FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

گیلی چُپ

 

 

ناہیدؔ وِرک

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل

 

 

انتساب

اپنے بھائیوں

جمشید، آصف، مستنصر، عمران

کے نام

 

بارِ اوّل :      اکتوبر 2012ء

شاعرہ  :      ناہیدؔ ورک Naheed Virk

naheed.virk@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

ترا ہی ہوں سراپا ہُو بہو ماں

ترا ہی مجھ میں پیکر جاگتا ہے

 

مَیں جب بھی تیرا چہرہ سوچتی ہوں

حسیں سا کوئی منظر جاگتا ہے

 

 

 

 

رائیگانی

 

روشنی بھرے رستوں پر جب سُرمئی دھندلکوں کا سایہ پڑ جائے

تو پھر دھواں بھری سانسوں اور دھواں بھری آنکھوں میں زندگی سجائے رکھنا کمال ہی تو ہے

کمال ہی تو ہے پھیکے منظروں کے خالی کٹوروں کو اپنی نرم اور

اُجلی مسکان سے بھرتے رہنا اور یہ خواہش کرنا کہ

صبح کاذب کے گنگناتے جھرنوں کے ہمراہ

جس وقت سورج اپنی روشنی دھاگہ دھاگہ ہر ذی روح میں

بانٹتا ہے

اُس وقت میں روح کی آواز سُنوں

اپنی روح کی آواز

جو کہکشاں کے طلسم کدے سے ہوتے ہوئے

جب زمین کی طرف پلٹے تو

وہ میری گِیلی چُپ کی ساتھی ہو

اور مجھ سے کہتی ہو

"آنکھ کے آنسو پونچھ لو

چپ کے کہرے سے ہونٹوں کو آزاد کر دو

دیکھو، بے ساختہ آنسوؤں میں گھِری

گِیلی چُپ کی نمی سے

تتلی کے پر گِیلے ہو رہے ہیں

چلو، تیرگی جھٹک کر روشنی پکڑو

دیکھو، سورج کتنی بے چارگی سے تمہیں تک رہا ہے

(جیسے کہہ رہا ہو)

اپنی آنکھوں سے دبیز پردے کی یہ تہہ ہٹا دو

اور کرنوں کا استقبال کرو

ہنسو اور میری روشنی اپنے اندر انڈیل لو

اٹھو اور خود سے مل لو

چُپ کے کہرے سے ہونٹوں کو آزاد کر دو

دیکھو، بے ساختہ آنسوؤں میں گھِری

گِیلی چُپ کی نمی سے

تتلی کے پر گِیلے ہو رہے ہیں”

مگر

روشنی بھرے رستوں پر جب سُرمئی دھندلکوں کا سایہ پڑ جائے

تو پھر

سورج روٹھ جاتا ہے

اندھیرا جیت جاتا ہے

خاموشی کو پر لگ جاتے ہیں

تو ایسے میں کبھی منظر طلسم بھرے آب میں ڈھلے لگتے ہیں اور

کبھی جادوئی وقت کے پنجرے میں قید۔ جہاں لمحے ایک

سہمے ہوئے پرندے کی مانند اس انتظار میں پڑے رہتے ہیں

کہ کبھی کہیں سے کوئی آ کر پنجرے کا یہ زنگ آلود تالا توڑ

دے گا اور اُسے گیلی چُپ کے طلسم کدے سے رہائی مل جائے گی

مگر آنسو روتی آنکھوں کو کون اذنِ رہائی دے

جب مسکان کی دھوپ سے زندگی کی حرارت نکل کر بے یقینی

کے پیراہن میں ڈھل جائے تو رائے گانی جیت جاتی ہے

اور جب رائے گانی جیت جائے تو پھر

اداسی بھری کیفیت عادت بن جاتی ہے اور اس عادت میں

جب انتظار بھی شامل ہو جائے تو دل اور آنکھوں سے

بیک وقت بارش ہوتی ہے

جو جسم کی بنیادوں کو زیرِ آب لا کر اُسے کھوکھلا کر دیتی ہے

اور یہ انتظار

یہ انتظار فقط جسم ہی نہیں ڈھاتا

یہ سبز روح کو بھی پائمال کرتا ہے

اور پھر ایسے میں

ریشمی خوشبو بھرے

مدھم اُجالوں میں گھرے

لمحوں کا رستہ تکتے تکتے

کتنے ہی سر سبز موسم

بے سبب مر جاتے ہیں

اور اپنے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں۔

 

ناہیدؔ ورک مشی گن (امریکہ)

E-mail: naheed.virk@gmail.com

Cell: +1 586 933-6824

 

 

 

 

عقیدتوں کے پھول

 

 

 

 

 

حمد

 

ترا ذکر سچی دعا ہے

ترے نام سے ہی شفا ہے

 

ثنا، حمد، تعریف تیری

مرے علم سے ماورا ہے

 

حدِ سوچ میں تُو نہ آئے

مگر ہر طرف تُو دِکھا ہے

 

نظر کوئی کیسے چُرائے

ترا رنگ ہر سُو کھِلا ہے

 

ہوا، روشنی، پھول، خوشبو

تری ذات کا سلسلہ ہے

 

ترے اذن سے رات اُترے

ترے اذن سے دن چڑھا ہے

 

کبھی بھی جو بجھتا نہیں ہے

ترے نام کا ہی دِیا ہے

 

جہاں پر بھی تجھ کو پکارا

وہیں پر مجھے تُو ملا ہے

 

بھلا کب ترے ہو سکے ہم

مگر تُو سبھی کا ہُوا ہے

 

کسی راہ پر بھی چلوں میں

تجھی سے مرا واسطہ ہے

 

مرے دل کا خالی کٹورا

ترے ذکر سے ہی بھرا ہے

 

 

 

 

 

دُعا

 

مرے خدا

ہے مجھے اعترافِ کم علمی

حدودِ عقل میں آتا نہیں خیال کوئی

مجھے وہ علم عطا کر

کہ تجھ کو ڈھونڈ سکوں

مرے خیال کو اتنا وسیع کر مالک

کہ تیرے حکم پہ لبّیک کہہ سکوں مَیں بھی

ترے سِوا مرے دل میں کوئی طلب نہ رہے

مرے خدا

تری مرضی ہی میری مرضی ہو!

 

 

 

 

 

 

ہیں رات دن کے یہ جو سلسلے مرے مالک

تری ہی ذات سے ہیں سب جُڑے مرے مالک

 

بچا لے جلتے دھوئیں کے غبار سے مجھ کو

تُو ہی رحیم ہے غفّار ہے مرے مالک

 

مری اُمید کی لو دھیرے دھیرے بُجھ رہی ہے

بلند کر دے مرے حوصلے مرے مالک

 

ہیں بے گھری کے کئی ماہ و سال دامن میں

یہ ہجرتوں کا سفر اب ٹلے مرے مالک

 

شکستگی میں پڑی ہوں، تجھی سے مانگتی ہوں

تُو کھول دے مرے سب راستے مرے مالک

 

نکل کے تیرے کناروں سے مَیں کہاں جاؤں

ترے سِوا تو نہیں کوئی اے مرے مالک

 

مَیں تو حقیر سے پانی کی ایک بوند ہوں بس

قبول مجھ کو، عطا جو بھی ہے، مرے مالک

 

 

 

 

 

دلوں میں تقویٰ نہ ہو تو فضیلتیں کیسی

ہو فکر کی نہ بلندی تو عظمتیں کیسی

 

وہ جو گمان سے بڑھ کر قریب ہے میرے

رہوں جو دُور اُسی سے تو عزتیں کیسی

 

نہ تیرے قول سے مطلب، نہ فعل سے رشتہ

تری کتاب سے ہیں پھر یہ نسبتیں کیسی

 

بغیر سمجھے ہی قرآن، کیا بھلا جانو

کہ اس میں رکھی ہیں کامل ہدایتیں کیسی

 

کسی کو رات زیادہ ملی، کسی کو دن

مرے خدا، ہیں مجھے پھر شکایتیں کیسی

 

مَیں سجدہ ریز بھی ہوں اور اشک بار بھی ہوں

کہ جانتا ہے تُو ہیں تجھ سے حاجتیں کیسی

 

منا لو اُس کو وہ ربِ کریم ہے ناہیدؔ

وہی نہ راضی ہُوا تو عبادتیں کیسی

 

 

 

 

اسمِ محمّد

 

اُنؐ کا ذکر کرتے ہی

ہو گیا منوّر دل

اُنؐ کا نام لیتے ہی

دھند ہٹ گئی ساری

اور کھُل گئے سارے

روشنی بھری رستے۔۔۔

 

 

 

 

 

عذابِ ہجر سے انجان تھوڑی ہوتا ہے

یہ دل اب اتنا بھی نادان تھوڑی ہوتا ہے

 

یہ زندگی ہے بہت کچھ یہاں پہ ممکن ہے

کہ کچھ نہ ہونے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے

 

یہ دل کے زخم چھپا کر جو مسکراتے ہیں

تو میرے دوست یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے

 

کبھی کبھار تو بدعت بھی ہو ہی جاتی ہے

ہر ایک لمحہ ترا دھیان تھوڑی ہوتا ہے

 

وہ جس کے پاس محبت بھی ہو، وفا بھی ہو

بھلا وہ بے سر و سامان تھوڑی ہوتا ہے

 

تری وفا میں کمی کچھ تو آئی ہے کہ یہ دل

بلا جواز پریشان تھوڑی ہوتا ہے

 

ادھر اُدھر سے دلیلیں اُٹھانی پڑ جائیں

جو اتنا کچّا ہو، ایمان تھوڑی ہوتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

ابھی سے طاقِ طلب پر نہ تُو سجا مجھ کو

ابھی تو کرنا ہے اس دل سے مشورہ مجھ کو

 

ابھی شبیہ مکمل نہیں ہوئی تیری

ابھی تو بھرنا ہے اک رنگ ماورا مجھ کو

 

کوئی نہ کوئی تو صورت نکل ہی آئے گی

ذرا بتاؤ تو در پیش مرحلہ مجھ کو

 

یہ بات بات پہ تکرار و بحث کیا کرنا

کہ جیتنا ہے تمہیں اور ہارنا مجھ کو

 

مَیں اُس کی ذات میں شامل تھی، اُس کو مل جاتی

دُعائے خیر سمجھ کر وہ مانگتا مجھ کو

 

مَیں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

 

 

 

 

ضبط ہونٹوں پہ آ گیا تو پھر

تیرا سب حوصلہ گیا تو پھر

 

سال ہا سال کا اکیلا پن

تجھ کو اندر سے کھا گیا تو پھر

 

میری تنہائی کا یہ سنّاٹا

ہر طرف گونجتا گیا تو پھر

 

وہ جو تعبیر بن کے آیا ہے

خواب سارے جلا گیا تو پھر

 

جھیل آنکھیں سراہنے والا

ان کو دریا بنا گیا تو پھر

 

اپنے سب لفظ دے دیے اُس کو

اب وہی بولتا گیا تو پھر

 

اُس کے لہجے کا رنگ اگر ناہیدؔ

تیرے لہجے پہ چھا گیا تو پھر

 

 

 

 

 

عکس بھی عرصۂ حیران میں رکھا ہُوا ہے

کون یہ آئینہ رُو دھیان میں رکھا ہُوا ہے

 

شام کی شام سے سرگوشی سُنی تھی اک بار

بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہُوا ہے

 

ہاں ترے ذکر پہ اک کاٹ سی اُٹھتی ہے ابھی

ہاں ابھی دل ترے بحران میں رکھا ہُوا ہے

 

ایک ہی آگ میں جلنا تو ضروری بھی نہیں

ہاں مگر چہرہ وہی دھیان میں رکھا ہُوا ہے

 

رابطے اُس سے سبھی توڑ کے یاد آیا ہے

آخری وعدہ تو سامان میں رکھا ہُوا ہے

 

راس آتا ہی نہیں کوئی تعلق ناہیدؔ

دلِ خوش فہم مگر مان میں رکھا ہُوا ہے

 

 

 

وہ بچھڑ کر نڈھال تھا ہی نہیں

یعنی اُس کو ملال تھا ہی نہیں

 

وہ تو پاؤں ہی پڑ گیا تھا مرے

جس سفر میں وصال تھا ہی نہیں

 

میری تصدیق کیا بھلا کرتا

وہ کبھی میری ڈھال تھا ہی نہیں

 

سُرمئی ہجر کو ہرا کرتا

اُس میں ایسا کمال تھا ہی نہیں

 

اور پھر دل نے اُس کو چھوڑ دیا

جب تعلق بحال تھا ہی نہیں

 

چاند پھر ہم سفر بنا میرا

میرے آگے زوال تھا ہی نہیں

 

تجھ سے آگے مَیں سوچتی بھی کیا

تجھ سے آگے خیال تھا ہی نہیں

 

چوم لیتا اُداسیاں ساری

کوئی ماں کی مثال تھا ہی نہیں

 

 

 

 

 

دھول ہی دھول اُڑی ہے مجھ میں

سبز اک شاخ جلی ہے مجھ میں

 

کتنی ویرانی ہے میرے اندر

کس قدر تیری کمی ہے مجھ میں

 

دور تک اب تو خموشی ہے بس

دور تک اب تو یہی ہے مجھ میں

 

مان لیتی ہوں مکمل ہو تم

مان لیتی ہوں کمی ہے مجھ میں

 

ڈھیر سارے سے ادھورے پن میں

زندگی بھی تو رہی ہے مجھ میں

 

سانس در سانس اِسے پڑھتی ہوں

آیتِ ہجر لکھی ہے مجھ میں

 

خشک ہونے ہی نہیں دیتی آنکھ

وہ جو ساون کی جھڑی ہے مجھ میں

 

 

 

 

 

 

  سبز رُو آگ تھی، حدّت تھی مگر بے معنی

آگ میں شکل تھی، حیرت تھی مگر بے معنی

 

جو میسّر کی طلب مار رہی تھی دل کو

میرے حصّے کی ضرورت تھی مگر بے معنی

 

اپنی خاموشی کو آواز کیے جاتی تھی

گھر کی تنہائی سے وحشت تھی مگر بے معنی

 

زندگی تھی نہ کوئی روشنی کی اس میں رمق

اتنے برسوں کی رفاقت تھی مگر بے معنی

 

وہ تعلق میں کہیں بھول گیا تھا کہ مجھے

مستقل اُس کی ضرورت تھی مگر بے معنی

 

بُجھ رہی تھیں مرے اندر مری سورج کرنیں

وہ سمجھتا تھا جو حالت تھی مگر بے معنی

 

وقت کی گود میں سہمے ہوئے لمحے تھے جنہیں

وِرد کرنے کی اجازت تھی مگر بے معنی

 

 

 

 

 

 

نرم اُجالے بھی میری رات کو دے

صبح کا کوئی لمس ہاتھ کو دے

 

دفن کر کے مَرے ہوئے سب پل

زندہ لمحے بھی میری ذات کو دے

 

کھول کر اپنی آنکھ کی کھڑکی

کوئی روشن ستارہ رات کو دے

 

ہو مجسّم یہ بے خودی گر تُو

میرے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ کو دے

 

دھند سے اب نکال سورج کو

سبز رنگت بھی زرد پات کو دے

 

 

 

 

 

 

یہ جو صبح کے بیچ دیوارِ شب سی اُٹھی لگتی ہے

ہے عکسِ تحیّر کی یہ داستاں اور سُنی لگتی ہے

 

جو مَیں خواہشوں میں گھِری چُپ بھری ساعتیں تکتی ہوں

مجھے ان کے اندر تلک تری خواہش گڑی لگتی ہے

 

ترا وِرد کرتی ہوئی آسماں سے اُترتی ہوئی

کوئی نور جیسی دعا چار سُو گونجتی لگتی ہے

 

مرے آئینے میں جو تصویر تیری اُبھر آئی ہے

یہ جھٹلانے سے فائدہ، مجھ کو یہ روشنی لگتی ہے

 

فقط میرے چہرے پہ ہی رنگ کھِل کے نہیں اُترے ہیں

شفق شام کی میری آنکھوں سے بھی جھانکتی لگتی ہے

 

 

 

 

روک کر سانسیں تھمے سے رہتے ہیں

اک جگہ پر بس رکھے سے رہتے ہیں

 

بے خیالی میں چھلک جائیں نہ یہ

آنکھ کے ساگر بھرے سے رہتے ہیں

 

اپنے اندر ہی نہ مر جائیں کہیں

اس لیے تجھ سے جُڑے سے رہتے ہیں

 

 

خود کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں کہیں

تیرے پیکر میں ڈھلے سے رہتے ہیں

 

وہ دھندلکے کے سِوا کچھ بھی نہیں

بے سبب ہی ہم ڈرے سے رہتے ہیں

 

آنکھیں گِیلی چُپ سے یوں  بوجھل ہوئیں

جیسے اِن میں رتجگے سے رہتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

ماہتابِ وجود پڑھتے ہیں

آ کتابِ وجود پڑھتے ہیں

 

دھوپ رنگوں میں ڈھال دیتے ہیں

آفتابِ وجود پڑھتے ہیں

 

تیری خوشبو کو سانس کرتے ہیں

پھر گلابِ وجود پڑھتے ہیں

 

اک مہک جو بدن جلاتی ہے

اُس کا بابِ وجود پڑھتے ہیں

 

کتنی بوجھل گزرتی ہیں شامیں

تیرا خوابِ وجود پڑھتے ہیں

 

تیری حیرانی جان لیں پہلے

پھر سرابِ وجود پڑھتے ہیں

 

کوئی اندر کی بات کرتے ہیں

اضطرابِ وجود پڑھتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

بھری رات میں جاگنا پڑ گیا ہے

ترے بارے میں سوچنا پڑ گیا ہے

 

کسی خواب کی پھر سے دستک ہے شاید

درِ دل مجھے کھولنا پڑ گیا ہے

 

تری سوچ بھی سوچنی پڑ گئی ہے

ترا لہجہ بھی بولنا پڑ گیا ہے

 

دھواں بن کے سانسوں میں چبھنے لگی تھی

خموشی کو اب توڑنا پڑ گیا ہے

 

جہاں ریزہ ریزہ مَیں بکھری پڑی تھی

وہ منظر مجھے جوڑنا پڑ گیا ہے

 

یہ کیا سرسراہٹ ہوئی میرے دل میں

قلم روک کر سوچنا پڑ گیا ہے

 

 

 

 

 

 

ہم اپنی روشنی کو ملگجا کر لیں

کہ پھر سے زندگی کا سلسلہ کر لیں؟

 

ہمیں بھی تو صحیفہ کوئی لکھنا ہے

بہت ممکن ہے خود کو آئینہ کر لیں

 

کہیں شاید ہرا بھی ہم کو مل جائے

ترے رنگوں کا پھر سے تجزیہ کر لیں

 

ترے اندر بسیں دو چار دن اور پھر

ترے احساس کا بھی تجربہ کر لیں

 

برونِ جسم دہکی آگ کے اطراف

مقدس آیتوں کا دائرہ کر لیں

 

 

 

 

 

 

اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں

اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں

 

سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے

وِرد کرنے کی اجازت ہے ہمیں

 

دل جزیرے پر ہے اُس کی روشنی

اک ستارے سے محبت ہے ہمیں

 

اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو

مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں

 

ہم تحیر کھول دیں گے آنکھ سے

اب میسّر تیری قربت ہے ہمیں

 

دیکھئے جا کر کہاں رُکتے ہیں اب

تیری قُربت سے تو ہجرت ہے ہمیں

 

پھر اُسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ

پھر اُسی در پر سکونت ہے ہمیں

 

 

 

 

 

 

اُلجھی ہے اپنی ذات کے اندر

صبح کی سانس رات کے اندر

 

مَیں کہ تجھ سے بیاں نہ ہو پاؤں

یہ بھی ہے ممکنات کے اندر

 

ساعتیں حیرتوں سے تکتی ہیں

دستِ خوش لمس ہات کے اندر

 

ایک دوجے کے رنگ بھر لیں ہم

آؤ اپنی حیات کے اندر

 

ہار جانے کا خوف تھا ہی نہیں

جیت تھی میری مات کے اندر

 

لفظ در لفظ اور ہی معنی

بات اک اور بات کے اندر

 

 

 

 

 

کوئی ایسا کمال ہو جائے

ہجر سارا وصال ہو جائے

 

ایک اک لمحہ تیری قربت کا

زندگی کا جمال ہو جائے

 

باندھ لوں خود کو دھیان سے تیرے

اور بچاؤ محال ہو جائے

 

آنکھ بیداریوں میں کھو جائے

رَت جگوں کی مثال ہو جائے

 

تیری خوشبو حدِ وجود میں ہو

اور تکمیلِ حال ہو جائے

 

 

 

 

 

آنکھ میں پھیلے ہوئے ہیں جو نمی کے دائرے

سب ہیں تیری آرزو تیری کمی کے دائرے

 

بھولنے کا اُس کو جب بھی مَیں ارادہ کرتی ہوں

بولنے لگتے ہیں مجھ میں بے بسی کے دائرے

 

اک نمی آواز میں ہے اک نمی پلکوں پہ ہے

اور اُس میں تیرتے ہیں خامشی کے دائرے

 

بس مرے احساس کی دیوار ہی گرتی نہیں

ویسے تو ہر شے سے جھانکیں خستگی کے دائرے

 

مَیں رفاقت کی کہانی گر لکھوں تو کیا لکھوں

خامشی کے دائرے یا تیرگی کے دائرے

 

مدّتوں کے بعد کی خوشبو نے مجھ سے گفتگو

مدّتوں کے بعد مہکے زندگی کے دائرے

 

 

 

 

 

یاد کی منڈیروں سے جھانکتے ہوئے لمحے

اوڑھ کر ترا چہرہ بولتے ہوئے لمحے

 

کرتے رہتے ہیں اکثر مجھ سے گفتگو تیری

سوئی سوئی آنکھوں میں جاگتے ہوئے لمحے

 

ہجر کے جزیرے پر اب بھی سانس لیتے ہیں

تیرے وصل کا امکاں سوچتے ہوئے لمحے

 

ایک عمر تو مَیں نے یہ سنبھال کر رکھے

پھر بکھر گئے مجھ سے ٹوٹتے ہوئے لمحے

 

کرچی کرچی یہ تیرا عکس چنتے رہتے ہیں

لمحہ لمحہ یہ تجھ کو ڈھونڈتے ہوئے لمحے

 

کتنی خواہشیں دل میں پلتی ہیں مگر ناہیدؔ

ہاتھ ہی نہیں آتے بھاگتے ہوئے لمحے

 

 

 

 

 

حیرتِ بے یقینی ہو رہی ہے

سرمئی چُپ سُریلی ہو رہی ہے

 

ہے کسی خواب کی چبھن شاید

آنکھ جو یوں گلابی ہو رہی ہے

 

کیوں اندھیرا یہاں مکمل ہے

روشنی کیوں ادھوری ہو رہی ہے

 

ڈوبتی شام پر ہے سایہ ترا

شب کی رنگت سنہری ہو رہی ہے

 

وصل چھاؤں کی کچھ دعا اے دوست

ہجر کی عمر لمبی ہو رہی ہے

 

 

 

 

 

 

جو تُو میرا مقدّر بنتے بنتے رہ گیا ہے

سمجھ لے کچھ کہیں پر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

مَیں تیری دوری و قربت سے آگے آ گئی ہوں

سو تیرا نقش دل پر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

عجب ہی کیا ہے جو مجھ کو نہیں تُو مِل سکا تو

مرا ہر کام اکثر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

کہانی اِبتدا ہی سے بہت اُلجھی ہوئی تھی

سبھی کچھ اس میں بہتر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

یہی کل رات ہی، پھر درد کی اک ٹِیس اُٹھی تھی

مرا دل پھر سے پتھر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

جو ماں یوں رو رہی تھی خواب میں تو پھر اُسے بھی

پتہ ہو گا مرا گھر بنتے بنتے رہ گیا ہے

 

 

 

 

 

 

ہے جس کے نام یہ رحلِ وصال ہاتھوں میں

بسے ہوئے ہیں اُسی کے ملال ہاتھوں میں

 

جو ریزہ ریزہ ہوئے، گر پڑے اچانک سے

وہ آیتوں کی طرح تھے خیال ہاتھوں میں

 

سُنائے کوئی تو موسم بدلنے کا مژدہ

کوئی تو آئے لیے اِندِمال ہاتھوں میں

 

ہوائے ہجر کی سرحد پہ رکھ کے جان و دل

وصال بجھتا ہُوا اب سنبھال ہاتھوں میں

 

ہرے بھرے تھے کبھی میرے خواب بھی ناہیدؔ

ہرا بھرا تھا لکیروں کا جال ہاتھوں میں

 

قطعہ

 

یہ کس کے نور کا ہالہ ہے میرے چار طرف

چمک اُٹھا ہے یہ کس کا وصال ہاتھوں میں

 

یہ کس کے نام کی لہریں بدن میں رقصاں ہیں

ہے کس کے نام یہ خوشبو کا تھال ہاتھوں میں

 

یہ کس کے چھونے سے روشن ہُوئے ہیں جسم و جاں

یہ کیا ستارہ نُما ہے کمال ہاتھوں میں

 

 

 

 

 

آئینے میں دِکھا نہیں شاید

مجھ میں وہ اَب رہا نہیں شاید

 

مَیں اُسی کے مدار میں رہتی

وہی مرکز بنا نہیں شاید

 

کھِل بھی سکتی تھی سانولی رنگت

روشنی ہی رِدا نہیں شاید

 

روح کے پار جو دکھاتا تھا

تُو وہ اب آئینہ نہیں شاید

 

رنگ اُترے نہیں ہیں حرفوں میں

رُو بہ رُو وہ ہُوا نہیں شاید

 

سوچ ساکن قلم بھی ہے ساکن

کہنے کو کچھ بچا نہیں شاید

 

 

 

 

 

 

ہوئی ہیں گویا گلاب آنکھیں

ہیں مانگیں مجھ سے حساب آنکھیں

 

ہیں دھانی جذبوں کی تانے چادر

بسی ہیں مجھ میں جو خواب آنکھیں

 

روانیِ بحر بھول جاؤ

جو دیکھ لو یہ چناب آنکھیں

 

عجب ہے یہ دورِ آگہی بھی

سراب سورج سراب آنکھیں

 

یہی ہے تکمیلِ حُسن ناہیدؔ

کہ زرد عارض، پُر آب آنکھیں

 

 

 

 

 

رات دن مسلسل پانیوں میں بولے

کوئی ہے جو پیہم آنسوؤں میں بولے

 

کیا گلابِ تازہ کیا خمارِ قربت

بس حصارِ وحشت سب رُتوں میں بولے

 

سانس سے اُلجھ کر روح میں اُتر کر

ایک دشتِ خواہش حسرتوں میں بولے

 

دھیان سے کبھی سُن، دیکھ ٹھیک سے تُو

اس جمود کو بھی جو رگوں میں بولے

 

پھر اُلجھ رہا ہے فیصلوں کا ریشم

پھر گماں یقیں کے راستوں میں بولے

 

آؤ پھر سے ہم تم زندگی کو ڈھونڈیں

زندگی جو پل پل دھڑکنوں میں بولے

 

روشنی یہ کس کی کھڑکیوں میں بولے

کون ہے جو ہر پل آہٹوں میں بولے

 

خواب اُگ رہے ہیں کس کے میرے اندر

کون ہے جو سارے موسموں میں بولے

 

کس کی آہٹوں سے جگمگا اُٹھی ہوں

کس کا عکس میرے آئینوں میں بولے

 

کس کے دیکھنے سے رُک رہی ہیں سانسیں

کس نظر کی خوشبو گیسوؤں میں بولے

 

خواب، رنگ، خوشبو، نُور میں وہ ڈھل کر

میرے دھیان کے سب راستوں میں بولے

 

 

 

 

 

ہو گماں جس پر کسی جھنکار کا

ایسا دھیما لہجہ ہو گفتار کا

 

اک عجب ہنگامہ رہتا ہے بپا

کوچۂ جاں میں تری مہکار کا

 

اک طرف تنہائیوں کا شور ہے

اک طرف طوفاں شبِ بیدار کا

 

خواہشوں کا رنگ نیلا ہو چُکا

زخم اب بھی ہے ہرا انکار کا

 

چند آنسو آنکھ کی دہلیز پر

ایک سایہ ضبط کی دیوار کا

 

آج بھی دل میں کہیں آباد ہے

پیار وہ ناہیدؔ پہلی بار کا

 

 

 

 

 

کھڑکیوں سے شام ہٹتی ہی نہیں ہے

روشنی کی شکل بنتی ہی نہیں ہے

 

اپنی اُس کے ساتھ کیسے نبھ سکے گی

اپنی اُس کے ساتھ بنتی ہی نہیں ہے

 

سارے رستے بند ہیں اور میری دھڑکن

اسمِ اعظم پڑھتے تھکتی ہی نہیں ہے

 

ہر طرف پھیلی ہے تیری یاد لیکن

گھر کا خالی پن یہ بھرتی ہی نہیں ہے

 

جی اُداسی سے بھرا رہتا ہے لیکن

ماں کی لاڈو شکوہ کرتی ہی نہیں  ہے

 

 

 

 

 

پھر تیرے خواب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

مہکے گلاب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

پھر دھڑکنوں میں شور اُٹھا تیرے نام کا

پھر اضطراب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

اے زندگی بتا تو مجھے تُو نے کس لیے

اتنے چناب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

مَیں نے تو بات کی تھی ستاروں کی چاند کی

اُس نے سراب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

کیسے کہوں کہ تیری رفاقت نے جانِ جاں

کتنے عذاب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

اُس نے کتابِ زیست سے مجھ کو نکال کر

فُرقت کے باب ٹانک دیے ہیں پلک پلک

 

 

 

 

 

دُکھوں سے بھری پوٹلی کھولتے ہیں

سبھی درد اپنے تجھے سونپتے ہیں

 

چلو بے ارادہ ہی بے سمت نکلیں

چلو گردِ لا حاصلی اوڑھتے ہیں

 

وہ منظر جو ظاہر نہیں ہے کسی پر

کسی روز اُس کو کہیں ڈھونڈتے ہیں

 

اُسے کس جگہ پر بٹھانا ہے دل میں

یہ دل سے بھلا ہم کہاں پوچھتے ہیں

 

کبھی وِرد کرتے ہیں ہر رنگ اُس کا

کبھی اپنے لہجے کو ہی ٹوکتے ہیں

 

کبھی آرزو کی ہتھیلی ہری تھی

مگر آج کل زردیاں سوچتے ہیں

 

 

 

 

 

سوچنی پڑے گی زیست کی کہانی

لفظ لفظ اُس کو ہے اگر سنانی

 

دل میں اُس کی خواہش پالی ہی نہیں ہے

اور سو دکھوں سے ہے مجھے نبھانی

 

یاد ہیں ابھی تک روز و شب وہ سارے

خواب کی کہانی خواب میں سنانی

 

شام سی محبت، رات سی رفاقت

جانے کب تلک ہے اب مجھے نبھانی

 

ایک دوسرے کا سایہ بن رہے ہیں

اپنی اپنی لیکن ہے صلیب اٹھانی

 

 

 

 

 

مکاں بدلا ہے پر منظر نہیں بدلا

مری تنہائیوں نے گھر نہیں بدلا

 

ابھی تک مَیں گُماں کے دائروں میں ہوں

ابھی تقدیر کا چکّر نہیں بدلا

 

تجھے کس آس پر آواز دیتی مَیں

ترا تو گنبدِ بے در نہیں بدلا

 

بھلے ہی دیکھنے میں وہ بدل جائے

مگر اُس کا ابھی اندر نہیں بدلا

 

ہے چشمِ خواب تو روشن ستاروں سی

مگر تاریکیوں نے گھر نہیں بدلا

 

تری ناہیدؔ کب کی مر چُکی ہے ماں

مقدّر کا مگر تیور نہیں بدلا

 

 

 

 

 

آنکھ سے غم نہاں نہیں ہوتے

پھر بھی آنسو رواں نہیں ہوتے

 

عمر بھر کا ہے تیرا میرا ساتھ

اس قدر بدگماں نہیں ہوتے

 

ہم کلام اُن سے ہیں تصوّر میں

اصل میں یہ سماں نہیں ہوتے

 

یوں تو کہنے کو ہم نہیں موجود

پر یہ سوچو کہاں نہیں ہوتے

 

پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

اس میں وہم و گماں نہیں ہوتے

 

 

 

 

 

ابھی زندگی کی کئی صورتیں ہیں

ابھی مجھ میں زندہ کئی خواہشیں ہیں

 

ابھی خواب کا چہرہ نکھرا نہیں ہے

ابھی اس کی تعبیر پر گردشیں ہیں

 

ابھی رستے پیروں سے الجھے ہُوئے ہیں

ابھی دُور مجھ سے مری منزلیں ہیں

 

ابھی ہاتھ سے ہاتھ تم مت چھڑانا

ابھی رقص میں وجد میں دھڑکنیں ہیں

 

جو سر سبز رکھتی ہیں ناہیدؔ مجھ کو

ترے قُرب کی معتبر ساعتیں ہیں

 

 

 

 

 

 

چھُو کے دیکھو یہ خواب منظر بھی

اور پھر نور کا سمندر بھی

 

وہ جو حاصل ہے اور میرا ہے

کاش ہوتا کبھی میسّر بھی

 

پیلے رنگوں میں دھُل کے اُترے ہیں

جسم بھی روح بھی مقدّر بھی

 

دیکھتے ہی اُجڑ گیا کیسا

کوئی سایہ تھا دل کے اندر بھی

 

وہم ایسا عجیب تھا ناہیدؔ

مجھ کو پارس لگا وہ پتھر بھی

 

 

 

 

 

وقت کی ریت سے گزرے پل مَیں چھانتی رہتی ہوں

اُس کی خوشبو کی سرگوشیاں ڈھونڈتی رہتی ہوں

 

میرے چہرے پر وہ جن سے چھاؤں کیا کرتا تھا

اُس کی پلکوں کی وہ آہٹیں کھوجتی رہتی ہوں

 

کیسی تھکن سی اُتری ہے یہ میرے لہجے میں

مَیں آنکھوں کی سُرخی سے یہی پوچھتی رہتی ہوں

 

اب بھی اُس کے لہجے کی ہر وحشت دھیان میں ہے

پھر بھی اُس کی یاد کے دکھ سکھ ڈھونڈتی رہتی ہوں

 

لمحہ لمحہ وہ بھی مجھ کو توڑتا رہتا ہے

لمحہ لمحہ مَیں بھی خود کو جوڑتی رہتی ہوں

 

اُلجھا رہتا ہے وہ اکثر اپنے خیالوں میں

مَیں بھی تنہائی کو اوڑھے سوچتی رہتی ہوں

 

اُس کے ہونٹوں سے جو سُن نہیں پاتی مَیں ناہیدؔ

اُس کی آنکھوں سے اکثر وہی پوچھتی رہتی ہوں

 

 

 

 

 

تمہارے دھیان کے سورج بُجھے بُجھے کیوں ہیں

یہ چار سمت اندھیروں کے سلسلے کیوں ہیں

 

لبوں پہ ترکِ رفاقت کے تذکرے ہیں اگر

تو میرے دل سے ترے دل کے رابطے کیوں ہیں

 

مَیں تیرے خواب سے باہر نکل چکی ہوں اگر

تو جا بجا تری یادوں کے قافلے کیوں ہیں

 

کئی دنوں سے یہاں روشنی نہیں اُتری

تمہارے دھیان کے سورج بُجھے بُجھے کیوں ہیں

 

مَیں تیرے سنگ تو روشن سفر پہ نکلی تھی

یہ چار سمت اندھیروں کے سلسلے کیوں ہیں

 

نیا خیال ہے کوئی نہ خواب ہے کوئی

پھر آنکھ میں مری ناہیدؔ رتجگے کیوں ہیں

 

 

 

 

 

یونہی دھندلائے رہیں عکسِ دل و جاں کب تک

میری پلکوں پہ رہیں اشک یہ لرزاں کب تک

 

اب یہ تنہائی کے پاتال میں تھکنے لگی ہے

دل کے کاغذ پہ تری یاد ہو رقصاں کب تک

 

شاخِ دل پہ مری اب پھول کھلیں یا نہ کھلیں

تتلیوں کو رکھوں ہمراہ پریشاں کب تک

 

موجِ خوشبو بھی تو گزرے کبھی میرے گھر سے

غم ہی آنگن میں رہے محوِ خراماں کب تک

 

میری سوچوں کے سِرے ہی نہ ملیں جب تجھ سے

تو جلے گی یہ مری مشعلِ ایقاں کب تک

 

اب نمی رہتی ہے آنکھوں میں مسلسل اُس کی

توڑ کر مجھ کو نہ ہوتا وہ پشیماں کب تک

 

چھٹتی جائے مرے ہاتھوں سے طنابِ امید

مَیں تری راہ بھی دیکھوں تو مری جاں کب تک

 

صبح کے نرم اُجالے بھی تو اتریں ناہیدؔ

شام کے رنگ ہی اوڑھے دلِ ویراں کب تک

 

 

 

 

 

کوئی ہجر ہے نہ وصال ہے

سبھی خواہشوں کا یہ جال ہے

 

مری آنکھ میں جو ٹھہر گیا

تری فرقتوں کا ملال ہے

 

مرا ہو کے بھی نہ وہ ہو سکا

یہ عجیب صورتِ حال ہے

 

تمھیں صرف اوروں کی فکر ہے

کہ مرا بھی کوئی خیال ہے

 

مرے حال کو نہ بے حال کر

مرا تجھ سے بس یہ سوال ہے

 

 

 

 

 

روح تو ہے ترے وصال میں گُم

اور دل ہے بیانِ حال میں گُم

 

جانے کس سمت اُڑتا پھرتا ہے

میرا یہ دل ترے خیال میں گُم

 

آئینہ روٹھتا گیا مجھ سے

اور وہ میرے خدّوخال میں گُم

 

نیند میں جاگتا ہی رہتا ہے

دل ترے عشق کی دھمال میں گُم

 

اوڑھ کر مَیں شکستگی ناہیدؔ

ہو گئی خود ہی اپنے حال میں گُم

 

 

 

 

 

 

تجھ پہ اب بھی وہ مان باقی ہے

ہاں دلِ خوش گمان باقی ہے

 

برف جیسے بدن الاؤ میں

زندگی کا گمان باقی ہے

 

ایک سسکی رُکی تھی آنکھوں میں

اب بھی اُس کا نشان باقی ہے

 

رنگ ہیں حیرتوں بھرے میرے

کیا ابھی مجھ میں جان باقی ہے؟

 

ڈوب جاتا ہے ہر خیال مگر

مہکی آنکھوں کا دھیان باقی ہے

 

 

 

 

 

جو سانسوں میں میری ابھی تک رواں ہے

سُلگتی ہوئی خواہشوں کا دھواں ہے

 

جو سنتا نہیں جو سمجھتا نہیں ہے

اُسے کچھ بھی کہنا مرا رائے گاں ہے

 

بھلے نرمیوں میں گھِرا ہے وہ لہجہ

مگر اجنبی اجنبی سی زباں ہے

 

تری آرزو نے جو بخشا ہے مجھ کو

وہی رنج لفظوں کی تہہ میں نہاں ہے

 

اُمیدِ وفا ہے، نہ ہی خواب، خواہش

نہ جانے وہ کیا ہے جو اب درمیاں ہے

 

مرے لفظ سارے تجھی سے عبارت

مری شاعری سب ترا ہی بیاں ہے

 

مرے بادباں کو جو رستہ دکھائے

نہ جانے کہاں وہ ستارہ نشاں ہے

 

جہاں پھول خوشبو مرے منتظر ہیں

پہنچ سے مری دور وہ آسماں ہے

 

پرندے بھی آتے نہیں ہیں یہاں پر

عجب وحشتوں میں گھِرا یہ مکاں ہے

 

ابھی تک نہیں کھِل سکا میرے اندر

وہ موسم کہاں ہے جو عنبر فشاں ہے

 

جو لہجے میں تیرے کھنک تھی چھنک تھی

بتا کچھ تو ناہیدؔ وہ اب کہاں ہے

 

 

 

 

 

اُس کے حصارِ خواب کو مت کربِ ذات کر

اُس خوشبوئے خیال کو تُو کائنات کر

 

دل کب تلک جدائی کی شامیں منائے گا

میری طرف کبھی تو نسیمِ حیات کر

 

مَیں اک طویل راستے پر ہوں  کھڑی ہوئی

یا حبسِ تیرگی لے یا ہاتھوں میں ہات کر

 

دھیمے سُروں میں چھیڑ کے پھر سازِ زندگی

تُو میرے لہجے میں بھی کبھی مجھ سے بات کر

 

وہ ہجرتیں ہوں، ہجر ہو یا قصۂ وصال

آ پھر سے میرے نام سبھی واقعات کر

 

پیروں سے اُس کے نام کے رستے لپٹ گئے

اب تو یقیں کے شہر میں ناہیدؔ رات کر

 

 

 

 

 

تجھ کو اپنی ذات سے آگے رکھوں

اپنی ہر اک بات سے آگے رکھوں

 

روشنی ہی روشنی ہو دور تک

نقش تیرے رات سے آگے رکھوں

 

خواہشِ یکجائی ہے بس، جس کو مَیں

حدّ اِمکانات سے آگے رکھوں

 

جن گھٹاؤں کو برسنا ہی نہیں

اُن کو بھی برسات سے آگے رکھوں

 

ہیں دھندلکے ہی دھندلکے چار سُو

اور نظر حالات سے آگے رکھوں

 

 

 

 

 

ابھی تو روح میں تیرا ظہور ہونا ہے

مرے وجود کو تیرا شعور ہونا ہے

 

ابھی تو دھوپ بہت کچّی ہے مرے ہم راز

ابھی تو کھُل کے مرے گِرد نور ہونا ہے

 

ابھی تو تم سے یہ کہنا ہے کہ محبت ہے

مگر یقین ہے اس نے ضرور ہونا ہے

 

 

 

 

 

 

 

بس مدارِ خواب میں رہنا پڑا

عمر بھر ہی آب میں رہنا پڑا

 

شام تھی میرا حوالہ سو مجھے

منظرِ شب تاب میں رہنا پڑا

 

تیری جانب موڑ کر راہیں سبھی

قَریۂ بیتاب میں رہنا پڑا

 

خواہشِ بے نام کی صورت ہمیں

اک ادھورے باب میں رہنا پڑا

 

کوئی تھا مجھ میں ہی مجھ سے ہمکلام

اُس کی آب و تاب میں رہنا پڑا

 

 

 

 

 

 

 

ہوا میں اُڑتے ہوئے بادباں نہیں گزرے

برستے بادلوں کے کارواں نہیں گزرے

 

مَیں جن کی آنکھوں میں سب اپنے خواب رکھ دیتی

مری نگاہ سے وہ مہرباں نہیں گزرے

 

محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے

کہ دشتِ چشم سے آبِ رواں نہیں گزرے

 

جہاں بھی چاہے اُڑا کر مجھے وہ لے جائے

صدا کی لہر سے ایسے گماں نہیں گزرے

 

وہ بد گمانی کی پرچھائیوں میں رہتا ہے

اُدھر یقیں کے کبھی سائباں نہیں گزرے

 

 

 

 

 

گِیلی چُپ سے اب رہا ہونا تو ہے

کچھ نہ کچھ ردِ بلا ہونا تو ہے

 

چاند ہوں سو دوسری جانب مرے

تیرگی کا اک خلا ہونا تو ہے

 

دل اُمیدوں کا کٹورا ہے کوئی

تیری چاہت سے بھرا ہونا تو ہے

 

زندگی کے ہجر پنّوں پر کہیں

وصل وعدہ بھی لکھا ہونا تو ہے

 

تُو نہیں تو میں سہی اس قصّے میں

اب کسی کو بے وفا ہونا تو ہے

 

 

 

 

 

 

نظمیں

 

 

 

 

 

 

 ہمیں اُن موسموں میں زندہ رہنا ہے

 

تری سانسوں کی خوشبو پر

جہاں چاہت کی تتلی رقص کرتی ہو

طلب کی بارشوں میں بھیگتے

سر سبز موسم راہ تکتے ہوں

جہاں پر خواہشوں کا شور

من میں گونجتا ہو اور

سنہرے موسموں کی داستاں میں

کچھ یقیں، کچھ بے یقینی ہو

جہاں سانسوں پہ لکھے حرف

تیری بات کرتے ہوں

(نظر میں رات کرتے ہوں )

 

جہاں لمحے ترے دستِ ہنر میں ساتھ رکھے ہوں

ہمیں تُو ہی بناتا ہو، مٹاتا ہو

ہمیں اُن موسموں میں زندہ رہنا ہے۔

 

 

 

 

 

دو شعر

 

مزاجِ ہم سفری جانتا نہیں ہے وہ

مگر یہ بات کبھی مانتا نہیں ہے وہ

 

حصار کھینچ رہا ہے عبث وہ میرے گرد

مجھے وہ کھو چکا ہے جانتا نہیں ہے وہ

 

 

 

 

مجھے خود سے ملنا ہے

 

مجھے خود سے ملنا ہے

بے سود لمحوں سے باہر نکلنا ہے

لیکن مرا چہرہ اور ہاتھ

سوکھے دنوں کی مہک سے اٹے ہیں

(مہک، گزرے برسوں کے بے سود لمحوں کی سوکھی مہک)

آنکھ کی پتلیوں پر

کئی مُردہ وعدے رکھے ہیں

کئی زرد یادیں پڑی ہیں

مجھے اپنے چہرے سے، آنکھوں سے

ان زرد یادوں کی

سوکھی مہک کو کھرچنا ہے

بے سود لمحوں سے باہر نکل کر

مجھے خود سے ملنا ہے

سوکھی رُتوں سے پرے

پھر سے اک بار،

اک بار پھر سے۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

زرد سے سبز ہو رہا ہے دل

اک نیا رنگ بو رہا ہے دل

 

 

 

 

 

سچ

 

ہم جو تجھ کو ہمیشہ سرِ آئینہ رکھتے تھے

اور خود کو پسِ عکس

تو آج بھی ہم کہیں

کاسۂِ شام میں رکھے ہیں

اور تُو

دن کے روشن اُجالوں میں ہے۔

 

 

 

مُردہ تعبیر

 

کسی درد موسم کی تلخی میں

پلکوں سے لپٹے ہوئے خواب کھو لے

تو آنکھوں کی دہلیز پر

میرے جذبوں کی

دھیمی سلگتی ہوئی راکھ تھی۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

یہ انتظار فقط جسم ہی نہیں ڈھاتا

یہ سبز روح کو بھی پائمال کرتا ہے

 

 

 

 

 

U-Turn

 

تجھ تلک آنے کی چاہ میں

خود سے باہر نکلتے ہیں

لیکن کوئی دھند سی دھند ہے

رستہ کھو جاتا ہے

(کچھ دکھائی نہیں دیتا )

ہم تجھ تلک آنے کی چاہ میں

خود میں واپس پلٹ آتے ہیں۔

 

 

ایک شعر

 

ہجر سے نکلو گے تو وصل بھی دیکھو گے پھر

روح میں اُترو گے تو اصل بھی دیکھو گے پھر

 

 

 

 

شکستہ آئینہ

 

سرِ شیشۂ جاں

فقط بے یقینی کے منظر رکھے ہیں

جہاں دور تک

وہم و بے اعتباری کی

خستہ لکیروں کا اک جال پھیلا ہُوا ہے

بھلا اس شکستہ خیال آئینے میں

تعلق کا سچ کیسے تصویر ہو

اور مرا عکس تعمیر ہو؟

 

 

ایک شعر

 

بِن ترے وقت ہی گزرتا ہے

بِن ترے زندگی نہیں ہوتی

 

 

 

 

 

تیرے بِن

 

صبح کی نبض بھی سرد ہے

شام کے ہاتھ بھی خالی ہیں

کاسہِ زیست میں

چند لمحے مگر باقی ہیں

جو مجھے جینا ہیں

اور اس جینے کے درمیاں

کتنی یادیں ہیں

جن کو مٹانا ہے

کتنے ہی چہرے ہیں، جن کو بھلانا ہے

اور اپنے اندر امڈتی سرد سی بے حسی کو

نیا نام بھی دینا ہے

تیرے آنے تلک

تیرا حدّت بھرا لمس محسوس کرنے تلک

مجھ کو کچھ دیر اور جینا ہے۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

مَیں ہوں کہ دل کو سُلائے رکھتی ہوں

دل ہے کہ مجھ کو جگائے رکھتا ہے

 

 

 

 

اعتراف

 

نئے وعدوں کی شبنم

ہاتھ پر کیسے ٹھہر پاتی

ابھی پھیکی ہتھیلی پر

پرانی قربتوں کی کچھ

تپش باقی ہے!

 

 

 

 

ایک شعر

 

ابھی تو راکھ ہوئے ہیں ترے فراق میں ہم

ابھی ہمارے بکھرنے کا کھیل باقی ہے

 

 

 

 

 

رائیگانی

 

ریشمی خوشبو بھرے

مدھم اُجالوں میں گھرے

لمحوں کا رستہ تکتے تکتے

کتنے ہی سر سبز موسم

بے سبب مر جاتے ہیں

اور اپنے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں۔

 

 

 

ایک شعر

 

روح کی روشنی تری صورت

تجھ کو دیکھوں تو زندگی دیکھوں

 

 

 

 

مَیں تجھے محسوس کرنا چاہتی ہوں

 

مجھ کو اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے

کتنے زمانے ہو گئے ہیں

سُرمئی شاموں کے پہرے میں

طلب کی ریت پر تنہائی ننگے پاؤں چلتی ہے

تو میرا دل وصالِ معنی سے بچھڑے ہوئے

اک حرفِ تنہا کی طرح بجھ جاتا ہے

جب رات میری ہر سحر سے

نرم سی سرگوشیاں کرتی ہے

تو کوئی بھی اک لبریز لمحہ

میرے ہاتھوں میں نہیں آتا

نہ کوئی لمس ماتھے پر

مرے احوال کی تحریر لکھتا ہے

یہی ہوتا ہے

میری آرزو کے سب سِرے

حسرت کی تاروں میں اُلجھ کر

میرے اندر سانس تو لیتے ہیں

لیکن تیرے دل سے میرے دل تک

فاصلوں کی وہ جو

اک دیوار حائل ہے

ہمارے درمیاں

موجود رہتی ہے

وہ تنہائی

وہ برسوں کی خموشی

(جو گماں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے )

ساتھ چلتی رہتی ہے

لیکن دلِ خاموش اب تھکنے لگا ہے

اس سے پہلے لاتعلق اور لمبی تلخیوں کی

یہ کہانی میرے اندر ہی کہیں پر دفن ہو جائے

یہ میری خامشی دیمک کی صورت

زندگی کو چاٹ جائے

مَیں یقیں کے ساتھ

تجھ کو اور تیری روح کو

محسوس کرنا چاہتی ہوں

رات دن خوشبو کی مانند

تیری چاہت اور سنگت میں مہکنا چاہتی ہوں۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

اپنی اذیّتوں کی حقیقت ہے اور کچھ

جو لوگ جانتے ہیں کہانی کچھ اور ہے

 

 

 

 

ایک سوچ

 

یہ بھی کرنا ہے

وہ بھی کرنا ہے

اِسے بھی منانا ہے

اور اُسے بھی منانا ہے

یہ بھی کرنے میں

وہ بھی کرنے میں

اِسے بھی منانے میں

اور اُسے بھی منانے میں

یہ تو بھول ہی گئی ہوں

کہ مَیں بھی وجود رکھتی ہوں

سوچتی ہوں

اگر کسی سے مَیں روٹھ جاؤں

تو مجھ کو کون منائے گا؟

 

 

 

 

 

ایک شعر

 

یہ زندگی کا ادھورا پن ہی

مری مکمل گواہی ٹھہری

 

 

 

 

بدنصیبی

 

مَیں خسارے میں ہوں

مجھ کو اپنے خدا سے کبھی

مانگنا ہی نہیں آ سکا

خواہشوں کو

دُعاؤں کی تسبیح میں

ڈھالنا ہی نہیں آ سکا۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

بہت سمجھ کے بہت سوچ کر اُسے چھوڑا

نکھر ہی جب نہ سکیں تو رفاقتیں کیسی

 

 

 

 

بند دروازے

 

سال ہا سال سے بند دروازے

اک ہلکی دستک پہ

آسانی سے کب کھُلا کرتے ہیں

اور اگر کھُل بھی جائیں

تو پھر زنگ آلود یہ طاقچے

اک عجب شور کرتے ہیں

اور خامشی میں کوئی شور ہو

وہ بہت دُور تک جاتا ہے۔

 

 

 

ایک شعر

 

روشنی آنکھوں میں آئی تو دکھائی بھی دیا

اک سمندر نور کا مجھ کو سنائی بھی دیا

 

 

 

 

 

احساسِ زندگی

 

کیوں نہ دھندلی رات کے

برفیلے سناٹے میں مہکی

خوشبوئیں چھُو کر

سسکتی رات کے ماتھے پہ

کچھ پل شبنمی رکھ دیں

اُداسی میں گھِرے

ان منظروں میں

ریشمی خوشبو بھرا

مدھم اُجالا بھر دیں

اس حیران سی پھرتی ہَوا کو

اپنی بانہوں میں سمیٹیں

بادلوں کے ساتھ

اونچا اور بہت اونچا اُڑیں

دل میں رکھی ہر بات کو

دل سے نکالیں

دل ہی میں پیوست کر دیں

اور اپنے ہونے کے احساس کو ہم

روح میں تحلیل کر دیں۔

 

 

 

 

ایک شعر

 

اُسے چھوڑنا کوئی مشکل نہیں ہے

مگر حوصلے کی کہیں پر کمی ہے

 

 

 

 

 

خواب سے گفتگو

 

مرے خواب مجھ سے

کبھی بات کر

میرے تالو سے چپکے ہوئے سارے الفاظ پڑھ

جو کبھی تجھ سے مَیں کہہ نہ پائی

 

مرے خواب

تُو میری تکمیل کر

کوئی جگنو، محبت، دعا بن کے تعبیر میں ڈھل

کسی لمس کا کوئی مرہم مری روح کے گھاؤ پر رکھ

 

نہیں تو

شب و روز کا کھوکھلا سلسلہ ختم کر

جہاں پھیلی تنہائی کی آگ میں

روح کو یوں نہ جلنا پڑے

دکھ کی لہروں کے پھیلے ہوئے جال میں

پاؤں اپنا نہ دھرنا پڑے۔

 

 

 

 

 

ایک شعر

 

دیر تک سوچا تو پھر جا کر کہیں

مجھ سے تیری یاد کا چہرہ بنا

 

 

 

 

اس راستے کی کوئی منزل نہیں

 

 

مرے دل

یہ کس رستے پر گامزن ہو

یہ کس درد کی آگ کو

سینکتے رہتے ہو؟

کالی بوسیدہ خاموشی کے

خشک لمحوں سے کیا بنتے رہتے ہو؟

بے چہرہ گھڑیوں میں

کیا ڈھونڈتے رہتے ہو؟

 

اے مرے دل

نئی منزلوں کے نئے راستوں پر

سیہ، زرد خوابوں کی پگڈنڈیاں ہیں

(بڑی گہری تاریکیاں ہیں)

وہاں پر ہَوا تو گرہیں تک نہیں کھولتی ہے

(نہ ہی روح کی کرچیاں جوڑتی ہے)

 

وہاں زرد صبحیں ہیں

اور سرد شامیں

وہاں گفتگو میں

کوئی بات پوری نہیں ہونے پاتی

وہاں پر جدائی

محبت کے رستے میں بیٹھی ہوئی ہے۔

 

 

 

 

 

ایک شعر

 

کہوں تو کس سے کہوں مَیں جدائیوں کے دکھ

سُنے تو کون سُنے نارسائیوں کے دکھ

 

 

 

 

بے چہرہ آواز

 

ایک بے لفظ سی بات

جو تیرے ہونٹوں سے نکلی نہیں ہے

جو میری سماعت سے گزری نہیں ہے

وہ بے لفظ سی بات

بے چہرہ آواز

میری سماعت کے رستے

مری روح کے آئینے میں اُتر کر

قبائے بدن کی ہر اک تار کو

احمریں کرتی ہے

اب ترے لہجے کا بھاری پن

لمحہ لمحہ مرے ساتھ رہتا ہے۔

 

 

 

 

 

ایک شعر

 

کڑی دھوپ میں مجھ کو جلنے نہ دے گا

مرے ماتھے پر ماں کے ہونٹوں کا نم ہے

 

 

 

 

چکّر

 

گول کمرہ

ہر طرف دروازے

سب دروازے لیکن بند۔

 

 

 

 

 

زلزلہ

(8 اکتوبر 2005)

 

ہر اک کی زباں پر یہی داستاں ہے

یہاں پر جو گھر تھا مرا وہ کہاں ہے

 

سرکنے لگی ہے ہَوا بھی زمیں بھی

نہ گھر ہے نہ سر پر کوئی سائباں ہے

 

جنہیں بوجھ بھی بوجھ لگتا نہیں تھا

ہوا کا اُنہیں وزن بھی اب گراں ہے

 

کہیں آنکھ میں وقت رُک سا گیا ہے

کہیں ہاتھ پر بے بسی کا نشاں ہے

 

کہیں جسم کی راکھ اُڑنے لگی ہے

کہیں روح سے خالی دل کا مکاں ہے

 

کہیں بچّہ رو رو بلاتا ہے ماں کو

کہیں سسکیوں میں گھری اُس کی ماں ہے

 

کہیں موت کے منہ میں بیٹی پڑی ہے

کہیں گھر کے ملبے میں بیٹا جواں ہے

 

جسے پیار سے ماں سجاتی رہی تھی

اُسی گھر کے ملبے پہ آہ و فغاں ہے

 

اب آنکھوں کے دریا اُترتے نہیں ہیں

اب آنکھوں میں غم کا سمندر نہاں ہے

 

جہاں زندگی کی ہنسی گونجتی تھی

وہاں ہر طرف سسکیوں کا دھواں ہے

 

خداوند تُو نے یہ کیا کر دیا ہے

کہ حیران اب تک زمیں آسماں ہے

 

 

 

 

 

سیلاب

(اگست 2010)

 

لمحہ لمحہ یہ ٹوٹتے ہوئے لوگ

خود کو مٹی میں رولتے ہوئے لوگ

 

گھر کے ملبے پہ بیٹھے رو رہے ہیں

اپنے خوابوں کو ڈھونڈتے ہوئے لوگ

 

جو بچا لیں وہی غنیمت ہے

ساز و ساماں گھسیٹتے ہوئے لوگ

 

اپنے گھر اپنے خواب چھوڑ آئے

اپنی خوشیوں کو مارتے ہوئے لوگ

 

کس طرح خود کو اب سمیٹیں گے

زندگی کو پکارتے ہوئے لوگ

 

 

کیا ہو پائیں گے ہم بحال کبھی

ایک اک سے یہ پوچھتے ہوئے لوگ

 

کچھ بتاؤ کہاں کریں تدفین

حکمرانوں سے پوچھتے ہوئے لوگ

 

 

 

 

 

چار سالہ بچی اپنی ماں سے

 

(اگست 2010 سیلاب کے بعد )

 

کیا ہُو ا

اب کے جو گھر نہیں

چار دیواری، آنگن نہیں

میرا بھائی نہیں , میرا بابا نہیں۔

کیا ہُوا جو اگر

بھائی اور بابا کے ساتھ سب

خواب بھی بہہ گئے۔

کیا ہُوا

اب کے جو عید پر

ہم نئے کپڑوں سے

اور کھلونوں سے محروم ہیں

کیوں ہمارے لیے روتی ہو

کیا یہ کافی نہیں ہے کہ ابھی

تم سلامت ہو، ماں۔

 

 

 

 

 

تعلیمِ قرآن

 

 

ضروری ہے تعلیم قرآن کی

مسلمان کے نفسِ ایمان کی

 

یہ سیکھو اور اس پر عمل بھی کرو

قدم زندگی میں جہاں تم رکھو

 

ہو مشکل تو اس سے کرو رابطہ

دکھائے گا قرآن پھر راستہ

 

دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاؤ جو تم

جو مانگو خدا سے وہی پاؤ تم

 

تمہارے لیے ہے ہماری دعا

کہ ہنستی رہو، خوش رہو تم سدا

 

ابھی تم ہو چھوٹی مگر جان لو

شفا پاؤ گی پڑھ کے یہ، مان لو

 

کہ پاؤ گی منزل کا ہر رستہ تم

رہو گی جو اللہ سے وابستہ تم

 

(نسیبہ اپنی بھتیجی کی بسم اللہ پر، 6مارچ 2010)

 

 

 

 

 

ملالہ

 

علم کے نور کی مالا ہوں میں

روشنی ہوں مَیں اُجالا ہوں میں

جتنی نفرت سے مجھے کاٹو گے

جتنے حصّوں میں مجھے بانٹو گے

زندگی کا مَیں ارادہ بن کر

پھر اندھیروں سے نکل آؤں گی

 

علم کے نور کی مالا ہوں میں

روشنی ہوں مَیں اُجالا ہوں میں

 

اے میرے خواب سے ڈرنے والو

جاہلو، علم کے ادراک پہ کیوں

اک قیامت سی اُٹھا لی گئی ہے

میری خواہش تو فقط اتنی ہے

 

کہ مرے دیس کی ہر اک بچّی

خود کو جب آئینے میں دیکھے تو

اک نئی صبح کا سورج دیکھے

اپنی تعبیر کا چہرہ دیکھے

 

اے میرے خواب سے ڈرنے والو

کیسے نفرت سے مجھے کاٹو گے؟

کتنے حصّوں میں مجھے بانٹو گے؟

میرا سورج جو اگر ڈوب گیا

تو کئی چاند نکل آئیں گے

 

علم کے نور کی مالا ہوں میں

روشنی ہوں مَیں اُجالا ہوں میں

موت کے منہ سے پلٹ آئی ہوں

یاد رکھنا کہ ملالہ ہوں میں

 

 

 

 

ماں

 

میرے پیکر میں یوں بسی ہے ماں

آئینے میں مجھے دِکھی ہے ماں

 

خوبصورت، حسین اور شفّاف

تیرے جیسی تو چاندنی ہے ماں

 

کوئی بھی حال آشنا نہیں ہے

اور ضرورت تری کڑی ہے ماں

 

شبنمی کچھ دعائیں بھجوا دو

روح میں آگ سی لگی ہے ماں

 

تُو نہیں ہے تو میری آنکھوں میں

دھند ہی دھند آ بسی ہے ماں

 

دیکھ مُرجھا گئی ہوں تیرے بعد

یہ جدائی تری کڑی ہے ماں

 

آخری وقت کیوں نہ تھی ترے پاس

یہ خلش دل کو مارتی ہے ماں

 

 

 

ایک شعر

 

میرے آنسو میرے دل میں گر رہے تھے

اور آنچل ماں کا گیلا ہو رہا تھا

 

 

 

 

گِیلی چُپ

 

بے رنگ صبح کے کٹورے

بے معنی چُپ سے بھرے ہیں

 

تنہائی کے دائروں سے جھانکتی

وصل کے گماں سے عاری

گیلی چُپ کے کٹوروں میں

اوندھی پڑی، تیرتی نمی

ہونٹوں سے چننے والا کوئی نہیں

 

سُرمئی مناظر کی آنکھیں

گلابی صبح کے اُجالے کو ترستی ہیں

 

نادیدہ خوابوں کے مُردہ پر

بوجھل آنکھوں کی پُتلیوں سے چمٹے ہیں

اُجالوں کی آہٹیں

 

سماعتوں پر اُتریں بھی

مگر صبح کا آئینہ

گیلی چُپ کے کُہرے سے اٹا ہے

سورج کی حدّت پی کر بھی

اُجالا دھندلکوں میں گھِرا ہے

نادیدہ وجود کا آسیب

گیلی چُپ کا سایہ

روح کی خستہ دیواروں سے چمٹا ہے

اور فرار ممکن ہی نہیں۔

 

 

 

 

 

ایک شعر

 

تیرے بارے میں سوچتی ہوں جب

روشنی ہم کلام ہوتی ہے

 

 

 

 

 

مضامین

 

 

 

 

ناہید ورک کی شاعری کا احساس

 

ایک رنگ ساز کا سایہ ہے اس شاعرہ پر تبھی تو یہ اپنی شاعری میں رنگوں کا ذکر بہت محبت اور پورے معانی و مطالب سے کرتی ہے۔ رنگوں میں نہاتی ہوئی اس شاعرہ سے کہیں نہ کہیں میری ملاقات ہے مگر مجھے یاد نہیں تھا، ہاں جب شاعری کا مطالعہ کیا تو معلوم ہُوا کہ سات رنگوں میں سے تین رنگ پسند کرنے والی یہ شاعرہ اس لمحے ضرور کہیں میرے ارد گرد ہو گی جب رنگساز کی اس بستی میں، میں اپنے ہونے کے رنگ چُن رہا تھا۔ محترمہ ناہید ورک بڑے سادہ سے لہجے میں یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں

آئینہ روٹھتا گیا مجھ سے

اور وہ میرے خد و خال میں گم

یہ ہے وہ ابتدا جو کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔

’’گیلی چُپ‘‘ چھپنے کے بعد مجھے بہت دلچسپی محسوس ہوئی کہ ناہید ورک کی گیلی چپ کو محسوس کیا جائے اور دیکھا جائے کہ خاموشی جذبوں کے گھنگھرو پہنے کیسے دھمال کھیلتی ہے۔ دھمال کوئی فن نہیں ہے یہ تو ایک مستی ہے جو محبوب کے رنگوں میں ڈوبنے سے چھا جاتی ہے۔ دھمال ہجر کی ہو تو پتھر خاک بن جاتے ہیں اور اگر وصال کی ہو تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ وجد میں آ جاتا ہے۔ ان دونوں کیفیات کا اظہار ناہید صاحبہ ایسے کرتی ہیں

ابھی تو راکھ ہوئے ہیں ترے فراق میں ہم

ابھی ہمارے بکھرنے کا کھیل باقی ہے

 

ہجر سے نکلو گے تو وصل بھی دیکھو گے پھر

روح میں اُترو گے تو اصل بھی دیکھو گے پھر

جب ہم کسی شاعر کی کتاب پڑھتے ہیں اور اُس کی ان کیفیات کو محسوس کرتے ہیں جو اس پر گزرتی ہوں گی تو ہمارے سامنے شاعری کہانی کی طرح کھلتی جاتی ہے۔ میں نے بھی آج کہانی پڑھی ہے ایک ایسے محبت بھرے صحن کی کہانی جس میں کہیں بھی کوئی جھول محسوس نہیں ہوتا، ہر کردار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، ہر جملہ برجستہ ہے اور ہر سانس کسی نہ کسی یاد سے وابستہ ہے۔ بنیادی طور پر ناہید ورک کی تمام شاعری کا تیور کسی نہ کسی یاد سے وابستہ ہے۔ وہ اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کے دکھ خود پر محسوس کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن بہت جلد وہ واپس اپنے صحن میں لوٹ آتی ہیں۔ ایسا وہ کرتی نہیں بلکہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ ہیں ہی ایسی، یہی وہ یقین ہے جو انہیں سر سبز رکھے ہوئے ہے

زرد سے سبز ہو رہا ہے دل

اک نیا رنگ بو رہا ہے دل

یہی وہ ایمان ہے جس کی پختگی کی وہ دلیل دینا پسند نہیں کرتیں بلکہ کہتی ہیں

ادھر اُدھر سے دلیلیں اُٹھانی پڑ جائیں

جو اتنا کچا ہو ایمان تھوڑی ہوتا ہے

شاعری کا احساس بہت پُر کیف ہوتا ہے اس سے روح کو طاقت ملتی ہے کیونکہ لطف کا تعلق تو ہے ہی لطافت کے ساتھ۔ مجھے ناہید ورک کے اس شعر نے بہت لطف دیا

جھیل آنکھیں سراہنے والا

ان کو دریا بنا گیا تو پھر

مجھے تو اس شعر میں ناہید ورک کسی کو سمجھاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ کسی پر اعتبار مت کرنا لیکن تھوڑی دیر بعد جب دریا اور جھیل کو سوچتا ہُوا ذہن آنکھوں اور آنسوؤں کے بہنے کو سوچتا ہے اور تلازمہ مکمل ہوتے ہی ہجر بھری محبت کا دکھ محسوس ہوتا ہے تو ایک عجیب سی اُداسی چھا جاتی ہے، اس شعر کا احساس بہت گہرا ہے۔ ہم لوگ محبت کو سوچنے اور اس کے فلسفے کو سمجھنے میں عمر گزار دیتے ہیں اور کچھ دیوانے بہت جلد محبت کے احساس کی وادیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ان تمام مقامات کا نظارا کر لیتے ہیں جن تک عقل کی رسائی نہیں ہوتی یہی محبت کی کاملیت ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان من و تُو سے نکل جاتا ہے اور اس کی تنہائی ختم ہو جاتی ہے یہاں پر وصال ہجر کی لذتوں سمیت جسم و روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے اور بانسری کی طرح سانس کو سُر بنا دیتا ہے تب عاشق فطرت کے نغمے کا سازندہ بن جاتا ہے، وہ فطرت کے ساتھ ساتھ گاتا ہے، تب وہ نہیں گاتا بلکہ فطرت گا رہی ہوتی ہے، تب کہیں کہیں وہ فطرت کے سُر بھی درست کرنے لگتا ہے یہی وہ ترتیب ہے جو ہمیں ناہید ورک کی شاعری میں نظر آتی ہے

روشنی آنکھوں میں آئی تو دکھائی بھی دیا

اک سمندر نور کا مجھ کو سنائی بھی دیا

 

کوئی تھا مجھ میں ہی مجھ سے ہم کلام

اُس کی آب و تاب میں رہنا پڑا

ناہید ورک کی شعری ترتیب میں صوفیا کرام کا فیض نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ رنگوں سے کھیلتی ہوئی یہ خاتون کہیں بغاوت کرتی دکھائی نہیں دیتی بلکہ ہر جگہ بتا رہی ہوتی ہے کہ میں تسلیم و رضا سے جڑی ہوں۔ ناہید اپنے مسائل خود حل کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ شاید وہ اپنی تنہائی کے بھید کو سمجھ چکی ہیں اور اپنی تنہائی کے ساتھ شاد و آباد ہیں۔ وہ ہونے اور نہ ہونے کا راز جان چکی ہیں۔ وہ محبت کے سارے لالچ پرکھ کے ان سے جدا ہو چکی ہیں جس کا اظہار ان کی نظموں میں ملتا ہے۔ چند سطور پیش ہیں

نظم بد نصیبی

مجھ کو اپنے خدا سے کبھی

مانگنا ہی نہیں آ سکا

خواہشوں کو دعاؤں کی تسبیح میں ڈھالنا ہی نہیں آ سکا۔

 

نظم خواب سے گفتگو

میرے تالُو سے چپکے ہوئے سارے الفاظ پڑھ

جو کبھی تجھ سے میں کہہ نہ پائی

ناہید ورک کی شاعری میں اس جہانِ خراب کی ہی باتیں نہیں بلکہ اس جہان سے آگے بھی وہ نگاہ رکھتی ہیں۔ اس بات کا اندازہ ان کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے

میں تیری دوری و قربت سے آگے آ گئی ہوں

سو تیرا نقش دل پر بنتے بنتے رہ گیا ہے

یہ وہ کیفیت ہے جو ظاہر کی آنکھ سے نظر آنے والے جہان کی ہے ہی نہیں۔ ظاہر تو یہاں تک سوچتا ہے

وہ جو حاصل ہے اور میرا ہے

کاش ہوتا کبھی میّسر بھی

میں ناہید ورک کی شاعری کو محسوس کرنا چاہتا ہوں اس شاعری کو بھی جس کا مطالعہ میں کر چُکا ہوں اور آنے والی شاعری کو بھی۔ کیونکہ اس کہانی سے ایک اور کہانی کا آغاز ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ناہید ورک کی سوچ میں مزید برکت عطا فرمائے۔

محمد ندیم بھابھہ (لاہور)

 

 

ناہید اور فقر

 

مرے خدا

ہے مجھے اعترافِ کم علمی

حدودِ عقل میں آتا نہیں خیال کوئی

مجھے وہ علم عطا کر، کہ تجھ کو ڈھونڈ سکوں

بی بی رابعہ بصری فرماتی ہیں "جو کوئی بھی دل لگاتا ہے وہ فرمانبردار ہو جاتا ہے”

ایک ذاتی تجربہ ہے اور اس سے نظریاتی اختلاف بھی رکھا جا سکتا ہے کہ محبت ایک ایسا عمل ہے جس کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا ہے۔

ناہید۔۔ ۔ مجھے آسمان کی اس سطح پہ ملی جہاں قبول شدہ دعائیں پڑیں ہوتی ہیں۔ جہاں باطن کا سفر کئی رنگوں سے ہوتا ہُوا بے رنگ ہو جاتا ہے۔ میری اکثر اس سے ملاقات ہمارے خطے میں رات کے آخری پہر اور نئے دن کے پہلے پہر کے وسط میں ہوتی۔ اس ملاقات میں ہر بار ناہید کا مجھ سے یہی سوال ہوتا کہ تم سوتے نہیں ہو کیا۔ تو میں ناہید سے ہمیشہ یہی کہتا کہ میں خدا کا مزدور ہوں۔ لوگ جب نیند کے سفر پہ نکلتے ہیں تو میں سرِ راہ خواب کی دکانیں سجا کے بیٹھ جاتا ہوں۔ کسی کو اس کی مرضی کا اور کسی کو اپنی مرضی کا خواب

تھما دیتا ہوں۔ ناہید مسکراتی اور کہتی کہ تم لفظوں کے کاریگر ہو، یقیناً کچھ ایسا ہی ہے،

مگر صبح کا آئینہ

گیلی چُپ کے کہرے سے اٹا ہے

سورج کی حدّت پی کر بھی

اجالا دھندلکوں میں گھِرا ہے

نادیدہ وجود کا آسیب، گیلی چپ کا سایہ

روح کی خستہ دیواروں سے چمٹا ہے

اور فرار ممکن ہی نہیں۔

 

کاریگر تو ناہید بھی ہے۔ اس کے ہاں فنا کی ایک ایسی راہ داری ہے جو کبھی ختم ہوتی ہی نہیں۔ یہ باطن کے ارتقا سے مکمل فیض یاب ہے لیکن پھر بھی نفی کی اس خطرناک سطح پہ کھڑی ہے جہاں باقی صرف ایک ذات ہی رہ جاتی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ انتظار کئی حیرتوں کو بحال رکھتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ فقیر کو انتظاری کیفیت سے نکل کر صابر ہو جانا چاہیئے۔ کیونکہ انتظار جب تک ہے وہ نتیجہ طلب کرتا رہے گا۔

شاعرہ، پانی پہ تیرتے اس وجود سے بھر پور واقف ہے جس کے ایک لمس سے ہم ایک دوسرے کو دیکھ پاتے ہیں۔ اس نے خیال کو نئی خفی تہوں سے گزارا اور پھر شعر کی صورت دی۔ کبھی خود سے کلام کیا، کبھی خود کو جھٹک دیا۔

ناہید کبھی روایتی خواتین شاعرات کی طرح سوگ مناتی، آنکھوں کو سُرخ کرتی اور لہجے کو بے زار کرتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ اس نے ہمیشہ اپنی توانا روح کو سنبھالے رکھا اور خوش اسلوبی سے مکالمہ کیا۔

 

ضبط ہونٹوں پہ آ گیا تو پھر

تیرا سب حوصلہ گیا تو پھر

سالہا سال کا اکیلا پن

تجھ کو اندر سے کھا گیا تو پھر

اپنے سب لفظ دے دئیے اس کو

اب وہی بولتا گیا تو پھر

 

خواہش کی تکمیل انسان کو اندر سے اور بھی مضبوط کر دیتی ہے مگر اس خواہش کا غیر مکمل رہنا، لا محدود سفر کی طرف روانہ کر دیتا ہے۔ شاعر ہمیشہ ایسے جہانوں کی بات کرتا ہے جو عقل اور دانست سے باہر ضرور لگتے ہیں مگر اجنبیت کا تاثر نہیں دیتے۔ ناہید بھی کچھ ایسے ہی جہانوں کی سفیر ہے۔ یہ ہمیں ان دیکھے جزیروں کی سیر کرواتی ہے۔ دھند میں لپٹے ہوئے خوابوں سے لے کر، ترتیب سے گرتے ہوئے آبشاروں تک، سب اس کے باطن کی مکمل رسائی میں ہے۔ ناہید وہ ہے جو خود کو خواب دیکھتے ہوئے بھی دیکھ سکتی ہے۔

میں خسارے میں ہوں

مجھ کو اپنے خدا سے

کبھی مانگنا ہی نہیں آ سکا

خواہشوں کو دعاؤں کی تسبیح میں

ڈھالنا ہی نہیں آ سکا۔

ناہید کا اپنے خدا سے تعلق رُو برو کا ہے، جیسے یہ اسے چھو سکتی ہے۔ اور ایک بات تو یقینی ہے کہ اسے حاصل سے کوئی غرض نہیں۔ یہ مسلسل سفر کو ہی ریاضت اور عبادت سمجھتی ہے۔ ایک کارواں کی صورت آگے بڑھتی جاتی ہے۔ کوئی دکھ، کو ئی ملال اس کی رفتار کو سست نہیں کر پاتا۔ جس پل اس کی سانس اُکھڑنے لگتی ہے یہ اسی ایک پل میں اپنے خدا سے اور بھی قریب ہو جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ اس کی طبیعت میں فقیروں والے وصف اسے فقر کی اس راہ پہ نہ لے آئیں جہاں سب بلیک اینڈ وائٹ ہو جاتا ہے۔

میں خدائے عظیم کی بارگاہ میں یہ گزارش ہمیشہ کرتا رہوں گا کہ یہ اپنی کھوج میں صادق ہو کر اپنے رُو برو آ جائے۔       ناہید بہت خوش رہو۔

عماد اظہر (اسلام آباد)

 

 

 

 

محبت کی شاعرہ

 

محبت آنکھوں میں لکھی ہوئی آرزو کی طرح ہوتی ہے جو ماتھے پر بھی دمکتی دیکھی جا سکتی ہے۔ محبت کی شاعری بھی اجالا ہوا کرتی ہے جو دلوں کو اجلا کرنے پر قادر ہوتی ہے ،ا یسی شاعری میں ہجر و وصال کے دکھ سکھ اور آس امیدوں کے دائرے دئیوں کی طرح جا بجا ٹمٹماتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی شاعری میں جدائی کے موسم بھی دلوں کو بنجر کرنے کی بجائے بہاروں کی امید دلاتے ہیں، سسکتی راتوں میں شبنمی اجالوں کی خوشبو یاد آتی ہے اور دل روشنی اور خوشبو میں لپٹا، بادلوں کے سنگ اڑنے لگتا ہے۔

ناہید ورک کی شاعری میں کچھ ایسی ہی کیفیات مختلف رنگوں کے ہمراہ منور نظر آتی ہیں۔ اس کے شعر شعر اور سطر سطر میں، دیر تک روتی ہوئی آنکھوں کی کہانیاں بھی ہیں اور اس کے خیالوں میں ہجر کی اداس نشانیاں بھی۔۔ ۔ اس کے ہاں کچی نیند میں دیکھے خوابوں کی آہٹیں بھی ہیں اور فرقت کی سلوٹیں بھی۔۔ ۔ وہ نظم کہتی ہے تو اس میں بیراگن کے گیت کی سسکیاں گونج اٹھتی ہیں اور غزل کہتی ہے تو دشت خیال میں خوابوں کے پھول کھلا کر پلکوں پر امیدوں کے دئیے روشن کر لیتی ہے۔ میرے خیال میں، سچے تخلیق کار کی اولین نشانی بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کی تخلیق میں اس کا باطن روشن دکھائی دیتا ہے، سچا تخلیق کار اپنے جذبوں اور احساسات کو تخلیق میں گوندھ کر اپنے آپ کو تخلیق کا حصہ بنا دیتا ہے۔ ناہید ورک بھی ایسی ہی شاعرہ ہے جو اپنے اشعار میں سرمئی ہجر لپیٹے، سانس لیتی خوشبو میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اس سفر میں تنہائی کے دکھ بھی ہیں اور آنے والے دنوں کے خوابوں کے روشن رنگ بھی۔۔ ۔ جنھیں وہ چاندنی میں پرو کر دائرے بناتی نظر آتی ہے۔ اس راہ پر زرد صبحوں اور سرد شاموں کی سرگوشیاں بھی ہیں اور دھواں بن کر سانسوں میں چبھنے والی خاموشیاں بھی۔۔ ۔ اس کے اشعار میں محبت کی سرسراہٹ روشنی کی آہٹ کی طرح پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ بھی ہجر اور پیاس کے صحراؤں میں آرزو کے ٹھنڈے چشمے کی تلاش میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور بالآخر کسی خواب جزیرے میں پڑاؤ ڈال کر ایک عجیب سی سرشاری میں گم ہو جاتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ یہی سرشاری ناہید ورک کی شاعری ہے جو ماضی کی تلخیوں سے دور، مستقبل کے وسوسوں میں یقین اور گماں کے درمیان، دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ناہیدؔ ورک کے روشن احساسات و جذبات میں ڈھل گئی ہے۔

اختر شمارؔ (لاہور)

 

 

 

 

خوبصورت لہجے کی شاعرہ

 

آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے یہ خوبصورت کتاب ’گیلی چُپ‘ مجھے دستیاب ہوئی۔ سب سے پہلے تو اس کے پر کشش سرورق نے ہی مجھے متاثر کیا۔ دیکھیئے، یہ جو کتاب کا سرورق ہوتا ہے وہ در اصل آئینہ ہوتا ہے تخلیق کار کی شخصیت کا، اس کی سوچ کا۔ اب یہ منظر طلوع سحر کا منظر ہے جو اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے اور ایک امید ایک آس کا پتہ دیتا ہے۔ جہاں تک ناہید کی شاعری کا تعلق ہے تو میں نے مشاعروں میں انہیں ایک کامیاب شاعرہ کی حیثیت سے سُنا ہے ! وہ نہ صرف یہ کہ مضبوط لہجے میں اپنی بات منواتی ہیں بلکہ سامعین پہ اپنے کلام اور شخصیت کا ایک خوشگوار تاثر بھی قائم کرتی ہیں۔

اہلِ قلم کی جو آرا یا جو تاثرات ان کی شاعری پر اس مجموعۂ کلام میں شامل ہیں جیسا کہ اختر شمار نے انہیں محبت کی شاعرہ کہا یا سعود عثمانی نے ان کو صاحبِ دل شاعرہ کہا، ندا فاضلی اور نوشی گیلانی نے بھی ان کی شاعری پر بہت خوبصورت باتیں کیں تو ظاہر ہے کہ ان اہم اہلِ قلم سے ناہید کی شاعری کو پسندیدگی کی سند مل گئی۔

اب یہ جو عنوان ہے ’گیلی چپ‘ تو گویا شاعرہ نے دل ہی دل میں رسنے والے آنسوؤں کی زبانی اپنے دکھوں کو شاعری میں ڈھالا ہے۔ ناہید نے ان مانوس دکھوں کی تشہیر تو نہیں کی، چرچا بھی نہیں کیا بس بڑے سلیقے سے انہیں اشعار میں بیان کیا ہے اور اگر کچھ شکوہ بھی کیا تو بڑے نرم لہجے میں

میں اُس کی ذات میں شامل تھی اس کو مل جاتی

دعائے خیر سمجھ کر وہ مانگتا مجھ کو

کتنی خوبصورت بات کی ہے ناہید نے۔ خالصتا نسوانی لہجے میں عورت کے تقدس کو اُجاگر کیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی وفا اور قربانی سے مرد کی زندگی کو سجاتی سنوارتی ہے۔ اس دعائے خیر کی طرح کہ جو قبول ہو جائے تو زندگی جنت کا نمونہ بن جائے اور اگر طلب میں کھوٹ ہے تو بھلا بات کیسے بنے۔ ناہید کا ایک اور نمائندہ شعر۔

جہاں ریزہ ریزہ میں بکھری پڑی تھی

وہ منظر مجھے جوڑنا پڑ گیا ہے

بڑی وسعت ہے اس شعر میں، اگر آپ چاہیں تو کسی انسان کی ذاتی شکستگی سے بھی اس کو جوڑ سکتے ہیں اور اگر وسیع

معنی میں لیں تو ہماری معاشرتی اور سماجی الجھنیں جن کو ہم روز سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارا تہذیبی منظر نامہ جو بکھر گیا ہے اس کو سمیٹنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ناہید کی غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے انہوں نے اپنی غزلوں کو بیشک ایک مخصوص رومانوی رنگ میں تو رنگا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے جدید طرزِ بیاں پر غزل کے کلاسکی حسن کو قربان نہیں کیا۔

یونہی دھندلائے رہیں عکسِ دل و جاں کب تک

میری پلکوں پہ رہیں اشک یہ لرزاں کب تک

غزلوں کے ساتھ ان کی نظمیں بھی بھرپور توجہ کی مستحق ہیں (رائے گانی، بند دروازے، احساسِ زندگی اور بد نصیبی) جیسی حسّاس نظمیں جو قاری کے ذہن و دل پر ایک گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس کتاب کی شکل میں شعر و سخن کی راہ گزر پہ اس نے ایک جگمگاتا چراغ روشن کیا ہے۔ اس ذہین اور خوبصورت شاعرہ کے لیے میری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اس کے فن کو بامِ عروج تک پہنچائے، آمین۔

 

مونا شہاب اپریل 2013 – بالٹی مور (امریکہ)

 

 

 

 

صاحبِ دل شاعرہ

 

عصرِ رواں اور قبیلۂ ہم عصراں شاید انسانی تاریخ کے بدلتے منظروں کے عینی گواہوں کے طور پر موجود ہیں۔ عہدِ حاضر وہ عہد ہے جس نے فاصلے سمیٹ کر فاصلے پیدا کر دیئے ہیں۔ عہدِ حاضر وہ عہد ہے جس نے ذہن یکجا کر کے دل علیحدہ کر دیئے ہیں، ہمارا قبیلہ وہ قبیلہ ہے جس نے سمندروں، خلیجوں اور جزیروں کے فاصلے سمٹتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ہماری نسل وہ نسل ہے جس نے بھائیوں، بہنوں، والدین اور اولاد کے دلوں کے درمیان برِّاعظم، سمندر، خلیجیں اور جزیرے حائل ہوتے دیکھے ہیں۔ اس عہد کی طرح یہ نسل بھی منفرد ہے جس نے ٹوٹتے دلوں اور جڑتے بندھنوں کے مناظر دیکھے ہیں اور اس صورت حال کا مشاہدہ اور دکھ کا درست تر احساس شاعر کے علاوہ کون کر سکتا ہے۔

ناہیدؔ ورک سے اب تک میری ملاقات انٹرنیٹ کے اسی ذریعے سے ہے جس نے فاصلے سمیٹ کر لوگوں کو اک گھرانے کا روپ دے دیا ہے۔ چند سال قبل اردو شاعری کے کسی فورم پر ان سے ملاقات ہوئی جہاں وہ غالباً منتظمہ کے طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دیتی تھیں۔ اس وقت بھی ان کی جستجو، لگن اور سیکھنے کی خواہش بہت واضح اور متاثر کُن تھی۔ اور کسی مصرعے اور لفظ پر بحث کے دوران شائستگی اور جستجو کا عمدہ نمونہ پیش کرتی تھیں۔ میں اپنی کم توفیقی کے باعث اس فورم میں حاضری برقرار نہ رکھ سکا اور یہ رابطہ ٹوٹ گیا۔

کئی سال کے بعد ان سے پھر ملاقات ہوئی۔ اب کے یہ ملاقات انٹرنیٹ پر فیس بک پر تھی جسے میں ’’کتاب چہرہ ‘‘کہتا ہوں۔ اب ان کی غزلوں اور نظموں میں وہ فنی ارتقا بھی نمایاں تھا جو ان گزرتے ماہ و سال میں ان کی مضطرب طبیعت نے اختیار کیا تھا۔ شاعری کسی درخت کے پھل اور کسی فصل کی طرح ہوتی ہے۔ کسی پھل، کسی فصل میں مٹھاس، پختگی، لطافت اور لوگوں کے لیے قبولِ عام کی صفات کے لیے فطرت نے اس پر گرم و سرد موسم، تیز اور ہلکی بارش، کڑکتی دھوپ، اور دھڑکتا ہُوا وقت گزرنے کی لازمی شرط رکھی ہے۔ یہ شرط مختلف لوگوں کے معاملے میں مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ شرط ختم نہیں ہوتی۔ ناہید ورک نے یہ شرط پوری کی ہے اور اگلے مرحلے کی طرف بڑھ آئی ہیں۔ بیج سے بار آور درخت کا مرحلہ۔۔ قاری سے صاحبِ کتاب بننے کا فیصلہ۔

ناہید کی غزلوں میں وہ کیفیت نمایاں ہے جسے ہم گداز دل سے تعبیر کرتے ہیں۔ شاعری میں فنی ریاضت، قدرت کلام، زبان و بیان پر عبور اور ذخیرہ الفاظ کی جو نا قابل تنسیخ اہمیت ہے اس سے انکار صرف وہ کر سکتے ہیں جو اس معاملے میں خود تہی دامن ہیں۔ لیکن ان سب کا تعلق دماغ سے ہے دل سے نہیں۔ اور صرف دماغ کے زور پر کی جانے والی شاعری دلوں کو چھونے میں ناکام رہتی ہے۔ شاعری کے وجود کو خون کی ترسیل دل کے ذمے ہے اور اس کی فعال شمولیت کے بغیر اس وجود میں جان پیدا نہیں کی جا سکتی۔ ناہید ورک کی شاعری میں فنی شعور کے ارتقا کے ساتھ دل کا کردار مرکزی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خصوصیت اور نمایاں ہوتی چلی جائے گی۔

ناہید ورک ایک صاحبِ دل تخلیق کار ہیں۔ صاحبِ دل پر دل صاحب جو ستم ڈھاتے ہیں اس کی کہانی الگ ہے۔ وہ اپنی الجھتی ہوئی رسیوں کو کھولنا چاہتا ہے اور اس کی لکھی ہوئی غزل، اس کی کہی ہوئی ہر نظم اس کے اندر ایک نئی گرہ لگا جاتی ہے۔ احمد مشتاق جب اس مرحلے سے گزرے تو انہوں نے کہا:

اسی لیے تو میں احوالِ دل نہیں کہتا

کہوں تو اور الجھتی ہیں گتھیاں میری

ان ریشمی گتھیوں سے الجھتی ہوئی ناہید کے اندر بھی ذات اور ذاتی تجربوں سے کائنات جنم لیتی ہے۔ دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ شاعرہ کس حد تک اپنے ذاتی دکھ کو سب کا دکھ بنا سکتی ہے اور کس طرح دوسروں کے کرب کو اپنی ذات پر وارد کر سکتی ہے۔ ناہید نے بے شمار جگہ اس صلاحیت کا ثبوت دیا ہے اور لفظوں کے زینے سے دلوں کے اندر اتری ہیں۔

یہ دل کے زخم چھُپا کر جو مسکراتے ہیں

تو میرے دوست یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے

کبھی کبھار تو بدعت بھی ہو ہی جاتی ہے

ہر ایک لمحہ ترا دھیان تھوڑی ہوتا ہے

 

میں اُس کی ذات میں  شامل تھی، اُس کو مل جاتی

دعائے خیر سمجھ کر وہ مانگتا مجھ کو

میں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

 

اپنے سب لفظ دے دئیے اس کو

اب وہی بولتا گیا تو پھر

 

اور پھر دل نے اُس کو چھوڑ دیا

جب تعلق بحال تھا ہی نہیں

سرمئی ہجر کو ہرا کرتا

اس میں ایسا کمال تھا ہی نہیں

 

سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے

ورد کرنے کی اجازت ہے ہمیں

 

دل جزیرے پر ہے اُس کی روشنی

اک ستارے سے محبت ہے ہمیں

 

زندگی تھی نہ کوئی روشنی کی اس میں رمق

اتنے برسوں کی رفاقت تھی مگر بے معنی

بجھ رہی تھیں مرے اندر مری سورج کرنیں

وہ سمجھتا تھا جو حالت تھی مگر بے معنی

کھول کر اپنی آنکھ کی کھڑکی

کوئی روشن ستارہ رات کو دے

دھند سے اب نکال سورج کو

سبز رنگت بھی زرد پات کو دے

 

 

یہ کس کے چھونے سے روشن ہوئے ہیں جسم اور جاں

یہ کیا ستارہ نما ہے کمال ہاتھوں میں

ناہید کی نظموں میں بھی وہی گہرے احساس والے تخلیق کار کا تخلیقی بہاؤ ملتا ہے جس میں دیگر عناصر کے ساتھ دوسروں کو شامل کرنے اور اس دھارے کا حصہ بنا لینے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

میں ابھی ناہید ورک کی چند غزلوں، نظموں پر بات کر سکتا ہوں کہ وہی اس وقت میرے سامنے ہیں۔ آنے والی کتاب کا مجھے بھی انتظار ہے۔ لیکن کسی شاخ پر پھوٹنے والے گلاب سے مزید پھولوں کے رنگ، خوشبو اور اس کے اطراف میں پھیلنے والی مہکار کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔ ناہید کے لیے بہت سی توقعات اور دعائیں۔۔ ۔ کہ اس قبیلے میں خوشبو اور مہک کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔

سعود عثمانی (لاہور)

 

 

 

بے معنی رفاقتوں کے موسم کی شاعرہ

 

خوشبو سے گفتگو کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ خوشبو سے گفتگو کرنے کے لیے یا تو پھولوں کے قبیلوں سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے یا ہوا کے نرم جھونکوں کی روش اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ناہیدؔ ورک اپنی شاعری میں کبھی تو پھولوں سے رشتے جوڑتی دکھائی دیتی ہیں تو کبھی ہوا کا ہاتھ تھامتی دکھائی دیتی ہیں۔

ناہید کو نجانے کس آئینے کی تلاش ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا آئینہ دیکھے تو اپنے آپ کو مختلف انداز سے دیکھتا ہے، اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناہید کہتی ہیں کہ:

میں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

لیکن اگر اتفاقاً کوئی گرد آلود آئینہ ناہید کا عکس اپنے اندر سمونا بھی چاہے تو ناہید اُس آئینے کی گرد دیکھ کر اُس سے گریز کر جاتی ہیں کہ:

روح کے پار جو دکھاتا تھا

تُو وہ اب آئینہ نہیں شاید

 

ہم کسی بھی شخص کے جانے کے بعد اکثر یہ قبول نہیں کرتے کہ وہ شخص ہمارے اطراف میں نہیں اور ہم اُس کے چلے جانے کے باوجود اُس کے رنگ و خوشبو ایک احساس کی شکل میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں لیکن ناہید نے حقیقت کے موسم کو اپنے آنگن میں خود ہی اُتار کر کہا:

اور پھر دل نے اُس کو چھوڑ دیا

جب تعلق بحال تھا ہی نہیں

کہتے ہیں بعض اوقات ایک لمحے کی رفاقت بھی بہت ہوتی ہے اور بعض اوقات برسوں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کو جان نہیں پاتے، پہچان نہیں پاتے۔ کبھی برسوں کی رفاقت کا بار ہم سے اُٹھایا نہیں جاتا لیکن بعض اوقات ایک لمحے کی رفاقت کا اثر ہمارے جینے کا سبب بنا رہتا ہے اور ہمیں سانس لینے پر مجبور کیے رکھتا ہے کہ ہمیں اُسی ایک لمحے کو اگر بار بار نہیں تو تھوڑی دیر اور جینا ہے۔ ناہید کے یہاں ایسے لمحوں کا موسم بہت عارضی دکھائی دیتا ہے، لیکن بے معنی رفاقت کا اثر ایک طویل داستان کی شکل میں نمایاں ہے، کہ:

زندگی تھی نہ کوئی روشنی کی اس میں رمق

اتنے برسوں کی رفاقت تھی مگر بے معنی

 

ناہید انہی بے معنی رفاقتوں سے گریز کرنے کے لیے یہ بھی کہتی ہیں کہ:

میں رفاقت کی کہانی گر لکھوں تو کیا لکھوں؟

خامشی کے دائرے یا تیرگی کے دائرے

 

لیکن یہ رفاقتیں کسی تختے میں ٹھونکی گئی کیلوں کی طرح اپنی جگہ قائم رہتی ہیں کہ اگر وہ کیلیں تختے سے نکال دی جائیں تو پھر بھی اُن رفاقت کی کیلوں کے نشان اُن کے بے معنی ہونے کا احساس زندہ رکھتے ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہم گریز کے راستے پر چلتے چلتے، بے سکونی کے راستے کی جانب پلٹ جاتے ہیں اور وہ سکون تلاش کرنے لگتے ہیں کہ جو صرف چند قدم کے لیے ہمارا ہم سفر تھا، یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ جس سے فرار ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہوتا ہے۔ ناہیدؔ بھی اسی شش و پنج کے لمحات میں گفتگو کرتی ہیں کہ:

وقت کی ریت سے گزرے پل میں چھانتی رہتی ہوں

اُس کی خوشبو کی سرگوشیاں ڈھونڈتی رہتی ہوں

لمحہ لمحہ وہ بھی مجھ کو توڑتا رہتا ہے

لمحہ لمحہ میں بھی خود کو جوڑتی رہتی ہوں

 

اور اِس گفتگو کے دوران وہ یہ سوال بھی کرتی جاتی ہیں کہ:

 

میں تیرے سنگ تو روشن سفر پہ نکلی تھی

یہ چار سمت اندھیروں کے سلسلے کیوں ہیں

میں تیرے خواب سے باہر نکل چُکی ہوں اگر

تو جا بجا تری یادوں کے قافلے کیوں ہیں

لبوں پہ ترکِ رفاقت کے تذکرے ہیں اگر

تو میرے دل سے ترے دل کے رابطے کیوں ہیں

 

بعض اوقات باہر کے سناٹوں سے زیادہ اپنے اندر کے سناٹے شور کرتے ہیں۔ انسان اپنے اندر یہ سب سناٹے قید رکھے تو سانس بھی لینا دشوار ہو جاتا ہے، اسی لیے ناہید ان سناٹوں سے خود کو اس لیے آزاد کرواتی ہیں کہ:

دھواں بن کے سانسوں میں چُبھنے لگی تھی

خموشی کو اب توڑنا پڑ گیا ہے

اور جب یہ خاموشی ٹوٹتی ہے تو ناہیدؔ ورک کی کتاب "گیلی چُپ” جنم لیتی ہے۔

 

عرفان مرتضیؔ اپریل 2013 – لاس اینجلس (امریکہ)

 

 

 

 

ناہیدؔ ورک ایک روشن بشارت

 

ناہیدؔ ورک پاکستان میں وطن سے بے وطن ہو کر سات سمندر پار کی تہذیب و ثقافت سے ہم سخن ہوئی ہیں۔ اس زمینی سفر نے انہیں نئے درختوں، نئے پرندوں اور نئے موسموں سے آشنا بھی کیا ہے اور غالب کے لفظوں میں  ان کی آنکھ کو ہر رنگ میں  وا ہو جانے کا حوصلہ بھی دیا ہے۔ دو تہذیبوں کی کشمکش یوں تو ادب میں نت نئی شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے، لیکن ناہیدؔ نے اس کشمکش کا اظہار صنفِ غزل کے دائرہ میں  اپنی عمر اور جسم میں خون کے دوران کی سمت و رفتار تک محدود رکھا ہے۔ اس تخلیقی رویہ نے ان کے الفاظ کو داخلی حُسن سے آراستہ کیا ہے:

مدتوں کے بعد کی خوشبو نے مجھ سے گفتگو

مدتوں کے بعد مہکے زندگی کے دائرے

 

اُن کے فکری دائروں کی حدود نے ان کی غزل میں  نئی فضا کو منعکس کیا ہے:

میں جس میں  دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

اس آئینہ کی تلاش ہی ان کے تخلیقی ارتعاش کی زیبائش ہے۔

 

زندگی تھی نہ کوئی روشنی کی اس میں رمق

اتنے برسوں کی رفاقت تھی مگر بے معنی

ناہیدؔ کے ہاں ان کے احساسات کا ظہور ہی ان کے جذبہ و احساس کی وسعتوں کی روشن بشارت ہے۔

 

ندا فاضلی نومبر 2010 ممبئی (انڈیا)

 

 

 

 

ناہیدؔ ورک کی گِیلی چُپ

 

جب میرے پاس ناہید کی کتاب گیلی چُپ آئی اور معمون نے گیلی چُپ پڑھا تو میں نے اُسے ڈانٹا کہ گیلی چُپ کوئی بات ہوتی ہے۔ یہ گیلی چوب ہو گا۔ چوب لکڑی کو کہتے ہیں۔ پھر میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ مجھے پڑھ کر بتائے، میں اُس پر ذرا اعتبار زیادہ کرتا ہوں، تو اُس نے مجھے بتایا کہ نہیں جی یہ "گیلی چُپ” ہی ہے۔

تو گیلی چپ سے ہم آغاز کر رہے ہیں اپنی بات کا۔ اس کی جو گیلی چپ ہے، آپ لوگوں نے جو مطلب نکالے ہوں اس کے، میں اُن سب سے اختلاف کرتا ہوں۔ یہ چُپ انتقامی چُپ ہے۔ یہ Weeping Silence نہیں ہے، جب زندگی میں نارسائی آ جائے، جب زندگی میں جو احساس ہوتا ہے حُسن کی تلاش کا، محبت کی کامیابی کا، اُس میں ہلکی ہلکی ناکامی نظر آ رہی ہو، محبت کی کامیابی در اصل اُس کی ناکامی ہوتی ہے۔ ناہید تم زندگی میں کامیاب ہو۔ اس لیے کامیاب ہو کہ تمہارے ہاں نارسا جذبہ موجود ہے۔ اگر رسائی تمہاری ہو جاتی اُس شخصیت تک جو تمہارے خوابوں میں ہے، خیالوں میں ہے، جس کے لیے تم آئینے میں سنورنا چاہتی ہو، جس کے لیے تم چاہتی ہو کہ اُس سے گفتگو ہو سکے تو تمہاری یہ شاعری نہ ہوتی۔

میں شاعری میں پس منظر کا بڑا قائل ہوں۔ پس منظر جسے آپ Existence یا Background کہہ سکتے ہیں، جسے آپ ذات کہہ سکتے ہیں، یہ پہلی جَٹی ہے (ورک جٹ ہوتے ہیں ) جس نے شاعری میں آ کر اظہار کیا ہے اُن سچّے جذبات کا، اُن سچّے احساسات کا کہ جو انسان کی زندگی پر وارد ہوتے ہیں اس ضمن میں کہ کبھی وہ ٹوٹتے ہیں، کبھی وہ بکھرتے ہیں، کبھی وہ پھر سنورتے ہیں، پھر بنتے ہیں پھر بگڑتے ہیں اور زندگی کو اسی طریقے سے گزارتے چلے جاتے ہیں۔

ناہید، تم اردو زبان کی، یہ بڑی ذمہ داری سے میں بات کر رہا ہوں، جس عمر میں میں ہوں اُس عمر میں جھوٹ بولنا بڑا نقصان دہ ہوتا ہے، لیکن ایک سچائی یہ ہے کہ ناہید ورک تم ہمارے عصرِ جدید میں اردو سے سب سے بڑی شاعرہ ہو۔ آپ کے ہاں لفظوں میں جو اسلامک ٹرمینالوجی استعمال ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں یہ آپ وہاں مشی گن میں بیٹھ کر جہاد کر رہی ہیں۔ لفظوں کا استعمال ہی در اصل حقائق کو سامنے لے کر آیا کرتا ہے۔

ہم جب شاعری کی طرف آتے ہیں تو ایک بات دل میں رکھ لیں اور ساتھ لے کر جائیں کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ آپ یقین کریں وہ شخص کبھی شاعر نہیں بن سکتا جس کے دل میں کدورت ہو۔

شاعری پاکیزہ جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ اور یہ جو "گیلی چُپ” ہے نا یہ ری ایکشن ہے، یہ ردِ عمل ہے۔ ہماری ناہید اتنی کمزور نہیں ہے کہ وہ شکست خوردگی کے احساس کے ساتھ روئے، نہیں۔ یہ احساس دلانا ہے کیونکہ قرآن کا حکم بھی یہی ہے کہ ہنسو مت کہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔ رویا کرو۔

جیسا میں نے آپ سے کہا کہ یہ لڑکی کمال کر رہی ہے۔ یہ اپنے الفاظ کے ذریعے تبلیغ کر رہی ہے اخلاقیات کی۔ کیا آپ نے یہ پہلو تلاش کیا ہے اس کی شاعری میں؟ اس کے اندر اس کے جو جذبات ہیں، جو پاکیزگی ہے، اس میں وہ جَٹی نہیں بول رہی بلکہ ایک مومنہ بول رہی ہے اندر سے۔ پوری شاعری آپ اس کی دیکھیں، پوری شاعری میں جو Rigidness ہے اس کی آپ لوگ اس طرف نہیں آئے۔ یہ Rigidness اس کی شاعری میں آئی ہوئی ہے۔ صاف ستھرا پن ہے، بالکل صاف، صاف ستھری بات کرنا۔ اور شاعری کی وہی خوبصورتی ہوتی ہے کہ جس میں آدمی اُن جذبوں کے اظہار کے لیے بات کر رہا ہو۔ ناہید کی شاعری میں جہاں ایک خاتون کا لب و لہجہ ہے وہیں مردانہ وار سماج سے مقابلہ کرتے بھی نظر آتی ہے۔

میری کھری بات یہی ہے کہ میں نے آپ کی شاعری میں جوسب سے بڑی بات محسوس کی ہے وہ آپ کے لہجے میں کہیں کہیں جو اکھڑ پن آتا ہے وہ وہی ہے کہ آپ جس طرف جا رہی ہیں دیکھتی ہیں کہ اس منزل پہ غالباً وہ حُسن موجود ہے، اس مقام پر وہ حُسن موجود ہے جس کی مجھے تلاش ہے پھر وہ آپ کو نہیں ملتا، آپ نے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ پھر آگے چلتی ہیں، دوسری منزل اختیار کرتی ہیں، تیسری منزل۔۔ ۔ اور یہ راستوں کی تلاش ہی در اصل انسانی زندگی ہے۔ آپ اس سے نکلیں گی تو آپ کچھ نہیں کر سکتیں۔ آپ کی شاعری میں مجھے کم پرفیکشن نظر آئی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو شاعر یہ سمجھتا ہے کہ وہ پرفیکٹ شاعر ہے وہ مر جاتا ہے۔ آپ اچھی گفتگو کرنا جانتی ہیں، اچھا لب و لہجہ ہے آپ کا، یہ آپ کے خوش آئین سفر کی ابتدا ہے۔ ناہید ورک تم میرے لیے میری بیٹی کی طرح ہو، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

 

( اقبال ارشد – تاریخ وصال 4 ستمبر 2018 ملتان)

 

٭٭٭ 16 نومبر 2012 کو ملتان میں گیلی چُپ کی تقریبِ پذیرائی کے موقع پر مرحوم محترم اقبال ارشد کا اظہارِ خیال جو تقریب کی آڈیو ریکارڈنگ سے حاصل کیا گیا ہے۔ یہ رائے میرے لیے بہت معتبر ہے اور ایک ایسا اعزاز ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند فرمائیں، آمین۔ (ناہید وِرک)

 

 

 

 

 

تتلیوں سے سرگوشیاں کرتی شاعرہ – ناہیدؔ ورک

 

 

میں اُس کی ذات میں شامل تھی اس کو مل جاتی

دعائے خیر سمجھ کر وہ مانگتا مجھ کو

میں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

 

آج سے تقریباً سات سال پہلے کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں جب یہ نام پہلی دفعہ سُنا تو یہ نام سُنتے ہی ایسے لگا کہ ناہید ورک پنجاب کی کوئی جٹی سرسوں کے سر سبز کھیتوں میں سر پہ لسّی کا مٹکا رکھے پگڈنڈیوں پہ چلتی ہوئی یا ساگ کی کومل کومل گندلیں توڑتی ہوئی کوئی مٹیار ہو گی لیکن جب محترم پیرزادہ قاسم صاحب کی زیرِ صدارت ہونے والے مشاعرے میں ناہیدؔ کی شاعری کو سُنا تو یہ انکشاف ہُوا کہ یہ سرسوں کے کھیتوں سے گندلیں توڑنے والی جٹی بالکل بھی نہیں بلکہ سرسوں کے پیلے پیلے خوشنما گداز پھولوں پر اُڑتی ہوئی سفید رنگ کی خوبصورت تتلیوں سے سرگوشیاں کرنے والی ایک خوبصورت شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سافٹ وئیر انجینئر ہے۔

اور جب انہی خوبصورت سرگوشیوں کو پھولوں کی طرح لفظوں میں پروتی ہیں تو وہ "تیرے نام کی آہٹ” بن کر کتاب کی شکل میں ناہید کی تخلیق بن جاتی ہے۔

 

ہاتھ کی لکیروں سے کس طرح نکالوں میں

تیری یاد کے موسم تیرے نام کی آہٹ

اور

رات کے اُترتے ہی دل کی سُونی گلیوں میں

جاگ اُٹھتی ہے پھر سے تیرے نام کی آہٹ

 

اور پھر جب کسی کے نام کی آہٹ کانوں کے رستے ہوتی ہوئی دل میں سنائی دینے لگے اور زبان اُس آہٹ کے جواب میں کچھ کہنے کے لیے بے تاب ہو جائے تو یکا یک ہونٹوں پر "گیلی چُپ” کے پہرے لگ جاتے ہیں مگر پھر بھی شاعرہ یہ کہتے ہوئے نظر آتی ہے:

 

عذابِ ہجر سے انجان تھوڑی ہوتا ہے

یہ دل اب اتنا بھی انجان تھوڑی ہوتا ہے

کبھی کبھار تو بدعت بھی ہو ہی جاتی ہے

ہر ایک لمحہ ترا دھیان تھوڑی ہوتا ہے

 

اگر ہم شاعری کی تاریخ پر زیادہ دور نہ جاتے ہوئے نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ بات بالخصوص ماننا پڑے گی کہ موجودہ ادب میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے اور بہت بڑی تعداد میں خواتین نے شاعری کے میدان میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ بہت خوبصورت ادب تخلیق کیا۔ جن میں پروین شاکر، نوشی گیلانی، محترمہ حمیرا رحمان، صبیحہ صبا، مونا شہاب اور بھی بہت سے نام شامل ہیں۔ محترمہ ناہید بھی آج اس صف میں کھڑی نظر آتی ہیں، لیکن، یہ بھی تلخ حقائق ہیں کہ آج کل بہت سے شاعر اور شاعرات محض نام اور شہرت کے حصول کے لیے اس شعبے میں سر گرمِ عمل ہیں۔ لیکن ناہیدؔ کا شمار اُن شاعرات میں ہوتا ہے جو خالصتاً تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اس کا بنیادی حوالہ "تیرے نام کی آہٹ” اور "گیلی چُپ” کی شکل میں اُن کی دو خوبصورت تخلیقات ہیں جو ہمارے لیے قابلِ فخر بات ہے۔ وہ یہاں دیارِ غیر میں اپنی اوائل عمری سے مقیم ہونے کے باوجود کسی ادبی سیاست میں ملوّث ہوئے بغیر ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔

 

شام کی شام سے سرگوشی سُنی تھی اک بار

بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہُوا ہے

 

ناہیدؔ ورک کی شاعری کا بنیادی حوالہ اگرچہ محبت ہے مگر وہ روایتی ہجر اور وصال کی کیفیات کو اپنی شاعری کا حصہ نہیں بنا رہی بلکہ اُن کے ہاں محبت خالصتاً ان کے باطن سے پھوٹتی ہے اور محبت اُن کے لہو میں رواں دواں ہے۔ وہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے اپنی تمام تر دلی کیفیات کو اپنی غزلوں اور نظموں میں پروتی چلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا رنگ ان کا اپنا رنگ ہے اور وہ کسی اور رنگ میں رنگنے کو تیار ہی نہیں۔

 

ضبط ہونٹوں پہ آ گیا تو پھر

تیرا سب حوصلہ گیا تو پھر

وہ جو تعبیر بن کے آیا ہے

خواب سارے جلا گیا تو پھر

 

دیکھتے ہیں تو ناہید یہاں امریکہ میں مقیم ہے لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ ایک ترقّی یافتہ معاشرے اور آسودگیوں میں زندگی گزارنے والی یہ شاعرہ اپنے اندر وہی اضطراب، بے چینی، اور تڑپ رکھتی ہے جو پاکستان میں رہنے والے کسی بھی فرد کی ذات کا حصہ ہے۔ یہ رہتی تو امریکہ میں ہیں مگر ان کی روح اپنی دھرتی کی مٹی میں سانس لے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے دیس پر آنے والی آفات پر اس دل روتا ہے۔ چاہے وہ اکتوبر 2008 کے زلزلے ہوں یا اگست 2010 میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں۔ ناہید کا قلم بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے

 

ہر اک کی زباں پہ یہی داستاں ہے

یہاں پر جو گھر تھا مرا وہ کہاں ہے

کہیں بچّہ رو رو بُلاتا ہے ماں کو

کہیں سسکیوں میں گھری اُس کی ماں ہے

جہاں زندگی کی ہنسی گونجتی تھی

وہاں ہر طرف سسکیوں کا دھواں ہے

 

ناہیدؔ ورک کے وجود میں ایک مشرقی لڑکی سانس لے رہی ہے اور اوپر سے وہ مشرقی لڑکی ایک شاعرہ بھی ہے لہذا اس کی شاعری واضح طور پر اُن نسوانی جذبات کا اظہار بھی ہے جو کسی بھی لڑکی میں ہو سکتے ہیں خاص طور پر جب وہ اپنی ماں سے ہمکلام ہوتی ہیں تو ان کی ہوک دلوں کو چیر کے رکھ دیتی ہے۔

 

میرے پیکر میں یوں بسی ہے ماں

آئینے میں مجھے دکھی ہے ماں

کوئی بھی حال آشنا نہیں ہے

اور ضرورت تری کڑی ہے ماں

دیکھ مُرجھا گئی ہوں تیرے بعد

یہ جدائی تری کڑی ہے ماں

 

ناہید کی غزلوں اور نظموں میں معنویت اور تسلسل نظر آتا ہے اور اس کے اندر احساس و شعور کا بے کراں سمندر متلاطم ہے۔ ان کے نزدیک محبت سطحی جذبات سے ماورا کوئی چیز ہے۔

 

ابھی تو روح میں تیرا ظہور ہونا ہے

مرے وجود کو تیرا شعور ہونا ہے

 

ناہید کے قلم سے ابھی بہت سے تخلیقی شہ پاروں کو معرض المہار میں آنا اور شاعری کے اُفق پہ جگمگانا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ کامیابی اور کامرانیاں ہمیشہ ان کی قدم بوسی کرتی رہیں۔

اللہ زورِ قلم مضبوط سے مضبوط کرے۔ (آمین)

 

اعجاز حسین بھٹی اپریل 27، 2013 نیویارک (امریکہ)

٭٭٭

تشکر: شاعرہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل