایضاً

پرسوں اور کل دو ملاقاتیں جناب آرنلڈ صاحب بہادر سے ہوئیں۔ کیا لکھوں کہ مجھ پر بے سابقہ معرفت کیا عنایت فرمائی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ گویا مجھ کو مول لے لیا۔ آج وہ یہاں اور ہیں۔ کل جائیں گے۔ دستنبو تمہاری بھیجی ہوئی ان کے پاس نہیں پہنچی۔ ناچار ایک دستنبو اور ایک پنج آہنگ اپنے پاس سے ان کی نذر کر آیا ہوں۔ لکھنؤ کے دونوں پارسلوں کی رسید مجھ کو آج تک نہیں آئی۔ آخر رسید تو تم کو پارسلوں کی ملی ہو گی۔ ڈاک میں سے معلوم کر کے مجھ کو لکھ بھیجو ورنہ میں مشوش رہوں گا۔ از غالب۔ نگاشتہ صبح شنبہ۱۵ جنوری ۱۸۵۹ ء۔

ایضاً

صاحب میں ہندی غزلیں بھیجوں کہاں سے۔ اردو کے دیوان چھاپے کے ناقص ہیں بہت غزلیں اس میں نہیں ہیں۔ قلمی دیوان جو اتم و اکمل تھے وہ لٹ گئے۔ یہاں سب کو کہہ رکھا ہے کہ جہاں بکتا ہوا نظر آ جائے لے لو تم کو بھی لکھ بھیجا اور ایک بات اور تمہارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی شاذ و نادر ہے بارہ شعر سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی۔ جس غزل کے تم نے پانچ شعر لکھے ہیں یہ نو شعر کی ہے۔ ایک دوست کے پاس اردو کا دیوان چھاپے سے کچھ زیادہ ہے۔ اس نے کہیں کہیں سے مسودات متفرق بہم پہنچا لیے ہیں۔ چنانچہ پنہاں ہو گئیں ویراں ہو گئیں۔ یہ غزل مجھ کو اسی سے ہاتھ آ گئی ہے۔ اب میں نے اس کو لکھا ہے اور تم کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ خط لکھ کر رہنے دوں گا۔ جب اس کے پاس سے ایک غزل آ جائے گی تو اسی خط میں ملفوف کر کے بھیج دوں گا۔ یہ خط آج روانہ ہو جائے گا یا کل۔ میں نے ایک قصیدہ اپنے محسن و مربی قدیم جناب فریڈرک اڈمنشٹن صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر غرب و شمال کی مدح میں اور ایک قصیدہ جناب منٹگمری لفٹنٹ گورنر بہادر ملک پنجاب کی تعریف میں لکھا ہے اگر کہو تو بھیج دوں مگر فارسی میں اور چالیس چالیس پینتالیس پینتالیس شعر ہیں۔ کتب دستنبو کی یک جانی سے میں خوش ہوا۔ خدا کرے جس کو دی ہو۔ دد تین غلطیاں جو معلوم ہیں وہ بنا دی ہوں۔ یہ نہ معلوم ہوا کہ صاحب لوگوں نے خریدیں یا ہندوستانیوں نے لیں۔ تم یہ بات مجھ کو ضرور لکھو۔ دیکھو صاحب تم گھبراتے تھے آخر یہ جنس پڑی نہ رہی اور بک گئی۔ بھائی ہندوستان کا قلمرو بے چراغ ہو گیا۔ لاکھوں مر گئے جو زندہ ہیں ان میں سینکڑوں گرفتار بند بلا ہیں۔ جو زندہ ہیں اس میں مقدور نہیں۔ میں ایسا جانتا ہوں یا تو صاحبان انگریز کی خریداری آئی ہو گی یا پنجاب کے ملک کو یہ کتابیں گئی ہوں گی۔ پورب میں کم بکی ہوں گی۔ میاں میں تم کو اپنا فرزند جانتا ہوں۔ خط لکھنے نہ لکھنے پر موقوف نہیں ہے۔ تمہاری جگہ میرے دل میں ہے اب میں طبع آزمائی کرتا ہوں اور جو غزل تم نے بھیجی ہے اس کو لکھتا ہوں خدا کرے نو کے نو شعر یا د آ جائیں۔

غزل

ہر ایک بات میں کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز

سوائے بادہ گلفام مشکبو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار

یہ شیشہ قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تجھ سے

وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیئے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

یہ تمہارا اقبال ہے کہ نو شعر یاد آ گئے ایک غزل یہ اور دو غزلیں وہ جو آیا چاہتی ہیں تین ہفتہ کا گودام تمہارے پاس فراہم ہو گیا اگر منگواؤ گے تو قصیدے دونوں بھیج دوں گا۔ مرقومہ سہ شنبہ ۱۹ ماہ اپریل ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

بھائی حاشا ثم حاشا اگر یہ غزل میری ہو ؎ اسد اور لینے کے دینے پڑے ہیں۔ اس غریب کو میں کچھ کیوں کہوں۔ لیکن اگر یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت۔ اس سے آگے ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا کہ قبلہ آپ نے کیا خوب مطلع کہا ہے ؎

اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی

میرے شیر شاباش رحمت خدا کی

میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ مقطع میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص میر امانی اسد ؔ ہو گزرے ہیں یہ مطلع اور یہ غزل ان کے کلام معجز نظام میں سے ہے۔ اور تذکروں میں مرقوم ہے۔ میں نے تو کوئی دو چار برس ابتدا میں اسدؔ تخلص رکھا ہے ورنہ غالبؔ ہی لکھتا رہا ہوں تم طرز تحریر اور روشِ فکر پر بھی نظر نہیں کرتے۔ میرا کلام اور ایسا مزخرف۔ یہ قصہ تمام ہوا۔ وہ غزل جو تمہارے پاس پہنچ گئی ہے چھاپنے سے پہلے ایک نقل اس کی مرزا حاتم علی مہر کو دے دینا جس دن یہ میرا خط پہنچے اسی دن وہ غزل نقل کر کے ان کو بھیج دینا۔ دستنبو کی خریداری کا حال معلوم ہو گیا۔ میرا بھی یہی گمان تھا کہ لاہور کے ضلع میں گئی ہوں گی۔ جناب مکلوڈ صاحب فنانشل کمشنر پنجاب نے بذریعہ صاحب کمشنر بہادر دہلی مجھ سے منگوائی تھی ایک جلد ان کو بھی بھیج چکا ہوں۔ قصیدے میں نے دو لکھے ہیں۔ ایک اپنے مربی قدیم جناب فریڈرک ایڈ منشٹن صاحب بہادر کی تعریف میں اور ایک جناب منٹگمری صاحب بہادر کی مدح میں۔ ایک پچپن شعر کا، ایک چالیس بیت کا اور پھر فارسی۔ ان کو ریختہ کی غزلوں میں کیا چھاپو گے جانے بھی دو۔ رہیں غزلیں سابق کی وہ جو میرے ہاتھ آتی جائیں گی بھجواتا جاؤں گا۔ میاں تمہاری جان کی قسم نہ میرا اب ریختہ لکھنے کو جی چاہتا ہے نہ مجھ سے کہا جائے۔ اس دو برس میں صرف وہ پچپن شعر بطریق قصیدہ تمہاری خاطر سے لکھ کر بھیجے تھے۔ سوائے اس کے اگر میں نے کوئی ریختہ کہا ہو گا تو گنہگار۔ بلکہ فارسی غزل بھی واللہ نہیں لکھی۔ صرف یہ دو قصیدے لکھے ہیں۔ کیا کہوں کہ دل و دماغ کا کیا حال ہے۔ پرسوں ایک خط تمہیں اور لکھ چکا ہوں اب اس کا جواب نہ لکھنا۔ والدعا۔ چار شنبہ ۲۶اپریل ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

برخوردار منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ خط تمہارا مع اشتہار کے پہنچا یہاں کا حال یہ ہے کہ مسلمان امیروں میں تین آدمی نواب حسن علی خان۔ نواب حامد علی خان۔ حکیم احسن اللہ خان۔ سو ان کا یہ حال ہے کہ روٹی ہے تو کپڑا نہیں۔ معہذا یہاں کی اقامت میں تذبذب۔ خدا جانے کہاں جائیں کہاں رہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں نے آفتاب عالمتاب کی خریداری کر لی ہے اب وہ مکرر حالات دربار شاہی کیوں لیں گے۔ سوائے ساہو کاروں کے یہاں کوئی امیر نہیں ہے۔ وہ لوگ اس طرف کیوں توجہ کریں گے۔ تم ادھر کا خیال دل سے دھو ڈالو۔ رہا نام اس رسالے کا تاریخی جانے دو۔ رستخیز ہند۔ غوغائے سپاہ۔ فتنہ محشر۔ ایسا کوئی نام رکھو۔ اب تم یہ بتاؤ کہ رئیس رامپور کے ہاں بھی تمہارا اخبار یا معیار الشعرا جاتا ہے یا نہیں۔ اب کے تمہارے معیار الشعرا میں مَیں نے یہ عبارت دیکھی تھی کہ امیر شاعر اپنی غزلیں بھیجتے ہیں ہم کو جب تک ان کا نام و نشان معلوم نہ ہو گا ہم ان کے اشعار نہ چھاپیں گے۔ سو میں تم کو لکھتا ہوں کہ یہ میرے دوست ہیں اور امیر احمد ان کا نام ہے اور امیر تخلص کرتے ہیں۔ لکھنؤ کے ذی عزت باشندوں میں ہیں اور وہاں کے بادشاہوں کے روشناس اور مصاحب رہے ہیں۔ اور اب وہ رامپور میں نواب صاحب کے پاس ہیں۔ مَیں ان کی غزلیں تمہارے پاس بھیجتا ہوں میرا نام لکھ کر ان غزلوں کو چھاپ دو۔ یعنی غزلیں غالبؔ نے ہمارے پاس بھیجیں اور اس کے لکھنے سے ان کا نام اور ان کا حال معلوم ہوا۔ نام اور حال وہ جو میں اوپر لکھ آیا ہوں اس کو آپ کے معیار الشعرا میں چھاپ کر ایک دو ورقہ یا چار ورقہ رامپور ان کے پاس بھیج دو اور سر نامہ پر لکھو کہ در رامپور بر درِ دولت ِ حضور رسیدہ بخدمت جناب مولوی امیر احمد صاحب امیر تخلص برسد۔ اور مجھ کو اس کی اطلاع دو۔ اور اس امر کی بھی اطلاع دو کہ رامپور کو تمہارا اخبار جاتا ہے یا نہیں۔ مرسلہ یکشنبہ ۱۲ جون ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

برخوردار نور چشم منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ صاحب میں تو منتظر تمہارے آنے کا تھا کس واسطے کہ منشی پیارے لال بھائیوں میں ہیں ماسٹر رام چندر کے۔ انہوں نے پرسوں مجھ سے کہا تھا کہ منشی شیو نراین دو تین دن میں آیا چاہتے ہیں۔ آج صبح کو ناگاہ تمہارا خط آیا۔ اب مجھ کو اس کا پوچھنا تم سے ضرور ہوا کہ آنے کی تمہاری خبر جھوٹ تھی یا ارادہ تھا اور کس سبب موقوف رہا۔ بابو ہر گوبند سہائے کا میں بڑا احسان مند ہوں حق تعالیٰاس کوشش کے اجرا میں ان کو عمر و دولت دے۔ سعادت مند اور نیک بخت آدمی ہیں۔ تمہاری خواہش کو میں اچھی طرح سمجھا نہیں۔۔ مصرع تم نے لکھا اور وہ چھاپا گیا۔ ہزار پانسو (پانچ سو)وہ ورقے چھپ گئے۔ اب جو مصرع اور کہیں سے بہم پہنچے گا وہ کس کام آئے گا۔ خود لکھتے ہو کہ پہلا جزو تم کو بھیجا ہے۔ صبر کرو وہ جزو آنے دو۔ میں ا سکو دیکھ لوں یقین ہے کہ قلمی ہو گا۔ اس کو دیکھ کر اور مضامین کو سمجھ کر مصرعہ بھی تجویز کر دوں گا۔ مگر اتنا تم اور بھی لکھو کہ آیا یوں منظور ہے کہ اس مصرع کی جگہ اور مصرع لکھو یا یہی چاہتے ہو کہ یہ بھی رہے اور وہ بھی رہے۔ خط تمہارا آ ج آ گیا ہے۔ پم فلٹ پاکٹ یا آج شام کو یا کل شام تک آ جائے گا۔ سہ شنبہ ۲۰ جولائی ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

برخوردار کو بعد دعا کے معلوم ہو۔ تمہارا خط پہنچا اور خط سے کئی دن پہلے رسالہ بغاوت ہند پہنچا۔ تمہارے تصمیم عزیمت سے میں خوش ہوا۔ اللہ اللہ اپنے یار بنسی دھر کے پوتے کو دیکھوں گا۔ رسالہ بغاوت ہند ماہ بماہ اور معیار الشعرا ہر مہینے میں دو بار پہنچتا رہے۔ باقی گفتگو عند الملاقات ہو رہے گی۔ اپنے شفیق دلی ماسٹر رامچندر صاحب کو تمہارے آنے کی اطلاع دی وہ بہت خوش ہوئے۔ جو رقعہ انہوں نے میرے رقعہ کے جواب میں لکھا ہے وہ تم کو بھیجتا ہوں پڑھ لینا اگر دستنبو ئیں باقی ہوں تو وہ اپنے ساتھ لیتے آنا۔ غالب۔ شنبہ ۲۳ جولائی ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

میاں یہ کیا معاملہ ہے ایک خط اپنی رسید کا بھیج کر پھر تم چپکے ہو رہے نہ معیار الشعرا نہ بغاوت ہند۔ نہ میرے خط کا جواب، نہ ہنڈوی کی رسید۔ برخوردار نواب شہاب الدین خاں نے اگست سے دسمبر تک پنجماہ معیارالشعرا و بغاوت ہند کا بھیجا ہے یعنی مجھ کو دیے اور میں نے ہنڈوی لکھوا کر وہ ہنڈوی اپنے خط میں لپیٹ کر تم کو بھیجی یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ خط پہنچا یا نہیں پہنچا۔ جب ان مطالب جزئی کا یہ حال ہے تو کتاب اور انگریزی عرضی کا تو بھی کیا ذکر ہے۔ خدا کے واسطے ان سب مقاصد کا جواب جدا جدا لکھو۔ آج اگست کی ۱۷بدھ کا دن ہے۔ پہلا لمبر معیار الشعرا کا بھی نہیں آیا یہ ہے کیا؟ مہر تمہاری کھدنی شروع ہو گئی ہے۔ اسی اگست کے مہینے میں تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔ اچھا میرا بھائی اس خط کا جواب جلد پاؤں اور کتاب اور عرضی کا بھی تقاضا کروں تو بعید نہیں۔ مگر آج شام تک اس خط کو رہنے دوں گا اگر تمہارا خط یا معیار الشعرا یا بغاوت ہند یا کوئی لفافہ شام تک آیا تو اس خط کو پھاڑ ڈالوں گا۔ ورنہ کل صبح کو ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ اپنے والد کو دعا اور اشتیاقِ دیدار کہہ دینا۔ غالب۔ مرقومہ چہار شنبہ۔ ۱۷ ماہ اگست ۱۸۵۹ ء وقت دوپہر۔

ایضاً

کیوں میری جان۔ تم نے خط لکھنے کی قسم کھائی ہے یا لکھنا ہی بھول گئے ہو۔ شہر میں ہو یا نہیں ہو ؟ تمہارے مطبع کا کیا حال ہے ؟ تمہارا کیا طور ہے ؟ تمہارے چچا کا مقدمہ کیونکر فیصل ہوا ؟ میرا کام تم نے درست کیا ؟ کرو گے یا نہیں ؟ معیار ا لشعرا کا پارسل پہنچ گیا؟ بغاوت ہند کا پارسل ابھی نہیں آیا۔ ان سب مطالب کا جواب لکھو۔ اور شتاب لکھو۔ غالب۔ محررہ پنجشنبہ ۲۲ ستمبر ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

برخوردار منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو۔ کیا میرے خط نہیں پہنچتے کہ جواب ادھر سے نہیں آتا۔ دو مجلد بغاوت ہند کے زیادہ پہنچے ہیں۔ اس کے واسطے تم سے پوچھا گیا تھا اس کا جواب بھی نہ آیا۔ مَیں نے یوسف علی خاں عزیز کے خط میں کچھ عبارت تمہارے نام لکھی تھی انہوں نے تم کو نہ پڑھائی ہو گی۔ اس کا بھی تم نے جواب نہ لکھا۔ ولایت کی عرضی اور کتاب کے باب میں تو میں کچھ کہتا ہی نہیں جو اس کا جواب مانگوں۔ کچھ مجھ سے خفا ہو گئے ہو تو ویسی کہو۔ یہ خط تم کو بیرنگ بھیجتا ہوں تاکہ تم کو تقاضا معلوم ہو۔ اے لو ایک اور بات سنو تمہارا تو یہ حال کہ مجھ کو خط لکھنے کی گویا تم نے قسم کھائی ہے اور میری خواہش یہ کہ نواب گورنر جنرل بہادر کی خبر جو وہاں تم کو معلوم ہوا کرے مجھ کو لکھا کرو۔ خصوصاً اکبر آباد میں آ کر جو کچھ واقع ہو وہ مفصل لکھو آیا جناب لفٹنٹ گورنر بہادر بھی ساتھ آئیں گے یا جدا جدا آ کر یہاں فراہم ہو جائیں گے۔ دربار کی صورت خیرخواہوں کے تقسیم انعام کی حقیقت۔ کوئی نیا بندوبست جاری ہو اس کی کیفیت۔ یہ سب مراتب مجھ کو لکھا کرو۔ دیکھو خبردار اس امر میں تساہل نہ کرنا۔ اب کیا سنتے ہو ؟ لکھنؤ سے کہاں آئے ہیں ؟ کانپور فرخ آباد ہوتے ہوئے آگرہ آئیں گے۔ کہاں کہاں کون کون رئیس آ ملے گا ؟ لکھنؤ کے دربار کا حال جو کچھ سنا ہو گا وہ لکھو۔ اگرچہ یہاں لوگوں کے ہاں اخبار آتے رہتے ہیں اور میری نظر سے گزر جاتے ہیں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ تمہارے خط سے آ گہی پاتا رہوں۔ تم جو لکھو گے منقح اور مفصل لکھو گے یقین ہے کہ برادر زادہ عزیز یعنی تمہارے والد ماجد نے مرزا یوسف علی خاں کے کام کی درستی لالہ جوتی پرشاد کی سرکار میں کر دی ہو گی اس کی بھی اطلاع ضرور ہے۔ صبح چار شنبہ ۲ نومبر ۱۸۵۹ء۔ جواب کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

برخوردار دو خط آئے۔ اور آج یکشنبہ ۱۳ نومبر کو لفافہ اخبار آیا۔یہ اودھ اخبار بھائی ضیاء الدین خاں کے ہاں آتا ہے اور وہ میرے پاس بھیج دیا کرتے ہیں۔ اس کی حاجت نہیں اپنے اور میرے ٹکٹ کیوں برباد کرو۔ میرا مقصود اسی قدر ہے کہ فرخ آباد کے اخبار بسبب قرب کے وہاں معلوم ہوتے ہوں گے۔ جو سنو وہ مجھ کو لکھو اور جب نواب معلی القاب آگرہ میں آ جائیں تو اپنا مشاہدہ مجھ کو لکھتے رہو پس غرض اتنی ہی ہے۔ آج کا اخبار لفافہ بدل کر آج ہی بھیج دیتا ہوں۔ اور دونوں کتابیں بغاوت ہند پرسوں بھیج چکا ہوں۔ تمہارے والد کی طرف سے مجھ کو بڑی تشویش ہے۔ دعا کر رہا ہوں خدا میری دعا قبول کرے اور ان کو شفائے کامل دے۔ میری دعا ان کو پہنچا دینا۔ مرزا یوسف علی خاں عزیز کا حال معلوم ہوا۔ یہ عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی ہیں۔ ان کو جو راحت پہنچاؤ گے اور ان کی جو خدمت بجا لاؤ گے اس کا خدا سے اجر پاؤ گے۔ زیادہ سوائے دعا کے کیا لکھوں۔ غالب۔ روز یکشنبہ ۱۳ نومبر ۱۸۵۹ء۔

ایضاً

میری جان دو جلدیں بغاوت ہند کی پرسوں میرے پاس پہنچیں۔ اس وقت برخوردار میرزا شہاب الدین خاں بیٹھے ہوئے تھے ایک جلد ان کو دی۔ کل ایک پارسل اور میرے نام کا آیا۔ میں خوش ہوا کہ ولایت کی عرضی اور دستنبو کا پارسل ہو گا۔ دیکھا تو وہی دو جلدیں بغاوت ہند کی ہیں۔ حیران رہ گیا کہ یہ کیا۔ ظاہراً مہتممانِ ارسال نے از راہِ سہو دوبارہ بھیج دی ہیں۔ چاہتا تھا کہ لفافہ بدل کر ڈبل ٹکٹ لگا کر بھیج دوں پھر سونچا(سوچا)کہ پہلے تم کو اطلاع دوں شاید یہیں سے کسی اور کو دلوا دو۔ بس اب تمہارے کہنے کا انتظار ہے۔ جو کہو سو کروں۔ کہو تم کو بھیج دوں۔ کہو کہیں اور تمہاری طرف سے بھیج دوں۔ میرے کسی کام کی نہیں۔ والدعا۔ راقم اسد اللہ ۔ مرقومہ ۲۰ اکتوبر۱۸۵۹ء۔

 

ایضاً

برخوردار کامگار کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ دستنبو کے آغاز کی عبارت ازروئے احتیاط دو بار ارسال کی گئی ہے یقین ہے کہ پہنچ گئی ہو گی اور چھاپی گئی ہو گی اور آپ نے اسی عبارت سے اشتہار بھی اخبار میں چھاپا ہو گا یا اب چھاپیے گا۔ بہرحال اس شہر کے اخبار سنیئے۔ حکم ہوا ہے کہ دو شنبہ کے دن پہلی تاریخ نومبر کو رات کے وقت سب خیر خوہانِ انگریز اپنے اپنے گھروں میں روشنی کریں۔ اور بازاروں میں اور صاحب کمشنر بہادر کی کوٹھی پر بھی روشنی ہو گی۔ فقیر بھی اسی تھیدستی (تہیدستی)میں کہ اٹھارہ مہینے سے پنشن مقرری نہیں پاتا اپنے مکان پر روشنی کرے گا۔ اور ایک قطعہ پندرہ بیت کا لکھ کر صاحب کمشنر شہر کو بھیجا ہے۔ آپ کے اپس اس کی ایک نقل بھیجتا ہوں۔ اگر تمہارا جی چاہے تو اس کو چھاپ دو۔ اور جس لمبر میں یہ چھاپا جاوے وہ لمبر میرے دیکھنے کو بھیج دینا اور اب فرمائیے کہ میں کتابوں کے آنے کا کب تک انتظار کروں۔

قطعہ

دریں روزگارِ ہمایوں و فرخ

کہ گوئی بود روزگارِ چراغاں

شدہ گوش پر نور چوں چشم بینا

ز آوازہ اشتہار ِ چراغاں

مگر شہر دریائے نور کاینجا

نگہ گشتہ ہر سو دو چارِ چراغاں

بسر بردہ بر چرخ مہر منور

ہمہ روز در انتظارِ چراغاں

گواہِ من اینک خطوطِ شعاعی

کہ دارد دلش خار خارِ چراغاں

دریں شب رَوَا باشد ار چرخِ گرداں

کند گنجِ انجم نثارِ چراغاں

نبود ست درد ہرزیں پیش ہرگز

بدیں روشنی رونقِ کاروبارِ چراغاں

شد از فیض شاہنشہِ انگلستاں

فرزوں رونقِ کاروبارِ چراغاں

جہاندار وکٹوریا کزفروغش

زآتش دمد لالہ زارِ چراغاں

ز عدلش چناں گشت پروانہ ایمن

کہ شددید بانِ حصارِ چراغاں

بفرمان سر جان لارنس صاحب

شد ایں شہر آئینہ دارِ چراغاں

بدہلی فلک رتبہ ساندرس صاحب

بر آراست نقش و نگارِ چراغاں

شد از سعی ہنری اجرٹن بہادر

رواں ہر طرف جوئبارِ چراغاں

سخن سنج غالب زروئے عقیدت

دعا مے کند در بہارِ چراغاں

کہ باد افزوں سال عمر شہنشہ

بروئے زمیں از شمارِ چراغاں

ایضاً

برخوردار منشی شیو نراین کو دعائے دوام دولت پہنچے۔ کل تمہارا خط پہنچا۔ دل خوش ہوا۔ باقر علی خان اور حسین علی خان یہ دونو(دونوں )میرے پوتے ہیں اور تم بھی میرے پوتے ہو۔ لیکن چونکہ تم عمر میں بڑے ہو تو پہلے تم اور بعد تمہارے یہ۔ میں حسب الطلب نواب صاحب کے دوستانہ یہاں آیا ہوں۔ اور اپنی صفائی بذریعہ ان کے گورنمنٹ سے چاہتا ہوں۔ دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ کتاب اور عرضی اواسطِ ماہِ جنوری میں ولایت کو روانہ کر کے یہاں آیا ہوں۔ چھ ہفتہ میں جہاز پہنچتا ہے۔ یقین ہے کہ پارسل ولایت پہنچ گیا ہو گا ؎

بہ بینم تا کردگارِ جہاں

درین آشکارا چہ دارد نہاں

اپنے والد کو میری دعا کہہ دینا۔ میرزا یوسف علی خاں کو میری دعا کہنا اور کہنا میں تمہاری فکر سے فارغ نہیں ہوں۔ اگر خدا چاہے تو کوئی راہ نکل آئے۔ سہ شنبہ ۳ مارچ ۱۸۶۰ ء۔ غالب۔

ایضاً

برخوردار اقبال آثار منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ ایکنسخہ بغاوت ہند کا ایک دو ورقہ معیار الشعرا کا معرفت برخوردار میرزا شہاب الدین خاں کے پہنچا اور آج چار شنبہ ۱۴ مارچ کی ہے کہ ایک نسخہ بغاوت ہند بھیجا ہوا تمہارا رامپور پہنچا۔ خدا تم کو جیتا رکھے۔ اب میں شنبہ کے دن ۱۷ مارچ کو دلی روانہ ہوں گا۔ تم کو بطریق اطلاع لکھا ہے اب بدستور ارسال خطوط دلی کو رہے یہاں نہ بھیجنا۔ ہاں بھائی ان دنوں میں برخوردار مرزا یوسف علی خاں وہاں آئے ہوئے ہیں آج ہی ان کا خط مجھ کو پہنچا ہے تم ضرور ان سے ملنا۔ منشی امیر علی صاحب کے ہاں وہ اترے ہوئے ہیں۔ ان کو بلا کر میری دعا کہنا اور کہنا کہ اچھا ہے دلّی چلے آؤ وہاں جو مجھ سے ملو گے تو زبانی سب کلام ہو رہے گا۔ اور اگر وہ ہاترس گئے ہوں تو یہ رقعہ جو تمہارے نام کا ہے ایک کاغذ میں لپیٹ کر ٹکٹ لگا کر ہاترس کو شیخ کریم بخش چوکیداروں کے دفعدار کے گھر کے پتے سے بھیج دینا۔ ضرور ضرور۔ از غالب۔ رواں داشتہ چہار شنبہ ۱۴ مارچ ۱۸۶۰ء وقت دوپہر۔

میاں دیوان کے کے میرٹھ چھاپے جانے کی حقیقت سن لو تب کچھ کلام کرو۔ میں رامپور میں تھا کہ ایک خط تمہارا پہنچا۔ سر نامہ پر لکھا تھا عرضداشت عظیم الدین احمد۔ منمقام میرٹھ۔ واللہ باللہ ۔ اگر میں جانتا ہوں کہ عظیم الدین کون ہے اور کیا پیشہ رکھتا ہے۔ بہرحال پڑھا، معلوم ہوا کہ ہندی دیوان اپنی سوداگری اور فائدہ اٹھانے کے واسطے چھاپا چاہتے ہیں۔ خیر چپ ہو رہا۔ جب میں رامپور سے میرٹھ آیا۔ بھائی مصطفے ٰ خاں صاحب کے ہاں اترا۔ وہاں منشی ممتاز علی صاحب میرے دوست قدیم مجھ کو ملے۔ انہوں نے کہا کہ اپنا اردو کا دیوان مجھ کو بھیج دیجیئے گا۔ عظیم الدین ایک کتاب فروش اس کو چھاپا چاہتا ہے۔ اب تم سنو دیوان ریختہ اتم و اکمل کہاں تھا۔ ہاں میں نے غدر سے پہلے لکھوا کر نواب یوسف علی خاں بہادر کو رامپور بھیج دیا تھا۔ اب جو میں دلی سے رامپور جانے لگا تو بھائی ضیاء الدین خاں صاحب نے مجھ کو تاکید کر دی تھی کہ تم نواب صاحب کی سرکار سے دیوان اردو لے کر اس کو کسی کاتب سے لکھو ا کر مجھ کو بھیج دینا۔ میں نے رامپور میں کاتب سے لکھوا کر بسبیل ڈاک ضیاء الدین خاں کو دلی بھیج دیا تھا۔آمدم بر سر مدعائے سابق۔ اب جو منشی ممتاز علی صاحب نے مجھ سے کہا تو مجھے یہی کہتے بن آئی کہ اچھا دیوان تو میں ضیاء الدین خاں سے لے کر بھیج دوں گا مگر کاپی کی تصحیح کا ذمہ کون کرتا ہے۔ نواب مصطفے ٰ خاں نے کہا کہ میں۔ اب کہو میں کیا کرتا۔ دلی آ کر ضیاء الدین خاں سے دیوان ایک آدمی کے ہاتھ نواب مصطفے ٰ خاں کے پاس بھیج دیا س۔ اگر میں اپنی خواہش سے چھپواتا تو اپنے گھر کا مطبع چھوڑ کر پرائے چھاپے خانے میں کتاب کیوں بھجواتا۔ آج اسی وقت میں نے تم کو یہ خط لکھا اور اسی وقت بھائی مصطفے ٰ خاں صاحب کو ایک خط بھیجا ہے اور ان کو لکھا ہے اگر چھاپا شروع نہ ہوا ہو تو نہ چھاپا جائے اور دیوان جلد میرے پاس بھیجا جائے۔ اگر دیوان آ گیا تو فوراً تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور اگر وہاں کاپی شروع ہو گئی ہے تو میں ناچار ہوں میرا کچھ قصور نہیں ہے۔ اگر سرگزشت کو بھی سن کر مجھ کو گنہگار ٹھہراؤ تو اچھا میرا بھائی میری تقصیر معاف کیجیو۔ رمضان اور عید کا قصہ لگا ہوا ہے یقین ہے کہ کاپی شروع نہ ہوئی ہو۔ اور دیوان میرا میرے پاس آئے اور تم کو پہنچ جائے۔ ۱۹ یا ۲۰ جنوری ۱۸۶۰ ء کتاب اور دونوں عرضیاں ولایت کو روانہ کر کے رامپور گیا ہوں۔ تین مہینے کی جہاز کی آمد و رفت ہے سو گزر چکی ہے۔ خواہ اسی مہینہ میں خواہی آغاز ماہِ آیندہ یعنی مئی میں جواب کے آنے کا مترصد ہوں دیکھیئے آئے یا نہ آئے۔ آئے تو خاطر خواہ آئے یا ایسا ہی سرسری آئے۔

ایضاً

برخوردار منشی شیو نراین کو دعا کے بعد معلوم ہو۔ تصویر پہنچی تحریر پہنچی۔ سنو میری عمر ستر برس کی ہے۔ تمہارا دادا میرا ہم عمر اور ہمباز تھا اور میں نے اپنے نانا صاحب خواجہ غلام حسین مرحوم سے سنا کہ تمہارے پردادا صاحب کو اپنا دوست بتاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں بنسی دھر کو اپنا فرزند سمجھتا ہوں۔ غرض اس بیان سے یہ ہے کہ سو سوا سے برس کی ہماری تمہاری ملاقات ہے پھر آپس میں نامہ و پیام کی راہ و رسم نہیں اور اس راہ و رسم کے مسدودہونے کا حاصل یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حال کی خبر نہیں۔ اگر تم کو میرے حال سے آگاہی ہوتی تو مجھ کو بسبیل ڈاک کبھی اکبر آباد نہ بلاتے لو اب میری حقیقت سنو۔ چھٹا مہینا ہے کہ سیدھے ہاتھ میں ایک پھنسی نے صورت پھوڑے کی پیدا کی۔ پھوڑا پک کر پھوٹ کر ایک زخم۔ زخم کیا ایک غار بن گیا۔ ہندوستانی جراحوں کا علاج رہا۔ بگڑتا گیا۔ دو مہینے سے کالے ڈاکٹر کا علاج ہے۔ سلائیاں دوڑ رہی ہیں۔ استرہ سے گوشت کٹ رہا ہے۔ بیس دن سے صورت اقامت کی نظر آنے لگی ہے۔ اب ایک اور داستان سنو۔ غدر کے رفع ہونے اور دلّی کے فتح ہونے کے بعد میرا پنشن کھلا۔ چڑھا ہوا روپیہ دام دام ملا۔ آیندہ کو بدستور بے کم و کاست جاری ہوا۔ مگر لارڈ صاحب کا دربار اور خلعت جو معمولی و مقرری تھا مسدود ہو گیا۔ یہاں تک کہ صاحب سکرٹر بھی مجھ سے نہ ملے اور کہلا بھیجا کہ اب گورنمنٹ کو تم سے ملاقات کبھی منظور نہیں۔ میں فقیر متکبر(غالب نے شاید "متفکر” لکھا تھا جو کاتب کی اصلاح سے متکبر ہو گیا۔۔ واللہ اعلم چھوٹا غالب) مایوس دائمی ہو کر اپنے گھر بیٹھ رہا اور حکام شہر سے بھی ملنا موقوف کر دیا۔ بڑے لارڈ صاحب کے ورود کے زمانے میں نواب لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب بھی دلی میں آئے دربار کیا۔ خیر مجھ کو کیا۔ ناگاہ دربار کے تیسرے دن بارہ بجے چپراسی آیا اور کہا نواب لفٹنٹ گورنر نے یاد کیا ہے۔ بھائی یہ آخر فروری ہے اور میرا حال یہ ہے کہ علاوہ اس دائیں ہاتھ کے زخم کے سیدھی ران میں اور بائیں ہاتھ میں ایک ایک پھوڑا جدا ہے۔ حاجتی میں پیشاب کرتا ہوں۔ اٹھنا دشوار ہے بہرحال سوار ہو گیا۔ پہلے صاحب سکرٹر بہادر سے ملا پھر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تصور میں کیا بلکہ تمنا میں بھی جو بات نہ تھی وہ حاصل ہوئی۔ یعنی عنایت سے عنایت اخلاق سے اخلاق۔ وقت رخصت خلعت دیا اور فرمایا کہ یہ ہم تجھ کو اپنی طرف سے از راہ محبت دیتے ہیں۔ اور مژدہ دیتے ہیں کہ لارڈ صاحب کے دربار میں بھی تیرا لمبر اور خلعت کھل گیا۔ انبالہ جا دربار میں شریک ہو، خلعت پہن۔ حال عرض کیا گیا فرمایا خیر اور کبھی دربار میں شریک ہونا۔ اس پھوڑے کا برا ہو انبالے نہ جا سکا آگرے کیونکر جاؤں۔ بابو ہر گوبند سہائے صاحب کو سلام۔ مضمون واحد۔ ۳ مئی۔

ایضاً

میاں تمہاری باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ یہ دیوان جو میں نے تم کو بھیجا ہے اتمم و اکمل ہے وہ اور کون سی دو چار غزلیں ہیں جو مرزا یوسف علی خاں عزیز کے پا س ہیں اور اس دیوان میں نہیں۔ اس طرف سے آپ اپنی خاطر جمع رکھیں کہ کوئی مصرع میرا اس دیوان سے باہر نہیں۔ معہذا ان سے بھی کہوں گا اور وہ غزلیں ان سے منگا کر دیکھ لوں گا۔ تصویر میری لے کر کیا کرو گے۔ بے چارہ عزیز کیونکر کھچوا سکے گا۔ اگر ایسی ہی ضرورت ہے تو مجھ کو لکھو۔ میں مصور سے کھچوا کر تم کو بھجوا دوں نہ نذر درکار نہ نثار۔ میں تم کو اپنے فرزندوں کے برابر چاہتا ہوں اور شکر کی جگھ(جگہ)ہے کہ تم فرزند ِ سعادت مند ہو۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور مطالب عالیہ کو پہنچا دے۔ سہ شنبہ ۳ جولائی ۱۸۶۰ ء۔ غالب۔

ایضاً

میاں میں جانتا ہوں کہ مولوی میر نیاز علی صاحب نے وکالت اچھی نہیں کی۔ میرا مدعا یہ تھا کہ وہ تم پر اس امر کو ظاہر کریں کہ دلی میں ہندی دیوان کا چھپنا پہلے اس سے شروع ہوا ہے کہ حکیم احسن اللہ خان صاحب تمہارا بھیجا ہوا فرمہ مجھ کو دیں اور وہ جو میں نے یہاں کے مطبع میں چھاپنے کی اجازت دی تھی یہ سمجھ کر دی تھی کہ اب تمہارا ارادہ اس کے چھاپنے کا نہیں۔ غور کرو میرٹھ کے چھاپے خانے والے محمد عظیم نے کس عجز و الحاح سے دیوان لیا تھا اور میں نے نظر تمہاری ناخوشی پر بجبر اس سے پھیر لیا۔ یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اور کو چھاپنے کی اجازت دوں۔ تم نے جو خط لکھنا موقوف کیا۔ میں سمجھا کہ تم خفا ہو میں نے مولوی نیاز علی صاحب سے کہا کہ برخوردار شیو نراین سے میری تقصیر معاف کروا دینا۔ بھائی خدا کی قسم میں تم کو اپنا فرزند دلبند سمجھتا ہوں۔ اس دیوان اور تصویر کا ذکر کیا ضرور ہے۔ رامپور سے وہ دیوا ن صرف تمہارے واسطے لکھوا کر لایا۔ دلی میں تصویر بہ ہزار جستجو بہم پہنچا کر مول لی اور دونوں چیزیں تم کو بھیج دیں وہ تمہارا مال ہے۔ چاہو اپنے پاس رکھو چاہو کسی کو دے ڈالو۔ چاہو پھینک دو۔ تم نے دستنبو کی جدول اور جلد بنوا کے ہم کو سوغات بھیجی تھی۔ ہم نے اپنی تصویر اور اردو کا دیوان تم کو بھیجا۔ میرے پیارے دوست ناظر بنسی دھر کے تم یادگار ہو ؎اے گل بتو خُرسند تو بُوئے کسے داری۔ خوشنودی کا طالب۔ غالب۔ ۱۰ جنوری ۱۸۶۲ء۔

٭٭٭

 

بنام بابو گوبند سہائے صاحب

برخوردار بہت دن ہوئے کہ میں نے تم کو خط لکھا ہے۔ اب اس خط کا جواب ضرور لکھو اور جلد لکھو۔ دو سوال ہیں تم سے۔ ایک تو یہ کہ یہاں مشہور ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر الہ آباد سے کانپور آ گئے۔ کوئی کہتا ہے آویں گے۔ اس کا حال جو کچھ تم کو معلوم ہو لکھو۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ دو قسم کی انگریزی شراب ایک تو کاس ٹیلن اور ایک اوڈلٹام یہ میں ہمیشہ پیا کرتا تھا اور یہ دونوں بیس روپیہ حد چوبیس روپیہ درجن آتی تھی۔ اب یہاں پہلے تو نظر ہی نہیں آتی تھی۔ اب پچاس روپیہ اور ساٹھ روپیہ درجن آتی ہے۔ وہاں تم دریافت کرو کہ ا س کا نرخ کیا ہے۔ اور یہ بھی معلوم کرو کہ بطریق ڈاک پہنچ سکتی ہے یا نہیں ؟ یہ دونوں امر دریافت کر کے مجھ کو جلد لکھو۔ اگر بقیمت مناسب ہاتھ آئے اور اس کا بھیجنا ممکن ہو تو یہاں سے روپیہ کی ہنڈوی بھیج دوں اور تم خرید کر بیل گاڑی کی ڈاک پر روانہ کر دو۔ جاڑوں میں مجھ کو بہت تکلیف ہے اور یہ گڑچھال کی شراب میں نہیں پیتا۔ یہ مجھ کو مضّرت کرتی ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے۔ چار شنبہ ۲۹ دسمبر ۱۸۵۸ ء۔ ضروری جواب طلب از غالب جان بلب۔

ایضاً

صاحب تم کو دعا کہتا ہوں اور دعا دیتا بھی ہوں۔ شراب کی قیمت کے دو خط بھیجے۔ بھائی کاس ٹیلن اور اوڈلٹام دونوں چوبیس روپیہ درجن میں ہمیشہ لیا کرتا تھا اب یہاں مہنگی ملتی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا جب وہاں بھی اس قیمت کو ملتی ہے تو میرا مقدور نہیں۔ میں سمجھتا تھا شاید وہاں ارزاں ہو۔ خیر اس کو جانے دو۔ روٹی ہی ملے جائے تو غنیمت ہے۔ مہینہ بھر کی روٹی کا مول ایک درجن کی قیمت ہے۔

٭٭٭

 

بنام نواب امین الدین احمد خان صاحب بہادر رئیس لوہارو

بھائی صاحب ساٹھ ساٹھ برس سے ہمارے تمہارے بزرگوں میں قرابتیں بہم پہنچیں۔ نِچ کا میرا تمہارا معاملہ یہ کہ پچاس برس سے میں تم کو چاہتا ہوں بے اس کے کہ چاہت تمہاری طرف سے بھی ہو۔ چالیس برس سے محبت کا ظہور طرفین سے ہوا میں تمہیں چاہتا رہا تم مجھے چاہتے رہے۔ وہ امر عام اور یہ امر خاص کیا مقتضی اس کا نہیں کہ مجھ میں تم میں حقیقی بھائیوں کا سا اخلاص پیدا ہو جائے۔ وہ قرابت اور یہ مودّت کیا پیوندِ خون سے کم ہے۔ تمہارا یہ حال سنوں اور بے تاب نہ ہو جاؤں اور وہاں نہ آؤں۔ مگر کیا کروں مبالغہ نہ سمجھو۔ میں ایک قالبِ بے روح ہوں ؎ یکے مردہ شخصم بمردی رواں۔ اضمحلال روح کا روز افزوں ہے۔ صبح کو تبرید قریب دو پھر (پہر)کے روٹی۔ شام کو شراب۔ اگر اس میں سے جس دن ایک چیز اپنے وقت پر نہ ملی میں مر لیا۔ واللہ نہیں آ سکتا۔ باللہ نہیں آ سکتا۔ دل کی جگہ میرے پہلو میں پتھر بھی تو نہیں۔ دوست نہ سہی۔ دشمن بھی تو نہ ہوں گا۔ محبت نہ سہی عداوت بھی تو نہ ہو گی۔ آج تم دونو(دونوں ) بھائی اس خاندان میں شرف الدولہ اور فخرالدولہ کی جگہ ہو۔ میں لم یلد و لم یو لد ہوں۔ میری زوجہ تمہاری بہن میرے بچے تمہارے بچے ہیں خود جو میری حقیقی بھتیجی ہے اس کی اولاد بھی تمہاری ہی اولاد ہے۔ نہ تمہارے واسطے بلکہ ان بے کسوں کے واسطے۔ تمہارا دعا گو ہوں اور تمہاری سلامتی چاہتا ہوں۔ تمنا یہ ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا کہ تم جیتے رہو اور تم دونوں کے سامنے مر جاؤں تاکہ اس قافلہ کو اگر روٹی نہ دو گے تو چنے تو دو گے۔ اگر چنے بھی نہ دو گے اور بات نہ پوچھو گے تو میری بلا سے میں تو موافق اپنے تصور کے مرتے وقت ان فلک زدوں کے غم میں نہ الجھوں گا۔ جناب والدہ ماجدہ تمہاری یہاں آنا چاہتی ہیں اور ضیاء الدین خاں اسی واسطے وہاں پہنچتے ہیں۔ سنو بعد تبدیل آب و ہوا دو فائدے اور بھی بہت بڑے ہیں۔ کثرت اطبا صحت احبا تنہائی ہے نہ ملول رہو گے۔ حرف و حکایت میں مشغول رہو گے آؤ آؤ شتاب آؤ۔ بھائی مرزا علاؤ الدین خاں تم کو کیا لکھوں جو وہاں تمہارے دل پر گزرتی ہو۔ یہاں میری نظر میں ہے۔ خیر دعائے مزید عمر و دولت۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

 

ایضاً

برادر صاحب جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ بعد سلام مسنون دعائے بقائے دولت روز افزوں عرض کیا جاتا ہے کہ عطوفت نامہ کی رو سے فارسی دو غزلوں کی رسید معلوم ہوئی۔ تیسری غزل گوہر نتواں گفت۔ اختر نتواں گفت۔ جو تمہارے حسب الطلب بھیجی گئی ہے کیا نہیں پہنچی ہو گی یا تم بھول گئے ہو گے۔ وکیل حاضر باش دربار اسد اللہ ی یعنی علائی مولائی نے اپنے مؤکل کی خوشنودی کے لئے فقیر کی گردن پر سوار ہو کر ایک اردو غزل کی غزل لکھوائی۔ اگر پسند آئے تو مطرب کو سکھائی جائے۔ جھنجھوٹی کے اونچے سروں میں۔ راہ رکھوائی جاوے۔ اگر جیتا رہا تو جاڑوں میں آ کر میں بھی سن لوں گا۔ والسلام مع الاکرام۔ نجات کا طالب غالب۔ چہار شنبہ ۱ ربیع الاول ۱۲۸۲ہجری۔

غزل

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

غیر کی مرگ کا غم کس لیے ، اے غیرتِ ماہ؟

ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی

تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے ؟

تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی

آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

تیرے کوچہ کا ہے مائل، دلِ مضطر میرا

کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے ، واعظ؟

خلد بھی باغ ہے ، خیر آب و ہوا اور سہی

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں ، یا رب؟

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں

زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی

مجھ سے ، غالبؔ، یہ علائی نے غزل لکھوائی

ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی

(٭کتاب میں حاشیہ پر لاحول ولا قوۃ بھی لکھا ہے ٭ چھوٹا غالب)

ایضاً

برادر صاحب جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ تمہارے تفریح طبع کے واسطے ایک غزل نئی لکھ کر بھیجی ہے خدا کرے پسند آئے اور مطرب کو سکھائی جائے آج شہر کے اخبار لکھتا ہوں۔ سوانح لیل و نہار لکھتا ہوں۔ کل پنجشنبہ ۲۵ مئی کو اول روز پہلے بڑے زور کی آندھی آئی پھر خوب مینہ برسا وہ جاڑا پڑا کہ شہر کرہ زمہریر ہو گیا۔ بڑے دریبہ کا دروازہ ڈھایا گیا۔ قابل عطار کے کوچہ کا بقیہ مٹایا گیا۔ کشمیری کٹڑہ کی مسجد زمین کا پیوند ہو گئی۔ سڑک کی وسعت دو چند ہو گئی۔ اللہ اللہ گنبد مسجدوں کے ڈھائے جاتے ہیں اور ہنود کے ڈیوڑھیوں کے جھنڈیوں کے پرچم پھراتے ہیں۔ ایک شیر زور آور اور پیلتن بندر پیدا ہوئے مکانات جا بجا ڈھاتا پھرتا ہے۔۔ فیض اللہ خاں بنگش کی حویلی پر جو گلدستے ہیں جس کو عوام گمزی کہتے ہیں ان میں سے ہلا ہلا کر ایک کی بنا ڈھا دی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ واہ رے بندر۔ یھ(یہ)زیادتی اور پھر شہر کے اندر ریگستان کے ملک سے ایک سردار زادہ کثیر العیال عسیر المال عربی فارسی انگریزی تین زبانوں کا عالم دلّی میں وارد ہوا ہے۔ بلی ماروں کے محلہ میں ٹھہرا ہے۔ بحسبِ ضرورت حکام شہر سے مل لیا ہے۔ باقی گھر کا دروازہ بند کیے بیٹھا رہتا ہے۔ گاہ گاہ نہ ہر شام و پگاہ غالب علی شاہ درویش کے تکیہ پر آ جاتا ہے۔ اہل شہر حیران ہیں کہ کھاتا کہاں سے ہے اس کے پاس روپیہ آتا کہاں سے ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ باپ سے پھر گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بے سبب باپ کی نظر سے گر گیا ہے۔ دیکھیئے انجام کار کیا ہو۔ غالب علی شاہ کا قول یہ ہے کہ کُل کا بھلا ہو۔ جمعہ ۲۲ مئی ۱۸۶۵ ء۔

ایضاً

 جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ بعد سلام مسنون  و دعائے بقائے دولت روز افزوں عرض کیا جاتا ہے کہ استاد میر جان آئے اور ان کی زبانی تمہاری خیر و عافیت معلوم ہوئی۔ خدا تم کو زندہ و تندرست و شاد و شاداں رکھے۔ یہاں کا حال کیا لکھوں۔ بقول سعدی علیہ الرحمۃ؎ نماند آب جز آبِ چشم در یتیم۔ شب و روز آگ برستی ہے یا خاک۔ نہ دن کو سورج نظر آتا ہے نہ رات کو تارے۔ زمین سے اٹھتے ہیں شعلے۔ آسمان سے گرتے ہیں شرارے۔ چاہا تھا کہ کچھ گرمی کا حال لکھوں۔ عقل نے کہا کہ دیکھ نادان قلم انگریزی دیا سلائی کی طرح جل اٹھے گی اور کاغذ کو جلا دے گی۔ بھائی ہوا کی گرمی تو بڑی بلا ہے گاہ گاہ جو ہوا بند ہو جاتی ہے۔ وہ اور بھی جانگزا ہے۔ خیر اب فضل سے قطع نظر ایک کودکِ غریب الوطن کے اختلاط کی گرمی کا ذکر کرتا ہوں کہ وہ جاں سوز نہیں بلکہ دل افروز ہے۔ پرسوں فرّخ مرزا آیا۔ اسکا باپ بھی اس کے ساتہ(ساتھ)تھا میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں صاحب میں تمہارا کون ہوں اور تم میرے کون ہو؟ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ حضرت آپ میرے دادا ہیں اور میں آپ کا پوتا ہوں۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ آئی کہا جناب عالی آکا جان کی تنخواہ آ گئی ہے میری نہیں آئی میں نے کہا تُو لوہارو جائے تو تنخواہ پائے۔ کہا حضرت میں تو آکا جان سے روز کہتا ہوں کہ لوہارو چلو۔ اپنی حکومت چھوڑ کر دلّی کی رعیت میں کیوں مل گئے۔ سبحان اللہ بالشت بھر کا لڑکا اور یہ فہم درست اور طبع سلیم۔ میں خوبی خو اور فرخی سیرت پر نظر کر کے اس کو فرخ سیر کہتاہوں۔ مصاحب بے بدل ہے۔ تم اس کو بلا کیوں نہیں بھیجتے۔ مگر بھائی غلام حسین خاں مرحوم کے متبع ہو کہ زین العابدین و حیدر حسن اور ان کی اولاد کو کبھی منہ نہ لگایا۔ علاؤ الدین جیسا ہوشمند ہمہ دان بیٹا۔ فرخ سیر جیسا دانشور بذلہ سنج اور شیریں سخن پوتا۔ یہ دو عطیہ عظمیٰ و موہبت کبریٰ ہیں تمہارے واسطے من جانب اللہ ؎

اگر در یافتی بردانشت بوس

وگر غافل شدی افسو س افسوس

آج ۲۲ جون کی ہے۔ آفتاب سرطان میں آ گیا۔ لفظ انقلاب صیفی میں۔ دن گھٹنے لگا چاہیے کہ تمہارا غیظ و غضب ہر روز کم ہو جائے۔ نجات کا طالب غالب۔

ایضاً

بھائی صاحب آج تک سونچتا (سوچتا)رہا کہ بیگم صاحبہ قبلہ کے انتقال کے باب میں تم کو کیا لکھوں۔ تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں۔ اظہارِ غم۔ تلقینِ صبر۔ دعائے مغفرت۔ سو بھائی اظہارِ غم تکلف محض ہے۔ جو غم تم کو ہوا ہے ممکن نہیں کہ دوسرے کو ہوا ہو۔ تلقینِ صبر بے دردی ہے۔ یہ سانحہ عظیم ایسا ہے جس نے غمِ رحلت نواب مغفور کو تازہ کیا پس ایسے موقع پر صبر کی تلقین کیا کی جائے۔ رہی دعائے مغفرت میں کیا اور میری دعا کیا مگر چونکہ وہ میری مربیہ اور محسنہ تھیں دل سے دعا نکلتی ہے۔ معہذا تمہارا یہاں آنا سنا جاتا تھا۔ اس واسطے خط نہ لکھا۔ اب جو معلوم ہوا کہ دشمنوں کی طبیعت ناساز ہے۔ اور اس سبب آنا نہ ہوا۔ یہ چند سطریں لکھی گئیں حق تعالیٰ تم کو سلامت اور تندرست اور خوش رکھے۔ تمہاری خوشی کا طالب غالب۔ ۱۵ نومبر ۱۸۶۶ ء۔

(اللہ جانے سنہ تاریخ ۱۸۶۲ ہے یا ۱۸۶۶ ء۔ کیونکہ کتاب میں ۱۸۲۶ ء لکھا ہے۔ چھوٹا غالب)

 

ایضاً

اخ مکرم خدا کرم کی خدمت میں بعد اہدائے سلامِ مسنون ملتمس ہوں۔ تمہارا شہر میں رہنا موجب تقویت دل تھا ؎ گو نہ ملتے تھے پر اک شہر میں تو رہتے تھے۔ بھائی ایک سیر دیکھ رہا ہوں۔ کئی آدمی طیور آشیاں گم کردہ کی طرح ہر طرف اڑتے پھرتے ہیں۔ ان میں سے دو چار بھولے بھٹکے کبھی یہاں بھی آ جاتے ہیں۔ لو صاحب اب وعدہ کب وفا کرو گے۔ علائی کو کب بھیجو گے ابھی تو شب کے چلنے اور دن کے آرام کرنے کے دن میں بارش شروع ہو جائے گی تو آپ کی اجازت بھی کام نہ آئے گی چلنے والا کہے گا۔ میں رہرو چالاک ہوں تیراک نہیں۔ لوہارو سے دلّی تک کشتی بغیر کیونکر جاؤں۔ دخّانی جہاز کہاں سے لاؤں ؎ اے ز فرصت بے خبر در ہر چہ باشی زود باش۔ علائی کے دیدار کا طالب غالب۔ استاد میر جان کو سلام۔ یوم الخمیس۔ ۱۷ محرم ۱۸۸۱ ہجری۔

٭٭٭

 

بنام مرزا علاؤ الدین احمد خاں صاحب بہادر

صاحب تمہارا خط پہنچا۔ مطالب دل نشین ہوئے۔ غوغائے خلق سے مجھ کو غرض نہیں۔ کیا اچھی رباعی ہے کسی کی ؎

مومن بخیالِ خویش مستم داند

کافر بگماں خدا پرستم داند

مُردم ز غلط فہمی مردم مُردم

اے کاش کسے ہر آنچہ ہستم داند

بھائیوں سے پھر نہیں ملا۔ بازار میں نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے جواہر خبردار میرا سلام اخوین کو اور ان کا سلام مجھ کو پہنچا دیتا ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں ؎

تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

یہ مقطع اور مطلع مندرجہ دیوان ہے مگر اس وقت یہ دونوں شعر حسبِ حال نظر آئے اس واسطے لکھ دئیے گئے۔ تم نے اشعار جدید مانگے خاطر تمہاری عزیز ایک مطلع صرف دو مصرع آگے کے کہے ہوئے یاد آ گئے کہ وہ داخل دیوان بھی نہیں۔ ان پر فکر کر کے ایک مطلع اور پانچ شعر لکھ کر سات بیت کی ایک غزل تم کو بھیجتا ہوں۔ بھائی کیا کہوں کہ کس مصیبت سے یہ چھ بیتیں ہاتھ آئی ہیں اور وہ بھی بلند رتبہ نہیں ؎

رقیب پر ہے اگر لطف، تو ستم کیا ہے ؟

تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے

 کٹے تو شب کہیں ، کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے ؟

 لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود

کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے ؟

 نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا

خدا کے واسطے ! ایسے کی پھر قسم کیا ہے ؟

وہ داد و دید گرا نمایہ شرط ہے ہمدم

وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے ؟

سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی

یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے ؟

(کتاب میں لفظ "گرانمایہ ” کی بجائے کاتب نے غلطی سے "گرانمانہ” لکھ دیا ہے۔ چھوٹا غالب)

لو صاحب تمہارا فرمانِ قضا تو امان بجا لایا مگر اس غزل کا مسودہ میرے پاس نہیں ہے اگر باحتیاط رکھو گے اور اردو دیوان کے حاشیہ پر چڑھا دو گے تو اچھا کرو گے۔ عمر فراواں و دولت فزوں باد۔ فقط۔ جمعہ ۲۲ دسمبر ۱۸۶۵ ء بارہ پر دو بجے تین کا عمل۔

 

ایضاً

مرزا روبرو بہ از پہلو۔ آؤ میرے سامنے بیٹھو۔ آج صبح کے سات بجے باقر علی خاں اور حسین علی خاں مع ۱۴ مرغ ۶ بڑے اور ۸ چھوٹے کے دلّی کو روانہ ہوئے۔ دو آدمی میرے ان کے ساتھ گئے۔ کلو اور لڑکا نیاز علی یعنی ڈیڑھ آدمی میرے پاس ہیں۔ نواب صاحب نے وقت رخصت ایک ایک دوشالہ مرحمت کیا۔ مرزا نعیم بیگ ابن مرزا کریم بیگ دو ہفتہ سے یہاں وارد ہیں اور اپنی بہن کے ہاں ساکن ہیں کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ دلّی چلوں گا۔ اور وہاں سے لوہارو جاؤں گا۔ میرے چلنے کا حال یہ ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ اسی ہفتہ میں چلوں گا۔ آپ چال چُوکے اردو لکھتے لکھتے جو خط مشتمل ایک مطلب پر تھا اس کو تم نے فارسی لکھا۔ اور فارسی بھی مقصدیانہ نہیں کہ امیر کو اور اپنے بزرگ کو کبھی بصیغہ مفرد نہ لکھیں۔ یہ وہی چھوٹی "ہے ” اور بڑی "حے” کا قصہ ہے۔ خیر خط نہ دکھاؤں گا۔ ماکتب فیہ کہہ کر کام کا مقدمہ نکال لوں گا۔ میں نے تو چلتے وقت فرخ سیر کے اتالیق کی زبانی بھائی کو کھلا (کہلا)بھیجا تھا کہ تم اگر کوئی اپنا مدعا کہو تو میں اس کی درستی کرتا لاؤں جواب آیا کہ اور کچھ مدعا نہیں صرف مکان کا مقدمہ ہے سواس مقدمہ میں میرا اور میرے شرکاء کا وکیل کے ہاں موجود ہے اگر وہ اس امر کا ذکر کرتے ہیں تو میں ان کے خالو اصغر علی خاں کے نام عرضی یا خط لکھوا لاتا۔ بہرحال اب بھی قاصر نہ رہوں گا۔ تاریخ اوپر لکھ آیا۔ نام اپنا بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔

ایضاً

یکشنبہ یکم اکتوبر۱۸۶۵ء

؎ شکر ایزد کہ ترا باپدرت صلح فتاد

حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند

قدسیاں بہر دعائے تو ووالائے پدرت

قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند

میاں تم جانتے ہو کہ میں عازم رام پور تھا اسباب مساعدت ہو گئے بشرط حیات جمعہ کو روانہ ہوں گا۔ لڑکے بالوں کی خیر و عافیت علی حسین خاں کی تحریر سے معلوم ہوتی رہتی ہے میرا لکھنا زائد ہے ایک بار میں صاحب کمشنر کی عیادت کو گیا تھا فرخ مرزا بھی میرے ساتھ گیا تھا۔ مزاج کی خبر پوچھ آیا۔ بھائی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ راقم غالب علی شاہ۔

ایضاً

جانا جانا ایک خط میرا تمہارے دو خطوں کے جواب میں تم کو پہنچا ہو گا۔ آج میں علی اصغر خاں بہادر کے گھر گیا ان سے میں نے تذکرہ کیا فرمایا کہ فرخ سیر کی ماں کو لکھ بھیجو کہ سال بھر کی تنخواہ کی رسید بھیج دیں یہاں سے روپیہ بھیج دیا جائے گا۔ آج منگل ہے ۷ شعبان کی اور ۲۶ دسمبر کی۔ دونوں بھتیجے تمہارے جمعہ کے دن ۲۲ دسمبر کو روانہ دہلی ہوئے۔ میں پرسوں یوم الخمیس کو مرحلہ پیما ہوں گا؎

اول ما آخر ہر منتہی در اکرام و عزت

آخر ما جیب تمنا تہی از مال و دولت

تو کمان گروہہ کہا کر فارسی بگھارا کر مجھ سے ہندی کی چندی سن۔ ایک غلیل حضور نے دینی کی ہے۔ ایک علی اصغر خاں سے اینٹھی دونوں کل آئیں گی۔ مرزا نعیم بیگ ابن مرزا کریم بیگ دو تین ہفتہ سے یہاں وارد اور اپنی بہن کے ہاں ساکن ہیں۔ زاد کی خداے چٹھی فقیر پر کی۔ راحلہ وہ جانیں۔ فقط۔ غالب۔

 

ایضاً

صبح دو شنبہ شانزدہم از مہِ صیام۔ میری جان نئے مہماں کا قدم تم پر مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری اور اس کی اور اس کے بھائیوں کی عمر و دولت میں برکت دے۔ تمہاری طرزِ تحریر سے صاف نہیں معلوم ہوتا کہ سعید ہے یا سعیدہ ہے ثاقب اس کو عزیز اور غالب عزیز جانتا ہے۔ واضح لکھو تا احتمال رفع ہو۔ خط ثاقب کے نام کا توبہ توبہ خط کاہے کو ایک تختہ کاغذ کا میں نے سراسر پڑھا۔ لطیفہ و بذلہ و شوخی و شوخ چشمی کا بیان جب کرتا کہ فحوائے عبارت سے جگر خوں نہ ہو جاتا۔ بھائی کا غم جدا، ایسا سخن گزار، ایسا زبان آور، ایسا عیار طرار۔ یوں عاجز و درماندہ و از کار رفتہ ہو جائے۔ تمہارا غم جدا۔ ساغر اول و درد کیا دل لے کر آئے کیا زبان لے کر آئے کیا علم لے کر آئے ، کیا عقل لے کر آئے اور پھر کسی روش کو برت نہ سکے کسی شیوہ کی داد نہ پائے گویا نظیری تمہاری زبان سے کہتا ہے ؎

جوہر بینش من در تہٖ زنگار بماند

آنکہ آئینہ من ساخت پرداخت دریغ

بھائی اس معرض میں مَیں بھی تیرا ہم طالع اور ہمدرد ہوں اگر چہ یک فنہ ہوں مگر مجھے اپنے ایمان کی کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد باندازہ بایست پائی نہیں آپ ہی کہا آپ ہی سمجھا۔ قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو داعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دئیے ہیں بقدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے نہ وہ طاقت جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسی کے لٹکا لوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا۔ کبھی مصر جا ٹھہرا۔ کبھی نجف جا پہنچا۔ نہ وہ دستگاہ کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے نہ سہی۔ جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے ؎

نہ بستان سرائے نہ میخانہ

نہ دستاں سرائے نہ جانانہ

نہ رقص پری پیکران بر بساط

نہ غوغائے رامشگراں دررباط

خدا کا مقہور۔ خلق کا مردود۔ بوڑھا ناتوان بیمار فقیر نکبت میں گرفتار۔ تمہارے حال میں غور کی اور چاہا کہ اس کا نظیر بہم پہنچاؤں۔ واقعہ کربلا سے نسبت نہیں دے سکتا۔ لیکن واللہ تمہارا حال اس ریگستان میں بعینہٖ ایسا ہے جیسا مسلم ابن عقیل کا حال کوفہ میں تھا۔ تمہارا خالق تمہاری اور تمہارے بچوں کی جان و آبرو کا نگہبان میرے اور معاملات کلام و کمال سے قطع نظر کرو۔ وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اور خود در بدر بھیک مانگے وہ میں ہوں۔

ایضاً

چاشتگاہ سہ شنبہ دوازدہم نومبر ۱۸۶۱ء۔ آج جس وقت کہ روٹی کھانے کو گھر جاتا تھا شہاب الدین خاں تمہارا خط اور مصری کی ٹھلیا لے کر آئے۔ میں اس کو لوا کر گھر گیا اپنے سامنے مصری تلوائی آدھ پاؤ اوپر دو سیر نکلی۔ خانہ دولت آباد۔ یہی کافی دوافی ہے اور اب حاجت نہیں۔ روٹی کھا کر باقر آیا۔ تمہارے ابن عم کا آدمی جوابِ خط کا متقاضی ہوا کہ شتر سوار جانے والا ہے۔ میں کھانا کھا کر لیٹنے کا عادی ہوں۔ لیٹے لیٹے مصری کی رسید لکھ دی۔ مطالب مندرجہ خط کا جواب بشرط حیات کل بھیجوں گا۔ غالب۔

اقبال نشانا بخیر و عافیت و فتح و نصرت لوہارو پہنچنا مبارک ہو۔ مقصود ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ مطبع اکمل المطابع میں چند احباب میرے مسودات اردو کے جمع کرنے پر اور اس کے چھپوانے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ مجھ سے مسودات مانگے ہیں اور اطراف و جوانب سے بھی فراہم کیے ہیں۔ میں مسودہ نہیں رکھتا جو لکھا وہ جہاں بھیجنا ہوا وہاں بھیج دیا۔ یقین ہے کہ خط میرے تمہارے پاس بہت ہوں گے اگر ان کا ایک پارسل بنا کر بسبیل ڈاک بھیج دو گے یا آج کل میں کوئی ادھر آنے والا ہو اس کو دے دو گے تو موجب میری خوشی کا ہو گا۔ اور میں ایسا جانتا ہوں کہ اس کے چھاپے جانے سے تم بھی خوش ہو گے۔ بچوں کو دعا۔ غالب۔

ایضاً

جانِ غالب یاد آتا ہے کہ تمہارے عم نامدار سے سنا ہے کہ لغات دساتیر کی فرہنگ وہاں ہے اگر ہوتی تو کیوں نہ تم بھیج دیتے خیر ؎ آنچہ مادرکار داریم اکثرے درکار نیست۔ تم ثمر نورس ہو اس نہال کے جس نے میری آنکھوں کے سامنے نشو نما پائی ہے اور میں ہوا خواہ و سایہ نشین اس نہال کا رہا ہوں کیونکر تم مجھ کو عزیز نہ ہو گے۔ رہی دید و ادید اس کی دو صورتیں ہیں۔ تم دلّی میں آؤ یا میں لوہارو آؤں۔ تم مجبور میں معذور۔ خود کہتا ہوں کہ میرا عذر زنہار مسموع نہ ہو۔ جب تک تم سمجھ نہ لو کہ میں کون ہوں اور ماجرا کیا ہے۔ سنو عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے لِمَنِ المُلکُ الیَوم اور پھر آپ جواب دیتا ہے۔ للہِ الواحِدِ القہار۔ ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب ۱۲۱۲ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷ رجب ۱۲۲۵ ھ کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلّی شہر کو زندان مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد جیل خانہ سے بھاگا تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایانِ کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب یہ دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے۔ دو ہتھکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار۔ ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہو گئی۔ طاقت یک قلم زائل ہو گئی۔ بے حیا ہوں سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زندان میں چھوڑ کر مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رامپور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا آیا اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کیا بھاگنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ حکمِ رہائی دیکھیئے کب صادر ہو ایک ضعیف سا احتمال ہے کہ اس ماہ ذی الحجہ میں چھوٹ جاؤں۔ بہر تقدیر بعد رہائی کے تو آدمی سوائے اپنے گھر کے اور کہیں جاتا۔ میں بھی بعد نجات سیدھا عالم ارواح کو چلا جاؤں گا؎

فرخ آں روز کہ از خانہ زنداں بروم

سوئے شہر ِ خود ازیں وادی ویراں بروم

گانے میں غزل کے سات شعر کافی ہوتے ہیں۔ دو فارسی غزلیں دو اردو غزلیں اپنے حافظہ کی تحویل میں بھیجتا ہوں بھائی صاحب کی نذر

غزل

از جسم بجاں نقاب تاکَے

ایں گنج دریں خراب تاکَے

ایں گوہر پُر فروغ یا رب

آلودہ خاک و آب تا کَے

ایں راہرو ِ مسالک قدس

واماندہ خورد و خواب تا کَے

 بیتابی برق جز دمے نیست

ماویں ہمہ اضطراب تا کَے

جاں در طلبِ نجات تا چند

دل در تعبِ عتاب تا کَے

پرسش ز تو بے حساب باید

غمہائے مرا حساب تاکَے

غالبؔ بہ چنیں کشاکش اندر

یا حضرت بو تراب تا کَے

دوش کز گردش بختم گلہ بر رُوئے تو بود

چشم سوئے فلک و رُوئے سخن سوئے تو بود

آنچہ شب شمع گماں کردی و رفتی بعتاب

نفسم پردہ کشائے اثرِ خوئے تو بود

چہ عجب صانع اگر نقش دہانت گم کرد

کاں خود از حیرتیاں رخ نیکوئے تو بود

بکف باد مباد ایں ہمہ رسوائی دل

کاخراز پردہ گیانِ شکنِ سوئے تو بود

مُردن و جاں بتمنائے شہادت دادن

ہم از اندیشہ آزردنِ بازوئے تو بود

دوست دارم کر ہے را کہ بکارم زدہ اند

کایں ہمانست کہ پیوستہ در آبروئے تو بود

لالہ و گُل ودمد از طرف مزارش پسِ مرگ

تا چہا دردلِ غالبؔ ہوس ِ روئے تو بود

ہے بس کہ ہر ایک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

 لوگوں کو ہے خورشید جہانتاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور

ہے خون ِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدہ خوننابہ فشاں اور

یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے

جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں گے ہاں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

اس بزم میں نہیں بنتی مجھے حیا کیے

بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے

ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں

بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے

صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو

 دینے لگا ہے بوسے بغیر التجا کیے

رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہنِ مے

مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو

کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے

غالب تمھیں کہو کہ ملے گا جواب کیا

مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے

ایضاً

سعادت و اقبالن زشان میرز ا علاؤ الدین خاں بہادر کو فقیر اسد اللہ کی دعا پہنچے۔ کل شام کو مخدوم مکرم جناب آغا محمد حسین صاحب شیرازیبسواری ریل مانند دولتِ دلخواہ کہ ناگاہ آوے فقیر کے تکیہ میں تشریف لائے۔ شب کو جناب ڈپٹی ولایت حسین خاں کے مکان میں آرام فرمایا اب وہاں آتے ہیں۔ قریب طلوعِ آفتاب بچشم نیم باز یہ رقعہ تمہارے نام لکھا ہے جو کچھ جی چاہتا ہے وہ مفصل نہیں لکھ سکتا۔ مختصر مفید آغا صاحب کو دیکھ کر یوں سمجھا کہ میرا بوڑھا چچا غالب جوا ن ہو کر میلے کی سیر کو حاضر ہوا ہے۔ پس نور چشمان راحت جاں مرزا باقر علی خاں بہادرو مرزا حسین علی خاں بہادر جناب آغا صاحب کا قدمبوس بجا لائین اور ان کی خدمت گزاری کو اپنی سعادت اور میری خوشنودی سمجھیں۔ بس ہاں مرزا علائی اگر کرنیل الگزنڈر اسکنر بہادر سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہنا۔

ایضاً

صاحب میری داستان سنیئے۔ پنشن بے کم و کاست جاری ہوا۔ زرِ مجتمعہ سہ سالہ یک مشت مل گیا۔ بعد ادائے حقوق چار سو روپیہ دینے باقی رہے اور ستاسی روپیہ گیارہ آنے مجھے بچے۔ مئی کا مہینہ بدستور ملا۔ آخر جون میں حکیم آ گیا کہ پنشن دار علی العموم ششماہی پایا کریں بماہ پنشن تقسیم نہ ہوا کرے۔ میں دس بارہ برس سے حکیم محمد حسن خاں کی حویلی میں رہتا ہوں۔ اب وہ حویلی غلام اللہ خاں نے مول لے لی۔ آخر جون میں مجھ سے کہا کہ حویلی خالی کر دواب مجھے فکر پڑی ہے کہ کہیں دو حویلیاں قریب ہمدگر ایسی ملیں کہ ایک محلسرا اور ایک دیوان خانہ ہو۔ نہ ملیں۔ ناچار یہ چاہا کہ بلی ماروں میں ایک مکان ایسا ملے کہ جس میں جا رہوں۔ نہ ملا۔ تمہاری چھوٹی پھوپھی نے بے کس نوازی کی۔ کڑوڑا والی حویلی مجھ کو رہنے کو دی۔ ہر چند وہ رعایت مرعی نہ رہی کہ محلسرا سے قریب ہو مگر خیر بہت دور بھی نہیں۔ کل یا پرسوں وہاں جا رہوں گا۔ ایک پاؤں زمیں پر ہے ایک پاؤں رکاب میں توشہ کا وہ حال گوشہ کی یہ صورت۔ کل شنبہ ۱۷ ذی الحجہ کی اور ۷ جون کی پہر دن چڑھے تمہارا خط پہنچا۔ دو گھڑی کے بعد سنا گیا کہ امین الدین خاں صاحب نے اپنی کوٹھی میں نزول اجلال کیا۔ پہر دن رہے از راہ مہربانی ناگاہ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے ان کو دُبلا و افسردہ پایا۔ دل کُڑھا۔ علی حسین خاں بھی آیا۔ اس سے بھی ملا۔ میں نے تمہیں پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آئے ؟ بھائی صاحب بولے کہ جب میں یہاں آیا تو کوئی وہاں بھی تو رہے اور اس سے علاوہ وہ اپنے بیٹے کو بہت چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اتنا ہی جتنا تم اس کو چاہتے تھے۔ ہنسنے لگے۔ غرض کہ میں نے بظاہر ان کو تم سے اچھا پایا۔ آگے تم لوگوں کے دلوں کا مالک اللہ ہے۔ راقم غالب۔ نگاشتہ وردان داشتہ یکشنبہ۔ بین الظہر و العصر۔

ایضاً

چہار شنبہ ۲۵ ستمبر ۱۸۶۱ ء ہنگام نیمروز۔ علائی مولائی اس وقت تمہارا خط پہنچا۔ ادھر پڑھا ادھر جواب لکھا۔ واہ کیا کہنا ہے رامپور کے علاقہ کو گاؤ سنگ اور مجھ کو بیل یا اس پیوند کے طعنہ کو تازیانہ اور مجھ کو گھوڑا بنایا۔ وہ علاقہ اور وہ پیوند لوہارو کے سفر کا مانع و مزاحم کیوں ہو۔ رئیس کی طرف سے بطریق وکیل محکمہ کمشنری میں معین نہیں ہوں۔ جس طرح امرا واسطے فقرا کے وجہ معاش مقرر کر دیتے ہیں اسی طرح اس سرکار سے میرے واسطے مقرر ہے۔ ہاں فقیر سے دعائے خیر اور مجھ سے اصلاح نظم مطلوب ہے چاہوں دلی میں رہوں چاہوں اکبر آباد۔ چاہوں لاہور۔ چاہوں لوہارو۔ ایک گاڑی کپڑوں کے واسطے کرایہ کروں کپڑوں کے صندوق میں آدھی درجن شراب دھروں۔ آٹھ کہار ٹھیکہ کے لوں۔ چار آدمی رکھتا ہوں۔ دو یہاں چھوڑ دوں دو ساتھلوں۔ چل دوں۔ رامپور سے جو لفافہ آیا کرے گا لڑکوں کا حافظ لوہارو بھجوایا کرے گا۔ گاڑی ہو سکتی ہے۔ شراب مل سکتی ہے۔ کہار بہم پہنچ سکتے ہیں۔ طاقت کہاں سے لاؤں۔ روٹی کھانے کو باہر کے مکان میں سے محلسرا میں کہ وہ بہت قریب ہے جب جاتا ہوں تو ہندوستانی گھڑی بھر میں دم ٹھہرتا ہوں۔ اور یہی حال دیوان خانہ میں آ کر ہوتا ہے۔ والی رامپور نے تو مرشد زادہ کی شادی میں بلایا تھا۔ یہی لکھا کیا کہ میں اب معدوم محض ہوں۔ تمہارا اقبال تمہارے کلام کو اصلاح دیتا ہے اس سے بڑھ کر مجھ سے خدمت نہ چاہو۔ بھائی کے اور تمہارے دیکھنے کو بہت جی چاہتا ہے پرکیا کروں عقرب و قوس کے آفتاب یعنی نومبر دسمبر میں قصد تو کروں گا کاش لوہارو کی جگہ گوڑگانو ہوتا یا بادشاہ پور ہوتا۔ کہو گے کہ رامپور کیا نزدیک ہے وہاں گئے کو دو برس ہو گئے۔ یہاں انحطاط و اضمحلال روز افزوں نہ تم یہاں آ سکتے ہو نہ مجھ میں وہاں آنے کا دم۔ بس اگر نومبر دسمبر میں میر ا خیر حملہ چل گیا بہتر ورنہ؎ اے وائے از محرومی دیدار دگر ہیچ۔ غالب۔

ایضاً

اقبال نشان مرزا علاؤ الدین خان بہادر کو غالب گوشہ نشین کی دعا پہنچے۔ برخوردار علی حسین خاں آیا مجھ سے ملا۔ بھائی کا حال اس کی زبانی معلوم ہوا۔ حق تعالی اپنا فضل کرے۔ الولد سرّ لابیہ تم اس کے مصداق کیوں بنے۔ خفقان و مراق اگرچہ تمہارا خانہ زاد موروثی ہے لیکن آج تک تمہاری خدمت میں حاضر نہ ہوا تھا۔ اب کیوں آیا۔ اگر آیا تو ہر گز اس کو ٹھہرنے نہ دو۔ ہانک دو۔ خبردار اس کو اپنے پاس رہنے نہ دینا۔ شفیق مکرم و لطف مجسم منشی نولکشور صاحب بسبیل ڈاک یہاں آئے مجھ سے اور تمہارے چچا اور تمہارے بھائی شہاب الدین خاں سے ملے۔ خالق نے ان کو زہرہ کی صورت اور مشتری کی سیرت عطا کی ہے گویا بجائے خود قران السعدین ہیں۔ تم سے میں نے کچہ(کچھ)نہ کہا تھا اور کلیات کے دس مجلد کی قیمت مان لیے تھے اب ان سے جو ذکر آیا تو انہوں نے پہلی قیمت مشتہرہ اخبار لینی قبول کی یعنی ۴/۔ فی جلد اس صورت میں دس مجلد کے میں دوں اور تم دو ہمگی مطبع اودھ اخبار میں پہنچانے چاہئیں۔ میں دسمبر ماہ حال کی دسویں گیارہویں کو طالب ہو ں گا۔ کہو علی حسین خان کو دے دوں کہو لکھنؤ بھیج دوں۔ اس نگارش کا جواب جلد لکھو۔ بھائی صاحب کی خدمت میں میرا سلام کہنا اور استاد میر جان کے میری طرف سے قدم لینا۔ نجات کا طالب غالب۔ ۲۱ جمادی الثانی غضر مطابق ۳ دسمبر سال غضب کیا ہے ہے (۱۸۶۶)یہ گویا تاریخ وفات جناب نواب گورنر جنرل لارڈ الگن صاحب بہادر کی ہے۔

ایضاً

جمعہ نہم رجب و ۵ دسمبر۔ میری جان تمہارا خط بھی آیا۔ اور علی حسین خاں نجم الدین بھی تشریف لایا اگر سر نوشت آسمانی میں بھی اواخر رجب یا وائل شعبان میں ہمارا تمہارا مل بیٹھنا مندرج ہے تو زبانی کہہ سن لیں گے۔ قلم کو ان اسرار کی محرمیت نہیں ہے جو شخص اپنے ملک و مال و جان و تن و ننگ و نام کے امور میں آشفتہ و سرگرداں بلکہ عاجز و حیراں ہو دوسرے کو اس سے کیا گلا ہائے نظیری ؎

با ما جفا و ناخوشی باخود غرور و سر کشی

از ما نہ از خود نہ نہ آخر ازانِ کیستی

محل عقل و ہوش دماغ سو تباہ افیون کا مخمر ہو جانا علاوہ۔ اللہ جو چاہے سو کرے ایسا پیارا باغ باغ و بہار بھائی یوں بگڑ جائے۔ نجات کا طالب غالب۔

 

ایضاً

پنجشنبہ ۲۶ رمضان۔ صاحب کل تمہارا خط پہنچا۔ آج اس کا جواب لکھ کر روانہ کرتا ہوں۔ رجب بیگ، شعبان بیگ، رمضان بیگ یہ نامور مہینے ہیں سو خالی گئے۔ شوال بیگ آدمی کا نام نہیں سنا۔ ہاں عیدی بیگ ہو سکتا ہے۔ پس جب عید ہے اور روز سعید ہے تو کیا بعید ہے کہ بخلاف شہورِ ثلثہ ماضیہ اس مہینے میں تم آ سکو۔ ہے ہے میں تو کہتا ہوں نہ آ سکو اس ماہ مبارک میں امضائے حکم سرکار کا وہ ہنگامہ گرم ہو کہ پارسیوں کی عید کو سہ بر نشین کا گمان گزرے۔ دور کیوں جاؤ۔ ہولی کی دلہنڈی کا سماں لوہارو میں بندھ جائے۔ ایک خر سوار کی سواری بڑی دھوم سے نکلی حسنِ اتفاق یہ کہ یہ وہی موسم ہے ہولی اور عید کو سہ بر نشین کا زمانہ باہم ہے۔ حوت کے آفتاب میں یہ دونوں تہوار ہوتے ہیں۔ کل آفتاب حوت میں آیا ہے کہ سہ بر نشین اور ہولی کا مژدہ لایا ہے۔ خیر میں چند روز اور ستم کش فراق اور تیرے دیدار کا مشتاق رہوں تو سہ برنشین اور ہولی کی رنگ رلیاں منانے اور خر سوار بضرب تازیانہ دورائے۔ علاؤ الدین خاں واللہ تو میرا فرزند روحانی اور معنوی ہے فرق اسی قدر ہے کہ میں جاہل ہوں اور تو مولوی ہے۔ ارے ظالم اس کو سہ برنشین کی داد دے۔ عقل کرامت ہے الہام ہے۔ لطف طبع کیا ہے یہ اسم کس قدر مناسب مقام ہے صبیہ کا مقدم تم پر مبارک ہو۔ ثاقب مجھ سے لڑتا تھا کہ بھتیجا ہے۔ میں کہتا تھا کہ پوتی ہے بارے میں جیتا اور ثاقب ہارا۔ عریضہ جداگانہ استاد میر جان صاحب کے نام پہنچتا ہے۔

ایضاً

میری جان علائی ہمہ دان۔ اس دفع دخل مقدر کا کیا کہنا ہے۔ فرہنگ لغات دساتیر تمہارے پاس ہے میں چاہتا تھا کہ اس کی نقل تم سے منگاؤں تم نے دساتیر مجھ سے مانگی اسی صحیفہ مقدس کی قسم کہ وہ میرے پاس نہیں ہے ، جی میں کہو گے کہ اگر دساتیر نہیں تو فرہنگ کی خواہش کیوں ہے۔ حق یوں ہے کہ بعض لغات کے اعراب یاد نہیں اس واسطے فرہنگ کی خواہش ہے۔ اگر اس فرہنگ کی نقل بھیج دو گے تو مجھ پر احسان کرو گے۔ دساتیر میرے پاس ہوتی تو آج اس خط کے ساتھ اس کا بھی پارسل بھیج دیتا۔ ہاں صاحب اگر دساتیر ہوتی اور میں بھیج دیتا تو البتہ بھائی صاحب کا مشکور ہوتا۔ دین و دنیا میں کیوں ماجور ہوتا۔ ارسال اہدا پر حصول اجر کیوں مرتب ہو گیا۔ بھائی وہ مذہب اختیار کیا چاہتے ہیں اور تم اس مذہب کو حق جانتے ہو کہ میں جو واسطہ اس کے اعلان و شیوع کا ہوتا تو عند اللہ مجھ کو استحقاقاجر پانے کا پیدا ہوتا۔ اپنے باپ کو سمجھاؤ اور ایک شعر میرا اور ایک شعر حافظ اور ایک شعر مولوی روم کا سناؤ ؎

غالب :۔

دولت بغلط نبود از سعی پشیماں شو

کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو

حافظ:۔

چنگ ہفتاد دو ملت ہمہ را عذر بنہ

چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند

مولانا روم ؒ:۔

 مذہبِ عاشق ز مذہبہا جدا ست

عاشقاں را مذہب و ملت جدا ست

رات کو خوب مینہ برسا ہے صبح کو تھم گیا ہے ہوا سرد چل رہی ہے۔ ابر تُنک چھا رہا ہے۔ یقین ہے کہ تمہاری جدہ ماجدہ مع اپنی بہو اور پوتے کے روانہ لوہارو ہوں۔ کل آج کی روانگی کی خبر تھی۔ یہ لڑکا سعیدِ ازلی ہے ابر کا محیط ہونا اور ہوا کا سرد ہو جانا خاص اس کی آسایش کے واسطے ہے۔ میرا نظر سرِ راہ ہے وہاں بیٹھا ہوا یہ خط لکھ رہا ہوں۔ محمد علی بیگ ادھر سے نکلا۔ بھئی محمد علی بیگ لوہارو کی سواریاں روانہ ہو گئیں ؟ حضرت ابھی نہیں۔ کیا آج نہ جائیں گے ؟ آج ضرور جائیں گے۔ تیاری ہو رہی ہے۔ مرقومہ شنبہ یکم جون وقتِ صبح ۶ بجے ۷ بجے کے عمل میں۔ غالب۔

ایضاً

یکشنبہ ۳ محرم ۱۲۸۱ ھ مطابق ۲۱ جون ۱۸۶۲ء۔ میری جان مرزا علی حسین خان آئے اور مجھ سے ملے۔ میں نے خطوط مرسلہ تمہارے یکمشت ان کو دیے۔ اب تمہارے پاس پہنچنے کا ان کا اختیار ہے رسید کا البتہ مجھے انتظار ہے۔ علی حسین خاں سے آنے کی حقیقت اور یہاں اقامت کی مدت پوچھی گئی جواب پایا کہ ایک مہینہ دس دن کی رخصت لے کر آیا ہوں۔ بی بی بیمار ہے اس کا استعلاجمنظور ہے۔ میری جان علی حسین خاں کے کام آئے تو دریغ نہ کروں بھلا یہ مبالغہ سہی بلکہ بے شک تبلیغ و غلو ہے لیکن قریب قریب اس کے یعنی جو چیز امکان سے باہر نہ ہو اس میں قصور کیونکر کیا جائے گا بلکہ شاید تمہاری سپارش کی بھی حاجت نہ ہو۔ مگر سونچو(سوچو)کہ آئین غمخواری و اندوہ گساری کیا ہو گی۔ میر زاہد وضع و بد روش نہیں کہ پند و بند کا محتاج ہو کوئی اس کا مقدمہ کسی محکمہ میں دائر نہیں کہ مصلحت و مشورت کی احتیاج ہو رہے امور خانگی یعنی بی بی اور اس کے آبا اور اخوان کے معاملے اس میں نہ تم کو دخل نہ مجھ کو مداخلت۔ تم علی حسین خاں کو اس پیوند پر کیا کیا چھیڑتے ہو اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا دادا کتنا بڑا آدمی تھا اور اس کے دادا کی اور اس کی سسرال ایک ہے۔ یہ ذریعہ فخر ہے اس کو اس کے طفیل سے تم کو بلکہ تھوڑی سی نازش اگر مجھ ننگ اقربا کے حصہ میں بھی آ جائے تو کچھ بعید نہیں۔ ہر چند تمہارا کلمہ ایک بذلہ ہے لیکن اس خسر و خسروانی نے مار ڈالا۔ کیا کہوں جو مجھ کو مزا ملا ہے۔ کہاں خسرو خسرواں لغات عربی الاصل اور کہاں روز مرہ مشہور کہ خسر سُسرے کو کہتے ہیں صنعت اشتقاق و طباق کو کس سینہ زوری سے برتا ہے۔ اچھا میرے میاں۔ یہ خسر بمعنی پدر زن کیا لفظ ہے حروف بین الفارسی و العربی مشترک ہیں۔ لیکن ان معنوں میں نہ فارسی ہے نہ عربی ہے۔ فارسی میں پدر زن بہ فک اضافت کہتے ہیں عربی میں جس طرح بمعنی نقصان منصرف ہے شاید سسرے کا اسم جامد بھی ہو فی الحقیقت سسرے کی تفریس و تعریب ہو۔ یہ پرسشنہ بہ سبیل استہزاہے بلکہ بطریق استفسار و استعلام ہے جو تمہیں معلوم ہو بلکہ اگر تم پر مجہول ہو تو معلوم کر کے مجھے لکھ بھیجو۔ یوسف علی خاں عزیز مانند اس دہقان کے کہ جو دانہ ڈال کے مینہ کا منتظر ہو اور ابر آوے اور نہ برسے مضطر و حیران ہے۔ علی حسین خاں آتے ہیں۔ علی حسین خاں آتے ہیں۔ آئے وہ آئے تو کیا لائے۔ غالب۔

ایضاً

میرزا نسیمی کو دعا پہنچے۔ آنکھ کی گھاجنی جب خود پک کر پھوٹ گئی تھی اور پیپ نکل گئی تھی تو نشتر کیوں کھایا۔ مگر یہ کہ بطریق خوشامد طبیب سے رجوع کی جب اس نے نشتر تجویز کیا۔ خواہی نخواہی امتثال کرنا پڑا ار شاید یوں نہ ہو کچھ مادہ باقی ہو۔ بہرحال حق تعالی اپنے فضل و کرم سے شفا بخشے۔

قطعہ

بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج

ہر سلحشور انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ، ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں ، وہ مقتل ہے

گھر، بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک

تشنۂ خوں ہے ، ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک

آدمی، واں نہ جا سکے ، یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے ، پھر کیا؟

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیے شکوہ

سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا

گاہ رو کر کہا کیے باہم

ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے ، یا رب!

کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا؟

ایضاً

یار بھتیجے بھائی مولانا علائی۔ خدا کی دہائی۔ نہ میں ویسا ہوں گا جیسا نیر سمجھا ہے اور نہ تم مجھ کو لکھ چکے ہو یعنی خفقانی اور خیال تراش۔ نہ ویسا ہوں گا جیسا میرزا علی حسین خاں بہادر سمجھے ہوں گے ؎ اے کاش کسے ہر آنچہ ہستم داند۔ دوجانہ میں میرا انتظار اور میرے آنے کا تقریب شادی پر مدار یہ بھی شعبہ ہے انہی ظنون کا جس سے تمہارے چچا کو گمان ہے مجھ پر جنون کا۔ جاگیردار میں نہ تھا کہ ایک جاگیردار مجھ کو بلاتا۔ گوّیا میں نہ تھا کہ اپنا سازو سامان لے کر چلا جاتا۔ دوجانہ جا کر شادی کماؤں اور پھر اس فصل میں دنیا کرّہ نار ہو لوہارو بھائی کے دیکھنے کے واسطے نہ جاؤں اور پھر اس موسم میں کہ جاڑے کی گرمی بازار ہو۔ کل استاد میر جان صاحب نے تمہارا خط مجھ کو دکھایا ہے۔ میں نے ان کو جانے نجانے میں متردد پایا ہے جائیں نہ جائیں۔ میں اپنی طرف سے ترغیب کرتا رہتا ہوں اور کہتا رہوں گا۔ غلام حسن خاں اگر کسی وقت آ جائیں گے تو ان کو تمہاری تحریر کا خلاصہ خاطر نشان کروں گا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان دونوں صاحبوں کو یا ایک کو ان میں سے توفیق دے یا مجھ کو طاقت یا تم کو انصاف کہ میرے نہ آنے کو دلّی کی دلبستگی پر محمول نہ کرو۔ مجھ کو شک ہے جزیرہ نشینوں کے حال پر عموماً رئیس فرخ آباد پر خصوصاً کہ جہاز سے اتر کر سر زمین عرب میں چھوڑ دیا۔ آہاہاہا؎

پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

کلیات کے انطباع کا اختتام اپنی زیست میں مجھ کو نظر نہیں آتا۔ قاطع برہان کا چھاپا تمام ہو گیا۔ حق التصنیف کی ایک جلد میرے پاس آ گئی وہ تمہارے عمّ نامدار کے نذر ہوئی۔ باقی جلدیں جن کا میں خریدار ہوا ہوں اور درخواست میری مطبع میں داخل ہے۔ جب تک قیمت نہ بھیج دوں کیونکر آئیں۔ میں روپیہ کی تدبیر میں ہوں اگر بہم پہنچ جائے تو بھیج دوں۔ تمہارے پاس جو قاطع برہان پہنچی ہے اگر چھاپے کی ہے تو صحیح ہے جہاں تردد ہو غلط نامہ ملحقہ میں دیکھ لو۔ زیادہ انکشاف منظور ہو مجھ سے پوچھ لو۔ اگر قلمی ہے تو درجہ اعتبار سے ساقط ہے اس کو میری تالیف نہ سمجھو۔ بلکہ مول لے لو اور اس کو پھاڑ ڈالو۔ آج یوم الخمیس ۱۹ جون المبارک بارہ پر تین بجے تمہارا خط آیا ادھر پڑھا ادھر جواب لکھنے بیٹھا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی نے تمہارا خط ان کو دیا۔ وہ پڑھ رہے ہیں ہم لکھ رہے ہیں۔ ابر آیا ہوا ہے ہوا سرد چل رہی ہے۔

ایضاً

میاں تم میرے ساتہ(ساتھ)وہ معاملے کرتے ہو جو احبّا سے موسوم و معمول ہیں۔ خیر تمہارا حکم بجا لایا۔ غزل بعد اصلاح کے پہنچتی ہے۔ جناب لفٹنٹ گورنر بہادر نے دربار کیا۔ میری تعظیم و توقیر اور میرے حال پر لطف و عنایت میری ارزش و استحقاق سے زیادہ بلکہ میری خواہش اور تصور سے سوا مبذول کی۔ اس ہجوم امراض جسمانی اور آلام روحانی کو ان باتوں سے کیا ہوتا ہے۔ ہر دم دمِ نزع ہے۔ دل غم سے خونریز ہو گیا ہے کہ کسی بات سے خوش نہیں ہو سکتا۔ مرگ کو نجات سمجھے ہوئے ہوں۔ اور نجات کا طالب ہوں۔ کئی دن سے کوئی تحریر دلپذیر تمہاری نہیں آئینہ مجھے تم نے یا د کیا نہ اپنے بھائی کو کچہ(کچھ)لکھا اب اس خط کا جواب جلد لکھو پہلے اپنے بچوں کا حال پھر وہاں کے اوضاع جیسا تمہارا قاعدہ ہے۔ منقح اور مفصل لکھو۔ فقط نجات کا طالب۔ غالب

ایضاً

میری جان تخلص تمہارا بہت پاکیزہ اور میری پسند ہے۔ پشمی کو بہ تکلف اس کا مصحف کیوں ٹھہراؤ یہ میدان بہت فراخ ہے۔ خدا کی خے کو جیم فارسی سے بدل لو۔ نبی کو بتقدیم موحدہ علی النون لکھو۔ یہ وساوس دل سے دور کرو۔ رہرو ایک اچھا تخلص ہے رہڑو اس کی تجنیس موجود ہے۔ شیون ایک اچھا تخلص ہے ستون اس کی تصحیف ہے۔ تمہارے واسطے بمناسبت اسم عالی تخلص خوب تھا۔ مگر اس تخلص کا ایک شاعر بہت بڑا نامی گزر چکا ہے۔ ہاں نامی سامی یہ دو تخلص بھی اچھے ہیں۔ مولانا فایق کی پیروی کرو۔ مولانا لایق کہلاؤ اگر کہو گے کہ اسی ترکیب سے لفظ نالائق پیدا ہوتا ہے۔ مولانا شایق بن جاؤ۔ ہنسی کی باتیں ہو چکیں۔ اب حقیقت واجبی سنو۔ نسیمی تخلص خماسی بر وزن ظہوری و نظیری اچھا ہے۔ اگر بدلنا ہی منظور ہے تو نامی سامی رہرو شیون۔ یہ چار تخلص رباعی بر وزن عرفی و غالب اچھے ہیں۔ ان میں سے ایک تخلص قرار دو میرے نزدیک سب سے بہتر تمہارے واسطے خاص فخری تخلص بہتر ہے کہو گے کہ آزاد کے باغ میں ایک آم کا نام فخری ہے۔ حاصل کلام دو دن کی فکر میں جو تخلص میرے خیال میں آئے وہ آج لکھ بھیجتا ہوں۔ بھائی موید تخلص نیا ہے اگر یہ پسند آئے تو یہ رکھو۔ والدعا صبح یکشنبہ ۱۲ مئی ۱۸۶۱ ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

صاحب بہت دن سے تمہارا خط نہیں آیا۔ آپ کا وکیل بڑا چرب زبان ہے مقدمہ اس نے جیت لیا۔ چنانچہ اس کی تحریر سے تم کو معلوم ہوا ہو گا۔ سنتا ہوں کہ حمزہ خان کو ان دنوں علت مشائخ کا زور ہے اور سعدی کیاس بات پر عمل کرتے ہیں ؎

کسنے کہ یزداں پرستی کنند

بآواز دُولاب مستی کنند

خدا مبارک کرے۔ غالب۔

ایضاً

صبح یکشنبہ یکم مارچ ۱۸۶۲ء۔ صاحب پرسوں تمہارا خط آیا۔ کل جمعہ کے دن نواب کا مسہل تھا ۱۱ بجے وہاں سے آیا۔ چونکہ حبوب میں مکّر ب دوائیں تھیں بہت بے چین رہے۔ آٹھ دسدست آئے آخر روز مزاج بحال ہو گیا۔ تنقیہ اچھا ہو ا۔ اب بفضل الہی اچھے ہیں اور یقین ہے کہ مرض عود نہ کر ے۔ دلّی کی اقامت کی مدّت اپنے والد کی رائے پر رہنے دو۔ بقدر مناسب وقت عزم خیر خواہانہ کچھ کہوں گا ضرور نہ بابرام۔ میں تم سے زیادہ ان کا مزاج دان ہوں یہ خود پسند اور معہذا سپارش کا دشمن ہے۔ مغلچیوں کے مقدمہ کو طبیعت امکان پر چھوڑ دو میں دخل نہ کروں گا۔ ہاں اگر خود مجھ سے پوچھیں گے یا میرے سامنے ذکر آئے گا تو میں اچھی کہوں گا ؎ بُریدہ باد زبانے کہ ناسزا گوید۔ برا نہ ماننا اگر یہ دونوں بھائی یا ان میں سے ایک رفیق ہو گیا۔ یوں تمام عمر بخوشی گزر جائے لیکن تم کَے برس۔ کَے مہینے ، کَے ہفتہ کا اگریمنٹ لکھتے ہو ؟ غالب۔

ایضاً

میرزا علائی پہلے استاد میر جان صاحب کے قہر و غضب سے مجھ کو بچاؤ تاکہ میرے حواس جو منتشر ہو گئے ہیں جمع ہو جائیں۔ میں اپنے کو کسی طرح کے قصور کا مورد نہیں جانتا، جھگڑا ان کی طرف سے ہے تم اس کو یوں چکاؤ یعنی اگر ان کو صرف آشنائی و ملاقات منظور ہے تو وہ میرے دوست ہیں شفیق ہیں میرا سلام قبول فرمائیں۔ اور اگر قرابت داری و رشتہ داری ملحوظ ہے تو وہ میرے بھائی ہیں مگر عمر میں چھوٹے میری دعا قبول فرمائیں۔ صاحبین کی رائے کا اختلاف مشہور ہے۔ مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا مگر ہر ایک قول جدا جدا لکھوں۔ آج نہ لکھا نہ سہی دو چار دن کے بعد لکھوں گا۔ تم سمجھ تو گئے ہو گے کہ صاحبین مرزا قربان علی بیگ اور مرزا شمشاد علی بیگ ہیں بھائی صاحب کی رضا جوئی مجھ کو منظور۔ اور یہ غزل معروض ہے میری طرف سے سلام کہو؎

از من غزلے گیرد بفرمائے کہ مطرب

در نے دمد از روئے نوازش دو سہ دم را

غزل

جز دفع غم زیدہ نبود است کام ما

گوئی چراغ روز سیاہ است جام ما

در خلوتش گزر نبود باد را مگر

صرصر بخاک راہ رساندپیام ما

 اے باد صبح عطرے ازان پیرہن بیار

تسکین زبوئے گُل نہ پذیرد مشام ما

ہر بار دانہ بہر ہما افگنیمو مور

آید بدام و دانہ رُباید ز دام ما

گفتی چو حالِ دل شنود مہرباں شود

مشکل کہ پیشِ دوست تواں بُرد نامِ ما

از ما بما پیام دہم از ما بما سلام

 رنج دلی مباد پیام و سلام ما

مقصود ما زدہر ہر آئینہ نیستی است

یا رب کہ ہیچ دوست مبادا بکام ما

غالب بقول حضرت حافظ ز فیض عشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

ایضاً

میاں چلتے وقت تمہارے چچا نے غلیل کی فرمایش کی تھی۔ رامپور پہنچ کر وہ بے سعی تلاش ہاتھ آ گئی بنوا رکھی۔ لڑکوں نے ملازموں نے مجھ سے سن لیا کہ یہ نواب ضیاء الدین خاں صاحب کے واسطے ہے۔ اب چلنے سے ایک ہفتہ پہلے تم نے غلیل مانگی۔ بھائی کیا بتاؤں کہ کتنی جستجو کی کہیں بہم نہ پہنچی۔ دس روپیہ تک مول کو نہ ملی۔ نواب صاحب سے مانگی توشہ خانہ میں بھی نہ تھی ایک امیر کے ہاں پتہ لگا۔ دوڑا ہوا گیا۔ کھپچی موجود پائی لیکن کیا کھپچی جیسے نجف خاں کے عہد کے تورانیوں میں ہماری تمہاری ہڈی۔ بنوانے کی فرصت کہاں۔ آج لی کل چل دیا۔ اس بانس کی قدر کرتا اور اس کو اچھی طرح بنوا لیتا۔ بادشاہ فرخ سیر اور اس کے اخوان خوش و خرم ہیں۔ فرخ سیر کی ماں نے باجرے کا حلوہ سوہاں (سوہن حلوہ)کھلایا۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ شنبہ ۲۵ شعبان ۱۳ جنوری۔

ایضاً

جانِ غالب دو خط متواتر تمہارے پہنچے۔ مغربی عُرفا میں سے ہے۔ بیشتر اس کے کلام میں مضامیں حقیقت آگیں ہیں لیکن دامان گلہ دارد و گریباں گلہ دارد۔ اس زمین میں مَیں نے اس کی غزل نہیں دیکھی۔ حاجی محمد جان قدسی کی غزل اس زمین میں ہے ؎

در بزم ِ وصال تو بہنگامِ تماشا

نظارہ ز جنبیدن ِ مژگاں گلہ دارد

یہ ایک شعر اس کا مجھے یاد ہے۔ بھائی تمہارا باپ بدگمان ہے یعنی مجھ کو زندہ سمجھتا ہے۔ میرا سلام کہو اور یہ شعر میرا پڑھ کر سناؤ؎

گمانِ زیست بود بر منت ز بیدردی

 بدست مرگ و لے بدتر از گمانِ تو نیست

مجھے کافور و کفن کی فکر پڑ رہی ہے وہ ستمگر شعر و سخن کا طالب ہے زندہ ہوتا تو وہیں کیوں نہ چلا آتا۔ مجھ پر سے یہ تکلیف اٹھوا لو اور تم اس زمین میں چند شعر لکھ کر بھیج دو۔ میں اصلاح دے کر بھیج دوں گا۔ عصائے پیر بجائے پیر۔ واللہ میرا کلام ہندی یا فارسی کچھ میرے پاس نہیں ہے آگے جو کچھ حافظہ میں موجود تھا وہ لکھ بھیجا اب جو کچھ یاد آ گیا وہ لکھتا ہوں۔

غزل

بامن کہ عاشقم سخن از ننگ و نام چیست

در امر خاص حجتِ دستورعام چیست

مستم ز خون دل کہ دو چشم ازاں پُر است

 گوئی مخور شراب ونہ بینی بجام چیست

 بادوستہر کہ بادہ بخلوت خورد مدام

داند کہ حور و کوثر دارالسلام چیست

ما خستہ غمیم و بود مے دوائے ما

 باخستگاں حدیث حلال و حرام چیست

از کاسہ کرام نصیب است خاک را

تا از فلک نصیبہ کاس کرام چیست

غالب اگر خرقہ و مصحف بہم فروخت

پُرسد چرا کہ نرخِ مے لعل فام چیست

ایضاً

لو صاحب وہ مرزا رجب بیگ مرے۔ ان کی تعزیت آپ نے نہ کی۔ شعبان بیگ پیدا ہو گئے۔ کل ان کی چھٹی ہو گئی آپ شریک نہ ہوئے ؎ اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ۔ میاں خدا جانے کس طرح یہ چار سطریں تجھ کو لکھی ہیں۔ شہاب الدین خاں کی بیماری نے میری زیست کا مزا کھو دیا۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی عوض میں مر جاؤں۔ اللہ اس کو جیتا رکھے۔ اس کا داغ مجھ کو نہ دکھائے۔ یارب اس کو اس کی اولاد کے سر پر سلامت رکھ۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

مولانا نسیمی کیوں خفا ہوتے ہو ہمیشہ سے اسلاف و اخلاف ہوتے چلے آئے ہیں اگر نیر خلیفہ اول ہے تو تم خلیفہ ثانی ہو۔ اس کو عمر میں تم پر تقدم زمانی ہے۔ جانشین دونوں مگر ایک اول ہے اور ایک ثانی ہے۔ شیرا پنے بچوں کو شکار کا گوشت کھلاتا ہے۔ طریق صید افگنی سکھاتا ہے۔ جب وہ جوان ہو جاتے ہیں۔ آپ شکار کر کھاتے ہیں۔ تم سخنور ہو گئے ہو حسن طبع خداداد رکھتے ہو۔ ولادت فرزند کی تاریخ کیوں نہ کہو۔ اسم تاریخی کیوں نہ نکال لو کہ مجھ پیر غمزدہ دل مردہ کو تکلیف دو۔ علاؤ الدین خاں تیری جان کی قسم میں نے پہلے لڑکے کا اسم تاریخی نظم کر دیا تھا اور وہ لڑکا نہ جیا۔ مجھ کو اس وہم نے گھیرا کہ میری نحوست طالع کی تاثیر سے میرا ممدوح جیتا نہیں۔ نصیر الدین حیدر اور امجد علی شاہ ایک ایک قصیدہ چل دئیے۔ واجد علی شاہ تین قصیدوں کے متحمل ہوئے پھر سنبھل نہ سکے۔ جس کی مدح میں دس بیس قصیدے کہے گئے وہ عدم سے بھی پرے پہنچا۔ صاحب دہائی خدا کی میں نہ تاریخ ولادت کہوں گا نہ نام تاریخی ڈھونڈوں گا۔ حق تعالیٰ تم کو اور تمہاری اولاد کو سلامت رکھے اور عمر و دولت و اقبال عطا کرے۔ سنو صاحب حسن پرستوں کا ایک قاعدہ ہے وہ امرد کو دو چار برس گھٹا کر دیکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ جوان ہے لیکن بچہ سمجھتے ہیں۔ یہ حال تمہاری قوم کا ہے۔ قسم شرعی کھا کر کہتا ہوں کہ ایک شخص ہے کہ اس کی عزت اور نام آوری جمہور کے نزدیک ثابت اور محقق ہے اور تم صاحب بھی جانتے ہو مگر جب تک اس سے قطع نظر نہ کرو۔ اور اس مسخرے کو گمنام و ذلیل نہ سمجھ لو تم کو چین نہ آئے گا۔ پچاس برس سے دلّی میں رہتا ہوں۔ ہزار ہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں بہت لوگ ایسے ہیں کہ محلہ نہیں لکھتے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ سابق کا نام لکھ دیتے ہیں۔ حکام کے خطوط فارسی انگریزی یہاں تک کہ ولایت کے آئے ہوئے صرف شہر کا نام اور میرا نام یہ سب مراتب تم جانتے ہو اور ان خطوط کو دیکھ چکے ہو اور پھر مجھ سے پوچھتے ہو کہ اپنا مسکن بتا اگر میں تمہارے نزدیک امیر نہیں نہ سہی۔ اہل حرفہ میں سے بھی نہیں ہوں کہ جب تک محلہ اور تھانہ نہ لکھا جائے ہرکارہ میرا پتہ نہ پائے آپ صرف دہلی لکھ کر میرا نام لکھ دیا کیجیئے خط کے پہنچنے کا میں ضامن۔ پنجشنبہ ۴ ماہ اپریل۔

ایضاً

میری جان ناز سازی روزگار بے ربطی اطوار و بطریق داغ بالائے داغ آرزوئے دیدار وہ دو آتش شرار دبار اور ایک یہ دریائے ناپیدا کنار۔ وقنا ربنا عذاب النار۔ خدا نے بھائی ضیاء الدین خاں کے بڑھاپے اور میری بے کسی پر رحم فرمایا۔ میرا شہاب الدین خان بچ گیا۔ امراض مختلفہ میں گِھر گیا تھا۔ بواسیر خونی، زحیر، تپ، صداع۔ بارے اب من کل الوجوہ صحت حاصل ہے۔ ضعف جاتے ہی جائے گا آگے کون سے قوی تھے کہ اب ان کو ضعف کہا جائے۔ایک بڈھا کسی گلی میں جاتے جاتے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ کہنے لگا ہائے بڑھاپا۔ ادھر ادھر دیکھا جب جانا کہ کوئی نہیں ہے۔ کہتا ہوا بڑھا کہ جوانی میں کیا پتھر پڑتے تھے۔ والسلام۔ غالب مستہام۔

ایضاً

لو صاحب پرسوں تمہارا خط آیا اور کل دوپہر کو استاد میر جان آئے جب ان سے کہا گیا تو یہ جواب پایا کہ میں مدت سے آمادہ سفر لوہارو بیٹھا ہوں۔ حکیم صاحب کی گاڑی کی روانگی کے وقت میں نے اپنی گٹھڑی بھیجی تھی وہ پھری آئی اس مراد سے کہ گاڑی میں جگھ(جگہ)نہ گٹھڑی کی نہ سواری کی ناچار چپ ہو رہا۔ اب گٹھڑی ویسی ہی بندھی ہوئی رکھی ہے جب میاں خاں اور وزیر خاں روانہ ہوں گے اور منشی امداد حسین مجھ کو اطلاع دیں گے تو میں فوراً چل دوں گا۔پا برکاب ہوں۔ کل ہی آخر روز غلام حسن خاں آئے۔ کل انہوں نے چوتھے دن کھانا کھایا تھا۔ ہیضہ ہو گیا تھا۔ قے متواتر دست پے در پے غرض بچ گئے۔ کہتے تھے کہ آج جولائی کی ۱۷ تاریخ ہے۔ ۱۳ دن یہ اور ۱۵ دن اگست کے اور نہیں جا سکتا۔ تنخواہ لے کر بانٹ بونٹ کر ایک دن نہ ٹھہروں گا۔ لوہارو کی راہ لوں گا۔ مرزا شمشاد علی بیگ سے تمہارا پیام کہا گیا بعید ہے جو غلام حسن خاں کے ہم سفر ہو جائیں۔ بھائی کی طرف سے منشی امداد حسین خاں کو لکھوا بھیجو کہ میاں جان وغیرہ کے ساتھ استاد کو ضرور بھیجنا اور تم اپنی طرف سے اپنے ابن عم غلام حسن خاں کو بحوالہ میری تحریر کے عیادت اور اوائل اگست میں روانگی کی تاکید لکھ بھیجو

 ؎ در بزم وصال ِ تو بہنگام تماشا

نطارہ ز جنبیدنِ مژگاں گلہ دارد

یہ زمین قدسی علیہ الرحمۃ کے حصہ میں آ گئی ہے میں ا س میں کیوں تخم ریزی کروں اور اگر بے حیائی سے کچھ ہاتھ پاؤں ہلاؤں تو اس شعر کا جواب کہاں سے لاؤں ؎

ہرگز نتواں گفت دریں قافیہ اشعار

بیجا ست برادر اگر از من گلہ دارد

التوائے شرب شراب ۲۲ جون شروع شراب ۱۰ جولائی ؎ المنّۃ للہ کہ در میکدہ باز است۔

ایضاً

شنبہ ۱۰ جولائی ۱۸۶۴ ء۔ علائی مولائی غالب کو اپنا دعا گو اور خیر خواہ تصور کریں مادہ ہائے تاریخ کو نہ آپ قالب نظم میں لائیں اور نہ اور کو اس امر منکر کی تکلیف دیں۔ بھائی سمجھو یزید پر لعن منجملہ عبادت سہی لیکن تقریباً کہہ دیتے ہیں کہ بر یزید لعنت۔ کسی مومن نے اس کی ہجو میں قصیدہ نہیں لکھا۔ ابداع مادہ ہائے تاریخ تمہارے حسنات میں لکھا گیا مثاب تم ہو چکے اجر پاؤ گے انشاءاللہ اب اپنے کو بدنام اور کسی کو ملول اور عداوت کو ظاہر اور اگر ظاہر ہو تو محکم نہ کرو۔ علی بخش خان مرحوم مجھ سے چار برس چھوٹا تھا۔ میں ۱۲۱۲ ھ میں پیدا ہوا ہوں اب کے رجب کے مہینے سے اونترواں برس شروع ہوا ہے اس نے ۶۶ برس کی عمر پائی۔ نئی تقریر و تحریر کا آدمی تھا۔ اکبر آباد میں میور صاحب سے ملے اثنائے مکالمت میں کہنے لگے کہ میں چچا جان کے ساتہ(ساتھ)جرنیل لارڈ لیک صاحب کے لشکر میں موجود تھا اور ہولکر سے جو محاربات ہوئے ہیں اس میں شامل رہا ہوں۔ بے ادبی ہوتی ہے ورنہ اگر قبا و پیرہن اوتار (اتار)کر دکھاؤں تو سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ جا بجا تلوار اور برچھی کے زخم ہیں۔ وہ ایک بیدار مغز اور دیدہ ور آدمی ان کو دیکھ دیکھ کر کہنے لگا کہ نواب صاحب ہم ایسا جانتے ہیں کہ تم جرنیل صاحب کے وقت میں چار پانچ برس کے ہو گے۔ یہ سن کر کہا کہ درست و بجا ارشاد ہوتا ہے خدایش بیامرزدو بدیں داغہائے بے نمک گیراد۔ غالب۔

ایضاً

یکشنبہ ۹ فروری ۱۸۶۲ ء صاحب صبح جمعہ کو میں نے تم کو خط لکھا اسی وقت بھیج دیا۔ پہر دن چڑھے سنا کہ شب کو پھر دورہ ہوا۔ گیا آیا خود ان سے حال پوچھا۔ علی محمد بیگ کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ بہ نسبت دورہ ہائے سابق خفیف تھا اور افاقہ جلد ہو گیا۔ کل مرزا شمشاد بیگ ناقل تھے کہ مجھ سے علی حسین خاں کہتے تھے کہ نواب صاحب فرماتے ہیں کہ لوہارو چلو گے اور ہماری دال روٹی قبول کرو گے میں نے کہا کہ میں دال روٹی چاہتا ہوں مگر پیٹ بھر کے۔ غالب کہتا ہے کہ اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ سالک سے سلوک منظور نہیں تنہائی ہوائے شمشاد در سر است ؎

رُموز مملکت ِ خویش خسرواں دانند

گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

ایضاً

صاحب میں از کار رفتہ و در ماندہ ہوں آج تمہارے خط کا جواب لکھتا ہوں۔ لفط خسر کے باب میں اتنی توضیح کیا ضرور تھی میرا علم لغات عربیہ کا محیط نہیں ہے اور یہ بطریق حق الیقین جانتا ہوں کہ خسر لغت فارسی نہیں۔ سسرے کی تفریس سے خسر پیدا ہوا ہو تو کیا عجب ہے تم سے اس کی تحقیق چاہی تھی کہ یہ لغت عربی الاصل نہ ہو وہ معلوم ہوا کہ عربی نہیں لغت ہندی ہے اور یہی تھا میرا عقیدہ۔ علی حسین خاں آئے دو تین بار مجھ سے مل گئے اب نہ وہ آ سکتے ہیں نہ میں جا سکتا ہوں۔ نصیب دشمناں وہ لنگڑے میں لولا۔ ان کے پاؤں کاحال مفصل تم کو معلوم ہو گا جونکیں لگیں کیا ہوا کہاں تک نوبت پہنچی۔ میری حقیقت سنو۔ مہینا بھرسے زیادہ کا عرصہ ہوا بائیں پاؤں میں ورم کفِ پا سے پشتِ پا کو گھیرتا ہوا پنڈلی تک آیا۔ کھڑا ہوتا ہوں تو پنڈلی کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں خیر اٹھا روٹی کھانے محلسرا نہ گیا۔ کھانا یہیں منگا لیا۔ پیشاب کو کیونکر نہ اٹھوں حاجتی پر بغیر اوکڑو(اکڑوں )بیٹھے بات نہیں بنتی۔ پاخانہ کو اگرچہ دوسرے تیسرے دن جاؤں مگر جاؤں تو سہی یہ سب موقع خیال میں لا کر سونچ(سوچ)لو کہ کیا گزرتی ہو گی۔ آغازِ فتق مزید علیہ یا مستزاد ؎ پیری و صد عیب چنین گفتہ اند۔ اپنا یہ مصرع بار بار چپکے چپکے پڑھتا ہوں ؎ اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے۔ مرگ اب ناگہانی کہاں رہی۔ اسباب و آثار سب فراہم ہیں۔ ہائے الہی بخش خان مغفور کا کیا مصرع ہے ؎ آہ جی جاؤں نکل جائے اگر جان کہیں۔ زائدہ بے فائدہ مرگ کا طالب۔ غالب۔ جمعہ ۳ جولائی۱۸۶۳ء۔

ایضاً

ولیعہدی میں شاہی ہو مبارک

عنایات الہی ہو مبارک

اس امر فرّخ و ہمایوں کی شہرت میں کوشش بے حوصلگی ہے اور اس کے اخفا میں مبالغہ خفقانیت تم اپنی زبان پر نہ لاؤ اگر کوئی اور کہے مانع نہ آؤ نہ اشتہار نہ استتاء۔ دورہ ہوا مگر مدت معینہ کے بعد اور پھر جھاگ کا نہ آنا اور تمہارے پکارنے سے متنبہ ہو جانا مادہ کی کمی کی علامتیں ہیں۔ شدت میں جس قدر خفت ہو غنیمت ہے۔ میرے خطوط اردو کے ارسال کے باب میں جو کچھ تم نے لکھا تمہارے حسن طبع پر تم سے بعید تھا میں سخت بے مزہ ہوا۔ اگر بے مزگی کے وجوہ لکھوں تو شاید ایک تختہ کاغذ سیاہ کرنا پڑے۔ اب ایک بات موجز و مختصر لکھتا ہوں۔ سنو بھائی اگر ان خطوط کا تم کو اخفا منظور ہو اور شہرت تمہارے منافی طبع ہے تو ہر گز نہ بھیجو۔ قصہ تمام ہوا۔ اور اگر ان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے تو میری دستخطی خطوط اپنے پاس رہنے دو۔ اور کسی متصدی سے نقل اتروا کر چاہو کسی کے ہاتھ۔ چاہو بسبیل پارسل ارسال کرو۔ لیکن خدا کے واسطے کہیں غصہ میں آ کر عطائے تو بہ لقائے تو کہہ کر اصل خطوط نہ بھیج دینا۔ یہ امر میرے مخالف مقصود ہے بھلا صاحب ڈرتا ہوں میں تم سے ادھرخط پڑھا۔ ادھر جواب لکھ کر ڈاک میں بھیجا۔ تمہارا خط رہنے دیا ہے جب شمشاد علی بیگ آئیں گے پڑھ لیں گے۔

ایضاً

میری جان کیا کہتے ہو کیا چاہتے ہو۔ ہوا ٹھنڈی ہو گئی۔ پانی ٹھنڈا ہو گیا۔ فصل اچھی ہو گئی۔ اناج بہت پیدا ہو گیا۔ توقیع جانشینی مجھ سے تم کو پہنچا۔ خرقہ پایا سبحہ و سجادہ کا یہاں پتہ نہیں ورنہ وہ بھی عزیز رکھتا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بھائی نے شفا پائی استاد میر جان پہنچ گئے۔ آخر اکتوبر میں یا آغاز نومبر میں نیّرِ رخشاں کو بھی وہیں لو۔ پھر عقرب و قوس کے آفتاب کا کیا ذکر۔ آبان باہ و آزر ماہ سے کیا غرض؎

بسے تیرودہ ماہ و اردی بہشت

برآید کہ ماہ خاک باشیم و خشت

استاد میر جان کو اس راہ سے کہ میری پھوپھی ان کی چچی تھیں اور یہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں دعا اور ا س رو سے کہ دوست ہیں اور دوستی میں کمی و بیشی سن و سال کی رعایت نہیں کرتے۔ سلام اور اس سبب سے کہ استاد کہلاتے ہیں بندگی اس نظر سے کہ یہ سید ہیں درود۔ اور موافق مضمون اس مصرعہ کے ؎ سوائے اللہ واللہ ما فی الوجود۔ سجود۔ حضرت وہ شرفنامہ نہیں ہے کہ کسی احمق نے شرفنامہ میں سے کچھ لغات اکثر غلط کمتر صحیح چن کر جمع کیے ہیں نہ دیباچہ ہے کہ اس سے جامع کا حال معلوم ہو۔ نہ خاتمہ ہے کہ عہد و عصر کا حال کھلے۔ باینہمہ میاں ضیاء الدین کے پاس ہے اگر وہ آ جائیں گے تو ان سے کہہ دوں گا اگر وہ لا دیں گے تو ان کو قیمت دے کر علائی مولائی کو بھیج دوں گا۔ خصی بکروں کے گوشت کے قلیے۔ دو پیازے۔ پلاؤ۔ کباب جو کچھ تم کھا رہے ہو۔ مجھ کو خدا کی قسماگر اس کا کچھ خیال بھی آتا ہو خدا کرے بیکانیر کی مصری کا کوئی ٹکڑا تم کو میسر نہ آیا ہو کبھی یہ تصور کرتا ہوں کہ میر جان اس مصری کے ٹکڑے چبا رہے ہوں گے تو میں یہاں رشک سے اپنا کلیجہ چابنے (چبانے )لگتا ہوں۔ نجات کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۱۵ ماہ اکتوبر ۱۸۶۱ء۔

ایضاً

خاک نمناکم دو تو باد بہار

نہ توانی مراز جا بروں

ہاں نسیمے ز من چہ میخواہی

زحمت ِ خویشتن چہ میخواہی

خوشی مجھ میں تم میں مشترک ہے تم نے مجھے تہنیت دی تو مبارک اور میں نے تمہیں تہنیت دی تو مناسب للہ الحمد للہ الشکر۔ بھائی سچ یہ ہے کہ ان دنوں میں میرے پاس ٹکٹ نہیں اگر بیرنگ بھیجوں تو کہار ماندہ اٹھ نہیں سکتا۔ ڈاک گھر تک جائے کون۔ اپنا مقصود تمہارے والد ماجد سے اور تمہاری جدہ ماجدہ اور تمہارے عم عالی مقدار سے کہہ چکا ہوں۔ خلاصہ یہ کہ میری بی بی اور بچوں کو یہ تمہاری قوم کے ہیں منہ سی لیا کہ میں اب اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا انہوں نے بھی بشرط ان لوگوں کے لوہارو جانے کی اس خواہش کو قبول کیا۔ میرا قصد سیاحت کا ہے۔ پنشن اگر کھل جائے گاتو وہ صرف اپنے صرف میں لایا کروں گا۔ جہاں جی لگا وہاں رہ گیا جہاں سے دل اکھڑ ا چل دیا؎ تا درمیانہ خواستہ کردگار چیست۔ غالب۔ دو شنبہ ۱۳ محرم ۱۲۷۵ ہجری مطابق ۲۳ اگست ۱۸۵۸ء۔

ایضاً

مرزا علائی مولائی نہ لاہور سے خط لکھا نہ لوہارو سے۔ بقدر مادہ حمق محو انتظار بلکہ امیدوار رہا۔ اب جو کسی طرح کی توقع نہ رہی تو شکوہ طرازی کا موقع ہاتھ آیا۔ اگرچہ جانتا ہوں کہ اسیک شکوہ کے دفع میں طوطی نامہ برابر ایک رسالہ لکھو گے اور ہزار وجہیں موجّہ بیان کرو گے۔ میں اس تصور کا مزہ اٹھا رہا ہوں کہ دیکھوں کیا لکھتے ہو۔ دادی صاحبہ سے لکھوانا پھوپھی صاحبہ سے لکھوانا غالب سے لکھوانا بعد حصولِ اجازت نہ آنا۔ اس کے بھی کچھ معنی ہیں یا نہیں۔ اچھا میرا میاں کچھ ا س باب میں لکھ دو۔ چپڑی اور دو دو۔ ایک مندیل اور ایک سیلا یا کوئی اور چیز مبارک۔ بچوں کو میری دعا کہنا اور ان کی کیر و عافیت لکھنا۔ استاد میر جان کو سلام۔ مزا تو جب ملے گا کہ تم دلّی آؤ اور اپنی زبان سے لاہور کے ہنگامہ انجمن کا حال بیان کرو۔ نجات کا طالب غالب۔ چہار شنبہ ۳ نومبر ۱۸۶۴ء۔

ایضاً

صبح یکشنبہ ۲ ستمبر ۱۸۶۳ ء جاناعالیشانا پہلے خط اور پھر بتوسط برخوردار علی حسین خان مجلد کلیات فارسی پہنچی۔ حیرت ہے کہ چار روپیہ قیمت کتاب اور ۴/۔ محصول ڈاک قالب انطباع میں آ کر پانچ روپیہ قیمت اور ۵/۔ محصول قرار پاوے خیر جہاں سو وہاں سوائے۔ میرا حال تمہیں اور تمہارا حال مجھے معلوم ہے ؎ اینہم اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر۔ اب کے چٹھے میں شاید دے سکوں۔ نومبر سنہ حال میں تمہارے پاس پہنچ جائینگے انشاء اللہ العلی العظیم۔ میں بے حیا تھا نہ مرا اچھا ہونے لگا۔ عوارض میں تخفیف ہے۔ طاقت آتی چلی ہے مختصر مفید

؎ در نامہ جزایں مصرع شاعر چہ نویسم

اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ

نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

دو شنبہ ۲۳ ذی الحجہ ۱۲۸۰ھ۔ اے میری جان مثنوی ابر گہر بار کونسی فکر تازہ تھی کہ میں تجھ کو بھیجتا۔ کلیات میں موجود ہے معہذا شہاب الدین خاں نے بھیج دی میں مکرر کیا بھیجتا۔ تب محرق کے دیکھنے سے انکار کیوں کرتے ہو۔ اگر منافی طبع تحریر کو بسبب انزجار نہ دیکھا کرتے تو فریقین کی کتب مبسوط کہاں سے موجود ہوتیں افسو س کہ میں نے عربی جانا عربی نہیں ہے اب مانا کہ ایک سہوِ طبیعت تھا۔ میرا اعتراض تو خلط مبحث پر ہے۔ افسوس و فسوس ایک کیوں ہو جائے یہاں کے اطوار مجھ سے باوجود قرب مخفی اور تم پر باینہمہ بعد اشکار دوران باخبر در حضورو نزدیکاں بے بصر دور۔ روپیہ آ گیا دل سے نکلا مخزن سے نکلا۔ ہاتھ سے نہیں نکلا۔ جب ہاتھ سے نکل جائے گا اور جنس مول لی جائے گی اور یہ گند کٹ جائے گا تب ترساں ترساں پیشکاہ نادری میں تمہارے یہاں آنے کے باب میں کچھ عرض کیا جائے گا میں ان دنوں مردود بھی ہوں۔ والسلام۔

صبحدم با ابوالبشر گفتم

پارہ زر بدہ کہ زرداری

حیف باشد کہ از چومن پسرے

خاک رنگیں عزیز تر داری

گفت حیف ست از تو خواہش زر

کہ تو گنجینہ گہر داری

گنجدان ِ سخن حوالہ تست

خود بہ بیں تا چہ اے پزر داری

پیش من زر کجا ست جان پدر

ببری ہر چہ در نظر داری

گفتم اینک بہ بند پیمانی

زر بمن میدہی اگر داری

سر زنبیل آن عمر عیار

گر زعیاریش خبرداری

بکشا زود و زر بریزد بگوئے

کہ ہمیں مدعا مگر داری

گفت باب فسانہ بودہ است

چہ فروریزم و چہ برداری

ایضاً

یکم جنوری ۱۸۶۴ء۔ علائی مولائی کو غالب ِ طالب کی دعا۔ بے چار ہ مرزا کا معاملہ علی حسین خاں کی معرفت طے ہو گیا۔ یہاں پندرہ کا سوال وہاں دس میں سے تین کم کرنے کا خیال۔ متوسط دوسرا جو علی حسین خاں بہادر کے بعد درمیان آئے وہ کیا کرے اور کیا کہے۔ مرزا قانع و متوکل ہیں نہ پندرہ مانگتے ہیں نہ دس۔ اللہ بس ماسوا ہوس۔ جناب ترولین صاحب بھائی کے دوستِ دلی دلّی آئے لارڈ صاحب کہلاتے ہیں۔ سنتا ہوں کہ کل اکبر آباد جاتے ہیں۔ بھائی علی بخش خاں مدت سے بیمار تھے رات کو بارہ بجے پر دو بجے مر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تمہارے عم نامدار آج دن کو بارہ بجے سلطان جی گئے ہیں۔ میں نہ جا سکا۔ تجہیز و تکفین ان کی طرف سے عمل میں آئے گی۔ بارہ پر تین بجے یہ خط میں نے تمہیں لکھا ہے۔ کل شنبہ ۲ جنوری صبح کو ڈاک گھر بھیج دوں گا۔ مشفقی شفیقی میر جان صاحب کو سلام مع الاکرام۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

صبح شنبہ۔ ۳۰ مئی ۱۸۶۳ ء لاموجود الا اللہ ۔ اس خدا کی قسم جس کو میں نے ایسا مانا ہے اور اس کے سواکسی کو موجود نہیں جانا ہے کہ خطوط کے ارسال کو مکرر نہ لکھنا از راہ ملال نہ تھا۔ طالب کے ذوق سست پا کر میں متوقع ہو گیا۔ متوسط ایک جلیل القدر آدمی اور طالب کتب کا سوداگر ہے اپنا نفع نقصان سونچے (سوچے )گا۔ لاگت بچت کو جانچے گا۔ میں متوسط کو مہتمم سمجھا تھا اور یہ خیال کیا تھا کہ یہ چھپوائے گا۔ ۳ رقعہ ایک جگہ سے لے کر ان کو بھیجے اس کی رسید میں تقریباً انہوں نے طلب رقعات مکلف سوداگر لکھی اور بس سوداگر کو مفقود الخبر لکھا۔ ظاہراً کتابیں لے کر کہیں گیا ہو گا۔ کتابیں لینے گیا ہو گا۔ یہ ۲۳ لفافے اور ۳۴ خط بدستور میرے بکس میں موجود محفوظ رہیں گے۔ اگر متوسط بتقاضا طلب کرے گا ان خطوط کی نقلیں اس کو اور اصل تم کو بھیج دوں گا ورنہ تمہارے بھیجے ہوئے کاغذ تم کو پہنچ جائیں گے۔ یہاں ان خطوں کے ارسال میں تم نے مجھ سے وہ کیا جو میں نے تم سے دوجانہ میں کیا تھا۔ بھلا میں تو پیر خرف اور سن خرافت کو نسیان لازم ہے۔ تم نے کیا سمجھ کے کپڑا لپیٹ کر اور  مختم کر کے بھیجا خطوں پر ایک قلیل العرض کاغذ لپیٹ کر ارسال کیا ہوتا اگر منشی بہاری لال میرا اور شہاب الدین کا دوست نہ ہوتا تو پچاس روپیہ کا مجھ کو دھبا لگتا ؎ رسدیہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ غالب۔

ایضاً

بدست مرگ ولے بدتر از گمان تو نیست۔ مکرر لکھ چکا ہوں کہ قصیدہ کا مسودہ میں نے نہیں رکھا۔ مکرر لکھ چکا ہوں کہ مجھے یاد نہیں کون سی رباعیاں مانگتے ہو۔ پھر لکھتے ہو کہ رباعیاں بھیج قصیدہ بھیج۔ معنی اس کے یہ کہ تو جھوٹا ہے اب کہ تو مقرر بھیجے گا۔ بھائی قرآن کی قسم۔ انجیل کی قسم۔ توریت کی قسم۔ زبور کی قسم۔ ہنود کے چار بید (وید)کی قسم۔ دساتیر کی قسم۔ ژند کی قسم۔ پاژند کی قسم۔ استاد کی قسم۔ گرو کی قسم۔ گرنتھ کی قسم۔ نہ میرے پاس قصیدہ نہ مجھے وہ رباعیاں یاد۔ کلیات کے باب میں جو عرض کر چکا ہوں ؎ برہمانیم کہ ہستیم و ہماں خواہد بود۔ جب میں دس پندرہ جلدیں منگا لوں گا ایک بھائی کو اور ایک تم کو ارمغاں بھیجوں گا۔ اور اگر بھائی کو جلدی ہے تو لکھنؤ میں اودھ اخبار کا مطبع مالک اس کا منشی نولکشور مشہور۔ جتنی جلدیں چاہیں لکھنؤ سے منگا لیں۔ میں بہرحال دو جلدیں جس وقت موقع ہو گا بھیج دوں گا۔ ۱۱ جون ۱۸۶۳ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

 

ایضاً

یکشنبہ ۱۶ فروری ۱۸۶۲ ہنگام نیمروز۔ صاحب کل تمہارے خط کا جواب بھیج چکا ہوں پہنچا ہو گا۔ آج صبح کو بھائی صاحب کے پاس گیا۔ بھائی ضیاء الدین خاں اور بھائی شہاب الدین خاں بھی وہیں تھے۔ مولوی صدر الدین میرے سامنے آئے۔ حکیم محمود خاں کے طور پر معالجہ قرار پایا ہے۔ یعنی انہوں نے نسخہ لکھ دیا ہے سو اس کے موافق حبوب بن گئی ہیں۔ نقوع کی دوائیں آج آ کر بھیگیں گی کل حبوب کے اوپر وہ نقوع پیا جائے گا۔ مگر انداز و ادا سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حضرت مریض کی رائے اور ان کے ہوا خواہوں کی رائے میں قصد اس استعلاج کا مذبذب ہے۔ نسخہ کی حقیقت کو میزان نظر میں تول رہے ہیں استاد میر جان بھی تھے۔ نیم نامعقول مرزا اسد بیگ بھی تھے۔ سب طرح خیریت ہے۔ کل تمہارے خط میں دو بار یہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلّی بڑا شہر ہے۔ ہر قسم کے آدمی وہاں بہت ہوں گے۔ اے میری جان یہ وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم پیدا ہوئے وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم نے تحصیل علم کیا ہے وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آتے تھے وہ دلّی نہیں ہے جس میں سات برس کی عمر سے آتا جاتا ہوں وہ دلّی نہیں ہے جس میں اکیاون برس سے مقیم ہوں۔ ایک کنپ (کیمپ)ہے۔ مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ۔ باقی سراسر ہنود و معزول بادشاہ کے ذکور جو بقیۃ السیف ہیں وہ پانچ پانچ روپیہ مہینا پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیر زن ہیں وہ کٹنیاں اور جوانیں کسبیاں۔ امرائے اسلام میں سے اموات گنو۔ حسن علی خاں بہت بڑے باپ کا بیٹاسو روپیہ روز کا پنشن دار سو روپیہ مہینے کا روزینہ دار بن کر نامردانہ بن گیا۔ میر ناصر الدین باپ کی طرف سے پیرزادہ۔ نانا اور نانی کی طرف سے امیر زادہ مظلوم مارا گیا۔ آغا سلطان۔ بخشی محمد علی خاں کا بیٹا جو خود بھی بخشی ہو چکا تھا بیمار پڑا۔ نہ دوا نہ غذا۔ انجام کار مر گیا۔ تمہارے چچا کی سرکار سے تجہیز و تکفین ہوئی۔ احبّا کو پوچھو ناظر حسین مرزا جس کا بڑا بھائی مقتولوں میں آ گیا اس کے پاس ایک پیسا نہیں۔ بڈھے صاحب ساری املاک بیچ کر نوش جاں کر کے بیک بینی و دو گوش بھرت پور چلے گئے۔ ضیاء الدولہ کے پانسو(پانچ سو)کرایہ کی املاک واگزاشت ہو کر پھر قرق ہو گئی۔ تباہ خراب لاہور گیا وہاں پڑا ہوا ہے۔ دیکھیئے کیا ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجھر اور بہادر گڈہ(گڑھ)اور بلب گڈہ(گڑھ) اور فرخ نگر۔ کم و بیش تیس لاکھ روپے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی امارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنرمند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔ جو حکما کا حال لکھا ہے وہ بیان واقع ہے۔ صلحا و زہاد کے باب میں جو حرف مختصر میں نے لکھا ہے اس کو بھی سچ جانو اپنے والد ماجد کی طرف سے خاطر جمع رکھو۔ سحر، آسیب کا گمان ہر گز نہ کرو۔ خدا چاہے تو استعمال ایارجات کے بعد بالکل اچھے ہو جائیں گے اور اب بھی خدا کے فضل سے اچھے ہیں۔ عافیت کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

اجی مولانا علائی نواب صاحب دو مہینے تک کی اجازت دے چکے ہیں اور میں یہ خبر تراشی نہیں کرتا۔ مرزا علی محمد بیگ کی زبانی ہے کہ نواب علاؤ الدین خاں سے کہہ چکے ہیں کہ قصہ مٹ گیا ہے اب تم شوق سے دلی جاؤ۔ دو ہفتہ سے لے کر دو مہینے تک کی تم کو رخصت ہے۔ پھر تم کیوں نہ آئے خدا نے دعا، خداوند نے استدعا قبول کی۔ تمہاری طرف سے سست قدمی اور دل سردی کی کیا وجہ۔ اگر حاکی کی حکایت جوٹ ہے تو تم سچ لکھو کہ ماجرا کیا ہے۔ مرزا یوسف علی خاں عزیز تمہارے بلائے ہوئے اور مہدی حسین بھائی صاحب کے مطلوب مرزا عبدالقادر بیگ کے قبائل کے ساتھ کل روانہ لوہارو ہوئے ہیں۔ شنبہ ۱۷ دسمبر ۱۸۶۴ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔

ایضاً

میاں مدعا اصلی ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ اگر کل کمیٹی میں گئے ہو تو میرے سوال کے پڑھے جانے کا حال لکھو۔ ضمناً ذکر ایک مدبر کا لکھا جاتا ہے۔ جو تم نے ا س مدبر کے صفات لکھے سب سچ ہیں۔ احمق۔ خبیث النفس۔ حاسد۔ طبیعت بڑی سمجھ بری۔ قسمت بری۔ ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں۔ ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا۔ میں نے جو تمہیں اس کے باب میں لکھا تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ میں نے سنا تھا کہ تم نے اپنے سائیسوں سے کہہ دیا ہے یا کہا چاہتے ہو کہ اس کو بازار میں بے حرمت کریں۔ یہ خلاف شیوہ مومنین ہے۔ خلاصہ یہ کہ قصد نہ کرنا یہ موید اس کا قول ہے جو میں نے تم سے پہلے کا تھا کہ تم یوں تصور کرو کہ اس نام کا آدمی اس محلہ میں بلکہ اس شہر میں کوئی نہیں۔ غالب۔

ایضاً

مولانا علائی۔ واللہ علی حسین خاں کا بیان بمقتضائے محبت تھا۔ ہر بار کہتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ حق بجانب ان کے ہے کوئی ہم سخن نہ کوئی ہم نفس نہ سیر نہ شکار نہ مجلس نہ دربار تنہائی و بے شغلی اور بس جی کیونکر نہ گھبرائے۔ خفقان کیوں نہ ہو جائے۔ نہ دن یاد نہ تاریخ آج چوتھا یا بھئی شاید بھول گیا ہوں پانچواں دن ہے کہ منشی نولکشور بسواری ڈاک رہگرائے لکھنؤ ہوئے۔ کل پہنچ گئے ہوں یا آج پہنچ جائیں آج روز یکشنبہ ۱۳ دسمبر کی ہے ایک دن منشی صاحب میرے پاس بیٹھے تھے اور برخوردار شہاب الدین خان بھی تھا میں نے ثاقب کو مخاطب کر کے کہا کہاگر میں دنیا دار ہوتا تو اس کو نوکری کہتا۔ مگر چونکہ فقیر تکیہ دار ہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین جگہ کا روزینہ دار ہوں ساڑھے باسٹھ روپے یعنی ۷۵۰ سالسرکار انگریزی سے پاتا ہوں اور بارہ سو سال رامپور سے اور چوبیس روپیہ سال ان مہاراج سے۔ توضیح یہ کہ دو برس سے ہر مہینہ میں چار بار اخبار مجھ کو پہنچتے ہیں قیمت نہیں لیتے۔ مگر ہاں اڑتالیس ٹکٹ میں مطبع میں پہنچا دیا کرتا ہوں۔ جو میں نے پوچھے تھے کہ علی حسین خاں کے حوالہ کروں۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ ارسال بسبیل ہنڈوی دشوار ہے۔ خیر اب جس طرح ہو گا حصار پر ہنڈوی لکھوا کر تم کو بیج دوں گا۔ تم حصار پہنچ کر روپیہ منگوا لیجیو۔ خدا چاہے تو دسمبر میں روپیہ تمہارے پاس پہنچ جائے۔ استاد میر جان صاحب کو قدمبوس کہہ کر مجھ کو فرعون بننا پڑا۔ دوہائی خدا کی اب ایسا نہ کروں گا میرا سلام بلکہ دعا نا کو دے دینا۔ پرسوں مولوی صدر الدین خاں صاحب کو فالج ہو گیا سیدھا ہاتھ رہ گیا زبان موٹی ہو گئی ہے بات مشکل سے کر تے ہیں اور کم سمجھ میں آتی ہے۔ میں اپاہج ہوں جا نہیں سکتا جو ان کو دیکھ آتا اس سے ان کا حال پوچھا جاتا ہے۔ دن تاریخ صدر میں لکھا آیا ہوں کاتب کا نام غالب ہے کہ دستخط سے پہچان لو۔

ایضاً

 آج بدھ کے دن ۲۷ رمضان کو پہر دن چڑھے جس وقت کہ میں کھانا کھا کر باہر آیا تھا ڈاک کا ہرکارہ تمہارا خطاور شہاب الدین خاں کا خط معاً لایا۔ مضمون دونوں کا ایک۔ واہ کیا مضموں ان دنوں میں کہ سب طرح رنج و عذاب فراہم ہیں ایک داغ جگر سوز یہ بھی ضرور تھا۔ سبحان اللہ میں نے اوسکی (اس کی) صورت بھی نہیں دیکھی یا ولادت کی تاریخ سنی یا اب رحلت کی تاریخ لکھنی پڑی۔ پروردگار تم کو جیتا رکھے اور نعم البدل عطا کرے۔ میاں اس کو سب جانتے ہیں کہ میں مادہ تاریخ نکالنے میں عاجز ہوں لوگوں کے مادے دیے ہوئے نظم کر دیتا ہوں اور جو مادہ اپنی طبیعت سے پیدا کرتا ہوں وہ بیشتر لچر ہوا کرتا ہے چنانچہ ا پنے بھائی کی رحلت کا مادہ دریغ دیوانہ نکالا پھر اس میں سے آہے کے عدد گھٹائے تمام دوپہر اسی فکر میں رہا یہ نہ سمجھا کہ مادہ ڈھونڈھا تمہارے نکالے ہوئے لفظوں کو تاکا کیا کہ کسی طرح سات اس پر بڑھاؤں بارے ایک قطعہ درست ہوا مگر تمہاری زبان سے یعنی گویا تم نے کہا ہے پانچ شعر میں تین شعر زائد و موضح مدعا لیکن میں نہیں جانتا کہ تعمیہ اچھا ہے یا برا ہے ہاں اخلاق تو البتہ ہے تامل سے سمجھ میں آتا ہے اور شاید لوح مزار پر کھدوانے کے قابل نہ ہو۔

قطعہ

در گریہ اگر دعوئے ہم چشمیِ ما کرد

بینی کہ شود ابر بہاری خجل از ما

ناچار بگریم شب و روز کہ زیں سیل

باشد کہ بروکالبد آب و گل از ما

گفتی کہ نگہدار دل از کشمکش غم

خود کر د برآرد غمِ جاں گسل از ما

یحییٰ شد و از شعلہ سوزِ غم ِ ہجرش

چوں شمع دود دُود بسر متصل از ما

 غم دیدہ نسیمے پے تاریخ وفاتش

نبنوشت کہ درداغِ پسر سوخت دل از ما

ما کے اعداد ۴۱۔ دل کے اعداد۳۴۔ ما میں سے دل گیا۔ گویا ۴۱ میں سے ۳۴ گئے۔ باقی رہے سات۔ وہ داغ پسر پر بڑھائے ۱۲۷۴ ہاتھ آئے۔

ایضاً

سبحان اللہ ہزار برس تک نہ پیام بھیجنا نہ خط لکھنا اور پھر لکھنا تو سراسر غلط لکھنا مجھ سے کتاب مستعار مانگتے ہو یاد کرو کہ تم کو لکھ چکا ہوں کہ دساتیر اور برہان قاطع کے سوا کوئی کتاب میرے پاس نہیں۔ ازانجملہ برہان قاطع تم کو دے چکا ہوں۔ دساتیر میرا ایمام و حرز جان ہے۔ اشعار تازہ مانگتے ہو کہاں سے لاؤں ؟ عاشقانہ اشعار کو مجھ سے وہ بُعد ہے جو ایمان سے کفر کو۔ گورنمنٹ کا بھاٹ تھا بھٹئی کرتا تھا خلعت پاتا تھا۔ خلعت موقوف۔ بھٹئ متروک۔ نہ غزل نہ مدح ہزل و ہجو میرا آئین نہیں پھر کہو کیا لکھوں۔ بوڑھے پہلوان کے پیچ بتانے کو رہ گیا ہوں اکثر اطراف و جوانب سے اشعار آ جاتے ہیں اصلاح پا جاتے ہیں۔ باور کرنا اور مطابق واقع سمجھنا۔ تمہارے دیکھنے کو دل بہت چاہتا ہے اور دیکھنا تمہارا موقوف اس پر ہے کہ تم یہاں آؤ۔ کاش اپنے والد ماجد کے ساتھ چلے آتے اور مجھ کودیکھ جاتے۔ اردو کا دیوان رامپور سے لایا ہوں اور وہ آگرہ گیا ہے وہاں منطبع ہو گا۔ ایک نسخہ تمہارے پاس بھی پہنچ جائے گا۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

مرقومہ روز دو شنبہ ۲ جولائی ۱۲۶۰ھ۔ غالب۔

ایضاً

صاحب میرا برادر عالی قدر اور تمہارا والد ماجد اب اچھا ہے از روئے عقل اعادہ مرض کا احتمال باقی نہیں ہے۔ رہا وہم اس کی وہ دوا لقمان کے پاس بھی نہیں مرزا قربان علی بیگ اور مرزا شمشاد علی بیگ کے باب میں جو کچھ تم نے لکھا ہے اور آیندہ جو کچھ لکھو گے میری طرف سے وہی جواب ہو گا جو آگے لکھ چکا ہوں یعنی میں تماشائی محض نہ رہوں گا۔ اگر بھائی صاحب مجھ سے کچھ ذکر کریں گے تو بھلی کہوں گا۔ آپ کے عم عالی مقدار جو فرماتے ہیں کہ غالب کو بیٹھے ہوئے ہزارہا تسویلات و خیالات دکھلائی دیتے ہیں یہ حضرت نے اپنی ذات پر میری طبیعت کو طرح کیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح میں مبتلائے وساوس و اوہام ہوں اور لوگ بھی اسی طرح بخاراتِ مراقی میں گرفتار ہوں گے۔ قیاس مع الفارق ہے نہ بخیل صادق۔ یہاں لا موجود الا اللہ کی بادہ ناب کا رطل گراں چڑھائے ہوئے اور کفر و اسلام و نور و نار کو مٹائے بیٹھے ہیں ؎ کجا غیر کُو غیر کُو نقشِ غیر۔ سوائے اللہ واللہ ما فی الوجود۔ ضمیران بر وزن دُرگران لغت عربی ہے نہ معرب۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پھول ہندوستان میں ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کی تحقیقات از روئے الفاظ الادویہ ممکن ہے۔ آج اس نے جلاب لیا۔ دس دست آئے۔ مواد خوب خارج ہوا۔ فارسی غیر فصیح :۔ امروز مسہل گرفت دہ دست آمد ند مواد خوب برآمد۔ فارسی فصیح :۔امروز فلانی پگاہ دادے مسہل آشامید تاشام دہ بار نشست یا دہ بار بمتراح رفت یا دہ بار بہ بیت الخلا رفت مادہ فاسد چنانکہ باید اخراج یافت۔ معلوم رہے کہ لوطیوں کے منطق میں خصوصاً اور اہل پارس کی روز مرہ میں عموماً نشستن استعارہ ہے ریدن کا چنانچہ ایک تذکرہ میں مرقوم کہ اصفہان میں ایک امیر نے شعرا کی دعوت اپنے باغ میں کی۔ مرزا صائب اور اس عصر کے کئی شعر اجمع ہوئے ایک شاعر کہ تذکرہ میں اس کا نام مندرج ہے اور میں بھول گیا ہوں اکول (بہت کھانے والا)تھا مگر معدہ اس کا ضعیف تھا۔ حرص و شرہ کے سبب سے بہت کھا جاتا تھا ہضم نہ کر سکتا تھا۔ کھا کھا کر شراب پی پی کر دروازہ باغ کو مقفل کر کے سب سو رہے اس مرد اکول فضول نے رات بھر میں سارا باغ ہگ بھرا۔ نہ ایک جگہ بلکہ کبھی اس کیاری میں اور کبھی اس روش پر کبھی اس درخت کے تلے۔ کبھی اس درخت کی جڑ میں۔ قصہ مختصر غایت شرم و حیا سے دو چار گھڑی رات رہے دیوار سے کود کر چلا گیا۔ صبح کو جب جاگے اس کو ادھر ادھر ڈھونڈھا کہیں نہ پایا مگر حضرت کا فضلہ کئی جگہ نظر آیا۔ مرزا صاحب نے ہنس کر فرمایا :۔ یاراں شما را چہ افتادہ است کہ میگوید فلانے در باغ نیست مے بینم کہ مخدوم ہمدریں باغ چند جا نشستہ است۔ جمعہ ۵ رمضان و ۷ مارچ۔ سالِ روستا خیز۔ رباعی خط میں لکھنی بھول گیا۔ یہ میں نے بھائی کو تہنیت بھیجی تھی۔

رباعی

اے کردہ بمہر زر فشانی تعلیم

پیدا ز کلاہِ تو شکوہِ دریہیم

بادابتو فرخندہ ز یزداں کریم

پروانگی جدید اقطاع قدیم

ایضاً

مولانا علائی نہ مجھے خوف مرگ نہ دعوای صبر ہے۔ میرا مذہب بخلاف عقیدہ قدریہ جبر ہے۔ تم نے میاں جی گرمی کی۔ بھائی نے برادر پروری کی۔ تم جیتے رہو وہ سلامت رہیں۔ ہم اسی حویلی میں تا قیامت رہیں۔ اس ابہام کی توضیح اور اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مینھ(مینہ)کی شدت سے چھوٹا لڑکا ڈرنے لگا اس کی دادی بھی گھبرائی۔ مجھ کو خلوت خانہ کا دروازہ غرب رویہ اور اس کے آگے ایک چھوٹا سا درہ یاد تھا جب تمہارے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو میں اسی دروازہ سے تم کو دیکھنے آیا تھا۔ یہ سمجھ کر خلوت خانہ کو محلسرا بنایا چاہتا تھا کہ گاڑی ڈولی لونڈی اصیل کا چھن تیلن تنبولن کہاری پسنہاری۔ ان فرقوں کا ممر دروازہ رہے گا۔ میری اور میرے بچوں کی آمدو رفت دیوانخانہ میں رہے گا۔ عیاذاً باللہ وہ لوگ دیوانخانہ میں سے آئیں جائیں اپنے بیگانے کا ہر وقت پچھلپائیاں نظر آئیں۔ بی وفادار جن کو تم کچھ اور بھائی خوب جانتے ہیں۔ اب تمہاری پھوپھی نے انہیں وفادار بیگ بنا دیا ہے باہر نکلتی ہیں سودا تو کیا لائیں گی مگر خلیق اور ملنسار ہیں رستہ چلتوں سے باتیں کرتی پھرتی ہیں جب محل سے نکلیں گی ممکن نہیں کہ اطراف نہر کی سیر نہ کریں گی۔ ممکن نہیں کہ دروازہ کے سپاہیوں سے باتیں نہ کریں گی۔ ممکن نہیں کہ پھول نہ توڑیں اور بی بی کو لے جا کر نہ دکھائیں اور نہ کہیں کہ یہ پھول تمائی چچا کے بیٹے کی کائی کے ایں۔ شرح۔ تمہارے چچا کے بیٹے کی کیاری کے ہیں۔ ہے ہے ایسے عالیشان دیوان خانہ کی یہ قسمت اور مجھ سے نازک مزاج دیوانے کی یہ شامت معہذا اس سہ دری کو اپنے آدمیوں اور لڑکوں کے مکتب کے لئے ہر گز کافی نہ جانا مور اور کبوتر اور دنبہ اور بکری باہر گھوڑوں کے پاس رہ سکتے تھے عَرَفتَ رَبّیِ بِفَسخِ العَزَائِم پڑھا اور چپ ہو رہا مگر تمہاری خاطر ِ عاطر جمع رہے کہ اسباب وحشت و خوف و خطر اب نہ رہے۔ مینھ(مینہ)کھل گیا ہے مکان کے مالکوں کی طرف سے مدد شروع ہو گئی ہے۔ نہ لڑکا ڈرتا ہے نہ بی بی گھبراتی ہیں نہ میں بے آرام ہوں۔ کھلا ہوا کوٹھا چاندنی رات ہوا سرد تمام رات فلک پر مریخ پیش نظر۔ دو گھڑی کے تڑکے زہرہ جلوہ گر۔ ادھر چاند مغرب میں ڈوبا ادھر مشرق سے زہرہ نکلی۔ صبوحی کا وہ لطف روشنی کا وہ عالم۔ ۶ ماہ اگست ۱۸۶۲ ء۔

ایضاً

صبح سہ شنبہ نہم ستمبر ۱۸۶۲ء۔ جانِ غالب مگر قسم سے نکلی ہوئی جان قیامت کو دوبارہ ملنے کی توقع ہے خدا کا احسان مرزا قربان علی بیگ تمہاری کشش کے مجذوب کیوں بنتے ہیں وہ تو خود سالک ہیں مگر ہاں یہ صاحبزادہ سعادتمند رضوان سوا اس کے آپ مالک ہیں۔ نواب صاحب کا ہم مطبخ اور آپ کا ہم مائدہ ہونا بہتر ہوا۔ کاش تم یہ لکھتے کہ مشاہرہ کیا مقرر ہوا۔ اثنا عشری ایک تم ہو سو تمہیں کیا اختیار ہے۔ البتہ عشرہ مبشرہ کی اولویت پر مدار ہے۔ باپ تمہارا خلاف قاعدہ اہل سنت جماعت عشرہ میں سے ثلثہ کو کم کرتا تھا رضوان نے نہ مانا کیونکر مانتا وہ تو ثلثہ کا دم بھرتا تھا۔ تہور خانصاحب کے باب میں جویا اس خبر کا ہے کہ اب لوہارو سے ان کا ارادہ کدھر کا ہے۔ رضوان کو دعا پہنچے۔ نواب صاحب کی عنایت اور مولانا علائی کی صحبت مبارک ہو۔ پیر جی سے جب پوچھتا ہوں تم خوب شخص ہو اور وہ کہتے ہیں کیا کہنا ہے اور میں پوچھتا ہوں کس کا تو وہ فرماتے ہیں شمشاد علی بیگ کا۔ اَین اور کسی کا نام تم کیوں نہیں لیتے دیکھو یوسف علی خاں بیٹھے ہیں۔ ہیرا سنگہ(سنگھ)موجود ہے۔ واہ صاحب میں کیا خوشامدی ہوں جو منہ دیکھی کہوں۔ میرا شیوہ حفظ الغیب ہے۔ غائب کی تعریف کرنی کیا عیب ہے ؟ ہاں صاحب آپ ایسے ہی وضع دار ہیں اس میں کیا ریب ہے۔

ایضاً

جانا عالیشانا خط پہنچا۔ حظ اٹھا۔ تمہاری آشفتہ حالی میں ہر گز شک نہیں تم کہیں۔ قبائل کہیں۔ والی شہر ناسازگارانجام کار ناپائدار۔ ایک دل اور سو آزار۔ اللہ تمہارا یاور۔ علی تمہارا مددگار۔ میں پا در رکاب بلکہ نعل در آتش۔ کب جاؤ ں اور فرخ سیر کو دیکھوں ایک خط میں نے علی حسین خاں کو لکھا وہاں سے اس کا جواب آ گیا روہیلا پھوڑے پھنسی میں مبتلا ہے خدا اس کو صحت دے۔ شمشاد علی بیگ کہاں الور پہنچا اور اس طرح گیا کہ شہاب الدین خاں سے مل کر بھی نہ گیا خیر؎ رُموز مصلحتِ خویش خسرواں دانند۔ یہاں جشن کے وہ ساماں ہو رہے ہیں کہ جمشید اگر دیکھتا تو حیران رہ جاتا شہر سے دو کوس پر آغا پور نامی ایک بستی ہے۔ آٹھ دن سے وہاں خیام برپا تھے پرسوں صاحب کمشنر بہادر بریلی مع چند صاحبوں اور میموں کے آئے اور خیموں میں اترے۔ کچھ کم سوصاحب اور میم جمع ہوئے۔ سب سرکار رامپور کے مہمان۔ کل سہ شنبہ ۵ دسمبر حضور پر نور بڑے تجمل سے آغا پور تشریف لے گئے بارہ پر دو بجے گئے اور شام کو پانچ بجے خلعت پہن کر آئے۔ وزیر علی خاں خانساماں خواصی میں سے روپیہ پھینکتا ہوا آتا تھا۔ دو کوس کے عرصہ میں دو ہزار روپیہ سے کم نہ نثار ہوا ہو گا۔ آج صاحب عالی شان کی دعوت ہے پٹن شام کا کھانا یہیں کھائیں گے۔ روشنی آتشبازی کی وہ افراط کہ رات دن کا سامنا کرے گی۔ طوائف کا وہ ہجوم حکام کا وہ مجمع کہ اس مجلس کو طوائف الملوک کہا چاہیے۔ کوئی کہتا ہے کہ صاحب کمشنر بہادر مع صاحبان عالیشان کے کل جائیں گے کوئی کہتا ہے پرسوں۔ رئیس کی تصویر کھینچتا ہوں۔ قد۔ رنگ۔ شکل۔ شمائل۔ بعینہٖ بھائی ضیاء الدین خاں۔ عمر کا فرق اور کچھ کچھ چہرہ اور لحیہ متفاوت۔ حلیم و خلیق۔ باذل۔ کریم۔ متواضع۔ متشرع۔ متورّع۔ شعر فہم۔ سینکڑوں شعر یاد۔ نظم کی طرف توجہ نہیں۔ نثر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ جلالائی طباطبائی کی طرز برتتے ہیں۔ شگفتہ جبین ایسے کہ ان کے دیکھے سے غم کوسوں بھاگ جائے۔ فصیح بیان ایسے کہ ان کی تقریر سن کر ایک اور نئی روح قالب میں آئے۔ اللہ م دام اقبالہٗ و زاد اجلالہٗ۔ بعد اختتام محافل طالبِ رخصت ہوں گا۔ بعد حصول رخصت دلّی جاؤں گا۔ بھائی صاحب کی خدمت میں بشرط رسائیو تاب گویا ئی سلام کہنا اور بچوں کی خیر و عافیت جو تم کو معلوم ہوئی ہے وہ مجھ کو لکھنا۔ ۲۰ دسمبر ۱۸۶۵ کی بدہ(بدھ)کا دن صبح کے آٹھ بجا چاہتے ہیں۔ کاتب کا نام غالب ہے تم جانتے ہو گے۔

ایضاً

صبح یکشنبہ ۲۷ جولائی ۱۸۶۴ء۔ میری جان سن پنجشنبہ پنجشنبہ جمعہ ۹ ہفتہ دس اتوار گیارہ ایک مژہ برہمزدن مینھ(مینہ) نہیں تھما اس وقت شدت سے برس رہا ہے۔ انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر پاس رکھ لیے ہیں دو سطریں لکھیں اور کاغذ کو آگ سے سینک لیا۔ کیا کروں تمہارے خط کا جواب ضرور لو۔ سنتے جاؤ۔ مرزا شمشاد علی بیگ کو خط تمہارا پڑھوا دیا۔ انہوں نے کہا غلام حسن خان کی معیت پر کیا موقوف ہے مجھے آج سواری مل جائے کل چل نکلوں۔ اب میں کہتا ہوں کہ اونٹ ٹٹو کا موسم نہیں گاڑی کی تدبیر ہو جائے بس پچاس برس کی بات ہے کہ الہی بخش خاں مرحوم نے ایک زمیں نئی نکالی میں نے حسب الحکم غزل لکھی۔ بیت الغزل یہ ؎

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

مقطع یہ ہے :۔

اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے

کہا جو اس نے ذرامیرے پاؤں داب تو دے

اب میں دیکھتا ہوں کہ مطلع اور چار شعر کسی نے لکھ کر اس مقطع اور اس بیت الغزل کو شامل ان اشعار کے کر کے غزل بنائی ہے اور لوگ اس کو گاتے پھرتے ہیں۔ مقطع اور ایک شعر میرا اور پانچ شعر کسی اُلو کے۔ جب شاعر کی زندگی میں گانے والے شاعر کے کلام کو مسخ کر دیں تو کیا بعید ہے کہ وہ شاعر متوفی کے کلام میں مُطربوں نے خلط کر دیا ہو۔ مقطع بے شک مولانا مغربی کا ہے اور وہ شعر جو میں نے تم کو لکھا ہے اور یہ شعر جواب لکھتا ہوں ؎

دامانِ نگہ تنگ و گل ِ حسنِ تو بسیار

گلچین بہار تو ز دامان گلہ دارد

یہ دونوں شعر قدسی کے ہیں۔ مغربی قدما میں اور عرفا میں ہے جیسا عراقی۔ ان کلام دقائق و حقائق تصوف سے لبریز۔ قدسی شاہجہانی شعرا میں صائب و کلیم کا ہم عصر اور ہم چشم۔ ان کا کلام شور انگیز ان بزرگوں کی طرز روش میں زمین و آسمان کا فرق۔ بھائی کو سلام کہنا اور کہنا کہ صاحب وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھرا داس سے قرض لیا ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند۔ چین سکھ کی کوٹھی جالوٹی۔ ہر ایک پاس تمسک مہری موجود۔ شہد لگا چاٹو۔ نہ مول نہ سود اس سے بڑھ کر یہ بات کہ روٹی کا خرچ بالکل پھوپھی کے سر۔ با این ہمہ کبھی خان نے کچھ دے دیا کبھی الور سے کچھ دلوا دیا۔ کبھی ماں نے کچھ آگرہ سے بھیج دیا۔ اب میں اور باسٹھ روپے آٹھ آنے۔ کلکٹری کے سو روپیہ رامپور کے قرض دینے والا ایک میرا مختار کار وہ سود ماہ بماہ لیا چاہے۔ مول میں قسط اس کو دینی پڑے۔ انکم ٹکس(ٹیکس) جدا۔ چوکیدار جدا۔ سود جدا۔ مول جدا۔ بی بی جدا۔ بچے جدا۔ شاگرد پیشہ جدا۔ آمد وہی ایک سو باسٹھ۔ تنگ آ گیا۔ گزارا مشکل ہو گیا روز مرہ کا کام بند رہنے لگا۔ سونچا(سوچا)کہ کیا کروں کہاں سے گنجایش نکالوں۔ قہر درویش بر جان درویش۔ صبح کی تبرید متروک۔ چاشت کا گوشت آدھا۔ رات کی شرابو گلاب موقوف۔ بیس بائیس روپیہ مہینا بچا۔ روز مرہ کا خرچ چلایا۔ یاروں نے پوچھا تبرید و شراب کب تک نہ پیو گے ؟ کہا گیا جب تک وہ نہ پلائیں گے۔ پوچھا کہ نہ پیو گے تو کس طرح جیو گے ؟ جواب دیا کہ جس طرح وہ جلا ئیں گے۔ بارے مہینا پورا نہیں گزرا تھا کہ رامپور سے علاوہ وجہ مقرری اور روپیہ آ گیا۔ قرض مقسط ادا ہو گیا متفرق رہا خیر رہو۔ صبح کی تبرید۔ رات کی شراب جاری ہو گئی۔۔ گوشت پورا آنے لگا۔ چونکہ بھائی صاحب نے وجہ موقوفی اور بحالی پوچھی تھی ان کو یہ عبارت پڑھا دینا اور حمزہ خاں کو بعد سلام کہنا ؎ اے بے خبر ز لذت شُرب مدام ما۔ دیکھا ہم کو یوں پلاتے ہیں۔ دریبہ کے بنیوں کے لونڈوں کو پڑھا کر مولوی مشہور ہونا۔ اور مسائل ابو حنیفہ دیکھنا اور مسائل حیض و نفاس میں غوطہ مارنا اور ہے عرفا کے کلام سے حقیقت حقہ وحدت وجود کو اپنے دل نشین کرنا اور ہے۔ مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب و ممکن میں مشترک جانتے ہیں۔ مشرک وہ ہیں جو مسیلمہ کو نبوت میں خاتم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں۔ مشرک وہ ہیں جو نومسلموں کو ابو الائمہ کا ہمسر مانتے ہیں۔ دوزخ ان لوگوں کے واسطے ہے۔ میں موحد خالص اور مومن کامل ہوں زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں۔ اور دل میں لاموجود الا اللہ لامؤثر فی الوجود الاللہ سمجھے ہوا ہوں۔ انبیا سب واجب التعظیم اور اپنے وقت میں سب منفرض الطاعت تھے۔ محمد علیہ السلامپر نبوت ختم ہوئییہ خاتم المرسلین اور رحمۃ للعالمین ہیں۔ مقطع نبوت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ من اللہ ہے اور امام من اللہ علی علیہ السلام ہے ثم حسن ثم حسین اسی طرح تا مہدی موعود علیہ السلام ؎ برین زیستم ہم برین بگزرم۔ ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباعت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا بلکہ میں دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین و منکرین نبوت مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں۔ سنو مولوی صاحب اگر ہٹ دھرمی نہ کرو گے اور کتمانِ حق کو گناہ جانو گے تو البتہ تم کو یاد ہو گا اور کہو گے کہ ہاں یا دہے جن روزوں میں تم علاؤ الدین خاں کو گلستان اور بوستان پڑھاتے ہو اور تم نے ایک دن غریب کو دو تین طمانچے مارے ہیں۔ نواب امین الدین خاں ان دنوں میں لوہارو ہیں۔ علاؤ الدین خاں کی والدہ نے تم کو ڈیوڑھی پر سے اٹھا دیا تم با چشم پر آب میرے پاس آئے میں نے تم سے کہا بھائی شریف زادوں کو اور سردار زادوں کو چشم نمائی سے پڑھاتے ہیں مارتے نہیں۔ تم نے بے جا کیا آیندہ یہ حرکت نہ کرنا تم نادم ہوئے اب وہ مکتب نشین طفل سے گزر کر پیر ہفتاد سالہ کے واعظ بنے تم نے کئی فاقوں میں ایک شعر حافظ کا حفظ کیا ہے ؎ چوں پیر شدی حافظ الخ۔ اور پھر پڑھتے ہو اس کے سامنے کہ اس کی نظم کا دفتر حافظ کے دیوان سے دو چند سہ چند ہے۔ مجموعہ نثر جداگانہ اور یہ بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ایک شعر حافظ کا یہ ہے اور ہزار شعر اس کے مخالف ہیں ؎

حافظ:۔

صوفی بیا کہ آئینہ صاف است جام را

تا بنگری صفائے مے لعل فام را

دیگر:۔ شراب حجاب خوردہ مے مہ جبیناں بیں

خلاف مذہب آناں جمال انیاں بیں

دیگر:۔ ترسم کہ صرفہ نبرد روز باز خوست

نانِ حلال شیخ ز آب حرام ما

دیگر:۔ ساقی مگر وظیفہ حافظ ز بادہ داد

کاشفتہ گشت طرہ دستار مولوی

میاں میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ محلسرا کی دیواریں گر گئی ہیں پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمہاری پھوپھی کہتی ہیں ہائے دبی ہائے مری۔ دیوان خانہ کا حال محلسرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے ابر دو گھنٹہ برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالک اگر چاہے کہ مرمت کرے تو کیونکر کرے۔ مینھ(مینہ) کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں مَیں بیٹھا کس طرح رہوں اگر تم سے ہو سکے تو برسات تک بھائی سے مجھ کو وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے تھے اپنی پھوپھی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالا خانہ مع دالان زیریں جو الہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا میرے رہنے کو دلوا دو۔ برسات گزر جائے گی مرمت ہو جائے گی۔ پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ اپنے قدیم مسکن میں آ رہیں گے۔ تمہارے والد کی ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں ایک یہ مروت کا احسان میرے پایانِ عمر میں اور بھی سہی۔ غالب۔

ایضاً

چار شنبہ ۱۸ مئی ۱۸۶۶ ء۔ بقول عوام باسی عید کا دن صبح کا وقت۔ میری جان غالبِ کثیر المطالب کی کہانی سن۔ میں اگلے زمانہ کا آدمی ہوں جہاں ایک امر کی ابتدا دیکھی یہ جان لیا کہ اب یہ امر مطابق اس ہدایت کے نہایت پذیر ہو گا۔ یہاں اختلاف طبایع کا وہ حال کہ آغاز مغشوش انجام مخدوش مبتدا خبر سے بیگانہ۔ شرط جزاسے محروم سنا اور متواتر سنا کہ قصہ طے ہو گیا اب علاؤ الدین خان مع قبائل آئیں گے۔ دل خوش ہوا کہ اپنے محبوب کی شکل مع اس کے نتائج کے دیکھوں گا۔ پرسوں آ کر بھائی پاس گیا اثنائے اختلاط و انبساط میں میں نے پوچھا کہ کہو بھئی علاؤ الدین خان کب آئیں گے جواب کچھ نہیں ابے وہ قصہ تو طے ہو گیا ہاں وہ تو روپیہ میں نے دے بھی دیا میں نے کہا تو اب چاہیے کہ وہ آئیں فرمایا کہ شاید ابھی نہ آئے ؎ معلوم ہوا کہ خیر ٹھینگا باجا ہو۔ ناچار ارادہ کیا کہ جو کچھ کہنا تھا وہ اب لکھ کر بھیجوں۔ پرسوں تو شام ہو گئی تھی۔ کل بغلگیر ہونے والوں نے دم نہ لینے دیا اس پر طرہ یہ کہ ثاقب نے کہا کہ بھائی تم سے شاکی ہیں اب ضرور آ پڑا کہ گزارش مدعا سے پہلے تمہارے رفع ملال میں کلام کروں بھائی تم میرے فرزند بلکہ بہ از فرزند ہو۔ اگر میرا صلبی بیٹا اس دید و دانست و تحریر و تقریر کا ہوتا تو میں اس کو اپنا یار ِ وفادار اور ذریعہ افتخار جانتا۔ میرے خطوط کے نہ پہنچنے کا گلہ غلط۔ تمہارا کونسا خط آیا کہ اس کا جواب یہاں سے نہ لکھا گیا۔ میرے پاس جو مقاصد ضروری فراہم تھے۔ وہ میں نے اس نظر سے نہ لکھے کہ اب تم آتے ہو زبانی گفت و شنید ہو جائے گی ثاقب نے چلتی گاڑی میں روڑا اٹکا دیا تب مجھے توطیہ و تمہید میں ایک ورق لکھنا پڑا ورنہ آغاز نگارش یہاں سے ہوتا۔ یا اسد اللہ الغالب؎

بامن از جہل معراض شد نامنفعلے

کہ گرش ہجو کنم ایں بودش مدح عظیم

یہ رسالہ موسوم بہ محرق قاطع برہان جو ثاقب نے تم کو بھیجا ہے میرے کہنے سے بھیجا ہے۔ اور اس ارسال سے میرا س مدعا یہ ہے کہ اس کے معائنہ کے وقت اس کتاب کی بے ربطی عبارت پر اور میری اپنی قرابت اور نسبت ہائے حدیدہ پر نظر نہ کرو۔ بیگانہ وار دیکھو۔ اور ازروئے انصاف حکم بنو۔ بے حیف و میل اس نے جو مجھے گالیاں دی ہیں اس پر غصہ نہ کرو۔ غلطیاں عبارت کی شدت اطناب ممل کی صورت سوال دیگر جواب دیگر ان باتوں کو مطمع نظر کرو بلکہ اگر فرصت ساعدت کرے تو ان مراتب کو الگ ایک کاغذ پر لکھو اور بعد اتمام میرے پاس بھیج دو۔ میرا ایک دوست روحانی کہ وہ منجملہ رجال الغیب ہے۔ ان ہفوات کا خاکہ اڑا رہا ہے۔ نیّر رخشاں نے اس کو مدد دی ہے تم بھی بھائی مدد دو۔ اور وہ امر مبہم کہ جو تمہارے والد کی تقریر سے دل نشین نہیں ہوا یعنی قصہ چُک جانا اور دلّی آنا اس کا ماجرا مفصل و مشرح لکھ۔ دن تاریخ اپنا نام آغاز کتاب میں لکھ آیا ہوں۔ اب ارسال جواب کی تاکید کے سوا اور کیا لکھوں۔ فقط۔

 

ایضاً

میاں میں تمہارے باپ کا تابع تمہارا مطیع فرخ مرزا کا فرمانبردار مگر ابھی اٹھا ہوں اپنے کو بھی نہیں سمجھا کہ میں کون ہوں۔ آج فرخ صاحب کے نام کا رقعہ پہنچ جائے گا۔ چہہ جزو تمہارے دیے ہوئے میر مہدی مہدی حسن صاحب کو دیے اور باقی دن چڑھے اعیان مطبع جمع ہو لیں تو وہ اوراق بھی منگا دوں گا۔ غالب۔

ایضاً

شنبہ ۱۵ شعبان و فروری وقت نماز ظہر نیر اصغر سپہر سخن سرائی مولانا علائی کی خاطر نشان و دل نشین ہو کہ آج صبح کو ۵ یا ۶ گھڑی دن چڑھے دونوں بھائی صاحب تشریف لائے۔ میں گھر آیا کھانا کھایا۔ دوپہر کو تمہارا خط پایا۔ دو گھڑی لوٹ پوٹ کر جواب لکھا اور ڈاک میں بھجوا یا۔ یہ مرض جو بھائی کو ہے اس راہ سے کہ ضد صحت ہے مکروہ طبع ورنہ ہر گز موجبِ خوف و خطر نہیں میں تو بھول گیا تھا اب بھائی کے بیان سے یاد آ گیا کہ ۱۲۔ ۱۳ برس پہلے ایک دن ناگاہ یہ حالت طاری ہو گئی تھی۔ وہ موسم جوانی کا تھا اور حضرت عادی بہ فنون نہ تھے۔ تنقیہ بہ قے فوراً اور بہ اسہال بعد چند روز عمل میں آیا۔ اب سنِ کہولت استعمال افیون مزید علیہ دورہ جلد متواتر ہوا۔ اضطراب از راہِ محبت ہے ازروئے حکمت اضطراب کی کوئی وجہ نہیں۔ نظری میں یکتا حکیم امام الدین خاں وہ ٹونک۔ عملی میں چالاک حکیم احسن اللہ خاں وہ کرولی۔ رہے حکیم محمود خاں وہ ہمسایہ دیوار بدیوار حکیم غلام نجف خاں وہ دوست قدیم صادق الولا۔ حکیم بقا کے خاندان میں دو صاحب موجود۔ تیسرے حکیم منجھلے وہ بھی شریک ہو جائیں گے۔ اب آپ فرمائیے حکیم کون ہے۔ ہاں دو ایک ڈاکٹر باعتبار ہم قومی حکام نامور یا کوئی ایک آدھ بید منزوی اور گمنام۔ بہر حال خاطر جمع رکھو۔ خدا کے فضل پر نظر رکھو۔ سبحان اللہ تم مجھ سے سپارش کرو۔ امین الدین خاں کی کیا میرے پہلو میں دل یا میرے دل میں ایمان جس کو محبت بھی کہتے ہیں بقدر پرِ پشہو سرِ مور بھی نہیں۔ معالجہ حکماء کی راہ پر رہے گا۔ ندیمی اور غمخواری میں اگر قصور کروں تو گناہگار۔ میاں ایسے موقع میں رائے اطبا میں خلاف کم واقع ہوتا ہے۔ مرض مشخص۔ دوا معین۔ سوءِ مزاج ساذج نہیں مادی ہے اور مادہ بارد ہے۔ کوئی طبیب سوائے تنقیہ کے کوئی تدبیر نہ سونچے (سوچے )گا۔ تنقیہ میں سوائے مخرجات ِ بلغم اور کچھ تجویز نہ کرے گا۔ تجویز ہے کہ دو دن کے بعد تنقیہ خاص ہو اور ایارج کا مسہل دیا جائے۔ اسما و آیات شفا بخش مقرر ہیں۔ ردِّ سحر و دفع بلا ان کے ذریعہ سے متصور ہے لیکن ان ملاؤں اور عزائم خوانوں نے نہ توڑ دی ہے کچھ نہیں جانتے اور باتیں بکھانتے (بگھارتے )ہیں۔ تمہارے باپ پر کوئی سحر کیوں کرے گا۔ بیچارہ الگ ایک گوشہ میں رہتا ہے کہ جب تک خاص وہاں کا قصد نہ کرے کبھی کوئی وہاں نہ جائے۔ یہ خیال عبث۔ ہاں خیرات و مساکین سے طلب دعا اور اہل اللہ سے استمداد۔ شہر میں مساکین شمار سے باہر۔ اہل اللہ میں ایک حافظ عبدالعزیز ما بخیر شما بسلامت۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ دن اور تاریخ اوپر لکھ آیا ہوں۔

ایضاً

اقبال نشان والا شان صدرہ عزیز تر از جان مرزا علاؤ الدین خاں کو دعائے درویشانہ غالب دیوانہ پہنچے۔ سال نگارش تم کو یاد ہو گا۔ میں نے دبستان فارسی کا تم کو جانشین و خلیفہ قرار دے کر ایک سجل لکھ دیا ہے۔ اب جو چار کم اسی برس عمر ہوئی اور جانا کہ میری زندگی برسوں کیا بلکہ مہینوں کی نہ رہی۔ شاید بارہ مہینے جس کو ایک برس کہتے ہیں اور جیوں۔ ورنہ دو چار مہینے پانچ سات ہفتے دس بیس دن کی بات رہ گئی ہے۔ اپنی ثبات حواس میں اپنے دستخط سے یہ توقیع تم کو لکھ دیتا ہوں کہ فن اردو میں نظماً و نثراً تم میرے جانشین ہو۔ چاہیے کہ میرے جاننے والے جیسا مجھ کو جانتے تھے ویسا تم کو جانیں اور جس طرح مجھ کو مانتے تھے تم کو مانیں۔ کل شے ٍھالک و یبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُوالجلالِ والاِکرام۔ یکشنبہ سلخ صفر ۱۲۸۵ ہجری۔ ۲۱ جون ۱۸۶۸ ء منمقام دہلی۔

٭٭٭

 

 بنام مرزا امیر الدین احمد خاں المدعو بہ فرخ مرزا

اے مردم چشم جہاں بینِ غالب۔ پہلے القاب کے معنی سمجھ لو۔ یعنی چشمِ جہاں بینِ غالب کی پُتلی چشم جہاں بیں تمہارا باپ مرزا علاؤ الدین خاں بہادر اور پُتلی تم۔ آج میں نے تمہارا خط دیکھا۔ مجھ کو بہت پسند آیا۔ استاد کامل نہ ہونے کے با وصف تم نے یہ کمال حاصل کیا۔ آفرین صد آفرین۔ میں اپنے اور تمہارے پروردگار سے کہ وہ رب العالمین ہے یہ دعا مانگتا ہوں کہ تم کو زیادہ نہیں تو تمہارے باپ کے برابر علم و فضل اور تمہارے پردادا حضرت فخر الدولہ نواب احمد بخش خاں بہادر جنت آرامگاہ کے برابر جاہ و جلال عنایت کرے۔ میاں تمہارے دادا نواب امین الدین خاں بہادر ہیں۔ میں تو تمہارا دلدادہ ہوں۔ خبردار جمعہ کو اپنی صورت مجھے دکھا جایا کرو۔ والدعا۔ دیدار کا طالب۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام میر احمد حسین المتخلص بہ میکش

بھائی میکش آفرین۔ ہزار آفرین۔ تاریخ نے مزا دیا۔ خدا جانے وہ خرمے کس مزے کے ہوں گے جن کی تاریخ ایسی ہے۔ دیکھو صاحب؎ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔ تاریخ دیکھی اس کی تعریف کے خرمے کھائیں گے۔ اس کی تعریف کریں گے۔ کہیں یہ تمہارے خیال میں نہ آوے کہ یھ(یہ)حسن طلب ہے کہ ناحق تم دین محمد غریب کو دوبارہ تکلیف دو۔ ابھی رقعہ لے کر آیا ہے ابھی خرمے لے کر آوے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اگر بفرض محال تم یوں ہی عمل میں لاؤ گے اور میاں دین محمد صاحب کے ہاتھ خرمے بھجواؤ گے تو ہم بھی کہیں گے تازہ شے بہتر۔ بارہ سے بہتر۔

ایضاً

میاں عجیب اتفاق ہے نہ میں تمہارے دیکھنے کو آسکتا ہوں نہ تم میرے دیکھنے کو قدم رنجہ فرما سکتے ہو۔ وہ قدم رنجہ کہاں سے کرو سراپا رنجہ ہو۔ لاحول ولا قوۃ۔ یہ تعطیل کے دن کیا ناخوش گزرے۔ یوسف مرزا سے میر سرفراز حسین سے تمہارا حال سن لیتا ہوں اور رنج کھاتا ہوں۔ خدا تمہارے حال پر رحم کرے اور تم کو شفا دے۔ خواہش یہ ہے کہ ناتوانی کا عذر نہ کرو اور اپنا حال اپنے ہاتھ سے لکھو۔ والدعا۔ اسد۔

٭٭٭

 

بنام جناب حکیم غلام مرتضیٰ خاں صاحب

خانصاحب جمیل المناقب حکیم غلام مرتضیٰ خاں صاحب کو غالب دردمند کا سلام۔ خوب یاد کیجیئے کہ میں نے کبھی کسی امر میں آپ کو تکلیف نہیں دی۔ اب ایک طرح کی عنایت کا سائل ہوں حامل ہذا المکتوب پنڈت جے نراین میرا خط لے کر حاضر ہوتے ہیں ان کے بزرگ نواب احمد بخش خاں کی سرکار میں مناصب عالیہ اور عہدہ ہائے جلیلہ رکھتے تھے۔ اب موقع یھ(یہ)آیا ہے کہ جستجوئے نوکری میں پٹیالے آتے ہیں۔ آپ کو میرے سر کی قسمجہاں تک ہو سکے سعی کر کے ان کو موافق ان کی عزت کے کوئی منصب کوئی عہدہ دلوا دو گے تو میں یہ جانوں گا کہ تم نے مجھے نوکر رکھوا دیا ہے۔ بڑا احسان مند ہوں گا۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ ۱۳ شوال ۱۲۸۱ ہجری۔

٭٭٭

 

بنام جناب حکیم غلام رضا خانصاحب

نور دیدہ و سرورِ دل و راحت جاں اقبال نشان حکیم غلام رضا خاں کو غالب نیم جاں کی دعا پہنچے۔ تم سے رخصت ہو کر اور تمہیں خدا کو سونپ کر روانہ رامپور ہوا۔ موسم اچھا تھا۔ گرمی گزر گئی تھی۔ جاڑا ابھی چمکا نہ تھا۔ عالم اعتدال آب و ہوا۔ سایہ و سر چشمہ جا بجا۔ آرام سے رام پور پہنچا۔ نواب صاحب حال بمقتضائے الولد سرّلابیہ حسن ِ اخلاق میں نواب فردوس آرامگاہ کے برابر بلکہ بعض شیوہ و روش میں ان سے بہتر ہیں۔ بمجرد مسند نشینی کے غلہ کا محصول یک قلم معاف کیا۔ علی بخش خانساماں کو تیس ہزار روپیہ بابت مطالبہ سرکاری بخش دیا۔ مفصل حالات بذل و نوال عندالملاقات زبانی کہوں گا۔ سنو صاحب میں فقیر آزادہ کیش ہوں۔ دنیا دار نہیں۔ مکار نہیں۔ خوشامد میرا شعار نہیں۔ جس میں جو صفات دیکھتا ہوں وہ بیان کرتا ہوں۔ نواب صاحب تو گھر بیٹھے مجھے سو روپیہ مہینا دیتے ہیں تم مجھے کیا دیتے ہو جو تمہارے باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر بمثل میرا کوئی صلبی بیٹا ایسا ہوتا جیسے تم ہو تو میں اس کو اپنا فخر و شرف جانتا۔ علم و عقل و خلق و صدق و سداد و حلم کے جامع۔ تورّع و زہد و تقوی کے حاوی۔ علم اخلاق میں حکمائے روحانی نے سعادت کے جو مدارج دیکھے ہیں وہ سب تم میں پائے جاتے ہیں۔ پروردگار تم کو عمر طبعی عطا کرے اور دولت و اقبال شمار سے زیادہ دے ؎ انشاءا للہ کہ ہم چنین خواہد بود۔ غالب۔

٭٭٭

 

بنام جناب ماسٹر پیارے لال صاحب

شفیق مکرم بابو پیارے لال صاحب کو سلام۔ کل رقعہ مع مسودہ بابو چندو لال صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ اور آپ مسودہ کرنے پر متوجہ ہوئے ہوں گے۔ جلدی نہیں آپ بغور اچھی طرح تامل سے لکھیئے۔ جب صاف ہو جائے گا۔ مجھے دیجیئے گا۔ میں اپنی مہر کر کے ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ ابھی ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس سے آیا ہوں وہ کہتے تھے کہ کل لارڈ صاحب آئیں گے اور پرسوں شملے کو تشریف لے جائیں گے۔ بطریق اطلاع آپ کو لکھا ہے یہ منظور نہیں کہ عرضی آج تیار ہو جاوے اور کل میں آپ دوں۔ ڈاک میں ارسال کرنا منظور ہے۔ راقم اسد اللہ خاں غالب۔ ۳۰ اپریل ۱۸۶۶ء۔

ایضاً

کیوں صاحب ہم سے ایسے خفا ہو گئے کہ ملنا بھی چھوڑا۔ خیر میری تقصیر معاف کرو اور اگر ایسا ہی گناہ عظیم ہے کہ کبھی نہ بخشا جائے گا تو وہ گناہ میرا مجھ پر ظاہر کر دو تاکہ میں اپنے قصور کی اطلاع پاؤں۔ برخوردار ہیرا سنگہ(سنگھ)تمہارے پاس پہنچتا ہے اور یہ تمہارا دست گرفتہ ہے۔ رہتک میں تم نے اسے نوکر رکھوا دیا تھا۔ خیر وہاں کی صورت بگڑ گئی۔ اب یہ غریب بہت تباہ ہے اور امور معاش میں سخت دل تنگ۔ تمہیں دستگیری کرو تو یہ سنبھلے ورنہ اس کا نقش ِ ہستی صفحہ دہر سے مٹ جائے گا۔ والسلام۔ عنایت کا طالب۔ غالب۔

 

ایضاً

فرزند ارجمند اقبال بلند بابو ماسٹر پیارے لال کو غالبِ ناتوان نیم جان کی دعا پہنچے۔ لاہور پہنچ کر تم نے مجھے خط نہ بھیجا اس کی میں جتنی شکایت کروں بجا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ میں تمہارا عاشق ہوں اور کیونکر نہ عاشق ہوں۔ صورت کے تم اچھے۔ سیرت کے تم اچھے۔ شیوہ و روش کے تم اچھے۔ خالق نے خوبیاں تم میں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں۔ اگر میرا صلبی فرزند ایسا ہوتا تو میں اس کو اپنا فخرِ خاندان سمجھتا اور اب تم جس قوم اور جس خاندان میں ہو۔ اس قوم اور اس خاندان کے ذریعہ افتخار ہو۔ خدا تم کو سلامت رکھے اور عمر و دولت و اقبال و جاہ و جلال عطا کرے۔ میاں تم کو یاد ہے کہ میں نے تم کو سابق میں اس سے نور چشم مرزا یوسف علی خاں کے باب میں کچھ لکھا ہے میرے اختلالِ حواس کا حال تم جانتے ہو۔ خدا جانے اس وقت کس خیال میں تھا اور میں کیا لکھ گیا وہ جو کچھ لکھا وہ سہل انکاری تھی اب جو کچھ لکھتا ہوں یہ راست گفتاری ہے۔ مختصر یہ کہ مرزا یوسف علی خاں عزیز بڑے عالی خاندان اور بڑے بزرگ قوم کے ہیں۔ شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ شعر خوب لکھتے ہیں۔ صاحب استعداد ہیں۔ علم ان کو اچھا ہے یہ بھی گویا فرقہ اہل علم و فضل میں سے ہیں اور ترقی کے قابل ہیں۔ نور چشم مولوی نصیر الدین کو میری دعا کہنا۔ محررہ ۳۰ جنوری ۱۸۶۸ ء۔

٭٭٭

 

بنام منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر

برخوردار منشی جواہر سنگہ(سنگھ)کو بعد دعائے دوام ِ عمر و دولت معلوم ہو۔ خط تمہارا پہنچا۔ خیرو عافیت تمہاری معلوم ہوئی۔ قطعے جو تم کو مطلوب تھے اس کے حصول میں جو کوشش ہیرا سنگہ(سنگھ)نے کی ہے۔ میں تم سے کہہ نہیں سکتا۔ نری کوشش نہیں۔ روپیہ صرف کیا روپیہ جو تم نے بھیجے تھے وہ اور پچیس تیس روپیہ اور صرف کیے پانچ پانچ اور چار چار اور دو دو روپیہ کو قطعے مول لیے اور بنوائے۔ خرید میں روپیہ جدا دیے اور بنوانے میں روپیہ جدا لگائے۔ دوڑتا پھرا۔ حکیم صاحب کے پاس کئی بار جا کر حضور والا کا قطعہ لایا۔ اب دور رہا ہے۔ ولی عہد بہادر کے دستخطی قطعہ کے واسطے یقین ہے کہ دو چار دن میں وہ بھی ہاتھ آوے اور بعد اس قطعہ کے ہاتھ آنے کے وہ سب کو یکجا کر کے تمہارے پاس بھیج دے گا۔ مدد میں بھی اس کی کر رہا ہوں لیکن اس نے بڑی مشقت کی۔ آفرین صد آفرین۔ پندرہ روپیہ میں سے ایک روپیہ اپنے صرف میں نہیں لایا۔ اور ماں کو عاجز کر کے اس سے بہت روپیہ لیے جب سب قطعہ تمہارے پاس پہنچیں گے تب اس کا حسن خدمت تم پر ظاہر ہو گا۔ کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی۔ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھا تھا کہ اسی ہفتہ بھیجوں گا۔ والدعا۔ اسد اللہ ۔

ایضاً

برخوردار کامگار سعادت و اقبال نشان منشی جواہر سنگہ(سنگھ) جوہر کو بلب گڈہ (گڑھ) کی تحصلیداری مبارک ہو۔ پیپلی سے نوح آئے نوح سے بلب گڈھ(گڑھ) گئے۔ اب بلب گڈھ(گڑھ)سے دلی آؤ گے انشاءاللہ ۔ سنو صاحب حکیم مرزا جان خلف الصدق حکیم آغا جان صاحب کے تمہارے علاقہ تحصیلداری میں بصیغہ طبابت ملازم سرکار انگریزی ہیں ان کے والد ماجد میرے پچاس برس کے دوست ہیں۔ میں ان کو اپنے بھائی کے برابر جانتا ہوں اس صورت میں حکیم مرزا جان میرے بھتیجے اور تمہارے بھائی ہوئے۔ لازم ہے کہ ان سے یکدل و یکرنگ رہو اور ان کے مددگار بنے رہو۔ سرکار سے یہ عہدہ بصیغہ دوام ہے۔ تم کو کوئی نئی بات پیش کرنی نہ ہو گی۔ صرف اسی امر میں کوشش رہے کہ صورت اچھی بنی رہے۔ سرکار کی خاطر نشان رہے کہ حکیم مرزا جان ہوشیار اور کارگزار آدمی ہے۔ ۲ فروری ۱۸۶۴ء۔

٭٭٭

 

بنام منشی ہیرا سنگھ صاحب

نور چشمِ غالبِ غم دیدہ منشی ہیرا سنگہ(سنگھ) کو دعا پہنچے۔ تمہارا خط محررہ ۱۱ جنوری پہنچا۔ دورہ کا سفر بارے تمام ہو ا اب جاڑوں کے دن آرام سے کاٹو۔ گھبراؤ نہیں۔ سال بھر پڑھائے جاؤ۔ جب لڑکا شُد و بُدسے آگاہ ہو جائے تب ڈپٹی کمشنر سے ترقی کی درخواست کرنا۔ اگر نائب تحصیلدار ہو جاؤ گے تو رفتہ رفتہاکسٹرا اسسٹنٹہونے کی گنجایش ہے۔ مدرسہ کے علاقہ میں تو نوکر نہیں ہو جو بابو پیارے لال کو تمہاری بدلی کا اختیار ہو۔ زنہار اس باب میں بابو صاحب سے نہ کہوں گا۔ اور نہ یہ خط تمہارا منشی جواہر سنگہ(سنگھ)کو دکھلاؤں گا۔ ناحق الجھو کیوں۔ اس الجھنے سے فائدہ کیا۔ خاطر جمع رکھو ؎کہ رحم نہ کند مدعی خدا بکند۔ میں ویسا ہی ہوں جیسا تم دیکھ گئے ہو۔ اور جب تک جیوں گا ایسا ہی رہوں گا۔ غالب۔ ۱۴ جنوری ۱۸۶۸ء۔

٭٭٭

 

بنام منشی بہاری لال المتخلص بہ مشتاق

سعادتمند باکمال منشی بہاری لال کو یمین ِ تاثیر دعائے غالب خستہ حال عمر و دولت و اقبال فراواں ہو۔ منشی من بھاون لال تمہارے والد ماجد کا انتقال موجب رنج و ملال ہوا اگرچہ اس رہبر و جادہ فنا سے میری ملاقات نہ تھی لیکن تمہارے تنہا اور بے مربی رہ جانے کا میں نے بہت غم کھایا۔ خدا انکو بخشے اور تم کو صبر عطا کرے۔ غالب۔ ۲۶ فروری ۱۸۶۸ ء۔

ایضاً

برخوردار بہاری لال مجھ کو تم سے جو محبت ہے اس کے دو سبب ہیں ایک تو یہ کہ تمہارے خال فرخفال منشی مکند لال میرے بڑے پرانے یار ہیں۔ خوش خو۔ شگفتہ رو۔ بذلہ گو۔ دوسرے تمہاری سعادتمندی اور خوبی اور حلم اور بقدر حال علم اردو نظم و نثر میں تمہاری طبع کی روانی اور تمہاری قلم کی گل فشانی مگر چونکہ تم کو مشاہدہ اخبار اطراف اور خود اپنے مطبع کے اخبار کی عبارت کا شغل تحریر ہمیشہ رہتا ہے بہ تقلید اور انشا پردازوں کے تمہاری عبارت میں بھی املا کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں تم کو جا بجا آگاہ کرتا رہتا ہوں خدا چاہے تو املا کی غلطی کا ملکہ بالکل زائل ہو جائے۔ مگر بہاری لال اس نونہال ِ باغِ دولت یعنی حکیم غلام رضا خاں کے دوامِ صحبت کو اپنے طالع کی یاور ی سمجھ۔ یہ دانشمند ستودہ خوئے امیر نامور ہونے والا اور مراتب اعلیٰ کو پہنچنے والا ہے۔ اس کی ترقی کے ضمن میں تمہاری بھی ترقی ہونے والی ہے ؎

بیا دامان ِ صاحب دولتے گیر

کہ مرد از صاحبِ دولت شود پیر

میاں سچ تو یوں ہے کہ اکمل المطابع اجمل المطابع بھی ہے۔ حکیم غلام نبی خاں منجملہ خوبانِ روزگار ہیں۔ نکو خوئے اور نیکو کردار ہیں۔ میر فخر الدین آزاد منش اور سعادت مند نوجوان ہیں۔ کم گفتار اور مرنج و مرنجان ہیں۔ تم چاروں شخص پیکر صدق و وفا و مہر و ولا کے چار عنصر ہو۔ جہاں آفرین تم چاروں صاحبوں کو خوشنود و دل شاد اور اکمل المطابع کو با رونق اور آباد رکھے۔ غالب۔ ۷ جون ۱۸۶۸ء۔

٭٭٭

 

خاتمہ کتاب

خاتمہ کتاب اردوئے معلیٰ ریختہ کلک بلاغت انتما سخندان بے مثال معنی سنجنازک خیال شاعر نغز گوئے دلاویز بیان ناثر جادو طراز و شیریں بیاں مرزا قربان علی بیگ خانصاحب سالک شاگرد مولانا غالب مرحوم

شیدائیان شاہد دلفریب سخن ہر وقت اس کے خریدار اور شیفتگان حسن معانی ہر دم اس کے خواستگار رہتے ہیں کہ اچھا کلام جو مطبوع طبائع ناظرینِ خردپیشہ اور پسند خواطر شایقین درست اندیشہ ہو میسر آئے۔ صاحب نظر ان دیدہ ور جن کی آنکھیں شبستانِ معانی کی سیر سے سیر ہوتی ہیں۔ مشاہدہ ماہ پیکراں مہر تمثال سے تسلی نہیں پاتے۔ اور نگین شاہان نکتہ پرور جن کی دماغ میں گلستانِ سخن کی بو بھر جاتی ہے۔ ریاحین ِ باغِ ارم کے سونگھنے کو نہیں جاتے۔ اور پھر وہ کلام اور وہ سخنجو نیّر اعظم سپہر سخنوری و ماہ منیر آسمان معنی گستری شہسوار عرصہ نکتہ دانی۔ یکہ تاز میدان جادو بیانی فرمانروائے کشور نازک خیالی۔ زینت افزائے اورنگِ بیمثال۔ ناثر نثری رفعت شاعر شعریرتبت چمن آرائے گلستانِ فصاحت۔ حدیقہ پیرائے خیابانِ بلاغت۔ فروغ بزم آفرینش، نور دیدہ بینش۔ استاد یگانہ۔ مسلّم الثبوت زمانہ۔ رشک عرفی و غیرتِ طالب۔ جناب استادی نجم الدولہ دبیر الملک اسد اللہ خاں بہادر نظام جنگ غالبؔ کی زبان معجز بیان پر آیا ہوا اور خامہ پرویں افشاں سے نکلا ہوا۔ علی الخصوص یہ سفینہ بے نظیر و مجموعہ دلپذیر جس کا ہر حرف باعث نظارتِ چشم نظارگیاں اور ہر لفظ سبب تازگی دیدہ مشتاقان ہے۔ ہر سطر کو دریائے موج خیز ِ معانی اور ہر فقرہ کو گلزار ہمیشہ بہار رنگیں بیانی کہنا چاہیے۔ عبارت سے سلسبیلکی سلاست پیدا۔ مضامیں سے آبِ کوثر کی لطافت ہویدا۔ کمند انداز رسا میں گردن معانی شکار شیرینی ادا پر ادائے شیریں لباں نثار۔ غور کیجیئے کہ فراہم آنا اس نسخہ بے بدل کا اور طبع ہونا اس کتاب بے مثل کا کیونکر نہ غنیمت سمجھا جائے۔ ناظرین کو لطف ارزانی و شایقین کو مذاق سخن کی فراوانی مبارک۔ کیونکر شکر فراہمی نہ ادا کیا جائے۔ ہاں اے سلک اندوہگیں کیسا شکریہ کیا کلام ہے اے بے خبر گریہ و ہنگام ِ ماتمِ عام ہے ؎

باید چو شمع در دل شبہا گریستن

سرگرم بودن از تہٖ(تہہ)دل با گریستن

ناسازگار جسم مرانا گداختن

ناخوش گوار چشم مرا ناگریستن

این ست اگر تراوش سر چشمہ حیات

باید بعمر ِ خضر و مسیحا گریستن

ہنوز یہ نامہ دلاویز تمام و کمال تشریف طبع نہ پا چکا تھا کہ سپہر بے مُہر نے بتاریخ ۲ ذیقعدہ ۱۲۸۵ ہجری جامہ حیات جناب مغفور و مرحوم کو چاک کیا۔ ہے ہے آفتاب علم و کمال کو رنج خسوف دکھایا۔ ماہتاب فضل و ہنر کو صدمہ کسوف میں پھنسایا؎

اس ستمگار سے کوئی پوچھے

ہاتہ(ہاتھ)اس واقعہ سے کیا آیا

نہ سوجھاکہ عالم میں تاریکی چھا جائے گی زمانہ کو تسکین ہاتھ نہ آئے گی۔ آنکھیں اشکبار دل بے قرار ہوں گے مگر؎

نیشِ عقرب نہ از پے کین است

مقتضائے طبیعتش این ست

اپنی عادت سے ناچار ہے۔ دشمنی اہل کمال اس کا شعرا ہے۔ کوئی مبتلائے آفت ہو۔ خواہ گرفتار مصیبت ہو۔ اس کو اپنی گردش کا رنگ دکھانا۔ کسی نہ کسی یگانہ آفاق کو نقش ِ ہستی صفحہ روزگار سے مٹانا۔ سخن آرائے نوحہ سرائی سے کیونکر بدل ہو۔ سخن سنجی کے عوض کبھی نالہ پُر درد اور کبھی آہِ سرد لب پر ہے۔ کہیئے جب یہ بارِ گراں ِ اندوہ دل پر آئے۔ دل کی مجالہ ے کہ بیٹھ نہ جائے۔ کیسی تاریخ خاتمہ کتاب۔ کیسا سالِ وفات۔ ہاں گفتگو کو مختصر کرتا ہوں اور ایک قطعہ لکھتا ہوں۔

قطعہ

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا

لب پہ نالوں کا اژدھام ہوا

صدمہ مرگِ حضرت ِ غالب

سببِ رنج خاص و عام ہوا

ہے یہی سالِ طبع سالِ وفات

آج ان کا سخن تمام ہوا

تاریخ طبع حصہ اول اردوئے معلّیٰ طبعزاد منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر تخلص

چو اردوئے معلّیٰ گشت تالیف

ہمانا یک جہاں گردید طالب

پے سال مسیحائی طبعش

بگو جوہرؔ خہے اردوئے غالبؔ

٭٭٭

ٹائپنگ: سید اویس قرنی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید