FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تفسیر  سراج البیان

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

ترجمہ قرآن شاہ عبدالقادر دہلوی اور شاہ رفیع الدین دہلوی

تفسیر: محمد حنیف ندوی

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

یہاں محض فاتحہ اور بقرہ کی 100 آیات کی تفسیر دی گئی ہے۔ مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔

ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

۱۔ فاتحہ

 

001: اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف ۱)

 

ام الکتاب کے فضائل و نکات: قرآن مجید میں اس کا نام ” سبع مثانی ہے۔ احادیث میں فاتحہ، کافیہ، ام الکتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے۔ اس لئے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ہے، سبع مثانی  ہے اس لئے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے: ” فاتحہ ” ہے اس لئے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے۔: کنز ” کہلاتی ہے اس لئے کہ تمام اس لئے کہ تمام اساسی و ضروری اصول اس میں مذکور ہیں۔ ام الکتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھئے، تمام باتیں بالاجمال اس میں آ گئی ہیں۔

(ا): رب کائنات کی حمد و ستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیں جو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے۔

(ب): ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہر کام میں اسی سے استعانت کا اقرار۔

(ج): صراط مستقیم یا جادہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کئے اور جس سے ہٹ کر چاہ غضب و ضلالت میں گر گئے۔

اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ یہ قرآن میں عظیم ترین سورة ہے۔

(ی): امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ جو مفسر امت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں،  فرماتے ہیں فاتحہ دو ثلث تقریباً آ جاتے ہیں یعنی دو تہائی مضامین۔

(ف ۱) بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہر نوع کے آغاز کے لئے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہو گئے۔ حدیث شریف میں حضورﷺ نے فرمایا کہ کل امر ذی بال لم یبدا باسم اللہ فھو ابتر "۔ یعنی ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے ہو،  ورنہ ناکامی ہو گی۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے جو بسم اللہ میں بتائے گئے ہیں۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے۔ (۱) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو (۲) خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیا جائے یعنی بتدرئھ استقلال اور رجا کو ہاتھ سے دیا جائے۔ (۳) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھا جائے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ہے۔ وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گئے۔ ظاہر ہے انہیں ہر وقت ملحوظ رکھنا ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

002:  سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو کل جہان کا پروردگار ہے۔ ف ۲۔

 

(ف ۲) خدا کے متعلق قرآنی تخیل یہ ہے کہ وہ ساری کائنات کا رب ہے۔ اس کی خدائی زمان و مکان کی قیود سے بالا و بلند ہے۔

 

حل لغات

الحمد، مصدر تعریف و ستائش اس صورت میں جبکہ ممدوح مختار اور فعل جمیل و خیر ہو۔

رب: اسم صفت جو تخلیق و اختراع کے بعد کائنات کا ہر منزل میں خیال رکھے یعنی ایجاد و تصویر سے لے کر تکمیل و تزئین تک ہر مرحلے میں اس کا التفات کرم فرما رہے۔

العلمین: جمع عالم اسم آلہ خلاف قیاس، دنیا یا کائنات، ہر شے ہر جگہ، ہر چیز۔

الرحمن، رحم رحمنہ سے اسم صفت رحم سے مطلق ہے یعنی مادرانہ شفقت کی انتہائی تنزیہی صورت، مہر و محبت کا پاکیزہ ترین پیکر۔

اھد۔ مصدر ہدایت، صیغہ امر لطف و محبت سے رہنمائی کرتا۔ دھیرے دھیرے پیار سے منزل مقصود تک پہچانا۔

الصراط المستقیم: سیدھی، قریب ترین اور بے خوف و مضطر راہ۔

بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

انصاف کے دن کا مالک ہے: ف ۳۔

(ف ۳) مکافات عمل کی آخر صورت فیصلے کا دن ہے جس میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں۔ تمام جھگڑوں کو نپٹائے گا۔ والامر یومئذ للہ

005: ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں: ف ۴۔

(ف ۴) قرآن کا یہ احسان ہے ساری دنیائے انسانیت پر کہ اس نے بندہ و خدا کے درمیان جتنے پردے حائل تھے چاک کر دئے، اب ہر شخص براہ راست اسے پکار سکتا ہے، نہ عبادت کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہے نہ استعانت کے لئے کسی شفیع کی حاجت

006:  ہمیں سیدھی راہ پر چلا: ف ۵۔

(ف ۵) اللہ نے راہ طلب کی وسعتوں کو غیر محدود بنایا ہے مسلمان عرفان و سلوک کے ہر منصب کے بعد بھی ” طالب ” کے درجہ سے آگے نہیں بڑھتا یعنی خدا کا انعام و فضل بے پایاں و بیحد ہے،  اس لئے ایک عاصی سے لے کر حضورﷺ تک یہی دعا مانگتے چلے آئے ہیں کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ راہ اکرام و افضال کے دروازے بند نہ ہوں۔

007:  ان کی راہ جن پر تو نے اپنا فضل کیا نہ ان کی راہ جن پر غصہ ہوا اور نہ بھٹکنے والوں کی: ف ۶۔

(ف ۶) ضال و مغضوب سے وہ لوگ مراد ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور پھر تمرود سرکشی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح عذاب میں گرفتار ہیں۔

٭٭٭

 

۲۔ سورۃ بقرہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

001:  الم۔

002:  اس کتاب میں کچھ شک (ف ۱) نہیں ہے پرہیزگاروں کے واسطے ہدایت ہے، (ف ۲)

 

حروف مقطعات کا فلسفہ:  قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں، مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بے معنی نہیں۔ قطرب، مبرو۔ فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جس سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں، مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انہیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمہیں اگر اس کی ساحری و معجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورة ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھا سکے، علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا یک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے، غور کر کے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموماً کتاب آیات،  ذکر،  تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات،  ذکر جمیل،  یہ قرآن معجزہ طراز انہیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آ کر دیکھو، ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے، جس اس کا لغت اس کی تشریح، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر و تبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سینوں میں محفوظ ہے، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، گویا قرآن تلفظ و ترتیل سے لے کر تشریح و توضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی چیز بیرونی چیز کا مرہون منت نہیں۔

(ف ۱) سورة سجدہ میں فرمایا (آیت) ” تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین یعنی اس صحیفہ ہدی کے الہامی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں طرز بیان کی دلربائی، دلائل کا احصاء ضروریات انسانی کا لحاظ اور فطرت حق سے تطابق یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے۔

(ف ۲): ہدایت کے چار مرتبے ہیں، الہام فطرت یا معارف ضروریہ کا علم جیسے (آیت) ” ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی "۔ یا وحی نبوت جیسے (آیت) ” وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا "۔ یا توفیق و تیسیر جیسے (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا "۔ اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہنمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے۔ (آیت) ” الحمد للہ الذی ھدانا لھذا "۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں، مطلقاً راہنمائی مقصود نہیں، وہ تو ہر شخص کے لئے ہے چاہے مانے چاہے نہ مانے۔

 

حل لغات

تقویٰ۔ وقایۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے۔

غیب: ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو۔

اقامت الصلوۃ: پوری طرح خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔

 

جو غیب (ف ۳) پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔

(ف ۳): اللہ کا وہ انعام جسے وہ کلام کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے،  یونہی نہیں مل جاتا، اس کے لئے تمام مغیبات پر ایمان لانے کی ضرورت ہے اور پھر صحیح معنوں میں نماز پڑھنے کی حاجت ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ کی راہ میں کچھ دینے کی بھی اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان ہو۔ سابقہ کتب کی بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے اور نظام اخروی پر غیر متزلزل یقین رکھے یعنی ایمان و عمل دونوں تابحد کمال ہوں۔

 

اور جو یقین رکھتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتری اور جو کچھ تم سے پہلے اترا اس پر بھی اور وہ آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔

005:  انہی لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی مراد کو پہنچے۔

006:  بیشک جو لوگ منکر ہوئے ان کے لئے برابر ہے کہ تو ان کو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ نہ مانیں گے۔

007: خدا نے مہر کر دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

008: آدمیوں میں سے بعض میں جو (زبان سے ) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ہرگز مومن نہیں (ف ۱)

 

ناقابل اصلاح گروہ:  آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں نصف النہار کے وقت بھی حق سوجھائی نہیں دیتا، جب اللہ کی عنایت و کرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جو شور اور سنگلاح ہو، وہاں روئیدگی کی قطعاً امید نہیں ہوتی، کفر و عناد کا زقوم تو وہاں اگتا ہے، مگر ایمان کا گل و ریحان نہیں اگتا، یہاں اسی چیز کا ذکر ہے۔

ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے تو تیئیس سال تک چشمہ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار و ناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے (آیت) ” قلوبنا غلف ” کہ ہمارے دلوں میں حق کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکر ہدایت پذیر ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی، نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے، آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے، اس پر بھی تعصب و عناد کی پٹی بندھی ہے۔ یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں۔ آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں، یہاں چند نکات ملحوظ رہیں: ۔

(ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے اختیار کیا گیا ہے،  ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے۔

(ب) قلب، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی، مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس گیا ہے۔ اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہو گئی ہیں۔ ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا۔

(ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ و اشاعت روک دیں یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے، نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں، یعنی (آیت) ” سوآء علیھم فرمایا سواء لک نہیں کہا۔ کیونکہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہئے (د) حدیث میں اس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے حضورﷺ فرماتے ہیں جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑ جاتا ہے، دوسری دفعہ دو نقطے پڑ جاتے ہیں اور بار بار اکتساب معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اٹ جاتا ہے یعنی پہلے پہل اقدام گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہو چکے ہیں گناہ کا احساس باقی نہیں رہا۔

(ف ۱) یہ وہ گروہ ہے جو منہ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے۔ اس لئے فرمایا کہ در حقیقت یہ لوگ مومن نہیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پر ست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیں۔ لیکن اس حرکت کا کیا فائدہ ؟ زہر تو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت تو زائل نہیں ہو جاتی، جب دلوں میں کفر ہے تو زبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں۔

 

حل لغات

کفروا: جمع کفر فعل ماضی معلوم، مذکر غائب، مصدر کفر کے معنی اصل میں چھپانے کے ہیں کسان کو، رات کو، گھنے جنگل کو، پڑ ہول وادی کو بھی کافر کے لفظ میں تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی طرح مفہوم کی حامل ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بار بار وضاحت کے باوجود بھی جانتے ہوئے خود صداقت کو چھپاتے ہیں۔ (آیت)

” یخدعون "۔ فعل مضارع، باب مفاعلہ اصل خدع کے معنی ہوتے ہیں، مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرتا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو۔

 

009:  وہ خدا اور ایمان لانے والوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ کسی کو فریب نہیں دیتے تھے مگر اپنے آپ کو اور نہیں سمجھتے۔

010:  ان کے دلوں میں بیماری ہے، (ف ۱) پھر خدا نے ان کی بیماری بڑھا دی اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

(ف ۱) مقصد یہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پر کڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی سے اسلام کو کامیابی بخش رہا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دل میں نفاق وحسد کا مرض بڑھتا ہی جاتا ہے کم نہیں ہوتا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یہ بتانا ہے کہ سب کام اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں گو اس کا منشاء یہ نہیں کہ لوگ کفر اختیار کریں۔

 

011:  جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو محض سنوارنے اور اصلاح کرنے والے ہیں۔

012:  خبردار رہو، وہی فساد کرنے والے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔

013:  اور جب انہیں کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف (ف ۲) ایمان لائے ہیں، خبردار روہی بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔

(ف ۲) ایمان و کفر میں ہمیشہ دانائی وسفاہت کی حدود الگ الگ رہی ہیں، ایمان کی دعوت عقل و بصیرت کی دعوت ہے اور کفر و ضلالت کی طرف بلانا در حقیقت بے علمی و جہالت پر آمادہ کرنا ہے کفر والے ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ ایمان قبول کرنا گھاٹے اور خسارے کو خواہ مخواہ مول لینا ہے، قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” الا انھم ہم السفھآء "۔ در حقیقت وہ خود بیوقوف ہیں نفع و نقصان کو صرف مادیات تک محدود سمجھتے ہیں، نگاہوں میں بلندی نہیں ہے،  ورنہ دین و دنیا کی نعمتوں کا حصول کسی طرح بھی خسارہ نہیں۔ اور مذہب تو کہتے ہیں اس نظام عمل کو جس کو مان کر فلاح دارین حاصل ہو جائے۔

 

حل لغات

السفھآء۔ جمع سفیہ، کم عقل، بیوقوف۔

خلوا۔ ماضی مصدر خلوا۔ خلا الیہ کے معنی ہیں گزرنے کے۔ شیطین جمع شیطن، ایک شخص مبتدع جو رشد و ہدایت سے محروم ہے اور خدا کی رحمتوں سے دور، یہاں مراد شریر لوگ ہیں جو شیطان کی طرح مفسد ہیں۔

 

014:  اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم مسلمان ہوئے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو (مسلمانوں سے ) ٹھٹھا کرتے ہیں (ف ۱)۔

(ف ۱) یہ بے علم منافق اس قدر دلوں کے کمزور اور بودے ہیں کہ نہ کفر پر ثبات و استقلال ہے اور نہ ایمان و استحکام جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو منہ پر ایمان کے نعرے ہوتے ہیں اور جب اپنے لگے بندھوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو محض مذاق تھا، مانتا کون ہے، دل کا یہ مرض لاعلاج ہے اور اس سے دلوں کی آلودگی خطرناک اور مہلک ہے۔

 

015:  خدا ان سے ٹھٹھا کرتا اور ان کی شرارت میں انہیں کھینچتا ہے،  وہ بہکتے ہیں۔

016:  یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی۔ پھر ان کی سوداگری نے نفع نہ دیا اور انہوں نے ہدایت نہ پائی۔

017:  ان کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی جب اس کا گرد روشن ہوا تو خدا ان کی روشنی کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ نہیں (ف ۲) دیکھتے۔

(ف ۲) اللہ ایسے لوگوں سے دنیا و آخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق ہو نہ ایمان و ذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر و الحاد کے فوائد ظاہری سے متمتع، کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہو تو کم از کم ظاہری و عارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان و عقیدت اگر شک و ارتباب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع۔

امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لئے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم میں ایک دیوار حائل ہو جائے گی اور گویا یہ بتایا جائے گا کہ یہ جواب ہے تمہارے اس مذاق و استہزاء کا جسے تم فخریہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے۔

 

منافق کا نفسی تذبذب:  ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستیز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جا کرتے ہیں، ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کر لے اور پھر یکایک اندھیرا ہو جانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹونیاں مارتا پھرے۔

ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت و تاریکی، مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل،  اس کا نصب العین واضح اور بین طور پر موجود ہوتا ہے، بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا۔

 

حل لغات

یستھزی۔ مضارع معلوم، مصدر استہزاء، مذاق کرنا، توہین کرنا۔

یمدھم، مضارع معلوم، ڈھیل دیتا ہے۔

یعمھون۔ مضارع معلوم، اصل العمہ، دل کا بصیرت سے معلوم ہوتا۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ۔ کہتے ہیں،

صمم، بہرہ جس کے کان میں نقص ہو۔

کم۔ جمع ابکم، گونگا، قوت گویائی سے محروم۔

عمی۔ جمع اعمی، اندھا

صیب۔ بارش، پانی سے لبریز بادل۔

رعد۔ بجلی کی کڑک اور گرج۔

برق، بجلی کی لمعاتی چمک۔

 

018:  بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں پھریں گے۔

019:  یا (ان کی ایسی مثال ہے ) جیسے آسمان سے مینہ برسے اس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہو، کڑک کے مارے موت کے ڈر سے وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہیں اور اللہ منکروں کو گھیر رہا ہے۔

020:  قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جس وقت ان پر چمکتی ہے تو وہ اس میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کے لے جائے، بیشک خدا ہر شے پر قادر (ف ۱) ہے۔

(ف ۱) پہلی مثال تو کفر کے تحیر کی تھی، اس مثال میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ بہرحال مطلب کے پورے ہیں۔ جب اسلام لانے سے کچھ مطلب براری ہوتی ہے تو پھر انہیں بھی اعلان کرنے میں دریغ نہیں ہوتا اور جب آزمائش و ابتلا کا وقت ہو تو صاف انکار کر دیتے ہیں یعنی جہاں ان کا ذاتی مفاد روشن طور پر نظر آ رہا ہو، مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جہاں مشکلات کی تاریکی نظر آئی، رک گئے، انہیں تنبیہ فرمائی کہ ایسا نہ کرو، ورنہ اللہ کا عذاب آ جائے گا اور پھر تم میں یہ استعداد بھی باقی نہ رہے گی۔

 

دعوت عبادت و اتقاء:  قرآن نے ساری کائنات کو دعوت دی ہے کہ وہ رب خالق کی عبادت کرے اور اس طرح تمام انسانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کہتا ہے جب تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا خدا ایک ہے تو پھر یہ اختلافات کیسے ؟ ایک خدا کے سامنے جھکو ایک کی محبت اپنے دل میں رکھو، اس طرح تم سب میں اتقاء پیدا ہو جائے گا اور تم سب ایک صف میں جمع ہو جاؤ گے، رنگ و بو کا اختلاف، نون ونسل کے قضیئے ایک دم مٹ جائیں گے۔

 

حل لغات

اصابع، جمیع اصبع، انگلی، کانوں میں انگلی کا اگلا حصہ ٹھونسا جاتا ہے جسے عربی میں انملۃ کہتے ہیں لیکن یہاں قرآن حمید اصابع۔ کہہ کے گویا اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ بصورت مبالغہ رعد وگرج سے ڈرتے ہیں اور پوری انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے ہیں۔

اذان۔ جمع اذن، کان۔

صواعق، جمع صاعقۃ، بجلی یا کڑک، وہ آواز جو ابر کے اعتکاک سے پیدا ہوتی ہے۔

حذر۔ ڈر، خوف، اندیشہ۔

محیط۔ گھیرے ہوئے، اسم فاعل ہے، اصل ہے احاطہ۔ یعنی گھیرنا، مقصد یہ ہے کہ یہ نافرمان اس کے علم میں ہیں اور ہر وقت اس کے قبضہ و اختیار میں ہیں جیسے کوئی چاروں طرف سے گھر گیا ہو۔

یخطف۔ مضارع مصدر خطف۔ اچک لینا۔

اعبدوا، امر مصدر عبادت مذقل و انکسار طریق معبد۔

پامال راستہ شرعاً مراد ہے، وہ طریق عجزوانکسار جس کا اظہار اپنے رب کے سامنے قیام و رکوع کی صورت میں کیا جائے یا دوسرے فرائض کی ادائیگی، ہر وہ بات جو جذبہ عبودیت کو ابھارے۔

خلق، فعل ماضی مصدر، خلق۔ پیدا کرنا بنانا، اختراع و ایجاد کرنا۔

فراش، اسم بچھی ہوئی چیز، زمین کو فرش سے تشبیہہ دی ہے جس طرح بچھونے میں آرام حاصل ہوتا ہے اسی طرح زمین بھی ہمیں آسودگی بخشتی ہے۔

بنآء۔ چھت بنی ہوئی چیز، مقصد یہ ہے کہ آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لئے بنایا ہے جو بظاہر چھت کی طرح تمہیں گھیرے ہوئے ہے، محض تشبیہہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آسمان واقعی چھت ہے۔

انزل۔ ماضی مصدور انزال، مادہ نزول، اتارا، نازل کیا۔

 

021:  اے لوگو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا،  بندگی کرو، تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ (بچ جاؤ ) ۔

022:  اس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنانا اور آسمان کو عمارت (چھت) بنایا پھر آسمان سے پانی اتارا، جس سے تمہارے کھانے کو میوے نکالے، سو تم جان بوجھ کر اس کے شریک نہ ٹھہراؤ(ف ۱)

 

(ف ۱) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انعام گنائے ہیں اور توجہ دلائی ہے غافل انسان کو یہ کہ وہ زمین کی طرف دیکھے کس قدر آرام دہ ہے آسمان کی طرف نظر دوڑائے کیونکہ چھت کی طرح ہم پر سایہ فگن ہے۔ آسمان کی طرف سے پانی پرستا ہے اور ہمارے روکھے سوکھے باغ لہلہا اٹھتے ہیں اور اثمار و نتائم کا انبار لگ جاتا ہے، کیا یہ نعمتیں ایک خدا کی طرف سے نہیں ؟

قرآن حکیم روزہ مرہ کے مشاہدات کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتا ہے، اور قیمتی نتائج پیدا کر دیتا ہے، وہ کہتا ہے، ان سب چیزوں کو بنظر غور و تعمق دیکھو، ایک خدا کی خدائی کس طرح واضح اور بین طور پر نظر آ رہی ہے، قرآن حکیم کا اصرار ہے کہ اس کی پیش گاہ جلالت میں کوئی دوسرا خدا نہ ہو، مسلمان کے دل میں صرف اسی کی محبت ہو۔ وہ صرف اسی رب اکبر سے ڈرے اور اپنی حاجتوں کو اسی سے وابستہ سمجھے، وہ توحید کا پیغام ہے۔ وحدہ کے سوا کوئی کسی دوسری چیز پر مطمئن نہیں اس کے ہاں شرک کائنات انسانیت کے لئے بدترین لعنت ہے۔

 

لاجواب کتاب: یوں تو خدا کے کلام کو لاجواب ہونا ہی چاہئے مگر قرآن حکیم بالتخصیص بے نظیر ہے، اس وقت جبکہ عرب کا بچہ بچہ شاعر تھا۔ خطابت تکلم پر ان کو ناز تھا، اس وقت قرآن حکیم نازل ہوتا ہے اور اس تحدی کے ساتھ کہ یہ قطعاً انسانی کلام نہیں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کر دیکھو، مگر تیرہ صدیاں گزر جاتی ہیں اب تک جواب تو کیا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں کیا گیا، عربوں کی غیرت و حمیت مشہور ہے، مگر قرآن حکیم کی اس تحدی کے بعد ان کی گردنیں جھک گئیں اور وہ جو مخالف تھے وہ بھی کہہ اٹھے۔ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ الطلاوۃ وان اصلہ لمغدق وان اعلاہ لمثر۔ کہ قرآن کیا ہے عسل و شیرینی کا مجموعہ ہے۔ الفاظ میں تازگی اور جمال ہے۔ نہایت پر مغز اور نتیجہ آفرین کلام ہے۔ قرآن کا دوسرا دعوی یہ تھا کہ انسانی ہمتیں ایسا نہ کر سکیں گی۔ چنانچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا نہ ہو سکا، قرآن تیئس سال کی مدت میں نازل ہوا اور ان کو موقع دیا گیا کہ وہ آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں، مگر تاریخ شاہد ہے، قرآن کے زور فصاحت کے سامنے زبانیں گنگ ہو گئیں۔ یہ قرآن کا بے نظیر معجزہ ہے جو قیامت تک قائم رہے گا، قرآن لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایسی پر مغز، حکیمانہ، قابل عمل، فصیح و بلیغ کتاب لکھیں جو اس کی ہم پایہ ہو سکے، جو ایسی شیریں،  با اثر اور پر کیف ہو، جو اسی طرح قوموں کو بدل دینے کی قدرت رکھتی ہو، جو انقلاب آفرین ہو۔ جو ہر حالت میں پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہو جس میں صحیح معنوں میں رہنمائی کی تمام قوتیں رکھ دی گئی ہوں، جس کا تعلق زمانہ اور ماضیات سے نہ ہو، ہر وقت ہر زمانے میں ہر قوم کے لئے یکساں قابل ہو۔ زبان کی قید نہیں۔ وقت کا خیال نہیں۔ صرف ایک شخص کو مقابلہ کے لئے نہیں بلایا گیا، سب مل کر کسی زبان میں قیامت تک کوئی کتاب لکھیں جو اس درجہ بلند اور سحر آفرین ہو، کتنا بڑا، کتنا عظیم الشان اور حیران کن دعوی ہے، کیا دنیا اس کا جواب دے گی ؟ (آیت) ” ولن تفعلوا۔

 

حل لغات

اخرج۔ ماضی مصدر اخراج مادہ خروج، نکالا۔

ثمرات، واحد ثمرۃ۔ پھل، اندادا۔ جمع ند، شریک وسہیم، ندیدا اور ند دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔

شھد آء۔ جمع شہید، ساتھی دوست، مددگار، رفیق۔

وقود، ایندھن جس سے آگ جلائی جائے۔

حجارۃ۔ پتھر۔

 

023:  اور جو کلام ہم نے اپنے بندہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل کیا ہے، اگر تمہیں اس میں کچھ شک ہو تو اس قسم کی ایک سورت لے آؤ اور خدا کے سوا اپنے گواہوں کو بلاؤ۔ اگر تم سچے ہو۔

024:  پھر اگر ایسا نہ کرو گے اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (جو) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

025:  خوشخبری دے ان کو جو ایمان لائے اور نیک کام کئے یہ کہ ان کے واسطے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جب (وہاں کا) کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی پھل ہے ہم کو پہلے ملا تھا اور ان کے پاس ایک طرح کے (پھل) لائے جائیں گے اور وہاں ان کے لئے ستھری عورتیں ہوں گی اور ہمیشہ وہاں رہیں گے (ف ۱)

جنت (ف ۱) و دوزخ کی حقیقت:  جس طرح دنیا میں دو جماعتیں ہیں، ایک ماننے اور عمل کرنے والی، دوسری انکار کرنے والی اور فسق و فجور میں مبتلا رہنے والی۔ اسی طرح اللہ کی رضا اور غضب کے دو مقام ہیں، دوزخ یا جہنم نام ہے کے مقام غضب و جلال کا اور جنت کہتے ہیں اس کی رضا و محبت کے مظہر اتم کو۔

چونکہ انسان روح و مادہ سے مرکب حقیقت کا نام ہے اور اس میں دونوں کے الگ الگ مقتضیات ہیں،  اس لئے ضروری ہے کہ سزا اور جزا میں دونوں چیزوں کا خیال رکھا جائے، نہ صرف مادہ متاثر ہو اور نہ صرف روح منفعل۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے، وہ کہتا ہے جہنم میں تمہارے جسم کو بھی ایذا دی جائے گی اور تمہاری روح کو بھی، اسی طرح جنت میں صرف روحانی کوائف نہ ہوں گے، بلکہ جسمانی لذائذ بھی ہوں گے، مگر پاکیزگی اور نزاکت کے ساتھ، وہ تمام چیزیں جو ہمارے لئے باعث سرور و عیش ہیں،  وہاں ملیں گی، مگر اس طور پر کہ ہم نہ پہچان سکیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں وہ کچھ ملے گا جسے ان کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جن کے متعلق ان کانوں نے کچھ نہیں سنا اور اب تک وہ انسان کے دل میں بھی نہیں کھٹکا، مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔

 

ایک تمثیل:  جنت کا ذکر کر کے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق و صداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف،  پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں۔

سورة مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کر کے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے۔ (آیت) ” ماذا اراد اللہ بھذا مثلاً "۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت و دوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنے لئے جائیں۔ واللہ اعلم۔

 

حل لغات

جنت: جمع جنۃ، باغ۔ محفوظ۔

خلدون۔ جمع خالد، ہمیشہ رہنے والا۔ مادہ خلود بمعنی دوام۔

 

026:  بیشک خدا مچھر کی یا اس سے اوپر شئے کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ پھر وہ جو ایمان دار ہیں جانتے ہیں کہ وہ ان کے رب کی طرف سے ٹھیک ہے۔ لیکن جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کہ اللہ کو ایسی مثال کی کیا غرض تھی ؟ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتیروں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اور صرف فاسق (بدکار نافرمان) لوگوں کو ہی اس سے گمراہ کرتا ہے (ف ۱)

خائب (ف ۱) و خاسر لوگ:  فلاح و سعادت کی راہ ایمان و عمل کی راہ ہے۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے، ان کے لئے خسارہ ہے۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے، منافق کی تین علامتیں ہیں: ۔

(ا) نقض عہد، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑتا۔

(ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح و بہبود کے لئے از بس ضروری ہیں۔

(ج) فساد فی الارض:۔  ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں، جو ساری زمین میں فتنہ و فساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں، ان سے کوئی بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کر سکیں گے۔

027:  جو خدا کا عہد پکا باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور ملک میں فساد مچاتے ہیں۔ وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

 

حل لغات

ینفضون: مضارع معلوم، مصدر نقض، توڑنا، قطع کرنا۔

الخاسرون: گھاٹے میں رہنے والے جمع خاسر۔

استوی: قصد کیا، توجہ فرمائی، اصلاح و تزئین کے لئے۔

028:  تم کیونکر انکار کر سکتے ہو اللہ کا، حالانکہ تم مردے تھے، اس نے تمہیں جلایا، پھر وہ تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تم کو زندہ کریگا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (ف ۲)۔

(ف ۲) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زبان سے تو اللہ تعالیٰ کا انکار کیا جا سکتا ہے، مگر حقیقتا انکار ممکن نہیں، جب تک موت و حیات کا ہمہ گیر قانون موجود ہے اور فنا وزیست کے واقعات سے بہرحال مفر نہیں،  اس وقت تک ایک زبردست حی و قیوم خدا پر ایمان ضروری ہے۔

پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں، آفتاب سے لے کر ذرہ تک اور ذرہ سے پہاڑ تک سب اسی کے لئے زندہ و مصروف عمل ہیں، تو ہمیں واشگاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سارے نظام آفادہ کے پس پردہ کوئی رحمن و رحیم کرم فرما ہے۔

(آیت) ” خلق لکم ما فی الارض جمیعا "۔ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ساری کائنات کا مخدوم و مقصد ہے۔

 

029:  خدا وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی سب چیزوں کو پیدا کیا، پھر وہ آسمان کی طرف چڑھ گیا سو ان کو ساتھ آسمان ٹھیک کیا اور وہ ہر شئے کو جانتا ہے۔

030:  اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں۔ (ف ۱) تو بولے، کیا تو اس میں اس شخص کو رکھے گا جو وہاں فساد ڈالے اور خون بہائے اور ہم تیری خوبیاں پڑھتے اور پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (ف ۲)۔

 

(ف ۱) پہلا انسان:  سلسلہ انسانیت کا پہلا بطل وہ ہے جسے کائنات ارض کا مالک بنانے والا ہے۔ اللہ کی عنایات اسے زمین کا تاج و تخت بخشنے والی ہیں۔ اس کی استعداد و قوت فرشتوں سے بھی زیادہ شاندار ہے۔

وہ اس لئے بنایا جا رہا ہے تاکہ خدا کے جلال و جمال کو دنیا کے کونوں تک پہنچائے اور ساری زمین پر خدا کی بادشاہت ہو۔

یعنی وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔

(ف ۲) فرشتوں کو اعتراض ہے کہ ایسے انسان کی کیا ضرورت ہے وہ کہتے ہیں، جب کائنات کے روحانی نظام کو ہم چلا رہے ہیں، تیری تسبیح و تقدیس کے کلمے ہر وقت ہمارے لبوں پر نغمہ زن رہتے ہیں جب تیری حمد و ستائش کے بے ریا ترانے ہم ہر وقت الاپتے رہتے ہیں اور جب ہماری قدوسیت و پاکیزگی کے چار دانگ عالم میں چرچے ہیں تو پھر ایک انسان کو پیدا کر کے کن چیزوں میں اضافہ ہو گا ؟ وہ کہتے ہیں، انسان زمین میں خود غرضی کی وجہ سے فساد پھیلائے گا۔ اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ساری زمین جنگ و جدال کا میدان بن جائے گی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، چپ رہو مصلحت یہی ہے۔ (آیت) ” انی اعلم مالا تعلمون "۔

فرشتوں کو انسانی مستقبل کی دھندلی سی تصویر خود انسان کی ساخت سے نظر آ جاتی ہے۔ وہ جان جاتے ہیں کہ جو انسان مختلف عناصر سے بنایا جائے گا، اس کی فطرت میں اختلاف رہے گا۔ مگر خدائے حکیم کا جواب یہ ہے کہ ہم وحدت ویکسانی کی خوبصورتی دیکھ چکے، اب اختلاف و تنوع کے جمال کو ملاحظہ کرنے دو اور یہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اور اس لئے مقدرات میں سے ہے۔ فرشتوں کو یونہی بتا دیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی شرف و مجد سے آگاہ ہو جائیں۔

 

031:  اور اس نے آدم (علیہ السلام) کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا تم مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ، اگر تم سچے ہو۔ (ف ۳)

 

(ف ۳) پہلا انسان عالم تھا:

اللہ نے ایک جواب تو فرشتوں کو یہ دیا کہ تم خاموش رہو۔ دوسرا جواب آدم (علیہ السلام) کی قوتوں کا مظاہرہ تھا، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں علم کا جذبہ رکھا، اسے تمام ضروریات سے آگاہ کیا، معارف حیات بتلائے اور فرشتوں کے سامنے بحیثیت ایک عالم کے پیش کیا۔

فرشتے بھی عالم تھے مگر تسبیح و تقدیس کے آئین و قانون کے فرمانبرداری و اطاعت کے طریقوں کے، انہیں حیات و فنا کے اسرار سے نا آشنا رکھا گیا، موت وزیست کے جھمیلوں سے الگ، یہ بغیر کسی کھٹکے اور خرخشے کے عبادت و اطاعت میں مصروف تھے، آدم (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا وہ فرشتوں کے علم سے بالکل مختلف تھا، اسے مقتضیات انسانی بتائے گئے، موت و حیات کا فرق سمجھایا گیا، عبادت و اطاعت کے علاوہ دنیا کی آبادی و عمران کے اسرار و رموز سے بہرہ ور کیا گیا۔ سیاست و حکمرانی کے اصول و ضوابط انہیں سکھائے گئے اور وہ تمام چیزیں بتلائی گئیں جو اسے خلیفۃ اللہ بنا سکیں، فرشتوں کی حیثیت مطیع و فرمانبردار کی تھی اور آدم کی خلافت اس کے وارث کی، اس لئے جب موازنہ کے وقت فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے منصب رفیع کا علم ہوا تو معذرت خواہ ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ کہتا تھا۔ (آیت) ” انی اعلم غیب السموت و الارض "۔ کو غیوب کا لعم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے۔

 

حل لغات

ملآئکۃ: جمع ملک، فرشتہ، یسفک مضارع معلوم، مصدر، سفک۔ خون بہانا۔

انبؤنی، مجھے بناؤ، مادہ انباء، خبر دینا۔

 

032:  وہ بولے تو پاک ہے ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر تو نے ہمیں سکھلایا اور تو اصل دانا اور پختہ کار ہے۔

033:  فرمایا اے آدم (علیہ السلام) تو ان کو ان چیزوں کے نام بتلا دے۔ پھر جب آدم (علیہ السلام) نے ان کو ان کے نام بتا دئیے، تب فرمایا کیا میں نے نہ کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو،  مجھے معلوم ہے۔

034:  اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ (ف ۱) تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، اس نے نہ مانا اور تکبر کیا۔ اور وہ کافروں میں سے تھا۔

 

(ف ۱) مسجودانسان:  پھر اس لئے کہ فرشتوں کو انسان کو حقیقی قدر و منزلت کا علم ہو،  اللہ نے تمام کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا، سب کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکایا، اسلامی فلسفہ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ (آیت) ” و خلق لکم ما فی الارض جمیعا "۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لئے، حتی کہ شمس و قمر بھی اسی کے خادم ہیں۔ (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمرو آئبین "۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آدم قبلہ مقصود ہے ہر چیز کا، ساری کائنات کا محور انسان ہے، شیطان جو ایک مشخص برائی ہے، اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا، قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا۔ (آیت) ” وکان من الکافرین "۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کر دے۔

 

035:  اور ہم نے آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اور تیری جورو بہشت (ف ۲) میں رہ اور تم دونوں اس میں جہاں چاہو با فراغت (محفوظ) کھاؤ، لیکن تم دونوں اس درخت کے پاس نہ جانا (ف ۱) ورنہ تم دونوں ظالم (گنہگار یا بے انصاف) ہو جاؤ گے۔

 

(ف ۲): پہلے انسان کی پہلی جگہ:   قرآن حکیم، انسانی خلافت،  انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لئے جو جگہ تجویز فرماتا ہے، وہ جنت ہے یعنی رضائے الٰہی کا آخری مظہر۔

یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے فطرت نے پیدا اسے اس لئے کیا ہے کہ وہ بارگاہ رحمت و فیض میں عیش و خلود کی زندگی بسر کرے، چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو۔ مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہو جاؤ گے اور تمہیں کچھ عرصے کے لئے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا۔

یہ قید اس لئے لگا دی تاکہ آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہو جاتا ہے، اس کا خیال رہے یہی مطلب ہے اس حدیث کا۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ "۔ یہ جنت میں آدمی ابتلاء و آزمائش میں پورا اترنے کے بعد جا سکتا ہے، ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن کے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے، قرآن کہتا ہے پہلا انسان اللہ کا نائب ہے۔ عالم اشیاء و حقائق ہے، مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے، فرشتوں کا مسجود ہے۔

(ف ۱) آدم (علیہ السلام) بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آ گئے اور درخت کے متعلق انہیں غلط فہمی ہو گئی وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرتا ہے، حالانکہ خدا کا منشاء مطلقاً اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا، چنانچہ حضرت آدمؑ کی نیک نیتی پر خدا نے شہادت دی۔ (آیت) ” فنسی ولم نجدلہ عزما "۔ اس لئے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے۔ الفاظ کی مخالفت نہیں۔

 

حل لغات

تبدون و تکتمون: ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ مصدر ابدا و کتم، سجدوا، فعل ماضی مادہ سجدہ، جھکنا، اظہار تذلل کرنا۔ ابلیس، شیطان کا نام ہے، ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں ابلیس چونکہ خائب و خاسر شخص کا نام ہے اس لئے ابلیس کہا جاتا ہے۔ رغدا: فراوانی، بے کھٹکے۔

 

036:  پھر شیطان نے ان دونوں کو اس سے لغزش دی اور ان دونوں کو وہاں سے کہ جس میں وہ تھے نکال دیا اور ہم نے کہا تم سب نیچے اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور کام چلانا ہو گا۔

037:  پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے کچھ باتیں سکھیں، تب وہ (خدا) اس پر متوجہ ہوا۔ برحق وہی معاف کرنے والا (پھر آنے والا) مہربان ہے۔

038:  ہم نے کہا، تم سب یہاں سے نیچے اترو، پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی (ف ۲) تو جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا انہیں نہ کچھ خوف ہو گا، اور نہ وہ غم کھائیں گے (ف ۱):

گناہ عارضی ہے: (ف ۲): آدم (علیہ السلام) اجتہادی لغزش کی بنا پر جنت سے الگ کر دیئے گئے اور انہیں کہہ دیا گیا کہ تم میں اور شیطان میں باہمی عداوت ہے، اس لئے کچھ و مدت تک زمین پر رہو،  وہاں دونوں کا صحیح طور پر مقابلہ رہے گا، پھر اگر تم وہاں اس کی گرفت سے بچ گئے تو اس اصلی و حقیقی مقام میں آ جاؤ گے، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو شیطان کا ہوا ہے۔

آدم (علیہ السلام) کو عارضی طور پر اس لئے بھی زمین پر اتارا گیا، تاکہ وہ شیطان کی تمام گھاتوں سے واقف ہو جائے اور پھر کبھی اس کی گرفت میں نہ آئے اور مقابلہ سے اس میں روحانیت کی ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے جو اس کو بارگاہ قدس کے قریب ہونے کے لائق بنا دے، یہ سزا نہ تھی، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ علاج تھا آدم (علیہ السلام) کی بشری و فطری کمزوریوں کا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی درخواست پر انہیں معاف کر دیا، لیکن پھر بھی انہیں مقر رہ وقت سے پہلے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی۔

توبہ کی قبولیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ بالکل عارضی اور غیر مستقل کیفیت کا نام ہے، رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف بجائے خود بخشش کی ضمانت ہے۔ (آیت) ” ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا "۔ قرآن حکیم کا اعلان عام ہے کہ گناہوں سے لدے ہوئے انسان اس کے عتبہ جلال پر جب بوسہ دیتے ہیں تو وہ ان کے تمام گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے۔ (آیت) ” الا من تاب وامن وعمل عملاً صالحا "۔ کا استثناء قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گناہ انسانی سرشت کا جزو لاینفک نہیں،  بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ندامت کے آنسوؤں سے زائل ہو سکتی ہے۔

(ف ۱) ان آیات میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ فیض ربوبیت تمہیں زمین کی پستی سے اٹھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے گا۔ اس کی طرف سے رہنمائی کے سارے سامان مہیا ہوں گے، رسول بھی آئیں گے، مصلح اور ہادی بھی پیدا ہوں گے، تمہارا فرض ہے کہ ان کو مانو اور یاد رکھو، وہی لوگ جو ایمان دار ہوں گے، بے خوف و خطر زندگی بسر کر سکیں گے اور وہ جو اللہ کے احکام کی تکذیب کریں گے اور رسولوں کو جھٹلائیں گے کسی طرح بھی اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔

 

حل لغات

الشجرۃ: درخت، عربی میں جھگڑنے کے معنی ہیں۔ شجرۃ بالتاء استعمال نہیں ہوتا۔

عدد: دشمن، مخالف۔

مستقر: ٹھکانا، جائے استقرار۔

فتلقی: حاصل کرنا، لینا۔

تاب علیہ: اس نے معاف کیا۔ بخشا، اصل، توب: ہے یعنی رجوع کرنا۔ لوٹنا۔

اھبطوا۔ اتر جاؤ، مصدر ھبوط، اترنا، نازل ہونا۔

 

039:  اور جو منکر ہوئے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، وہی دوزخی ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

040:  اے بنی اسرائیل، میرا وہ احسان یاد کرو (ف ۲) جو میں نے تم پر کیا اور میرے عہد کو پورا کرو۔ میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھی سے ڈرو۔

 

(ف ۲) اولاد یعقوب (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، ان میں متعدد رسول آئے ہیں اور ان پر بیشمار نعمتیں ہیں کہ جن کا ظہور ہوا، لیکن یہ ویسے کے ویسے ہی رہے، ان آیات میں زمانہ رسالت کے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مت بھولو۔ اس کے عہد کی تصدیق کرو، یعنی تم میں سے وعدہ تھا کہ ہر سچائی کو قبول کرو گے، پھر تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ اس بہت بڑی صداقت کا انکار کرتے ہو۔

 

041:  جو کچھ میں نے نازل کیا ہے اسے مان لو۔ سچ بتاتا ہے اس چیز کو جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے پہلے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (ف ۳):

 

قرآن حکیم تمام سچائیوں کا معترف ہے:  (ف ۳) ان آیات میں بنی اسرائیل کو دعوت دی ہے کہ وہ قرآن کی آواز پر لبیک کہیں، کیونکہ قرآن حکیم تمام پہلی کتابوں کا مصدق ہے تمام سبابقہ سچائیوں کا معترف ہے وہ اس پر ایمان لائیں، کیونکہ اس میں وہی روشنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو وادی ایمن میں نظر آئی اس میں وہی صداقت ہے،  جس کا اظہار صبح ناصری نے کیا، اس کے بعد ان کے تحبر قلبی پر انہیں ملامت کی اور فرمایا کہ دنیا طلبی کو صرف سفلی خواہشات تک محدود رکھو، مذہب کو اور صداقت کو کسی قیمت پر بھی نہ بیچو، اس لئے دیانتداری کو جس قیمت پر بھی فروخت کیا جائے گا وہ غلط ہو گی اور کم ہو گی اور فرمایا کہ صرف مجھ سے ڈرو، رسم و رواج کے ڈر کو قوم کی مخالفت کے ڈر کو، دلوں سے نکال دو۔ اگر اسلام میں تمہیں کوئی نقص نظر نہیں آتا تو پھر قوم کی مخالفت کی چنداں پروا نہیں، قبول کر لو۔ (آیت) ” ولا تکونوا اول کافر بہ "۔

 

042:  اور سچ کو جھوٹ میں نہ ملاؤ اور (ف ۴) (نہ یہ کہ) جان بوجھ کر حق کو چھپاؤ۔

 

(ف ۴) اپنے مطالب اور اپنی خواہشات کے لئے نفس مذہب کو بدل دنیا بہت بری عادت ہے، یہودی اس میں مبتلا تھے اسی طرح کتمان حق کسی حالت میں بھی درست نہیں لیکن یہودی اس سے بھی باز نہیں آتے تھے، قرآن حکیم نے انہیں اس عادت پر متنبہ کیا اور کہا تم جانتے بوجھتے اس قسم کی بد قماشی کا ارتکاب کیوں کرتے ہو، یہ تو گوارا کیا جا سکتا ہے کہ تم مجرم بن جاؤ، اللہ کے حکموں کی مخالفت کرو، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو تاویل و تعمق سے بدل ڈالنا تو کسی طرح برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

 

حل لغات

اولئک اصحاب النار: جہنم میں رہنے والے۔

اول: پہلے یعنی تم کفر میں اوروں کے لئے نمونہ نہ بنو، اول کے معنی ہیں، من یؤول الیہ الامر کے لا تلبسوا: نہ ملاؤ، نہ مختلط کرو، مصدر لبس، ملا دینا مختلط کر دینا۔

 

043:  اور نماز قائم (کھڑی) کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو (ف ۱)۔

 

(ف ۱) جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان وار زندگی رہی ہے۔ کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، قرآن حکیم نے اس ظرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے، غور کرو، جماعتوں کو اپنے بقا و تحفظ کے لئے دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اتحاد کی اور سرمایہ کی یعنی ایسے اسباب و عوامل پیدا ہو جائیں جس سے تمام افراد جماعت ایک مسلک میں منسلک ہو جائیں اور ساری جماعت میں ایک وحدت قومی نظر آئے، پھر ایسا مشترک سرمایہ ہو جس کو قومی ضروریات پر خرچ کیا جا سکے، تاکہ قوم بحیثیت ایک قوم کے دوسروں سے بالکل بے نیاز ہو جائے، سوچو کیا نماز با جماعت سے زیادہ کوئی موثر بہتر اور آسان طریق تنظیم و ملت کا ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح قومی فنڈ کی کیا زکوٰۃ سے اچھی قابل عمل اور اعلی صورت ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح بنی اسرائیل کو بھی نماز با جماعت کی تلقین فرمائی ہے اور قیام زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ ان چیزوں کے بغیر قوموں کی تعمیر نا ممکن ہے۔

 

044:  کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولے جاتے ہو اور تم کتاب پڑھتے ہو پھر کی نہیں سمجھتے ؟ (ف ۲)۔

 

تنظیم جماعت کے اصول:  (ف ۲) قرآن حکیم بار بار جس غلط فہمی کو دور کر دینا چاہتا ہے وہ قول و عمل میں عدم توافق ہے قرآن کہتا ہے کہ تبلیغ و اشاعت کا آغاز، رہنمائی اور قیادت کا شروع اپنے نفس سے ہو، اپنے قریبی ماحول سے ہو، ورنہ محض شعلہ مقال کوئی چیز نہیں (آیت) ” لم تقولون ما لا تفعلون "۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں بے عملی کا مرض عام ہو چکا تھا، ان کے علماء و اولیاء محض باتوں کے علماء تھے عمل سے معرا،  اخلاق سے کورے اور زبان کے رسیلے لوگ خدا کو پسند نہیں۔ وہ تو عمل چاہتا ہے جد و جہد کا طالب ہے، اس کے حضور میں کم گو لیکن ہمہ کا ہش لوگ زیادہ مقرب ہیں۔

 

045:  اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہو اور البتہ وہ بھاری تو ہے مگر ان پر (نہیں ) جن کے دل پگھلے (جو عاجزی کرنے والے ) ہیں (ف ۳)

 

(ف ۳) ان آیات میں کشاکش ہائے دنیا کا علاج بیان فرمایا ہے، یعنی جب تم گھبرا جاؤ یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ تو پھر صبر کے فلسفے پر عمل کرو۔ (آیت) ” وبشر الصابرین "۔ اور عقل و توازن کو نہ کھو بیٹھو، تاکہ مشکلات کا صحیححل تلاش کیا جا سکے، وہ جو مصیبت کے وقت اپنے آپے میں نہیں رہتے، کبھی کامیاب انسان کی زندگی نہیں بسر کر سکتے قرآن حکیم چونکہ ہمارے نوع کے اضطراب کا علاج ہے،  اس لئے وہ ہمیں نہایت حکیمانہ مشورہ دیتا ہے جس سے یقیناً ہمارے مصائب کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، پھر دوسری چیز جو ضروری ہے وہ نماز و دعا ہے، (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب "۔ اس وقت جب دنیا کے امانت کے سب دروازے بند ہو جائیں، جب لوگ سب کے سب ہمیں بالکل مایوس کر دیں، اللہ کی بارگاہ رحمت میں آ جانے سے دل کو تسکین ہو جاتی ہے، حدیث میں آتا ہے حضورﷺ کو جب کوئی مشکل پیش آ جاتی تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے، امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ کا واقعہ ہے، وہ سفر میں تھے کسی نے آ کر آپ کو آپ کے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنائی، وہ سواری سے اترے اور جناب باری کے عتبہ و جلال و جبروت پر جھک گئے۔

 

حل لغات

زکوٰۃ، اصلی معنی نشو و نما کے ہیں، چونکہ اس نظام شرعی سے مال و دولت میں برکات نازل ہوتی ہیں اس لئے اس کا نام زکوٰۃ ہے۔

البر: نیکی، حسن سلوک، شریعت کی اطاعت۔

تنسون، مادہ نسیان، بھول جانا، تتلون: پڑھتے ہو، مادہ تلاوۃ۔

الخشعین: خدا سے ڈرنے والے عاجز ومنکسر بندے۔

 

046:  جنہیں یہ خیال ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور ان کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

047:  اے بنی اسرائیل میرے اس فضل (احسان) کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ سارے جہان کے لوگوں پر میں نے تمہیں بزرگی بخشی۔

048:  اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی (نافرمان منکر) کسی دوسرے مجرم (منکر) کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس کی طرف سے نہ شفاعت (سفارش) قبول ہو گی اور نہ اس کے بدلے میں کچھ لیا جائے گا اور نہ ان کو مدد پہنچے گی (ف ۱)۔

 

(ف ۱) ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کئے گئے ہیں، گنائے جائیں اور انہیں دین حنیف کی طرف مائل کیا جائے، اولا یہ فرمایا کہ تمہیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پر مادی و روحانی فضیلت دی، ثانیاً ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے احباء و علماء تمہارے اولیاء و شہداء تمہیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچا لیں گے، اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معرا ہو۔ قطعاً سود مند نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے عام طور پر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں (آیت) ” الا من اذن لہ الرحمن ” کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کو مستثنے قرار دیا ہے جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے،  بالکل غیر موزوں ہے یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ، یہ محض فریب نفس ہے، جس میں یہ لوگ مبتلا تھے، اس لئے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پر زور تردید کی اور انہیں عمل پر آمادہ کیا۔

 

049:  جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑایا کہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے کہ تمہاری بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی (ف ۲)۔

 

(ف ۲) یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ سے بنی اسرائیل مصر میں آ کر آباد ہوئے، موسیٰ (علیہ السلام) تک ان کو تقریباً چار صدیاں ہوئی ہیں، اس عرصے میں قبطیوں نے تمام مناصب پر قبضہ جما لیا اور سارے نظام حکومت پر چھا گئے، بنی اسرائیل کے لئے سوائے محنت و مزدوری اور کوئی کام باقی نہ رہا، ادھر فراعنہ نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل زیادہ قوی اور ذہین ہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ساری حکومت ہی ان کے ہاتھ میں نہ آ جائے، عموماً حکومتیں زور آور توانا قوموں سے خائف رہتی ہیں، اس لئے انہوں نے اور زیادہ مظالم توڑے تاکہ ان میں رہی سہی قوت بھی جاتی رہے، بالآخر جب کاہنوں نے فرعون کو ڈرایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شان دار انسان پیدا ہونے والا ہے جس سے تیری جابرانہ حکومت خطرہ میں پڑ جائے گی تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور بچیوں کو خدمت وغیرہ کے لئے زندہ باقی رکھا، ان آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس ذلت و خفت سے نجات دی، تم میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے تمہیں آزادی و حریت کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا۔

 

050:  اور جب ہم نے تمہارے (پار اتارنے کے ) لئے دریا کو چیرا اور تمہیں بچا لیا اور فرعون کے لوگوں (قوم) کو ڈبو دیا اور تم دیکھ رہے تھے (ف ۳)۔

 

(ف ۳) البحر سے مراد یہاں دریائے قلزم ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو آمادہ کر لیا کہ وہ راتوں رات ارض مصر سے نکل جائیں نہ یہ ہجرت اس لئے تھی کہ تاکہ فرعون کے اثر سے الگ رہ کر ان میں صحیح طریق پر دین کی روح پھونکی جائے، غلامی سے دماغی اور ذہنی قوی کمزور ہو جاتے ہیں،  اس لئے ضرورت تھی کہ آزاد آب و ہوا میں انہیں لے جایا جائے، فرعون کو جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں تو اس نے باقاعدہ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور دریائے قلزم پر ان کو جالیا، وہ دریا کے پھٹ جانے کی وجہ سے پار اتر گئے اور فرعون بمعہ اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب گیا، یہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت ناک انجام دیکھ لیں اور ان میں جرات پیدا ہو،  انہیں خدا کے بھیجے ہوئے رسولﷺ کی باتوں پر یقین ہو اور وہ دیکھ لیں کہ جو قوم اپنی فلاح و بہبود کے لئے ذرا بھی کوشاں ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں، دریا کا پھٹ جانا اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دینا محض اتفاقی نہ تھا بلکہ بطور خرق عادت کے تھا صرف حسن اتفاق ہوتا تو فرعون بھی اس سے فائدہ اٹھا لیتا۔

 

حل لغات

عدل: معاوضہ، بدل، قسمت۔

یسومون: تکلیف دیتے تھے، دکھ دیتے تھے۔

بلاء: امتحان، آزمائش۔ تکلیف۔

فوقنا: فعل ماضی جمع متکلم، مادہ فوق، پھاڑنا۔

 

051:  اور جب چالیس رات کا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ لیا، پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑا (معبود) بنا لیا تھا اور تم ظالم تھے، (ف ۱)

(ف ۱) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس دن کے لئے وعدہ لیا گیا کہ وہ چالیس دن تک طور پر زہد و عبادت کی زندگی اختیار کریں اور اپنے آپ کو نبوت کے بار گراں کے لئے تیار کریں، جب جا کے توریت کا نزول ہو گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے لئے تیار ہو گئے اور ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں چھوڑ گئے بنی اسرائیل مصر سے بت پرستی کے جذبات لے کر آئے تھے، جب سامری نامی ایک شخص نے بچھڑا جس میں آواز پیدا کی گئی تھی، اسرائیلیوں کے سامنے پیش کیا تو وہ سب اسے پوجنے لگے، ان آیات میں انہیں واقعات کی طرف اشارہ ہے حضورﷺ کے وقت یہودیوں کو بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہو کہ ذرا شریعت کا احتساب تم سے اٹھا اور تم پھر گئے، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ ہم نے باوجود اتنی بڑی جرات کے تمہیں تھوڑی سی سزا دے کر معاف کر دیا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور پھر تمہیں زندگی کے نشیب و فراز سمجھنے کے لئے مکمل دستور العمل عنایت کیا لیکن تم اس پر بھی امل نہ رہے۔

 

052:  پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معاف کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔

053:  اور جب ہم نے کتاب اور فرقان (حق اور باطل میں فرق کر دینے والا معجزہ ) موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

054:  اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم نے بچھڑا بنا کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اب اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو اور اپنی جانوں کو مار ڈالو، تمہارے پیدا کرنے کے نزدیک تمہارے لئے یہی بات بہتر ہے۔ پھر وہ تم پر متوجہ ہوا، بیشک وہی معاف کرنے والا مہربان ہے (ف ۲)

 

(ف ۲) قوموں کا آپریشن:  جس طرح بدن کے بعض حصے اس لئے کاٹ دینا پڑتے ہیں کہ وہ سارے نظام بدن کو بیکار نہ کر دیں، اسی طرح قوموں میں جب ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہو جائیں تو پھر آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے باوجود ہارون (علیہ السلام) کے موجود ہونے دوبارہ بچھڑے کی پوجا شروع کر دی جس کے وہ مصر میں عادی تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو جن کی رگ رگ میں شرک کے مہلک جراثیم موجود ہیں،  ہلاک کر دیا جائے، ورنہ خطرہ ہے کہ تمام بنی اسرائیل اس روحانی مرض میں مبتلا نہ ہو جائیں اور پھر اصلاح کی کوئی توقع نہ رہے گی۔

اس میں شک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ حکیم بھی ہے، رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس مرض سے بچا لیا جائے اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ بدن کے متعفن حصے کو الگ کر دیا جائے، اس لئے جو کچھ ہوا، یہ ضروری تھا، اسی لئے ارشاد ہے، (آیت) ” ذالکم خیرلکم عند بارئکم "۔

 

حل لغات

العجل: بچھڑا۔ جھرۃ: بالمشافہ رودر رو، بالکل سامنے۔

الفرقان: حق و باطل میں امتیاز کرنے والا معجزہ بین اور واضح دستور العمل۔

بارئکم: ابلاری خدا کا نام ہے پیدا کرنے والا۔

 

055:  اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، جب تک کہ خدا کو ظاہر نہ دیکھیں، پھر تمہیں بجلی نے آ پکڑا، اور تم دیکھ رہے تھے۔

056:  پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں پھر اٹھا کھڑا کیا شاید کہ تم شکر کرو (ف ۱)۔

 

(ف ۱) بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جس خدا کی طرف تو بلاتا ہے،  وہ بالمشافہ دکھا، تاکہ ہم دیکھ کر اس پر ایمان لائیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے متعلق نہایت ہی ناقص فہم کا تخیل رکھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ خدا بھی انسانوں کی طرح مجسم ہے اور اسے دیکھا جا سکتا ہے، اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متواتر ومسلسل بت پرستی کی وجہ سے وہ مشاہدات سے زیادہ مرغوب تھے اور کوئی تنزیہی تخیل جو بالا از تجربہ واحساس ہو،  انہیں اپنی طرف جذب نہ کر سکتا تھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے تعالیٰ کی توحید کی جانب ان کو ملتفت کرنا چاہا تو وہ اکڑ گئے کہ جب تک خدا کو صورت تمثال کے رنگ میں نہ دیکھ لیں گے نہ مانیں گے، موسیٰ (علیہ السلام) ہرچند اس ضد کی معقولیت کو سمجھتے تھے تاہم بطور اتمام حجت کے ان کے چند آدمیوں کو لے کر پیش گاہ جبروت میں حاضر ہو گئے، وہاں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و حشمت کا ادنی سا اظہار فرمایا تو عقل و حواس کی دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی، ابھی حریم اقدس ونور کے چند پردے ہیں چاک ہوئے تھے کہ قلب و دماغ کا توازن کھو بیٹھے اور موت آ گئی، اس کے بعد اللہ کے فضل سے وہ سنبھلے، جان میں جان آئی تو فرمایا، جاؤ خدا کا شکریہ ادا کرو، عقل و استعداد کو کام میں لاؤ اور خدائے قدوس پر غائبانہ ایمان رکھو۔

 

057:  اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور من و سلویٰ تم پر اتارا۔ ستھری چیزیں جو ہم نے تم کو دیں (خوب) کھاؤ اور ہمارا کچھ نقصان نہ کیا، پر اپنا ہی نقصان کرتے رہے (ف ۲)

 

(ف ۲) سب سے بڑا فضل جو بنی اسرائیل پر ہوا، وہ فکر معاش سے بے نیازی تھی، تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ دینی کاموں میں مشغول ہو سکیں، ان پر من و سلویٰ کی نعمتیں نازل کی گئیں، انہیں عام تکالیف سے بھی بچایا گیا، جنگل کی دھوپ سے بچنے کے لئے ابر کا سایہ مہیا کیا گیا، تاکہ انہیں کوئی شکایت باقی نہ رہے اور وہ پورے وقت، قوت اور استعداد کے ساتھ اللہ کے مشن کو پورا کریں لیکن وہ انعامات الٰہیہ سے صحیح صحیح استفادہ نہ کر سکے۔

شہریت کے تین اصول: بنی اسرائیل کو جب امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلے کی اجازت مل گئی، جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کر دی گئیں جو تمدن صحیح کی جان ہیں اور شہری زندگی کے لوازم میں ہے، ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت و تمدن کی تعیش و فجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں، وہ تین چیزیں قرآن کے الفاظ میں یہ ہیں: ۔

(ا)۔ اللہ سے بہرحال تعلق قائم رہے۔ اس کا آستانہ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے۔

(ب) ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں، تمدن و شہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت و مغفرت کے جویاں رہیں۔

(ج)۔ احسان اور جذبہ اصلاح و تکمیل پیش نظر رہے۔

ان سہ گانہ اصولوں کو قرآن حمید نے اپنی معجزانہ زبان میں اس طرح ادا فرمایا ہے۔ (آیت) ” وادخلوا الباب سجدا "۔ کے شہر میں عجز و نیاز مندی لئے ہوئے رہنا، (آیت) ” وقولوا حطۃ ” اور ہر آن بخشش مانگتے رہنا، اور جان رکھو کہ وہ لوگ جو محسن ہیں ان کے درجے ہم اور بڑھائیں گے، ظاہر ہے یہ باتیں نہایت قیمتی نصائح کی حیثیت رکھتی تھیں، مگر بنی اسرائیل نے تغافل سے کام لیا، شہری فسق فجور میں مبتلا ہو گئے نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الٰہی نے آ گھیرا۔

بعض آثار میں آتا ہے کہ عذاب طاعون کی شکل میں آیا مسلم میں حدیث ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ طاعون بقیہ قوموں کا عذاب ہے جس کسی جگہ آ جائے تو تم بھاگو نہیں اور نہ مطعونہ شہر میں جاؤ۔

 

حل لغات

ظللنا: ماضی معلوم۔ مادہ الضل، سایہ۔

المن: ترنجبین (جمہور مفسرین) ایک قسم کا میٹھا گوند (قاموس) شہد۔ کوئی میٹھی چیز۔ ابن عباسؓ کی رائے بالکل صاف ہے وہ کہتے ہیں۔ من: مصدر ہے تمام ان چیزوں کو شامل ہے جو بلا تعب وکسب حاصل ہو جائیں، بخاری ومسلم میں حدیث ہے، ان الکماۃ من المن "۔ جس سے اس عموم کی توضیح ہو جاتی ہے۔

سلویٰ: بٹیریں (جمہور مفسرین) شہد (علامہ جوہری) بٹیر ایک ایسا پرندہ (ابن عطیہ) ایک طرح کا پرندہ (ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحیح چیز یہ ہے کہ یہ بھی من کی طرح عام المعنی ہے، ہر وہ شے موزون جس کے کھانے سے تسکین و تسلی حاصل ہو (راغب)۔

القریۃ: شہر۔

 

058:  اور جب ہم نے کہا کہ تم اس شہر میں داخل ہو جاؤ اور جہاں چاہو با فراغت (محفوظ) ہو کر کھاتے پھرو اور سجدے کرتے اور حطۃ بولتے ہوئے دروازہ میں داخل ہو تو تمہارے گناہ بخش دیں گے اور نیکوں کو ہم زیادہ بھی دیں گے۔

059:  مگر ظالموں نے بتائی ہوئی بات کو دوسری بات سے بدل دیا تب ہم نے ظالموں پر ان کی نافرمانی کے سبب آسمان سے عذاب بھیجا۔

060:  اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار تب اس میں سے بارہ چشمے (ف ۱) بہہ نکلے اور سب آدمیوں نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا، اللہ کی طرف سے رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔

 

(ف ۱) بارہ چشمے:  جنگل میں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ آئے تھے، وہ بے آب و گیاہ جنگل تھا، پانی کی سخت تکلیف تھی، اس لئے ان کی درخواست پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے درخواست کی حکم ہوا پتھر پر معجز طراز لٹھ رسید کرو تعمیل کی گئی اور بطور اعجاز کے بارہ چشمے پتھر سے پھوٹ نکلے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے کافی تھے۔

قرآن حکیم کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہ تھا، درخواست تھی، پھر تکمیل درخواست کو اس معجزانہ شکل میں پیش کیا، وہ لوگ جو اس کی تاویل کرتے تھے، صحیح مسلک پر نہیں ہیں قرآن حکیم کے الفاظ کسی تاویل کے مستحق نہیں اور نہ متحمل۔

 

حل لغات

رجز: عذاب تکلیف۔

اضرب: مار۔ امر ہے ضرب سے، چلنے معنی اس وقت ہوتے ہیں جب اس کا صلہ فی ہو، جیسے ضرب فی الارض۔ جب اس کا صلہ با ہو تو اس کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ نہیں ہوتے۔

عین: متعدد معانی ہیں، یہاں مراد ہر چشمہ ہے۔

 

061:  اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم ایک کھانے پر صبر نہ کریں گے، تو ہمارے لئے اپنے رب کو پکار کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے جو زمین سے اگتی ہیں، ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز،  تو اس (موسی علیہ السلام) (ف ۱) نے کہا۔ کیا تم بہتر چیز کو ادنی چیز سے بدلنا چاہتے ہو ؟ (کسی) شہر (مصر) میں اتر جاؤ جو مانگتے ہو، تم کو ملے گا اور ان (ف ۲) پر ذلت اور محتاجی ڈالی گئی، اور خدا کا غصہ کما لائے، یہ اس لئے کہ وہ خدا کی نشانیوں سے کفر (انکار) کرتے تھے اور (اس لئے کہ) ناحق نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے، یہ اس لئے کہ نافرمان تھے اور حد سے نکل جاتے تھے، (ف ۳)۔

 

(ف ۱) شوق تنوع:  من و سلویٰ کھا کھا کے بنی اسرائیل اکتا گئے، جنگل کی زندگی سے طبیعت بیزار ہو گئی تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا، ہم ایک ہی طرح کی طرز معیشت پر قانع نہیں رہ سکتے، اللہ سے دعا کیجئے ہمیں پھر گیہوں عنایت ہوں ہم خود زراعت کریں گے، اللہ ہمارے کھیتوں میں برکت دے یہ شوق تنوع تھا۔

(ف ۲) اللہ نے جواب عنایت فرمایا کہ تم بلا تعب و مشقت اب آزوقہ حیات فراہم کر لیتے ہو، پھر تمہیں محنت کرنا پڑے گی کہ تم اس آسانی اور یسر کو مشکلات سے تبدیل کرنا چاہتے ہو مقصد یہ تھا کہ پیٹ کے دھندوں سے فارغ ہو کر صحیح تربیت حاصل کرو، مگر وہ برابر مصر تھے، وہ پہلی سی مادی اور جد و جہد کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے، وہ تزکیہ وطن سے بھاگتے تھے، انہیں اس نوع کی تربیت سے نفرت تھی، وہ کسی طرح بھی اس خست سے نکلنے کے تیار نہ تھے، اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ تربیت و اصلاح کے بعد شہری زندگی میں پڑ کر بگڑ گئے، دماغوں میں کفر و طغیان کے خیالات پیدا ہوئے، طبیعتوں میں معصیت و تشدد کا زور ہوا۔ اللہ کے حکموں کو ٹھکرایا گیا، انبیاء (علیہم السلام) جو انہیں سمجھانے بجھانے کے لئے آئے تھے، ان کی زیادتیوں کی آماجگاہ بن گئے، وہ ان سے لڑے انہیں ناکام رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، ان کی جان کے لاگو ہوئے، یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ تربیت و اصلاح سے پہلے شہروں میں آباد ہو گئے اور تعیش و تفحش میں ملوث ہو کر راہ راست سے بھٹک گئے۔

انبیاء (علیہم السلام) کی آمد کا مقصد اللہ کے پیغام کو پہچانا ہوتا ہے تو وہ زندہ رہ کر اس مقصد کی تکمیل میں کوشش کرتے ہیں اور کبھی خدا کی راہ میں شہید ہو کر اپنی تعلیمات کو پایندہ و تابندہ بنا جاتے ہیں، اس لئے ان سے جنگ و جدال اگر مضر ہے تو ان کے مخالفین کے لئے وہ تو بہرحال کامیاب رہتے ہیں۔

(ف ۳) اس انتہائی قساوت قلبی اور بے دینی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی رشد و ہدایت کی تمام صلاحیتوں سے محروم ہو گئے، اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور ذلت ومسکنت کی زنجیروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باندھ دیئے گئے، یہودیوں کی ساری تاریخ ان کی یبوست، کور باطنی اور بے دینی کا مرقع ہے، مادی طور پر بھی وہ آج تک ذلیل و خوار ہیں، آج باوجود اعلی تعلیم اور کافی سرمایہ کے دنیا میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟ خدا کی ساری زمین میں ان کے لئے کوئی گوشہ عافیت نہیں جسے وہ اپنا وطن کہہ سکیں، اس سے زیادہ ذلت ومسکنت اور کیا ہو سکتی ہے ؟

 

حل لغات

بقل: ہر وہ حشیشہ ارض جو سردیوں میں نہ اگے (راغب) ہر چیز جو زمین میں آگے (زمخشری) جس کے ساق نہ ہو (عام لغت میں )

قتاء: بالکسر والضم ککڑی، فوم: گندم، گیہوں۔ لہسن (ابن عباسؓ)

عدس: مسور۔

بصل: پیاز۔

ھادوا۔ ماضی معنوم، یہودی ہوئے، مادہ یہودا۔

 

062:  بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ ہوئے اور صائبین (ف ۱) (بے دین یا ستارہ پرست) ہوئے جو کوئی ان میں سے اللہ پر اور آخری دین پر ایمان لائے اور نیک کام کرے ان کی مزدوری ان کے رب کے پاس ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

ہمہ گیر دعوت:   (ف ۱) مذہب کا مقصد نوع انسانی میں وحدت و یگانگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے انبیاء (علیہم السلام) اس لئے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنہوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں خدا ایک ہے اور اس کا منشاء تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانہ عظمت پر جھکیں، تفرق و تشثت کا کوئی نشانی نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل و اکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ و قومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھر گئے ہیں انہیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کر دیں، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا، وہ اخوت انسانی کی بنیادیں ایمان و عمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا، چنانچہ قرآن حکیم یہودیوں اور عیسائیوں کو کہتا ہے، تم سب اسلام قبول کر سکتے ہو اور سب اس ہمہ گیر دعوت پر ایمان لا سکتے ہو۔ یہ کسی خاص فرقے کا موروثی مذہب نہیں:

صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے:

یہ یاد رہے کہ قرآن حکیم جہاں جہاں ایمان و عمل کی دعوت دیتا ہے وہاں مقصود قرآن حکیم کا پیش کردہ پورا نظام اسلامی ہوتا ہے، اس لئے اس کے سوا کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں جس میں تمام انسانوں کو ایک سلک میں منسلک کر دینے کی پوری پوری صلاحیت ہو، (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ "۔

063:

 

میثاق بنی اسرائیل:  (ف ۲) اسی پارے میں اس میثاق کی تشریح فرما دی ہے کہ وہ کن باتوں پر مشتمل ہے، (۱) خدا کی عبادت (آیت) ” واذا اخذنا میثاق بنی اسرآء یل لا تعبدون الا اللہ "۔ (۲) ماں باپ سے حسن سلوک۔ (آیت) ” وبالوالدین احسانا "۔ (۳) اقربا سے اور یتامی و مساکین سے اچھا برتاؤ۔ (آیت) ” وقولوا للناس حسنا "۔ (۵) صلوۃ وزکوٰۃ کا قیام وتنظیم۔ (آیت) ” واقیموا الصلوۃ وا توا الزکوٰۃ "۔ یہ عہد تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا۔ وہ دامن کوہ میں رہتے تھے اس لئے پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سامنے کیا اور کہا، اگر ان باتوں پر عمل کرتے رہو گے تو پہاڑ کی طرف مضبوط وسربلند رہو گے اور اگر انکار کرو گے تو پھر مصائب و حوادث کا پہاڑ تمہیں پیس کر رکھ دے گا۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے۔ (آیت) ” خذوا ما اتینکم بقوۃ "۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا کہ پہاڑ ان کی مرعوب کرنے کے لئے اکھاڑا گیا تھا، اس لئے کہ دل میں تسکین و طمانیت جب تک موجود نہ ہو، محض جبر و اکراہ سے کیا فائدہ ؟ دودھ بھی اگر عدم اشتہاء کے وقت پیا جائے تو مضر پڑتا ہے۔

 

حل لغات

والنصاری: عیسائی، منسوب بہ ناصرہ۔

صائبین۔ صابی ایک فرقہ تھا جس کی چند باتیں بظاہر اسلام سے ملتی جلتی تھیں، لیکن اکثر باتوں میں وہ مجوسی تھے۔

طور: پہاڑ ایک خاص پہاڑ۔

تولیتم: ماضی معروف، مصدر تولی۔

اباو، انکار اقرار کر کے پھر جانا۔

 

064: پھر اس کے بعد تم پھِر گئے۔ پھر اگر خدا کا فضل اور مہر تم پر نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاتے،

065: اور تم ان آدمیوں کو ضرور جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دن کی زیادتی کی تھی، پھر ہم نے کہا کہ پھِٹکارے ہوئے بندر  (ف ۱)بن جاؤ

 

بنی اسرائیل کی طبع حیلہ جو: (ف ۱) یہودیوں نے مذہب کے بارے میں سخت ٹھوکریں کھائی ہیں، انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا کا مقصد صرف الفاظ کے ظاہری مفہوم کو پورا کرتا ہے، چاہے اصل منشاء کی مخالفت ہی ہو۔ چنانچہ جب سبت کے دن کام کاج سے ان کو روکا گیا تو وہ ایک اور حیلے تراشنے میں کامیاب ہو گئے، یعنی دریا کے کنارے کنارے کچھ حوض کھود رکھے تاکہ مچھلیاں سبت کے دن بھی ہاتھ نہ جانے پائیں، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب موزوں دیا، ان کو ان کی ظاہری صورت سے محروم کر دیا اور ان کو باطنی معنویت سے بالکل الگ شکل میں تبدیل کر دیا اور بتایا کہ اللہ کی آیات کو مسخ کرنے کا یہ نتیجہ ہے، مذہب صرف الفاظ و ظاہر کی پابندی کا نام نہیں،  بلکہ معنویت و بطون کا خیال بھی رکھنا چاہئے وہ جو بے عمل و ملحد ہوتے ہیں وہ یا تو اتنے ظاہر پرست ہو جاتے ہیں کہ صرف الفاظ کو سامنے رکھتے ہیں اور یا پھر اس قدر تعمق و تفکر کے عادی کہ ظاہر و باہر مفہوم سے تغافل اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔ اسلام کی ہدایت اس باب میں یہ ہے کہ کسی قسم کا حیلہ جو نفس منشائے الٰہی کے خلاف ہو، الحاد ہے اور کفر، الفاظ و معانی میں ایک ربط رہنا چاہئے، جہاں یہودی ظاہر پرستی کی وجہ سے خشک اور یا بس ہو کر رہ گئے وہاں عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی کہ روحانیت میں خلو کی وجہ سے بے پرواہ ہو گئے اور شریعت کے احکام کو لعنت سے تعبیر کرنے لگے، اسلام نے آ کر بتایا کہ ہمیشہ سے مذہب کا مقصد ظاہرو باطن کا تزکیہ رہا ہے۔ جس طرح وہ وکیل جو قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قانون کے مقصد کی مخالفت کرے۔  حکومت کا مجرم ہوتا ہے، اسی طرح وہ علمائے دین جو ظاہری الفاظ سے اپنے مفاد کے ماتحت حیلہ تراش لیں،  خدا تعالیٰ کے مخالف ہوں گے، دین دار اور متورع اشخاص تو کسی طرح بھی اس نوع کے حیل کی اجازت نہیں دے سکتے، البتہ اصحاب حرص و آزا اور ارباب عزت و جاہ جن کا مقصد ارذل ترین دنیا کا حصول ہوتا ہے۔ وہ ضرور کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو جلب زر کا ذریعہ بنایا جائے، جب کسی قوم کی یہ ذہنیت ہو جائے کہ وہ دنیا کو مقدم رکھے اور دین کو محض اپنے سلسلۃ العیش کی ایک کڑی سمجھے تو پھر ہلاکت قریب ہے، اس وقت دین کا احترام اٹھ جاتا ہے، زیادہ سے زیادہ الفاظ کے ظاہری مفہوم کو ادا کر لینا ہی وہ کافی سمجھتے ہیں طرح طرح کے حیلوں سے اپنے مفاد و وقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قصہ ہمیں سنائے جا رہے ہیں ان کے اقبال و ادبار کی پوری داستانیں دہرائی جا رہی ہیں۔ تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر نہ چلیں اور آنے والی ہلاکت سے بچیں۔

 

حل لغات

اعتدوا: مصدر اعتداء زیادتی کرنا۔

السبت: اصل معنی قطع کرنے کے ہیں، رات کے متعلق ارشاد ہے۔ وجعل اللیل سباتا: یعنی رات انکار سے چھڑا دینے والی ہے۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیا جائے، مراد ہفتہ کا دن ہے،

نکالا: عبرت انگیز سزا۔

قر رۃ: بندر۔

خاسئین: جمع خاسۂ بمعنی ذلیل ورسوا۔

بقرۃ۔ گائے اور بیل۔

ھزوا، مذاق۔

فارض: عمر رسیدہ۔

عوان: جوان۔

066: پھر ہم نے اس (واقعہ) کو ان کے لیے جو اس وقت تھے، اور ان کے پیچھے آنے والوں کے لیے عبرت اور ڈر والوں کے لیے نصیحت ٹھہرایا

067: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ انہوں نے کہا تو ہم سے ٹھٹھّا کرتا ہے؟وہ بولا اللہ کی  پناہ اس سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔

068: انہوں نے کہا کہ اپنے رب کو پکار  کہ وہ کیسی (گائے) ہے۔ اُس نے کہا وہ (خدا) کہتا ہے کہ وہ (گائے) نہ بوڑھی ہے نہ بچّہ ہے۔ اس (عمر) کے درمیان ہے۔ جوان پس جو تمہیں حکم ہوا ہے تم کرو (ف ۱)

 

اخفائے جرم:  بنی اسرائیل کی قوم میں جہاں صدہا عیوب پیدا ہو گئے تھے وہاں سب سے بڑا عیب اخفائے جرم کا جذبہ تھا اور ظاہر ہے اس کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قوم میں احساس گناہ نہیں رہا اور وہ بد مذہبی کے اس دور میں سے گزر رہی ہے جس کی اصلاح از بس دشوار ہے۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص قتل ہو جاتا اور اس کے قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکتا تو پھر وہ ایک بیل ذبح کرتے اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتے، قاتل اگر اس جماعت میں ہوتا تو وہ اس سے انکار کر دیتا، خیال یہ تھا کہ قاتل اگر دھوئے گا تو وہ ضرور نقصان اٹھائے گا، یہ کوئی شرعی بات نہ تھی، محض ان کا وہم تھا جس پر ان کو یقین تھا جس طرح جاہل قوموں کے معتقدات ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، تاہم اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، جب بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قتل ہو گیا اور انہوں نے عمداً اخفائے جرم کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلمہ قانون کے مطابق بیل ذبح کرنے کا حکم دیا، اس پر چونکہ ان کے دلوں میں چور تھا، اس لئے حیلے تراشے، بار بار سوال کیا بیل کس طرح کا ہو، کیا رنگ ڈھنگ ہو کس نوع کا ہو نیت یہ تھی کہ کسی طرح بات آئی گئی ہو جائے، حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ کوئی سا بیل ذبح کر دیتے تو منشائے الٰہی کی تکمیل ہو جاتی مگر یہ سب تفاصیل تو اس لئے پوچھی جا رہی تھیں کہ عمل کی نوبت ہی نہ آئے، اس طرز عمل میں باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ وہ قومیں جن میں تفصیل طلبی کا جذبہ پیدا ہو جائے وہ عمل سے محروم ہو جاتی ہیں، جب تک مذہب اپنی سادہ حالت میں رہے لوگوں میں جوش عمل موجود رہتا ہے اور جب ہر بات ایک معمہ بن جائے، ہر مسئلہ ایک مستقل بحث قرار پائے اس وقت عمل کے لئے طبیعتوں میں کوئی جذبہ موجود نہیں رہتا۔

بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہو گئے بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طور پر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہو گیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتا دیا۔

اس معجزہ نے حکیمانہ طور پر انسان کی نفسیات پر روشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسیع جرائم کے باب میں اخفا سے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بے نقاب کر کے رہتی ہے گویا جرم و گناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے، نا ممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے۔

(ف ۱) ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم و متانت کے شایان شان نہیں، البتہ مزاح ہو پاکیزہ ہو، جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو،  جائز ہے۔ (ف ۲) (آیت) ” فافعلوا ما تؤمرون "۔ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایا جائے، انہیں بتایا جائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم و رضا ہے، جرح و نقد نہیں، ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لئے گنجائش رہ جاتی ہے پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے

 

069: وہ بولے ہمارے لیے اپنے رب کو پکار کہ ہم سے بیان کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہے؟  وہ بولا(خدا) کہتا ہے کہ وہ گائے زرد گہرے رنگ کی ہے۔ دیکھنے والوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے۔

 

حل لغات

لون۔ رنگ۔

صفرآء: زرد۔

فاقع: گہرا، واضح صاف۔

ذلول: ہل میں جتا ہوا۔ تثیرالارض: مادہ الشارۃ۔ زمین درست کرنا۔

شیۃ: داغ، دھبا، عیب۔

 

070: انہوں نے کہا ہمارے لیے اپنے رب کو پکار کہ ہم سے بیان کرے کہ یہ کیسی ہے؟ ہمیں گایوں میں شبہ پڑ گیا ہے ۔ اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم راہ پا لیں گے۔

071: اس نے کہا ۔ وہ فرماتا ہے کہ گائے محنت والی نہیں کہ باہتی ہو زمین کو یا پانی دیتی ہو کھیت کو۔ بدن سے پوری (تندرست) ہے۔ اس میں کوئی داغ نہیں ہے۔ وہ بولے اب تُو ٹھیک بات لایا۔پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا اور لگتے نہ تھے کہ ذبح کریں گے۔

072: اور جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا اور پھر لگے تھے ایک دوسرے پر  (جُرم) دھرنے۔ اور اللہ اس بات  کو نکالنے والا تھا جسے تم چھُپاتے تھے۔

073: پھر ہم نے کہا کہ اس گائے کے ایک ٹکڑے سے اس (مُردے) کو مارو۔ اسی طرح اللہ مُردوں کو جِلاتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ شاید کہ تم سمجھو (ف ۱)

 

(ف ۱) اصل میں ایک ہی واقعہ ہے لیکن قرآن حمید نے کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید دو الگ الگ قصے ہیں، اس طرز بیان کو اختیار کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دو بہت بری عادتوں پر بالتفصیل روشنی پڑ سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں یہ دونوں مرض بالاستقلال موجود ہیں، ایک بلا وجہ بلا ضرورت تفاصیل میں جانے کا، دوسرے اخفاء جرم کا، آیات کے پہلے حصے کو اس بات پر ختم کیا کہ (آیت) ” وما کادوا یفعلون "۔ کہ وہ کسی طرح بھی عمل پر آمادہ نہ تھے۔ دوسرے حصہ کے آخر میں فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون "۔ کہ خدا اپنے نشان تمہیں دکھاتا ہے تاکہ تم جان لو، غرض یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کی حیلہ جوئی اور کسل اور تساہل فی الدین کو بے نقاب کیا جائے اور دوسری طرف اخفائے جرم اور اللہ کے قانون پر روشنی ڈالی جائے کہ جرائم بجائے خود اعلان اعتراف کی دوسری شکل ہے۔

 

074:  اس کے پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، سو وہ جیسے پتھر یا ان سے بھی زیادہ سخت، اور پتھروں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بعض ان میں وہ بھی ہیں پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکلتا ہے اور بعض ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور خدا تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے (ف ۲)۔

 

قساوت قلبی کی آخری حد:  (ف ۲) جب کسی قوم کی مذہبی حس مردہ ہو جائے تو پھر احساس و تاثر کی تمام قوتیں سلب کر لی جاتی ہیں، بنی اسرائیل پیہم انکار و تمرد کی وجہ سے اس درجہ قاسی القلب ہو گئے کہ انہیں متاثر کرنا نا ممکن ہو گیا، ان آیات میں قدرت کے ایک ہمہ گیر قانون کی طرف غافل انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب خاطر کی بنائے ہوئے قوانین میں بندھا ہوا ہے اور اپنے احساس کے لئے مجبور ہے کہ ان قوانین کی پیروی کرے، پتھر ایسی ٹھس اور ٹھوس چیز بھی اس احساس اطاعت سے محروم نہیں، دیکھو بعض پتھروں میں سے پانی رستا ہے بعض میں سے سوتے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور دریائے ذخار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، پھر دیکھو ایسے بھی ہیں جو چند مختص قوانین کی اطاعت کرتے ہوئے اونچی اونچی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور لڑھک کر نیچے آ رہتے ہیں۔

کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں، عقل و بصیرت کے علاوہ انہیں بے درپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام و وحی کی برکات سے نوازا گیا ہے مگر اس کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے۔

اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے، یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل و دماغ رکھتے ہیں، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے، اشجار سے لے کر انسان تک ایک حی و قیوم کے فرمانبردار ہیں، دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبیعہ کی اطاعت میں مصروف ہیں، مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا۔

 

حل لغات

قسمت: مادہ قساوۃ۔ دل کا غیر متاثر ہو جانا۔

یتفجر: اصل تفجر، پھوٹنا، نکلنا، بہنا، جھرنا۔

یھبط: مصدر ھبوط، بمعنے گرنا۔

 

075:  اب (اے مسلمانو ! ) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ وہ (یہودی) تمہاری بات مانیں گے اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ خدا کا کلام سنتے تھے، پھر اس کو بدل ڈالتے تھے سمجھنے کے بعد اور وہ جانتے تھے (ف ۱)۔

 

تحریف بائبل:  (ف ۱) یہودیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جن کا وظیفہ حیات احکام خداوندی میں تحریف کرنا تھا، ادھر وہ کلام الٰہی کو سنتے، ادھر اپنی مرضی کے موافق ڈھال لیتے، نتیجہ یہ ہوا کہ بائبل ایک غیر محفوظ کتاب ہو کر رہ گئی، موجودہ بائبل ہر طرح مشکوک ہے، صحائف کی تعداد میں اختلاف ہے یقین میں اختلاف ہے اور پھر خود توریت کے بعض حصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحیفے ضائع ہو گئے ہیں بخت نصر نے جب یروشلم میں آگ لگا دی، بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کو ما ڈالا اور بائبل کے تمام نسخوں کو جلا دیا تو عزرا نامی ایک شخص نے از سر نو بطور یاد دا اشت کے چند کتابیں لکھیں، یہی موجودہ توریت ہے، اس لئے یہ کسی طرح بھی محفوظ اور یقینی نہیں شمار کی جا سکتی۔

یہودیوں کا تعصب:  تعصب کی آخری حد کتمان حق ہے یہودی جو اس وصف میں ممتاز تھے، اعلان حق سے بہت گھبراتے، ایک مختصر گروہ ان کا مسلمانوں میں بددلی پیدا کرنے کے لئے بظاہر مسلمان ہو گیا، اب جو ان کے منہ سے کبھی کوئی سچی بات نکل گئی اسلام کی تعریف میں تو دوسرے یہودیوں نے ملامت کرنا شروع کر دی کہ یہ تم کیا غضب ڈھاتے ہو ؟ ایسا کبھی نہ کرنا، مسلمان دلیر ہو جائیں گے، گویا ان کے نزدیک حق و صداقت کی کوئی قیمت نہیں بجز اسلام دشمنی کے، عبداللہ بن سلام جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے فرمایا ذرا میری قوم سے میرے متعلق کچھ پوچھئے، تو آپﷺ نے اعیان یہود سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام میں کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا، بہت خوب آدمی ہیں، مگر جب انہیں بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں تو اسی ” بہترین ” انسان کو محض تعصب کی بنا پر گالیاں دینے لگے۔

 

076:  جب مومنوں سے ملتے ہیں کہتے ہی ہم ایمان لائے اور جب ایک دوسرے کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں تم کیوں ان (مسلمانوں ) سے وہ باتیں کہہ دیتے ہو جو خدا نے تم پر کھولی ہیں تاکہ وہ ان سے تم پر تمہارے خدا کے سامنے حجت لائیں (جھگڑیں ) کیا تم کو عقل نہیں۔

077: کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ جو چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو معلوم ہے۔

078: اور بعضے ان میں سے ان پڑھ آدمی ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے مگر صرف امیدیں (ف ۲) (باندھ رکھی ہیں) اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگر گمان۔

 

(ف ۲) جاہل یہودی صرف عقائد پر قانع تھے، ہر قسم کی بے عملی کے باوجود انہیں اپنی نجات کا یقین تھا، فرمایا یہ محض ایک خوش کن امید ہے جو کبھی شرمندہ عمل نہ ہو گی، نجات کے لئے عمل کی ضرورت ہے، بتائے ہوئے قوانین پر چلنا ضروری ہے، صرف خوش اعتقادی کافی نہیں۔

 

حل لغات

یحرفون: تحریف سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں بدلنے کے، ایک بات کی جگہ دوسری بات کہنے کے۔

فتح، مصدر فتح کھولنا، مگر فتح اللہ علیہ کے معنی ہوتے ہیں، خدا نے اسے بتایا۔

امیون: جمع امی، ان پڑھ یعنی ابتدائی حالت میں، جس حالت میں کہ اس کی ماں نے اسے پیدا کیا۔

امانی: جمع امنیۃ، بمعنی خواہش، اندازہ اور پڑھنا۔

 

079:  خرابی ہے ان کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے بدلے تھوڑا مول لیں، خرابی ہے ان کے لئے اپنے ہاتھوں کے لکھے پر، خرابی ہے ان کے لئے ان کی کمائی پر۔

080:  اور کہتے ہیں کہ ہمیں آگ نہ چھوئے گی، مگر چند (ف ۱) روز تو کہہ کیا تم اللہ کے ہاں عہد لے چکے ہو۔ البتہ اللہ اپنے عہد کے خلاف کبھی نہ کرے گا، یا تم اللہ کی نسبت وہ باتیں بولتے ہو جو تم نہیں جانتے۔

 

فریب خیال:  (ف ۱) یہودی اس فریب خیال میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد سے ہیں، اس لئے اللہ کے زیادہ سے زیادہ مقرب ہیں، (آیت) ” نحن ابناء اللہ واحباءہ "۔ اور اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نجات ہو۔ اور ہم جو چند دن جہنم میں رہیں گے بھی تو وہ محض تزکیہ اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ورنہ در حقیقت کوئی یہودی جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا گیا، گویا وہ مذہب کی حقیقت صرف اس قدر سمجھتے تھے کہ یہ ایک قسم کا انتساب تھا اور بس، عیسائی بھی اس نوع کے غرور نفس میں یہودیوں سے کسی طرح پیچھے نہیں، انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو خداوند خدا پر ایمان لا تاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے "۔ گویا صرف مسیح (علیہ السلام) کی قربانی کا اعتراف سارے گھرانے کی نجات کے لئے کافی ہے، اسلام کہتا ہے کہ اللہ نے کسی قوم سے کبھی اس قسم کا وعدہ نہیں کیا، نجات قول و عمل کے اجتماع کا نام ہے اور مجرم چاہے کون ہو، سزاوار تعزیر ہے۔ (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب من یعمل سوء یجزبہ۔

اس آیت میں یہ بھی بتایا کہ خدا کے وعدے جھوٹے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ خدائی دعوی کے معنی یہ ہیں کہ وہ پورے علم و قدرت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے۔

تکمیل عہد کا مطالبہ:  بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو، والدین اور دیگر اقرباومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو، اور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو، نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو، اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں، مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے رو گردان رہے۔

 

حل لغات

ویل: خرابی۔ ہلاکت، مصیبت۔

خطیئۃ: لغزش۔ گناہ۔

 

081:  ہاں جس نے بدی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا وہی آگ میں رہنے والے ہیں اور وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔

082:  اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے، وہ لوگ بہشتی ہیں اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

083:  جب ہم نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا کہ نہ بندگی کرنا مگر اللہ کی اور والدین اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں سے نیک سلوک رکھنا، لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم (اس اقرار سے ) پھر گئے لیکن تھوڑے آدمی تم میں سے نہ پھرے تم تو منہ پھیرنے والے ہو۔ (ف ۱)

 

(ف ۱) خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے نا ممکن ہے، وہ انسان جو خدا پرست ہے، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ، الفت و شفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں، اور یاد رکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہو سکتا، گویا قرآن تقویٰ و صلاح کا معیار ظاہری رسوم دین نہیں قرار دیتا، بلکہ اس کے نزدیک فلاح و نجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے تم لوگوں کو محراب و منبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد و ورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہو سکتے ہیں، صحیح معیار گھر کی چار دیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بے حسن ہے،  وہ معرفت الٰہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیونکر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طور پر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں، دنیا و دین میں ایک مضبوط ربط قائم کر دیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں۔

 

084:  اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا کہ آپس میں خونریزی نہ کرنا اور اپنے لوگوں کو اپنے وطن (گھروں ) سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار کیا اور تم خود گواہ ہو (ف ۲)

 

(ف ۲) (آیت) ” دمآء کم اور انفسکم ” کے معنی یہ ہیں کہ سارے بنی اسرائیل ایک قوم اور ایک جسم ہیں، ان سب میں انبیاء کا خون موجزن ہے، اس لئے ان کا آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہنا وحدت قومی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی جب تک وہ قومی حرمت و اعزاز کو محسوس نہ کرے، مذہب کا مقصد جہاں نسلی اور قبائلی نقیضات کو ختم کرتا ہے، وہاں ایک مضبوط اور غیور اور با حمیت قوم کی تخلیق و تعمیر بھی ہے، تاکہ وہ خدا کے مشن کو دلیرانہ پورا کر سکے، وہ لوگ جو قوم کے رشتہ قومیت کو توڑتے ہیں، وہ قوم کے مجرم ہیں اور خدا کے بھی، اس لئے بنی اسرائیل کو لڑائی جھگڑے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ اس سے زیادہ قومی وقار کو ختم کر دینے والی اور کوئی چیز نہیں۔

اسلام نے قتل مومن کی سزا نہایت سنگین رکھی ہے، (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمداً فجزآءہ جہنم”۔ کیونکہ قتل مومن کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں اسلام کا کوئی وقار نہیں مسلمانوں کی محبت نہیں وہ نفس خدا اور قوم کے سامنے غدار و خائن کی حیثیت رکھتا ہے اس کا جرم قطعاً ناقابل معافی ہے اور اسی لئے ناقابل عفو بھی۔

 

حل لغات

احسانا: حق واجبی سے زائد یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں، بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ، از راہ احسان و محبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو۔

الیتمی: جمع، یتیم، وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہو جائے، وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے ،۔

المسکین: جمع مسکین کی، سکون سے نکلا ہے، وہ شخص جو بے بسی کے باعث کوئی حرکت نہ کر سکے یا جسے افلاس و ناداری نے ہر طرح کی شوخی سے روک رکھا ہو۔

تشھدون: شھادۃ۔ سے نکلا ہے معنی ہیں تم دیکھتے ہو، گواہ ہو۔

 

085:  پھر تم آپس میں ویسی ہی خونریزی کرتے ہو اور پنے سے ایک فرقے کو ان کے وطن سے نکال دیتے ہو، گناہ اور ظلم سے ان پر چڑھائی کرتے ہو پھر اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر انہیں چھڑاتے ہو، اور ان کا تو نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ پھر کیا کتاب کی بعض باتیں مانتے اور بعض باتوں کا انکار کرتے ہو ؟ پس جو کوئی تم میں سے ایسا کرتا ہے اس کی سوائے اس کے (اور) کیا سزا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں پہنچائے جائیں اور خدا تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے (ف ۱)۔

 

ایمان بالبعض و کفر با لبعض:  (ف ۱) یہودیوں کا یہ وطیرہ مذہب کے باب میں اس مذہبی اہلیت کا پتہ دیتا ہے جو ان کے دلوں میں مستتر تھی، غالباً وہ برائے نام یہودی تھے اور کسی نہ کسی طرح مذہبی رکھ رکھاؤ کا خیال تھا، ورنہ مذہب کے صحیح ذوق سے وہ محض کورے تھے۔

مدینے میں اوس و خزرج نامی دو قومیں آباد تھیں جن میں آئے دن کوئی نہ کوئی جنگ رہتی، یہودی بحیثیت حلیف ہونے کے ان کا ساتھ دیتے رہے، کچھ لوگ اوس کی طرف ہو جاتے اور کچھ خزرج کا ساتھ دیتے۔ اور اس بے دریغی سے لڑتے کہ گویا یہی اصل فریق متخاصم ہیں اور جب ایک دوسرے کے ہاتھ میں بحیثیت قیدی کے پیش ہوتے تو پھر توریت کے اس حکم کا خیال آتا کہ یہودی یہودیوں کے ہاتھوں غلام نہیں رہ سکتا، لہذا کچھ روپیہ بطور فدیہ کے دے کر قیدی چھڑا لیتے، قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ کیا مذاق ہے ؟ اور تلعب ہے توراۃ کے احکام کے سا تھے کہ جب آپس میں لڑنا ہی جائز نہیں تو پھر فدیہ کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے، مگر تمہارے دلوں میں یہودیت کی اتنی عزت ہے کہ تم اس کی ذلت ورسوائی نہیں دیکھ سکتے تو پھر تم لڑتے ہی کیوں ہو ؟ جو اس کا سب سے بڑا باعث ہے، یہ فعل بالکل اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو بلاوجہ مار ڈالا جائے اور پھر اس کے بچوں کی تربیت کی حمایت کی جائے کہ بے چارے یتیم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے یتیم ہونے کا باعث کون ہے ؟ تم جو قیدیوں سے اتنی ہمدردی رکھتے ہو اور اس کا اظہار فدیہ کی صورت میں کرتے ہو،  اس سے کیا فائدہ ؟ جبکہ ایک یہودی کو قتل کر دینا عملاً تمہارے ہاں درست اور جائز ہے۔

قرآن حکیم کہتا ہے، ایمان کی یہ شکل کہ بعض حصے مان لئے جائیں اور بعض کا انکار کر دیا جائے قطعی سود مند نہیں، ایمان نام ہے ایک کامل نظام عمل کا، اگر اس میں ایک چیز کو بھی عمداً چھوڑ دیا جاتا ہے تو ایمان نہیں رہے گا، البتہ اس کو تجارت کہیئے جو چیز پسند آئی، خرید لی، جو مرغوب نہ ہوئی، ترک کر دی، اور مذہب کے بارے میں اس قسم کی تجارت الحاد وزندقہ ہے جو قطعی برداشت نہیں کیا جا سکتا، یہ نری لا مذہبی اور کفر ہے، ایسے لوگ خدا کے ہاں کبھی کامیاب نہیں رہتے جن کے پاس نہ کفر خالص ہے اور نہ ایمان ہی کامل۔

چنانچہ یہودی اس بے اعتقادی کی بنا پر اور اس تشتت و افتراق کی وجہ سے اپنی تمام نو آبادیوں سے محروم ہو گئے، ان کے نخلستان چھین لئے گئے، ان کی بستیاں نذر آتش کر دی گئیں اور آخرت میں ان کے لئے جو مقدر و متعین ہے وہ اس سے زیادہ سخت اور ہولناک ہے۔

 

حل لغات

تضھرون علیھم: تظھر علیہ، اس کے خلاف دشمن کو مدد دی۔

ظھیر: کے معنی ہوتے ہیں مددگار اور ناصر کے۔

اسری: جمع اسیر بمعنی قیدی۔

خزی: ذلت ورسوائی۔

 

086:  یہ وہی ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی آخرت کے بدلے میں خریدی ہے، ان کا عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا، نہ ان کو کچھ مدد پہنچے گی۔

087:  ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی (ف ۱) اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ (علیہ السلام)، مریم (علیہا السلام) کے بیٹے کو کھلے نشان (معجزے ) دیئے اور ہم نے اس کو روح القدس (پاک روح) سے مدد دی، پھر بھلا جب بھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی چیز لایا، جسے تمہارے جی نہ چاہتے تھے تو تم گھمنڈ کرنے لگے پس ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو تم قتل کرتے ہو،۔

 

انبیاء (علیہم السلام) عوام کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے:  (ف ۱) موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت نامی کتاب دی گئی جو الواح کی صورت میں تھی خط مسماری کا ان دنوں رواج تھا، اس لئے کتابیں عموماًپتھروں پر کندہ ہوتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل بنی اسرائیل میں انبیاء (علیہم السلام) آئے، تاکہ اللہ کے پیغام کو پوری وسعت وقوت کے ساتھ بندوں تک پہنچا سکیں، مگر بنی اسرائیل برابر جہل وجمود کے تاریک گڑھوں میں گرے رہے، زیادہ سے زیادہ چند ظاہری رسوم ان کا متاع تدین تھا روح اور مفر سے محروم تھے، اس لئے فسق وفجور کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے مقرب ہی سمجھتے رہے، بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو بھیجا ایک کتاب مقدس دے کر جو ان کے تاریک دلوں میں اجالا کر دے، جو ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور جو ان کے اخلاق پاکیزہ تر بنا دے، روح کا اطلاق قرآن میں کتاب پر ہوا ہے، قرآن حکیم کے متعلق ارشاد (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا "۔ یعنی قرآن بھی ایک روح ہے جسے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اس لئے روح القدس سے مؤید ہونے کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ انہیں انجیل جیسا پاک صحیفہ دیا گیا جس میں تذکر و تزکیہ کی پوری قوت ہے، مگر بنی اسرائیل نے انجیل کی پاک اور بلند اخلاق تعلیم پر بھی عمل نہ کیا، اس لئے کہ اس میں انہوں ان کی کاریوں پر صاف صاف ٹوکا گیا تھا، لیکن اس سے خدا کا قانون اصلاح و رشد نہیں بدل سکتا، انبیاء کی بعثت کا مقصد عوام کے جذبات کی رعایت نہیں بلکہ اصلاح ہے۔

 

088:  اور کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہے (نہیں ) بلکہ خدا نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب سے، پس تھوڑے ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔ (ف ۲)

 

(ف ۲) صاف صاف اعتراف کہ ہماری دلوں میں نور و ہدایت کے لئے کوئی جگہ نہیں،  انتہائی بدبختی کی دلیل ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ دل کی تمام خوبیاں ان سے چھین لی گئی ہیں۔

خدا کی لعنت کے معنی گالی دینا نہیں، بلکہ اپنی آغوش رحمت سے دور رکھنا ہے اور وہ لوگ جو اپنے لئے زحمت و شقاوت پسند کریں رحمت و مؤدت کو ٹھکرا دیں، ظاہر ہے کہ خود بخود رؤف و رحیم خدا سے دور ہو جاتے ہیں۔

 

حل لغات

یخفف، مصدر تخفیف۔ کم کرنا۔

وقفینا: فعل ماضی معلوم مصدر تقفیۃ مسلسل یکے بعد دیگرے بھیجنا۔

البینت: جمع بینۃ، واضح ظاہر و باہر دلائل وہ نشان جو روشن تر ہوں۔

تھوی: مصدر ھوی، خواہش نفس۔

فریقا: ایک گروہ، جماعت۔

غلف: جمع اغلف، غیر مختون، محجوب، ڈھکا ہوا، مستور۔

 

089:  اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی جو اس چیز کو جو ان کے پاس ہے سچا بتاتی ہے اور حالانکہ وہ پہلے سے کافروں پر (اسی کے ذریعہ سے ) فتح مانگتے تھے (ف ۱) پس جب وہ ان کے پاس آیا جسے پہچان رکھا تھا تو اس سے منکر ہو گئے پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر۔

 

(ف ۱) نزول قرآن سے پہلے یہودی ایک سرخ وسپید ” نبی کے منتظر تھے، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہو، بحری ممالک جس کی راہ تکیں، جو فاران کی چوٹیوں پر سے چمکے، دس ہزار قدوسی جس کے ساتھ ہوں، مگر جب وہ گورا چٹا نبی صحرائے عرب کی جھلس دینے والی فضا میں ظہور پذیر ہوا، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت تھی جس کی فتوحات سمندروں تک پہنچیں تو انہوں نے انکار کر دیا، حالانکہ اس سے پہلے وہ مخالفین سے ہمیشہ یہ کہتے کہ جب ہمارا موعود نبی آئے گا تو ہم غالب ہو جائیں گے اور ہماری موجودہ پستی بلندی سے بدل جائے گی، قرآن حکیم پہلی کتابوں کا مصدق ہے، وہ تمام صداقتوں کی تائید کرتا ہے، تمام سچائیاں اس کے نزدیک قابل قبول ہیں، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ ماقبل کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہے، وہ ان مشترک سچائیوں کی تائید و تصدیق کرتا ہے جو مختلف فیہ نہیں، ورنہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں کہ یہود نے محض بربنائے تعصب بدل دی ہیں، تاکہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہے۔

 

090:  وہ بری چیز ہے جس کے عوض انہوں نے اپنی جانیں بیچی ہیں (اس لئے ) کہ خدا کی نازل کی ہوئی چیز سے منکر ہوئے اس ضد میں (ف ۲) کہ خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے فضل سے اتارتا ہے سو غضب پر غضب کما لائے، اور کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

 

معیار نبوت:   (ف ۲) بفی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں، زخم بگڑ گیا، بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہونے زخم سے تشبیہہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لئے مفید نہیں۔

اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیل کو نہیں ملی ؟ اور اس کے لئے مکہ کے ایک یتیم و نادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا ؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے، یہ موہبت کبری ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے، اس میں کسب واکتساب کو اور جد و جہد کو کوئی دخل نہیں، اسرائیل جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمعیل کے گھرانے کے سپرد کر دی گئی اس میں تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو، تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں، یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان و تیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اس لئے تمہارا محض اس بنا پر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے۔

 

حل لغات

مصدقا: تصدیق کرنے والا، یستفتحون، مصدر استفتاح، فتح طلب کرنا۔

بغیا: تمردوسرکشی۔

مھین: اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کر دینے کے۔ ہڈی توڑنے کے۔

عذاب مھین: سے سخت ضعف و ذلت آفرین عذاب مراد ہے۔

 

091:  اور جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے اتارا ہے تم اسے مانو تو کہتے ہیں ہم اسی کو مانتے ہیں جو ہم پر اترا ہے اور جو اس کے سوا ہے، اسے نہیں مانتے، حالانکہ وہ اصل تحقیق ہے اور جو ان کے پاس ہے اس کو سچا بتاتا ہے، تو کہہ اگر تم ایمان دار تھے تو خدا کے پہلے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو ؟ (ف ۱)۔

 

(ف ۱) جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انہوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا، ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی پر نازل ہوا ہے، اس پر قرآن حکیم نے دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی ؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے، دوسرا یہ کہ توریت و قرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا پھر انکار کیوں ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لئے تیار ہو، ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں، پیغام ایک ہے مقصد ایک ہے تعلیم ایک ہے، فرق صرف اجمال و تفصیل کا ہے یا نقص و کمال کا قرآن حکیم مصدق ہے مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لئے اتحاد عمل ہے، اس میں کوئی تعصب نہیں کوئی جانب داری نہیں۔

 

092:  اور بیشک موسیٰ تمہارے پاس کھلے نشان لے کر آ چکا، پھر تم نے ان کے پیچھے بچھڑا بنا لیا اور تم ظالم ہو، (ف ۲)۔

 

(ف ۲) موسیٰ (علیہ السلام) معجزات و نبوت کے تمام آلات سے مسلح ہو کر آئے لیکن تم نے پھر بھی نہ مانا اور گوسالہ پرستی شروع کر دی، معلوم ہوتا ہے، مصر میں گائے کی پرستش کا عام رواج تھا، جیسا کہ آج کی اثری تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے مصر کے قدیم معاہد میں سے اس قسم کی کثیر التعداد تصویریں نکلی ہیں جن سے ان کا ذوق بت پرستی ظاہر ہوتا ہے۔

 

093:  اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمہارے اوپر طور (پہاڑ) اونچا کیا کہ قوت سے پکڑو، جو ہم نے تم کو دیا ہے اور سنو، وہ بولے، ہم نے سنا اور نہ مانا، (ف ۳) اور کفر کے سبب ان کے دلوں میں تو بچھڑا سمایا ہوا تھا، تو اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بری بات سکھلا رہا ہے۔

 

(ف ۳) (آیت) ” سمعنا وعصینا ” کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کر دیتے تھے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مزہبیت سماع تک محدود تھی، جہاں عمل کا وقت ہوتا، وہ یکسر عصیاں ہو جاتے، (آیت) ” سمعنا وعصینا ” ان کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے، ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار، مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے۔

 

حل لغات

الحق: سچا معقول اور مفید مصلحت۔

 

094:  تو کہہ اگر وہ لوگوں کے سوا تم کو خالص اللہ کے پاس آخرت کا گھر ملتا ہے تو تم اپنی موت کی آرزو کرو اگر تم سچے ہو (ف ۱)۔

 

فیصلہ کا ایک طریق:  (ف ۱) یہودیوں کا تفاخر دینی مشہور ہے، وہ کہتے تھے، آسمان کی بادشاہت میں ہمارے سوا اور کسی کا حصہ نہیں، بہشت کے دروازے صرف بنی اسرائیل کے لئے کھولے جائیں گے، قرآن نے اس غور کو بار بار توڑا ہے اور ایک آخری طریق فیصلہ یہ پیش کیا ہے کہ تم موت کی خواہش کرو، یعنی جھوٹے کے لئے ہلاکت کی دعا کرو، جیسا کہ امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے اس صورت میں معلوم ہو جائے گا کہ تمہیں اپنے سچا اور پاکباز ہونے پر کتنا یقین ہے۔

یہ طریقہ فیصلہ ایک شدید تیقن، محکم اور مضبوط ایمان کی خبر دیتا ہے جو نبی اسلام کے سینہ میں موجود تھا، دلائل وبراہین سے جب فیصلہ نہ ہو سکے، افہام و تفہیم کے تمام دروازے جب بند ہو جائیں تو اس وقت بھی یہی ایک صورت فیصلہ باقی رہ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو رب عادل کے عتبہ حق و انصاف پر جھکا دیا جائے۔

مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا پر ایمان واثق ہو، اس پر اور اس کی عدالت پر پورا پورا وثوق اور یقین ہو، ایک کمزور ایمان والا انسان کبھی اس قسم کے فیصلے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے پہلے سے اعلان فرما دیا کہ یہودیوں کو اپنی سیہ کارویوں کے سبب ان سے کبھی اس نوع کے ایمان طلب فیصلے پر لبیک کہنے کی جرات نہ ہو سکی، تاریخ شاہد ہے، تیرہ صدیاں گزرنے پر بھی یہ قوم اس کے جواب کے لئے تیار نہیں ہوئی، یہ چیلنج یہودیوں سے مخصوص نہیں، جنگ خدا پرست اور باطل پرست گروہ کے درمیان ہے پس ہر وہ شخص جو حق والوں کا مقابلہ کرنا چاہے، آخری طریق فیصلہ کے لئے آمادہ ہو سکتا ہے، خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ ہے، (آیت) ” حقا علینا نصر المؤمنین "۔

 

حل لغات

بئسما: بہت برا۔

لن یتمنوا: مصدر تمنی، خواہش، آرزو اور چاہت۔

احرص: حریص ترین۔

یود: مصدر ود۔ دوستی، محبت۔

 

095:  اور وہ یہ (موت) کی آرزو ہرگز نہیں کریں گے بہ سبب اس کے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔

096:  اور تو انہیں اور سب آدمیوں کی نسبت (دنیوی) زندگی پر زیادہ حریص پائے گا اور مشرکین (عرب) میں سے بھی ایک ایک چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر پائے اور حالانکہ اتنا جتنا کچھ اسے عذاب سے نہ بچائے گا اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ دیکھتا ہے۔ (ف ۱)

 

حریص ترین قوم:  (ف ۱) حق و باطل میں، شرک و توحید میں ایک متمائز فرق ہے، مشرک و باطل پرست کی خواہشیں بے انتہا ہوتی ہیں اور موحد حق پرست انسان بالطبع قانع ہوتا ہے، یہودیوں کی دنیا پر ستی قرآن حکیم کے ان الفاظ سے واضح ہوتی ہے کہ (آیت) ” سمعون للکذب اکلون السحت "۔ کہ پرلے درجے کے جھوٹے اور سود خوار ہیں۔

آج بھی یہودی سود خواری میں اس درجہ مشہور ہے کہ مغربی ممالک میں یہودی اور سود خوار باہم مترادف لفظ ہیں۔

قرآن حکیم نے یہاں انہیں (آیت) ” احرص الناس "۔ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہزار سال کی عمر بھی یہ پائیں تو بھی دین کے لئے یہ کچھ کر سکیں گے۔

 

097:  تو کہہ جو کوئی جبرائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہے سو اس نے اللہ کے حکم سے یہ کلام تیرے دل پر اتارا ہے ہو اس (کلام) کو جو اس کے سامنے ہے سچ بتاتا ہے اور راہ دکھاتا ہے اور ایمان داروں کے لئے خوشخبری ہے۔

098:  جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہو گا، تو خدا ان کافروں کا دشمن ہو گا (ف ۲)

 

(ف ۲) جہلا نے یہود جبرائیل (علیہ السلام) کے نام سے بہت پریشان ہوتے تھے، ان کا خیال تھا کہ یہ فرشتہ ہماری بربادی اور بدبختی کا باعث ہوا ہے اس لئے اب اس کے لائے ہوئے پیغام کو ہم کبھی نہ مانیں گے، یہ ایک ضد اور جاہلانہ خیال تھا، ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا، وہ جو کچھ لاتا ہے پیغام خدا کے نظام وحی وتنزیل کا انکار ہے۔

 

099:  ہم نے تیری طرف واضح آیتیں (نشانیاں ) اتاری ہیں فاسقوں (بے حکموں نافرمانوں ) کے سوا ان کا کوئی منکر نہ ہو گا۔ (ف ۳)

 

(ف ۳) قرآن حکیم کے متعدد نام قرآن میں مذکور ہیں، ان میں سے آیات بینات بھی ہے یعنی واضح اور روشن آیات جو لوگ اللہ کی اس کتاب کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کے دلائل اس کا طرز بیان، اس کا پیغام سب واضح ہیں اور روشن، یہ حقائق ومعارف کا وہ سمندر بے ساحل ہے کہ جس کی ہر موج صد ہزار موتی اپنے وامان گہر بار میں لئے ہوئے ہے، ہمہ آفادہ اور ہمہ خوبی اگر کوئی کتاب ہو سکتی ہے تو وہ یہ قرآن حکیم ہے، اس کے وضوح پر درخشندہ مثال یہ ہے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی یہ ویسی ہی سمجھی جا سکتی ہے، جیسے قرون اولی میں نفس تعلیم میں کوئی تحریف نہیں، حالانکہ انجیل دو سو سال کے بعد بالکل بدل گئی اور وید چند صدیاں بھی حوادث کا مقابلہ نہ کر سکا۔

 

حل لغات

الف: ایک ہزار۔

مزحزح: ہٹانے والا، دور کرتے والو۔

بشری: خوش خبری۔

 

100:  آیا کیا جب بھی وہ خدا سے کوئی عہد باندھیں گے تو ایک فرقہ ان میں سے اس (عہد) کو پھینک دے گا، (نہیں ) بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے (ف ۱)

 

(ف ۱) بنی اسرائیل ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے اور انہوں نے اس کی اعانت و نصرت کا عہد کر رکھا تھا، لیکن جب وہ آ گیا جس کا انتظار تھا تو منکر ہو گئے، وجہ یہ تھی کہ ان کے دل دولت ایمان سے محروم تھے، مال و دولت کے سوا ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہ تھا (آیت) ” اکثرھم ” کہہ کر قرآن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ لوگ یہودیوں میں ایسے بھی تھے جو نیک سرشت تھے، یہ حالت اکثریت کی نہ تھی۔

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔

ورڈ فائل
 1
ای پب فائل
کنڈل فائل