FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین [show]

صحرا کا گلاب

 

 

                سعید خان

 

 

 

انتساب

 

نوشی گیلانی

کے نام

 

 

 

 

 

تعارف

 

                خالد شریف

 

سعید خان اپنے شعری سفر میں بلندیوں کی جانب رواں دواں ہے۔ ’’صحرا کا گلاب‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ ’’بابِ عقیدت‘‘ میں ’’اے خدا اُس خوبصورت کے خدا‘‘ اور ’’درشن_ پیر نصیر کی یاد میں ‘‘ چونکا دینے والی تخلیقات ہیں۔ اس مجموعے کی غزلیں نہایت خوبصورت اور دلآویز ہیں۔ فنّی ریاضت جا بجا اپنے آثار دکھا رہی ہے۔ نظموں میں موضوعات کے تنوّع نے دلکشی پیدا کر دی ہے۔ تاہم پوری کتاب کا بنیادی مرکزہ حسّاس قاری کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکتا اور وہ محسوس کر سکتا ہے کہ ’’روہی کی رانی‘‘ کتاب کے ہر صفحے پر جلوہ گر ہے۔

خالد شریف

 

 

 

 

 

بابِ عقیدت

 

 

اے خُدا – اُس خوبصورت کے خُدا

عشق در پردہ تری حمد و ثنا

اے خدا۔ اُس خوبصورت کے خدا

 

بولتا ہے ہر طرف تیرا ہنر

رنگ تُو، ہر نقش تُو، تصویر تُو

اُس حریمِ ناز میں جلوے ترے

اُس رخِ روشن کی سب تنویر تُو

عکس ہو کیسے مصور سے جدا

اے خدا۔ اُس خوبصورت کے خدا

 

دیکھتا ہوں اُس میں تیرے معجزے

حسنِ فطرت پر سدا مائل ہوں میں

عشق اندازِ عقیدت ہے مرا

اس کی نسبت سے ترا قائل ہوں میں

تیری بخشش ہے وہ حسنِ ماورا

اے خدا۔ اُس خوبصورت کے خدا

 

عشق سے روشن ہوئے رستے مرے

کیا مسافت، کیا جنوں، کیا شاعری

عشق ہی سے پنجتن بھی مہرباں

عشق سے مہکی ہے میری زندگی

عشق نے کھولے ہیں مجھ پر صوفیاء

اے خدا۔ اُس خوبصورت کے خدا

 

عشق در پردہ تری حمد و ثنا

اے خدا۔ اُس خوبصورت کے خدا

٭٭٭


 

 

 

نعت

 

تیرا کردار جُدا ہے تری پہچان جدا

تُو محبت کا پیمبر ہے تری شان جدا

 

قربتِ نامِ محمدؐ تری تنویر کی خیر

مدحتِ شاہِ مدینہ تیرا عرفان جدا

 

تیری خوشبو سے نکل آتے ہیں اسبابِ جنوں

دل سے رکھتے نہیں عاشق ترا دامان جدا

 

در بدر ہیں تو کہیں خاک بسر پھرتے ہیں

تیرے رستے سے ہوئے جب سے مسلمان جدا

 

اپنے آقا کی عنایات سے لکھتا ہوں سعیدؔ

ہو مرے حرف سے کیسے مرا ایمان جدا

٭٭٭

 

 

 

 

مولائے کائنات کے حضور

 

وہی سفر ہے وہی صبحِ بے یقیں مولا

ترا کرم ہو تو منزل ملے کہیں مولا

 

اسے عقیدتِ کرب و بلا سے معنی دے

یہ کشمکش کہ مری زندگی نہیں مولا

 

وصالِ ابرِ کرم صبر کے مہینے میں

سلگ رہی ہے مرے پاؤں کی زمیں مولا

 

نشیبِ شب میں ترے نور کا سہارا ہے

یہ بے چراغ مصاحب مرے نہیں مولا

 

مجھے تباہ نہ کر دے سوادِ بے معنی

جنوں سے کر دے فروزاں مری جبیں مولا

 

مرے یقین کی حد ہے مری ضرورت تک

ترے کرم کی کوئی انتہا نہیں مولا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

حسنِ کردار میں، قامت میں ترے جیسا ہو

کون اس دورِ ندامت میں ترے جیسا ہو

 

کون ان کار کرے بیعتِ قاتل سے یہاں

کون اوصافِ امامت میں ترے جیسا ہو

 

کون بیدار کرے امّتِ خوابیدہ کو

کون ادراک و بصیرت میں ترے جیسا ہو

 

کون حق بات پہ قربان کرے اہل و عیال

کون ایثار و شجاعت میں ترے جیسا ہو

 

سُرخرو کون کرے آلِ محمدؐ کا لہو

کون میدانِ شہادت میں ترے جیسا ہو

 

کس پہ نازاں ہو مہِ دشت کی تنویر حسینؑ

کون اُس نور کی نسبت میں ترے جیسا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

نذرِ اِمام حسینؑ

 

کرشمہ ساز ہے نورِ مہِ کامل، مبارک ہو

حسینؑ ابنِ علیؑ آئے سرِ محفل مبارک ہو

 

فضا عشقِ علیؑ عشقِ محمدؐ سے معطّر ہے

سوادِ ذکر سے کعبہ ہوا ہر دل، مبارک ہو

 

زمیں آقا کے قدموں میں سمٹ آئی عقیدت سے

فلک چشمِ جنوں بن کر ہوا مائل، مبارک ہو

 

سلامی دے رہی ہیں مضطرب لہریں سمندر کی

کئی بھٹکے سفینوں کو ملا ساحل، مبارک ہو

 

ہجومِ عاشقاں پہ مہرباں شاہِ امامت ہیں

نمازِ عشق سے مہکی ہوئی محفل مبارک ہو

 

عقیدت کا ثمر ہے یا کسی نسبت کی نسبت ہے

سعیدؔ اس رنگ میں تم بھی ہوئے شامل، مبارک ہو

٭٭٭

 

 

 

 

نوحہ

 

آساں ہے مسافت نہ کہیں گھر کا نشاں ہے

کربل میں لہو آلِ محمدؐ کا رواں ہے

شنوائی ہے مکّے میں نہ سنتا ہے مدینہ

معصوم کو لا دے کوئی شبّیر کا سینہ

سر رکھ کے کہاں سوئے گی بابا کی سکینہ

 

ہر لحظہ دھڑکتا تھا جہاں نام علیؓ کا

وہ سینۂ صد مہر کہ مسکن تھا نبیؐ کا

سر کھول کے روتی ہے اُسے بادِ شبینہ

معصوم کو لا دے کوئی شبّیر کا سینہ

سر رکھ کے کہاں سوئے گی بابا کی سکینہ

 

اکبر کا نشاں، خوشبوئے عبّاس کہاں ہے

بس فکر ہے پیاروں کی اسے پیاس کہاں ہے

اصغر کو بلاتی ہے سرِ دشت سکینہ

معصوم کو لا دے کوئی شبّیر کا سینہ

سر رکھ کے کہاں سوئے گی بابا کی سکینہ

 

پھیلے ہوئے لاشے ہیں کہ یہ فصلِ نگیں ہے

ہر قطرۂ خوں دینِ محمدؐ کا امیں ہے

تا حشر صفِ غم ہے محرم کا مہینہ

معصوم کو لا دے کوئی شبّیر کا سینہ

سر رکھ کے کہاں سوئے گی بابا کی سکینہ

٭٭٭

 

 

 

ہوائے دشت ہے ماتم گزیدہ چاروں طرف

کریں گے دل غمِ کربل کشید چاروں طرف

 

سحر اداس ہے وحشت سرائے کربل میں

پڑے ہیں خاک پہ شہ کے شہید چاروں طرف

 

حسینیت کو مٹانا کسی کے بس میں نہیں

اگر چہ پھرتے ہیں اب بھی یزید چاروں طرف

 

رہِ حجاز پہ دشمن کی دسترس ہے تو کیا

سپر ہیں شاہِ نجف کے مرید چاروں طرف

 

کھُلا ہے جب بھی لبوں پر سوادِ ذکرِ حسینؑ

ملی ہے خوشبوئے مولا سعیدؔؔؔؔ چاروں طرف

٭٭٭

 

 

درشن۔ پیر نصیرؔ کی یاد میں

 

درشن کا یہ خواب ہوا ہے مشکل سے تعبیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

ایسی بھی کیا جلدی ہے، رُک جئیو پیر نصیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

 

کیا رشتوں کی رام کہانی، کیا دل کی تحریریں

قریہ قریہ کھینچ رہے تھے کب سے سرد لکیریں

اِس منزل پہ نقش ہوئی ہے خوابوں کی تعبیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

 

ہم تپتی راہوں کے راہی، تو سکھ چین کا سایہ

ہم بہتے دریا کے پتھر، تُو ساگر کی مایہ

تُو وارث ہے مہرؔ علی کا، عشق تری جاگیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

 

آنکھوں نے منّت مانگی تھی اس دربار کی دید

اک درشن میں دو دو جلوے، رب کی شان سعیدؔ

ایک طرف مرا عشق فروزاں، ایک طرف مرا پیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

 

درشن کا یہ خواب ہوا ہے مشکل سے تعبیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

ایسی بھی کیا جلدی ہے، رُک جئیو پیر نصیر

ابھی مت جئیو پیر نصیر

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

 

شکست مان کے تسخیر کر لیا ہے مجھے

غزالِ دشت نے زنجیر کر لیا ہے مجھے

 

میں منتشر تھا کسی عکسِ رائیگاں کی طرح

نگاہِ شوق نے تصویر کر لیا ہے مجھے

 

بکھر گیا تھا سرِ شہرِ ناشناساں مَیں

کسی کے ربط نے تعمیر کر لیا ہے مجھے

 

نکل کے جاؤں کہاں مَیں حصارِ گردش سے

سفر نے پاؤں میں زنجیر کر لیا ہے مجھے

 

سکوتِ غم سے بدن خاک ہو چلا تھا مگر

طلسمِ لمس نے اکسیر کر لیا ہے مجھے

 

مرے سخن میں سما کر کتاب رُو نے مِری

خود اپنے حسن کی تفسیر کر لیا ہے مجھے

 

مَیں اک خیالِ سرِ رہگزارِ شب تھا سعیدؔ

کسی کے خواب نے تعبیر کر لیا ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

دل کی رفتار سے کیا باندھیں ارادہ اپنا

عمر تھوڑی ہے مگر عشق زیادہ اپنا

 

تجھ کو دیکھا ہے تو آنکھوں میں سمٹ آیا ہے

ورنہ یہ دل ہے سمندر سے کشادہ اپنا

 

ہم نے رشتوں کے وہ ناسُور نبھائے ہیں کہ بس

اب جو دشمن ہو وہ لگتا ہے زیادہ اپنا

 

تُو تو پھر جانِ زمانہ ہے ترا ذکر ہی کیا

یاد رہتا نہیں یاروں کو بھی وعدہ اپنا

 

ہم نے کر لی ہے لکیروں سے بغاوت ورنہ

ہر مسافر کو میسر نہیں جادہ اپنا

 

عشق بے مہر و ملاقات کہاں کھُلتا ہے

دل لگایا ہے تو رکھ در بھی کشادہ اپنا

 

جانے کس کوہِ جنوں خیز کا پتھر ہے سعیدؔ

ضد پہ آ جائے تو بدلے نہ ارادہ اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک جنوں کی خاطر ساری دنیا چھوڑ کے آئے ہیں

تُو کیا جانے تیرے لئی ہم کیا کیا چھوڑ کے آئے ہیں

 

ہم یاروں کے یار، وہ جن کے دم سے شہر کی رونق تھی

اِک تیری محفل کی خاطر میلہ چھوڑ کے آئے ہیں

 

سارے خواب سراب کرے یا اب ہم کو سیراب کرے

ہم تیرے صحرا کے لئے سو دریا چھوڑ کے آئے ہیں

 

ہم سے زیادہ جانِ غزالاں قدر ہے کس کو وحشت کی

تیرے لئے ہم خود کو اکثر تنہا چھوڑ کے آئے ہیں

 

تُو بھی آوازوں کے کتنے مقتل کاٹ کے آئی ہے

ہم بھی رسوائی کا میلہ برپا چھوڑ کے آئے ہیں

 

کون لکیروں کے جنگل میں عمر گنوائے یار سعیدؔ

دل کی راہ پہ آنے والے رستہ چھوڑ کے آئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دیارِ خواب میں کب تک سراب دیکھوں مَیں

قریب ہو، کہ تجھے بے حساب دیکھوں مَیں

 

ترے سبب مری شب کا مطالعہ بھی گیا

نگاہ تجھ سے ہٹے تو کتاب دیکھوں مَیں

 

ترے بغیر خوشی جشنِ رائیگانی ہے

تُو ہم سفر ہو تو ہنس کر عذاب دیکھوں مَیں

 

بہار ہے کہ رُخِ یار کے کرشمے ہیں

سراب و سنگ میں ہر سُو گلاب دیکھوں مَیں

 

مرے ستاروں میں جیسے یہ روگ لکھا ہے

جہاں بھی جاؤں سفر کا عذاب دیکھوں مَیں

 

یہ داغ داغ سے چہرے الگ نہیں مجھ سے

کسے چھُپاؤں کسے بے نقاب دیکھوں مَیں

 

ہزار بار صلیبوں پہ رات کر کے سعیدؔ

مجھے یہ اذن ہوا ہے کہ خواب دیکھوں مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

وحشتِ دل ہمیں آسان ہے یوں پہلے سے

کم ہے فرصت تو زیادہ ہے سکوں پہلے سے

 

کچھ ترے عشق نے دل کھول کے دیوانہ کیا

کچھ تو شامل تھا طبیعت میں جنوں پہلے سے

 

آنے والا بھی تری قدر سے ناواقف ہے

آ مرے دل تجھے برباد کروں پہلے سے

 

مدتوں بعد نئی صبح نے دستک دی ہے

خلقتِ شہر پشیمان ہے کیوں پہلے سے ؟

 

خودسری سے مری ناراض ہے کیوں میرے خدا

سارا عالم ترے آگے ہے نگوں پہلے سے

 

مر مٹے ہم تو یہ ہنگامہ ہوا ہے، ورنہ

اک زمانہ تھا ترے زیرِ فسوں پہلے سے

 

کیا ڈبوئے گی مجھے موجِ غمِ یار سعیدؔ

میں کسی درد کی منجدھار میں ہوں پہلے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھُل جائے موسم کی رنگت، جاگ اُٹھے ماحول ذرا

رُوپ نگر کی رانی اپنا روشن چہرہ کھول ذرا

 

کہاں کہاں سے تیرے روپ کا درشن کرنے آئے ہیں

بنجاروں کو بھر لینے دے آنکھوں کے کشکول ذرا

 

اِس بستی کے پتھر پھر سے ہنسنے گانے لگ جائیں

مِیرؔا! تو اپنے گیتوں سے روحوں میں رس گھول ذرا

 

لوگ، زمانہ، اپنے پرائے، سب موسم کے پنچھی ہیں

تو آئے تو بن جاتا ہے جیون کا ماحول ذرا

 

کب تک نین دریچوں سے بہلا کر پریت نبھانی ہے

یاروں نے پھر دستک دی ہے دل دروازہ کھول ذرا

 

وہ صحرا کی سب سے موہنی مورت کب آسان سعیدؔ

عشق میں کچھ دن اور ابھی خود کو روہی میں رول ذرا

٭٭٭

 

 

 

میں کب سے بوجھ رہا تھا پہیلیاں اُس کی

کھُلیں تو رشکِ حنا تھیں ہتھیلیاں اُس کی

 

ہمیں بھی محفلِ یاراں سے اُس نے چھین لیا

اُسے بھی ڈھونڈ رہی ہیں سہیلیاں اُس کی

 

اُدھر سے گزریں تو کیسے نہ اس کو یاد کریں

مہک رہی ہیں گلی میں چنبیلیاں اُس کی

 

محبتوں کی عجب کہکشاں بناتی ہیں

مری لکیروں سے مل کر ہتھیلیاں اُس کی

 

میں مشتِ خاک سے گلزار ہو رہا ہوں سعیدؔ

بدن میں ایسی بسی ہیں چنبیلیاں اُس کی

٭٭٭

 

 

حسن کی جتنی مثالیں ہیں وہ سب ایک طرف

وہ عجب آنکھیں وہ رخسار وہ لب ایک طرف

 

برگ و گل بھی اسی کافر کی ثنا کرتے ہیں

میں تو شاعر ہوں مرا حسنِ طلب ایک طرف

 

زندگی پہلوئے جاناں سے پرے رکھتی ہے

ورنہ لے جاتے ہیں رستے مجھے سب ایک طرف

 

جیسے چھٹ جاتا ہے سورج سے ستاروں کا ہجوم

اس کا جلوہ ہو تو ہو جاتے ہیں سب ایک طرف

 

اپنے کردار سے روشن ہے مری زہرہ جبیں

شہرتیں ایک طرف، نام و نسب ایک طرف

 

ان بھلے وقت کے یاروں کا بھروسہ کیا ہے

وقت آئے گا تو ہو جائیں گے سب ایک طرف

 

آخر اُس شخص کی آہٹ نے کیا جشن بپا

کب سے بیٹھی تھی مری محفلِ شب ایک طرف

 

یار اغیار بھی کوشش میں لگے رہتے ہیں

ہم بھی ہیں اپنی تباہی کا سبب ایک طرف

 

یہ مرے لوگ بھی سوکھے ہوئے پتّے ہیں سعیدؔ

جب ہَوا چلتی ہے چل پڑتے ہیں سب ایک طرف

٭٭٭

 

 

 

 

ہر کوئی اپنے ہی آزار کا آوازہ کرے

کون اس حبس میں دیوار کو دروازہ کرے

 

لوٹ جاتی ہے مسیحا کی نظر ساحل سے

مجھ میں ڈوبے تو مرے درد کا اندازہ کرے

 

دیر تک ہجر کے برزخ میں نہ افسردہ رکھ

دے کوئی زخم جو اس دل کا جنوں تازہ کرے

 

لاکھ ترتیب میں لاتے رہو وحشت اپنی

عشق جب چاہے دل و جان کا شیرازہ کرے

 

آخرش تجھ کو ترے حال پہ چھوڑ آئے ہیں

سینۂ سنگ میں کب تک کوئی دروازہ کرے

 

بعض رشتوں کی بھی اک عمر ہُوا کرتی ہے

کب تلک کوئی تعلق کو تر و تازہ کرے

 

یار لوگوں نے گنوا دی ہے مگر آنکھ سعیدؔ

اِس چکا چوند میں ظلمت کا جو اندازہ کرے

٭٭٭

 

 

 

 

سب تیری شہرتوں تری بدنامیوں کے ساتھ

دل تجھ کو چاہتا ہے تری خامیوں کے ساتھ

 

تا زیست اپنے نام کے گرداب میں رہوں

اتنا ستم نہ کر مری گمنامیوں کے ساتھ

 

کچھ مانگتے ہیں تیری نظر کی قبولیت

کچھ نامور ہوئے تری بدنامیوں کے ساتھ

 

پھر منزلِ نشاط پہ یوں مطمئن ہوں مَیں

شامل خلش بھی ہے مری خوش کامیوں کے ساتھ

 

کب سے سوادِ شعر و سخن میں خراب ہوں

میرا جنوں بھی دیکھ مری خامیوں کے ساتھ

 

اب تو حصارِ ذات میں بے آئینہ ہوں مَیں

سب دوست جا ملے ہیں مرے حامیوں کے ساتھ

 

کن کشتیوں کی خیر مناتے ہو تم سعیدؔ

ساحل الٹ گئے یہاں سونامیوں کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی دشمن نہ مرے یار نے زندہ رکھا

مجھ کو اب تک مرے پندار نے زندہ رکھا

 

مَیں وہ آساں جسے موجوں نے توانائی دی

مَیں وہ مشکل جسے منجدھار نے زندہ رکھا

 

نبض چلتی ہی نہیں ضربِ محبت کے سوا

عشق! مجھ کو ترے آزار نے زندہ رکھا

 

اک فسانہ! جسے ہر پیچ نے پامال کیا

اک کہانی! جسے کردار نے زندہ رکھا

 

اک تماشہ تھا جسے اہلِ نظر بھول گئے

اک خبر تھی جسے اخبار نے زندہ رکھا

 

گھر کہاں، دشتِ مسافت کے شب و روز کہاں

اک تعلق در و دیوار نے زندہ رکھا

 

چھوڑ کر مجھ کو کہیں کا بھی نہ چھوڑا اُس نے

مار کر مجھ کو مرے یار نے زندہ رکھا

 

سانس لیتا ہوں مَیں سینے میں سمندر کے سعیدؔ

کب مجھے ساحلِ بیمار نے زندہ رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

دیر تک دشتِ جنوں میں تہ و بالا ہُوا دل

تجھ پہ آیا تو محبت کا حوالہ ہُوا دل

 

تُو بھی مشکل ہے مری جان، مگر مشکل سے

کب ٹھہرتا ہے یہ آفات کا پالا ہُوا دل

 

کوئی بے صرفہ مکاں تھا کہ تری خوشبو سے

گھر ہوا ہے در و دیوار میں ڈھالا ہُوا دل

 

کیا کرے دل کہ ہمیں تیری طلب رہتی ہے

کیا کریں ہم کہ ترا چاہنے والا ہُوا دل

 

کتنے مضبوط سفینوں کو بھنور لے ڈوبے

سُرخرو ہو گیا دریا میں اُچھالا ہُوا دل

 

اپنی قربت کی گھٹائیں ذرا آہستہ کر

بجھ نہ جائے شبِ فرقت کا اُجالا ہُوا دل

 

جم گیا خون کی صورت میری آنکھوں میں سعیدؔ

اور جاتا کہاں سینے سے نکالا ہُوا دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کٹھن ہے دشتِ جنوں، زندگی گزارہ کر

جواں ہے زخم سو کچھ دن ابھی گزارہ کر

 

عجب سہی اے مرے دل معاملے تیرے

کہ اِس طلب میں لُٹے ہیں سبھی، گزارہ کر

 

قریب رہ کے بسر کر مجھے محبت میں

یہاں وہاں نہ مری زندگی گزارا کر

 

اُسے بہار کا موسم ہی ساتھ لائے گا

گزر رہی ہے تو کچھ دن ابھی گزارہ کر

 

یہاں یقینِ تعلق میں عمر لگتی ہے

نئی نئی ہے ابھی دوستی، گزارہ کر

 

ملا ہے عشق کا سودا سعیدؔ قسمت سے

سنبھل سنبھل کے نہ دیوانگی گزارا کر

٭٭٭

 

 

 

 

عشق حاصل ہو تو اک روز کشش کھو کے رہے

کیا ضروری ہے مری جاں تو مِری ہو کے رہے

 

جب ہمیں دشتِ جدائی کا سفر کرنا ہے

دل تجھے درد کے دورا ہے پہ کیوں روکے رہے

 

ہاتھ آئی نہیں وحشت کی دوا دوری میں

فاصلے دل میں نئی فصلِ جنوں بو کے رہے

 

ہم سے بے سمت مسافر کا بھروسہ کیا ہے

راہ کھوئی تو کبھی شوقِ سفر کھو کے رہے

 

ہم نے پا کر تجھے کھویا تو یقیں آیا ہے

دل نہ چاہے بھی تو قسمت کا لکھا ہو کے رہے

 

تُو نہیں تو کوئی تجھ سا بھی نہیں ہونے کا

دل ترے بعد کسی اور کا کیا ہو کے رہے

 

تم سلگتے ہو غمِ عشق میں چپ چاپ سعیدؔ

ورنہ اس راہ میں پتھر بھی لہو رو کے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

دشتِ فرقت میں آس ہو تو کہوں

چند قطروں کی پیاس ہو تو کہوں

 

تجھ سے کتنی شکایتیں ہیں مجھے

تُو اگر غم شناس ہو تو کہوں

 

میں بھی اپنے جنوں کی گہرائی

صحبتِ دل شناس ہو تو کہوں

 

کس قدر مجھ میں بس گیا ہے کوئی؟

خود پہ اپنا قیاس ہو تو کہوں

 

جان کیوں وصل میں پگھلتی ہے ؟

روشنی بے لباس ہو تو کہوں

 

جو ترے حسن کی گواہی دے

وہ بیاں میرے پاس ہو تو کہوں

 

اپنے رنجِ نہاں کی بات سعیدؔ

تُو بھی کھُل کر اداس ہو تو کہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہم تو جل بجھ گئے تھے، جانے کیوں

بات چھیڑی ہے پھر ہَوا نے کیوں

 

جسم پر آئینوں کا موسم ہے

جان بکھری پڑی ہے جانے کیوں

 

ہم بھی اپنے کئے پہ قائم ہیں

وہ بھی اپنا قصور مانے کیوں

 

اپنی بنیاد میں بسا کے اُسے

دل بدلتا ہے اب ٹھکانے کیوں ؟

 

ہم مسافت نصیب لوگوں سے

دل لگاتے ہیں، آشیانے کیوں

 

گردِ ہجراں سے بھر گئے تھے سعیدؔ

زخم کھولے ہیں پھر ہَوا نے کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی لمحے زیاں کچھ ہو گیا ہے

دلوں کے درمیاں کچھ ہو گیا ہے

 

زباں افسوس میں الجھی ہوئی تھی

کہا کچھ تھا بیاں کچھ ہو گیا ہے

 

ہم اپنی ذات سے باہر تو نکلے

بھلے دل کا زیاں کچھ ہو گیا ہے

 

تِرے وحشی سنبھلتے جا رہے ہیں

تجھے شہرِ بتاں کچھ ہو گیا ہے

 

جنوں ہے، خوف ہے، یا بے حسی ہے

جسے دیکھو یہاں کچھ ہو گیا ہے

 

سعیدؔ اس عشقِ بے درماں میں خود پر

یقیں کچھ تھا گماں کچھ ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کیا جانیئے عاشق ہے کہ محبوب کوئی ہے

اس دل کے در و بام سے منسوب کوئی ہے

 

آرام کہاں عشق و عبادت میں بھی دل کو

پھر کوئی مقابل ہے تو مطلوب کوئی ہے

 

کیا کم ہے تعلق کے اس آشوب میں رہ کر

ہم جیسے خرابوں سے بھی منسوب کوئی ہے

 

پھر در پئے آزار ہیں فرقت کی ہوائیں

پھر بامِ شبِ ہجر پہ مصلوب کوئی ہے

 

تحریر بھی تصویر بنا دیتی ہے اس کی

ہاتھوں کی لکیروں سے جو منسوب کوئی ہے

 

پھرتے ہیں سعیدؔ اور سخنور یہاں کتنے

کب تجھ سا مگر صاحبِ اسلوب کوئی ہے

 

ترکِ الفت میں گزارہ بھی نہیں ہو سکتا

اب تو وہ شخص ہمارا بھی نہیں ہو سکتا

 

وہ بھی مجبور ہے بے ربط مسیحائی پر

ہم سے بیمار کا چارہ بھی نہیں ہو سکتا

 

جس قدر عشق و اذیت سے گزر آئے ہیں

پھر سے یہ ظلم گوارہ بھی نہیں ہو سکتا

 

دل تعلق بھی نہیں توڑنے والا اُس سے

ایسے پتھر سے گزارہ بھی نہیں ہو سکتا

 

رات بھی گریۂ دیوارِ جدائی ہے سعیدؔ

دن بدلنے کا سہارا بھی نہیں ہو سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

تارِ ارماں نہ کوئی خواب کا ریشہ دل میں

پھر بھی اک درد سا رہتا ہے ہمیشہ دل میں

 

کوہکن اور ترے صحراؤں کی بے خانماں ریت

کھُب گیا پھر سے ترے ہجر کا تیشہ دل میں

 

یوں تو رہتا ہے مسیحاؤں کا آنا جانا

ہم نے رکھا اُسی قاتل کو ہمیشہ دل میں

 

اس کا آنکھوں سے نکلنا بھی تھا مقدور سعیدؔ

کون رہتا ہے مری جان ہمیشہ دل میں

٭٭٭

 

 

 

نہ سوتے ہیں نہ کھُل کر جاگتے ہیں

دیئے آنکھوں کے شب بھر جاگتے ہیں

 

نکل آئی ہیں دیواروں کی آنکھیں

مکیں سوتے ہیں اور گھر جاگتے ہیں

 

نہ لگ جائیں کہیں بے خواب آنکھیں

ابھی خوابوں کے منظر جاگتے ہیں

 

وہ قسمت سے ادھر آیا ہے دیکھو

یہاں کس کے مقدر جاگتے ہیں

 

سعیدؔ اک تم ہی شب بیدار ہو کیا؟

یہاں دفتر کے دفتر جاگتے ہیں

٭٭٭

 

 

یوں تو جاناں کے در و بام تلک جانا ہے

ہم نے جب گھر سے نکلنا ہے بھٹک جانا ہے

 

فیض مانگا ہے تو کس سوکھے ہوئے دریا سے

جس نے بارش کے برستے ہی چھلک جانا ہے

 

ایسی جاں سوختہ گردش ہے مرے پاؤں میں

میں نہ بھٹکوں گا تو رستے نے بھٹک جانا ہے

 

ہم سے تکرار نہ کر شیشے کی مورت ہم نے

پتھروں کو رگِ احساس تلک جانا ہے

 

گر میں چاہوں تو شبِ غم نے سحر ہونے تک

کوئی رستہ مرے دروازے پہ رکھ جانا ہے

 

خاک سے مَیں ہوں مجھے خاک نشیں رہنے دو

اور ہوں گے وہ جنہیں سوئے فلک جانا ہے

 

اس نے ہنستے ہوئے کرنی ہے کوئی بات سعیدؔ

کوئی خنجر مرے سینے میں اٹک جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رکنے کا ارادہ تھا گزر جانے کی ضد ہے

کیا جانئے گردش ہے کہ دیوانے کی ضد ہے

 

ہم نے ابھی خوشبو کی کہانی نہیں کھولی

کیوں شہرِ لب و گوش کو افسانے کی ضد ہے

 

رہ رہ کے اسے دیکھنا اچھا نہیں لیکن

ہر نقش کو آنکھوں میں اتر جانے کی ضد ہے

 

اپنوں میں وفا ہے نہ وہ پہلے سے مراسم

گزرے ہوئے دن رات کو دہرانے کی ضد ہے

 

آباد ہے اجڑے ہوئے چہروں کی وفا سے

یہ شہر! کہ بستی نہیں ویرانے کی ضد ہے

 

اُس ریگِ رواں سے گُل و گلزار کی خواہش

یہ عشق نہیں ہے کسی دیوانے کی ضد ہے

 

کس رمز کا آسیب کھلا چشمِ جنوں پر

اب ہم کو سمجھنے کی نہ سمجھانے کی ضد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نذرِ غالب

 

وحشی بھی ہے، جنوں سے سروکار بھی نہیں

یہ فصلِ سر کہ لائقِ دستار بھی نہیں

 

کچھ ہم نے کھو دیا ہے کرسمِ جہاں گری

کچھ وقت معجزوں کا روادار بھی نہیں

 

کس دشتِ بے جنوں میں سلگنا تھا پاؤں کو

پرُسش کو آبلوں کی کہیں خار بھی نہیں

 

تجھ سے گریز ہے کہ خدا ہو گیا ہے تُو

ورنہ ترے وجود سے ان کار بھی نہیں

 

سب کچھ گنوا کے اپنا نشاں مل گیا مجھے

گر جیت یہ نہیں تو مری ہار بھی نہیں

 

جن دوستوں پہ تجھ کو بہت زعم ہے سعیدؔ

دشمن نہیں تو تیرے طرفدار بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ راضی نہیں طلسم کھُلے

دل بضد ہے کہ بابِ اِسم کھُلے

 

آ مری نو بہارِ کم آمیز

تجھ کو چھُو لوں کہ تیرا جسم کھُلے

 

سحرِ شب اور تیری ہمسفری

جانے کب خواب کا طلسم کھُلے

 

رات کی ریشمی تھکاوٹ، پھر

کر کوئی معجزہ کہ جسم کھُلے

 

خلقِ بے آئنہ ہے خود آشوب

خاک فتنہ گروں کی قِسم کھُلے

 

وہ تو اِک حسنِ ماورا ہے سعیدؔ

بخت والوں پہ وہ کرسم* کھُلے

۔۔۔۔۔

* کرسم: کرشمہ اور Charisma سے اجتہاد

٭٭٭

 

 

 

 

جشنِ مقتل کی ہَوا ساتھ لئے پھرتا ہے

قیصرِ وقت قضا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

امن کے نام پہ ہر سمت بہاتا ہے لہو

پرچمِ جبر و جفا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

دوست اچھا ہے وہ بے مہر نہ دشمن اچھا

ہر تعلق میں ریا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

کون سمجھے گا فریبِ رُخِ موسم کہ یہاں

حبسِ کہنہ بھی ہَوا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

روز و شب اِک نئی آفت کا گلہ رہتا تھا

اب ہمیں سیلِ بلا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

شہر میں کوئی ٹھکانے کا گنہگار نہیں

جس کو دیکھو وہ خدا ساتھ لئے پھرتا ہے

 

کچھ تو مر مٹتا ہے اُس شوخ پہ ماحول سعیدؔ

کچھ وہ خود اپنی فضا ساتھ لئے پھرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سفید گھر کی سیاہ چالوں کا سامنا ہے

سمجھ رہے تھے ہمیں اُجالوں کا سامنا ہے

 

بقا سمجھ کر فریب کھایا ہے دشمنوں سے

لہو میں ڈوبے ہوئے نوالوں کا سامنا ہے

 

خدائے وحشت کے کارخانوں سے منسلک ہے

وطن کو مقتل شناس چالوں کا سامنا ہے

 

فلک بھی نالاں، زمیں بھی ناخوش، ہَوا بھی دشمن

قدم قدم پر نئے سوالوں کا سامنا ہے

 

فصیلِ ظلمت سے فصلِ آتش کی پرورش تک

سپاہِ شب کو خود اپنی چالوں کا سامنا ہے

 

مری تباہی سے میرا دشمن الگ نہیں ہے

اُسے بھی وحشت کے سو حوالوں کا سامنا ہے

 

سعیدؔ مانا بہت دنوں سے سُلگ رہے ہیں

ہمارے کل کو مگر اُجالوں کا سامنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی جنوں، کبھی رہِ معاش میں بکھر گئے

بہم ہوئے تو پھر کسی تلاش میں بکھر گئے

 

ہمیں دیا ہے زندگی نے ہارنے کا حوصلہ

وہ اور تھے جو اِک شکستِ فاش میں بکھر گئے

 

اُٹھے تو ہم فرازِ کوہِ عشق کا غرور تھے

گِرے تو صد نشیبِ دل خراش میں بکھر گئے

 

ڈٹے رہے تو زلزلوں کے راہ میں ڈٹے رہے

بکھر گئے تو لطفِ ارتعاش میں بکھر گئے

 

بہار اب کے سال تیری فرقتیں نہ سہہ سکی

کھِلے، تو برگ و گُل تری تلاش میں بکھر گئے

 

سجے سجائے بُت پہ اب سعیدؔ کیا گماں کریں

کہ خاص زاویے تو سب تراش میں بکھر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جاگے ہیں بسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے

جاناں کی گلی سے سرد ہَوا پھر آئی ہے

 

جب گرد و بلا میں گلیوں سے گلزاروں تک

سب منظر ہو گئے زرد، ہَوا پھر آئی ہے

 

کیا مسجد کیا بازار لہو کا موسم ہے

کس قریہ سے بے درد ہَوا پھر آئی ہے

 

اک عمر تلک میلے سورج کا حبس رہا

جب سلگ اٹھا ہر فرد ہَوا پھر آئی ہے

 

کل شجر شجر دھرتی کی جن سے رکھشا تھی

اب کہاں گئے وہ مرد، ہَوا پھر آئی ہے

 

میں پال رہا تھا کاغذ کے کچھ زخم سعیدؔ

سلجھانے مِرا درد ہَوا پھر آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رنگ آنکھوں میں نئے خواب جگانے لگے ہیں

تجھ کو دیکھا ہے تو رستے نظر آنے لگے ہیں

 

دل کو پردیس کا شکوہ تو رہے گا لیکن

گھر سے نکلے ہیں تو ہم لوگ ٹھکانے لگے ہیں

 

اِک ذرا دھیان سے اے جانِ غزالاں کہ ہمیں

دل کا یہ دشت بسانے میں زمانے لگے ہیں

 

یہ بھی پندارِ محبت کا کرشمہ ہے کوئی

آئینے مجھ سے مرے زخم چھپانے لگے ہیں

 

پھر نکل آئے ہیں نفرت کی صلیبیں لے کر

لوگ پھر آگ سے کیوں آگ بجھانے لگے ہیں

 

کھائے جاتا ہے یہی دکھ مرے دشمن کو سعیدؔ

میں نے پھینکے نہیں اور تیر نشانے لگے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ٹُوٹ کر گفتگو نہ کر ایسے

ہم تو شاعر ہیں، تُو نہ کر ایسے

 

زخم تک لوگ چھین لیتے ہیں

خود کو بے آبرو نہ کر ایسے

 

کل کی آنکھوں کا قرض ہے ہم پر

روشنی کا لہو نہ کر ایسے

 

دیکھ، شہرت صلیبِ تنہا ہے

نام کی آرزو نہ کر ایسے

 

کیفِ مے ہر لہو کا ظرف نہیں

ہر کوئی ہم سبو نہ کر ایسے

 

آ، کہ درشن کی منتظر ہے بہار

اے مری لالہ رُو نہ کر ایسے

 

درد کے مستقل خلا میں سعیدؔ

فصلِ جاں بے نمو نہ کر ایسے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند قربت کی خبر لایا ہے

 

نظمیں

 

 

صحرا کا گلاب

 

تیری خوشبو سے معطر ہے مرے دل کی کتاب

اے مرے خواب کی منزل مرے صحرا کے گُلاب

آسماں صاف، زمیں سبز، ہَوا روشن ہے

دور تک تیری محبت کی فضا روشن ہے

تیرے ہونے سے ہے نیرنگِ زمانہ کا شباب

مرے صحرا کے گُلاب

تُو مسافت، تُو ہی رستہ، تُو ہی منزل کا نشاں

دل کا دریا ہے زمانوں سے تری سمت رواں

ترے ہاتھوں سے نکلتی ہے کہاں دل کی رکاب

مرے صحرا کے گُلاب

کتنی صدیاں تری خواہش نے ستایا ہے مجھے

میں نے صحراؤں کا دل چیر کے پایا ہے تجھے

مجھ پہ آساں نہیں اترا تری قربت کا ثواب

مرے صحرا کے گُلاب

رنگ و بُو سے ترے قائم ہے بہاروں کا یقیں

تُو وہ گُل ہے جسے موسم کا کوئی خوف نہیں

سچ تو یہ ہے کہ ترے حسن کے تابع ہے شباب

مرے صحرا کے گُلاب

تیری خوشبو سے معطر ہے مرے دل کی کتاب

اے مرے خواب کی منزل مرے صحرا کے گُلاب

چاند قربت کی خبر لایا ہے !

چاند قربت کی خبر لایا ہے

رات پُر شوق تماشائی کی صورت چُپ ہے

آسماں۔ شوخ ستاروں کی ردا تانے ہوئے

مائل ہے !

شہر کے مست مناروں پہ چراغاں ہے

ہماری خاطر!

چاند قربت کی خبر لایا ہے

وہی خوشبو، وہی آواز، وہی طرزِ سخن

نرم لہجے میں سُلگتی ہوئی احساس کی لو

کتنی کمیاب شرابوں کا نشہ گھُل مِل کر

اِک ملاقات کی مستی میں اُتر آیا ہے !

چاند قربت کی خبر لایا ہے

وسوسے، ہجر و زیاں، خواب و خلش

ہم کہ اِن لمحوں کی تاثیر سے

خائف بھی ہیں۔ ۔ ۔ خود رفتہ بھی

تُو مقابل ہے تو دیدار کی لذت یہ ہے

دل تو کیا روح بھی آنکھوں میں

سمٹ آئی ہے !

عشق سرشار بھی، لبریز بھی، لب بستہ بھی

شوق۔ اِک سیلِ سرِبام ہے۔ ۔ ۔

گویائی سے شیرینی تک!

٭٭٭

 

 

 

 

چاند قربت کی خبر لایا ہے !

 

بھاگ بھری دھرتی کے لیے  ایک نظم

 

سوہنی دھرتی۔ ۔ ۔ تُو کب تک برباد رہے گی؟

آزادی کی رُت میں تُو نے

کیسا مشکل جنم لیا ہے

تیرا مقدر۔ ۔ ۔ بستی بستی سُرخ اندھیرے

رستہ رستہ سرد ہوائیں

بھاگ بھری۔ ۔ ۔ تیرے آنگن میں یہ کیسا اندھیر ہوا ہے

تُو اِندس تُو گندھارا تھی

تُو جو علم کا گہوارہ تھی

اب تجھ میں بارود بھرا ہے !

سوہنی دھرتی۔ ۔ ۔ تُو کب تک برباد رہے گی؟

سوہنی دھرتی۔ ۔ ۔

تیرا دامن تنگ ہے۔ ۔ ۔ ورنہ

بجھے ہوئے ہم تیرے بالک

جب جب تیری گود سے نکلے۔ ۔ ۔ روشن ٹھہرے

اپنی منزل مغرب ہو یا کالا پانی

ہم تیری گلیوں کے پتھر

کہاں کہاں پردیس میں جا کر۔ ۔ ۔ کُندن ٹھہرے !

سوہنی دھرتی۔ ۔ ۔ آزادی کی رُت میں تُو نے

کیسا مشکل جنم لیا ہے

تیرا سب سرمایہ تجھ سے رُوٹھ گیا ہے !

سوہنی دھرتی۔ ۔ ۔ تُو کب تک برباد رہے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

برف کی مُورت

 

 

عجب تہدار مُورت ہے

حسیں بھی، دلنشیں بھی اور گریزاں بھی

کہ جس کا ظاہری پیکر

کوئی شیشے کی کم آمیز گڑیا ہے

جو اپنے فن کے مرد آلود مقتل میں

رواں سنگ و سناں سے

بچ کے جینے کی سعی میں

فاصلوں سے عمر کرتی ہے !

وہ کھل جائے۔ ۔ ۔

تو پیکر ہے کسی محتاط مٹی کا

جو کھل کے ہنس تو لیتا ہے

مگر رشتوں کے جنگل میں سدا خائف

کسی منہ زور خواہش کے مچلنے سے

کسی نامہرباں بارش میں گھلنے سے !

جو گھل جائے۔ ۔ ۔

تو وہ اک برف کی مورت

جو مدت سے کہیں اونچے پہاڑوں پر

کسی کے گرم سینے پر پگھلنے کی

تمنا میں ستادہ ہے

پگھل جائے تو اپنی ذات کے اندر

وہ اک خوشبو کا پیکر ہے

کہ جس کے مست رنگوں سے دھنک بھی فیض لیتی ہے

یہ بے خوفی، یہ رنگ و بو کی آمیزش

یہ حرف و خواب کا پارس۔ ۔ ۔ کسی صورت

گر اس کے ظاہری پیکر میں بس جائیں

تو وہ مورت

نمودِ حرف کے کعبے میں اپنے فن کی مسند پر

امر ہونے کے لائق ہے !

٭٭٭

 

 

 

عروسِ ماورا

 

(اپنی شادی پہ نوشی کے لیے ایک نظم)

 

بڑی مَنتوں سے

مری ساحرہ آج دلہن بنی ہے

کہ ہر سُو نگاہوں کے مچلے ہوئے

کیمرے کہہ رہے ہیں

ذرا مسکراؤ۔ ۔ ۔ ذرا مسکراؤ۔ ۔ ۔

مگر میرے پہلو میں سمٹی ہوئی ساحرہ

کشمکش میں پڑی صرف

آنکھوں سے مسکا رہی ہے

مری ساحرہ کو یہ ڈر ہے

اگر اُس نے ہونٹوں کے یاقوت چھیڑے

تو اُن کی چٹک سے

پسِ لب دمکتے ہوئے موتیوں کی چمک سے

سبھی کیمرے، سارے فانوس

چھَن سے بکھر جائیں گے

ہال میں ہر طرف بیل بوٹے سنور جائیں گے

شوخ بیلوں سے

پھولوں کی شہنائیاں کھِل اٹھیں گی

اِدھر تتلیاں تو اُدھر جگنوؤں کی بہاریں سجیں گی

مری ساحرہ کو یہ ڈر ہے

کہ بیباک جگنو

اگر تتلیوں کے بدن اوڑھ کر

جا بجا رقصِ مستی کریں گے

تو روہی کے آکاش پر جگمگاتی ردا سے

ستارے چٹخ جائیں گے

آج کی شب مری ساحرہ کو یقیں ہے

وہ جب مسکرائیگی رنگینیوں کی قیامت

اُتر کر رہے گی۔ ۔ ۔

مگر اِس دعاؤں سے لپٹی

گلابوں سے مہکی ہوئی شام کے اُس طرف

خاص تقریبِ دل ہے

ابھی رقصِ مستی کا لمحہ نہیں ہے۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کا رقص

 

بہت بے چین قطرہ ہوں

مجھے پھر دھوپ کی رتھ نے

زمیں کے زرد سینے سے اٹھا کر

آسماں کی نرم چاندی میں

بدلنا ہے

بہت بے چین قطرہ ہوں

مجھے پھر مضمحل مٹی کے سینے میں

اُتر کر

زندگی کا رقص کرنا ہے

مجھے اونچے درختوں سے

زمیں کی کوکھ میں پھیلے خزینوں تک

نئے جادو جگانے ہیں

بہت بے چین قطرہ ہوں

مجھے اذنِ مسافت ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

ہریالی کا جوگ

 

 

پہلے دریا رکتے ہیں

پھر منظر سے پیڑ پرندے ہٹ جاتے ہیں

رفتہ رفتہ لوگ

زمینوں کی خوشبو سے کٹ جاتے ہیں

رفتہ رفتہ

پھر میلے پانی کی طرح

تہذیب کا ہر اک عکس

کشش کھو دیتا ہے !

بربادی کی ایسی زرد لکیروں سے

تاریخ بھری ہے

لیکن ہم انسان

زمیں کی ہریالی کا جوگ۔ ۔ ۔

بھلا کب سمجھے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

Object

 

 

مرے نقاش۔ ۔ ۔ میں کب تک

ترے شہکار کی خاطر

بکھیروں خدّوخال اپنے

ترا شوقِ ہنر مجھ میں

نجانے کن گریزاں مورتوں کے زاویے

تعبیر کرتا ہے

میں خود کو ہار بھی جاؤں۔ ۔ ۔

ترا کیا۔ ۔ ۔ تُو کسی دن

اپنے فن پارے سے اکتا کر

کہیں آگے نکل جائے

یا اپنے کم تراشیدہ صنم لے کر

کسی معبد سے مل جائے۔ ۔ ۔

ترا کیا۔ ۔ ۔ اے مرے نقاش

میں کیونکر، ترے شہکار کی خاطر

بکھیروں خدّ و خال اپنے۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

زیاں

 

 

رات کے ڈھلکے پستانوں سے

لپٹے مورکھ

جاتے پل کی بربادی کو

سوچ رہے ہیں

اپنے آپ کو نوچ رہے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

کل

 

ہر تحریک

جو اپنے عہد کا جشن منا کر

مر جاتی ہے

صدیوں زندہ رہتی ہے

تم۔ ۔ ۔ مردہ گھوڑوں کو چابک

مارنے والے

ماضی کی قبروں پر

اپنے مستقبل کو وارنے والے

تُم کل کے رستے میں گرتی

دیواریں ہو

تُم کوئی تحریک نہیں !

٭٭٭

 

 

 

نویدِ صبحِ نو

 

 

اٹھو

حالات کے ظلمت کدے میں

سرد ہونے سے تو بہتر ہے

کہ ہم اس رات سے آگے

نویدِ صبحِ نو کا راستہ دیکھیں

اگر ہم سُرخرو ٹھہرے

نجانے روشنی کے کن کٹہروں میں

صلیبِ عشق کھینچیں گے

مگر ہر چاکِ روشن اب

نویدِ صبحِ نو ہے

اور سورج سے محبت میں

بدن تو راکھ ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مٹی کا سفر

 

ہوا ہری تھی، زمینوں کا بخت روشن تھا

میں جب چلا تھا تو ایک اک درخت روشن تھا

اگرچہ وحشتِ دوراں کے سو جھمیلے تھے

قدم قدم پہ یہاں جگنوؤں کے میلے تھے

بہار اپنے ٹھکانوں پہ ناز کرتی تھی

زمیں وفا کے خزانوں پہ ناز کرتی تھی

اسی فلک پہ مرے خواب کی حکومت تھی

اسی زمیں پہ ستاروں کا تخت روشن تھا

ہزار ضرب سہی دل کے آبگینے پر

بُنے ہیں خواب سدا زندگی کے سینے پر

کُجا میں خوگرِ ہجر و وصال ہو کے رہا

جہاں بھی ٹھہرا محبت مثال ہو کے رہا

پلٹ کے دیکھا ہے جب بھی وفا کے زینے سے

حسابِ شیشۂ جاں لخت لخت روشن تھا

وہی زمیں ہے، وہ منظر مگر نہیں دکھتے

کہیں پرند، کہیں وہ شجر نہیں دکھتے

ہُوا ہے اب مجھے ادراک، مَیں نہیں بدلا

بدل گئی ہے مری خاک مَیں نہیں بدلا

سُلا دیا ہے مرے درد کی ہتھیلی نے

چراغِ موسمِ ہجراں کہ سخت روشن تھا

ہوا ہری تھی، زمینوں کا بخت روشن تھا

مَیں جب چلا تھا تو ایک اک درخت روشن تھا

٭٭٭

 

 

 

NGO Parasites

 

جب جب کوئی سانحہ ٹوٹے

سجے سجائے سرد بھکاری

اپنے اپنے کاسے لے کر

چاندی کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں

غیر عنایت کے پردے میں

جال بچھاتے جاتے ہیں

درد کا نوحہ کھینچنے والے۔ ۔ ۔ سرد بھکاری

مجبوروں کی مجبوری کا سودا کر کے

اپنا اپنا دامن بھر کے

اُجلے گھروں میں سو جاتے ہیں

کوئی کوئی ایدھی ہوتا

کوئی کوئی عمران یہاں۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

پُرسہ۔ نوشی کی امی کی برسی پر

 

ذرا صبر و رضا! اے دل گرفتہ ہم سفر میری

ابھی کچھ دن لگیں گے

اس غبارِ رائیگانی کے گزرنے میں

مجھے معلوم ہے تم درد کے کس بے اماں

ساگر میں ڈوبی ہو

کسی بھی چاہنے والے کی دائم ناگہاں فرقت کا دکھ

اپنی جگہ ایک آزمائش ہے

خدا بخشے۔ تمہاری بر گزیدہ ماں

فقط اک سائباں کب تھی

تمہاری دوست تھی ہمراز تھی، مثل مسیحا تھی

وہ ماں کب تھی

ذرا صبر و رضا! اے دل گرفتہ ہم سفر میری

ابھی کچھ دن لگیں گے

اس غبارِ رائیگانی کے گزرنے میں

بجا یہ دکھ، بجا ماتم، بجا احباب کی پُرسش

بجا سب آسمان و برزخ و جنت کے افسانے

تم اپنے نرم ہاتھوں پر نظر ڈالو

پھر آئینے میں اپنے ہونٹ، آنکھیں، ناک، پیشانی

ذرا نزدیک سے دیکھو

وہ نقشِ خاص کی صورت

تمہارے حسن کے ہر زاویے میں سانس لیتی ہے

مقدس رتجگوں کی آنچ سے عشق و عبادت کی روانی تک

تمہاری ماں

تمہاری ذات کی خوشبو میں شامل ہے

تمہاری روح کے رنگوں میں روشن ہے !

ذرا صبر و رضا! اے دل گرفتہ ہم نفس میری

ابھی کچھ دن لگیں گے

اس غبارِ رائیگانی کے گزرنے میں

تمہاری ذات کی اس انجمن سے دور ہو کر اب تمہاری ماں

فلک کے دور افتادہ خلاؤں میں کہاں جائے

کہ دنیا میں ہمیشہ سے بھلے انساں

وفا پیشہ درختوں کی طرح

محبوب مٹی میں

نکھرتے اور بکھرتے ہیں !

ذرا صبر و رضا! اے دل گرفتہ ہم نفس میری

ابھی کچھ دن لگیں گے

اس غبارِ رائیگانی کے گزرنے میں۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

روما- یورپ کے بنجاروں کے نام

 

مغرب کی بے خوف سحر کے بیٹے

اکثر سینہ تان کے کہتے ہیں۔ ۔ ۔

” اب ہم ایک ہیں

سب آوازیں، سارے رنگ ہمارے ہیں

روشنیوں کی اس دنیا میں

اب کوئی سرحد کوئی دیوار نہیں ”

تم روما بنجارے

(جن کے شبھ سینوں میں

گیتوں کی دنیائیں کروٹ لیتی ہیں )

دربدری کی سرد صلیبیں سہہ سہہ کر

یہ جان گئے ہو

پیرس میں کتنے پہرے ہیں

برلن اور میلان کے دل کتنے میلے ہیں۔ ۔ ۔

عربی، افریقی اور مسلم۔ ۔ ۔

مہجوری کے سرد بھنور میں اب آئے ہیں

تم یورپ کے بنجارے سب جانتے ہو

ہر کوچے ہر شہر میں کتنی دیواریں ہیں

روشنیوں کے پیچھے کتنا اندھیارا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

اداس سائپرس

 ترک نژاد دوست ساداتؔ کے نام

 

نفرت کی شطرنج بچھا کر

اپنی دو اندھی ماؤں نے

ہم کو عجب تقسیم کیا ہے۔ ۔ ۔

(مجھ ساداتؔ کا اس دھرتی سے مان ہے، لیکن)

سچ کہتا ہوں

اپنے دیس میں اپنا کیا ہے ؟

سورج مسکاتا ہے لیکن

خواب جزیرے کے ساحل پہ

روشنیاں رک جاتی ہیں !

ایک طرف قاتل کی ضد ہے

ایک طرف بیوپاری کی۔ ۔ ۔

اپنے دیس میں اپنا کیا ہے ؟

(فروری 2008، سائپرس)

٭٭٭

 

 

 

 

بابشکا ڈال

(Babushka Doll)

 

 

لکڑی کی اک سجی سجائی گڑیا سامنے آئے

جب دیکھو ماتھے پر پھیلی آنکھوں سے مسکائے

پہلے دان کرے بابُشکا بھر بھر نین کٹورے

پھر ہر دیکھنے والی آنکھ پہ ڈالے پریت کے ڈورے

پڑھ کر اس کی پاگل آنکھیں ہر کوئی رستہ بھُولے

چاہنے والا چاہے اس کے حُسن کو بڑھ کر چھُو لے

میں بھی اس کے نین نشیلے دیکھ کے یوں للچایا

لکڑی کی وہ رنگ رنگیلی گڑیا گھر لے آیا

ایک خول میں لیکن اس کے سات نرالے بھیس

چھنک چھنک جب اس کا جسم ٹٹولو کُھلتی جائے

باہر سے کچھ اور دکھائی دے اندر سے اور

ایسی بیرن بابُشکا سے کیا کوئی نین ملائے

٭٭٭

 

 

گماں

 

تری آواز کی سردی میں لرزاں ہے

فسانہ۔ جو ترے دو ہونٹ کہنے سے

گریزاں ہیں

کہانی۔ جس کو جھٹلانے کی خواہش میں

مَیں اک پل میں دل و دنیا

فدا کر دوں

کوئی لمحہ۔ مجھے ہنس کر گوارہ ہے

قیامت جس کے بدلے میں !

تری آواز کی سردی میں لرزاں ہے

گماں ترکِ محبت کا۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

آغازِ مسافت

 

ابھی آغاز کے دن ہیں مری جاں

اس مسافت میں

ابھی خوابوں کے پارس نے ہمیں چھُو کر

بدن کے مضمحل سونے کو کندن میں بدلنا ہے

ابھی سے

گرم زخموں کی کسک میں

خاک ہو جانے سے کیا حاصل!

ابھی آغاز کے دن ہیں مری جاں

اس مسافت میں

ہمیں اس لطف کے صحرا میں

صدیوں دھوپ سہنی ہے

ابھی سے انتہا کی سرد راتوں کا

گلہ کیسا

ابھی آغاز کے دن ہیں مری جاں

اس مسافت میں

ہمیں رنگوں کی برکھا نے

گُل و گُلزار کرنا ہے

ابھی سے

دل گرفتہ تتلیوں کے زخم کیا گننا

ابھی آغاز کے دن ہیں مری جاں

اس مسافت میں۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

تُم ہو!

 

گریزاں روشنی کے راز دارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

مرے سرسبز موسم کے اشارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

جو دستک دے رہی ہے اس قیامت سے گریزاں ہیں

یہاں ہاری ہوئی نسلیں ندامت سے گریزاں ہیں

اٹھو صبحِ وفا کے جاں نثارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

یہاں سائے مسلط ہیں، یہاں سالار بے بس ہیں

فلک سے کیا شکایت ہو مرے شاہین کرگس ہیں

مری ارضِ وطن کے پاسدارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

لگی ہے نفرتوں کی آگ مکتب سے مناروں تک

عجب موجِ بلا پھیلی ہوئی ہے مرغزاروں تک

بچو اس قہر سے کل کی بہارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

تمہی تم ہو! صحیفے آسماں سے اب نہ آئیں گے

تمہارے درمیاں سے کل کے رہبر سر اٹھائیں گے

مری چشمِ ہویدا کے ستارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

مرے سرسبز موسم کے اشارو

اب تمہی ہو۔ بس تمہی تم ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

ہم سفری

 

ایک ایسا بے مثال موسم میرا ہم سفر ہے

جس کے طلسم سے

گرمیاں خوشگوار

سردیاں پُرلطف

خزاں خوبصورت

اور بہار۔ ۔ ۔ بے اندازہ ہو جاتی ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

قیاس

 

موج ساحل سے لپٹتی ہے تو مَیں سوچتا ہوں

وقت لمحوں کا وہ بے چین سمندر ہے جسے

کسی وسعت کسی گہرائی کا احساس نہیں

جسم بازار میں کھویا ہوا اک وحشی ہے

جس کو بڑھتی ہوئی تنہائی کا احساس نہیں

موج ساحل سے لپٹتی ہے تو مَیں سوچتا ہوں

جا بجا نقش ہے تُو روح کی گہرائی میں

میرے موسم مِرے دن رات کہاں میرے ہیں

عکس روشن ہے ترا خواب کے ہر منظر میں

میری آنکھوں کے جزیروں پہ ترے ڈیرے ہیں

یوں ضرورت تری ہر سانس میں اب رہتی ہے

جیسے صحراؤں کو بارش کی طلب رہتی ہے

موج ساحل سے لپٹتی ہے تو مَیں سوچتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نیلچہ۔ دریائے ہرؔو کی یاد میں

 

میرے بچھڑے ہوئے نیلچہ

آ بھمالے کے اس موڑ پر بیٹھ کر

اپنی بچھڑی ہوئی زندگی کا احاطہ کریں

اپنی کھوئی ہوئی جنتِ جاں فزا کے تصور کو تازہ کریں !

آ کہ بہتے ہوئے

صاف دریاؤں کے غوطہ زن بادشہ

کل تلک

مست فطرت ہرو کی چمکتی ہوئی تیز چاندی

ترا رزق تھی

لیکن اب کھیت میں سرسراتے ہوئے

سُست کیڑے ہدف ہیں ترا

میں کہ ارضِ ہرو اور ہزارے کا بیباک نغمہ سرا

اپنی مٹی کی خوشبو سے دنیا پرے

آج پردیس میں

بے جنوں روشنی کی لکیروں میں الجھا ہوا

محوِ آزار ہوں !

میرے بچھڑے ہوئے نیلچہ

یہ بھمالے کا اجڑا ہو موڑ

یہ رفتگانِ اشوکاؔ کو آواز دیتی ہوئی خانقہ

کتنی کھوئی ہوئی عظمتوں کا یہ عبرت کدہ

کہہ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ہروؔ روشنی کی مسافت کا ہمراز تھا

دور تک۔ ۔ ۔ اس مقدس زمیں پر

بہاروں کا دمساز تھا،

میرے بچھڑے ہوئے نیلچہ

سامنے یہ جو سہمی ہوئی جھیل ہے

اس کے ٹھہرے ہوئے پانیوں پہ لکھی داستاں۔ ۔ ۔

شہر زادوں نے اک جنتِ بے بہا لُوٹ کر

کوہساروں کی پرلی طرف

کوچۂ زرد کی وسعتوں کا سبب تو کیا۔ ۔ ۔

لیکن اپنی زمیں کے سلگتے ہوئے سادہ دل

شہرِ حاکم پہ اپنا مقدس ہرؔو وار کر بھی

ابھی تک اجالوں سے محروم ہیں۔

میرے بچھڑے ہوئے نیلچہ

آ بھمالے کے اس موڑ پر بیٹھ کر

اپنی بچھڑی ہوئی زندگی کا احاطہ کریں

اپنی کھوئی ہوئی جنتِ جاں فزا کے تصور کو تازہ کریں !

۔۔۔۔۔۔

( نیلچہ۔ نیل کنٹھ کا مقامی نام)

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ سوا یار کے مشکل سے نظر آتا ہے۔ کچھ اور غزلیں

 

کچھ سِوا یار کے مشکل سے نظر آتا ہے

کیا کریں ہم کہ ہمیں دل سے نظر آتا ہے

 

کون دیکھے اسے تصویر سے باہر لا کر

اور ہی رنگ مقابل سے نظر آتا ہے

 

بے بدل ہے رُخِ جاناں کی دلاویز چمک

صاف رشکِ مہِ کامل سے نظر آتا ہے

 

یاد کرتے ہیں نگاہوں کے جزیرے تجھ کو

جب سفینہ کوئی ساحل سے نظر آتا ہے

 

عمر کرنی ہے بہرحال ہمیں گردش میں

زندگی تیرے مسائل سے نظر آتا ہے

 

پھر صلیبوں پہ سلگنا ہے مرے لوگوں کو

شدتِ وحشتِ قاتل سے نظر آتا ہے

 

ہم تو گہرائی میں رہتے ہیں سمندر کی طرح

تُو نے دیکھا ہے جو ساحل سے نظر آتا ہے

 

چُن لیا آپ ہمیں عشق مسافت نے سعیدؔ

ورنہ یہ راستہ مشکل سے نظر آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آزارِ کُو بکُو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

میں ہوں تو جستجو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

 

مشکل ہے زندگی کی مسافت اگر تو کیا

دل مطمئن ہے تُو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

 

کچھ تیری آرزو نے مجھے دربدر کیا

کچھ اپنی جستجو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

 

کیوں کر نہ مجھ پہ موجِ سخن معجزے کرے

اک یارِ خوش گلو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

 

میں گھِر گیا ہوں وقت کے جھوٹے خداؤں میں

لیکن صدائے ہُو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

 

میں کٹ کے ہار جاؤں مگر کس طرح سعیدؔ

اجداد کا لہو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

٭٭٭

 

 

 

کس قدر تجھ سے محبت ہے تجھے کیا معلوم

ورنہ اپنی جو طبیعت ہے تجھے کیا معلوم

 

تُو بھی گردابِ محبت میں کبھی رقصاں ہو

کس قدر درد میں لذت ہے تجھے کیا معلوم

 

تُو کہ ہر بحرِ تعلق میں خدا بنتا ہے

تجھ کو بھی میری ضرورت ہے تجھے کیا معلوم

 

کتنے صحرا مرے سینے میں جنوں کھینچتے ہیں

عاشقی سخت مسافت ہے تجھے کیا معلوم

 

تُو کہ کھویا ہے کرشموں کی مسافت میں سعیدؔ

کس کو کس بات پہ حیرت ہے، تجھے کیا معلوم

٭٭٭

 

سامنے ہے نشان منزل کا

کچھ بھروسہ مگر نہیں دل کا

 

ہم ہی بیزار ہو گئے ورنہ

کیا بُرا تھا مزاج محفل کا

 

اِک طرف خواب کی مسافت ہے

اِک طرف راستہ ہے منزل کا

 

اب کسے ظرفِ آشنائی ہے

اب کسے حوصلہ ہے محفل کا

 

کس نے لنگر اٹھا لئے ہیں سعیدؔ

رنگ اترا ہوا ہے ساحل کا

٭٭٭

 

اب کہیں کوچۂ بے مہر سے نکلا جائے

دل یہ کہتا ہے کہ اس شہر سے نکلا جائے

 

کب سے پردیس کا سورج ہے سوا نیزے پر

چِلچِلاتی ہوئی دوپہر سے نکلا جائے

 

دل گرفتہ ہے تو ماحول بھی افسردہ ہے

سانس لینے کے لئے شہر سے نکلا جائے

 

اس سے پہلے کہ اذیت میں سکوں مل جائے

درد کے پھیلے ہوئے زہر سے نکلا جائے

 

جوش کہتا ہے کہ ظلمت سے لڑا جائے سعیدؔ

ہوش کہتا ہے کہ اِس قہر سے نکلا جائے

٭٭٭

 

اب کہاں دل بدست پھرتے ہیں

ہم تو عادت سے مست پھرتے ہیں

 

کیا گلہ آستینِ دشمن کا

دوست خنجر بدست پھرتے ہیں

 

کون جلوہ نما ہے کعبے میں

ہر طرف بُت پرست پھرتے ہیں

 

وہ بھی چلتا ہے روز چال نئی

ہم بھی ہر دم الست پھرتے ہیں

 

سرزمینِ سخن نہ پوچھ سعیدؔ

جا بجا خود پرست پھرتے ہیں

٭٭٭

 

 

حیرت نہیں اگر کوئی کھُل کر نہیں کھُلا

یاروں پہ اپنا آپ بھی اکثر نہیں کھُلا

 

دل وہ اجاڑ گھر ہے کہ جس کی ترے بغیر

دیوار گر گئی ہے مگر در نہیں کھُلا

 

میں بھی محبتوں کے سرابوں میں محو تھا

تجھ پر بھی میرے دل کا سمندر نہیں کھُلا

 

اب کے فریب وہ ہے کہ آشوبِ شہر میں

آنکھیں بھی خرچ ہو گئیں منظر نہیں کھُلا

 

چھوڑو سعیدؔ، فون اٹھاؤ، کھِلے ہیں پھول

اُس یارِ بے وفا کو بلاؤ کھِلے ہیں پھول

 

 

 

 

پیڑوں پہ چھا رہی ہے عجب نرمیِ نشاط

کم کم ہے ٹہنیوں کا تناؤ، کھِلے ہیں پھول

 

وہ گُل نشاں کہ میرے جزیرے کی جان ہے

اُس بے خبر کو ڈھونڈ کے لاؤ کھِلے ہیں پھول

 

خوشبو کی نسبتوں سے کوئی گفتگو چلے

شعر و سخن کی بزم سجاؤ، کھِلے ہیں پھول

 

فطرت سے ہم کلام ہے جیسا مرا وجود

لَو دے رہے ہیں جسم کے گھاؤ، کھِلے ہیں پھول

 

اُس کی مٹھاس آئے تو امرت کشید ہو

ہر سو ہے رنگ و رس کا بہاؤ، کھِلے ہیں پھول

 

ہر گُل بدن رہینِ ستائش ہے پھر سعیدؔ

پھر بڑھ گیا ہے حسن کا بھاؤ کھِلے ہیں پھول

٭٭٭

 

 

 

ہر آن کھینچتے ہیں رہِ انتظارِ دوست

ہم کو صلیبِ غم سے کوئی کیا اتارے دوست

 

ہر سمت ناچتی ہیں لکیروں کی وحشتیں

نقشِ وصالِ شب ہے نہ صبحِ دیارِ دوست

 

آنکھوں میں انتظار کی شمعیں جوان ہیں

بجھنے لگے ہیں بامِ فلک پر ستارے دوست

 

پھرتے ہیں لے کے قریہ بہ قریہ محبتیں

سادہ دلانِ عشق ہیں ہم اور ہمارے دوست

 

سو وسوسے ہیں جان کو گھیرے ہوئے سعیدؔ

جاتا نہیں ہے دل سے مگر اعتبارِ دوست

٭٭٭

 

 

کیا کہے گی ہوائے سرد ہمیں

اب تو خود کھینچتا ہے درد ہمیں

 

کس ہرے خواب کی وراثت میں

مل رہی ہے زمینِ زرد ہمیں

 

ہم ہوئے مثلِ برگِ آوارہ

کر دیا زندگی نے گرد ہمیں

 

روشنی زخم سے گریزاں ہے

کس طرف لے چلا ہے درد ہمیں

 

ہم سے جاری ہے گردشِ دنیا

تُو سمجھتا ہے ایک فرد ہمیں

 

ہم کہ سورج کے ہم سفر تھے سعیدؔ

کھا گئی اک لکیرِ زرد ہمیں

٭٭٭

 

 

 

زندگی رقصِ بے جنوں ہے بس

اب تو آزار میں سکوں ہے بس

 

دل نے سو گردشیں نبھائی ہیں

اک وہ پتھر کہ جُوں کا تُوں ہے بس

 

شہرِ دل کیا تری بہار کا رنگ

تیری گلیوں میں کشتِ خوں ہے بس

 

جیسے چین آ گیا مسافت میں

ہم ہیں اور بحرِ بے سکوں ہے بس

 

عشق میں ہم انا گروں کا سعیدؔ

دل نگوں ہے، تو سر نگوں ہے بس

٭٭٭

 

کل نہ ویران علاقے ہو جائیں

جن کو آنا ہے وہ آ کے ہو جائیں

 

کب درختوں پہ خزاں اترے کب

خشک پتے بھی ہَوا کے ہو جائیں

 

تُو جو آئے اے مرے سبز خرام

پھر سے آباد علاقے ہو جائیں

 

عشق مسلک ہے بہر حال اپنا

ہم صنم کے یا خدا کے ہو جائیں

 

دل نہ لاہور سے نکلے گا سعیدؔ

اب جو ہونے ہیں دھماکے ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

مشکل کیوں ہو گئے پھر لوگ؟

چاہتے ہیں کیا آخر لوگ؟

 

اپنا آپ گنوا کر کس کو

ڈھونڈتے پھرتے ہیں پھر لوگ

 

وہ بھی لوگوں جیسا نکلا

چھوڑے جس کی خاطر لوگ

 

تیرا بُت بھی ٹوٹ گیا ہے

کس کو پوجیں کافر لوگ

 

اپنے آپ سے لڑتے لڑتے

ہار گئے ہیں شاعر لوگ

 

ہم دل اوڑھ کے ملنے والے

اور بلا کے ساحر لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

رستوں کی لکیروں میں بھٹک جاؤ مرے ساتھ

نکلے ہو تو پھر دور تلک جاؤ مرے ساتھ

 

روکو گے مئے عشق کو سینے میں کہاں تک

ہونٹوں کے پیالوں سے چھلک جاؤ مرے ساتھ

 

کلیوں کے لبوں پر ہیں محبت کے فسانے

موسم کا تقاضا ہے مہک جاؤ مرے ساتھ

 

حالات کے پنجرے سے کہیں دُور نکل کر

جذبات کے جنگل میں بھٹک جاؤ مرے ساتھ

 

باغات کے دامن سے اٹھو مثلِ بہاراں

دریاؤں کی چاندی میں چمک جاؤ مرے ساتھ

 

آمادۂ گفتار ہے صد موجۂ ریشم

بوسوں کے تلاطم میں بہک جاؤ مرے ساتھ

 

ہر عشق حکایت ہمیں دہرائے ازل تک

یوں وقت کے سینے میں دھڑک جاؤ مرے ساتھ

 

ممکن ہے یہی آگ ہمیں کیمیا کر دے

احساس کے شعلوں میں لپک جاؤ مرے ساتھ

 

آگے کہیں جانا ہے اگر دار و رسن سے

وحشت کی صلیبوں پہ لٹک جاؤ مرے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوں بھی جھُکتی نہیں اس دل کی جبیں اور کہیں

تُو نہ ہو تو کوئی تجھ سا بھی نہیں اور کہیں

 

گھر تو اک شام سرائے ہے مری دنیا میں

عمر کرتے ہیں یہاں گھر کے مکیں اور کہیں

 

دل تو ہر گام ترے کوچے کا رُخ کرتا ہے

کھینچ لیتی ہے مگر ہم کو زمیں اور کہیں

 

تجھ سے مانگے ہوئے لمحوں میں ملاقات ہوئی

کھو دیا عمر نے فرصت کا نگیں اور کہیں

 

تجھ پہ مائل ہیں تو غفلت نہ کیا کر اِتنی

ہم نہ اکتا کے نکل جائیں کہیں اور کہیں

 

وقت کی تیز لکیروں سے الجھتے ہیں سعیدؔ

لوگ اس شہر سے جاتے بھی نہیں اور کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظر نظر ہے صفِ اضطراب، چہرے دیکھ

مہک رہی ہے نئی فصلِ خواب چہرے دیکھ

 

مزاجِ شہر سے قاتل بھی ہول کھاتا ہے

لہو کا ہو کے رہے گا حساب، چہرے دیکھ

 

کہا تھا کس نے کہ اس دشتِ آشنائی میں

کتاب چہروں کے پیچھے خراب چہرے دیکھ

 

سخن کے آئینے کھولے ہیں تو نے محفل میں

سعیدؔ چاروں طرف لاجواب چہرے دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

رواں ہے موجۂ مقتل، نمو کا موسم ہے

صلیبِ وقت پہ میرے لہو کا موسم ہے

 

میں اپنے دور کے ہر نیزۂ نوا پر ہوں

مری زمین پہ میرے عدو کا موسم ہے

 

فضائیں ابر کا سامان کر رہی ہیں تو کیا

ابھی زمیں کے مقدر میں لُو کا موسم ہے

 

جو سچ کہیں تو زباں سے لہو ٹپکتا ہے

وگرنہ چاروں طرف گفتگو کا موسم ہے

 

نگارِ دل میں کئی مورتیں ہیں استادہ

درونِ حجرۂ جاں آج ہُو کا موسم ہے

 

ہم اپنی خاک سے بچھڑے ہوئے عجیب شجر

دیارِ غیر میں ہم پر نمو کا موسم ہے

 

سعیدؔ کتنی لکیریں ہیں تیرے ٹھوکر میں

قدم نہ روک ابھی جستجو کا موسم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نذرِ فرازؔ ؔ

 

نہ روز درد کے سانچوں میں ڈھال ویسے ہی

سلگ رہے ہیں مرے ماہ و سال ویسے ہی

 

سکوتِ ہجر نے دل بھی اداس کر ڈالا

پڑی تھی جسم پہ گردِ ملال ویسے ہی

 

وہ چاہتا تو محبت سے مار سکتا تھا

چلی ہے دوست نے دشمن کی چال ویسے ہی

 

کسی سے حرفِ تسلی کی کیا طلب کیجے

یہاں کوئی نہیں پُرسانِ حال ویسے ہی

 

گزر چکا ہوں تری یاد کے زمانے سے

نہ دل کی جھیل میں پتھر اُچھال ویسے ہی

 

ہمارے قرب سے وحشت بھی رم نہیں کرتی

تجھے گریز ہے جانِ غزال ویسے ہی

 

ہمی نے آگ لگائی تھی کوہساروں میں

بھڑک اٹھی نہیں بادِ شمال ویسے ہی

 

سکوں اے دل کہ بمشکل بھنور سے نکلا ہے

نہ خود کو پھر کسی مشکل میں ڈال ویسے ہی

 

مَیں اپنے آپ کو الزام دے رہا تھا سعیدؔ

ہوئے نہ لوگ مرے ہم خیال ویسے ہی

٭٭٭

 

 

 

زمانے بھر کو جو ہوتا ہے بے وفا معلوم

یہ دل اسی سے بہلتا ہے کیوں خدا معلوم

 

کوئی بھی شہر ہمیں اجنبی نہیں لگتا

قفس لکیروں کا ہوتا ہے ایک سا معلوم

 

اک اپسرا کی رفاقت میں رام ہو کر بھی

کس اضطراب میں رہتا ہے دل خدا معلوم

 

کھلی ہیں ہم پہ زمانوں کی ہجرتیں ورنہ

سعیدؔ ہم کو بھی ہے گھر کا راستہ معلوم

٭٭٭

 

 

 

نہال ہم ہیں کہ ہم سے نہال موسم ہے

تُو ہم ہمسفر ہے تو خوشبو مثال موسم ہے

 

گلی گلی تِری آمد سے حسن جاگا ہے

قدم قدم ترے دم سے غزال موسم ہے

 

لپٹ رہا ہے زمینوں سے ابرِ گرویدہ

چھُڑا نہ ہاتھ بڑا خوش وصال موسم ہے

 

نئی رتوں میں بدلتے ہیں گرد و پیش مگر

نصیبِ ارضِ وطن پائمال موسم ہے

 

سلگ رہی ہیں درختوں کی مضمحل بانہیں

ہوا کے شہر میں حرفِ سوال موسم ہے

٭٭٭

 

 

زمیں کے بس میں نہیں آسمانِ بے خبری

رواں ہے چاروں طرف اک جہانِ بے خبری

 

نہ کوئی دل کا نوا گر نہ کوئی سچ کا سفیر

قدم قدم پہ سجی ہے دکانِ بے خبری

 

کسے عطا ہو یہاں حرف کی مسیحائی

سرابِ حرف و سخن ہے زبانِ بے خبری

 

گزار کر کئی ساون بدن ہرے نہ ہوئے

سلگ رہے ہیں عجب کشتگانِ بے خبری

 

جنوں کی بات نہ جاناں کا ذکر چلتا ہے

بلا سے محوِ غزل ہے جہانِ بے خبری

 

یہاں بھی جان ہتھیلی پہ رقص کرتی ہے

اِدھر بھی دیکھ پلٹ کر اے جانِ بے خبری

 

نگاہِ سبز نئی صبح کی علامت ہے

سعیدؔ کب کے گئے رفتگانِ بے خبری

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایسے لہو ہوئے ہیں کہ ارزانیاں نہ پوچھ

ہم سے ہماری سوختہ سامانیاں نہ پوچھ

 

پھیلا ہوا چاروں طرف بے دلی کا زہر

بے موج زندگی کی فراوانیاں نہ پوچھ

 

تجھ کو گنوا کے خوش نہ تجھے پا کے مطمئن

کیا کیا لگی ہیں دل کو پریشانیاں نہ پوچھ

 

کرتا ہوں میں کشید لکیروں سے وحشتیں

کچھ میری مشکلیں مری آسانیاں نہ پوچھ

 

دل میں دھڑک رہا ہے جہانوں کا اضطراب

مجھ سے مری گلی کی پریشانیاں نہ پوچھ

 

لے دے کے خواب رختِ مسافت ہیں کچھ سعیدؔ

ورنہ ہماری بے سر و سامانیاں نہ پوچھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گلی کا سانحہ گھر کے مکینوں پر نہیں کھُلتا

نگاہیں دیکھتی ہیں درد سینوں پر نہیں کھُلتا

 

کہیں تو زہر نفرت کا ہمارے درمیاں بھی ہے

کوئی تو سانپ ہے جو آستینوں پر نہیں کھُلتا

 

یہاں کی رفعت و وسعت کشادہ دل سمجھتے ہیں

یہ کوہِ عشق ہے باریک بینوں پر نہیں کھُلتا

 

کبھی اک سانس میں غم کے زمانے بیت جاتے ہیں

کبھی اک درد کا لمحہ مہینوں پر نہیں کھُلتا

 

زمینوں کی بقا نروس بیابانوں میں لکھی ہے

جہانِ سبزہ و گُل زرد بینوں پر نہیں کھُلتا

 

سعیدؔ اک عمر تک یاروں نے قسمت آزمائی ہے

مقدر کا لکھا پھر بھی جبینوں پر نہیں کھُلتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا تیرا کیا میرا ہے

بس اک سانجھ سویرا ہے

 

تیرے رخ کا چاند نہ ہو تو

چاروں سمت اندھیرا ہے

 

درد کی آمد آمد ہے

ارمانوں نے گھیرا ہے

 

دل کے سو ارماں اور جیون

جو گی کا اک پھیرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چل رہا تھا کئی زنجیروں سے وابستہ مَیں

چھوڑ آیا ہوں تیری چاہ میں ہر رستہ مَیں

 

کر دیا عشق نے مستانہِ پرواز مجھے

اُڑ رہا ہوں ترے اطراف میں پربستہ مَیں

 

گُل بھی اظہارِ محبت کے لیے کم نکلے

چار شعروں کا اٹھا لایا ہوں گُلدستہ مَیں

 

اک طرف مسند و ایوان ترے سامنے ہیں

اک طرف میں ہوں، تہی دامن و دل بستہ مَیں

 

اب سمجھ آئے پرندوں کے مصائب مجھ کو

کٹ رہا ہے وہ شجر جس سے ہوں وابستہ مَیں

 

موسمِ گُل نے ذرا زخم سنوارے تو سعیدؔ

پھر نکل آیا محبت پہ کمر بستہ مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

سن روھی کی کہانی۔ کچھ اور نظمیں

 

سُن روھی کی رانی

 

کب تک سورج صحرا صحرا تیرا رستہ دیکھے

کب تک چاند ستارے کاٹیں لمبی لمبی راتیں !

ریت کا ذرہ ذرہ تیری خوشبو کا متوالا

کب تک اُونٹ قطاریں کھینچیں تیرے ہجر کی مالا

دھرتی اپنا رُوپ گنوا کر کس کے ناز اُٹھائے

تیری آس میں رستہ رستہ کب تک خاک اُڑائے

سُن روہی کی رانی تجھ بن روٹھ گئیں برساتیں

مان سِوا کیا حسن کی دولت کیا جھومر کیا ٹیکا

کھو گئی ہار سنگھار کی مستی، کپڑوں کا رنگ پھیکا

اجڑے اجڑے میلے سارے سُونی سُونی ہٹیاں

کسی کے ہجر میں آدھی رہ گئیں نازک نازو جٹیاں

آتا جاتا ہر موسم کرتا ہے تیری باتیں

کب تک سورج صحرا صحرا تیرا رستہ دیکھے

کب تک چاند ستارے کاٹیں لمبی لمبی راتیں !

٭٭٭

 

 

 

 

اِفتی نسیم کی یاد میں

 

 

ہر طرف موجۂ خوشبو ہے، مگر اب وہ کہاں

ذکر اُس شوخ کا ہر سُو ہے مگر اب وہ کہاں

قیس و لیلیٰ کے طرفدار نے منہ موڑ لیا

خوں فشاں دیدۂ آہُو ہے مگر اب وہ کہاں

جانے والے سے رہ و رسمِ مسیحائی تھی

تیر سینے میں ترازو ہے مگر اب وہ کہاں

راہ تکتے ہیں نگاہوں کے ستارے شب بھر

چاند نکلا ہوا آنسو ہے، مگر اب وہ کہاں

یوں تو رقصاں ہے فضاؤں میں حکایت اُس کی

اس کے اشعار کا جادو ہے، مگر اب وہ کہاں

شام افسردہ ہے اُس شخص کی فرقت میں سعیدؔ

رات بکھرا ہوا گیسو ہے، مگر اب وہ کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

تتلیاں

 

مری شیریں نے مجھ سے

تتلیاں مانگی ہیں تحفے میں

میں اپنے دور کا فرہاد

گہری سوچ میں گم ہوں۔ ۔ ۔

کہاں سے تتلیاں لاؤں ؟

نشانِ سبزہ و گُل ہے

نہ دریاؤں کی سرگوشی

یہاں حدِّ نظر تک ریت اور پتھر کا پہرہ ہے

مرے ان زرد شہروں میں

کہیں سے تتلیاں لانا

کہیں مشکل ہے جوئے شیر لانے سے۔ ۔ ۔

مری شیریں نے مجھ سے

تتلیاں مانگی ہیں تحفے میں

کہاں سے تتلیاں لاؤں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

چراغِ جنوں

 

داغِ الفت سے دامن بچائیں تو کیا

جب گریبان و دل چاک ہو بھی چکے

ہم تمنا کے شعلے بجھائیں تو کیا

عشق کی آگ میں راکھ ہو بھی چکے

زندگی خاک سے کیمیا کا سفر

درد کی روشنی اب جدھر لے چلے

کوہساروں سے صحرا تلک جس کی لو

اُس چراغِ جنوں سے ہے نسبت ہمیں

ہم کہ بے خوف مٹی کے پتلے تھے دو

عشق نے کر دیا خوبصورت ہمیں

عشق حسن و اداسی کا لمبا سفر

درد کی روشنی اب جدھر لے چلے

مجھ میں ضم ہے زمین و زماں کی کسک

تیرا ورثہ تری آتشِ زیرِ پا

کیا گلہ ضبط کا، کیا زیاں کی کسک

جب ہمیں لگ گئی روشنی کی دعا

اک عبادت ہے آشوبِ شام و سحر

درد کی روشنی اب جدھر لے چلے

٭٭٭

 

 

 

 

موجِ یاسمن

 

بہارِ دشت ہوئی، زینتِ چمن ہوئی ہے

خوشا کہ سوئے عرب موجِ یاسمن ہوئی ہے

اٹھی جو نیل کے ساحل سے موجِ آگاہی

خوشا کہ خلقتِ بیدار ہم سخن ہوئی ہے

اتر رہی ہے کھجوروں پہ روشنی کی پھوار

ندیمِ خاک ستاروں کی انجمن ہوئی ہے

بدن گرے ہیں مگر حوصلے نہیں بکھرے

نئی سحر کی مسافت بھلے کٹھن ہوئی ہے

لہو کی لو سے نئے راستوں نے کروٹ لی

نگاہِ سبز نئی صبح کی کرن ہوئی ہے

لرز رہے ہیں جو ایوانِ مرد آلودہ

صفِ حجاب سے ناہید نعرہ زن ہوئی ہے

فصیلِ خوف نے بانٹا ہُوا تھا لوگوں کو

بحال پھر سے محبت کی انجمن ہوئی ہے

خوشا کہ بازوئے قاتل کا زور ٹوٹا ہے

خوشا کہ خلعتِ شاہاں شکن شکن ہوئی ہے

عجب نہیں کہ فلسطین بھی رہائی لے

فصیلِ جبر کی تعمیر اب کٹھن ہوئی ہے

عجب نہیں کہ حصارِ حجاز بھی ٹوٹے

رضائے خلق اگر وقت کا چلن ہوئی ہے

بہارِ دشت ہوئی، زینتِ چمن ہوئی ہے

خوشا کہ سوئے عرب موجِ یاسمن ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دیوارِ گریہ پشیمان ہے

 

زاہدوں کی دعاؤں میں

اب فاختاؤں کا نوحہ نہیں

خون افشاں عقابوں کی توصیف ہے

بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے

رو رہے ہیں یہاں

کب سے دیوارِ گریہ پشیمان ہے !

رسمِ نوحہ گری، درسِ مظلومیت

خود پرستی میں ڈوبے ہوئے قاتلوں کے لیے

سر بسر خود فریبی کا سامان ہے

خون چھپتا نہیں

وقت کو دستِ قاتل کی پہچان ہے !

روز کٹتا ہے سینہ فلسطین کا

دم بدم بے اماں ارضِ لبنان ہے

اب تو بے بس خدا محوِ افسوس ہے

ایک مدت سے نادم سلیمانؑ ہے

بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے

رو رہے ہیں یہاں

کب سے دیوارِ گریہ پشیمان ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

فلسطین کے نومولود بچے کے نام

 

سن مرے چندا

تُو دیواروں کے جس دیس میں آیا ہے

صبحِ ازل سے یہاں خموشی راہِ اجل ہے

یہاں نجانے کتنے پیمبر سرد ہوئے ہیں

سانس کی پہلی سرگوشی سے رو مرے چندا

اتنے زور سے چیخ کہ تیری آہ و بکا سے

گریہ کی دیوار سے لے کر غزہ کی سہمی گلیوں تک

ظلم کی ہر بنیاد لرز کر رہ جائے !

سُن مرے چندا

قاتل تو پھر قاتل ہے

اندھیاروں کے مکر و ریا سے روشنیوں کی خاموشی تک

کون یہاں شرمندہ ہے ؟

رو مرے چندا

تیری فغاں سے

مشرق کے اونچے محلوں سے مغرب کے ایوانوں تک

اک اک پتھر جان سکے تو زندہ ہے !

سُن مرے چندا

تُو دیواروں کے جس دیس میں آیا ہے

قیدِ قفس کی تاریکی سے آزادی کی صبحِ صفا تک

بس تیری آواز ہی تیرا سرمایہ ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

بیادِ اقبال

 

 

سلگ رہے ہیں بیاباں، نگر نگر برباد

لپٹ گئی ہے مری ارضِ دل سے ریگِ عناد

جمودِ شام و سحر ہے، سرابِ جاری ہے

نہ راستہ ہے نہ کٹتی ہے درد کی میعاد

لپٹ رہا ہوں خود اپنے شرارِ پیہم سے

مرے وجود کے سب روگ ہیں مری ایجاد

بکھر رہا ہوں بچھڑ کر خمیرِ اندس سے

مرا وجود بچا ہے نہ اب مری بنیاد

نہ روشنی کی بشارت نہ انتظامِ جنوں

اٹھائی جاتی ہے اب مکتبوں سے موجِ فساد

نہ اوجِ کوہِ صفا ہے نہ بامِ چشمِ وفا

جگہ جگہ ہیں منڈیروں پہ کرگسی آباد

مٹا رہی ہے جو ہر اعتبار گلشن کا

یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد!

ہرے خواب

دریا، پربت، پھول، پرندے

جنگل، سبزہ، چرخ، چرندے۔ ۔ ۔

میں بکھرے ماحول کا وحشی

ہنستے بستے صحراؤں میں

دھرتی کے دکھ چھان رہا ہوں !

اِس کوچے سے اُس بستی تک

اِس میدان سے اُس چوٹی تک

زخموں کو پہچان رہا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

کتنے دریا سوکھ چکے ہیں ؟

 

کتنے دریا سوکھ رہے ہیں ؟

کب سے زرد ہوس کا وحشی ہریالی کو نوچ رہا ہے

دھرتی کڑیل پیڑ گنوا کر لمحہ لمحہ چیخ رہی ہے

پنکھ پکھیرو رفتہ رفتہ ہجرت میں دم توڑ رہے ہیں !

ہر سُو رینگتے شہروں کی آبادی اب وہ ظالم گھُن ہے

جس نے جنگل چاٹ لیے ہیں

اب انساں وہ ٹڈی دل ہے

جس سے صحرا بھی ڈرتے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

اِس اندھیر سے پہلے کیا تھا؟

 

اِس اندھیر سے آگے کیا ؟

دُور نہیں جب موسم اپنے محور سے ہٹ جائیں گے

دُور نہیں جب آگ اُٹھے گی سُوکھے پیاسے کھلیانوں سے

دُور نہیں جب برف کی دنیا ہستی سے مٹ جائے گی

اُٹھتا ساگر، بکھرے ساحل، غرق جزیرے۔ ۔ ۔

۱س اندھیر سے پہلے آؤ

کان لگا کر دھرتی کی فریاد سنیں !

٭٭٭

 

 

 

 

سچا جوگ ہرے سپنوں کا

 

 

سچی مالا۔ ۔ ۔

دریا، پربت، پھول، پرندے

جنگل، سبزہ، چرخ، چرندے۔ ۔ ۔

مَیں بکھرے ماحول کا وحشی

ہنستے بستے صحراؤں میں

دھرتی کے دکھ چھان رہا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

نثری نظم- ہفتے میں دو دن کی زندگی

 

اے مرے شاعر دوست

اپنے تیرہ روز و شب کی سرد لکیریں

اور ان دیکھی زنجیریں کھینچتے ہوئے

کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کون ہیں ؟

کہاں سے آئے ہیں ؟ اور کہاں جا رہے ہیں ؟

زندگی کیا ہے۔ ۔ ۔

صبح کا الارم، شیو، شاور اور چائے کے دو گھونٹ

اور بھیڑ چال!

ٹرین اسٹیشن کی طرف دوڑ

ایک سے دوسری ٹرین، چہروں کا سرد ہجوم

ایکسکیوز می، سوری، تھینک یُو۔ ۔ ۔ اور گزرتے سٹیشن

کوئی کتاب میں مگن، کوئی گیمز میں گُم

کہیں آئی فون، کہیں فیس بک، کہیں ای میل

کہیں میوزک۔ ۔ ۔ اور کوئی یہ عرصۂ برزخ

سو کر گزار رہا ہے۔

اور پھر اچانک۔ ۔ ۔ دوسری زندگی کا اسٹیشن آ جا تا ہے

دن بھر کام، کام، اور بس کام

اور پھر اچانک شام

پھر وہی بھیڑ چال

وہی نہ ختم ہونے والی سرد لکیریں

وہی ان دیکھی زنجیریں

وہی دل سوز دائرہ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

فرازؔ کے فراق میں

 

شاہِ سخن بولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

دُور سے اُس کو دیکھو تو کہُسار تھا، لیکن

اصل میں وہ یاروں کا سچا یار تھا لیکن

شام ڈھلے جب وہ رندوں سے ہنستے ہنستے

دل کی تہیں کھولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

شاہِ سخن بولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

شاہِ سخن کی محفل کا ماحول تھا امرت

اُس میٹھے جو گی کا اِک اِک بول تھا امرت

شہرِ سُخن آراستہ کر کے اپنی غزل سے

جُوں جُوں رس گھولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

شاہِ سخن بولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

خوابوں کے ہر دیس میں اُس کی دلداری تھی

اُس عاشق کی شہرِ جنوں میں سرداری تھی

جب جب قاتل کی آنکھوں میں ڈال کے آنکھیں

سرمد سچ بولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

شاہِ سخن بولا کرتا تھا، ہم سنتے تھے

٭٭٭

ماخذ اور تشکر:

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید