فہرست مضامین
محمد حمید شاہد کے افسانے
حصہ چہارم
محمد حمید شاہد
کِکلی کلیر دی
قلم ککلی ؟۔۔۔ یہ کیا عنوان ہوا؟؟
اُسے اِعتراض تھا۔ وہ میری تحریروں کی پہلی قاری تھی اور ناقد بھی۔
میں نے کہا:
تمہارے نزدیک قابلِ اِعتراض لفظ "قلم” ہے یا "ککلی”؟
وہ اپنی گہری بھوری آنکھیں میرے چہرے پر جما کر کہنے لگی:
قلم بھی۔۔۔ اور۔۔۔ ککلی بھی۔
دونوں ؟۔۔۔ مگر کیوں ں ں ں ں ؟
میں نے سٹ پٹا کر کیوں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا۔ وضاحت چاہنے کے لیے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور اضافہ کیا:
’’دیکھو !قلم تو ہمارے پاس ایک مقدس امانت ہے۔‘‘
وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ شوخی اُس کے گورے گالوں پر ناچنے لگی۔ کہا:
’’اپنے جملے میں سے ’’ہے‘‘ کو’’ تھا‘‘ سے بدل لو۔‘‘
پھر جھوم جھوم کر اور آنکھیں نچاتے ہوئے گنگنانے لگی:
’’تھا کا مطلب تو تمہیں آتا ہو گا؟‘‘
میں نے اُلجھ کر اُسے دیکھا تو وہ سنجیدہ ہو چکی تھی۔ اس نے کندھے اچکائے اور کہہ دیا:
’’اب قلم جو کچھ لکھتا ہے اس کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔‘‘
میں نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کی شرارت پکڑ لی ہو۔ کہنے لگی:
’’اَب یہ تھیوری چل نکلی ہے کہ لکھنے والا جب لکھتا ہے تو موضوع غائب اور مفہوم ملتوی ہو جاتا ہے۔‘‘
میرے چہرے کی کھڈی پر حیرت کا لٹھا تن گیا۔ اُس نے وضاحت کرنے کی بہ جائے میری کم علمی پر طنز کرتے ہوے کہا:
’’حیرت ہے تم لکھنے والے ہو اور نہیں جانتے کہ لکھنے والا لکھتے ہی مر مرا جایا کرتا ہے۔‘‘
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ اُس نے وضاحت کی:
’’یوں منھ کھول کر حیرت سے مجھے نہ دیکھو۔ میں تو اس تنقیدی فلسفے کا ذکر کر رہی ہوں جس میں لکھنے والے کی حیثیت ایک محرر سے زیادہ نہیں رہتی۔ اور ہاں اے میرے محرر، تم کسی مقدس امانت کا ذکر کر رہے تھے؟
اُس نے اچانک سوال لڑھکا کر مجھے بوکھلا دیا۔ میں نے اِسی بوکھلاہٹ میں رٹا رٹایا جملہ دہرا یا:
’’قلم مقدس امانت ہے‘‘
’’مقدس امانت؟‘‘
اُس نے منھ اوپر کر کے میرے لفظ اُچھالے اور قہقہہ لگا کر کہا :
’’ اب تو یہ امانت بکتی ہے کہ یہ بازاری جنس ہو گئی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اب ہر متن کے معنی معطل اور ہر تحریر سے وابستہ تقدس متروک ہو جاتا ہے۔ اب تو تمہارے قلم سے نکلے ہوے لفظ طوائف جیسے ہو گئے ہیں۔ یہ جس کے ہاتھ چڑھتے ہیں اسی کے ہو جاتے ہیں۔‘‘
کیا کہتی ہو؟ میں نے برہم ہو کر کہا۔ اس نے مجھے ٹوک دیا:
’’میں نہیں کہتی، ایسا تمہاری تھیوری کہتی ہے۔ اب لکھنے والا سچ نہیں لکھتا کہ اسے ایک مبہم، مخلوط اور خط مستقیم سے گریزاں وسعت مکانی میں یوں لڑھکنا ہوتا ہے جیسے کوئی شرابی گھپ اندھیرے میں اوبڑکھابڑراستوں پر لڑکھڑاتا آگے بڑھتا ہے۔‘‘
میں نے سر جھٹک کر کہا :
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
اُس نے اپنے سرخ ہونٹوں کو ایک دوسرے پر جما کر پٹاخہ بجایا:
’’ ایسا ہی تو ہو رہا ہے۔ اب تحریر سے وابستہ تقدس اور معنی بھی اس ٹشو پیپر کی طرح ہو گئے ہیں جسے اِستعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔‘‘
میں نے ایک ایک کر کے ان ادیبوں کو یاد کرنا چاہا جو لفظ کے معنی اور معنی کے تقدس سے وابستہ ہو سکتے تھے۔ میں سوچتا چلا گیا حتّیٰ کہ میں اندر سے لرزنے لگا۔ میں نے اُس کے سامنے شکست کی ہتک سے بچنے کا حیلہ کرنا چاہا:
’’مگر میں تو۔۔۔‘‘
’’قلم کی عظمت کا قائل ہوں‘‘
اُس نے میرے منھ سے جملہ اُچک کر مکمل کیا اور طیش میں آتے ہوے کہا:
’’قلم کا تقدس۔۔۔ قلم کی عظمت۔۔۔ قلم کی حرمت۔۔۔ اور اب صارفیت کے فروغ کے لیے بازاری تھیوریاں یا پھر اینٹی تھیوریاں۔۔۔ تم ادیبوں کے پاس بانجھ لفظوں کا کتنا ذخیرہ ہوتا ہے، بے دریغ اِستعمال کرتے ہو انہیں، سوچے سمجھے بغیر۔‘‘
اس کی آواز معمول سے کہیں زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ میں جھینپ گیا۔ موضوع بدل دینا چاہا۔
اور۔۔۔ ککلی پر کیا اعتراض ہے تمہارا؟
اس کی آنکھیں ماضی کی یادوں تلے بند ہونے لگیں اور ہونٹ میٹھے لفظوں کی لذّت کو چاٹنے لگے :
’’ککلی کلیر دی
پگ میرے وِیر دی۔۔۔‘‘
میں اُسے خواب کے برزخ سے حقیقت کی سنگلاخ زمین پر کھینچ لایا :
’’میں نے تو ککلی پر تمہارا اعتراض جاننا چاہا تھا اور تم بچی بن کر ککلی گانے لگی ہو۔‘‘
’’ہاں ! یہی تو اِس لفظ کی خوبی تھی کہ بچھڑے بچپن کی اُنگلی تھما دیتا تھا۔‘‘
اُس نے اپنا جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ میں نے بدلا اتار دینا چاہا:
’’اب تم ’’تھا‘‘کو’’ہے‘‘سے بدل کر اپنا جملہ درست کر لو۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور پھر ہنسے چلی گئی۔ حتّیٰ کہ اس کا بدن دہرا ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ پھر وہ یکلخت یوں چپ ہو گئی، یوں کہ سارے میں سناٹا قہقہے لگانے لگا۔ میں اُس کے چہرے پر بدلتے رنگوں کو حیرت سے تک رہا تھا۔ اور جب سنجیدگی اس کے چہرے پر ککلی کھیل رہی تھی تو اس نے کہا:
’’تم نے اپنے بچوں کے چہروں کبھی غور سے دیکھا ہے ؟‘‘
میں اس غیر متوقع سوال پر بھونچکا ہو کر اسے بٹر بٹر دیکھنے لگا۔ میں بہ ظاہر اسے دیکھ رہا تھا مگر بہت سُرعت سے یہ سوچنے کی جانب راغب بھی ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے بچوں کے چہرے کب غور سے دیکھے تھے۔ جب میرے حیرت زدہ چہرے پر سوچ کی مکڑی نے جالا بُن دیا تو وہ کہنے لگی:
’’تمہیں کب فرصت ہے اس کی؟ تمہارا دفتر ہے، کمپیوٹر ہے، انٹرنیٹ ہے، بزنس میٹنگز ہیں، پارٹیاں اور آؤٹنگ ہے۔ اور لکھنا لکھانا بھی تو ہے، ہونہہ۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ تمہارے اپنے معمولات ہیں۔ ایسے میں تمہارے پاس وقت کہاں کہ بچوں کے چہرے غور سے دیکھ سکو۔ تمہاری نظریں تو میرا چہرہ بھی ڈھنگ سے دیکھنا بھول گئی ہیں۔‘‘
میں شرمندہ ہو گیا۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی کہ ایک مُدّت سے میں اُس کا چہرہ حیرت سے دیکھتا تھا یا بوکھلاہٹ میں۔ محبت سے دیکھنا نہ جانے کب سے چھوٹ گیا تھا۔
مجھے جھینپتے پا کر وہ ماضی کے ان لمحات میں اُتر گئی جب میری نظروں کی آنچ سے اُس کے گورے گال تمتما کر سرخ ہو جایا کرتے تھے۔ وہ ماضی سے جلد ہی لوٹ آئی اور میرے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگی:
’’شرمندگی کے بیج بو کر ہم نے پچھتاوے کی فصل کے سوا اپنی آئندہ کی جنریشن کو برداشت کے لیے اور دیا ہی کیا ہے ؟‘‘
اب میں جس کیفیت میں تھا، اسے کوئی نام نہ دیا جا سکتا تھا۔ وہ میرے چہرے کے بدلتے رنگوں سے بے نیاز ہو کر کہنے لگی:
’’جب سے آزاد تجارت اور منڈی کی معیشت نے اخلاقی اقدار کے تہذیبی ہونے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی اخلاقیات مادے کے حوالے کر دی ہیں، رشتے بھی بے معنی ہو رہے ہیں۔ پہلے رشتے ضرورتوں کو حد سے نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ اب ضرورتیں رشتوں کی حدیں خود قائم کرتی ہیں۔ جب سے صارفیت نے انسانی ضرورتوں کی پیداوار کا ٹھیکہ اپنے ذمہ لیا ہے، میڈیا وہ سبق پڑھ رہا ہے جو سرمایہ کار اسے پڑھا رہا ہے اور جو ہرانسان کے صارف ہونے کے لیے دینیات جیسالازمی مضمون ہو گیا ہے۔‘‘
وہ ہنستی ہے اور ہنستے ہنستے اپنی بات مکمل کرنا چاہتی ہے :
’’ہر شے جنس ہو گئی ہے۔ رشتے ناتے۔ میاں بیوی۔ بہن بھائی۔ حتّیٰ کہ ماں باپ۔ کس کے پاس وقت ہے کہ اس دوسرے کے دل میں جھانک کر دیکھ سکے۔ اب سب کو مل بیٹھ کر دُکھ سکھ نہیں بانٹنے کہ سب آسانیوں کی طلب میں پاگل ہوے جاتے ہیں۔‘‘
میں نے اسے ٹوکا:
’’ہمارے ہاں ابھی تک صورت حال اتنی بھی گھمبیر نہیں ہوئی۔۔۔ اور مشرق میں ابھی تک خاندانی نظام باقی ہے۔‘‘
اُس نے سانس کا لمبا دھاگا کھینچا اور کہا:
ہاں، مگر اے میرے دانش ور، ہمارے ٹیکنوکریٹس، ہمارے سیاستدان، ہمارے ادیب اور پڑھے لکھے لوگ، ہمارا مقتدر طبقہ اور ہمارا میڈیا ہمیں زبردستی کس جانب دھکیل رہا ہے۔
میں نے وضاحت کرنا چاہی :
’’دیکھو وقت بدل رہا ہے۔ ادیب اور دانش ور کا یہ منصب ہے کہ اپنے لوگوں کو زمانے کی ہوا سے آگاہ کرے۔‘‘
وہ جیسے پھٹ پڑی تھی۔ کہا:
’’آگہی اور چیز ہے اور دوسروں کے فرسودہ نظریات کے لیے کچرے کے ٹرک بن جانا اور بات۔ افسوس کہ ہم اپنا سب کچھ تج دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ پر اِعتماد نہیں اور ہمیں آنے والے لمحوں کا خوف کھائے جاتا ہے۔ ہمارا ماضی ہے نہ حال۔ مستقل کا کوئی بھروسہ نہیں۔ لہذا ہم اُن کی طرف دیکھتے ہیں جنہوں نے علم اور تہذیبی مظاہر کی جگہ اِنفارمیشن گاربیج کو دے دی ہے۔‘‘
’’انفارمیشن گاربیج؟‘‘
میں نے اُسے ٹوک کر پوچھا:
’’ہاں اِنفارمیشن گاربیج۔ ایک ڈھیر ہے معلومات کاجو انٹرنیٹ کے ذریعے بہا چلا آتا ہے۔ اسی میں ننگی عورتیں بھی ہیں اور سائنسی فارمولے بھی۔ یہاں بے ہودہ مرد اور جنسی لذّتیں بھی ہیں اور شعر و ادب کے چسکے کا سامان بھی۔ چلتے فیشن کی چڈی، نئے ڈیزائن کی نائیٹی، چٹ پٹے لطیفے، بش کی دھمکیاں، تیل کی چڑھتی ہوئی قیمتیں جسے جو کچھ جاننا ہوتا یہیں سے اُچک لیتا ہے۔ یہ ساری معلومات ہم اپنے بچوں کو بھی دینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’م۔۔۔ م۔۔۔ مگر‘‘
میں نے اسے روکنا چاہا۔ وہ خود ہی رُک گئی تھی۔ اُس کی آواز اب جیسے بہت دور سے آ رہی تھی:
’’ٹیوشن، ہوم ورک، ٹی وی ڈرامے، فلمیں، انٹرنیٹ اور لمبے دن کی بے پناہ تھکن۔ معصوم چہروں کو بے ڈھب معلومات کے اس عفریت نے چچوڑ کر بوڑھا کر دیا ہے۔ اتنے تیزی سے گزرتے ہوے طویل دن کی کوئی شام ان کھیلوں کے لیے نہیں ہے جو ساری عمر انگلی تھامے رکھ سکتے ہیں۔ لکن میٹی نہ کانچ کی گولیاں۔ اینگن مینگن تلی تلینگن نہ کٹم کاٹا۔ گڑیا پٹولے نہ کھو کھو۔۔۔ اور۔۔۔ نہ ککلی۔ جب بچوں کے پاس بچپن ہی نہیں رہا تو ککلی کیسی؟‘‘
میں نے اُسے دیکھا۔ اُسے بھی اور اس کی آنکھوں میں اُمنڈتے آنسووں کو بھی۔ اُس کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔ میں نے تب قریب آتے بچوں کو دیکھا اور یہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا کہ اُن کے چہروں سے بچپنا رُخصت ہو چکا تھا۔ تب میں نے ذہن پر زور ڈالا مگر مجھے یاد نہ آ رہا تھا کہ میرے بچوں نے یہ کھیل کبھی کھیلے بھی تھے یا نہیں۔
اس نے مجھے چھو کر اپنی جانب متوجہ کیا اور کہا:
’’اسی لیے تو میں نے ’’ککلی‘‘ کے ساتھ ’’تھا‘‘ کا لفظ لگایا تھا۔ ککلی میں میری تیری نسل کے لیے اپنے ماضی کے حوالے سے شاید کچھ کشش باقی ہے مگر آنے والے نسل۔۔۔‘‘
میرے دل میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ اُسے کچھ اور کہنے سے روکتے ہوے کہا:
’’پھر تو میں اس تحریر کا عنوان’’ قلم ککلی‘‘ ضرور رکھوں گا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
اس نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ مجھے اپنے بچوں سے نہ تو اُن کا تہذیبی ماضی چھیننا ہے نہ اُن کو مستقبل میں روبوٹ یا محض صارف بنانا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ مجھے اپنے قلم کو، اپنی تحریر کو اور اپنی اولاد کو جنس ہونے سے بچانا ہے۔‘‘
جب میں یہ کہہ رہا تھا تو میرا سینہ زور زور سے بج رہا تھا۔ اس نے میری کیفیت بھانپتے ہوے کہا: ’’تم جذباتی ہو رہے ہو!‘‘
’’ہاں۔۔۔ شاید۔‘‘
میں نے تُرت کہا اور اضافہ کیا: ’’کیا کچھ امور میں جذباتی ہونا درست نہیں ہوتا؟‘‘
اس سوال میں عجب طرح کا یقین تھا جس نے اس کی آنکھوں میں ایک مُدّت بعد پھر چمک بھر دی تھی۔ یہ میرے لیے تصدیق کی چمک تھی کہ اس سے دور دور تک راستہ روشن ہو گیا تھا۔ وہ یکبارگی مسکرائی اور سارے میں مہک بھر گئی۔ میں نے اس کی خُوشبو سے اپنی سانسوں کو معطر کیا، اپنے لفظوں کو اسی خُوشبو سے غسل دیا اور قلم کو محبت سے کاغذ پر سجدہ ریز ہونے دیا۔
قلم میں ایک مستی تھی کہ وہ ککلی ڈالنے لگا تھا۔
ٍ
گانٹھ
عَصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اِضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔
یا پھر شاید، پہلے سے پڑی گِرہیں ڈِھیلی ہو گئی تھیں کہ اِضمحلال اُس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دل ڈوبنے کا مستقل اِحساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔
کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، تویہی مناسب خیال کرتا ہے کہ وہ سیکنڈ اوپینین لے لے۔ ڈاکٹر توصیف کو بھی اِس کی ضرورت محسوس ہو ئی تھی۔ مگر وہ اِسے ٹالتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود سے مسلسل اُلجھنے اور لڑنے بِھڑنے لگا اور اُن لمحوں کو کوسنے لگا تھا جب وہ اس ملک سے اپنے شعبے میں سپیشیلائزیشن کے لیے گیا تھا۔
اِنہی لمحات میں وہ لمحات بھی خلط ملط ہو گئے تھے جب اُسے ایک انوسٹی گیشن سنٹر سے نکال کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
اُس پر شبہ کیا گیا تھا۔
مگر کیوں ؟؟ آخر کیوں ؟؟؟۔۔۔ وہ جتنا سوچتا، اُتنا ہی اُلجھے جاتا۔
ممکن ہے ایک ایشیائی ہونا اس کا سبب ہو۔ نہیں، شاید ایک پاکستانی ہونا۔ یا پھر ہو سکتا ہے مسلمان ہونا ہی شک کی بنیاد بن گیا ہو۔
مگر؟۔۔۔ مگر؟
اور یہ ’مگر، ایسا تھا کہ اس کا سینہ جھنجھنانے لگا تھا۔ وہ اُٹھا اور آئینے میں اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی صورت میں ایسے شک کے لیے کیا کوئی پرانی لکیر باقی رہ گئی تھی۔ پلک جھپکنے کے مختصر ترین وقفے میں طنز کا کوندا آئینے کی شفاف سطح سے پھسل کر معدوم ہو گیا۔
اُس نے نگاہ سامنے جمائے رکھی۔ چہرے کی لکیروں، اُبھاروں اور ڈھلوانوں پر تن جانے والے تناؤ کا جالا پورے آئینے سے جھلک دینے لگا تھا۔ وہ گھبرا کر اُس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا، جو اُس نے اِنٹر کا اِمتحان دے چُکنے کے بعد فراغت کے ایسے لمحات میں بنائی تھی جب مصوری کا جنوں اُس کے سر میں سما یا ہوا تھا۔ یہ اُس کی اپنی تصویر تھی، جو اَدھوری رہ گئی تھی۔
کچے پن کی چغلی کھانے والی اِس اَدھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا۔ شاید، بل کہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اُس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا۔ اُسے یاد آیا، جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اُس نے اپنے باپ سے کہا تھا، کاش کبھی وہ دُنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اُس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا:
’’ تم بنا رہے ہو نا، اِس لیے میرے نزدیک تو یہی دُنیا کی خوبصورت ترین تصویر ہے‘‘
وہ ہنس دیا تھا، تصویر دیکھ کر، اور وہ جملہ سن کر۔
یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں، اُن کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
تصویر نامکمل رہ گئی کہ اُس کا دل اُوب گیا تھا۔ تاہم اُس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا تھا۔ اس نے اِس اَدھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ بہن نے اسے یوں رہنے دیا ہو گا کہ اُس کے مرحوم باپ نے یہاں اپنے ہاتھوں سے سجائی تھی۔
یہ سوچ کر ذرا سا وہ مسکرایا اور وہاں سے ہٹنا چاہا کہ نظر آنکھوں پر ٹھہر گئی۔ واٹر کلر سے بنائی گئی اس تصویر میں اگرچہ دائیں آنکھ کے نیچے ہاتھ لرز جانے کے باعث براؤن رنگ میں ڈوبا برش کچھ زیادہ ہی دب کر بنانے والے کے اَناڑی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مگر مدھم آبی رنگوں میں تیرتی معصومیت نے آنکھوں میں عجب طلسم بھر دیا تھا۔ ایسا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تصویر ادھوری تھی۔ چہرے میں رنگ بھرتے بھرتے چھوڑ دیے گئے تھے۔ یہ اَدھورا پن اُس کے اندر اتر گیا۔ اُس کے اعصاب تن گئے اور وہ اُوندھے منھ بستر پر جا پڑا۔
’’کیوں ؟۔۔۔ آخر کیوں ؟؟‘‘
ایک ہی تکرار سے اُس کا سینہ کناروں تک بھر گیا۔ اُس نے اپنے جسم کو دو تین بار دائیں بائیں لڑھکا کر جھٹکے دیے۔ قدرے سانسوں کی آمدورفت میں سہولت محسوس ہوئی تو ایک بڑا سا ’ہونہہ، اُس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔ یوں، جیسے اُس کے تیرتے ڈوبتے بدن کو کسی نے لمحہ بھر کے لیے تھام سا لیا ہو۔
تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے۔ گوگول کے نہیں، اُس تصویر کے، جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی۔
شیطانی آنکھوں والی اَدھوری تصویر۔
مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اُسے تھاما تھا کہ اس کا چہرہ تو معصومیت لیے ہوے تھا۔ فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔
یہ اِسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جب کہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔
تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اُسے گوگول کے اَفسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑ دیا تھا۔ اُسے اُبکائی آنے لگی تو اُس نے اپنے دھیان سے اُس تصویر کو بھی کھُرچ دیا، اور کالج کا وہ دور یاد کرنے لگا جب ترقی پسندی اُس کے خلیے خلیے سے خُوشبو بن کر ٹپکنے لگی تھی۔
تب ایک نئی تصویر تھی جو بن رہی تھی۔
ابھی یہ تصویر نامکمل تھی کہ اُس پر اِنسان دوستی اور روشن خیالی کے زاویوں سے کرنیں پڑنے لگیں۔ روشن خیالی کی للک میں سب کچھ روند کر آگے بڑھنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جلد ہی مذہبی فرائض کی بجا آوری کو قیمتی وقت کے ناحق تلف کرنے کے مترادف سمجھنے لگا تھا۔ اُس کا خیال تھا، ان فرائض میں صرف ہونے والا وقت کسی بھی اِنسان کو تسکین پہنچا کر اَمر بنایا جایا سکتا تھا۔ اس کے لیے مذہبی طرز اِحساس فقط رجعت پسندی، جہالت اور ذہنی پس ماندگی کا شاخسانہ تھا۔ لہذا وہ مذہب اور اس کے متعلقات کو ایک لایعنی گورکھ دھندا یا پھر افیون قرار دیتا اور خود کو ہمیشہ اس سے دُور رکھا۔ اپنے شعبے سے کامل وابستگی نے اُسے عجب طرح کا دلی سکون عطا کیا تھا۔ اور وہ اس سے نہال تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ جس شہر میں نام، مَقام اور سکونِ قلب کا سرمایہ کما چکا تھا اور مسلسل کما رہا تھا اُسی کا مستقل باسی ہو گیا تھا۔ ایک پس ماندہ ملک کے بے وسیلہ، غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے بے ہنگم اور بے اَصول معاشرے میں رہنے سے بدرجہا مناسب اُسے یہ لگا کہ وہ یہیں اِنسانیت کی خدمت میں جُتا رہے۔ وہ اپنے آپ کو بھول بھال کر اِس خدمت میں مگن بھی رہا۔ مگر ایک روز یوں ہوا کہ وہ شہر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور سب کچھ اُتھل پتھل ہو گیا۔
جب وہ حادثے میں اعصابی جنگ ہارنے والوں کو زندگی کی طرف لا رہا تھا، اُسے سماجی خدمت جان کر، کسی معاوضے اور صلے سے بے نیاز ہو کر، تو اُسے اس خلیج کی موجودگی کا احساس ہو گیا تھا جسے بہت سال پہلے پاٹنے کے لیے اس نے اپنے وجود سے وابستہ آخری نشانی، اپنے نام ’توصیف‘ کو بدل کر ’طاؤژ‘ ہو جانا بہ خُوشی قبول کر لیا تھا۔ اُنہی دنوں ڈاکٹر طاؤژ کی ملاقات کیتھرائن سے ہوئی تھی جو اپنے پہلے شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث شدید نفسیاتی دباؤ سے گزر رہی تھی۔ اس نہایت روشن خیال اور سلجھی ہو ئی خاتون نے ایک روز اُسے پروپوز کر دیا۔ وہ اپنے طور پر اس قدر مگن تھا کہ اِس رشتے کو بھی اضافی سمجھتا رہا تھا۔ کچھ اچھی لڑکیاں اُس کی زندگی میں آئی ضرور تھیں مگر اِتنی دیر کے لیے، جتنی کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ضرورت ہو سکتی تھی۔ لہذا جب ضرورت پوری ہو رہی تھی تو شادی کے پاکھنڈ کا کیا جواز ہو سکتا تھا۔
مگر عجب یہ ہوا کہ کیتھرائن کی پروپوزل کو اس نے بلا جواز قبول کر لیا تھا۔
کسی کو چاہنے لگنا اور کسی سے دور ہو جانا عجب طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عین آغاز میں دلیلیں نہیں مانگتے، فیصلے مانگتے ہیں۔ فیصلہ ہو جائے تو سو طرح کی دلیلیں نہ جانے کہاں سے آ کر دست بستہ سامنے آ کھڑی ہو تی ہیں۔
فیصلہ ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ پھر اُن کے ہاں اُوپر تلے دو بیٹے ہوئے۔ دونوں ہو بہو اپنی مام جیسے تھے۔ راجر اور ڈیوڈ۔ دونوں کے نام کیتھی نے رکھے۔ کیتھرائن کو وہ پہلے روز ہی سے کیتھی کہنے لگا تھا کہ اُس کی صورت ہالیو وڈ کی دلوں میں بس جانے والی اداکارہ کیتھرائن ہیپبرن سے بہت ملتی تھی اور سب اُس خُو ب صورت فنکارہ کو کیتھی کہتے تھے۔
وہ مکمل طور پر اُس سوسائٹی کا حصہ ہو کر مطمئن ہو گیا تھا۔ اِس قدر مطمئن کہ حادثے کے بعد بھی ناموافق رد عمل کے با وصف وہ اس فریضے کو اِنسانیت کی خدمت کا تقاضہ سمجھ کر ادا کر تا رہا۔ حتّیٰ کہ خفیہ والوں نے اُسے دھر لیا۔
کئی روز تک اُس سے پوچھا پاچھی ہوتی رہی۔ پھر وقفے پڑنے لگے۔ طویل وقفے۔ اِتنے طویل کہ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُسے فالتو کاٹھ کباڑ جان کر اس سیل میں پھینک دینے کے بعد وہ سب بھول گئے تھے۔ نہ صرف اُسے اس سیل میں پھینکنے والے بھول چکے تھے، کیتھی، راجر اور ڈیوڈ کو بھی وہ یاد نہ رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سب اچانک یوں آ گئے، جیسے بھولی ہوئی کوئی یاد آیا کرتی ہے۔
پہلے اُسے یہ بتانے والے آئے کہ اگلے چار روز میں کسی بھی وقت اُسے اُس کے اپنے وطن کے لیے ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کو قطعاً مہذب نہیں کیا تھا جیسا کہ امریکن اکثر کر لیا کرتے ہیں۔ اُس نے انگریزی کے اس مختصر مگر کھردرے جملے سے ’اَون کنٹری، کے الفاظ چن کر اُنہیں غرارہ کیے جانے سے ملتی جلتی آواز کے ساتھ دہرایا۔
ایک تلخ سی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی جس کے باعث اُس کے عصبی ریشوں کی گانٹھوں کی تانت بڑھ گئی اور اسے پژمردگی رگیدنے لگی۔
جب وہ پوری طرح نڈھال ہو چکا تو کیتھی، راجر اور ڈیوڈ آ گئے۔ وہ آتے ہی اُسے ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اُسے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور کہہ نہیں پا رہی تھی۔ جب وہ کچھ کہے بغیر ایک فیصلہ کر کے چپ چاپ بیٹھ گئی تو سناٹا سارے میں گونجنے لگا۔ وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کبھی اُس کے قریب نہیں رہے تھے۔ اُس کا خیال تھا، ایسا اس کی مصروفیات کے سبب تھا۔ تاہم اب جو وہ منھ موڑے کھڑے تھے تو یوں کہ صدیوں کا فاصلہ پوری شدّت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ خود نہ آئے تھے، اُنہیں لایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اندر سے باہر چھلکتی اُکتاہٹ نہیں چھپائی تھی۔ اُنہیں دیکھتے ہی اُس نے اَفسوس کے ساتھ سوچا تھا، کاش کیتھی انہیں نہ لاتی۔ اور جب ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تو وہ اسی دُکھ کی شدّت کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا، کاش کیتھی کبھی نہ آتی۔ نہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ وہ جب آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی تو وہ کیتھی کے یوں چلے آنے کا مدعا سمجھ چکا تھا۔
اُن کا فیملی لائر کچھ پیپرز اگلے روز شام تک بنا لایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈِی پورٹ ہونے سے پہلے پہلے وہ اُن پر دست خط کر دے۔ اُس نے ساری بات توجہ سے سنی۔ شاید وہ دست خط کر ہی دیتا کہ اس پر ذہنی دباؤ کا شدید دورہ پڑا۔ اس قدر شدید کہ وہ لائر پر برس پڑا۔ جب وہ چلا گیا تو اُسے خیال آیا کہ سارے پیپرز چاک کر کے اُس کے منھ پر دے مارتا تو اُس کے اَندر کا اُبلتا غصہ کچھ مدھم پڑ سکتا تھا۔ اس نے اگلی ملاقات پر ایسا ہی کرنے کے لیے سارے پیپرز سنبھال کر رکھ لیے۔ لیکن اس کے بعد اسے ملنے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ اسے ائرپورٹ لے جایا گیا۔ جہاز میں سوار ہوتے ہوے اس پر کھلا کہ ایک سو پچیس دوسرے پاکستانی بھی ڈی پورٹ کئے جا رہے تھے۔
دُنیا بھر کے میڈیا والے سب کی تصویریں اور ٹیلی رپورٹس بنا رہے تھے۔ وہ سب مجرم ثابت نہیں ہوے تھے مگر اُنہیں امریکہ سے نکالا جا رہا تھا۔ یوں، کہ جیسے وہی مجرم تھے۔ ساری رپورٹس براہ راست چلائی گئیں۔ اَخبارات کی زینت بنیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز انہیں کئی روز تک وقفے وقفے سے چلاتے رہے کہ یہ ساری کار روائی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مہم جوئی کا حصہ تھی۔ وہ یہ سارا تَماشا نہ دیکھ سکا کہ اُسے ائیر پورٹ ہی سے سرکار نے حفاظت میں لے لیا تھا۔ ایک بار پھر بے ہودہ سوالات کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ یہاں والے اُن سوالات میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے جو دورانِ تفتیش وہاں پوچھے جاتے رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا کہ انہیں علی شامی نامی ایک ایسے عربی النسل شخص میں دل چسپی تھی جو اُس کے وہاں قیام کے آغاز کے عرصے میں جیمس بلڈنگ کے اُس فلیٹ میں رہتا تھا جس کا دروازہ عین اس کے فلیٹ کے سامنے تھا۔ علی شامی بعد ازاں سکونت بدل گیا تھا۔ اُس کا طرز عمل اُسے کبھی گوارا نہ لگا تھا کہ اُس کے اندر عجب طرح کی تنگ نظری ہلکورے لیتی رہتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ اکثر اس کے نام کے توصیف سے طاؤژ ہو جانے پر شدید طنز کیا کرتا تھا۔ بقول اُس کے وہ ہوپ لیس کیس تھا۔ جب کہ اسے علی شامی کا یوں طنز کئے چلے جانا بہت کَھلتا تھا۔ لہذا ابھی وہ کہیں اور شفٹ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ممکنہ حد تک دُور ہو چکے تھے۔ بعد میں رابطے کی ضرورت تھی، نہ کوئی صورت نکلی۔ جب وہ اُسے تیز روشنیوں کے سامنے بیٹھا کر مسلسل جگائے رکھنے پربھی اِس سے زیادہ کچھ نہ اُگلوا پائے تو انہوں نے سوالات روک دیے تھے۔ مگر تذلیل کا سلسلہ ایسا تھا کہ رُکتا ہی نہیں تھا۔ تاہم اُدھر جو ختم ہو گیا تھا تو یہ اِدھر بھی آخر کار انجام کو پہنچا۔
جب یہ تکلیف دہ سلسلہ تمام ہوا، اور اسے جانے کی اجازت مل گئی تو وہ خلوص نیت سے چاہنے لگا تھا کہ کاش یہ سلسلہ یونہی دراز ہوئے چلا جاتا۔ ذلیل ہوتے رہنے کی عجب خواہش اب معمول کی زندگی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ یہاں معمول کی زندگی تھی بھی کہاں ؟ اس کے یتیم بھانجوں کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف بھوک، بے روز گاری اور جہالت ننگا ناچ رہی ہو تو وہاں جیو اور جینے دو کی تمنا سے دہشت اُگ ہی آیا کرتی ہے۔
اَپنی بیوہ اکلوتی بہن کے ہاں پڑے پڑے اُسے ایک ماہ ہو گیا تو اُس نے اپنی بنائی ہوئی نامکمل تصویر کی آبی آنکھوں میں تیرتی معصومیت دیکھی جن پر گوگول کے افسانے کی تصویر کی شیطانی آنکھیں حاوی ہو گئیں تھیں۔ اس قدر حاوی کہ فرشتوں جیسا معصوم چہرہ کہیں تحلیل ہو چکا تھا۔ اُس نے ان دونوں تصویروں کا خیال جھٹک دیا تو ایک تیسری تصویر خود بخود اُس کے تصور میں اُبھرنے لگی۔ آ سکر وائلڈ کے ڈورئن گرے کی وہ تصویر جو اس نے ایسے کمرے میں رکھ دی تھی جو مقفل تھا۔ عجب تصویر تھی کہ ڈورئن کی ساری خباثتوں کو کشید کر کے خود مکروہ ہو رہی تھی مگر ڈورئن کو ویسے ہی جواں اور خوبصورت ر کھے ہوے تھی جیسا کہ مصور ہال ورڈ نے تصویر بناتے ہوے اُسے دیکھا تھا۔ اس تصویر کو سوچتے ہی ساری گرہیں کھُل گئیں۔
اُس روز پہلی بار اُس نے اپنے بھانجوں کو غور سے دیکھا تھا جو اَبھی اَبھی نماز پڑھ کر پلٹے تھے۔ پھر وہ دیر تک اُنہیں آنکھیں چوپٹ کیے خالی دیدوں سے دیکھتا رہا۔ حتّیٰ کہ اُس کی نظریں دُور خلا میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگیں۔ اُس کی بہن نے اُس کے چہرے پر کم ہوتے تناؤ کو غنیمت جانا اور اُس کے سر کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوے وہ بات کہہ دینا چاہی جو پہلے روز ہی وہ کہہ دینا چاہتی تھی، مگر مناسب وقت تک اُسے ٹالنے پر مجبور ہوتی رہی تھی۔ اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے اور رُک رُک کر اُس نے پوچھا:
’’توصیف بھائی، ایک بات کہوں ؟‘‘
بہن کے ملائم لہجے نے اُس کے دل میں گداز بھر دیا تھا۔ اُس نے بہن کو دیکھا، محبت کی عجب پھوار تھی کہ اُس کا چہرہ کِھلے گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔ کہا:
’’کہو‘‘
اور اُس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا:
’’ بھائی، اَب بھابی اور بچوں کو بھی یہاں بلا ہی لیں۔‘‘
یہ سنتے ہی جیسے اُس کے اَندر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ ایک بار پھر شدید دورے کی زَد پر تھا۔ اور اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُس کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔ وہ اپنے آپ میں نہ رہا اور ایک گنوار کی طرح چیخ کر کہا:
’’اُن ذلیلوں کو یہاں بلوا لوں ؟ جارح قوم کی ذلیل کتیا کے ذلیل پِلوں کو؟‘‘
پھر نہ جانے وہ کیا کیا ہذیان بکتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو کر اوندھا گر گیا۔
آنے والے روز وہ کچھ بتائے بغیر کہیں نکل گیا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی پیپرز تھے جو اُسے لائر کے منھ پر دے مارنا تھے۔ یہ پہلا روز تھا کہ وہ اپنی خواہش سے باہر نکلا تھا۔ جب وہ واپس پلٹا تو بہت ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔ اُس کے پاس سوچنے اور کرنے کو کچھ نہ رہا تو آرٹسٹ ہال ورڈ کی بنائی ہوئی وہ تصویر دھیان میں آ گئی جو بہ ظاہر خوبصورت نظر آنے والے کی ساری خباثتیں چُوس کر خود مکروہ ہو گئی تھی۔ اِس تصویر کا خیال آتے ہی اُسے اِردگرد کا سارا منظر حسین دکھنے لگا، مہکتا ہوا اور رنگ برساتا ہوا۔ اَگلے روز وہ عین اُس وقت اُٹھا جس وقت اُس کے بھانجے اُٹھا کرتے تھے۔ بہن اپنے بھائی کے اَندر اِس تبدیلی کو دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی۔ مگر جب اُنہیں واپسی میں دیر ہونے لگی تو اُسے ہول آنے لگے۔ اِس ہولا جولی میں وہ مسجد کے بھی کئی پھیرے لگا آئی۔ وہ تینوں وہاں نہیں تھے۔ جب وہ پلٹے تو اُس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ مگر وہ اس سے بے نیاز اپنے بدنوں سے بے طرح پھوٹ بہنے والے مرغوب مشقت کے پسینے کو پونچھے جاتے تھے اور آپس میں مسلسل چہلیں کر رہے تھے۔
یوں ہی اٹکھیلیاں کرتے کرتے وہ تینوں جب اس نامکمل تصویر تک پہنچے جس کی آنکھوں میں آبی معصومیت تیرتی تھی تو ڈاکٹر توصیف یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا کہ وہ تو ایک مکمل تصویر تھی۔ بالکل ویسی ہی، جس کے ساتھ آ سکر کے کردار ڈورئن نے اپنی روح کا سودا کر لیا تھا۔ معاشرے کی ساری خباثتیں چوس لینے کا وصف رکھنے والی مکمل تصویر۔
یہی وہ لمحہ تھا کہ اُس کے عصبی ریشوں کی ساری فالتو گانٹھیں کھُل گئیں اور جہاں جہاں ان گرہوں کو ہونا چاہیے تھا، سلیقے سے سج گئیں۔ ساری کسل مندی فاصلے پر ڈھیر پڑی تھی۔ اور وہ بھانجوں کے بازوؤں پر مچلتی مچھلیوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا، جو تیرتی گانٹھوں جیسی لگ رہی تھیں۔
ٍ
موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ
وہ مر گیا۔
جب نخوت کا مارا، امریکا اپنے پالتو اِتحادیوں کے ساتھ ساری اِنسانیت پر چڑھ دوڑا اور اعلٰی ترین ٹیکنالوجی کے بوتے پر سب کو بدترین اِجتماعی موت کی باڑھ پر رکھے ہوے تھا، وہ اِسلام آباد کے ایک ہسپتال میں چپکے سے اکیلا ہی مر گیا۔
مجھ تک اُس کے مرنے کی خبر پہنچی تو میں سٹ پٹا گیا:
’’ہائیں وہ مر گیا۔ نہیں، نہیں۔ مگر کیسے ؟‘‘
یہ سب بے معنی الفاظ تھے جو میری زبان سے بے اِرادہ نکلے تھے۔ اُسے سرطان تھا، یہ میں جانتا تھا۔ ایک پھوڑا، اس کی رانوں کے عین وسط میں نکل آیا تھا، جسے کاٹ پھینکنے کے لیے دو آپریشن بھی ہو چکے تھے مگر اُس کی جڑیں پوری طرح کھُرچی نہ جا سکیں۔
’’ میں کسی بھی وقت مر سکتا ہوں‘‘
یہ اُس نے خود مجھے بتا یا تھا مگر یوں کہ مجھے اُس کی بات کا یقین نہیں آیا تھا۔
ہم دونوں کے بیچ عجب رشتہ رہا ہے۔ میں جو بھی بات کہتا رہا، چاہے محض اُس کا دل رکھنے ہی کو کہی، اُس نے فورا یقین کر لیا۔ مگر وہ سچ بات بھی کچھ اِس ڈَھب سے کرتا رہا کہ مسلسل دہرائے ہوے جملے محض اس کی فرسٹریشن کا شاخسانہ لگنے لگتے۔ وہ اپنی بیماری کی باتیں بھی یوں کرتا تھا جیسے بس یوں ہی کوئی بات کہنے کو ایک بات کر رہا ہو۔ مرنے والی بات بھی اُس نے کچھ ایسے بے روح لفظوں میں کہی تھی کہ اُس کی طرف بڑھتی موت کی چاپ مجھے سنائی نہ دی تھی۔ اُس سارے عرصے میں، کہ جب موت اُسے پچھاڑ رہی تھی، وہ میری گرم جوش اور جذباتی توجہ حاصل نہ کر پا یا تھا۔ میں اُس کی بیماری کو ایسا عارضہ سمجھنے لگا تھا، جو اَگر اُسے لاحق تھا تو اُس کی شخصیت کا حصہ ہو گیا تھا اور یہ عارضہ، میرے خیال میں، اتنا ہی بے ضرر تھا جتنا کہ مجھے لا حق رہنے والا آلکسی کا روگ اور اس روگ کی لذّت دینے والی کساوٹ۔
طالب علمی کے زَمانے تک الگ الگ تعلیمی اداروں میں ہونے کے با وصف ہم میں رابطہ رہا تو اس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک، لکھنے کی للک اور دوسرا، لیڈری کا خبط۔ ہم دونوں کی پہلی کتاب طالب علمی کے اسی دورانیے میں آئی تھی۔ یہ پہلی کتاب ہی اُس کی آخری کتاب بن گئی۔ ہم دونوں نے ایک برس الیکشن لڑا۔ وہ اپنے کالج میں یونین کا صدر بن گیا اور میں یونیورسٹی میں ہار کر طلبہ سیاست سے الگ ہو گیا۔ تاہم ایک طویل وقفے کے بعد جب اس شہر میں ہم دوبارہ ملے، جو اُس کا شہر تھا نہ میرا، تو طالب علمی کے اُس عرصے کو بہت یاد کرتے تھے۔ اُس نے بتایا تھا کہ اِس درمیانی مُدّت میں بھی اُس نے مجھے یاد رکھا تھا۔ اُس نے یہ بات بالکل اُسی غیر جذباتی اَنداز میں بتائی تھی جیسا کہ بعد ازاں اپنے مر جانے کے خدشے کا اِظہار کیا تھا۔ لہذا مجھے قطعاً یقین نہ آیا۔ لیکن جونہی میں نے اُسے سچ سچ بتا دیا کہ میں تو اُسے بالکل بھول چکا تھا، تو اُس نے ہونٹ چٹخا کر مجھے یوں گا لی دی کہ میری سماعت اس کی لذّت سے بھر گئی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، یقین کر لیا کہ وہ ہمیشہ کی طرح میری بات کا یقین کر چکا تھا۔
دوبارہ ملنے تک میں پانچ بچوں کا باپ ہو گیا تھا۔ اور وہ مرنے تک کنوارہ ہی رہا۔ حالاں کہ وہ مجھ سے کم از کم پانچ برس بڑا تھا۔ اَب ملا تو وہ عورتوں کی طرح اپنی عمر چھپانے لگا تھا۔ مجھ سے نہیں، دوسروں سے۔ مجھ سے کیسے چھپا پاتا؟ کہ میں تو اُسے اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ دھوبی گھاٹ والے کالج میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ میں اس کے شہر کی یونیورسٹی میں ان دنوں گریجویشن کر رہا تھا۔ وقت پر شادی نہ ہو تو جیسے کچھ ڈھلتی عمر کی لڑکیوں پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں، ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پہلے پہل، میرا خیال ہے، اُس پر پڑنے والے ڈپریشن کے دوروں کا یہی سبب تھا۔ اِس میں بعد ازاں کوئی بہت عمدہ اور منفرد کام نہ کر سکنے کی جھینپ بھی شامل ہو گئی تھی۔
اُس کے مرنے کی خبر سنتے ہی میں نے اپنے آپ کو بہت کو سا۔ خود پر خوب بَرسا اور تا دیر اُلجھتا رہا۔ اِس خجلت زدگی اور اُلجھاوے کا سبب وہ پچھتاوا تھا جو آخری دنوں میں ڈھنگ سے اُس کی تیمار داری نہ کر سکنے کے باعث میرے وجود میں اُتر گیا تھا۔ مجھ تک جب خبر پہنچی اُس کی نعش ہسپتال سے اُس کے شہر کو روانہ ہوے پندرہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں فوراً نکل کھڑا ہوتا تو بھی جنازے میں نہ پہنچ پاتا۔ لہذا اُس کے شہر نہ جانے کے لیے دل کو سمجھا لیا۔ تا ہم ایک کسک مسلسل کسمساہٹ میں رکھنے لگی تھی کہ آخر کیوں اس کے آخری بار ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کی خبر نہ پا سکا۔ حیف میری اِتنی بے خبری پر کہ وہ اِس دورانیے میں کئی روز اَذیّت میں مبتلا رہنے کے بعد چپکے سے مر گیا۔
قدرے کم معروف اور ایک ضرر لکھنے والے کے حصے میں جتنی تعزیتی قراردادیں آ سکتی تھی، اُس کے حصے میں بھی آئیں۔ اُس کام کا تذکرہ بھی ہوا، جو اگر چھپ جاتا تو اُس کا نام زیادہ اَہم ہو سکتا تھا۔ مگر فورا بعد اُس بارود کی بارش کا تذکرہ ہونے لگا جو افغانیوں کے بعد اَب مسلسل عراقیوں پر برس رہی تھی کہ یہ بارش جہاں برستی تھی وہاں سے موت کھمبیوں کی طرح اُگ آتی تھی۔ اِتنے بے پناہ مرنے والوں کے درمیان اُس کی موت اکیلی ہو گئی۔ الگ۔۔۔ بالکل اکیلی۔
موت کے اِس اَپادھی موسم میں سفاک امریکا سارے اصول اور سارے ضابطے چھوڑ کر اِنتہائی بے حیائی سے یہ کہہ رہا تھا :
’’ جو ہماری بات نہیں مانے گا، اُسے الگ تھلگ کر کے رکھ دیں گے -‘‘
الگ تھلگ ہو جانے والے مارے جا رہے تھے۔ وہ اِنتہائی ڈھٹائی سے لفظ چبا چبا کر کہتا تھا:
’’ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں، تو آپ ہمارے خلاف ہیں‘‘
ایک سہم ہر کہیں سنسنا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا، پوری دُنیا زَنخوں کی ٹانگوں میں پڑی ہوئی تھی اور ان زنخوں کے اوپر ایک ہی تلنگا مرد تھا جو اُن کے چوتڑوں پر اپنی شہوت بھری مردانگی کے دُرے برسا رہا تھا۔ وہ اِنتہائی گھمنڈ بھرے لہجے بار بار دہرائے جاتا تھا:
’’ہم اِس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دُنیا کا بدترین اسلحہ دُنیا کے بدترین حکمرانوں کے پاس رہے۔‘‘
دُنیا بھر کے عام لوگ اُسے آئینہ دکھانے اور اُس کے مکروہ چہرے پر تھوکنے کے لیے گلیوں میں نکل آئے تھے۔ مگر حکومتوں کے سربراہوں نے اپنی اپنی مصلحتوں کے اَسیر ہو کر ساری دنیا کو اپنے جیسا زنخا بنا لیا تھا۔ کچھ نہ کر سکنے اور فقط ہاتھ نچانے یا فحش اِشارے کرنے والا زنخا۔
پھر یوں ہوا کہ اُس کے شہر جا نے کا موقع نکل آیا۔ میرے ساتھ منشا، فریدہ اور خلیق بھی تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں اُن میں پہلے دو اَفسانہ نگار ہیں اور تیسرا شاعر۔ جس تقریب کے لیے ہم آئے تھے اُس سے فارغ ہو کر اُس کے گھر کو نکل کھڑے ہوئے۔ ہم چاروں میں سے کوئی بھی اُس کے گھر والوں سے پہلے نہ ملا تھا لہذا اپنے تئیں اَندازہ لگائے بیٹھے تھے کہ اَجنبیوں کی طرح دُعا کو ہاتھ اٹھائیں گے اور پلٹ آئیں گے۔ میں اُس کی قبر پر بھی جا نا چاہتا تھا کہ مجھے بہت ساری معذرتیں کرنا تھیں اور اس کی قبر کا پتا اس کے گھر والوں ہی سے مل سکتا تھا۔
جیسے ہی ہم اُس کے گھر پہنچے، جو سوچ کر گئے تھے، وہ سب بھول گیا۔ عجب کہرام مچا تھا کہ ہم بھی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پائے۔
پہلے اُس کے بھائی ہماری چھاتیوں سے لگے اور یوں دھاڑیں مار مار کر روئے۔ ایسا لگتا تھا، جیسے محض ہم وہاں نہیں آئے تھے، اُس کی نعش بھی ساتھ لائے تھے۔ پھر اُس کی بہنیں روتی کر لاتی بھاگ کر آئیں اور بھائیوں کی پیٹھوں سے لگ کر ضبط کرتے ہوے گسکنے لگیں۔ ضبط نہ رہا تو پچھاڑیں کھانے لگیں۔ یوں کہ جلد ہی اپنے وجودوں سے بے نیاز ہو گئیں۔ آخر میں بھاری جثے اور بڑی عمر والی نڈھال سی عورت بوکھلائے ہوے داخل ہوئی۔ یہ اُس کی ماں تھی اور لگتا تھا رو رو کر اس کی آنکھیں بہہ چکی تھیں۔ وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوے ’ ’کون؟کون؟ کیا آ گیا میرا بیٹا؟، کی تکرار کرتے آئی۔ آتے ہی ہم سب کے چہروں کو غور سے دیکھا۔ میں جو اُس کے پاس کھڑا تھا میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:
’’ کہاں ہے میرا بیٹا؟لاؤ نا، بہنیں اُسے سہرا باندھیں‘‘
پھر اُس نے دو ہتڑ سے اپنی چھاتی کو پیٹا اور حلقوم کو چیر کر نکلتی چیخ کو اوپر اُچھالتے ہوے کہا :
’’ہائے او میرا ڈاہڈا ربّا‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ یوں چکرا کر گری کہ سب کے کلیجے دہل گئے۔ بیٹے بیٹیاں اُسے سنبھالنے میں لگ گئے تھے۔
واپس پلٹتے ہوے ہم سب چپ تھے، فریدہ نے کہا:
’’ ماں کا دُکھ تو سنبھالے نہیں سنبھلتا۔‘‘
منشا نے تائید کی :
’’ہاں ماں کا دُکھ، تو یوں لگتا ہے، ہماری ہڈیوں کے گودے میں اُتر گیا ہے۔‘‘
میں چپ تھا۔ چپ ہی رہا کہ مجھ میں اپنے دُکھ کے بیان کا سلیقہ نہیں ہے۔ تاہم خلیق بولا:
’’ہمیں اِس درد کو اپنی تخلیق کا حصہ بنانا چاہیئے۔‘‘
فریدہ، جو اَب تک بہت سنبھل چکی تھی، کہنے لگی :
’’میں تو اِس پر کہانی لکھوں گی۔ آپ دونوں بھی لکھیں نا‘‘
پھر وہ خلیق کی طرف مڑی اور کہا:
’’ تم اِس پر نظم لکھنا۔‘‘
واپس آئے ہمیں کئی روز بیت گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے منشا اور فریدہ نے کہانیاں، جب کہ خلیق نے نظم بھی لکھ لی ہو گی۔ مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں پھر اُن اِجتماعی اَموات میں اُلجھ گیا ہوں جو کوفہ، کربلا اور بغداد والوں کا مقدّر ہو گئی تھیں۔ دُنیا کے بدترین حکمران نے اپنے مہلک ترین اسلحے کے بھرپور اِستعمال سے سقوط بغداد کا مقصد حاصل کر لیا۔ جن مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اس ہلے میں مرنا تھا، مر چکے۔ خود کو اِنصاف پسند کہلوانے والی مکار دُنیا اپنے اپنے مفادات کے تحفظ سے مشروط ہو کر اس ساری درندگی کا جواز بھی فراہم کر نے میں جُت گئی ہے۔ اِقتدار والے اپنا اقتدار بچانے کے لیے کہتے ہیں :
’’ہماری باری نہیں آئے گی۔‘‘
اور پھر اس ذلیل کے خُٹے سہلانے میں لگ جا تے ہیں جو سب کی باریاں باندھ رہا ہے۔ ہمیں ’سب سے پہلے اپنا آپ، کا نعرہ دے کر وہ جو سمجھانا چا ہتے ہیں اگر وہ میں سمجھ بھی جاؤں تو بھی تَھوک میں مرتے اِنسانوں کے خُون کی باڑھ مجھے اپنی جانب آتی صاف نظر آتی ہے۔ اور اِس آگ کی باڑھ بھی جو بغداد کی ایک قدیم لائبریری میں اُٹھی اور اب سارے سچے لفظوں کو جلانے کے لیے چاروں اور بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں اِجتماعی اموات پر لکھی گئی کوئی ایسی کہانی جسے ابھی میں نے لکھنا ہے، بے حسی یا درندگی کی آگ سے مرنے والوں کو بچا پائے گی؟اور کیا وہ خود بھی جل جانے سے محفوظ رہ پائے گی؟
یہ ایسا سوال ہے جس نے مجھے کہانی اور اُمید، دونوں سے دور کر دیا ہے۔ تا ہم گھٹی میں پڑی ہوئی اُمید اور عادت بن چکی کہانی نے ورغلا کر مجھے پھر لفظوں کی اشتہا کا اسیر کر دیا ہے۔
میں نے پکا ارادہ باندھ لیا ہے کہ میں کہانی ضرور لکھوں گا۔
پہلے اِجتماعی اموات پر اور پھر اکیلے میں مر جانے والے کی کہانی۔
مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہر بار کاغذ کورے کا کورا رہ جاتا ہے اور جب کئی کئی گھنٹے کہانی کا ابتدائیہ سوچنے میں گزار کر ناکام اٹھتا ہوں تو نہ لکھے جا نے والی کہانی، کسی نامرد پر ایک فاحشہ کی طرح ہنسنے والی کی طرح، مجھ پر ہنستی ہے اور میں قلم کو کاغذ پر یوں نچاتا ہوں جیسے زنخا ہوا میں ہاتھ نچاتا ہے۔ میں کھسیانا ہو کر اپنے اَندر دیکھتا ہوں۔ کچھ کھسیان پت ماند پڑتا ہے کہ میرے اندر ابھی تک، ہر کہیں رواج پا گئی بہیمت اور نا انصافی کے خلاف نفرت اور احتجاج کے شعلے اُٹھ رہے ہیں۔ گمان گزرتا ہے کہ شاید میں جلد ہی اِجتماعی اموات پر کہانی کہنے کی قوت پا لوں گا۔ اِسی موہوم اُمید کے سہارے اکیلی موت پر لکھنے کو معرضِ التوا میں ڈال دیتا ہوں۔
اگلے کئی روز کئی اموات پر ایک کہانی لکھنے کی تڑپ میں لَد گئے مگر ہو یہ رہا تھا کہ ہر بار کاغذ کورے کا کورا رہ جاتا۔ جب میں کئی کئی گھنٹے کہانی کا ابتدائیہ سوچنے میں گزار کر ناکام اُٹھتا تو نہ لکھے جا نے والی کہانی، کسی نامرد پر ایک فاحشہ کی طرح ہنسنے والی کی طرح، مجھ پر ہنستی اور ہنسے چلی جاتی۔
جن ادیبوں اور شاعروں نے اُس کے لیے تعزیتی قراردادیں، سوانحی مضامین اور نظمیں لکھنا تھیں لکھ لیں تو میں نے بھی اِجتماعی اموات کی کہانی لکھنے کا ارادہ موقوف کر دیا اور دوسروں کی طرح اُس کے درد میں ڈوبی ہوئی ایک بے ضرر کہانی لکھنے بیٹھ گیا۔ مگر یوں لگتا ہے کہ میرے قلم سے لکھنے کی قوت یوں بہہ گئی ہے جیسے دُنیا بھر کے مقتدر لوگوں کی رانوں کے بیچ سے وہ مردانگی جو حوصلہ دیتی تھی بہہ چکی ہے۔
ٍ
منجھلی
اَب سوچتا ہوں کہ میں نے اِتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا تھا، تو حیرت ہوتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اِتنا بڑا فیصلہ میں نے نہیں کیا تھا، خود بخود ہو گیا تھا۔
دراصل بھائی اور بھابی دونوں اِتنی محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے ہیں کہ اُن کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بیگم نے بھی مخالفت نہ کی تھی۔
بس ہکا بکا مجھے دیکھتی رہی تھی۔
اگرچہ وہ کچھ نہ بولی تھی مگر اس کی آنکھیں نمی سے بھر گئی تھیں۔
اور اَب جب کہ میرے اَندر بھیگی آنکھوں کی فصل اُگ آئی ہے، سوچتا ہوں، میں نے اپنا فیصلہ بدل کیوں نہ دیا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ اس نے میرا فیصلہ اپنا فیصلہ بنا لیا۔
سب کو کہتی پھرتی۔
’’دیکھو جی گڑیا ابھی دودھ پیتی ہے اور بڑی بھی تو ناسمجھ ہے، بات بے بات ضد کر بیٹھتی ہے تو سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میں منجھلی کو کیسے سنبھالوں گی؟اَپنی دادی اور پھوپھی سے بہت مانوس ہے، بھابی اور بھائی بھی تو ماں باپ جیسے ہیں، پیچھے رہ لے گی۔‘‘
اور وہ پیچھے رہ گئی۔
پہلی رات میں سو نہیں سکا تھا۔
ننھی منی معصوم منجھلی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہی۔
میں نے بیگم کو دیکھا، وہ بھی پہلو بدل رہی تھی۔ پوچھا:
’’نیند نہیں آ رہی؟‘‘
’’جی، نئی جگہ ہے نا!‘‘
پھر نئی جگہ پرانی ہو گئی۔ مگر، وہ حوصلہ نہ ہاری۔
اور منجھلی بھائی اور بھابی کی بیٹی بن کر ان کے پاس رہتی رہی۔
وہ اُنہیں ابو اور امی کہتی ہے جب کہ ہمیں بابا اور ماما۔
شروع شروع میں جب ہم جاتے تھے تو وہ ہمارے ساتھ آنے کے لیے ضد کرتی۔ رو رو کر بے حال ہو جاتی مگر رفتہ رفتہ وہ چُپ چَاپ ہمیں دیکھتی رہتی۔
اور جب حسرت سے یوں دیکھتی تو میرا دل کرتا، کاش وہ کھُل کر رو لے۔
بیگم کا خیال تھا: اُس کے آنسو اُس کے اَندر پڑ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بیگم کو گاؤں سے واپسی پر چپ سی لگ جاتی۔
بات یہ نہیں ہے کہ اُوپر تلے ہماری تین بچیاں ہوئی اور ایک بھائی بھابی کو دے دی۔ نہ ہی یہ درست ہے کہ ہمارا تبادلہ ہو گیا اور دوسرے شہر میں ان تینوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا کہ اپنی اولاد کے لیے مشکلات سہنا ہی تو زندگی کو پُر لطف بنا تا ہے۔
اصل واقعہ یوں ہے کہ
جب گڑیا پیدا ہوئی تھی تو بھابی اُسے گود میں اُٹھا کر دیر تک دیکھتی رہی تھی۔
پھر اُس نے ہونٹوں سے گڑیا کے گال چوم لیے تھے اور اُس کے گالوں سے اپنے گال رگڑتی رہی تھی۔
ایسا کرتے ہوے اُس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
اُس نے اپنے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا اور انگلی سے ہونٹوں کو سہلایا تھا، یوں جیسے محبت کے اِس لمس کو پوروں پر محسوس کرنا چاہتی ہو۔
پھر بے اختیار اُسے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا:
’’اوہ میری بچی‘‘۔
میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ کہا:
’’بھابی یہ آپ ہی کی بچی ہے۔‘‘
اس نے میری جانب دیکھا:
’’میری بچی۔ کہیے نا؟ یہ میری ہی بچی ہے نا؟‘‘
اُس کے چہرے پر عجب سی کیفیت تھی۔ حیرانی، محض حیرانی ہی نہیں۔ محبت، صرف محبت کا جذبہ ہی نہیں۔ حسرت، شاید وہ بھی پوری طرح نہیں۔
بے قراری، چاہت، بے یقینی، طلب مجھے نہیں معلوم، اُس کے چہرے پر آئی کیفیت کو کِس لفظ سے بیان کروں۔
میں وہ آنکھیں دیکھ رہا تھا، جو آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔
اور وہ ہونٹ دیکھ رہا تھا جو جذبوں کی شدّت سے کپکپا رہے تھے۔
’’دیکھو! تم اَب اِسے دودھ نہیں پلاؤ گی۔‘‘
اُس نے میری بیگم کی طرف منھ کر کے کہا اور فیصلہ دے دیا:
’’یہ میرے ساتھ رہے گی۔ میری بیٹی بن کر۔‘‘
پھر وہ اُسے اپنے کمرے میں لے گئی۔
اَمّی جان یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔ کبھی ہنستیں، کبھی رو دیتیں۔ جب ذرا سنبھلیں تو گڑیا کی چیزیں سمیٹ کر کمرے سے نکل گئیں۔ چند لمحوں بعد بھابی کے کمرے کے دروازے کی چرچراہٹ سنائی دی۔ گویا امی سیدھی وہاں گئی تھیں۔
ہمارے کمرے میں سناٹا گونج رہا تھا۔
میں نے بیگم کو دیکھا وہ اَبھی تک بند دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا ہاتھ اس جگہ کو سہلا رہا تھا، جہاں تھوڑی دیر پہلے تک گڑیا لیتی ہوئی تھی۔
میں نے اُس جگہ کو چھوا، گڑیا کے بدن کی گرم گرم لپٹیں ابھی تک اُٹھ رہی تھیں۔
پتا نہیں کتنا وقت یوں ہی گزر گیا۔
نہ اُس نے کچھ کہا، نہ مجھے بولنے کی ہمت ہوئی۔
میری ساری حسیات دوسرے کمرے کی سمت مرتکز تھیں۔ یوں کہ مجھے وہاں کی ہلکی ہلکی آواز تک سنائی دے جاتی تھی۔
ایسا عام حالات میں ممکن نہ تھا۔
مگر حیرت ہے میں اَندازہ کر سکتا تھا کہ کون کمرے میں اِدھر اُدھر چل رہا ہے۔ اور کون اَب گڑیا پر جھُکا ہے۔ اور کون اُس کے پوتڑے درست کر کے رکھ رہا ہے۔ اور کون اس کے لیے فیڈر صاف کر رہا ہے۔
دفعتاً گڑیا کے رونے کی آواز سنائی دی۔ بیگم نے تڑپ کر میری طرف دیکھا۔ وہ بھی غالباً ساری ساری وہیں تھی۔
’’سنیں‘‘
’’ہوں‘‘
’’گڑیا رو رہی ہے‘‘
’’ہاں، مگر وہ چپ ہو جائے گی‘‘
’’دیکھیں‘‘
میں نے اُسے دیکھا۔
’’وہ یوں چپ نہیں ہو گی‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اُسے بھوک لگی ہوئی ہے۔‘‘
اُس نے آنکھیں بند کر کے یوں سر جھکا لیا جیسے اپنے اَندر مچلتی دودھ کی دھاروں کو محسوس کر رہی ہو۔
’’امی فیڈر لے گئی ہیں، فیڈ بنا دیں گی۔‘‘
’’سنیں‘‘
’’ہوں‘‘
’’وہ ابھی تک رو رہی ہے‘‘
’’ہاں، مگر نہ جانے کیوں رو رہی ہے ؟‘‘
تشویش میرے اندر اُترنے لگی۔
’’جا کر پتا کر لیں نا!‘‘
’’امی ہیں نا!۔۔۔ سنبھال لیں گی‘‘
وہ چپ ہو گئی۔ مطمئن نہ ہو پائی تو چپ نہ رہ سکی۔
’’آپ خود دیکھ آتے۔‘‘
تشویش میرے چہرے پر آ گئی مگر میں اپنی جگہ سے اُٹھ نہ سکا۔
’’اس کے پیٹ میں درد ہے شاید‘‘۔
’’ہاں۔شاید‘‘
’’جنم گھٹی پڑی ہے یہاں۔‘‘
’’اس سے کیا ہوتا ہے ؟‘‘
’’پیٹ درد کے لیے اچھی ہوتی ہے۔‘‘
’’امی ہیں نا!ضرورت ہو گی تو لے جائیں گی؟‘‘
’’مگر گڑیا ابھی تک رو۔۔۔‘‘
اُس نے اپنی بات اَدھوری چھوڑ دی۔ قدموں کی مدھم چاپ ہماری سمت تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ امی آ رہی ہیں۔ دروازہ کھلا۔ بیگم نے امی کو دیکھا اور بے تابی سے کہا:
’’گڑیا رو رہی ہے، کیوں رو رہی ہے میری بچی؟‘‘
امی نے وہیں رُک کر بہو کو دیکھا، پھر میری طرف نگاہ کی۔ کہا:
’’شاید پیٹ میں تکلیف ہے۔ گھٹی رکھی تھی، ادھر؟‘‘
’’یہ رہی‘‘
میں نے جنم گھٹی اُٹھا کر امی کو تھما دی۔
امی نے ایک نظر ہم دونوں کو دیکھا اور کمرے سے نکل گئیں۔
ہمارا دھیان پہلے کی طرح دوسرے کمرے میں جا پہنچا۔
تھوڑی دیر کے لیے گڑیا چپ ہو گئی۔
بھابی کی مدھم آواز آتی رہی۔ وہ گڑیا سے لاڈ کر رہی تھی۔
ہم دونوں خاموش تھے۔
خاموش رہے۔
خدا جانے کتنے ہی لمحے اسی خاموشی میں گزر گئے۔
گڑیا پھر رونے لگی۔
’’سنیں‘‘
’’ہوں‘‘
’’گڑیا پھر رو رہی ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’وہ اُن سے چپ نہیں ہو گی۔‘‘
’’ہو جائے گی۔‘‘
وہ چپ ہو گئی، مگر گڑیا روتی رہی۔ حتّیٰ کہ میں بے قراری سے کمرے میں ٹہلنا شروع ہو گیا۔
’’وہ چپ نہیں ہو گی‘‘
اُس نے دہرایا۔ تشویش میرے لبوں تک آ گئی۔
’’ہاں۔۔۔ شاید‘‘
اُس نے میری تشویش سے حوصلہ پکڑا اور واضح بے قراری سے بولی۔
’’وہ اُسے چپ نہیں کرا سکیں گے۔‘‘
میں چڑ گیا۔
’’ارے بابا امی ہیں نا!‘‘
وہ میرے لہجے کی پروا کیے بغیر بولتی چلی گئی۔
’’امی ہیں تو مگر۔۔۔‘‘
میں تقریباً چیخ پڑا۔
’’مگر کیا؟‘‘
میرے لہجے کی کاٹ دیکھ کر اَب کے وہ چپ ہو گئی۔
گڑیا کے رونے کی آواز آتی رہی۔
مجھے بھی یقین ہو گیا وہ اُن سے چپ نہیں ہو گی۔ میں نے اُسے دیکھا وہ اب کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی مگر اس کی آنکھیں جل تھل تھیں۔
مجھے اپنے لہجے پر افسوس ہونے لگا۔
’’سنو‘‘
’’ہوں‘‘
’’جب بھابی نے گڑیا کو اپنی بچی بنا لیا ہے تو ہماری مداخلت یہ تاثر دے گی کہ شاید ہم اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔‘‘
اِتنا کہتے کہتے میرا گلا رندھنے لگی۔
وہ چپ رہی۔
میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہ تھا۔
گڑیا کے رونے بھابھی کے بہلانے اور امی کے دھیرے دھیرے بولنے کی آوازیں آتی رہیں۔
اِس کمرے کی خاموشی دوسرے کمرے کی ساری آوازوں کو جذب کرتی رہی۔
اِسی کیفیت میں جانے کتنی رات گزر گئی تھی، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں جان گیا، امی اور بھابی دونوں آ رہی تھیں۔
ساتھ ایک مہک تھی، جو دروازے کی درزوں سے گھس کر اندر آ رہی تھی۔
یہ گڑیا کی مہک تھی۔
دروازے پر ہلکی سے دستک ہوئی۔
میں نے آگے بڑھ کر دروازہ چوپٹ کھول دیا کہ وہاں تک نہ جانے میں پہلے ہی کیسے پہنچ گیا تھا۔
بھابی کی گود میں گڑیا تھی اور آنکھوں میں آنسو۔
پیچھے امی تھیں۔
میں ایک طرف ہو گیا۔
وہ اندر آ گئی اور میری بیگم کے پہلو میں گڑیا کو لٹا دیا۔
بیگم نے اُچک کر روتی گڑیا کو سینے سے لگا لیا اور قمیض اُٹھا کر اندر گھسیڑ لیا۔
روتی گڑیا چپ ہو گئی۔
مگر بھابی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
کسی میں ہمت نہ تھی کہ اُسے حوصلہ دیتا۔
ٍ
آٹھ برس ادھر کی بات ہے مگر مجھے ذرا ذرا سب یاد ہے۔
بھولتا تو کیسے، کہ ایک ایک لمحہ میرے اندر منجمد ہوتا رہا ہے۔
ہمیں بچوں کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا تھا کہ میرا تبادلہ وہاں ہو گیا تھا۔
بڑی اور چھوٹی ہم ساتھ لے آئے مگر منجھلی کو وہیں چھوڑ دیا۔
بھابی اور بھائی نے اُسے ڈھیروں محبت دی، اتنی کہ شاید ہم بھی اپنی بچیوں کو نہ دے پائے ہوں گے۔
ہم مطمئن ہو گئے۔
جب کبھی ہم جاتے تو شروع شروع میں وہ ہمارے ساتھ چلنے کی ضد کرتی۔ بھابی نے بتایا، جونہی ہم نظروں سے اوجھل ہوتے تھے، وہ بہل جاتی اور کھلونوں سے کھیلنے لگتی تھی۔
بیگم اکثر کہتی:
’’بڑے حوصلے والی ہے ہماری بچی‘‘
سچ تو یہ ہے کہ بیگم کا بھی بڑا حوصلہ ہے۔ اُس نے اِن آٹھ برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزارا کہ منجھلی کو یاد نہ کیا ہو اور اپنی آنکھیں نہ بھگوئی ہوں مگر مجھ سے شکوہ نہیں کیا کہ اُسے کیوں دے دیا۔جب کہ میں اندر ہی اندر سے کبھی کبھار پچھتا جاتا ہوں۔
جب جب منجھلی مجھے یاد آتی ہے میرے اَندر ہی اَندر سے کچھ کٹنے سا لگتا ہے۔
مگر میں نے کہا نا! بھابھی اور بھائی نے اُسے اِتنی محبت دی ہے کہ۔۔۔
بھائی اور بھابھی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ جب سے ابا جی فوت ہوے ہیں ان دو ہی نے نہ صرف سارے بھائی بہنوں کو، بل کہ سب عزیز رشتہ داروں کو بھی محبت کی ڈوری میں تسبیح کے موتیوں کی طرح پرو رکھا ہے، ورنہ خالی حویلی اب تک بھائیں بھائیں کر رہی ہوتی۔
ملازمت، بچوں کے سکول، دوست احباب، یہ کام، وہ کام۔ میرے پاس مصروفیت کے سو بہانے ہیں۔ میں ان میں الجھ جاتا ہوں اور الجھا ہی رہتا ہوں۔
خود کو اس دلدل سے نکالنا چا ہوں بھی تو نہیں نکال پاتا۔
ایسے میں وہ دونوں آ جاتے ہیں، منجھلی کو لے کر۔ ہمیں ملانے۔
پچھلے ہفتے بھی وہ آئے تھے۔ اور یوں لگتا ہے ابھی تک گئے نہیں ہیں۔ اندر ہی اندر میرے دل میں بس گئے ہیں۔
وہ دونوں بھی اور منجھلی بھی۔
میری بڑی بچی سیانی ہو گئی ہے۔ اِتنی سیانی کہ منجھلی کو بتا سکے :
’’اصل میں تم ہماری بہن ہو‘‘
گڑیا بھی اس کی پڑھائی ہوئی پٹی پڑھنے لگی ہے۔
’’جب تم ہماری بہن ہو تو ہمارے پاس کیوں نہیں ہو؟‘‘
منجھلی کہتی ہے۔
’’مجھے معلوم ہے کہ ہم بہنیں ہیں۔ میرا دل کرتا ہے، میں تم دونوں کے پاس رہوں مگر دیکھو نا ! امی ابو کی کوئی اولاد نہیں ہے نا۔ پھر ان کے پاس کون رہے گا؟ وہ کسے بیٹی بنائیں گے ؟ اور کسے اِتنا ڈھیر سارا پیار کریں گے ؟‘‘
میری سسکاری نکل جاتی ہے۔
وہ باتیں کرتی رہتی ہیں۔ میں اپنی سماعتیں بند کر کے دوسری سمت دیکھنے لگتا ہوں۔ اُدھر بھابھی اور بیگم نے بھی شاید کچھ سن لیا ہے، تبھی تو وہ دونوں اپنے دوپٹوں سے آنکھیں صاف کر رہی ہیں۔
ٍ
ناہنجار
میں سارے بے مصرف اور اُکتا دینے والے کام کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ عمل شدید اُکتا دینے والا لگتا ہے کہ جمعے کے جمعے تھیلا اُٹھاؤں اور پشاور موڑ سے ادھر لگنے والے ہفتہ وار سستے بازار سے روپے دو روپے کے ٹینڈوں، مرچوں، توریوں، بینگنوں اور شلجموں کے لیے بس یوں ہی بکتا جھکتا پھروں۔ ’ بس یوں ہی، کے الفاظ میں نے بس یوں ہی اِستعمال نہیں اِستعمال کر لیے، اِ س کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی جانب سے پوری احتیاط اور کوشش کر دیکھی مگر سودا دینے والے نے کوئی نہ کوئی باسی، پلپلا یا پھر داغی دانہ ضرور ڈال دینا ہوتا ہے۔ اَب اگر وہ ایسا نہ کرے تو اگلی بار چھابہ کیسے لگائے اور کہاں سے لگائے ؟
ایک اور بات جس پر مجھے بہت اُلجھن ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ بندہ آگے کو جھکا بھاؤ تاؤ کر رہا ہوتا ہے اور عقب سے گزرنے والے، بہ جائے اس کے کہ اس کے سیدھا ہونے کا انتظار کر لیں، خوب رگڑا لگا کر گزرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اِس زور کا رگڑا لگتا ہے کہ جس کا بھاؤ بنایا جا رہا ہوتا ہے بندہ منھ کے بل اُسی پر جا گرتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ بھیڑ بھاڑ والی ایسی جگہوں پر تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہوتا رہتا ہو گا۔ مجھے تو ایسے بازاروں میں خریداری کی ایسی مشقت کی سمجھ آ سکی نہ اِس قدر بھیڑ کی۔ گھر پہنچ کر باسی اور پلپلی سبزیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا جائے اور کھانے پکانے کے لیے باقی بچ رہنے والی ترکاری الگ کر کے جمع تفریق کی جائے تو ایسے سستے بازاروں کی اضافی دین یا تو وہ دھکے رہ جاتے ہیں جو آپ کو اَب تک لگ چکے ہوتے ہیں یا پھر وہ خواری جو بچوں کی ماں کی طرف سے آپ کے مقدّر کا حصہ ہو نے والی ہوتی ہے۔
میں جب بھی تھیلے اُٹھائے، پسینے میں شرابور اور پھولے سانسوں کے ساتھ گھر پہنچتا رہا ہوں تو منے کی ماں کا پہلا اور چبھتا ہوا یہ جملہ سننے کو ملتا رہا ہے :
’’ خیر سے فوجیں پلٹ آئیں، میں تو سمجھی تھی، حضرت کسی اور ہی مہم پر تشریف لے جا چکے ہوں گے۔‘‘
ایسی جلی کٹی سن کر ایک دفعہ تو تلووں میں بھڑکتی آگ کے شعلے مغز کو چاٹنے لگتے ہیں۔ مگر وہ شخصیانی میری جانب دیکھے بغیر، تھیلا ہاتھوں سے چھین کر فرش پر اوندھا دیتی ہے اور ڈھیر میں سے ایک ایک دانہ اُٹھا اُٹھا کر یوں دیکھنے لگتی ہے جیسے اُن کا طبی معائنہ کر رہی ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا، اُس نے بھولے سے ہی کہہ دیا ہو، ’ آپ نے کمال کیا اتنی اچھی ترکاری لے آئے، یا پھر کم از کم اتنا ہی کہا ہو، ’مناسب ہیں کام چل جائے گا، کہ لائی جانے والی سبزی کبھی مناسب نہ نکلتی۔ اس لیے کہ سبزیوں اور لڑکیوں کو بہت قریب سے دیکھیں تو اُن میں کوئی نہ کوئی عیب نکل ہی آتا ہے۔
جس وقت وہ سبزیوں کے ڈھیر کا بغور معائنہ کر رہی ہوتی ہے، میں بھی سانس روکے ایک ڈھیر سا ہو جاتا ہوں۔ شرمندہ شرمندہ۔ یوں کہ جیسے ادھر بازار میں وہ گندی مندی سبزیاں جو ڈھیر پر پھینک دی گئی تھیں، اُنہیں میں چپکے سے اُٹھا لایا ہوں۔ دل ہی دل میں دُعا مانگے جاتا ہوں کہ اللہ کرے اُس کا دھیان کہیں اور بٹ جائے۔ اُس کی آنکھیں دھُندلا جائیں۔ اُسے کچھ نظر نہ آئے۔ مگر یہ کبھی نہ ہوا کہ میری یہ دعائیں قبول ہو گئی ہوں۔ میں اِمتحاں میں کام یاب ٹھہرتا، نہ اُسے نظریں دھوکا دیتیں۔ ہاں یہ اکثر ہوتا رہا کہ اُس نے میری نظروں پر طنز کیا، میری آنکھوں کے گول سیاہ حصوں کو شفاف کالے کن ڈوڈوں سے تشبیہہ دی اور یہاں تک پوچھ ڈالا کہ کیا ترکاری لیتے ہوے میں کسی سے نظر بازی کے مشغلے میں مگن تھا؟
نظر بازی میرا مشغلہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ میں کسی عورت کے جسم کو جان بوجھ کر مَس کر کے گزرا ہوں۔ حالاں کہ جب سے یہ بازار لگ رہے ہیں کئی شوقین تو اِن میں جاتے ہی اِس مقصد کے لیے ہیں۔ تاہم یہ تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے کہ جب بھی کوئی مختلف سا، نیا سا، دل کش اور چمکتا ہوا چہرہ نظروں میں آ جاتا ہے، نظر بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جی کرتا ہے اُسے اُس وقت تک دیکھتے چلے چلو جب تک کہ وہ چہرہ عمومی بل کہ بے ہودہ سے چہروں کے پیچھے چھپ نہ جائے۔ ایسے بے ہودہ چہروں کے پیچھے کہ جنہیں دیکھنے سے یہ بہتر لگے کہ آدمی گوبھی، تر، لوکی، کریلے یا پھر بینگن کو دیکھنے لگ جائے۔ یا پھر عقب سے گزرتے ہوے کوئی اِس زور سے ہچکا لگا دے کہ بندہ ادھر دیکھتے دیکھتے منھ کے بل ٹماٹروں کے ٹوکرے میں گر کر ٹماٹر ہو جائے۔
اِتنی طولانی تمہید کا سبب وہ لڑکی ہے جس کے ایک ہاتھ میں کناروں تک بھرا ہوا تھیلا تھا اور دوسری طرف بغل میں ایک تربوز۔ تربوز نہ تو بہت بڑا تھا اور نہ ہی بہت چھوٹا۔ لڑکی کا دوپٹہ اکٹھا ہو کر گردن کے ساتھ رگڑ کھاتا کاندھوں کے پیچھے یوں لٹک رہا تھا کہ اُس کا ایک پلو زمین کو چھو رہا تھا۔ اُ س کے ہاتھ دودھ کی طرح اُجلے نہ تھے۔ بس یوں سمجھ لیں جیسے ملائی میں تھوڑا سا شنگرف ملا ہو۔ میں نے جلدی سے اُس کا چہرہ دیکھنے کے لیے نظریں اُوپر اُٹھائیں لیکن اِس سے پہلے ہی میری آنکھوں کی سکت جواب دے گئی اور وہ اپنی منزل کے آدھے راستے ہی میں ڈھیر ہو گئیں۔ نظریں جہاں ڈھیر ہوئی تھیں، وہیں دو ڈھیریاں تھیں جن میں اُس کے چلنے کی اَدا، اور سانسوں کے ردھم نے اُودھم مچایا ہوا تھا۔ اگرچہ بغل میں دبے تربوز کا سبز چھلکا دمک رہا تھا مگر اُس میں اُس زندگی کی ذرہ برابر رمق نہ تھی جس نے اُس کی ہمسائیگی میں محشر بپا کر رکھا تھا۔
اُس لمحے تک میرے اندر اُس کا چہرہ دیکھنے کی معمولی سی خواہش بھی نہ جاگی تھی۔
ممکن ہے اس کا سبب یہ ہو کہ جس قیامت کے الاؤ میں میری نظریں گر چکی تھیں اُس سے سنبھل ہی نہ سکی تھیں۔سنبھلتیں اور نکلتیں تو کچھ اوپر دیکھ پاتیں نا۔ دوسری وجہ وہ واقعہ ہے جو آن کی آن میں کچھ یوں ہو گیا تھا کہ میں سب کچھ بھول کر اُس کی سبز آنکھیں دیکھ رہا تھا جو آنسوؤں سے جل تھل ہو گئی تھیں۔
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ میں جان بوجھ کر اُس کی آنکھوں اور آنسوؤں کا تذکرہ اِس لیے لے بیٹھا ہوں کہ کہیں آپ کو اُس کے خالو خد ہی نہ بتانا پڑ جائیں۔ میرا یقین کیجئے کہ میں اُس کا چہرہ پوری طرح دیکھ ہی نہ سکا تھا۔ دیکھتا بھی کیسے ؟کہ اُس کے آنسوؤں نے میرے جیسے حوصلے والے آدمی کو بھی منھ زور سیلابی لہروں کی صورت دے دی تھی۔ میں نے اپنا تھیلا وہیں پھینکا اور لپک کر اُس بدبخت کو جا پکڑا جو اُس لڑکی کے پاس سے یوں گزرا تھا کہ اُس کا کندھا وہ سارا احاطہ بُری طرح روندتا چلا گیا تھا جس میں قیامت کی سی اُتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔
پہلے پہل اُس نے اپنا بازو چھڑوانے کے لیے خوب زور لگایا، دھمکیاں دیں اور آخر کار مِنتوں پر اُتر آیا۔ میں نے اُس کا بازو چھوڑنا تھا، نہ چھوڑا۔ کیسے چھوڑ دیتا؟ وہ جو دیکھ رہی تھی۔ وہ رونی صورت بنا کر کہنے لگا :
’’ باؤ جی، مجھے جانے دیں۔ میں نے جان بوجھ کر تو کندھا نہیں مارا‘‘
میں اور بھی بھڑک اُٹھا۔ اِس لیے کہ وہ صاف جھوٹ بول رہا تھا یا پھر شاید میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ جھوٹ بک رہا تھا۔ میں نے منھ بھر کر ماں بہن کی دو تین گالیاں اُس کی جانب لڑھکا دیں۔ اُڑنگا لگایا، اُسے منھ کے بل گرایا اور اوپر سے دوچار شدید ٹھوکریں بھی رسید کر دیں۔ یوں لگتا تھا لوگ بھی اِسی لمحے کے منتظر تھے۔ ایک بھیڑ آگے بڑھی اور خود ہی اُس کی ٹھکائی شروع کر دی۔
اَب ادھر میری ضرورت نہ تھی۔ لوگوں نے اپنا کام ذمہ داری سے سنبھال لیا تھا۔ میں اُس لڑکی کی جانب مڑا جس کے لیے میں اِتنا زیادہ بہادر بن گیا تھا۔ نظروں نے اِس بار بھی اُتنا ہی فاصلہ طے کیا، جتنا کہ وہ پہلے کر سکی تھیں۔
مجھے یوں لگا جیسے میرے کندھے پر کوئی گداز سا لمس تھا۔
میں نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھا اور اس ناہنجار کی جانب دیکھا جسے لوگ ابھی تک بُری طرح پیٹ رہے تھے۔
میری آنکھیں ٹھہر سی گئیں اور مجھے شدید دھچکا لگا۔ یقین نہ آ یا۔ سمجھ بھی نہ آ رہا تھا لیکن جب میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا تو ہوش اُڑ گئے، اِس لیے کہ مار کھانے والا کوئی اور نہیں میں خود تھا۔
(یہ کہانی پہلے پنجابی میں لکھی گئی تھی)
ٍ
ماسٹر پیس
میں جانتا ہوں، میرے اَفسانوں نے ادبی دُنیا میں تہلکہ مچائے رکھا ہے۔ افسانوں نے مجھے جو مقام بخشا، تنقید اُس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اب بھی اگر کسی ادبی مجلے، اخبار یا رسالے میں مجھ پر کوئی مضمون لکھا جاتا ہے یا میرے متعلق کوئی خبر شائع ہوتی ہے تو میرے نام کے ساتھ ’’ممتاز اور منفرد افسانہ نگار‘‘ ضرور لکھا ہوتا ہے، حالاں کہ میں نے دو سال سے افسانے لکھنے چھوڑ دیے ہیں اور اس وقت سے مسلسل تنقید لکھ رہا ہوں۔
تنقید لکھنا میرے لیے مہنگا ثابت ہوا ہے۔ ہر ماہ نئی کتابوں میں اچھا خاصا اِضافہ ہو جاتا ہے۔ میرے اَفسانہ نگار دوست مجھے اپنے ہی میدان کا فرد جان کر اپنی کتابیں بھیج دیتے ہیں۔ لیکن کئی دوسرے احباب مجھے افسانہ نگار سمجھ کر کتابیں کسی اور ناقد کے پاس تبصرے اور تنقید کے لیے بھیجنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ مجھے اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ کتابوں کی نذر کرنا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جونہی میں کوئی کتاب تھامے گھر پہنچتا ہوں، بیگم کا سوئچ آن ہو جاتا ہے۔
’’جان نہیں چھوڑیں گی یہ کم بخت کتابیں۔ میں نصیبوں جلی کا ہے کو بیاہی گئی تھی تمہارے ساتھ۔ روتی ہوں اُس روز کو، جس روز میں تمہارے دامن سے بندھی تھی۔ نہ میرے سر پر سالم آنچل، نہ گڈو کے ڈھنگ کے جوتے، نہ منّے کی وردی سلامت، اور صاحب ہیں کہ ہر ماہ بغل میں نگوڑی کتابوں کو دابے چلے آتے ہیں۔‘‘
میں اپنے لہجے میں دنیا بھر کی ملائمت اور پیار گھول کر کہتا:
’’جانی! یہ کتابیں میں خرید کر تھوڑی لایا ہوں، وہ ہیں نا فاروق صاحب!ان سے عاریتاً پڑھنے کے لیے لایا تھا۔‘‘
’’ہاں ہاں میں جانتی ہوں تمہارے یار فاروق کو، اور تمہیں بھی۔ گھر میں کھانے کے لیے ہے نہیں اور کتابیں خرید خرید کر تمہیں پڑھنے کو دے دیتا ہے۔ سارا دن گھر بیٹھتا ہے نکما کہیں کا۔ بس کاغذ کالے کرنے کے سوا کیا کام ہے اس کا؟ تبھی تو کہتی ہوں چھوڑ ان نکمے دوستوں کو۔ کتابوں کے یار کم بخت۔‘‘
میں سمجھتا۔ بس اب لیکچر ختم۔ لیکن جوں ہی محترمہ کی نظر پھر کتابوں پر پڑتی آتش فشاں پہاڑ کا دہانہ کھل جاتا:
’’اے ہے، مجھے بتاؤ تو، یہ تمہارے سسرے دوست، حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر تمہیں کتابیں دیتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے بھول جاتے ہیں کیا؟ اب تک جو کتابیں آئی ہیں، واپس تو نہیں گئی ایک بھی!۔ جدھر دیکھو کتابیں ہی کتابیں ہیں۔‘‘
اِدھر بیگم کا دھواں دھار وعظ جاری ہوتا اُدھر منا اور گڈو ’’پم پم‘‘ کرتے سکول سے چھٹی کر کے گھر آ پہنچتے اور مجھے بھولے وعدے یاد کرانے لگتے۔
’’ابو آپ نے کہا تھا نا کہ تمہیں اگلے ماہ اونچی ایڑھی والے سینڈل لا دوں گا۔
لا دیں نا ابو!‘‘
’’ابو جی، اِس مرتبہ تو میں ضرور لوں گا نکر کے لیے کپڑا اور کینوس کے سفید جوتے، روز پی ٹی ماسٹر صاحب طعنے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، اِتنے بڑے باپ کے بیٹے ہو اور پی ٹی کی وردی کی حالت دیکھو۔‘‘
اس سے قبل، میں کچھ کہتا، ہم تینوں بیگم کی گولہ باری کی زد میں آ جاتے۔
’’ ہاں ہاں لادیں گے تمہیں سینڈل اور وردی، نگوڑی کتابوں سے تو جان چھوٹے۔‘‘
پھر نہ جانے کہاں سے ہم دردی کا جذبہ عود کر آتا کہ ایکا ایکی گڈو اور منے کو جھڑک کر چپ کرا دیتی:
’’کیا لگا رکھی ہیں فرمائشیں، ابھی تو آئے ہیں گھر۔ ذرا سکون سے سانس تو لے لینے دو۔‘‘
کئی مرتبہ میں نے سوچا، بیوی اور کتابیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ایک کو ’’سلام‘‘ کہہ دینا چاہیے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے، دونوں زندگی کا لازمہ ہیں۔ پھر بیوی کی برہمی بھی کتنی دیر؟ چند لمحوں کی گھن گرج اور مطلع صاف۔ اور ہر ماہ کی سات تاریخ کو چند لمحوں کے لیے بادل کی یہ گھن گرج اور بجلی کی چمک برداشت کرنے کا میں نے اپنے اندر حوصلہ پیدا کر لیا۔ یوں ہر تنخواہ ملنے کے بعد کتابوں کی خریداری، گھر پہنچ کر چند لمحوں کی خواری میرا معمول بن گئے۔ بیگم ہر بار یہ سمجھتی کہ اب میرا رویہ بدل جائے گا۔ جب کہ میں ہر ماہ گاؤں جانے سے قبل کتابیں خریدنا نہ بھولتا۔ اور جب چھٹی پوری ہو چکتی تو مجھے رخصت کرتے وقت بیگم کی آنکھیں بھیگی ہوتیں اور مجھے اس بات کا اندازہ نہ ہو سکتا کہ محترمہ میری جدائی پر رو رہی ہیں یا میری ثابت قدمی پر۔
ہاں تو میں نے بتایا تھا کہ میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دئیے ہیں، تنقید لکھتا ہوں۔ لیکن وہ جو اپنا یار عباسی ہے نا، اس کی فرمائش بڑھتی جا رہی ہے کہ افسانہ لکھ دو۔ اچھا آدمی ہے۔ برے بھلے وقت کام آ جاتا ہے۔ بجا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مجھ سے افسانے لکھوانے لگے لیکن کیا کیا جائے کہ اس نے ایک ادبی پرچہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخباروں کے ذریعے اُسے خوب مشتہر کیا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ بھی مشتہر کر دیا ہے کہ میں بھی اس میں افسانہ لکھوں گا۔ اس کا خیال ہے، یوں پرچے کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
میں نے اُسے لاکھ سمجھایا کہ میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دیے ہیں، لیکن یہ بات اس کی کھوپڑی میں بیٹھتی ہی نہیں۔ کہتا ہے :
’’اَفسانے تمہارے منکوحہ تھوڑی تھے کہ طلاق کے بعد منھ نہیں لگا سکتے۔ تم ہی نے لکھنا چھوڑے تھے، تم ہی لکھنا شروع کر دو‘‘
شاید اُسے خبر نہیں کہ افسانے لکھنے کے لیے خُون جگر جلانا پڑتا ہے۔ دو سال قبل جب میں افسانے لکھا کرتا تھا تو میرا ہر افسانہ شاہ کار ہوا کرتا تھا۔ لوگ میرے افسانوں کے انتظار میں رہتے۔ ادبی جریدوں کے مدیر کئی کئی مرتبہ مجھ سے رابطہ قائم کرتے منتیں کرتے۔ یاددہانی کراتے، اور جونہی میرا کوئی افسانہ شائع ہوتا تو تعریفی خطوط مجھے ملنا شروع ہو جاتے۔ میری معمولی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ معاوضہ ہوتا جو مجھے ان افسانوں کے عوض ملتا۔
لیکن میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دیے۔
مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ میں وہ معیار برقرار نہ رکھ سکوں گا، جو اب ہے۔ یہ میرا خدشہ تھا۔ ہو سکتا ہے یہ خدشہ ٹھیک نہ ہو۔ لیکن یہ خوف بری طرح مجھے اپنی گرفت میں لے چکا تھا کہ آخر خُون جگر کب تک جلاتا رہوں گا؟ چراغ میں تیل ہو گا تو روشنی ہو گی۔ اس سے قبل کہ تیل ختم ہو جائے مجھے چراغ بجھا دینا چاہیے۔
اور میں نے خُون جگر جلانا بند کر دیا۔ چراغ بجھا دیا۔
اِس کے لیے مجھے بڑی اَذیّت اُٹھانا پڑی۔ کئی مرتبہ تو یوں ہوتا کہ کسی افسانے کا مواد میرے ذہن میں گردش کرنے لگتا۔ قلم اُٹھا کر رقم کرنا چاہتا تو اپنا فیصلہ یاد آ جاتا اور یوں وہ مواد میرے ذہن کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر جان دے دیتا۔
میں نے چاہا، تنقید نگاری کے ذریعے افسانے کے شوق کو قتل کر ڈالوں۔ میں نے تنقید کی کٹاری ہاتھ میں لے لی اور پوری یکسوئی سے اِدھر اُدھر وار کرنا شروع کر دیے۔ افسانوں کے ذریعہ جو آمدنی ہوتی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ تنقید کا معاوضہ بھلا کون دیتا ہے ؟ تنقیدی مضمون وصول کر کے مدیر صاحبان مجھے یوں خط لکھتے، جیسے وہ اسے شائع کر کے مجھ پر احسان کرنے والے تھے۔ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہیں تھی۔
عباسی ہم پیا لہو ہم نوالہ بھی ہے اور لنگوٹیا بھی۔ اُس نے اپنا پرچہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور مجھ سے افسانہ مانگا ہے تو مجھے یہ قسم توڑ دینی چاہیے۔ اور پھر گڈو کے لیے اونچی ایڑھی کے سینڈل اور منے کے لیے وردی۔ بیگم کے لیے خوبصورت ساڑھی۔ بس خُوش ہی تو ہو جائے گی ایک دم۔
’’میں افسانہ لکھوں گا اور ضرور لکھوں گا‘‘
میں نے جوں ہی عباسی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا وہ ’’زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر میرے ساتھ چمٹ گیا۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ جی بھرا گیا اور میرے سینے میں ہنڈیا سی ابلنے لگی۔ عباسی بھی گھبرا گیا۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ تم تو رو رہے ہو؟ خیریت تو ہے نا؟‘‘
میں زور زور سے رونے لگا۔ یوں، جیسے اُس نے مجھے کہہ دیا ہو، رونا ہے تو خوب کھل کر رو، یوں اوں اوں کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘
اسی آن مجھے اپنی حرکت پر تعجب ہوا۔ کیوں رویا ہوں میں ؟ مجھے رونا نہیں چاہیے۔ شاید مجھے اپنا عہد توڑنے پر رونا آیا تھا۔ شاید۔ لیکن مجھے رونا نہیں چاہیے۔ خواہ مخواہ عباسی کو پریشان کیا۔ کیا سوچتا ہو گا یہ بھی؟
ہاں ہاں مجھے مسکرا دینا چاہئے۔ اور میں مسکرا دیا۔ عباسی ایک مرتبہ پھر حیران ہوا۔ کہنے لگا:
’’عجب آدمی ہو، کبھی روتے ہو، کبھی ہنستے ہو۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟‘‘
اور میں اپنی اِس حرکت پر جھینپ گیا۔ نہ مجھے رونا چاہیے، نہ ہی ہنسنا۔ مجھے تو باتیں کرنا ہیں۔ اور میں نے اس سے ادبی پرچے کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔
’’کب نکال رہے ہو پرچہ؟۔۔۔ کتنا سرمایہ لگا رہے ہو؟۔۔۔ کتنا مواد جمع ہو گیا ہے ؟۔۔۔‘‘
ٍ
مجھے خُوشی ہے کہ میں نے افسانے کا خوبصورت پلاٹ اپنے ذہن میں تیار کر لیا ہے۔ ایسا افسانہ تو میں نے پہلے کبھی نہیں لکھا تھا۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے، میں نے افسانے لکھنا کیوں چھوڑ دیے تھے۔ میں تو اب بھی شاہ کار افسانے تخلیق کر سکتا ہوں۔ میں حیراں ہوں کہ ایسا پلاٹ اس سے قبل میرے ذہن میں کیوں نہ آیا تھا؟
میری عادت ہے کہ میں پہلے افسانے کا پلاٹ ذہن میں تیار کرتا ہوں۔ پھر اس کی جزیات پر غور کرتا ہوں۔ تب جا کر ایک ہی نشست میں کاغذ پر منتقل کر دیتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی دودھ کا پورا گلاس ایک ہی سانس میں حلق میں انڈیل دے۔
اور میں نے گلاس حلق میں انڈیل دیا۔
افسانے کا آخری پیراگراف ہی اس افسانے کی جان تھا۔ میں نے سوچا میں اس افسانے کو اپنا نمائندہ افسانہ کہوں گا۔ ایسا اِختتام میرے کسی افسانے کا نہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا، کہانی آخری پیراگراف سے قبل ہی ختم ہو چکی ہے، لیکن دوسرے ہی لمحہ جب آگے چند فقرے قاری پڑھے گا، تو تڑپ اٹھے گا۔ افسانے کا اِختتام ایسے ہی تھا کہ جیسے دور سے بند نظر آنے والی گلی اپنے پہلو میں ایک ایسا دریچہ رکھتی ہو، جو گلشن پُر بہار میں جا کھلے۔ یا پھر جیسے بدلیوں کی گود میں آرام کرنے والا چاند مچل کر برہنہ ہو جائے تو تارے شرم سے آنکھیں جھپکنے لگیں۔
مجھے اس پورے افسانے میں اس کا انجام بہت اچھا لگا۔ میں اس افسانے کو بلا جھجک ’’ماسٹر پیس‘‘ کہہ سکتا ہوں۔ میں تصور ہی تصور میں سینکڑوں خطوط پڑھ رہا ہوں، جو مجھے اس قدر خوبصورت افسانہ لکھنے پر مبارکباد دینے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ خصوصاً لوگوں نے اس کے آخری پیراگراف پر خوب داد دی ہے۔ اب میرے ذہن میں بیوی کا مسکراتا ہوا چہرہ آ گیا ہے۔ میں اس کے ہاتھ میں خوبصورت ساڑھی تھما رہا ہوں۔ میں گڈو اور منے کے چہکتے چہرے بھی دیکھ رہا ہوں۔ گڈو سینڈل پہنے بڑی اَدا سے ایک ایک قدم یوں رکھ رہی ہے، جیسے شیشے کے فرش پر چل رہی ہو اور تیز چلے گی تو شیشہ چکنا چور ہو جائے گا۔ منا وردی وردی پہنے فوجیوں کی طرح پریڈ کرتا کبھی اِدھر جاتا ہے، کبھی اُدھر۔ میں خُوش ہو کر اپنے افسانے کو دیکھتا ہوں۔ یہ سب خُوشیاں اس افسانے ہی کی بدولت مجھے مل رہی ہیں۔ یہ مکمل اَفسانہ میرے بیوی بچوں کی خُوشی ہے اور اس کے اختتامی فقرات میرا سرمایۂ مُسرَّت۔
میں بھاگم بھاگ عباسی کے ہاں پہنچا۔
وہ منھ پھلائے بیٹھا تھا۔مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا:
’’دیکھو یار میں نے تمہاری کتنی منتیں کی ہیں کہ افسانہ لکھ دو۔ تم نے نہیں لکھا اور پرچہ مکمل ہو چکا ہے۔ میں اسے مقررہ تاریخ سے لیٹ نہیں کرنا چاہتا مگر تم ہو کہ ابھی تک افسانہ نہیں لکھ رہے۔ بہت ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں یہ افسانہ نگار بھی۔‘‘
میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں نے افسانہ لکھ دیا ہے۔ لیکن ایک ہی سانس میں کہنا، میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ بہ ہر حال میں نے اس کے سامنے افسانہ رکھ دیا۔ تو وہ ایک دم مجھ سے لپٹ گیا۔ میرے سینے میں ہنڈیا کھولنے لگی۔ میں رونا چاہتا تھا لیکن ضبط کر گیا۔ بھلا یہ کوئی رونے کا موقع تھا۔
’’بس یار اب پرچہ تیار سمجھو۔ ایک ہفتے کے اندر تمہاری کاپی تمہیں بھیج دوں گا۔‘‘
پھر اُس نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا۔ نوٹوں کی گڈی باہر نکالی اور پانچ سرخ سرخ نوٹ اس میں سے کھینچ کر میری جانب بڑھا دیے۔ میری آنکھوں کے سامنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے گھوم گئے۔ میں نے وہ نوٹ اپنی مٹھی میں دبا لیے اور اپنے فلیٹ پر پہنچ گیا۔
ابھی اس ماہ کی ستائیس تاریخ تھی۔ مجھے اگلے ماہ کی سات تاریخ کو گھر جانا تھا۔ یوں گھر جانے میں دس روز پڑے تھے۔ چناں چہ میں نے روپے سنبھال کر ٹیبل کی دراز میں رکھ دیے۔
پرچے کی اِشاعت تک مجھ پر عجیب کیفیت طاری رہی۔ دو سال قبل جب میں اَفسانے لکھا کرتا تھا تو کبھی ایسی ہیجانی کیفیت سے دوچار نہ ہوا کرتا تھا، جیسی کیفیت سے اب کی بار ہوا ہوں۔ بار بار آنکھوں کے سامنے لوگوں کے خطوط آ جاتے، کسی میں لکھا ہوتا ہے :
’’آپ نے اس افسانے کو ایسا لافانی انجام دیا ہے کہ مُدّتوں یاد رہے گا‘‘
کسی میں شکایت ہوتی:
’’آپ نے افسانے لکھنا چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔ اس افسانے نے تو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘
کوئی مطالبہ کرتا:
’’اِس افسانے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ آپ نے افسانہ نویسی ترک کر کے اُردو اَدب پر ظلم کیا ہے۔ فوراً اپنا فیصلہ واپس لیجئے اور دوبارہ افسانے لکھئے۔‘‘
میں جھوم جھوم گیا۔ پورا ہفتہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہا اور جب پرچہ شائع ہو گیا تو عباسی میری کاپی دینے خود میرے پاس آیا۔ اُس نے آتے ہی کہا :
’’یار تمہارے نام نے تو کمال کر دیا۔ سارے پرچے ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں‘‘
میں خُوشی سے پھول گیا۔ اُس نے شمارہ مجھے تھما دیا اور کہنے لگا:
’’میں تم سے ایک معذرت بھی کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارے افسانے کے بعد ایک بھاری معاوضے کا اِشتہار آ گیا تھا۔ چناں چہ یہ سوچتے ہوے کہ افسانہ تو آخری پیراگراف کے بغیر بھی مکمل ہی لگتا ہے، میں نے آخری پیرا گراف شاملِ اِشاعت نہیں کیا۔ تم تو اپنے دوست ہو نا یار، سوچا تم سے معذرت کر لوں گا، کسی اور کی تحریر چھیڑتا تو اجازت لینا پڑتی۔‘‘
میرے اندر سے کوئی چیز اُٹھی اور حلقوم میں آ پھنسی۔ جلدی جلدی ورق اُلٹے۔ آخری پیراگراف غائب تھا اور اس کی جگہ ٹیکسٹائل ملز کا اِشتہار میرا منھ چڑا رہا تھا۔ میرے اعصاب تن گئے۔ ہنڈیا کھولنے لگی۔ میں نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوے ٹیبل کی دراز کھولی، پانچوں سرخ نوٹ نکالے، پھر عباسی سے کہا:
’’ذرا اُٹھو‘‘
وہ کھڑا ہو گیا۔ میں دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا۔ کہا:
’’یہاں آؤ‘‘
وہ میرے پاس پہنچ گیا۔ میں نے باہر اِشارہ کرتے ہوے کہا:
’’ذرا باہر دیکھو‘‘
اُس نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگا۔ اِتنی دیر میں، میں اُس کے عقب میں پہنچ گیا۔ دونوں ہاتھ اُس کی پشت پر جما کر زور سے دھکا دے دیا۔
وُہ لڑھک کر باہر برآمدے میں جا پڑا۔
میں نے سرخ نوٹ اور پرچہ اُس کے منھ پر دے مارا اور چیخ پڑا:
’’دفع ہو جاؤ میرے دوست، میری آنکھوں کے سامنے سے‘‘
وہ میرا دوست تھا اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر جھٹ سے دروازہ بند کر کے چٹخنی لگا دی۔ چارپائی تک پہنچا اور بستر پر گر کر تکیہ سینے سے لگا لیا۔ ہنڈیا پھر کھولنے لگی تھی۔
میرے ارد گرد تعریفی خطوط کی اُڑتی بکھرتی راکھ میرے نتھنوں کو بند کیے دے رہی تھی۔
ادارہ اور آدمی
(۔۔۔ جب کوئی ادارہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ دو سو نوکریاں چھانٹ رہا ہے تو اس کے
حصص کی قیمت جست لگا کر بڑھ جاتی ہے۔ یہ دیوانگی ہے۔۔۔۔۔۔ گنتر گراث)
جب بھی مسٹر کے ایم رضوانی چھوٹی صنعتوں کے اِس بڑے اَدارے کو ماں کی مثل قرار دیتے، ریاض کو زمین کے بارے میں اپنی ماں کی کہی ہوئی بات یاد آ جایا کرتی کہ:
’’بیٹا زمین بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اپنے بیٹوں کی رگوں میں دودھ کے نور جیسا پاک رزق اُتارنے والی‘‘۔
اُس کی ماں نے یہ بات تب کہی تھی جب اُس نے اپنے باپ دادا سے وراثت میں ملی ہوئی زمین کا وہ اکلوتا ٹکڑا بیچنے کا فیصلہ کیا تھا جو اُنہیں رزق دیتا تھا۔ اِتنا رزق، کہ گزر بسر ہو ہی جاتی تھی۔ تب ریاض کی بہن جوان تھی اور اُس کی جوانی دیکھ دیکھ کر اُسے وحشت ہونے لگی تھی۔ اُس کی ماں کو بھی ہول آتے تھے، تبھی تو زمین بیچنے کی بات آخر کار اُس نے مان لی تھی۔
مسٹر رضوانی، ریاض کے باس تھے۔ اُن کے منھ سے ’’لائک مدّر‘‘ والی بات نکلا کرتی تو اُس کی رگوں کے اَندر لہو کی گردش تیز ہو جایا کرتی تھی۔ مگر اب یہ بات قدرے پرانی ہو چکی تھی۔ پرانی بھی اور بوسیدہ بھی۔ اِتنی بوسیدہ کہ مُدّت ہوئی مسٹر رضوانی یہ بات دُہرانا بھول چکے تھے۔ شاید اِس کی وجہ وہ بوکھلاہٹ تھی جو اُنہیں سنبھلنے اور کچھ اور سوچنے ہی نہ دیتی تھی۔
یہ بوکھلاہٹ اُنہیں اُوپر سے ملتی تھی۔
اُوپر سے مراد ایم ڈی صاحب ہیں۔ جب بھی مسٹر رضوانی ادھر سے ہو کر آتے، بوکھلاہٹ ان کی سانسیں برابر نہ ہونے دیتی۔ ہؤں ہؤں کرتے آدھی بات چھاتی میں دباتے اور آدھی باہر پھینکتے۔ ریاض بھی کئی طرح کی اَسائین منٹس پا کر بوکھلا جایا کرتا۔ اور اُس سب پر مستزاد یہ کہ بَاس کی طرف سے خود ہی اَندازے لگانے کا حکم صادر ہو جاتا:
’’ یہ کر لو۔ اِسے یوں کر لو۔ یا۔۔۔ یا کوئی اور صورت نکالو۔ بھئی خود بھی دماغ لڑاؤ نا۔‘‘
ریاض کُند ذہن نہیں تھا۔ تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ فوری فیصلہ کر پاتا۔ اس کا ذہن رفتہ رفتہ کھُلتا تھا، بِیس پچیس مِنٹ مِل جاتے تو یقینی طور پر قابلِ عمل پروپوزل بنا لیا کرتا۔ اُس کے باس کو اکثر فوری فیصلے کی طلب ہوتی اور جب اُنہیں کچھ نہ سوجھ رہا ہوتا کہ کیا اور کیسے کرنا ہے ؟تو بات بے بات اُلجھنے لگتے۔ اُوپر کی طرف دیکھتے اور سر جھٹک کر تاسف سے ہاتھ ملتے ہوے کہتے :
’’ کامپلی کیٹیڈ ڈَاٹا ایم ڈِی صاحب کو سمجھ ہی نہیں آتا۔ بیک گراؤنڈ نہیں ہے نا۔ یہ ڈیپارٹمنٹ والے تو ہر ایک کو ’’علامہ‘‘ سمجھتے ہیں، تم یوں بنا لاؤ کہ ساری پکچر واضح ہو، سارا معاملہ اُنہیں بھی سمجھ آ جائے۔‘‘
اُوپر والے صاحب کیسے سمجھ پائیں گے ؟ متعلقہ ڈیپارٹمنٹس والوں کو پتا چلا، نہ کبھی ریاض جان پایا تھا۔ تاہم وہ اپنے طور پر کوشش کرتا رہا اور ہر معاملے کو یوں ایکسپلین کرنے کی صورت نکال لیا کرتا تھا کہ اُس سارے سسٹم سے ناواقف شخص کو بھی زیر تصفیہ معاملہ سمجھ آ جاتا۔
شروع میں مسٹر رضوانی، ریاض کی ریاضت پر خُوش ہو جایا کرتے، ایک ایک ٹیبل کو دیکھتے، تو اُن کے منھ سے ’’واہ واہ‘‘ کی آوازیں نکلتیں، کبھی مکا میز پر مارتے اور کبھی اُس کے کندھے کو تھپتھپا کر کہتے :
’’یہ ڈاٹا تو اب جاہل سے جاہل کو بھی سمجھ آ جائے گا، اُسے ضرور سمجھ آ جانا چاہیے۔‘‘
ساتھ ہی وہ ماتھے کو اپنی اُنگلیوں کی گرفت میں لے کر ہا تھ زور سے جھٹک کر الگ کرتے ہوے کہتے :
’’چلیں کوئی اِشو تو سیٹل ہو گا۔‘‘
مگر واقعہ یہ تھا کہ اوپر والا جا ہل نہ تھا لہذا جاہلوں کے لیے کی گئی محنت اُس پر کچھ اثر نہ کرتی تھی۔ جب ایم ڈی صاحب نئے نئے اس اَہم ادارے میں آئے تھے تو اُن کا زبردست سی وی بھی سرکولیٹ ہوا تھا۔ اس سی وی کے مطابق موصوف کئی بین الاقوامی اداروں میں کام کر چکے تھے۔ اسی سرکلر سے ان فیملی کے جو کوائف نمایاں کیے گئے وہ بھی دلچسپ تھے۔ مثلاً یہی کہ وہ شادی شدہ تھے۔ دو بیٹوں ایک بیٹی کے علاوہ دو درجن مختلف نسل کے کتے بھی رکھتے تھے۔ سی وی میں اس طرح کی معلومات دینے کی میرے باس کے پاس یہ تو جیہہ تھی کہ اُدھر باہر کتوں کا الاؤنس بھی مل جاتا ہو گا۔ تا ہم اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر کوئی بات ڈھنگ سے ان کے پلے کیوں نہ پڑتی تھی۔
کوئی وجہ تو ہو گی ؟ مسٹر رضوانی سوچتے مگر اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ ایک بار اُنہوں نے اپنے تئیں تجزیہ کرتے ہوے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس طرح کے بڑے ادارے کا ذمہ دار ہو کر فیصلے دینا ایک الگ ماحول میں کام کرتے آنے والے کے لیے واقعی بہت کٹھن بات تھی۔ انہی کٹھن مرحلوں کو آسان کرنے کے لیے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے لگے اور ایسی حکمت عملی کو وظیفہ بنا لیا کہ بڑے صاحب کانفیڈنس سے فیصلے کر سکیں۔ مگر جب ایم ڈی صاحب نہایت اِعتماد سے اور اپنے دستخطوں سے بڑے بڑے فیصلے کر کے بھیجنے لگے تو پہلے پہل تو مسٹر رضوانی چکرا سے گئے اور آخرکار اُنہیں بھی سارا معاملہ سمجھ آ گیا۔
لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
وہ اَفسوس سے ہاتھ ملا کرتے کہ پہلے روز ہی معاملات اُن کی سمجھ میں کیوں نہ آئے تھے۔ کم از کم تب ہی اَندازہ لگا لیا ہوتا جب مختلف ایجنسیوں کی طرف سے ملکی ترقی میں قابل قدر حصہ ڈالنے والی اس آرگنائزیشن کو ’ناکام ادارہ، کہا جا رہا تھا اور اس گھناؤنے الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی اور گمراہ کُن فگرز دی جا رہی تھیں جس کی وجہ سے ساری سکسیس سٹوری نا اہلیوں کی داستان ہو کر رہ گئی تھی۔
ّّاِس سارے پروپیگنڈے کے لیے اخبارات کو خوب خوب اِستعمال کیا جا رہا تھا۔ جب چٹ پٹی خبریں کوٹے سے دُگنے رنگین اِشتہارات کے ساتھ میسر آ رہی تھیں تو وہ یہ سب کچھ کیوں نہ چھاپتے۔ اگر بر وقت اصل صورتِ احوال میڈیا کو جاری کر دی جاتی تو یہ پروپیگنڈا دم توڑ سکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ایسا ہونے ہی نہیں دیا گیا حالاں کہ ریاض ساری فگرز کو اینالائیز کر کے ایک مؤثر وضاحت نامے کا ڈرافٹ بنا کر اپنے باس کے پاس لے گیا تھا۔ مسڑ رضوانی اس ڈرافٹ کی عبارت سے نہ صرف پوری طرح مطمئن تھے، خُوش بھی تھے کہ اس وضاحت نامہ سے اِلزامات کا سارا ملبہ صاف ہو جائے گا۔ وہ اُسے لے کر اُوپر گئے مگر منھ لٹکا کر واپس آ گئے۔ ایم ڈی صاحب کو یہ ڈرافٹ پسند نہیں آیا تھا۔ ریاض نے اَسلوب بدل بدل کر مزید تین ڈرافٹس بنائے۔ جب تک ڈرافٹنگ ہوتی رہی مسڑ رضوانی اُس کے سر پر سوار رہے۔ کچھ وقت کے لیے اپنے روم میں گئے بھی تو انٹر کوم بجا بجا کر اُسے ہری اَپ کے کاشن دیتے رہے۔ اِس دوران اُنہوں نے ایک بار تو ریاض کو پرفیکشنسٹ ہونے جب کہ دوسری بار ڈیڈ سلو لائیک ٹور ٹائز ہونے کے طعنے بھی دیئے۔ جب وہ تینوں پروپوزلز فئر کر کے لے گیا تو وہ مطمئن ہو گئے۔ اُنہیں یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی ڈرافٹ فائنل ہو جائے گا۔
مسڑ رضوانی اُوپر جاتے ہوے بہت پُر جوش تھے مگر کھوٹے سکّے کی طرح پلٹ آئے۔ اپنی ریوالنگ چیئر پر ڈھیر ہونے کے اَنداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سارا جوش اُوپر ہی کہیں بھول آئے تھے۔ ریاض کو حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ کچھ پوچھے، تاہم میں اِس بارے میں متجسس تھا اور رہا بھی۔ حتیٰ کہ اُس کے باس چیئر آگے پیچھے جھولانے سے اُکتا کر اُسے دائیں بائیں گھمانے لگے اور خود پر ضبط نہ پا کر ہاتھ ہوا میں نچاتے ہوے کہنے لگے :
’’حضرت کہتے ہیں، چھوڑ جائیں، میں ذرا سکون سے دیکھوں گا، میڈیا کا معاملہ ہے۔‘‘
انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اُوپر، جس معاملے کو لاء یا لاجک سے رد نہیں کیا جا سکتا تھا اور اُسے کرنا مقصود بھی نہیں ہوتا تھا تو یوں معرضِ اِلتوا میں ڈال دیا جاتا تھا۔ تا ہم ادارے کے امیج کا سوال تھا اور مسٹر رضوانی نیک نیتی سے چا ہتے تھے کہ اس کی نیک نامی پر اُچھالے گئے گند کو وضاحت کے اجراء سے صاف کیا جا سکتا تھا۔ لہذا اُنہوں نے اُس وقت تک اپنی سیٹ نہ چھوڑی جب تک اوپر ایم ڈی صاحب بیٹھے رہے۔ ریاض کو کہا:
’’پی آر والوں کو بھی بٹھائے رکھو، شاید کوئی ڈرافٹ اوکے ہو کے آ جائے، پریس اسٹیٹمنٹ ریلیز کرانے کے لیے پی آر والوں کو کہاں ڈھونڈتے پھریں گے۔‘‘
جب ایم ڈی صاحب اُٹھ کر چلے گئے اور یہ بھی تسلی ہو گئی کہ فائل بغیر کسی فیصلے کے اَندر ہی پڑی ہوئی ہے تو وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور باہر نکل گئے۔
اگلے دو روز تک مسٹر رضوانی یاد دہانی کے لیے کسی نہ کسی اور اِشو کے بہانے اُوپر جاتے رہے۔ چوتھے روز وہ کسی بھی فیصلے کے بغیر فائل اٹھائے واپس آ گئے۔ مسٹر رضوانی کے نتھنوں سے دھُواں نکل رہا تھا۔ اپنی نشست پر بیٹھتے بیٹھتے فائل ریاض کی طرف اُچھالی اور کہا :
’’دیر۔۔۔ ہونہہ۔۔۔، دیر ہو گئی ہے۔ حضرت کہتے ہیں، اب اِس کی ضرورت نہیں رہی، بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
ایم ڈی صاحب کوئی بھی اِشو سیٹل نہ کر رہے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسٹر رضوانی بات بے بات اُلجھنا شروع ہو گئے۔ وہ اس قدر مایوس ہو گئے تھے کہ اُنہوں نے ریاض کو ڈاٹا سہل بنانے کی اسائیں منٹس دینا چھوڑ دی تھیں۔ متعلقہ ڈیپارٹمنٹس والے جو بھی اور جیسا بھی پُٹ اَپ کرتے، وہ اسے بعینہ اِن ڈورس کر کے اُوپر بھجوا دیتے۔ اُوپر والے نے فائلز نہ نکالنے کی قسم اُٹھا رکھی تھی لہذا معاملات لٹکتے چلے گئے۔ اَچھے بھلے رواں دواں ادارے کو بریکیں لگ گئی تھیں۔
یہی جبری فراغت کے وہ دن تھے جب مسٹر رضوانی کو چھاتی میں عین دل کے مَقام پر شدیدچبھن ہوئی۔ ریاض اُنہیں کار ڈیالو جسٹ کے پاس لے گیا تھا۔ یہیں اُس نے اُن کی دونوں بیٹیوں کو دیکھا تھا جن میں سے ایک بالکل مُنّی جیسی تھی۔
مُنّی، ریاض کی وہ بہن تھی جو مایوس ہو کر یوں بھاگی تھی کہ وہ اُسے پھر نہ دیکھ پایا تھا۔
مکمل چیک اَپ کے بعد مسٹر رضوانی کو پہلی بار پتا چلا کہ اُن کے دل کے دو والوو بند تھے۔ ڈاکٹروں نے فوری آپریشن سجیسٹ کیا۔ اُنہیں اپنے دل سے کہیں زیادہ اِدارے کی فکر لا حق تھی۔ کہتے، ادھر معاملات سدھریں تو آپریشن کی ڈیٹ لوں۔
مگر معاملات تھے کہ بگڑتے ہی جا رہے تھے۔
جب بہت ہی بنیادی نوعیت کی فائلز بھی اُوپر ڈَمپ ہونے لگیں تو اُن کی پارٹ فائلز کھُل گئیں اور اُن پر نیچے سے ’ارجنٹ، اور ’امپارٹنٹ‘ کے فلیگ لگ کر آنے لگے۔ اوپر اِس کا بھی توڑ تھا۔ ہر ارجنٹ فائل ’سپیک‘ لکھ کر واپس کر دی جاتی۔ وہ سپیک کر کے آتے تو اُنہیں سمجھ ہی نہ آتا کہ فائل کا کیا کِیا جائے۔ جب کمپیٹنٹ اَتھارٹی نے اُوپر کچھ لکھا ہی نہیں تھا تو اس کی ڈسپوزل کیسے ہو سکتی تھی۔ حتّیٰ کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اوپر سے آتے ہی مسٹر رضوانی پہلے تو ریاض پر برہم ہوتے، کِسی بھی وجہ سے۔ ریاض اُن کا اِنتظار کر رہا ہوتا، تو جھڑک کر اُسے کمرے سے نکال دیتے کہ وہ شاید اُس کا تَماشا دیکھنے کا منتظر تھا۔۔۔ اور وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کوئی اور اسائین منٹ مکمل کر رہا ہوتا تو اُسے بلا کر سوالیہ لہجے میں طعنہ زَن ہوتے کہ اُسے اپنی سیٹ پر بھاگنے کی کیا جلدی ہوتی تھی؟۔۔۔ اور بعد ازاں کئی کئی گھنٹوں کے لیے گم صُم ہو جاتے۔
ریاض سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوتے ہوے بھی گذشتہ کئی برسوں سے پرسنل سٹاف کی طرح اُن کے ساتھ تھا۔ اس کا کہیں بھی تبادلہ ہوا، باس نے رُکوا لیا۔ مسٹر رضوانی اس پر بہت اعتماد کرتے تھے اور اس نے بھی حتی الوسع کو شش کی کہ اُن کے اِعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دے۔ دو تین مزید اَفسران ایسے تھے جنہیں اُنہوں نے اپنے ساتھ رکھ کر ایک ٹیم سی بنا لی تھی۔ یہ سارے محنتی اور پروفیشنل لوگ تھے لہذا سب کو ٹیم ورک میں بڑا مزا آتا تھا۔ مشکل سے مشکل معاملات وہ مل جُل کر سُلجھا لیا کرتے۔
مگر کچھ عرصے سے جیسے کِسی کو کِسی پر اِعتماد نہ رہا تھا۔
اُنہوں نے اپنے ادارے کو پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔ ابھی دوچار برس پہلے تک انہیں اِس پَرسٹی جِیئس اِدارے سے منسلک ہونے پر فخر کا احساس بھی ہوتا تھا۔ مگر اَب تو جیسے سب کچھ جھوٹ تھا۔ ان کا اِخلاص، ان کی محنت، ان کی اچیو منٹس۔ سب کچھ۔ ایسے میں تو اپنی صلاحیتوں پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ واقعی اپنا کانفیڈنس لُوز کر چکے تھے۔
ریاض کے باس کو وہ وقت بہت یاد آتا تھا، جب سرکاری اداروں کی ملازمت عزت اور وقار کی بات تھی۔ تب کلرکی کی بھی ایک دھج ہوا کرتی تھی جب کہ اُنہیں سولہویں سکیل کا افسر لیا گیا تھا۔ اس نے خوب محنت کی۔ ان دنوں محنت اور خدمت ایمان کے ہم پلہ لگتے تھے۔ ڈیوٹی اور فرض کے ایک سے معنی تھے۔ اس کا اُنہیں یہ انعام ملا کہ انہوں نے نہ صرف خوب عزت کمائی، مسلسل ترقی پاتے پاتے موجودہ عہدے تک پہنچ گئے۔ ریاض اُن سے دس بارہ برس بعد اِس ادارے میں آیا اور مختلف شعبوں میں کام کرنے کے بعد براہِ راست اُن کی ماتحتی میں آ گیا تھا۔ حتّیٰ کہ وہ زمانہ آ پڑا جب ایک منصوبے کے تحت سرکاری ملازمت کو گالی بنا دیا گیا۔
اچانک سب سے اوپر تبدیلی آئی تھی۔
تبدیلی چوں کہ غیر جمہوری تھی لہذا اُس کو باہر والوں سے تسلیم کروانے کے لیے بہت کچھ تسلیم کر لیا گیا۔ یوں سب اداروں پر ایسے صاحبان آ کر بیٹھ گئے کہ ان اداروں میں کام کرنے والوں کی خود اِعتمادی بھی ٹھس کر کے بیٹھ گئی۔ ہر کہیں معاملات پینڈنگ ہونے لگے۔ اخبارات جھوٹی سچی خبریں مصالحے لگا لگا کر چھاپنے لگے۔ چِہ مگوئیوں اور افواہوں نے زور پکڑا تو اچھا بھلا کام کرنے والے بھی بیٹھ گئے۔ لگن سے کام کرنے والے ہمت ہار بیٹھے تو وہ ادارہ خود بخود بیٹھنے لگا جس میں ریاض کام کرتا تھا، یہاں تک کہ ایم ڈی صاحب نے بھی کہنا شروع کر دیا :
’’میں نہ کہتا تھا یہ ادارہ دیمک زدہ ہے، باہر سے ٹھیک ٹھاک مگر اندر سے کھوکھلا۔ لمبی گڑبڑ ہے۔ تب ہی تو خبریں چھپتی رہتی ہیں۔‘‘
عین ایسے عالم میں، عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندے، پرائیویٹائزیشن کے پراسس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مسلسل دوروں پر آنے لگے۔ اُن کے ساتھ انویسٹرز بھی آ رہے تھے لہذا سرکاری اداروں کی یوں منڈی سی لگی کہ جو بھی آتا وہ ایسٹس اور لائیبیلٹیز کی سٹیٹ مِنٹس اور بیلنس شیٹس کو کچھ ایسے ٹٹولتا تھا جیسے منڈی میں قصاب بکروں اور دُنبوں کی پسلیاں ٹوہ ٹوہ کر دیکھتے ہیں۔ اخبارات میں سرکاری اَداروں کی بد اِنتظامیوں، انتظامیہ کی نا اہلیوں، پالیسیز کی خامیوں، حتّیٰ کہ خود اسٹیٹ کی ناکامی کی بارے میں ایسی ایسی خبریں چھپنے لگیں کہ سب کچھ دھُندلا گیا۔
ایسے میں جو کچھ کہا جا رہا تھا وہ بہت جلد سچ لگنے لگا۔
ایسی ہی افواہوں سے لبالب بھرے ہوے دنوں میں سے ایک دن تھا جب مسٹر رضوانی نے ایم ڈی کی ڈائریکشن پر ریاض سے ایس ایس سی یعنی ’’سبجیکٹ سپیلسٹ کور‘‘ کی اِنڈیکشن کے لیے پروپوزل بنوائی۔ ریاض نے دبے دبے لفظوں میں کہا :
’ ’ادارے کے پاس ایسے ایکسپرٹس کی کمی تو نہیں ہے سر۔‘‘
باس اس سے متفق تھے مگر اُن کا خیال تھا کہ اِسی بہانے لوئر سٹاف کی جو کمی ہے، اُسے بھی نوٹس میں لے آتے ہیں۔ لہذا نوٹ بناتے ہوے ریاض نے اَفرادی قوّت کا چارٹ بنایا، ریکوائرمنٹس کا تخمینہ لگایا اور ’’ایس ایس سی‘‘ کے ساتھ اُسے نتھی کر کے فائل کے اُوپر چڑھا دیا۔ فائل پر اُسی روز فیصلہ ہو گیا۔ صرف نوٹ کے پہلے حصے کی اَپرو وَل ہوئی تھی جب کہ دوسرے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُسے الگ سے پُٹ اَپ کیا جائے۔ وہ اِشو الگ سے موو ہوا بھی، مگر فائل اوپر ہی کہیں ڈمپ ہو گئی۔
جب ایس ایس سی کے نام پر اناڑی مگر ڈِگنَا ٹِیز سے کلوز کا نٹیکٹ رکھنے والے لوگ یکے بعد دیگرے مراعات کے خصوصی پیکج پر رکھے جانے لگے تو مسٹر رضوانی پر مایوسی کے شدید دورے پڑے۔ ذہنی دباؤ کے اِسی دورانئے میں اُنہیں شدّت سے یہ فکر دامن گیر ہونے لگی تھی کہ اُن کی دونوں بیٹیاں تو کب کی شادی کی عمر کو پہنچ چُکی تھیں۔ اُن کے پاس اِس سے پہلے اپنے بارے میں، اپنی صحت کے بارے میں، اپنی وائف اور بے بیز کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ وہ صبح آتے تھے تو رات گئے پلٹتے تھے۔ مسٹر رضوانی اَب بھی لیٹ سٹنگ کرتے تھے مگر اب اُن کے پاس سوچتے رہنے اور فکر مندی سے ہلکان ہونے کی فرصت ہی فرصت تھی۔ بِیچ بِیچ میں ایسے وقفے ضرور آتے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالا دیتے اور ادارے کے پوٹینشل کی وجہ سے اُمید بھری باتیں کرتے ہوے کہتے :
’’ یہ ٹائی ٹَے نِک ان سے ڈوبتے ڈوبتے ہی ڈوبے گا۔‘‘
مسٹر رضوانی سنیئر موسٹ تھے مگر’’ ایس سی سی‘‘ ایسے آئی کہ اس نے پہلے والوں کی ایسی کی تیسی کر دی۔ اُنہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ مسٹر رضوانی اُوپر سے نہ آنے والے بلاوے کا اِنتظار کرتے رہتے۔ اِس عرصے میں کچھ فیصلے ایسے بھی ہوے جن کے، بہ قول مسٹر رضوانی، ادارے پر منفی اثرات پڑ سکتے تھے۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہا نہیں کانسلٹ کر لیا جاتا تو درست سمت میں سٹیپ لیا جا سکتا تھا۔ اِسی طرح کے مختلف فیصلوں کی خبریں جب تسلسل سے آنے لگیں تو اُنہیں یوں اِگنور کیا جانا نڈھال کرنے لگا۔ اس ادارے کو بنانے میں، مسٹر رضوانی کا خیال تھا، کہ ان کا بڑا حصہ تھا۔ اور یہ بہت حد تک ٹھیک بھی تھا۔ یہ بھی درست تھا کہ وہ کبھی بھی اتنا غیر اَہم نہیں رہے تھے، جتنا کہ اب ہو گئے تھے۔
جب اُنہیں بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا تو انہوں نے ایسے معاملات تلاش کیے جن سے ایم ڈی صاحب کو دل چسپی ہو سکتی تھی۔ اُن پر ریاض سے مائیلڈ سی پروپوزلز بنوائی گئیں۔ ایم ڈی صاحب کے پی ایس کو معاملے کے اِمپارٹنٹ اور اَرجنٹ ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی اور موقع ملتے ہی ملاقات کر آئے۔
اُن دنوں ریاض کو پہلی بار محسوس ہوا کہ اُس کے باس کو ایم ڈی کی نظروں میں رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ اِس ملاقات سے پہلے وہ ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ ملاقات میں نہ جانے اُن پر کیا جادو ہوا کہ وہ سارے اشوز جو پہلے ادارے کے حوالے سے اَرجنٹ نیچر کے تھے، سکینڈری ہو گئے۔ اَب سب سے اَہم مسئلہ یہ تھا کہ او ور سٹافنگ کے کرانک معاملے سے کیسے نمٹا جائے ؟ اُوپر پچیس/پچاس کی تجویز چل رہی تھی یعنی جس نے سروس کے پچیس برس مکمل کر لیے یا اُس کی عمر پچاس برس ہو چکی، اُسے پری میچور ریٹائر منٹ پر بھیج دیا جائے۔ وہ نیچے آئے اور آتے ہی ریاض کو کال کر لیا۔
بعد کے کئی گھنٹے وہ پریشان ہو کر کمرے میں اِدھر اُدھر گھومتے رہے اور ریاض اِس تناؤ کے ماحول میں مسلسل سوچ کر ایک پروپوزل بناتا رہا۔ مسٹر رضوانی پچیس میں آتے تھے اور پچاس میں بھی۔ فوری طور پر گولڈن ہینڈ شیک سکیم کی چالو سکیم اُس کے ذہن میں آئی کہ یہی نسخہ ہر ادارے میں آزمایا جا رہا تھا۔ وہ کوئی نئی تجویز نہ دے پانے کی وجہ سے ریاض پر بہت برہم ہوے۔ مگر اسے کچھ اور سوجھ ہی نہ رہا تھا۔ ریاض کو چپ پا کر کہنے لگے :
’’چلو اسی کو موو کرتے ہیں مگر اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟‘‘
پھر خود ہی اُن کا دھیان ایمپلائیز کے بی ایف کی صرف چلا گیا۔ ریاض نے ڈرتے ڈرتے کہا:
’ یہ تو سب ایمپلائیز کی امانت ہوتا ہے۔‘‘
کہنے لگے :
’’اِس سے صرف برج فنانسنگ ہو گی، بعد میں ڈونر ایجنسیز سے معاملات طے پا سکتے ہیں اور بنکوں سے اُدھار بھی تو لیا جا سکتا ہے۔‘‘
اِدھر سے مطمئن ہو کر ریاض کے باس نے پچیس/پچاس والی متوقع سکیم کی زد میں آنے والے افراد کی ڈیٹیلز منگوائیں۔ کل مین پاور کا نئے سرے سے یوں تخمینہ لگوایا کہ سرپلس سٹاف پہلے سے بھی دُگنا نظر آئے۔ اِس طرح وہ یہ ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہو گئے کہ پچیس/پچاس والی سکیم سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے تھے۔ نوٹ کے آخر میں گولڈن ہینڈ شیک سکیم کو مناسب ثابت کرنے کے پر زور دلائل تھے۔ مسٹر رضوانی اوپر گئے اور خُوشی خُوشی پلٹے کہ ایم ڈی صاحب نے اِس سکیم کو بہت پسند کیا تھا۔ اس کے باس کا کہنا تھا کہ صاحب تو اِس تجویز کو ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بوجھ اُتارنے کی سبیل قرار دے رہے تھے۔ کل تک جو افرادی قوت اثاثہ تھی، وہ بوجھ بن گئی۔ گولڈن ہینڈ شیک کی تجویز کو مفید قرار دیتے ہوے اپرو ول دے دی گئی۔ مسٹر رضوانی ایک بار پھر اَہم ہو گئے تھے کہ ساری سکیم کی امپلی منٹیشن انہیں سونپ دی گئی تھی۔
سکیم اگرچہ اختیاری تھی تاہم اِمپلی منٹیشن کے دورانئے میں ریاض کے باس کی حتّی ا لوسع کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اِس سکیم کو آپٹ کر لیں۔ جن کے خلاف جھوٹی سچی کمپلینٹس تھیں انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ جو کچھ مل رہا ہے لے لو، کہیں اُس سے بھی ہاتھ نہ دھو نا پڑیں۔ کچھ کے ذہنوں پر دور دراز تبادلوں کی تلوار لٹکا دی گئی۔ کام سے لگن رکھنے والے افراد ادارے کے جمود کی وجہ سے مایوس ہو گئے تھے۔ لہذا ہوا یوں کہ اندازے سے زیادہ لوگ چلے گئے۔ سکیم کام یابی سے اِمپلی منٹ ہو گئی تو ریاض کے باس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ وہ خُوش کیوں نہ ہوتے کہ جو اَسائین منٹ اُنہیں دی گئی تھی، وہ بڑی خوبی سے نبھ گئی تھی۔ اور یوں اُنہیں پھر سے ادارے میں اَہم رہے چلے جانے کا قوی یقین ہو چلا تھا۔
ریاض کے نوٹس میں تھا کہ جب مسٹر رضوانی پری میچور ریٹائرمنٹ سے بچنے کے لیے یہ سکیم بنوا رہے تھے تو دراصل یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہے تھے۔ اُنہوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا:
’’ سکیم تھرو ہو گئی تو وہ بھی چلے جائیں گے۔‘‘
مسٹر رضوانی سکیم آپٹ کر لیتے تو اُنہیں ٹھیک ٹھاک مالی فائدہ بھی ہوتا۔ مگر اس سکیم کو اِمپلی منٹ کرانے کے عرصے میں اُنہیں ایک مرتبہ پھر اہمیت مل گئی تو وہ گذشتہ کچھ عرصے کے لیے غیر اَہم ہو جانے والے اَذیّت ناک دورانئے کو بھول گئے تھے۔ اِس سکیم کے لانچ ہونے پر ریاض نے بھی ادارے سے الگ ہونے میں عافیت جانی تھی کہ اس کی ماں کواس کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے خیال کے مطابق اسے اس سکیم کے تحت جو کچھ مل رہا تھا وہ اتنا کافی تھا کہ وہ گھر کی بیٹھک میں منیاری کی دُکان کھول سکتا تھا اور جب بھی اسے ماں بلاتی وہ اُس تک پہنچ جاتا۔ جب کہ اَب تو وہ اُس کے لیے نہ ہونے کے برابر تھا۔ ریاض کو مسٹر رضوانی نے روک لیا۔ اس نے آپشن پیپرز اپنے باس کے سامنے رکھے۔ باس نے اُسے سنے بغیر پیپرز چاک کر کے ٹوکری میں پھینک دیے۔ اُن کا خیال تھا کہ ریاض جیسے لوگوں کو اِس اِدارے میں ضرور رہنا چاہیے۔
اُسے اپنے باس کے اِس طرز عمل پر حیرت ہوئی تھی کیوں کہ اب تک وہ بہت بدل چکے تھے۔ نہ صرف بدل چکے تھے ان کا دل بھی بہت مضبوط ہو گیا تھا۔ مضبوط نہیں کٹھور۔ وہ ریاض کو ایسے عرصے میں روک رہے تھے جس میں انہیں ایم ڈی صاحب کی خوشنودی کے حصول کے سوا سب کچھ بھول گیا تھا۔ ادارہ، ادارے کے لوگ، حتّیٰ کہ اپنی گذشتہ عبادت کی ادائیگی کی طرح سر انجام دی گئی خدمات اور اپنے ذاتی مفادات پر ادارے کو ترجیح دینے کا وتیرہ بھی۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ سب ہی کچھ۔
جب وہ ریاض کے اَہم ہونے کی بات کر رہے تھے تو اگرچہ وہ خود کو بہت ایلی ویٹڈ محسوس کر رہا تھا مگر یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اَب کوئی بھی کسی ادارے میں اَہم ہو سکتا تھا۔ اَب تو ادارے اَہم ہو گئے تھے، لوگ اَہم نہیں رہے تھے۔ نہیں، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا، ہائر ڈگناٹیز سے تعلق کے سبب اہمیت اختیار کر جانے والی ایس ایس سی بھی تو آدمیوں ہی کی تھی۔ خود ایم ڈی صاحب بھی تو آدمی ہی تھے، جو حکم دیتے یا پھر کوئی بھی حکم نہ دینے کا فیصلہ کرتے، پورا اِدارہ دیمک لگے درخت کی طرح کھوکھلا ہونے لگتا تھا۔
کیا یہ لوگ ادارے سے کہیں زیادہ اَہم نہیں ہو گئے تھے ؟
جب ریاض کے باس کے بہ جائے خود اسے اوپر بلا لیا گیا تو اُسے تعجب ہوا تھا۔ تاہم تعجب کا مرحلہ جلد ہی گزر کر اُسے ایک نئی آزمائش میں ڈال چکا تھا۔ اُسے بتایا گیا کہ ادارے کی بیٹرمنٹ کے لیے ایک مشکل مگر ضروری فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں اُسے مسڑ رضوانی کو فوراً ریلیو کرنا تھا۔ ریاض کی مجبوری دیکھیے کہ جس طرح اسے مسٹر رضوانی نے روکا تھا، وہ انہیں نہیں روک سکتا تھا۔ سیکنڈ فیز کے طور پر پچیس/پچاس والوں کے لیے کمپلسری سیپریشن سکیم متعارف ہو چکی تھی۔ اور اسے صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ کوئی بھی ہمیشہ کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا۔
اور ہاں یہ بات تو رہے جاتی ہے کہ ریاض پینتالیس کے پیٹے میں تھا۔
اُس کی ماں سولہویں میں تھی کہ بیاہی گئی تھی۔ اَٹھارویں میں وہ پیدا ہوا۔ ساڑھے تین برس کا ہونے تک وہ دو بہنوں کا بھائی ہو چکا تھا۔ اگلے ہی سال یہ بھائی بہنوں سمیت یتیم اور ان کی ماں بیوہ ہو چکی تھی۔ ریاض نے ہوش سنبھالا تو اُس نے ماں کو مشقت ہی کرتے پایا۔ جتنی ماں کی برداشت تھی، ریاض اُتنا پڑھ گیا۔ بڑی جوان ہو گئی تو اُس کی ہمت جواب دے گئی۔ ابھی نوکری نہ ملی تھی کہ بڑی کو رخصت کرنا پڑا۔ پھر ریاض کو نوکری بھی مل گئی مگر اس کی جمع پونجی اتنی نہ تھی کہ منّی کو بیاہ پاتا۔ ماں کڑھتی تھی کہ اُس کی عمر نکلی جا رہی تھی۔ اور جب منّی اس گھر سے مایوس ہو کر خود ہی نکل بھاگی تو ماں ایک اور روگ لے کر مکمل طور پر بستر کی ہو رہی۔ ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کے پھیرے لگے تو پتہ چلا کہ اُسے تو ملٹی پل مائیلوما ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا، اس کا علاج اس ایڈوانس سٹیج پر ممکن نہیں، بس اِس کی اذیت کم کی جا سکتی تھی۔
اوہ، میں ریاض کے ذکر کو کیوں طول دے بیٹھا کہ یہ کہانی تو ریاض کی ہے ہی نہیں۔ یہ کہانی ریاض جیسے غیر اَہم آدمی کی ہو ہی نہیں سکتی۔ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ شاید یہ اس کی ماں کی کہانی ہو گی۔ جب ریاض غیر ضروری آدمی ٹھہرا تو اس کی ماں کیسے اَہم ہو سکتی ہے۔ رہی وہ زمین جو کبھی ماں جیسی ہوتی تھی اب پیسے اور آسائش کے عوض بکنے لگی ہے تو پھر اس کہانی کو اس کا کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ نہ اس کی، نہ اس جیسا ظرف رکھنے والے کسی ادارے کی۔ میں نہیں جانتا یہ کہانی کس کی ہے ؟ اور شاید مجھے اس الجھیڑے میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ میں تو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اگر ریاض مسٹر رضوانی کو ریلیو کر دیتا تو اُسے یقینی طور پر دل کا دورہ پڑ سکتا تھا۔ اور وہ مر بھی سکتا تھا۔ مر جاتا تو ممکن تھا کہ اُس کی شادی کی عمر کو پہنچی بیٹیاں۔۔۔ منّی بھی تو۔۔۔
آہ کیا اس کی ماں کی اَذیت مرے بغیر کم ہو سکتی تھی؟
ریاض کو سوچتے سوچتے آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ اگلے دس پندرہ منٹ ایک فائل بنانے میں لگے۔ وہ اپنی نشست سے اُٹھا تو مسٹر رضوانی اُٹھ کر اوپر چلے گئے۔ لگ بھگ تین گھنٹوں کے بعد وہ واپس پلٹے تو ایک لیگل لکونا کے باعث ساری سکیم ڈراپ ہو چکی تھی اور وہ اس لیگل لکونا کے آفٹر افیکٹس سے ادارے کو محفوظ رکھنے کی اسائین منٹ بھی لے چکے تھے جو ریاض کی نا اہلی کے سبب اس اکلوتے ڈاکو منٹ میں رہ گیا تھا جس پر ایم ڈی صاحب کے دست خط تھے۔ اس ڈاکو منٹ کو عدالت میں لے جایا جاتا یا اِسے میڈیا ہی کے حوالے کر دیا جاتا تو ایم ڈی صاحب بلاوجہ کئی ماہ تک رُسوا ہو سکتے تھے۔
ایم ڈی صاحب کو یقین تھا کہ دست خط اُن کے نہ تھے مگر ہو بہو اُن ہی کے لگتے تھے۔ وہ شک میں پڑ گئے۔ اُنہیں یاد نہیں آتا تھا کہ کبھی اُنہوں نے اِس ڈاکو منٹ پر دست خط کیے تھے۔ مگر حیران کُن حد تک اُنہی کے لگتے تھے۔ اور خدشہ تھا کہ وہ آسانی سے ثابت نہیں کر سکیں گے کہ یہ دست خط انہوں نے نہیں کئے تھے۔ پھر فائل مو ومنٹ کا ریکارڈ بھی ایسا تھا کہ اس نے انکار کے سارے راستے مسدود کر دیے تھے۔ اِسی بند راستے کی نشاندہی کر کے مسڑ رضوانی نے اپنے بچاؤ کا راستہ نکال لیا تھا۔ خود کو بھی اور پچیس/پچاس والوں کو بھی۔ تاہم ایم ڈی صاحب کا وثوق تھا کہ مسٹر رضوانی نے ادارے سے وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ یوں وہ ادارے کے لیے پھر ناگزیر ہو گئے تھے۔ اور فوراً بعد اَہم ہو جا نے والے ریاض کے باس نے اس کی نا اہلی پر اسے ٹرمینیٹ کر دیا۔ اپنی ٹرمینیشن کے بعد ریاض باس کو ملنے گیا تو وہ سارا وقت اس سے بھیگی نظریں چھپاتے رہے۔ وقت تھا بھی کتنا؟ وہ بہ مشکل ایک آدھ منٹ ہی تو وہاں کھڑا رہ پایا تھا۔
کئی دن اُس پر سکتہ سا طاری رہا۔ وُہ کیا کر سکتا تھا؟اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ شاید وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ جو جمع پونجی تھی، ماں کی مہنگی دواؤں کی نذر ہو گئی تھی۔ حتیٰ کہ دوائیں بھی ختم ہو گئیں اور وہ مرنے کی بہ جائے سارا سارا دن اور ساری ساری رات چیخیں مارنے لگی۔
آہ، مرے بغیر کیا اس کی ماں کی اَذیّت کم ہو سکتی تھی؟
وہ سوچتا تھا۔ اور ہر بار ایک نتیجے پر پہنچتا تھا۔ شاید نہیں۔ بل کہ یقیناً نہیں۔ مگر حیلہ تو کیا جا سکتا تھا۔
بس یہ ایک حیلہ ہی تھا کہ وہ مسٹر رضوانی کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ اُسے اتنی مدد چاہیے تھی کہ اَذیّت کم کرنے والی کچھ دوائیں لے آتا۔ وہ رات اُن کے گھر گیا تھا مگر کچھ مانگے بغیر ہی پلٹ آیا کہ ان کا گھر تو برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔
اس نے اپنی ماں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ رات کہاں گیا تھا۔ اور ظاہر ہے یہ بتانے کا بھی اس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ رات اس کے سابق باس کی دونوں بیٹیوں کی ڈولی دھوم دھام سے اُٹھی تھی۔ یہ بات وہ ماں کو بتاتا تو اُسے تکلیف ہوتی۔ تکلیف میں تو وہ پہلے سے تھی مگر اُس کی تکلیف۔۔۔ بس اُس نے نہیں بتایا۔ ایسا اُس نے شاید قصداً ً نہیں کیا تھا۔ وہ تو مسٹر رضوانی کی دو بیٹیوں کی باراتیں دیکھ کر اپنی ماں کی اَذیّت بھول گیا تھا۔ اگرچہ وہ باہر گلی ہی سے پلٹ آیا تھا مگر اس کے اَندر قمقموں کی روشنیوں کے سارے رنگ بھر گئے تھے۔
اور اب جب کہ اُس کی ماں درد سے کچھ زیادہ ہی چیخنے لگی ہے تو نہ جانے کیوں اسے یوں لگتا ہے جیسے کوئی آتش بازی کے پٹاخے اور اَنار چھوڑ رہا ہو۔ ماں کی ہر چیخ پر ایک اور قمقمہ روشن ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ صاف صاف دیکھنے لگا ہے کہ باہر دروازے پر ایک بارات پہنچ چکی ہے۔ اس کی ماں موت کے شکنجے میں کراہتی ہے۔ وہ ماں کو دیکھتا ہے۔ دیکھتا رہتا ہے۔ پہلے وہ اُس کی اَذیّت پر کڑھتا تھا مگر اَب اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ وہ خالی الذہن ہو جاتا ہے۔ کوئی ادارہ، کوئی ماں جیسی زمین، بھاگ جانے والی منّی، چیختی چلاتی ماں۔ کچھ بھی تو اس کے ذہن میں نہیں رہا۔ وہ سب چیخیں سن سکتا ہے۔ سن رہا ہے۔ مگر اس کے بدن کے اندر عین دل کے بیچ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس کی ماں کی آواز بدل رہی ہے۔ یوں، جیسے قوی الجثہ موت اُس کے نحیف بدن پر چڑھ بیٹھی ہو۔ مگر وہ بڑی سہولت سے اپنا منھ پھیر لیتا ہے کہ اَب اُس کا وجود اس سارے ماحول سے ہم آہنگ ہو گیا ہے اور اُسے موت کے بوجھ تلے ماں کی چٹختی ہڈیوں کی آوازیں چلتی سانسوں کی سی لگنے لگی ہیں۔
بھُرکَس کہانیوں کا اَندوختہ آدمی
اِدھر، یہاں میں ایک ایسے ریٹائرڈ شخص کے بارے میں گمان باندھنا چا ہوں جسے اپنے بیوی بچوں سے محبت ہو، جسے وہ بھی چاہتے ہوں مگر وہ اُن سے اِس خیال سے الگ رہے کہ یوں زیادہ سہولت سے رہا جا سکتا ہے اور خُوش بھی۔ یقین جانیے، مجھ سے ایسا گمان باندھنا ممکن نہیں رہتا۔ جس ماحول میں، مَیں پلا بڑھا ہوں اور جس ماحول میں میری نفسیات مرتب ہوئی ہیں، اُن میں بس ایسے گھر کا ہی تصور موجود ہے، جو محبت بھری آوازوں اور چہکار سے لبالب بھرا رہتا ہے۔ جس میں خوب کھینچا تانی اور تُو تکار ممکن ہے۔ جس میں دوسروں پر اپنا اپنا حق جتلایا جاتا ہے، حق دیا جاتا ہے اور لیا جاتا ہے۔ میرے گمان میں ایک کام یاب ریٹائرڈ آدمی وہی ہے جو بعد میں ایک بادشاہ کی طرح گھر کا سربراہ رہے، چاہے علامتی طور پر سہی۔
اور جو ایک ہی شہر میں رہتے ہوے بھی بیوی سے اور بچوں سے الگ ہو رہتا ہے، اِس خیال سے کہ یوں خُوش رہا جا سکتا ہے، اِسے میری نفسیات کی کجی کہیے کہ میں ایسے بوڑھے شخص کو خبطی سمجھنے لگتا ہوں۔ سترا بہترا۔ یا اس کے بیوی بچوں میں نافرمانی اور نا خلفی کے آثار تلاش کر کے اُنہیں دوزخ کا ایندھن باندھنے والا گرداننے لگتا ہوں۔
مگر یوں ہے کہ چالیس، بیالیس سال پہلے، اُدھر سات سمندر پار جانے والا ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے اِسی چلن کو وتیرہ کر لیا ہے اور میری نفسیات کو تہو بالا کر کے مجھے یقین بھی دلا دیا ہے کہ یوں خُوش رہا جا سکتا ہے۔
جی، میں کسی اور شخص کی بات نہیں کر رہا، اُس کی بات کر رہا ہوں جو کہیں اَب آ کر مجھ پر رفتہ رفتہ کھُل رہا ہے، یوں جیسے آپ ایک ایسی خوب صورت مجلد کِتاب کو دیکھتے ہوں جس کے سارے ہی اوراق سادہ رہ گئے تھے یا اس میں کہیں کوئی تحریر ہے بھی تو اِتنی بے ضرر کہ آپ اُسے پڑھتے ہیں تو آپ کے اَندرکوئی اُتھّل پُتھل نہیں ہوتی۔ دل جہاں ہوتا ہے، عین وہیں رہتا ہے۔ نگاہیں سطروں کے عقب میں جھانکنے کو بے قابو نہیں ہوتیں کہ جو کچھ ہے سامنے دھرا ہے، اُس منظر کی طرح جسے آپ روز دیکھتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ کل رات تک میں اُسے یوں ہی بے ضرر اور سیدھا سادا آدمی دیکھتا اور سمجھتا رہا ہوں۔ کچھ سال پہلے اُس نے جب مجھے یہ بتایا تھا کہو ہ اُدھر باہر اکیلا رہتا ہے، اور خُوش رہتا ہے۔ نہ صرف مطمئن ہے، اُس کی بیوی اور بچے بھی یوں رہنے پر خُوش ہیں، تو یوں ہے کہ پہلے پہل میں بوکھلا ہی گیا تھا۔ مگر جب وہ اپنی بات کہہ کر اُٹھا تھا اور میں نے پلٹ کر صوفے کے اُس خالی حصے کو دیکھا تھا، جہاں کچھ دیر پہلے وہ بیٹھا ہوا تھا تو مجھے وہاں سے ایک مستغنی اور مطمئن شخص کی مہکار اُٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
وہ اِس عرصے میں لکھنے لگا تھا۔ جاتے جاتے مجھے اپنی دو نئی کتابیں تھماتا گیا۔ ایک میں بقول اس کے کہانیاں تھیں اور دوسری میں ہائیڈ پارک کی دُنیا بسی ہوئی تھی۔
پہلے میں نے اُس کی یادداشتوں کی کتاب پڑھی اور پھر دوسری کتاب کی چند اِبتدائی کہانیاں۔ مجھے دونوں کا ذائقہ ایک سا لگا۔ یادداشتوں کو کہانی کی طرح بنا دیا گیا تھا جب کہ کہانیوں کے متن سے یادداشتیں جھلک دے رہی تھیں۔ میں نے ان تحریروں سے اُسے سمجھنا چاہا تو وہ ویسے کا ویسا ہی رہا، جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ ائیر پورٹ کے قریب، اپنی بیوی سے الگ اور اپنے بیٹے اور بیٹی سے دور، چھوٹے سے گھر میں اکیلا، مگر خُوش رہنے والا۔ اپنی کتابوں کے ساتھ، بل کہ ان کے نشے اور ترنگ میں یا پھر چیزوں پر، دیواروں اور دروازوں پر یہاں وہاں سے گرد کے ذرّے ڈھُونڈ ڈھُونڈ کر انہیں جھاڑنے اور اِس مصروفیت سے اُوب کر کچن میں گھس جانے والا اور وہاں پہروں وہیں گزار دینے والا۔
پہلی کتاب میں دوسری کتاب کا متن ملانے کے بعد میں جان گیا ہوں کہ وہ ہیز مڈل سیکس سے ہائیڈ پارک کی طرف تواتر سے نکلتا رہتا ہے۔ وہ لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر، کچھ بس میں اور کچھ ٹیوب میں کرتا ہے۔ اور یہ سفر محض اس لیے کرتا ہے کہ اُسے وہاں سرپن ٹائن جھیل تک جانا ہوتا ہے۔ اپنی مخصوص جگہ ڈیک چیئر پر اپنے طریقے سے بیٹھنے کے لیے۔ وہ اِدھر اُدھر چائے کے تھرمس اور کھانے پینے کی اشیا کو سلیقے سے رکھ کر اپنے بیگ سے رائٹنگ پیڈ، قلم اور کیمرے کو نکال کر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے مچھلیوں کا کوئی شکاری پانی میں کانٹا ڈال کر بیٹھ جایا کرتا ہے۔
یہ جو میں نے کانٹا لگا کر بیٹھنے کی بات کی ہے تو یوں ہے کہ اُسے وہاں اجنبی اور سیاح لوگوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ بل کہ مجھے صاف صاف کہنا چاہیے کہ فی الاصل اُسے بات نوجوان سیاح لڑکیوں ہی سے کرنا ہوتی ہے۔ افریقی لڑکیاں ہوں یا فلپینو، ایرانی ہوں یا چینی، سویڈیش، پولش، عراقی، اٹالین یا کویتی لڑکیاں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ وہ سب سے ملتا ہے۔ کوئی دُبلی پتلی اور اُونچے قد والی ہوتی ہے تو کوئی بھرے ہوے جسم اور چمکتی تنی ہوئی جلد والی، کسی کو اَنگریزی نہیں آتی، کسی کو ملازمت نہیں مل رہی، کسی کو اس کا چاہنے والا چھوڑ گیا ہے، وہ سب سے ملتا۔ لگ بھگ ہر بار یوں ہوتا کہ اُسے ہی بات کو آغاز دینا ہوتا ہے۔
اِس معاملے میں عمر بھر کا تجربہ اس کے پاس ہے۔ وہ یہ گُر بھی سیکھ چکا ہے کہ اُسے کسی کی توجہ کیسے حاصل کرنا ہوتی ہے۔ ایک بار بات شروع ہو جاتی تو وہ چاہتا ہے کہ اس ملاقات میں سے ایک اور ملاقات کو نکالا جائے۔ اِس کا حیلہ اُس نے پہلے سے کر رکھا ہوتا ہے۔ اُس کے پاس ایک کیمرہ ہوتا ہے، بقول اُس کے ڈسپوزایبل کیمرہ۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرا زوم لینز والا اور اعلیٰ کوالٹی کا کیمرہ رکھے مگر اس نے اس سستے کیمرہ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ کوئی تصویر بنانے پر برہم ہو جائے اور کیمرہ چھین لے تو نقصان پی جانے کی حد میں رہے۔
جب اِتنے جتن سے ایک بار بات شروع ہو جاتی ہے تو وہ ہمت کر کے اُن کی تصویریں بھی لے ہی لیتا ہے۔ جو اسے پتا لکھوا دیتی ہیں انہیں ان کی تصویریں پوسٹ کر دی جاتیں اور جس سے یہ ایک بار پھر ملنا چاہتا ہے، اسے ٹیلی فون کر کے بتاتا ہے، وہ اُس کی تصویریں لے کر فلاں دن اور فلاں وقت پر ہائیڈ پارک پہنچے گا۔ آؤ، ملو اور لے جاؤ۔
یہ لڑکیاں، یہ جوان لڑکیاں، یہ یہودی، عیسائی، لادین لڑکیاں سب تھوڑا تھوڑا کر کے اس کا وقت بانٹ لیتی ہیں۔
ان میں سے ایک تو ایسی ہے جس نے لگتا ہے اس کا دل ہی اُچک لیا ہے۔
اگر میں اُس کی تحریروں کو اس کے کیمرے سے لی گئی تصویروں سے جوڑنے میں کوئی غلطی نہیں کر رہا تو دل مٹھی میں لینے والی ہائیڈ پارک میں اُسے ملنے والی یہ وہی چینی شہزادی ہے جس کی تصویر دکھاتے ہوے اس کے گالوں میں تھرتھری سی دوڑ گئی تھی۔ اس نے اس تصویر کو اپنی کتاب کے فلیپ کی زینت بھی بنا دیا ہے۔
جب تک تصویر میرے ہاتھ میں رہی، وہ ایک الگ سی کیفیت میں رہا۔ ایک لطف کے اِحساس کے ساتھ وہ مجھے اِطلاع دے رہا تھا کہ اسے ڈھنگ سے انگریزی نہیں آتی تھی۔ یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی اور نہ ہی اس خبر میں اس لطف کو تلاش کر پایا تھا جس کے مطابق ناقص انگریزی کی وجہ سے اسے وہاں نوکری نہیں مل رہی تھی۔ جس لڑکی کا قصہ سنایا جا رہا تھا وہ دل برداشتہ تھی مگر کہانی سنانے والا اُس کے دُکھ سے کہیں زیادہ ایک لڑکی کی تصویر سے اُٹھتی اُس عجب سی مہک سے جڑا ہوا تھا، جس کا بہ ظاہر کوئی وجود نہ تھا مگر وہ وہاں سارے میں تھی۔ کچھ اس طرح جیسے وہاں اس لڑکی کی تصویر نہ تھی اس کا زندہ وجود تھا، مہکتا ہوا۔
مجھے اس لڑکی سے ایک دل چسپی سی ہو چلی تھی۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے اس کی کتاب میں اس لڑکی کا ذکر تلاش کر لیا۔ اور ایسا جملہ بھی جس کے مطابق وہ دُنیا کی حسین ترین لڑکی تھی۔ میں نے کتاب کے فلیپ والی تصویر کو ایک بار پھر دیکھا۔ پھینی ناک، قدرے چوڑی پیشانی، اُبھرے ہوے گال، جو آنکھوں تک اچھل کر انہیں دبا رہے تھے۔ یقیناً اس لڑکی کا رنگ گورا ہو گا مگر کیا اسے حسین لڑکی کہا جا سکتا تھا؟
میں بہت دیر تصویر دیکھتا رہا حتّیٰ کہ مخمصے میں پڑگیا۔
میں نے اوپر کہا ہے کہ اس کی کہانیاں اور یادداشتیں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں اور دونوں اسے ایک بے ضرر انسان کی صورت دیتی ہیں، سوائے اس مقام کے، جہاں وہ پھینی ناک اور اچھلتے گالوں والی دنیا کی حسین ترین لڑکی بن جاتی ہے۔
میں نے اس کی چند ابتدائی کہانیوں کو پڑھ کر کتاب ایک طرف رکھ دی تھی۔ پھر ایک روز یوں ہوا کہ میری بیوی کہانیوں کی یہ کتاب اُٹھائے اُٹھائے میرے پاس آئی اور ایک شوخ سی ہنسی کے فوارے کو بہ مشکل ہونٹوں پر روکتے ہوے کتاب کے دو تہائی اوراق دائیں ہاتھ پر اُلٹاتے ہوے پوچھا:
’’ کیا تم نے یہ کہانی پڑھی ہے ؟‘‘
میں نے کتاب کی طرف دیکھے بغیر اُس سے پوچھا:
’’ کون سی کہانی؟‘‘
’’ ارے بابا یہ۔‘‘
اُس نے کتاب میری آنکھوں کے سامنے اُچھال کر سامنے رکھ دی۔ میرے سامنے اس کا افسانہ ’’سہاگ رات‘‘ پڑا ہوا تھا۔ اس افسانے تک پہنچنے سے پہلے ہی میں نے اُوب کر کتاب بند کر دی تھی۔ میں نے اُس کی جتنی بھی کہانیاں پڑھیں، لگ بھگ ہر کہانی میں وہ واقعات کو ایک شریف آدمی کی طرح ایک عام سی ترتیب میں بیان کرتا نظر آیا۔ میں نے اس کہانی پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے انتہائی بے ضرر آدمی قرار دے ڈالا تھا۔ ایسا بے ضرر آدمی، جو واقعات تو لکھ سکتا تھا اور شریفانہ کہانیاں بھی، مگر وہ انہیں تخلیق پارے نہیں بنا سکتا تھا۔ شریفانہ کہانیوں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ پڑھتے ہی کھُل جاتی ہیں۔ اِس قبیل کی ایک سی کہانیوں کو پڑھتے چلے جانا، بتاشوں کے بعد کھانڈ کھانے کے مترادف تھا۔ تاہم میری بیوی کے پیٹ سے ہنسی کا فوارا چھوٹا تو میں اس کہانی کو پڑھنے کی طرف مائل ہو گیا۔
کہانی کے آغاز ہی میں بتا دیا گیا کہ یہ ایک ایسے خان کی کہانی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ جو بہت شریف تھا اتنا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اِسے میری محسوسات کا شاخسانہ سمجھئے یا پھر کہانی کے اسلوب کا معاملہ کہ میں کہانی کے خان کو کہانی کے مُصنّف کے وجود کا حصہ سمجھنے لگا تھا۔ اس افسانے میں خان کی جوانی کا قصہ ایک راوی کی زبانی بیان کیا گیا تھا۔ کہانی کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ راوی نے خان کو طیش اور ترنگ میں لا کر یہ قصہ کہہ ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا تاہم خان نے اپنی کہانی سنانے سے پہلے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ لوگ اگرچہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ وہ اپنی مردانہ کمزوری کی وجہ سے شادی نہیں کر رہا مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ لوگ غلط قیاس لگاتے تھے۔ مصنف نے یہ جملہ اس اہتمام اور ایسے ڈھنگ سے لکھا تھا کہ پڑھتے ہوئے ذہن نشین رہتا تھا۔
اس کے بعد کہانی طوائف کے کوٹھے تک پہنچنے میں دو دن لگاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر رُکتی نہیں کہ اسے خان جی کو مرد ثابت کرنے کے لیے بقول افسانہ نگار ’’وہ کام‘‘ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کہانی میں کئی ایسے موڑ آئے جن کو اِختصار کے پردے میں چھپایا جا سکتا تھا مگر طول نویسی کی ہوس میں مبتلا یہ لکھنے والا سب کچھ کھول کھول کر بیان کرتا چلا گیا ہے۔
اب مجھے اپنی بیوی کے ہنسے چلے جانے کی وجہ سمجھ آ گئی ہے۔
جب یہ کہانی لکھنے والا مجھے ملنے آیا تھا تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر اُس سے اُس کی زندگی کے دلچسپ قصے سنتی رہی تھی۔ اسی نشست میں اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اُس کی پہلی شادی یہاں اپنے وطن میں ہوئی تھی۔ جب دلہن کو لے کر بارات واپس آ رہی تھی تو اُسے برقعے میں سر سے ٹخنوں تک لپٹی دلہن کی سرخ جوتیوں سے جھلکتے گورے گورے پاؤں دیکھ کر یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ باقی لوگ بھی اس کے پاؤں دیکھ رہے ہوں گے۔ میری بیوی نے یہ سنا تو ہنس کر کہا تھا:
’’ہماری مائیں بھی کچھ اِسی طرح دلہن بنی تھیں۔‘‘
میری بیوی کی بات سن کر وہ ہنس پڑا تھا اور بتایا:
’’اب میری دوسری بیوی جاب کرتی ہے۔ میری بیٹی بھی خود کفیل ہے۔ پہلے پہل وہ رات دیر سے آیا کرتی تھی تو میں پریشان ہو جایا کرتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ اُن کی اپنی زندگی ہے اور میری اپنی۔‘‘
لگتا ہے میری بیوی بھی میری طرح اُسے بے ضرر آدمی سمجھتی رہی ہے۔ تبدیل ہوتی دنیا کے ساتھ بدل جانے والا آدمی۔ بدل جانے والے اپنوں کے لیے اپنی محبت اور اپنے جذبے سرنڈر کرنے والا۔ تو یوں ہے کہ اس کوٹھے والی کہانی کے بعد ہم دونوں کے لیے وہ آدمی جو بے ضرر تھا، بے ضرر اور ٹھس نہ رہا تھا۔
اسے میری محسوسات کا شاخسانہ کہیے کہ اس میں موجود تبدیل ہو چکے آدمی کے ساتھ ہی اس کی کہانیوں اور یادداشتوں نے بھی اپنی جون بدل لی ہے۔ اب ہائیڈ پارک کی لڑکیاں صرف وقت گزاری کا حیلہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک کہانی، جس کا عنوان ’’رانی‘‘ رکھا گیا ہے، مجھے بتا رہی ہے کہ میاں بیوی کی محبت کا تقاضا کیا ہوتا ہے۔ یہی کہ وہ ایک دوسرے کو محسوس کریں اور پاس پاس رہیں۔ ایک اور کہانی میں بیٹی کو ایسی زنجیر بنی رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو ماں باپ کو جوڑنے کا کام سرانجام دیتی رہے۔ کچھ کہانیاں چھوڑ کر ایک ایسی کہانی آتی ہے جس میں منھ پھٹ اور تلخ لڑکیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی بزرگ اپنی تنہائی بانٹنے کے لیے اُن کے پاس آئے تو انہیں اپنی تلخیوں کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ خاندانی ڈھانچے، نامی کہانی میں اس خاندانی نظام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں ایک دوسرے کو خُوش رکھنے کے لیے قربانیاں دے چلے جانے کی روایت ملتی ہے۔
لیجیے، میری بیوی نے مجھے ایک ایسی کہانی پڑھا دی ہے کہ اپنی بیوی بچوں کی خُوشی کے لیے ان سے الگ رہنے والا آدمی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور ایک ایسا شخص میرے سامنے آ کھڑا ہوا ہے جو زندگی اور اپنوں سے مل بیٹھنے کی تاہنگ سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ بالکل ویسا ہی، جیسا کہ، میری اپنی حسی تربیت نے بالعموم رشتوں میں بہت اندر تک جڑے ہوے تہذیبی آدمی کا ہیولا بنا رکھا ہے۔
تو پھر وہ با اعتماد اور آزاد آدمی کہاں ہے جو ادھر ہائیڈ پارک میں تھا۔ رنگ رنگ کی جواں سال لڑکیوں سے چُہلیں کرنے والا اور اُن کے بدنوں کی خُوشبو سے اپنی سانسوں میں مہکار بھرنے والا۔ اس پر تو وہ آدمی حاوی ہو گیا ہے جس کی برقعے میں لپٹی دُلہن کی جوتیوں سے جھلکتی جلد اُسے بے چین کرتی تھی۔ قدم قدم پر رشتے تلاش کرنے والا قدیم اور متروک آدمی۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ آدمی ایک مُدّت سے وہاں تھا۔ چوں کہ یہ کوئی کہانی نہیں ہے لہذا اس میں قباحت نہیں ہے کہ آخر میں ایک سوال رکھ دیا جائے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر آج کا آدمی مکمل طور پر ان رشتوں سے اندر سے بھی کٹ گیا جنہیں وہ باہر تلاش کرتا پھر رہا ہے تو پھر کہانی کا چلن کیسا ہو جائے گا؟
جنریشن گیپ
٭
اُٹھ نی سوہنیے
تیرا ویر ویاہیا
اَری چھوڑ، کھیل لینے دے ان بچوں کو، تو ڈال پٹھے مشین میں۔ میں مشین گیڑ رہا ہوں اور تو بچوں میں گم ہے۔ بڈھی گھوڑی لال لگام۔ جی چاہتا ہو گا اُن میں گھمن گھیری ڈالو۔ اَری چھوڑ بھی۔ خالی مشین کے ٹوکے گھرڑ گھرڑ کر رہے ہیں۔ دے پٹھّے مشین میں۔ کُترا نہ ہو گا تو بارہ بے جان جی ہمارے کھونٹوں سے بندھے بندھے بے جان ہو جائیں گے۔
اے ہے، بس بس، یوں ہی بولے جا رہے ہو۔ مشین کم اور زبان زیادہ گیڑتے ہو تم بھی۔ میں تو بچیوں کے اکھروں پر سوچ رہی تھی۔
اُٹھ نی سوہنیے، تیرا ویر ویاہیا
دیکھو تو سہی، سوہنی کس پھُرتی سے اُٹھی ہے۔ اور کیسے مزے میں مسکرا رہی ہے۔
اری چھوڑ چھوڑ۔ وہ تو بچیاں ہیں۔ کھیل کھیل میں خُوش نہ ہوں گی تو اور کیا کریں گی؟تو ڈال پٹھّے مشین میں۔
پوری بات تو سن لیا کرو۔ میں سوچتی ہوں اب بیٹے کا گھر بسانا چاہیے۔ میری ہڈیاں تو کھوکھلی ہو چلیں۔ کمر میں روز روز کا درد اور اُوپر نا مراد کھانسی۔ بسا لے بیٹے کا گھر۔ اَرے لے آ بہو۔ میں بھی تو کچھ روز سکھ کا سانس لوں۔
٭
وڈّے لاہوروں آیا تتر
تترے کیتی بھیڑلڑائی
چم چڑی چھڑاون آئی
چم چڑی نوں لگا ڈنڈا
نکل وے توں رام چندا
اری او، سن رہی ہے اب تو بھی بچیوں کو؟
ہاں سن رہی ہوں۔
سکھ کے تَانے میں دُکھ کا بانا مت ڈال۔
تو کب سنے گا میری۔ بس اپنی کہے گا۔
اَچھا اَچھا سن لیا۔
پھر مان بھی لے نا۔
اچھا مان لیا۔
تو کرو گے بات بیٹے سے ؟
ہاں ہاں کروں گا۔ اب ڈال پٹھے مشین میں۔
یہ لے۔ ہمت کر۔ زور سے گیڑ۔ اور لے۔
بس کر، بس کر۔ اب بس بھی کر۔ سمیٹ کُترا، رکھ چھپر تلے اور چل ڈیرے۔ ڈال مدہانی ڈولے میں۔ بلو ایسی لسّی کہ تھکن دور ہو۔
تو پھر میں چلی۔ آ جانا تم بھی۔ اللہ بیلی!
اللہ بیلی!
ارے او حرام خور، کہاں ہے تو؟
حاضر ہوں سرکار۔
حقہ لا اِدھر۔
ابھی لایا سرکار۔
ارے لے بھی آ، خوب تازہ کرنا اُسے۔
آ۔۔۔ آ۔۔۔ آ۔۔۔ آے یہ لیں سرکار۔ ابھی تازہ کیا ہے چوبچے میں۔
ارے بک تو نہیں رہا؟
نہیں سرکار۔۔۔ بگّی جوڑی ابھی باندھی ہے رہٹ میں، محض حقّہ تازہ کرنے کو۔ ماہل کی ٹینڈوں کا جب باسی پانی پڑچھّے سے ہوتا، چوبچے سے بہہ چکا، تب رکھا تھا حقّہ پانی کی دھار تلے۔
اچھا کیا۔
یہ لیں سرکار، خود دیکھ لیں۔ تمباکو بھرا ہوا ہے ہَوِیجے میں اور تیلی بھی دکھا دی ہے میں نے۔
ارے او کم ذات، تازہ چلم کو پہلے منھ مت مارا کر۔
کیوں کر جوٹھا کرنے لگا سرکار کی چلم؟۔ وہ۔۔۔ تو۔۔۔ جی، میں نے سوچا، ذرا پانی کا سودا ہی چکھ لوں، سرکار کے موافق ہے بھی یا۔۔۔
رہنے دے، رہنے دے۔ بڑا آیا ہم درد۔
جا سوہے کو چھپّر تلے باندھ، دھوپ میں بیٹھا ہونک رہا ہے۔ بگّی جوڑی کھول، تھک گئی ہو گی۔ چٹے متھے والے کے ساتھ ڈبے کو باندھ رہٹ میں، دونوں کھا کھا کر پھیل رہے ہیں۔ ذرا دھوپ ڈھلے تو اس پیلی میں ہل چلا دینا۔ لم سنگھا اور بھورا سوہنا قدم
اُٹھاتے ہیں ہل کے آگے۔ اِدھر سے فارغ ہو کر ساتھ والی پیلی میں سہاگہ پھیر دینا اور۔۔۔
حد ہو گئی بابا، اُدھر ماں ہے کہ چھنّے میں چھاچھ ڈالے سو پھیرے ڈال چکی ہے دروازے تک۔ آنکھوں پر ہاتھ کی چھاؤں کر کے بار بار ٹٹولتی ہے راستے کو۔ اور ادھر آپ ابھی تک اپنے دھندے میں پھنسے ہوے ہیں۔
اوہ، ابھی جاتا ہوں بیٹا
مگر تمہارے کندھے پر یہ بیگ؟
میں شہر جا رہا ہوں بابا۔ ماں کہتی تھی بابا کے ساتھ کھانا کھا کے شہر جانا لیکن مجھے پتا تھا آپ اپنی زمینوں اور بیلوں میں الجھے ہوے ہوں گے، اس لیے کھانا کھا کے آیا ہوں۔ اور اب اِدھر سے ہی سیدھا شہر جا رہا ہوں۔
مگر بیٹے ؟
اچھا میں چلا۔
خدا حافظ، مگر بات تو سن لیتے ؟
تم پر اُٹھتی جوانی ہے۔ برسات میں سیلاب کے پانی اور اُٹھتی جوانی کے پاس ٹھہراؤ کہاں ؟ تم تو میرے ساوے سے بھی زیادہ اَتھرے ہو۔
ٹھہر جاتے تو میرے سینے پر تمہاری ماں کے ساتھ کیے گئے وعدے کا ایک بوجھ تھا، اُتار دیتا۔۔۔ مگر تم تو جا بھی چکے۔
سرکار۔
ہونہہ؟
مَاشاء اللہ اکلوتی اولاد ہے آپ کی۔ لائق ہے۔ ولایت سے بھی آیا ہے پڑھ کے۔ سات کلے لگا دیے آپ نے اس کی پڑھائی پر۔ اور اب سنا ہے افسری بھی مل گئی ہے چھوٹے سرکار کو۔ جب دفتر جانے لگیں گے تو خوب ٹھاٹھ ہوں گے۔ بنگلہ، گاڑی، نوکر چاکر اور پنڈ جتنے لوگ حکم کے پابند۔ پھر کیوں دُکھی ہو جاتے ہیں آپ چھوٹے سرکار کو دیکھ کر؟ خُوش ہوا کریں جی خُوش۔
خُوش کون نہیں ہونا چاہتا پگلے ؟ لیکن خُوشی کوئی چولا تو نہیں ہوتا نا، جب چاہا پہن لیا۔ یہ تو بس اندر سے پھوٹے تو پھوٹے۔ اور میرے اندر کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ کوئی گھپلا ہو گیا ہے کہیں۔ تار ڈھیلے ہوں تو لاکھ مشاق اُنگلیاں مہمیز کریں، من بھایا سُر نہیں چھڑتا۔
مگر سرکار، آپ کو کا ہے کا غم؟ آپ سب کے لیے اچھا سوچتے ہیں، اس لیے سب ہی آپ کے لیے اچھا سوچتے ہیں۔ دانہ کپڑا چوکھا۔ سونا اگلتی زمین۔ اور سوہنے بیلوں کی چھ جوڑیاں۔ اپنا گھر۔ اور گھرہستن ایسی کہ سرکار پر واری واری۔ گھبرو پُتّر۔ وہ بھی چنگا بھلا لکھا پڑھا۔
اور پھر ایسا افسر لگنے والا کہ پنڈ جتنے لوکی اِشارے کے منتظر۔
تم شاید ٹھیک کہتے ہو۔ اصولاً مجھے کوئی دُکھ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن میں نے کہا نا، کوئی نہ کوئی تار ڈھیلا ہے۔ اور جب میرا بیٹا سامنے آتا ہے تب تو یہ احساس کچھ اور گہرا ہو
جاتا ہے۔
نہ سوچا کریں ایسا سرکار۔ نئی نسل تھوڑی سی بے فکری ضرور ہے مگر ہے بہت با سمجھ، عقل والی۔ بڑے بڑے فیصلے کرنے والی۔
ایسے فیصلے جو حیرت کی خیرات بانٹتے ہیں۔
اسی بات کا خوف ہے نا، اسی بات کا۔ آج تک اُس نے مجھے موقع نہ دیا کہ میں
یہ جان سکوں، اس کے دل میں کیا ہے ؟ نہ اس نے کوشش کی، مجھے اندر سے ٹٹول سکے۔ وہ بند مٹھی کی طرح ہے اور میں بند کمرے کی طرح۔ وہ کسی آن کھلتا ہی نہیں اور میرا در کوئی کھولتا ہی نہیں۔ بگولے کی طرح آتا ہے میرے سامنے۔۔۔ اور۔۔۔ پھر یہ جا وہ جا۔ میں تو لفظوں کو تولتا ہی رہ جاتا ہوں یوں ہی بس۔
نہ سوچیں سرکار۔ دل چھوٹا مت کریں۔ سب وہم ہے جی سب وہم۔
اللہ کرے ایسا ہو۔ اچھا میں چلا۔ ذرا دھیان سے رہنا، تگڑے ہو کر۔ کالے تھم والے کی پیٹھ مل دینا اور تیل دے دینا چکلی جوڑے کو، گھیں گھیں کر رہی ہے کب سے۔ لے میں چلا۔ ہوشیار ہو جا۔
لے آ نیک بختے لسی روٹی۔
آ گئے ؟ کتنی دیر لگا دی۔ کب سے دیکھ رہی ہوں راہ۔ اور۔۔۔ ر۔۔۔ بات کی بیٹے سے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے چپ کیوں ہو؟ بولو تو۔ مگر تم کیوں کرو گے بات۔ تمہیں کا ہے کی فکر؟ دیواروں سے باتیں کر کے میں باؤلی ہو رہی ہوں تو تمہیں کیا؟ میرا دل کرتا ہے، اس آنگن میں بہو آئے۔ میرے پاس بیٹھے۔ میرے سر میں تیل ڈالے، کنگھی کرے اور میٹھی باتوں کا مرہم رکھے۔ صحن میں بچوں کی کلکاریاں گونجیں۔ وہ دوڑیں، چیخیں، شور مچائیں، شرارتیں کریں۔ میں اُنہیں روکوں، جھڑکوں، پیار کروں، دلاسے دوں۔ مگر تم؟ تم تو درجن بھر بیلوں کے ساتھ خُوش ہو۔ جی گھبراتا ہے تو بیل ہانک کر کبھی اس پنڈ اور کبھی اُس پنڈ۔ کہ روز بیلوں کے جلسے اور میلے ہوتے ہیں چاروں طرف۔ مقابلے میں بھاگتے بیلوں میں تمہاری خُوشی چھپی ہوئی ہے۔ اور جو میں چاہتی ہوں تم احساس کی اس سطح کو چھونا بھی نہیں چاہتے۔
چپ ہو جا نیک بخت۔ چپ ہو جا۔
جب پورے پندرہ ورہے گزر گئے تھے ہماری شادی کو۔ اور میرے کوکھ بنجر زمین کی طرح بے آباد تھی۔ تم بات بات پر جھنجھنا اٹھتے تھے۔ تب بھی میں چپ تھی۔ پھر جب اُمید بندھی تھی تو ایک سرشاری سی میرے پہلو میں سرسرائی تھی۔ جیون کی لذّت کا ایسا بھرا ہوا چھنّا میں نے پہلے نہ پیا تھا۔ وقت کو جیسے کونج کے پر لگ گئے تھے۔ جب وہ شہر پڑھنے گیا تھا تو مجھے لگا تھا، میرے ہاتھوں سے جیون کا لذّت بھرا چھنّا پھسل گیا ہے۔پھر وہ وہاں سے ولایت گیا پڑھنے کو۔ اور جب واپس آیا تو خبر سنائی کہ شہر میں اچھی نوکری مل گئی ہے۔ انتظار کے تتے توے پر میری ایک ایک بوٹی دھری ہوئی ہے۔ کی ہوتی نا۔۔۔ بات اس سے۔
چپ کر نیک بختے، چپ کر۔ اپنا من نہ کھول۔ آنے والے وقت کی چاپ سن۔
مگر حرج کیا ہے بات کرنے میں ؟ اس سے پہلے کہ وہ شہر کے دھندوں میں ایسے پھنس جائے جیسے تم اپنے بیلوں میں پھنسے ہوے ہو، میرے پاس میرے بہو چھوڑ جائے۔ میں اس میں اس کی مہک تلاش کروں گی۔
دیکھ آس کا دامن اتنا مت پھیلا۔ خواہش کی ڈور اتنی دراز نہ کر۔ ٹوٹی آس اور ڈوبی خواہش پر رونا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ مٹی کی باس جس کے قدم نہ تھامے، تیرے میرے لہو کی خُوشبو جس کے نتھنوں میں گھسے، مگر چہرہ کھڈی پر چڑھی کھدر کی طرح تنا رہے۔ جو کچی دیواروں کے سائے میں ٹک کر نہ بیٹھ سکے اور پکے بنگلوں، لمبی لمبی گاڑیوں کے سپنوں میں ایسا گم ہو جائے کہ اسے ماں باپ کے من کی پوٹ کھولنے کا خیال تک نہ رہے، اس کے کھونٹے سے امید کا بیل مت باندھ۔
ہاں تم سچ کہتے ہو۔ پر۔۔۔ پر اپنا من تو نہ مانے نا۔ من کا علاج کر۔ لے آ۔
ہاں لے آ بہو۔
اچھا پھر آ لینے دے اسے۔
ٍ
::::
رئیلی میں نے بہت مس کیا ہے تمہیں۔
):(
مگر میں نے سنا تھا تمہاری اس سے خوب نبھ رہی ہے۔ ارے بھئی کیا نام تھا اس کا؟
و۔۔۔ وہی، جو پہلو والی نشست پر بیٹھا کرتا تھا کلاس روم میں۔ وہی جو تمہارے گریئش روزی گالوں اور ٹرمنڈ بالوں کی جا بے جا تعریف کیا کرتا تھا۔
اور۔۔۔
::::
ایک دم باسٹرڈ ہے۔ ال مینرڈ مین۔ میری اس سے ویڈ بھی ہو گئی تھی۔ مگر مجھے بعد میں ایکسپلور ہوا کہ آدمی اپنے سٹریٹنڈ آرب سے نہ نکلے گا۔ وہ مجھے ویڈ ڈ بلیس نہ دے سکتا تھا۔ چناں چہ مزری سے بچنے کے لیے ڈسیئن لے لیا ڈائیو ورس کا میں نے اس سے۔ فولش کہتا تھا، مجھے نور کے دائرے سے مت نکالو، سکھ کا پھول چیٹنگ، ڈیسپشن اور چالاکی کے تپتے صحرا میں نہیں اُگ سکتا۔ لو سپرٹیڈ۔ ڈرپوک۔ سلی۔
):(
لیکن شاید میں۔ میں بھی اسی جتنا ڈرپوک ہوں۔
::::
اوہ نو تم۔ تم تو رئیلی اُس سٹوپیڈ سے بالکل ڈفرنٹ ہو۔ میں تم میں حوصلے کی خُوشبو سمیل کر رہی ہوں۔ اور پھر تمہیں جس اَٹریکٹو جاب کی اَپرچونٹی ملی ہے اس میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی تمہاراسٹیٹس اُس سے کہیں بلند ہو گیا ہے۔
):(
::::
کب لی ڈائیو ورس تم نے اس سے ؟
کل صبح ہی۔ جب مجھے تمہارا پیغام ملا کہ تم مجھے ملنے آؤ گے اور یہ بھی کہ تمہیں کال لیٹر چاری ہو چکا ہے اس کی پوسٹ کا۔ تب میں نے فیصلہ کیا وہ باسٹرڈ میرے قابل ):(نہیں ہے۔ میرا ساتھی تو تمہیں ہونا چاہیے۔
مگر؟
::::
مگر وگر کچھ نہیں۔ آئی لو یو ڈارلنگ۔
):(
میں بھی تم سے لَو کرتا تھا۔ اور شاید اب بھی کرتا ہوں۔ مگر میں سب کچھ اس امید پر کرتا رہا کہ تم میری منتظر ہو گی۔ لیکن۔۔۔
::::
اوہ ڈونٹ بی سلی۔ میں تمہاری منتظر ہوں۔ ایک غلط ڈسیئن ہوا تھا مجھ سے، محض یہ جان کر کہ تم بہت دور جا رہے ہو، ایسا نہ ہو کہ پھسل جاؤ، اور میں راہ دیکھتی رہوں۔ بہ ہر حال میں نے تلافی کر دی ہے۔ آؤ کلب چلیں، وہیں باتیں کریں گے باقی۔ چلو بھی نا۔ لٹ اَس مو و۔
):(
چلو۔
سن رہے ہیں آپ؟۔۔۔ کیا کہہ رہا ہے یہ۔
میں تو یہ سننے کے لیے بہت پہلے سے تیار تھا۔
):(
آپ دونوں حیران کس بات پر ہو رہے ہیں ؟ آپ دونوں بھی آ جانا۔ شریک ہو جانا نکاح میں۔ اور ولیمہ لنچ میں بھی۔ اسی ماہ کی پچیس کو ہے۔ کل فرسٹ ہے اور مجھے لازماً آفس جوائن کرنا ہے۔ کوٹھی بھی مل رہی ہے مجھے وہیں۔ پھر شاید نہ آ سکوں یہاں۔ پتا بھجوا دوں گا۔ ہم تو ادھر ہی رہیں گے دونوں۔ آپ بھی کبھی کبھی آ جایا کیجیے گا۔ کچھ ماحول بدل جایا کرے گا۔ اچھا میں چلا۔ میرے کچھ کاغذات رہ گئے تھے یہاں، وہ لینے آیا تھا۔
سرکار۔ چھوٹے سرکار کو روکیے نا۔
جانے دے۔۔۔ جانے دے اسے۔
بی بی جی آپ ہی روک لیں نا، چھوٹے سرکار کو۔
ٹھہر جاؤ نا بیٹا۔ مجھے ذرا سکون سے بتاؤ تو میری بہو کیسی ہے ؟
):(
مجھے جلدی ہے ماں۔ بابا کے ساتھ جب شادی والے دن آؤ گی تب دیکھ لینا۔ اچھا میں چلا۔
ٍ
موت کا بوسہ
جب اُس کا جنازہ اُٹھا تو شور و شیون نے دل کو برچھی بن کر چھید ڈالا تھا۔
مرنے والے مر جاتے ہیں۔۔۔ دنیا سے منھ پھیر تے ہی اس شور قیامت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، جو اُن کے پیاروں کی چھاتیاں ٹوٹ کر اِدھر اُدھر ڈھیر کر دیتی ہیں۔
بیٹے، بیٹیاں، بیوہ، بھائی بہنیں، عزیز و اقارب، دوست احباب۔۔۔ جو جتنا قریب ہوتا ہے اُس کا سینہ اتنی ہی شدت سے ٹوٹتا ہے اور تڑاخ کی آواز چیخ بن کر اُتنے ہی آسمانوں کو چھوتی ہے۔
مسلم ٹاؤن کی گلی نمبر پانچ سے جب اُس کا جنازہ اُٹھا تھا تو رونے والوں کی چیخیں میرے سینے میں برچھی کی طرح اُتری تھیں۔
اور جب اُس کا جنازہ کندھوں پر اُٹھا کر گلی سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ زندگی اور موت کو کیوں کر سمجھا جا سکتا تھا؟
سارتر جب بچہ تھا اُسے مادام پکارڈ نے چمڑے کی جلد والی ایک ایسی کتاب دی تھی جِس کے اوراق کے کنارے سنہرے تھے۔
میں مرنے والے کے بہت زیادہ قریب نہیں رہا(ویسے بھی کوئی کسی کے بہت زیادہ قریب ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے ؟)تاہم اتنا فاصلہ بھی نہیں تھا کہ میں اس کی شخصیت کی آنچ کو محسوس نہ کر سکتا۔ میری اُس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔۔۔ وہ سب ملاقاتیں اور ان میں ہونے والی باتیں مجھے یاد ہیں۔ مگر اِن یادوں اور باتوں میں گردے کا عارضہ کہیں نہیں تھا۔ اُس کے دل کی خستگی بھی مجھ پر نہ کھُلی تھی اور میں اس تھائی راڈ کے بارے میں جان نہ پایا تھا جو ہزار میں سے ایک مریض کے ہاں باہر سے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ سے اُس کے بیمار رہنے کی خبریں آنے لگی تھیں، مگر میرے سامنے ہمیشہ ایک مضبوط دل والا شخص ہی رہا۔ ایسا شخص جو کچھ بھی نہ تھا اور اپنی ہمت سے بہت کچھ بن گیا تھا۔
میں اُسے ایسی کتاب کی طرح سمجھتا رہا جس کی جلد سرخ چرم سے بنائی گئی تھی اور جس کے صفحات کے کنارے سنہرے تھے۔۔۔ اِتنے سنہرے کہ سارے میں روشنی سی کھنڈنے لگتی تھی اور مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ وہ تو زندگی کی کتاب کھول چکا تھا۔۔۔ اور اُس میں موجود سوالات کا سامنا کر رہا تھا۔
یہ تو مجھے تب پتہ چلا جب میں نے یونہی اپنے دوست علی کے گھر فون کیا اور بھابی سے اس موت کی خبر ملی جس کا میں تذکرہ کر رہا ہوں۔۔۔ سُرخ کتاب کے خُونی سوالات میرے سامنے تھے۔ہر موت پہلے پہل بوکھلا دیا کرتی ہے۔ اُس کی موت نے بھی ایسا ہی کیا۔ مجھے یقین نہ آ رہا تھا مگر ایسا ہو چکا تھا۔
سارتر کا کہنا تھا کہ وہ نو عمری ہی میں کتابیں پڑھنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اُس کی ماں کو یہ بات بہت کًھلتی تھی، مگر مادام پکارڈ کا خیال تھا، اگر کتاب اچھی ہو تو اُس کا پڑھنا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ اِس حوصلہ افزائی سے سارتر نے ہمت پا کر ’’مادام بواری‘‘ پڑھنے کی اِجازت مانگ لی تھی۔ اس کی ماں نے سنا تو پریشان ہو اُٹھی، کہا:
’’اگر میرا بیٹا اس عمر ہی میں اِس نوع کی کتابیں پڑھنے لگا تو بڑا ہو کر کیا کرے گا‘‘
سارتر نے معصومیت سے جواب دیا تھا:
’’ وہی جو اِن کتابوں میں لکھا ہوتا ہے۔۔۔‘‘
اور کیا، آدمی وہی نہیں کرتا جو اس کے مقدّر میں لکھا ہوتا ہے ؟
مگر یہ جو کتابوں میں آدمی مقدور بھر لکھتا ہے، کیا کوئی عین مین وہی کر پاتا ہے۔۔۔ ؟
شاید نہیں۔۔۔ لکھنے والا، نہ پڑھنے والا۔۔۔ کہ دونوں کے لیے نارسائی گھات لگائے بیٹھی رہتی ہے۔
مرنے والا بے شک کتاب اور قلم سے وابستہ رہا مگر زندگی اس کے لیے کبھی ویسی نہ رہی تھی جیسی کہ اس نے پڑھی۔۔۔ اور نہ ہی ویسی، جیسی کہ تخلیقی لمحوں کی عطا کے سبب اس نے لکھ دی۔ ایک لکھنے والا جب اِنتہائی اِعتماد سے (یا پھر کمال معصومیت سے ) لامکاں سے پرے رسائی کی بات کر رہا ہو تا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ نارسائی ہی نے اُس کا مقدّر ہونا ہے۔(شاید وہ ایسا جاننا ہی نہیں چاہتا )۔۔۔ وہی نارسائی جو مرنے والے جیسے ہرسیلف میڈ آدمی کی ذات سے ہونی شُدنی کی طرح بندھ جاتی ہے۔
میں بتا آیا ہوں کہ جب تک وہ زندہ رہا کتاب سے وابستہ رہا۔۔۔ اور اب مجھے صاف صاف بتانا ہے کہ وہ کتاب سے زندگی کی لذّت کشید کرتا تھا۔ جو کتاب سے یوں وابستہ ہو جاتا ہے اُس کی لیے زندگی ذرا سی مختلف اور کچھ کچھ حوصلہ افزا ہو جاتی ہے۔ لفظ تھوڑی سی جرأت اور کچھ خوف کے ساتھ ساتھ چپکے سے فرار کا راستہ بھی سجھا دیتا ہے۔ آپ کتاب پڑھ رہے ہوں یا لفظوں کو اپنے لہو سے غسل دے کر ایک متن تخلیق کر رہے ہوں۔۔۔ تو۔۔۔ جہاں آپ بہادر ہوتے ہیں عین اُسی لمحے میں بزدل بھی ہوتے ہیں۔لفظوں کو ڈھال، تلوار اور پناہ گاہ بنانے والے بہادر بزدل۔۔۔ یہ کیفیت ایک لکھنے ولے کو مختلف بھی بنا دیتی ہے۔
سارتر ابھی پڑھنے کے لطف کا اسیر ہوا تھا، لکھتا نہ تھا۔۔۔ مگر طرفہ یہ ہے کہ پڑھنے کے سبب ہی مختلف ہو گیا تھا۔۔۔ مختلف بھی اور عجیب و غریب بھی۔۔۔ بہادر بھی، بزدل بھی۔ جب اس نے معصومیت سے تڑاق پڑاق کہہ دیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر وہی کرے گا جو کتاب میں لکھا ہوا ہے تو مادام پکارڈ کا یوں لذّت لینا اچھا لگتا تھا۔۔۔
ایک لکھنے والا جب لکھتا ہے، تو فورا ہی لکھنے نہیں بیٹھ جاتا پہلے وہ حیرت سے زمانے کو دیکھتا ہے۔۔۔ اِتنی حیرت سے کہ وہ سنسنی بن کر اُس کے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔۔۔ تب کہیں اُس کے لفظوں کو زمانہ حیرت سے دیکھتا ہے، یوں جیسے مادام پکارڈ نے ننھے سارتر کو دیکھا تھا۔ زندگی کا ماحصل لکھنا ہو تو لکھنا مشغلہ نہیں رہتا زندگی بن جاتا ہے۔۔۔ اور یہی مرنے والے کی زندگی تھی جس نے اُسے مختلف کر دیا تھا۔
سارتر کی ماں کو مادام پکارڈ کا یوں لذّت لے کر سارتر کے معصوم جملے دہرانا اچھا نہ لگتا تھا۔ وہ کہتی تھی:
’’ تم اس لڑکے کو بگاڑ دو گی۔‘‘
جب کہ سارتر خود مادام پکارڈ کی لذّت سے لطف کشید کرتا تھا۔۔۔ اِتنا کہ اُسے وہ موٹی، بھدی، بوڑھی اور بے ڈھب عورت اپنے چہرے کی زردی کے ساتھ نہ دکھتی تھی۔۔۔ وہ عین وسط سے اُسے دیکھتا تھا اور اُسے ایک سکرٹ نیچے قدموں میں ڈھیر ہوتا نظر آتا تھا۔۔۔ پھر وہ دیکھتا تھا۔۔۔ دیکھنے جیسا دیکھتا۔۔۔ اور دیکھتا ہی رہتا تھا۔
میں نے سارتر کی یہ دلچسپ کہانی پڑھی تو یوں لگا کہ جیسے زندگی مادام پکارڈ کی طرح ہے۔۔۔ موٹی، بھدی، زرد رو۔۔۔ جس میں مادام بواری کی سطروں جیسی لذّت ہے۔۔۔ ایسی لذّت کہ جس کے سبب اس کا بھدا پن، زردی اور بدصورتی اس کے جامے سمیت اُس کے قدموں میں ڈھیر پڑی ہے۔
اِس زندگی کے ہاتھ میں وہ کتاب ہے جس کی جلد سُرخ اور جس کے کنارے سنہرے ہیں۔
اور جس میں سوال ہی سوال ہیں۔
ایسے سوال، کہ جن کا کوئی حتمی جواب نہیں ہوتا۔۔۔ بس ایک گماں کا ہیولا اُٹھتا ہے اور ہمیں اس پر جواب کا التباس ہونے لگتا ہے۔
جب تک معصومیت مادام پکارڈ کے بھرے بھرے کولہوں کی لذّت سے جدا ہو کر زندگی کی سُرخ کتاب کھولتی ہے، تب تک اس کے سوالات دہشت اور خوف قطرہ قطرہ دل میں اُنڈیل چکے ہوتے ہیں۔
مجھے یا د ہے، میں نے اُس کے مرنے کی خبر سنی تھی تو شدید دُکھ نے فوری طور پر مجھے گرفت میں نہ لیا تھا۔ ایسی گرفت میں کہ جس میں دُکھ خنجر کی طرح پوست کاٹتا ہے، گوشت چھیدتا سیدھا دل کو چھوتا ہے، اپنی تیز نوک سے۔ تاہم مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب اس کی نعش مسلم ٹاؤن کی ایک تنگ سی گلی سے چیخوں کے بیچ اُٹھائی گئی تھی تو دُکھ کا یہی خنجر میرے دل کے پار ہو گیا تھا۔۔۔ جب کُری روڈ کے قبرستان کے باہر اُس کی نماز جنازہ پڑھائی جا چکی اور لوگ قطار بنا کر اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے تو میں ہک دک پار کھڑا یہ محسوس کر رہا تھا کہ موت کا چہرہ دیکھنے والے کیسے بالکل مختلف ہو جاتے تھے۔ جب وہ قطار کے اِس طرف ہوتے تھے تو اُن کے چہروں پر اِشتیاق اور تجسس ہوتا تھا، مگر جب وہ نعش کی دوسری طرف اُترتے تھے تو تھوڑی سی موت کی زردی بھی اُن کے چہروں پر ملی ہوئی ہوتی تھی۔
تو کیا زندگی کا انجام یہی موت کی زردی ہے ؟
موت کو منہا کر دیں تو دم بہ دم بدلتی کائنات میں زندگی ہمیں کتنی دل کش دکھنے لگتی ہے مگر موت اور فنا کے اس کریہہ چہرے کے ساتھ۔۔۔ اُف، نہ صرف یہ زندگی بل کہ پوری کائنات کا وجود بھی اِعتبار کھونے لگتا ہے۔
زندگی کی حقیقت جاننے کے جتن کرنے والے کچھ لوگ پہلے پہل کائنات کو ٹھہرا ہوا، اور جامد قرار دیتے رہے مگر بہت جلد مردود ٹھہرے کہ بگ بینگ کے نظریے نے جامد کائنات والی جامد فکر کے پڑخچے اُڑا دیے تھے۔۔۔ یہ جو ایک عظیم دھماکے سے دنیا بنی ہے، قطرہ قطرہ اور خلیہ خلیہ بکھر رہی ہے۔ ہم جُرعہ جُرعہ موت سے مانوس ہو چکے ہیں۔
مسلم ٹاؤن کی گلی نمبر پانچ میں جب چیخیں اُٹھی تھیں تو مجھے لگا تھا جیسے اس کا مرنا اس کے پیاروں کے لیے بگ بینگ جیسا تھا۔۔۔ اور۔۔۔ ذرا سا فاصلے سے نظارہ کرنے والوں کے لیے کائنات کے فلک سے محض ایک ستارہ ٹوٹنے کا نظارہ۔۔۔ جو ٹوٹتا ہے، توجہ حاصل کرتا ہے اور گم ہو جاتا ہے۔۔۔ اور پھر یہ زندگی لشٹم پشٹم آگے بڑھنے لگتی ہے۔
ہم سب قطار میں تھے، علی، اصغر، سعید اور کئی دوسرے۔۔۔ جنہیں میں جانتا تھا وہ بھی۔۔۔ اور جنہیں میں نہیں جانتا تھا وہ بھی۔ کچھ قطار میں مجھ سے آگے، کچھ پیچھے۔ قیوم اِس قطار میں نہ تھا، کہ وہ سمجھتا تھا، دوستوں کا صرف زندہ چہرہ ہی دیکھنا چاہیے۔ جب موت بدن بیچ دندناتی پھرتی ہو، تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی قطار سے باہر رہ جائے ؟
سب کو اسی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔۔۔ بس یوں ہے کہ کوئی سوال کے ساتھ آتا ہے اور کوئی اِستعجاب کے ساتھ۔
’’دُکھ تو یہ ہے کہ اس کے سب بچے ابھی چھوٹے ہیں‘‘
ایک آواز سرسراتی ہے۔۔۔ میں پورا دھیان اس آواز پر لگا دیتا ہوں۔
’’اور جو کچھ اس کے پاس تھا اُسی کی بیماری پر اُٹھ گیا ہے۔۔۔‘‘
دوسری آواز اتنی ہی تلخ حقیقت میری سماعتوں میں اُنڈیلتی ہے۔
سارتر کو جب مادام پکارڈ کی سرخ کتاب تحفہ میں ملی تھی اور اُس نے اُسے اپنے نا نا کی میز پر رکھ کر کھول لیا تھا تو بہت مایوس ہوا تھا کہ کتاب میں زندگی کا اِستعجاب نہ تھا، بس سوال ہی سوال تھے۔
جنگ کے بعد کا زمانہ تھا۔ سارتر اور اُس کی ماں اس قدر قریب تھے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہم سِن سمجھنے لگے تھے۔ ماں تو اپنے بچے کو کبھی کبھی اپنا محافظ، سردار، اور کبھی ننھا عاشق کہہ کر پکارتی۔۔۔ مگر کچھ اور بھی تھا جو دونوں کے بیچ ٹھہر سا گیا تھا۔۔۔ شاید موت۔۔۔ ہاں وہی موت جو زندہ بدنوں میں اُنڈیل دی جاتی ہے۔
جب سارتر کی ماں جوان تھی تو حسن اُس پر ٹوٹ کر برسا تھا۔۔۔ سرو قد ایسی کہ سب سے پہلے اسی پر نظر ٹھہرتی تھی۔۔۔ نظر ٹھہرتی کہاں تھی اُس کی شفاف جلد پر پھسلتی رہتی۔ ایک چالیس سالہ بیمار مرد نے اُسے دیکھا تو اُس کا بوسیدہ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ یوں کہ اُس نے آگے بڑھ کر اُسے پا لیا، شادی کر لی اور خوب خوب تیمار داری کرائی۔ پھر ایک بچہ اُس کی گود میں ڈالا اور مر گیا۔ سارتر نے موت کو یوں دیکھا تھا، لہذا جب سنہرے کناروں والی سرخ کتاب کھول کر نانا کی میز پر بیٹھا اور یہ سوال پڑھا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو اُس نے لکھا تھا:
’’ ایک سپاہی بن کر مرنے والوں کا بدلہ لینا‘‘
میں رفتہ رفتہ قطار میں آگے بڑھتا رہا۔۔۔ حتّیٰ کہ وہاں پہنچ گیا جہاں اُس کا چہرہ موت کا بوسہ لے کر ساکت پڑا تھا۔ ایک سیلف میڈ مرا ہوا آدمی۔ ایک ساکت نعش۔ موت کے ہاتھوں بُری طرح نچڑا ہوا جسم۔
میں نے پلٹ کر انہیں دیکھا جو اُس کے پیچھے رہ گئے تھے اور جن کے سامنے مرنے والے کا سارا سفر کالعدم پڑا تھا۔ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔
موت کے بوسے کی زردی سارے میں کھنڈ گئی تھی۔
میں نے چٹکی بھر زردی وہاں سے اچک لی، جہاں سے وہ پھوٹ رہی تھی اور چپکے سے اپنے چہرے پر مل کر سوچا، یوں بھی تو موت سے بدلہ لیا جا سکتا تھا۔ مگر حادثہ یہ ہوا ہے کہ مرنے والے نے میرا بدن پہن کر موت کا جامہ میری طرف اُچھال دیا ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ جامہ میرے بدن پر خوب چست بیٹھا ہے۔ میں اس میں خُوش ہوں اور اسے پہن کر ایسی سرخ کتاب کھول چکا ہوں جس کے کنارے بلا شبہ سنہرے سہی مگر اس میں زندگی کا ایک بھی اِستعجاب نہیں ہے اگر ہیں تو بس سوال ہی سوال ہیں۔ ٍ
***
ماخذ:
http://hameedshahid.com
مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
تدوین اور ای بک: اعجاز عبید
[…] Read this book online […]