لفظ
صبا اکبر آبادی
ہے عجب حال جہانِ فتنہ گر کیا کیجئے
اجنبی لگنے لگے دیوار و در کیا کیجئے
ہر نظارہ ہو گیا ہے بے اثر کیا کیجئے
دیکھئے کیا ، شکوہ ضعفِ اثر کیا کیجئے
ہو اگر عَالم میں ہر سو انجمن آرائی ہے
اب تو ہم ہیں اور ہمارا گوشہ تنہائی ہے
دل میں بے رنگی سی ہے اَب رنگ دنیا دیکھ کر
جی بہلتا ہی نہیں گلزار و صحرا دیکھ کر
کوئی موج اُٹھتی نہیں امواجِ دریا دیکھ کر
فائدہ کیا بزمِ ہستی کا تماشہ دیکھ کر
گرمی محفل کہاں ، بزمِ زمانہ سَرد ہے
رنگِ گلشن بھی نگاہِ شوق میں اب گرد ہے
مشکلاتِ زندگی میں طرزِ آسانی نہیں
اَب کسی محفل میں کوئی نغمہ سامانی نہیں
بحرِ ہستی پر سکوں طاری ہے ، طغیانی نہیں
پیاس جو دل کی بُجھا دے وہ کہیں پانی نہیں
ذہن لاغر ہو گیا ہے ضعفِ جاں کا زور ہے
فکر کے لب خُشک ہیں بس العطش کا شور ہے
اہلِ فن عُزلت گزیں ہیں اہلِ دل ہیں گوشہ گیر
اب جو ہیں منبر نشیں اپنی جگہ سَب بے نظیر
نونہالانِ چمن سے ہیں تمنائیں کثیر
اپنے دامِ فکر میں ہم خود ہی رہتے ہیں اسیر
اَب نہ وہ محنت ، نہ وہ مشقِ سخن کا دور ہے
اور تھا اپنا زمانہ ، یہ زمانہ اور ہے
اَب کہاں جا کر سنایا جا سکے غم کا اثر
اب خذف کے مول بِکتے ہیں معانی کے گُہر
رفتہ رفتہ ہو گئے رُخصت جو تھے اہلِ نظر
قدر داں گُم ہو گئے کیا کیجئے عرضِ ہُنر
اب شبابِ شعر کیا آئے گا عہدِ شیب میں
فکر حاضر نذر کرنا ہے حضورِ غیب میں
اپنی عُمرِ شاعری میں یہ رہا اپنا چلن
خدمتِ اربابِ دانش صحبتِ اہلِ سخن
منجلی کرتے رہے آئینہ افکار و فن
پھر کہیں جا کر ہوا شاداب مدحت کا چمن
آتشِ افکار سے انفاس تھے دہکے ہوئے
تھے کبھی الفاظ پھولوں کی طرح مہکے ہوئے
لفظ کیا ہے فکرِ انسانی کا اِک سادہ لباس
باوجود سادگی ہیں رنگ جس کے بے قیاس
لفظ ، بنیادِ تخیل ، لفظ خطبوں کی اساس
لفظ ، اظہارِ تکبر ، لفظ اندازِ سپاس
لفظ پتھر بھی ہے ، موتی بھی ، ثمر بھی پھول بھی
لفظ ہی مردُود بھی ہے لفظ ہی مقبول بھی
لفظ فطرت کا نگینہ ، لفظ شعروں کا نکھار
نثر کا زیور ہے ، باغِ نظمِ رنگیں کی بہار
لفظ قرطاس و قلم کی آبرُو کا ذمہ دار
لفظ اوراقِ کتاب زیست پر نقش و نگار
گو بظاہر لفظ اِک اُلجھی ہوئی آواز ہے
نغمگی سوزِ ہستی کے لئے یہ ساز ہے
لفظ ناموسِ ادب ہے لفظ جذبے کا نقاب
وقت پر اُبھرے تو روشن ہو مثالِ آفتاب
لفظ کے جُرعے اثر کرتے ہیں مانندِ شراب
لفظ ہی جانِ تکلم لفظ ہی روحِ کتاب
حکمرانی لفظ کی ہے عِلم کی اقلیم پر
عظمتیں مجبور ہیں خود لفظ کی تعظیم پر
لفظ تھے اپنے کھلونے ، لفظ اپنے مشغلے
زندگی لفظوں میں گذری انکے سائے میں پلے
ہر قدم پر سامنے الفاظ کے تھے مرحلے
لفظ ہر جانب ہمیں انگلی پکڑ کر لے چلے
گردشیں کرتی رہی لفظوں پہ ساری زندگی
ہم نے لفظوں کے مکانوں میں گذاری زندگی
لفظ کو جب دی بُلندی اِک ستارہ بن گیا
آتشِ دل میں تپایا تو شرارہ بن گیا
اِک ذرا سی جنبشِ لب پا کے پارہ بن گیا
رنگ جس میں بھر دیا جانِ نظارہ بن گیا
لفظ کی عینک لگا کر ایک دنیا دیکھ لی
لفظ کے ذرے میں ہم نے روحِ صحرا دیکھ لی
لفظ کی تقدیس پر آنے نہیں پایا ہے حرف
اِس خزانے کو غلط صُورت نہیں کرتے تھے صرف
شعلہ سامانی میں بھی بن کر رہا مانندِ برف
لفظ کا سب پر ہوا ہے نشہ لیکن، حسبِ ظرف
لفظ مے بھی ہے، سبُو بھی، جام بھی، مینا بھی ہے
لفظ ہی رُوحِ عنب ہے ساغرِ صہبا بھی ہے
دن گذر جاتے تھے اکثر لفظ کی تصحیح میں
راتیں کٹ جاتی تھیں پیہم کوشش توضیح میں
ذہن رہتا تھا پریشاں لفظ کی تشریح میں
پھر کہیں بڑھتا تھا دانہ لفظ کا تسبیح میں
ذہن رہتا تھا سمندر میں سفینے کی طرح
پھر کہیں اِک لفظ ملتا تھا نگینے کی طرح
ذہن میں اکثر اُبھر آتا تھا اِک سادہ سوال
کس طرح امکان کی صورت میں بدلا ہے محال
یہ سمندر ، یہ زمیں ، یہ کوہ و صحرا ، یہ نہال
کیوں بنے ، کیسے بنے ، کس نے دکھایا یہ کمال
جُڑ گئے کیسے ستارے پردہ افلاک پر
فرش سبزے کا بچھایا ہے یہ کس نے خاک پر
عالمِ اسباب کیا ہے اور مُسبب کون ہے
خالقِ ہر دوسَرا جب کون تھا اب کون ہے
پالتا ہے جو کرم سے سب کو وہ رَب کون ہے
جس نے پیدا کر دیا ہے کھیل یہ سب ، کون ہے
فرش مٹی کا بچھا پردے فلک کے تن گئے
بازگشتِ لفظ سے کس کی دو عالم بن گئے ؟
ملہم غیبی نے فوراً دے دیا اس کا جواب
غور اپنے نفس پر کر کبھی غفلت مآب
دل میں اطمینان پیدا کر غلط ہے اضطراب
خالقِ کُل کی یہ صناعی ہے بے حد و حساب
رب اعلیٰ وہ جو ہے آغاز و بے انجام ہے
نیستی کو ہست کر دینا اُسی کا کام ہے
عالمِ خاموش کو جس نے عطا کر دی صدا
ایک سناٹا تھا وہ اب جو ہے معمور نوا
پتھروں کو جس نے قدرت سے سکھایا بولنا
پاؤں کی آہٹ سی ہوتی ہے جو چلتی ہے ہوا
جا بجا فانوس روشن کر دیئے الفاظ کے
بے زبانی میں خزانے بَھر دیئے الفاظ کے
پہلا لفظ کُن تھا ، یہ دنیا ہے جس کی باز گشت
ہیں اُسی کی گونج یہ کوہ و دمن دریا و دشت
عالمِ وحدانیت میں کیا ہو بحثِ ہفت و ہشت
حرف دو تھے ، لفظِ واحد بن کے ہے یہ سر گذشت
اُس کی قدرت ہے نُمایاں عالمِ ایجاد سے
ذاتِ واحد ہے مبرا ، ہے مگر اعداد سے
ارواں بھی لفظ ہے جادہ بھی اور منزل بھی لفظ
حَال بھی اِک لفظ ہے ، ماضی و مستقبل بھی لفظ
قتل بھی اِک لفظ ہے ، مقتول اور قاتل بھی لفظ
ایک لفظِ حق ہے اُس کے سامنے باطل بھی لفظ
آشنائے حق جو ہو باطِل سے وہ ڈرتا نہیں
جو سمجھ لے لفظ کے معنی کبھی مرتا نہیں
کربلا بھی لفظِ حق کی مستقل تفسیر ہے
خونِ اہلِ بیت سے لکھی ہوئی تحریر ہے
کربلا بابِ حَریمِ صَبر کی تعمیر ہے
اِس زمیں پر گُلشنِ فردوس کی تصویر ہے
پانچ حرفوں میں نہاں قرآن کی تعلیم ہے
ایک لفظِ کربلا منزلِ گہہِ تعظیم ہے
آئیے بزمِ عزا سے کربلا چلتے ہیں ہم
خاک بر سَر ، دَست بر دل ، اے صبا چلتے ہیں ہم
اپنی آنکھوں میں لئے اشکِ عزا چلتے ہیں ہم
جَانبِ دربارِ مقتولِ جَفا چلتے ہیں ہم
ہیں گُلِ باغِ نبی جس میں، وہ گُلشن دیکھ لیں
فاطمہ کے لال کا پُر نور مَدفن دیکھ لیں
کربلا ہر ذرہ جس کا ہے جوابِ آفتاب
کربلا خوابِ خلیل اللہ کی تعبیرِ خواب
کربلا حق کی بلندی کا نشاں رفعت مآب
کربلا گنجینہ انوارِ ابنِ بو تراب
کربلا مختص ہے شبیر گرامی کے لئے
کربلا جس پر فلک خم ہے سلامی کے لئے
کربلا پہنائے سطحِ خاک کا رنگیں ورق
کربلا کے لفظ میں توقیرِ مذہب کا سبق
کربلا باطل شکار و کربلا عنوانِ حق
کربلا جس کے بیاں سے دل ہوئے جاتے ہیں شَق
کربلا جس میں ہے اِک مردِ جَری سویا ہوا
کربلا ہر ذرہ جس کا خون سے دھویا ہوا
خون بھی کس کا، نبی کی گود کے پالے کا خون
جسم میں جس کی روانی قلب میں جس کا سکون
کربلا جس نے مٹایا اہلِ نخوت کا جنون
رُعبِ شاہی کا نہ جس پر چل سکا کوئی فسون
خون وہ جو غازہ کارِ عارضِ ایّام ہے
جس کی سُرخی آبروئے ملت ِ اسلام ہے
کیوں بَہا وہ خون؟ کیوں کاٹا گیا اس کا گلا
کیوں بھرا کنبہ مٹا، کیوں اُس کا آخر گھر جلا؟
ظلم، ایسا ظلم، یوں ظاہر بظاہر، برملا
بول سکتی ہو تو منہ سے بول ارضِ کربلا
لفظ ہوں تجھ میں اگر کچھ اطلاعِ راز دے
کربلا ہاں اے زمینِ کربلا آواز دے
تیری خاموشی تیرے ماتم کی ہے آئینہ وار
ساڑھے تیرہ سو برس سے تو بھی ہے یوں سوگوار
ہاں بہتر چاند تارے ہیں تیرے زیرِ کنار
تیرا سرمایہ محمد کے نواسے کا مزار
جنت گنج شہیداں ہے تیرے آغوش میں
کیسے کیسے لفظ ہیں تیرے لب خاموش میں
کربلا ہے تجھ سے کتنی دُور وہ نہر فرات
جس کے پانی سے رہی محروم مظلوموں کی ذات
تشنگی جس سے بجھاتی تھی سپاہِ بد صفات
موت تھی سیراب جس سے اور پیاسی تھی حیات
تر نہ اپنے لب کئے اک صاحبِ احساس نے
جس کے ساحل پر تیمم کر لیا عباس نے
آج تک پھیلی ہے تجھ میں چار سو اک روشنی
روکشِ اوجِ فلک ہے روضہ سبطِ نبی
ایک اک ذرے میں لہریں لے رہی ہے زندگی
استراحت کر رہی ہے تجھ میں اولادِ علی
دامنِ دریا پہ خاکِ آستیں جھاڑے ہوئے
شیر اک ساحل پہ سوتا ہے علم گاڑے ہوئے
تجھ پہ اترا تھا کبھی آل نبی کا قافلہ
تھا مدینے سے یہاں تک نور کا اک سلسلہ
یاد تو ہو گا تجھے صبر و رضا کا مرحلہ
حق و باطل کا ہوا تھا تیرے گھر میں فیصلہ
تو نے دیکھے ہیں کرشمے گردشِ ایّام کے
تیرے ہی صحرا پہ گھر آئے تھے بادل شام کے
وہ علی کا لاڈلا وہ فاطمہ کا نورِ عین
قلب عالم کی تسلی خاطرِ زینب کا چین
وہ حسینِ لالہ رُخ منبر کی جس سے زیب و زین
وہ حَسن کا نقشِ ثانی نام تھا جس کا حُسین
حُسن جس کے رُوئے روشن کی بلائیں لیتا تھا
خود جسے اسلام جینے کی دُعائیں دیتا تھا
کوفیوں کے وعدہ باطل پہ کر کے اعتبار
چھوڑ کر بیمار بیٹی کو مدینے میں نزار
گھر سے نکلا تھا کہ رکھے دینِ احمد کا وقار
چاہتا یہ تھا رہے قرآن و سنّت کا وقار
مومنوں کے سر پہ کوئی جابرِ مطلق نہ ہو
دین پر آئے نہ زد قرآن کا دل شق نہ ہو
کچھ جوانانِ قریشی، چند بچے، بیبیاں
جنگ کا سامان تھا کوئی نہ عزمِ خوں چکاں
دین و ایماں کی حفاظت، صُلح کل دردِ زباں
پشت پر قبرِ محمد سامنے باغِ جناں
ایک پیغامِ محبت امنِ عالمگیر کا
تھا علم میں ایک پھریرا چادرِ تطہیر کا
یہ سنا تھا حکمِ خالق ہو رہا ہے پائمال
سنتِ پیغمبری کی پیروی ہے اب محال
ہے جمالِ حق پہ غالب زعمِ شاہی کا جلال
سلب ہے اب فسق سے انکار کرنے کی مجال
کون دیکھے آج کل انسان ہیں کس حال میں
قید ہیں آزاد بھی اب سیم و زر کے جال میں
سیم و زر کے جال تھے ہر دور میں وجہ جمود
جن میں تھے پابند مدت سے نصاریٰ و یہود
تھے گوارا خود اسیروں کو یہ اسلوبِ قیود
رد نہ اب تک کر سکا جس کو نبیوں کا ورود
مسخ کر کے رکھ دیا پیغمبری قانون کو
اپنے ہی الفاظ میں ڈھالا تھا ہر مضمون کو
جہل میں صدیوں سے تھی ارضِ عرب بھی مبتلا
ختم ہوتا ہی نہ تھا جوشِ جنوں کا سلسلہ
اُس بیاباں میں گُلِ وحدانیت آخر کھُلا
لفظِ واحد جس سے پہلی بار دُنیا کو ملا
منکروں کے لب سِلے یارا نہ تھا تردید کا
پتھروں میں بو دیا اُس نے شجر توحید کا
وہ نہالِ دیں جو تھا سرمایہ خیرالبشر
جس کی نزہت امن اور وحدانیت جس کا ثمر
جس کے سائے میں تر و تازہ ہوئے علم و ہُنر
جس کے متوالوں نے دنیا جیتی بے تیغ و سپر
وحشتیں جس کی ہوا سے عقل ساماں ہو گئیں
جس کی نکہت سے فضائیں عنبر افشاں ہو گئیں
آمنہ کی گود میں روشن تھا کعبے کا چراغ
منزلِ ظلمات میں توحید کا پہلا چراغ
روشنی جس کی ازل سے تا ابد ایسا چراغ
ہو گیا ہر ایک قصرِ جہل کا ٹھنڈا چراغ
لَو بڑھی ایسی محمد مصطفےٰ کے نام کی
روشنی ہر سمت پھیلا دی خدا کے نام کی
وہ یتیمِ کعبہ ، وہ سارے یتامیٰ کا کفیل
لفظ جس کے رودِ کوثر جس کی باتیں سلسبیل
آرزوئے یوسف و یعقوب و عیسیٰ و خلیل
وہ وجودِ خالقِ واحد کی اک محکم دلیل
فکرِ انسانی کے بل جس نے نکالے وہ رسول
جس نے ذہنی بُت زباں سے توڑ ڈالے وہ رسول
وہ محمد حمد خالق جس کا شغل مستقل
موج باری جس کا سینہ عرش اعظم جس کا دل
جس کے صدقے میں ہوئی برپا یہ بزم آب و گل
عدل جس کی زندگانی جس کی فطرت معتدل
منصفی کا بول جس سے دہر میں بالا ہوا
نور مطلق قالب انصاف میں ڈھالا ہوا
تھا محمد لفظ اول دفتر کن پر رقم
ہو گئے تخلیق جس کے واسطے لوح و قلم
جس کی ترتیب مجلی ہے بہ اعزاز و حشم
حرف ساکن حمد کا اس میں مشدد ہے بہم
معجزہ ہے ذات کا یا منزل الہام ہے
دفتر اسمائے عالم میں یہ پہلا نام ہے
وہ اماموں کا امام اور وہ رسولوں کارسول
گلشن تقدیس کا مہکا ہوا شاداب پھول
جس نے تازہ کر دیئے احکام قدرت کے اصول
جس پہ کرنوں کی طرح آیات مصحف کا نزول
امن اور تہذیب کا عنوان جس کی زندگی
چلتا پھرتا بولتا قرآن جس کی زندگی
وہ ہوا پیدا تو بت خانوں میں آیا زلزلہ
ہو گیا ٹھنڈا ہزاروں سال کا آتشکدہ
کج رووں کومل گیا منزل کاسیدھا راستہ
ہوش میں آنے لگا دنیا کا ہر وحشت زدہ
تہلکہ برپا ہوا سنگیں دلوں کی بزم میں
دست بستہ علم آیا جاہلوں کی بزم میں
جب وہ بولا شاعروں کی سب طلاقت چھن گئی
جو فصیح العصر تھے ان کی فصاحت چھن گئی
جو قوی بازو تھے ان کی ساری قوت چھن گئی
طالب تعظیم مغروروں کی نخوت چھن گئی
جام کوثر بھر گئے سب تشنہ کاموں کے لیے
آ گیا فرمان آزادی غلاموں کے لیے
نوع انساں کا معلم صاحب ام الکتاب
صفحہ ہستی پہ جس نے لکھ دیا وحدت کا باب
کشت ویران جہاں پر جیسے رحمت کا سحاب
جلوہ خالق نظر سے جس نے دیکھا بے حجاب
چرخ ہفتم اصل میں اک فرش نعلیں اس کا تھا
عرش اعلی پر مقام تاب قوسیں اس کا تھا
وہ حطیم کعبہ سے عرش الہی کا سفر
شیشہ صافی سےجیسےپار ہو جائے نظر
ساتھ میں روح الامیں باندھے ہوئے اپنی کمر
عرض کی، اک حد پہ محبوب خدا کو چھوڑ کر
آپ تو ہیں نور، عین نور میں ڈھل جائیں گے
بال بھر آگے بڑھوں گا میں تو پر جل جائیں گے
وہ شب معراج حد ارتقائے بندگی
وہ حضور خالق کُل سجدہ ہائے بندگی
وہ عطائے بیکراں وہ ادعائے بندگی
وہ خدائی کی حکومت زیر پائے بندگی
اک بشر کو دہر کی فرماں روائی مل گئی
بندگی نے سر جھکایا اور خدائی مل گئی
جذبہ بیدار کو انعام خدمت مل گیا
قلب کو گنجینہ ذوق عبادت مل گیا
شوق کو اذن نجاتِ آدمیت مل گیا
سر جو سجدے میں جھکا تاج شفاعت مل گیا
عارض والفجر کی تابندگی بخشی گئی
گیسوئے والیل کی رخشندگی بخشی گئی
اور کیا تھے طالب و مطلوب میں ناز و نیاز
ہیں یہ اسرارِ الٰہی یا رسالت کے ہیں راز
ہاں پئے اُمّت عطا فرما دیا یہ امتیاز
دے دیا معراج مومن کے لیے فرضِ نماز
جو سرِ مسلم نمازِ فرض میں جھک جائے گا
وہ زمیں پر رہ کے معراجِ عقیدت پائے گا
اے امام المرسلینِ اولین و آخرین
نقش ہیں سجدے ترے اب تک سرِ عرشِ بریں
اے نمازوں کے موسس ، قبلہ دنیا و دیں
ہے عبادت گاہ تیرے واسطے ساری زمیں
تا قیامت رشک جس پر آئے گا افلاک کو
تیری پیشانی نے وہ رتبہ دیا ہے خاک کو
ہادی انسانیت، اخلاقِ کامل کے نشاں
اے انیس بے کساں ، اے حامی بےچارگاں
بندگی ماسوا سے تو نے بخشی ہے اماں
آدمیت پر ترے الطاف ہیں کیا بیکراں
مرضی معبود جس سے آ گئی تھی جوش میں
مرتضیٰ نے پرورش پائی تری آغوش میں
مرتضیٰ مشکل کشا، تیرا وزیر معتبر
جو کبھی شمشیر تھا تیری کبھی تیری سپر
نامِ نامی میں ہے جس کے آج تک اتنا اثر
زندگی بھر جو امیں تھا قوّتِ اسلام کا
آج بھی نعرہ لگاتے ہیں ہم اُس کے نام کا
جَو کی روٹی تھی غذا اور فقر تھا جس کا لباس
عشق پر بنیاد جس کی ، دین پر جس کی اساس
شیر کی صُورت جو گزرا تہلکوں سے بے ہراس
جوہرِ قابل تھا وہ دنیا میں تو جوہر شناس
مختصر الفاظ میں دفتر کا دفتر کہہ دیا
جس کو تو نے اپنے شہرِ علم کا دَر کہہ دیا
بحر عرفاں میں علی اک گوہرِ یکتا بھی ہے
صرف شہرِ علم کا دَر ہی نہیں دریا بھی ہے
صاحبِ حلم و کرم بھی ہے چمن آرا بھی ہے
ضیغمِ اسلام بھی ہے لطفِ سر تا پا بھی ہے
بہرِ گلزارِ نبی اپنے گُلِ تر دے گیا
دینِ حق کے واسطے شبیر و شبر دے گیا
کشتی اسلام کو جس نے ترایا وہ علی
منتشر ہونے سے قرآں کو بچایا وہ علی
جز خدا دنیا جو خاطر میں نہ لایا وہ علی
جو بڑی مشکل میں دیں کے کام آیا وہ علی
شامِ ہجرت دوسرا تھا کون حیدر کی طرح
فرشِ پیغمبر پہ جو سوتا پیمبر کی طرح
فرشِ پیغمبر کہاں اور مسجد کوفہ کہاں
کیا ضروری ہے جو کہیے واقعاتِ درمیاں
کروٹوں پہ کروٹیں لیتا رہا دَورِ جہاں
خون سے رنگیں نظر آتی ہے ساری داستاں
مکر کے سکّے چلے پھر دین کے بازار میں
پھر منافق غرق دیکھے نشہ پندار میں
کون ہوتا ہے منافق، کس کو کہتے ہیں نفاق
دل میں رکھے بغض او ر ظاہر میں رکھے اتفاق
ڈال دے اربابِ اُلفت میں جو طرحِ افتراق
جس کی فطرت میں ہو کینہ جس کی طینت انشقاق
لوٹ لے اپنے وطن والوں کو جو پردیس میں
پشت سے خنجر چلائے دوستی کے بھیس میں
بند، روباہوں کو جب شیر خدا نے کر دیا
ظلم نے پھر اک رگِ اسلام پر نشتر دیا
دین حق کے واسطے سینوں میں کینہ بھر دیا
گمرہی کو ابن ملجم کا نیا پیکر دیا
اور رقت بڑھ گئی سوز و گداز فجر میں
شیر خدا پر ہو گیا حملہ نماز فجر میں
اب امامت اور خلافت تھی حسن کے واسطے
چھ مہینے تک ستم سب قلبِ شبّر نے سہے
ہر قدم پر تھی بغاوت ہر قدم پر مرحلے
یہ انہیں منظور کب تھا خون امت کا بہے
خُلق کے پانی سے دھو ڈالا دلوں کے میل کو
صلح کے پُشتے سے روکا پھر لہو کی سیل کو
زہر سے پھر جب حسن کا بھی کلیجہ کٹ گیا
ظلم نے سمجھا کہ اب رستے کا پتھر ہٹ گیا
پھر ہوس کیشوں میں بیت المال سارا بٹ گیا
اب کیا محسوس زور اسلام کا سب گھٹ گیا
یہ نہ سمجھا واقف سرِّ علی موجود ہے
دین کا وارث حسین ابن علی موجود ہے
روحِ قرآں نے دُہائی دی بچاؤ اے حُسین
شرعِ پیغمبر نے دی آواز آؤ اے حُسین
آگ مذہب میں لگاتے ہیں بجھاؤ اے حُسین
پھر نئے بُت سر اٹھاتے ہیں گراؤ اے حُسین
صفحۂ ہستی سے پیغامِ خدا مٹ جائے گا
تم نہ آؤ گے تو دینِ مصطفیٰ مٹ جائے گا
یہ فغاں کوفے سے اٹھی تا مدینہ آ گئی
شدّتِ تاثیر سے ساری فضا تھرّا گئی
ایک بجلی کی طرح اذہان پہ لہرا گئی
آنے والی جانبِ سبطِ شہ بطحا گئی
شورش طوفاں میں کشتی کا کنارا کون تھا
جُز حُسین ابنِ علی دیں کا سہارا کون تھا
جب سُنی شبیر نے امت کی آوازِ فغاں
دل پکارا، آ گیا نزدیک وقتِ امتحاں
اب مدینے میں ٹھہرنے کی بھلا مہلت کہاں
ایک دشتِ بے اماں میں جا کے دینا ہے اذاں
حق ہو ضو افشاں کسی کے قلب حق آگاہ پر
شاید آ جائے بھٹکتا کارواں پھر راہ پر
تربت جد پر یہ آ کر عرض کی اے شاہِ دیں
آپ نے جو کام سونپا تھا وہ ہے شاید قریں
امتحاں لینے پہ آمادہ ہوئے ہیں اہلِ کیں
فرض کی تکمیل میں سرکار ہم کو ڈر نہیں
غم نہیں کوئی کہ ہم مر جائیں یا زندہ رہیں
ہاں مگر ایسا نہ ہو محشر میں شرمندہ رہیں
السّلام اے آفتابِ بزمِ امکاں السّلام
السّلام اے منزل تنزیلِ قرآں السّلام
السّلام اے جدِّ عالی قدر و ذی شاں السّلام
آپ کا خادم چلا سُوئے بیاباں السّلام
ماں سے مل کر، بھائی کو کر کے سلام اب جائیں گے
خود منظم کرنے ملّت کا نظام اب جائیں گے
قبرِ زہراء پر گئے آنسو بہانے کے لیے
مَرقدِ شبّر پہ حالِ دل سنانے کے لیے
یُوں کہا، جاتے ہیں اب واپس نہ آنے کے لیے
دشتِ ویراں میں نئی دُنیا بسانے کے لیے
قصرِ ملّت گرنے والا ہے سنبھالا چاہیے
شام کی ظُلمت میں قرآنی اُجالا چاہیے
پھر کہا عباس سے، کیجیے سفر کا اہتمام
صُبحِ طیبہ کا ذرا رُخ پھیر دیجیے سُوئے شام
منتظم ہیں آپ ہو جائے کچھ ایسا نظام
حشر تک زندہ رہے دینِ رسولِ حق کا نام
خاندانِ حیدری میں جتنے ہیں وہ سب چلیں
اہتمامِ خانہ داری کے لیے زینب چلیں
وہ علی کی شیر دل بیٹی، وہ ثانیِ بتول
صفحہ ہستی پر نقش غیر فانیِ بتول
بھائیوں کی لاڈلی، زندہ نشانیِ بتول
یاد تھا قرآن سب جس کو زبانیِ بتول
چھوٹ جاتی وہ بہن کیسے بھلا شبیر سے
پرورش پائی تھی جس نے فاطمہ کے شِیر سے
دوستوں نے آ کے سمجھایا یہ کیا کرتے ہیں آپ
موت کے رستے پہ دانستہ قدم دھرتے ہیں آپ
ہیں جری ابن جری، مانا نہیں ڈرتے ہیں آپ
زندگی ارزاں نہیں بے فائدہ مرتے ہیں آپ
آپ کیا عُہدہ برا ہوں گے اُن اہلِ شر کے ساتھ
کُوفیوں نے کیا کیا تھا حیدر و شبّر کے ساتھ
مشورے کچھ اور تھے منشائے قدرت اور تھا
فکرِ دنیا اور تھی پاسِ رسالت اور تھا
اس عبادت کے سوا طرزِ عبادت اور تھا
یہ جماعت اور تھی فرضِ امامت اور تھا
چاہنے والے کفِ افسوس ملتے ہی رہے
چلنے والے کربلا کی سمت چلتے ہی رہے
یوں چلے جیسے چلے ابر رواں صحرا کی سمت
جو قدم اٹھا وہ اٹھا مرضیِ مولا کی سمت
دیکھتے ہی رہ گئے سب سید والا کی سمت
جانے والوں نے نہ دیکھا مُڑ کے بھی دنیا کی سمت
صبر کی جو حدِّ آخر تھی وہ تھی حد سامنے
اب فقط تھی آبروئے دینِ احمد سامنے
منزلوں پر منزلیں طے کر رہا ہے قافلہ
ختم ہوتا جا رہا ہے قُربِ حق کا فاصلہ
کِس ثبات و شکر سے گزرا ہے ہر اِک مرحلہ
مرضیِ معبود کی دھُن ذکرِ حق کا مشغلہ
اپنے سینوں میں لیے سب دولتیں ایمان کی
ہر نفس کے ساتھ لب پر آیتیں قرآن کی
جس بیاباں میں قدم پہنچے گلستاں ہو گیا
دشتِ ویراں روکش گلزارِ رضواں ہو گیا
نکہتِ ایماں سے جنگل عنبر افشاں ہو گیا
پڑ گئی اِک رُوح ہر تنکا رگِ جاں ہو گیا
جی اٹھے مُردے عجب اعجاز تھے پیغام کے
قسم باذن اللہ لب پر عیسٰئ اسلام کے
کاروانِ نور ہے دشتِ بلا میں خیمہ زن
رحمتِ یزداں ہر ایک کے سر پر ہے سایہ فگن
سب عماموں کی جگہ باندھے ہوئے سر سے کفن
ہم زباں و ہم نوا و ہم خیال و ہم سخن
لفظ بکھرے تھے مگر جُملے میں مل کر ساتھ ہیں
اک شمع حق ہے پروانے بہتّر ساتھ ہیں
جاں نثاری پر کمر باندھے ہوئے انصارِ شاہ
موت کا غم تھا کسی کو اور نہ جینے پر نگاہ
یہ وہ غازی تھے کہ جن سے ظلم نے مانگی پناہ
صبر کے عنوانِ روشن، دعوتِ حق کے گواہ
بَر ملا باطل کو کہتے تھے بُرا ، جی کھول کر
لفظ کو پہلے پرکھتے تھے لبوں پر تول کر
ایک طرف صبحِ سعادت، ایک طرف افواجِ شام
ایک جانب نورِ پیکر، ایک جانب تِیرہ نام
ایک سمت آزاد فطرت، ایک سُو زر کے غلام
ایک طرف مطلق اُجالا، اِک طرف ظُلمت تمام
تھا اُدھر کوفے کا لشکر کثرتِ تعداد تھی
اِس طرف حق تھا رسول اللہ کی اولاد تھی
عصر تک دسویں محرم کو رہی جنگ و جَدال
ناصرانِ شاہ نے دادِ شجاعت دی کمال
ہو گئے قربان عزیزانِ گرامی خوش خصال
توڑ ڈالے ظلم و استبداد کے ہمت سے جال
منہدم کر دِیں خیالی جنّتیں شدّاد کی
صبر نے جڑ کھود ڈالی منزلِ بیداد کی
اب فقط شبیر ہیں یا عابدِ بیمار ہیں
یہ ضعیف و تشنہ لب ہیں اور وہ ناچار ہیں
بیبیاں ہیں سر نگوں خاموش ماتم دار ہیں
سیدہ کے لال کی رخصت کے اب آثار ہیں
اکبر و قاسم نہیں، پیر و جواں کوئی نہیں
شمع ہے، پروانہ آتش بجاں کوئی نہیں
سب سے رخصت ہوکے زینب کی طرف آئے امام
وہ بہن قربان جس نے کر دیے دو لالہ فام
جس کے ذمے ہے حَرم کی آبرو کا اہتمام
کہہ نہ پائی جو زباں وہ کر دیا اشکوں نے کام
نطق اپنا جلوہ اوّل دکھا کر رہ گیا
لفظ رخصت لب پہ آیا تھرتھرا کر رہ گیا
رَزم گہ میں خطبہ شبیر کی گونجی صدا
لفظ جو آیا زباں پر تیر و خنجر بن گیا
کان اپنے بند کیا کرتا گروہِ اشقیا !!
ضربتِ الفاظ سے ہر سنگ دل رونے لگا
آیتیں قرآن کی اور ابنِ حیدر کی زباں
معجزہ الفاظ کا سبطِ پیمبر کی زباں
دفعتاً سالارِ لشکر کو ذرا آیا جو ہوش!
دل میں سوچا ہے خلافِ مصلحت رہنا خاموش
چیخ کر بولا، سپاہِ تُند کیوں ٹھنڈا ہے جوش!
کون ہے تم سا زمانے میں جَری اور سخت کوش
تا کُجا سنتے رہو گے گفتگو شبیر کی
ہاں روانی اب دکھاؤ جوہر شمشیر کی
روتے روتے جب ذرا چونکے جوانانِ سپاہ
آفتاب کعبہ کی جانب کیا روئے سیاہ
کیا ٹھہر سکتی رُخِ سبطِ پیمبر پر نگاہ
بند جنّت کے ہوئے دَر، کھُل گئی دوزخ کی راہ
فوج تھی موجود، دَستوں کے پَرے لگنے لگے
آتش دوزخ کے شعلے بھی ہَرے لگنے لگے
اس طرف نکلی تڑپ کر ابنِ حیدر کی حُسام
دور سے برقِ جہندہ نے کیا جس کو سلام
بھر گیا اعدا کی لاشوں سے لڑائی کا مقام
اَب ٹھہرنے کی سکت تھی اور نہ یارائے قیام
حملہ تیغِ حُسینی سے وہ ہلچل ہو گئی
خون سے یوں تر ہوئی مٹی کہ دَلدل ہو گئی
تیغ اور رہوار کے اوصاف کیا لکھے قلم
اتنی تیزی ہے تخیل میں نہ اس میں اتنا دم
کون گِن سکتا تھا اس کاٹ اور اس کے قدم
دو فرشتے موت کے اِک کام کرتے تھے بہم
اک ذرا سی جنگ کی تھی سیّدِ ابرار نے
ایک کے جوہر نے مارا ایک کی رفتار نے
عین اُس ہنگام اٹھا ایک شورِ الاماں
رحم فرما اے علی کے لال، ہم جائیں کہاں
تو نے لکھ دی ہے لہو سے فتحِ حق کی داستاں
اے پیاسے خون کا دریا ہے قدموں میں رواں
سُن کے یہ فریاد شمشیر ہلالی رُک گئی
رحم سا آنے لگا شانِ جلالی رُک گئی
پُشتِ مَرکب سے اُتر آئے شہِ عالی وقار
دشمنوں کا بھی نہ دیکھا جا سکا خود حالِ زار
جذبہ رحمت کا ورثہ آ گیا بر رُوئے کار
سَر جھُکا کر، خاک پر، کہنے لگے پروردگار
تا دمِ آخر حفاظت کی ترے آئین کی
جتنی ممکن تھی وہ خدمت کر لی میں نے دین کی
اپنے جد کا ایک اک ارشاد لایا ہوں بجا
وعدہ طفلی کو اس پیری میں پورا کر دیا
بھائی بھی بچھڑے، جواں فرزند بھی رخصت ہوا
ایک ششماہہ تھا وہ بھی تیر کھا کر سو گیا
سب ہوئے پورے تقاضے جتنے تھے ایمان کے
خون سے لکھا ہے ایک اک لفظ کو قرآن کے
اب سرِ تسلیم تیرے سامنے ہوتا ہے خَم
رکھ لیا حسبِ ضرورت دینِ احمد کا بھرم
جان تیرے واسطے جائے نہیں ہے کوئی غَم
بس یہ کافی ہے کہ راضی ہوں شہنشاہِ اُمم
اور جا سکتا تھا میں اَب کس کا دامن تھامنے
آخری سجدہ ادا کرتا ہوں تیرے سامنے
سَر بہ سجدہ ہو گئے جب خاکِ مقتل پر امام
آ گئی چاروں طرف سے پھر سمٹ کر فوجِ شام
بڑھ کے آیا شمر اپنی تیغ کر کے بے نیام
اک پیاسے سے لیا بدر و اُحد کا انتقام
ہر نفس پر دھار گو مڑتی رہی شمشیر کی
لے گیا سجدے سے گردن کاٹ کر شبیر کی
زینبِ محزوں نے دیکھا بابِ خیمہ سے یہ حال
جانبِ سدھارا فاطمہ زہراء کا لال
صبر اس عالم میں کرنا ضبطِ غم کا تھا کمال
لا سکے گا کیا زمانہ بنتِ زہراء کی مثال
بھائی، بیٹے ، اقربا، حق پر پر فدا ہوتے ہوئے
تن سے سر شبیر کا دیکھا جدا ہوتے ہوئے
اِک صدائے غَیب آئی جانِ مادر ہوشیار
امتِ احمد پہ بیٹے کر دئیے میں نے نثار
فطرتاً ہونا ہے تم کو بھائی کا ماتم گُسار
امتحانِ صبر بھی دینے ہیں تم کو بے شمار
خون تو دیکھا ہے، شعلوں میں بھی گھرنا ہے تمہیں
سر برہنہ شام کی گلیوں میں پھرنا ہے تمہیں
بازوؤں پر ریسماں کے نقش بھی پاؤ گی تم
بھائی کا سر جائے گا جس جا، وہاں جاؤ گی تم
عابدِ بیمار کی غربت میں کام آؤ گی تم
روحِ بنتِ مصطفیٰ کو پاس ہی پاؤ گی تم
رُخ مقامِ صبر سے بیٹی کبھی پھرنے نہ پائے
حَشر آ جائے گا آنسو آنکھ سے گرنے نہ پائے
تم کو کیا معلوم، کیا ہے اس شہادت کا مقام
آسمانوں سے فرشتے بھیجتے ہیں خود سلام
قدرت خالق نے اتنا کر دیا ہے اہتمام
تا ابد بزمِ عزا ہو گی بہ عزّ و احتشام
لوگ دیکھیں گے میرے الفاظ کی تاثیر کو
تا قیامت روئے گی دنیا میرے شبیر کو
اے صبا نوکِ قلم سے اب ٹپکتا ہے لہو
اس شہادت سے ہوا دینِ محمد سرخرو
رمزِ قدرت میں نہیں ہے کوئی جائے گفتگو
لفظ کہتے ہم پر کیا ستم کرتا ہے تو
امتحاں مقصود تھا اک مردِ حق آگاہ کا
ہے حسینی نام، جب تک نام ہے اللہ کا
٭٭٭
ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید