فہرست مضامین
- جامع عربی گرامر
- فہمِ دین کے لیے جن علومِ دینیہ سے واقفیت ضروری ہے
- اِسموں میں مفرد تثنیہ اور جمع کے اوزان کے ذریعے مختلف معانی حاصل کرنے میں علم الصرف کا اہم کردار
- صفاتِ مشبّہہ کے مختلف المعانی الفاظ بنانے میں علم الصّرف کا کردار
- اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو ظاہر کرنے والے اسموں کی تفصیلات
- تمرینات اور مشقی سوالات
- (اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی لغوی قانون کے تحت مبالغے کے اوزان پر ہیں )
- (ا للہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی لغوی قانون کے تحت صفات مشبّہہ میں سے ہیں )
- (اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے مطابق اسم تفضیل کے اوزان میں سے ہیں
- (اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے اعتبار سے اسم الفاعل کے اوزان میں سے ہیں
- ثلاثی مجرد کے ابواب سے تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کی تفصیلات
- پچھلی مثالوں کا خلاصہ اور صرفی اصطلاحات کے مطابق اُن کے نام
- مشقی سوالات اور تمرینات
قرآن فہمی کے لیے
جامع عربی گرامر
سیکھئے
حصہ دوم
ترتیب و تالیف
شیخ ابو انیس مہدی زمان بلتستانی
الدّرس الثْامِنُ
فہمِ دین کے لیے جن علومِ دینیہ سے واقفیت ضروری ہے
سبق نمبر ایک اور دو میں آپ نے پڑھ لیا ہے کہ عربی زبان کو صحیح معنوں میں سمجھ کر پڑھنے، لکھنے اور بولنے کے لیے عربی گرامر کے تمام شعبوں سے مکمّل واقفیّت ضروری ہے کیونکہ عربی گرامرسے وابستہ تمام علوم فہمِ لغت عربیّہ کے لیے روح کی حیثیّت رکھتے ہیں جن کے بغیر عربی زبان جسمِ بے جاں کی طرح ہے اِس لئے کہ ایسی حالت میں کوئی بھی عربی میں گفتگو کرنے والا زبان کی اصل نزاکت، غذائیّت اور الفاظ و مرکّبات کے اِستعمالات کے مقاصد و فلسفے سے عاری ہوتا ہے۔
دوسری جانب ہمارا دین چونکہ عربی زبان میں مکمّل طور پر مدوّن ہے قرآن کریم و احادیثِ رسولﷺدونوں عربی زبان میں محفوظ ہیں کیونکہ ہمارا رسول بھی خاندانی طور پر عربی تھے اور آپ اِمتیازی طور پر فصیح اللّسان اور بلیغ البیان اِنسان تھے جو فطری طور پر عربی زبان کے تمام ضروری اُصولوں سے آگاہ تھے آپﷺ کا اِرشادِ گرامی ہے کہ(اُوْتِیْتُ جوامِع الْکلِمِ)مجھے اللہ نے گفتگو کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے آپﷺ کا یہ اِرشاد ہمیں اپنے دین سے مکمّل واقف ہونے کے لیے عربی گرامر کے تمام ضروری اُصول و ضوابط کو جاننے کی اہمیّت کو اور زیادہ واضح کرتا ہے۔ نیز امیر المؤمنین عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کو انتہائی تاکید کے ساتھ کہا کرتے تھے (تعلّمُوا العربِیّہ فاِنّہا مِنْ دِیْنِکُمْْ)اللہ کے بندو!عربی زبان کو خوب طریقے سے سیکھو اِسلئے کہ یہ زبان تمہارے ہی دین کا ایک اہم حصّہ ہے۔
امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمانِ گرامی میں ہمارے لیئے کئی طرح کی رہنمائیاں موجود ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ عربی زبان کو ہم اِس نقطۂ نظر سے سیکھیں چونکہ ہمارا دین عربی میں مدوّن ہے۔ یہ مفہوم(تعلّمُوْا)کے سادہ معنیٰ سے حاصل ہوا چونکہ (تعلُّمٌ) کا ایک معنیٰ سیکھنا ہے اِس کے مقابلے میں (تعْلِیْمٌ) کا معنیٰ دوسرے کو سکھانا ہے۔ دوسری رہنمائی یہ ہے کہ ہم عربی زبان کو اُس کی گرامر کے اُصولوں سمیت خوب سمجھ کر سیکھیں۔ یہ مفہوم(تعلّمُوْا)کے مخصوص معنیٰ سے حاصل ہوا چونکہ( تعلُّمٌ)کا دوسرا مخصوص معنی ٰکسی بھی چیز کو خوب طریقے سے سیکھنے کے ہیں۔ اِن دونوں معانی کی وضاحت ہمارے پیارے رسولﷺ کے فرمان میں موجود ہے جو کہ صحیح مسلم کی روایت ہے (خیْرُکُمْ منْ تعلّم الْقُرْآن و علّمہٗ)اے مسلمانو! تم میں سے سب سے بہترمسلمان وہی ہیں جو قرآنِ کریم کو الفاظ و معانی سمیت خوب سمجھ کر کسی مستند اُستاد سے سیکھے اور سیکھنے کے بعد اپنے معاشرے کے اور لوگوں کو اِس کی اچھی طرح تعلیم دے۔
سبق نمبر تین میں ہم آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ دینی مسائل و احکام کی لغت شناسی کے لیے جہاں ہمیں عربی گرامر کا سیکھنا ضروری ہے وہاں یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ دینی اصطلاحات کو بخوبی جاننے کے لیے ہم چند دینی علوم سے بھی ضروری طور پر آراستہ ہوں جن کی مدد سے ہم نہایت ہی آسانی کے ساتھ اللہ اور رسولﷺ کی شرعی مرادوں کو جان کر اپنی اور امّتِ مسلمہ کی صحیح رہنمائی کا سامان کر سکیں گے ذیل میں اُن علومِ دینیہ کی تفصیلات ملاحظہ فر مائیں :۔
[۱]ناظرۂ قرآنِ کریم کو کسی ایسے مستند اُستاد سے پڑھا ہوا ہونا جو قواعدِ تجوید کے ساتھ با قاعدہ پڑھا سکتا ہوتا کہ قرآن کی تلاوت میں کسی قسم کی غلطی نہ ہو جس سے عربی زبان کی ساکھ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ لفظوں کے معانی بدل کر مرادِ الٰہی پائمال ہو سکتی ہے۔ اِس طرح کی لغوی غلطیاں دنیا کی ہر زبان میں معیوب جانی جاتی ہیں۔
[۲]ترجمۃ القرآن کو عربی گرامر اور علومِ دینیہ کے کسی ماہر اور مستند عالمِ دین کی صحیح رہنمائی کے ساتھ پڑھا ہوا ہو جو بیک وقت لغوی اور شرعی دونوں کی اِصطلاحات سے اپنے شاگرد کو فیضیاب کر سکتا ہو۔
[۳]قرآنِ کریم کی( مُحْکماتْ اور مُتشابِہاتْ آیات)سے پوری طرح آگاہ ہو۔
[۴]اِسلام کے تمام ارکا نِ اِیمان اور ارکانِ اِسلام سے مکمّل طور پر آگاہ ہو۔
[۵]اِسلام کے تمام( اوامر و نواہی)کو پہچانتا ہو۔ نیز اُن کی مطلوبہ شرعی و حکمی حیثیتوں سے بھی آگاہ ہو۔
[۶]قرآنِ کریم کی (مکّی و مدنی)آیات اور سورتوں سے واقف ہو۔
[۷]قرآنِ کریم کی تمام( منسوخ اور ناسخ )آیات کو پوری طرح جانتا ہو۔
[۸]قرآنِ کریم کی مخصوص شانِ نزول والی آیات سے پوری طرح واقف ہو۔
[۹]قرآنِ کریم کی ترتیبِ نزول سے مکمّل طور پر آگاہ ہو۔
[۱۰]قرآنِ کریم کی تکرارِ آیات کے مقاصد سے مکمّل طور پر آگاہ ہو۔
[۱۱]قرآنِ کریم اور احادیثِ رسولﷺ میں موجود الفاظ کے ( عام و خاص)(مطلق و مقیّد)(مشترک و مؤول)(صریح و کنایہ)(حقیقت و مجاز)کے خطابات سے مکمّل طور پر واقف ہو۔ نیز لغوی اور شرعی(اِصطلاحی) معانی سے بھی بخوبی آگاہ ہو۔
[۱۲]قرآنِ کریم کی عبارتوں میں موجود(تقدیم و تاخیر)کے اُسلوب اور( محذوف)الفاظ سے آگاہ ہو۔
[۱۳]قرآنِ کریم کی (مترادف، مشترک اور متضاد)عبارتوں سے پوری طرح آگاہ ہو۔
[۱۴]احادیث رسولﷺ سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔
[۱۵]تحفّظِ دین کے لیے اپنائے جانے والے اصول و ضوابط سے آگاہ ہو جن کو (قوانینِ حدیث کے نام سے جانا جاتا ہے۔
[۱۶]دشمنان اِسلام کے ہاتھوں ایجاد کردہ (موضوع روایات)سے واقف ہو جن کو دینِ اِسلام کے حسین اور شفّاف چہرے کو داغدار کرنے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔
[۱۷]سیرتِ رسولﷺ اور سیرتِ خلفائے راشدین دونوں کے تمام ادوار سے واقف ہو۔
[۱۸]خلفائے راشدین اور فقہائے صحابہ کے علاوہ بڑے بڑے تابعین کی سیرت اور اُن کے فتاویٰ سے بھی واقف ہو۔
[۱۹]احادیث منسوخہ سے بھی واقف ہو۔
[۲۰]اصطلاحات لغت عربیہ اور اِصطلاحات شریعت دونوں سے مکمل طور پر واقف ہو۔
[۲۱]عربی گرامر کے تمام شعبہ جات(علم الصرف، علم النّحو، علم البیان، علم المعانی، علم البدیع، علم القراء ات اور علم التّجوید) سے واقف ہو۔
[۲۲]بظاہر ٹکراؤ رکھنے والی تمام احادیث رسولﷺ سے واقف ہو نیز اُن احادیث کے مشترکہ یا مجموعی نتائج سے بھی آگاہ ہو۔
الدرْسُ التّاسِعُ
اِسموں میں مفرد تثنیہ اور جمع کے اوزان کے ذریعے مختلف معانی حاصل کرنے میں علم الصرف کا اہم کردار
اِنسانی معاشروں میں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مختلف المعانی الفاظ کے تعلّق سے جہاں (اِسم الفاعل، اِسم المفعول، صفت مشبہہ، اِسم الظرف، اِسم الاٰلۃ، اِسم التّفضیل، اِ سم المبالغہ، اِسم المنسوب) کے الفاظ و کلمات کی ضرورت پڑتی ہے وہاں اِسموں میں دوران گفتگو مفرد، تثنیہ، جمع کے لئے اِستعمال ہونے والے بے شمار الفاظ کی بھی ضرورت پڑتی ہے جن کو جملوں میں لائے بغیر گفتگو مکمل نہیں ہوا کرتی۔
یاد رہے کہ گفتگو اور بات چیت کے دوران( مفرد، تثنیہ جمع) کے الفاظ کے ذریعے (اشیاء، اشخاص، جگہوں، حیوانات، نباتات، جمادات کے علاوہ دنیا کی ہر مخلوق)کی عدد کو ظاہر کیا جاتا ہے اِس لحاظ سے مفرد، تثنیہ، جمع کو پہچاننا اِنتہائی ضروری ہو جاتا ہے ذیل میں مختلف مثالوں کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے جیسے :
مفرد تثنیہ جمع
بحْرٌ بحْرانِ بِحارٌ/ابْحارٌ/بُحُوْرٌ/ابْحُرٌ
کوئی ایک سمندر کوئی دو سمندر بہت سے سمندر
یمٌّ/نھرٌ یمّانِ/نھرانِ ایْمامٌ/انْہارٌ
کوئی ایک دریا کوئی دو دریائیں بہت سے دریائیں
حدِیْقۃٌ حدِیْقتانِ حدائِقُ
کوئی ایک سر سبز پارک کوئی دو سر سبز پارکیں بہت سے سر سبز پارکیں
صخْرۃٌ صخْرتانِ صخراتٌ/صُخُوْرٌ/اصْخارٌ
کوئی ایک چٹان/پہاڑی کوئی دو چٹانیں /پہاڑیاں بہت سی چٹانیں /پہاڑیاں
جبلٌ جبلانِ جِبالٌ
کوئی ایک پہاڑ کوئی دو پہاڑ بہت سے پہاڑ
تِلٌّ/تِلّۃٌ تِلّانِ/تِلّتانِ تِلالٌ/اتْلالٌ/تِلّاتٌ
کوئی ایک ٹیلہ کوئی دو ٹیلے بہت سے ٹیلے
حدبٌ حدبانِ حدائِبُ/احْدابٌ
کوئی ایک اونچی جگہ کوئی دو اونچی جگہیں بہت سی اونچی جگہیں
ثمرۃٌ/فاکِہۃٌ ثمرتانِ/فاکِہتانِ ثمراتٌ/اثْمارٌ/ثِمارٌ
کوئی ایک پھل کوئی دو پھل بہت سے پھل
شجرۃٌ شجرتانِ اشْجارٌ/شجراتٌ
کوئی ایک درخت کئی دو درخت بہت سے درخت
حُوْتٌ/سمکٌ حُوْتانِ/سمکانِ حِیْتانٌ/سِماکٌ/اسْماکٌ
کوئی ایک مچھلی کوئی دو مچھلیاں بہت سی مچھلیاں
لُؤْلُؤٌ لُؤْلُؤانِ لئالِیُِ
کوئی ایک موتی کوئی دو موتیاں بہت سے موتیاں
کِتابٌ کِتابانِ کُتُبٌ
کوئی ایک کتاب کوئی دو کتابیں بہت سی کتابیں
قِصّۃٌ قِصّتانِ قِصصٌ
کوئی ایک واقعہ کوئی دو واقعات بہت سے واقعات
مفرد سے تثنیہ اور جمع بنانے کا طریقہ
مندرجہ بالا مثالوں میں (کِتابٌ)ایک مفرد لفظ ہے جو گنتی کے لحاظ سے ایک عدد کو ظاہر کرتا ہے اگر ہم دو کتابوں کی عدد کا مفہوم لینا چاہیں تو ہم علم الصرف کے اصول کے مطابق لفظ کتاب میں رد و بدل کر کے دو کی عدد ظاہر کرنے کے لئے اس کے آخر میں (انِ)الف اور نون بڑھا کر( کِتابانِ )کہیں گے
اور اگر دو سے زیادہ کتابوں کی عددظاہر کرنا چاہیں تو یہاں پر بھی علم صرف کے اصول کے مطابق لفظ کتاب میں رد و بدل کر کے شروع والے حرف پرزیر کی حرکت کے بجائے پیش کی حرکت پڑھیں گے اور الف کو ہٹائیں گے تو تبدیلی کے بعد(کِتاب ٌ)کے بجائے (کُتُبٌ) پڑھا جائے گا۔ جس کا معنیٰ کوئی ایک کتاب کے بجائے بہت سی کتابیں بنے گا۔
اسی طرح (قلمٌ)بھی ایک مفرد لفظ ہے جو کوئی ایک قلم کا معنیٰ ظاہر کرتا ہے اس میں بھی دو قلموں کی عدد کو ظاہر کرنے کے لیے علم الصرف کے قانون کے مطابق اس کے آخر میں تبدیلی کرتے ہوئے (انِ) بڑھا کر (قلمانِ)پڑھیں گے اس صورت میں اس کا معنیٰ کوئی ایک قلم کے بجائے کوئی دو قلم بنے گا۔
اور اگر دو سے زیادہ قلموں کی عدد ظاہر کرنا چاہیں تو یہاں پر بھی علم صرف کے اصول کے مطابق لفظ(قلمٌ)میں رد و بدل کر کے شروع والے حرف پر زبر کی حرکت کے بجائے جزم کی علامت لگا کر شروع میں الف بڑھا کر پڑھیں گے تبدیلی کے بعد ((قلمٌ)کے بجائے (اقْلامٌ)پڑھا جائے گا جس کا معنیٰ کوئی ایک قلم کے بجائے بہت سے قلم بنے گا۔
اسی طرح (مُؤمِنٌ)بھی ایک مفرد لفظ ہے جو کوئی ایک ایمان دار مذکر شخص کا معنیٰ ظاہر کرتا ہے اس میں بھی کوئی دو ایمان دار مذکر شخص کا معنیٰ ظاہر کرنے کے لیے علم الصرف کے قانون کے مطابق اس کے آخر میں تبدیلی کرتے ہوئے (انِ) بڑھا کر (مُؤمِنانِ)پڑھیں گے اس صورت میں اس کا معنیٰ کوئی ایک ایمان دار مذکر شخص کے بجائے کوئی دو ایمان دار مذکر شخص بنے گا۔
اور اگر دو سے زیادہ ایمان دار مذکر اشخاص کی عدد ظاہر کرنا چاہیں تو یہاں پر بھی علم صرف کے اصول کے مطابق لفظ(مُؤمِنٌ)میں رد و بدل کر کے آخری حرف کے بعد (ون )بڑھا کر (مُؤمِنُون) پڑھیں گے جس کا معنیٰ کوئی ایک ایمان دار مذکر شخص کے بجائے بہت سے ایمان دار مذکر اشخاص بنے گا۔
اسی طرح(مُؤمِنۃٌ)بھی ایک مفرد لفظ ہے جو کوئی ایک ایمان دار مؤنث فرد کا معنیٰ ظاہر کرتا ہے اس میں بھی کوئی دو ایمان دار مؤنث افراد کا معنیٰ ظاہر کرنے کے لیے علم الصرف کے قانون کے مطابق اس کے آخر میں تبدیلی کرتے ہوئے (انِ)بڑھا کر (مُؤمِنتانِ)پڑھیں گے اس صورت میں اس کا معنیٰ کوئی ایک ایمان دار خاتون کے بجائے کوئی دو ایمان دار خواتین بنے گا
اور اگر دو سے زیادہ ایمان دار خواتین کی عدد ظاہر کرنا چاہیں تو یہاں پر بھی علم صرف کے اصول کے مطابق لفظ(مُؤمِنۃٌ) کے آخر میں (اتٌ)بڑھا کر(مُؤْمِناتٌ)پڑھیں گے جس کا معنیٰ ایک ایمان دار خاتون کے بجائے بہت سی ایمان دار خواتین بننے گا۔
یاد رہے کہ لفظ مفرد مؤنث جس کے آخر میں (ۃٌ)ہو جمع مؤنث بنانے کے لئے (اتٌ) لگا نے سے پہلے لفظ مفرد مؤنث سے (ۃٌ) کو ہٹا لیا جائے گا اور اگر کوئی لفظ مفرد مؤنث کے لئے اس (ۃٌ) کے بغیر لغت عربیہ میں استعمال ہو (جس کو مؤنث سماعی کہتے ہیں )تو آخری حرف کے بعد (اتٌ)بڑھایا جائے گا اور (ۃٌ) چونکہ پہلے سے موجود نہیں اس لئے اس کو ہٹانے کی نو بت نہیں آتی۔ جیسے :
زیْنبُ مرْیمُ کلْثُوم’ ھِنْدٌ ریْانُ یاسِمِیْنُ نرْجِسٌ مُرْضِعٌ
حامِلٌ نافِسٌ حائِضٌ عجُوْزٌ
ان سب الفاظ کی جمع مؤنث کا وزن ان میں سے ہر ایک کے آخر میں صرف(اتٌ)بڑھانے سے بنتا ہے جیسے
زیْنباتٌ مرْیمْاتٌ کُلْثُوماتٌ ھِنْداتٌ ریّاناتٌ یاسِمِیْناتٌ
نرْجِساتٌ مرْضِعاتٌ حامِلاتٌ نافِساتٌ حائِضاتٌ عجُوْزاتٌ
گزشتہ صفحات میں ہم علم الصرف کی کار کردگی سے متعلق اسموں میں لفظوں کے رد و بدل پر گفتگو کر رہے تھے اس موضوع پر تقریباً پانچ مثالوں کے ذریعے ہم آپ کی خدمت میں بنیادی طور پر روشنی ڈال چکے ہیں ہمیں امید ہے کہ ان مثالوں پر قیاس کر تے ہوئے باقی تمام اسموں میں مفرد سے تثنیہ اور جمع بنانے کا طریقہ آپ جان سکیں گے اس عنوان پر آئندہ کے اسباق میں مکمل تفصیل کے ساتھ گفتگو ہو گی ان کی مدد سے انشاء اللہ آپکی تشنگی بجھے گی۔
علم الصرف کے اصول کے مطابق اسموں میں لفظوں کے رد و بدل سے مختلف معانی حاصل کرنے کے لیے مفرد تثنیہ اور جمع کی اشکال میں اسموں کو استعمال کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے طریقے موجود ہیں ان سب طریقوں سے مکمل واقفیت رکھنا لغت عربیہ اور دینی و دنیاوی علوم و فنون کے تمام طالب علموں کے علاوہ معلمین، محققین، مفسرین، شارحین کتب، نظم و نثر کے ادیبوں، مقالہ و ناول نگاروں سب کے لئے بیحد ضروری ہے جن سے بے اعتنائی برتنا اور پہلو تہی کرنا نہ صرف حماقت ہے بلکہ اپنے اصل ہدف سے روگردانی ہے اور لغت عربیہ کی گرامر کی حکمت، فلسفہ اور مراد کی روح کے خلاف سوچی سمجھی سازش اور کھلی بغاوت ہے جس کے سایہ تلے رہ کر لغت عربیہ کی ساکھ کو بدنام کرنا ہے اور اندر خانہ دین فہمی اور استنباط احکام کا راستہ روکنے کے مترادف ہے کیونکہ لغت عربیہ کی گرامر کے اصول در اصل دین اسلام کی میراث کو تحفظ دینے کی ضمانت ہے۔
یاد رہے کہ بعض نیم ملّا اور کم علم لوگوں کا یہ کہنا بیوقوفی ہے کہ ہمارے لئے صرف قرآن و حدیث کافی ہیں ان کے علاوہ ہمیں کسی اور چیز کی کیا ضرورت ؟ سچ ہے کہ ہدایت کے لئے ہمیں صرف قرآن و حدیث کافی ہیں لیکن قرآن و حدیث کو لغوی اور اصطلاحی مفہوم کے تحت صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے ہمیں کتنے ہی دیگر معاون علوم و فنون کی سخت ضرورت ہے جن میں سے علوم لغت سرفہرست ہیں جن کی مدد سے دین فہمی کرنا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس حقیقت سے منہ موڑنے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ وہ قواعد لغت عربیہ کے بتائے ہوئے اصولوں اور لغت کے مقررہ معانی سے ہٹ کر کسی بھی قرآنی آیت یا فرمان رسولﷺ کا صرف ترجمہ کر کے دکھائیں تو ہم ان کو ان کے دعوی میں سچے اور اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ان کے من پسند اور پیشکش کے مطابق نقد انعام دینے کے لئے تیار ہیں اگر وہ اس چیلینج کو پورا نہ کر سکے تو میاں مٹھو بن کر پنجرے میں بند ہو کر چھوٹا منہ اور بڑی بات کی مصداق نہ بنیں کہ جس پر اہل علم دنیا ہنسی اڑائیں اگر ان کے دانت گنتے ہیں تو انگور کو کھٹا کہہ کر بدنام نہ کریں در اصل یہ دانت ہی انگور کھانے کے قابل نہیں کیونکہ انگور تو داناؤں کی غذا ہے۔
الدّرسُ العاشِرُ
صفاتِ مشبّہہ کے مختلف المعانی الفاظ بنانے میں علم الصّرف کا کردار
عربی زبان میں گفتگو کے دوران جہاں وقتی فاعلی معنی اپنے اندر رکھنے والے الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے ( جن کو اِسم الفاعل کہتے ہیں )وہاں پر بہت سے ایسے الفاظ کی بھی ضرورت پیش آتی ہے جن میں فاعلی صفت فطری ہوتی ہے یا مستقل اور دائمی ہوتی ہے تو اِس معنی کے حصول کے لیے علمائے لغت کی رہنمائی کے مطابق صفۃ مشبہہ کے صیغوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ مطلوبہ معنی لغوی طور پر صرف صفت مشبہہ میں موجود ہے۔
عربی زبان کی بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں وقتی فاعلی معنیٰ مطلوب ہو وہاں پر اِسم الفاعل کے الفاظ اِستعمال کئے جائیں اور جہاں پر فطری یا دائمی صفت کا معنیٰ دینے والے الفاظ مطلوب ہوں تو وہاں پر صرف اور صرف صفاتِ مشبہہ کے ہی الفاظ اِستعمال کئے جاتے ہیں علم الصرف ہمیں اِس باریک فرق سے آشنا کراتا ہے اور اِسی فرق کے ذریعے سے ہی مختلف معانی حاصل ہوتے ہیں۔ اِس معنوی فرق کو ملحوظ رکھے بغیر معنیٰ کرنا لغت اور اُس کے قوانین کے خلاف بغاوت ہے اِسم الفاعل اور صفاتِ مشبہہ کے درمیان فرق نمایاں کرنے کے لیے ذیل میں ایک خاکہ دیا جاتا ہے جس سے آپ بخوبی فرق جان سکیں گے۔
اِسم الفاعل صفاتِ مشبہہ
عاقِل۔ وقتی طور پر عقل سے کام لینے والا ایک شخص۔ (عقِیل)ایک مستقل عقلمند شخص۔
عاقِلۃ ۔ وقتی طور عقل سے کام لینے والی ایک خاتون۔ (عقِیْلۃ)ایک مستقل عقلمند خاتون۔
عاقِلانِ۔ وقتی طور پر عقل سے کام لینے والے دو اشخاص۔ (عقِیْلانِ)دو مستقل عقلمند اشخاص۔
عاقِلتانِ۔ وقتی طور پر عقل سے کام لینے والی دو خواتین۔ (عقِیلتانِ)دو مستقل عقلمند خواتین۔
عاقِلُوْن۔ وقتی طور پر عقل سے کام لینے والے لوگ۔ (عقِیْلُوْن)بہت سے مستقل عقلمند لوگ۔
عاقِلات۔ وقتی طور پر عقل سے کام لینے والی خواتین۔ (عقِیْلات)بہت سی مستقل عقلمند خواتین۔
————————————————-
اِسم الفاعل صفاتِ مشبہہ
ناصِر۔ وقتی طور پر مدد کرنے والا ایک شخص۔ (نصِیْر)ایک مستقل مددگار شخص۔
ناصِرۃٌ۔ وقتی طور پر مدد کرنے والی ایک خاتون۔ (نصِیْرۃٌ)ایک مستقل مددگار خاتون۔
ناصِرانِ۔ وقتی طور پر مدد کرنے والے دو اشخاص۔ (نصِیْرانِ)دو مستقل مددگار اشخاص۔
ناصِرتانِ۔ وقتی طور پر مدد کرنے والی دو خواتین۔ (نصِیْرتانِ)دو مستقل مددگار خواتین۔
ناصِرُوْن۔ وقتی طور پر مدد کرنے والے لوگ۔ (نصِیْرُوْن)بہت سے مستقل مددگا رلوگ۔
ناصِراتٌ۔ وقتی طور پر مدد کرنے والی خواتین۔ (نصِیْراتٌ)بہت سی مستقل مددگار خواتین۔
—————————————————
اِم الفاعل صفات مشبہہ
عاجِلٌ۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والا ایک شخص۔ (عجُوْلٌ)ایک مستقل جلد باز شخص۔
عاجِلۃٌ۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والی ایک خاتون۔ (عجوْْلۃٌ)ایک مستقل جلد باز خاتون۔
عاجِلانِ۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والے دو اشخاص۔ (عجُوْلانِ)دو مستقل جلد باز اشخاص۔
عاجِلتانِ۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والی دو خواتین۔ (عجُوْلتانِ)دو مستقل جلد باز خواتین۔
عاجِلُوْن۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والے لوگ۔ (عجُوْلُوْن)بہت سے مستقل جلد باز لوگ۔
عاجِلاتٌ۔ وقتی طور پر جلد بازی کرنے والی خواتین۔ (عجُوْلاتٌ)بہت سی مستقل جلد باز خواتین۔
یاد رہے کہ صفت مشبہہ کے تقریباً بیس سے زیادہ اوزان ہیں جو اپنے مقام پر تفصیل کے ساتھ بیان کیے جائیں گے یہاں پر ہم چند ضروری مثالیں دینے پر اکتفا کریں گے درج ذیل جملوں کے آخر میں جو الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں وہی الفاظ صفاتِ مشبہہ کے الفاظ ہیں جیسے
ماءُ السّیْلِ کدِرٌ سیلاب کا پانی ہمیشہ گدلا ہوتا ہے
السّرطاُنُ داءٌ عُضالٌ کینسردائمی لا علاج مرض ہے
الْمشْی فِیْ حرارۃ الشمْسِ صعْبٌسورج کی گرمی میں چلنا ہمیشہ دشوار ہوتا ہے
( بِرُّ الْوالِدیْنِ حسنۃٌ) ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہمیشہ نیک کام ہے
(الثّوْبُ الْوسِخُ خشِنٌ) میلا کچیلا کپڑا ہمیشہ سخت اور کھردرا ہوتا ہے
(السّمنُ دسِمٌ) گھی ہمیشہ چکنا ہوتا ہے
(التّاجِرُ الْامِیْنُ صدُوْق) دیانتدار تاجر ہمیشہ سچ گو ہوتا ہے
(الْمُخْلِصُ صدِیْقٌ) بے لوث انسان ہمیشہ سچا دوست ہوتا ہے
( اللہ ربٌّ ) اللہ مستقل طور پر اپنی سب مخلوق کو پالنے والا ہے
( طارِق عجُوْلٌ ) طارق ہمیشہ جلد باز ہے
(عدْنانُ طبِیْبٌ) عدنان مستقل ڈاکٹر ہے
(الْعسلُ حُلْوٌ) شہد دائمی میٹھا مشروب ہے
(الْحنْظلُ مُّرٌ) اندرائن کا پھل ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے
(مائُ الْبحْرِاُجاجٌ) سمندر کا پانی ہمیشہ کھارا ہوتا ہے
(مائُ الْعیْنِ عذْبٌ) چشمے کا پانی ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے
(نتِیْجۃُ الْکسْلانِ صِفْرٌ) سست انسان کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی سے خالی ہوتا ہے
( الْمُسْلِمُ شُجاعٌ والْکافِرُ جبانٌ) اسلام کا پیرو کار ہمیشہ کفر کے خلاف جرأت مند ہوتا ہے اور اسلام کا منکر ہمیشہ بزدل ہوتا ہے
( شارِبُ الْخمْرِ سکْرانٌ) شراب پینے والا ہمیشہ نشے میں رہتا ہے
(الْمُحْتلِمُ جُنُبٌ) انسان جنابت کی حالت میں ہمیشہ ناپاک ہوتا ہے
(الْمُتواضِعُ وقُوْرٌ) کسر نفسی کرنے والا اللہ اور بندوں کی نگاہ میں ہمیشہ عزت مند ہوتا ہے
(الْحسُوْدُ غضْبانُ) دوسرے کو آسودہ حال دیکھ کر جلنے والا ہمیشہ غصے میں رہتا ہے
(الْوالِدُعطُوْفٌ) باپ ہمیشہ اپنی اولاد کے حق میں مشفق ہوتا ہے
(الضّعِیْفُ تعْبانٌ) کمزور انسان ہمیشہ تھکان محسوس کرتا ہے
(الْعجُوْلُ ملُوْمٌ) جلد باز انسان ہمیشہ خود کو ملامت کرتا ہے
(الْبخِیْلُ قتُوْرٌ) کنجوس انسان ہمیشہ اپنا مال خرچ کرنے سے کتراتا ہے
(الْاُسْتاذُ نصُوْحٌ) استاد ہمیشہ شاگرد کا خیر خواہ ہوتا ہے
(الْکرِیْمُ عفُوُّ) مہربان انسان ہمیشہ دوسرے کی غلطی کو معاف کر دیا کرتا ہے
(السّمائُ زرْقاءُ) آسمان کا رنگ ہمیشہ نیلا ہوتا ہے
(الظُلْمۃُ دہْماءُ) تاریکی ہمیشہ خوفناک ہوتی ہے
(النّخْلۃُخضْراءُ) کھجور ہمیشہ سرسبز رہتا ہے
(الْغُرابُ اسْودُ) کوا ہمیشہ کالا ہوتا ہے
(الْحلِیْبُ ابْیضُ) دودھ ہمیشہ سفیدہوتا ہے
(الجذْوۃُحمْراءُ) آگ کا انگارہ ہمیشہ سرخ ہوتا ہے
(الْقبسُ احْمرُ) آگ کا انگارہ ہمیشہ سرخ ہوتا ہے
(الْحِنْطۃ سمْرائُ ) گندم کا رنگ ہمیشہ گندمی ہوتا ہے
(زہْرۃُ الزعْفرانِ صفْراءُ) گلِ زعفران کا رنگ ہمیشہ زرد ہوتا ہے
(الْمُجْتہِدُفرِحٌ) محنتی انسان ہمیشہ خوش رہتا ہے
(الْکاسِبُ حبِیْبُ اللہ ) محنت کار ہمیشہ اللہ کا دوست ہوتا ہے
( الرّضِیْعُ نوْمان’) شیر خوار بچہ اکثر سوتا رہتا ہے
(الْمُعمّرُ خبِیْرٌ) عمر رسیدہ انسان ہمیشہ تجربہ کار ہوتا ہے
(الْخبِیْرُ بصِیْرٌ) تجربہ کار انسان ہمیشہ بصیرت مند ہوتا ہے
(الصّحِیْحُ قوِیٌّ والْمرِیْضُ ضعِیْفٌ) تندرست انسان ہمیشہ توانا ہوتا ہے اور بیمار انسان ہمیشہ کمزور ہوتا ہے
(الْاحْمقُ جہُوْلٌ) بیوقوف انسان ہمیشہ انجام سے بے خبر ہوتا ہے
(الْفاسِقُ ظلُوْمٌ) نافرمان انسان ہمیشہ خود پر زیادتی کرنے والا ہوتا ہے
(الْمُطِیْعُ عزِیْزٌ) ا طاعت شعار انسان ہمیشہ ہر دلعزیز ہوتا ہے
(الْکذُوْبُ لعِیْنٌ) جھوٹا انسان ہمیشہ لعنت کا حقدار ہوتا ہے
(الصّدُوُقُ سلِیْمٌ) سچا انسا ان ہمیشہ شر سے محفوظ رہتا ہے
(ثمْرۃُ الصّبْرِ حُلْوۃٌ) صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے
(الْاِنْتِظارُلمْحۃٌ شدِیْدۃٌ) انتظار کی گھڑیاں سنگین ہوتی ہیں
(الْحدِیْدُ صُلْبٌ) لوہا ہمیشہ سخت ہوا کرتا ہے
( الْقُطْنُ لیِّنٌ) روئی ہمیشہ نرم ہوتی ہے
( الْعِنبُ حامِضٌ ) کچے انگور ہمیشہ کھٹے ہوتے ہیں
(النّظافۃُ عادۃٌ طیِّبۃٌ) صفائی سے رہنا ہمیشہ کی ایک اچھی عادت ہے
(السِّواکُ مُعْتادٌ جمِیْلٌ) مسواک کرنا ہمیشہ ایک اچھی عادت ہے
(الْمُؤْمِنُ صدُوْقٌ والْمُنافِقُ کذُوْبٌ) مو من انسان ہمیشہ سچ گو ہوتا ہے
(الْامانۃُ خُلُقٌ حسنٌ) دیانتداری ہمیشہ اچھا سلوک ہے
(الْجُوْدُ حمِیْدٌ) سخاوت ہمیشہ قابل تعریف وصف ہے
(الْاِسْلامُ دِیْنٌ سہْلٌ) اسلام ہمیشہ آسان دین ہے
(الْبرْزخُ مرْحلۃٌ صعْبۃٌ) مرنے کے بعد کا مرحلہ ہمیشہ کیلیے ایک سخت مرحلہ ہے
الدّرس الحادی عشر
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو ظاہر کرنے والے اسموں کی تفصیلات
چونکہ اِس کتاب کو ترتیب دینے کا واحد نصب العین (اللہ کے بندوں اور بندیوں کو) لغتِ عربیہ کی صحیح تفہیم کے ذریعے دینِ اِسلام کے مرکزی علوم( قرآن و احادیثِ رسولﷺ) اور اِن دونوں سے وابستگی رکھنے والے دیگر علوم سے بھی شناسا کرانا ہے اِس عظیم مقصد کو مدّ نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی با بر کت صفات کی تعلیم کو ہم نے شاملِ نصاب کیا ہے اِس عنوان کو یہاں پیش کرنے کی کئی اہم وجوہات ہیں :
[۱]
اِس عنوان میں گزشتہ اسباق سے تعلّق رکھنے والے متعدد الفاظ ہیں یہ الفاظ قرآن و حدیث دونوں میں بیشمار مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔
[۲]
اِس عنوان کا تعلّق مکمل طور پر (اِسلام کے عقیدۂ توحید سے ہے ) جس کو جاننا ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے اِس کو سمجھنے والا کبھی بھی بدعتی اور مشرک نہیں بن سکتا اِسی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے اِن اسماء الحسنیٰ کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے مسلمان کے حق میں جنّت کی خوشخبری دی ہے۔
اللہ کے رسولﷺکا ارشاد ہے :اِنّ للہِ تِسْعۃً وّتِسْعِیْن اسْمًا(مِائۃً اِلّاواحِدًا)منْ احْصاھا دخل الْجنّۃ۔ رواہُ مُسْلِمٌفِیْ بابِ الذِّکْرِ و الدُّعاءِ۔
اس حقیقت میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے بابرکت نام ہیں ان ناموں کی فضیلت اسقدر ہے کہ جو بھی مسلمان ان ناموں کو اپنا مستقل عقیدہ بنا کر ہر وقت وردِ زبان کر لے تو ایسا مسلماں ضرور جنت میں جائے گا۔
[۳]اللہ تعالیٰ کی اِن صفات کے اندر بیک وقت لغوی اور شرعی اِصطلاح کے معانی موجود ہیں جن سے واقف ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے اِن کے لغوی اور شرعی اِصطلاحی معانی سے واقف ہونے پر عقیدۂ توحید میں پختگی پیدا ہونے کی ضمانت موجود ہے
امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے اندر ذکرِ الٰہی اور دعاء کے عنوان میں بیان کیا ہے جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو دعاؤں کے ذیلی عنوان کے تحت بیان کیا ہے دونوں کتابوں میں حدیث کے راوی سیّدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اللہ کے مندرجہ ذیل تمام ذاتی اور صفاتی نام عقیدۂ توحید کے چاروں مرکزی عنوانات پر مکمل طور پر مشتمل ہیں :
[۱] اللہ ہی کل کائنات کا اکیلا خالق ہے۔
[۲]اللہ ہی پوری کائنات میں موجود سب مخلوقات پر ہر قسم کے اختیارات چلانے کا واحد حقدار ہے
[۳]اللہ ہی پوری کائنات میں موجود سب مخلوقات کی تمام ضروریات مہیا کرنے کا ذمّہ دار ہے
[۴]پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہونے کے نتیجے میں اللہ ہی سب کا معبود ہے۔
واضح رہے کہ انہی چاروں عنوانات میں سے پہلے اور دوسرے کو توحید الأسماء والصفات کہتے ہیں اور تیسرے کو توحید الربوبیۃ کہتے ہیں جبکہ چوتھے عنوان کو توحید الألوہیۃ والعبادۃ کہتے ہیں۔ ذیل میں ہم اپنے عزیز شائقین علمِ دین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے اللہ کے ہر نام کے ترجمے کے اختتام پر قوسین میں متعلقہ عنوان درج کریں گے
انشاء اللہ تعالیٰ۔
اللّٰہُ
ہر قسم کی عبادتوں کے لائق و زیبا بادشاہ (الوہیۃ)
الرّحْمانُ
دنیا میں سب مخلوق پر بے انتہا رحم و کرم کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الرّحِیْمُ
آخرت میں صرف ایمانداروں پر بے حدو حساب رحم و کرم کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْملِکُ
ہر قسم کا اختیار رکھنے والا نیز اپنی مخلوق پر ہر قسم کا اختیار چلانے والا(صفات)
الْقُدُّوْسُ
ہر قسم کی پاکیزگیوں کے لائق و زیبا(صفات)
السّلامُ
خود سلامت رہ کر دوسروں کو ہر وقت سلامت رکھنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُؤْمِنُ
ہر وقت سبکوامن و سلامتی بخشنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُہیْمِنُ
ہر وقت تمام مخلوق کی نگرانی کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْعزِیْزُ
ہر قسم کی عزت و بالا دستی رکھنے والا(صفات)
الْجبّارُ
ہر قسم کی کمی کو پورا کرنے اور مکمل بالادستی رکھنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُتکبِّرُ
سب پر اپنی بڑائی کا سکہّ منوانے کا مکمل حق رکھنے والا(صفات)
الْخالِقُ
دنیا اور آخرت کی ہر شے کو اپنے حکم سے بنانے والا(صفات)
الْبارِیُِ
موزون انداز میں تخلیق کرنے والا(صفات)
الْمُصوِّرُ
بغیر نمونے کے ہر شے کا ڈھانچہ بنانے والا(صفات)
الْغفّارُ
ہر وقت اور ہر بار بخشنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْقہّارُ
تمام سرکشوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے والا(صفات)
الْوھابُ
ہر وقت سب کچھ دے سکنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الرّزّاقُ
مخلوق کی تمام ضروریات کا بندوبست کرنے والا(ربوبیۃ)
الْفتّاحُ
ہر قسم کی جیت اور ہر قسم کی کشادگی دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْعلِیْمُ
ہر لمحہ سب کچھ جاننے والا(صفات)
الْقابِضُ
ہر چیز پر دسترس اور قبضہ رکھنے والا(صفات)
الْباسِطُ
کشادگی کے ساتھ بھر بھر کے دینے والا(ربوبیۃ)
الْخافِضُ
سرکشوں کو پوری طرح زیرو زبر کرنے والا(صفات)
الرّافِعُ
نیک لوگوں کو من پسند مقام سے نوازنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُعْطِیْ
ہر وقت جس کو چاہے نوازنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الشّکُوْرُ
ہر نیکی کی خوب قدر کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُعِزُّ
اپنے نیک بندوں کو جب اور جیسے چاہے عزت دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُذِلُّ
تمام سرکشوں کو جب اور جیسے چاہے ذلیل و خوار کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
السّمِیْعُ
ہر وقت تمام مخلوق کی بولیوں، آوازوں، اور دعاؤں کو سننے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْبصِیْرُ
بے مثال بصارت اور بصیرت کے ساتھ تمام مخلوق کی دیکھ بھال کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْحکمُ
ہر قسم کے موزوں فیصلے کر سکنے والا(صفات)
الْعدْلُ
ہمہ وقت تمام فیصلے ٹھیک انصاف کے ساتھ کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
اللّطِیْفُ
بڑا ہی باریک بین اور انتہائی لطف و کرم کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْخبِیْرُ
دنیا اور آخرت دونوں میں تمام حالات کی پوری پوری خبر رکھنے والا(صفات)
اًلْحلِیْمُ
کبھی بھی جذبات اور جلد بازی کا شکار نہ ہونے والا تحمل مزاجی کا مکمل پیکر(صفات۔ ربوبیۃ)
الْعظِیْمُ
عظمتوں کی آخری چوٹی پر فائز اور جلوہ گر ہونے والا(صفات)
الْغفُوْرُ
معاف کرنے پر آئے تو مکمل طور پر معاف کر دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْعلِیُّ
صفات اور مقام میں سب سے اونچا اور سب پر غالب رہنے والا(صفات)
الْکبِیْرُ
ہر قسم کی بڑائیوں کا سزاوار بادشاہ(صفات)
الْحفِیْظُ
اپنی تمام مخلوق کا واحد نگہبان(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُقِیْتُ
ہر ذی روح مخلوق کو مزاج اور ماحول کے مطابق روزی دینے والا(ربوبیۃ)
الْحسِیْبُ
ہر قسم کے حساب و کتاب سے مکمل آگاہ ہونے والا بادشاہ(صفات۔ ربوبیۃ)
الْجلِیْلُ
با رعب عظمتوں کا مالک بادشاہ(صفات)
الْکرِیْمُ
بے انتہا جود و سخا اور بے کراں نوازشوں والا(ربوبیۃ)
الرّقِیْبُ
ہر وقت گھات میں رہ کر اپنی ساری مخلوق کی نگرانی کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُجِیْبُ
ہر پکارنے والے کی پکار کو سن کر مناسب ردِّ عمل کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْواسِعُ
تمام خوبیوں کا بے کراں خزانہ اور عطا کرنے میں کھلے دل کا مالک(ربوبیۃ)
الْحکِیْمُ
ہر وقت اپنے قول و فعل اور پروگراموں کے مقاصد، نتائج اور انجام سے آگاہ رہنے والا(صفات)
الْودُوْدُ
خالق، مالک اور رازق ہونے کے لحاظ سے اپنی ہر مخلوق سے محبّت کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمجِیْدُ
ہر قسم کی بزرگیوں، تعریفوں اور صفات کا اہل(صفات)
الْباعِثُ
انبیاء کو بھیجنے والا نیز ہر چیز کو عدم سے وجود میں لانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الشّہِیْدُ
ہر وقت تمام مخلوق کے حالات کا بذات خود مشاہدہ کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْحقُّ
جو اپنے قول، فعل، صفات اور وجود میں بے مثال سچّا ہے (صفات)
الْوکِیْلُ
اپنی تمام مخلوق کا سرپرست، کارسازاورنگراں ہے (ربوبیۃ)
الْقوِیُّ
تمام قسم کی قوتوں کا خزانہ اور توانائیوں کا مخزن(صفات)
الْمتِیْنُ
تمام قسم کی ٹھوس طاقتوں کا مالک(صفات)
الْولِیُّ
ایمانداروں کی کامل سرپرستی کرنے والاکارساز(صفات۔ ربوبیۃ)
الْحمِیْدُ
منفرد اور یکتا ہستی جس کے سر پر ہر قسم کی تعریفات کا سہرا سجتا ہے (صفات)
الْمُبْدِیُِ
شروع سے تمام مخلوق کو بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا(صفات)
الْمُعِیْدُ
دنیا کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کر کے دکھا سکنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُحْیٖ
اسباب اور نمونے کے بغیر پیدا کر کے جیتی جاگتی زندگی دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُمِیْتُ
اسباب کے بغیر آن کے آن میں زندوں کو موت کی آغوش میں لینے والا(صفات)
الْحیُّ
سدا زندہ رہنے والا جس پر کبھی بھی فنا کے آثار بھی طاری نہ ہوں (صفات)
الْقیُّوْمُ
منظم طور پر ہمیشہ نظامِ کائنات کو چلانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْواجِدُ
تمام قسم کی قوتوں اور اپنے ہر مطلوب کو جب چاہے پا سکنے والا(صفات)
الْماجِدُ
عزتوں اور شرافتوں سے مالا مال بادشاہ(صفات)
الواحِدُ
جو اپنی ذات اور سب صفات میں یکتا ہے (صفات)
الْاحدُ
جو سچ مچ ازل سے اپنی ذات اور صفات میں یکتا چلا آ رہا ہے اور ابد تک یکتا رہے گا (صفات)
الصّمدُ
جو اپنی مخلوق کی عبادتوں کا محتاج نہیں اور اُنکی جیسی ضروریات کو اپنانے سے ہمیشہ کے لیے بے نیاز ہے (صفات)
الْقادِرُ
جو تمام قدرتوں سے آراستہ، تقدیروں کا مالک، دینے اور روکنے میں کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے (صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُقْتدِرُ
جو اپنی تمام قدرتوں میں کامل ہے اور بے انتہا قوتیں عطا کرنے والا(صفات)
الْمُقدِّمُ
نیک بندوں کو عزت دے کر آگے بڑھانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُؤخِّرُ
سرکشوں کو ذلیل کر کے پسماندہ بنا دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْاوّلُ
جو ازل اور شروع سے ہے جس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی(صفات)
الْاٰخِرُ
جو ساری دنیا فنا ہونے کے باوجود ابد اور آخر تک رہے گاجس کے لیے کوئی انتہا نہیں (صفات)
الظّاہِرُ
جو اپنی قدرتوں اور صفات کے اعتبار سے سب پر عیاں ہے (صفات)
الْباطِنُ
جس کی ذات کا دیدار دنیا میں مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے (صفات)
الْوالِیْ
جو دنیا اور آخرت دونوں میں پوری کائنات پر مکمل انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم ہے (صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُتعالِیْ
صفات اور مقام میں سب سے اونچا ہونے اور سب پر غالب رہنے کا مکمل حق رکھنے والانیزجس کو چاہے بلندیوں سے نوازنے والا(صفات۔ ربوبیہ)
الْبرُّ
نیکوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
التّوّابُ
سچی توبہ کرنے والوں کی توبہ فوراً یا وقفے کے ساتھ ضرور بضرور قبول کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمُنْتقِمُ
دنیا اور آخرت دونوں میں مجرموں کو سزا دینے کی مکمل طاقت رکھنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْعفُوُّ
معافی مانگنے والوں کی خطاؤں کو معاف کرنا بہت ہی پسند کرنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الرّؤُْفُ
بندوں کے ہدایت یافتہ ہونے کو چاہنے والاسزا پانے پر ترس کھانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
مالِکُ الْمُلْکِ
کل کائنات کا مالک دنیا اور آخرت دونوں عالم کا بادشاہ(صفات)
ذُوالْجلالِ والْاِکْرامِ
عزت اور تکریم کا حقیقی لائق(صفات)
الْْْمُقْسِطُ
سب کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کرنے اور سب کو انصاف دلانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْجامِعُ
سب بندوں کو دوبارہ زندہ کر کے میدانِ محشر میں جمع کرنے کی طاقت رکھنے والا(صفات)
الْغنِیُّ
تمام قدرتوں سے مالا مال پوری کائنات سے بے نیاز اور بے غرض بادشاہ(صفات)
الْمُغْنِیْ
اپنی مخلوق کو ہر قسم کی توانائیوں سے مالا مال کرنے اور کام آنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْمانِعُ
روکنے، محروم کرنے اور دفاع کرنے کی ہر قوت رکھنے والا(صفات)
الضّارُّ
سرکشوں اور باغیوں کو دُکھ پہنچانے اور بعضوں کو دُکھ دے کر آزمانے والا(صفات)
النّافِعُ
دین و دنیا کی بھلائیوں سے جس کو چاہے جب چاہے نوازنے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
النُّوْرُ
تابناک روشنی والا نیز دنیا کو سورج اور چاند کے ذریعے گمراہی کو نورِ ہدایت سے چمکانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْہادِیْ
خوش نصیبوں کو فلاح بہبود کے راستے اور اپنے دین کی راہ دکھانے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
الْبدِیْعُ
حیرت انگیز انداز میں کائنات اور اُس کی ہر شے کو تخلیق کرنے والا(صفات)
الْباقِیْ
کبھی بھی فنا نہ ہونے والا(صفات)
الْوارِثُ
دنیا کے فنا ہونے کے بعد بھی ہمیشہ صحیح سلامت زندہ رہنے والا(صفات)
الرّشِیْدُ
مکمل دانا، انجام سے با خبر اور ہر قسم کی بھلائیوں کا سرچشمہ(صفات)
الصّبُوْرُ
سرکشوں کی سرکشی پر عجلت کرتے ہوئے فوری سزا نہ دینے والا(صفات۔ ربوبیۃ)
تمرینات اور مشقی سوالات
[س]اللہ کے مبارک نام کتنے ہیں ؟
[س]اللہ کے مبارک نام کون کون سے ہیں ؟
[س]اللہ کے مبارک ناموں کی فضیلت بیان کریں۔
[س]اللہ کے ناموں کو بتانے والی حدیث شریف کا ترجمہ اور تشریح کریں۔
[س]اس حدیث کو صحیح تلفظ کے ساتھ زبانی یاد کریں۔
[س]اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی کا نام بتائیں۔
[س]درج بالا حدیث کس کس کتاب میں موجود ہے ؟نیز کس عنوان کے تحت ہے ؟
[س](رحْمانُ اور رحِیْمٌ)دونوں کے معنی میں فرق بتائیں۔
[س](ملِکٌ مالِکٌ مالِکُ الْمُلْکِ)تینوں الفاظ کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](سلامٌ مُؤْمِنٌ مُہیْمِنٌ) تینوں الفاظ کے معانی میں کیا فرق ہے ؟
[س](عزِیْزٌ رافِعٌمُعِزٌّکرِیْمٌکبِیْرٌمجِیْدٌ عظِیْمٌماجِدٌ)کے معانی میں باریک فرق بتائیں۔
[س](بارِیٌ مُصوِّرٌ خالِقٌ بدِیْعٌ مُبْدِیٌ مُعِیْدٌ باعِثٌ مُحْیٖ)جیسے الفاظ کے معانی میں کیا کیا فرق ہے ؟
[س]( غفّارٌ غفُوْرٌعفُوٌّصبُوْرٌحلِیْمٌ)کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](عظِیْمٌجلِیْلٌکبِیْرٌ مُتکبِّرٌ)کے معنی میں کیا فرق ہے ؟
[س]( علِیْمٌ حکِیْمٌ خبِیْرٌ بصِیْرٌ رشِیْدٌ)کے معانی مین فرق واضح کریں۔
[س]( قھارٌ جبّارٌ)کے معنی میں فرق بتائیں۔
[س](رزّاقٌوہّابٌفتّاحٌباسِطٌمُغْنِیْ مُقِیْتٌمُعْطِی)ْ کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](واحِدٌ احدٌلا شرِیْک لہٗ)کے الفاط میں معنوی فرق کریں۔
[س](قادِرٌ مُقْتدِرٌ قدِیْرٌقویٌّمتِیْنٌ)میں معنوی فرق کریں۔
[س]باقِیْ وارِثٌ اٰخِرٌ کے مابین معنوی فرق کریں۔
[س](ودُوْدٌ لطِیْفٌرؤُْفٌکرِیْمٌ ولِیٌّ) کے مابین معنوی فرق بیان کریں۔
[س](ماجِدٌمجِیْدٌحمِیْدٌ)کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](حفِیْظٌشہِیْدٌرقِیْبٌسلامٌمُؤْمِنٌمُہیْمِنٌحسِیْب ٌمُحْصِیْ)کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](حکِیْمٌحکمٌ عدْلٌ مُقْسِطٌ) میں معنوی فرق واضح کریں۔
[س](غنِیٌصمدٌ)کے مابین فرق معلوم کریں۔
[س](باعِثٌجامِعٌقیُّوْمٌ)کے معانی میں فرق بیان کریں۔
[س](والِیْ ولِیٌّمالِکٌملِکٌ)کے معانی میں فرق بیان کریں۔
اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی تفصیلات صرفی اصطلاحات کی روشنی میں ( اللہ تعالیٰ کی متضاد صفات)
(مُقدِّمٌمُؤخِّرٌ)(مُحْیٖ مُمِیْتٌ(ظاہِرٌباطِنٌ) (اوّلٌ اٰخِرٌ) (مُعِزٌّ مُذِلٌّ)(خافِضٌرافِعٌ) (مُعْطِیْ مانِعٌ)(قابِضٌباسِطٌ) (نافِعٌضارٌّ) (مُبْد یِ ٌمُعِیْدٌ)
(اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی لغوی قانون کے تحت مبالغے کے اوزان پر ہیں )
درج ذیل صفات عربی گرامر کے مطابق مبالغے کے اوزان ہیں اور جو صفات مبالغے کے اوزان میں سے نہ ہوں اُنکے معانی اللہ تعالیٰ کے حق میں مبالغے کے ہی ہوں گے لہذا اللہ کی صفات کا ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے ورنہ اللہ کی صفات میں یکتائیت کا پہلو مفقود ہو کر عام مخلوق سے مشابہت ہو گی جو کہ عقیدۂ توحید کے عین منافی اور خلاف ہے اب آپ اللہ کی صفات میں سے مبالغے کے اوزان ملاحظہ فرمائیں :۔
اللہ ۔ الرّحْمانُ ـالْغفّارُـالْوہّابُ ـالْفتّاحُ ـالْقہّارُ ـالرّزّاقُ ـالتّوّابُ ـالْجبّارُـالْقُدُّوْسُ ـالشّکُوْرُـالصّبُورـالْودُوْدُ ـالْعفُوُّ ـ الْغفُوْرُـالْقیُّومُ۔ الرّؤُْفُ
(ا للہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی لغوی قانون کے تحت صفات مشبّہہ میں سے ہیں )
ـالرّحِیْمُ ـالْعزِیْزُ ـالْعلِیْمُ ـالْمتِیْنُ ـالْحمِیْدُ ـالْولِیُّ ـالسّمِیْعُ ـاللّطِیْفُ ـالْحلِیْمُ ـالْعلِیُّ ـالْحفِیْظُ ـالْحسِیْبُ ـالْکرِیْمُ ـالْحکِیْمُ ـالْمجِیْدُ ـالشّہِیْدُ ـالْوکِیْلُ ـالْبصِیْرُ ـالْخبِیْرُ ـالْعظِیْمُ ـالْکبِیْرُ ـالْجلِیْلُ ـالرّقِیْبُ ـالْقوِیُّ ـالْغنِیُّ ـالرّشِیْدُ ـالْبدِیْعُـ۔ ملِکٌ۔ سلامٌ۔ ٌحکمٌ۔ عدْلٌ۔ حقٌّ۔ حیٌّ۔ صمدٌ۔ برٌّ۔ نُوْرٌ۔
(اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے مطابق اسم تفضیل کے اوزان میں سے ہیں
اللہ تعالیٰ کی دو صفات عربی گرامر کے مطابق اسم تفضیل کے اوزان میں سے ہیں جو کہ
(الْاوّلُ)
اور
(الْاحدُ)
(اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے اعتبار سے اسم الفاعل کے اوزان میں سے ہیں
اللہ تعالیٰ کی درج ذیل صفات عربی گرامر کے قوانین کے مطابق اسم الفاعل ثلاثی مجرد کے اوزان ہیں اور ایک صفت (مُہیْمِنٌ) رباعی مجرد کا وزن ہے
(الْقابِضُ ـالْخافِض ـالْبارِیُِ ـالْخالِقُ ـالْباسِطُ ـالرّاٖفِعُ ـالْواسِعُ ـالْباعِثُ ـالْواجِدُ ـالْواحِدُ ـالْاٰخِرُ ـالْباطِنُ ـالْماجِدُ ـالْقادِرُ ـالظّاہِرُ ـالْوالِیْ ـالْمانِعُ ـالنّافِعُ ـالْہادِیْ ـالْباقِیْ ـالْجامِعُ ـالضّارُّ ـالْوارِثُ
ثلاثی مجرد کے ابواب سے تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کی تفصیلات
اس عنوان کے تحت ہم آپ کو سب سے پہلے ایک بنیادی پہلو سے روشناس کراتے ہیں جس سے آگاہ ہوئے بغیر کوئی بھی شخص الفاظ اور معانی کے موزون اور مناسب استعمالات سے قطعاً واقف نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ :
ہم جب کسی سے گفتگو کرتے ہیں تواُس گفتگو کی نزاکت کے تعلق سے ہمیں بہت سے اسموں اور بہت سے فعلوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے اسموں کی فہرست میں بالخصوص اسم الفاعل، اسم المفعول، صفت مشبہہ، اسم التفضیل، اسم المبالغہ، ، اسم الظرف اور اسم الاٰلۃ شامل ہیں جبکہ فعلوں کی فہرست میں فعلِ ماضی، فعلِ مضارع، فعلِ امر فعل، نہی قابلِ ذکر ہیں
متذکرہ بالا اسموں اور فعلوں کے بغیر عربی زبان کیا؟ دنیا کی کسی زبان میں بھی کوئی جملہ با معنی یا مکمل نہیں ہو سکتا اِن اسموں اور فعلوں کو تشکیل دینے کے لیے اکاون(۵۱) اقسامِ مصادر میں سے کسی بھی مصدر کو لے لیں عربوں کے مروجہ استعمال کے مطابق حرکات و سکنات کی تبدیلی نیز بعض حروف کے اضافے کی مدد سے بآسانی اِن اسموں اور فعلوں کو وجود میں لایا جا سکتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لفظ کی ساخت بدلنے کے باوجود وجود میں آنے والے ہر نئے لفظ میں مصدری معنی موجود رہتا ہے مثال کے طور پر ہم ( بصارۃٌ) مصدر سے (جس کا معنی دیکھنا ہے ) ماضی معروف کے لیے پہلا بنیادی لفظ(بصر)تشکیل دیتے ہیں (جس کا معنی ہے اُس ایک شخص نے دیکھا)
اور ماضی مجہول کے لیے پہلا بنیادی لفظ (بُصِر)تشکیل دیتے ہیں (جس کا معنی ہے )اُس ایک شخص کو دیکھا گیا)
اور مضارع معروف کے لیے پہلا بنیادی لفظ (یبْصُرُ )تشکیل دیتے ہیں (جس کا معنی ہے )وہ ایک شخص دیکھتا ہے / دیکھ رہا ہے یا دیکھے گا)
اور مضارع مجہول کے لیے پہلا بنیادی لفظ( یُبْصرُ)تشکیل دیتے ہیں (جس کا معنی ہے ) اُس ایک شخص کو دیکھا جاتا ہے /دیکھا جا رہا ہے یا دیکھا جائے گا۔
درج بالا چاروں مثالوں کے معانی پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصدرسے مختلف نئے الفاط وجود میں آنے کے باوجود مصدری معنی بدستور باقی ہے جو کہ (دیکھنا ہے )
اِسی طرح جب ہم( امر) کے لیے حکمیہ معنی لینے کی غرض سے پہلا بنیادی لفظ(اُبْصُرْ) تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )آپ دیکھئے (خطاب ایک مرد سے ہے )
اور جب ہم (نہی)کے لیے حکمِ امتناعی کا معنی لینے کی غرض سے پہلا بنیادی لفظ لائے نہی کے ساتھ(لا تبْصُرْ)تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )آپ مت دیکھئے (خطاب ایک مرد سے ہے۔
معلوم ہوا کہ (امرو نہی کی دونوں مثالوں میں بھی الفاظ بدلنے کے باوجود مصدری معنی نہیں بدلا۔
فعلوں کی طرح اسموں میں بھی مصدر سے وجود میں آنے والے لفظوں میں مصدری معنی باقی رہا کرتا ہے مثال کے طور پر:
جب ہم (بصارۃٌ)مصدر سے دیکھنے کا عمل کرنے والے کی نشاندہی کرنے کے لیے پہلا بنیادی لفظ (باصِرٌ)تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )دیکھنے والا(خطاب ایک مرد سے ہے )
اور دیکھی گئی کسی چیز کی نشاندہی کرنے کے لیے پہلا بنیادی لفظ(مبْصُوْرٌ)تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )دیکھا گیا ایک مرد یا دیکھی گئی کوئی بھی ایک چیز)
اور دیکھنے کے ذریعے کو بتانے کے لیے پہلا بنیادی لفظ(مِبْصرٌ)تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )دیکھنے کا ایک آلہ)
اِسی طرح جب ہم کسی شخص یا کسی چیز کو دیکھنے کے مقام کی نشاندہی کرنا چاہیں تو اِس کے لیے پہلا بنیادی لفظ(مبْصرٌ)تشکیل دیں (جس کا معنی ہے )دیکھنے کا مقام
اور جب ہم کسی شخص کو دیکھنے کے عمل میں مکمل طور پر با صلاحیت قرار دینے کے لیے پہلا بنیادی لفظ (بصِیْرٌ) تشکیل دیں گے (جس کا معنی ہے )کسی شخص یا چیز کو دیکھنے میں مکمل بصیرت رکھنے والا
اور جب ہم کسی شخص کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بینا یا زیادہ صاحبِ بصیرت قرار دینا چاہیں تو اس کے لیے پہلا بنیادی لفظ(ابْصرُ) تشکیل دیں گے (جس کا معنی ہے )کسی شخص یا کسی چیز کو دیکھنے میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بصیرت رکھنے والا ایک شخص)
اور جب ہم کسی شخص کو بصیرت سے کام لینے کے معاملے میں بہت زیادہ بصیرت سے کام لینے والا ہونا قرار دینا چاہیں تو اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلا بنیادی لفظ (بصّارٌ)تشکیل دیں گے (جس کا معنی ہے ) ہر وقت خوب بصیرت سے کام لینے والا۔
درج بالا پانچ مثالوں کے معانی پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصدر سے نئے الفاظ وجود میں لانے کے باوجود سب میں مصدری معنی بدستور موجود ہے۔
پچھلی مثالوں کا خلاصہ اور صرفی اصطلاحات کے مطابق اُن کے نام
اسموں کا تعلق اگر کسی کام کے کرنے والے سے ہو تو ایسے اسموں کواسم الفاعل کہتے ہیں
عربی زبان میں اسم الفاعل کو ظاہر کرنے والے بنیادی اوزان کی تعداد کل سترہ(۱۷) ہے یہ اوزان در اصل ترازو کا کام دیتے ہیں کیونکہ ان اوزان پر عربی زبان میں اِستعمال ہونے والے تمام افعال کو تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ اِس قسم کی جانچ پرکھ کے لئے اِسموں اور فعلوں کے اندر موجود حروفِ اصلی اور زائدہ کو پہچاننا بہت ہی ضروری ہے
اِسموں میں حروفِ اصلی کو پہچاننے کے لیے چار طریقے ہیں ذیل میں اُن کی تفصیلات ملاحظہ کریں :
نمبر ۱۔ یہ ہے کہ کسی بھی لفظِ مفرد مذکر کو معیار ٹھہرایا جائے جو بنیادی طور پر حروفِ زائدہ سے خالی ہو خواہ وہ لفظ اِسمِ ثلاثی مجرّد ہو یا رباعی مجرّد ہو یا خماسی مجرّد ہو
نمبر ۲۔ یہ ہے کہ کسی بھی لفظِ مفرد مؤنث کو معیار ٹھہرایا جائے جو بنیادی طور پر حروفِ زائدہ سے خالی ہو خواہ وہ لفظ اِسمِ ثلاثی مجرّد ہو یا رباعی مجرّد ہو یا خماسی مجرّد ہو
نمبر ۳۔ یہ ہے کہ ہر لفظ کے بنیادی مادّے کو جانا جائے یہ اُصول اِسموں اور فعلوں سب کے لیے مشترک ہے
نمبر ۴۔ یہ ہے کہ درج ذیل اوزان کو معیار بنایا جائے جن کے چھ گروپ ہیں ہر گروپ کے اوزان کو خوب یاد رکھا جائے :
گروپ الف۔
اِسمِ ثلاثی مجرّد کے بارہ اوزان
اوزان کے ساتھ اُن کے موزونات(ہم وزن الفاظ) بھی دئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کے لیے زیادہ علمی اِستفادہ کا موقع ملے
اوزان موزونات اور اُن کے معانی
فعْلٌ فلْسٌ(کسی بھی ملک کا پیسہ یا سکّہ)
فرْدٌ۔ فذٌّ( کوئی بھی اکیلا شخص۔ لا وارث۔ بے یارو مددگار)
فرْقٌ(جدائی۔ دو چیزوں کے درمیان کا فاصلہ۔ بالوں کی مانگ۔ ڈر یا خوف)
خوْفٌ(ڈر۔ دہشت۔ بے چینی۔ )
حفْلٌ(اِجتماع۔ مجلس۔ نشست۔ تقریب۔ )
عدْلٌ(برابری۔ اِنصاف۔ مکمل حق۔ برابر۔ بدلا۔ معاوضہ۔ رشوت۔ بھتّہ)
عذْبٌ( میٹھا۔ میٹھا پانی۔ ذائقہ دار پانی)
حرْثٌ(کھیت۔ زمین۔ کھیتی باڑی۔ چوکیداری)
زرْع’حقْلٌ(کھیت۔ زمین۔ )
عفْشٌ(سازو سامان۔ بقچہ۔ پوٹلہ)
عرْضٌ۔ ج۔ عُرُوْضٌ۔ عِراضٌ۔ اعْراضٌ(چوڑائی جو کہ لمبائی کی ضد ہے۔ بڑا لشکر۔ بڑی فوج۔ وادی۔ ہموار زمین۔ جزا و سزا کا دن۔ حساب و کتاب پیش کرنے کا دن یعنی روزِ قیامت۔ روزِ محشر۔ ادب احترام کے ساتھ کسی ضرورت کو نکلوانے کے لیے اپیل کرنا۔ عرض کرنا)
عقْلٌ(عقل۔ سمجھ۔ دانائی)
حشْوٌ(زائد چیز۔ زائد کلام۔ تکیہ وغیرہ میں بھرنے والی اشیاء)
دلْوٌ(گہرائی سے پانی کھینچنے والا ڈول)
جفْنٌ(آنکھ کا گڑھا)
صدْرٌ(سینہ۔ دل۔ کسی بھی چیز کا درمیان کا حصہ۔ سامنے کی سمت۔ شروع یا آغاز)
ظہْرٌ(سواری۔ پیٹھ کا حصہ۔ پشت۔ پیچھے کا رخ۔ کمر)
ذنْبٌ(گناہ۔ قصور۔ غلطی۔ حرج۔ عذر)
حرْبٌ(لڑائی۔ جھڑپ۔ مڈ بھیڑ)
فتْحٌ(کسی بھی بند چیز کو کھول دینا۔ شروع یا آغاز کرنا۔ جنگ یا لڑائی کے ذریعے کسی ملک یا بستی پرقبضہ کر لینا۔ دشمنوں کو شکست دینا۔ کشادگی اور آسودہ حالی پیدا کرنا۔ سوراخ کرنا)
قبْرٌ(مرے ہوئے اِنسان کو دفنانے کی جگہ۔ مردے کو محفوظ رکھنے کا زمینی تہہ خانہ)
ربْعٌ(جائیداد۔ گھر۔ محلّہ۔ لوگوں ایک گروہ۔ علف زار۔ سبزے والی زمین۔ باغیچہ)
شوْکٌ(کانٹا۔ نوکدار چیز۔ چبھنے والی شیِ۔ )
قلْبٌ(دل۔ اُلٹنا پلٹنا۔ اوندھا کرنا۔ تبدیل کرنا۔ جگہ بدلنا)
بحْرٌ(سمندر۔ دریا دلی۔ سخی۔ وسیع و عریض۔ گہرا۔ کشادہ۔ بڑا)
نہْرٌ۔ یمٌّ(دریا۔ دریا سے نکلنے والی شاخ۔ بڑی ندّی)
عیْنٌ(چشمہ۔ آنکھ۔ جاسوس۔ حرفِ عین۔ ہر چیز کا اصل ڈھانچہ)
رأسٌ(چوٹی۔ سِرا۔ سر۔ نوک)
رمْلٌ(ریت۔ تیز چال۔ بیوہ ہونا۔ جادو کا ایک کرتب)
قصْدٌ(اِرادہ۔ نیّت۔ دلی رجحان۔ کسی کی طرف رخ کرنا۔ کسی کے پاس جانا۔ جانا چاہنا۔ کسی کام کو کرنا چاہنا)
مرْؤٌ(مرد۔ آدمی۔ مذکر۔ اِنسان۔ کوئی شخص)
انْفٌ(ناک۔ )
لحْمٌ(گوشت)
فرْجٌ(شرم گاہ۔ شگاف۔ سوراخ۔ کشادگی۔ وسعت۔ )
ضخْمٌ(موٹا تازہ۔ بڑا۔ ڈھیر سارا)
عبْدٌ(اللہ کا بندہ۔ غلام۔ مخلوق۔ )
عامٌ(سال۔ بارہ مہینوں کا مجموعہ)
دہْرٌ(زمانہ۔ طویل عرصہ۔ عمر بھر)
صلْدٌ(صاف شفّاف۔ بے داغ۔ گردو غبار سے پاک)
سہْمٌ(تیر۔ حصّہ۔ حق)
جارٌ(پڑوسی۔ ہمسایہ۔ نزدیک رہنے والا۔ ساتھ رہنے والا)
بعْلٌ(شوہر۔ خاوند۔ سانڈ۔ نر۔ قدرتی نمی والی زمین)
زوْجٌجفت۔ جوڑا۔ شوہر۔ دگنا۔ ڈبل۔ قِسم)
روْحٌ(خوشبو۔ ہوا۔ روانگی۔ سفر کرنا۔ کوچ کرنا)
شوْقٌ(شوق کرنا۔ چاہنا۔ بے تاب ہونا۔ پسند)
روْعٌ(خوف۔ ڈر۔ گھبراہٹ۔ خیال رکھنا۔ ڈرانا)
شرْحٌ(کھولنا۔ واضح کرنا۔ تفصیل بیان کرنا۔ چیرنا
فہْمٌ(سمجھ بوجھ۔ دانائی۔ )
حمْدٌ(اللہ کی تعریف کرنا۔ )
مدْحٌ(مخلوق میں سے کسی کے اچھے کردار کی تعریف کرنا)
ظبْیٌ(ہرن۔ جنگل کی بکری۔ جنگل کا بکرا)
سرْجٌ(زین۔ زین سازی۔ زین لگانا۔ دیا جلانا۔ روشنی کرنا)
فقْرٌ(ناداری۔ غریبی۔ محتاجی۔ )
نجْمٌ(تارا۔ شگوفہ۔ کلی۔ درخت یا سبزے کی کونپل)
وبْرٌ(جانور کے بال۔ اون۔ پشم)
مدْرٌ(اینٹ۔ پتھر۔ بلاک۔ مٹّی)
بطْنٌ(پوشیدگی۔ اندرونی۔ پیٹ۔ زمین کا ڈھلواں حصّہ)
شعْرٌ(بال۔ اِحساس۔ پتہ لگنا)
قحْطٌ(خشک سالی۔ قحط سالی۔ معاشی تنگی۔ کمی۔ )
فشْلٌ(ناکامی۔ شکست۔ پسپائی۔ ہوا اُکھڑ جانا۔ نا اِتّفاقی)
فرْعٌشاخ۔ ٹہنی۔ برانچ۔ ذیلی چیز۔ اولاد۔ کان کی لو)
حرْفٌحرف۔ کنارہ۔ کونا۔ تبدیلی۔ کلمہ)
رمْیٌ(تیر اندازی۔ کسی بھی چیز کو پھینکنا۔ اِلزام تراشی۔ )
جرْیٌ بھاگ دوڑ۔ تیز چلنا۔ کسی مائع کا بہہ پڑنا)
سعْیٌ(کوشش۔ اِہتمام۔ دوڑنا۔ تیز چلنا۔ )
سقْیٌ(پانی پلانا۔ کھیتوں اور زمینوں کو پانی دینا۔ سیراب کرنا)
رمْزٌ(اِشارہ کرنا۔ )
بہْوٌ(بیٹھک کا کمرہ۔ صحن۔ ہال۔ مہمان خانہ۔ اِستقبالیہ روم )
فوْرٌ(جلدی۔ فوری۔ پانی پھوٹ پڑنا)
جوْرٌ(ظلم و زیادتی۔ نا اِنصافی)
حقٌّ(حصّہ۔ سچّا۔ ثبوت)
فصْلٌ(جدائی۔ موسم۔ جماعت۔ کلاس۔ فاصلہ)
بابٌ(دروازہ۔ اندر نے جانے کا راستہ۔ بیان۔ بابت۔ متعلّق)
فوْزٌ(کامیابی۔ فلاح)
لوْحٌ(تختی۔ چمک دمک۔ نمایاں ہونا۔ ظاہر ہونا)
رجْعٌ(لوٹنا۔ واپس آنا۔ پیچھے آنا)
منْعٌروکنا۔ رکاوٹ ڈالنا۔ مدد کرنا۔ طاقت اِستعمال کرنا)
حسْبٌ(گمان کرنا۔ گننا۔ شمار کرنا۔ صبر کرنا۔ ثواب سمجھنا)
نصْرٌ(مدد کرنا۔ کسی کے کام آنا۔ حفاظت کرنا)
جہْلٌ(انجان یا نا واقف ہونا۔ بے خبر ہونا یا لا علم ہونا۔ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا۔ احمقانہ رویّے سے پیش آنا)
جنْبٌ(پہلو۔ سمت۔ پاس۔ نزدیک۔ علحٰدگی اِختیار کرنا)
عظْمٌ(ہدّی۔ بڑا ہونا)
لحْدٌ(ایک خاص قسم کی قبر۔ دفنانے کی جگہ۔ دفنانا۔ گڑھا کھودنا)
شقٌّ(قبر۔ قبر کا سیدھا گڑھا۔ کسی چیز کو دو حصّوں میں کر دینا۔ پھاڑ دینا۔ مشکل میں دال دینا)
طعْمٌ(ذائقہ۔ مزہ۔ چکھنا۔ کھا لینا)
شأْنٌ(حال۔ کیفیّت۔ معاملہ۔ متعلّق)
امْرٌ(حکم دینا۔ حال۔ معاملہ۔ کام)
رعْیٌ(حفاظت کرنا۔ خیال رکھنا۔ جانوروں کو گھاس چرانے لے جانا۔ نگرانی کرنا۔ لحاظ داری کرنا۔ توجہ دینا۔ اہتمام کرنا۔ عہد و پیمان کی پاسداری کرنا)
حجٌّ(ذوالحجّہ کے مہینے میں بیت اللہ اور دیگر مقاماتِ مقدّسہ کی زیارت کرنا۔ اِرادہ کرنا۔ عرصہ یا وقت گزارنا)
صوْمٌ(رُک جانا۔ پرہیز کرنا۔ تھم جانا۔ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے رمضان المبارک کے مہینے میں یا دوسرے مہینوں میں صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور خاص طور پر تمام قسم کے گناہوں سے باز رہنا)
حذْفٌ(گرا دینا۔ مٹا دینا۔ )
خذْفٌ(کنکر مانا)
حذْقٌ(کسی فن میں مہارت ہونا۔ اپنے فن میں کمال حاصل ہونا۔ )
حلْقٌ(بال مونڈنا۔ گول مجلس بنانا۔ گول دائرہ بنانا۔ گول چکر کاٹنا)
حبْلٌ(رسّی۔ پھندا۔ ڈوری۔ باندھنے کی کوئی سی چیز۔ تعلّقات۔ پناہ۔ حفاظت۔ )
کلْبٌ(کتّا۔ )
لوْنٌ(رنگ۔ شکل و صورت۔ ۔ نشان۔ دھبّہ۔ داغ)
عوْنٌ(مدد۔ مدد کرنا۔ مددگار۔ معاون۔ ساتھی)
کأْسٌپیالا۔ گلاس۔ )
ثلْجٌ(برف۔ ٹھنڈک۔ جم جانا۔ جمی ہوئی چیز)
رعْدٌ(آسمان میں بادلوں کی گرج چمک۔ قرآن کریم کی ایک سورت کا نام۔ بادلوں کو چلانے پر مؤکل فرشتے (میکائیل) کا صفاتی نام)کانپ جانا۔ ڈر جانا)گرج چمک والے بادل)
برْقٌ(بجلی۔ چمک دمک۔ روشنی۔ آنکھوں کا روشنی دیکھ کر چندھیا جانا)
موْتٌ(مرنا۔ بے جان ہونا۔ بے حس ہونا۔ فنا ہونا۔ زندگی ختم ہونا)
رقْصٌ(ناچنا۔ رقص کرنا۔ اِترانا)
فرْخٌ(چوزہ)
حوْلٌ(سال۔ بدل جانا۔ پلٹ جانا۔ بھینگا پن۔ ٹیڑھا دیکھنا۔ اِرد گرد۔ گرد و نواح۔ آس پاس۔ طاقت)
عوْدٌ(لوٹنا۔ دوبارہ آنا۔ واپس ہونا)
عدْوٌ(دشمنی۔ دوڑنا۔ زیادتی کرنا)
عہْدٌ۔ وعْدٌ(وعدہ کرنا۔ کسی معاملے کو پکّا کرنا۔ اِقرار کرنا)
وجْعٌ(درد۔ تکلیف۔ دکھ۔ بے آرامی۔ سزا)
شجٌّ(چھیدنا۔ چیرنا۔ زخمی کرنا۔ دُکھ دینا)
جرْحٌ(اِلزام لگانا۔ تنقید کرنا۔ مجروح کرنا۔ عیب نکالنا۔ گناہ کر کے خود کو رُسوا کرنا)
فجْرٌ(رات کا آخری اور دن کا پہلا حصّہ۔ وقتِ فجر۔ پھوٹ جانا۔ پھٹ جانا۔ روشن ہونا۔ گناہ کرنا۔ فسق و فجور میں مبتلا ہونا)
عصْرٌ(وقتِ عصر۔ زمانہ۔ نچوڑنا)
شرْقٌ(طلوع ہونا۔ روشن ہونا۔ چمک جانا۔ سورج طلوع ہونے کی سمت)
غرْبٌ(غروب ہونا۔ اوجھل ہونا۔ مدّھم ہونا اندھیرا ہونا۔ سورج غروب ہونے کی سمت۔ اجنبی ہونا۔ )
بدْرٌ(چودہویں رات کا مکمل چاند۔ ماہتاب۔ جلدی کرنا۔ چمکنا دمکنا۔ روشن ہونا)
ابٌ(باپ۔ سر پرست۔ )
اخٌ(بھائی )
حمْوٌ(دیور۔ بیوی کے شوہر کا بھائی)
عمٌّ(چچا۔ باپ کا بھائی۔ عام ہونا۔ پھیل جانا۔ )
خالٌ(ماموں۔ ماں اور خالہ کا بھائی۔ نانا کا بیٹا)
طوْدٌ(پہاڑ۔ ٹیلہ۔ بند)
رأْیٌ
عدْنٌ
قوْمٌ
صبْرٌ
رطْبٌ
اجْرٌ۔ ج۔ اُجُوْرٌ(صلہ۔ بدلہ۔ معاوضہ۔ مزدوری۔ ثواب۔ اجر)
فضْلٌ
فہْدٌ
طبْلٌ
سبْتٌ
ضیْقٌ
قرْضٌ
سوْئٌ
خیْرٌ
شرٌّ
لیْلٌ
یوْمٌ
ھدْیٌ
قتْلٌ
قوْلٌ(جواب
صرْفٌ
سبْعٌ
طوْلٌ
وزْنٌ
حمْلٌ
غیْرٌ
بأْسٌ
امْنٌ
سھوٌ
کہْفٌ۔ غارٌ۔ جمع۔ کُہُوْفٌ۔ (غار۔ پناہ گاہ جو کسی پہاڑ کے اندر ہو کم از کم ایک آدمی اُس میں آرام سے اُٹھ کے بیٹھ سکتا ہو جیسے غارِ حِرا جو مکّہ مکرّمہ میں منیٰ کے مقام پر واقع ہے جس میں ہمارے رسول محمّدﷺ نبوّت سے سرفراز ہونے سے پہلے اکثر تنہائی میں رب کی عبادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اِس غار میں ایک آدمی آرام سے کھڑے ہو کر نما پڑھ سکتا ہے نیز سونے والا پاؤں پھیلا کر لیٹ سکتا ہے یہ غار ابھی بھی موجود ہے اِسی غار کے اندر عبادت میں مصروف تھے کہ آپﷺ کے پاس اللہ کا بھیجا ہوا نمائندہ جبریلِ امین علیہ السّلام تشریف لائے اور آپﷺ کو اللہ کی جانب سے ختم المرسلین کی حیثیت سے نبی و رسول بنائے جانے کا پیغام دے دیا ۔
غارِ ثور بھی ایک تاریخی غار ہے یہ غار مکّہ مکرّمہ سے کافی فاصلے پر مدینے کے راستے میں واقع ہے سفرِہجرت کے موقع پر آپﷺ اور آپ کے جاں نثار ساتھی ابو بکر صدّیقؓ دونوں نے اِس غار میں تین دن تک مسلسل قیام فرمایا تھاجس کا ذکرِ خیر قرآنِ کریم کی سورۂ توبہ میں آ چکا ہے : (اِلا تنْصُرُوْہُ فقدْ نصرہُ اللہ اِذْ اخْرجہُ الّذِیْن کفرُوْا ثانِی اثْنیْنِ اِذْ ھُما فِیْ الْغارِ اِذْ یقُوْلُ لِصاحِبِہٖ لا تحْزنْ اِنّ اللہ معنا) الایٰہ
اے مکّہ والو!اگر تم نے محمّدﷺ کی نصرت نہیں کی تو( اچھی طرح کان کھول کر سن لو! کہ اِن کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا گیا)پس اللہ نے اِن کی نصرت کر لی ہے (اُس کٹھن وقت میں )جب مکّہ کے منکرینِ اِسلام نے غار کے اندر پناہ لینے ولے دو اشخاص میں سے دوسرے کو جب وہ دونوں غار میں پناہ گزین تھے اِس مشکل وقت میں محمّدﷺ اپنے ساتھی ابو بکرؓ کو دلاسا دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ جان کی فکر مت کریں بلا شبہ اللہ کی مدد اور نصرت ہمارے ساتھ ہے۔
سراقہ بن مالک بن جعشم کا واقعہ غارِ ثور کے حوالے سے بہت ہی مشہور ہے جب وہ آپﷺ کی تلاش میں اِس غار تک پہنچ گیا تھا اور جب اُس نے آپ دونوں کی طرف میلی نگاہوں سے قدم بڑھایا تو وہ اپنے گھوڑا سمیت زمین میں دھنسنے لگا اِس پر سراقہ نے معافی مانگی تو وہ زمین سے اوپر نکل آیا لیکن وہ اپنے وعدہ پر قائم نہ رہا اور آپﷺ پر وار کرنے کے لیے آگے بڑھا تو وہی کچھ ہوا جو پہلے اُس کے ساتھ پیش آیا تھا اِس دفعہ بھی اُس نے بڑی منّتیں اور سماجتیں کیں اور معافیاں مانگی لیکن وہ اِس دفعہ بھی اپنے وعدہ پر قائم نہ رہا چنانچہ اِس دفعہ بھی وہی کچھ ہوا جو اُس کے ساتھ پہلی دو دفعوں میں پیش آیا تھا
سراقہ کو اِس واقعہ سے پورا یقین ہو گیا تھا کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اِس لئے اُس نے آپﷺ سے ایک پکّا امان نامہ حاصل کرنے کے لیے درخواست کی جس کی بنیاد پر آئندہ کسی وقت بھی اُس کو اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہواُس کی درخواست کو اللہ کے رسول نے قبول فرما لی اور ابوبکرؓ کے ہاتھ سے امان نامہ لکھوا کر اُسے دے دیا اور آپﷺ نے اپنے سچے رسول ہونے کو واضح کرنے کے لیے ایک پیشین گوئی سے بھی اُسے آگاہ کر دیا اور اُس سے مخاطب ہوتے ہوئے مختصرًا فرمایا: اے سراقہ سن لے !تیرا اُس وقت کیا رویّہ ہونا چاہئے جب قیصر و کسریٰ کی سلطنت سے حاصل شدہ سونے کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنا دئے جائیں گے
سراقہ نے امان نامہ کی پاسداری کرتے ہوئے آپﷺ اور آپ کے ساتھی کی غار میں موجودگی سے کسی کو آگاہ نہیں کیا بلکہ اُس سے جو بھی راستے میں ملتا تو اُسے بتاتا کہ کہ اِس طرف تو میں ہو کر آیا ہوں یہاں تو محمّدﷺ کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ لوگ اُس کی بات پہ یقین کر کے واپس پلٹ جاتے اور اگر کوئی یہ بتاتا کہ ساحلی راستے سے مدینے جانب دو سوار جا رہے تھے تو سراقہ اُسے بھی ٹال دیتا تھا اِس طرح بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا اور آپﷺ اپنے ساتھ کے ساتھ سلامت مدینے پہنچ گئے۔
یہ پیشین گوئی خلیفۂ ثانی حضرت عمرِ فاروقؓ کے دورِ خلافت میں پوری ہوئی جب روم کی سپر طاقت زمین بوس ہو گئی اور قیصر و کسریٰ کے سونے چاندی اور لعل و جواہرات کے بیش بہا خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلوا کر قیصر و کسریٰ کے خزانوں میں سے سونے کے کنگن اُس کے ہاتھوں میں پہنا دئے جس کا ذکر اللہ کے رسولﷺ نے تقریباً بائیس سال پہلے کیا تھا
اِس پیشین گوئی کا اصل مقصد آپﷺ کی رسالت کی صداقت اور اِسلام کا غلبہ یقینی ہونا بتانا تھا جو ہو کر رہا نہ کہ صرف دولتِ دنیا کا حصول تھا
ایک غار کا ذکر قرآن میں سورۂ کہف میں بھی آیا ہے یہ واقعہ بھی بڑا ہی سبق آموز ہے
لکجھگفدسایئیترعوقلکجھگفددسساسات۳۴۴عوولکجھگفدسالکجکھجگفدساکجگھفدسدسساسا
نفْسٌ۔ نُفُوْسٌ۔ انْفُسٌ(جسم و جان۔ دل و دماغ۔ روح جو ہر جاندار کے بدن میں ہے۔ تاکید کے لیے اِستعمال ہوتا ہے جس کا معنیٰ خود کے ہوتا ہے۔ شخص یا فرد۔ )
قرْنٌ۔ ج۔ قُرُوْنٌ(اُمّت۔ قوم۔ لوگ۔ زمانہ۔ ایک صدی یا سو سال کا عرصہ۔ سینگ۔ ملانا جوڑنا۔ سینگ مارنا)
ردْمٌ(مضبوط پردہ۔ مضبوط دیوار
نقْبٌ
مھدٌ
اھلٌ
لغْوٌ
غیٌّ
ربٌّ
غیْبٌ
خلْفٌ۔ جمع۔
خلْقٌ۔ جمع۔ خلائِقُ۔ مصدر بھی ہے (لوگ۔ مخلوق۔ کائنات کی ہر چیز۔ )
وفْدٌ۔ جمع وُفُوْدٌ۔ مصدر بھی ہے (مہمان۔ ایک سے زیادہ لوگوں کا جمع ہو کر کسی کے یہاں جا نا یا کہیں سے کسی کے یہاں آنا اِس صورت میں (علیٰ )کا صلہ ساتھ میں استعمال ہو گاجیسے :وفِد الْقوْمُ علی فُلانٍ۔ )
ازٌّ۔ مصدر ہے۔ (برانگیختہ کرنا۔ اِس کی نسبت ہنڈیا کی طرف کریں تواِس کا معنیٰ ہنڈیا کے اُبلتے ہوئے آواز نکالنے کو کہتے ہیں۔ پھُٹ پھُٹ رونے کو بھی کہتے ہیں حدیث میں (کان یبْکِی فِیْ صلاتِہْٖ کازِیْزِ الْمِرْجلِ )آتا ہے کہ اللہ کے رسول اپنی نماز میں ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز کی طرح پھُٹ پھُٹ روتے تھے۔ اگر اِس کی نسبت ہوائی جہاز یا بادلوں کی طرف کریں تو جہاز کا آواز نکالنا اور بادلوں کا کڑکنا کہلائے گا۔ )
عدٌّ۔ مصدر ہے۔ (گننا یا شمار کرنا۔ تعداد معلوم کرنے کے لیے حساب کرنا۔ خیال یا گمان کرنا۔ )
ھدٌّ۔ مصدر ہے۔ (پارہ پارہ ہونا۔ ریزہ ریزہ ہونا۔ ٹھوس چیزوں کی طرف نسبت ہو تواِس کا معنیٰ توڑ پھوڑ دینا ہو گا۔ اِس کی نسبت گھر، مکان، دکان، عمارت، درخت، دیوار وغیرہ کی طرف کی جائے تو گرا دینے کا معنی دیتا ہے۔ اگر اِس کی نسبت اِنسان، جن، جانور وغیرہ کی طرف کی جائے تو اُس کا معنی بوڑھا اور عمر رسیدہ ہونے کے ہوں گے )
ازْرٌ(قوّت۔ مضبوطی)
شدٌّ۔ مصدر ہے (باندھنا۔ مضبوط کرنا۔ کس دینا۔ گِرہ باندھنا۔ بھاگنا دوڑنا۔ بلند ہونا۔ مدد کرنا۔ حملہ کرنا۔ کسی کام کو کرنے کے لیے کمرکس لینا یا بالکل تیا ہو جانا)
لغت اور گرامر کی اِصطلاح میں (شدٌّ) دندانے دار نشان(ّ) کو کہتے ہیں جو بتاتا ہے کہ اِس نشان والے حرف کو دو بار پڑھا جائے جیسے (ربٌّ ) میں (ب)شدٌّ کو تشْدِیْدٌ بھی کہتے ہیں۔
مکْرٌ۔ جمع مُکُوْرٌ۔ امْکارٌ۔ مصدر بھی ہے ( کیْدٌ کا ہم معنیٰ ہے )
کیْدٌ۔ جمع۔ کِیادٌ۔ اکْیادٌ۔ مصدر بھی ہے (مکْرٌ کا ہم معنیٰ ہے۔ مکر و فریب۔ دھوکا دہی۔ حیلہ بازی۔ سازش۔ بد نیّتی۔ خبثِ باطن۔ اندرونی خباثت)
نسْف ٌ۔ مصدر ہے (راکھ بنا دینا۔ ہوا میں اُڑا دینا
عشْرٌ۔ مصدر ہے (دس کی عدد ظاہر کرنے والی گنتی۔ دس دس کر کے شمار کرنا۔ دس تک کی گنتی گننا۔ ایک دوسرے کے ساتھ مِل بیٹھنا۔ معاشرہ تشکیل دینا۔ )
قاعٌ۔ جمع۔ قِیْعانٌ۔ اقْواعٌ۔ قِیعٌ۔ قِیْعۃٌ(کھلامیدا ن۔ کھلی جگہ۔ ہمار زمین۔ وسیع مقام)
امْتٌ(۔ ٹیلا۔ اونچائی۔ بلندی۔ )
ویْلٌ۔ (ہلاکت۔ تباہی۔ بربادی۔ موت۔ عذاب۔ )
ھمْسٌ۔ مصدر ہے۔ ((پوشیدہ آواز۔ مخفی آواز۔ اوروں سے چھپا کر بات کرنا۔ انگوروں کو نچوڑ کر رس نکالنا جوس نکالنا۔ کسی چیز کو توڑ ڈالنا۔ شیطان یا شیطان منش شخص کا وسوسہ ڈالنا۔ نا خوشگوار خیالات پیدا کرنا)
رتْقٌ۔ رُقُوْقٌ۔ مصدر بھی ہے۔ (غلام بننا۔ کسی کے لیے نرم بن کر رحم کرنا۔ کسی کی حالت کا نرم ہونا یعنی برے حالات آنا۔ کسی کے تابع ہونا یا محکوم بننا۔ باریک چیز۔ ورق۔ کاغذ۔ لکھنے کے کام آنے والا صفحہ۔
شمْسٌ۔ جمع۔ شُمُوْسٌ۔ مصدر بھی ہے۔ (سورج جو ہماری زمین سے ۱۴۹ ملین کیلو میٹر سے زیادہ دور ہونے کے باوجود کتنی تابناک روشنی دیتا ہے اور گرمیوں میں ۵۰ ڈگری سینٹی گریڈ تپش اور گرمی پہنچاتا ہے۔ رک جانا۔ باز رہنا۔ چوپائے کا بپھر جانا اور سواری کرنے کا موقع نہ دینا۔ بِدک جانا۔ اجنبی اور ناواقف بن کر دشمنی کا مظاہرہ کرنا۔
سقْفٌ۔ جمع۔ سُقُوْفٌ۔ اسْقُفٌ۔ سُقُفٌ۔ اسْقافٌ۔ سقائِفُ۔ مصدر بھی ہے۔ (چھت جو فرش کی ضد ہے۔ چھت بنانے کا عمل۔ چھتانا۔ چھت تاننا۔ بلند مقام۔ آسمان۔
حیٌّ۔ جمع۔ احْیائٌ۔ مصدر بھی ہے (یا پر ہمیشہ فتحہ پڑھنے کی صورت میں اِسم فعل امر کہلاتا ہے اِس صورت میں اِس کا معنیٰ (اقْبِلْ۔ عجِّلْ۔ تعالْ۔ ھلُمّ) کے جیسا ہو گا جن کے بالتّرتیب معانی:توجّہ کر۔ جلدی کر۔ آ جا۔ چلے آ) کے ہیں۔ جس طرح پانچ وقت کی نمازوں کے لیے دی جانے والی اذانوں میں کہا جاتا ہے (حیّ علی الصّلاۃِ۔ حیّ علی الْفلاحِ) مسلمانو! نماز اور کامیابی کی طرف چلے آؤ!۔ زندہ جو کہ مردہ کی ضد ہے۔ ذی روح۔ جاندار۔ قوم۔ قبیلہ۔ محلّہ گاؤں۔ بستی۔ آبادی۔ )
ردٌّ۔ جمع۔ رُدُوْدٌ۔ مصدر بھی ہے (منع کرنا۔ روکنا۔ واپس کرنا۔ لوٹانا۔ مسترد کرنا۔ قبول نہ کرنا۔ تہہ کرنا۔ بند کرنا۔ جواب دینا۔ جواب بھیج دینا۔ ناقابل قبول چیز۔ )
وحْیٌ۔ مصدر ہے
شرعی اِصطلاح میں اللہ کی جانب سے انبیاء کو ملنے والی آسمانی تعلیمات اور احکامات کو (وحْیٌ)کہتے ہیں خواہ وہ تعلیمات انبیاء کو براہِ راست ملیں یا فرشتے کی وساطت سے ملیں گفتگو کی صورت میں ملیں یا کتابوں کی صورت میں ملیں خواہ وہ تعلیمات انبیاء کے اپنے الفاظ میں ہوں یا اللہ کے ہی الفاظ میں ہوں خواہ وہ تعلیمات منسوخ شدہ ہوں یا ناسخ ہوں خواہ وہ قرآن میں ہوں یا نبی کے فرامین و کردار کی صورت میں ہوں اِن سب کو وحی کہتے ہیں وحی کا یہ پہلو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اور اُن کی زندگی تک محدود ہے اب چونکہ انبیاء کا سلسلہ محمّدﷺ کی بعثت کے فورًا بعد بند ہو چکا ہے اِس لئے وحی کا سلسلہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے
اِن مذہبی حقائق کو پسِ پشت ڈال کر کوئی آج دعوائے نبوّت کر لے تو ایسا شخص کذّاب، بہت بڑا جھوٹا اور دجّال ہے اور وہ ختمِ رِسالتِ محمّدﷺ کا منکر ہونے کی وجہ سے اِسلام سے خارج ہونے والا کافر ہے۔ اور وہ لوگ بھی اِسلام سے خارج ہونے والے کافر ہیں جو ایسے جھوٹے شخص کو نبی مان بیٹھے ہوں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہود و نصاریٰ میں سے کوئی محمدﷺ کے علاوہ کسی اور رسول کی رسالت کا دعویٰ کر بیٹھے کیونکہ وہ اپنے طور پر رسالتِ محمّدﷺ کو نہیں مانتے اسی لئے یہ لوگ آج بھی خاتم المرسلین محمّد کے آنے اور اُن کے ظہو ر ہونے کے منتظر ہیں اور یہود و نصاریٰ میں سے کسی نے بھی اِس طرح کی جسارت نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ ایسی جسارت کریں گے کیونکہ اُن کی مذہبی کتب اُن کے اپنے ہاتھوں تحریف کا شکار ہونے کے باوجوداِس حقیقت کی معترف ہیں کہ یہ لوگ جس محمّد کے منتظر چلے آ رہے ہیں وہ وہی محمّدﷺ ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے جزیرۂ عرب کے مشہور شہر مکّہ میں ظہور ہو چکے تھے جن کو مکّہ والوں نے خوب ستا کر ملک بدر ہونے پر مجبور کیا تھا اور وادیِ یثرِب کھجوروں کی بستی میں ہجرت کر کے چلے گئے تھے
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی کے علاوہ جتنے لوگوں نے بھی جھوٹی نبوّت کا دعویٰ کیا ہے سب کے سب اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے گزرے ہیں اِن لوگوں کا کم از کم یہ دعویٰ ضرور ہے کہ وحی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جو کہ دبی زبان میں ختمِ رسالتِ محمّدﷺ کا اِنکار ہے حالانکہ اِسلام میں اِس نظریہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں اِس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے اِس کے علاوہ اِس پر اُمّتِ مسلمہ کا اِجماع بھی ہو چکا ہے اور اِجماع بھی کوئی نیا اِجماع نہیں بلکہ اِس حقیقت کو خیر القرون کا اِجماع حاصل ہے
جھوٹے لوگوں کے دعویٰ یا عمل سے دین اور شریعت کا کوئی حکم منہدم یا منسوخ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نیا حکم ثابت ہوتا ہے در اصل یہ دعوائے نبوّت کا سلسلہ مسلمانوں کے ہی ہاتھوں اِسلام کو پارہ پارہ کرنے اور دین اِسلام کو پوری طرح بدنام کرنے کی عالمی سازش ہے جس کا بیڑا غیر مسلموں نے اُٹھایا ہے جس بیڑے کا خود مسلمانوں کو ملّاح بنایا ہے تا کہ مسلمانوں کو اِس سازش کا پتہ ہی نہ چل سکے اور مسلمان اِس فریب کا بری طرح شکار ہوں۔
(وحی) کے معنیٰ آسمانی و ربّانی پیغامات و تعلیمات ہونے کا ثبوت قرآنِ کریم کی متعدد آیات سے واضح ہے اِس لئے ذیل میں ہم اُن آیتوں کو درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن میں لفظِ (وحی) اِس معنیٰ میں مستعمل ہوا ہے تا کہ ہماری اِس کتاب کے قارئین لفظِ (وحی) کے متفرق و مختلف مستعمل معانی سے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔
لکجھگفدسا، منبطچشزیئیترعوق۔ ، منبطچشزاسدگھجک
(وحْیٌ)اِلہام و اِلقاء کو بھی کہتے ہیں یعنی وہ تمام دلی و دماغی خیالات جو اللہ کی جانب سے اِنسان یا کسی بھی مخلوق کو فطری طور پر اِس لئے عطا کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے اِنسان اور دوسری مخلوق دنیا میں اپنے یادوسروں کے لیے خیر و شر۔ نفع و نقصان۔ امن و خطرات۔ خیر خواہی و بد خواہی۔ نیکی و بدی۔ہدایت و گمراہی۔ دوستی و دشمنی کو سمجھ سکیں بشرطیکہ اپنی اِن دماغی توانائیوں کو صحیح معنوں میں استعمال میں لے آئے جو اللہ کی جانب سے اُن کے دل و دماغ میں سُجھا دی گئی ہیں۔
اِلہام کا یہ مفہوم سورۂ شمس کی آیت نمبر ۷۔ ۸۔ ۹۔ ۱۰ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اِرشادِ ربّانی ہے :(ونفْسٍ وّ ما سوّاھا فالْھْمھا فُجُوْرھا و تقْوا ھا قدْ افْلح منْ زکاھا وقدْ خاب منْ دسّاھا۔
نیز ہر جاندار اور اُسکے پیدا کرنے والے کی قسم جس پیدا کرنے والے نے ہر جاندار کو مناسب انداز و گداز مین سنوار کے بنایا ہے ساتھ ہی ساتھ اللہ نے ہر جاندار کو خیر اور شر فطری طور پر سُجھا دیا ہے اِس فطری اِلہام و بصیرت کے نتیجے میں وہی شخص آخرت میں کامیاب و کامران ہے جس نے خود کو معصیت، سرکشی، بغاوت اور بے رہروی سے بچاتے ہوئے پاک رکھا اور وہی شخص آخرت میں ناکام و نا مراد ہے جس نے خود کو معصیت، سرکشی، بغاوت اور بے رہروی کے ذریعے آلودہ کیا
اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ(الْھمھا)کے معنیٰ کئی اِعتبارسے فطری الہام و بصیرت ہی کے ہیں :
پہلی وجہ یہ ہے کہ(الْھمھا) میں مفعول بہٖ کی ضمیرجو کہ (ھا) ہے وہ اِس سے پہلی والی آیت میں موجود لفظِ (نفْسٍ)کی طرف لوٹتی ہے نیز (نفْسٍ) اِسمِ جنس نکرہ ہے جس کا اِطلاق ہر ذی روح پر ہوتا ہے اور اگر (نفْسٍ) کو عام مخصوص منہ البعض بنا کراِنسان اور جنّات مراد لئے جائیں تب بھی اِس میں عموم النّوع باقی رہتا ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ(الْھم) کے معنیٰ فطری اِلہام و بصیرت کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ (الْھم) یہاں پر اپنے اصل لغوی معنیٰ میں مستعمل ہوا ہے اور یہ معنیٰ یہاں پر علماء اِصطلاح کی اِصطلاح میں ( حقیقتِ مستعملہ )ہے نہ کہ(حقیقتِ مہجورہ و حقیقتِ متعذرہ)
تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس آیتِ کریمہ کے ذریعے بتانا چاہتا ہے کہ میں نے مخلوق کی رہنمائی کرنے میں کوئی کسراُٹھا نہیں رکھی ہے انبیاء کی بعثت، آسمانی تعلیمات کی فراہمی، کتب و صحفِ سماویہ کے اِرسال کے علاوہ ہر مخلوق کی فطرت و خمیر میں بھی خیر و شر کو پہچاننے کی صلاحیت رکھ دی ہے جس کو اِلہام و بصیرت کہتے ہیں
اب مخلوق کی اپنی مرضی ہے کہ وہ اپنے لئے خیر کو اِختیار کر کے فلاح کا حقدار بنتا ہے یا شر کو اِختیار کر کے ناکامی و پشیمانی کو مول لیتا ہے
درج بالا حقائق کی روشنی میں صاف صاف معلوم ہو گیا کہ سورۂ (شمس ) کی آیت میں (الْھم )کے معنیٰ اِلہام و بصیرت کے ہی ہیں اِسی معنیٰ میں سورۂ نحل کی آیت نمبر(۶۸) اور سورۂ قصص کی آیت نمبر(۷) دونوں میں لفظِ (وحی) کو اِستعمال کیا گیا ہے
اِن آیتوں میں (وحی ) کے معنیٰ (وحیِ پیغمبری ) لینا کئی اِعتبار سے ناممکن ہے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وحیِ پیغمبری کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کا مخاطب اِنسان اور مرد ہو جب کہ سورۂ نحل میں شہد کی مکھی مخاطب ہے اور سورۂ قصص میں خاتون مخاطب ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ (وحی پیغمبری)امورِ دین، احکامِ دین، اور عقائد و اعمال پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ سورۂ نحل میں شہد کی مکھی کے شہد بنانے کے عمل کو بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک دنیاوی عمل ہے جس کا تعلق انسانوں سے نہیں ہے اور سورۂ قصص میں موسیٰ کی والدہ کا اپنے بچے کو فرعونیوں سے بچانے کے لیے اپنانے والی تدبیر کو بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک انفرادی عمل ہے اور اِس کا تعلق بھی صرف موسیٰ کی والدہ سے ہے عام انسانوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے
تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے سِویٰ کسی عام اِنسان سے (وحیِ پیغمبری) کی حیثیت سے کبھی بھی بات چیت نہیں کیا کرتا۔ اِرشادِ ربّانی ہے :(وما کان لِبشرٍ انْ یُّکلِّمہُ اللہ اِلّا وحْیًا اوْمِنْ وّرآءِ حِجاب ٍ اوْ یُرْسِل رسُوْلًافیُوْحِی بِاِذْنِہٖما یشآئُاِنّہُ علِیٌّ حکِیْمٌ)سورۃ الشّوریٰ آیت۔ ۵۱۔
اِس فانی دنیا میں کسی بھی بشر کے لیے زیبا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس سے بالمشافہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرے مگر تین شکلوں میں سے ایک کے ساتھ:
نمبر ایک عام مخلوق سے (وحیِ اِلہامی) کے ساتھ
نمبر دو پیغمبروں سے (وحیِ پیغمبری )کے ساتھ پردے کے پیچھے سے
نمبر تین پیغمبروں سے (وحیِ پیغمبری) کے ساتھ کسی پیغام رساں فرشتہ کو بھیج کر
پس اِن تین شکلوں میں سے کسی بھی شکل میں اللہ تعالیٰ اپنے اِختیار اور مرضی سے اپنی تعلیمات و احکامات جاری کرتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیوب و نقائص سے بالا تر اور ہر چیز کی حکمتوں سے آگاہ ہے
اِلہام کا دوسرا نام بصیرت ہے اِسی کو ضمیر کا فیصلہ اور نفسِ لوّامہ کی ملامت کہتے ہیں یہ معنیٰ صرف انبیاء کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ ہی اِنسانوں کے ساتھ خاص ہے بلکہ اِلہام کا معنیٰ اللہ کی ہر مخلوق سے وابستہ ہے
وحی بمعنیٰ اِلہام مستعمل ہونے کی قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مثالیں موجود ہیں جیسے : (واوْحیٰ ربُّک اِلیٰ النّحْلِ انِ اتّخِذِیْ مِن الْجِبالِ بُیُوْتًاومِن الشّجرِومِمّا یعْرِشُوْن) سورۃ النّحل آیت ۶۸۔
اے محمّدﷺ !آپ پر وحی کیا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں آپ کے رب نے شہد کی مکھیوں کو فطری اِلہام و بصیرت کے ذریعے بتا دیا ہے کہ اے مکھیو! پہاڑوں اور درختوں پر شہد کے چھتے بناؤ نیز اُن اُونچی اُونچی چھتریوں میں بھی شہد کے چھتے بناؤ جن چھتریوں کو لوگ بناتے ہیں
درج بالا آیتِ کریمہ میں (اوْحیٰ) کے معنیٰ فطری الہام و بصیرت کے ہیں وحیِ پیغمبری مراد نہیں کیونکہ اِس آیت میں وحی کی نسبت پیغمبر کے علاوہ عام مخلوق بلکہ ایک غیر عاقل مخلوق کی طرف کی گئی ہے جس کو قوّتِ ناطقہ حاصل ہے نہ ہی اُسے قوّتِ عاقلہ نصیب ہے
(و اوْحیْنا اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰ انْ ارْضِعِیْہِ فاِذا خِفْتِ علیْہِ فالْقِیْہِ فِیْ الْیمِّ ولاتخافِیْ ولا تحْزنِیْ اِنّا رآدُّوْہُ اِلیْکِ و جاعِلُوْہُ مِن الْمُرْسلِیْن )سورۃالقصص آیت۷۔
اور ہم نے موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ محترمہ کو فطری اِلہام و بصیرت کے ذریعے سُجھا دیا کہ اے موسیٰ کی والدہ!تم اِس نومولود بچے کو بے فکری کے ساتھ اپنا دودھ پلاتی رہوپس جب فرعونیوں کی جانب سے اِس بچے کے بارے میں جانی خطرہ محسوس کر لو تو فوری طور پراِس بچے کو لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دریائے نیل میں ڈال دینا اور ہم تجھے اِلہامی طور پر یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اِس بچے کے ضائع ہونے کا قطعاً خوف اور غم نہ کرنا ہم تجھے اِلہام کے ذریعے ابھی بتا رہے ہیں کہ یقیناً ہم اِسے بحفاظت تمہارے گھر لوٹا دیں گے اور اِسے بڑے ہونے پر اپنا رسول بھی بنا دیں گے
(وحی) اِشارے سے بات کرنے پر بھی بولا جاتا ہے قرآنِ کریم میں زکریّا علیہ السّلام کی نسبت سے اِس معنیٰ کو بیان کیا گیا ہے جب اُن کو اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کی ولادت کی خوشخبری دی تھی تو اُنہوں نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ اُنہیں بیٹا ہونے کی کوئی ظاہری نشانی مل جائے تو اللہ نے اُن کی درخواست منظور فرما لی اور نشانی مقرر کی کہ اے زکریا! آپ کے لیے نشانی یہ ہے کہ آپ مسلسل تین دن تک کسی سے بات چیت نہ کر سکیں گے مگر اِشارے سے ہی۔ سورۂ آلِ عمران۔
چنانچہ اُن پر خاموشی کی کیفیت طاری کر دی گئی:( فخرج علیٰ قوْمِہٖ مِن الْمِحْرابِ فاوْحیٰ اِلیْھِمْ انْ سبِّحُوْا بُکْرۃً وّ عشِیًّا) اِس حالت میں وہ اپنی عبادت گاہ سے باہر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس نکل کر آئے تو اُنہوں نے اُن سے اِشارے میں کہا کہ لوگو !تم صبح و شام اللہ کی تسبیح و تقدیس کے عمل میں مصروف رہو(سورۂ طٰہٰ آیت۔ ۱۱۔
لفظِ(وحی) شیطانوں اور شیطان طبع اِنسانوں کے گمراہ کن خیالات، نظریات، عقائد اوروسوسوں پر بھی بولا گیا ہے جن کو وہ اللہ کے بندوں، نیک لوگوں اور دینداروں کو حق سے پھیرنے کے لیے ہتھیار بنا کر اِستعمال کرتے ہیں
مذکورہ معنیٰ کے ثبوت کے لیے ہم قرآن کریم سے دو آیات پیش کر رہے ہیں :(ولا تأْکُلُوْا مِما لمْ یُذْکرِاسْمُ اللہ علیْہِ واِنّہٗ لفِسْقٌ واِنّ الشّیاطِیْن لیُوْحُوْن اِلیٰ اوْلِیآئھِمْ لِیُجادِلُوْکُمْ واِنْ اطعْتُمُوْھُمْ اِنّکُم ْلمُشْرِکُوْن)سورۃ الانعام۔ آیت۔ ۱۲۱۔
اللہ کے بندو! مت کھایا کروکسی بھی کھانے والی چیز میں سے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام (بِسْمِ اللہ واللہ اکْبرُ)ذبح کرتے وقت نہ پڑھا گیا ہویا اللہ کا نام چھوڑ کر کسی زندہ یا فوت شدہ پیر، مرشد، ولی، قطب، ابدال کا نام لیا گیا ہو نیز( ہم تمہیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ) مذکورہ چیزوں کا اِستعمال حق سے منہ موڑنا ہے اور اِس بات کو ذہن نشیں کر لیں کہ شیاطین اور شیطان طبع اِنسان اپنے یاروں، دوستوں، رفیقوں اور حلقۂ احباب کے دلوں اور دماغوں میں منفی سوچیں، خلافِ شریعت عقائد و نظریات اِطاعتِ دین سے منحرف کرنے والے طرح طرح کے گمراہ کن خیالات اور وسوسے بسانے کی کوششیں کرتے ہیں جن کے بل پر شیطانوں کے یہ چیلے تم صحیح العقیدہ لوگوں سے ناحق تکرار اور حجت بازی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غیر اللہ کی نیاز کھانے میں کیا حرج ہے ؟اور اللہ کا نام لئے بغیر ذبح ہونے والا ذبیحہ کھانے میں کونسا مضائقہ ہے ؟اے مسلمانو! اور دینِ اِسلام کے متوالو!اگر تم نے اِن شیطانی چیلوں کے گمراہ کن عقائد و خیالات اور نظریات کی اِطاعت کر لی تو یاد رکھ لو کہ تم عملًا مشرک ٹھہرو گے۔
درج بالا آیت میں مذکور لفظِ(یُوْحُوْن) سیاق و سباق، اندازِ گفتگو اور موقعِ کلام کے مطابق گمراہ کن عقائد و نظریات اور شیطانی وسوسوں کو لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں بسانے کی کوششوں پر مستعمل ہوا ہے اِسی لئے اللہ نے اِن سوچوں کی اتّباع و اِطاعت کرنے کی سختی سے مذمّت کی ہے اور اِس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا ہے جن سوچوں اور باطل خیالات کو یہ شیاطین اور شیطان طبع لوگ معاشرے کے دوسرے اِنسانون کو راہِ حق سے بھٹکانے کے لیے اپنے چیلوں تک خفیہ طریقوں سے پہنچاتے ہیں
:(وکذالِک جعلْنا لِکُلِّ نبِیٍّ عدُوًّا شیاطِیْن الْاِنْسِ والْجِنّ یُوْحِیْ بعْضھُمْ اِلیٰ بعْضٍ زُخْرُف الْقوْلِ غُرُوْرًا)سورۃ الانعام آیت۔ ۱۱۲۔
اے میرے نبی!جیسا کہ یہ مکہ والے آپ اور آپ کے پیغمبرانہ مشن کے دشمن ہیں بالکل اِسی طرح ہم نے ہر دور میں آزمائشی طور پر شیطان طبع اِنسانوں اورنسلی جنّات کو ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں جو اللہ کے پیغمبروں کو تنگ کرنے کے لیے اِنسانی معاشرے کے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جھوٹے مزیّن خیالات و نظریات بٹھانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں تا کہ یہ لوگ پیغمبر کے مشن کو فروغ دینے کی راہ میں آڑ بن سکیں اِس لئے آپ پریشان نہ ہوں یہ سلسلہ تو ہمیشہ رہیگا۔
درج بالا آیت میں بھی مذکور لفظِ(یُوْحِیْ)سیاق و سباق، اندازِ گفتگو اور موقعِ کلام کے مطابق گمراہ کن خیالات و نظریات کو معاشرے کے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں بسانے کی کوششوں پر مستعمل ہوا ہے
پیغام رسانی۔ ذرائعِ اِبلاغ۔
برْدٌ۔ مصدر ہے (حرٌّ کی ضد ہے۔ سردی۔ ٹھنڈک۔ گرمی کا کم ہونا۔ گرمائش ختم ہونا۔ ٹھنڈا ہونا۔ ۔ ٹھنڈک پڑ جانا۔ ٹھنڈک محسوس ہونا۔ لوہے کو تراشنا۔ )
حرٌّ۔ جمع۔ حُرُوْرٌ۔ احارِرُ۔ مصدر بھی ہے۔ (برْدٌ کی ضد ہے۔ گرمی۔ حرارت۔ تپش۔ گرم کرنا۔ زمین کو ہموار کرنا)
کرْبٌ۔ جمع۔ کُرُوْبٌ(مشقّت۔ گھبراہٹ۔ مصیبت۔ تکلیف۔ غم۔ دُکھ۔ فکر۔ پریشانی۔ بے چینی۔ آزمائش۔ تنگی۔ )
غمٌّ۔ جمع۔ غُمُوْمٌ۔ مصدر بھی ہے (ھمٌّ کا ہم معنیٰ ہے۔ غم۔ پریشانی۔ دُکھ۔ بے چینی۔ بے سکونی۔ مصیبت۔ آزمائش۔ بیماری۔ بادل چھا جانا۔ فضا کا ابر آلود ہونا۔ غمگین کر دینا۔ پریشان کر دینا۔ اوجھل کر دینا۔ پوشیدہ کر دینا۔ دن کا گرم ہو جا نا یعنی گرمی بڑھ جانا)
ھمٌّ۔ جمع۔ ھُمُوْمٌ۔ مصدر بھی ہے (غم۔ پریشانی۔ دُکھ۔ بے چینی۔ بے سکونی۔ اِرادہ کرنا۔ قصد کرنا۔ چاہنا۔ پسند کرنا۔ غمگین کر دینا۔ بے چین کر دینا۔ سورج کی تپش کا گلیشئر یا برف کو پگھلا دینا۔ )
زوْجٌ۔ جمع۔ ازْواجٌ۔ زِوجۃٌ(شوہر۔ بیوی۔ قِسم۔ نوع۔ جفت۔ جوڑا۔ دو۔
طیٌّ۔ مصدر ہے (لپیٹ دینا۔ تہہ کر دینا۔ موڑ دینا۔ ڈبل کر دینا۔ کام کو سمیٹ دینا یا ختم کر دینا۔ کتاب، کاغذات اوراق، فائلوں کو بند کر دینا۔ )پہلی حالت میں لوٹانا۔ بھوکا ہونا۔ بھوک کی وجہ سے پیٹ کا کمر سے چمٹ جانا۔
طیٌّ عرب کا ایک قبیلہ بھی ہے جس کی طرف نسبت رکھنے والوں کو بنو طیّ کہتے ہیں عرب کا مشہور سخی حاتم طائی اِسی قبیلے کا فرد تھا اِن کا ایک بیٹا جس کا نام عدِیْ ہے مسلمان ہوا تھا اور محمّدﷺ کا صحابی بھی تھا اِن سے کئی احادیث بھی روایت ہیں
اِس قبیلے کی لغت کو علماء گرامر اپنے قوانین گرامر کی تائید و توثیق کے لیے پیش کیا کرتے ہیں جیسے :(ذُوْ طائِیّہ )ہے جو اپنی ایک ہی حالت پر بر قرار رہ کر موصولات حقیقیہ کے معانی پر دلالت کرتا ہے یعنی (الّذِیْ۔ الّذانِ۔ الّذِیْن۔ الّتِیْ۔ الّتانِ۔ الّاتِیْ۔ الّواتِیْ۔ الّآئِیْ میں سے ہر صیغے کا معنیٰ ظاہر کرتا ہے لفظِ ذُوْ کا اِس معنیٰ میں اِستعمال ہونا صرف بنو طیّ کی لغت اور لہجہ ہے )
جھرٌ۔ مصدر ہے (سِرٌّ کی ضد ہے۔ ظاہر کرنا۔ اونچا سنانا۔ آواز سے بولنا۔ زور سے بولنا۔ اِعلان کرنا۔ نمایاں کرنا۔ کسی کی تعظیم کرنا۔ دکھانا۔ سورج کی روشنی میں آنکھوں کا دیکھ نہ سکنا۔
ریْبٌ۔ مصدر ہے اِسمِ نکرہ کے طور پر بھی مستعمل ہے (شک۔ شبہ۔ گمان۔ اِلزام۔ تہمت۔ بہتان)
ضرٌّ۔ مصدر ہے (کسی کوتکلیف دینا۔ کسی کو نقصان دینا۔ کسی کا کچھ بگاڑ دینا۔ کسی کو کسی کام کے کرنے پہ مجبور کرنا۔ اندھا ہونا۔ نابینا ہونا۔ پہلی بیوی پر سوکن کر لینا دوسری شادی کر لینا۔ تنگی۔ تکلیف۔ بد حالی۔ )
نفْعٌ۔ مصدر ہے (نفع دینا۔ فائدہ پہنچانا۔ ۔ کسی کے کام آنا۔ کسی کے ساتھ اچھائی کرنا۔ اچھائی۔ ۔ بھلائی۔ فائدہ۔ منافع۔ کمائی۔ ہوا)
فجٌّ۔ جمع۔ فِجاجٌ۔ افْجاجٌ۔ مصدر بھی ہے (رستہ۔ کھلا راستہ جو دو پہاڑوں کے بیچ میں سے نکلتا ہو۔ کچّا پھل۔ پھاڑنا۔ کشادہ کرنا )
بیْتٌ۔ جمع۔ بُیُوْتٌ۔ ابْیاتٌ۔ بھی ہے (گھر۔ رہائش گاہ۔ رہنے کی جگہ۔ جائے سکونت۔ عزّت۔ شرف۔ اہل و عیال۔ بال بچے۔
شعراء کی اِصطلاح میں شعر کو (بیْتٌ) کہتے ہیں۔ جب اِس کو مخصوص کرنا ہو تو اِضافت کے ساتھ اِستعمال کرتے ہیں جیسے :(بیْتُ اللہ ۔ اللہ کا گھر)
شرعی اِصطلاح میں اللہ کا گھر مسجد یا عبادت خانہ کو کہتے ہیں یہ شرعی اِصطلاح محمّدی اِسلام کا رائج کردہ ہے کیونکہ دوسرے آسمانی ادیان میں عبادت خانوں کو (صوامِعُ، بِیعٌ، صلواتٌ)کہا گیا ہے جبکہ (مساجِدُ) کا لفظ صرف مسلمانو کے عبادت خانوں پر بولا گیا ہے
(بیْتُ المالِ۔ مال جمع رکھنے کا گھر)
(بیْتُ الْمالِ)گودام یا اِسٹور کو بھی کہتے ہیں لیکن جب حکومت یا سلطنت کے مالی خزانہ پر اِطلاق کیا جائے تو یہ شرعی یا عرفی اِصطلاح کہلائے گی اِس اِصطلاح کے مطابق (بیْتُ الْمالِ)ہر اُس مالی خزانہ پر بولا جا سکتا ہے جس میں سلطنت کی تمام رعایا کے مالی حقوق شامل ہیں
عادٌ۔ اِسمِ علم مرتجل ہے
(یہ لوگ ھُوْد علیہ السّلام کی قوم اور برادری کے لوگ ہیں جن کو ھود علیہ السّلام پر ایمان نہ لانے اور اُن کادینِ الٰہی سے کھلی بغاوت کرنے کی پاداش اور جرم میں سخت تریں اور طاقتور آندھی کے عذاب میں پکڑا گیا تھایہ آندھی اُن پر آٹھ دنوں اور سات راتوں تک مسلسل مسلّط رکھی گئی
اِس عذاب کے ذریعے اُن کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اُس آندھی میں اِتنا زور تھا کہ بڑے بڑے نامور طاقتور لوگوں کو پچھاڑ کر منہ کے بل گرا دیتی تھی اور اُن کی لاشیں زمیں پر اِس طرح پڑی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں جیسے کھجور کے کتے ہوئے تنے پڑے ہوئے ہوں قرآن نے سورۂ الحاقّہ میں اِس واقعے کو مختصر مگر نہایت ہی جامع لفظوں میں بیان کیا ہے۔
کجھگفدسا؛لککججھھھگگگفف اِس کو دوسری جگہ منتقل کرنا ہے (صالح علیہ السّلام کی قوم ہے جنہوں نے صالح علیہ السّلام سے اونٹنی اور اونٹنی کے بچہ کا معجزہ مانگا تھا پھر اُن کی مسلسل بغاوتوں کی بنیاد پر اُن کو چیخ کے عذاب میں پکڑ لیا گیا تھا اِس قوم کے بارے مین قرآن بتاتا ہے کہ بڑی قوّت والے تھے جو اپنی قوّت کے بل پر بڑے بڑے مضبوط پہاڑوں کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر اور تراش کر اپنے لئے محفوظ قلعے تعمیر کرتے تھے۔
عوْدٌ۔ مصدر ہے (لوٹنا یا واپس ہونا۔ دوبارہ آنا۔ کسی کام کو چھوڑ دینے کے بعد دوبارہ شروع کرنا یا کرنا۔
عِلمِ فرائض کی اِصطلاح میں (عوْدٌ ) ذوی الفروض کو عصبات کی غیر موجودگی میں تقسیم سے باقیماندہ مال دوبارہ دینے کو کہتے ہیں یاد رہے کہ باقیماندہ مال لینے والے صرف ماں، باپ اور دادا ہیں )
قصْرٌ۔ جمع قُصوْرٌ۔ مصدر بھی ہے
(محل اِس معنیٰ کے مطابق صرْحٌ کا ہم معنیٰ ہے )عالیشان وسیع و عریض قلعہ یا گھر۔ چھوٹا کرنا۔ کم کرنا۔ مختصر کرنا۔ کمی و کوتاہی کرنا۔ (بال کٹوانا یا ترشوانا اِس معنیٰ میں (حلْقٌ) کی ضد ہے جس کا معنیٰ بال مونڈھنا ہے )۔ کسی خاص کام کے کرنے کا پابند کر دینا۔ (قصْرٌ۔ طُوْلٌ کی بھی ضد ہے )
شرعی اِصطلاح میں سفر کے اندر چار رکعت والی نمازوں کو دو کر کے ادا کرنا اور رمضان المبارک کے مہینے میں سفر کے اندر روزہ نہ رکھنا قصر کہلاتا ہے۔
عِلمِ بلاغہ کی اِصطلاح میں جملے سے زوائد کو حذف کر کے کلام کو بلیغ بنانے کے لیے مختصر کرنے کو قصر کہتے ہیں جیسے [۱] (زیْدٌ اسد ٌ) کہہ کر حرفِ تشبیہ اور سببِ تشبیہ دونوں کو حذف کر دینا۔ [۲]اِسی طرح (نعمْ یا لا) کے ساتھ جواب دے سکنے والے جوابیہ جملوں سے پورے جملے کو حذف کر دینا خواہ جملہ اِسمیہ ہو یا فعلیہ ہو۔ [۳]صرف مبتدا کو حذف کر دینا۔ [۴]صرف خبر کو حذف کر دینا۔ [۵]صرف فاعل کو حذف کر دیناجیسے تمام افعالِ مجہولہ کا حال ہے۔ [۶]صرف فاعل اور مفعول کو حذف کر دینا۔ [۷]صرف فعل اور مفعول کو حذف کر دینا۔ [۸]فعل اور فاعل کو حذف کر دینا وغیرہ)
الْفٌ۔ جمع۔ اُلُوْفٌ۔ آلافٌمصدر بھی ہے
(اِسمِ عدد ہے جس کا اِطلاق ایک ہزار پر ہوتا ہے۔ محبّت کرنا۔ دوستی کرنا۔ پیار کرنا۔ کسی شخص یا جگہ سے مأنوس ہونایاکسی کام کا عادی ہونا۔ پالنا پوسنا اِسی سے پالتو یا گھریلو جانور کو(الْحیوانُ الْمأْلُوْفُ) کہا جاتا ہے
اخْذٌ۔ مصدر ہے ( قبْضٌ کا ہم معنیٰ ہے۔ لینا یا وصول کرنا۔ اپنے قبضے میں کر لینا۔ کسی چیز کو قبضے میں کر لینے کے بعد مالک بن جانا۔ کسی مجرم یا ملزم کو گرفتار کرنا اور سزا دینا۔ کسی مجرم کو پکڑ کر جان سے مار دینا۔ کوئی بھی چیز حاصل کرنا خواہ وہ چیز عِلم ہو یا مادّی چیز ہو۔ شروع کرنا آغاز کرنا۔ اپنانا یا عمل کرنا۔ اثر انداز ہونا۔ )
قدْرٌ۔ جمع۔ اقْدارٌ۔ مصدر بھی ہے (مقدار۔ تخمینہ۔ اندازہ۔ قابوپالینایا گرفتار کرنا۔ معیشت یا مالی تنگی کرنا۔ فیصلہ۔ قدر و منزلت۔ طاقت اور قوّت۔ احترام اور وقار۔
جب لفظِ(قدْرٌ)کو لفظِ (لیْلۃٌ) کا مضاف اِلیہ بنا کر(لیْلۃُ الْقدْرِ) پڑھا جائے تو شرعی اِصطلاح میں ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی بھی ایک طاق رات مراد ہوتی ہے۔ اور جب لفطِ(قدْرٌ) کو لفظِ(اللہ ) کی طرف مضاف کر کے (قدْرُ اللہ ) پڑھا جائے تو شرعی اِصطلاح میں اللہ تعالیٰ کا عِلم مراد ہوتا ہے جس کو عام طور پر اللہ کی تقدیر کہتے ہیں نیز قضاء اللہ بھی کہتے ہیں۔
تقدیر پر اِیمان اور دلی یقین رکھنا چھ اُصولِ اِیمان میں سے ایک بہت اہم رکن ہے اِسی رکن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اِس بڑی دنیا کو وجود میں لایا ہے اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کی تقدیر کے مطابق ہو رہا ہے کیونکہ تقدیر ہی اللہ تعالیٰ کا مستقل لائحۂ عمل اور ٹھوس پروگرام ہے جس کے تحت اِس کائنات کا مکمّل نظام منظّم طور پر چلا رہا ہے اللہ کا یہ مستقل لائحۂ عمل اور ٹھوس پروگرام نہ جذباتی بنیاد پر مبنی ہے نہ اِنتقامی بنیاد پر مشتمل ہے نہ ہنگامی اساس پر حاوی ہے نہ توہّمات و تخیّلات پر محیط ہے نہ کوئی نیا ہے بلکہ اللہ کا تخلیقِ کائنات کا یہ پروگرام ازلی ہے یعنی جب سے اللہ کی ذات کا وجود ہے اُسی وقت سے اُس کا یہ پروگرام چلا آ رہا ہے جس کو تشکیل دینے اور طے کرنے میں کوئی دوسرا قطعاً شریک نہیں۔
لھذا جو شخص تقدیر کو نہ مانے یا اِس میں اپنی سوچوں کو دخل دے تو ایسا شخص بلا شک و شبہ دینِ اِسلام سے خارج ہے اِس لئے کہ اِس دنیا کے دینی اور دنیاوی تمام اُمور تقدیر پر ہی منحصر ہیں یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس شخص نے تقدیر کو نہ مانا تو گویا کہ اُس نے اللہ کے کسی بھی حکم یا نظام کو نہیں مانا ہے۔ اللہ کے رسول محمّدﷺ نے واضح طور پر فرما یا ہے کہ تقدیر کی وجہ سے میری امّت کے دو گروہ گمراہ ہو جائیں گے اُن گروہوں کے نام لے کر فرمایا ٹھا کہ وہ دو گروہ (قدریہ اور جبریہ) ہیں۔
قدریہ وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اِس دنیا کا نظام اللہ کی تقدیر کے مطابق نہیں چل رہا ہے بلکہ اِس کا نظام خود بخود ہی چل رہا ہے اللہ کا اِس میں معمولی دخل بھی نہیں ہے اِس قسم کے لوگوں کو دہریہ بھی کہتے ہیں اِس عقیدہ کے حامل لوگوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مذمّت کے ساتھ بیان کیا ہے اِرشاد گرامی ہے 🙁 اِنْ ھِی اِلا حیاتُنا الدُّنْیا نمُوْتُ ونحْیٰ وما یھُْلِکُنا اِلا الدّھرُ)الایٰہ۔ ہماری دنیاوی زندگی اِس کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی کہ ہم خود اِس دنیا میں جی اُٹھتے ہیں اور ہم خود ہی اپنی مرضی سے مر جائیں گے اور اگر بفرضِ محال کوئی ذات فنا کر سکتی ہے تو وہ ذات اللہ کی ذات نہیں بلکہ ہمیں فنا کرنے والا تو زمانہ ہے جب زمانے کو ہماری ضرورت نہ رہے تو ہمیں فنا کر دے گا
زمانے سے اِن لوگوں کا مقصد اللہ کی ذات کا اِنکار ہے کیونکہ اِن کی بات کا مقصد یہ ہے کہ اُن کی موت و حیات، مرگ و زیست اور مرنے جینے کا تعلّق اللہ کی ذات سے نہیں بلکہ زمانے سے ہے گویا کہ زمانہ اور اللہ کی ذات الگ الگ ہیں اور زمانے پر اللہ کا کوئی تسلّط نہیں ہے اِس نقطۂ نظر سے یہ لوگ اللہ کی ذات کے منکر اور (دھرٌ) کے معترف ہونے کی وجہ سے (دھرِیّہ)کہلاتے ہیں یہ نظریّہ اِلحاد اور لا دینی ہے کیونکہ یہ اِسلامی نقطۂ نظر سے متصادم ہے اگر چہ اِسلامی نقطۂ نظر سے (دھرٌ) بھی اللہ ہی کی ذات کو کہتے ہیں جس کی وضاحت ایک حدیثِ قدسی سے ہوتی ہے اِرشاد ہے :
(یُؤْذِیْنِی ابْنُ آدم یسُبُّ الدّھر وانا الدّھرُ اُقلِّبُ اللّیْل والنّھار)آدم کا بیٹا یعنی اِنسان زمانے کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتا ہے اِس لئے کہ زمانہ تو میں خود ہی ہوں میں ہی رات اور دن کے مختلف حالات پلٹ پلٹ لاتا ہوں۔
بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر چین واحد ملک ہے جہاں کے غیر مسلم باشندے دہریت اور لا دینیت کے پیروکار ہیں ویسے تو غیر آسمانی ادیان کے اکثر و بیشتر ماننے والے سب کے سب دہریہ ذھن رکھتے ہیں نیز وہ لوگ بھی دہریہ عقائد کے پیرو کار ہیں جو قیامت اور قیامت میں جزا و سزا کے منکر ہیں
ہندو مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی ختم نہیں گی اور اِس دنیا میں ہمیشہ کے لیے موت و حیات کا سلسلہ جاری رہے گاہندو مذہب کی تعلیمات کے تحت ایک عقیدہ یہ بھی ہے جسے (تناسُخُ الْارْواحِ)روحوں کی نقلِ مکانی کہتے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جب کوئی مر جاتا ہے تو اُس مرنے والے کی روح کودنیا میں نیا آنے والے کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے
ہندوؤں کا کہنا ہے کہ اگر مرنے والا نیک کردار تھا تو اُس کی روح کو کسی نیک شخص کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے یہ اُس کی نیکیوں کی جزا ہے جو اُسے دنیا میں دی گئی اور اگرمرنے والا بد کار تھا تو اُس کی روح کوکسی بدکار شخص کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے یہ اُس کی بد کاری کی سزا ہے جو اُسے دنیا میں ہی دی گئی ہے
یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے لھذا اِس پر اللہ ہی کا قانون چلے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت قرآنِ کریم میں جگہ جگہ پر واضح کر دیا ہے کہ یہ دنیا
فانی ہے اِس دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد قیا مت برپا ہو گی جس دن مرنے والے سب کے سب زندہ ہو کر میدانِ محشر میں جمع ہو جائیں گے اور سب بندوں کے اعمال کا حساب وکتاب کیا جائے گاجنّت و دوزخ کیصورت میں جزا و سزا دے دی جائے گی
دینِ اِسلام میں اِس عقیدہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اِس عقیدے کو ماننا چھ ارکانِ اِسلام میں سے ایک بڑا رکن قرار دیا گیا ہے جس کو مانے بغیر کسی کا ایمان قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی قیامت میں نجات کا پروانہ مل سکتا ہے
اِسلام نے (تناسخ الارواح) کے بجائے یہ عقیدہ فراہم کیا ہے کہ مرنے والوں کی روحیں کسی اور شخص یا مخلوق کے جسم میں نہیں ڈالی جاتیں بلکہ قیامت برپا ہونے تک نیک لوگوں اورمکمّل طور پر اِسلام پر چلنے والوں کی روحیں جنّت کے ایک طبقہ میں بڑے عیش و آرام کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں اور اُن کو اعلیٰ قسم کی تیز مہک والی خوشبوؤں میں بسایا جاتا ہے جس طبقے کو (عِلّیین) کہتے ہیں (علّیین) اِسمِ مبالغہ (عِلّیٌّ)مفرد کی جمع مذکر سالم کا صیغہ ہے جس کے معنیٰ ہیں بڑے نصیب اور بڑے مقام والے۔
پیغمبرِ اِسلام محمّدﷺ کے اِرشادِ گرامی کے مطابق (عِلّیین) آسمان میں واقع ہے اور جنّت بھی آسمان میں ہے
اِسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم سے درج ذیل مجرم قسم کے بندوں کی روحیں اُن کے مرنے کے بعد دوزخ کے ایک طبقے میں اِنتہائی ذلّت و خواری کے ساتھ بدبو دار کپڑوں میں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں جس طبقے کو (سِجِّیْن) کہتے ہیں (سِجِّیْنٌ)بھی اِسمِ مبالغہ کا صیغہ ہے یہ (سِجْنٌ) سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ (قیدخانہ)ہے لھذا (سِجِّیْنٌ) کا معنیٰ مبالغے کے مطابق سنگین اذیّتوں اور المناک عقوبتوں سے گھیرا ہوا قید خانہ ہوا۔ پیغمبرِ اِسلام محمّدﷺ کے اِرشادِ گرامی کے مطابق (سِجِّیْنٌ)اِس کائناتِ ارضی کے نیچے واقع ہے۔
چنانچہ (سِجِّیْنٌ)والوں کو اُن کی بد اعمالیوں کی پاداش میں قیامت کے روز باقاعدہ طور پر دوزخ میں ڈال کر سزا دے گا :۔
۱۔ دینِ اِسلام کو قبول نہ کرنے والوں کو۔
۲۔ اِسلام میں داخل ہو کراِسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں۔
۳۔ فرامینِ پیغمبر پر قدغن لگا کر آتشِ اِلحاد سُلگانے والوں کو۔
۴۔ خود کو قرآن اور اِسلام کے دوستدار گردان کر من پسند من گھڑت تفسیر و تشریح کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو اِسلام سے بہکانے کا تاج اپنے سروں پر سجانے والوں کو۔
۵۔ محمّدﷺ کی ختمِ رسالت کے منکروں کو۔
۶۔ قرآن و سنّت کے پیش کردہ عقائد و تعلیمات میں اپنی طرف سے ردّ و بدل کرنے والوں کو۔
۷۔ محرّمات میں ملوّث بدکار لوگوں کو۔
۸۔ فحّاشی کو فروغ دینے والوں کو۔
۹۔ قحبہ خانوں کے محافظوں کو۔
۱۰۔ نا جائز ذرائعِ کاروبار اپنانے والوں کو۔
۱۱۔ سودی کاروبار میں ملوّث ہونے والوں کو۔
۱۲۔ ظالم حکمرانوں کو۔
۱۳۔ نا اِنصاف قاضیوں کو۔
۱۴۔ اللہ کی سر زمیں پہ خون ریزی، قتل و غارتگری، دہشت گردی، ڈکیتی کی وارداتوں کے ذریعے امنِ عامّہ کو تار تار کرنے والوں کو۔
۱۵۔ انڈے کے خول میں بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے لوگوں پر خواہ مخواہ کفر کے فتوے دینے والوں کو۔
۱۶۔ اللہ کی وسیع و عریض جنّت کو مرغی کا دڑبا سمجھنے والوں کو۔
۱۷۔ اللہ اور اُس کے رسول سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر جنّت اور دوزخ کی چابی اپنے ہاتھوں میں لے کر خوارج جیسے زندیقوں کی روش پر چلنے والوں کو۔
۱۸۔ فروعی اِختلافات اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو ہوا دے کرمسلمانوں کی اِجتماعیّت کو نقصان پہنچانے والوں اور ڈیڑھ اِنچ کی مسجدیں بنانے والوں کو۔
۱۹۔ دینِ اِسلام کے نظامہائے زندگی میں سے کسی بھی شعبے میں کیڑے نکالنے والوں کو۔
۲۰۔ اِسلامی طرزِ معاشرت کے قیام کے مخالفوں کو۔
۲۱۔ خلافتِ اِسلامیہ کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو۔
۲۲۔ علاقائیت، لسانیات، قومیّت رنگ و نسل کی برتری کی بنیاد پر وحدتِ اِسلام کو پارہ پارہ کر کے پھر سے چودہ سو سال پہلے کی جاہلیّت کا دور لانے کی کوشش اور تگ و دو کرنے والوں کو۔
۲۳۔ اللہ کے باغیوں کو۔
۲۴۔ دین کے غدّاروں کو۔
۲۵۔ خود ساختہ مذاہب کے پیروکاروں کو۔
۲۶۔ بدعات و خرافات کے دِلدادوں کو۔
۲۷۔ شرکیہ اعمال و کردار کو عقیدۂ توحید کا مصنوعی لبادہ پہنانے والوں کو۔
۲۸۔ اِسلام کے شفّاف چہرے کو غیر اِسلامی عقائد و نظریات کے ذریعے داغدار کرنے والوں کو۔
جبریہ وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اِس دنیا کا مکمل نظام اللہ کی تقدیر کے مطابق چل رہا ہے اور اِس دنیا میں جو کچھ نیکی اور بدی ہو رہی ہے سب اللہ ہی کروا رہا ہے یعنی نیکی اور بدی کرنے میں اِنسان خود مختار نہیں بلکہ اللہ بالجبر کرواتا ہے اِس وجہ سے اِن لوگوں کو جبریہ اور جھمیہ کہتے ہیں
اِس عقیدے کے بانی جہم بن صفوان اور بِشر مِرّیسی ہیں اِن کا کہنا ہے کہ نعوذ با اللہ اللہ ظالم ہے اگر اُس نے ایسے کام کے کرنے پر کسی کو سزا دی جس کو اُس نے خود کروایا ہے
جبریہ اور جھمیہ کا یہ عقیدہ باطل ہے اِسلام کا اِس بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نے نیکی اور بدی سب کچھ پیدا کی ہے اور اپنے بندوں کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ اپنی عقل و دانش کو اِستعمال کرتے ہوئے کتاب و سنّت اور آسمانی تعلیمات سے روشنی لیتے ہوئے نیکی کو اِختیار کرے یا بدی کو اپنائے دنیا میں اللہ کی طرف سے کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے لیکن قیامت کے روز نیکی کرنے پر جزا اور بدی کرنے پر سزا ضرور ملے گی اِس سلسلے میں ذرہ برابر بھی زیاد تی نہیں ہو گی۔
تقدیر کا عنوان وہ عنوان ہے جو کلّی طور پر اِنسانوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا اِس لئے اِس میں چہ می گوئی اور زیادہ تحقیق کرنے سے اللہ اور اُس کے رسول محمّدﷺ دونوں نے سختی کے ساتھ روکا ہے
غیْرٌ۔ جمع۔ اغْیارٌ۔ (علاوہ۔ سوائے۔ حرفِ اِستثناء (اِلّا )کا ہم معنیٰ ہے یہ عام طور پر مضاف اِستعمال ہوتا ہے اِس کا مضاف اِلیہ اِسمِ ظاہر بھی ہوتا ہے اور اِسمِ ضمیر بھی
دونوں صورتوں میں لفظِ (غیْرُ) پر ما قبل عامل کے مطابق اِعراب پڑھا جاتا ہے اور مضاف اِلیہ بدستور مجرور ہی ہوتا ہے
فرق صرف اِتنا ہے کہ اِسمِ ظاہر مضاف اِلیہ لفظوں میں مجرور ہوتا ہے جبکہ مضاف اِلیہ بننے والی ضمیر صرف ایک صورت میں مجرور ہوتی ہے جب لفظِ (غیْر) سے پہلے آنے والا عامل جر دینے والا ہو یا کسی متبوعِ مجرور کا تابع بن کے آئے اب آپ پوری بحث کی تفصیلی مثالیں ملاحظہ کریں جیسے :
(ما جآء غیْرُ زیْد ٍ)زید کے علاوہ کوئی بھی نہیں آیا
اِس مثال میں (غیر) کا اِعراب مرفوع ہے کیونکہ یہ (جآء) فعلِ لازم کا فاعل ہے اور یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے
(مازُرْتُ غیْر زیْد ٍ)میں زید کے سوا کسی سے بھی نہیں ملا
اِس مثال میں (غیر) کا اِعراب منصوب ہے کیونکہ یہ(زُرْتُ) فعلِ متعدّی اور اُس کے فاعل کا مفعول بہٖ ہے اور یہ بات تو مشہو رہے کہ مفعول بہٖ ہمیشہ منصوب ہوتا ہے
(ما رُحْتُ اِلیٰ غیْرِ زیْد ٍ)میں زید کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں گیا
اِس مثال میں (غیر) کا اِعراب مجرور ہے کیونکہ اِس سے پہلے (اِلیٰ)حرفِ جر آیا ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ حرفِ جر اپنے بعد آنے والے بعد آنےوالے ہر اِسمِ ظاہر کو لفظوں میں مجرور کر دیتا ہے
(ماذھبْتُ اِلیٰ غیْرِہٖ)میں اِس کے علاوہ کسی کی طرف نہیں گیا
اِس مثال میں لفظِ (غیْرِہٖ)کی ضمیر لفظوں میں مجرور ہے اِس کی وجہ یہ ہے اِس کا مضاف جو کہ لفظِ (غیْر) ہے وہ حرفِ جر(اِلیٰ) کی وجہ سے مجرور ہے اور یہ نحوی قانون ہے کہ اِس طرح کی ترکیبِ اِضافی والی ضمیرِ مجرور متّصل پر لفظوں میں ہی جر پڑھا جاتا ہے جباِن سے پہلے سترہ حروفِ جارّہ میں سے کوئی بھی حرفِ جر آئے جیسے :
(اِلیٰ غیْرِہٖ۔ اِلیٰ غیْرِہِما۔ اِلیٰ غیْرِہِمْ۔ اِلیٰ غیْرھِنّ۔ )
درج بالا چار ضمائرِ مجرور متّصلہ ہمیشہ لفظوں میں مجرور پڑھی جائیں گی جب اُن سے پہلے کوئی بھی حرفِ جر آئے جیسے سب گزری ہوئی مثالیں ہیں یا مجرور کے تابع ہو کر آئے جیسے :
(زیْدٌ یُعرفُ بِغیْرِاسْمِہٖ) زید اپنے نام کے بغیر جانا جاتا ہے۔ یعنی وہ اپنے لقب یا کنیت یا تخلّص سے پہچانا جاتا ہے
درج بالا مثال میں (اِسْمِہٖ )کی ضمیر مجرور متّصل لفظِ (غیْر) کے تابع ہو کر آنے کی وجہ سے مجرور ہوئی ہے
کرْھٌ۔ مصدر ہے۔ (نا پسند کرنا۔ نہ چاہنا۔ اِنکار کرنا۔ مشقّت یا تکلیف۔ اذیت یا تنگی۔ جبر کرنا)
شییٌِ۔ جمع اشْیائُ(موجودچیزجس کے بارے میں کچھ جانا جا سکے اور اس کے متعلق دوسروں کو آگاہ کیا جا سکے۔ کوئی بھی مادّہ۔ ہر مخلوق کو کہا جاتا ہے )
بعْضٌ۔ جمع۔ ابْعاضٌ(کسی چیز کا کچھ حصہ، تھوڑا حصہ، اگر وہ چیز عددوں میں ہو تو چند عدد۔ ایک عدد۔ چند چیزیں یا چند لوگ۔ مچھر کا کاٹنا۔ کئی حصوں میں بانٹنا)
مالٌ۔ جمع۔ امْوالٌ(سرمایہ۔ جمع پونجی۔ صلاحیت کو بھی مال کہا جاتا ہے کیونکہ اِس کے ذریعے اِنسان مال کما سکتا ہے )
سمْعٌ۔ جمع۔ اسْماعٌ۔ اسْمُعٌ(کانوں سے سننا۔ قوّتِ سماعت۔ کانوں کے سننے کی طاقت۔ کان کو بھی کہا جاتا ہے جس طرح آذانٌ بھی کہتے ہیں جو کہ( اُذُنٌ )کی جمع ہے )
موْجٌ۔ جمع۔ امْواجٌ(پانی کی لہر۔ تھپیڑے۔ پانی کی طغیانی۔ پانی کی سرکشی۔ دریا یا سمندر کے پانی کا چڑ ھ آنا یا بڑھ جانا)
نارٌ۔ جمع نِیْرانٌ۔ انْوُرٌ۔ نیْرۃٌ(آگ۔ ہر شعلہ والی چیز۔ ہر جلانے والی چیز۔ ہر بھڑک اُٹھنے والی چیز جو لکڑی، کوئلہ، تیل، گیس، ڈیزل، پیٹرول وغیرہ سے حاصل کی جا تی ہے )۔
رسٌّ(کنواں۔ پرانا کنواں۔ درختوں کا جھنڈ یا جنگل۔ علامت یا نشان۔ کسی چیز کی ابتدا یا پہلا حصہ۔ )
نوْمٌ۔ مصدر ہے (نیند۔ سوجانا۔ )
قبْضٌ۔ مصدر ہے۔ (سمیٹ لینا۔ انگلیوں کے کنارے سے چیزوں کو پکڑ لینا۔ ہاتھ روک لینا۔ کسی شخص کو کام کرنے سے روک لینا۔ کنارا۔ روح کو قبض کر لینا۔ فوت کر دینا۔ جان نکال لینا۔ قبضہ کرنا۔ وصول کر لینا۔ پکڑ لینا۔ تھام لینا۔ کسی مجرم یا ملزم کو گرفتار کر نا۔ کسی بھی چیز سے مٹھی بھرنا۔
جمْعٌ۔ جمع۔ جُمُوْعٌ۔ جماعاتٌ(فوج۔ لوگوں کا ایک بڑا گروہ۔ اتفاق و اتحاد۔ ایکا۔
شرعی اصطلاح میں قیامت کے دن کو یوم الجمع کہا جاتا ہے کیونکہ اُس دن سب لوگوں کو میدانِ حشر میں جمع کیا جائے گا۔ عرفِ عام میں کسی بھی اجتماع والے دن کو یوم الجمع کہا جاتا ہے )
فوْجٌ۔ جمع۔ افْواجٌ۔ فُؤُوْجٌ(لوگوں کا ایک گروہ۔ لشکر کا ایک دستہ۔ سپاہی۔ محافظ۔
عرفِ عام یا اِصطلاح میں فوج نوجوانوں کا وہ حصہ ہے جس کو ملک و قوم اور مذہب و ملّت نیز سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جا تا ہے جن کو با قا عدہ ماہانہ تنخواہیں دی جاتی ہیں اور کیمپوں اور بیرکوں میں بسایا جا تا ہے تاکہ بوقتِ ضرورت اُن کو مہم پر روانہ کیا جا سکے۔ فوج کا باقاعدہ سلسلہ خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ نے قائم کیا تھا جو اب تک جاری ہے )
رھطٌ۔ جمع۔ ارْھُطٌ۔ ارْھاطٌ۔ رھُوْطٌ(بڑے بڑے لقمے بنا کر کھا نا کھانا۔ قوم۔ قبیلہ۔ لوگوں کا ایک گروہ جس میں تین اشخاص کم از کم شامل ہوں )
صرْحٌ۔ جمع۔ صُرُوْحٌ۔ اصْراحٌ۔ اصْرِحۃٌ(محل۔ خوبصورت عمارت۔ صراحت کرنا۔ وضاحت کرنا۔ کھول کھول کر بیان کرنا)
حشْرٌ۔ مصدر ہے
(اکٹھا کرنا یا جمع کرنا۔ کسی شخص کو اُس کے وطن سے بلوا کر جلا وطن کر دینا۔
شرعی اِصطلاح کے مطابق قیامت کے دن سب لوگوں کو میدانِ محشر میں جمع کرنا تا کہ اُن کے اعمال کا حساب و کتاب کیا جائے اُن کو اُن کی نیکی یا بدی کی بنیاد پر جزا و سزا دی جائے۔
مدٌّ۔ ج۔ مُدُوْدٌ۔ امْدادٌ(کھنچنا۔ لمبا کرنا۔ مدد کرنا۔ دستگیری کرنا۔ ہاتھ بڑھانا۔ علمِ تجوید کی اِصطلاح میں حروفِ مدّہ یعنی واو الف اور یا ساکنہ کو تلفّظ کرنے میں اپنی اصل مقدار سے زیادہ لمبا کر کے پڑھنا مد کہلاتا ہے۔ ڈھیل دینا۔ مہلت یا فرصت دینا۔ )
عزْمٌ۔ ج۔ عزائِمُ(اِرادہ کرنا۔ قصد کرنا۔ کسی کام کو کرنے کی نیت کرنا۔ پکّا اِرادہ کرنا۔ حقیقت پر اترنا۔ ثابت قدم رہنا۔ عزومہ یعنی کسی کھانے کی یا خوشی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینا)
وھنٌ۔ ج۔ اوْھانٌ۔ وھُوْنٌ۔ مصدر بھی ہے
(جسمانی طور پر بہت زیادہ کمزور ہونا اور کام کاج کرنے کی ہمت نہ رہنا۔ ڈھیلا ہو جانا۔ آسان ہونا۔ معمولی حیثیت کا حامل ہونا۔ بے
حیثیت ہونا۔ لالچی ہونا۔ دنیا طلبی کا شکار ہونا)
ربْطٌ۔ ج۔ رُبُوْطٌ۔ روابِطُ۔ مصدر بھی ہے
(باندھنا۔ جوڑنا۔ تعلّق قائم کرنا۔ ترتیب دینا۔ خود کو کسی کام کے پابند کرنا۔ دل بندھانا۔ حوصلہ دلانا دل بڑھانا)
مشْیٌ(پیدل چلنا۔ قدموں کی چال۔ روانہ ہونا۔ جانا۔ )
بیْنٌ(جدائی۔ ناچاقی۔ ناراضگی۔ دشمنی۔ فساد یا بگاڑ۔ دوری۔ درمیان۔ نمایاں ہونا۔ رشتہ داری۔ کنارا۔ دور دراز علاقہ)
قتْلٌ( کسی کو جان سے مار دینا۔ )
ویْلٌ(ھلاکت۔ تباہی۔ بربادی۔ افسوس۔ جہنّم کی ایک وادی یا طبقہ۔ عذاب۔ نا خوشگواری)
وجْہٌ۔ ج۔ وُجُوْہٌ۔ اوْجُہٌ۔ اجْوُہٌ
(چہرہ جس پر آنکھیں، ناک اور منہ کے اعضاء ہیں۔ سبب۔ علّت۔ وجہ۔ قِسم۔ قصد، ارادہ و نیت۔ عزّت۔ ذات یا جسم۔ آمنے سامنے۔ ۔ طرف یا جانب۔ طریقہ۔ اسلوب۔ رضا یا خوشنودی۔ کسی بھی چیز کے شروع کا حصہ سامنے کا حصّہ۔ صدْرٌ کا مترادف۔ قوم کا سربراہ۔ صاحبِ عزّت)
سبْقٌ(سبقت لے جانا۔ آگے بڑھ جانا۔ پہل کرنا۔ وقت گزر جانا۔ دوڑ کا مقابلہ۔ ریس لگانا)
ذرْعٌ۔ ج۔ اذْرُعٌ( پورا ہاتھ۔ کلائی۔ ناپنا تولنا)
لھوٌ۔ مصدر ہے
(کھیل اور تماشہ۔ ڈھول باجا۔ کوئی بھی چیز جو انسان کو غفلت میں ڈال دے یا غافل بنا دے اور اللہ کی یاد یا عبادت میں رکاوٹ بن جائے جیسے ٹی وی، میلہ، فلم، ویدیو، سرکس وغیرہ دیکھنا یا میچ دیکھنا یا کھیل اور تماشہ کے کاموں میں خود شرکت کرنا۔ توجہ ہٹ جانا۔ کھیل تماشہ کا دلدادہ و شوقین ہونا)
بسْطٌ(پھیلا دینا۔ بچھا دینا۔ دسترخوان بچھا دینا۔ کوئی سا بچھونا بچھا دینا۔ وسیع کرنا۔ کشادہ کرنا۔ تفصیل سے بیان کرنا۔ تتّر بتتّر کر دینا۔ بے ترتیب کر دینا)
ضعْفٌ۔ مصدر ہے
(کمزوری۔ ناتوانی۔ لاغری)
بعْثٌ۔ ج۔ بُعُوْثٌ۔ مصدر بھی ہے
(لشکر۔ فوج۔ بھیجنا۔ روانہ کرنا۔ اِرسال کرنا۔ زندہ کر کے اُٹھانا۔ مرنے کے بعد زندہ کر کے اُٹھانا۔ دستہ۔ ٹولہ۔ انبیاء بھیجنا۔ شرعی اصطلاح میں قیامت کا ایک نام)
طبْعٌ۔ ج۔ طِباعٌ۔ طبائِعُ۔ مصدر بھی ہے
(طبیعت۔ مزاج۔ فطرت۔ عادت۔ اطوار۔ طباعت کرنا یا چھاپنا۔ مہر لگا دینا۔ )
وقْرٌ۔ ج۔ وُقُوْرٌ۔ اوْقارٌ۔ مصدر بھی ہے
(پردہ۔ ڈاٹ۔ بھاری وزن۔ برسات سے لدا ہوا بادل۔ سوراخ بند کرنے کی چیزیں۔ روک۔ بوجھ یا وزن، عزّت اور وقار سے رہنا۔ )
بثٌّ(پھیلانا۔ بڑھانا۔ زیادہ کرنا۔ عام کرنا۔ تتّر بتتّر کرنا۔ بے ترتیب کر دینا۔ مشہور کرنا۔ راز فاش کرنا۔ نشر کر دینا۔ پیدا کرنا۔ گرد و غبار کو اُڑا دینا۔ منتشر کر دینا۔ سخت
ترین افسردگی۔ تی وی یا ریڈیو پر کسی پروگرام کو نشر کرنا یا ریلے کرنا)
کوْنٌ جمع۔ اکْوانٌ۔ مصدر بھی ہے (پیدا ہونا۔ وجود میں آنا۔ ہو جانا۔ بن جانا۔ دنیا۔ کائنات۔ مخلوقات۔ موجودات۔ عالم وجود۔ ہونا)
صبْرٌ(برداشت کرنا۔ ظلم زیادتی کو سہہ کر جوابی کاروائی نہ کرنا اور خاموشی اِختیار کر لینا۔ تنگی، مصیبت اور آزمائش میں صبر کرنا۔ ڈٹ جانا۔ ثابت قدم ہونا۔ مصبّر بوٹی کا لیپ کرنا۔ کسی چیز کا ڈھیر بنانا۔ روک کے رکھنا)
صوْتٌ۔ ج۔ اصْواتٌ(آواز۔ اطّلاع۔ آگہی۔ کلام۔ قول۔ گفتگو۔ دعوت۔ نداء۔ نشریات۔ اچھا تذکرہ۔ اچھی شہرت۔ ریڈیو)
غضٌّ(چشم پوشی کرنا۔ نگاہوں کو ہٹا لینا۔ نگاہیں جھکا لینا۔ نگاہیں نیچی کرنا۔ آواز کو پست کرنا یا کم کرنا۔ کسی کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نگاہ پھیر لینا۔ کسی کی قدر و منزلت کو کم کرنا)
غصٌّ(گلے میں کھانا یا ہدّی وغیرہ کا اٹک جاناجس سے سانس بند ہو جائے۔ کسی جگہ کا عام لوگوں یا مہمانوں سے کھچا کھچ بھر جانا۔
نسْلٌ(اولاد۔ بچے۔ سلسلۂ ولادت۔ سلسلۂ پیدائش۔ )
ملْأٌ( بھر دینا۔ سیر کر دینا۔ پیک کرنا)
شحْنٌ( گاڑی، کشتی، ریل یا کسی گودام میں مال بھرنا۔ کسی قلی یا مزدور پر سامان لاد دینا۔ مال چڑھانا۔ لوڈ کرنا۔ مال لوڈ کر کے روانہ کر دینا۔ کسی کے بارے میں کینہ رکھنا۔ دشمنی رکھنا۔ لوڈنگ کا کام کرنا۔ کارگو چلانا۔ فارورڈنگ ایجنسی چلانا)
نسْیٌ(بھول جانا۔ بھلا دینا۔ فراموش کرنا۔ یاد نہ کرنا)
عرْش۔ ج۔ اعْراشٌ۔ عُرُوْشٌ۔ عُرُشٌ۔ عِرشۃٌ۔ عرائِشُ(بادشاہ کاتخت۔ بلندی۔ حکومت کی کرسی۔ محل۔ گھر کی چھت۔ خیمہ۔ ٹینٹ۔ پرندے کا گھونسلا۔ چھپّر۔ انگوروں کی حفاظت کے لیے بنائے جانے والا چھتّہ یا لکڑیوں اور چھڑیوں کا چھپّر۔ )
با۔ اِسمِ ثلاثی مزید فیہ کے اوزان
اِسمِ ثلاثی مزیدفیہ کے لا محدود اوزان ہیں اِس کے تحت درج ذیل اسماء ہیں جن کو علمائے گرامر نے بڑی تحقیق کے ساتھ بیان کر دیا ہے اِن اِسموں کو جدا جدا طور پر جاننے سے ہمیں الفاظ کے اندر موجود حروفِ اصلیہ اور زائدہ کا واضح طور پر پتہ چل سکتا ہے
ا۔ وہ تمام مفرد مذکر کے الفاظ جن میں تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ ایک حرفِ زائد موجود ہے
ب۔ وہ تمام مفرد مؤنث کے الفاظ جن میں تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ ایک سے زیادہ حروفِ زائدہ موجود ہیں جن حروفِ زائدہ کو مؤنث کی علامت کے طور پر اِضافہ کیا گیا ہے اس قسم کے الفاظ کی تین ذیلی اقسام ہیں۔ (مؤنث لفظی۔ مؤنث مقصورہ۔ مؤنث ممدودہ)
ج۔ وہ تمام مفرد مؤنث کے الفاظ جن میں تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ کوئی نہ کوئی حرفِ زائد موجود ہے جس کو مؤنث کی علامت کے طور پر اِضافہ نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ بعض مؤنث معنوی کا حال ہے
د۔ وہ تمام تثنیہ کے الفاظ جن میں تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ دو حروفِ زائدہ موجود ہیں
ج۔ وہ تمام جمع مذکر سالم کے الفاظ جن میں جمع بنانے کی خاطر( واؤ اور نون )کا اِضافہ کیا گیا ہے
ھ۔ وہ تمام جمع مؤنث سالم کے الفاظ جن میں جمع بنانے کی خاطر(الف اور تا کا اِضافہ کیا گیا ہے
و۔ وہ تمام جمع مکسّر کے الفاظ جن میں جمع بنانے کی خاطر کم از کم ایک حرف کا اِضافہ کیا گیا ہے
ز۔ وہ تمام جمع مکسّر کے الفاظ جن میں جمع بنانے کی خاطر دو حروف کا اِضافہ کیا گیا ہے
ح۔ وہ تمام جمع مکسّر کے الفاظ جن میں جمع بنانے کی خاطر تین حروف کا اِضافہ کیا گیا ہے
ط۔ ثلاثی مجرد کے اوزانِ مصادر میں سے وہ تمام اوزان جن مین تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ حروفِ زائدہ بھی ہیں جن کو مختلف اِضافی معانی کے حصول کے لئے اِضافہ کیا گیا ہے
ی۔ ثلاثی مزید فیہ کے تمام اوزانِ مصادر جن میں ایک سے لے کر چار حروفِ زائدہ کو اِس لئے اِضافہ کیا ہے تاکہ ان حروف کے اِضافے سے مختلف نئے معانی حاصل ہوں جن کا تعلّق خاصّیاتِ ابواب سے ہے
ک۔ ثلاثی مجرد کے تمام اِسم الفاعل کے الفاظ خواہ اُن کا تعلّق ہفتِ اقسام میں سے کسی بھی قسم سے ہویا ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے کسی بھی باب سے ہو
ل۔ ثلاثی مزید فیہ کے تمام اِسم الفاعل کے الفاظ خواہ اُن کا تعلّق ہفت اقسام میں کسی بھی قسم سے ہو یا ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں سے کسی بھی باب سے ہو
ن۔ ثلاثی مجرد کے تمام اِسم المفعول کے الفاظ خواہ اُن کا تعلّق ہفتِ اقسام میں سے کسی بھی قسم سے ہو یا ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے کسی بھی باب سے ہو
س۔ ثلاثی مزید فیہ کے تمام اِسم المفعول کے الفاظ خواہ اُن کا تعلّق ہفت، اقسام میں سے کسی بھی قسم سے ہویاثلاثی مزید فیہ ابواب میں سے کسی بھی باب سے ہو
ع۔ صفاتِ مشبّہہ کے تمام الفاظ جن میں تین حروفِ اصلیہ کے علاوہ کوئی نہ کوئی زائد حرف بھی ہو خواہ اُن صفات کا تعلّق ہفت اقسام میں سے کسی بھی ثلاثی مجرد کے باب سے ہو
ف۔ اِسم المبالغہ کے تمام اوزان جن میں مبالغے کا معنیٰ پیدا کرنے کے لیے حروف کا اِضافہ کیا گیا ہے
ص۔ اِسم التّفضیل کے تمام الفاظ جن میں معنوی برتری پیدا کرنے کے لیے حروف کا اِضافہ کیا گیا ہے
ض۔ اِسم الاٰلہ کے تمام اوزان
ظ۔ اِسم الظرف کے تمام اوزان
غ۔ اِسمِ نسبت کے تمام الفاظ
جیم۔ اِسمِ رباعی مجرّد کے اوزان
علماء گرامر کی تحقیق کے مطابق اِسمِ رباعی مجرد کے صرف چھ اوزان منظرِ عام پر آئے ہیں جو کہ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ رباعی کے اوزان کے ذریعے صرف چار حروفِ اصلیہ والے الفاظ کی شناخت کی جاتی ہے اِن اوزان کے ہم وزن الفاظ ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے مقابلے میں بہت ہی کم اِستعمال ہیں
فعْللٌ فِعْلِلٌ فُعْلُلٌ فِعلْلٌفِعْللٌ فُعْللٌ
اوزان موزونات اور اُن کے معانی
فعْللٌ جعْفرٌ( مرد کا نام۔ خربوزہ۔ گدھا۔ نہر۔ پانی سے بھری نہر۔
لمْلمٌ()
حنْظلٌ(اندرائن کا پھل)
قرْقفٌ()
حدْردٌ()
عنْبرٌ( ایک بڑی مچھلی)
فِعْلِلٌ زِبْرِجٌ(باریک بادل۔ سرخ بادل۔ سونا)
سِمْسِمٌ()
مِرْعِزٌ()
فُعْلُلٌ بُرْثُنٌ(شیر کے پنجے۔ )
سُنْدُسٌ(ریشم)
بُرْجُدٌ()
عُرْفُطٌ()
دُمْلُجٌ()
فُسْتُقٌ()
بُؤْبُؤٌ()
سُنْبُلٌ(اناج کی بھالی)
زُخْرُفٌ(بظاہر سچ بنائی ہوئی چیز)
فِعلْلٌ ھِزبْرٌ(شیر)
قِمطْرٌ()
فِطحْلٌ()
فِعْللٌ دِرْھمٌ(چاندی کا سکّہ یا کاغذ کا نوٹ۔ عرب امارات میں رائج الوقت کرنسی
ھِجْرعٌ(لمبے قد والا کبڑا مرد)
فُعْللٌ جُخْدبٌ(لمبی ٹانگوں والی سبز رنگ کی ٹڈّیاں )
طُحْلبٌ()
جُرْشعٌ()
دال۔ اِسمِ رباعی مزید فیہ کے اوزان
اِسمِ رباعی مزید فیہ کے پانچ اوزان ہیں اِن اوزان کے الفاظ بھی بہت ہی قلیل الاستعمال ہیں اِسی لئے اِن اوزان کے ہم وزن الفاظ کی بڑی قلّت ہے ذیل میں آپ کی اِفادیت کے لیے اوزان بمعہ ہم وزن الفاظ دئے جاتے ہیں
فعنْللٌ۔ فعنْلُلٌ۔ فِعْلِیْلٌ۔ فعْلُوْلٌ۔ فِعْلالٌ
اوزان ہم وزن الفاظ اور اُن کے معانی
فعنْللٌ غضنْفرٌ(شیر)
عقنْقلٌ()
ورنْتلٌ()
حبنْطیٰ()
فعنْلُلٌ قرنْفُلٌ(لونگ)
فِعْلِیْلٌ حِلْتِیْتٌ
عِفْرِیْتٌ(قوی ھیکل جن۔ بڑے قد و قامت والا جن۔ لحیم شحیم جن۔ بہت بڑا دیو)
قِنْدِیْلٌ(لالٹین۔ دا۔ چراغ۔ قمقمے۔ فانوس)
فُعْلُوْلٌ سُحْنُوْنٌ()
قُدْمُوْسٌ()
فِعْلالٌ ضِرْغامٌ()
ھا۔ اِسمِ خماسی مجرد کے اوزان
اِسمِ خماسی مجرد کے اوزان بھی علمائِ گرامر کی تحقیق کے مطابق کل چھ ہیں ذیل میں قارئین کے اِستفادے کے لیے اوزان کے ساتھ اُن کے ہم وزن الفاظ بھی دئے گئے ہیں
فعلْللٌ۔ فعْللِلٌ۔ فِعْللْلٌ۔ فُعلْلِلٌ۔ فُعْللْلٌ۔ فُعْللِلٌ
اوزان ہم وزن الفاظ اور اُن کے معانی
فعلْللٌ سفرْجلٌ(ایک پھل کا نام ہے جس کو بہی دانہ کہتے ہیں )
یلمْلمٌ(یمن کا ایک علاقہ ہے جو حجِّ بیت اللہ کرنے آنے والوں کے لیے میقات ہے جہاں سے اِحرام باندھ کر اندر داخل ہوا جاتا ہے یہ میقات اُن تمام مسلمانوں کے لیے ہے جو اِس راستے سے مکہ میں حج یا عمرہ کی نیت سے داخل ہونا چاہتے ہیں
عجنّسٌ()
فعْللِلٌ جحْمرِشٌ()
فِعْللْلٌ قِرْطعْبٌ()
اِسْطبْلٌ()
فُعلْلِلٌ ُْقُذعْمِلٌ()
فُعْللْلٌ غُرْنبْقٌ()
فُعْللِلٌ ھُنْدلِعٌ()
واو۔ اِسمِ خماسی مزیدفیہ کے اوزان
علمائِ گرامر کی تحقیق کے مطابق اِسمِ خماسی مزید فیہ کے بھی پانچ اوزان ہیں ذیل میں اِن اوزان کے ساتھ اِن کے ہم وزن الفاظ بھی دئے جاتے ہیں
فعْللیْلٌ فعْللُوْلٌ فُعلْلِیْلٌ
اوزان ہم وزن الفاظ اور اُن کے معانی
فعْللیْلٌ خنْدرِیْسٌ(پرانی شراب)
مرْمرِیْسٌ()
فعْللُوْلٌ یسْتعُوْرٌ()
مرْزجُوْشٌ()
فُعلْلِیْلٌ کُنأْبِیْلٌ()
جیسے :
الفاظِ مفرد مذکر الفاظ، جمع مذکر
جِسْمٌ کوئی ایک بدن اجْسامٌ بہت سے بدن
رِجْلٌ کوئی ایک ٹانگ ارْجُلٌ بہت سی ٹانگیں
قِرْدٌ کوئی ایک بندر قُرُوْدٌ۔ قِردۃٌ بہت سے بندر
جِلْدٌ کوئی ایک کھال یا چمڑا۔ جُلُوْدٌ بہت سی کھالیں
درج بالا سب الفاظ اسمائے مفردہ ہیں اور اِن میں جتنے بھی حروف ہیں سب اصلی ہیں۔
جبکہ فعلوں میں حروفِ اصلی کو پہچاننے کے لیے ہر فعلِ ثلاثی مجرد اور ہر فعل رباعی مجرد کے مفرد مذکر غائب کے صیغے کو معیار ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ ثلاثی مزید فیہ اور رباعی مزید فیہ کے جتنے بھی ابواب ہیں وہ سب اِسی مفرد مذکر غائب کے صیغے میں مختلف حروف کے اِضافے کے ذریعے بنائے جاتے ہیں جیسے :
(ذھب)سے (اذْھب)(ذھب)(تذھب)
(کرُم) سے (اکْرم)(کرّم)(تکرّم)(کارم)(تکارم)
چنانچہ جو فعل جس وزن پر فِٹ بیٹھ جائے اُس کو اُسی باب سے جوڑ دیا جاتا ہے علماء صرف نے اِن ابواب کی پہچان کے لئے ان میں سے ہر باب کے مصدر کو اُس باب کا نام قرار دیا ہے جس کا اِطلاق ثلاثی مجرّد کے علاوہ سب ابواب پر ہوتا ہے کیونکہ ثلاثی مجرّد کے ابواب کی پہچان ہر باب کے ماضی اور مضارع دونوں کے تلفظ سے ہوتی ہے نہ کہ اِن کے مصادر سے۔
مصادر سے اِن ابواب کی پہچان اِس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ ثلاثی مجرّد کے ابواب کے مصادر پیتیس(۳۵) سے متجاوز ہیں اِس لئے کسی ایک وزن کو بطورِ نام کے مقرّر نہیں کیا جا سکتا
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر مصدر سے کئی کئی ابواب مستعمل ہیں جیسے (فعْلٌ) کا وزن ہے اِس وزن پر (ضرْبٌ)(نصْرٌ)(فتْحٌ)(جہْلٌ)(حسْبٌ)سب پڑھے جاتے ہیں۔
اِن مصادر میں سے پہلا مصدر (باب فعل یفْعِلُ) سے ہے بر وزنِ(ضرب یضْرِبُ ضرْبًا)
دوسرا (باب فعل یفْعُلُ) سے ہے بر وزنِ (نصر ینْصُرُنصْرًا)
تیسرا(باب فعل یفْعلُ) سے ہے بر وزنِ (فتح یفْتحُ فتْحًا)
چوتھا(باب فعِل یفْعلُ) سے ہے بر وزنِ (جہِل یجْہلُ جہْلًا)
پانچواں (باب فعِل یفْعِلُ) سے ہے بر وزنِ (حسِب یحْسِبُ حسْبًا)
اب آپ درج بالا مصادر کے لغوی معانی ملاحظہ کریں :
ضرْبٌ۔ کسی بھی ذریعے سے مارنا پیٹنا۔ ہاتھ پیر سے کُٹائی کرنا۔ سفر کرنا یا چلنا پھرنا۔ تقسیم کرنا یا بانٹنا۔ مثال بیان کرنا۔ ضرب دینا جو کہ علمِ ریاضی کا ایک فارمولا ہے۔
نصْرٌ۔ مدد کرنا۔ کسی کے کام آنا۔ ساتھ دینا۔
فتْحٌ۔ کسی بھی بند چیز کو کھول دینا۔ شروع یا آغاز کرنا۔ جنگ یا لڑائی کے ذریعے کسی ملک یا بستی پر قبضہ کر لینا۔ دشمنوں کو شکست دینا۔ کشادگی اور آسودہ حالی پیدا کرنا۔ سوراخ کرنا
جہْلٌ۔ انجان یا نا واقف ہونا۔ بے خبر ہونا یا لا عِلم ہونا۔ اوت پٹانگ حرکتیں کرنا۔ احمقانہ رویّے سے پیش آنا۔
حسْبٌ۔ گمان کرنا۔ گننا یا شمار کرنا۔
اِس طرح کی بیشمار مثالیں اور بھی ہیں جن کو ہم مصادر اور اُن کے ابواب کے مخصوص عنوانات کے تحت ضرور بیان کریں گے اِنشاء اللہ العزیز۔
۱۔ فاعِلٌ یہ وزن ثلاثی مجرّد کے چھ ابواب کے لیے مشترکہ وزن ہے
۲۔ مُفْعِلٌ یہ وزن بابِ اِفعال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۳۔ مُفعِّلٌ یہ وزن بابِ تفعیل کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۴۔ مُفاعِلٌ یہ وزن بابِ مُفاعلہ کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۵۔ مُتفاعِلٌ یہ وزن بابِ تفاعُل کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۶۔ مُتفعِّلٌ یہ وزن بابِ تفعُّل کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۷۔ مُفْتعِلٌ یہ وزن بابِ اِفتِعال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۸۔ مُنْفعِلٌ یہ وزن بابِ اِنفِعال اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۹۔ مُسْتفْعِلٌ یہ وزن بابِ اِستِفعال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۰۔ مُفْعلِلٌ یہ وزن بابِ اِفْعِلال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۱۔ مُفْعالِلٌ یہ وزن بابِ اِفعِیْلال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۲۔ مُفْعوْعِلٌ یہ وزن بابِ اِفْعِیْعال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۳۔ مُفْعوِّلٌ یہ وزن بابِ اِفْعِوّال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۴۔ مُفعْلِلٌ یہ وزن بابِ فعْللۃٌ و فِعْلالٌ کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۵۔ مُتفعْلِلٌ یہ وزن بابِ تفعْلُلٌ کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۶۔ مُفْعلِلٌّ یہ وزن بابِ اِفْعِلّال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
۱۷۔ مُفْعنْلِلٌ یہ وزن بابِ اِفْعِنلال کا اِسم الفاعل کہلاتا ہے
درج بالا اوزان میں سے (پہلا وزن)جو کہ(فاعِلٌ ہے )یہ ثلاثی مجرّد کے چھ کے چھ ابواب کے لیے مشترک وزن ہے اور (نمبر دو) سے لے کر (نمبر تیرہ) شامل سب اوزان ثلاثی مزید فیہ کے (بارہ ابواب)میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ اوزان ہیں جن میں سے آخری (دو اوزان)بہت ہی کم اِستعمال ہیں اِسی لئے علمائے صرف نے اِن دو ابواب کو ابوابِ شاذّہ قرار دیا ہے اور(چودہواں نمبر وزن)رباعی مجرّد کے لئے ہے اور(پندرہواں، سولہواں، سترہواں ) رباعی مزید فیہ کے ابواب کے لیے ہیں
یاد رہے کہ (۱۷ ) میں سے ہر ایک کے ما تحت چھ چھ الفاظ ہیں (جن کو بنانے کا مفصّل طریقہ جامع عربی گرامر کے پہلے حصّے میں اِسم الفاعل کے عنوان میں آپ پڑھ چکے ہیں ) چھ میں سے تین مذکر کے لیے اور تین مؤنث کے لیے ہیں اور تین میں سے ایک مفرد(ایک کی عدد) دوسرا تثنیہ(دو کی عدد) اور تیسرا جمع(دو سے زیادہ کی عدد) کے لیے ہے چنانچہ (سترہ) کو چھ پر ضرب دینے سے کل (ایک سو دو) اسم الفاعل کے الفاظ وجود میں آتے ہیں۔
اسموں کا تعلق اگرکسی شخص یا چیز سے ہو جس پر کسی قسم کا مادّی یا معنوی فعل سرزد کیا گیا ہو تو اس طرح کے اسمون کو اسم المفعول کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسم المفعول کو ظاہر کرنے والے بنیادی الفاظ کی تعداد بھی بائیس(۲۲) ہے اور بائیس میں سے ہر ایک کے ما تحت چھ چھ الفاظ ہیں چھ میں سے تین مذکر کے لیے اور تین مؤنث کے لیے ہیں اور ہر تین میں سے ایک مفرد(ایک کی عدد) کے لیے دوسرا تثنیہ(دو کی عدد) کے لیے اور تیسرا جمع(دو سے زیادہ کی عدد) کے لیے ہے چنانچہ بائیس کو چھ پر ضرب دینے سے کل ایک سو بتّیس اسم المفعول کے الفاظ وجود میں آتے ہیں۔
ان کو بھی نوٹ کریں :
اسموں کا تعلّق اگرکسی مادّی یا معنوی فعل سرزدہونے یا سرزد کئے جانے والے آلے (ذریعہ) سے ہو تو ایسے اسموں کو اسم الاٰلہ کہتے ہیں اس کے ما تحت بھی بنیادی طور پر صرف چھ الفاظ ہیں جن مین سے تین مذکر کے لیے اور تین مؤنث کے لیے ہیں اور ہر تین میں سے ایک مفرد(ایک کی عدد) کے لیے دوسراتثنیہ(دو کی عدد)کے لیے اور تیسراجمع(دو سے زیادہ کی عدد)کے لیے ہے۔
اسم الاٰلۃ کے لیے ہمیشہ (مِفْعلٌ) کا وزن استعمال کیا جاتا ہے جیسے (مِسْمعٌ)سننے کے لیے استعمال ہونے والا کوئی ایک(مذکّر) آلہ(مِسْمعانِ)سننے کے لیے استعمال ہونے والے کوئی سے دو(مذکّر) آلے (مسامِعُ)سننے کے لیے استعمال ہونے والے دو سے زیادہ(مذکّر) آلات (مِسْمعۃٌ) سننے کے لیے استعمال ہونے والا کوئی ایک (مؤنث)آلہ(مِسْمعتانِ)سننے کے لیے استعمال ہونے والے کوئی سے دو(مؤنث)آلے (مِسْمعاتٌ)سننے کے لیے استعمال ہونے والے دو سے زیادہ (مؤنث)آلات۔
اسم الاٰلۃ کے اوزان صرف ثلاثی مجرّد کے مصادر یا افعال سے بنائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ( ثلاثی مزید فیہ)و(رباعی مجرّد) و(رباعی مزید فیہ)کے لیے اسم الاٰلۃ کے الفاظ عربوں سے منقول نہیں ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لیجئے کہ اسم الاٰلۃ کے طور پر استعمال ہونے والی سب کی سب اشیاء غیر عاقل ہوا کرتی ہیں اسلئے اسم الاٰلۃ میں جمع مذکّر سالم کا صیغہ استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ صیغہ عقلاء کے لیے خاص ہے عقلاء کی فہرست میں انسان، ملائکہ اور جنّات شامل ہیں۔ اسلئے اسم الاٰلۃ میں جمع مذکّر کے صیغے کی جگہ پر جمع مکسّر منتہی الجموع (مفاعِلُ)کا صیغہ استعمال کرنا ہرگز نہ بھولیئے۔
اسموں کا تعلّق اگرکسی مادّی یا معنوی فعل سرزد ہونے یا سرزد کئے جانے والے مقام(جگہ)سے ہو تو ایسے اسموں کو اسمِ ظرفِ مکان کہتے ہیں اس کے بھی بنیادی طور بائیس (۲۲) اوزان ہیں اور ہر وزن کے ما تحت چھ چھ الفاظ ہیں جن میں سے تین مذکر کے لیے اور تین مؤنث کے لیے ہیں اور ہر تین میں سے ایک مفرد(ایک کی عدد) کے لیے دوسراتثنیہ(دو کی عدد)کے لیے اور تیسراجمع(دو سے زیادہ کی عدد) کے لیے ہے۔
یا رہے کہ اسمِ ظرفِ مکان ہر فعلِ لازم و متعدّی سے یکساں طور پر کلامِ عرب میں مستعمل ہے۔ ثلاثی مجرّد کے ابواب سے ظرفِ مکان کے الفاظ مضارع مکسور العین سے (مفْعِلٌ) مکسور العین استعمال ہوتا ہے جبکہ مضارع مفتوح العین و مضموم العین استعمال ہونے والے الفاظ سے ظرفِ مکان(چند گنے چنے الفاظ کے علاوہ) سب کے سب (مفْعلٌ) مفتوح العین ہی استعمال ہوتے ہیں :۔
جیسے (یصْبِرُ)و(یرِثُ )سے (مصْبِرٌصبر کرنے کی کوئی ایک جگہ)و(موْرِثٌوارث بننے یاوارث بنائے جانے کی کوئی ایک جگہ)(ینْصُرُ)و(یعْلمُ)سے (منْصرٌمدد ہونے یا مدد کی جانے والی کوئی ایک جگہ)و(معْلم ٌمعلومات حاصل کرنے یا علم حاصل کرنے کی کوئی ایک جگہ)۔
لیکن( ثلاثی مزید فیہ)و(رباعی مجرد)و(رباعی مزید فیہ)کے ابواب سے اسم ظرف مکان کے طوراِ نہی ابواب کے اسم المفعول کے الفاظ کو بعینہٖ کلامِ عرب میں استعمال کیا جاتا ہے البتہ جمع مذکّر کے وزن کے لیے جمع مذکّر سالم کا صیغہ استعمال کرنے کے بجائے جمع مکسّر(منتہیٰ الجموع)کا وزن (مفاعِلُ) استعمال کیا جاتا ہے یاد رکھئے کہ اِن ابواب کے لئے ظرفِ مکان کے طور پر الگ سے الفاظ عربوں سے منقول نہیں ہیں۔ لہذا اسم المفعول اور ظرفِ مکان دونوں میں معنوی فرق کرنا نہ بھولئے اور یہ بات تو مشہور سی بات ہے کہ ان ابواب کے اسم المفعول و ظرفِ مکان فعلِ مضارع مجہول کی طرح حرفِ آخر سے پہلے والے حرف کو مفتوح(زبر کے ساتھ)پڑہا جاتا ہے اور حرفِ آخر کو تبوین کے ساتھ پڑہا جاتا ہے جب اس کے شروع میں (الْ) تعریفیہ نہ پڑہا جائے اگر (الْ) پڑہا جائے تو اسم المفعول وظرفِ مکان دونوں کے آخری حرف پر تنوین نہیں پڑہی جائے گی بلکہ صرف ایک ہی حرکت پڑہی جائے گی اور ہر صورت میں فعلِ مضارعِ مجہول سے علامتِ مضارع کو ہٹا کر اس کی جگہ پر( میم مضمومہ)پڑھنا نہ بھولئے جیسے ( یکْرمُ)فعل، مضارع مجہول سے اسم المفعول وظرفِ مکان کے طور پر یاد رکھئے کہ ظرفِ مکان میں جمع مذکّر سالم کا صیغہ قطعاً استعمال نہیں ہوا کرتا کیونکہ ظروف جتنی بھی ہیں سب کی سب غیر عاقل اشیأ ہوتی ہیں جن کے لئے جمع مذکّر سالم کا صیغہ قطعاً استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ صیغہ عاقل مخلوق کے لیے خاص ہے یاد رہے کہ عقلاء کی فہرست میں صرف اور صرف انسان، ملائکۃ اور جنّات شامل ہیں۔ جیسے (مکارِمُ)دو سے زیادہ عزت افزائی کرنے والی جگہیں۔
اسموں کا تعلّق اگرکسی ایسے لفظ سے ہو جو کسی شخص یا چیز کی فطری یا اخلاقی خوبی و خامی کو بیان کرے تو اس طرح کے اسموں کو صفات مشبّہہ کہتے ہیں۔ صفاتِ مشبّہہ کے کم و بیش بائیس بنیادی(۲۲) اوزان ہیں اور ہر وزن کے ما تحت چھ چھ الفاظ ہیں تین مذکّر کے لیے ہیں اور تین مؤنث کے لیے ہیں نیز ہر تین میں سے ایک مفرد(ایک کی عدد) کے لیے دوسرا تثنیہ(دو کی عدد) کے لیے اور تیسرا جمع( دو سے زیادہ کی عدد)کے لیے ہے جیسے :
جمِیْلٌ۔ حسنٌ۔ حسِیْنٌ فطری و اخلاقی طور پر خوبصورت کوئی ایک شخص
جمِیْلانِ۔ حسنانِ۔ حسِیْنانِ فطری طور پر دو خوبصورت یا نیک کردار اشخاص
جمِیْلُوْن۔ اجامِلُ۔ حسنُوْن حسِیْنُوْن۔ احاسِنُ فطری طور پر دو سے زیادہ خوبصورت یا نیک کردار اشخاص
جمِیْلۃٌ۔ حسنۃٌ۔ حسِیْنۃٌ فطری طور پر ایک خوبصورت یا نیک کردار خاتون
جمِیْلتانِ۔ حسنتانِ۔ حسِیْنتانِ فطری طور پر دو خوبصورت یا نیک کردار خواتین
جمِیْلاتٌ۔ حسناتٌ۔ حسِیْناتٌ فطری طور پر دو سے زیادہ خوبصورت یا نیک کردار خواتین
اعْورُ۔ احْولُ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والا۔
اعْورانِ۔ احْولانِ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والے دو اشخاص
اعْورُوْن۔ احْولُوْن۔ اعاوِرُاحاوِلُ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والے دو سے زیادہ اشخاص
عوْرائُ۔ حوْلائُ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والی ایک خاتون
عوْراوانِ۔ حوْلاوانِ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والی دو خواتین
عوْراواتٌ۔ حوْلاواتٌ فطری طور پر بھینگی آنکھ سے دیکھنے والی دو سے زیادہ خواتین
شُجاعٌ ایک فطری یا جذباتی بہادر شخص
شُجاعانِ دو فطری یا جذباتی بہادر اشخاص
شُجاعُوْن۔ شُجْعانٌ۔ اشاجِعُ دو سے زیادہ فطری یا جذباتی بہادر اشخاص
جبانٌ ایک فطری یا تخیّلاتی بز دل شخص
جبانانِ دو فطری یا تخیّلاتی بزدل اشخاص
جبانُوْن۔ اجابِنُ دو سے زیادہ فطری یا تخیّلاتی بزدل اشخاص
اسموں کا تعلّق اگرایسے الفاظ سے ہو جو کسی شخص یا چیز کو(فطری، اخلاقی، ، مادّی اور معنوی خامی و خوبی )میں دوسرے اشخاس یا دوسری اشیاء کے مقابلے میں زیادہ آراستہ ظاہر کرتے ہوں تو ایسے اسموں کواسم التفضیل کہتے ہیں۔ اسم التفضیل کے تحت بھی بنیادی طور پر چھ اوزان ہیں تین مذکّر کے لیے اور تین مؤنث کے لیے اور ہر تین مین سے ایک مفرد(ایک کی عدد) کے لیے دوسراتثنیہ(دو کی عدد) کے لیے اور تیسراجمع(دو سے زیادہ کی عدد) کے لیے ہے۔
یاد رکھئے کہ اسم التفضیل کے الفاظ صرف ثلاثی مجرّد کے تما م( لا زم و متعدّی) ابواب سے اصولی طور پر استعمال ہوتے ہیں (ثلاثی مزید فیہ)رباعی مجرّد)اور رباعی مزید فیہ ) سے اسم التفضیل کے الفاظ قطعاً ا استعمال نہیں کئے جاتے۔ اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ اسمِ تفضیل کے اصولی الفاظ جملوں میں تین مرکزی و بنیادی طریقوں سے بولے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تینوں بنیادی طریقوں میں سے صرف پہلے طریقے میں اسمِ تفضیل کے الفاظ کو ظاہری طور پر( ممیّزمضاف)اور اسمِ تفضیل کے مدِّ مقابل الفاظ کو ظاہری طور پر (تمییز مضاف الیہ) کہتے ہیں چنانچہ مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مضاف الیہ پر (جر یا کسرہ )کی حرکت پڑھی جاتی ہے جیساکہ آئیندہ کے صفحات میں مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے نیز یاد رکھئے کہ ممیّز مبہم پہلو کو کہا جاتا ہے جبکہ تمییز مبہم کو واضح کرنے والے پہلو کو کہتے ہیں اِس لئے کہ اِسمِ تفضیل کےا لفاظ کے فوراً بعد جب تک اسمِ تفضیل کے مدِّ مقابل الفاظ کو بیان نہ کیا جائے تب تک اسمِ تفضیل کے الفاظ اپنا ترکیبی و مرادی معنیٰ ہرگز ادا نہیں کر سکتے۔
نوٹ کر لیجئے کہ اِسمِ تفضیل کی اِس اضافت کے عنوان کو اِضافتِ لفظی کہتے ہیں کیونکہ اِس اِضافت کا معنیٰ میں کوئی دخل نہیں ہوتابس صرف اختصارِ عبارت اور تلفُّظ کی آسانی کی خاطر اِضافت کے زاویے میں پڑھا اور لکھا جاتا ہے
اِضافتِ لفظی کا اِستعمال اِسمِ تفضیل کے علاوہ تمام صفات کے صیغوں میں بھی ہوتا ہے جن میں اِسم الفاعل، اِسم المفعول، صفتِ مشبّہہ، اِسم المبالغہ اور اِسمِ نسبت بھی شامل ہیں۔
اِن کے علاوہ سب اسموں میں اضافتِ معنوی کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا عبارت کے معنیٰ و مفہوم میں با قاعدہ دخل ہوتا ہے کیونکہ اضافتِ معنوی کی عبارت میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان کہیں تو(لامِ جارّہ ملکیتی یا تخصیصی)مقدّر ہوتا ہے (جس کو لفظوں میں لایا نہیں گیا ہے )اور کہیں تو (مِنْ حرفِ جارّہ تبعیضیہ)مقدّر ہوتا ہے (جس کو لفظوں میں لایا نہیں گیا ہے )اور کہیں تو (فِیْ حرفِ جارّہ ظرفیہ)مقدّر ہوتا ہے (جس کو لفظوں میں لایا نہیں گیا ہے ) معنوی اضافت میں جب تک اِن مقدّرہ حروف کو ملحوظ نہ رکھا جائے تب تک اضافت کا مقصودی و مرادی معنیٰ و مفہوم سامنے نہیں آ سکتا۔ یہ حقیقت پتھر پہ لکیر کی طرح نمایاں ہے کہ اِضافتِ معنویہ میں اُردو زبان میں ترجمہ کے دوراں (زیدکا، چاندی کی، اللہ کے، میرا، میری، میرے، ہمارا، ہماری، ہمارے، تیرا، تیری، تیرے، تمھارے )کی جو نسبت پائی جاتی ہے در اصل یہ نسبت اُنہی مقدّرہ حروف کے نتیجے میں ہے لیکن اِسم تفضیل کی اِضافت والی عبارتوں میں اِن نسبتوں میں سے کوئی بھی نسبت پائی نہیں جاتی کیونکہ اِن میں معنوی نسبت کے بجائے نسبت تقابل موجود ہے۔
یاد رکھئے کہ اضافتِ معنوی کے بلاغی فلسفے میں [۱]مضاف کو مضاف الیہ کے ساتھ خاص کرناجیسے :
(کِتابُ اللہ )اللہ کی کتاب(اِسْمُ اللہ )اللہ کا نام۔ اللہ کی صفت)(صِفاتُ اللہ ) (حُکْمُ اللہ ) اللہ کا حکم(رسُوْلُ اللہ ) اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر(نبِیُّ اللہ ) اللہ کے پیغامات پہنچانے والا نبی(بیْتُ اللہ ) اللہ کا گھر(دِیْنُ اللہ ) اللہ کا دین۔ اللہ کا آئین۔ اللہ کا نظم و نسق۔ اللہ کا فیصلہ۔ اللہ کی اِطاعت۔ اللہ کی روِش۔ اللہ کا سلوک۔ اللہ کا مخلوق کو اپنے قانون کے ما تحت کرنا۔ اللہ کا قانون۔ اللہ کا دستور۔ اللہ کا پروگرام۔ اللہ کا منصوبہ۔ اللہ کا راستہ۔ اللہ کا نظامِ کائنات۔ اللہ کا نظامِ فطرت۔
اللہ کا نظامِ سلطنت۔ اللہ کا نظامِ عدل۔ اللہ کا نظامِ جزاء و سزا(امْرُ اللہ ) اللہ کا دستور۔ اللہ کا حکم۔ اللہ کا آرڈر۔ اللہ کی مرضی۔ اللہ کا فیصلہ(اِذْنُ اللہ )اللہ کا حکم۔ اللہ کی اِجازت(حقُّ اللہ )ِ اللہ کا حق۔ اللہ کا حصّہ(طاعۃُ اللہ ) اللہ کے احکامات کو مان کر عمل کرنا( معْصِیۃُ اللہ )اللہ کے احکامات کو نہ ماننا اور ان پر عمل نہ کرنا(سخطُ اللہ ) اللہ کی ناراضگی (نِعْمۃُ اللہ ) اللہ کی نعمت۔ اللہ کا احسان(فضْلُ اللہ ) اللہ کا فضل۔ اللہ کی مہربانی۔ اللہ کا کرم (حمْدُ اللہ )اللہ کی تعریف اللہ کی ثناء (شُکْرُ اللہ ) اللہ کا احسان ماننا (عذابُ اللہ ) اللہ کا عذاب۔ اللہ کی سزا(غضبُ اللہ ) اللہ کا غضب۔ اللہ کی ناراضگی۔ اللہ کی پھٹکار(مِلْکُ اللہ ) اللہ کا اختیار۔ اللہ کا کنٹرول۔ اللہ کا تصرّف(قدْرُ اللہ )اللہ کا علم۔ اللہ کا منصوبہ۔ اللہ کی اسکیمیں (خلْقُ اللہ )اللہ کا مخلوق کو پیدا کرنا۔ اللہ کی مخلوق(ذِکْرُ اللہ ) اللہ کا ذکر۔ اللہ کا ذکر کرنا۔ اللہ کو یاد کرنا(اللہ کا چرچا کرنا۔ اللہ کا ہر وقت نام لینا(تقْدِیْسُ اللہ )اللہ کی پاکی کو بیان کرنا(عبْدُ اللہ ) اللہ کا بندہ۔ اللہ کی مخلوق(امۃُ اللہ ) اللہ کی لونڈی۔ اللہ کی بندی(عفْوُ اللہ )اللہ کی معافی۔ اللہ کا در گذر کرنا(رحْمۃُ اللہ ) اللہ کی رحمت۔ اللہ کا فضل و کرم۔ اللہ کی مہربانی(سلامُ اللہ ) اللہ کی سلامتی۔ اللہ کی حفاطت۔ اللہ کی پناہ(دفعُ اللہ )اللہ کی حفاظت۔ اللہ کا بچاؤ۔ اللہ کا دفاع۔ اللہ کی طاقت۔ اللہ کا زور(عہْدُ اللہ ) اللہ کا وعدہ۔ اللہ کی ذمّہ داری(امانُ اللہ ) اللہ کی حفاظت۔ اللہ کی پناہ۔ (ارْضُ اللہ )اللہ کی زمین(برْکۃُ اللہ )اللہ کی برکت۔ اللہ کی رحمت(عدُوُّ اللہ ) اللہ کا دشمن۔ اللہ کا مخالف(حبِیبُ اللہ ) اللہ کا حبیب(اللہ کا پیارا۔ اللہ کا محبوب۔ اللہ کا پسندہ(خلِیْلُ اللہ )اللہ کا پیارا۔ اللہ کا محبوب۔ اللہ کا پسندہ(نارُ اللہ )اللہ کی آگ(نُوْرُ اللہ )اللہ کا نور۔ اللہ کانور (قوْلُ اللہ )اللہ کا فرمان۔ اللہ کا ارشاد۔ اللہ کی گفتگو۔ اللہ کی بات چیت۔ اللہ کی بولی۔ اللہ کی کہاوت۔ اللہ کا کہنا(وجْہُ اللہ )اللہ کا چہرہ۔ اللہ کی ذاتِ پاک۔ اللہ کی سِمت۔ اللہ کارخ۔ اللہ کی رضامندی۔ اللہ کی خوشنودی۔ اللہ کی رِضا(ناقۃُ اللہ )اللہ کی اونٹنی جو حضرتِ صالح کو بطورِ معجزہ ایک چٹان سے پیدا کر کے دی گئی تھی(کلامُ اللہ )اللہ کا فرمان۔ اللہ کا اِرشاد۔ اللہ کی گفتگو۔ اللہ کی بات چیت۔ اللہ کا بولنا۔ اللہ کی بولی(نصْرُ اللہ )اللہ کی مدد۔ اللہ کی تائید۔ اللہ کی نصرت(رُؤْیۃُ اللہ )اللہ کا دیدار۔ بندوں کا اللہ کو دیکھنا۔ اللہ کا بندوں کو دیکھنا۔ (خشْیۃُ اللہ ) اللہ کا ڈر۔ بندوں کا اللہ سے ڈرنا۔ بندوں کا اللہ کی نافرمانی کا خوف اپنے دلوں میں اِحساس کرنا(ایّامُ اللہ ) اللہ کے تاریخی ایّام جن میں اُس نے سرکش قوموں پر مختلف عذابات نازل فرمائے تھے۔ اللہ کے مشہور دن(عِبادۃُ اللہ ) اللہ کی عبادت۔ اللہ کی عبادت کرنا۔ اللہ کی بندگی کرنا۔ بندے کا اللہ کا غلام بننا۔ بندے کا اللہ کے حضور عاجزی کرنا۔ اللہ ہی کی عبادت کرنا(فِطْرۃُ اللہ )اللہ کا قانون۔ اللہ کی روِش۔ اللہ کا دستور۔ اللہ کا قانونِ فطرت۔ اللہ کا کائنات کو بنانے کا آغاز کرنا(ایٰاتُ اللہ )اللہ کے فرامین۔ اللہ کی بھیجی ہوئی قرآنی آیتیں۔ اللہ کے دکھائے ہوئے معجزات۔ اللہ کی نشانیاں۔ اللہ کی تعلیمات۔ اللہ کے احکام و قوانین۔ اللہ کے دلائلِ قدرت (سبِیْلُ اللہ )(صِراطُ اللہ )طرِیْقُ اللہ ) طرِیْقُ الْجنّۃِ)صِراطُ الْجنّۃِ)صِراطُ الْجحِیْمِ )سبِیْل الْغیِّ )سبِیْل الْہِدایۃ)مغْفِرۃُ اللہ )(غُفْرانُ اللہ )ِ (ظِلُّ اللہ )عرْشُ الْملِکِ)عرْشُ الْملِکۃِ)عرْشُ الْاِمْبراطوْرِ)عرْشُ الْاِمْبراطوْرۃِ)کُرْسِیُّ الْحاکِمِ)کُرْسِیُّّ الْعمِیْدِ)کُرْسِیُّ الْمُدِیْرِ)کُرْسِیُّ الرّئِیْسِ)کُرْسِیُّ الْمُعلِّمِ) کُرْسِیُّ ال ْالْحارِسِ)کُرْسِیُّ الْبوّابِ)کُرْسِیُّ الطّالِبِ)کُرْسِیُّ الشّیْخِ)کُرْسِیُّ القاضِیْ )کُرْسِیُّ الطّبِیْبِ)کُرْسِیُّ السّوّاقِ)کُرْسِیُّ الْجُنْدِیِّ)کُرْسِیُّ
الْامِیْرِ)کُرْسِیُّ الْخلِیْفۃِ)کُرْسِیُّ الْمُشْرِفِ)کُرْسِیْسِیُّ الْمُفتِّشِ)کُرْسِیُّ الْمُوظّفِ) کُرْسِیُّ الْحکُوْمۃِ)کُرْسِیُّ الْحاکِمِ))(رِزْقُ اللہ )(سِرُّ اللہ )(شہادۃُ اللہ )(صلاۃُ اللہ )(یمِیْنُ اللہ )(قسمُ اللہ )(مُلْکُ اللہ )(مِلْکُ اللہ )حِسابُ اللہ )(عرْشُ اللہ )(کُرْسِیُّ اللہ )(سماءُ اللہ ) (ارْضُ اللہ )(قضاءُ اللہ )(ساقُ اللہ )(یدُ اللہ )(لِسانُ اللہ (حُدُوْدُ اللہ ) ھِدایۃُ اللہ )((ہُدیِ اللہ )(وعْدُ اللہ )(عِلْمُ اللہ )(جُنْدُ اللہ )(حِزْبُ اللہ ) حِزْبُ الشّیْطانِ)((کلِماتُ اللہ )(ضِیاءُ اللہ )(ملائِکۃُ اللہ )(تقْوی اللہ ) (مالُ اللہ ( اِذْنُ اللہ )یدُ اللہ )(توْحِیْدُ اللہ )احِبّاءُ اللہ )(اوْلِیاء اللہ ) اوْلِیاءُ الشّیْطانِ)((فِتْنۃُا للہ )(لِقاءُ اللہ )(انْصارُ اللہ )(فتْحُ اللہ )(رُوْحُ اللہ )(حُبُّ اللہ )(حِبُّ اللہ )(محبّۃُ اللہ )(مودّۃ’اللہ )(مرْضاتُ اللہ )رِضی اللہ )((بأسُ اللہ )(نہْیُ اللہ )(حُرُماتُ اللہ )(شعائِرُ اللہ )(شِقاقُ اللہ ) (لعْنۃُ اللہ )(بیِّناتُ اللہ )(رأْفۃُ اللہ )(زِیْنۃُ اللہ )(تصْدِیْقُ اللہ )(تکْذِیْبُ اللہ )( مثلُ اللہ )(امْثالُ اللہ )(نعِیمُ اللہ )(اصْحابُ الْیمِیْنِ)اصْحابُ الشِّمالِ(اصْْحابُ المیْمنہ)( اصْحابُ المشْئمۃِ)(اصْحابُ الْجنّہِ) (اصْحابُ النّارِ)اٰلٰائُاللہ (ربُّہٗ۔ ربُّہُما۔ ربُّہُمْ۔ ربُّہا۔ ربُّہُما ربُّہُنّ۔ ربُّک۔ ربّکُماُ۔ ربُّکُم۔ ربُّکِ۔ ربُّکُماربُّکُنّ۔ ربِّیْ ربُّنا)برائۃُ اللہ
ِ)(نکِیْرُ ا اللہ )(سُنّۃُ اللہ )(بشارۃُ اللہ )(قِسْمۃُ اللہ ) (نُصْحُ اللہ )(تذْکرِۃُ اللہ )(تذْکِیْرُ اللہ )(تبْشِیْرُ اللہ )(اِنْذارُ اللہ )(توْفِیْقُ اللہ )(تیْسِیْرُ اللہ )(تعْسِیْرُ اللہ )(تکْبِیْرُ اللہ )(تحْمِیْدُ اللہ )(تمْجِیْدُ اللہ ) (تعْظِیْمُ اللہ )(دعْوۃُ اللہ )( بلاغُ اللہ )(دُعائُ الْخیْرِ)(دُعاءُ الشّرِّ)نُزُوْلُ اللہ ) (عُلُوُّ اللہ )کِبْرِیاءُ اللہ )(سُبْحان اللہ )(حِکْمۃُ اللہ )(یوْمُ الدِّیْنِ)(یوْمُ القجمْعِ)یوْمُ الْاِمْتِحانِ)یوْمُ السّاعۃِ)(یوْمُ الْقِیامۃِ)(یوْمُ النّجاۃِ)(یوْمُ اللِقائِ)(یوْمُ التّلاقِ)(یوْمُ التّغابُن )(یوْمُ السّفرِ)(یوْمُ الذّھابِ)(یوْمُ الرُّجُوْعِ)(یوْمُ الاِیابِ)(یوْمُ العُطْلۃِ)(یوْمُ الْفراغِ)(یوْمُ الْفرحِ)(یوْمُ السُّرُوْرِ)(یوْ مُ النّتِیْجۃِ)(یوْمُِ الْاحدِ)(یوْمُ الْاِثْنیْنِ)(یوْمُ الثُّلثاء)(یوْمُ الْارْبِعاء)(یوْمُ الْخمِیْسِ)(یوْمُ الجُمُعۃِ)(یوْمُ الْعِیْدِ)(یوْمُ عِیْدِالفِطْر)(یوْمُ عِیْدِالضُّحیِٰ)(یوْمُ النِّکاحِ)(یوْمُالزّواجِ)(یوْمُ الزُّفافِ)(یوْمُ خُطْبۃِ النِّکاحِ)(یوْمُ الْاِضْرابِ)(یوْمُ الْحِسابِ)(یوْمُ الْعقِیْقۃِ)(یوْمُ اْلولِیمۃِ)(یوْمُ الشُّکْرِ)(یوْمُ اُسْبُوع المُرُوْرِ)(یوْمُ الْمہْرجانِ)(یوْمُ اُسْبُوْعِ النّظافۃِ)
ِالنّظافۃِ)(یوْمُ ا الْاِسْتِقْلالِ)(یوْمُالتّحرُّرِ)(یوالْمُباراۃِ)(یوُْالْوعِیْدِ)((ربُّہٗ۔ ربُّہُما۔ ربُّہُمْ۔ ربُّہا۔ ربُّہُما۔ ربُّہُنّ۔ ربُّک۔ ربُّکُما۔ ربُّکُمْ۔ ربُّکِ۔ ربُّکُما۔ ربُّکُنّ۔ ربِّیْ۔ ربُّنا)اصْحابُ الرّسِّ)اصْحابُ مدْین)اصْحابُ ا الْایکۃِ)قوْمُ نُوْحٍ)قوْمُ فِرْعوْن)قوْمُ یُوْنُس)قوْمُ مُوْسیٰ)سکْرۃُ الْموْتِ)اِخْوانُ لُوْطٍ)حبْلُ الْورِیْد)غیْبُ السّماوات)غیْبُ الْارْضِ)صوْتُ النّبِیِ)شطْاہٗ)کلِمۃُ التّقْویٰ)ایْدِیْ النّاسِ)محِلّہٗ)یدُ اللہ )اخُوْ عادٍ) عذابُ الْہُوْنِ)وعْدُ الصِّدْقِ)کِتابُ مُوْسیٰ)اِبْنُ طارِقٍ)اِبْنۃُ محْمُوْدٍ)بنُوْ اِسْرائِیْل)بنِیْ اِسْرائِیْل) ربُّ السّمائِ) ربُّ السّمٰوٰتِ)ربُّ الْارْضِ)ربُّ الْعالمِیْن)ولِیُّ الْمُؤْمِنِیْن)ولِیُّ الْمُتّقِیْن)ولِیُّ الْکافِرِیْن)ولِیُّ الشّیاطِیْن )ولِیُّ ْ الْحمْدِ) ولِیُّ الْمغْفِرۃِ)ولِیُّ الْکُفْرِ)ولِیُّ الْحقّ)ولِیّ الصِدْقِ)اِخْتِلافُ اللّیْلِ)اِخْتِلافُ النّہارِ) بعْداللہ )عذابُ الْحمِیْمِ)عذابُ السّمُوْمِ)عذابُ الْہُوْنِ)عذابُ الْخُلْدِ)عذابُ جہنّم )عذابُ النّارِ(عِلْمُ السّاعۃِ)عِلْمُ الْغیْبِ)عِلْمُ الشّہادۃِ)صِحافُ ذہبٍ)صِحافُ فِضّۃٍ)صحْفۃُ ذہبٍ) صحْفۃُ فِضّۃٍ)اکْوابُ ذہبٍ) اکْوابُ فِضّۃٍ)کُوْبُ ذہبٍ)کُوْبُ فِضّۃٍ)کأْسُ مائٍٍ)کأْسُ ذہبٍ)کاْسُ فِضّۃٍ)کأْسُ حلِیْبٍ) اِبْرِیْقُ شأْی)کأْسُ معِیْنٍ)اِبْرِیْقُ مائٍ ٍ )ملأُ فِرْعوْن) ملأ القوْمِ)مُلْکُ مِصْر)قوْمُ فِرْعوْن)بُعْدُ الْمشْرِقیْنِ)بُعْدُ الْمغْرِبیْنِ)بُعْدُ الْمِیْلِ)بُعْدُ الْامْیالِ)بُعْدُ فرْسخٍ)بُعْدُ فراسِخ)مسافۃُ مِیْلٍ)مسافۃُ امْیالٍ)مساحۃُمِیْلٍ)مساحۃُ امْیالٍ)مساحۃُ مِیْلیْنِ)مسافۃُ مِیْلیْنِ) مساحۃُ فرْسخیْنِ)مسافۃُفرْسخیْنِ)ذِکْرُ الرّحْمانِ)سقْفُ فِضّۃٍ)سُقُفُ فِضّۃٍ)سقْفُ ذہبٍ)سُقُفُ ذہبٍ)دُوْن اللہ ) دُوْن الرّحْمانِ)دُوْنہ۔ دُوْنہُما۔ دُوْنہُمْ۔ رحْمۃُ الرّبِّ)بطْشُ اللہ )بطْشۃُ اللہ )اخْذُ اللہ )اخْذۃُ اللہ ) بطْشُ الرّبِّ)بطْشُ ربّک)اخْذُ ربِّک)وحْیُ اللہ )جزائُ سیّئۃٍ ) جزائُ حسنۃٍ) اِقامۃُ الصّلاۃ)اِیْتائُ الزّکاۃِ) صوْمُ رمضان)حجُّ الْبیْتِ)زِیارۃُ الْکعْبۃِ)زِیارۃُ الْبیْتِ)زِیارۃُ الضیْفِ)زِیارۃُ الضُّیُوْفِ)زِیارۃُ الْاصْدِقائِ)ا زِیارۃُ الْاقْرِبائِ)زِیارۃُ الْقبُوْرِ)زِیارۃُ المُقدّساتِ) تأْشِیْرۃُ الزِّیارۃِ)تأْشِیْرۃُ اِسْتِقْدامِ الْعائِلۃِ)تأْشِیْرۃُ الزِّیارۃِ)تأْشِیْرۃُ الْعملِ)تأْشِیْرۃُ الْحجّ، والْعُمْرۃِ)تأْشِیْرۃُ الْعوْدۃِ)تأْشِیْرۃُ الخُرُوْجِ النِّہائِیِّ)متاعُ الدُّنْیا)متاعُ الْغُرُوْرِ)حرْثُ الدُّنْیا)حرْثُ لْاٰخِرۃِ) اُمُّ الْقُریٰ )اُمُّ الْعُلُوْمِ)ابُولْعُلُوْمِ)مقالِیْدُ السّمٰوٰتِ)مقالِیْدُ الْارْضِ)تحْت الْقدمِ)تحْت الْاقْدامِ)تحْت الرّأْسِ)تحت اْلارْضِ)تحْت السّمائِ)تحْت السّقْفِ)تحْت الْقُدْرۃ)تحْت الْاِخْتِیارِ)تحْت الْحکُومۃِ)تحْت الدّراسۃِ)تحْت الْبحْثِ)تحْت التّمْرِیْنِ)تحْت التّدْرِیْبِ)تحْت النِّظامِ)تحْت الْوعْدِ)تحْت الْعِلاجِ)تحْت الْمشُوْرۃِ)دارُ الْخُلْدِ)دارُ الْاٰخِرۃِ) دُخانُ النّارِ)دُخانُ السِّجارِ)دُخانُ الْباخِرۃِ)دُخانُ السّیّاراتِ)دُخانُ الْمُوْقدِ)لعْنۃُ اللہ )لعْنۃ النّاسِ)لعْنۃُ الْملائِکۃِ)کیْدُ الْکافِرِیْن)مکْرُ الْکافِرِیْن ) مکْرُ اللہ ) کیْدُ اللہ ) کیْدُالظّالِمِیْن) سبِیْلُ الرشادِ)سبِیْلُ الرُّشْدِ)سبِیْلُ الْہِدایۃِ)سبِیلْ الْہُدیٰ)سبِیْل الْغِوایۃِ) سبِیْلُ الضّلالۃِ)سبِیْلُ الضّلالِ) سبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْن)سبِیْلُ الْفلاحِ)سبِیْلُ الْعافِیۃِ)سبِیْلُ الْفِتْنۃِ)سبِیْلُ الْفِتنِ)سبِیلْ الْحقِّ)سبِیْلُ الشّرِّ)سبِیْلُ الْجہْلِ)خائِنۃُ الْاعْیُنِ) خیانۃُ الْعہْدِ)خِیانۃُ الْمالِ)کشْفُ الضِّرِّ)کشْفُ الْغمِّ)کشْفُ الدّرجاتِ) جُلُوْدُ الْمیْتاتِ)جُلُوْدُ الْحیواناتِ ) جُلُوْدُ الْاحْیائِ) جُلُوْدُ الْامْواتِ) جُلُوْدُ السِّباعِ)جِلْدُ الْاِنْسانِ)اٰنائُ اللّیْلِ) اٰنائُ النّہارِ)ساعاتُ اللّیْلِ) ساعاتُ النّٔہارِ) صدْرُ اللّیْلِ)صدْرُ النّہارِ)وجْہُ اللّیْلِ ) وجْہُ النّہارِ)حُبُّ الْخیْرِ) حُبُّ الشّرِّ)حُبُّ الشّہواتِ)حُبُّ النِّسائِ)حُبُّ الدُّنْیا)حُبُّ الْا ٰخِر ۃِ ) حُبُّ الْعِلْمِ) حُبُّ الْعملِ)( حُبُّ الدِّیْنِ) حُبُّ الْمالِ)حُبُّ التّکاثُرِ)حُبُّ الصّالِحِیْن)حُبُّ الْمساکِیْنِ)حُبُّ الْاوْلادِ)حُبُّ الْاہْلِ)حُبُّ الْمُسْلِمِیْنِ)حُبُّ الْاقارِبِ)حُبُّ الْاجانِبِ)حُبُّ الدِّیْنِ)حُبُّ الْوطنِ)حُبُّ الْعائِلۃِ)حُبُّ الْعشِیْرۃِ)حُبُّ التّنزُّہِ)حُبُّ الْوالِدیْنِ) حُبُّ الْاِخْوانِ) حُبُّ الْاِخْوۃِ)حُبُّ الْاخوات)حُبُّ الْعمِّ)حُبُّ الْاعْمامِ)حُبُّ الْعمّۃِ)حُبُّ الْعمّاتِ)حُبُّ الْخالۃِ)حُبُّ الْخالاتِ)حُبُّ الْخالِ)حُبُّ الْاخْوالِ)حُب الزّوْجِ )حُبُّ الزّوْجۃِ)حُبُ الْابْنائِ)حُبُّ الْاِبْنِ) حُبُّ الْبناتِ) حُبُّ الْبِنْتِ)حُبُّ الْمُجْتمعِ)حُبُّ الْجارِ)حُبُّ الْجِیْرانِ)حُبُّ الضیْفِ)حُبُّ الضُّیُوْفِ)حبُّ الْمُقدّساتِ)حُبُّ الصّحابۃِ)حُبُّ الانْصارِ)حُبُّ الْمُہاجِرِیْن) حُبُّ الْعقِیْدۃِ)حُبُّ الْاِسْلامِ)حُبُّ الْاصْدِقائِ)اصْلُ الْجحِیْمِ)قعْرُ الْجحِیْمِ)قعْرُ الْحوْضِ) اصْلْ الشّجرۃِ)اصْلُ الْجِدارِ)قعْرُ الغدِیْرِ)قعْرُ الْحُفْرۃِ)قعْرُ الْہُوّۃِ)قعْرُ الْعْؑیْنِ)قعْرالذِلّۃ)قعْرُ الْہوانِ)قعْرُ الْبِئْرِ)قعْرُ الْبحْرِ)قعْرُ الْمائِ)قعْرُ الْخیالِ)قعْرُ الشّکِّ)ْقعْرُالضّلالِ) قعْرُ الْجہْلِ)قعْرُ النّارِ)عْرُ الْشُّبْہۃِ)اْقعْرُ الْعقْلِ)عُمُقُ الْمائِ)عُمُقُ الْبحْرِ)عُمُقُ الْبِئْرِ)عُمُقُ الْحُفْرۃِ)عُمُقُ الْعقْلِ)رأْْٔسُ الشّیْطانِ)رُئُ وْسُ الشیاطِیْنِ)رأسُ الْاِصْبعِ)رُئُ وْسُ الْاصابِعِ)رُئُ وْسُ الْخلائِقِ)رُئُ وْسُ الاسِنّۃِ)رأْسُ الْقلمِ) رُئُ وْسُ الْاقْلامِ)رُئُ وْسُ الجِبالِ)رأْسُ الجبلِ) قِمّۃُ الجْبلِ)نصْرُ الْمُؤْمِنِیْن)نصْرُ الْمُحْسِنِیْن)نصْرُ الْمُتّقِیْن) رأْسُ الاِنْسانِ)رأْسُ الْحیوانِ)رأْس القومِ)رأْالْحبلِ)رأْسُ )
[۲]مضاف بننے والی شے مضاف الیہ کی ملکیت ہونا ظاہر کرنا[۳]مضاف کے عموم کو ختم کر کے نکرہ سے معرفہ بنانا [۴] عبارت کو مختصر کر کے جامع بنانا[۵] تلفّظ کو آسان کرنا شامل ہے۔
ٖٖٖٖٖٖٖ(پہلا طریقہ ) اضافت کے ساتھ۔ (دوسرا طریقہ)مِنْ حرفِ جر کے ساتھ۔ (تیسرا طریقہ) الْ تعریفیہ کے ساتھ۔ ذیل میں تینوں کی تفصیلات ملاحظہ کریں :۔
اسمِ تفضیل کو اضافت کے ساتھ استعمال کرنے کی کئی شکلیں ہیں سب شکلوں میں عام طور پر اِسمِ تفضیل کے الفاظ (مذکّر و مؤنث مفرد تثنیہ جمع سب کے لیے (مذکّر مفرد )ہی اِستعمال کئے جاتے ہیں اور مؤنث کے لیے مؤنث بھی اِستعمال کرنا لغت عربیہ کے محاوروں اور فصاحت و بلاغت کے منافی نہیں ہے کیونکہ اِس طرح کے اِستعمالات فصیح اللسان عرب ادباء و شعراء کے منظوم و منثور کلاموں میں منقول ہیں نیز اِسمِ تفضیل کے الفاظ کو مذکّر و مؤنث دونوں کی جمع کے لیے جمع مکسّر کے صیغے کے ساتھ بھی پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے جیسے (احاسِنُکُمْ)(احاسِنُہُمْ)(احاسِنُنا)اِس لغت کا اِستعمال خاتم النبیین سیّدنا محمّدﷺ کے فرمانِ پاک میں بھی موجود ہے جس کو اِمامِ بخای رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں (اِنّ خِیارکُمْ احاسِنُکُمْ اخْلاقًا)لوگو! تمھارے معاشرے کے لوگوں میں سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جو تم میں سیرت کے لحاظ سے زیادہ اچھے ہوں۔ اِس حدیث میں اِسمِ تفضیل کے الفاظ کو جمع کی تعداد کے لیے جمع کے صیغے میں ہی استعمال کیا گیا ہے۔
پہلی شکل تو یہ ہے کہ اسمِ تفضیل کے لفظ کو اس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کر جملے میں استعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل( مفردنکرہ مجرور) ہو یعنی وہ لفظ ایک کی عدد کو ظاہر کرنے والا ہونے کے ساتھ(الْ تعریفیہ) کے بغیر (دو زیر ) کی تتنوین کے ساتھ استعمال ہو جیسے (اعزُّ مکانٍ)سب جگہوں میں سے زیادہ عزّت والی جگہ(خیْرُ جلِیْسٍ)سب ساتھیوں میں سے زیادہ بہتر ساتھی ( اصْدقُ قائِلٍ)بات کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ سچ گو(اعْظمُ درجۃٍ)درجوں میں سے سب سے بڑا درجہ(اکْرمُ ضیْفٍ)مہمانوں میں سے سب سے زیادہ معزّز مہمان (افْضلُ عملٍ) عملوں میں سے زیادہ بہتر عمل اسمِ تفضیل کو اضافت کے ساتھ استعمال کرنے کی دوسری شکل یہ ہے کہ اسمِ تفضیل کے لفظ کو اُس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کر جملے میں استعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل (جمع نکرہ مجرور) ہو۔ یعنی وہ لفظ دو سے زیادہ کی عدد کو ظاہر کرنے والا ہونے کے ساتھ(الْ تعریفیہ)کے بغیر دو زیر کی تنوین کے ساتھ استعمال ہو جیسے (احْسنُ رِجالٍ)مردوں میں سے زیادہ نیک صورت و خوب سیرت شخص(اجْملُ نِسائٍ)عورتوں میں سے زیادہ نیک صورت و خوب سیرت خاتون(اشْہرُ بِلادٍ)ملکوں یا شہروں میں سے زیادہ مشہور ملک یا شہر(ارْبحُ تِجاراتٍ)کاروباروں میں سے زیادہ نفع بخش کاروبار(اسْوأُ اعْمالٍ)عملوں میں سے زیادہ بُرا عمل(اظْلمُ حُکّامٍ)حکمرانوں میں سے زیادہ ظالم حکمران(انْکرُ اصْواتٍ) آوازوں میں سے زیادہ نفرت آمیز آواز(اسْرعُ سیّاراتٍ)گاڑیوں میں سے زیادہ تیز رفتار گاڑی(اعْظمُ سُکّانٍ)رہائش پذیر لوگوں میں سے زیادہ تر(اقلُّ اُجُوْرٍ) اجرتوں میں سے کم سے کم اجرت(اخْسرُ اعْمالٍ) عملوں میں سے زیادہ نقصان دہ عمل(شرُّ امْکِنۃٍ)جگہوں میں سے بد ترین جگہ۔
اِسمِ تفضیل کو اِضافت کے ساتھ اِستعمال کرنے کی تیسری شکل یہ ہے کہ اِسمِ تفضیل کے لفظ کو اُس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کر جملے میں اِستعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل(مفرد معرّف باللام مجرور)ہو یعنی وہ لفظ ایک کی عدد کو ظاہر کرنے والا ہونے کے ساتھ( الْ تعریفیہ )کے ساتھ مجرور بھی اِستعمال ہونہ کی تنوین کے ساتھ مستعمل ہو جیسے ( خیْرُ الْہدْیِ)(احْسنُ الْحدِیْثِ)(اقلُّ الْقِیْمۃِ)(اشدُّ الْبلاءِ)
اِسمِ تفضیل کو اِضافت کے ساتھ اِستعمال کرنے کی چوتھی شکل یہ ہے کہ اِسمِ تفضیل کے لفظ کو اُس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کر جملے میں اِستعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل( تثنیہ معرّف باللّام مجرور)ہو یعنی وہ لفظ دو کی عدد کو ظاہر کرنے والا ہونے کے ساتھ(الْ تعریفیہ) کے ساتھ (اِعْرابِ حرفی) کے ساتھ مجرور بھی اِستعمال ہو نہ کہ تنوین کے ساتھ مستعمل ہو جیسے (اعْجبُ الْامْریْنِ)(احبُّ الْامْریْنِ)(اطْولُ الْاجلیْنِ)(اصْدقُ الْقوْلیْنِ)(ارْخصُ الثمنیْنِ)(اغْلیٰ الثمنیْن)ارْفعُ الْمکانیْنِ) (اکْمل الْکِتابیْنِ )اتمُّ الْامْریْنِ)اطْولُ الْمسافتیْنِ)(اصْدقُ الْقوْلیْنِ)(الذُّ الطّعامیْنِ)(انْفعُ الدّوائیْنِ)(انْفسُ الْمالیْنِ)(اقربُ الْجانِبیْنِ)(اسْعدُ الدّاریْنِ)(اہْونُ الْبلائینِ)(احْوطُ الْجانِبیْنِ)(ارجحُ الْکِفّتیْنِ)(اسْعدُ الرّجُلینِ)(اقْویٰ الْبطلیْنِ)(اعْدیْ الْعدُوّیْنِ)(اوْفیٰ الصّدِیقیْنِ)
اِسمِ تفضیل کو اِضافت کے ساتھ اِستعمال کرنے کی پانچویں شکل یہ ہے کہ اِسم تفضیل کے لفظ کو اُس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کرجملے میں اِستعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل(ضمیرِ مجرور متّصل)ہو۔ اِس صورت میں اِسمِ تفضیل کا لفظ بہر حال مفرد ہو گا جبکہ اُس کے ساتھ آنے والے اِسمِ ضمیرکی چھ صورتیں اِستعمال کی جا سکتی ہیں [۱] مفردمذکّرغائب [۲]تثنیہ مذکّرغائب[۳]جمع مذکّرغائب[۴]مفرد مؤنثغائب[۵]تثنیہ مؤنث غائب[۶]جمع مؤنث غائب[۷]مفرد مذکّر مخاطب[۸] تثنیہ مذکّر مخاطب[۹]جمع مذکّر مخاطب[۱۰]مفرد مؤنث مخاطب[۱۱]تثنیہ مؤنث مخاطب[۱۲]جمع مؤنث مخاطب[۱۳] مفرد متکلّم[۱۴]جمع متکلّم اِن صورتوں کی بالترتیب مثالیں ملاحظہ فرمائیں (احسنُہٗ۔ اجْملُہ ٗخیْرُہٗ) (احْسنُہُما۔ اجْملُہُما۔ خیْرُہُما) (احْسنُہُمْ) احْسنُہا) (احْسنُہُما)(احْسنُہُمْ)(احْسنُک)(احْسنُکُما)(احْسنُکُمْ)(احسنُک)ِ(احْسنُکُما)(احْسنُکُنّ)(احسنُنِیْ)(احْسنُنا)
یاد رہے کہ اِسمِ تفضیل کے الفاظ جب ضمیروں کے ساتھ مستعمل ہوں تو اُن کے مدِّ مقابل (مضاف الیہ تمییز ) پر لفظوں میں (جر یا کسرہ نہیں پڑھا جاتا کیونکہ ضمیریں مبنی ہوتی ہیں اِن پر ہر حالت میں اپنا بنیادی اعراب پڑھا جاتا ہے نہ کہ بعد میں داخل ہونے والے عوامل کا اِعراب۔ چنانچہ اِن الفاظ میں مضاف الیہ کا اِعرابِ جر یا کسرہ لفظوں مین تلفّظ کرنے کے بجائے ذہن میں تصوّر کر لیا جاتا ہے۔ اِس قسم کے اِعراب کو اِعرابِ تقدیری، اِعرابِ حکمی اور اِعرابِ تصوّراتی کہتے ہیں یہ اِعراب ضمیروں کے علاوہ اُن تمام اِسموں پر پڑھا جاتا ہے جن کو عربی گرامر کی زبان میں مبنیّات کہتے ہیں اور بعض اسمائِ معربہ پر بھی اِعرابِ تقدیری پڑھا جاتا ہے [۱] ہر اِسمِ مقصور پر رفع، نصب وجر کی تینوں حالتِ اِعراب میں جیسے (ہٰذِہٖ عصا)حالتِ رفع میں (اخذْتُ عصا)حالتِ نصب میں (ضربْتُ بِعصا) حالتِ جر میں۔ اِن تینوں مثالوں میں لفظِ (عصا)کے الف پر عواملِ اِعراب کے تبدیل ہونے کے باوجود ایک ہی قسم کا اِعراب پڑھا گیا ہے [۲]ہر اِسم منقوص پر رفع و جر کی دو حالتوں میں جیسے (االرّسُوْلُ ہادِ)حالتِ رفع میں (اطعْتُ ہادِیا)حالتِ نصب میں (اصْغیْتُ اِلیٰ ہادِ)حالتِ جر میں۔ اِن تینوں مثالوں میں سے پہلی مثال میں لفظِ (ہادِ)کا اِعراب مرفوع ہونے کے باوجود لفظوں میں رفع کا تلفّظ نہیں کیا گیا ہیاور تیسری مثال میں لفظِ(ہادِ) کا اِعراب مجرور ہونے کے باوجود جر کا اِعراب اُس کے اصل محلِّ اِعراب (ہادِیٌ)کی (یا) پر نہیں پڑھا گیا ہے اور (دال) پر جو( جر) نظر آ رہا ہے وہ اُس کا اصل اِعراب نہیں ہے کیونکہ یہ (جر) تو (یا)کو حذف کرنے کے بدلے میں
پڑھا گیا ہے جس کو( تنوینِ عوض) کہا جاتا ہے [۳]ہر جمع مذکّر سالم کے اُس لفظ پر جس کو واحد متکلّم کی (یا) کی ضمیر کے ساتھ جوڑ کر (اِضافت، نسبت یا ندائیہ خطاب کے طور پراِستعمال کیا گیا ہو جس پر حالت رفع میں اِعرابِ تقدیری پڑھا جاتا ہے۔ جیسے (ہٰؤُلاءِ مُسْتمِعِیّی)اضافت اور نسبت کے لیے (مُسْتمِعِیّ الْکِرام!)اِضافت، نسبت اور ندائیہ خطاب سب کے لیے۔ پہلی مثال میں (مُسْتمِعِیّ) پر رفعی حالت میں اُس کا اپنا اصلی اِعراب دینے کے بجائے اِعرابِ تقدیری پڑھا گیا ہے اِسی وجہ سے (واو) کو لفظوں میں تلفّظ نہیں کیا گیا ہے۔
اسمِ تفضیل کو اضافت کے ساتھ استعمال کرنے کی پانچویں شکل یہ ہے کہ اسمِ تفضیل کے لفظ کو اُس کے مدِّ مقابل کے ساتھ اِس طرح جوڑ کر جملے میں اِستعمال کریں کہ اُس کا مدِّ مقابل(جمع معرّف باللّام مجرور) ہو۔ یعنی وہ لفظ دو سے زیادہ کی عدد کو ظاہر کرنے والا ہونے کے ساتھ(الْ تعریفیہ) کے ساتھ استعمال ہو نہ کہ تنوین کے ساتھ مستعمل ہو جیسے (احبُّ الاعْمالِ)عملوں میں سے زیادہ پسندیدہ(افْضلُ الْبِلادِ)ملکوں یا شہروں میں سے زیادہ بہتر ملک یا شہر(اشْرفُ الْاحْسابِ والْعائِلاتِ واْؒاُسرِ)خاندانوں، گھرانوں اور کنبوں میں سے زیادہ معزّز(اشْجعُ النّاسِ) لوگوں میں سے بہادر ترین شخص(اجْبنُ النّاسِ) لوگوں میں سے بزدل ترین شخص(اجْملُ الرِّجالِ والنِّساءِ) مردوں اور عورتوں میں سے خوبصورت ترین(اثْقل الْاطْعِمۃِ)کھانوں میں سے ہضم ہونے میں ثقیل ترین کھانا(اسْوغُ الْمطاعِمِ)کھانوں میں سے نگلنے میں آسان ترین(اطْول الْجِبالِ۔ اشْمخُ الْجِبالِ) پہاڑوں میں سے زیادہ اونچا۔
اِسم تفضیل کو اضافت کے ساتھ استعمال کرنے کی چھٹی شکل یہ ہے کہ اسمِ تفضیل کے لفظ کر
اگر کبھی ثلاثی مجرّد کے علاوہ دیگر ابواب کے معانی میں تقابلی برتری کو ظاہر کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو اِنہی ابواب میں سے ہر باب کے مصدر سے قبل (اکْثرُیا اشدُّ)بڑھا کر معنوی یا صفاتی اضافی پہلو کو ظاہر کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ( اقلُّ)بڑھا کر معنوی یا صفاتی کمی کے پہلو کو ظاہر کر لیا جاتا ہے۔
جیسے ( محْمُوْدٌاکْثرُ اِکْرامًا لِوالِدیْہِ)(عُثْمانُ اشدُّمُحافظۃً لِلْقُرْآنِ الْکرِیْمِ)(الْقُرْآنُ اشدُّ تفصِّیًا من الْاِبِلِ الْمُعقّلۃِ فِیْ عُقُلِہا)(الْمُسافِرُ اشدُّ اشْتِیاقًا اِلیٰ اہْلِہٖ)(الْغُرابُ اشدُّ اسْوِداداًمِن اللیْلِ)الذِّئْبُ اشدُّ تیقُّظًا مِن الْحارِسِ)التِّجارۃُاکْثرُ تمْوِیْلًا مِن الرِّبوِیّاتِ )آلْمُتعبِّدُ اکْثرُاسْتِغْفِارًا مِن الذُّنُوْبِ والْخطایا والعِصْیانِ)الطّالِبُ الْکسْلانُ اقلُّ اجْتِہادًا فِیْ الدّ راسۃِ)
(باب فعل یفْعِلُ)
(ملک فعل ماضی معروف یمْلِک فعل مضارع معروف)(مُلِک فعلِ ماضی مجہول پُمْلکُ فعلِ مضارع مجہول(مِلْکًامصدر، مُلْکًا، مصدرملکۃًمصدرً)فہُو مالِکٌمالِکانِ مالِکانِ مالِکُوْن مالِکۃٌ مالِکتانِ مالِکاتٌیہ چھ اوزان اسم الفاعل کی
ہیں )وملِکٌملِکانِ ملِکُوْن ملِکۃٌ ملِکتانِ ملِکاتٌیہ چھ اوزان صفات مشبہہ کے ہیں )وملِیْکٌملِیْکُوْن ملِیْکۃٌ ملِیْکتانِ ملِیْکاتٌیہ چھ اوزان بھی صفات مشبہہ کے ہیں )ومِلِّیْکٌمِلِّیْکانِ مِلِّیْکُوْن مِلِّیْکۃٌ مِلِّیْکتانِ مِلِّیْکاتٌیہ چھ اوزان اسم المبالغہ کے ہیں )) وملّاکٌملّاکانِ ملّاکُوْن ملّاکۃٌ ملّاکتانِ ملّاکاتٌ یہ چھ اوزان بھی اسم المبالغہ کے ہیں (ممْلُوْکٌممْلُوْکانِ ممْلُوْکُوْن ممْلُوْکۃٌ ممْلُوْکتانِ ممْلُوْکاتٌ یہ چھ اوزان اسم المفعول کے ہیں )ممْلکٌممْلکانِ ممْلکۃٌممْلکتان ممالِکُ ممْلکاتٌیہ چھ اوزان اسم ظرفِ مکان کے ہیں )مِمْلکٌمِمْلکانِ مِمٓلکۃٌ مِمْلکتانِ مِمْلکاتٌیہ چھ اوزان اسم الاٰلہ کے ہیں امْلکُ امْلکانِ امْلکُوْن امالِکُ مُلْکیٰ مُلْکیانِ مُلْکیاتٌیہ چھ اوزان اسم التفضیل کے ہیں اِمْلِکْ لِتُمْلک لِیمْلِکْ لِیُمْلکْ لِامْلِکْ لِاُمْلکْ لا تمْلِکْْ لا تمْلِکْ لاتُمْلکْ لا امْلِکْ لا اُمْلکْ (عزّ یعِز)ُّ(عُزّ یُعزُّ)(عِزًّا، عِزّۃً)فہُو عازٌّوعزِیْزٌوعزّازٌ)(معْزُوْزٌ)معزٌّ معزّانِ معزّۃٌمعزّتانِ معازِزُ معزّاتٌ)مِعزٌّ مِعزّانِ مِعزّۃٌ مِعزّتانِ مِعزّاتٌ)اعزُّ اعزّانِ اعزّانِ اعزُّوْن اعازِزُ عُزّیٰ عُزّیانِ عُزّیاتٌ
جلّ یجِلُّ(جلًا، جِلًّا، جُلًّا، جلالًا)فہُوجالٌّوجلِیْلٌوجِلِّیْلٌو مِجْلالٌ
حقّ یحِقُّ (حقًّا)فہُوحاقٌّوحقِیْقٌوحِقِّیْقٌو مِحْقاقٌوحقّاقٌ
اخر یأخِرُ(اخْرًا)فہُو اٰخِرٌو اخِیْرٌواخّارٌومِئْخارٌواِخِّیْرٌ
غفر یغْفِرُ(غُفْرًا، مغْفِرۃً، غُفْرانًا)فہُو غافِرٌو غفِیْرٌوغفُورٌوغفّارٌوغِفِّیْرٌو مِغْفارٌ
قبض یقْبِضُ(قبْضًا، قبْضۃً)فہُو۔ قابِضٌوقبِیْضٌوقبّاضٌوقِبِّیْضٌ و مِقْباضٌ
خفض یخْفِضُ(خفْضًا)فہُوخافِضٌو خفِیْضٌوخِفِّیْضٌومِخْفاضٌوخفّاضٌ
عدل یعْدِلُ(عدْلًا، عدُوْلًا، عُدُوْلًا، عدالۃً)فہُو عادِلٌوعدِیْلٌوعِدْلٌوعدْلٌوعدّالٌوعِدِّیْلٌومِعْدالٌ
وکل یکِلُ(وکْلًا، وکالۃً، وِکْلًا، کِلۃً)فہُوواکِلٌووکِیْلٌووِکِّیْلٌووکّالٌومِکْوالٌ
قدر یقْدِرُ(قدْرًا، قِدْرًا، قدرًا، مقْدرۃً، مقْدِرۃً، قُدْرۃً)فہُوقادِرٌوقدِیْرٌوقِدِّیْرٌوقدّارٌ
قسط یقْسِطُ(قسْطًا، قِسْطًا، قِسْطاسًا)فہُو قاسِطٌوقسِیْطٌوقِسِّیْطٌ
ھدیٰ یہْدِیْ(ھدْیًا، ھِدایہً)فہُوھادٍ
وجد یجِدُ(وجْدًا، وِجْدًا، جِدۃً، وُجْدانًا، وُجُوْدًا)فہُو واجِدٌووجِیْدٌ
قدس یقْدِسُ(قدْسًا، قِدْسًا، قُدْسًا، قُدُسًا، مقْدِسًا)فہُوقادِسٌوقدِیْسٌوقُدُّوْسٌ
صبر یصْبِرُ(صبْرًا، صبُرۃً، صُبُوْرًا)فہُوصابِرٌوصبِیْرٌوصبُوْرٌوصبْرانٌوصبّارٌوصِبِّیْرٌ
ذلّ یذِلُّ(ذلًّا، ذِلًّا، ذُلًّاذلالًا، ذِلّۃً، مذلّۃً)فہُوذالٌّوذلِیْلٌوذلّانٌوذلُوْلٌوذلّالٌوذِلِّیْلٌ
نقم ینْقِمُ(نقْمًا، نِقْمًا، نِقْمۃً)فہُوناقِمٌونقِیْمٌونقْمانٌونقّامٌ
باب فعل یفْعُلُ
بصر یبْصُرُ(بصْرًا، بصارۃً، بصِیْرۃً)فہُوباصِرٌوبصِیْرٌوبصْرانٌوبصّار
تاب یتُوْبُ(توْبًا، توْبۃً، متابًا)فہُوتائِبٌوتئِیْبٌوتوْبانٌوتوّابٌ
متن یمْتُنُ(متْنًا، متانۃً)فہُوماتِنٌومتِیْنٌ
صمد یصْمُدُ(صمْدًاصُمُوْدًا، صِمادٌ)فہُوصامِدٌوصمِیْدٌوصمدٌوصمْدانٌوصمُوْدٌ
بطن یبْطُنُ(بطْنًا، بِطانۃً)فہُو باطِنٌوبطِیْنٌوبطْنانٌوبطّانٌ
رشد یرْشُدُ(رُشْدًا، رشدًا، رشادًا، رشادۃً، رُشُوْدًا)فہُوراشِدٌورشِیْدٌورشْدانٌورشّادٌ
نار ینُوْرُ(نُوْرًا، نورًا، نارًا)فہُونائِرٌونُوْرٌ
قام یقُوْمُ(قِیامًا، قوْمۃً، قِوامًا)فہُوقائِمٌوقوِیْمٌوقیِّمٌوقیُّوْمٌوقیّامٌوقوّامٌ
حکم یحْکُمُ(حُکْمًا، حکُوْمۃً، حُکُوْمۃً، حِکْمۃً)فہُوحاکِمٌوحکِیْمٌوحکمٌ
خلق یخْلُقُ(خلْقًا، خُلُقًاخلْقۃً)فہُوخالِقٌوخلِیْقٌوخلِقٌوخلُوْقٌوخلْقانٌوخلّاقٌ
رزق یرْزُقُ(رِزْقًا)فہُورازِقٌورزِیْقٌورزُوْقٌورزْقانٌورزّاقٌ
بسط یبْسُطُ(بسْطًا، بسْطۃً، بِساطًا)فہُوباسِطٌوبسِیْطٌوبسْطانٌوبسّاطٌ
مجد یمْجُدُ(مجْدًا)فہُوماجِدٌومجِیدٌومجْدانٌومجّادٌ
شکر یشْکُرُ(شُکْرًا، شُکْرانًا، شُکُوْرًا)فہُوشاکِرٌوشکِیْرٌوشکُوْرٌوشکْرانٌوشکّٓارٌ
قات یقُوْتُ(قُوْتًا)فہُو قائِتٌوقوِیْتٌوقوْتانٌوقوّاتٌ
رقب یرْقُبُ ( رقْبًا، رُقُوْبًا)فہُوراقِبٌورقِیْبٌورقْبانٌورقُوْبٌورقّابٌ
جاب یجُوْبُ(جوْبًا، جوابًا، تجْوابًا، جوْبانًا)فہُوجائِبٌوجئِیْبٌوجوْبانٌوجوّابٌومِجْوابٌ
عاد یعُوْدُ(عوْدًا، عوْدۃً، عِیادۃً)فہُوعائِدٌوعِیْدٌوعوِیْدٌوعوْدانٌوعوّٓادٌ
قدم یقْدُمُ(قدْمًا، قدمًا، قِدْمًا، قِدمًا، قُدُوْمًا، قدامۃً، مقْدمًا)فہُو قادِمٌوقدِیْمٌوقدْمانٌوقدّامٌومِقْدامٌ
عفا یعْفُوْ(عفْوًا)فہُوعافٍ وعفُوٌّ
ضرّ یضُرُّ(ضُرٍّا، ضِرارًا، ضرّۃً)فہُو ضارٌّوضرِیْرٌوضرّانٌومِضْرِیْرٌوضرّارٌومِضْرارٌ
مات یمُوْتُ(موْتًا، مواتًا، موْتۃً)فہُومائِتٌومیْت’]ومیِّتٌوموْتانٌوموّاتٌ
علا یعْلُوْ(عُلُوًّا، عُلی) فہُوعالٍ وعلائٌ
جبر۔ یجْبُرُ(جبْرًا)فہُوجابِرٌوجبِیْرٌوجبْرانٌوجبّارٌ
(باب فعِل یفْعلُ)
برِیِ یبْریُِ(بُرْئً ا، برائٌ، برائ ۃٌ)فہُو بارِیٌِوبرِیٌِوبرّائٌ
سلِم یسْلمُ(سِلْمًا، سلمًا، سلامًا، سلامۃً)فہُوسالِمٌوسلِیْمٌوسلْمانٌوسلّامٌ
کبِر یکْبرُ(کِبْرًا، کُبْرًا)فہُوکابِرٌوکبِیْرٌوکبّارٌ
شھد یشْھدُ(شھدًا، شھادۃً)فہُوشاھِدٌوشھیْدٌ
وسِع یسعُ(وُسْعًا، وِسْعًا، وُسْعۃً، سِعۃً)فہُو واسِعٌووسِیْعٌووسْعانٌووسّاعٌ
خبِر یخْبرُ(خبْرًا، خُبْرًا، خبرًا، خِبْرۃً)ف۔ ہُوخابِرٌوخبِیْرٌوخبْرانٌوخبّارٌوخِبِّیْرٌومِخْبارٌ
غنِی یغْنیٰ(غِنًی، غِنائً اغُنْیۃً)فہُوغانٍوغنِیٌّوغنّانٌوغنّائٌ
بقِی یبْقیٰ(بقْیًا، بقاءً ا(فہُو باقٍ و بقِیٌّوبقّاءٌ
قوِی یقْویٰ(قُوًی، قُوّۃً)قاوٍ وقوِیٌّ
حیِی یحْیٰ(حیٍّا، حیاۃً، حیا ئً ا)حایٍ وحیٌّوحیِیٌّوحیّا ئً ا
رحِم یرْحمُ(رحْمًا، رُحْمًا، رحِمًا، رحْمۃً، مرْحمۃً)فہُوراحِمٌورحِیْمٌورحْمانٌ
امِن یأْمنُ(امْنًا، امانۃً)فہُواٰمِنٌوامِیْنٌوامّانٌ
علِم یعْلمُ(عِلْمًا، علمًا، علامۃً)فہُوعالِمٌوعلِیْمٌوعلْمانٌوعلّامٌومِعْلِیْمٌومِعْلامٌ
سمِع یسْمعُ(سمْعًا، سِمْعًا، سُمْعًا، سِماعًا، سُمْعۃً)فہُوسامِعٌوسمِیْعٌوسمْعانٌوسمّاعٌوسِمِّیْعٌومِسْماعٌ
حفِظ یحْفظُ(حِفْظًا، حِفاظا، حِفْظانًا)فہُو حافِظٌوحفِیْظٌوحفْظانٌوحِفِّیْظٌومِحْفاظٌوحفّاظٌ
ودّ یودُّ(وُدًّا، وِدادًا، مودّۃً)فہُوواڈٌّوودِیْدٌوودُوْدٌوودّادٌووِدِّیْدٌوودّانٌ
حمِد یحْمدُ(حمْدًا، محْمدۃً)فہُوحامِدٌوحمِیْدٌوحمْدانٌوحمّادٌوحِمِّیْدٌ
(باب فعل یفْعلُ)
وحد یوْحدُ(وحْدًا، وحْدۃً)فہُوواحِدٌووحِیْدٌووحْدانٌووحّادٌواحّادٌ
ظہر یظْہرُ(ظہْرًا، ظِہْرًا، ظُہْرًا، ظِہارًا، ظُہُوْرًا)فہُوظاہِرٌوظہِیْرٌوظہْرانٌومِظْہارٌوظہّارٌوظِہّیْرٌ
الہ یاْٗلہُ(الہًا، اُلُوْہًا، اُلُوْہۃً، اِلٰہًا)اٰلِہٌ، الِیْہٌالْہانٌاللہ
ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ قہر یقْہرُ(قہْرًا، قہْرۃً، قِہارًا، مقْہرۃً)فہُوقاہِرٌوقہِیْرٌوقہْرانٌوقہّارٌوقِہِّیْرٌومِقْہارٌوقہُوْرٌ
وہب یہبُ(وہْبًا، وہِبہً۔ وِہْبًا)فہُوواہِبٌووہِیْبٌووہْبانٌووہّابٌووہُوْبٌ
ْْْْْْْْْفتح یفْتحُ(فتْحًا، فتْحۃً، فُتُوْحًا)فہُوفاتِحٌوفتِیْحٌوفتْحانٌوفتّاحٌومِفْتِیْحٌ
ْْْْْْْْْْْرفع یرْفعُ(رفْعًا، رِفْعًا، رِفْعۃً)فہُورافعٌورفِیْعٌورفْعانٌورفّاعٌورِفّیعٌ
بعث یبْعثُ(بعْثًا، بِعْثًابِعْثۃً، مبْعثًا)فہُوباعِثٌوبعِیْثٌوبعْثانٌوبعّاثٌوبِعِّیْثٌومِبْعاثٌوبعُوثٌ
بدأ یبْدأُ( بدْئً ا، بِدایۃً، مبْدئً ا)فہُو۔ بادِیٌِوبدِیْیٌِوبدّائً
برّ یبرُّ(بِرًّا، برًّا، بُرًّا)فہُوبارٌّوبرِیْرٌوبرّانٌوبرّارٌومِبرِیْرٌ
جمع یجْمعُ(جمْعًا، جِماعًا، جماعۃً)فہُوجامِعٌوجمِیعٌوجمْعانٌوجمّاعٌوجِمّیْعٌومِجْماعٌ
منع یمْنعُ(منعًا، منعۃً، مناعۃً، مِناعًا)فہُو۔ مانِعٌومنِیْعٌومنُوْعٌومنّاعٌومِنّیعٌومِمْناعٌ
نفع ینفع (نفْعًا، منْفعۃً)فہُو نافِعٌونفِیْعٌونفِیْعٌونفْعانٌونفّاعٌونِفِِّْٰعٌومِنْفِیْعٌ
بدع یبْدعُ(بِدْعًا، بِداعًا، بِدْعۃً، بداعۃً)فہُوبادِعٌوبدِیْعٌوبدْعانٌوبدّاعٌوبِدِّْیْعٌومِبْداعٌ
(باب فعِل یفْعِلُ)
حسِب یحْسِبُ(حسْبًا، حِسابا، حِسْبۃً، حِسْبانًا، حُسْبانًا)فہُوحاسِبٌوحسِیْبٌوحسْبانٌوحسّابٌوحِسّیْبٌو
مِحْسِیْبٌولِی یلِیْ(ولایۃً، وِلائٌ)فہُووالٍ وولِیٌّوولْیانٌوولّائٌ
ورِث یرِثُ(وِرْثًا، وِراثۃً، اِرْثًا، مِیْراثًا، تُراثًا)فہُووارِثٌوورِیْثٌوورْثانٌوورّاثٌووِرِیْثٌ
باب فعُل یفْعُلُ)
حلُم یحْلُمُ(حُلْمًا، حِلْمًا، حُلُمًا، حُلْمۃًمحْلمۃً)فہُوحالِمٌوحلِیْمٌوحلُوْمٌوحلْمانٌوحلّامٌوحِلِّیِْمٌومِحْلِیْمٌومِحْلامٌ
عظُم یعْظُمُ(عظْمًا، عظْمۃً)فہُوعاظِمٌوعظِیْمٌوعظْمانٌ، وعظّامٌومِعْظام
کرُم یکْرُمُ(کرْمًا، کرمًا، کرامۃً، مکْرُمۃً)فہُوکارِمٌوکرِیْمٌوکرْمانٌوکرّامٌوکِرِّیْمٌ
لطُف یلْطُفُ(لُطْفًا، لطافۃً)فہُولاطِفٌ، لطِیْفٌلطْفانٌلطّافٌ، لِطِّیْفٌ، مِلْطِیْفٌمِلْطافٌ
رؤُف یرْؤُفُ(رأْفۃً، رأفًا)فہُورائِفٌ، رؤُفٌ، رأْفانٌ، رئِیْفٌ، رئّّافٌ، رِئِّیْفٌ، مِرْئافٌ
(اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے مطابق ثلاثی مزید فیہ کے اسم الفاعل کے اوزان میں سے ہیں )
(باب اِفْعال)
الْمُؤْمِنُ۔ (اٰمن یُؤْمِنُ اِیْمانًا فہُومُؤْمِنٌفذاک مُؤْمنٌ) الْمُعْطِیْ ـ(اعْطیٰٰ یُعْطِیْ اِعْطائًْا فہُو مُعْطٍ فذاک مُعْطًی)الْمُبْدِیُِ(ابْدأ یُبْدِیُِ اِبْداء ًافہُو مُبْدِیٌِفذاک مُبْدیٌِ) ـالْمُحْی ـ(احْیٰ یُحْیِْ اِحْیا ئًا فہُو مُحْیٍ فذاک مُحْیً) الْمُحْصِیْ ـ(احْصیٰ یُحْصِیْ اِحْصاء ًافہُو مُحْصٍ فذاک مُحْصًی)۔ الْمُعِیْدُ ـ(اعاد یُعِیْدُ اِعادۃً فہُو مُعِیْدٌ فذاک مُعادٌ)۔ الْمُمِیْتُ ـ(امات۔ یُمِیْتُ اِماتۃًفہُو مُمِیْتٌفذاک مُماتٌ) ـالْمُعِزُّ ـ(اعزّ یُعِزُّ اِعْزازًا فہُومُعِزٌّ فذاک مُعزٌّ الْمُذِلُّ ـ(اذلّ یُذِلُّ اِذْلالًا فہُو مُذِلٌّ فذاک مُذلٌّ) الْمُقِیْتُ ـ(اقات یُقِیْتُ اِقاتۃً فہُو مُقِیْتٌ فذاک مُقاتٌ )الْمُجِیْبُ ـ(اجاب یُجِیْبُ اِجابۃً فہُو مُجِیْبٌ فذاک
مُجابٌ) الْمُقْسِطُ ـ(اقْسط یُقْسِطُ اِقْساطًا فہُو مُقْسِطٌ فذاک مُقْسطٌ )الْمُغْنِی۔ (اغْنیٰ یُغْنِیْ اِغْنائً فہُو مُغْنٍ فذاک مُغْنًی)
(باب تفْعِیْل)
الْمُؤخِّرُ۔ (اخّر یُؤخِّرُ تأْخِیْرًا فہُو مُؤخِّرٌ فذاک مُؤخّرٌ) الْمُقدِّم۔ (قدّم یُقدِّمُ تقْدِیْمًا فہُو مُقدِّمٌ فذاک مُقدّمٌ)
ُ(باب تفعُّل )
الْمُتکبِّرُ ۔ (تکبّر یتکبّرُ تکبُّرًا فہُو مُتکبِّرٌ فذاک مُتکبّرٌ)
(باب اِفْتِعال)ٖٖٖ
الْمُقْتدِرُ ـ(اِقْتدر یقْتدِرُاِقْتِدارًا فہُو مُقْتدِرٌ فذاک مُقْتدرٌ)الْمُنْتقِمُ(اِنْتقم ینْتقِمُ اِنْتقامًافہُو مُنْتقِمٌ فذاک مُنْتقمٌ)
(باب تفاعُل)
ا لْمُتعالِیْ ـ(تعالیٰ یتعالی تعالِیًا فہُو مُتعالٍ فذاک مُتعالًی)
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے وہ صفت جو رباعی مجرّد کے وزن پر ہے
(باب فعْللۃٌ و فِعْلالٌ)
الْمُہیْمِنُ(ہیْمن یُہیمِنُ ہیْمنۃً فہُو مُہیمِنٌ فذاک مُہیْمنٌ)
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے لحاظ سے (لازم) اور( متعدّی) دونوں ہیں۔
مُتعالِیْ۔ ملِکٌ۔ مالِکٌ۔ مُتکبِّرٌ۔ شہِیْدٌ۔ واسِعٌ۔ کرِیْمٌ۔ علِیٌّ۔ مُقْتدِرٌ۔ سلامٌ۔ قیّوْمٌ۔
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے لحاظ سے صرف (لازم) ہیں
قُدُّوْسٌ۔ عزِیْزٌ۔ خبِیْرٌ۔ حلِیْمٌ۔ عظِیْمٌ۔ کبِیْرٌ۔ جلِیِْلٌ۔ کرِیْمٌ۔ حکِیْمٌ۔ مجِیْدٌ۔ حقٌّ۔ متِیْنٌ۔ حمِیْدٌ۔ واحِدٌ۔ احدٌ۔ صمدٌاٰخِرٌ۔ اوّلٌ۔ ظاھِرٌ۔ باطِنٌ۔ غنِیٌّ۔ ذُوْالْجلالِ۔ باقِیْ۔ رشِیْدٌ۔ صبُوْرٌ۔ قوِیٌّ۔ توّابٌ۔ حیٌّ۔ ماجِدٌ۔
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو صرفی قانون کے لحاظ سے صرف (متعدّی)ہیںا ۔ رحْمانٌ۔ رحِیْمٌ۔ مُؤْمِنٌ۔ مُہیْمِنٌ۔ جبّارٌ۔ بارِیٌِ۔ خالِقٌ۔ اللہ مُصوِّرٌ۔ غفّارٌ۔ قھارٌ۔ وھابٌ۔ رزّاقٌ۔ فتّاحٌ۔ علِیْمٌ۔ قابِضٌ۔ باسِطٌ۔ خافِضٌ۔ رافِعٌ۔ مانِعٌ۔ مُعْطِیْ شکُوْرٌ۔ مُعِزٌّ۔ مُذِلٌّ۔ سمِیْعٌ۔ بصِیْرٌ۔ حکمٌ۔ عدْلٌ۔ لطِیْفٌ۔ غفُوْرٌ۔ حفِیْظٌ ۔ مُقِیْتٌ۔ حسِیْبٌ۔ رقِیْبٌ۔ مُجِیْبٌ۔ ودُوْدٌ۔ باعِثٌ۔ وکِیْلٌ۔ مُبْدِیٌِ۔ مُعِیْدٌ۔ قادِر’]۔ مُقدِّمٌ۔ مُؤخِّرٌ۔ والِیْ۔ برٌّ۔ ولِیٌّ۔
مُنْتقِمٌ۔ عفُوٌّ۔ رؤُفٌ۔ مالِکُ الْمُلْکِ۔ مُقْسِطٌ۔ جامِعٌ۔ مُغْنِیْ۔ ضارٌّ۔ نافِعٌ۔ حادِیْ۔ بدِیْعٌ۔ مُحْیِْ۔ مُمِیْتٌ۔ واجِدٌ۔ وارِثٌ۔
مشقی سوالات اور تمرینات
[س] اللہ تعالیٰ کی صفات میں کون کونسی صفات صرفی قانون کے تحت مبالغے کے لیے
ہیں ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں کون کونسی صفات صرفی قانون کے تحت صفات مشبّہۃ ہیں ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں کون کونسی صفات اسم الفاعل ثلاثی مجرّد ہیں اور کون کونسی اسم الفاعل ثلاثی مزید فیہ ہیں نیز کونسی صفت اسم الفاعل رباعی مجرّد ہے ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کون کونسی صفات اسم تفضیل کے اوزان ہیں ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں کونسی صفات ثلاثی مزید فیہ کے کن کن ابواب میں سے ہیں ؟اور کونسی صفت رباعی کے کس باب سے ہے ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے متضاد صفات کون کونسی ہیں ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات میں کون کونسی صفات صرفی قانون کے تحت (لازم)اور (متعدّی)ہیں ؟
[س]اللہ تعالیٰ کی صفات کو ان کے متعلقہ فعلِ ماضی و مضارع کے ساتھ جوڑ کر صحیح تلفّظ میں پڑھیں۔
ذ یل میں درج بالا صفات کا صرفی خاکہ(ماضی معروف و ماضی مجہول مثبت و منفی)(مضارع معروف و مضارع مجہول مثبت و منفی )(مصدر معروف و مجہول )(اسم الفاعل )(اسم المفعول )(اسم الظرف و اسم
الاٰلہ ) ا اسم التفضیل )امر و نھی معروف و مجہول ) کے علاوہ افعال مجزومہ و افعال منصوبہ معروف و مجہول تفصیلی وصیغہ وار انداز میں دے رہے ہیں خواہ کتاب کا حجم کتنا ہی بڑا ہو جائے یا پڑھنے والے اکتا کیوں نہ جائیں تاکہ آپ قارئین استاد کے بغیر ان کے اصل لغوی معانی سے بھی آگاہ ہو جائیں ہم کوشش کریں گے کہ ہر مثال جملوں کی صورت میں دیں تاکہ آپ بہت جلد عربی لغت سے شناسا ہونے کے ساتھ ساتھ دین فہمی بھی بہت جلد کر سکیں خاص طور پر قدم قدم پر ہم آپ کی توجہ الفاظ کے لغوی استعمالات اور شرعی و اصطلاحی استعمالات میں نمایاں فرق کی جانب بھی مبذول کرائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان میں اسی انداز کو ہم نے اختیار کیا ہے کیونکہ یہ الفاظ عربی زبان میں عام طور پر روز مرّہ کی گفتگو میں بھی موقع کی مطابقت سے عام انسانوں پر بھی بولے جاتے ہیں لیکن انسانوں پر بولے جانے کی صورت میں جو الفاظ اللہ تعالیٰ کے حق میں ہر وقت مبالغے کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ انسانوں پر ہر وقت مبالغے کے لیے استعمال نہیں ہوں گے تاوقتیکہ وہ مبالغے کے ہی اوزان نہ ہوں اسی لئے پچھلے صفحات میں ان اوزان کی صرفی تفصیلات بھی بیان کر دی گئی ہیں تاکہ اوزان میں لغوی لحاظ سے معنوی فرق بھی واضح ہو جائے
ماضی مطلق معروف مثبت جملوں کے معانی ماضی مطلق معروف مثبت جملوں کے معانی
حامِدٌ الہ(عبد) اللہ حامد نے اللہ کی بندگی کی
الہ حامِدٌ ربّہٗ(حامِدٌ الہ ربّہٗ) حامد نے اپنے رب کی بندگی کی
حامِدانِ الہا(عبدا)اللہ دو حامدوں نے اللہ کی بندگی کی
الہ حامِدان ربّہُما(حامِدانِ الہا ربّہُما) دو حامدوں نے اپنے رب کی بندگی
حامِدُوْن الہُوْا(عبدُوْا)اللہ سب حامدوں نے اللہ کی بندگی کی
الہ حامِدُوْن ربّہُمْ (حامِدُوْن الہُوْا ربّہُمْ)سب حامدوں نے اپنے رب کی بندگی کی
حامِدۃٌ الہتِ(عبدتِ) اللہ حامدہ نے اللہ کی بندگی کی
الہتْ حامِدۃٌ ربّہا(حامِدۃٌ الہتْ ربّہا)حامدہ نے اپنے رب کی بندگی کی
حامِدتانِ الہتا(عبدتا)اللہ حامدہ نام کی دو خواتین نے اللہ کی بندگی کی
الہتْ حامِدتانِ ربّہُما(حامِدتانِ الہتا ربّہُما) حامدہ نام کی دو خواتین نے اپنے رب کی بندگی کی
حامِداتٌ الہْن (عبدْن)اللہ حامدہ نام کی سب خواتین نے اللہ کی بندگی کی
الہتْ(عبدتْ) حامِداتٌ ربّہُنّ(حامِداتٌ الہْن(عبدْن) ربّہُنّ) حامدہ نام کی سب خواتین نے اپنے رب کی بندگی کی
انْت الہْت(عبدْت) اللہ آپ ایک مرد نے اللہ کی بندگی کی
الہْت(عبدْت) ربّک آپ ایک مرد نے اللہ کی بندگی کی
ا نْتُما الہْتُما(عبدْتُما) اللہ آپ دو مردوں نے اللہ کی بندگی کی
الہْتُما(عبدْتُما) ربّکُما آپ دو مردوں نے اپنے رب کی بندگی کی
ْانْتُمْ الہْتُمُ(عبدْتُمُ) اللہ آپ سب مردوں نے اللہ کی بندگی کی
الہْتُمْْ(عبدْتُمْ) ربّکُمْ آپ سب مردوں نے اپنے رب کی بندگی کی
انْتِ الہْتِ عبدْتِ) اللہ آپ ایک خاتون نے اللہ کی بندگی کی
الہْتِ(عبدْتِ) ربّکِ آپ ایک خاتون نے اپنے رب کی بندگی کی
انْتُما الہْتُما(عبدْتُما)اللہ آپ دو خواتین نے اللہ کی بندگی کی
الہْتُما(عبدْتُما) ربّکُما آپ دو خواتین نے اپنے رب کی بندگی کی
انْتُنّ الہْتُنّ(عبدْتُنّ) اللہ آپ سب خواتین نے اللہ کی بندگی کی
الہتُنّ (عبدْتُنّ) ربّکُنّ آپ سب خواتین نے اپنے رب کی بندگی کی
انا الہْتُ(عبدْتُ) اللہ میں ایک مرد/خاتون /نے اللہ کی بندگی کی
الہْتُ(عبدْتُ) ربِّیْ میں ایک مرد/خاتون/نے اپنے رب کی بندگی کی
نحْنُ الہْنا(عبدْنا)اللہ ہم دو مردوں /سب مردوں /دو خواتین/سب خواتین نے اللہ کی بندگی کی الہْنا(عبدْنا)ربّنا ہم دو مردوں /سب مردوں /دو خواتین/سب خواتین نے اپنے رب کی بندگی کی
ماضی مطلق معروف منفی(ما) کے ساتھ جملوں کے معانی
ماضی مطلق معروف منفی(ما) کے ساتھ جملوں کے معانی
ما حامِدٌ الہ(عبد) اللہ حامد نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہ(عبد) حامِدٌ ربّہٗ(ما حامِدٌ الہ(عبد) ربّہٗ) حامد نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما حامِدانِ الہا(عبدا)اللہ دو حامدوں نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہ(عبد) حامِدانِ ربّہُما(ما حامِدانِ الہا(عبدا) ربّہُما)دو حامدوں نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما حِامِدُوْن الہُوْا(عبدُوْا) اللہ سب حامدوں نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہ(عبد) حامِدُوْن ربّہُمْ(ما حامِدُوْن الہُوْا(عبدُوْا) ربّہُمْ) سب حامدوں نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی ما حامِدۃٌ الہتِ(عبدتِ) اللہ حامدہ نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہتْ(عبدتْ) حامِدۃٌ ربّہا(ما حامِدۃٌ الہتْ(عبدتْ) ربہا)حامدہ نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ماحامِدتانِ الہتا(عبدتا) اللہ حامدہ نام کی دو خواتین نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہتْ(عبدتْ) حامِدتانِ ربّہُما(ما حامِدتانِ الہتا(عبدتا) ربّہُما)حامدہ نام کی دو خواتین نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما حامِداتٌ الہْن(عبدْن) اللہ حامدہ نام کی سب خواتین نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہتْ (عبدتْ)حامِداتٌ ربّہُنّ(ما حامِداتٌ الہْن(عبدْن) ربّہُنّ) حامدہ نام کی سب خواتین نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انْت الہت(عبدْت) اللہ آپ ایک مرد نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْت(عبدْت) ربّک آپ ایک مرد نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انْتُما الہْتُما(عبدْتُما) اللہ آپ دو مردوں نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْتُما(عبدْتُما) ربّکُما آپ دو مردوں نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انْتُمْ الہْتُمُ(عبدْتُمُ) اللہ آپ سب مردوں نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْتُمْ (عبدْتُمُْ )ربّکُمْ آپ سب مردوں نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انْتِ الہْتِ(عبدْتِ)ِ اللہ آپ ایک خاتون نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْتِ(عبدْتِ) ربّکِ آپ ایک خاتون نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انْتُما الہْتُما(عبدْتُما) اللہ آپ دو خواتین نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْتُما(عبدْتُما) ربّکُما آپ دو خواتین نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ا انْتُنّ ا۔ لہْتُنّ(عبدْتُنّ) اللہ آپ سب خواتین نے اللہ کہ عبادت نہیں کی
ما الہْتُنّ(عبدْتُنّ) ربّکُنّ آپ سب خواتین نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما انا الہْتُ(عبدْتُ) اللہ میں ایک مرد/خاتون/نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْتُ (عبدْتُ)ربِّیْْ میں ایک مرد/خاتون/نے اپنے رب کی عبادت نہیں کی
ما نحْنُ الہْنا(عبدْنا) اللہ ہم دو مردوں / سب مردوں /دو خواتین /سب خواتین/نے اللہ کی عبادت نہیں کی
ما الہْنا(عبدْنا) ربّناہم دو مردوں /سب مردوں /دو خواتین/سب خواتین/نے اپنے رب کی عبادت نہی
ماضی مطلق مجہول مثبت معروف جملوں کے معانی ماضی مطلق مجہول مثبت معروف جملوں کے معانی
الاِلٰہ اُلِہ(عُبِد) (اُلِہ عُبِد)الْاِلٰہُ )ایک معبود کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہ (عُبِد)الرّبُّ(الرّبُّ اُلِہ(عُبِد)) ایک پالنے والے (آقا) کی بندگی بجا لائی گئی
الْاِلٰہانِ اُلِہا(عُبِدا)(اُلِہ (عُبِد)الْاِلٰہانِ )دو معبودوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہ (عُبِد)الْرّبّانِ (الرّبّانِ اُلِہا(عُبِدا) )دو پالنے والوں (آقاؤں ) کی بندگی بجا لائی گئی
الْاٰلِہۃُ اُلِہُوْا(عُبِدُوْا)(اُلِہ (عُبِد)الْاٰلِہۃُ )دو سے زیادہ معبودوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہ (عُبِد)الْارْبابُ(الْارْبابُ اُلِہُوْا(عُبِدُوْا) دو سے زیادہ پالنے والوں (آقاؤں ) کی بندگی بجا لائی
الْاِلٰہۃُ اُلِہتْ(عُبِدتْ) ایک معبودنی کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہتِ (عُبِدتِ)الرّبّۃُایک پالنے والی(آقایِن)کی بندگی بجا لائی گئی
الْاِلٰہتانِ اُلِہتا(عُبِدتا)(اُلِہتِ(عُبِدتِ) الْاِلٰہتانِ )دو معبودنیوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہتِ(عُبِدتِ) الرّبّتانِ (الرّبّتانِ اُلِہتا(عُبِدتا))دو پالنے والیوں (آقایِنوں ) کی بندگی بجا لائی گئی
الْاِلٰہاتُ اُلِہْن(عُبِدْن)(اُلِہت(عُبِدتِ)ِ الْاِلٰہاتُ) دو سے زیادہ معبودنیوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہتِ(عُبِدتِ) الرّبّاتُ (الرّبّاتُ اُلِہْن(عُبِدْن))دو پالنے والیوں (آقایِنوں )کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْت (عُبِدْت)یا اللہ اے اللہ !(سب قسم کی عبادتوں کے زیبا )آپ کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْت (عُبِدْت)یا ربّ اے رب!(آقا) آپ کی بندگی بجا لائی
اُلِہْتُما(عُبِدْتُما)یا اِلٰہانِ اے دو معبودو!آپ دونوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُما(عُبِدْتُما)یا ربّانِ اے دو پالنے والو!(آقاؤ!)آپ دونوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُمْ(عُبِدْتُمْ) یا اٰلِہۃ اے دو سے زیادہ معبودو! آپ سب کی بندگی بجا لائی
اُلِہْتُمْ(عُبِدْتُمْ) یا ارْبابُ اے دو سے زیادہ پالنے والو!(آقاؤ)آپ سب کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتِ(عُبِدْتِ) یا اِلٰہۃُاے معبودنی! آپ کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْت(عُبِدْتِ)ِ یا ربّۃ اے پالنے والی!(آقایِن)آپ کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُما(عُبِدْتُما) یا اِلٰہتانِ اے دو معبودنیو!آپ دونوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُما(عُبِدْتُما) یا ربّتانِ اے دو پالنے والیو!(آقایِنو!)آپ دونوں کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُنّ(عُبِدْتُنّ) یا اِلٰہاتُ اے دو سے زیادہ معبودنیو! آپ سب کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُنّ(عُبِدْتُنّ)یاربّاتُ اے دو سے زیادہ پالنے والیو!(آقایِنو!)آپ سب کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُ(عُبِدْتُ) نفْسِیْ(وحْدِیْ)مجھ اکیلے /اکیلی/کی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْتُ(عُبِدْتُ) ذاتِیْ(وحْدِیْ، نِفْسِیْ)میری ہی بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْنا(عُبِدْنا) انْفُسُنا(وحْدنا)ہم سب کی(ہماری ہی)بندگی بجا لائی گئی
اُلِہْنا(عُبِدْنا) ذواتُنا(وحْدنا، انْفُسُنا)ہم سب کی(ہماری ہی)بندگی بجا لائی گئی
ماضی مطلق مجہول منفی (ما)کے ساتھ
ما اُلِہ(عُبِد) الْاِلٰہ (الْاِلٰہُ ما اُلِہ (عُبِد)ایک معبود کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما ا الرّبُّ اُلِہ(عُبِد)(الرّبُّ ما اُلِہ(عُبِد)ایک رب(آقا) کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہ(عُبِد) الْاِلٰہانِ (الاِلٰہانِ ما اُلِہا(عُبِدا)دو معبودوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما ا الرّبّانِ اُلِہا(عُبِدا)(الرّبّانِ ما اُلِہا(عُبِدا)دو پالنے والوں (آقاؤں )کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہ(عُبِد) الْاٰلِہۃُ(ما الْاٰلِہۃُ اُلِہُوْا(عُبِدُوْا)دو سے زیادہ معبودوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما الارْبابُ اُلِہُوْا(عُبِدُوْا)(الْارْبابُ ما اُلِہُوْا(عُبِدُوْا)دو سے زیادہ پالنے والوں (آقاؤں ) کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہتِ(عُبِدتِ) الْاِلٰہۃُ(الْاِلٰہۃُ ما اُلِہتْ(عُبِدتْ )ایک معبودنی کی بندگی بجا نہ لائی
ما الرّبّۃُ اُلِہتْ(عُبِدتْ) (ما اُلِہتِ (عُبِدتِ )الرّبّۃُ)ایک پالنے والی (آقایِن ) کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہتِ(عُبِدتِ) الْاِلٰہتانِ(الْاِلٰہتانِ ما اُلِہتا(عُبِدتا)دو معبودنیوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما ا الرّبّتانِ اُلِہتا(عُبِدتا)(الرّبّتانِ ما اُلِہتا(عُبِدتا)دو پالنے والیوں ( آقایِنوں ) کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہتِ(عُبِدتِ) الْاِلٰہاتُ(الْاِلٰہاتُ ما اُلِہْن(عُبِدن ) دو سے زیادہ معبودنیوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما الرّبّاتُ اُلِہْن(عُبِدْن)(الرّبّاتُ مِا اُلِہْن(عُبِدْن) دو سے زیادہ پالنے والیوں (آقایِنوں )کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْت(عُبِدْت) یا اللہ اے اللہ !(سب قسم کی عبادتوں کے زیبا) آپ کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْت(عُبِدْت) یا ربُّ اے پالنے والے !(آقا)آپ کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُما(عُبِدْتُما) یا اِلٰہانِ اے دو معبودو! آپ دونوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہِتُما(عُبِدْتُما) یا ربّانِ اے دو پالنے والے !(آقاؤ!)آپ دونوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُمْ(عُبِدْتُمْ) یا اٰلِہۃُ اے دو سے زیادہ معبودو!آپ سب کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُمْ(عُبِدْتُمْ) یا ارْبابُ اے دو سے زیادہ پالنے والو!(آقاؤ!)آپ سب کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتِ(عُبِدْتِ) یا اِلٰہۃُ اے معبودنی!آپ کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتِ(عُبِدْتِ) یا ربّۃُ اے پالنے والی!(آقایِن!)آپ کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُما(عُبِدْتُما) یا اِلٰہتانِ اے دو معبودنیو! آپ دونوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
مااُلِہْتُما(عُبِدْتُما) یا ربّتانِ اے دو پالنے والیو!(آقایِنو!)آپ دونوں کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُنّ(عُبِدْتُنّ) یا اِلٰہاتُ اے دو سے زیادہ معبودنیو! آپ سب کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُنّ(عُبِدْتُنّ) یاربّاتُ اے دو سے زیادہ پالنے والیو!(آقایِنو!)آپ سب کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُ(عُبِدْتُ) وحْدِیْ مجھ اکیلے /مجھ اکیلی/کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْتُ(عُبِدْتُ)( ذاتِیْ(وحْدِیْ) مجھ اکیلے /مجھ اکیلی/کی بندگی بجا نہ لائی گئی
ُما اُلِہْنا (عُبِدْنا)انْفُسُنا(وحْدنا) ہم سب کی (ہماری ہی) بندگی بجا نہ لائی گئی
ما اُلِہْنا(عُبِدْنا) انْفُسُنا ہم سب کی (ہماری ہی) بندگی بجا نہ لائی گئی
٭٭٭
نوٹ: اس کتاب کے آخر میں دیا گیا جدول حزف کر دیا گیا ہے کیونکہ یونی کوڈ تبدیلی میں اس کے متن میں بہت گڑبڑ ہو گئی ہے۔
ماخذ:
تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبۂ جبرئیل، جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید