FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

قرآن  فہمی کے لیے

 

جامع عربی گرامر

 

سیکھئے

 

 

حصہ اول

 

 

 ترتیب و تالیف

                   شیخ ابو انیس مہدی زمان بلتستانی

 

 

 

عرض مؤلف

 

الحمد للّہ الّذی ھدا نا للأ سلام و رزقنا الا ٔیمان بنبیّہ محمدﷺ خیر الأ نام وصلّی اللہ علیہ و آلہ و من تبعہ بأ حسان ألی یوم الفرقا ن(آمین)

و بعد! فأسأل اللہ التّوفیق لخدمۃ دینہ بالعلم والعرفان وأستہدیہ متعّوذا عن الزّیغ والعصیان وأستوہبہ أن یّفیض علیّ الغفران(آمین)

قارئین کرام! اللہ ربّ العٰلمین کی توفیق سے میں آپ کی خدمت میں ایک ایسی کتاب پیش کر رہا ہوں جس کو پڑھنے سے بیک وقت آپ عربی زبان اور دینِ اسلام دونوں کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اِس کتاب کی ترتیب میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ اِس کتاب کو ہر لحاظ سے معیاری اور عام فہم انداز میں مرتب کیا جائے۔

اِس کتاب کی ترتیب میں روایتی طرز تصنیف کو چھوڑ کر ایک نیا انداز اختیار کیا گیا ہے جس کے تحت علوم لغت عربیہ کے سات شعبوں کے علاوہ علوم دینیہ کے چھ مختلف عنوانات کو بھی شامل نصاب کیا گیا ہے اِس طرح اِس کتاب سے استفا دہ کرنے والے کم و بیش تیرہ علوم و فنون بیک وقت حاصل کر سکیں گے دوسرے الفاظ میں یوں کہنا ہر گز بیجا نہ ہو گا کہ یہ کتاب ایک جامع ڈکشنری کا کام دے گی۔

اس کتاب کو لغت کی دیگر کتابوں سے ممتاز کرنے والے امور درج ذیل ہیں :۔

۱ ْ۔ ہر سبق کے اختتام پر تمرینات، سوالات و جوابات کے علاوہ موزون اور وافر مثالوں سے اسباق کو ذہن نشین کرانے کا اہتمام۔

۲۔ کتاب کو لغوی اور موضوعاتی اعتبار سے معیار۔ی بنا نے کے لیے مختلف مکالموں، محادثوں، کہانیوں، لطیفوں، محاوروں، ضروبا لا مثال اور طبی معلومات سے آراستہ کر کے قارئین کی علمی ارتقاء کو مد نظر رکھا گیا ہے۔

۳۔ ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے تمام معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور اخلاقی  پہلوؤں پر مشتمل الفاظ و معانی کی جامع فہرستیں مہیا کی گئی ہیں۔

۴۔ آخر میں اضافی طور پردرخواستوں اور خطوط کے نمونے بھی دئے گئے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ میری اس ادنیٰ سی کا وش کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ اس کی تالیف میں اخلاص کی دولت سے نوازے۔ اس کے ذریعے لاتعداد تشنگان علم کی پیاس کو بجھا کر دین اسلام کی شفّاف تعلیمات کو رہتی دنیا تک پھیلا نے کی توفیق عطا فرمائے نیز آخرت میں اس کوشش کو نجات اور بلندیِ درجات کا باعث بنائے (آمین یا رب العالمین)۔

وصلّی اللہ علیٰ سید نا محمدوآلہ وازواجہ واصحابہ اجمعین(آمین)

مؤلف الکتا ب:

ابو انیس مہدی زمان

مورخہ ۱۲ / ۱۲/ ۱۴۲۴ھجری بمطابق

۴ /۲/ ۲۰۰۴میلاد بروز بدھ بوقت عصر

 

 

 

 الدّرس الاول

عربی گرامر کی ضرورت و اہمیت

 

کسی بھی زبان کو باقاعدہ سیکھنے اور بولنے کے لیے اُس کی گرامر سے واقفیت ضروری ہے کیونکہ گرامراُس زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ و معانی کے صحیح خدوخال کو واضح کرتی ہے اور مختلف لفظوں کو جوڑ کر جملے اور بامعنی مرکب بنانے کا طریقہ بھی سکھا تی ہے اورساتھ ساتھ الفاظ کو صحیح انداز میں تلفظ کرنے اور بولنے کی پہچان کراتی ہے۔

عربی زبان عام زبانوں کے مقالے میں بہت ہی وسیع، حساس اور اِنتہا ئی نازک زبان ہے جو زیر و زبر اور حرفوں کی تبدیلی اور اِضافے سے اپنی بنیادی ساخت اور بناوٹ کھو بیٹھتی ہے جس کے نتیجے میں معنوی تبدیلی عمل میں آتی ہے اِس اعتبار سے عربی گرامر کو جاننا اور زیادہ اہمیت کا حامل بنتا ہے خاص طور پر مشترک المعا نی اور حقیقت و مجاز کے مختلف پہلو رکھنے والے الفاظ کے مقصودی معا نی کو سمجھنا اصول گرامر کے بغیر ناممکن ہے۔

دین فہمی کے لیے بھی عربی زبان اور اُس کی گرامر کو تفصیلی طور پر سیکھنا اِنتہائی لا زمی ہے کیونکہ ہما را دین مکمل طور پر اپنے کلیات اور جزئیات سمیت عربی زبان میں مدوّن ہے کتاب وسنت کے بنیادی اور لغوی مفہوم کو سمجھنا بھی لغت عربیہ کے محاورات اصول و ضوابط اور قوانین پر منحصر ہے کیونکہ احکام ومسائلِ دین کے اسّی فیصد کافہم لغت شناسی سے وابستہ ہے جس سے کسی صورت میں بھی چھٹکا را ناممکن ہے۔

اللہ تعالیٰ اُن ہستیوں کو غریق رحمت کرے جنھوں نے اللہ کے دین اور عربی زبان کی حفاظت کے لیے قواعد اللّغہ تدوین کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ اِس تحریک کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار کرنے والوں کے سرفہرست امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا نام نامی آتا ہے جنھوں نے سورہ برأت کی آیت نمبر ۳ {اِنّ اللہ برِیٌٔ مِّن الْمُشْرِکِیْن ورسُوْلُہٗ }کی تلاوت میں اِعرابی غلطی سننے پر چونکتے ہوئے فرمایا تھا لوگو! قرآن اور لغت عربیہ کی حفاظت کر لو اور قواعد اللغہ تدوین کرنے کے لیے فکرمند ہو جاؤ ورنہ اللہ کی کتاب کا اپنی اصل پر باقی رہنا مشکل ہے۔

امیر المؤمنین عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ کا (ر سُوْلُہٗ)کے لام پر پیش کی حرکت پڑھنے کے بجائے  زیر کی حرکت کے ساتھ (رسُوْلِہٖ)پڑھنے پر چونکنا اِس بات کی کھلی دلیل ہے کہ پیغمبرِ اِسلام محمّد ﷺ اور اُن کے جاں نثارصحابہ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم فطری اور مادری طور پر قرآن کریم اور عربی زبان دونوں کو لغت عربیہ کے طبعی اصولوں کے عین مطابق پڑھا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی ا للہ عنہ قرآنی آیت میں تلفظ کی غلطی کو فوراً بھانپ گئے کیونکہ اِس تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی وجہ سے مراد الٰہی یکسر بدل رہی تھی جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا اور فوری طور پرایسی غلطیوں کا ہمیشہ کے لیے اِزالہ کرنا قرآن اور لغت عربیہ دونوں کی حفاظت کا اولین فریضہ قرار دیا۔

واضح رہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)اور دوسرے فصیح عربی بولنے والے سب لوگ فطری اور عملی لحاظ دسے پوری طرح آگاہ تھے کہ رفع۔ نصب۔ جر۔ اور سکون کی اِعرابی علامات کا استعمال کیوں اور کہاں کیا جا تا ہے۔ نیز اِن اعرابی اصولوں کے مطابق پڑھنے کی خوبیوں اور اُن کی پابندی نہ کرنے کی خامیوں سے بھی واقف تھے بلکہ یہ لوگ اپنی زبان کی تمام لغوی اور اِصطلاحی و عرفی نزاکتوں اور تقاضوں سے بھی باخبر تھے جس کے نتیجے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے {اِنّ اللہ برِیٌِ مِّن الْمُشْرِکِیْن ورسُوْلُہٗ }کی آیت میں موجود واؤ عاطفہ کے ذریعے ( رسُولُہٗ)کا عطف(برِیٌٔ)کے فاعل کی ضمیر ( ھُو)ڈال کر مرادِ الٰہی کو واضح کر دیا اِس تلفظ کے مطابق آیت کریمہ کا درست مفہوم یہ ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول دونوں تمام مشرکوں سے لا تعلق ہیں اِس معنیٰ کے تحت ( رسُولُہٗ)کے لام پر معطوف کی حیثیت سے رفع پڑھا گیا ہے اور اگر زیر کے ساتھ (رسُوْلِہٖ) پڑھا جائے تو لفظِ رسول معطوف بنتا ہے لفظِ مشرکین کاجو کہ (مِنْ)حرف جر کی وجہ سے مجرور ہے کیونکہ اصول گرامر کے مطابق معطوف اور معطوف علیہ دونوں کا ایک جیسا اِعراب پڑھا جا تا ہے ۔

اِس صورت میں آیت کریمہ کا مراد الٰہی کے مطابق مفہوم باقی نہیں رہتا اور آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ یقیناً ا للہ تعالیٰ تمام مشرکوں اور اپنے پیغمبر سے بیزار ہے جب کہ در حقیقت آیت کریمہ کا مفہوم قطعاً ایسا نہیں کیونکہ اِس مفہوم کو سورہ برأت ہی کی پہلی اور تیسری آیت کے ابتدائی الفاظ نمایاں طور پر مسترد کرتے ہیں جن کے الفاظ بالترتیب اِس طرح ہیں (برآ ئ ۃٌ مِّن اللہ ورسُوْلِہٖ اِلیٰ الّذِیْن عاھدْتُّمْ مِّن الْمُشْرِکِیْن) ( واذانٌمِّن اللہ ورسُوْلِہٖ اِلیٰ النّاسِ یوْم الحجِّ الْأکْبرِ )پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول دونوں کی جا نب سے اے مسلمانو !اُن تمام مشرکوں سے لا تعلقی کا کھلا اعلان ہے جن سے تم نے امن اور جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا ہے اور دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اُسکے رسول کی جانب سے عرفہ کے دن تمام مشرکوں کے نام کھلا اعلان ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول دونوں تمام مشرکوں سے لاتعلق ہیں۔

درج بالا دونوں آیتوں کا مجموعی مفہوم یہ نکلا کہ اللہ اور اُس کے رسول تمام مشرکوں سے لاتعلق ہیں نہ کہ مشرکوں سمیت اپنے رسول سے بیزار ہے اِسی مفہوم کے پیش نظر عمرؓ نے آیت کریمہ کے تلفظ میں سنگین اِعرابی غلطی کو پکڑتے ہوئے امت مسلمہ کو خبردار کرایا ہے اگر عمرؓ فطری اور عملی طور پر لغت عربیہ کے اصولِ گرامر سے آگاہ نہ ہوتے تو کبھی بھی اِس تلفظ کو غلط قرار نہ دیتے۔ (شرح شرح مغنی اللبیب مطبوعہ مصر)

اصولِ گرامر کی باقاعدہ تدوین کی ضرورت دورِ فاروقیؓ میں ہی محسوس کی گئی تھی لیکن عملی طور پر ایک فن کے طور پر امیر المؤمنین خلیفہ رابع علی بن ابی طالبؓ کے دورِ خلافت میں عراق کے شہر(کوفہ) میں شروع ہوا جس کے لیے اُنہوں نے اپنے تلامذہ میں سے لغتِ عربیہ کے مقتدر شخصیت أبوالأسود دئلی کا انتخاب کیا۔ موصوف لغت عربیہ کے علاوہ علوم القرآن فنِ حدیث علم القرأت اور علم القضأ کے ماہر تھے آپ کا شمار بڑے بڑے تابعین میں ہوتا ہے آپ کی بے پناہ علمی اہلیت کی بنیاد پر امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؓ کے دور میں بصرہ کے چیف جسٹس بنا دئے گئے تھے

آپ عربی گرامر کے پہلے بانی جانے جاتے ہیں جنہوں نے امیر المؤمنین کے امنگوں پر اتر کر تعمیل ارشاد کر ہوئے قواعد اللغہ العربیہ کی تدوین کا باقاعدہ آغاز کیا اور سب سے پہلے افعالِ تعجب کے اوزان (ما أحْسنہٗ وأحْسِنْ بِہٖ) ترتیب دئیے دوسرے نمبر پر رفع، نصب، جر، جزم اور غنہّ پڑھے جانے والے مقامات کا تعین کیا نیز فاعل، مفعول اور مضاف و مضاف الیہ کی اِصطلاحات وضع کیں۔

آپ کی لغوی اور دینی خدمات میں قرآن کریم پراِعراب لگانا اور نقطے والے حروف کے نقطوں کی نشاندہی کرنا شامل ہے موصوف لغت، قرآن اور دین کی خدمت کرتے ہوئے پچاسی سال عمر پاکر انہتر ھجری میں دارِ فانی سے رحلت فرما گئے اور امتِ مسلمہ کے لیے یحییٰ بن یعمرؒ جیسے گرامر کے ماہر کو اپنا جانشین چھوڑ گئے اُنہوں نے بھی لغت، قرآن اور دین کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کئے اپنے استاد کی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے قرآن کریم کے اعراب اور حروف معجمہ(نقطے والوں )ا ور مہملہ(بغیر نقطے والوں ) کی پہچان کرانے میں دقیق نظری سے کام کیا

آپ نے متعدد صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں جن میں ابوذر غفاریؓ، عماربن یاسر، ؓ ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ، ابوھریرہؓ، عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ سرفہرست ہیں اِسی طرح آپ سے احادیث پڑھنے اور روایت کرنے میں متعدد تبع تابعین کے نام شامل ہیں جن میں سرفہرست عبداللہ بن برادۃؒ، قتادۃؒ، عطاء خراسانیؒ، سلیمان تمیمیؒ، یحییٰ بن عُقیلؒ اور اسحاق بن سُویدؒ سرفہرست ہیں۔ بنو امیہ کے دور حکومت میں موصوف خراسان کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ مقدمات میں فیصلہ جات کی کامل اہلیت رکھنے کی وجہ سے آپ جس صوبے میں رہائش پذیر ہوتے وہاں پر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوتے۔ موصوف تقریباً نوّے ھجری میں رحلت فرماگئے۔ (سیر اعلام النبلاء صفحہ۸۱۔ ۸۶، ۴۴۱۔ ۴۴۳جزء رابع مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

لغت عربیہ اور قرآن کریم کی خدمت کرنے والوں میں بنو امیہ کے نامور حکمرانوں میں حجاج بن یوسفؒ کا نام بھی تاریخ اِسلام نے یادگار شخصیات میں شمار کیا ہے موصوف بہت سے علوم و فنون کے بلا مبالغہ ماہر تھے جن میں سے علوم اللغۃالعربیہ سرفہرست ہیں اِس فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے اُن کی تقاریر اور حکیمانہ اقوال کو عربی ادب کے شاہکار نمونوں میں شمار کیا جاتا ہے دورِ حاضر میں پوری دنیا کے اندر قرآن کریم کے جتنے بھی نسخے ہیں سب کے سب حجاج بن یوسفؒ کے ہاتھوں لگے ہوئے اِعراب، رموز اوقاف، منزلوں اور رکوعات کی تقسیمات کے مطابق تقریباً تیرہ صدیوں سے طبع ہو رہے ہیں اُن کی یہ خدمت رہتی دنیا تک آنے والی امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان ہے جس کا صلہ قیامت تک امت مسلمہ چکا نہیں سکتی کیونکہ اُنکی اِس خدمت نے قرآن کریم کے بارے میں برپا ہونے والے لاتعداد فتنوں اور اختلافات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج تک امت مسلمہ کے درمیان نظریاتی و گروہی اختلاف رائے ہونے کے باوجود حجاج بن یوسفؒ کے اِعراب زدہ قرآن کے مقابلے میں دوسرا قرآن اپنے من پسند اِعراب کے ساتھ منظرِ عام پر لانے کی آج تک کسی کو بھی جرأت نہ ہو سکی ہے کیونکہ اِس اعراب پر تمام سچّے مسلمانوں کا ہر دور میں اِجماع رہا ہے اور قیامت تک یہ اِجماع قائم رہے گا۔

در اصل حجاج کی یہ خدمت قرآن کریم اور دینِ اسلام کی حفاظت کی ایک کڑی ہے اِس خدمت کے ذریعے گویا کہ حجاج نے قرآن کریم کی ایک مختصر اور جامع تفسیر کا انمول تحفہ پیش کیا ہے جس کا اندازہ ہر شخص کو اُس وقت ہو سکتا ہے جب وہ بیک وقت عربی گر امر اور علوم دینیہ کے کم و بیش تیرہ علوم سے آراستہ ہو بالخصوص اسلامی عقیدہ کا پابند ہونے کے ساتھ فن تفسیر، فن تجوید اور فن قرأت کو بخوبی جانتا ہو حجاج کی اِس عظیم خدمت سے وہی شخص کڑھے گاجس کی آنکھ میں دھول ہو جس کی عقل پر پردہ ہو اورجس کی نگاہ دن کے اُجالے میں چمگاڈر کیطرح دیکھ نہ سکتی ہو اِس میں سورج کا کیا قصور؟

عربی گرامر ایک جامع نام ہے جس کے تحت سات مختلف شعبے ہیں عربی لغت اور دینی علوم سے شناسا ہونے کے لیے بیک وقت اِن سب شعبوں کے ذیلی علوم و فنون سے مکمل آگاہی رکھنا ضروری ہے۔ اِس کے بغیر دینی علوم کو سیکھنا درکنار عربی لغت کے کنارے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یاد رہے کہ علمائے گرامر نے بڑی تحقیق کے ساتھ سراغ لگا لیا ہے کہ قرآن کریم اور حدیث رسولﷺ اور لغت عربیہ کے تمام محاوروں میں علوم گرامر کے تمام اصولوں کا استعمال کیا گیا ہے اِس حوالے سے گرامر کے سب شعبوں کا علم حاصل کرنا ایک دینی طالب علم کی ذمہ داری بنتی ہے اِسلئے کہ اس کی مدد سے دین فہمی میں ہر لمحہ مدد ملتی ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا لاریب کلام اور ہدایت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ لغت عربیہ کی گرامر کے تمام معیاری اصولوں پر اترنے والی ناقابل چیلنج شاہکار کتاب بھی ہے جس کے ناقابلِ تسخیر، فقیدالمثال اور عدیم الجواب معجز کلام ہونے کو آج سے چودہ صدی قبل لغت عربیہ کے مایۂ ناز شہرۂ آفاق ادیبوں نے تسلیم کیا تھا۔

قرآن کریم دو لحاظ سے معجزہ ہے ایک تو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کتاب ہدایت اور ہر قسم کی خیر و فلاح کی ضامن، تمام اخلاقی قدروں کی داعی اور جملہ معاشرتی و اخلاقی برائیوں سے روکنے والی کتاب ہونے کے اعتبار سے معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسری طرف عربی گرامر کے فقیدالمثال اصول اپنے اندر سمونے کی وجہ سے معجزہ ہونے کا مقام رکھتا ہے یہ دونوں خوبیاں قرآن کریم کے اولین مخاطب اور ماہرینِ لغت شخصیات کے کلام میں سرے سے موجود نہ تھیں اِسی وجہ سے قرآن کریم کے ایک چھوٹے سے چیلنج کو اُس زمانے کے ماہرینِ لغت پسپا نہ کر سکے اور ایک رشد و ہدایت پر مشتمل چھوٹی سی سورت پیش کرنے سے عاجز رہے اور سب سے بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بڑے سے بڑا( لغت عربیہ میں ) جانچ پرکھ کرنے والا ادیب قرآن کریم کے ترکیب و جمل، اندازِ بیاں اور اسلوب کلام میں ذرہ برابر بھی کیڑے نہ نکال سکے۔

قرآن کریم اور حدیث رسولﷺمیں علوم لغت کے سات کے سات پہلو موجود ہیں اِن میں سے زیادہ تر علم البیان، علم المعانی اور علم البدیع کے بیشمار اصول و ضوابط کا استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے واقعتاً مشرکین عرب کے لیے ایک معمّہ بنا دیا تھا جس کا اندازہ قرآنِ کریم کو نگاہِ بصیرت سے پڑھنے والے کو ہی ہو سکتا ہے یہ قرآن اِتنا جامع اور مختصر کلام ہے جس نے اپنے اندر لاکھوں لعل و جواہرات کو چھپا رکھا ہے جن کو تفسیر کے صفحات پر لانے کی صورت میں ایک تلاطم خیز ٹھاٹھیں مار تا ہوا سمندر دکھائی دیتا ہے جن کو رب تعالیٰ نے ایک کوزہ میں بند کر دیا ہے اُصولِ گرامر اِن انمول ہیروں کو سیپیوں سے باہر نکال لانے میں آب دوزوں کی طرح مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

 سبق نمبر ایک پر اسئلۃ وتمارین

 

۱۔ کسی بھی زبان کی گرامر کی اہمیت و ضرورت کو اپنے لفظوں میں بیان کریں۔

۲۔ عربی گرامر کی ضرورت اور اہمیت کو تفصیل کے ساتھ اجاگر کریں۔

۳۔ عربی زبان کے وہ کون سے الفاظ ہیں جو عربی گرامر کے بغیر قطعاًسمجھے نہیں جا سکتے ؟

۴۔ دین فہمی کے لیے عربی گرامر کوسیکھنا کیوں ضروری ہے ؟

۵۔ ہمارے دینی مسائل و احکام کی کتنی فیصد گرامر کے ذریعے حل ہوتی ہیں ؟

۶۔ ہمارے دینی مسائل کی کتنی فیصد شرعی اصطلاحات سے حل ہوتی ہیں ؟

۷۔ عربی گرامر کے ذریعے دین کی کسطرح حفاظت کی جاتی ہے ؟

۸۔ عربی گرامر کوکس خلیفہ المسلمین کے مشورے سے مدوّن کیا گیا ؟ اور کیوں مدوّن کیا گیا؟

۹۔ عربی گرامر کے اصول کو تدوین کرنے کی وجہ کیا چیز بنی ؟اور کیوں بنی؟

۱۰۔ کس خلیفہ المسلمین کے حکم سے اصولِ گرامر تدوین کرنے کا باقاعدہ کام شروع ہوا ؟

۱۱۔ حضرت علیؓ نے اصول گرامر تدوین کرنے کے لئے کس شخص کا انتخاب کیا ؟

۱۲۔ حضرت ابوالا سود دئلی اور یحییٰ بن یعمر کے مختصر حالات زندگی بیان کر یں۔

۱۳۔ ابوالاسود دئلی نے سب سے پہلے کون کون سے اصول گرامر تدوین کئے ؟

۱۴۔ کیا عرب کے لوگ فطری طور پرا صولِ گرامرسے واقف تھے یا نہیں ؟

۱۵۔ کیا عرب کے لوگ تدوینِ گرامر سے پہلے موجودہ اِعرابی شکلوں کی پابندی کر تے تھے یا نہیں ؟

۱۶۔ کیا حضرت علیؓ نے ابوالاسود دئلی کے تدوین کر دہ اصولوں کو پسند کیا ؟

۱۷۔ ابوالاسود دئلی نے حفاظت قرآن کے لئے کیا کیا خدمات انجام دیں ؟

۱۸۔ ابوالاسود دئلی کے بعد کس کس نے قرآن کی حفاظت کے لئے کیا کیا خدمات انجام دیں ؟

۱۹۔ حضرت عمر ؓ کو آیت قرآنی کو غلط پڑھناکس طرح معلوم ہوا؟

۲۰۔ حجاج بن یوسف کی عربی گرامر اور قرآن کی حفاظت کے سلسلے میں خدمات بیان کریں۔

۲۱۔ حجاج بن یوسف کے اِعراب القرآن اور رموز اوقاف وغیرہ کی اہمیت بیان کریں۔

۲۲۔ کیا حجاج بن یوسف نے اِعراب القرآن کا کام کر کے اِسلام کو نقصان پہنچایا تھا ؟

۲۳۔ کیا حجاج بن یوسف پر اِعراب القرآن کے حوالے سے کئے جا نے والے اِعتراضات درست ہیں ؟

۲۴۔ قرآن کریم کس کس اعتبار سے معجزہ ہے ؟

۲۵۔ قرآن کریم میں گرامر کے کونسے اصول زیادہ تر بیان کئے گئے ہیں ؟

۲۶۔ قرآن کریم جامع اور مختصر انداز میں کیوں اتارا گیا؟

۲۷۔ عرب کے مایۂ ناز ادیب قرآن کریم جیسا کلام کیوں بنا نہ سکے ؟

۲۹۔ ۔ قرآن کریم میں عام عربی ادب کے علاوہ کون سی زائد خوبیاں ہیں اور کیوں ؟

۳۰۔ عرب کے قابل فخر ادیب اور اِنشاء  پرداز قرآنِ کریم میں لغوی غلطیاں کیوں نکال نہ سکے ؟

۳۱۔ حجاج بن یوسف کے ہاتھوں اِعراب لگے ہوئے قرآن کے مقابلے میں دوسرا قرآن آج تک منظر عام پر

کیوں لایا نہ گیا؟

 

 

 

 

الدّرس الثانی

 

عربی گرامر کے شعبے

 

عربی زبان کو باقاعدہ طور پر سیکھنے کے لئے گرامر کے جن قواعد کو تفصیل کے ساتھ جاننا ضروری ہے اُن قواعد کے سات بنیادی شعبے ہیں اُن تمام شعبوں کی تفصیلات اور اِفادیت سے آگاہ ہوئے بغیر عربی زبان جاننے کادعویٰ محض ایک دعویٰ ہے جس کا دعویدار عربیت کی روح اور مٹھاس سے محروم ہے جس کا اندازہ عربی کے طالب علموں کو اُس وقت ہو سکتا ہے جب وہ اِن شعبوں کی تفصیلات میں قدم رکھیں گے یاد رکھنے کی بات ہے کہ عربی گرامر کے سات بنیادی شعبوں کے لیے علم الصّرف اور علم النّحو بنیاد ہیں کیونکہ یہ سات شعبے اِنہی دو علوم سے جنم پاتے ہیں اِسی وجہ سے علمائے گرامر نے کہا ہے کہ(االصّرْفُ اُمُّ الْعُلُوْمِ والنّحْوُ ابُوْہا)صرف تمام علوم کی ماں ہے اور نحو تمام علوم کا باپ ہے اِسلئے کہ علم الصّرف ماں کی طرح مختلف علوم کی افزائش و ترقّی کا کردار ادا کرتا ہے اور علم النّحو باپ کی طرح اِن علوم سے حاصل شدہ الفاظ کو اِعراب کا زیور پہناتا ہے جس سے الفاظ کی ظاہری بناوٹ کو چار چاند لگ جاتے ہیں اِسی وجہ سے علمائے گرامر نے علم النّحو کے بارے میں کہا ہے کہ (االنّحْوُ فِی ْالْکلامِ کالْمِلْحِ فِیْ الطّعامِ) گفتگو میں نحو کا مقام کھانے میں نمک جیسا ہے حقیقت ہے کہ نمک کے بغیر کوئی بھی نمکین کھانا ذائقہ دار نہیں بنتا اِسی طرح نحوسے مزیّن کئے بغیر کوئی بھی گفتگو دلفریب نہیں بنتی۔

یاد رہے کہ قرآنِ کریم اِن تمام علوم کا مرقّع اور البم ہے یہی وہ شاہکار وجہ ہے کہ نزولِ قرآن کے دور کے مایۂ ناز اِنشأ پرداز، فصاحت و بلاغت کی فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنے والے ماہرینِ لغت انگشت بدنداں ہو کر(ما ہذا قوْلُ الْبشرِ)(یہ قرآن واقعتًا کسی بشر کا قول نہیں ہو سکتا )کہنے پر مجبور ہو گئے اور اپنی ہار مان گئے کیونکہ قرآنِ کریم لغت اور شریعت الٰہی دونوں لحاظ سے معجزہ کلام ہے اِس جیسا کلامِ لغت قیامت تک کوئی لا نہیں سکے گا اور نہ ہی اِس کا جیسا پیغامِ دین جو عالمگیر صلاحیتوں کا حامل ہو قیامت تک کوئی لا نہیں سکے گا (اِنْ شائ اللہ الْعزِیْزُ)

لہٰذا امّتِ مسلمہ کی اہم مذہبی ذمّہ داری ہے کہ قرآنِ کریم کو معجزہ قرار دینے والے علوم کو اُن کی گہرائیوں تک پہنچ کر جاننے کی سعیِ پیہم کریں تاکہ قرآن اور شریعتِ خدا داد کے خلاف اُٹھنے والے باطل فتنوں کی تند و تیز آندھیوں کے جھونکوں کا رخ بڑی قوّت کے ساتھ دوسری جانب موڑ سکیں۔ اِن تمام شعبوں کی تفصیلات اپنے اپنے مقام پر آپ پڑھ سکیں گے انشاء اللہ العزیز البتہ یہاں پر ہم اِن شعبوں کا مختصر تعارف پیش کر کے شعبۂ علم الصرف کی کار کردگی کو خوب واضح کریں گے

نمبر۱۔ شعبۂ علم الصرف

علم الصرف عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو لفظوں کے ردّ و بدل، حرکت و سکون کی تبدیلی اور حروف کے الٹ پھیر کے ذریعے بہت سے مختلف معانی کو جاننے اور لغت کے موزون محاوروں سے آشنا ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

نمبر۲۔ شعبۂ علم النحو

علم النّحو عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو مختلف لفظوں کو جوڑ کر با معنیٰ جملے بنا نا سکھاتا ہے نیز مفردات اور مرکّبات پر پڑھے جانے والے مختلف اِعرابات اور اُن کی وجوہات کو جاننے مین مدد فراہم کرتا ہے۔

نمبر۳۔ شعبۂ علم البیان

علم البیان عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو بول چال کے سب ضروری سلیقوں اور آداب کی نشاندہی کرتا ہے جن میں سرِ فہرست (تشبیہ، اِستعارہ، کنایہ، مجاز، حقیقت، صریح، تعریض، تضمین اور ا، قتباس) کے اِستعمالات کو جاننا شامل ہے۔

نمبر۴۔ شعبۂ علم المعانی

علم المعانی عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو محاورے کے تحت الفاظ، جملوں اور اِعرابی تبدیلی کرنے والے یا نہ کرنے والے (حروفِ عاملہ و غیرِ عاملہ )کے مطلوبہ و مقصودی معانی کی نشاندہی کرتا ہے نیز جملوں میں اِستعمال ہونے والے الفاظ کی معنوی حیثیتوں کو بھی بیان کرتا ہے۔

نمبر۵۔ شعبۂ علم البدیع

علم البدیع عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو گفتگو کو( نزاکت کے مطابق )الفاظ و معانی کے حسین زیور پہنانے کا اُسلوب سکھاتا ہے علم البدیع کا دوسرا نام( مُحسِّناتٌ بدِیْعِیّیۃٌ) ہے یعنی وہ تمام الفاظ و معانی جو گفتگو کو موقع کی نزاکت کے مطابق زیادہ حسین اور دلچسپ بنانے کا کردار ادا کرتے ہیں اِس نسبت سے علم البدیع کو محسّنات لفظیّہ و معنویّہ بھی کہتے ہیں۔

نمبر۶۔ شعبۂ علم التّجوید

علم التّجوید عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو قرآن، حدیث اور عربی زبان کے مفردات، مرکّبات اور حروفِ تہجّی کو درست تلفّظ کے ساتھ پڑھنے کا طریقہ سکھاتا ہے کیونکہ تجوید کے معنیٰ درست پڑھنے کے ہیں اِس مفہوم کا اِطلاق بیک وقت قرآن، حدیث اوعام عربی زبان پر ہوتا ہے البتہ قرآنِ کریم کے مفردات، مرکّبات اور حروفِ تہجّی کودرست تلفّظ کے ساتھ پڑھنا علم التّرتیل کہلاتا ہے۔ ترتیل کو تحقیق، تدویر اور حدر بھی کہتے ہیں

نمبر۷۔ شعبۂ علم القرأت

علم القرأت عربی گرامر کا وہ اہم شعبہ ہے جو قرآنِ کریم، حدیثِ رسولﷺ اور عربی زبان کے بہت سے الفاظ کو مختلف عرب قبائل کے لہجوں اور آوازوں میں پڑھنے نیز الفاظ کو( زیر، زبر، پیش، سکون)کی تبدیلیوں کے ساتھ پڑھنے (معرفہ و نکرہ )کے فرق سے پڑھنے اور جملوں سے (الفاظ و حروف کو حذف کرنے یا حذف کئے بغیر پڑھنے کی نشاندہی کرتا ہے بشرطیکہ اِس طریقے سے پڑھنے کی صورت میں الفاظ کے معانی میں لغوی اور شرعی لحاظ سے کسی قسم کا معمولی بگاڑ بھی پیدا نہ ہو ۔

پچھلے اسباق میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ عربی گرامر کی جان علم الصرف ہے جو ہمیں بے شمار مختلف المعانی الفاظ کی شناخت کرانے کے ساتھ ساتھ اُن الفاظ کے بنانے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ اگر چہ دنیا کی ہر زبان کے تمام الفاظ و معانی اور اُن کے اِستعمال یا بولنے کے انداز فطری اور الہامی ہوتے ہیں یعنی اللہ ربّ العالمین کی جانب سے انسانی معاشرے کے ہر فرد کے دل و دماغ میں اُس زبان کے بولنے اور سمجھنے کی صلاحیّت اُسی وقت عطا کی جاتی ہے جب وہ اپنی ماں کے شکم میں پیدائشی مراحل طے کر رہا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر بچّہ جب پیدا ہو کرانسانی معاشرے کا فرد بنتا ہے تو وہ اُسی فطری صلاحیّت کی بنیاد پرسکھائے بغیر وہی زبان بولنے پہ قادر ہو جاتا ہے جو اُس کے ماں باپ بھائی بہن اور معاشرے کے دوسرے لوگ بولتے ہیں

دنیا میں پیدا ہو کر آنے والا ہر بچّہ معاشرے اور ماحول سے اُس زبان کے تمام ضروری محاوروں، ضرب المثل اور لہجوں سے آگاہ ہو جاتا ہے خواہ اُس کا معاشرہ خواندہ ہو یا نا خواندہ ہو۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ہر نو زائیدہ یانونہال اپنی فطری صلاحیّت کی بنیاد پر گفتگو کرتا ہے نہ کہ تعلیم کی بنیاد پر۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا بچّہ بڑا ہو کر اُس زبان کی گرامر کسی اور کو پڑھا نہیں سکتا اگر چہ وہ فطری طور پر گرامر کے اُصولوں کے مطابق بات کیوں نہ کرتا ہو نیز دوسروں کی گفتگو کے دوران پیش آنے والی لغوی غلطیوں سے بھی چونکے گا اور وہ اُن غلطیوں کی بھی فطری صلاحیّت کی بنیاد پر درستگی کرے گا لیکن وہ اُصول و ضوابط اور اِصطلاحات نہیں بتا سکتا کیونکہ اُصول و ضوابط اور اِصطلاحات کو جاننا تعلیم سے وابستہ ہے جنہیں مستقل طور پر کسی ماہرِ لغت سے پڑھے بغیر فطری طور پر نہیں جانا جا سکتا۔

اِس لمبی چوڑی تمہید سے معلوم ہوا کہ دنیا کی ہر زبان کے بنیادی الفاظ و معانی ما حول اور معاشرے سے سیکھے جاتے ہیں اِسی لئے الفاظ و معانی کی صحیح شناخت کے لیے اہلِ زبان کے اِستعمالات کو معیار ٹھہرایا جاتا ہے

لغوی اِستعمالات کو جاننے کے لیے جن لغات اور ڈکشنریوں کی مدد لے جاتی ہے جن میں اُس زبان کے بنیادی اِستعمالات کو مدوّن کیا گیا ہے علمِ گرامر نے اِن اِستعمالات کو جان کر با قاعدہ اُصولوں اور اِصطلاحات میں پرو دیا ہے تاکہ اہلِ زبان اور غیر اہلِ زبان سب کو منظّم طور پر اُس زبان کی تعلیم دی جا سکے۔

اللہ کا شکر ہے جس نے گرامر کا علم الہام کر کے دنیا کی تمام زبانوں کو محفوظ کرا دیا ہے اور ہر زبان کو اِن کی مدد سے سیکھنا اور جاننا بہت ہی آسان کر دیا ہے اور تو اور گرامر کی مدد سے اللہ کا کلام قرآنِ کریم اور فرامینِ پیغمبرﷺ کو سمجھنا بھی نہایت آسان ہو گیا ہے جس کو سمجھنے کے لیے عرب ممالک میں جانا نہیں پڑتا بلکہ گھر بیٹھے گرامر کی مددسے قرآن جیسی عظیم الہامی کتاب کے لغوی معانی کو بھی صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے بشرطیکہ اِس کھلی حقیقت سے پوری طرح آشنا ہوا جائے

اللہ اپنی رحمتوں کی برسات کرے اُن علمائے دین پر جنہوں نے عربی زبان کی لغوی اِصطلاحات کے بیچ سے ( آٹے سے بال نکالنے کی طرح) شرعی اور مذہبی اِصطلاحات کو جدا کر کے دینِ اِلٰہی کی مرادوں کو سمجھنا بھی آسان کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ علمِ دین جاننے والوں کے لیے علمِ لغتِ عربیّہ کی گرامر سے مکمل واقفیّت ضروری ہے کیونکہ عربی زبان اور دینِ اِسلام ایک جان دو قالب کی طرح ایک دوسرے کے لیے اِنتہائی ناگزیر ہیں اور جو لوگ عربی زبان اور اُس کی گرامر کو جانے بغیر دینی علوم اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کے دعویدار ہیں در اصل یہ لوگ احمقوں کی دنیا میں بسنے والے ہیں ورنہ اِتنی بڑی بیوقوفی نہ کرتے یہ لوگ اِس طرح کی باتیں کر کے در اصل لوگوں کو دین کی حقیقت اور دین فہمی سے دور رکھنا چاہتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کی اِن گمراہ کُن میٹھے زہر سے مذہبی لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے اور انتھک کوشش کے ساتھ علوم گرامر کے بھی ماہر بننا چاہئے تاکہ اُنہیں کوئی بھی کسی موڑ پر حق شناسی سے پھیر نہ سکے۔

علم الصرف کی تعریف اور گرامر کی اہمیّت کو واضح کرنے کے بعد ذیل میں ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ عربی زبان میں کسی بھی لفظ کے بنیادی تلفّظ کا دار و مدار(خواہ وہ لفظ اِسم ہو، فعل ہو یا حرف ہو)اہلِ زبان سے سنا ہوا روایتی انداز ہوا کرتا ہے جس کو گرامر نے بھی محفوظ کیا ہے جس کو سماعی تلفّظ کہتے ہیں اِسی سماعی تلفّظ کو مدِّ نظر رکھ کر علمائے گرامر نے اُصولوں میں منضبط کر کے ہر لفظ کو قانونی اور قیاسی تلفّظ میں محفوظ کر دیا ہے اور قانونی تلفّظ کو بہت سے مختلف نام دئے ہیں۔

اِس قانونی تلفّظ کی دو شاخیں ہیں ایک کو صرفی تلفّظ کی شاخ کہتے ہیں اور دوسری کو نحوی تلفّظ کی شاخ کہتے ہیں اِن دو شاخوں کی الگ الگ تفصیلات ہیں۔

صرفی تلفّظ کی شاخ کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کی تفصیلات :

پیارے بچّو! صرفی تلفّظ کا مطلب یہ ہے کہ علم الصّرف کے تحت جتنے بھی موضوعات پڑھے جائیں گے اُن سب کا تعلّق اِعرابی تبدیلی سے نہیں بلکہ اُن کا تعلّق۱۰۰ % معنوی تبدیلی سے ہے آنے والے اسباق میں آپ اِسی قسم کی ہی گفتگو پڑھیں گے اِس لئے اِس کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں۔

علم الصّرف کے تحت مختلف معانی حاصل کرنے کے لیے لفظوں کے تلفّظ میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں اِن تبدیلیوں کو اِعرابی تبدیلی نہیں کہتے بلکہ اِن تبدیلیوں کو نئے سے نئے معانی کے حصول کے لیے عمل میں لانے والا تلفّظ کہا جاتا ہے اِس قسم کی تبدیلی کی بے شمار اقسام ہیں جن کو آپ علم الصرف کے موضوعات کے ذیل میں پڑھیں گے جو فعل کی تمام اقسام کی تبدیلی کا سبب ہے۔

اب آپ ذیل میں صرفی موضوعات کی فہرست ملاحظہ کریں۔

صرفی موضوعات کی جامع فہرست اسباق میں شامل کر کے دینے کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ اِن موضوعات سے مکمّل طور پر آگاہ ہو جائیں اور آپ پر پوری طرح واضح ہو جائے کہ علم الصرف اِن موضوعات کا مرقّع اور البم ہے

٭مصادر اور اُن کے مشترک معانی کی پہچان۔

٭مصدر، جامد اور مشتق کی تعریفات اور اُن کی متعلّقہ اقسام کی پہچان۔

٭اِسم الفاعل کے صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم المفعول کے صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم الاٰلۃ کے صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم الظرف کے صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم التّفضیل کے صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم المبالغۃ کے صیغوں کی پہچان۔

٭صفاتِ مشبّہۃ کے صیغوں کی پہچان۔

٭اسمائے نسبت کی پہچان۔

٭اسمائے تصغیر کی پہچان۔

٭افعال کے متعلّقۃ مخصوص معانی کی پہچان جن کو(خاصیّاتِ ابواب) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

٭مشترک معانی رکھنے والے افعال کی پہچان۔

٭مترادف یعنی ہم معنیٰ افعال کی پہچان۔

٭متضاد معنیٰ والے افعال کی پہچان۔

٭لازم اور متعدّی کی حیثیّت سے افعال کی پہچان۔

٭افعالِ تامّہ اور لازمہ میں فرق کی پہچان۔

٭افعالِ تامّہ اور ناقصہ میں فرق کی پہچان۔

٭افعالِ ناقصہ اور غیر متصرّفہ کی پہچان۔

٭لازم اور متعدی دونوں طرح اِستعمال ہونے والے افعال کی پہچان۔

٭معروف اور مجہول پڑھنے کے اِعتبار سے افعال کی پہچان۔

٭مثبت اور منفی پڑھنے کے لحاظ سے افعال کی پہچان۔

٭افعالِ تعجّب کی پہچان۔

٭افعالِ مدح و ذم کی پہچان۔

٭افعالِ مقاربہ، افعالِ رجائی، افعالِ شروع کی پہچان۔

٭افعالِ ماضیۃ کی اقسام اور صیغوں کی پہچان۔

٭تمام افعالِ مضارعۃ کی اقسام اور صیغوں کی پہچان۔

٭تمام افعالِ امر کی اقسام اور صیغوں کی پہچان۔

٭تمام افعالِ نہی کی اقسام اور صیغوں کی پہچان۔

٭اِسم، فعل اور حرف کی پہچان۔

٭ثلاثی، رباعی اور خماسی کی پہچان۔

٭صحیح، مضاعف، مہموز، معتل(مثال، اجوف، ناقص، لفیف مفروق، لفیف مقرون) کی پہچان۔

٭مفرد، تثنیہ، جمع کی پہچان۔

٭مذکّر، مؤنث کی پہچان۔

٭جمع کی اقسام کی پہچان۔

٭اسمائے ضمائر کی پہچان۔

٭اسمائے اِشارات کی پہچان۔

٭اسمائے موصولات کی پہچان۔

٭اسمائے مقصورہ اور اسمائے منقوصہ کی پہچان۔

٭اسمائے اعداد کی پہچان۔

نحوی تلفّظ کی شاخ کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کی تفصیلات:

پیارے بچّو! نحوی تلفّظ کا مطلب یہ ہے کہ علم النّحو کے تحت جتنے بھی موضوعات پڑھے جاتے ہیں اُن سب کا تعلّق ننانوے % اِعرابی تبدیلی سے ہے نہ کہ معنوی تبدیلی سے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اِعرابی تبدیلی کا تعلّق کسی بھی لفظ کے آخری حرف پر آنے والی حرکت و سکون سے ہوتا ہے نہ کہ اُس سے پہلے وا لے حروف پر آنے والی حرکت و سکون سے ہوتا ہے اِس لئے کہ آخری حرف سے پہلے والے حروف پر پڑھے جانے والی حرکت و سکون کو تلفّظ کہتے ہیں نہ کہ اِعراب۔ اِعراب کا تعلّق علم النحو سے ہے اور تلفّظ کا تعلّق علم الصرف سے ہے جیسے (کتبتْ زیْنبُ الرِّسالۃ اِلیٰ الْمُعلِّمۃِ)

اِس مثال میں پانچ الفاظ ہیں اور ہر لفظ کے آخر میں آنے والی حرکت و سکون کو اِعراب کہا جاتا ہے [۱] کتبتْ اِس میں (تا) کا سکون اِعراب ہے [۲]زیْنبُ۔ اِس میں (با) مضمومہ اِعراب ہے [ ۳]الرِّسالۃ۔ اِس میں (تا) مفتوحہ اِعراب ہے [۴]اِلیٰ۔ اِس میں (کھڑا زبر اِعراب ہے جو کہ( ساکن) پڑھا گیا ہے [۵]الْمُعلِّمۃِ۔ اِس میں (تا) مکسورہ اِعراب ہے۔ اب رہی یہ بات کہ اِعراب کی یہ تبدیلیاں کن وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہیں اِس کی تفصیلات آپ نحوی تلفّظ کے موضوعات کے تحت پڑھیں گے۔

اور جہاں کہیں اِعرابی تبدیلی سے لفظ کا معنیٰ بدلتا ہوایسے الفاظ کی تعدادایک% سے زیادہ نہیں ہے اِس لئے ذہن نشیں کر لیں کہ علم النّحو کے تحت صرف اِعرابی تبدیلیوں سے متعلّق ہی گفتگو ہو گی جیسا کہ آپ آئندہ کے اسباق میں پڑھیں گے۔

اب آپ علم النّحو کے موضوعات کی فہرست ملاحظہ کریں اور اِن موضوعات کو ذہن نشیں کر لیں اور جان لیں کہ ہم علم النّحو کے تحت اِنہی موضوعات کو ہی پڑھیں گے جن کے لیے یہ علم بڑی محنت کے ساتھ وجود میں لایا گیا ہے اِن موضوعات کو جاننے سے آپ پر علم الصّرف اور علم النّحو کے درمیاں فرق بھی واضح ہو جائے گا۔

٭ اِعراب اوراقسامِ اِعراب کی پہچان۔

٭رفع پڑھے جانے والے الفاظ کی پہچان جن کو مرفوعات کہتے ہیں۔

٭نصب پڑھے جانے والے الفاظ کی پہچان جن کو منصوبات کہتے ہیں۔

٭جر پڑھے جانے والے الفاظ کی پہچان جن کو مجرورات کہتے ہیں۔

٭سکون پڑھے جانے والے الفاظ کی پہچان جن کو ساکنات کہتے ہیں۔

٭جزم پڑھے جانے والے الفاظ کی پہچان جن کو مجزومات کہتے ہیں۔

٭حروفِ عاملۃ حروف غیر عاملۃ کی پہچان۔

٭تمام حروف کے معانی اور اُن کے موزون اِستعمالات کی پہچان۔

٭معرب و مبنی کی اقسام کی پہچان۔

٭اسمائے معرفہ اور اسمائے نکرہ کی پہچان۔

٭اِعراب الاصل کی پہچان۔

٭اِعراب التّابع کی پہچان جن کو توابع کہتے ہیں۔

٭ اقسام توابع اور اُن کو جملوں میں اِستعمال کرنے کی ضرورت کی پہچان۔

٭اِسموں پر پڑھے جانے والے اِعرابات کی پہچان۔

٭فعلوں پر پڑھے جانے والے اِعرابات کی پہچان۔

٭حرفوں پر پڑھے جانے والے اِعرابات کی پہچان۔

٭منصرف اور غیر منصرف کی اقسام اور اسباب کی پہچان۔

٭مرکّب تام اور مرکّب ناقص کی اقسام کی پہچان۔

٭جملۃ اِسمیۃ اور جملہ فعلیۃ کی پہچان۔

٭جملۃ خبریۃ اور جملۃ اِنشائیۃ کی پہچان۔

٭ اِسم، فعل، حرف کی علامتوں کی پہچان۔

٭کلمۃ اور کلام میں فرق کی پہچان۔

صرفی اور نحوی تلفّظ کی شاخوں کی موضوعاتی تفصیلات کو بیان کرنے کے بعد ہم آپ کی خدمت میں علم الصرف اور گرامر کے کرار کی وضاحت کریں گے جس سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ واقعتًا علم الصرف لفظوں کے ردّ و بدل، حروف کے اِضافے اور حرکت و سکون کی تبدیلی کے ذریعے بہت سے مختلف معانی فراہم کرتا ہے۔

اِس پہلو کی وضاحت کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم نے آٹھ مختلف افعال ماضیہ کی پوری پوری گردانیں بمعہ ترجمہ دی ہیں اِن کو پڑھ کر لازمی طور پر آپ اپنے آپ سے پوچھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے ؟ جس کی بناء پر اِن افعال کے معانی جدا جدا ہوئے ہیں حالانکہ اِن سب کا سر چشمہ ایک ہی لفظ ہے جس کو مصدر کہتے ہیں اور یاد رہے کہ مندرجہ ذیل تمام افعال(سمْعٌاور سِماعٌ) مصدر کے اندر حروف کے اِضافے اور حرکت و سکون کی تبدیلی کے ذریعے وجود میں آئے ہیں جن کا پتہ ہمیں علم الصّرف نے فراہم کیا ہے اِن افعال کا سر چشمہ ایک ہی لفظ ہونے کی وجہ سے ہی سب افعال میں مصدری معنیٰ موجود ہوتا ہے جس طرح (سمْعٌ، سِماعٌ) کا معنیٰ (سننا ) یہ معنیٰ آپ آٹھ کے آٹھ افعالِ ماضیہ میں موجود پائیں گے اِسی سے آپ پر علم الصرف کا عملی کردار پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ۔

مزید وضاحت کے لیے گردانوں کے اِختتام پر تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ یہ افعال کن وجوہات کی بنیاد پر اِس قسم کے مختلف معانی دینے کی صلاحیّت رکھتے ہیں ؟اور اِن افعال کی گردانوں کے اِختتام پراِسموں کی بھی وافر مثالیں پیش کی ہیں۔

فعلوں میں صرفی کردار کا عملی ثبوت:

جیسے ( سمِع)

یہ سہ حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے ( جس کا معنیٰ ہے ) اُس ایک مذکّر نے سنا۔

(سمِع الْمُدرِّسُ الدّرْس )(اُستاد نے سبق سنا)

یہ معنیٰ ایک مفعول کی طرف متعدّی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اِس جملے میں ( سمِع) فعل ماضی ہے کیونکہ اِس نے سننے کا معنیٰ دیا ہے (الْمُدرِّسُ)فاعل ہے کیونکہ یہ سننے کا فعل انجام دینے والا ہے (الدّرْس)مفعول ہے کیونکہ اِس پر سننے کا فعل انجام دیا گیا ہے۔ قرآن سے اِس کی مثال ملاحظہ کریں۔ (قدْ سمِع اللہ قوْل الّتِیْ تُجِادِلُک فِیْ زوْجِہا)سورۂ مجادلہ آیت (۱)یقیناً اللہ نے سنا ہے اے محمّد!ﷺ اُس خاتون کی فریادی باتیں جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی۔ اب حدیثِ رسولﷺ سے بھی ایک مثال ملاحظہ کریں۔ (سمِع اللہ لِمنْ حمِدہُ)اللہ نے اُس بندے کے تعریفی الفاظ کو سنا ہے جس نے اللہ کی تعریف کی ہے۔ یہ جملہ نمازوں میں ہر رکعت کے اندر رکوع سے اُٹھ کر ہر نمازی کہا کرتا ہے       (نوٹ) مذکورہ بالا آیتِ کریمہ اور حدیثِ رسولﷺ دونوں میں اللہ تعالیٰ کی ایک اہم صفت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے اور بندی کی دعا، فریاد، اور پکار کو سنتا ہے۔ اِسی وجہ سے اللہ نے اپنے لئے (سمِیْعٌ) کی صفت قرآنِ کریم میں بے شمار مقامات پر بیان کیا ہے۔

یاد رہے کہ (سمِیعٌ) عربی زبان کے محاورے اور شرعی اعتقادی اِصطلاح میں اُس ذات کو کہتے ہیں جو دور اور نزدیک سے پست اور بلند آواز سے سامنے سے اور لاکھوں تہہ بہ تہہ مضبوط پردوں کے پیچھے سے ہر وقت سن سکتی ہو۔ یہ عظیم صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ذات کے لائق نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی ذات کا تصوّر اللہ ربّ العٰلمین کے سوا کسی اور کے بارے میں محال اور نا ممکن ہے

لہذا جو شخص مخلوق میں سے کسی کے حق میں اِس صفت کا اِقرار کرے تو وہ بلا شبہ دینِ اِسلام کے نقطۂ نظر سے پکّا مشرک ہے جس کا ٹھکانا قیامت میں ہمیشہ کے لیے دوزخ ہے اگر وہ بغیر توبہ مر گیا ہو خواہ وہ مسلماں کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ(اِنّ اللہ لا یغْفِرُ انْ یُشْرک بِہٖ و یغْفِرُ ما دُوْن ذٰلِک لِمنْ یّشآئُ)اِس بات میں ذرا بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں کسی مسلماں کو بھی معاف نہیں کرے گا اِس غلطی کو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادتوں میں کسی اور کو کسی بھی لحاظ سے شامل کیا جائے اور یاد رہے کہ شرک کے علاوہ تمام گناہ جس کے لئے وہ چاہے معاف کرے گا۔ اور حدیثِ رسولﷺ میں بھی شرک کی مذمّت اور اِس کے خطرناک نتائج کا بیان موجود ہے

عنْ جابِرِ ابْنِ عبْدِ اللہ رضِی اللہ عنْہُ قال سمِعْت رسُوْل اللہ ﷺ یقُوْلُ منْ لقِی اللہ لا یُشْرِکُ بِہٖ شیًْادخل الْجنّۃو منْ لقِیہُ یُشْرِکُ بِہٖ شیًْادخل النّار(صحیح مسلم جلد اوّل کتاب الایمان )

صحابیِ رسول جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ سے براہِ راست سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ جو مسلماں قیامت میں اِس حال میں اللہ سے ملے کہ وہ دنیا میں اللہ کے ساتھ ذرا سابھی شرک نہ کرتا ہو تو ایسا شخص جنّت میں جائے گا اور جو مسلماں قیامت میں اِس حال میں اللہ سے ملے کہ وہ دنیا میں اللہ کے ساتھ ذرا سا بھی شرک کرتا ہو تو ایسا شخص دوزخ میں جائے گا۔ مشرک کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا ثبوت سورۂ فرقان آیت نمبر۶۸۔ ۶۹ میں موجود ہے

اب آپ بابِ (سمِع) کی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

سمِع                    اُس ایک شخص نے سنا۔

سمِعا                    اُن دو اشخاص نے سنا۔

سمِعُوْا                   اُن سب اشخاص نے سنا۔

سمِعتْ                  اُس ایک خاتون نے سنا۔

سمِعتا                   اُن دو خواتین نے سنا۔

سمِعْن                  اُن سب خواتین نے سنا۔

سمِعْت                  آپ ایک شخص نے سنا۔

سمِعْتُما                  آپ دو اشخاص نے سنا۔

سمِعتُمْ                  آپ سب اشخاص نے سنا۔

سمِعْتِ                  آپ ایک خاتون نے سنا۔

سمِعْتُما                  آپ دو خواتین نے سنا۔

سمِعْتُنّ                 آپ سب خواتین نے سنا۔

سمِعْتُ                  میں ایک شخص نے سنا)میں ایک خاتون نے سنا۔

سمِعْنا                   ہم دو/ہم سب اشخاص نے سنا)ہم دو/ہم سب خواتین نے سنا)

(اسْمع)

یہ چار حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے جس کے شروع میں ہمزہ مفتوحہ ہے (جس کا معنیٰ ہے )اُس ایک مذکّر نے سنایا/ سنوایا۔

(اسْمع حامِدٌطارِقًا درْسہٗ)(حامد نے طارق کو اپنا سبق سنایا)

یہ معنیٰ اِس کے دو مفعول کی طرف متعدّی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اِس جملے میں (اسْمع) فعلِ ماضی ہے کیونکہ اس نے سنانے کا معنیٰ دیا ہے (حامِدٌ)فاعل ہے کیونکہ یہ سنانے کا فعل کرنے والا ہے (طارِقًا) پہلا مفعول ہے کیونکہ اِس پر سنانے کا فعل انجام دیا گیا ہے (درْسہٗ)دوسرا مفعول ہے کیونکہ اِس نے سنائی گئی چیز ہونے کا معنیٰ دیا ہے۔

اب آپ بابِ (اسْمع ) کی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

اسْمع            اُس ایک شخص نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعا            اُن دو اشخاص نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعُوْا          اُن سب اشخاص نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعتْ         اُس ایک خاتون نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعتا           اُن دو خواتین نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعْن          اُن سب خواتین نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعْت         آپ ایک شخص نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعْتُما         آپ دو اشخاص نے سنایاسنوایا۔

اسْمعْتُمْ          آپ سب اشخاص نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعْتِ         آپ ایک خاتون نے سنایاٌسنوایا۔

اسْمعْتُما         آپ دو خواتین نے سنایا/سنوایا۔

اسْمعْتُنّ         آپ سب خواتین نے سنایا /سنوایا۔

اسْمعْتُ         میں ایک شخص نے سنایا/سنوایا(میں ایک خاتون نے سنایا/سنوایا)

اسْمعْنا           ہم دو/ہم سب اشخاص نے سنایا/سنوایا)ہم دو/ہم سب خواتین نے سنایا /سنوایا۔

(سمّع)

یہ بھی چار حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے (جس کا معنیٰ ہے )اُس ایک مذکّر نے تشہیر کی/ تشہیر کرائی/ ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا۔ جیسے : (سمّع زیْدٌ صدقتہٗ)(زید نے اپنی خیرات کی تشہیر کی )

اِس مثال میں (سمّع) فعل ہے کیونکہ اِس نے تشہیر کرنے /کرانے کا معنیٰ دیا ہے (زیْدٌ)فاعل ہے کیونکہ یہ تشہیر کرنے /تشہیر کرانے والا ہے (صدقتہٗ) مفعول ہے کیونکہ اِس پر تشہیر کا فعل واقع ہوا ہے۔ (سمّع زیْدٌ الْقُرْآن) (زید نے ٹھہر ٹھہر کر/اچھی طرح قرآن سنایا)

اِس مثال میں (سمّع) فعل ہے کیونکہ اِس نے ٹھہر ٹھہر کر/اچھی طرح قرآن سنانے کا کا معنیٰ دیا ہے (زیْدٌ) فاعل ہے کیونکہ یہ ٹھہر ٹھہر کر/اچھی طرح قرآن سنانیکا فعل کرنے والا ہے (الْقُرْآن)مفعول ہے کیونکہ اِس پر سنانے کا فعل واقع ہوا ہے

(نوٹ) ٹھہر ٹھہر کر کسی کام کے کرنے کو علم الصرف کی معنوی اِصطلاح کے تحت (تدریج)کہتے ہیں اور اچھی طرح کسی کام کے کرنے کو علم الصرف کی معنوی اِصطلاح کے تحت (مبالغہ یا تکلّف) کہتے ہیں۔ (سمّع) کا معنیٰ تشہیر کے ہونے کی مثال حدیثِ رسولﷺسے بتانا چاہیں گے (منْ سمّع سمّعہُ اللہ یوْم الْقِیامۃ)جو شخص دنیا میں اپنی نیکی کو تشہیر کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس شخص کی یوں تشہیر کرے گا کہ لوگو! اِس شخص نے دنیا میں اپنی نیکی اِس لئے کی تھی کہ اِس کا دنیا میں نام روشن ہو جائے سنو! میں اِس کو کچھ بھی اجر نہیں دوں گا۔ یہ حدیث دکھلاوے کے لیے کرنے عملوں کی مذمّت میں ہے جو کہ دینِ اِسلام میں شرک ہے اور شرک کرنے والے کو مرنے سے پہلے توبہ کئے بغیر اللہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا خواہ شرک کرنے والا مسلمان کیوں نہ ہو۔

اب آپ بابِ(سمّع ) کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

سمّع    اُس ایک شخص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعا    اُن دو اشخاص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعُوْا   اُن سب اشخاص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعتْ  اُس ایک خاتون نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کرسنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعتا   اُن دو خواتین نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْن  اُن سب خواتین نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْت  آپ ایک شخص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتُما  آپ دو اشخاص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتُمْ  آپ سب اشخاص نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتِ  آپ ایک خاتون نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتُما  آپ دو خواتین نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتُنّ آپ سب خواتین نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْتُ  میں ایک شخص نے میں ایک خاتون نے / تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

سمّعْنا   ہم دو/ ہم سب اشخاص نے / ہم دو/ ہم سب خواتین نے تشہیر کی/تشہیر کرائی/ٹھہر ٹھہر کر سنایا/اچھی طرح سنایا)

(اِسْتمع)

یہ پانچ حرفی ماضی معروف، مفرد، مذکّر غائب ہے (جس کا معنیٰ ہے )اُس ایک مذکّر نے بغور سنا/ کان لگا کر سنا/ کان دھر کے سنا۔

(اِسْتمع زیْدٌ لِلنّصِیْحۃِ) زید نے نصیحت کو غور سے سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا)

اِس جملے میں (اِسْتمع)فعل ہے کیونکہ اِس نے غور سے سننے کے فعل کو ظاہر کیا ہے (زیْدٌ) فاعل ہے کیونکہ یہ غور سے سننے کے فعل کو کرنے والا ہے (لِلنّصِیْحۃِ)مفعول ہے کیونکہ اِس پر غور سے سننے کا فعل واقع ہوا ہے۔

(نوٹ)(لِلنّصِیْحۃِ)جملے میں مفعول ہے اِس پر حرفِ جر داخل ہوا ہے اِس لئے اِس پر (زبر ) کے بجائے (زیر ) پڑھا گیا ہے اگر (لامِ جر) کو ہٹا لیا جائے تو بھی معنی یہی رہے گا کیونکہ اِس( لام) کو(لامِ تخصیص ) کہتے ہیں جہاں تخصیص مراد لینا مقصود نہ ہو وہاں اِس لام کو عبارت میں لانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ (لامِ جر) کے بغیر جملہ یوں ہو گا( اِسْتمع زیْدٌ النّصِیْحۃ)زید نے نصیحت کو غور سے سنا۔ یاد رکھئے کہ کسی کام کو پوری توجّہ، اِنہماک یا تندہی سے کرنے کے معنیٰ کو بھی علم الصرف کی اِصطلاح میں (تکلّف اور مبالغہ) کہتے ہیں اِس لئے موقعِ گفتگو کے مطابق موزون معنیٰ کرنا نہ بولئے ورنہ سوال گندم اور جواب چنا والی مثال بنے گی۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ رسولﷺکو پڑھتے ہوئے اِس قسم کے معانی سے ہر مقام پر آپ کو واسطہ پڑھے گا۔ اس مقام پر ہم آپ کی اِطّلاع کے لیے چند قرآنی مثالیں دینا چاہیں گے۔ (واِذا قُرِیِ الْقُرْآنُ فاسْتمِعُوْا لہٗ)اللہ کا اِرشاد ہے کہ: اور اے اللہ کے بندو! جب آپ پر قرآن پڑھ کر سنایا جائے تو اِس قرآن کو پوری توجّہ اور غور سے سنا کرو!

مذکورہ مثال میں (اِسْتمِعُوْا)بابِ( اِسْتمع) سے فعلِ امر حاضر جمع مذکّر کا صیغہ ہے (جس کا معنیٰ ہے )اے مردو! آپ غور سے سنیں !۔ اِس کے مقابلے میں (اِسْتمِعْن) بولا جائے گا جب آپ کے مخاطب کئی مردوں کے بجائے کئی خواتین ہوں۔ (جس کا معنیٰ ہے ) اے خواتینو! آپ غور سے سنیں !

قرآنِ کریم سے دوسری مثال بھی ملاحظہ کریں۔

{و انا اخْترْتُک فاسْتمِعْ لِما یُوْحیٰ}(سورۂ طٰہٰ آیت ۱۳)

اللہ کا اِرشاد ہے اے موسیٰ! سنئے ! میں نے آپ کو اپنے دین کی پیغام رسانی کے لیے منتخب کر لیا ہے چنانچہ آپ غور سے سن لیجئے اِس میری وحی کو جو آپ پر کی جا رہی ہے۔

اِس مثال میں اِسْتمِعْ) بابِ(اِسْتمع) سے فعلِ امر حاضر واحد مذکّر کا صیغہ ہے (جس کا معنیٰ ہے )اے مخاطب مرد !آپ غور سے سنئے !اِس کے مقابلے میں (اِسْتمِعِیْ) بولا جائے گا جب آپ کا مخاطب مؤنث ہو اور وہ بھی صرف ایک کی تعداد میں ہو۔ (جس کا معنیٰ ہے )اے مخاطب خاتون! آپ غور سے سنئے

اب آپ بابِ( اِسْتمع) کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

اِسْتمع           اُس ایک شخص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعا           اُن دو اشخاص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعُوْا         اُن سب اشخاص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعتْ                اُس ایک خاتون نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعتا          اُن دو خواتین نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْن         اُن سب خواتین نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْت                آپ ایک شخص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتُما         آپ دو اشخاص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتُمْ         آپ سب اشخاص نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتِ                آپ ایک خاتون نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتُما         آپ دو خواتین نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتُنّ        آپ سب خواتین نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْتُ                میں ایک شخص نے / میں ایک خاتون نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

اِسْتمعْنا          ہم دو/ہم سب اشخاص نے /ہم دو/ ہم سب خواتین نے بغور سنا/کان لگا کر سنا/کان دھر کے سنا

(اِسْتسْمع)

یہ چھ حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے (جس کا معنیٰ ہے )اُس ایک مذکّر نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔ (اِسْتسْمع عدْنانُ القرْآن مِنْ ابِیْہِ)عدنان نے اپنے باپ سے قرآنِ کریم سننا چاہا/سننے کی اپیل کی۔

اِس جملے میں (اِسْتسْمع) فعل ہے کیونکہ اِس نے سننے کی چاہت/سننے کی اپیل کا مفہوم ظاہر کیا ہے (عدْنانُ) فاعل ہے کیونکہ یہ سننا چاہنے /سننے کی اپیل کرنے والا ہے

(الْقُرْآن) مفعول ہے کیونکہ اِس پر سننے کا فعل واقع ہوا ہے (مِنْ ابِیْہِ) یہ پہلے والے جملے کا اِضافی جز ہے اِسی لئے اِس قسم کے الفاظ کو عام طور پر فعل کا متعلّق کہہ دیا جاتا ہے اِس حصۂ کلام میں (مِنْ) حرفِ جر ہے جو کسی بھی اِسم پر داخل ہونے پر اُس کے آخر کو مجرور کر دیتا ہے (ابِیْہِ)یہ مضاف و مضاف اِلیہ کہلاتا ہے۔ یاد رکھئے کہ مضاف و مضاف اِلیہ ہر اُس مرکّب کو کہتے ہیں جس میں دو اشیاء میں سے ایک کو دوسری کی جانب منسوب کر دیا گیا ہو (ابِیہِ)کے اندر (ابٌ)مضاف اور (ہٖ) مضاف اِلیہ ہے

اِس کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

اِسْتسْمع          اُس ایک شخص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعا          اُن دو اشخاص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعُوْا         اُ سب اشخاص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعتْ       اُس ایک خاتون نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِستسْمعتا اُن دو خواتین نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْن        اُن سب خواتین نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْت       آپ ایک شخص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتُما       آپ دو اشخاص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتُمْ        آپ سب اشخاص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتِ       آپ ایک خاتون نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتُما       آپ دو خواتین نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتُنّ       آپ سب خواتین نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْتُ       میں ایک مرد/ میں ایک خاتون نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

اِسْتسْمعْنا ہم دو /ہم سب مردوں / ہم دو/ ہم سب خواتین نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی۔

(تسمّع)

یہ پانچ حرفی، ماضی معروف مفرد، مذکّر، غائب ہے (جس کا معنیٰ ہے )اُس ایک مذکّر نے سننے کے لیے پوری کوشش کی/ ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اِس معنیٰ کے لحاظ سے (تسمّع اور اِسْتمع) تقریباً ہم معنیٰ ہیں۔

(تسمّع عِمْرانُ الْخطْبۃ) عمران نے پوری کوشش کر کے /ہمہ تن گوش ہو کر خطبہ سنا۔

اِس جملے میں (تسمّع) فعل ہے کیونکہ اِس نے سننے کے لیے پوری کوشش کرنے /ہمہ تن گوش ہو کر سننے کا معنیٰ دیا ہے (عِمْرانُ)فاعل ہے کیونکہ یہ پوری کوشش کر کے /ہمہ تن گوش ہو کر سننے کا فعل کرنے والا ہے۔ (الْخُطْبۃ)مفعول ہے کیونکہ اِس پر سننے کا فعل واقع ہوا ہے۔

(نوٹ)( اِسْتمع) کی طرح(تسمّع) میں بھی علم الصرف کی اِصطلاح میں (تکلّف اور مبالغہ) کی خاصّیت پائی جاتی ہے۔

اب آپ باب، (تسمّع کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

تسمّع            اُس ایک شخص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعا            اُن دو اشخاص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعُوْا           اُن سب اشخاص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعتْ          اُس ایک خاتون نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعتا           اُن دو خواتین نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْن          اُن سب خواتین نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْ            آپ ایک شخص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعُْما           آپ دو اشخاص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْتُمْ          آپ سب اشخاص نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْتِ          آپ ایک خاتون نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْتُما          آپ دو خواتین نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْتُنّ         آپ سب خواتین نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْتُ         میں ایک شخص/ میں ایک خاتون نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

تسمّعْنا           ہم دو/ہم سب مردوں / ہم دو/ ہم سب خواتین نے سننے کے لیے پوری کوشش کی۔

(سامع)

یہ چار حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے (جس کا معنیٰ ہے )ایک نے دوسرے کو سنایا۔

(سامع محْمُوْدٌو حامِدٌ درْسہُما) محمود اور حامد نے ایک دوسرے سے اپنا سبق سنا۔

مذکورہ بالا جملے میں (سامع) فعل ہے کیونکہ اِس نے ایک دوسرے سے سننے کا فعل ظاہر کیا ہے۔ (محْمُوْدٌ اور حامِدٌ) دونوں فاعل ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے سننے کا فعل انجام دینے والے ہیں۔ (درْسہُما) مفعول ہے کیونکہ اِس پر سننے کا فعل واقع ہوا ہے۔ نیز یاد رہے کہ (درْسہُما) مضاف و مضاف اِلیہ ہیں۔ یعنی یہ وہ مرکب ہے جس میں دو اشیاء میں سے ایک کو دوسری کی جانب منسوب کیا گیا ہو۔ علم الصرف کی اِصطلاح میں ایک فعل میں دو افراد کی شرکت کے پہلو کو (مشارکۃ، مقابلۃ ) کہتے ہیں۔

اب آپ بابِ (سامع) کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

سامع           اُس ایک شخص نے دوسرے کو سنایا۔

سامعا           اُن دو اشخاص نے ایک دوسرے کو سنایا۔

سامعُوْا          اُن سب اشخاص نے ایک دوسرے کو سنایا۔

سامعتْ                اُس ایک خاتون نے دوسری کو سنایا۔

سامعتا          اُن دو خواتین نے ایک دوسری کو سنایا۔

سامعْن         اُن سب خواتین نے ایک دوسری کو سنایا۔

سامعْت         آپ ایک شخص نے دوسرے کو سنایا۔

سامعْتُما         آپ دو اشخاص نے ایک دوسرے کو سنایا

سامعْتُمْْ         آپ سب اشخاص نے ایک دوسرے کو سنایا۔

سامعْتِ         آپ ایک خاتون نے دوسری کو سنایا۔

سامعْتُما         آپ دو خواتین نے ایک دوسری کو سنایا۔

سامعْتُنّ                آپ سب خواتین نے ایک دوسری کو سنایا۔

سامعْتُ         میں ایک شخص نے دوسرے کو سنایا/میں ایک خاتون نے دوسری کو سنایا۔

سامعْنا          ہم دو /ہم سب/ اشخاص نے ایک دوسرے کو سنایا۔

ہم دو/ ہم سب خواتین نے ایک دوسری کو سنایا۔

تسامع

یہ چار حرفی، ماضی معروف، مفرد، مذکّر، غائب ہے جس کا معنیٰ ہے )ایک سے زیادہ اشخاص نے بیک وقت سنا۔

(تسامع عدِیْلٌ و عقِیْلٌ الْاذان)عدیل اور عقیل دونوں نے بیک وقت اذان سنی۔

مذکورہ بالا جملے میں (تسامع)فعل ہے کیونکہ اِس نے بیک وقت سننے کا معنیٰ ظاہر کیا ہے۔ (عدِیْلٌ و عقِیْلٌ)یہ دونوں فاعل ہیں کیونکہ یہ دونوں بیک وقت سننے کا فعل انجام دینے والے ہیں ( الْاذان)یہ مفعول ہے کیونکہ اِس پر بیک وقت سننے کا فعل واقع ہوا ہے۔

بیک وقت ایک سے زیادہ افراد کے کسی فعل کو انجام دینے میں شریک ہونے کا مفہوم ظاہر کرنے کو علم الصرف کی اِصطلاح میں (تشارک ) کہتے ہیں۔

اِس کی بھی پوری گردان ملاحظہ کریں۔

تسامع           اُس ایک شخص نے بیک وقت سنا۔

تسامعا           اُن دو اشخاص نے بیک وقت سنا۔

تسامعُوْا          اُن سب اشخاص نے بیک وقت سنا۔

تسامعتْ        اُس ایک خاتون نے بیک وقت سنا۔

تسامعتا          اُن دو خواتین نے بیک وقت سنا۔

تسامعْن         اُن سب خواتین نے بیک وقت سنا۔

تسامعْت        آپ ایک شخص نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتُما         آپ دو اشخاص نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتُمْ         آپ سب اشخاص نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتِ        آپ ایک خاتون نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتُما         آپ دو خواتین نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتُنّ                آپ سب خواتین نے بیک وقت سنا۔

تسامعْتُ        میں ایک شخص نے بیک وقت سنا/میں ایک خاتون نے بیک وقت سنا۔

تسامعْنا          ہم دو اشخاص/ہم سب اشخاص نے بیک وقت سنا۔

ہم دو خواتین / ہم سب خواتین نے بیک وقت سنا

درج بالا آٹھ (فعلوں پر مشتمل)مثالوں میں حروف کے اِضافے اور حرکت و سکون کی تبدیلی کے ساتھ مختلف معانی فراہم کرنے والے الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ علم الصرف کے کردار کی عکّاسی کر رہی ہے۔ اِن مختلف معانی کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک ایسے لفظ کو بنیاد بنایا گیا ہے جس کو مصدر کہا جاتا ہے

یاد رکھئے کہ مصدر بہت سارے الفاظ کا سر چشمہ ہے جس میں کبھی ایک کبھی دو کبھی تین حرفوں کا اِضافہ اور حرکت و سکون کی تبدیلی کر کے مختلف اِسم یا مختلف فعل بنا لئے جاتے ہیں۔

فعلوں کی مثالیں آپ نے ملاحظہ کر لیا ہے جبکہ اِسموں کی مثالیں اِس کے متّصل بعد آپ ملاحظہ کر سکیں گے۔ اب ہم آپ کو درج بالا افعال کو مصدر سے بنائے جانے کا صرفی کردار اور طریقہ بتائیں گے :۔

درج بالا افعال کو مختلف معانی میں اِستعمال کرنے کے لیے مصدر سے مدد لی گئی ہے۔ جیسے (سمْْعٌ) مصدر ہے (جس کا معنیٰ سننا ہے )اِس مصدر سے اگر ہم یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ (اُس ایک شخص نے سنا)تو اِس کے لیے ہمیں لفظِ مصدر( سمْعٌ) کے (میم کے سکون کو(زیر سے ) اور(عین کے دو پیش کو(زبر سے بدلنا ہو گا ) تو اِس صورت میں (سمْعٌ) کے بجائے (سمِع) پڑھا /جائے گا تو اب اِس کا معنیٰ صرف سننا ہونے کے بجائے (اُس ایک شخص نے سنا )ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں

اگر ہم (سمْعٌ)مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ( اُس ایک شخص نے سنایا/سنوایا) تو اِس کے لیے ہمیں لفظِ مصدر (سمْعٌ)کے شروع میں (ہمزہ مفتوحہ(زبر والا)لانا ہو گا اور (سمْعٌ) کے (سین کے زبر کو (سکون سے بدلنا ہو گا)اور (سمْعٌ) کے )میم کے سکون کو(زبر سے بدلنا ہو گا)اور (سمْعٌ) کے دو پیش کو زبر سے بدلنا ہو گا) تو اِس صورت میں (سمْعٌ) کے بجائے (اسْمع) پڑھا جائے گا تو اب اِس کا معنیٰ صرف سننا ہونے کے بجائے )اُس ایک شخص نے سنایا/ سنوایا) ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں

اگر ہم (سمْعٌ) مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ(اُس ایک شخص نے تشہیر کی/ تشہیر کرائی/ ٹھہر ٹھہر کر سنایا/ اچھی طرح سنایا)تو اِس کے لئے ہمیں لفظِ مصدر (سمْعٌ)کے (میم ) کو تشدید کے ساتھ پڑھیں گے اور(میم کو ) مفتوحہ(زبر والی ) پڑھیں گے اور (عین )کے دو پیش کو زبر کے ساتھ پڑھیں گے اِس صورت میں ( سمْعٌ) کے بجائے (سمّع)پڑھا جائے گاتو اب اِس کا معنیٰ صرف سننا ہونے کے بجائے ( اُس ایک شخص نے تشہیر کی/ تشہیر کرائی / ٹھہر ٹھہر کر سنایا/ اچھی طرح سنایا) ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں۔

اگر ہم (سمْعٌ) مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ (اُس ایک شخص نے بغور سنا/ کان لگا کر سنا / کان دھر کے سنا) تو اِس کے لیے ہمیں لفظِ مصدر (سمْعٌ)کے شروع میں (ہمزہ مکسورہ(زیر والی) بڑھا کر(سمْعٌ) کے سینِ مفتوحہ(زبر والی )کوساکن کرنا ہو گا اور ساتھ ساتھ(سمْعٌ) کے میمِ ساکنہ(سکون والی)کو زبر سے اور (سمْعٌ) کے دو پیش کو بھی زبر سے بدل کر (اِسْتمع)پڑھنا ہو گا)تو اِس صورت میں اُس کا معنیٰ صرف (سننا) ہونے کے بجائے (اُس ایک شخص نے بغور سنا/ کان لگا کر سنا/ کان دھر کے سنا)ہو گا۔ جیسا کہ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں۔

اگر ہم(سمْعٌ) مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ(اُس ایک شخص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی) تو اِس کے لیے ہمین لفظِ مصدر (سمْعٌ)کے شروع میں ہمزہ مکسورہ(زیر والی)اور سین کے متّصل بعد (تامفتوحہ)زبر والی)بڑھانا ہو گا اِس کے بعد(سمْعٌ) کے سینِ مفتوحہ(زبر والی)کوساکن کر کے (سمْعٌ)کے میمِ ساکنہ( سکون والی) کوفتحہ سے بدل کر(سمْعٌ) کے عین کے دو پیش کوبھی فتحہ سے بدل کر(اِسْتسْمع) پڑھنا ہو گاتواِس صورت میں اُ سکا معنی ٰصرف (سننا)ہونے کے بجائے (اُس ایک شخص نے سننا چاہا/ سننے کے لیے اپیل کی )ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں۔

اگر ہم(سمْعٌ) مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ(اُن دونوں نے ایک دوسرے کو سنایا)تو اِس کے لئے ہمیں لفظِ مصدر (سمْعٌ)کے سین مفتوحہ(زبر والی) کے متّصل بعد(الف ساکنہ)بڑھانا ہو گا اور(سمْعٌ) کے میم کے سکون کو فتحہ(زبر) سے بدل کراور(سمْعٌ) کے عین کے دو پیش کوبھی فتحہ( زبر) سے بدل کر(سامع) پڑھنا ہو گاتو اِس صورت میں اُس کا معنیٰ صرف (سننا)ہونے کے بجائے (اُن دونوں نے ایک دوسرے کو سنایا) ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑ چکے ہیں۔

اگر ہم(سمْْعٌ) مصدر سے یہ معنیٰ لینا چاہیں کہ(ایک سے زیادہ اشخاص نے بیک وقت سنا)تو اِس کے لیے ہمیں لفظِ مصدر(سمْعٌ)کے شروع میں (تا مفتوحہ(زبر والی) بڑھانا ہو گا اور (سمْعٌ) کے سینِ مفتوحہ(زبر والی) کے متّصل بعد(الف ساکنہ)بڑھانا ہو گا اور (سمْعٌ) کے میمِ ساکنہ کو فتحہ(زبر) سے بدل کر(سمْعٌ) کے عین کے دو پیش کو بھی فتحہ(زبر) سے بدل کر(تسامع )پڑھنا ہو گا تو اُس کا معنیٰ صرف سننا ہونے کے بجائے ( اُن سب نے بیک وقت سنا )ہو گا۔ جیسا کہ آپ پچھلے صفحات میں اِس کی پوری گردان پڑھ چکے ہیں۔

 

 

 

سبق نمبر دو پراسئلہ وتمارین

 

٭ عربی گرامر کے شعبے کتنے ہیں اور کون کونسے ہیں ؟

٭عربی گرامر کے شعبوں میں سے کون کونسے شعبے دوسرے شعبوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ؟

٭الصرْفُ اُمّ الْعُلُوْمِ والنّحْوُ ابُوْھاکا مطلب بیان کریں۔

٭النّحْوُ فِیْ الْکلامِ کالْمِلْحِ فِیْ الطّعامِ کا مطلب بیان کریں۔

٭کیا قرآنِ کریم میں گرامر کے شعبے پائے جاتے ہیں کہ نہیں ؟

٭علم الصرف کے شعبے کی تعریف کریں۔

٭علمِ گرامر کے حوالے سے قرآنِ کریم کا معجزہ کلام ہونا ثابت کریں۔

٭علم الصرف کا کردار بیان کریں۔

٭ثابت کریں کہ علم الصرف کے ذریعے الفاظ کے مختلف معانی جاننے میں مدد ملتی ہے ؟

٭لفظِ (سمِع) کی گردان اور مختلف صیغے زبانی سنائیں۔

٭(سمِع) کی گردان میں موجود تمام الفاظ کے متعلّقہ معانی زبانی سنائیں۔

٭(بتائیں کہ(سمِع) کی گردان میں کون کونسے صیغے مذکّر غائب کے ہیں ؟

٭بتائیں کہ (سمِع) کی گردان میں کون کونسے صیغے مؤنث غائب کے ہیں ؟

٭بتائیں کہ(سمِع) کی گردان میں کون کونسے صیغے مذکّر مخاطب کے ہیں ؟

٭بتائیں کہ(سمِع کی گردان میں کون کونسے صیغے مؤنث مخاطب کے ہیں ؟

٭بتائیں کہ (سمِع) کی گردان میں کون کونسے صیغے متکلّم کے ہیں ؟

٭واضح کریں کہ لفظِ (سمْعٌ) سے (سمِع، اسْمع، سمّع، سامع، اِسْتمع، اِسْتسْمع۔ تسمّع، تسامع کسطرح بنے ؟نیز اِن کے الگ الگ معانی زبانی سنائیں۔

٭بتائیں کہ لفظِ (سمِع) سے بنائے جانے والے آٹھ مختلف افعال میں کون کونسے سہ حرفی/

چار حرفی/پانچ حرفی/چھ حرفی ہیں ؟

٭بتائیے ! کہ مختلف المعانی افعال تشکیل دینے کے لیے کس چیز کو بنیاد بنایا جاتا ہے ؟

٭بتایئے ! کہ عربی زبان کے محاورے اور شرعی اصطلاح میں (سمِیْعٌ) کس ذات پر بولا جاتا ہے ؟

٭کیا صفت، (سمِیْعٌ)کا اِطلاق مخلوق پر ہو سکتا ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟

٭مشرک کا انجام بتائیں اور قرآن و حدیث سے ثبوت دیں۔

٭صرفی اور نحوی تلفّظ کی الگ الگ تعریف کریں۔

٭صرفی اور نحوی موضوعات الگ الگ بیان کریں۔

٭صرفی اور نحوی موضوعات میں فرق واضح کریں۔

٭دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنے ماحول کی زبان اور اُس کے محاورے کو اُصول گرامر کے مطابق بولنا جانتا ہے مگر وہ اُس زبان کی گرامر کے اُصول و ضوابط باقاعدہ طور پر دوسروں کو بتا نہیں سکتا آخر اِس کی وجہ کیا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 الدّرس الثّالث           

 

ا فعال کا جملوں میں اِستعمال

 

                   مکالمے              (مُحادثۃ)کے ساتھ

 

ماذا سمِع حامِدٌ؟یا احْمدُ!

اے احمد !حامد نے کیا سنا ہے ؟

سمِع حامِدٌ صوْتًا جمِیْلًا یا اُسْتاذُ!

اے استادِ گرامی حامد نے ایک خوبصورت آواز سنی ہے۔

ما ہُو الصّوْتُ الْجمِیْلُ؟یا احْمدُ!

اے احمد! وہ کونسی خوبصورت آواز ہے ؟

نعمْ یا اُسْاذُ! اِنّہُ لصوْتُ الْاذانِ

جی اُستاذِ گرامی! وہ تو اذان کی آواز ہے

یا حامِدُ!صِدْقًا سمِعْت الْاذان؟

اے حامد! کیا آپ نے سچ مچ اذان سنی ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذُ! حقًّا سمِعْتُ الْاذان

جی اُستاذِ گرامی! واقعتًا میں نے اذان سنی ہے

ھلْ سمِع احدٌ غیْرُک یا حامِدُ!

اے حامد! کیا آپ کے علاوہ بھی کسی نے سنی ہے ؟

اجلْ یا اُسْتاذُ!اِنّ طارِقًا و محْمُوْدًا سمِعا الْاذان کما سمِعْتُ

جی اُستاذِ گرامی! بیشک طارق اور محمود نے بھی اذان سنی ہے جیسا کہ میں نے سنی

ابْنائِیْ الطّلبۃ !ھلْ تعْرِفُوْن ما ھُو الْاذانُ؟

میرے طالبِ علم بیٹو! کیا آپ جانتے ہیں کہ اذان کیا ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذنا الْمُحْترم! نعْرِف الْاذان لِانّا مُسْلِمُوْن

جی ہاں اے ہمارے اُستاذِ محترم!ہم اذان جانتے ہیں کیونکہ بلا شبہ ہم مسلماں ہ

ایُّہا الطّلبۃُ الاعِزّۃُ!منْ مِنْکُمْ یُسْمِعُنِیْ الاذان؟

میرے عزیز طالبِ علمو!آپ میں سے کون مجھے اذان سناتا ہے ؟

یا اُسْتاذنا! کُلُّنا یُحِبُّ انْ یُّسْمِعک الْاذان

اے ہمارے اُستاد! ہم میں سے ہر ایک چاہ رہا ہے کہ آپ کو اذان سنائے۔

قُمْ یاسعِید’!اسْمِعِ الْاذان

سعید! آپ اُٹھیں اور اذان سنائیں

طیِّبٌیا اُستاذُ! ساُسْمِعُک الْآذان

اے اُستاذ! اچھا میں آپ کو اذان سناتا ہوں

فلْیتفضّلْ مشْکُوْرًا یا سعِیْدُ!

سعید! تشریف لائیے ہم آپ کے مشکور ہیں

ھا انا ابْداُ الْاذان الْاٰن

لو! اب میں اذان شروع کر رہا ہوں

اللہ اکْبرُ اللہ اکْبرُ۔ اللہ اکْبرُ اللہ اکْبرُ

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام مخلوق سے بہت بڑا ہے۔

اشْھدُالّا اِٰلٰہ اِ لّا اللہ ۔ اشْھدُ الّا اِلٰہ اِلّا اللہ

میں بحیثیت مسلماں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے

علاوہ کوئی بھی کسی قسم کی بندگی کے زیبا نہیں ہے۔

اشْھدُ انّ مُحمّدًا رّسُوْلُ اللہ ۔ اشْھدُ انّ مُحمّدًا رّسُوْلُ اللہ

میں بحیثیت مسلماں گواہی دیتا ہوں کہ محمّدﷺ

اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔

حیّ علیٰ الصّلاۃِ۔ حیّ علیٰ الصّلاۃِ

مسلمانو! نمازِ جماعت پڑھنے کے لیے مسجد میں چلے آؤ

حیّ علیٰ الْفلاحِ۔ حیّ علیٰ الْفلاحِ

مسلمانو! کامیابی دلانے والے نیک عمل کو کرنے

کے لئے مسجد میں چلے آؤ۔

اللہ اکْبرُ اللہ اکْبرُ

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام مخلوق سے بہت بڑا ہے۔

لا اِلٰہ اِلّا اللہ

اللہ کے علاوہ کوئی بھی کسی قسم کی بندگی کے لائق نہیں ہے۔

ایُّہا الطّلبۃالْمُتادِّبُوْن ! من الّذِی ْ کان یُسْمِعُنا الْاذان الْاٰن؟ ْ

اے با ادب طالبِ علمو!ابھی ہمیں کون اذان سنا رہا تھا؟

یا مُعلِّمنا الشّفِیْق!زمِیْلُنا سعِیْدٌ اسْمعنا الْاذان

اے ہمارے مشفق اُستاد!ہمارے ساتھی سعید نے ہمیں اذان سنائی ہے ھل اسْتمعْتُمْ لاذانِہ یا اوْلادُ!

کیا آپ سب لڑکوں نے اُس کی اذان غور سے سنی تھی؟

نعمْ اِسْتمعْنا لِاذانِہٖ (لِاذانِ سعِیْدٍ)

جی ہاں ہم نے اُس کی اذان(سعید کی اذان)غور سے سنی ہے

ھلْ سمِعْتُمْ ْ خطأً خِلال اذانِہٖ؟

کیا آپ لڑکوں نے اُس کی اذان کے دوران کوئی غلطی سنی؟

لا ما سمِعْنا (لمْ نسْمعْ )ایّ خطأ ٍ فیْ اذانِہٖ

جی نہیں !ہم نے اُس کی اذان میں کوئی بھی غلطی نہیں سنی

ھلْ ترک جُزْء ًا مِن الْاذانِ؟

کیا اُس نے اذان کا کوئی حصہ چھوڑا؟

لا! ما ترک(لمْ ْ یتْرُکْ) ایّ جُزْء ٍ مِن الْاذانِ

جی نہیں ! اُس نے اذان کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا

اِنْتبِہُوْا اِلیّ واسْتمِعُوْالِکلامِی ْایُّہالْاوْلادُ!

بچّو! توجہ میری طرف کر کے میری بات بغور سنو!

نعمْ یا اُسْتاذُ! ماذا تُرِیْدُ مِنّّا؟

جی اُستاذِ گرامی! آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟

یا اوْلادِیْ! اُنبِّہُکُمْ بِانِّیْ اسْمعُ ا الْاذان غد ًا مِنْ کُلِّ طالِب ٍ

میرے بچّو! میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ میں کل ہر طالبِ علم سے اذان سنوں گا

یا اُسْتاذُ! نحْنُ مسْرُوْرُوْن (فرْحانُوْن)بھِٰذا الْبرْنامجِ

اے اُستاذ گرامی! ہم سب اِس پروگرام سے خوش ہیں۔

یا اوْلادِی! ھلْ تعْرِفُوْن لِم اسْتسْمِعُکمُ الاذان؟

میرے بچّو! کیا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ سے اذان کیوں سننا چاہتا ہون؟

یا اُسْتاذُ !تُحِبُّ انْ نحْفظ الْاذان جیِّد ًاولا ننْسیٰ ابد ًا

اے اُستاذ گرامی! آپ چاہتے ہیں کہ ہم اذان کو خوب یاد کریں اور کبھی نہ بھولیں

احْسنْتُمْ یا تلامِذتِیْ! لقدْ صِرْتُمْ ا ذْکِیائ عرفْتُمْ قصدِیْ

شاباش میرے شاگردو!بیشک آپ سمجھدار ہو چکے ہو آپ نے میرا ارادہ جان لیا

یا اُسْتاذُ! نشْکُرُک علیٰ تشْجِیْعِک اِیّانا

اے اُستاذ گرامی! ہم آپ کی حوصلہ افزائی پہ شکرگزار ہیں۔

یا عُمرُ! ء تذْکُرُان الْیوْم حِصّۃُ تسْمِیْعِ الْاذانِ؟

عمر! کیا آپ کو یاد ہے کہ آج اذان سنانے کی کلاس ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذُ! انا مُتذکِّرٌ لِبرْنامجِ الْیوْمِ و انا حافِظٌ لِلدّرْسِ

جی اُستاذ گرامی! مجھے آج کا پروگرام یاد ہے اور سبق بھی یاد ہے۔

ما رأیُکُمْ؟ لوْ یُسامِعُ کُلُّ زمِیْلیْنِ احدُہُما الْاٰخر

آپ سب کی کیا رائے ہے کہ اگر ہر دو ساتھی ایک دوسرے سے سبق سن لیں تو؟

یا اُسْتاذُ! ھٰذا اِقتِراحٌ جمِیْلٌ و فِکْرۃٌ طیِّبۃٌ

اے اُستاذ گرامی! یہ تو اچھی تجویز اور اچھی سوچ ہے۔

الْوقْتُ سینْتہِیْ یا اوْلادُ! اخْبِرُوْنِیْ ھلْ احدٌلمْ ْ یحْفظِ الدّرْس؟

بچّو! وقت ختم ہوا چاہتا ہے مجھے بتاؤ! کہ کس کو سبق یاد نہیں ہے ؟

عددٌ قلِیْلٌ مِن الطُّلّابِ لمْ ْ یُسْمِعُوْا یا اُستاذُ!

اُستاذ گرامی! طلبہ کی بہت کم تعداد ہے جنہوں نے اذان نہیں سنائی۔

منْ ہُمْ؟(ما اسْماؤُہُمْ)

بتائیں وہ کون ہیں ؟اُن کے کیا نام ہیں ؟

ہُمْ :دُریْدٌ ومرْثدٌ وفہْدٌ

جٗی وہ درید، مرثد اور فہد ہیں۔

اوّل مرّۃ ٍ یُمْْہلُوْن ولْینْتبِہُوْا انّہُمْ لنْ یُّسْمحُوْا مرّۃ ً ثانِیۃ ً

پہلی بار اُنہیں مہلت دی جاتی ہے اور وہ آگاہ رہیں کہ دوسری بار اُنہیں قطعاً معاف نہیں کیا جائے گا

ھلْ اُذِّن(نُوْدِی) لِصلاۃِ الْفجْرِ؟

کیا فجر کی اذان دی جا چکی ہے ؟

نعمْ اُذِّن لہا۔

جی ہاں اذان دی جا چکی ہے۔

منْ اذّن(نادیٰ) لہا؟

فجر کی اذان کس نے دی ہے ؟

اًلْمُؤذِّنُ الرّاتِبُ اذّن (نادیٰ) لہا

مقرر مؤذّن نے اذان دی ہے۔

کمْ ولد ًا سمِع الْاذان؟

کتنے لڑکوں نے اذان سنی ہے ؟

الْولدانِ سمِعا الْاذان

دو لڑکوں نے اذان سنی ہے۔

منِ الْولْدانِ سمِعا الاذان؟

کن دو لڑکوں نے اذان سنی ہے ؟

حامِدٌ و خالِدٌ سمِعا الْاذان

(حامد اور خالد نے اذان سنی ہے

حامِدانِ سمِعا الْاذان

(حامد نام کے دو اشخاص نے اذان سنی)

منِ الْاوْلادُ سمِعُوْا ا لْاذان غیْرُہُما؟

اِن کے علاوہ اور کن لڑکوں نے اذان سنی ہے ؟

حامِدٌ وخالِدٌ و محْمُوْ دٌ سمِعُوْا الْاذان

( حامد، خالد اور محمود نے اذان سنی ہے

حامِدُوْن سمِعُوْا الْاذان

حامد نام کے سب اشخاص نے اذان سنی ہے

یا خالِدُ! ہلْ سمِعْت الْاذان؟

خالد ! کیا آپ نے اذان سنی ہے ؟

نعمْ!ْ سمِعْتُ الْاذان

جی! میں نے اذان سنی ہے

لا ! ما سمِعْتُ الْاذان

جی نہیں ! میں نے اذان نہیں سنی

لِماذا ما سمِعْت الْاذان؟

آپ نے اذان کیوں نہ سنی؟

لِانِّیْ کُنْتُ نائِمًا فِیْ الْغُرْفۃِ

کیونکہ میں کمرے میں سو رہا تھا۔

ایُّہالْمُسْلِمُ!ہلْ سمِعْت الْاذان؟

اے مسلمان! کیا آپ نے اذان سنی؟

نعمْ! سمِعْتُ الْاذان

جی! میں نے اذان سنی

متیٰ سمِعْت الْاذان؟

آپ نے کب اذان سنی؟

سمِعْتُ الْاٰن

ابھی سنی ہے

ھلْ سمِعْتُما الْاِقامۃ؟یا خالِدُ و محْمُوْدُ!

خالد اور محمود!کیا آپ دونوں نے اِقامت سنی ہے ؟

نعمْ یا ابانا!سمِعْنا الْاِقامۃ

جی ہمارے ابّا جان!ہم نے اِقامت سنی ہے

ھلْ سمِعْتُما تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ؟ یا انسُ ونافِعُ!

انس اور نافع!کیا آپ دونوں نے تکبیرِ تحریمہ سنی؟

نعمْ یا اخانا!سمِعْناتکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ

جی ہمارے بھائی جان! ہم نے تکبیرِ تحریمہ سنی ہے

کیْف سمِعْتُما تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ؟ یا ماجِدُ وسلِیْمُ!

ماجد اور سلیم!بتاؤ آپ دونوں نے تکبیرِ تحریمہ کیسے سنی؟

یا عمّنا ! سمِعْنا تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ مُشافہۃً(شِفاھًا)

جی ہمارے چچا جان!ہم نے تکبیرِ تحریمہ براہِ راست سنی ہے

یا ابْنِیْ! ھلْ تعْرِفُ ما ھِی تکْبِیْرۃُ الْاِحْرامِ؟

میرے بیٹے !کیا آپ جانتے ہیں کہ تکبیرِ تحریمہ کیا ہوتی ہے ؟

نعمْ یا ابِیْ! اعْرِفُ تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ جیِّدًا

جی میرے ابّو!میں تکبیرِ تحریمہ کو اچھی طرح جانتا ہوں

٭اِذنْ اسْمِعْنِیھا امْنحْک جائِزۃً

پھر تو وہ مجھے سنا دیں میں آپ کو اِنعام دوں گا

ھِی کلِمۃُ(اللہ اکْبرُ) یقُوْلُہا الْمُصلِّیْ عِنْد ما یفْتتِحُ الصّلاۃ

سنیئے ! تکبیرِ تحریمہ( اللہ اکبر) کے الفاظ ہیں جن کو نماز پڑھنے والا کہا کرتا ہے جب وہ نماز کو شروع کرتا ہے

احْسنْت یا ابْنِیْ!اجبْت جیِّدًا

شاباش بیٹے ! آپ نے درست جواب دیا

ابِیْ الْحبِیْب اعْطِنِیْ جائِزتِیْ وفاء ًا بِعہْدِک

میرے پیارے ابّو! مجھے میرا اِنعام دیجئے ! اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے

یا ابْنِیْ! ھٰذِہٖ الْفُ رُبّیّۃ ٍ خُذْھازادک اللہ عِلْمًا

میرے بیٹے ! یہ ہزار روپے لیجئے !اللہ آپ کو اور علم دے ( آمین

یاحبِیْبِیْ! ھلْ سمِعْت التّأْمِیْن؟

میرے پیارے !کیا آپ نے آمین سنی ہے ؟

نعمْ! سمِعْتُ

جی ! میں نے سنی ہے

انا ما سمِعْتُ(انا لمْ اسْمعْ

جی ! میں نے نہیں سنی)

یا بُنیّ!ھلْ سمِعْت التّْٔامِیْن؟

میرے پیارے بیٹے !کیا آپ نے آمین سنی ہے ؟

ابِیْ الْمُحْترم!ما ھُو التّأْمِیْنُ؟

میرے قابلِ اِحترام ابّو! آمین کس کو کہتے ہیں ؟

اِبْنِیْ العزِیْز!اِسْمعْ

میرے پیارے !بیٹے !سنئے !

ما ذا اسْمع مِنْک؟ یا ابِیْ!

میرے ابّو جان! میں آپ سے کیا سنوں ؟

یا ابْنِیْ! اِسمعْْ مِنِّیْ التّأْمِیْن الّذِیْ سالْتنِیْ عنْہُ

میرے بیٹے ! آپ مجھ سے آمین سنئے ! جس کے متعلّق آپ نے مجھ سے پوچھا ہے

نعمْْ قُلْ لِیْ یا ابِیْ !

ّ جی میرے ابّو! آپ مجھے بتا دیجئے !

یا ابْنِیْ!التّأْمِیْنُ: ہِی کلِمۃُ(آمِیْنْ)

میرے بیٹے ! آمین سے لفظ(ِ آمین )کہنا ہی مراد ہے

ما معْناھا ؟یا ابِیْ!

میرے ابّو! اِس لفظِ آمین کا کیا مطلب ہے ؟

یا ابْنِیْ! معْناھا :ربِّ تقبّلْ(اِسْتجِبْ) دُعائِیْ و عِبادتِیْ

میرے بیٹے ! اِس لفظ آمین کا مطلب ہے :اے میرے خالق!اے میرے مالک! اے میرے رازق! اے میری سب عبادتوں کے لائق بادشاہ! آپ میری دعا اور عبادت کو قبول فرما لیجئے !

یا ابِیْ! فِیْ ایِّ موْضِع ٍ یُقالُ (آمِیْنْ)؟

میرے ابّو! آمین کس موقع پر کہی جاتی ہے ؟

یا ابْنِیْ! یُقالُ کلِمۃُ آمِیْنْ فِیْ نِہایۃِ کُلّ کلِمۃ ٍ دُعائِیّۃ ٍ

میرے بیٹے ! آمین ہر دعائیّہ الفاظ کے اِختتام پر کہی جاتی ہے

یا ابْنِیْ! ا تعْرِفُ لِم یُقالُ آمِیْنْ؟

میرے بیٹے ! کیا آپ جانتے ہیں کہ آمین کیوں کہی جاتی ہے ؟

لِانّھا یسْتوْجِبُ قبُوْل الدُّعائِ ویُحِبّھُا اللہ سُبْحانہٗ

اِس لئے کہ آمین دعا کو قبول کروا لیتی ہے نیز آمین کہنا اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے

ما معْنیٰ الْفاتِحۃِ؟یا عُثْمانُ!

عثمان !فاتحہ کا کیا مطلب ہے ؟

یا حامِدُ! معْنیٰ الْفاتِحۃِ :اِفْتِتاحٌ و بِدایۃٌ و تمْھِیْدٌ

اے حامد! فاتحہ کا مطلب آغاز کرنے، شروع کرنے اور سنوارنے کے ہیں

ایُّہا الْمُعلِّمُ! اخْبِرْنِی!ْ لِماذا سُمِّیتْ ھٰذِہٖ السُّوْرۃُ بِالْفاتِحۃِ؟

اُستادِ گرامی! مجھے بتا دیجئے ! کہ اِس سورت کا نام فاتحہ کیوں رکھا گیا ہے ؟

تلامِذتِی! سُمِّیتْ ھٰذِہٖ السُّوْرۃُ بِالْفاتِحۃِلِانّ الْقُرْآن اُفْتُتِح بِہاعِنْد ما دُوِّن کما تروْن الْاٰن

میرے شاگردو! اِس سورت کا نام فاتحہ اِس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ سورت قرآن کے شروع میں ترتیب دی گئی ہے جب قرآن کو کتابی شکل دی گئی جیسا کہ اب آپ دیکھ رہے ہیں قرآن کو کتابی شکل دی گئی جیساکہ اب آپ دیکھ رہے ہیں

٭یا ابِیْ! ھلْ سُوْرۃُ الْفاتِحۃِ دُعائٌ؟

٭ میرے ابّو! کیا سورۃٔ فاتحہ دعا ہے ؟

٭ نعمْ یا ابْنِیْ! اِنّھا سُوْرۃُ الدُّعاءِ

٭جی میرے بیٹے ! بلا شبہ یہ سورت دعا والی سورت ہے

٭ ا لھِٰذِہٖ السُّوْرۃِ اسْماء ٌ اُخْریٰ؟ یا اخِیْ!

اے میرے بھائی!کیا اِس سورت کے اور بھی نام ہیں ؟

٭ اجلْ!لھِٰذِہٖ السُّوْرۃِاسْماء ٌ عدِیْدۃٌ یا اخِیْ!

جی میرے بھائی! اِس سورت کے کئی اور نام بھی ہیں

٭ ما ھِی اہمُّ اسْمائِہا؟ (اِس کے زیادہ اہم نام کونسے ہیں ؟

٭ اہمُّ اسْمائِہا: سُوْرۃُ الشِّفاءِ و سُوْرۃُ الْحمْدِ و سُوْرۃُ السّبْعِ الْمثانِیْ

٭ اِس کے زیادہ اہم نام: سورۂ شفائ، سورۂ حمد اور سبع المثانی ہیں

٭ ما ھِی اشْہرُ اسْمائِہا؟(اِس کے زیادہ مشہور نام کونسے ہیں ؟)

٭ اشْہرُ اسْمائِہا: سُورۃُ الْفاتِحۃ و سُوْرۃُ ا الدُّعائِ و سُوْرۃُ الصلاۃِ

٭ اِس کے زیادہ مشہور نام : سورۂ فاتحہ، سورۂ دعا نیز سورۂ نماز ہیں

٭دُلّنِیْ یا اُسْتاذُ! عنِ مشْرُوْعِیّۃ التّأْمِیْنِ

٭ اُستاد جی! مجھے آمین کی شرعی حیثیت کے بارے میں بتائیے !

٭تِلْمِیْذِیْ! اِنّ التّأْمِیْن سُنّۃٌ مُؤکّدۃٌ

٭ میرے شاگرد! یقین جانئے ! کہ آمین کہنا تاکیدی سنّت ہے

٭ اُسْتاذِیْ! ما ھِی سُنّۃٌ مُؤکّدۃٌ؟

٭ میرے اُستاد! تاکیدی سنّت کس کو کہتے ہیں ؟

٭تِلْمِیْذِیْ! السُّنّۃُ الْمُؤکّدۃُ ھِی الّتِیْ دا وم علیْہا رسُوْلُ اللہ ﷺ

٭میرے شاگرد! تاکیدی سنّت وہ ہے جس کو اللہ کے رسولﷺ نے بلا ناغہ کیا ہو اور کبھی نہ چھوڑی ہو

٭مُعلِّمِیْ الشّفِیْق !ما معْنیٰ داوم علیْہا رسولُ اللہ ﷺ؟

٭ میرے مہربان اُستاد!(داوم علیْہا رسُوْلُ اللہ ) کا مطلب

٭ یا ابْنِیْ! ما بِک؟(ما شأْنُک؟ اما شرحْتُ الْاٰن؟

٭ میرے بیٹے ! کیا ہوا ہے آپ کو؟ کیا میں نے ابھی بتا نہیں دیا؟

٭ عفْوًا یا اُستاذُ! ارْجُوْ ک انْ تُعِیْدہٗ (انْ تُکرِّرہٗ) مرّۃً ثانِیۃً

٭اُستاد جی ! معاف کیجئے ! میں آپ سے اِلتماس کرتا ہوں کہ اِس بات کو ایک بار پھر دہرا دیجئے !

٭تِلْمِیْذِیْ!معْنیٰ (داوم علیْہا) واظب علیْہا اِلیٰ انْ ماتﷺ

٭ میرے شاگرد! (داوم) کا معنیٰ ہے کہ اِس پر مرتے دم تک عمل پیرا رہے ہیں

٭ اُسْتاذِیْ! الاٰن فہِمْتُ جیِّدًا

٭ میرے اُستاد! اب میں صحیح سمجھ گیا ہوں

٭ تلامِذتِیْ! صدقْ منْ قال : اِنّ الْعِلْم یحْصُلُ بِالسُّؤالِ والتّکْرارِ

٭میرے شاگردو! جس نے بھی کہا سچ کہا کہ علم در حقیقت پوچھنے اور دہرانے سے حاصل ہوتا ہے

٭ یا تِلْمِیْذِیْ! المْ ْ تسْمعِ التّأمِیْن؟

٭ اے میرے شاگرد!کیا آپ نے آمین نہیں سنی؟

٭ لا !ما سمِعْتُ (لمْ ْاسْمعْ) لِانّنِیْ فاتتْنِیْ الرّکْعتانِ الْاُوْلیانِ الّتانِ تُجْھرُ فِیْہِما الْقِراء ۃُ

٭ جی نہیں ! میں نے آمین نہیں سنی اِس لئے کہ مجھ سے پہلی دو رکعتیں چھوٹ گئی تھیں جن مین بآوازِ بلند قرأت کی جاتی ہے۔

٭ھلْ سمِعْتُما التّأْمِیْن ؟یا مُصلِّیانِ!

٭ اے دو مرد نمازیو! کیا آپ دونوں نے آمین سنی ہے ؟

٭ نعمْ سمِعْنا التّأْمِیْن لِانّنا شارکْنا الْجماعۃ مع التّکْبِیْرۃ الْاُوْلیٰ

٭ یا مُصلِّیانِ! ھلْ سمِعْتُما تسْلِیْمۃ الْاِمامِ؟

٭ اے دو مرد نمازیو۱ کیا آپ دونوں نے امام کے سلام کی آواز سنی ؟

٭نعمْ سمِعْنا تسْلِیْمۃ الْاِمامِ

٭جی ہاں ! ہم نے امام کے سلام کی آواز سنی

٭ما ذا قال عِنْد تسْلِیْمتِہٖ یمِیْنًا و شِمالًا ؟

٭قال عِند تسْلِیْمتِہٖ اِلیٰ کِلا الْجانِبیْنِ : السّلامُ علیْکُمْ ورحْمۃُ اللہ

٭ایُّہا الْمُصلِّیانِ ھلْ سمِعْتُما التّأْمِیْن؟

٭اے دو(مرد) نمازیو! کیا آپ دونوں نے آمین سنی ہے ؟

٭ ھلْ کِلاکُما سمِعْتُما التّأْمِیْن؟

٭کیا آپ دونوں مردوں نے آمین سنی ہے ؟

٭نعمْ! کِلانا سمِعْنا التّأْمِیْن

٭جی ہاں ! ہم دونوں مردوں نے آمین سنی ہے

٭ لا! ما سمِعناْ(لمْ نسْمعِ) التّأْمِیْن

٭جی نہیں ! ہم نے آمین نہیں سنی ہے

٭ایُّہا الْمُصلُّوْن! ھلْ سمِعْتُمُ التّأْمِیْن؟

٭اے مرد نمازیو! کیا آپ سب نے آمین سنی ہے ؟

٭ نعمْْ! کُلُّنا(جمِیْعُنا) سمِعناْ التّأْمِیْن

٭ جی ہاں ! ہم سب نے آمین سنی ہے

٭ نعمْْ کُلُّنا (جمِیْعُنا) سمِعُوْا ا لتّأْمِیْن

٭جی ہاں ہم سب نے آمین سنی ہے

٭ نعمْ !بعْضُنا سمِعُوْا و بعْضُنا لمْ ْ یسْمعُوْا

٭جی ہاں !ہم مردوں میں سے چند ایک نے سنی ہے اور چند ایک نے نہیں سنی۔

لا! ما احدٌ مِنّاسمِع التّأِمِیْن

جی نہیں ! ہم مردوں میں سے کسی نے بھی آمین نہیں سنی۔

ایُّہا اٍٍٍٍلرِّجالُ!ھلْ سمِعتمُ التّأْمِیْن؟

حضرات! کیا آپ لوگوں نے آمین سنی ہے ؟

نعمْ !سمِعْنا

جی! ہم نے سنی ہے۔

لا !ما سمِعْنا

جی نہیں ! ہم نے نہیں سنی۔

لا ! لمْ ْ نسْمعْ

جی نہیں ! ہم نے نہیں سنی ۔

ھلْ سمِعْتُما قِرائۃ الْفاتِحۃِ؟یازیْدانِ!

اے زید نامی دو لڑکو! کیا تم دونوں نے فاتحہ کی قرأت سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُمْ تأْمِیْن الْاِمامِ؟یا طارِقُ و عدْنانُ وفرْحانُ!

اے طارق، عدنان اور فرحان کیا آپ تینوں نے اِمام کی آمین کی آواز سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُمْ تکْبِیْراتِ الْعِیدِ؟ایُّھا الْمؤُْمِنُوْن!

اے ایمان والو! کیا آپ سب نے عید کی تکبیرات سنی ہیں ؟

ھلْ سمِعْتُمْ دُعاء الْقُنُوْتِ؟ ایُّھا الْمُسْلِمُوْن!

اے مسلمانو!کیا آپ نے دعائے قنوت سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُمْ دُعاء الْوِتْرِ؟ ایّھُا الْمُصلُّوْن!

اے نمازیو!کیا آپ نے وتر کی دعا سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُمْ دُعاء قُنُوْتِ النّازِلۃِ؟ایّھُا الْابْناءُ!

اے بیٹو! کیا آپ سب نے مصیبت کے وقت پڑھی جانے والی دعائے قنوت سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُمْ تسْلِیْم الْاِمامِ؟یاصھُیْبُ و عُمیْرُ وعُزیْرُ!

اے صہیب، عمیر اور عزیر! کیا آپ سب نے امام کے سلام کی آواز سنی ہے ؟

 

 

سبق نمبر تین پر اسئلہ و تمارین

 

درج ذیل فعلوں کو عربی سوالیہ جملوں میں اِستعمال کرتے ہوئے عربی میں ہی موزوں جواب دیں :

سمِع

سمِعا

سمِعُوْا

سمِعتْ

سمِعتا

سمِعْن

سمِعْت

سمِعْتُما

سمِعْتُمْ

سمِعْتِ

سمِعْتُما

سمِعْتُنّ

سمِعْتُ

سمِعْنا

اسْمع

اسْمعا

اسْمعُوْا

اسْمعتْ

اسْمعتا

اسْمعْن

اسْمعْت

اسْمعْتُمْ

اسْمعْتِ

اسْمعْتُما

اسْمعْتُنّ

اسْمعْتُ

اسْمعْنا

اِسْتمع

اِسْتمعا

اِسْتمعُوْا

اِسْتمعتْ

اِسْتمعتا

اِسْتمعْن

اِسْتمعْت

اِسْتمعْتُما

اِسْتمعْتُمْ

اِسْتمعْتِ

اِسْتمعْتُما

اِسْتمعْتُنّ

عربی میں جواب دیں :

٭ما ھِی تکْبِیْرۃُ الْاِحْرامِ؟

٭ما ھُو الْتّأْمِیْنُ؟

٭ما معْنیٰ (اٰمِیْن)؟

٭متیٰ یُقالُ اٰمِیْن؟

٭یا زِیْنبُ ھلْ تعْرِفِیْن تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ؟

٭ما معْنیٰ الْفاتِحۃِ؟

٭لِماذا سُمِّیتْ سُوْرۃُ الْفاتِحۃِ بِا الْفاتِحۃ؟

٭الھِٰذِہٖ السُّوْرۃِ اسْمائٌ اُخْریٰ؟وماھِی؟

٭یا خدِیْجۃُ! لِماذا لمْ تسْمعِیْ التّأْمِیْن؟

٭ماذا سمِع حامِدٌ؟

٭ماذا سمِعتْ حامِدۃٌ؟

٭مکالمہ کس کو کہتے ہیں ؟

٭مکالمے کا دوسرا نام کیا ہے ؟

٭مکالمے میں آپ نے (یا) (ایُّہا) (ایّتُہا)بار بار پڑھا ہے بتایئے کہ ٭اِن تینوں کے اِستعمال میں کیا فرق ہے ؟

درج ذیل افعال کے اِستعمال کا فرق واضح کریں۔

(سمِع) (سمِعتْ) (سمِعْت) (سمِعْتِ) (سمِعْتُ)

(سمِعا) (سمِعتا) (سمِعْتُما)

(سمِعُوْا)(سمِعْن)(سمِعْتُمْ)(سمِعْتُنّ)(سمِعْنا)

٭(اسْمِعْ)اور اسْمِعِیْ میں فرق بتائیں۔

٭(اِسْمعْ)اور (اِسْمعِیْ) میں فرق بتائیں۔

٭(مُصلِّیْ) اور مُصلِّیۃٌ) میں میں فرق کریں۔

٭مُصلِّیانِ) اور مُصلِّیتانِ) میں فرق کرین۔

٭(مُصلُّوْن)اور (مُصلِّیاتٌ) میں فرق کریں۔

٭ ماذا۔ ھلْ۔ أ کے معانی بتائیں۔

٭کِلا۔ کِلْتا تثنیہ کی تاکید کے لیے اِستعمال ہوتے ہیں آپ محادثے سے اِس قسم کے جملوں کو الگ کریں۔

٭کُلٌّ۔ جمِیْعٌ جمع کی تاکید کے لیے اِستعمال ہوتے ہیں آپ محادثے سے اِس قسم کے جملوں کو الگ کریں۔

٭٭٭

 

 

 

الدّرس الرّابع

 

 

ماذا سمِعتْ حامِدۃُ؟یافرِیْدۃُ!

اے فریدہ !حامدہ نے کیا سنا ہے ؟

سمِعتْ حامِدۃُ صوْتًا جمِیْلًا یا اُسْتاذۃُ!

اے اُستانی! حامدہ نے ایک خوبصورت آواز سنی ہے۔

ما ہُو الصّوْتُ الْجمِیْلُ؟یافرِیدۃُ!

اے فریدہ! وہ کونسی خوبصورت آواز ہے ؟

نعمْ یا اُسْاذُ! اِنّہُ لصوْتُ الْاذانِ

جی اُستاذِ گرامی! وہ تو اذان کی آواز ہے

یا حامِدۃُ صِدْقًا سمِعْتِ الْاذان؟

اے حامدہ! کیا آپ نے سچ مچ اذان سنی ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذتِیْ! حقًّا سمِعْتُ الْاذان

جی اُستانی صاحبہ! واقعتًا میں نے اذان سنی ہے

ھلْ سمِعتْ احدٌ غیْرُکِ یا حا مِدۃُ!؟

اے حامدہ! کیا آپ کے علاوہ بھی کسی نے سنی ہے ؟

اجلْ یا اُسْتاذتِیُْ!اِنّ زیْنب و محْمُوْدۃ سمِعتا الْاذان کما سمِعْتُ

ھلْ سمِعتْ حامِدۃٌ صوْتًا؟

کیا حامدہ نے کوئی آواز سنی ہے ؟

نعمْ ! سمِعتْ حامِدۃٌ صوْتًا حسنًا

جی ہاں ! حامدہ نے ایک خوبصورت آواز سنی ہے

ماذا سمِعتْ حامِدۃٌ؟

حامدہ نے کیا سنا ہے

سمِعتْ حامِدۃٌ الْاذان

(حامدہ نے اذان سنی ہے

بناتِیْ الطّالِباتِ!ھلْ تعْرِفْن ما ھُو الاذانُ؟

میری طالبات بیٹیو! کیا آپ جانتی ہیں کہ اذان کیا ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذتنا الْمُحْترمۃ! نعْرِفُ الْاذان لِانّامُسْلِماتٌ

جی ہاں اے ہماری قابلِ اِحترام اُستانی!ہم اذان جانتی ہیں کیونکہ بلا شبہ ہم مسلمان خواتین ہیں

ایّتُہا الطّالِباتُ الْعزِیْزاتُ!منْ مِنْکُنّ تسْمِعُنِی الْاذان

اے پیاری طالبات! آپ میں سے کون مجھے اذان سناتی ہے ؟

یا اُسْتاذتنا! کُلُّنا تُحِبُّ انْ تُسْمِعک الْاذان

اے ہماری اُستانی ! ہم میں سے ہر طالبہ چاہ رہی ہے کہ آپ کو اذان سنائے۔

قُوْمِیْ یافرِیْدۃُ!اسْمِعِیْ الْاذان

فریدہ! آپ اُٹھیں اور اذان سنائی

زیْنٌ یا اُسْتاذۃُ! ساُسْمِعُکِ الْاذان

اے اُستانی! اچھا میں آپ کو اذان سناتی ہوں

فلْتتفضّلْ مشْکُوْرۃً یا فرِیْدۃُ!

فریدہ! تشریف لائیے ہم آپ کے مشکور ہیں

ھا انا ابْداُ الْاذان الْاٰن

لو! اب میں اذان شروع کر رہی ہوں

اللہ اکْبرُاللہ اکْبرُ۔ اللہ اکْبرُاللہ اکْبرُ

اللہ ہر لحاظ سے تمام مخلوق سے بہت بڑا ہے۔

اشْھدُا لّا اِلٰہ اِلّا اللہ ۔ اشْھدُ الّا اِلٰہ اِلّا اللہ

میں بحیثیت مسلمان خاتون گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی کسی قسم کی بندگی کے زیبا نہیں ہے۔

اشْھدُ انّ مُحمّدًا رّسُوْل اللہ اشْھدُ انّ مُحمّدًا رّسُوْلُ اللہ

میں بحیثیت مسلماں خاتون گواہی دیتی ہوں کہ محمّدﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔

حیّ علیٰ الصّلاۃِ۔ حیّ علیٰ الصّلاۃِ

مسلمان عورتو! نماز کے لیے چلی آؤ

حیّ علیٰ الْفلاحِ۔ حیّ علیٰ الْفلاحِ

مسلمان عورتو! کامیابی دلانے والے نیک عمل کو کرنے کے لئے چلی آؤ۔

اللہ اکْبرُ اللہ اکْبرُ

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام مخلوق سے بہت بڑا ہے۔

لا اِلٰہ اِلّا اللہ

اللہ کے علاوہ کوئی بھی کسی قسم کی بندگی کے زیبا نہیں ہے۔

ایّتُہا الطّالِباتُ الْمُتادِّباتُ !منِ الّتِی کانتْ تُسْمِعُنا الْاذان الْاٰن؟ ْ

اے با ادب طالبات!ابھی ہمیں کون اذان سنارہی تھی؟

یا مُعلِّمتنا الشّفِیْقۃ!زمِیْلتُنا فرِیْدۃُ اسْمعتْنا الْاذان

اے ہماری مشفق اُستانی! ہماری سہیلی فریدہ نے ہمیں اذان سنائی ہے

ھل اسْتمعْتُنّ لِاذانِہا یا بناتُ !

کیا آپ سب لڑکیوں نے اُس کی اذان غور سے سنی تھی؟

نعمْ اِسْتمعْنا لِاذانِہا(لِاذانِ فرِیْدۃ)

جی ہاں ہم نے اُس کی اذان (فریدہ کی اذان) غور سے سنی ہے

ھلْ سمِعْتُنّ خطأً اثْنائ اذانِہا؟

کیا آپ لڑکیوں نے اُس کی اذان کے دوران کوئی غلطی سنی؟

لا ! ما سمِعْنا(لمْ نسْمعْ) ایّ خطأ ٍ فِیْ اذانِہا

جی نہیں ہم نے اُس کی اذان میں کوئی بھی غلطی نہیں سنی۔

ھلْ ترکتْ جُزْء ًا مِن الْاذانِ؟

کیا اُس نے اذان کا کوئی حصہ چھوڑا؟

لا ! ما ترکتْ(لمْ تتْرُکْ) ایّ جُزْء ٍ مِن الْاذانِ

جی نہیں اُس نے اذان کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا۔

اِنْتبِہْن اِلیّ واسْتمِعْن لِکلامِیْ ایّتُہا البناتُ!

اے بیٹیو!اپنی توجہ میری طرف کر لو اور میری بات غور سے سنو!

نعمْ یا اُسْتاذۃُ! ماذا تُرِیْدِیْن مِنّا؟

جی اُسنانی صاحبہ! آپ ہم سے کیا چاہتی ہیں ؟

یا بناتِیْ! اُنبِّہُکُنّ بِانِّی ْاسْمعُ الْاذان غد ًامِنْ کُلِّ طالِبۃ ٍ

میری بیٹو!میں آپ سب کو آگاہ کرتی ہوں کہ کل میں ہر طالبہ سے اذان سنوں گی

یا اُسْتاذۃُ! نحْنُ مسْرُوْراتٌ(فرْحاناتٌ) بھِٰذالْبرْنامجِ

جی اُستانی صاحبہ! ہم سب اِس پروگرام سے خوش ہیں

یا بناتِیْ! ھلْ تعْرِفْن لِم اسْتسْمِعُکُنّ الْاذان؟

میری بیٹو! کیا آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے اذان کیوں سننا چاہ رہی ہوں ؟

یا اُسْتاذۃُ!تُحِبِّیْن اں ْ نحْفظ الْاذان جیِّد ًاولا ننْسیٰ

جی اُستانی صاحبہ! آپ چاہتی ہیں کہ ہم اذان کو خوب یاد کر لیں اور بھول نہ جائیں

احْسنْتُنّ یا تِلْمِیْذاتِیْ!لقدْ صِرْتُنّ ذکِیّات ٍ عرفْتُنّ قصْدِیْ

شاباش میری شاگردو! یقیناً آپ سمجھدار ہو چکی ہیں آپ نے میرا ارادہ جان لیا

یا اُسْتاذۃُ! نشْکُرُکِ علی تشْجِیْعِکِ اِیّانا

اُستانی صاحبہ!ہماری حوصلہ افزائی کرنے پہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرتی ہیں

یا فرْحانۃُ!ء تذْکُرِیْن انّ الْیوْم حِصّۃُ تسْمِیْع الْاذانِ؟

اے فرحانہ! کیا ّپ کو یاد ہے کہ آج اذان سنانے کی کلاس ہے ؟

نعمْ یا اُسْتاذۃُ! انا مُتذکِّرۃٌ لِبرْنامجِ الْیوْمِ و انا حافِظۃٌ لِلدّرْسِ

اے اُستانی صاحبہ!مجھے آج کا پروگرام یاد ہے اور سبق بھی

ما رأْیُکُنّ یا تِلْمِیْذاتِیْ؟ لوْ تُسامِعُ کُلُّ زمِیْلتیْنِ اِحْداہُما الْاُخْریٰ

میری شاگردو! آپ سب کا کیا خیال ہے ؟ اگر دو دو سھیلیاں ایک دوسری سے سبق سن لے تو؟

یا اُستاذۃُ! ھٰذا اِقْتِراحٌ جمِیْلٌ و فِکْرۃٌ طیِّبۃٌ

اُستانی صاحبہ!یہ تو اچھی تجویز اور اچھی سوچ ہے

الْوقْتُ سینْتہِیْ یابناتُ! اخْبِرْننِیْ ھلْ واحِدۃٌلمْ ْتحْفظِ الدّرْس؟

بیٹیو! وقت ختم ہوا چاہتا ہے مجھے بتائیں کہ کس کس کو سبق یاد نہیں ہے ؟

عددٌ ضئِیْلٌ مِن الظّالِباتِ لمْ یُسْمِعْْن

طالبات کی تھوڑی تعداد نے سبق نہیں سنایا

منْ ہُنّ؟(ما اسْماؤُہُنّ)

وہ طالبات کون ہیں اُن کے نام کیا ہیں ؟

ہُنّ:ثمِیْنۃُ و ثمْرِیْنۃُوسفِیْنۃُ

وہ طالبات ثمینہ، ثمرینہ اور سفینہ ہیں

اوّل مرّۃ ٍ یُمْْہلْن ولْینْتبِہْن انّہُنّ لنْ یُّسْمحْن مرّۃ ً ثانِیۃ ً

اِن کو پہلی بار مہلت دی جاتی ہے اور یہ لڑکیاں آگاہ رہیں کہ دوسری بار ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا

ھلْ اُذِّن(نُوْدِی) لِصلاۃِ الظُّہْرِ؟

کیا ظہر کی اذان ہو چکی ہے ؟

منْ اذّنتْ (نادتْ)لہا؟

ظہر کی اذان کس نے دی ہے ؟

الْمُؤذِّنۃُ الرّاتِبۃُ اذنتْ(نادتْ)لہا

مقرر مؤذنہ نے اذان دی ہے

کمْ بِنْتًا سمِعتِ الْاذان؟

کتنی لڑکیوں نے اذان سنی

الْبِنْتانِ سمِعتا الْاذان

دو لڑکیوں نے اذان سنی ہے

منْ ہُما؟ ما اِسْمُہُما؟

وہ دونوں کون ہیں اُن کے نام کیا ہیں ؟

زیْنبُ و کُلْثُوْمُ سمِعتا الْاذان

زینب اور کلثوم دونوں نے اذان سنی ہے

منْ غیْرُہُماسمِعتِ الْاذان؟

اِن دونوں کے علاوہ کس کس نے اذان سنی ہے ؟

زیْنبانِ سمِعتا الْاذان

زینب نام کی دو لڑکیوں نے اذان سنی ہے

زینب نام کی دو خواتین نے اذان سنی

و منِ البنات غیْرُہُنّ سمِعْن الْاذان؟

اِن لڑکیوں کے علاوہ اور کس کس نے اذان سنی ہے

خدِیْجِۃُ و صفِیّۃُ و مرْیمُ سمِعْن الْاذان)

خدیجہ، صفیہ اور مریم نے اذان سنی ہے

زیْنباتٌ سمِعْن الْاذا ن

زینب نام کی سب خواتین نے اذان سنی۔

یا مرْیمُ! ہلْ سمِعْتِ الْاذان؟

مریم! کیا آپ نے اذان سنی؟)

نعمْ! سمِعْتُ الْاذان

جی! میں نے اذان سنی

لا! ما سمِعْتُ الْاذان

جی نہیں ! میں نے اذان نہیں سنی)

لِماذا ماسمِعْتِ الْاذان؟

آپ نے اذان کیوں نہ سنی؟)

لِانِّیْ کُنْتُ نائِمۃً فِیْ الْغُرْفۃ

کیونکہ میں کمرے میں سو رہی تھی)

ایّتھُا الْمُسْلِمۃُ! ھلْ سمِعْتِ الْاذان؟

اے مسلمان خاتون !کیا آپ نے اذان سنی؟

نعمْ!سمِعْتُ الْاذان

جی!میں نے اذان سنی ہے

متیٰ سمِعْتِ الْاذان؟

آپ نے کب اذان سنی؟

سمِعْتُ قبْل دقائِق

چند منٹ پہلے سنی ہے

ھلْ سمِعْتُما الْاِقامۃ؟یاخدِیْجۃُ و مارِیۃُ!

خدیجۃ اور ماریۃ! کیا آپ دونوں نے اِقامت سنی؟

نعمْ یا اُمّنا! سمِعْنا الْاِقامۃ

جی ہماری امّاں جان!ہم نے اِقامت سنی ہے

ھلْ سمِعْتُما تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ؟ یاصفِیّۃُ و جُویْرِیۃُ!

صفیّۃاور جویریۃ!کیا آپ دونوں نے تکبیرِ تحریمہ سنی؟

لا! ما سمِعْنا تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ

جی نہیں ! ہم نے تکبیرِ تحریمہ نہیں سنی

کیْف سمِعْتُما تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ؟یا سلْمیٰ ولیْلیٰ!

سلمیٰ اور لیلیٰ! بولو آپ دونوں نے تکبیرِ تحریمہ کیسے سنی؟

یا خالنا! سمِعْنا تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ بِالْمُکبِّرۃ(بِاٰلۃِالْاذانِ)

جی ہمارے ماموں جان! ہم نے تکبیرِ تحریمہ لاؤڈ سپیکر پر سنی ہے

یا انْنتِیْ! ھلْ تعرِفِیْن ما ھیْ تکْبِیْرۃُ الْاِحْرامِ؟

میری بیٹی!کیا آپ جانتی ہیں کہ تکبیرِ تحریمہ کیا ہوتی ہے ؟

نعمْ یا اُمِّیْ!اعْرِفُ تکْبِیْرۃ الْاِحْرامِ مضْبُوْطًا

جی میری امّی! میں تکبیرِ تحریمہ کو پختہ طور پر جانتی ہوں

اِذنْ اسْمِعِیْنِیھا امْنحْکِ جائِزۃً

پھر تو وہ مجھے سنا دیں میں آپ کو اِنعام دوں گی

ھِی کلِمۃُ (اللہ اکْبرُ) تقُوْلُہا الْمُصلّیۃُ عِنْد ما تفْتتِحُ الصّلاۃ

سنئے !تکبیرِ تحریمہ(اللہ اکبر) کے الفاظ ہیں جن کو نماز پڑھنے والی خاتون کہا کرتی ہے جب وہ نماز کو شروع کرتی ہے

احْسنْتِ یا ابْنتِیْ!اجبْت جیِّدًا

شاباش بیٹی! آپ نے صحیح جواب دیا

اُ مّْیْ الْکرِیْمۃاعْطِیْنِی جائِزتِیْ اِیْفاءً ًا بِوعْدِکِ

میری مہربان امّی! مجھے میرا اِنعام دیجئے !اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے

یا ابْنتِیْ! ھٰذِہٖ الْفُ رُبِّیّۃ ٍخُذْھازوّدکِ اللہ عِلْمًا

میری بیٹی! یہ ہزار روپے لیجئے ! اللہ آپ کو علم سے آراستہ کرے آمین

یا حبِیْبتِیْ!ھلْ سمِعْتِ التّأْمِیْن؟

میری پیاری!کیا آپ نے آمین سنی ہے ؟

نعمْ! سمِعْتُ

( جی ! میں نے سنی ہے )

انا ما سمِعْتُ( انا لمْْ اسْمعْ)

(جی میں نے نہیں سنی)

یا بُنیّتِیْ!ھلْ سمِعْتِ التّأْمِیْن؟

میری پیاری بیٹی!کیا آپ نے آمین سنی ہے ؟

اُمِّیْ الْمُحْترمۃ!ما ھُو التّأْمِیْنُ؟

میری قابلِ اِحترام امّی! آمین کس کو کہتے ہیں

اِبْنتِیْ الْعزِیْزۃ!اِسْمعِیْ

میری پیاری بیٹی سنیئے !

ما ذا اسْمعُ مِنْکِ؟ یا والِدتِیْ!

میری امّی جان! میں آپ سے کیا سنوں ؟

یا ابْنتِیْ!اِسْمعِیْ مِنِّیْ التّأْمِیْن الّذِیْْ سالْتِنِیْ عنْہُ

میری بیٹی!آپ مجھ سے آمین سنئے ۱جس کے متعلّق آپ نے مجھ سے پوچھا ہے

نعمْ قُوْلِیْ لِیْ یا والِدتِیْ!

ّجی میری امّی!آپ مجھے بتا دیجئے !

یا ابْنتِیْ! التّأْمِیْنُ :ھِی کلِمۃُ(آمِینْ)

میری بیٹی! آمین سے لفظِ(آمین)کہنا ہی مراد ہے

ما معْناھا ؟یا اُمِّیْ!

میری امّی! اِس لفظِ آمین کا کیا مطلب ہے ؟

یا ابْنتِیْ! معْناھا: ربِّ تقبّلْ (اِسْتجِبْ )دُعا ئِی و عِبادتِیْ

میری بیٹی! اِس لفظِ ‘آمین کا مطلب ہے : اے میرے خالق!اے میرے مالک! اے میرے رازق! اے میری سب عبادتوں کے لائق بادشاہ! آپ میری دعا اور عبادت کو قبول فرما لیجئے !

یا اُمِّیْ!فِیْ ایِّ موْضِع ٍ یُقالُ (آمِیْنْ)؟

میری امّی! آمین کس موقع پر کہی جاتی ہے ؟

یا ابْنتِیْ! یُقالُ کلِمۃُ آمِیْنْ فِیْ نِہایۃِ کُلِّ کلِمۃ ٍ دُعائِیّۃ ٍ

میری بیٹی! آمین ہر دعائیّہ الفاظ کے آ خرمیں کہی جاتی ہ

یا ابْنتِیْ! ا تعْرِفِیْن لِم یُقالُ آمِیْن

میری بیٹی! کیا آپ جانتی ہیں کہ آمین کیوں کہی جاتی ہے ؟

لِانّھا یسْتوْجبُ قبُول الدُّعائِ و یُحِبّھُا اللہ سُبْحانہٗ

اِس لئے کہ آمین دعا کو قبول کروا لیتی ہے نیز آمین کہنا اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے

ما معْنیٰ الْفاتِحۃِ ؟ یاصُغْریٰ!

صغری! فاتحہ کا کیا مطلب ہے ؟

یا کُبْریٰ! معْنیٰ الْفاتِحۃِ اِفْتِتاحٌ وبِدایۃٌ وتمْْھِیْدٌ

اے کبریٰ! فاتحہ کا مطلب آغاز کرنے، شروع کرنے اورسنوارنے کے ہیں

ایّتُہا الْمُعلِّمۃُ! اخْبِرِیْنِیْ!لِماذا سُمِّیتْ ھٰذِہٖ السُّوْرۃُبِالْفاتِحۃ ؟

اُستانی صاحبہ! مجھے بتا دیجئے ! کہ اِس سورت کا نام فاتحہ کیوں رکھا گیا ہے ؟

تِلْمِیْذاتِیْ! سُمِّیتْ ھٰذِہٖ السُّوْرۃُ بِالْفاتِحۃ لِانّ الْقُرْآن اُفْتُتِح بِہا عِنْد ما دُوِّن کما تریْن الْاٰن

میری شاگردو! اِس سورت کا نام فاتحہ اِس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ سورت قرآن کے شروع میں ترتیب دی گئی ہے جب قرآن کو کتابی شکل دی گئی جیساکہ اب آپ دیکھ رہی ہیں

یا والِدتِیْ! ھلْ سُوْرۃُ الْفاتِحۃِ دُعاءٌ؟

میری امّی! کیا سورۂ فاتحہ دعا ہے ؟

نعمْْ یا ابْنتِیْ! اِنّھا سُوْرۃُ الدُّعاءِ

جی میری بیٹی۱ بلا شبہ یہ سورت دعا والی سورت ہے

ا لھِٰذِہٖ السُّوْرۃِ اسْماء ٌ اُخْریٰ یا اُخْتِیْ!

اے میری بہن! کیا اِس سورت کے اور بھی نام ہیں ؟

ٔاجلْ! لھِٰذِہٖ السُّّوْرۃِ اسْماء ٌ عدِیْدۃٌ یا اُخْتِیْ!

جی میری بہن! اِس کے کئی اور نام بھی ہیں۔

ما ھِی اہمُّ اسْمائِہا؟

اِس کے زیادہ اہم نام کونسے ہیں ؟

اہمُّ اسْمائِہا: سُوْرۃُ الشّفاءِ وسُوْرۃُ الْحمْدِ و سُوْرۃُ السّبْعِ الْمثانِیْ

اِس کے زیادہ اہم نام : سورۂ شفاء، سورۂ حمد اور سبع المثانی ہیں

ما ھِی اشْہرُ اسْمائِہا؟

اِس کے زیادہ مشہور نام کونسے ہیں ؟

اشْہرُ اسْمائِہا سُوْرۃُ الْفاتِحۃِ وسُوْرۃ الدُّعاءِ و سُوْرۃ الصّلاۃِ

اِس کے زیادہ مشہور نام: سورۂ فاتحہ، سورۂ دعا نیز سورۂ نماز ہیں

دُلِّیْنِیْ یا اُسْتاذۃُعنْ مشْرُوْعِیّۃ التّأْمِیْنِ

اُستانی صاحبہ! مجھے آمین کی شرعی حیثیت کے متعلّق بتائیے !

تِلْمِیذتِیْ! اِنّ التّأْمِیْن سُنّۃٌ مُؤکّدۃٌ

میری شاگردنی! یقین جانئے ! کہ آمین کہنا تاکیدی سنّت ہے

اُ سْتاذتِیْ! ما ھِی سُنّۃٌمُؤکّدۃٌ؟

میری اُستانی! تاکیدی سنّت کس کو کہتے ہیں ؟

تِلْمِیْذتِیْ!السُّنّۃُ الْمُؤکّدۃھُِی الّتِیْ داوم علیْہا رسُوْلُ اللہ ﷺ

میری شاگردنی!تاکیدی سنّت وہ ہے جس کو اللہ کے رسولﷺ نے بلا ناغہ کیا ہو اور کبھی نہ چھوڑی ہو

مُعلِّمتِیْ الشّفِیْقۃ!ما معْنیٰ داوم علیْہا رسُوْلُ اللہ ﷺ؟

میری مہربان اُستانی! (داوم علیْہا رسُوْلُ اللہ ) کا مطلب بتائیے !

یا ابْنتِیْ! ماذا بِکِ؟(ما شأْنُکِ؟ اما شرحْتُ الْاٰن؟

میری بیٹی! کیا ہوا ہے آپ کو؟ کیا میں نے ابھی بتا نہیں دیا؟

عفْوًا یا اُسْتاذۃُ! ارْجُوْکِ انْ تُعِیْدِیْہ (انْ تُکرِّرِیْہ ) مرّۃً ثانِیۃً

اُستانی صاحبہ! معاف کیجئے ! میں آپ سے اِلتماس کر تی ہوں کہ اِس بات کو ایک بار پھر دہرا دیجئے !

تِلْمِیْذتِیْ! معْنی(داوم علیْہا) واظب علیْہا اِلیٰ انْ ماتﷺ

میری شاگردنی! (داوم) کا معنیٰ ہے کہ اِس عمل پر مرتے دم تک عمل پیرا رہے ہیں

اُسْتاذتِیْ! الْاٰن فہِمْتُ جیِّدًا

میری اُستانی! اب میں صحیح سمجھ گئی ہوں

تِلْمِیْذاتِیْ! صدق منْ قال: اِنّ الْعِلْم یحْصُلُ بِالسُّؤالِ والتّکْرارِ

میری شاگردو! جس نے بھی کہا سچ کہا کہ علم در حقیقت پوچھنے اور دہرانے سے حاصل ہوتا ہے

یا تِلْمِیْذتِیْ!المْْ تسْمعِیْ التّأْمِیْن؟

اے میری شاگردنی! کیا آپ نے آمین نہیں سنی؟

ا!ما سمِعْتُ(لمْْ اسْمعْ)لِانّنِیْ فاتتْنِیْ الرّکْعتانِ الّتانِ تُجْھرُ فِیْہِما الْقِراء ۃُ

جی نہیں ! میں نے آمین نہیں سنی اِس لئے کہ مجھ سے پہلی دو رکعتیں چھوٹ گئی تھیں جن مین بآوازِ بلند قرأت کی جاتی ہے۔

ھلْ سمِعْتُما التّأْمِیْن ؟یا مُصلِّیِتانِ!

اے دو خواتین نمازیو! کیا آپ دونوں نے آمین سنی ہے

نعمْ ْ سمِعْنا التّاْمِیْن لِانّنا شارکْنا الْجماعۃ مع التّکْبِیْرۃِ الْاُوْلیٰ

یا مُصلِّیتانِ ھلْ سمِعْتُما تسْلِیْمۃ الْاِمامِ؟

اے دو خواتین نمازیو! کیا آپ دونوں نے امام کے سلام کی آواز سنی؟

نعمْ سمِعْنا تسْلِیْمۃ الْاِمامِ

جی ہاں !ہم نے امام کے سلام کی آواز سنی

ماذا قال عِنْد تسْلِیْمتِہٖ یمِیْنًاوشِمالًا

امام نے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے ہوئے کیا کہا؟

قال عِنْد تسْلِیْمتِہٖ اِلیٰ کِلا الْجانِبیْنِ: السّلامُ علیْکُمْ ورحْمۃُ اللہ

اِمام نے اپنے دونوں جانب سلام پھیرتے ہوئے السّلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا۔

ایّتُہا الْمُصلِّیتانِ ھلْ سمِعْتُما التّأْمِیْن؟

اے دو خواتین نمازیو! کیا آپ دونوں نے آمین سنی ہے ؟

ھلْ کِلْتاکُما سمِعْتُما التّأْمِیْن؟

کیا آپ دونوں خواتین نے آمین سنی ہے ؟

ھلْ کِلْتاکُما سمِعْتُما التّأْمِیْن؟

کیا آپ دونوں خواتین نے آمین سنی ہے ؟

نعمْ! کِلْتانا سمِعْنا التّاْمِیْن

جی ہاں ! ہم دونوں خواتین نے آمین سنی ہے

لا ما سمِعْنا (المْ نسْمعِ )لتّأْمِیْن

جی نہیں ! ہم نے آمین نہیں سنی ہے

ایّتُہا الْمُصلِّیاتُ! ھلْ سمِعْتُنّ التّامِیْن؟

اے خواتین نمازیو! کیا آپ سب نے آمین سنی ہے ؟

نعمْ کُلُّنا (جمِیْعُنا)سمِعْنا التّأْمِین

جی ہاں ہم سب نے آمین سنی ہے

نعمْ کلُّنا سمِعْنا التّأْ میْن

جی ہاں ہم سب نے آمین سنی ہے

نعمْ بعْضُنا سمِعْن و بعْضُنا لمْ یسْمعْن

جی ہاں !ہم خواتین میں سے چند ایک نے سنی ہے اور چند ایک نے نہیں سنی

لا! ماواحِدۃٌ مِنّا سمِعت التّأْمِیْن

جی نہیں ! ہم خواتین میں سے کسی نے بھی آمین نہیں سنی

ایّتُہا النِّساءُ!ھلْ سمِعْتُنّ التّأْمِیْن؟

خواتین!(عورتو!) کیا آپ نے آمین سنی ہے ؟

٭نعمْْ!سمِعْنا

جی ہاں ! ہم نے آمین نے سنی ہے

٭لا !ما سمِعْنا

جی نہیں ! ہم نے نہیں سنی

لا! لمْ نسْمعْ(جی نہیں ہم نے نہیں سنی)

ھل سمِعْتُما قِرائۃ الْفاتِحۃِ؟یا خدِیْجتان

اے خدیجہ نام کی دو خواتینو!کیا آپ دونوں نے سورۂ فاتحہ کی قرأت سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُنّ تأْمِیْن الْاِمامِ؟یا فاطِمۃُو یاسْمِیْنُ وصائِمۃُ!

اے فاطمہ، یاسمین اور صائمہ کیا آپ تینوں نے اِمام کی آمین کی آواز سنی ہے ؟

ھلٓ سمِعْتُنّ تکْبِیْراتِ الْعِیْد؟ِ ایّتھُا الْمُؤْمِناتُ!

ھلْ سمِعْتُنّ دُعائ الْقُنُوْتِ ایّتھا الْمُسْلِماتُ! ؟

اے مسلمان خواتینو! کیا آپ سب نے دعائے قنوت سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُنّ دُعاء الْوِتْرِ؟ ایّتھا الْمُصلِّیاتُ!

اے خواتین نمازیو! کیا آپ سب نے وتر کی دعا سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُنّ دُعاء قُنُوْتِ النّازِلۃِ؟ ایّتُھا الْبناتُ!

اے بیٹیو! کیا آپ سب نے قنوتِ  نازلہ کی دعا سنی ہے ؟

ھلْ سمِعْتُنّ تسْلِیْم الْاِمامِ؟یاعدِیْلۃُ و انِیْسۃُ وحلِیْمۃُ

اے عدیلہ، انیسہ اور حلیمہ! کیا آپ سب نے امام کے سلام کی آواز سنی ہے ؟

 

 

 

سبق نمبر چار پر اسئلہ و تمارین

 

درج ذیل جملوں کا عربی میں جواب دیں :

ھلْ سمِعْتِ التّأْ مِیْن یا فرِیْدۃُ!

لماذا ماسمِعْتِ الْٓاذان یا فاطِمۃُ!

منِ الّتیْ تُسْمِعُنا الْاذان؟

منْ اذّنتْ لِصلاۃِ الْفجْرِ؟

ھلْ تعْرِفِیْن الْاذان یا مرْیمُ!

ما ھِی اشْھرُ اسْماءِ سُوْرۃِ الْفاتِحۃِ؟

درج ذیل اُردو جملوں کی عربی بنائیں۔

آمین کس وقت کہی جاتی ہے ؟

جی ! میں نے آمین سنی ہے۔

جی نہیں ! میں نے آمین نہیں سنی۔

جی ہم سب نے سنی ہے۔

ہم میں سے چند ایک نے سنی ہے اور چند ایک نے نہیں سنی۔

کیا آپ دونوں نے سنی ہے ؟

جی ہم دونوں نے سنی ہے۔

کیونکہ میں کمرے میں سو رہی تھی۔

تکبیرِ تحریمہ کس کو کہتے ہیں ؟

آمین کے کیا معنیٰ ہیں ؟

٭٭٭

 

 

 

الدّرس الخامس

 

اِسم الفاعل کے مختلف المعانی الفاظ بنانے کے سلسلے میں علم الصرف کا اہم کردار

 

ذیل میں صرفی کردار کے تحت اِسم الفاعل کے صیغوں کے ذریعے مختلف معانی کے حصول کے لئے کی جانے والی تبدیلیوں کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ۔ اِسم الفاعل کی مثالوں کے ساتھ اِسم الاشارہ کے الفاظ بھی دئے گئے ہیں کیونکہ اسماء الاِشارہ کے الفاظ میں بھی صرفی کردار بخوبی موجود ہے ۔

اسماء الاِشارہ میں اگر چہ فاعلی معنیٰ تو موجود نہیں ہوتا البتہ مفرد، تثنیہ، جمع کے اشارے کے لئے اِستعمال ہونے والے مختلف الفاظ اشارہ صرفی کردار سے قریبی تعلّق رکھتے ہیں نیز دور اور نزدیک کے لئے استعمال ہونے والے اشارے بھی صرفی کردار کا نقشہ پیش کرتے ہیں کیونکہ اِن مختلف اِشاروں سے مختلف معانی حاصل ہوتے ہیں۔

چنانچہ جب ہمیں اپنی گفتگو کے د وران فاعلی معنی کی ضرورت پڑ جائے جسمین فاعلی صفت عارضی اور وقتی ہو تو اس معنی کے حصول کے لیے علمأ لغت کی رہنمائی کے مطابق (ٔ اسم الفاعل) کے صیغوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے کیونکہ عارضی اور وقتی فاعلی صفت کا معنی لغوی اعتبار سے اسم الفاعل میں موجود ہوتا ہے اِس اِعتبار سیاِسم الفاعل کے صیغوں کو پہچاننا اِنتہائی اہم ہے۔ علم الصرف کے اصولوں کے ذریعے ہمیں ہر قسم کے مختلف معانی کے حصول کے لیے مختلف الفاظ بنانے کا طریقہ سمجھ میں آتا ہے۔ ذیل کے تمام جملوں میں اِستعمال ہونے والے الفاظ اِسم الفاعل کے الفاظ ہیں جو مفرد، تثنیہ اور جمع کے مختلف صیغوں میں استعمال کئے گئے ہیں نیز ساتھ ساتھ اسم الفاعل کے صیغوں میں مذکر اور مؤنث کے صیغوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے اِسم الفاعل مختلف معانی فراہم کرتا ہے۔ جیسے

( ھٰذا ولدٌصادِقٌ )              یہ لڑکا حالیہ طور پر سچ گو ہے

(ھذانِ ولدانِ صادِقانِ )                یہ دو لڑکے حالیہ طور پر سچ گو ہیں

(ھٰؤُلاء اوْلادٌ صادِقُوْن )            یہ سب لڑکے حالیہ طور پر سچ گو ہیں

( ھٰذِہ طِفْلۃٌ صادِقۃٌ)               یہ لڑکی حالیہ طور پرسچ گو ہے

(ھاتانِ طِفْلتانِ صادِقتانِ)         یہ دو لڑکیاں حالیہ طور پر سچ گو ہیں

(ھٰؤُلأ طِفْلاتٌ صالِحاتٌ )           یہ سب لڑکیاں حالیہ طور پرسچ گو ہیں

(ذالِک طِفْلٌ صادِقٌ)              وہ حالیہ طور پر ایک سچا لڑکا ہے

(ذانِک طِفْلانِ صادِقانِ)                 وہ حالیہ طور پر دو سچے بچے ہیں

(اُولٰئک اطْفالٌ صادِقُوْن)          وہ سب حالیہ طور پر سچے بچے ہیں

( تِلْک طِفْلۃٌ صادِقۃٌ)              وہ حالیہ طور پر ایک سچی بچی ہے

(تانِک طِفْلتانِ صادِقتانِ)         سوہ دونوں حالیہ طور پر دو سچی بچی ہیں

( اُولٰئِک طِفْلاتٌ صادِقاتٌ)      وہ حالیہ طور پر سب سچی بچی ہیں

(ھٰذا راکِبٌ)                    یہ اس وقت ایک سوار شخص ہے

(ھٰذانِ راکِبانِ)                        یہ اس وقت دو سوار اشخاص ہیں

(ھٰؤُلائِ راکِبُوْن)                یہ اس وقت دو سے زیادہ سواراشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ راکِبۃٌ)                     یہ اس وقت ایک سوار خاتون ہے

(ھاتانِ راکِبتانِ)                یہ اس وقت دو سوار خواتین ہیں

( ھٰؤُلائِ راکِباتٌ)              یہ اس وقت دو سے زیادہ سوارخواتین ہیں

(ذٰلِک راکِبٌ )                   وہ اس وقت ایک سوار شخص ہے

(ذانِک راکِبانِ)                 وہ اس وقت دو سوار اشخاص ہیں

(اُولٰئک راکِبُوْن)                وہ اس وقت دو سے زیادہ سوار اشخاص ہیں

(تِلْک راکِبۃٌ)                    وہ اس وقت ایک سوار خاتون ہے

(تانِک راکِبتانِ)                         وہ اس وقت دو سوار خواتین ہیں

(اُولٰئِک راکِباتٌ)                وہ اس وقت دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا مُصلٍّ)                     یہ اس وقت ایک نماز پڑھ نے والا شخص ہے

( ھٰذانِ مُصلِّیانِ)              یہ اس وقت دو نماز پڑھنے والے اشخاص ہیں

(ھٰوُلائِ مُصلّوْن)                یہ اس وقت دو سے زیادہ نماز پڑھنے والے اشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ مُصلِّیۃٌ)                    یہ اس وقت ایک نماز پڑھنے والی خاتون ہے

(ذالِک مُصلٍّ)                   وہ اس وقت ایک نماز پڑھنے والا شخص ہے

(ذانِک مُصلِّیانِ)                        وہ اس وقت دو نماز پڑھنے والے اشخاص ہیں

( اُولٰئِک مُصلُّوْن)               وہ اس وقت دو سے زیادہ نماز پڑھنے والے اشخاص ہیں

( ھٰذِہٖ مُصلِّیۃٌ)                   یہ اس وقت ایک نماز پڑھنے والی خاتون ہے

(ھٰاتانِ مُصلِّیتانِ)               یہ اس وقت دو نماز پڑھنے والی خواتین ہیں

( ھٰؤُلائِ مُصلِّیاتٌ)             یہ اس وقت دو سے زیادہ نماز پڑھنے والی خواتین ہیں

(تِلْک مُصلِّیۃٌ)                   وہ اس وقت ایک نماز پڑھنے والی خاتون ہے

(تانِک مُصلِّیتانِ)                وہ اس وقت دو نماز پڑھنے والی خواتین ہیں

(اُولٰئِک مُصلِّیاتٌ)               وہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰذا مُزکٍّ)                   یہ اس وقت ایک زکواۃ ادا کرنے والا شخص ہے

ھٰذانِ مُزکِّیانِ)                  یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلاءِمُزکُّوْن)                  یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

ھٰذِہٖ مُزکِّیۃٌ)                      یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

(ھٰاتانِ مُزکِّیتانِ)                        یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی دو خواتین ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُزکِّیاتٌ)                 یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

( ذالِک مُزکٍّ)                 وہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والا ایک شخص ہے

( ذانِک مُزکِّیانِ)                وہ اس وقت ادا کرنے والا ایک شخص ہے

اُولٰئِک مُزکُّوْن)                  یہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(تِلْک مُزکِّیۃٌ)                    وہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

تانِک مُزکِّیتانِ)                  وہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

اُولٰئِک مُزکِّیاتٌ)                 وہ اس وقت زکواۃ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا صائِمٌ)                    یہ اس وقت ایک روزہ دار شخص ہے

(ھٰذانِ صائِمانِ)               یہ اس وقت دو روزے دار اشخاص ہیں

(ھٰؤُلائِ صائِمُوْن)               یہ اس وقت دو سے زیادہ روزے دار اشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ صائِمۃٌ)                    یہ اس وقت ایک روزہ دار خاتون ہے

(ھاتانِ صائِمتانِ)               یہ اس وقت دو روزے دار خواتین ہیں

(ھٰؤُلاءِ صائِماتٌ)                یہ اس وقت دو سے زیادہ روزے دار خواتین ہیں

(ذالِک صائِمٌ)                   وہ اس وقت ایک روزہ دار شخص ہے

(ذانِک صائِمانِ)                 وہ اس وقت دو روزے دار اشخاص ہیں

(اُولٰئِک صائِمُوْن                 وہ اس وقت دو سے زیادہ روزے دار اشخاص ہیں

(تِلْک صائِمۃٌ)                  وہ اس وقت ایک روزہ دار خاتون ہے

(تانِک صائِمتانِ)                وہ اس وقت دو روزے دار خواتین ہیں

(اُولٰئِک صائِماتٌ)               وہ اس وقت دو سے زیادہ روزے دار خواتین ہیں

(ھٰذا حاجٌّ)                      یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والا ایک شخص ہے

(ھٰذانِ حاجّانِ)                 یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلاءِ حاجُّوْن)                  یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ حاجّۃٌ)                     یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

(ھاتانِ حاجّتانِ)                یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی دو خواتین ہیں

(ھؤُلاءِ حاجّاتٌ)                 یہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ذالِک حآجٌّ)                    وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والا ایک شخص ہے

(ذانِک حاجّانِ)                 وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(اُولٰئِک حاجُّوْن)                وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(تِلْک حاجّۃٌ)                    وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

(تانِک حاجّتانِ)                وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی دو خواتین ہیں

(اُولٰئِک حاجّاتٌ)                وہ اس وقت حج کا فریضہ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا مُعْتمِرٌ)                     یہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والا ایک شخص ہے

(ھٰذانِ مُعْتمِرانِ)               یہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلائِ مُعْتمِرُوْن)              یہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

( ھٰذِہٖ مُعْتمِرۃٌ)                  یہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

(ذلِک مُعْتمِرٌ)           وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والا ایک شخص ہے

(ذانِک مُعْتمِرانِ)       وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والے دو اشخاص ہیں

(اُولٰئِک مُعْتمِرُوْن)      وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(تِلْک مُعْتمِرۃٌ)         وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والی ایک خاتون ہے

(تانِک مُعْتمِرتانِ)       وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والی دو خواتین ہیں

(اُولٰئِک مُعْتمِراتٌ)      وہ اس وقت عمرہ ادا کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا مُتوضِّؤٌ)            یہ اس وقت وضو کرنے والا ایک شخص ہے

(ھٰذانِ مُتوضِّئانِ )      یہ اس وقت وضو کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُتوضِّؤُْن)        یہ اس وقت وضو کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ مُتوضِّئۃٌ)           یہ اس وقت وضو کرنے والی ایک خاتون ہے

(ھاتانِ مُتوضِّئتانِ)      یہ اس وقت وضو کرنے والی دو خواتین ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُتوضِّئاتٌ)       یہ اس وقت وضو کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ذالِک مُتوضِّؤٌ)          وہ اس وقت وضو کرنے والا ایک شخص ہے

(ذانِک مُتوضِّئانِ)        وہ اس وقت وضو کرنے والے دو اشخاص ہیں

(اُولٰئِک مُتوضِّؤُن)       وہ اس وقت وضو کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(تِلْک مُتوضِّئۃٌ)         وہ اس وقت وضو کرنے والی ایک خاتون ہے

(تانِک مُتوضِّئتانِ)      وہ اس وقت وضو کرنے والی دو خواتین ہیں

(اُولٰئِک مُتوضِّئاتٌ)      وہ اس وقت وضو کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا مُؤْمِنٌ)           یہ اس وقت ایمان قبول کرنے والا ایک شخص ہے

( ھٰذانِ مُؤْْمِنانِ)       یہ اس وقت ایمان قبول کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُؤْمِنُوْن)        یہ اس وقت ایمان قبول کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(ھاتانِ مُخْلِصتانِ)       یہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والی دو خواتین ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُخْلِصاتٌ)         یہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ذالِک مُخْلِصٌ)           وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والا ایک شخص ہے

(ذانِک مُخْلِصانِ)                 وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والے دو اشخاص ہیں

(اُولٰئِک مُخْلِصُوْن)        وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

( تِلْک مُخْلِصۃٌ)           وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والی ایک خاتون ہے

(تانِک مُخْلِصتانِ)         وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والی دو خواتین ہیں

(اُولٰئِک مُخْلِصاتٌ)        وہ اس وقت اپنے سب عملوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ھٰذا مُحْسِنٌ)            یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والا ایک شخص ہے

(ھٰذانِ مُحْسِنانِ)         یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والے دو اشخاص ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُحْسِنُوْن)         یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(ھٰذِہٖ مُحْسِنۃٌ)             یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والی ایک خاتون ہے

(ھاتانِ مُحْسِنتانِ)        یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والی دو خواتین ہیں

(ھٰؤُلاءِ مُحْسِناتٌ)         یہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں

(ذالِک مُحْسِنٌ)           وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والا ایک شخص ہے

(ذالِک مُحْسِنانِ)        وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والے دو اشخاص ہیں

(اُولٰئِک مُحْسِنُوْن)                وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والے دو سے زیادہ اشخاص ہیں

(تِلْک مُحْسِنۃٌ)            وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والی ایک خاتون ہے

(تانِک مُحْسِنتانِ)         وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر عبادت کرنے والی دو خواتین ہیں

(اُولٰئِک مُحْسِناتٌ)       وہ اس وقت اللہ کو اپنے سامنے موجود جان کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت کرنے والی دو سے زیادہ خواتین ہیں۔

یاد رہے کہ اِسم الفاعل کے سولہ(۱۶) اوزان ہیں اِن میں سے اکثر اوزان الگ الگ منفرد معانی کی نشاندہی کراتے ہیں اِس اِعتبار سے بھی اِسم الفاعل کے اوزان کو جاننا اور اچھی طرح سمجھ کر پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جن کی تفصیلات ہم آپ کی خدمت میں اپنے اپنے مقام پر بیان کریں گے البتہ یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اِسم الفاعل کی اِصطلاحی تعریف سے آپ کو آشنا کرایا جائے :

اِسم الفاعل ہر اُس لفظ کو کہتے ہیں جو اپنے مخصوص تلفّظ یا وزن کے ساتھ کسی بھی کام کو کرنے والے پر بولا جائے یا کسی بھی عارضی فاعلی صفت سے آراستہ ہونے والے کو ظاہر کرے۔ ذیل میں آپ کی بہتر رہنمائی کے لیے ہم اِسم الفاعل کے بہت سے اوزان دے رہے ہیں جو بنیادی طور پر ایک ہی سر چشمے سے بنائے گئے ہیں لیکن اِن میں سے ہر وزن جدا جدا معنیٰ دے رہا ہے جیسے :

[۱]حاکِمٌ:حکمرانی کرنے والا/ حکومت چلانے والا/حکم کرنے والا/فیصلہ کرنے والا/اِختیارات اِستعمال کرنے والا۔

[۲]مُحْکِمٌ:مضبوطی کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے والا/ٹھوس طریقے سے کام کرنے والا/گفتگو کو عام فہم انداز میں پیش کرنے والا/حاکم یا سربراہ مقرّر کرنے والا۔

[۳]مُحکِّمٌ:اِختیارات سونپنے والا/زبردستی حکومت کرنے والا/حاکم بننے کے لیے مجبور کرنے والا۔

[۴]مُحاکِمٌ:عدالت میں کسی کے خلاف کیس دائر کرانے والا/ کسی کے اوپر اپنے حقوق کا دعویٰ کرنے والا۔

[۵]مُتحاکِمٌ:فیصلے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے والا۔

[۶]مُتحکِّمٌ:اِختیارات قبول کرنے والا/محنت اور لگن سے حکومت چلانے والا/بزورِ بازو حکومت کرنے والا۔

[۷]مُسْتحْکِمٌ:حاکم بننے کی اپیل کرنے والا/حاکم بنانے کی درخواست کرنے والا/اِختیارات مانگنے والا/حکمت اور دانائی کو بروئے کار لانے والا/صلاحیتوں کو اِستعمال کرتے ہوئے ٹھوس کام کرنے والا۔

[۸]مُحْتکِمٌ:کھل کر اِختیارات کو اِستعمال کرنے والا/حاکم کی ما تحتی کو قبول کرنے والا/قاضی کے فیصلے کو تسلیم کرنے والا۔

[۹]مُزلْزِلٌ:ہلا دینے والا/لرزہ طاری کرنے والا/جھنجھوڑنے والا/ڈگمگا دینے والا۔

[۱۰]مُتزلْزِلٌ :ہلانے پر ہل جانے والا/لرزہ کا شکار ہونے والا/ڈگمگا جانے والا۔

اِسم الفاعل کے صیغوں سے مختلف معانی حاصل کرنے کے صرفی طریقے

اِسم الفاعل کی تعریف اور اِس کے مختلف اوزان کو جاننے کے بعد ہم آپ کی توجہ اِس بات کی طرف کرانا چاہتے ہیں کہ اِسم الفاعل کے صیغوں سے مختلف معانی حاصل کرنے کے لیے علم الصرف ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟

یاد رکھیں کہ کسی بھی اِسم الفاعل کے صیغے سے مختلف معانی کے حصول کے لیے ہمیں تین کام کرنے ہوں گے :

اوّل۔   ثلاثی مجرّدسے بنائے ہوئے کسی بھی اسم الفاعل کو ثلاثی مزید فیہ کے ابواب سے گزاریں تاکہ مختلف اِسم الفاعل کے الفاظ کے ذریعے مختلف معانی حاصل ہو جائیں۔

ثانی۔    یہ کہ اِسم الفاعل کے بنیادی لفظ کو مفرد حالت سے نکال کر تثنیہ اور جمع کے صیغوں کی طرف تبدیل کریں۔

ثالث۔ یہ کہ اِسم الفاعل کے مذکر صیغوں کو مؤنث صیغوں کی طرف تبدیل کریں دونوں کی مثالیں ایک ساتھ ملاحظہ کریں :

مفرد مذکر               (حاکِمٌ) حکومت کرنے والا ایک شخص۔

مفرد مؤنث             (حاکِمۃٌ) حکومت کرنے والی ایک خاتون۔

تثنیہ مذکر       (حاکِمانِ)       حکومت کرنے والے دو اشخاص    ۔

تثنیہ مؤنث     ( حاکِمتانِ)     حکومت کرنے والی دو خواتین۔

جمع مذکر         (حاکِمُوْن)      حکومت کرنے والے بہت سے اشخاص۔

جمع مؤنث       (حاکِماتٌ)      حکومت کرنے والی بہت سی خواتین۔

 

اِسم الفاعل کے مختلف صیغے بنانے کا صرفی قانون 

 

اِسم الفاعل کے صیغے بنانے کے لیے درج بالا چھ مثالوں سے مدد لی جا سکتی ہے جن میں حروف کے اِضافے اور حرکت و سکون کی تبدیلی کے ساتھ مختلف معانی فراہم کرنے والے الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے

اِن صیغوں کو بنانے کے لیے سب سے پہلا لفظ(حاکِمٌ)کو بنیاد بنایا گیا ہے جس کے آخر میں صرف (الف ساکن اور نون مکسورہ (زیر والی)بڑھا کر دو حکومت کرنے والے مذکّر اشخاص کی نشاندہی کی گئی ہے اور اِسی لفظِ(حاکِمٌ) کے آخر میں ( واوساکن اور نون مفتوحہ(زبر والی) بڑھا کر دو سے زیادہ حکومت کرنے والے اشخاص کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (حاکِمٌ) کے آخر میں (گول تا مضمومہ(پیش والی) بڑھا کر ایک حکومت کرنے والی خاتون کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (حاکِمٌ) کے آخر میں پہلے تا مفتوحہ(زبر والی) اور اس کے بعد الف ساکن اور نون مکسورہ بڑھا کر دو حکومت کرنے والی خواتین کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (حاکِمٌ) کے آخر میں (الف ساکن اور لمبی تا )بڑھا کر دو سے زیادہ حکومت کرنے والی خواتین کی نشاندہی کی گئی ہے

 

 

 

 سبق نمبر پانچ پر اسئلہ و تمارین

 

۱۔       اِسم الفاعل کے صیغوں کو جاننے کی اہمیت بیان کریں۔

۲۔      اِسم الفاعل کی تعریف بیان کریں۔

۳۔      عربی زبان میں اِسم الفاعل کے کتنے اوزان ہیں ؟

۴۔      ایک ہی لفظ سے بنائے گئے اِسم الفاعل کے مختلف صیغوں کے معانی میں فرق کو مثالوں سے واضح کریں۔

۵۔      اِسم الفاعل کے صیغوں سے مختلف معانی حاصل کرنے کے کتنے طریقے ہیں ؟

۶۔      مفرد سے تثنیہ اور جمع بنانے کا صرفی قانون بیان کریں۔

۷۔      مذکر سے مؤنث بنانے کا صرفی قانون بیان کریں۔

۸۔      مفرد مؤنث اور جمع مؤنث بنانے کے صرفی قوانین بیان کریں۔

۹۔      درج ذیل اِسم الفاعل کے صیغوں میں مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث معلوم کریں :

راکِبُوْن۔ حاجٌّ۔ مُزکِّیۃٌ۔ مُصلِّیانِ۔ حاکِماتٌ۔

۱۰۔     درج ذیل جملوں کا ترجمہ کریں۔

ھٰذٰا راکِبٌ۔ ھٰذانِ راکِبانِ۔ ھٰؤُلائِ راکِبُوْن۔ ھٰذِہٖ راکِبۃٌ۔ ھاتانِ راکِبتانِ۔ ھٰؤُلاءِ راکِباتٌ۔ ذالِک راکِبٌ۔ ذانِک راکِبانِ۔ اُولٰئِک راکِبُوْن۔ تِلْک راکِبۃٌ۔ تانِک راکِبتانِ۔ اُولٰئِک راکِباتٌ۔

٭٭٭

 

 

الدّرس السّادِسُ

 

اِسم المفعول کے مختلف المعانی الفاظ بنانے کے سلسلے میں علم الصرف کا کردار

 

 

ہماری گفتگو کے دوراں پیش آنے والے اہم الفاظ میں اِسم المفعول کے الفاظ بھی قابل ذکر ہیں کیونکہ اِسم المفعول کے الفاظ کا اِستعمال بھی عربی زبان میں گنتی سے باہر ہے۔ عربی زبان کی گفتگو میں اِسم المفعول کے الفاظ کی بڑی اہمیت ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ مفعولی صفت کا معنیٰ دینے میں اِسم المفعول کے الفا منفرد مقام رکھتے ہیں یہ معنیٰ اسم المفعول کے علاوہ کسی دوسرے اوزان میں قطعاً پایا نہیں جاتا۔

اِسم الفاعل کی طرح اِسم المفعول کے بھی (۱۶) مختلف اوزان ہیں ہر وزن پر پڑھے جانے والا اِسم المفعول اپنی الگ شکل اور جداگانہ معنیٰ رکھتا ہے علم الصرف کے اصولوں کے ذریعے ہمیں اِن کے مختلف معانی کا پتہ چلتا ہے

 

اِسم المفعول کے الفاظ سے مختلف معانی حاصل کرنے کا صرفی کردار

 

اِسم المفعول کے صیغوں سے مختلف معانی حاصل کرنے کے تین بنیادی اصول ہیں ذیل میں اُن کی تفصیلات ملاحظہ کریں :

اوّل۔ یہ کہ اسم المفعول کے بنیادی لفظ کو مختلف ابواب کے ا وزانِ مفعول میں اِستعمال کیا جائے تاکہ ہر نئے وزن سے نیا معنیٰ وجود میں آئے۔

ثانی۔ یہ کہ ہر لفظ کو مفرد، تثنیہ، جمع کی تبدیلیوں سے گزارا جائے۔

ثالث۔ یہ کہ ہر لفظ کو مذکر اور مؤنث کے استعمالات سے گزارا جائے۔

ذیل میں مثالیں ملاحظہ کریں :

(مُکْرمٌ) عزت سے نوازا گیا ایک شخص۔              (واحد مذکر)

(مُکْرمان)       عزت سے نوازے گئے دو اشخاص۔ (تثنیہ مذکر)

(مُکْرمُوْن)      عزت سے نوازے گئے دو سے زیادہ اشخاص۔ (جمع مذکر)

(مُکْرمۃٌ)                عزت سے نوازی گئی ایک خاتون۔   (واحد مؤنث)

(مُکْرمتانِ)      عزت سے نوازی گئی دو خواتین۔    (تثنیہ مؤنث)

( مُکْرماتٌ)     عزت سے نوازی گئی دو سے زیادہ خواتین۔ (جمع مؤنث)

 

اِسم المفعول کے مختلف صیغے بنانے کا صرفی طریقہ

 

اِسم المفعول کے بقیہ سب صیغوں کے لیے پہلا لفظ( مُکْرمٌ)بنیاد ہے جس کے آخر میں صرف (الف ساکن اور نون مکسورہ (زیر والی) بڑھا کر عزت سے نوازے گئے دو اشخاص کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (مُکْرمٌ) کے آخر میں ( واو ساکن اور نون مفتوحہ(زبر والی) بڑھا کر دو سے زیادہ عزت سے گئے اشخاص کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (مُکْرمٌ) کے آخر میں (گول تا مضمومہ(پیش والی) بڑھا کر عزت سے نوازی گئی ایک خاتون کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (مُکْرمٌ)کے آخر میں (تا مفتوحہ(زبر والی)اور اس کے بعد الف ساکن اور نون مکسورہ (زیر والی) بڑھا کر عزت سے نوازی گئی دو خواتین کی نشاندہی کی گئی ہے

اور اِسی لفظِ (مُکْرمٌ) کے آخر میں (تا مفتوحہ (زبر والی ) اور اس کے بعد الف ساکن اور لمبی تا ) بڑھا کر دو سے زیادہ عزت سے نوازی گئی خواتیں کی نشاندہی کی گئی ہے

 

اِسم المفعول کی تعریف    

 

اِسم المفعول ہر اُس لفظ کو کہتے ہیں جو اپنے مخصوص صیغے کے ذریعے کسی بھی شخص یا چیز پر بولا جائے جس پر کوئی بھی فعل واقع کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے واضح ہے۔ مزید وضاحت کے لیے اِسم المفعول کے الفاظ کو جملوں میں اِستعمال کرنے کی ایک مشق دی جاتی ہے جس کی مدد سے آپ خود بھی مزید جملے بنا سکیں گے۔

جملوں مین مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، سؤالیہ، جوابیہ، مثبت، منفی سب پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے معلّمین کو چاہئے کہ اِن سب انداز گفتگو سے اپنے طلباء و طالبات کو آگاہ کریں۔

 

اِسم المفعول کے صیغوں پر مشقیہ جملے

 

سادہ مثبت جملے

مذکر (مفرد، تثنیہ، جمع)         مؤنث(مفرد، تثنیہ، جمع)

ٓاللِّصُّ مسْجُوْنٌ‘                    اللِّصّۃُ مسْجُوْنۃٌ

ایک چور قید کیا ہوا ہے             ایک چورنی قید کی ہوئی ہے

اللِّصّانِ مسْجُوْنانِ                  اللِّصّتانِ مسْجُوْنتان

دو چور قید کئے ہوئے ہیں                 دو چورنیاں قید کی ہوئی ہیں

اللُّصُوْصُ مسْجُوْنُوْن                اللِّصّاتُ مسْجُوْناتٌ

سب چور قید کئے ہوئے ہیں        سب چورنیاں قید کی ہوئی ہیں

————————————————

الْمسْجُوْنُ لِصٌّ                     الْمسْجُوْنۃُ لِصّۃٌ

قید کیا ہوا آدمی ایک چور ہے        قید کی ہوئی خاتون ایک چور ہے

الْمسْجُوْنانِ لِصّان                  الْمسْجُوْنتانِ لِصّتانِ

قید کئے ہوئے دونوں آدمی دو چور ہیں       قید کی ہوئی دونوں خواتین دو چورنیاں ہیں

الْمسْجُوْنُوْن لُصُوْصٌ                الْمسْجُوْناتُ لِصّاتٌ

قید کئے ہوے سب آدمی چور ہیں   قید کی ہوئی سب خواتین چورنیاں ہیں

————————————————–

 

مثبت سوالیہ جوابیہ جملے

منْ ھٰذا الْمسْجُوْنُ؟                منْ ھٰذِہٖ الْمسْجُوْنۃُ؟

یہ قید کیا ہوا آدمی کون ہے ؟        یہ قید کی ہوئی خاتون چورنی ہے

ھٰذا الْمسْجُوْنُ سارِقٌ               ھٰذِہٖ الْمسْجُوْنۃُسارِقۃٌ

یہ قید کیا ہوا آدمی ایک چور ہے      یہ قید کی ہوئی خاتون ایک چورنی ہے

منْ ھٰذانِ الْمسْجُوْنانِ؟            منْ ھاتانِ الْمسْجُوْنتانِ؟

یہ قید کئے ہوئے دو آدمی کون ہیں ؟ یہ قید کی ہوئی دو خواتین کون ہیں ؟

ھٰذانِ الْمسْجُوْنانِ سارِقانِ          ھاتانِ الْمسْجُوْنتانِ سارِقتانِ

یہ قید کئے ہوئے دو آدمی دو چور ہیں یہ قید کی ہوئی دو خواتین دو چورنیاں ہیں

منْ ھٰؤُلاءِ الْمسْجُوْنُوْن؟             منْ ھٰؤُلاءِ الْمسْجُوْناتُ

یہ قید کئے ہوئے سب آدمی کون ہیں ؟یہ قید کی ہوئی سب خواتین کون ہیں ؟

ھٰؤُلاءِ الْمسْجُوْنُوْن سارِقُوْن          ھٰؤُلاءِ الْمسْجُوْناتُ سارِقاتٌ

یہ قید کئے ہوئے سب آدمی چور ہیں یہ قید کی ہوئی سب خواتین چورنیاں ہیں

————————————————

 

منفی جوابیہ جملے

ھلِ الْمسْجُوْنُ سارِقٌ؟             ھلِ الْمسْجُوْنۃُ سارِقۃٌ؟

کیا قید کیا ہوا آدمی چور ہے ؟        کیا قید کی ہوئی خاتون چورنی ہے ؟

لیْس الْمسْجُوْنُ سارِقًا               لیْستِ الْمسْجُوْنۃُ سارِقۃً

الْمسْجُوْنُ لیْس سارِقًا               الْمسْجُوْنۃُ لیْستْ سارِقۃً

قید کیا ہوا آدمی چور نہیں ہے       قید کی ہوئی خاتون چورنی نہیں ہے

ھلِ الْمسْجُوْنانِ سارِقانِ؟          ھلِ الْمسْجُوْنتانِ سارِقتانِ؟

کیا قید کئے ہوئے دو آدمی دو چور ہیں ؟کیا قید کی ہوئی دو خواتین دو چورنیاں ہیں ؟

لیْس الْمسْجُوْنانِ سارِقیْنِ           لیْستِ الْمسْجُوْنتانِ سارِقتیْنِ

الْمسْجُوْنانِ لیْساسارِقیْنِ            الْمسْجُوْنتانِ لیْستا سارِقتیْنِ

قید کئے ہوئے دو آدمی دو چور نہیں ہیں قید کی ہوئی دو خواتین دو چورنیاں نہیں ہیں

ھلِ الْمسْجُوْنُوْن سارِقُوْن؟          ھلِ الْمسْجُوْناتُ سارِقاتٌ؟

کیا قید کئے ہوے سب آدمی چور ہیں ؟کیا قید کی ہوئی سب خواتین چورنیاں ہیں ؟

لیْس الْمسْجُوْنُوْن سارِقِیْن           لیْستِ الْمسْجُوْناتُ سارِقاتٍ

الْمسْجُوْنُوْن لیْسُوْا سارِقِیْن           الْمسْجُوْناتُ لسْن سارِقاتٍ

قید کئے ہوئے سب آد می چور نہیں ہیں      قید کی ہوئی سب خواتین چورنیاں نہیں ہیں

———————————————–

 

اِسم المفعول پر مشتمل مثبت فعلیہ جملے

مذکر                            مؤنث

اُطْلِق الْمسْجُوْنُ                    اُطْلِقتِ المسْجُوْنِۃُ

الْمسْجُوْنُ اُطْلِق                     الْمسْجُوْنۃُ اُطْلِقتْ

ایک مرد قیدی رہا کر دیا گیا                 ایک خاتون قیدی رہا کر دی گئی

اُطْلِق الْمسْجُوْنانِ                   اُطْلِقتِ الْمسْجُوْنتانِ

الْمسْجُوْنانِ اُطْلِقا                   الْمسْجُوْنتانِ اُطْلِقتا

دو مرد قیدی رہا کر دئے گئے        دو خواتین قیدیاں رہا کر دی گئیں

اُطْلِق الْمسْجُوْنُوْن                  اُطْلِقتِ الْمسْجُوْناتُ

الْمسْجُوْنُوْن اُطْلِقُوْا                  الْمسْجُوناتُ اُطْلِقْن

سب مرد قیدی رہا کر دئے گئے      سب خواتین قیدیاں رہا کر دی گئیں

سُجِنْت یا محْمُوْدُ!                  سُجِنْتِ یا زیْنبُ!

اے محمود! آپ کو قید کر لیا گیا     اے زینب! آپ کو قید کر لیا گیا

سُجِنْتُمایامحْمُوْدُ و احْمدُ!              سُجِنْتُمایازیْنبُ ومرْیمُ!

اے محمود اور احمد! آپ دونوں قید کر لئے گئے       اے زینب و مریم! آپ دونوں قید کر لی گئیں

سُجِنْتُما یاسارِقانِ!               سُجِنْتُما یا سارِقتانِ!

اے دو چوری کرنے والے ! آپ دونوں قید آپ دونوں قید کر لئے گئے                اے دو چوری کرنے والیاں ! آپ دونوں قید کر لی گئیں

سُجِنْتُمْ یا محْمُوْدُو احْمدُوطارِقُ!               سُجِنْتُنّ یا زیٓنبُ و مرْیمُ وریْحانۃُ!

اے محمود، احمد اور طارق! آپ  تینوں قید کر لئے گئے                اے زینب، مریم اور ریحانہ! آپ تینوں قید        کر لی گئیں

سُجِنْتُمْ یا سارِقُوْن!                       سُجِنْتُنّ یا سارِقاتُ!

اے سب چوری کرنے والے لوگو! آپ سب قید کر لئے گئے          اے سب چوری کرنے والی خواتینو! آپ سب قید کر لی گئیں

سُجِنْت                           سُجِنْتُ

میں ایک مرد قید کر لیا گیا          میں ایک خاتون قید کر لی گئی

سُجِنّا                            سُجِنّا

ہم سب مرد قید کر لئے گئے ہیں    ہم سب خواتین قید کر لی گئیں

(نوٹ)مثبت فعلیہ جملوں کو منفی فعلیہ جملوں میں تبدیل کرنا چاہیں تو آپ مندرجہ بالا جملوں میں سے ہر جملے کے شروع میں (ما) بڑھا کر منفی بنا لیں اور معنیٰ میں (نہیں ) کہنا نہ بھولئے ۱مثال کے طور پر۔ (ما اُطْلِق الْمسْجُوْنُ)ایک مرد قیدی رہا نہیں کیا گیا۔ اِسی طرح پوری گردان کا ترجمہ کرتے چلے جائیں

—————————————————

 

اِسم المفعول پر مشتمل سوالیہ و جوابیہ مثبت جملے

مذکر                            مؤنث

ھلْ اُطْلِق المسْجُوْنُ؟              ھلْ اُطْلِقتِ الْمسْجُوْنۃُ

ھلِ الْمسْجُوْنُ اُطْلق؟              ھلِ الْمسْجُوْنۃُ اُطْلِقتْ؟

کیا ایک مرد قیدی رہا کر دیا گیا؟     کیا ایک خاتون قیدی رہا کر دی گئی؟

ھلْ اُطْلِق الْمسْجُوْنانِ؟             ھلْ اُطْلِقتِ الْمسْجُوْنتانِ؟

ھلِ الْمسْجُوْنانِ اُطْلِقا؟              ھلِ الْمسجُوْنتا نِ اُ طلِقتا؟

کیا دو مرد قیدی رہا کر دئے گئے ؟   کیا دو خواتین قیدیاں رہا کر دی گئیں ؟

ھلْ اُطْلِق الْمسْجُوْنُوْن؟     ھلْ اُطْلِقتِ الْمسْجُوْناتُ؟

ھلِ الْمسْجُوْنُوْن اُطْلِقُوْا؟    ھلِ المسْجُوْناتُ اُطْلِقْن؟

کیا سب مرد قیدی رہا کر دئے گئے ؟ کیا سب خواتین قیدیاں رہا کر دی گئیں ؟

ھلْ اُطْلِقْت یا طارِقُ!؟            ھل اُطْلِقْتِ یا زیْنبُ!؟

اے طارق! کیا آپ کو رہا کر دیا گیا ہے ؟    اے زینب کیا آپ رہا کر دی گئی ہے ؟

ھلْ اُطْلِقتُمایِا مُوْسیٰ و عِیْسیٰ!؟       ھلْ اُطْلِقْتُما یا زیْنبُ و مرْیمُ!؟

اے موسیٰ و عیسیٰ!کیا آپ دونوں  کو رہا کر دیا گیا ہے ؟        اے زینب اور مریم! کیا آپ دونوں کو رہا کر دیا گیا ہے ؟

ھلْ اُطلِقْتُما یا اسِیْرانِ!؟   ھلْ اُطلِقتُما یا اسِیْرتانِ؟

اے دو مرد قیدیو! کیا تم دونوں کو رہا کر دیا گیا ہے ؟   اے دو خواتین قیدیو۱کیا تم دونوں کو رہا کر دیا گیا ہے

ھلْ اُطْلِقْتُمْ یا اُساریٰ؟             ھلْ اُطْلِقْتُنّ یا اسِیْراتُ!؟

اے مرد قیدیو!کیا تم سب رہا کر دئے گئے ہیں ؟      اے خواتین قیدیو!کیا تم سب رہا کر دی گئی ہیں

ھلْ اُطْلِقْتُمْ یا زیْدُ وبکْرُ وطاِرِقُ!؟    ھلْ اُطْلِقْتُنّ یا مارِیۃُ و سارِیۃُ و آمِنۃُ!؟

اے زید، بکر اور طارق!کیا تم سب رہا کر دئے گئے ہیں؟      اے ماریہ، ساریہ اور آمنہ! کیا تم سب رہا کر دی گئی ہیں ؟

ھلْ اُطْلِقْتُمْ یا سُجنا ءُ!؟             ھلْ اُطلِقْتُنّ یا سجِیْناتُ!؟

اے مرد قیدیو! کیا تم سب رہا کر دئے گئے ہیں؟     اے خواتین قیدیو! کیا تم سب رہا کر دی گئی ہیں ؟

ھلْ اُطْلِقْتُ؟                    ھلْ اُطْلِقْتُ؟

کیا میں ایک مرد رہا کر دیا گیا ہوں ؟         کیا میں ایک خاتون رہا کر دی گئی ہیں ؟

ھلْ اُطْلِقْنا؟                      ھلْ اُطْلقْنا؟

کیا ہم سب مرد رہا کر دئے گئے ہیں ؟        کیا ہم سب خواتین رہا کر دی گئی ہیں ؟

 

اِسم الفاعل، اِسم المفعول اور صفت مشبہہ کے اسباق پر ایک مختصر محادثہ

السّلامُ علیْکُمْ یا ابِیْ!( یا والِدِیْ!)

میرے ابّو! آپ کو اللہ سلامت رکھے۔

و علیْکُمُ السّلامُ یا ابْنِیْ!(یا ولدِیْ!)

میرے بیٹے ! اللہ آپ کو بھی سلامت رکھے

کیْف حالُک یا والِدِیْ!؟

میرے ابّو۱ آپ کے مزاج کیسے ہیں ؟

حیّاک اللہ یا ولدِیْ! انا بِخیْرٍ( انا بِعافِیۃٍ)(انا بِسلامۃٍ)

میرے بیٹے !اللہ آپ کو مزید زندگی دے میں بخیر و عافیت ہوں۔

یا ابِیْ انت تخْرُجُ کُلّ یوْمٍ مِن الْبیْتِ صباحًا و مساءً ما ذا تعْملُ(تشْتغِلُ)

میرے ابّو!آپ روزانہ صبح و شام گھر سے باہر جاتے ہیں بتایئے ! آپ کیا کام کرتے ہیں ؟

صحِیْحٌیا ولدِیْ! انا اعْملُ مھُنْدِسًا فِیْ الْمعْمل الہنْدسِیِّ صباحًاواشْتغِلُ مُوظّفًا فِیْ مکْتبِ الْجِوازاتِ مساءً واعْملُ فِیْ الْمُسْتشْفیٰ طبِیْبًا لیْلًا

بات درست ہے میرے بیٹے ! میں صبح اِنجنیِرنگ ورکشاپ میں اِنجنیِر کی حیثیت سے شام کو پاسپورٹ آفس میں کلرک کی حیثیت سے اور رات کو ہسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں

یا ابِیْ! وظائِفُک حسنۃٌ مغْبُوْطۃٌ

میرے ابّو! آپ کے سب کام اچھے اور قابلِ رشک ہیں۔

یا ولدِیْ! کُنْ طالِبًا مُجْتہِدًا فِیْ جمِیْعِ الْموادِّ الدِّراسِیّۃِ فستنالُ وظِیْفۃً مرْغُوْبۃًکما نِلْتُ

میرے بیٹے !آپ تمام درسی مضامین میں محنتی طالبِ علم بن جائیے تو آپ کوبھی پسند کی نوکری ملے گی جس طرح مجھے ملی ہے۔

یا ابِیْ انا اُحِبُّ انْ اکُوْن مُعلِّمًا لِلْعُلُوْمِ الْاِسْلامِیّۃِما رأْیُک فِیْ ذالِک؟

میرے ابّو! میں تو اِسلامی علوم کا ٹیچر بننا چاہتا ہوں اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

یا ولدِیْ فِکْرتُک طیِّبۃٌ مشْکُوْرۃٌفاِذنْ یجِبُ علیْک انْ تدْرُس اللُّغۃ الْعربِیّۃ مع قواعِدھِامُنْذُ الْبِدایۃِلِیکُوْن ذالِک مُساعِدًا لِتحْقِیْقِ رغْبتِک

میرے بیٹے ! آپ کی سوچ اچھی اور قابل قدر ہے پھر تو آپ کو شروع ہی سے گرامر کے ساتھ عربی زبان سیکھنی ہو گی تاکہ یہ آپ کی دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے مددگار بن جائے

یا ابِیْ! دُلّنِیْ ھلِ الْقواعِدُ الْعربِیّۃُ سہْلۃٌ امْ صعْبۃٌ؟

میرے ابُّو! مجھے بتائیے ! کہ عربی گرامر آسان ہے یا کہ مشکل؟

یا ولدِیْ!صدِّقْنِیْ اِنّ الْقواعِد الْعربِیّۃ سہْلۃٌلِلْمُجِدِّیْن وصعْبۃٌلِلکسْلانِیْن

میرے بیٹے ! یقین جانئیے ! کہ عربی گرامر دل لگا کر پڑھنے والوں کے لیے نہایت آسان ہے اورسستی برتنے والوں کے لیے مشکل ہے

یا ابِیْ لِماذا تجِبُ دِراسۃُ اللُّغۃِ الْعربِیّۃِ مع قواعِدھِا لِطالِبِ الْعُلُوْمِ الْاِسْلامِیّۃِ؟

میرے ابّو!علوم اِسلامیہ کے طالب علم کے لیے گرامر کے ساتھ عربی زبان کو سیکھنا کیوں ضروری ہے ؟

یا ولدیْ! تجِبُ دِراسۃُ الْعربِیّۃِمع قواعِدھِالان الْعُلُوْم الْاِسْلامِیۃ مُدوّنۃٌ فِیْ الْعربِیّۃ ورسُوْلُنا عربِیٌّ والْقُرْآنُ عربِیٌّفلنْ نفْہم دِیْننا اِنْ لمْ ندْرُسِ للُّغۃ الْعربِیّۃمع قواعِدھِا

میرے بیٹے ! گرامر کے ساتھ عربی زبان کو سیکھنا اِس لئے ضروری ہے کیونکہ تمام علوم اِسلامیہ عربی زبان میں مدون ہیں نیز ہمارے پیغمبر کی زبان بھی عربی تھی اور اُن پر اترنے والی کتاب جو کہ قرآن ہے وہ بھی عربی زبان میں ہے لہذا ہم اپنے دین کو ہرگز سمجھ نہیں سکتے اگر ہم نے عربی زبان کو اُس کی گرامر کے ساتھ نہیں سیکھا

یا ابِیْ! ما ھِی عُلُوْمُ قواعِدِ اللُّغۃِ الْعربِیّۃِ؟

میرے ابّو!عربی گرامر کے علوم کونسے ہیں ؟

یاولدِیْ! اِنّ قواعِدا اللُّغۃِ الْعربیۃِ مُشتمِلۃٌ علیٰ سبْعۃِ عُلُوْمٍ ھِی:عِلْم الصّرْفِ و عِلْمُ النّحْوِ و عِلْمُ الْبیانِ وعِلْمُ الْبدِیْعِ و عِلْمُ الْقِراءاتِ وعِلْمُ التّجْوِیْدِ

میرے بیٹے !بیشک عربی گرامر سات علوم پر مشتمل وہ علوم یہ ہیں :علم الصرف، علم النّحو، علم البیان، علم المعانی، علم البدیع، علم القراء ات، علم التّجوید

یا ابِیْ! ارْشِدْ نِیْ اِلیٰ کِتابٍ جامِع ٍلھِٰذِہٖ الْعُلُوْمِ

میرے ابّو!آپ میری ایسی کتاب کی رہنمائی کیجئے جو اِن تمام علوم کو اپنے اندر سموتی ہو

یا ولدِیْ! اِنْ کُنْت صادِقًا فِیْ قوْلِک فادْرُسْ (جامِع القواعِدِ الْعربِیّہِ)

میرے بیٹے ! اگر آپ اپنی بات میں سچّے ہیں تو آپ(جامع القواعد العربیہ) نامی کتاب پڑھیں

یا ابِیْ! لِماذا فضّلْت دِراسۃ ھٰذا الْکِتابِ علیٰ الْکُتُبِ الْاُخْریٰ؟

میرے ابّو! آپ نے کس وجہ سے دوسری کتب پر اِس کتاب کے پڑھنے کو ترجیح دی ہے

یا ولدِیْ!اِنّ ھٰذا الْکِتاب لحقِیْقٌبِانْ یُفضّل علی الْکُتُبِ الْاُخْریٰ لِانّ مُؤلِّفہٗاِسْتکْمل فِیْہِ جمِیْع نواحِیْ الْقو اعِدِ الْعربِیّۃِ

میرے بیٹے !بلا شبہ یہ کتاب حق رکھتی ہے کہ دوسری کتب پر اِسے ترجیح دی جائے کیونکہ اِس کے مؤلّف نے اِس کے اندر عربی زبان کی گرامر کے تمام پہلوؤں کو گھیرا ہے

 

 

 

سبق نمبر چھ پر اسئلہ و تمارین

 

۱۔       مختلف معانی کے حصول کے لیے اِسم المفعول کے الفاظ کی اہمیت بیان کریں۔

۲۔      اِسم المفعول کی تعریف کریں۔

۳۔      اِسم المفعول کے مختلف صیغے بنانے کا صرفی طریقہ بیان کریں۔

۴۔      اِسم المفعول کی گردان کریں اور معانی بھی ساتھ ساتھ بیان کریں۔

۵۔      اِسم المفعول کے صیغوں سے مختلف معانی حاصل کرنے کے صرفی اصول کونسے ہیں ؟

۶۔      سبق نمبر چھ میں آپ نے جو مکالمہ پڑھا ہے اُس میں موجود اِسم الفاعل، اِسم المفعول اور صفت مشبّہہ کے الفاظ کو الگ کریں۔

۷۔      اِسم الفاعل کے الفاظ کا ترجمہ کریں۔

مُعلِّمٌ۔ مُساعِدٌ۔ عافِیۃٌ۔ مُہنْدِسٌ۔ مُؤلِّفٌ۔ جامِعٌ۔ صادِقٌ۔ مُشْتمِلۃٌ۔ طالِبٌ۔ مُجْتہِدٌ۔ مُجِدٌّ

۸۔      صفاتِ مشبّہہ کے الفاظ کا ترجمہ کریں۔

حقِیْقٌ۔ بدِیْعٌ۔ سہْلۃٌ۔ صعْبۃٌ۔ کسْلانٌ۔ طیِّبۃٌ۔ وظِیْفۃٌ۔ حسنۃٌ۔ طبِیْبٌ۔ صحِیْحٌ۔

۹۔      اِسم المفعول کے الفاظ کا ترجمہ کریں۔

مُدوّنۃٌ۔ مشْکُوْرۃٌ۔ مغْبُوْطۃٌ۔ مرْغُوْبۃٌ۔ مُوظّفٌ۔

٭٭٭

 

الدّرس السّابِعُ

 

 علم المعانی کے ما تحت پڑھے جانے والے موضوعات کی تفصیلات

 

 

اگلے اسباق میں آپ اِن موضوعات کی خاطر خواہ تفصیلات پڑھیں گے اُس سے قبل اِن موضوعات سے آپ کو آگاہ کیا جا رہا ہے تاکہ آپ ابھی سے اُن کو پڑھنے کے لیے مستعد ہو جائیں نیز اِن موضوعات کی اہمیت کا بھی آپ کو اندازہ ہو جائے۔

[۱]    حروفِ جارّہ کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۲]    حروفِ ناصبہ کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۳]    حروفِ جازمہ کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۴]    حروفِ عطف کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۵]    حروفِ ندا کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۶]    حروفِ اِستفہام کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۷]   حروفِ شرط کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۸]    حروفِ تحضیض کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۹]    حروفِ ردعْ کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۱۰]   حروفِ نافیہ کے مطلوبہ معانی کی پہچان۔

[۱۱]   الفاظ کو معرفہ بنانے کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۲]   الفاظ کو نکرہ اِستعمال کرنے کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۳]   امر کے صیغوں کے اِستعمال کی حیثیتوں کی پہچان۔

[۱۴]   نہی کے صیغوں کے اِستعمال کی حیثیتوں کی پہچان۔

[۱۵]   تاکیدات اِستعمال کرنے کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۶]   موصوف کے لئے صفات اِستعمال کرنے کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۷]  اسماء الشرط کے استعمال کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۸]   حروفِ مشبّہہ بالفعل کے اِستعمال کے مقاصد کی پہچان۔

[۱۹]   افعالِ ناقصہ کے اِستعمال کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۰]  افعالِ مقاربہ، افعالِ شروع اور افعال، رجاء کے اِستعمال کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۱]   اِنْ، اِذا، لوْ شرطیہ کے اِستعمالات مین فرق کی پہچان۔

[۲۲]  (مطلق ومقیّد)(عام و خاص)(مشترک و مؤل)(مجمل و مفسّر)(صریح و کنایہ)(حقیقت و مجاز)وغیرہ کے عنوانات کے استعمالات کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۳]  جملوں میں افعال کے متعلّقات(مفاعیلِ خمسہ، حال، ظروفِ زمان و مکان، جار و مجرور)کے اِستعمالات کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۴]  جملوں میں مسند اِلیہ و مسند کے اِستعمال کے مقاصد اور اُن میں سے کسی ایک کو حذف کرنے کی بلاغی وجوہات کی پہچان۔

[۲۵]  حصر، قصر، اِستثناء کے اسلوب کو استعمال کرنے کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۶]  (فصل و وصل)(اِیجاز واِطناب و مساوات)تکرار و ترادفِ الفاظ کی خامی و خوبی کی پہچان۔

[۲۷]  جملوں کو (اِسمیہ، فعلیہ، اِنشائیہ) کے اسلوب میں استعمال کرنے کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۸] جملۂ اِسمیہ وفعلیہ کے اُسلوب میں مخاطب سے ہمکلام ہونے کے مقاصد کی پہچان۔

[۲۹]         اقسامِ معرفہ میں سے ہر ایک کے اِستعمال کی الگ الگ اہمیت کی پہچان۔

 

علم البدیع کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کی تفصیلات

 

(محسّنات بدیعیہ معنویّہ )جو کسی بھی گفتگو میں معنیٰ کو دلفریب بناتے ہیں۔

[۱]    توریہ کا اِستعمال کرنا۔

[۲]   اِستخدام کا اِستعمال کرنا۔

[۳]    اِستطرادکا اِستعمال کرنا۔

[۴]    اِفتنان کا اِستعمال کرنا۔

[۵]    طباق کا اِستعمال کرنا۔

[۶]    مقابلہ کا اِستعمال کرنا۔

[۷]   مراعاۃ النّظیر کا اِستعمال کرنا۔

[۸]    اِرصاد کا اِستعمال کرنا۔

[۹]    اِدماج کا اِستعمال کرنا۔

[۱۰]   مذہبِ کلامی(منطقی اندازِ اِستدلال) کا اِستعمال کرنا۔

[۱۱]   حسن التّعلیل کا اِستعمال کرنا۔

[۱۲]   تجرید کا اِستعمال کرنا۔

[۱۳ ] مُشاکلہْ کا استعمال کرنا۔

[۱۴]   مُزاوجہْکا اِستعمال کرنا۔

[۱۵]   طیّ و نشر(لفّ و نشر) کا اِستعمال کرنا۔

[۱۶]   جمع کا اِستعمال کرنا۔

[۱۷]  تفریق کا اِستعمال کرنا۔

[۱۸]   تقسیم کا اِستعمال کرنا۔

[۱۹]   جمع مع التّفریق کا اِستعمال کرنا۔

[۲۰]  جمع مع التّقسیم کا اِستعمال کرنا۔

[۲۱]   مبالغہ کا اِستعمال کرنا۔

[۲۲]  مغایرہ کا اِستعمال کرنا۔

[۲۳]  تاکید المدح بما یشبہ الذّم کا اِستعمال کرنا۔

[۲۴]  تاکید الذّم بما یشبہ المدح کا اِستعمال کرنا۔

[۲۵]  توجیہ کا اِستعمال کرنا۔

[۲۶]  فرق بین التّوریہ والتّوجیہ کا اِستعمال کرنا۔

[۲۷]  القول بالموجب کا اِستعمال کرنا۔

[۲۸]  اِئتلاف اللفظ مع المعنیٰ کا اِستعمال کرنا۔

[۲۹]  تفریع کا اِستعمال کرنا۔

[۳۰]  اِستتباع کا اِستعمال کرنا۔

[۳۱]   سلب والایجاب کا اِستعمال کرنا۔

[۳۲]  اِبداع کا اِستعمال کرنا۔

[۳۳]  اُسلوب الحکیم کا اِستعمال کرنا۔

[۳۴]  تشابہ الاطراف کا اِستعمال کرنا۔

[۳۵]  تجاہل العارف کا اِستعمال۔

[۳۶]  عکس کا اِستعمال کرنا۔

 

محسّنات بدیعیّہ لفظیّہ(جو کسی بھی گفتگو میں الفاظ کو دلفریب بناتے ہیں )

[۱]    جناس کا اِستعمال کرنا۔

[۲]    تصحیف کا اِستعمال کرنا۔

[۳]    اِزدواج کا اِستعمال کرنا۔

[۴]    سجع کا اِستعمال کرنا۔

[۵]    موازنہ کا اِستعمال کرنا۔

[۶]    ترصیع کا اِستعمال کرنا۔

[۷]   تشریع کا اِستعمال کرنا۔

[۸]    لزوم ما لا یلزم کا اِستعمال کرنا۔

[۹]    رد العجز علیٰ الصدر کا اِستعمال کرنا۔

[۱۰]   ما لا یستحیل بالانعکاس کا اِستعمال کرنا۔

[۱۱]   مواربہ کا اِستعمال کرنا۔

[۱۲]   اِئتلاف اللّفظ مع اللّفظ کا اِستعمال کرنا۔

[۱۳]   تسمیط کا اِستعمال کرنا۔

[۱۴]   اِنسجام یا سہولہ کا اِستعمال کرنا۔

[۱۵]   اِکتفاء کا اِستعمال کرنا۔

[۱۶]   تطریز کا اِستعمال کرنا۔

 

مشقی سوالات وتمرینات

 

[س]  عربی گرامر کے شعبے کون کونسے ہیں ؟

[س]  عربی گرامر کے شعبوں سے واقفیت کی اہمیّت بیان کریں۔

[س]  عربی گرامر کے شعبوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ تعریف کریں۔

[س]  عربی گرامر کے شعبوں میں سے کونسے دو شعبے دوسرے شعبوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور کیوں ؟

[س]  علمائے گرامر نے علم الصّرف اور علم النّحو کی اہمیّت کو کن الفاظ میں سراہا ہے ؟

[س]  علمِ صرف کو تمام علوم کی ماں اور علم نحو کو تمام علوم کا باپ کہنے کی وجہ بیان کریں۔

[س]  قرآنِ کریم کو عربی گرامر کے علوم کا مرقّع اور البم کیوں کہا جاتا ہے ؟

[س]  سبق نمبر ایک اور دو کی مدد سے جواب دیں کہ زمانۂ نزولِ قرآن کے ماہرینِ لغت قرآنی چیلنچ کو کس وجہ سے پسپا نہ کر سکے ؟

[س ]  علمِ صرف و نحو کا کردار بیان کریں۔

[س]  علمِ صرف کے تحت کون کونسے موضوعات پڑھے جاتے ہیں ؟

[س]  علمِ نحو کے تحت کون کونسے موضوعات پڑھے جاتے ہیں ؟

[س]  علمِ بیان کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کون کونسے ہیں ؟

[س]  علمِ معانی کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کون کونسے ہیں ؟

[س]  علمِ بدیع کے تحت پڑھے جانے والے موضوعات کون کونسے ہیں ؟

[س]  محسّناتِ بدیعیّہ معنویّہ کون کونسے ہیں ؟

[س]  محسّناتِ بدیعیّہ لفظیّہ کون کونسے ہیں ؟

[س]  علمِ تجوید و قراء ات کی الگ الگ تعریف کریں۔

[س]  کیا علمِ تجوید کا جاننا صرف تلاوتِ قرآن کے لیے ضروری ہے ؟

[س]  قرآنِ پاک کی تلاوت کے علاوہ علمِ تجوید کا پڑھنا کن امور کے لیے ضروری ہے ؟

[س]  علمِ تجوید کو علم التّرتیل کب کہا جا تا ہے ؟

[س]  ترتیل کے دوسرے نام کونسے ہیں ؟

[س]  علمِ قراء ات کا جاننا کن اُمور کے لیے ضروری ہے ؟

[س]  علم قراء ات کے تحت کون کونسے موضوعات جانے جاتے ہیں

[س]  قرآنِ کریم، حدیثِ رسولﷺ اور عربی زبان کے الفاظ کو مختلف لہجوں اور تلفظ میں پڑھنے کی اِجازت کب ہے ؟

[س]  علمِ تجوید اور قراء ات کا عربی گرامر سے کیا تعلّق ہے ؟

٭٭٭

ماخذ:

تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبۂ جبرئیل، جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید