FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

استشراق اور مستشرقین

 

 

 

عبدالحئی عابد

 

زیر نگرانی: ڈاکٹر عبدالرشید رحمت

شعبہ علوم اسلامیہ ،  یونیورسٹی آف سرگودھا

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ابتدائیہ

سب سے پہلے تو حمد و ثنا ہے اس رب جلیل کی جس نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کے ذریعے آخری آسمانی ہدایت کی نعمت سے نوازا اور ہمیں اس بار امانت کے قابل سمجھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تا قیامت اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے ، ہماری راہ نمائی فرمائے ،  شیطان اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرمائے اور ہمیں صبر و ثبات اور ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے۔

زیر نظر مقالہ استاد مکرم جناب ڈاکٹر عبدالرشید رحمت صاحب کی ہدایت کے مطابق ایم فل ، سیکنڈ سمیسٹر کے پرچہ۔۔’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے حوالے سے ایک تعارف ہے ، جس میں استشراق کا مفہوم ،  مستشرقین کے عقائد و نظریات کا پس منظر، اسلام کے بارے میں مستشرقین کے عمومی رویوں کا بیان اور اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مستشرقین کا تعلق زیادہ تر مغرب سے ہے اور ان کا مذہبی پس منظر عیسائیت اور یہودیت کا ہے۔ یہ دونوں قومیں اپنے آپ کو خدا کی چہیتی قومیں قرار دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نجات کے لیے بس یہودی یا عیسائی ہو جانا ہی کافی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ، یہ دونوں اقوام اپنی آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی پیش گوئیوں کی روشنی میں آخری زمانے میں آنے والے نبی کی منتظر تھیں۔ لیکن اللہ نے حضرت ابراہیم کے ساتھ کیے گئے وعدے کو دوسرے انداز میں پورا کیا۔یہود و نصاریٰ کی سرکشی، ظلم، نفاق،  انبیاء کے ساتھ غلط رویوں ،  کتاب اللہ میں تحریف اور احکام خدا کے ساتھ مذاق کی وجہ اور اصلاح کی ساری کوششوں کی ناکامی کے بعد کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا تھا۔اس نے نبوت و رسالت کے عظیم منصب کو بنی اسرائیل سے واپس لے کر بنو اسماعیل کے ایک صادق و امین اور صالح ترین  فرد حضرت محمد ﷺ  کے سپرد کر دیا۔ اس پر یہود، باوجود اس کے کہ ساری نشانیوں سمیت آپ کو نبی کی حیثیت سے پہچان گئے تھے ، آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور اس سلسلے میں تمام اخلاقی حدود کو پامال کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تفصیل سے ان اقوام پر اپنے

انعامات اور ان کی بدکرداری اور نافرمانی کا ذکر کیا ہے۔

ان دونوں اقوام نے آغاز اسلام سے لے کر اب تک ہمیشہ اسلام کی مخالفت اور اسلامی تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلانے کی سعی و جہد کی ہے۔ اپنی کتابوں میں تحریف کر کے ہر اس آیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی صورت میں اسلام اور حضرت محمد ﷺ کے حق میں تھی۔ اسلام  کے افکار و نظریات میں تحریف کرنے ، غلط عقائد کو پھیلانے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو غلط ثابت کرنے کی

کوشش کی ہے۔ہم نے اس مقالے میں انہی چیزوں کو واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے۔

 

عبدالحئی عابد

 

 

استشراق کی لغوی تحقیق

 

’’استشراق‘‘  عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا سہ حرفی مادہ ’’شرق‘‘ ہے ، جس کا مطلب ’’روشنی‘ ‘اور’’ چمک ‘‘ ہے۔اس لفظ کو مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح شرق اور مشرق ،  سورج طلوع ہونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ابن منظور لکھتے ہیں :

’’الشَّرْق: الضوء والشرق الشمس

وروی عمرو عن ابیہ انہ قال الشرق الشمس بفتح الشین والشِّرق الضوء الذی

یدخل من شق الباب۔

شرقت الشمس تشرق شروقا وشرقا طلعت و اسم الموضع المشرق‘‘۔[i]

لفظ ’’شرق۔‘‘ کو جب باب استفعال کے وزن پر لایا جائے تو’’ ا،  س،  ت‘‘ کے اضافے سے ’’ استشراق ‘‘  بن جاتا ہے۔اس طرح ا  س کے اندر طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔گویا ’’استشراق ‘‘ سے مراد مشرق کی طلب ہے۔ عربی لغات کی رو سے مشرق کی یہ طلب علوم شرق ، آداب ،  لغات اور ادیان تک محدود ہے۔یہ ایک نیا لفظ ہے جو قدیم لغات میں موجو د نہیں ہے۔انگریزی زبان میں ’’شرق‘‘ کے لیے "Orient”  اور ’’استشراق ‘‘ کے لیے "Orientalism” اور مشتشرقین کے لیے۔”Orientalists”کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔اردو زبان میں اس کے لیے ’’شرق شناسی‘‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے ، جو اس کے مفہوم و مقصد کو پوری طرح سے واضح کرنے کے قابل نہیں ہے۔مغربی لغات میں استشراق صرف جغرافی مفہوم میں مشرق کی طلب کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ روشنی ،  نور  اور ہدایت کی طلب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر  مازن بن صلاح مطبقانی نے لفظ ’’Orient‘‘کے بارے میں سید محمد شاہد کی تحقیق کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے :

’’شرق’’Orient‘‘ انہ یشار الی منطقۃ الشرق المقصودہ بالدراسات الشرقیہ بکلمۃ۔ تتمیز بطابع معنوی و ھو’’Morgenland‘‘ و تعنی بلاد الصباح ،  و معروف ان الصباح تشرق فیہ الشمس،  و تدل ھذہ الکلمۃعلی تحول من المدلول الجغرافی الفلکی الی الترکیز علی معنی الصباح الذی یتضمن من النور والیقظۃ، وفی مقابل ذالک نستخدم فی اللغۃ کلمۃ’’Abendland‘‘ وتعنی بلاد  المساء لتدل علی الظلام و الراحۃ۔۔۔وفی اللاتینیۃ تعنی کلمۃ ’’Orient‘‘ یتعلم او یبحث عن شیء ما، و بالفرنسیۃ تعنی کلمۃ ’’Orienter‘‘ وجہ او ھدیٰ او ارشد۔‘‘[ii]

 

 

استشراق کا مفہوم

 

استشراق کا عام فہم اور فوری طور پر ذہن میں آنے والا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے رہنے والے علماء و مفکرین جب مشرقی علوم و فنون کو اپنی تحقیق و تفتیش کا مرکز و محور بنائیں گے تو اسے استشراق کہا جاتا ہے۔عام طور پران علوم و فنون میں ہر قسم کے علوم شامل کیے جاتے ہیں۔مثلاً ،  عمرانیات، تاریخ ،  بشریات،  ادب،  لسانیات،  معاشیات ،  سیاسیات، مذہب وغیرہ۔ اگرچہ بظاہر استشراق میں کوئی منفی مفہوم نہیں پایا جاتا ، اور مغربی مفکرین  اس سے مشرقی علوم و فنون کا مطالعہ اور ان کی تحقیق و تفتیش ہی مراد لیتے ہیں۔ جیسے کہ ایڈورڈ سوید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

’’شرق شناسی (استشراق)ایک سیاسی موضوع ہی نہیں یا صرف ایک شعبہ علم ہی نہیں ،  جس کا اظہار تمدن، علم یا اداروں کی صورت ہوتا ہے۔ نہ یہ وسیع و عریض مشرق کے بارے میں کثیر تعداد میں منتشر تحریروں پر مشتمل ہے اور نہ یہ کسی ایسی فاسد مغربی سازش کی نمائندگی یا اس کا اظہار ہے جس کا مقصد مشرقی زمین کو زیر تسلط رکھنا ہو بلکہ یہ ایک جغرافی شعور ،  معلومات اور علم کا جمالیاتی اور عالمانہ، معاشی، عمرانی،  تاریخی اور لسانیات کے متعلق اصل تحریروں میں ایک طرح کا پھیلاؤ ہے۔‘‘ [iii]

اگر ہم اس بات کو مان بھی لیں کہ استشراق کا مقصد صرف مشرق ،  اس کے علوم ،  روایات اور انفرادی و اجتماعی رویوں کا مطالعہ ہے تو ان مذکور شعبہ جات کی حد تک یہ رائے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اسلام کا ذکر آتا ہے تو مغرب کی ساری اخلاقیات،  علمی روایات،   انصاف ،  رواداری سب کچھ آن واحد میں کہیں کھو جاتا ہے۔ اور اس بات سے بھی مفر نہیں کہ مشرق اور اسلام کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ نہ مشرق کا ذکر اسلام کے بغیر ممکن ہے اور نہ اسلام کا ذکر مشرق کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے استشراق کے تمام مراحل میں مغربی مفکرین کا سابقہ اسلام سے پڑ  تا رہا اور وہ اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے رہے۔’’ استشراق ‘‘کا یہ لفظ اختیار کرنے کے پس پشت اگرچہ کوئی خاص مقصد یا سوچ کارفرما نہیں تھی،  لیکن اتفاق سے یہ لفظ مستشرقین کے لیے بے حد موزوں اور ان کی نیتوں کی صحیح وضاحت کرتا ہے۔ باب استفعال کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ثلاثی مجرد کو مزید فیہ میں لایا جائے تو اس کے اندر تکلف کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔یعنی کسی کا م یا امر کو بتکلف سر انجام دیا جائے اور پس منظر میں کچھ منفی مقاصد  بھی ہوں۔

عام طور پر استشراق کا جو مفہوم اہل علم میں مشہور ہے وہ یہی ہے کہ مغربی مفکرین کا مشرقی علوم کے مطالعے اور تحقیق و تفتیش کا نام استشراق ہے۔جدید لغات میں بھی اس کا یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ورڈ ویب انگلش ڈکشنری کے مطابق:

"The scholarly knowledge of Asian cultures and languages and people”[iv]

’’ایشیائی ثقافت اور زبانوں کے عالمانہ مطالعے کا نام استشراق ہے۔‘‘

عربی زبان کی لغت’ المنجد ‘کے مطابق:

العالم باللغات والاٰداب والعلوم الشرقیۃ والاسم الاستشراق۔[v]

’’مشرقی زبانوں ، آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام

استشراق ہے۔‘‘

ان تمام تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی علوم و ثقافت اور ادب کا مطالعہ استشراق کہلاتا ہے۔لیکن اگر اس مفہوم کو مان لیا جائے تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت اسلام کے علاوہ دو بڑ  ے مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہیں۔ ان دونوں  مذاہب کے انبیاء اور ان کے ابتدائی پیروکاروں کا تعلق مشرق سے ہے۔تورات و انجیل میں بیان کیے گئے تمام حالات و واقعات اور مقامات کا تعلق بھی مشرق سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود بائیبل یا عیسائیت و یہودیت کے عالمانہ مطالعے کو کوئی بھی استشراق کے نام سے موسوم نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق کی اس تحریک کے مقاصد سراسر منفی ہیں ، مستشرقین اپنے ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ نہیں ، بلکہ ان تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلانا، مسلمانوں کو گم راہ کرنا اور غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔ لفظ استشراق کی کوئی قدیم تاریخ نہیں ہے۔ یہ ایک نیا لفظ ہے جو پرانی لغات میں موجو د نہیں ہے۔اے جے آربری (Arthur John Arberry۱۹۰۵۔۱۹۷۹)کے مطابق لفظ استشراق ’’Orientalist‘‘ پہلی بار۱۶۳۸ء میں یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے استعمال ہوا۔[vi]

میکسم روڈنسن’’Maxime Rodinson‘‘(۱۹۱۵۔۲۰۰۴)کے مطابق استشراق کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۸۳۸ء میں داخل ہوا اور فرانس کی کلاسیکی لغت میں اس کا اندراج ۱۷۹۹ء میں ہوا۔[vii]

 

 

تحریک استشراق کا پس منظر

 

اگرچہ لفظ استشراق نومولود ہے ،  لیکن تحریک استشراق کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔اہل مغرب کی اسلام دشمنی کی تاریخ کا آغاز حضرت محمدﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اہل مغرب سے یہاں ہماری مراد اہل کتاب یہود و نصاریٰ ہیں جو مشرکین بنی اسماعیل  کے بعد اسلام کے دوسرے مخاطب تھے۔ یہود و نصاریٰ کی کتب اور صحائف میں آخری زمانے میں آنے والے ایک نبی کا ذکر بڑ  ی صراحت  اور واضح نشانیوں کے ساتھ موجود تھا۔عہد نامہ قدیم میں ہے :

’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ انھیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔اگر کوئی شخص میرا کلام جسے وہ میرے نام سے کہے گا،  نہ سنے گا تو میں خود اس سے حساب لوں گا۔‘‘[۲][viii]

عیسائی علما اس آیت کا مصداق حضرت عیسیٰ کو قرار دیتے ہیں۔لیکن حضرت عیسیٰ کسی طرح بھی حضرت موسیٰ کی مانند نہیں تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تخلیق،  حیات مبارکہ  اور  وفات کے لحاظ سے حضرت موسیٰ سے مکمل طور پر مختلف تھے۔ صرف حضرت محمد ﷺ ہی پیدائش،  شادی،  اولاد،  وفات اور شریعت ،  ہر طرح سے ان کے مماثل تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واذقال عیسیٰ ابن مریم یٰبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التورٰہ و مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد فلما جاء ھم بالبینٰت قالواھذا سحر مبین۔ (الصف ۶۱:۶)

’’اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ،  اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوش خبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔پھر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے ،  یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘

اسی طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب الفاظ اس طرح سے ہیں :

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں ایک اور مددگار بخشے گا تاکہ وہ ہمیشہ تک

تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ (یوحنا  ۱۴:۱۶۔)

اسی طرح انجیل یوحنا کے اگلے باب میں لکھا ہے :

’’جب وہ مددگار یعنی روح حق آئے گا جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا۔(یوحنا  ۱۵:۲۶۔)

انجیل کے یونانی نسخوں میں ’’مددگار‘‘ کے لیے لفظ  "Paracletos”  استعمال ہوا ہے ، جب کہ انگریزی نسخوں میں  "Paracletos ” کا ترجمہ "Comfortor”  مددگار کر دیا گیا ہے۔جب کہ "Paracletos”  کا صحیح ترین ترجمہ’’A kind  friend۔  ‘‘  یا  ’’رحمۃ للعالمین‘‘  ہو سکتا ہے۔  لیکن اگر ہم قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو یہ لفظ اصل میں "Paracletos” کے بجائے "Periclytos” ہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں ’’احمد یا محمد‘‘  اور انگریزی میں "the praised one”ہے۔

قوم یہود کو نبی کریم ﷺ سے انتہائی درجے کا حسد تھا۔ وہ اپنی کتابوں اور انبیاء بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی روشنی میں ایک آنے والے نبی کے انتظار میں تھے۔ ان کو اس حد تک نبی کی آمد اور آمد کے مقام کا اندازہ تھا کہ انھوں نے مدینہ کو اپنا مرکز بنا لیا تھا اور عربوں کو اکثر یہ بات جتاتے تھے کہ ہمارا نبی آنے والا ہے اور ہم اس کے ساتھ مل کر عرب پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ما عرفوا کفروا بہ۔     (البقرہ ۲:۸۹)

’’اور پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، تو وہ چیز جسے یہ خوب پہچانتے تھے ،  جب ان کے پاس آ پہنچی تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کے لحاظ سے حضرت محمد ﷺ کو پورے یقین کے ساتھ بطور نبی جانتے اور پہچانتے تھے۔ ارشاد ہے :

الذین آتینٰھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق و ھم یعلمون۔ (البقرۃ۲:۱۴۶)

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (محمدﷺ) کو اس طرح سے پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ، مگر ان میں سے  ایک  فریق سچی بات کو جانتے  بوجھتے ہوئے  چھپاتا رہتا ہے۔‘‘

بنی اسرائیل اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم سمجھتے تھے ، اور اس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ اپنی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود وہ جنت میں جائیں گے اور یہ کہ وہ خدا کی چہیتی قوم ہیں۔ چنانچہ جب ان کی تمام تر خوش گمانیوں کے برعکس اللہ نے اپنے آخری نبی ﷺ کو بنی اسماعیل میں مبعوث کر دیا تو یہود نے فرشتہ جبرائیل کو اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انھوں نے دانستہ، وحی بجائے یہود پر اتارنے کے ، بنی اسماعیل کے ایک فرد محمد ﷺ پر نازل کر دی ہے۔چنانچہ اس جلن اور حسد کی وجہ سے انھوں نے آپ ﷺ کا انکار کر دیا۔قرآن مجید نے ان کی اس حرکت کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ مصدقا لما بین یدیہ و ھدی و بشریٰ للمومنین۔( البقرۃ ۲:۹۷)

’’کہ دو کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہے ،  تو اس نے  (یہ کتاب) اللہ کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے  اور ایمان لانے والوں کے لیے  ہدایت  و بشارت ہے۔‘‘

اس حسد اور جلن نے یہود اور عیسائیوں دونوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ انھوں نے آنے والے نبی کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کو اپنی دانست میں گویا ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ لیکن اس تحریف کے باوجود اللہ نے بہت ساری نشانیاں ان کی کتابوں میں باقی رہنے دیں اور قرآن مجید میں ، دو ٹوک انداز میں ان کی تحریف کا پول بھی کھول دیا۔

چنانچہ اس پس منظر کے باعث مغربی مفکرین ،  بالعموم اسلام کے بارے میں منفی انداز فکر سے کام لیتے ہیں۔ اسلام کے تمام تعمیری  کاموں کو نظر انداز کر کے صرف انھی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا سکیں۔ جب ہم استشراق اور مستشرقین کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو لفظ ’’استشراق‘‘ میں تکلف کا جو مفہوم پایا جاتا ہے ، اس کی وضاحت زیادہ آسانی سے ہو جاتی ہے۔چنانچہ ہم اس کی تعریف اس طرح سے کریں گے کہ مغربی علماء و مفکرین جب اپنے مخصوص منفی مقاصد کے لیے اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرتے ہیں  ا ور اس سلسلے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں  تو اس عمل کو استشراق کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے :

الاستشراق: ھو دراسات ’’اکادیمیۃ‘‘یقوم بھاغربیون کافرون من اھل الکتاب بوجہ خاص،  لاسلام والمسلمین،  من شتی الجوانب:عقیدۃ وشریعۃ، وثقافۃ، وحضارۃ،  وتاریخا،  و نظما، وثروات و امکانات۔۔۔۔ھدف تشویۃ الاسلام

ومحاولۃ تشکیک المسلمین فیہ،  و تضلیلھم عنہ وفرض التبعیۃللغرب علیھم ومحاولۃ تبریر ھذہ التبعیۃ بدراسات و نظریات تدعی العلمیۃ والموضوعیۃ،  تزعم التفوق العنصری والثقافی للغرب المسیحی علی الشرق الاسلامی۔‘‘

(الاستشراق، ۱۔ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی،  ،  قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ،  س ن، ص۳۔)

’’استشراق،  کفار اہل کتاب کی طرف سے ،  اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ،  مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت،  ثقافت،  تہذیب،  تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ،  مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا  اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے۔‘‘

ہم یہ بات بلا خوفِ تردید کہ سکتے ہیں کہ استشراق صرف مشرقی لوگوں کی عادات،  رسم و رواج ،  زبانوں اور علوم کے مطالعے کا نام نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا تو یہودیت،  عیسائیت اور دیگر تمام مشرقی مطالعات کو بھی استشراق کے ذیل میں رکھا جاتا۔بلکہ یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ایک پوری تحریک ہے ،  جس کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔مشرق ، اہل مغرب کے لیے ہمیشہ پر اسرار دنیا کی حیثیت اختیار کیے رہا ہے۔ اس کے بارے میں جاننے اور کھوجنے کی کوشش ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے۔ اہل مغرب کے سامنے مشرق کی پرکشش تصویر مغربی سیاح پیش کرتے تھے اور  اپنے تجارتی اور سیاحتی سفروں کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔مشرق کے بارے میں ان کے علم کا  بڑ  ا ذریعہ مختلف سیاح تھے۔ مثلاً،  اطالوی سیاح مارکوپولو(Marco Polo ) ((1254-1324  ، لوڈو و یکو ڈی  وارتھیما (1470-1517)  (Ludovico di Varthema)وغیرہ۔ان کے بارے میں کبھی کسی نے مستشر (ے جے آربر ۔ کہ می خَرد: کون خردق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔

اگرچہ بعض مغربی مفکرین خلوص نیت سے اسلام کی تفہیم کے لیے مشرقیت اختیار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مفید تحقیق بھی کرتے ہیں۔ لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر صرف وہ مغربی مفکرین ہیں ،  جو اسلام کی مخالفت اور اسے بدنام کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

 

 

تحریک استشراق کا آغاز

 

ہم یہ بات گزشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں کہ اس تحریک کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا،  لیکن ناکام رہے۔ نبی ﷺ کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی خلاف ورزی کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور ان کی نسلی و علمی برتری کا نشہ ٹوٹ گیا۔ حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کے اختتام تک ان لوگوں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی اسلام کے شاندار اور تابندہ نظریات کے سامنے کوئی اور فکر یا نظریہ اپنا وجود برقرار  رکھ سکا۔  بلکہ یہود و نصاریٰ کے مذہبی و روحانی مرکز بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ظہور اسلام کے ایک سو سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اسلام اپنے آپ کو دنیا میں ایک روشن خیال،  علم دوست،  شخصی آزادیوں کے ضامن ،  عدل و انصاف،  رواداری اور احترام انسانیت جیسی خوبیوں سے متصف،  دین کے طور پر منوا چکا تھا۔یہ کامیابی یہود و نصاریٰ کو ہرگز گوارا نہ تھی۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کا آغاز حیات نبوی ﷺ ہی میں ہو چکا تھا۔لیکن ان کار روائیوں کا عملاً کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔مدینہ میں عیسائی راہب ابو  عامر نے منافقین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کرائی اور ساتھ ہی رومی سلطنت سے مسلمانوں کے خلاف مدد چاہی،  لیکن اسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔اسی طرح موتہ اور تبوک کی جنگوں میں بھی مسلمان کامیاب رہے۔عہد خلافت راشدہ میں چونکہ نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں موجود تھے اور پوری اسلامی سلطنت میں ان کے حلقۂ دروس پھیلے ہوئے تھے۔ مسلمان ذہنی اور علمی لحاظ سے یہود و نصاریٰ سے کہیں آگے تھے ،  لہٰذا دشمنان دین کی سرگرمیاں زیادہ تر جنگ و جدل تک ہی محدود رہیں۔لیکن اس محاذپر بھی مسلمانوں کی برتری قائم رہی اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی گئیں اور عیسائی و یہودی عوام اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لیتے گئے۔یہاں تک کہ ان کے مذہبی مقامات بیت المقدس وغیرہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔خلافت راشدہ کے آخری دور میں صحابہ کرام کی تعداد کم ہو چکی تھی اور نئے غیر تربیت یافتہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے ،  جو ابھی تک اپنے سابقہ عقائد و رسوم کو پورے طور پر نہیں چھوڑ  سکے تھے۔ عبداللہ بن سبا اور اس طرح کے لوگوں نے ان مسلمانوں میں غلط عقائد کو رواج دینا شروع کیا۔مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو بھڑ  کایا اور سادہ لوح لوگوں میں خلفاء و عمال کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور غلط سلط احادیث اور قصے کہانیوں کو رواج دینا شروع کیا۔پہلا آدمی جس نے باقاعدہ طور پر اسلام کے خلاف تحریری جنگ شروع کی وہ جان آف دمشق (یوحنا دمشقی676 [L:150] 4 December 749)تھا۔اس نے اسلام کے خلاف دو کتب ’’محاورہ مع المسلم‘‘ اور ’’ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین‘‘ لکھیں۔[ix]

کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس تحریک کا آغاز  ۱۳۱۲ء  میں ہوا جب فینا میں کلیسا کی کانفرنس ہوئی ،  جس میں یہ طے کیا گیا کہ یورپ کی جامعات میں عربی ،  عبرانی اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے ،  پیرس اور یورپ کی طرز پر چیئرز قائم کی جائیں۔

بعض اہل علم کے نزدیک یہ تحریک دسویں صدی میں شروع ہوئی جب فرانسیسی پادری’’ جربرٹ ڈی اوریلیک‘‘(۹۴۶ء۔۱۰۰۳ء ) (Gerbert d’Aurillac )حصول علم کے لیے اندلس گیا اور وہاں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد۹۹۹ء سے ۱۰۰۳ء تک پوپ سلویسٹرثانی(Silvester II ) کے نام سے پاپائے روم کے منصب پر فائز رہا۔اسی طرح بعض نے اس کا آغاز ۱۲۶۹ء میں قرار دیا ہے جب قشتالیہ( Castile)کے شاہ الفانسو دہم(Alfonso X) (۱۲۲۱ء۔۱۲۸۴ء )نے ۱۲۶۹ء  میں مرسیا(Murcia) میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا اور مسلم ،  عیسائی اور یہودی علماء کو تصفیف و تالیف اور ترجمے کا کام سونپا۔[x]

اسی طرح بعض کے نزدیک اس تحریک کا بانی پطرس محترم(Peter the Venerable)(۱۰۹۲ء۔۱۱۵۶ء) تھا، جو کلونی  Cluny, France)) کا رہنے والا تھا۔اس نے اسلامی علوم کے تراجم کے لیے مختلف علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس میں مشہور انگریزی عالم رابرٹ آف کیٹن(Robert of Ketton)(1110 [L:150] 1160) بھی تھا۔اس نے قرآن مجید کا پہلا لاطینی ترجمہ کیا،  جس کا مقدمہ پطرس نے لکھا تھا۔[xi]

اہل مغرب نے اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے انھیں علمی میدان میں مسلمانوں کو شکست دینی ہو گی۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ایک طرف اپنے اہل علم کو مسلمانوں کے علوم و فنون سیکھنے پر لگایا اور دوسری طرف مسلمانوں میں ،  ان کے افکار کو دھندلانے کی کوشش کی۔۱۵۳۹ء میں فرانس ،  ۱۶۳۲ء  کیمبریج اور ۱۶۳۸ء میں آکسفورڈ میں عربی و اسلامی علوم کی چیئرز قائم کی گئیں۔  ۱۶۷۱ء  میں فرانس کے شاہ لوئی چہاردہم(Louis XIV of France)(1638[L:150]1715) تمام اسلامی ممالک سے اپنے کارندوں کے ذریعے سے مخطوطات اکٹھے کروائے اور اس سلسلے میں تمام ممالک میں موجود سفارت خانوں کو ہدایت کی کہ اپنے تمام افرادی اور مالی وسائل استعمال کریں۔[xii]

 

 

مستشرقین کے مقاصد و اہداف

۱۔ دینی اہداف

 

یہودی اور عیسائی جو کہ خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور آنے والے نبی کے منتظر اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن جب اللہ نے ان کی نافرمانیوں اور بدکاریوں کے باعث فضیلت کے منصب سے محروم کر کے نبوت  و رسالت کی ذمہ داری بنو اسماعیل کے ایک فرد محمد ﷺ پر ڈال دی تو وہ حسد اور جلن کے باعث ہوش و حواس کھو بیٹھے اور باوجود آپﷺ کو نبی کی حیثیت سے پہچان لینے کے ،  آپ کی نبوت کا انکار کر دیا۔ اسلام چونکہ انتہائی سرعت سے عرب کے علاقے سے نکل کر دنیا کے ایک بڑ  ے حصے پر چھا گیا تھا ،  اس لیے یہود و نصاریٰ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا گیا تو ایک دن ان کا دین بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔چنانچہ انھوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات پر شکوک و شبہات کے پردے ڈالے جائیں اور اسے ناقص،  ناکام،  اور غیر الہامی فلسفہ قرار دیا جائے۔دوسری طرف یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اپنے مذہب کا پرچار کیا جائے۔اس کا م کے لیے انھوں نے پادریوں کی تربیت کی اور مسلم ممالک سے اسلامی علوم کی کتب جمع کر کے ان میں سے ایسی کمزوریاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔انھوں نے نبی کریم ﷺ کی ذات،  ازواج،  قرآن مجید،  احکام، احادیث، سیرت صحابہ ہر چیز کو ہدف بنایا اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو ختم کر کے ان میں مختلف نسلی،  لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔

 

۲۔ علمی اہداف

 

اگرچہ مستشرقین میں کچھ منصف مزاج لوگ بھی موجود ہیں جو کبھی کبھار کوئی صحیح بات بھی منہ سے نکال لیتے ہیں ،  لیکن چونکہ ان کی تربیت میں یہ بات داخل ہو چکی ہے کہ عیسائیت ہی صحیح دین ہے ، اس لیے وہ اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صدیوں پر محیط اسلام دشمن پروپیگنڈا کی وجہ سے مغربی عوام کے اذہان اسلام کے بارے میں کوئی صحیح بات آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ان کے علماء و  فٖضلاء نے علمی تحریکوں اور تحقیق و جستجو کے نام پر صرف اسلام مخالف مواد ہیں جمع کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی جو ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں اور عیسائی یہود کو حضرت عیسیٰ کے قاتل کی حیثیت سے دیکھتے تھے ،  لیکن مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدیو ں کی رقابت کو بھول کر باہم شیر و شکر ہو گئے۔یہ لوگ  ہر وہ کام کرنے پر متفق ہو چکے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔مختلف ادارے اور انجمنیں بنا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ،  سائنسی بنیادوں پر کا م کر رہے ہیں۔اسلام چھوڑ  نے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ، مسلمان عورتوں میں آزادی اور بے پردگی کو فروغ دیا جاتا ہے۔غریب ممالک میں عیسائی تنظیمیں فلاحی کام کی آڑ  میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں۔مسلمان ممالک کے پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہو کر تعلیمی نصاب اور طریق تعلیم کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔

 

۳۔اقتصادی و معاشی اہداف

 

استشراق کی اس تحریک کا آغاز اگرچہ اسلام کے بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے ہوا تھا، لیکن بعد میں اس کے مقاصد میں اضافہ ہوتا گیا۔اہل مغرب نے مسلم ممالک کی تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے لیے اور اپنے معاشی مفادات ،  اور تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بھی عربی زبان اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کیا۔مسلم ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھایا اور مقامی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان ممالک کے وسائل مکمل طور پر نہ سہی ،  کسی حد تک اہل مغرب کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔مشرق کو اہل مغرب سونے کی چڑ  یا قرار دیتے تھے۔مغرب جب صنعتی دور میں داخل ہوا تو اس کی نظر مشرق میں موجود خام مال کے ذخیروں پر تھی۔اسی لیے تمام ممالک نے مختلف مشرقی ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے اور ان کو اپنی کالونیاں بنانے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کیے گئے اور آزادی ،  انصاف اور رحم و مروت کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ایک انگریز ادیب ’’سڈنی لو‘‘ نے مغربی اقوام کے بارے میں اپنے ہم قوموں کا رویے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :

’’مغرب کی عیسائی حکومتیں کئی سالوں سے امم شرقیہ کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس سلوک کی وجہ سے یہ حکومتیں چوروں کے اس گروہ کے ساتھ کتنی مشابہت رکھتی ہیں جو پرسکون آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں ،  ان آبادیوں کے کمزور مکینوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ یہ حکومتیں ان قوموں کے حقوق پامال کر رہی ہیں جو آگے بڑھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس ظلم کی وجہ کیا ہے جو ان کمزوروں کے خلاف روا رکھا جا رہا ہے۔کتوں جیسے اس لالچ کا جواز کیا ہے کہ ان قوموں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان سے چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔یہ عیسائی قوتیں اپنے اس عمل سے اس دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں کہ طاقت ور کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کمزوروں کے حقوق غصب کرے۔‘‘[xiii]

 

۴۔ سیاسی و استعماری اہداف

 

اتفاق سے جب یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور مسلمانوں کی اپنی اندرونی کمزوریوں کے نتیجے میں مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو اسی اثنا میں مغرب میں علمی و سائنسی ترقی کا آغاز ہو رہا تھا۔کچھ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی وجہ سے اور کچھ صلیبی جنگوں کے اثرات کے تحت اہل مغرب مسلمانوں کو اپنا سب سے بدترین دشمن گردانتے تھے۔ ان کی ساری جدوجہد اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے ،  نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو ان کے مرتبے سے گرانے اور قرآن و حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں صرف ہو رہی تھی۔ مثال کے طور پر فلپ کے ہٹی(۱۹۷۸۱۸۸۶)(Philip Khuri Hitti)اپنے ہم مذہب لوگوں کے رویوں پر اس طرح سے تبصرہ کرتا ہے :

’’ قرون وسطیٰ کے عیسائیوں نے محمدﷺ کو غلط سمجھ اور انھیں ایک حقیر کردار خیال کیا۔ ان کے اس رویّے کے اسباب نظریاتی سے زیادہ معاشی اور سیاسی تھے۔نویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار نے ایک جھوٹے نبی اور مکار کی حیثیت سے آپ  کی جو تصویر کشی  کی تھی بعد میں اسے جنس پرستی،  آوارگی اور قزاقی کے شوخ رنگوں سے مزین کیا گیا۔پادریوں کے حلقوں میں محمدﷺ دشمن مسیح کے نام سے مشہور ہوئے۔‘‘[xiv]

اسلام سے اس دشمنی اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خوف نے یہود و نصاریٰ کو ایک ایسے نہ ختم ہونے والے خبط میں مبتلا کر دیا جو اسلام کے خاتمے کے بغیر ختم ہونے والا نہیں تھا۔انھوں نے ایک طرف تو مسلمانوں کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے پست کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ایسا منصوبہ بنایا کہ مسلمان دوبارہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑ  ے نہ ہو سکیں۔اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر ان لوگوں کو علم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ و جدل کے ذریعے سے ختم کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اندھا دھند جنگی اقدام کے بجائے ،  متبادل طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔طویل منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کی قوت اور طاقت کی بنیادوں کو جان کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔علماء و محققین کے پردے میں مسلم ممالک میں اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو بھیج کر مسلمانوں کی دینی حمیت،  اتحاد و اخوت،  جہاد،  پردہ وغیرہ جیسی امتیازی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقائی ،  نسلی اور مسلکی تعصبات کو ہو ا دینے کی کوشش کی۔پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے بعد ،  اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ کر کے کمزور ممالک کو اپنی طفیلی ریاستوں کی صورت  دے دی۔اس طرح ایک طرف تو مسلمان ہر لحاظ سے کمزور ہو گئے  اور دوسری طرف ان کے تمام وسائل پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہو گیا۔جرمن مفکر پاؤل شمٹ(Paul Schmidt) نے اپنی کتاب  میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان و شوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے ،  ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :

’’۱۔ دین اسلام، اس کے عقائد، اس کا نظام اخلاق اور مختلف نسلوں ،  رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں رشتہ اخوت استوار کرنے کی صلاحیت۔

۲۔ ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔

۳۔مسلمانوں کی روز افزوں عددی قوت۔‘‘

چنانچہ ،  مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :

’’ اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں ،  مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کر  ابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘[xv]


مستشرقین کی اقسام

 

مستشرقین صدیوں سے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں اپنی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ان کی تعداد بلا مبالغہ  سینکڑ  وں میں ہے۔ ان کا تعلق کسی ایک ملک یا علاقے سے نہیں ہے ، بلکہ یہ دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں مصروف عمل ہیں۔آپس میں کسی رابطے اور تعلق کے بغیر اپنے بنیادی مقصد میں سب یکساں ہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلانا ہے۔ لیکن ،  جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح ان مستشرقین کو ایک ہی درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ان میں کچھ بہت زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے ،  اور کچھ تھوڑ  ے بہت انصاف پسند بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو درج ذیل زمرہ جات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

 

۱۔علم و تحقیق کے شائق محققین

 

دنیا کے تمام حصوں میں ایسے بہت سے محققین اور علماء موجو د ہیں جو علم و تحقیق کے شیدائی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد صرف تحقیق و تفتیش اور کھوج و جستجو ہے۔ علم ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کے قلب و نظر کو وسعت دیتی اور حقائق سے آگاہ کر کے اس کے اندر کی دنیا کو تبدیل کر دیتی ہے۔اس لیے بہت سے ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد صرف علم اور تحقیق کی حوصلہ افزائی ہے۔ ایسے لوگ مشرق میں بھی پائے جاتے ہیں اور مغرب میں بھی،  اسی طرح شمال و جنوب بھی ان کی موجودگی سے خالی نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے علم اور اپنی تحقیق کو بلا خوف و خطر جوں کا توں بیان کر دیتے ہیں۔ان کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تحقیق سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے یا فائدہ، وہ سچ کو بیان کر دیتے ہیں۔ان لوگوں نے اسلامی مشرق سے علم و ادب کا ذخیرہ ترجمہ کر کے مغرب میں پہنچایا جس میں تحقیق اور اضافے کے نتیجے میں آج مغرب دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ انھوں نے مشرق کے چپے چپے کو چھان مارا اور جہاں سے کچھ ملا اس کو حاصل کیا اور اپنی شب و روز محنت سے سنوار کر علم و فن کے شیدائیوں کے حوالے کر دیا۔اسلامی دنیا کا بہت سا علمی ذخیرہ جو صرف مسلمانوں کی ضرورت تھا، اسے بھی انھی لوگوں نے تلاش کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔لیکن ہمیں اس بات سے حیرت ہوتی ہے کہ بالعموم ان مستشرقین کا رویہ بھی انھی چیزوں کے بارے میں غیر جانب دارانہ ہوتا ہے جو اسلامی عقائد سے ہٹ کر ہوں ، جب معاملہ اسلامی عقائد و نظریات کا آتا ہے تو یہ لوگ بھی بعض اوقات اپنے متعصب محققین کی تحریروں سے استفادہ کرنے لگتے ہیں اور حقیقت کی تلاش میں زیادہ جستجو نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں ان کی تصانیف کے مواد پر بھی من و عن یقین نہیں کر لینا چاہیے۔تحقیق و تفتیش ، دراصل مسلمانوں ہی کا ورثہ ہے ،   کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اہم اصول دیا ہے کہ کوئی بات بغیر تحقیق کے نہ مانی جائے ،  چاہے اس کا بیان کرنے والا کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :

یَٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْاِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِکُمْ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِبُوْا قَوْماً بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔(الحجرات ۴۹:۶)

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو تم اس کی اچھی طرح سے تحقیق کر لیا کرو،  ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے اس عمل پر نادم ہو۔‘‘

 

۲۔ اسلام دشمن متعصب مستشرقین

 

مستشرقین کا یہ طبقہ ان متعصب یہودی اور عیسائی محققین پر مشتمل ہے ،  جن کا بنیادی مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔  ان میں سے کچھ خود مغربی مفکرین کے لٹریچر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے باعث اسلام کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور کچھ کو یہود و نصاریٰ خصوصی طور پر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی مسلمانوں کے خلاف اور اپنے عقائد و نظریات کے فروغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ان لوگوں نے مشرق سے جو بھی مفید چیزیں اخذ کی ہیں ، علمی دیانت کے برخلاف ان کے ماخذ و مصادر کو پوشیدہ رکھ کے اسے مغرب سے منسوب کیا ہے۔اسی طرح اسلام کے خلاف اس طرح کی باتیں پھیلا ئی ہیں کہ عام سطحی ذہانت کا آدمی بھی معمولی کوشش سے ان میں سے مستشرقین کی بددیانتی کو ظاہر کر سکتا ہے۔چونکہ ان لوگوں نے اپنی تحریروں سے ا سلام کو اس حد تک بدنام کر رکھا تھا کہ ان کے عوام نے ساری ہفوات کو من و عن قبول کر لیا۔اہل مغرب نے عرب مسلمانوں سے جو کچھ حاصل کیا اسے اپنے نام سے پیش کرتے رہے۔مسلمان سائنس دانوں کے ناموں کو بگاڑ  کر ان کے مغربی ہونے کا تاثر دیا گیا۔ آج مغرب میں کوئی نہیں جانتا کہ جن اہل علم کی تحقیقات سے مغرب صدیوں تک استفادہ کرتا رہا ، وہ یا تو خود مسلمان تھے یا ان کو مسلمانوں سے اخذ کیا گیا تھا۔کرسٹوفر کولمبس (۱۴۵۱ء۔۱۵۰۶ء) نے ۱۴۹۲ء میں امریکہ دریافت کیا، جہاں لوگ اس وقت تہذیب و تمدن اور علم و فن کے نام ہی سے واقف نہ تھے۔اور اتفاق سے اسی سال سپین کی اسلامی سلطنت اپنے عروج کی انتہا کو دیکھ کر،  مسیحی صلیبیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔ جب  ۲ جنوری  ۱۴۹۲ء  کو سلطان ابو عبد اللہ محمد دوازدہم نے غرناطہ کا قبضہ شاہ فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کیا۔(۱۲  اکتوبر ۱۴۹۲ء کو کولمبس کے امریکہ میں داخلے کے دن کے طور پر سپین اور امریکہ میں ’’کولمبس ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔)

مسلمانوں کے سینکڑ  وں سالہ عروج اور مسیحی و یہودی لوگوں کی مسلمانوں کے خلاف تعصب اور دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے جو کچھ مسلمانوں سے لیا اسے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر اپنے معاشروں میں پھیلا دیا۔مسلمانوں کی ایجادات و اختراعات کو مغربی لوگوں سے منسوب کر دیا۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :

’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بارود ،  قطب نما،  الکحل،  عینک اور دیگر بیسیوں اشیا ء کے موجد تھے ،  لیکن بقول رابرٹ بریفالٹ مورخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور انکشاف کا سہرا اس یورپی کے سر باندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلویوگوجہ کی طرف منسوب کر دی۔’ولے ناف کے آرنلڈ، کو الکحل اور بیکن کو بارود کا موجد بنا دیا۔اور یہ بیانات وہ خوف ناک جھوٹ ہیں جو یورپی تہذیب کے ماخذ کے متعلق بولے گئے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات عربوں کی تصانیف پر اپنا نام بطور مصنف جڑ  دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لفظ جیبر(Geber)کے تحت ایک مترجم کا نام دیا ہوا ہے ،  جس نے اسلام کے مشہور ماہر کیمیا دان جابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمے کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا۔یہی حرکت سلرنو کالج کے پرنسپل قسطنطین افریقی (۱۰۶۰ء) نے بھی کی تھی کہ ابن الجزار کی ’’زادالمسافر‘‘ کا لاطینی ترجمہ’ Viaticum‘کے عنوان سے کیا اور اس پر اپنا نام بطور مصنف لکھ دیا۔‘[xvi]‘

 

 

۳۔مادی مفادات کے شائق پیشہ ور محققین

 

مستشرقین کی ایک قسم ایسی بھی ہے جن کے پیش نظر کوئی اعلیٰ ترین قومی یا علمی مقاصد نہیں ہوتے بلکہ وہ مادی مفادات،  عہدوں ، سستی شہرت اور دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں  اس میدان میں قدم رکھتے ہیں۔چونکہ اہل مغرب مسلمانوں کے خلاف کی گئی کسی بھی تحقیق کو ،  چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری ،  بے بنیاد اور علمی و عقلی لحاظ سے پست ہی کیوں نہ ہو،  ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔اس وجہ سے اکثر لوگ ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اہل مغرب سے مفادات سمیٹ سکیں۔اس طرح کے لوگوں میں ہندوستان کے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پاکستان میں بھی ہوا جس میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے کچھ افراد بلوچستان کے علاقے میں طالبان کے بارے میں جعلی فلم تیار کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے تھے۔اس قسم کے افراد کی تحقیقات زیادہ تر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں۔

 

۴۔ ملحد مستشرقین

 

یورپ میں جس وقت علوم و معارف نے معاشرے میں جگہ بنائی اور سائنسی و تحقیقی دور شروع ہوا  تو لوگوں نے ہر چیز کو دلیل اور عقل کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات چونکہ تحریف کا شکار ہو چکی تھیں اس لیے وہ عقل اور دلیل کے معیار پر پوری نہ اتر سکیں۔ ہم بلا خوف تردید یہ بات کہ سکتے ہیں کہ انسانی کاوش چاہے کتنی ہی محنت اور دقت نظر سے کی جائے وہ مکمل طور پر غلطی سے مبر ا نہیں ہو سکتی۔صرف اور صرف خدائی احکام کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی غلطی اور سے پاک ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے انسانی تحریف کی شکار یہودیت اور عیسائیت اس ذہنی ارتقاء اور علمی انقلاب کا ساتھ نہ دے سکیں۔چونکہ اس دور میں اہل مذہب کو معاشرے میں قوت اور اقتدار حاصل تھا ،  لہذا انھوں نے بزور قوت نئے خیالات اور نظریات کو کچلنا اور ختم کرنا چاہا۔اس کے نتیجے میں اہل علم و تحقیق اور اہل مذہب کے درمیان جنگ چھڑ  گئی۔اہل کلیسا کے نزدیک ہر وہ شخص جو نئے نظریات پیش کرتا، علمی کتابیں لکھتا یا کلیسائی خیالات کے خلاف کوئی بھی بات پیش کرتا اسے کافر قرار دے کر خوف ناک سزائیں دی جاتیں۔پاپائے روم کے حکم سے ہزاروں کتابوں اور لوگوں کو جلا دیا گیا۔لاکھوں لوگوں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر عام آدمی مذہب سے بیزار ہو گیا اور یورپ میں الحاد اور بے دینی کی تحریک شروع ہو گئی۔ان لوگوں نے اپنے اہل مذہب سے بدلہ لینے اور ان کو بدنام کرنے کے لیے ،  اسلام اور دوسرے مذاہب کا سہارا لیا۔جہاں وہ اپنے لوگوں کے رویوں اور عقائد پر تنقید کرتے وہاں ان کے شر سے بچنے کے لیے اور ان کی خوش نودی کے لیے اسلام کو بھی ہدف تنقید بنا لیتے۔ اس طرح سے ان لوگوں کو اہل مذہب کی سرپرستی بھی حاصل ہو جاتی اور وہ اپنا کام بھی کرتے رہتے۔

 

 

علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام

 

عام طور پر معاشرے میں جو رجحان فروغ پائے ،  لوگ بے سوچے سمجھے اسی طرف چل پڑ  تے ہیں۔جن دنوں یورپ میں استشراق کی تحریک شروع ہوئی تو ہر شخص جو چار لفظ جانتا تھا،  اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے علمی و تحقیقی کا م کرنے لگا۔اس طرح سے بہت سے مستشرقین ایسے بھی وجود میں آئے جن کا کوئی علمی و تحقیقی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ علمی دنیا کی اخلاقیات سے واقف تھے۔ ایسے لوگوں نے اسلامی عقائد و نظریات اور شخصیات پر انتہائی بے بنیاد اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات بھی لگا دیے۔مولانا شبلی نعمانی نے اس طرح کے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :

۱۔ عربی زبان و ادب اور تاریخ اسلام سے ناواقف مستشرقین،  جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں ،  بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں۔

۲۔وہ مستشرقین جو عربی زبان اور تاریخ سے تو واقف ہوتے ہیں ،  مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماء الرجال،  روایت

اور درایت  کے اصولوں ،  قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔

۳۔و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں ،  لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب ، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کا م لیتے ہیں۔

 

 

مستشرقین کے خصوصی اہداف

 

مستشرقین نے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کیے۔ جن لوگوں کے اندر کچھ اخلاقی اقدار کا پاس یا انصاف کی رمق موجود تھی ،  انھوں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو سراہا بھی،  لیکن ان کے اسلام کے خلاف عناد  اور دلی تعصب نے ہر مرحلے پر قبول حق سے روکے رکھا۔ ان میں سے بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت کے طور پر تسلیم کر کے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر گئے۔ مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم(شیخ عبداللہ)(William Henry Quilliam) (1856-1932)،  رسل ویب(Mohammed Alexander Russell Webb)(۱۸۴۶ء۔۱۹۱۶ء)،  مارٹن لنگز(Martin Lings)(ابوبکر سراج الدین) (۱۹۰۹ء۔۲۰۰۵ء)، علاء الدین شلبی،  ناصرالدین الفونس اتیین(۱۸۶۱ء۔۱۹۳۰ء)  ،  لارڈ ہیڈلے الفاروق(رحمت اللہ الفاروق)    ( Rowland George Allanson Allanson-Winn )( 1855 [L:150]1935)،  علامہ محمد اسد  (Sylvius Leopold Weiss)(۱۹۰۰ء۔۱۹۹۲ء)، ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس(Dr. Baron Omar Rolf von Ehrenfels)  (۱۹۰۱ء۔۱۹۸۰ء)،  خالد شیلڈرک(Bertram William Sheldrake)،  مریم جمیلہ(۱۹۳۴ء)(margaret marks) وغیرہ۔

چنانچہ اول الذکر اقسام کے مستشرقین نے حضرت محمد ﷺ کی ذات، نزول وحی،  آپ کے خاندان،  اہل بیت،  صحابہ کرامؓ،  قرآن مجید اور احکام قرآن، احادیث مبارکہ،  تعدد ازواج،  غلامی اور جہاد کو اپنی تیر اندازی کا ہدف بنایا۔ ہم بالترتیب ،  مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :

 

 

حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی

 

آپ ﷺ ہی دین اسلام کے تنہا ماخذ ہیں اور ہمیں دین اسلام آپ ہی کی وساطت سے قرآن و سنت ثابتہ کی صورت میں ملا ہے۔ اس لیے مستشرقین نے سب سے زیادہ حملے آپ ﷺ کی ذات پر کیے ہیں تاکہ دین کی اصل بنیا د ہی پر شکوک و شبہات کے پردے ڈال دیے جائیں۔چونکہ عام طور پر لوگ کسی بھی مذہب کے پیشوا کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کی اتباع کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے آپﷺ کو اپنے گھٹیا حملوں کا شکار بنا لیا۔مستشرقین کے ذات قدسی پر حملوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم آپ ﷺ کی سیرت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مستشرقین کس حد تک آپ کی ذات گرامی کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔ آپ ﷺ کی  پیدائش ۵۷۱ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔آپ نے پیدائش سے لے کر چالیس سال کی عمر تک سارا عرصہ اہل مکہ کے درمیان میں گزارا۔ اس دوران سوائے چند تجارتی اسفار کے آپ اپنے علاقے سے باہر ئدایشکوک و شبہا تشریف نہیں لے گئے۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے سلسلے میں چونکہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ نبوت و رسالت کا عظیم منصب آپ کے حوالے کیا جائے گا اس لیے آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے چند باتوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔آپ کو عام رسمی تعلیم اور علم الکتابت وغیرہ سے ناواقف رکھا گیا۔اس کی غرض و غایت یہی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آپ کو بھیجا جا رہا ہے ان کو یقین  آ جائے کہ آپ اپنے پاس سے کچھ ایجاد نہیں کر رہے ،  بلکہ یہ سب کچھ کسی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔آپﷺ نے مکہ میں جو زندگی گزاری وہ ایک عام انسان کی زندگی تھی ،  جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو غیر معمولی ہو۔آپ سے کبھی کوئی ایسا کارنامہ سرزد نہیں ہوا جس کی بنا پر آپ کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہو جائے۔نہ ہی آپ علم و ادب ،  شاعری،  خطابت وغیرہ کی دنیا کے آدمی تھے۔البتہ ،  اللہ تعالی نے آپ کی ذات گرامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا ایک ایسا نمونہ بنا یا تھا کہ پیدائش سے لے کر اعلان نبوت تک آ

پﷺ کی زندگی پاکیزگی،  سچائی ،  امانت داری،  احترام انسانیت ،  حسن سلوک ،  خدمت خلق  اور حسن معاشرت کی ایک ایسی تابندہ مثال تھی ،  جس کا اعتراف آپ کے تمام مخاطبین اور مخالفین نے کیا۔آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا۔نبوت کا منصب ملنے کے بعد کچھ عرصہ آپ نے خفیہ طور پر اپنے قریبی احباب کو اپنی ذمہ داری اور مقاصد سے آگاہ کیا۔ان کی طرف سے حمایت اور تعاون کے بعد اللہ نے آپﷺ کو حکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ سے ڈراؤ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :

و انذر عشیرتک الاقربین۔(الشعراء ۲۶:۲۱۴)

’’اور اپنے قریبی عزیزوں کو(اپنے رب کے معاملے میں )ڈرا۔‘‘

آپﷺ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کو ہ صفا پر چڑ  ھ کر سب سے پہلے اپنی ذات کو قریش مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ، تاکہ کسی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے کہ آپ کسی لالچ،  فریب،  بددیانتی،  یا کسی دنیاوی مقصد کے زیر اثر یہ کام کر رہے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح سے بیا ن ہوئی ہے :

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال لما نزلت ’وانذر عشیرتک الاقربین‘ صعدالنبی ﷺ علی الصفا فجعل ینادی یا بنی فھر یابنی عدی لبطون قریش حتی اجتمعوا فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولا لینظر ما ھو فجاء ابو لھب و قریش فقال اَراَیْتَکُم لو اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بالوادی ترید ان تُغِیْرَ علیکم اکنتم مُصَدِّقِی۔قالوا نعم ما جَرَّبْنَا علیک الا صدقا قال فانی نذیر لکم بین یدی  عذاب شدید فقال ابو لھب تبا لک سائر الیوم الھذا جَمَعْتَنَافنزلت: تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب۔(بخاری ،  کتاب التفاسیر)

’’حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ،  آپ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:’و انذرعشیرتک الاقربین‘(اے رسولﷺ اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں )تو رسول اللہ ﷺ کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے۔اے بنی فہر ،  اے بنی عدی،  قریش کے تمام لوگوں کو بلایا۔جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج  دیا۔ ابو لہب اور قریش بھی آئے تھے۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ ایک بہت بڑ  ا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیار کھڑ  ا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے۔سب نے کہا ضرور کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی ساری باتیں سچی دیکھی ہیں۔تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک و ًکفر سے بار نہ آئے تو تم پر بڑ  ا بھاری عذاب آنے والا ہے۔ابو لہب بولا ،  تو ہلاک ہو ،  کیا تو نے ہمیں اسی لیے یہاں بلایا تھا۔چنانچہ اس وقت سورہ :’’ تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب‘‘ نازل ہوئی۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ جو شخص کسی معاشرے میں پیدائش سے لے کر چالیس سال گزارے اور اس کے کردار میں ،  اس کے دشمن اور مخالفین بھی کسی قسم کی معمولی خامی بھی بیان نہ کر سکیں۔تو عقلاً یہ بات محال نظر آتی ہے کہ ایسا سلیم الفطرت شخص اچانک عمر کے اس حصے میں کسی لالچ اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹ،  بناوٹ اور فریب سے کام لے۔اسی طرح اس سے آپﷺ کی قبل از نبوت مکی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی ذات سے زبان و بیان کے معاملے میں بھی کوئی غیر معمولی چیز صادر نہیں ہوئی۔اس لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو جو لوگ آپ سے واقف تھے انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس طرح کا کلام کوئی بڑ  ے سے بڑ  ا قادر الکلام عرب شاعر یا ادیب تخلیق نہیں کر سکا تو محمد ﷺ کس طرح خود ایسا کلام کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح اگر آپ نے دنیاوی لالچ میں یہ کا م کیا ہوتا تو کفار مکہ نے آپ کو عرب کی بادشاہی،  مال و دولت اور بعض روایات کے مطابق عرب کی حسین ترین خاتون جو آپ کو پسند ہو،  اس کے ساتھ شادی کی پیش کش کی تھی،  کہ آپ اس کے بدلے میں بت پرستی پر اعتراضات کرنا بند کر دیں۔لیکن آپ نے ایسی ہر پیش کش رد کر دی۔ ابو الولید عتبہ بن ربیعہ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺ کے پاس گیا اور کہا:

’’بھتیجے یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرہ تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ، اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمھیں سردار بنا لیتے ہیں ،  یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں گے۔اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں۔اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو،  لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیا رہیں کہ تم شفا یاب ہو جاؤ،  کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اور اس کا علاج  کروانا پڑ  تا ہے۔[xvii]

(۱۔الرحیق المختوم،  صفی الرحمن مبارک پوری،  المکتبہ السلفیہ لاہور،  (مترجم احمد شاکر)مئی ۲۰۰۰ء ،  ص۱۵۳۔)

آپ ﷺ نے ایسی تمام پیش کشیں رد کر دیں اور اپنے مقصد کے ساتھ خلوص کے ساتھ وابستہ رہے اور  بالا خر تمام عرب جو کسی واضح عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں ،  بلکہ محض اس ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے آپ کے خلاف تھے کہ جس راستے پر ان کے آباء و اجداد  گام زن رہے ہیں اس کو کس طرح چھوڑ  دیں ، وہ سب کے سب آپ کے حامی و مددگار اور جان نثار ساتھی بن گئے۔مستشرقین جب آپ ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کی تاریخ سے عدم واقفیت اور تعصب کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔وہ تمام حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے اعتراض کرتے ہیں جو خود ان عربوں اور اس دور کے یہود و نصاریٰ نے بھی نہیں کیے جن کے درمیان آپ ﷺ نے حیات طیبہ کا ایک بڑ  ا عرصہ بسر کیا تھا۔

چنانچہ اب ہم ان اعتراضات کا ترتیب سے جائزہ لیتے ہیں جو ،  وقتاً ور،  (مترجم احمدشا تک آ  فوقتاً، آپﷺ پر کیے جاتے رہے ہیں :

۱۔نبوت سے انکار

مستشرقین آپ ﷺ کی نبوت کا اسی طرح سے انکار کرتے ہیں جس طرح ان کے پیش رو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔یہود نبوت و رسالت کو بنی اسماعیل میں جاتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنی تمام تعلیمات اور کتب میں بے تحاشا تحریفات کر ڈالیں۔انھوں نے حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ذبیح حضرت اسحق تھے۔ جبکہ دنیا کی معلوم تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنی اولاد کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے قربان یا وقف کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ اس مقصد کے لیے پہلوٹھی کا بچہ استعمال کیا۔ چونکہ حضرت اسماعیل عمر میں حضرت اسحٰق سے بڑ  ے تھے اس لیے یہ بات بالبداہت ،  واضح ہے کہ راہ خدا میں قربانی کی سعادت بھی انھی کے حصے میں آئی ہو گی۔ یہ روایات کہ کعبہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے تعمیر کیا تھا،  اور عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ،  تاریخ عرب میں تسلیم شدہ تھیں۔ان پر نہ اس وقت یہود نے اعتراض کیا تھا اور نہ نصاریٰ نے۔اسی طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب سے ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کی کوشش کی جن سے نبی ﷺ کی نبوت کی تائید ہوتی تھی،  جب کہ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ آپ ﷺ کو بطور نبی اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولا د کو پہچانتے ہیں۔اس کے باوجود ،  چونکہ انسانی کوشش غلطی سے مبرا نہیں ہوتی،  ان کی کتب میں نبی ﷺ کی بعثت کے بارے میں کچھ آیات باقی رہ گئی تھیں جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں۔

عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں بیان کردہ پیش گویوں کے ذریعے نبی ﷺ کی نبوت کے بارے میں معلومات اور اسلام کے متعلق ان کے رویوں کا اندازہ  ہم  پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ(1864-1930) کے اس بیان سے کر سکتے ہیں جو انھوں نے اپنی کتاب "The preaching of Islam”میں ایک نومسلم عبداللہ بن عبداللہ کے قبول اسلام کے ذیل میں درج کیا ہے ،  آرنلڈ کے بقول یہ واقعہ عبداللہ نے اپنی خود نوشت”The book of the present of the scholar to refute the people of the cross”   میں ذکر کیا ہے ،  جو کہ ۱۴۲۰ء میں لکھی گئی تھی۔آرنلڈ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ میورقہ(Majorqa) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک عیسائی مشنری تھے۔انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے عیسائیت کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو ایک معروف عیسائی پادری (Nicolas Martil)کے ساتھ وابستہ کر لیا. مذکورہ پادری بہت تعلیم یافتہ اور مسیحی حلقے میں عزت و احترام کا حامل تھا۔عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پادری اپنی درس گاہ میں نہ جا سکے اور ان کی غیر موجودگی میں طالب علم انجیل میں حضرت عیسیٰ کی بیان کردہ آنے والی شخصیت ’’Paraclete‘‘کے متعلق بحث کر رہے تھے۔ہر طالب علم اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔یہ بحث کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی۔جب میں نے پادری کو اس بحث کی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ تم لوگوں نے۔۔’’ فارقلیط ‘‘کے معنی کا صحیح تعین نہیں کیا۔چنانچہ میں نے خود کو پادری کے قدموں پر گرا دیا اور ان سے اس کا صحیح مفہوم معلوم کیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری بڑ  ی خدمت کی ہے اور تم مجھے بہت عزیز ہو۔لیکن اگر میں نے تمہیں صحیح بات بتا دی تو عیسائی تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔میں نے راز افشا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ ضرور مجھے اس راز سے آگاہ کریں۔تو پادری نے کہا:

Then know, my son that the Paraclete is one of the names of the prophet of the Muslims, Muhammad, to whom has been  چھوڑ   چڑ  revealed the fourth book of which the prophet Daniel sneaks when he announces that this would be revealed to him. Of a surety, his religion is the true religion and his doctrine is the glorious doctrine of which the Gospel speaks.”[1]

  1. The preaching of Islam, T.W.Arnold, Westminster Archibald Constable & CO.1896

چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ،  دنیا اور آخرت دونوں میں نجات اسلام سے مشروط ہے۔اس پر میں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کیا کروں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا۔جب میں نے ان سے بھی مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور عیسائی دنیا میں میری بہت عزت ہے۔اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لیے جان بچانا بہت مشکل ہے۔آخر کار میں نے ان کے مشورے سے مسلمان ملک تیونس میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔

صدیوں سے کسی کو نبی ﷺ کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے  اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسند اور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپ ﷺ کی اس حیثیت کا بھی انکار کر دیا۔مشہور مستشرق  ولیم میور) (1819[L:150]1905نے اپنی کتاب "The Life of Muhammad”میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :

"The desire to regard, and possibly the endeavour to prove, the Prophet of Islam a descendant of Ishmael, began even in his life-time. Many Jews, versed in the Scriptures, and won over by the inducements of Islam, were false to their own creed, and pandered their knowledge to the service of Mahomet and his followers.[1]

The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,1861,p34.

’’اس بات کی خواہش کہ آپﷺ کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے  اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ،  پیغمبرﷺ کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ  ے گئے اور حضرت اسماعیل  اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے۔‘‘

۲۔ کیفیات وحی کی غلط تعبیر

مستشرقین کی منفی ذہانت اور ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو فرشتوں کی بشارت ، واقعۂ شق صدر اور نزول وحی کی کیفیات کے بارے میں روایات کو غلط رنگ دیا۔ان روایات کی توجیہ یہ کی گئی کہ حضرت آمنہ ؓ کو فرشتوں نے نبی ﷺ کی پیدائش کی خوش خبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو بھی نبی ﷺ کو مرگی کے  جو ،  و دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریمﷺ پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفیات میں تغیر پیدا ہوتا۔شدید سردی کے موسم میں آپ ﷺ کو پسینہ آ جاتا۔اگر آپ سواری پر ہوتے تو وہ سواری بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتی۔ یہ کیفیات کئی روایات میں بیان ہوئی ہیں۔مثلاً  حضرت عائشہؓ سے ایک روایت منقول ہے :

’’حارث بن ہشام نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تھا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔‘‘

(بخاری ،  کتاب الوحی)

اس کیفیت کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کر کے آگے پہنچا سکے۔ مستشرقین ،  باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طور پر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اور حضرت موسیٰ  کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ،  لیکن حضرت محمد ﷺ پر کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔بعض مغرب زدہ مسلمان سکالر بھی جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو معیاری سمجھتے ہیں ،  مستشرقین کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔محمد حسین ہیکل ()نے اپنی کتاب۔۔’’حیات محمد‘‘ میں ایک مصری دانش ور کے خط سے اقتباس نقل کیا ہے جو مستشرقین کی تحقیقات کے اس نتیجے کے قائل تھے۔انھوں نے لکھا ہے :

He says that the investigations of the orientalists have  established that the Prophet suffered from epilepsy, that the symptoms of the disease were all present in him and that he used to lose consciousness, perspire, fall into convulsions and sputter. After recovering from such seizures, the claim continues, Muhammad would recite to the believers what he then claimed to be a revelationfrom God, whereas that was only an aftereffect of theepileptic fits which he suffered. [1] 1.The Life of Muhammad,Muhammad Husayn Haykal(Translated by Isma’il Razi A. AlFaruqi),P38

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستشرقین کے پروپیگنڈے کے اثرات کس حد تک لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا کہ حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ پر صرف نچلے طبقے کے چند غریب لوگ ایمان نہیں لائے تھے ،  بلکہ عرب کے عظیم دانش ور،  شاعر،  خطیب،  سپہ سالار،  طبیب،  فلسفی،  علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان لائے تھے اور زندگی بھر آپ ﷺ کے ساتھ رہے۔ ان میں سے کسی کو کبھی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی لیکن اس کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے کوئی کیفیت بھی آپ پر لگائے گئے اس الزام کی تائید نہیں کرتی۔

 

 

قرآن مجید

 

اسلام کے رخ روشن کو دھندلانے کی سعی و جہد میں آپ ﷺ کے ذات گرامی کے بعد مستشرقین کا سب سے بڑ  ا ہدف قرآن مجید ہے۔یہ لوگ اچھی طرح سے جان گئے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے۔ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس راز کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

’’جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد( ﷺ)اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی۔‘‘  [۲]    ۲۔ضیاء النبی،  ج۶،  ص۲۵۳۔

چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری تھا۔انھوں نے اس عظیم الشان کلام پر ایسے اعتراضات کیے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئے تھے۔قرآن کے مخاطبین ،  جن کی اپنی مادری زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ، انھیں اس پر اعتراض کی جرأت نہیں ہوئی۔زبان و بیان کے ماہر عرب جو اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم یعنی گونگا قرار دیتے تھے ،  قرآن مجید نے ان کی قوت بیان کو متحیر کر دیا   ۔قرآن نے انہیں چیلنج کیا اگر تم قرآن کو کلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو تو اپنی زبان اور قوت بیان کو ،  جس پر تم اتنا فخر کرتے ہو،  استعمال کر کے قرآن مجید کے مقابلے میں کلام لے آؤ:

و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاْتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ،  اعدت للکٰفرین۔(البقرۃ۲:۲۴۔۲۳)

’’اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو پھر تم ویسی ہی ایک سورت بنا کر لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو،  اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کر سکو،  اور (یقیناً)تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ، تو پھر آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے تیا رکی گئی ہے۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ زبان و بیان کی قوتیں جس ہستی کی بخشی ہوئی تھیں ،  وہ جو نطق اور فواد کا خالق ہے ،  اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کلام مجید ،  آپ کی نبوت کی تائید میں ،  بطور معجزہ عطاء فرمایا تھا۔اس کی معجزانہ خصوصیات کے بارے میں وہی لوگ جان سکتے تھے ،  جن کی زبان عربی مبین تھی،  یا جو زبان و بیان کے ماہر تھے۔اللہ تعالیٰ کا طریقہ انبیائے کرام کے معاملے میں یہ رہا ہے کہ جس امت میں ان کو مبعوث کیا ،  ان کے حالات کے لحاظ سے ،  اتمام حجت کے لیے معجزات بھی عطاء فرمائے۔تاکہ وہ قوم یقین کامل حاصل کر لے کہ یہ شخصیت اللہ کی طرف سے ہے اور اسے اس معاملے میں کوئی شک نہ رہے۔مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو کا شہرہ تھا۔سینکڑ  وں ماہرین فن مصر کے طول و عرض میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا کیا جس کا تعلق اسی فن  سے تھا،  لیکن درحقیقت اس کی نوع الگ تھی جسے صرف ماہرین فن جادوگروں نے پہچانا اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب و حکمت کا فن عروج پر تھا۔ اللہ نے آپ کو اس فن سے متعلق معجزات عطا کیے تھے۔ مثلاً  آپ اندھوں کو بینائی ،  کوڑھیوں کو صحت یابی اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندگی بخش دیتے تھے۔حضرت محمد ﷺ کے مخاطبین میں شعر و خطابت اور زبان و بیان کا چرچا تھا۔اس لیے اللہ نے آپ کی نبوت کی تائید میں قرآن مجید کو ایک معجزانہ کلام کی صورت میں نازل کیا تاکہ زبان و بیان کے ماہر عرب یہ بات آسانی سے جان لیں کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ کلام الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی زبانیں گنگ کر دیں۔جو لوگ زبان و بیان کے ماہر تھے انھیں قرآن پر ایسا کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ کام اجڈ اور جاہل دیہاتی عربوں اور عربی زبان و ادب سے ناواقف مستشرقین نے کیا ہے۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو کبھی محمدﷺ کی اپنی تخلیق اور کبھی کسی عیسائی پادری اور یہودی عالم سے مستعار لیے گئے خیالات قرار دیا۔اور کبھی یہ الزام لگا دیا کہ یہ کتاب منتشر خیالات کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے مشہور مستشرق جارج سیل (George Sale)(1697-1736)نے قرآن مجید کے بارے میں اپنے سنہری خیالات کا اظہار اپنے ترجمہ قرآن (The Koran)کے مقدمے میں اس طرح سے کیا ہے :

 

That Muhammad was really the author and chief contriver of the Quran is beyond dispute, though it be probable that he had no small assistance in his design from others, as his countrymen failed not to object to him. However, they differed so much in their conjectures to the particular person who gave him such assistance, that they were not able, it seems, to prove the charge; Muhammad, it is to be presumed, having taken his measures too well to be discovered. Dr. Prideaux has given the most probable account of this matter, though chiefly from Christian writers, who generally mix such ridiculous fables with what they deliver, that they  deserve not much credit. [1]

  1. The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,1882,P107.

’’اس حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کے مصنف یا  موجد محمد(ﷺ)ہیں ،  اگرچہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو اس منصوبے میں دوسروں سے جو مدد ملی وہ کم نہ تھی،  جیسے کہ آپ کے ہم وطنوں نے آپ پر یہ اعتراض کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔البتہ ان کو اس قسم کی مدد مہیا کرنے والے مخصوص شخص کا تعین کرنے میں ان کے مفروضے اتنے متضاد ہیں کہ وہ محمد(ﷺ) کے خلاف یہ الزام ثابت نہ کر سکے۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ محمد(ﷺ) نے اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے اتنے عمدہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے اس راز کا انکشاف ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر پیریڈیکس نے اس مسئلے کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو حقیقت کے زیادہ قریب ہیں۔یہ تفاصیل اکثر عیسائی مصنفین کی کتب سے لی گئی ہیں ،  جو اپنے بیانات میں بعض مضحکہ خیز قصوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی اعتبار کے قابل نہیں رہتے۔‘‘

مستشرقین نے آپ ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے قرآن مجید انجیل ،  تورات اور اہل کتاب کی روایات سے اخذ کیا ہے۔چونکہ اس بات سے انکار کرنا مشکل تھا کہ آپ ﷺ روایتی تعلیم اور کتابت سے ناآشنا تھے ،  لہذا ان لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ  ا کہ آپ ﷺ ورقہ بن نوفل ،  بحیرہ راہب،  شام کی سرحدوں پر آباد عیسائیوں ،  مقامی میلوں میں آنے والے اہل کتاب اور عیسائی غلاموں سے واقعات اخذ کر کے قرآن مجید تخلیق کرتے تھے۔آپ ﷺ کی ادب اور زبان و بیان سے نا آشنائی ان لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ سراسر آ پ کی اپنی تخلیق ہے ،  اس لیے بھی مشکل ہے کہ آپ کا امی ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے۔جب کہ دوسری

طرف قرآن مجید کا کلام معجز پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔جارج سیل (George Sale)(1697-1736) بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :

Muhammad seems not to have been ignorant of the enthusiastic operation of rhetoric of the minds of men, for which reason he has not only employed his utmost skill in these his pretended revelations to preserve that dignity sublimity of style which might seem not unworthy of the majesty of that being whom he gave out to be the author of them and to imitate the prophetic manner of  the old testament.[1]The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,1882,P105.

’’کلام میں لفاظی حاضرین کے ذہنوں پر جو اثر ڈالتی ہے ،  محمد(ﷺ) اس سے بے خبر نہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان نام نہاد الہامات میں اسلوب بیان کے اس وقار اور رفعت کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کی ہیں ،  جو اس ذات کے شایان شان ہو جس کی طرف وہ اس کو منسوب کرتے ہیں اور اس اسلوب کو اختیار کیا ہے جو عہد نامہ قدیم کے پیغمبرانہ اسلوب سے ہم آہنگ ہو سکے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین کی اس جسارت کا جو آغاز اسلام سے لے کر اب تک اور اب سے لے کر یوم حساب تک ،  نہایت عمدہ جو اب دیا ہے۔جو لوگ اس کلام کو کبھی کسی راہب سے ملاقاتوں کا نتیجہ اور کبھی آپ کی اپنی کاوش اور کبھی کسی  بلعام لوہار،  مغیرہ کے غلام یعیش اور عیش و جبرنامی لوگوں کی تعلیم قرار دیتے ہیں [۲] ،  ان سے اللہ نے فرمایا ہے :

ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین۔ (سورۃ النحل۱۶:۱۰۳)

’’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں  یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے۔حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں ،  عجمی ہے اور قرآن فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے۔‘‘

یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو مشرکین اور مستشرقین،  دونوں نبی کریم ﷺ کے استاد قرار دے رہے ہیں وہ عجمی الاصل ہیں اور ان میں سے کسی کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ اس عظیم الشان کلام کو،  جس کی تاثیر ،  قوت اور عظمت کا اقرار عرب کے تمام مسلم اور غیر مسلم اہل زبان و ادب کر چکے ہوں ،  ایسے لوگوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور نادانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔اور قرآن کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال سے ہر علم و فن کے ماہر اسی سے رجوع کر رہے ہیں اور سینکڑ  وں ،  بلکہ ہزاروں علوم و معارف کا استنباط اس سے کر چکے ہیں۔لاکھوں غیر مسلم کسی تبلیغی مشن کے نتیجے میں نہیں ،  بلکہ اس کتاب عظیم کے مطالعے کے نتیجے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم،  رسل ویب،  ڈاکٹر مارٹن لنگز،  ڈاکٹر آرتھر کین،  جان سنٹ،  جرمن مفکر علاء الدین شلبی،  علامہ محمد اسد،  خالد شیلڈرک،  مریم جمیلہ وغیرہ۔ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب (The Bible, The Quran And Science)میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جو آپس میں متناقض ،  سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسا نہیں ملا جو مسلمہ عقلی اور سائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :

The ideas in this study are developed from a purely scientific point of view. They lead to the conclusion that it is inconceivable for a human being living in the Seventh century A.D. to have made statements in the Qur’an on a great variety of subjects that do not belong to his period and for them to be in keeping with what was to be known only centuries later. For me, there can be no human explanation to the Qur’an.[1]

 

  1. The Bible, The Quran And Science, Maurice Bucaille,Dar Al Ma’arif Cairo, Egypt,P125

’’قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی  تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے۔‘‘

 

 

تعدد ازواج

 

اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک ہدف تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو اور خصوصاً آپ ﷺ کو شدید طریقے سے ہدف تنقید بنایا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عیسائیت اور یہودیت کی طویل تاریخ میں عورتوں کے خلاف جو ظلم و ستم روا رکھا گیا ،  یا انجیل و تورات کے اندر سینکڑ  وں شادیوں ،  اور بے شمار لونڈیوں کے ساتھ رفاقت کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔جب ہم یہودیت اور عیسائیت کی قدیم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہر دور میں خواتین کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر نظر آتی ہے۔ ان کو معاشرے میں نہایت گھٹیا مقام دیا جاتا تھا۔ اہل مذہب ان کو تمام برائیوں کی جڑ  قرار دیتے تھے اور ان سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے۔بائیبل میں بعض انبیا ء کی بھی سینکڑ  وں بیویاں بیان کی گئی ہیں ،  مثلاً حضرت سلیمان کے ایک رات میں اسی بیویوں کے پاس جانے کی کہانی یہودی اساطیر ہی سے اسلامی تفاسیر میں در آئی ہے۔ یونانی اساطیر میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو تمام انسانی مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کی مذہبی خرافات میں حضرت حوا  ؑ کو آدم کے جنت سے نکالے جانے کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ یونانی اور ایرانی تہذیب میں بھی مرد و زن کے تعلقات اخلاقی رکاوٹوں سے آزاد ہو گئے تھے اور کثرت ازواج پر کوئی قدغن نہیں تھی۔مسیحی تعلیمات میں عورت کو ایک خطرہ،  مصیبت اور غارت گر ایمان قرار دیا گیا۔مذہبی لوگ عورت سے دور رہنے کو تقویٰ ، تقدس اور اعلیٰ اخلاق کی علامت سمجھنے لگے۔اس طرح سے عورت اس معاشرے میں تیسرے درجے کی مخلوق بن گئی تھی۔چونکہ مذہبی طبقے کو معاشرے میں فوقیت حاصل تھی اور تمام قوانین اور ضوابط کا مرکز و محور یہی طبقہ تھا جو عورتوں کو تمام مصائب کی جڑ  قرار دیتا تھا،  لہٰذا عورتوں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔عرب معاشرے میں بھی کثرت ازواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ اسی طرح طلاق پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ اس قسم کے حالات میں اگر اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے توہر سلیم الفطرت انسان یہ بات تسلیم کر لے گا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بار خواتین کو کسی نے برابر کے حقوق دیے ہیں۔جہاں شادیوں کی کوئی حد مقرر نہیں تھی وہاں اسلام نے چار کی تحدید کر دی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ان کے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے۔ایک اور بات جو پیش نظر رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے شادی کے ارادے ، بیوی کے انتخاب،  اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے معاملات کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے اور ریاست کو از خود اس میں مداخلت کا حق نہیں دیا۔البتہ ان معاملات میں اچھے اور برے کی تمیز ضرور کر دی ہے۔اسی طرح اسلام میں چار شادیاں کرنا لازمی بھی قرار نہیں دیا گیا ،  بلکہ صحابہ کرام کے کثرت سے شہید ہونے اور شہداء کے اہل و عیال کی کفالت کے سلسلے میں معاشرتی مسائل اور منفی رویوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت کے معاملے میں جن مسائل کا شکار ہیں ، ان سے بچنے کے لیے ان کی بیویوں سے شادی کر لیں۔اس اجازت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آیندہ بھی کبھی دنیا میں کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جب عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑ  ھ جائے ،  یا کسی شخص کو طبی یا معاشرتی بنیادوں پر دوسری شادی کرنی پڑ  ے تو وہ کر سکے۔مثلاً کسی کی بیوی دائمی مرض میں مبتلا ہو،  یا کسی گھر میں کسی ایک بھائی کی وفات ہو

جائے وغیرہ۔ اس پر بھی یہ پابندی لگا دی گئی کہ اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر سکتے تو ایک ہی شادی پر اکتفا کرو۔  قرآن مجید میں ارشاد ہے :

و ان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتٰمیٰ فا نکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلٰث و ربٰع، فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ۔ ( سورۃ النساء ۴:۳)

’’اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کی ماؤں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو،  دو دو،  تین تین،  چار چار سے ،  لیکن اگر تمھیں خدشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک  ہی پر  اکتفا کرو۔‘‘

اسلام نے خواتین کو،  تاریخ میں پہلی بار،  شادی  اور طلاق کے معاملے میں اختیار دیا۔ عورت کو معاشرے میں عزت و احترام کا مقام دیا۔اس کو کمانے اور جائیداد بنانے کا حق دیا۔بچوں کی پرورش اور ان کے بارے میں فیصلوں میں معاونت کا اختیار دیا۔ مردو عورت کو ایک دوسرے کا لباس اور سکون و اطمینان کا ذریعہ قرار دیا۔اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے مذہب کو مستشرقین یہ الزام دیں کہ اس نے خواتین سے زیادتی کی ہے۔

یہ تو عمومی طور پر مسلمانوں کے درمیان تعدد ازواج پر مغرب کے اعتراضات کا سرسری جواب تھا۔ اب ہم حضور ﷺ پر تعدد ازواج کے الزامات کی طرف آتے ہیں۔مستشرقین نے کثرت ازواج کی بنا پر آپﷺ کو جنسی طور پر حد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے۔ان لوگوں نے آپ ﷺ کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے جو علمی و تحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی،  عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اور بد زبان لوگوں کو سکالر اور محقق بھی کہا جاتا ہے۔ولیم میور آپ ﷺ کے بارے میں لکھتا ہے :

Mahomet was now going on to three-score years: but weakness for the sex seemed only to grow with age and the attractions of his increasing harem were insufficient to prove his passion from wandering beyond its ample limits.[1]

’’اب محمد( ﷺ) کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑ  ھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔آپ کے بڑھتے ہوئے حرم کی کشش آپ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی۔‘‘

آپﷺ پر جنس پرستی اور ہوس پرستی کا الزام لگانے والوں نے اپنے تعصب،  تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے باعث بہت سے حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے۔اگر تعدد ازواج کسی شخص کی جنس پرستی کا ثبوت ہے تو تاریخ عالم میں بہت سی شخصیات اس الزام کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ان شخصیات میں عام لوگوں اور یہود  و نصاریٰ کے قائدین کے علاوہ ان کے بہت سے انبیا ء بھی شامل ہیں۔مثلاً بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیاں تھیں۔[۱] ۱۔ سلاطین۱۱:۳۔

اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب کی چار چار بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔

محمد ﷺ کی زندگی کا جائزہ لینے سے ہمیں واضح طور پر اس بات کے ثبوت مل جاتے ہیں کہ مستشرقین کے ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔آپ ﷺ نے زندگی کے اس دور میں جو جسمانی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کے معاملے میں سنہری دور کہلاتا ہے ،  ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ سے نکاح کیا۔ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ان کی وفات کے بعد،  جب گھر میں بچیاں اکیلی تھیں اور آپﷺ نبوت کی ذمہ داریوں میں ان کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے تھے ،  اس بنا پر آپ نے عمر رسیدہ  بیوہ خاتون حضرت سودہؓ سے نکاح کیا۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی۔آپ ﷺ کا خاندان اور آپ کی شخصیت کا تاثر اتنا عمدہ تھا کہ آپ عرب کی جس خاتون سے چاہتے ،  وہ آپ سے شادی کے لیے تیار ہو جاتی۔اس سے پہلے عرب آپ کو دعوت دین سے باز رہنے کے لیے عرب کی حسین ترین خاتون  سے شادی کی پیش کش کر چکے تھے ،  جسے آپ نے رد کر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے زندگی میں ایک ہی کنواری خاتون حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔اگرچہ آپ ﷺ کی ساری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق ہی بسر ہوئی تھی اور تمام شادیاں بھی یقیناً اللہ کے حکم سے ہوئی تھیں ،  لیکن اسلامی روایات کی رو سے آپ کی یہ شادی ،  خالصتاً،  اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوئی تھی۔حضرت عائشہؓ اللہ کی طرف سے خواتین کے معاملات میں نبوت کی ذمہ داریوں میں آپ کی معاون بنائی گئی تھیں۔آپ کی تمام شادیاں نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف مقاصد کے تحت انجام پائی تھیں۔مثلاً حضرت خدیجہ ؓ ان حالات میں جب پورا عرب آپ کے خلاف تھا،  آپ کی ممد و معاون بنیں اور اپنی ذات ،  اپنا مال اور اپنی اولاد ہر چیز اسلام اور نبی کریم ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔اسلام کے راستے میں پہلی شہادت حضرت حارث بن ابی ہالہ کی تھی،  جو حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے آپ کی واحد اور نرینہ اولاد تھے ،  اور نبی ﷺ کی گود میں پل کربڑ  ے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کی وجہ یہ تھی کہ خواتین کے خصوصی معاملات میں کسی خاتون کی معاونت ضروری تھی۔ فطری شرم کی وجہ سے خواتین ایسے مسائل مردوں کے سامنے ذکر نہیں کر سکتیں۔حضرت سودہ سے نکاح بچیوں کی کفالت کی غرض سے ہوا۔حضرت زینب بنت جحش سے نکاح تشریعی مقاصد کے لیے ،  متبنی کی بیوی سے نکاح کی حرمت ختم کرنے کے لیے ، جو کہ عربوں نے اللہ کے حکم کے خلاف خود پر مسلط کر لی تھی، کیا گیا۔معاشرتی مقاصد کے لیے اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان سے تعلقات میں مضبوطی لانے کے لیے حضرت ابوبکر،  حضرت عمر،  حضرت عثمان،  حضرت علی رضی اللہ عنہم سے قریبی رشتہ داریاں قائم کی گئیں۔سیاسی مقاصد کے لیے آپ نے بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہؓ سے شادی کی،  جس کے نتیجے میں ایک کٹر مخالف قبیلہ اسلام کا حامی بن گیا۔یہود اسلام اور نبیﷺ کے شدید دشمن تھے۔غزوہ خیبر میں یہود کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ اسیر ہوئیں تو آپﷺ نے ان کو نکاح کی پیش کش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔یہود کی مقامی روایات میں داماد کے خلاف لڑائی کرنا برا سمجھا تا تھا،  اس نکاح کے باعث یہود نے مسلمانوں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہیں کی۔اسی طرح حضرت  ابو سفیانؓ کی بیٹی حضرت ام حبیبہ ؓ سے شادی کے ذریعے اسلام کے ایک بہت بڑ  ے مخالف اور عربوں میں تقدس اور احترام کے حامل شخص کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔حضرت زینب بنت خزیمہ کے یکے بعد دیگرے دو شوہر حضرت عبیدہ ؓبن حارث اور عبداللہؓ بن جحش شہید ہوئے تو ان کی دل جوئی اور انھیں مسائل سے بچانے کے لیے آپﷺ نے ان سے نکاح کیا۔اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی۔حضرت ام سلمہ ؓہند بنت ابی امیہ کے خاوند حضرت عبداللہؓ بن عبدالاسد حضورﷺ کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے۔ان کی شہادت کے بعد آپﷺ نے ان کی بیوہ کو لا وارث چھوڑ  نے کے بجائے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔حضرت میمونہ بنت حارث بھی ایک بزرگ بیوہ خاتون تھیں ،  جن کی آٹھ دیگر بہنیں عرب کے اہم لوگوں کی زوجیت میں تھیں۔حضرت عباس ؓ کی ترغیب کے بعد آپ ﷺ نے ان سے نکاح کیا جس کے نتیجے میں آپ کی رشتہ داری بہت اہم خاندانوں سے ہو گئی۔اسلامی نقطہ نظر کے لحاظ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کے مقابلے میں نکاح کے معاملات میں خصوصی مراعات بھی دیں اور کچھ اضافی پابندیاں بھی لگائیں ،  جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے  سورۃ الاحزاب کی آیات ۵۰تا ۵۲ میں کیا ہے۔


مسئلہ غلامی

 

ایک اور اہم معاملہ جسے مستشرقین نے اپنے طنز و تضحیک کا ہدف بنایا ہے ،  وہ اسلام میں غلامی کا تصور ہے۔مستشرقین نے عام طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام غلامی کو تحفظ دیتا ہے۔اس غلط تاثر کی بنیادی وجوہات میں جہاں مستشرقین کی اسلامی احکام کے نزول کے طریق کار اور اسلامی تاریخ سے نا واقفیت اور تعصب کارفرما ہیں ،  وہیں بعض اسلامی سلاطین کی طرف سے اسلام کے احکام سے روگردانی بھی ہے۔اسلامی احکام اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر تدریج کے اصول پر نازل فرمائے ہیں۔معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ  یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ،  ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ،  انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کے پاس بیس ،  تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا،  بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کر رہے

تھے۔عرب کے طول و عرض اور عراق ،  شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تو اس سارے علاقے میں کروڑوں غلام کام کر رہے تھے۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین،  مرد اور بچے بے گھر اور لا وارث ہو جاتے۔چوروں ،  ڈاکوؤں ،  بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔

چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد یہ پابندی لگا دی کہ جو خود کھاؤ ،  پہنو ان کو بھی وہی کچھ دو۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر اس انداز سے عمل کیا کہ آقا و غلام میں تمیز کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کو دہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ  ی نیکی قرار دیا۔ اس کے بعد مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ،  جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کر کے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا۔انسانی غلامی کے سارے طریقوں اور انسانوں کی خرید و فروخت سے روک دیا گیا۔ان سارے احکام کے بعد انسان کو غلام بنانے کی صرف ایک صورت رہ گئی تھی کہ جو لوگ جنگ کی صورت میں قید ہو جائیں ان کو غلام بنا یا جاتا تھا۔چنانچہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ محمد میں اس چیز پر پابندی لگا کر غلامی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قرآن میں ارشاد ہے :

فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب، حتیٰ اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فامامنا بعدُ واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا۔(سورۃ محمد۴۷:۴)

’’تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ  ہو تو گردنوں پروار کرو۔جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تواب خوب مضبوطی سے گرفتار کرو۔(اس کے بعد تمھیں اختیار ہے )خواہ احسان کر کے چھوڑ  دو یا فدیہ لے کر،  تاوقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔‘‘

 

 

 

 

نتیجہ بحث

 

اس ساری بحث میں بنیادی نکات جن کے متعلق ہر مسلمان کو جان لینا چاہیے ،  وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ استشراق کا مفہوم صرف مشرقی علوم و معارف کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پست مسلمانوں کے ساتھ چودہ سو سال کی دشمنی کی تاریخ ہے جسے یہود و نصاریٰ ہر گز نہیں بھولے ہیں۔اس تحریک کی بنیاد میں یہی مقاصد کارفرما ہیں ،  چاہے ان کو بظاہر علم و تحقیق کا لبادہ اوڑھا لیا جائے۔

۲۔ مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلامی علوم میں تحقیق نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود دین کے بنیادی ماخذ نبی کریم ﷺ کی ذات کو معاذاللہ  دھندلانا ،  ان کی نبوت کو مشکوک کرنا ،  صحابہ کرام کی توہین،  قرآن مجید کو انسانی کاوشوں کا شاہ کار ثابت کرنا ،  اسلام کے چہرے کو داغ دار کرنا

اور اسلامی احکام و معارف پر شکوک و شبہات کی دھند ڈالنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو واضح طور پر ہدایت دے دی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح سورہ بقرہ ۲:۱۲۰میں فرما دیا کہ تم سے ہرگز خوش نہیں ہوں گے یہود و نصاریٰ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں۔اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ،  وہ تمھیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔وہ تو وہ چیز پسند کرتے ہیں جو تمھیں ضرر دے۔پھر سورہ ممتحنہ میں مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کو دوست بنانے سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے میں مدد دی۔اور جو انھیں دوست بناتے ہیں تو وہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

***

 

 

 

مصنف کے تشکر اور اجازت کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

[i] لسان العرب ابن منظورالافریقی،  محمد بن مکرم، دار صادر بیروت،  ج۱۰،  ص۱۷۴۔

[ii]  الاستشراق،  مازن بن صلاح مطبقانی

[iii] شرق شناسی،  ایڈورڈ سوید، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔ص۱۴

[iv]Word Web (Software Dictionary)Word”Oreientalism

[v] المنجد

[vi] الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی،  انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲۔

[vii] الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی،  انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲

[viii] استثنا ۸۱:۱۹۔۸۱

[ix] ضیاء النبی،  (بحوالہ،  الاضواء علی الاستشراق والمستشرقین،  ص۱۵)ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ،  ج۶،  ص۱۲۶

[x] الاستشراق،  مازن بن صلاح مطبقانی،  قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ۔مدینہ،  ص۵

[xi] ضیاء النبی،  پیر محمد کرم شاہ،  ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور۱۴۱۸ھ،  ج۶،  ص۱۲۶

[xii] ضیاء النبی،  پیر محمد کرم شاہ،  ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور۱۴۱۸ھ،  ج۶،  ص۱۵۶۔

[xiii] ضیاء النبی،  ج۶،  ص۲۸۰۔

[xiv] ضیاء النبی،  ج۶،  ص۳۲۹

[xv] ضیاء النبی، ج ۶،  ص۲۵۲۔

[xvi]یورپ پر اسلام کے احسانات،  غلام جیلانی برق،  شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہور،  ص۲۸

[xvii] الرحیق المختوم،  صفی الرحمن مبارک پوری،  المکتبہ السلفیہ لا ہور،  (مترجم احمدشا کر)مئی ۲۰۰۰ء ،  ص۱۵۳