فہرست مضامین
اے خواب گرِ عشق
سعود عثمانی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
دو تین ماہ پہلے کی بات ہے ،میں نے اس بحر میں ایک غزل لکھنی شروع کی جو مجھے بہت پسند ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ جو مجھ پر سحر کرتی ہے خیال تھا کہ یہ ایک غزل ہو گی یا دو غزلہ لیکن جیسے جیسے لکھتا گیا مجھے محسوس ہوتا گیا کہ میں اس بحر کو نہیں برت رہا ، یہ مجھے برت رہی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کر مجھ سے ایک داستان لکھوا رہی ہے۔ ایک ایسی داستان جو میرے خواب ، خیال اور ملال کو یک رنگ اور دیدہ ، شنیدہ اور چشیدہ کو یکجان کرتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ مجھے وہ زمانے بھی دکھاتی جاتی ہے جو میرے ان دیکھے لیکن بہت دیکھے ہوئے ہیں میں اس غزل کی انگلی تھام کر چلتا گیا ایک ان دیکھے سفر پر جس کا اختتام اس وقت معلوم نہیں تھا جب اس کا آغاز ہوا تھا۔
یہ ایک جہان تھا ، دنیا تھی ، شہر تھا یا کیا تھا گمان تھا حقیقت تھی ،معدوم تھا کہ موجود ،کچھ علم نہیں لیکن مجھے یہ علم ہے کہ یہ مجھ پر بیتا تھا۔ مجھ سے بار بار گزرا تھا جب میں اس سے گزرا تھا۔اور جس سے آپ گزرے ہوں اور آپ پر بیتا ہو ، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
میں پھرتا رہا اس شہر کی گلیوں ،محلوں، کوچوں اور رگ و پے میں اس غزل کی انگلی تھامے یہ سوچے بغیر اور اس تذبذب پر توجہ کیے بغیر کہ یہداستان ہے ،مثنوی ہے ،غزل مسلسل ہے یا کچھ اور اصل بات یہ تھی کہ یہ شاعری ہے یا نہیں؟
ایک بار جب اس کے شعروں کی تعداد نصف صدی کے برابر ہو گئی اور میں نے خیال کیا کہ اب یہ مکمل ہو چکی ہے تو میں نے اسے فیس بک اور رسالے میں شائع کر دیا لیکن تکمیل کہاں یہ منزل تو بس ایک پڑاؤ تھی آرام کر چکے تو پتہ چلا کہ منزل ابھی دور ہے دُور اس جگہ جہاں ابھی پہنچنا صرف ایک خواب تھا پھرسفر پر نکل کھڑے ہوئے ایک خواب کی انگلی تھام کر ۔
ننانوے کے عدد پر پہنچ کر پتہ چلا کہ عشق کی آخری منزل یہی ہے اس سے آگے رستہ کہیں نہیں جاتا۔ اور جا بھی نہیں سکتا سو یہ سفر تمام ہوا۔
شاعر مطمئن کہاں ہوتا ہے البتہ اطمینان ہے تو یہ کہ یہ میری ہے میری اپنی اور اسی بے اطمینان آسودگی کے ساتھ یہ آپ دوستوں کے سامنےپیش ہے۔
ان دوستوں سے معذرت جو ابتدائی شکل میں پڑ ھ کر رائے شامل کر چکے۔ایک معذرت طویل تمہید اور طویل تر غزل کی بھی
(سعود عثمانی)
ہر ایک سے معرکہ پڑا تھا
کس عشق سے واسطا پڑا تھا
وہ عشق ، وہ میرا دشت آباد
اک عمر سے نارسا پڑا تھا
ہر دل میں بسا ہوا تھا وہ شہر
جو آنکھ سے ماورا پڑا تھا
ہر آنکھ تھی اس کی جستجو میں
ہر ہاتھ پہ دل دھرا پڑا تھا
ہر دل میں ، ہر ایک حافظے میں
بچپن سے کہا سنا پڑا تھا
سچ یہ ہے کہ میرے تجربے میں
ہر قسم کا تجربہ پڑا تھا
اس کو بھی طلب تھی عاشقی کی
جو خود پہ فریفتہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
یہ لوگ بھی جانتے نہیں تھے
جو روگ مجھے لگا پڑا تھا
چکھا بھی نہیں تھا اور زباں پر
اس باغ کا ذائقہ پڑا تھا
اس آبِ حیات کی طلب تھی
پیاسے کو نشہ چڑھا پڑا تھا
چقماق دھڑک رہا تھا اور میں
خاشاک کے ڈھیر سا پڑا تھا
مجھ میں کوئی آگ جل اٹھی تھی
دل میں کوئی دل زدہ پڑا تھا
وہ نادر و بے مثال ہیرا
اک عمر سے گم شدہ پڑا تھا
دیکھا تھا کسی کا خواب اور پھر
میں خواب میں جگمگا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک سے گفتگو ہوئی تھی
پر خود سے مکالمہ پڑا تھا
جب بھی کہیں ذکرِ عشق چھیڑا
اک زور کا قہقہہ پڑا تھا
بس میں ہی حمایتی تھا اپنا
اپنے لیے بولنا پڑا تھا
اعصاب شکن مخالفت تھی
آندھی میں دیا جلا پڑا تھا
وہ لفظ ، وہ لوگ ، وہ رویے
بارود سا کچھ بچھا پڑا تھا
آباد نہیں ہوا تھا جو شہر
برباد کیا ہوا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔
طعنے ،تشنیع ، طنز ، تضحیک
لیکن مجھے فرق کیا پڑا تھا
جس کھیت میں زہر ڈالتے تھے
کچھ اور بھی لہلہا پڑا تھا
وہ عشق ملا نہیں تھا ، اور میں
اس کا ہمہ تن ہوا پڑا تھا
نکلا سب چھوڑ چھاڑ کر میں
گھر رہ کے تو میں تھکا پڑا تھا
گھر بار، عزیز ، دوست ، ساتھی
جو کچھ تھا وہیں دھرا پڑا تھا
یا بے خبری تھی ساتھ میرے
یا بارِ خبر لدا پڑا تھا
نکلا تھا جو میں کو روند کر میں
مجھ پر مرا نقشِ پا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عشق، وہ شہرِ نارسائی
تھا سامنے اور چھپا پڑا تھا
ہر راہ گزر میں خاک اڑائی
جا جا کر لوٹنا پڑا تھا
آیا وہیں لوٹ لوٹ کر میں
جو راستا طے کیا پڑا تھا
پر کار سی چار سُو پھری تھی
چوکور میں دائرہ پڑا تھا
جنگل ، صحرا، پہاڑ ، دریا
اس شہر کو ڈھونڈنا پڑا تھا
ہر گام سراب ، شہر جیسے
ہر بار مغالطہ پڑا تھا
اک سبز ندی کے پار ، آخر
وہ سرخ چمن سجا پڑا تھا
جیسے کسی برگِ مخملیں پر
یاقوت کوئی کھلا پڑا تھا
اک خواب کو دیکھنے کی خاطر
برسوں مجھے جاگنا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شہرِ طلسمِ دل کی صورت
ہموار تھا، اور کھدا پڑا تھا
کچھ میں بھی نیا نیا تھا اور کچھ
یہ بوجھ نیا نیا پڑا تھا
آیا تھا تلاش میں کسی کی
اور خود کو ہی کھوجنا پڑا تھا
غربت کی نکیلی ساعتوں میں
جو سچ تھا وہ جھیلنا پڑا تھا
یاں کوئی نہیں تھا کم کسی سے
یاں ایک سے اک بڑا پڑا تھا
ہر اک کا دوام نام کے ساتھ
تاریخ تھا ، اور لکھا پڑا تھا
دیکھو تو ذرا کہ تھا ہی کیا میں
اور کن سے مقابلہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
سب مجھ سے نظر چرا رہے تھے
ایسا بھی میں کیا گرا پڑا تھا
کرتا بھی تو کس سے بات کرتا
ہر شخص یہاں دُکھا پڑا تھا
کھلتا بھی تو کس طرح سے کھلتا
جب دل ہی الگ بندھا پڑا تھا
تنہائی تھی ،اور ایسی ویسی ؟
دل دوستوں سے بھرا پڑا تھا
خود سے بھی ٹھناٹھنی تھی میری
کیا جانے بجوگ کیا پڑا تھا
اب یاد نہیں کہ اس نگر میں
کس کس سے معاملہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔
کہنے کو بس ایک دن تھا لیکن
دل پر تو پہاڑ آ پڑا تھا
کیا خود کو بچاتا ٹوٹنے سے
یہ کام تو بس ہوا پڑا تھا
جس سمت کہیں کوئی نکل جائے
میں راہ میں جا بجا پڑا تھا
ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آخر
خود کو مجھے جوڑنا پڑا تھا
اک اور سفر سے لوٹ کر میں
اک اور سفر میں جا پڑا تھا
دونوں ہی تھکے ہوئے مسافر
یہ میں تھا، یہ راستا پڑا تھا
تنہا تھا بہت سو گھوم پھر کر
اک خواب کے در پہ آ پڑا تھا
میں ایسے پڑا تھا عشق کے پاؤں
جیسے کوئی آبلہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔
پھر زخم پرانے یاد آئے
دیکھا تو ہر اک ہرا پڑا تھا
پھر گزرے زمانے یاد آئے
ہر پھول وہیں کھلا پڑا تھا
یاد آئی جو میری شاعری تھی
ہر قمقمہ جگمگا پڑا تھا
تھا ناز مجھے سخن پہ لیکن
جو شعر بھی تھا، کٹا پڑا تھا
مجھ پر ہی گئے تھے شعر میرے
مجھ پر ، مرا سب لکھا ، پڑا تھا
میں سامنے یوں پڑا تھا اپنے
جیسے کوئی دوسرا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
جیسے تیسے گزر گیا دن
لیکن ابھی رت جگا پڑا تھا
میں خرچ تو ہو رہا تھا لیکن
مجھ میں ابھی حوصلہ پڑا تھا
پہلو سے تھکن لپٹ رہی تھی
سینے سے یقیں لگا پڑا تھا
مدفون تھا اپنی خامشی میں
مٹی میں نگر دبا پڑا تھا
اشکوں کے الاؤ جل رہے تھے
صحراؤں میں قافلا پڑا تھا
قطرہ قطرہ پگھلتا تھا میں
اور اپنے ہی زیرِ پا پڑا تھا
بجھتی ہوئی شمع جانتی تھی
جو کچھ تھا سبھی جلا پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔
میں راکھ تو ہو گیا تھا شاید
پھر بھی کہیں کچھ بچا پڑا تھا
اک شعلئہ خوش بدن کا پرتو
مجھ پر بھی ذرا ذرا پڑا تھا
جھونکا تھا ،بہار تھی ،کہ تُم تھے
چھینٹا کسی لمس کا پڑا تھا
تکتا تھا میں اپنا عکس تم میں
اور سامنے آئنہ پڑا تھا
قربت بھی مٹا نہیں سکی تھی
جو بیچ میں فاصلا پڑا تھا
رویا کئی بند توڑ کر میں
سیلاب کوئی رکا پڑا تھا
برکھا کی برستی برچھیوں میں
اس آگ کو بھیگنا پڑا تھا
وہ مینہ پڑا تھا پہلا پہلا
اور آخری مرتبہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔
پھر دل پہ کسی نے ہاتھ رکھا
گرچہ وہ د یا بجھا پڑا تھا
آواز دی جب مجھے کسی نے
صدیوں سے میں بے نوا پڑا تھا
تھا کوئی جو غرفۂ سحر سے
بے ساختہ مسکرا پڑا تھا
چٹکی تھی بدن پہ اک کرن سی
اور باغ سا چہچہا پڑا تھا
اترا کوئی اس جگہ جہاں میں
لب تشنہ و سوختہ پڑا تھا
سایا تھا کوئی مرے بدن پر
کس عکس پہ آئنہ پڑا تھا
مہتاب سا آفتاب چہرہ
کیا رُوپ ملا جلا پڑا تھا
یا دھوپ میں چاندنی گھلی تھی
یا سیم میں زر گندھا پڑا تھا
مجھ پر وہ نگاہ پڑ رہی تھی
میں کیسا چمچما پڑا تھا
اس آب سے تاب پھوٹتی تھی
پانی میں چراغ سا پڑا تھا
۔۔۔۔۔
اس گرم لب و خنک ادا کے
ہاتھوں میں وہ معجزہ پڑا تھا
جو جسم میں جان ڈالتا ہو
پھر جی اٹھے جو مرا پڑا تھا
مشکیزہ بدست زندگی تھی
اور آبِ بقا بھرا پڑا تھا
بجھتی ہوئی پیاس جل رہی تھی
چھاگل سے جو منہ بھڑا پڑا تھا
کوری مٹی کا پیاسا کوزہ
اک گھونٹ میں سنسنا پڑا تھا
اے عشق مجھے تری قسم ہے
میں کب سے بے نشہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔…….
بس ایک ہی دن بس ایک ہی رات
سب اس کے سوا مٹا پڑا تھا
وہ دن تھا کہ وقت منجمد تھا
جو مجھ کو گزارنا پڑا تھا
وہ شب تھی ، کہ تند رَو ندی تھی
جس میں مجھے تیرنا پڑا تھا
آسان تھا کیا ؟ سعود صاحب
جو کوہ تراشنا پڑا تھا
ویسے تو تمام عمر۔۔لیکن
وہ عشق بہت کڑا پڑا تھا
ایک معیار مستقل رکھنا
درد شایانِ شانِ دل رکھنا
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا
ہنستی بستی زمین جانتی ہے
سرخ لاوا درونِ گل رکھنا
منجمد جھیل! کیسا لگتا ہے
زخم اوپر سے مندمل رکھنا
ان درختوں سے میں نے سیکھا ہے
اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا
شاعری اور کاروبار سعودؔ
کانچ اور آنچ متصّل رکھنا
٭٭٭
ماخذ:سعود عثمانی کے کتاب چہرہ کے نوٹس سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید