آسمان چُپ رہا
سلمی اعوان
بغداد جل رہا ہے جدّی۔ اس کے گلی کوچوں میں امریکی ٹینک توپیں ہلکائے کتوں کی طرح بھاگی پھرتی ہیں۔ پَل پَل اُڑتے ہیلی کاپٹر گردو غبار کے طوفان اُڑاتے اس کے چہرے کو دھُواں دھُواں کیے دے رہے ہیں۔ اعظمیہ کے خستہ حال گھر اپنے مکینوں کے ساتھ زمین بوس ہو گئے ہیں،بے گورو کفن لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں۔ المامون کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے معصوم بچوں نے کہیں اپنی کھڑکیوں، اپنی بالکونیوں سے جھانکا تو گولیوں نے اُنہیں بھُون دیا۔ پانی نہیں ہے۔ جدّی آپ کا اور میرا بغداد کربلا بن گیا ہے۔ ‘‘
یہ اُنیس سالہ عبیر تھی۔ اپنے نام کی معنوی عکاس۔ آنکھیں جیسے دُکھ کے گہرے جذبات سے لدی پھندی مگر لہجے میں اندرونی کرب کا وہ رچاؤ جہاں شدت ایک عجیب اور بے نیاز سے احساس کی نمائندہ ہو جاتی ہے۔ عقب میں کھڑی پینتیس چھتیس سالہ دلکش خاتون نے سکارف سر سے اُتارتے ہوئے چھ فٹ دو انچ کی کرمان کے کھجور کے درخت جیسی قامت والے سُرخ و سفید بوڑھے کو، جس کی گھنی مونچھوں میں اُس کا بالائی ہونٹ چھپ سا گیا تھا، دیکھا اور قدرے غصے، ملال اور قدرے سرزنش گھُلے لہجے میں بولی تھی
’’کیل کی طرح گڑی بیٹھی تھی کہ بغداد سے نہیں جانا۔ جیسے یہ اگر نکلی تو فصیلِ شہر گر جائے گی اور بغداد ڈھے جائے گا۔ ایک حالات کی نزاکت اوپر سے اِس کا پاگل پن۔ المنصور آرتھو پیڈک اسپتال جانے اور وہاں کام کرنے کی رَٹ۔ باپ کی جان سولی پر چڑھی ہوئی۔ یہ اُن کی ہر بات ہر خدشے کو گاجر مولی کی طرح کاٹے۔ سٹڈی سرکل میں پڑھنے والی عورتوں پر سیخ پا کہ انہیں ایسے وقت میں گھر سے نکلنا چاہیے۔ ہمیشہ آپ کی بات سُننے اور ماننے والی اب آپ کی حُکم عدولی پر بھی تلی ہوئی۔ ‘‘
جدّی میں نے تو گھر سے قدم بھی نہیں نکالا اور بغداد پھر بھی ڈھے گیا۔ ‘‘
بوڑھے عراقی کی آنکھوں میں نمی تیری۔ اُس نے دو قدم آگے بڑھ کر پوتی کو بانہوں کے دائروں میں سمیٹ لیا۔ اُس کے سکارف سے ڈھنپے سر پر ہونٹ رکھتے ہوئے وہ بولا تھا
اپنی اولاد کے بچوں میں سے کِسی کو تو مجھ پر جانا ہی تھا نا۔ پھر وہ سب وہیں ایک دوسرے کے پاس بیٹھ گئے یوں جیسے کِسی میت کی رُخصتی سے فارغ ہوئے ہوں۔ حویلی کے زمانوں پرانے خدّام بھی دلگیر سے اِس مشترکہ دُکھ میں شرکت کے لیے پاس آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک نے قہوے کی ٹرے تپائی پر رکھی۔ قہوہ پینے کے دوران اس نے سنا کہ دادا کہہ رہے تھے: عراقی بڑے ہی بد قسمت۔ انہیں تُرکوں نے منہ نہ لگایا، بس اپنے حلوے مانڈے سے تعلق رکھا۔ ان کے خزانوں میں ٹیکس جمع ہوتا رہے، رہے عراقی وہ جائیں جہنم میں۔ ہماری سادگی اور جاہلیت سے برطانیہ نے موجیں ماریں۔ انہوں نے اپنا اُلو سیدھا رکھا اور ہمیں بھاڑ میں جھونکا۔ عرب قوم پرستی بھی نری دھوکا نکلی۔ کیمونسٹوں نے بڑے سبز باغ دکھائے۔ غریب اور ماٹھے لوگ ان کے خوش کن نعروں کی طرف بھاگے اور منہ کے بل گرے۔ موصل،کرکوک اور بصرہ خون میں نہایا تو جانے کہ یہ سب تو بس شور شرابا ہی ہے۔ جمہوریت کے لیے کتنے پاپڑ بیلے،تو کہیں بس جھلک ہی نصیب ہوئی، پھر یہ احمق آمر ہڈیوں جوڑوں میں بیٹھ گیا۔
اور اب بڑی درد ناک، بڑی شکست خوردہ سی ہنسی اُن کے لبوں پر آئی۔ 10 سال کی اقتصادی پابندیاں، عراقی قوم کے خوشحال، مضبوط سماجی ڈھانچے پر کاری ضرب،مغرب کی دل لگی اور تماشے۔
عراق کا سب سے بڑا دشمن تو اُس کا تیل۔ اب جنہیں نکال بیٹھے تھے وہ پھر آ گئے ہیں۔ فریڈم آف عراق کا جھنڈا لہراتے،تیل نکالنے اور غریب کو مارنے میں جو کسر باقی رہ گئی تھی،اُسے پوری کرنے۔ اُس کی چھوٹی بہن نباء اپنی ماں ولددہ کے ساتھ اندر چلی گئی تھی۔ بس وہ وہاں بیٹھی رہی۔ اِس تنہائی،سناٹے اور سکون میں ڈوبے ماحول میں جہاں بہر حال اُس قیامت کا گزر نہیں تھا جو بغداد، بصرہ،ناصریہ،کربلا اور نجف میں برپا تھی۔ اُس نے ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر جال سا بنایا اور اپنے سر کی پشت کو اس پر ٹکاتے ہوئے فضا کو دیکھا۔
٭٭
وہ منظر آنکھوں کے سامنے اُبھرا تھا۔ تین سال پہلے کا ایک منظر اور جگہ بھی یہی تھی۔ ایسے ہی دن تھے اور یہ بھی کیسا اتفاق تھا کہ وقت بھی کم و بیش یہی تھا۔ وہ منظروں کے حُسن میں پوری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔ شام کے حُسن میں سلوناپن تھا۔ سُورج دُور نظر آتے ٹیلوں سے ابھی خاصا اُوپر تھا اور دجلہ کے بہاؤ میں بہت دھیما پن تھا۔
عبیر بیٹھی تھی، اب کھڑی ہو گئی کہ سفید براّق مرغابیوں کی ایک ڈار اپنے پر پھڑپھڑاتے دھیرے دھیرے ایک ترتیب سے دجلے کے پانیوں پر اُتر رہی تھی۔
اُف۔ اُس نے بچوں جیسی معصوم کُلکاری بھری۔ کیسا حسین منظر۔ اُس کی آنکھوں میں منظر سے متعلق خوبصورتی ایک شعلے کی سی لپک والے احساس کے ساتھ باہر آئی تھی۔ چند لمحوں تک وہ اِس سے محظوظ ہوتی رہی۔
رُخ موڑا تو سامنے تا حّد نظر پھیلے گندم اور جَوکے کھیتوں کا پھیلاؤ تھا۔ ہریالی اور سنہرے پن کے گھُلے مِلے رنگوں کے عکس دلفریب تھے۔ اُس کے دادا کو سال کے بارہ مہینوں میں سب سے اچھے یہی مارچ اور اوائل اپریل کے دِن لگتے تھے۔ دادا کا ایساسمجھنا100 فیصد درست تھا کہ مئی جون میں تو دھرتی آگ اُگلنے لگ جاتی تھی۔ عبیر نے درختوں کے جھُنڈوں کو دیکھا اور ذرا دُور کھجور کے باغ پر بھی نظر ڈالی جن پر پھل ابھی چُنا مُنا سا تھا۔ ’’ہزاروں بار کے دیکھے اِن منظروں میں ہر دفعہ ہی کچھ نئی تازگی کچھ نیا حُسن محسوس ہوتا ہے۔ ‘‘اُس نے خود سے کہا تھا۔ ’’شاید نظروں کے زاویوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے یا درمیان میں تھوڑا سا وقت گزر جانے پر جب اعادہ ہوتا ہے تو انوکھی سی سرشاری کا احساس جاگتا ہے۔
وہ چھوٹے چھوٹے قد م اُٹھاتی وہاں آ گئی تھی جہاں گنجے سَر والا ایک بوڑھا کاہی رنگ کے ٹوپ میں ملبوس آنکھوں پر چشمہ لگائے حُقّہ پیتے کچھ پڑھتا تھا۔ عبیر دادا کے قریب آئی۔ حُقّے کی لمبی نال جو زمین پر بِکھر گئی تھی، سمیٹ کر تپائی پر رکھی اور دادا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’جدّی اتنی تمباکو پینا ٹھیک نہیں۔ میں دیکھ رہی ہوں آپ کے مُنہ سے پائپ نہیں چھُوٹتا۔ ‘‘ وہ ہنسا۔ ’’اب تم ان یاس بھرے دِنوں میں اِسے بھی مجھ سے چھین لینا چاہتی ہو۔ چلو نبیذ پر تمہاری پابندی میں نے مان لی ہے۔ ‘‘
عینک کے موٹے شیشوں سے دادا نے پوتی کو دیکھا تھا۔
سیاہ اور گلابی پھولوں والے لمبے سکرٹ،کندھوں پر جھُولتے گھنے سیاہ بالوں میں عبیر کا چہرہ جیسے چاند کی طرح دمکتا تھا۔ وہ میڈیکل کی ذہین ترین طلبہ السریتہ الثانیہ میں جب بھی آتی،دادا سے لمبی لمبی نشستوں کے دوران بحث مباحثوں میں ضرور اُلجھتی۔ عبیر،کِسی کو قہوے کے لیے کہنا تھا۔ ابھی تو ایک لفظ بھی اُس کے ہونٹوں سے نہیں نکلا تھا جب اُس مصطفیٰ البرزانی نے دبیز شیشوں کے پیچھے سے جھانکتی نگاہوں میں شریر سی مسکراہٹ سے اُسے دیکھا۔ اُن کے ہونٹوں پر ان الفاظ کی مِٹھاس تھی۔
’’جدّی یہ اتنا قہوہ پینا آپ کے لیے مضر ہے۔ ‘‘ ’’نہیں کہنا۔ ہرگز نہیں کہنا۔ ‘‘ عبیر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ کیسی ہنسی تھی۔ جیسے ساری فضا نغمہ بار ہو گئی ہو۔ بوڑھے نے اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھا تھا۔
انہیں نوکر کے ہاتھ قہوہ بھجوا کر اور اپنی ماں سے رات کے کھانے پر کیا مِلے گا، جیسے سوال پوچھتی ’’کچھ نہیں ‘‘ فلافل کا ڈنر ہو گا۔ کیوں ؟ بحث کرتی۔ سکینہ کی طبیعت ٹھیک نہیں،جیسے جواب سُنتی تھوڑی سی جزبز ہوتی پھر باہر آ گئی تھی۔ اندر تو اُس کا دل ہی نہیں لگتا تھا۔ جب وہ اپنے جدّی کے باغیچے میں آئی، اُن کے پاس کچھ لوگ تھے۔ پَل بھر کے لیے وہ ساکت کھڑی ہوئی۔ خود سے پوچھا اور سوال بھی کیا۔ جانے کون ہیں ؟ آگے جانا مناسب ہو گا یا نہیں۔ بالعموم اپنے دادا کے دوستوں سے وہ بے تکّلف تھی۔
اُسے رُکے دیکھ کر جدّی کی آواز اُن کے لہجے کی شگفتگی، اُس میں جھلکتی سرشاری جیسے اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔ ’’رُک کیوں گئی ہو؟آگے آؤ۔ دیکھو تو سہی آج کون آیا ہے؟‘‘ مہمانوں کی پُشت اس کی طرف تھی۔ دو چہرے اور چار آنکھیں۔ ایک بوڑھا دوسرا جوان۔ اپنی اپنی عمروں کے حساب سے دونوں دلکش۔ نظروں میں شوق و اشتیاق کی موجیں لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ بوڑھے نے آگے بڑھ کر اُسے بانہوں میں سمیٹا،اس کے رخسار پر بوسہ دیا،اُس کی آنکھوں میں جھانکا اور بولا’’ پہچانو تو بھلا میں کون ہوں ؟‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’میں تو پہچان گئی ہوں۔ امتحان تو آپ کا ہے۔ بتائیے ذرا میں کون ہوں ؟‘‘ مخاطب کا اونچا زور دار قہقہہ اُس خاموش فضا میں گونجا۔ ’’تو اگر پہچان جاؤں،کچھ انعام ونعام بھی ہو گا۔ ‘‘ پھر مسکراتے، اُس کی آنکھوں میں جھانکتے، قامت کو ذرا سی خمیدہ کرتے ہوئے بولے۔ ’’بھئی آپ ہماری بہت پیاری عبیر ہیں۔ ‘‘ جدّی کی آواز میں جو چہکار تھی،وہ تو بن بولے ہی بتائے دے رہی تھی۔ اُن کے پُرانے اور نئے البموں کے پلندوں میں شاید ہی کوئی تصویر اُن کے بغیر ہو۔ سرما کی راتوں میں فائل میں سنبھالے گئے پرانے اور نئے خطوط کو پڑھنا، نئی تصاویر میں انہیں دیکھنا۔ وہ بھلا اجنبی کب تھے ؟احمد بار زنجی،سلمانیہ کا سُنّی کُرد جو اس کے شیعہ دادا کا یار غار، جمہوریت کی جدوجہد میں اس کا پَل پَل کاساتھی،کٹر سوشلسٹ، خوبصورت اور انقلابی شاعر، صدام اور بعث پارٹی کے عتاب سے جانے بچ کیسے گیا؟مرنے میں کسر تو کوئی باقی نہ تھی،جیل سے بھاگ گیا تھا انگلینڈ۔
لڑکا پوتا اور پہلی بیوی سے تھا۔ ڈاکٹر تھا۔ بغداد میں ہی بڑا پَلا اور پڑھا۔ کوئی 7 سال سے امریکا میں مقیم تھا۔ پہلے سپیشلائزیشن کے سلسلے میں۔ اب Voices in the Wilderness اور دیگر کئی تنظیموں میں شامل ہو کر عراق پر عائد پابندیوں کے خلاف تحریکیں چلاتا،فنڈ اکٹھے کرتا،ادویات کی ممکن فراہمی یقینی بناتا اور غیر ملکیوں کو ہسپتالوں کے دورے کرواتا۔ ابھی وہ بصرہ سے آ رہا تھا۔ اُس نے بصرہ کے اسپتالوں کی خوفناک حالت زار، بچوں کی خطرناک بیماریوں جن میں سر فہرست سرطان، لیکیومیا،،ڈائریا،ہیپاٹائٹس اور اعضا کے ٹیڑھے پن کی خوفناک منظر کشی کی تھی۔ پھر ایک عجیب سی بات ہوئی۔ عبیر کھڑی تھی، سُنتی تھی پھر ڈاکٹر مسعود بار زنجی کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بیٹھی اور بولی آپ 4 سالوں سے مسلسل عراق میں آ جا رہے ہیں،اُف میرے خدایا۔ آپ پہلے کیوں نہیں میرے جدی سے مِلنے آئے۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ کام کرتی۔ بہت سی ایسی جگہوں پر آپ کو لے کر جاتی جہاں کے لوگوں اور بچوں کو اِس تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ ‘‘
ملّا احمد بار زنجی نے عبیر کو دیکھا تھا۔ کِس انہماک سے وہ ڈاکٹر مسعود کی طرف متوجہ تھی۔ بیتابی،شتابی، دُکھ بھرے جذبات کا چہرے پر پھیلاؤ،کتنے رنگ تھے وہاں۔ قدرے دھیمے لہجے میں وہ دوست سے مخاطب ہوئے۔ ’’مصطفیٰ ہدیٰ سے تمہارے بے پایاں عشق کا عبیر کی صورت یہ انعام بہت خوبصورت ہے۔ ‘‘ ’’بہت جذباتی، منہ پھٹ، بے باک اور عراق کی محبت میں لُتھڑی ہوئی ہے یہ۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ کل ہی بغداد سے آئی ہے۔ رات اس بات پر ہی تکرار کرتی رہی۔ ‘‘ ’’ جدّی! میرا تو جی چاہتا ہے شہدا برج پر کھڑے ہو کر صدام کو آواز دوں اور پوچھُوں کہ امریکا کی بدمعاشیوں کا رونا تو اپنی جگہ، صرف اتنا بتاؤ کہ تم اور تمہارے حکمران ٹولے پر اُس پٹھو تنظیم نام جس کا یو این او ہے، کی عائد کردہ پابندیوں کا کیوں اثر نہیں، تمہارے بچے اِن بیماریوں سے کیوں نہیں مر رہے؟ تمہاری عورتیں خوراک کے لیے قطاروں میں کیوں نہیں کھڑی ہوتی؟تمہارے گھروں میں لوڈ شیڈنگ کیوں نہیں ؟تمہارا پینے کا پانی کیوں گدلا نہیں ؟ جواب دو صدام۔ ـ امریکا ظالم ہے تو تم اُس سے بھی بڑے ظالم ہو جو اپنی کرسی کا سودا معصوم بچوں کی بیماریوں اور موت سے کر رہے ہو۔ تم امریکا کے آلہ کار ہو۔
میں نے ہاتھ جوڑے اور ساتھ میں ڈپٹا بھی مگر زنجی اس میں ایک سچی انقلابی روح ہے، میں کیا کروں ؟ ابھی باتوں کا یہ سلسلہ جاری تھا، جب وہاں 2 عورتیں ایک بچے کے ساتھ آئیں۔ وہ یہیں اُس چھوٹے سے باغیچے میں ہی آ گئیں۔ کوئی فرلانگ پرے سریتہ الثانیہ کے گاؤں سے تھیں۔ بچہ بیمار تھا۔ شفا خانے میں دوائی کے نام پر سر درد کی گولی بھی نہ تھی۔ حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے وہ یہاں آئی تھیں کہ اِس گھر کا سربراہ اپنے وسیع تعلقات اور مالی وسائل سے کبھی اُردن،کبھی شام اور کبھی انگلینڈ سے دوائیں منگوا کر رکھتا تھا۔ شفا خانے کو بھی فراہم کرتا اور گھر میں بھی ہوتیں۔ عبیر اور ڈاکٹر فوراََ متوجہ ہو گئے۔ نمونیے کا شدید حملہ تھا۔ سانس لینے میں شدید دشواری تھی،چھاتی کھڑ کھڑ کرتی تھی،آکسیجن کی اشد ضرورت تھی مگر ہسپتال میں آکسیجن چھوڑ دوائی تک نہیں تھی۔
دوائیاں موجود تھیں۔ انہی میں سے مناسب کا انتخاب ہوا اور دی گئیں۔ دونوں عورتوں نے شکریہ ادا کیا، بچہ کندھے سے لگایا اور رُخصت چاہی۔ کیسے آئی تھیں ؟ کشتی سے۔ کیا وہ انتظار میں ہو گی؟نہیں۔ اُسے آگے جانا تھا۔ مصطفیٰ البرزانی نے ملازم بُلایا اور اُنہیں پار چھوڑ آنے کا کہا۔ اُن کا یہ گھر گاؤں سے کوئی نصف میل پر دجلہ کے بائیں کنارے پر تھا۔ بغداد موصل روڈ پر چڑھنے کے لیے زمینی راستہ تھا مگر دجلہ کے پار گاؤں جانے کے لیے انہیں کشتی استعمال کرنا پڑتی تھی۔ ایسے پریشان حال لوگوں کے جانے کے بعد عبیر ہمیشہ افسردگی اور دل شکستگی کی دبیز تہہ میں ڈوب جاتی۔ ہمیشہ ایسا ہوتا جب وہ بیماروں کو دوائیاں نہ مِلنے کے باعث مرتے دیکھتی تو پہروں کُڑھتی۔ آج یقیناً یہاں ڈاکٹر مسعودبار زنجی کی موجودگی تھی جس نے بچے کو انتہائی توجہ سے دیکھا اور فوری بہترین ادویات دیں جو اُس کے میڈیکل کِٹ بیگ میں موجود تھیں۔ خاتون کے گھر کا پتا عبیر نے سمجھا تھا اور رات کو وہاں چکر لگانے اور بچے کو دیکھنے کے پروگرام کو حتمی شکل دی تھی۔
’’کوئی معجزہ ہی بچے کو بچا سکتا تھا اور میرا خیال ہے ڈاکٹر مسعود کی صورت قدرت یہ معجزہ یہاں بھیج چکی ہے۔ ‘‘اُس نے اُن کے جانے کے بعد احمد بار زنجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اُس نے دُور سُورج کو دیکھا تھا۔ سُورج کی تیزی، شوخی اور جولانی سب کہیں غائب تھیں۔ زوال کی کمزوری غالب تھی۔ جب سُورج غروب ہو رہا تھا، وہ سب کھڑے ہوئے۔ گھر کے اندر جا تے ہوئے عبیر کے لبوں پر اُس باغی شاعر نظار قبانی کی نظم اُبھری تھی جو بے اختیار اُس کے لبوں سے پھسل کر اونچی آواز میں فضا میں پھیل گئی تھی جسے دونوں بوڑھوں کے ساتھ ساتھ اُس نوجوان نے بھی سَر جھُکائے آہستہ آہستہ چلتے چلتے سُنا اور سراہا تھا۔ ہمیں جوش و جذبے سے بھرپور ایک نسل کی ضرورت ہے جو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے جو تاریخ کو ہلا دے ہمیں ایک ایسی نسل کی ضرورت ہے جو غلطیاں کوتاہیاں درگزر نہ کرے جو گھُٹنوں کے بَل نہ جھُکے ہمیں ضرورت ہے جنات کی ایک نسل کی پھر وہ سب اُس 15 فٹ بلند دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ اس وسیع و عریض گھر کی بلند و بالا فصیلیں مصطفیٰ البرزانی کے باپ کے زمانے میں مٹی کی تھیں۔ اس کے زمانے تک ایسی ہی رہیں۔ بیٹوں کے دَور میں پختہ پتھروں کی بن گئیں۔ ڈیوڑھی سے آگے ایک طرف نیلے گرینائٹ کا حوض تھا۔ بیچ میں وسیع لان جس کے چہار جانب درخت تھے۔ آگے برآمدے اور برآمدوں کی پُشت پر کمروں کی قطاریں تھیں۔
اِس وقت لوڈشیڈنگ تھی۔ برآمدوں میں جلتی مشعلیں ماحول کو درجہ خواب ناک سا بنا رہی تھیں۔ وہ سب مصطفیٰ البرزانی کے کمرے میں آگئے تھے۔ کمرے کا نصف حصّہ بوترہ نما سٹیج جیسی صورت لیے تُرکی کے شہر ازمیر کے خاص قالینوں سے سجا تھا۔ دیواروں پر پُرانے زمانے کی بندوقیں لٹکی تھیں۔ عبیر دادا کی ہدایت پر رات کے کھانے کا کہنے چلی گئی۔ رات کا کھانا پُرتکلّف تھا۔ گھر کے سب افراد بیٹھے۔ ملقوبہ کی ڈش بہت پسند کی گئی۔ عبیر نے ہنستے ہوئے کہا مصطفیٰ جدّی آپ کی وجہ سے ہمیں یہ شاندار سا کھانا ملا،وگرنہ تو امّو نے فلافل پر ٹرخانا تھا آج‘‘۔ قہوے کا دَور چلا اور ساتھ پُرانی یادوں کا بھی۔ وہ خط جو احمد بار زنجی نے اپنے اِس جگری یار کو اُن دنوں لکھے جب وہ سب عراق کو جمہوریہ بنانے کی جدوجہد میں تن من دھن سے سرگرم عمل تھے۔ عبیر نے ہنستے ہوئے فائل میں سے ایک خط نکالا اور احمد بار زنجی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ وقت نے ماضی میں چھلانگ ماری۔ ۱۹۵۸ء کے رگوں میں لہو اُبالنے والے دن یاد آئے تو مسکراہٹ نہ صرف ہونٹوں پر اُبھری بلکہ چہرہ بھی اس میں نہا گیا۔
’’مصطفیٰ البرزانی اب جتنے بھی امکانات سامنے ہیں خدا گواہ ہے اُن میں سے کِسی ایک پر بھی میرا دِل نہیں ٹھُکتا۔ مجھے بتاؤ تو سہی آخر تم السریہ ثانیہ کر کیا رہے ہو؟ بغداد کا ہر چڑھتا دِن جس اضطراب،بے کلی،آس، اُمید، مایوسی اور گھُٹن کا پَل پَل شکار ہو رہا ہے، وہ کب تم سے پوشیدہ ہے؟پھر کیا تمہارے پاؤں تلے کوئی مقناطیسی سلاخ آگئی ہے جس نے تمہیں چِپکا لیا ہے۔ نیا مہمان گھر میں آنے والا ہے۔ بیوی کا گھٹنا تھامے بیٹھے ہو۔ کہنے کو ابھی خیر النساء سے تمہیں ذرا الفت نہیں۔ ہوتی تو جانے کیا کرتے۔ ایک خیال تمہارے لالچی باپ کی طرف بھی جاتا ہے،جو شاید اِن دِنوں سوچوں کی گھُمن گھیریوں میں بھی ہو کہ موقع و مفاد پرست اِس قبائلی سردار نے برطانوی آقاؤں کی مُٹھی چاپیوں اور خوشامدوں سے جو زمین سمیٹی ہوئی ہے،اب آزادیِ عراق کے کِسی انقلاب کے ہاتھوں چھِن نہ جائے۔ ایسے میں اکلوتے بیٹے کی حیثیت سے اُس کی دلجوئی کرنا تمہارے لیے بہت اہم تو ہے نا۔ بصرہ سے محمد الرکابی آیا ہے بہت ساری خبروں کے ساتھ۔ بعث پارٹی میں افلاق شافی کا محّب ناصر گروپ اِن دِنوں ناصر کی محبت میں کچھ زیادہ جذباتی ہو رہا ہے۔ کل رات الاستقال پر چھاپہ پڑا۔ حُریّہ میں بشار کے گھر سب اکٹھے تھے۔ پندرہ کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ رات المغرب سٹریٹ کے اپنے اُسی کیفے میں محمد الرکابی کے اعزاز میں کھانا تھا۔ محمد العبیدی کی نئی نظم نے بڑا سماں باندھا۔ اب از راہِ مہربانی اِسے خط تو ہر گز نہ سمجھنا، بس تار جاننا۔ بھاگتے بھاگتے چلے آؤ۔ ‘‘
دونوں بوڑھوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی،آنکھوں کے گوشے نم تھے۔ خط اب مسعود بار زنجی کے ہاتھوں میں آ گیا تھا۔
اُس خط نے بھی بہت لُطف دیا جو مصطفیٰ البرزانی کے پھوپھی زاد ابراہیم علاوی کا تھا۔ بڑا بغض رکھتا تھا احمد بار زنجی سے۔ ہمیشہ ہی اُسے اُکساتارہتا تھا۔ ’’ارے سُنّی کُرد ہے۔ سمجھو اُسے۔ یہ کُرد تو نرے فصلی بٹیرے ہیں۔ عراق سے کب مخلص ہیں ؟کُردستان بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا،برطانیہ کے ایجنٹ اور اُن کے پٹھو۔ ہمہ وقت مار دھاڑ پر مائل۔ تُرکوں نے انہیں خوب رگیدا ہے پر یہ کمبخت پھر بھی باز نہیں آتے۔ اپنی ٹانگ الگ رکھنے کے شوق میں گھائل ہوئے جاتے ہیں۔ ‘‘ بہت سی یادیں چھم چھم کرتی دماغ کے گوشوں سے باہر نکل آئی تھیں۔ خلیفہ سٹریٹ کے قہوہ خانوں میں بیٹھ کر دھُواں دھار بولتے، الجواہری کی شاعری سُنتے،کبھی مظفر النواب کو پڑھتے۔ شاہ فیصل بن غازی اور ساتھ نورالسید اور جعفر عسکری کے بخیے اُدھیڑتے،حکومت کے چھاپے مارنے پر مار دھاڑ کرتے بھاگتے۔ کبھی دمشق کبھی قاہرہ چھُپتے پھرتے۔ جمال عبد الناصر کے نعرے لگاتے لگاتے انقلاب آگیا۔ گلی کوچوں میں نوری السعید کی لاش کے ٹکڑے بکھر گئے۔ عراق جمہوریہ بنا۔ پر کہا ں استقامت تھی اِس مُلک کے مقدر میں ؟ عبدالکریم قاسم کا زمانہ۔ بغاوتوں، سازشوں، کیمونسٹوں کے وار۔ بعث پارٹی کی چالاکیاں، عرب قوم پر ستوں کے مفادات،بیچارے لوگ امن کو ترستے خون میں نہاتے رہے۔ عبدالسلام عارف، ڈاکٹر عبدالرحمن البزاز، پھر جون ۱۹۶۶ء کو بغداد کی گلیوں میں ٹینک توپوں کا گشت۔
صدام نے کیمونسٹ سوچ پر توپیں چڑھائیں تو احمد بار زنجی جیسے لوگ عقوبت خانوں میں پھینک دیے گئے۔ سو جَتنوں سے باہر نکلا تو مُلک بدر ہونے میں عافیت جانی۔ پہلے اٹلی پھر انگلینڈ۔ باہر کے مُلکوں سے آئے اُس کے وقتاً فوقتاً ڈھیر سارے خطوط فائل میں کس درجہ سلیقے سے ترتیب وار لگے ہوئے تھے۔ ابھی تازہ لائے گئے قہوے کی چُسکی بھرتے ہوئے وہ بولی تھی آخر جدّی آپ جب جدوجہّد آزادی کے دِنوں کی یادیں مجھے سُناتے ہیں تو بتائیے اُس لڑکی کا قصّہ کیوں گول کر جاتے ہیں جو آپ کی جدوجہد کے ہر دِن کِسی نہ کِسی رنگ اور کِسی نہ کِسی انداز میں سامنے آتی ہے۔ مصطفیٰ البرزانی نے رسان سے کہا میری بچی، میری عبیر،عراق کو جمہوریہ بنانے کی جدوجہد میں کوئی ایک لڑکی تھوڑی تھی بہت ساری تھیں۔ دونوں مسکرائے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ احمد بار زنجی نے ستایش بھری نگاہیں عبیر کے رخ روشن سے اٹھا کر دوست کے چہرے پر ٹکاتے ہوئے کہا یقینا بہت کچھ یاد آیا ہو گا۔ بہت کچھ بھُولتا کب ہے ؟رگِ جان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ جو ماضی کی دلکشی اور شکستگی دونوں کو سنبھالے ہوئی تھی۔
بلوری شیشے میں سونے جیسے رنگ میں گھُلے قہوے کے گھونٹ نے لبوں کو کیا چھُوا کہ پَل نہیں لگا تھا اور وہ وہاں پہنچ گیا تھا جہاں پہنچنے کی اُسے ہمیشہ بڑی خواہش رہتی تھی۔ چھوٹی سی پیالی کے اُفقی کنارے سے اپنے سامنے کی دیوار کے منظر کواُس نے یوں گہری نظروں سے دیکھا تھا کہ منظر تو جیسے وہاں مصور ہوا پڑا تھا۔
اُس شام بھی اُن سب کا ٹولا المغرب سٹریٹ کے ایک کیفے میں موجود تھا۔ نجب پاشا کے علاقے میں دجلہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں المغرب سٹریٹ پر اس قہوہ خانے کا مالک خود پکا کیمونسٹ اور انقلابی تھا۔ اُس شام بھی اُس نے قہوے کی گلاسی کو ابھی مُنہ لگایا ہی تھا جب قہوے خانے کا دروازہ دھڑ سے کھُلا،جیسے ہوا کا ایک لطیف، خوشگوار جھونکا رگ و پے میں لطیف سی سرشاری دوڑاتا اندر آئے۔ بس ایسے ہی وہ داخل ہوئی تھی۔ پاؤں تک پھُولدار قرمزی رنگ کا لمبا سکرٹ، گلے میں خوبصورت موٹے پتھروں کا ہار، سیاہ پھولوں والا سکارف سر پر اوڑھے تھی۔ عقب میں ایسے ہی حُلیے والی ایک اور لڑکی تھی۔ چہرہ تو ایسا تھا جیسے بہار کے اولین دِنوں میں کھِلنے والا کوئی پھول ہو۔ قہوہ جس کی چُسکی بھرنے جا رہا تھا،وہ تو ہاتھوں میں ہی جھُولتا رہ گیا تھا۔ پٹر پٹر اُسے دیکھتا تھا۔ وہاں موجود کچھ سینئر لڑکے کھڑے ہو کر اُس کی پذیرائی کے لیے آگے بڑھے تھے۔ اُس نے ابو الہیثم سے پوچھا اور پتا چلا تھا کہ دونوں لڑکیاں ہُدٰی اوراُمِّ زینب ترکمانی ہیں۔ سلیمانیہ سے پانچ سات کلومیٹر پر سر چینار گاؤں سے تعلق ہے مگر حال ہی میں انگلینڈ سے آئی ہیں، جہاں وہ عرصۂ 10 سال سے اپنے چچا کے پاس مقیم تھیں۔
اُس نے بیٹھنے کے ساتھ ہی لڑکوں پر جو لعن طعن اور پھٹکار برسائی وہ سٹپٹا سا گیا۔ ’’ذرا، پولیس کا چھاپہ پڑا اور تم لوگ بھاگ گئے۔ کم بختو کچھ اپنا دم خم دکھاؤ گے یا یونہی عورتوں کی طرح بھاگتے پھرو گے۔ نوری السیّد نے ہماری بوٹیاں تک برطانیہ کو کھِلا دینی ہیں۔ بغداد پیکٹ دیکھ لیا ہے نا۔ پس تو بہتر نہیں کہ جان کِسی مقصدکے لیے دی جائے۔ لڑکے سر نیہوڑائے بیٹھے اُسے سُنتے تھے۔ اگلے دِن کے احتجاجی جلوس کی تفصیل اُس نے بتائی اور جیسے آئی تھی ویسے ہی اٹھ کر چلی گئی۔ احمد مصطفیٰ البرزانی کو محسوس ہو ا تھا جیسے شام کے سارے چراغ گُل ہو گئے ہیں۔
اُن دنوں بغداد کے گلی کُوچوں میں حشربرپا تھا۔ اعظمیہ اور کرخ کے قدیمی محلے کے گلی کُوچوں میں مرد کیا عورتیں اور چھوٹے بچے بھی مُکّے لہراتے تھے:سامراجیو عراق چھوڑ دو۔ روٹی مُفت۔ مہنگائی ختم۔ ہجوم کسی طرح قابو میں نہیں آتا تھا۔ مامون پُل کے آر پار لوگوں کا ہجوم تھا۔ انتظامیہ نہیں چاہتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کو مِلیں اور یوں ہجوم جلُوس کی صورت اختیار کر لے۔ بکتر بند گاڑیوں اور مشین گنوں کے مُنہ کھُل گئے تھے۔ نوجوان لڑکے کَٹ کَٹ کر دجلہ میں گرنے لگے۔ ہُدیٰ نے پرچم بہن کو پکڑایا۔ آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ چودہ پندرہ سالہ منتہا نے پرچم پکڑا اور چلی۔ ہُدیٰ چلی۔ مصطفیٰ البرزانی نے احمد بار زنجی کا ہاتھ تھاما، بھاگے اور دونوں بہنوں کو بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔ لڑکے بھی دائیں بائیں چلنے لگے۔
ہُدیٰ تو جیسے اُس کی روح میں اُتر گئی تھی۔ یہ تو ممکن ہی نہ رہا کہ وہ کسی ایسے جلسے، جلوس میں شریک نہ ہوتا جس میں ہُدیٰ شامل ہوتی۔ ہُدیٰ کی بہن اور وہ بچ گئے لیکن ہُدیٰ خون میں نہا گئی۔ سالوں بعد آنے والے اِس مہمان کو 3 دن کے قیام پر ہزاروں منتّوں سے روکا گیا۔ عبیر اور ڈاکٹر مسعود نے گاؤں کے بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کے درمیان وقت کا زیادہ حصّہ گزارا۔ راتوں کو صدام ایران عراق اور خلیجی جنگ جیسے موضوع زیر بحث آئے۔ عبیر کا انداز بہت جذباتی ہوتا۔
یہ امریکا، یو این او، سلامتی کونسل کتنے بڑے فراڈ اور کتنے چیٹرز ہیں۔ صدام اُنھیں قبول نہیں،صدام کو مارنا چاہتے ہیں،بھئی مار دو اُسے۔ خلیجی جنگ کا مجرم ہے، بات نہیں سُنتا ہے، پر غریب عوام کو کِس بات کی سزا؟ کمال ہے۔ وہ گلاس پائی اتنی چُوچی سی تھی کہ صدام کی باتوں کوسمجھی نہیں اور صدام ایسا جیالا اور بہادر کہ وہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے بغیر اتنا بڑا قدم اُٹھاتا۔ مانا کہ کویت عراق کا حصّہ ہے اور یہ سب بدمعاشیاں برطانیہ کی تھیں کہ جس نے کویت کے ٹکڑے کو علیحدہ کر کے اُسے صباح خاندان کو دان کرتے ہوئے وہاں کے شیوخ کی دولت سے اپنے بینک کالے کر لیے۔
ہاں البتہ بڑوں کی باتوں میں تاسف اور دُکھ کے ساتھ ساتھ وہ ایک نئی تصویر بھی دیکھتی۔ ایرانی انقلاب سے خائف امریکا، عراق کی بڑھتی فوجی طاقت سے خائف اسرائیل نے دونوں کو لڑایا۔ عراق کو اسلحے کی فراہمی امریکا نے کی اور ایران کو اسرائیل نے! سیاست کے عیارانہ انداز۔ رہا کویت تو وہ ہمیشہ سے عراق کا حصّہ تھا۔ چلو یہ احمق صدام ذرا موقع محل تو دیکھ لیتا۔ اگر حملہ کر دیا تھا تو وہاں انتخابات کروا دیتا۔ کویتی تو صباح خاندان سے ناکوں ناک آئے ہوئے تھے۔ مگر کرواتا کیسے؟ اپنے لوگوں کو تو نکیل ڈالی ہوئی تھی۔ زبانوں پر تالے لگوا رکھے تھے۔
اب رہی یہ عراقی قوم پر پابندیاں تو یہ بھی ان کی پلاننگ کا ایک حصّہ ہے۔ احمد بار زنجی بیرون مُلک ہونے کی وجہ سے حالات کی باریکیوں سے زیادہ آگاہ اور امریکہ کی ریشہ دوانیوں کے ہتھکنڈوں سے زیادہ واقف تھے۔ عبیر حیران تھی، جب وہ کہتے تھے کہ امریکی دراصل صدام کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ انھیں صدام سے محبت ہے۔ دراصل خطّے میں انھیں صدام کے علاوہ کوئی اور موزوں بندہ نظر نہیں آتا۔ کُردوں کو جس انداز میں رگڑا دیا گیا، اُن کے گاؤں زہریلی گیس سے جس انداز میں بھسم ہوئے، اُس کے ذکر سے ہڈیوں میں خون جمتا ہے۔ جنوب کے شیعوں کا جو حال ہوا، ظلم کی بدترین شکل تھا۔
اور جب انھوں نے یہ کہا، اب ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور اُن کے پھیلاؤ کا شورو غوغا سب فضول اور اوچھی باتیں ہیں، اپنی انھی باتوں کے گھوڑے پر چڑھ کر ایک دن وہ یہاں آجائے گا۔ اُس نے سہم کر یہ سُنا اور گھائل سی آواز میں بولی ’’مصطفیٰ جدی امریکا بغداد پر قابض ہو جائے گا‘‘۔ ’خدا نہ کرے ‘مگر حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں۔ اور وقت رُخصت مسعود کے تین چار وعدے تھے: بغداد اُن کے گھر آنے، اس کے ساتھ متاثرہ خاندانوں سے مِلنے، اُن کے بچوں کے چیک اپ اور علاج کے سلسلے۔ وقت رُخصت احمد بار زنجی نے اُس کا ماتھا چُوما اور کہا تھا، کاش عبیر جیسی میری کوئی پوتی یا نواسی ہوتی اور اُس نے پَل نہیں لگایا تھا بولنے میں۔
’’ایسا کیوں کہا آپ نے؟‘‘
’’آپ تو ہمیشہ مجھے اپنے جدّی ہی لگے ہیں کہ آپ کے بارے میں سُنتی تھی اور اپنے متعلق آپ کا لکھا ہوا پڑھتی تھی۔ اب میں آپ سے یہ بھی شکایت نہیں کر سکتی کہ آپ اتنے طویل عرصے بعد کیوں آئے کہ وجہ میرے سامنے ہے۔ ‘‘
٭٭
پھر بہت سارے دن کیا بہت سارے مہینے گزر گئے اور اُس سہ پہر جب وہ قطیبہ سٹریٹ کے سٹڈی سرکل کی ملازم رعنا کے ہمسائے میں بصرہ سے آنے والی فیملی کی بچی حبّہ کو المنصور اسپتال دکھانے لائی تھی اور وارڈ کے برآمدے میں تیز تیز قدموں سے چلتی،اُس نے مسعودبار زنجی کو دیکھا تھا۔
اُس کی آنکھیں مسعود کو دیکھ کر ٹمٹمائیں نہیں بس ذرا پھیکی سی مانوسیت کی روشنی جھلملائی تھی وہاں۔ مسعود رُک گیا۔ شوق سے اسے دیکھا۔ معذرت کی کہ اُسے فورا کے بلانے پر واپس جانا پڑا تھا۔ ابھی کل شام وہ عراق پہنچا ہے۔
خود سے چند قدم پیچھے کھڑی عورت کے ساتھ کھڑی نو دس سالہ بچی کے بارے میں اُس نے مسعود کو بتایا کہ بچی کے پیٹ پر ٹیومر ہے۔ چھ ماہ پہلے ایسے ہی ٹیومر کا بصرہ میں آپریشن ہوا تھا۔ اب پھر یہ پیدا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے بس دو تین ماہ بچی کے مزید زندہ رہنے کا کہا ہے۔ مسعود جھُکا۔ بچی کے پیٹ سے فراک اٹھا کر دیکھا۔ اور پھر قریب کھڑی افسردہ سی عبیر کو دیکھتے ہوئے بولا: لم فیٹک کینسر ہے یہ۔ بصرہ کے گردو نواح کی بہترین زراعتی زمین اتحادیوں کے میدان جنگ تھے۔ یورینیم شیلوں کی بھر مار نے زمین کو زہر آلود تو کرنا تھا۔ اب غریب لوگوں نے اُس زمین میں اُگے ٹماٹر آلو پیاز بھی کھانے تھے اور پھر ان کا شکار بھی ہونا تھا۔ بس یہ تو شکار ہوئی پڑی ہے۔
وارڈ ٹیڑھی میڑھی ٹانگوں، پھُولے پیٹوں، مدقوق چہروں، بُجھی آنکھوں اور ٹیڑھے میڑھے ہاتھوں والے بچوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر بیچارے کیا کریں۔ نہ دوا نہ دارو۔ نہ بجلی نہ گیس۔ نہ دُودھ نہ خوراک۔ مر رہے ہیں کہ ظالم حکمرانوں اور بدمعاش امریکا و برطانیہ نے مرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مسعود نے دیکھا تھا،اُس کی چمکتی آنکھوں سے دوآنسو اُس کے سیاہ کارڈیگن پر گرے تھے۔ ’’اچھا خدا حافظ‘‘۔ وہ آگے بڑھنے لگی جب مسعود نے کہا۔ ’’عبیر میں رات کا کھانا آپ لوگوں کے ساتھ کھاؤں گا۔ ‘‘
رات بہت ٹھنڈی تھی۔ خالد بن ولید روڈ کا یہ گھر اندر باہر سے تاریخی سٹائل کا انداز لیے ہوئے تھا۔ چند کمروں کی سجاوٹ اگر خالصتا مغربی انداز کی تھی تو وہیں عراقیوں کی مخصوص روایت کا حامل ایک کمرا بھی تھا۔ طعام کا بندوبست وہیں تھا اور بہت گھریلو محبت بھرا ماحول تھا جہاں خاتون خانہ کے ساتھ ساتھ دونوں لڑکیاں بھی خوش دلی و خوش طبعی سے باتوں اور سروس میں مگن تھیں۔ کھانوں کی بھرمار نہیں تھی۔ چاندی کی سینی میں ملغوبہ آیا تھا۔
گھر کے سب افراد مع گھر کی خادمہ کے بیٹھے اور کھانا کھایا گیا۔ قہوہ پیتے ہوئے عبیر کی والدہ نے کہا: ’’ہم اپنی اس بیٹی کا کیا کریں جس کی ہر سانس کے اُتار چڑھاؤ میں عراق کا ہوکا ہے۔ صدام کے کاموں پر اعتراض ہے۔ بعث پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ کس مشکل سے سمجھاتے ہیں کہ عقل سیکھو،مروادے گا صدام تمہیں بھی اور ہمیں بھی۔ سُنتی ہی نہیں ‘‘۔ مسعود نے دفعتاً نگاہیں اٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ دیوار کے ساتھ پُشت جوڑے قہوہ کا بلوری کپ ہاتھوں میں تھامے کس بے نیازی سے بیٹھی اُسے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے پیتی تھی۔ کمرے میں کینڈل لائٹ بکھری ہوئی تھی۔
والدہ نے تنقید کا پھر وار کیا۔ ’’اب ہماری کیا مجال کہ لوڈ شیڈنگ میں ہم یو پی ایس یا ایمرجنسی لائٹ جلائیں۔ سچ تو یہ ہے مسعود کہ اِسے یہ ہمارا قدرے ڈھنگ سے رہنا بھی بہت کھَلتا ہے۔ مسعود ہنسا تھا۔ ایک بار پھر اُسے دیکھا تھا۔ الف لیلیٰ کی سر زمین پر نظار قبانی کی باغیانہ شاعری جیسا ایک کردار۔ اور رات کو انھوں نے اُسے جانے ہی نہ دیا،روک لیا۔ عراقی نیشنل آرکیسٹرا رباط ہال میں پروگرام پیش کر رہا تھا۔ مسعود اُس میں مدعو تھا۔ اُس نے فون کیا: ’’عبیر اگر تھوڑے سے وقت کے لیے آ جاؤ‘‘۔ جواباََ وہ بولی تھی: ’’مسعود لعنت بھیجو وہاں جانے پر۔ چلو میں تمہیں وہ میوزیم دِکھا کر لاؤں جہاں عماریہ شیلٹر میں پناہ گزین بوڑھے بچے اور غریب عورتیں ذلیل امریکیوں کی تباہ کن بمباری کے ہاتھوں شہید ہوئیں ‘‘۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ’’کچھ رحم کرو۔ زندہ رہنے دو مجھے۔ میں ابھی کرامہ اسپتال سے آرہا ہوں۔ پھر وہ زبردستی گھسیٹ کر اُسے آرکیسٹرا دکھانے لے گیا‘‘۔ رباط ہال لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ نشستیں اگلی رَو میں تھیں۔ کنڈکٹر پوڈیئم پر چڑھا۔ عبیر نے عرق کے اِس مایہ ناز کنڈکٹر، محمد امین عزت کو گہری نظروں سے دیکھا تھا۔ اُس کا بایاں بازو متحرک نہ تھا اور اس ہاتھ کی انگلیاں باہم جُڑی ہوئی تھیں۔ ’’ارے یہ کیا؟‘‘ مضطرب سی آنکھوں سے اُس نے مسعود کو دیکھا۔ اُس کے ساتھ ہونے والے المیے سے تو وہ آگاہ ہی نہ تھی۔ پاور سپلائی کی فراہمی باقاعدہ نہ ہونے کی وجہ سے عام عراقیوں کی طرح مُلک کا یہ مایہ ناز فنکار بھی مٹی کا تیل استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ کہیں کھانا پکاتے ہوئے چولہا پھٹ گیا تھا، امین عزت کی بیوی جل کر مر گئی اور اُسے بچاتے ہوئے اُس کا یہ بازو بھی سارا جل گیا اور انگلیاں جُڑ گئیں۔
’’اُف میرے خدا۔ ‘‘ وہ دکھ اور اضطراب کے گہرے سمندر میں گر پڑی۔ ایک ہُوک سی بار بار اس کے اندر سے اٹھتی۔ تبھی ایک عجیب سی بات ہوئی۔ آرکیسٹراشہرہ آفاق موسیقار،چائیکوسکی کی مشہور سمفنی نٹ کریکر سوت کی ریہرسنگ کر رہا تھا۔ مگر بہت بے آہنگی سی نظر آئی تھی پھر جیسے سب کچھ رُک گیا۔ تاسف اور دُکھ بھرے لہجے میں محمد امین عزت کی آواز بلند ہوئی تھی: ’’کلارینٹ میں سے ریڈز غائب ہیں، وائلن میں سے تاریں۔ میوزیکل سکورز سخت ہو گئے ہیں۔ پرانے وقتوں کے جھِّلی نما کاغذ کی طرح۔ کاغذ کا حصول ان کے لیے مشکل بن گیا ہے۔ اِس قدیم اور شاندار آرکیسٹرا کے صرف 2 لوگ یہاں رہ گئے ہیں۔ باقی کے سارے دنیا میں جہاں جہاں ان کے سینگ سمائے، چلے گئے ہیں۔ میں انھیں الزام نہیں دیتا۔ آخر کو پیٹ اور ضروریات زندگی کے کتنے مطالبات ہیں ‘‘۔
عبیر کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اُس نے مسعود سے کہا کہ آخر ہم لوگ اتنے بزدل کیوں ہیں ؟ بولتے کیوں نہیں ؟ میں سٹیج پر جاتی ہوں۔ وہ بے تاب تھی۔ کھول رہی تھی۔ مسعود اگر اس کے ہاتھ نہ تھامے بیٹھا ہوتا اُس نے سٹیج پر چڑھ جانا تھا۔ شو ہوا۔ جو کچھ فنکار کر سکتے تھے، وہ انھوں نے کیا۔ مگر جیسے مزہ نہ آئے، جیسے سارالُطف کرکرا ہو جائے، وہ والی بات تھی۔ ہم بھی کیا کریں ؟ ہم انھیں باہر سے نہیں منگوا سکتے ہیں۔ پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اپنے طور پر جو کچھ ہو سکتا ہے اس سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن جب یونہی مسعود نے کہا’’ عبیر بہت مدت گزری بغداد کے کوچہ و بازاروں میں نہیں پھرا۔ جی چاہتا ہے کِسی دن چکر لگاؤں۔ پرانی یادیں تازہ کروں ‘‘۔
’’کمال ہے‘‘۔ وہ ہنسی تھی۔ ’’پہلے کیوں نہیں کہا۔ چلو ابھی چلتے ہیں ‘‘۔
’’آج نہیں، کسی اور دن پر رکھو۔ آج تو کہیں پارک،کسی باغ، کسی کھُلی جگہ پر جانے کا موڈ ہے‘‘۔ صدام کی کچھ اچھی باتوں میں سے ایک بغداد کو خوبصورت بنانا بھی تھا۔ خوبصورت باغ، پارک بنائے تو انھیں مجسموں اور یادگاروں سے سجا دیا۔ تاریخ کا شاید ہی کوئی کردار ہو جس کا مجسمہ بغداد میں نظر نہ آئے۔ پرستم دیکھو کہ اِسے خوبصورت بنا کر اجڑوا دیا اور پھر قلیل مدت میں دیووں جنّوں کی طرح کام کروا کے سارا انفرا سٹرکچر اور عمارتیں مرمت کروا دیں۔ کیا شے ہے یہ صدام بھی۔
’’ارے ہاں مسعود،تم عراق کے مایہ ناز آرٹسٹ محمد غنی سے ملے ہو یا نہیں ؟ اُس کے سٹوڈیو کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔ ان کم بخت امریکیوں کی۱۹۹۱ء کی بمباری میں اور جانتے ہو دنیا بھر میں مانے گئے اِس فنکار نے کیا کہا،عراقی اپنے مُلک پر بے حد نازاں قوم ہے۔ میں تو کبھی عراق چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہیں رہوں گا یہیں مروں گا‘‘۔ اِس ایک ہفتے میں دونوں نے ایران، عراق اور نامعلوم سپاہیوں کی یاد میں بنائی جانے والی یادگاروں کو دیکھا۔ خلیجی جنگ کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں پر عبیر ہیر پھیر کر بحث کرنے سے باز نہ آتی کہ یہ جنگیں کیوں ہوئیں آخر۔ مسلمان نے مسلمان کا گلا کاٹا اور دُنیا کے مفاد پرستوں کو خوش ہونے کا موقع دیا۔
شہدا برج دونوں کی یادداشتوں میں اپنے اپنے داداؤں کے حوالے سے تھا۔ دونوں برج پر کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کی تصاویر بنائیں۔ عراق کو جمہوریہ بنانے کی ہر جدوجہد اسی پُل پر آ کر ختم ہوئی تھی۔ عبیر نے اپنے دادا کی بہت پیاری سی ہُدیٰ کو یاد کیا اور دُعا کی۔ ’’مسعود کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے اسی پُل پر کھڑے ہو کر اپنی پوری طاقت سے گلا پھاڑ کر صدام کو آواز دوں اور پوچھوں ذات کے بت کو خدا مت بناؤ۔ عراق کو راکھ کا ڈھیر بنانے پر تُلے ہوئے ہو۔ تمہاری حماقتوں نے عراق کو پاتال میں پھینک دیا ہے۔ سونا اُگلتے ملک کے غریب لوگ روٹی اور دوائی کے لیے مر رہے ہیں۔ ‘‘
وہ ہنسا اور بولا’’ایسی عقلمندی کا مظاہرہ کبھی مت کرنا۔ تم نے اس کے سگے دامادوں کا انجام دیکھ لیا ناں، دونوں بیٹیوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر کے بٹھا دیا ہے نا۔ ‘‘
التحریر سکوائر میں مسعود نے اپنے بچپن کو یاد کیا۔ اُس کی ماں کو ٹکے کی چیز لینی ہوتی تھی۔ ڈبل ڈیکر میں بیٹھتی اور التحریر آ جاتی۔
کیا دن تھے۔ اُس نے گرد و پیش کو والہانہ انداز میں دیکھا تھا۔ اگلا ڈیڑھ دن دونوں نے کرخ کے راؤنڈ سٹی میں اُس کے گھر کو ڈھونڈنے میں ضائع کیا جہاں کبھی مسعود اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔
عبیر قدیم بغداد کی ان تنگ و تاریک گلیوں اور اِن میں بکھرے بازاروں سے خود بھی نا اشنا تھی۔ حیرت سے دیکھتی تھی۔ ’’دیکھو ہمیں اپنی مُلکی ثقافت کو جو اِن گلی کوچوں میں بکھری ہوئی ہے، دیکھنے کی کتنی ضرورت ہے۔ عبیر،میرا گھر گلی کی نکڑ پر تھا۔ بیٹھک کا دروازہ متوازی گلی میں کھُلتا تھا۔ بالمقابل جو گھر تھا وہاں نبیذ بنتی تھی۔ اُس گھر کے ساتھ کھجور کے درختوں کا جوڑا تھا اور جانتی ہو وہ درخت کتنے پرانے اور کتنے تاریخی تھے‘‘۔ اور عبیر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ’’تم کتنے عرصے سے آرہے ہو عراق اور تم نے کبھی اپنے بچپن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی؟
’’کی، عبیر کی،بہت بار کی۔ مگر اُلجھے ہوئے دھاگوں کے گچھے جیسے اِس گورکھ دھندے میں کچھ نہیں مِلا۔ تمہیں لایا تھا کہ شاید کچھ مدد ہو جائے‘‘۔ ’’چلو ایک بات تو ہے کہ تمہارے طفیل میں نے بھی یہ سب دیکھا۔ ایک آدھ بار میں یہاں کِسی فیملی کے بچوں کو دیکھنے آئی تھی، مگر بھول بھلیوں میں نہیں پڑی کہ جو لوگ ساتھ تھے وہ راستوں سے شناسا تھے۔ یہاں کی کچی پکی گلیاں سڑکیں، تنگ بازار اور ان میں بکھرا قدامت کا حُسن میں نے تب نہیں دیکھا تھا‘‘۔ پھر وہ چلا گیا تھا۔ اس کا لہجہ معمول کا سا ہی تھا۔ بس دُکھ کی گھلاوٹ ضرور محسوس ہو رہی تھی جب وہ بات کر تا تھا۔ عراق کو جہنم میں دھکیل دیا ہے اِن ظالموں نے۔ نو فلائی زون کی کسر باقی تھی۔ اُردن تک پہنچنے کے لیے 24 گھنٹے کا سفر، اتنے لمبے صحرائی سفر کرنے کے تصور سے مجھے ہول آ رہا ہے‘‘۔
’’اور بس‘‘۔ عبیر نے یہ سُنا مگر سر اٹھا کر اُسے نہیں دیکھا۔ دو تین مرتبہ عبیر نے نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل چیک کیا۔ کوئی پیغام، کوئی بات، کچھ نہیں تھا وہاں۔ پر چند دنوں بعد ایک چھوٹا سا خط اُسے ملا تھا۔ مواقع بہت ملے تھے،پر دل کی بات کہنے میں کیا چیز مانع تھی، نہیں جانتا۔ یادگار شہدا پر جھیل کے پاس میں نے کہنا چا ہا تھا۔ جب تم نے میرے ساتھ ساتھ ٹہلتے ہوئے نظّار قبانی کو گنگنانا شروع کیا تھا : ہمارے صحراؤں کا تیل آگ اور شعلوں کا خنجر بن سکتا ہے ہم اپنے آباء کے دامن پر داغ ہیں ہمارا تیل فاحشاؤں کے قدموں میں پڑا ہے میں نے کہنا چاہا تھا،عبیر دھیرے دھیرے یہاں اونچی آواز میں بغاوت کی کوئی بات خواہ سامراجیوں کے خلاف ہو یا حکمرانوں کے، گولی کی طرح لڑ جائے گی۔ کوئی نہیں جانتا۔ شاعر نے کیسے دھکے کھائے تھے۔ مگر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ مجھے اچھا ہی نہیں لگا تمہیں ٹوکنا۔
گوعبیر عراق کا حُسن اور بغداد کی خوبصورتی ہے، مگر میرے لیے اُس کی رعنائی اُس کا گداز دل ہے جس میں بسنا میری دِلی تمناہے۔ میں کُرد بھی ہوں اور سُنی بھی۔ کُرد ناقابلِ اعتبار ہیں۔ کسی تھالی کے ڈھکن نہیں کِسی سینی کا پیندا نہیں۔ ایرانی، عراقی، ترکی اور عرب تہذیبوں کے ساتھ ساتھ اپنے مقامی رنگ میں بھی رنگے، اپنی شناخت، اپنی نسل کے لیے تڑپتے۔ کیا کریں بے چارے،3 ملکوں میں بٹے ہوئے۔ کبھی ترکوں سے جوتے کھاتے اور انھیں کھلاتے، کبھی ایرانیوں سے پھڈے کرتے، کبھی عراقیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے،کبھی برطانیہ اور کبھی امریکیوں کے آلۂ کار بنتے۔
شاید تم نے اُس مشہور زمانہ عربی کہاوت کو سُنا ہو گا طاعون کی 3 اقسام ہیں :چوہے، ٹِڈی دِل اور کُرد۔ یوں کُرد بھی بڑی شے ہیں۔ عربوں کے لیے انھوں نے بھی بڑا کچھ گھَڑ رکھا ہے۔ سب سے زیادہ فنّی تو وہی ہے جس میں بیچارے اونٹ کو جانور اور عربوں کو انسان ماننے سے انکاری ہے۔ دیکھو تو کتنی قباحتیں ساتھ چمٹی ہوئی ہیں۔
عبیر نے خط بند کرتے ہوئے بس اتنا کہا۔ ’’اب میں شیعہ ہوں، عرب ہوں تو بھلا اس سے کیا؟‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد حلاوی کی میڈیسن کلاس میں جب پروفیسر اپنی عادت کے مطابق موضوع سے پھسل کر دورِ جدید کی دریافت شدہ بیماری شیزو فرینیا میں اُلجھا، عبیر جو بظاہر منہ اٹھائے لکچر سُننے میں متوجّہ ہونے کا بھرپور تاثر دیتی تھی مگر دراصل اُلجھے ذہن سے خود سے کہے چلی جاتی تھی:
’’ہائے مجھے تو یہ شیزو فرینیا ہی ہو جائے۔ اِس نحوست مارے وطن کی محبت کے مالینحولیا نے میرا دن رات کا چین حرام کر دیا ہے۔ کیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے اس کے وجود پر گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ ‘‘ دفعتاً اُس کے ساتھ ابھی باہر سے آ کر بیٹھنے والے جلال شیلابی نے اپنے موبائل کی سکرین اُس کے سامنے کر دی۔ اُس نے سر جھُکا کر پڑھا ’’ارے! ناقابل بیان حیرت سے آنکھیں جیسے لبالب بھر گئی تھیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘اُس نے جلال شیلابی کو گھورا۔ بس لمحوں کی دیر تھی۔ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے پھر چوتھے حتیٰ کہ آدھی کلاس خبر کی زد میں تھی پھر جیسے خبر کے غبارے کے اپھارہ زدہ پیٹ کو کسی نے نوکیلی پن سے چھو دیا اور وہ پھٹ گیا۔ کلاس میں طوفان آگیا تھا۔
نائن الیون کا حادثہ زیر بحث تھا۔ رنگ رنگ کے تبصرے اور باتیں گردش میں تھیں۔ اِس بڑے بدمعاش کے محفوظ گھر کی فصیل میں کسی نے ہتھوڑا مارنے کی جرأت کی۔ بڑی بات، بڑی بات۔ سارا بغداد رقصاں تھا۔ لوگوں کے تپتے جذبات پر جیسے ٹھنڈے ٹھار پانی کے چند چھینٹے پڑ گئے ہوں جیسے پیاسے ہونٹوں کو یَخ اُنگلی چھولے۔ مسعود اُن دِنوں نیو یارک میں تھا۔ رابطہ ہی نہیں ہو رہا تھا اُس سے۔ کوئی چار پانچ دنوں بعد اُس کی میل آئی۔ نیویارک تو جیسے کِسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرز رہا ہے۔ ایک نیا ڈراما، اب دیکھنا اس کی آڑ میں اِس بدمعاش ریاست کی چالاکیاں۔ کرتی کیا ہے یہ؟ با اثر یہودیوں نے تو بھی کہنا شروع کر دیا ہے، عراق پر حملہ نا گزیر ہے۔
٭٭
آنے والے مہینوں میں مسعود کے بھیجے گئے غیر ملکی اخبار نویسوں کے تجزیے،ان کی رپورٹیں وہ پڑھتی اور کُڑھ کر خود سے کہتی، عراق اور صدام کے کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیروں سے کسی اور کو کوئی خطرہ لاحق ہو نہ ہو مگر اس اسرائیل کو پیچش لگ گئی ہے اور اُس بڑے بدمعاش کو تو کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ایک اسرائیل محفوظ ہو، دوسرے تیل کے ذخائر قبضے میں رہیں، باقی سب خیریت ہے۔ ۲۰۰۲ء کے آخری دنوں میں مسعود عراق آیا۔ وہ سو رہی تھی جب موبائل کی بیپ سے جاگی۔ نیند میں ہی اُس نے ہیلو کہا تھا پر مسعود کا جان کر وہ چھلانگ مار کر بستر سے اٹھی۔
’’کب آئے؟ اور بتایا کیوں نہیں ؟ کہاں پر ہو؟‘‘ ایک ہی سانس میں ڈھیر سارے سوالات۔ وہ ارابیل سے بول رہا تھا۔ ’’ کل شام کو پہنچوں گا‘‘۔ پیچھے سے کِسی نے قرمانجی(کُردوں کی زبان) میں کہا’’ چار دن تو رہو۔ بھاگنے بھی لگ گئے ہو‘‘۔ عبیر کے پوچھنے پر مسعود نے بتایا’’ میری اماّں ہیں۔
٭٭
دراصل ڈیموکریٹک پارٹی آف کُردستان نے دعوت دی تھی۔ عمان کی بجائے استنبول کا راستہ چُنا‘‘۔ مہمان کے استقبال میں تکلّف ہرگز نہیں تھا۔ ہاں البتہ ایک پُر جوش دلی اہتمام ضرور تھا۔ عبیر نے لگن سے مسگوف مچھلی کی عراقی ڈش بنائی۔ عراقی قبّہ بنایا۔ مسعود بہت سے تحائف لایا تھا۔ عبیر سادہ مزاج کی لڑکی تھی۔ مگر پھر بھی اُسے یہ بے حد اچھا لگا۔ کول واٹر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے اُس نے اتنا کہا’’مسعود میں نہیں کہوں گی کہ تم یہ سب کیوں لائے،مجھے اچھا لگا ہے۔ ‘‘ اور جب وہ دونوں قہوہ پیتے اور باتیں کرتے تھے۔ مسعود نے دُکھ سے بوجھل لمبی سانس کھنچ کر کہا تھا ’’مجھے تو عراق کی بربادیوں کے چرچے جیسے آسمانوں تک میں سُنائی دیتے ہیں ‘‘۔
عبیر نے دُکھ اور یاس میں لپٹی ایک لمبی آہ نکالی۔ ’’بہت کم ظرف دشمن ہے‘‘۔ ’’ دشمن ہمیشہ کم ظرف ہوتا ہے۔ ‘‘ اور پھر مسعود نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ وہ اُچھل سی پڑی۔ کہا تو صرف اتنا ہی تھا کہ عبیر یہ ممکن ہے تم اپنے بھائی مشعل کے پاس انگلینڈ چلی جاؤ۔ ’’ارے مر کر بھی نہ جاؤں اُس پوڈل کے دیس میں۔ مجھے تو ویسے ہی اُس دُم ہلاتے کُتے سے نفرت ہے۔ ’’چلو اگر یہ پسند نہیں تو شادی کر کے میرے ساتھ چلی چلو۔ ‘‘ ’’مسعود کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ مشعل کے پاس چلی جاؤں۔ شادی کر لوں اور تمہارے ساتھ چلی جاؤں۔ رہی شادی تو وہ میں نے ضرور تم سے کرنی ہے لیکن میڈیکل پورا کرنے پر۔ ‘‘
عبیر نے اُس کی آنکھوں میں بکھرے چہرے پر پھیلے بہت سے جذبات پڑھے۔ اُنھیں سمجھی اور بولی: ’’عراق کی لاکھوں بیٹیاں ہیں مسعود۔ میں اکیلی نہیں اور ہاں میں اپنا وطن چھوڑ کر کبھی کہیں نہیں جاؤں گی۔ ” ’’چلو چھوڑو اِن سب کو۔ آؤ تمہیں میں زوارہ پارک دکھا کر لاؤں۔ صدام کے چند خوبصورت کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے‘‘۔ مارچ کے پہلے ہفتے انٹر نیٹ پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اگر مسعود کے لہجے میں اضطراب سا تھا تو وہیں وہ بھی مضطرب تھی۔ ابھی چند دن پہلے میں نیو یارک ٹائمز کے مضامین دیکھ رہی تھی۔
امریکا کے پاس عراق کے لیے تحدید کا راستہ تو موجود ہے، صدام نے کبھی بھی کوئی کام ایران عراق جنگ ہو یا کویت پر حملہ پیشگی اجازت یا مرضی کے نہیں کیا۔ اسی لیے اسرائیل پر چڑھ دوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ ساری باتیں فضول ہیں۔ یہ بڑے لوگوں کے سیاسی ہتھکنڈے ہیں کہ صدام ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار بنا رہا ہے اور دنیا کو شدید خطرہ ہے۔ ساری بکواس جنگ کا طبل بجانے کی ہے۔ وجہ تو وہی پرانی تیل اور مشرقی وسطیٰ پر گرفت کی ہے، پر مصیبت تو یہ بھی ہے کہ اپنے غدار بھی یہی سوچتے ہیں کہ سامراجی عراقیوں کے حق میں بہتر ہوں گے۔ میرے تو اپنے ماموؤں کی یہی سوچ ہے۔ کسی اور کا رونا کیا روؤں۔
کبھی کبھی مسعود میں سوچتی ہوں کہ اس عراق اور خاص طور پر بغداد کے مقدر میں تباہیاں کیوں لکھ دی گئی ہیں۔ اور پھر تباہی کُوکتی ہوئی آ گئی تھی۔ ماضی کے ہلاکو خان نے اُس وقت کی عراقی فوج اور حکومت کے لوگوں کو خریدا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ آج کے ہلاکو خان نے بھی الجبوری، مشہدنی جیسے غدّار احمد شیلابی اور کنعان ماکیہ جیسے ضمیر فروش لوگ حاصل کر لیے تھے۔ بغداد ڈھے گیا اور عبیر کو آگ و بارود سے محفوظ رکھنے کے لیے گاڑی میں بٹھا دیا گیا تھا۔
وہ گاڑی میں بیٹھی، گرد و پیش کو دیکھا۔ کلیجہ تو جیسے پھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ اُمنڈتے آنسوؤں کی یلغار نے حملہ کیا۔ اُس نے بھی انھیں روکا نہیں، بہنے دیا۔ رخساروں پر لڑیوں کی صورت اُن کا بہاؤ۔ وقفے وقفے سے کسی چھوٹی سی سِسکی کی صورت میں اندرونی درد کا اظہار۔ ولددہ نے یہ سب دیکھا تھا۔ اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے اُس نے خود سے کہا تھا۔ آخر ہمارے پاس اپنے وطن کی بربادی پر نذرانہ پیش کرنے کیلئے اس کے علاوہ ہے ہی کیا؟‘‘ بغداد موصل روڈ پر چڑھنے سے پہلے ڈرائیور نے گاڑی شہر کی اندرونی چھوٹی چھوٹی سڑکوں سے گزاری تھی۔ بغداد کا مضافات ترقی پذیر شہروں جیسا ہی تھا، بے ترتیب اور بکھرا ہوا سا مگر اِس بے ترتیبی پر جنگ کا فضلہ جو رنگ جما رہا تھا،وہ وحشت ناک تھا۔
سریتہ الثانیہ تک 4 پوسٹیں بھگتانی پڑیں جو سب کی سب امریکی سپاہیوں کے قبضے میں تھیں۔ حفاظتی انتظامات۔ ریت کی بوریوں کی دیواریں جنھیں لوہے کی تاروں کے حصار میں قید کیا گیا تھا۔ پہلی چیک پوسٹ پر گاڑی روک لی گئی۔ امریکی فوج کی جی آئی بٹالین کے 4 جوانوں نے گاڑی کو اپنے حصار میں لے لیا۔ سواریوں کو اُترنے اور تلاشی دینے کو کہا گیا۔ کیسا المیہ! ہمارا وطن، اور ہم تلاشی دیں انھیں جو غاصب ہیں، جارح ہیں۔ بندوقوں اور گولیوں کے سروں پر تیرتے یہاں آئے ہیں۔ رحم پروردگار رحم۔ اُس کے بڑے ماموں نے اسپیشل اجازت نامہ بغداد زون کے چیف ایڈمنسٹریٹر کے ذاتی دستخطوں سے دیا تھا کہ زیادہ پوچھ پڑتال نہ کی جائے مگر پھر بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔
عراقی پھولوں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ اُس نے سوچا،کہیں کہیں ایسی ہی کسی دیوار پر پیلے پھولوں کی بیل بچھی نظر آتی تھی۔ تیسری چیک پوسٹ پر عبیر کا نام لکھتے ہوئے پوچھا گیا۔ ’’ اس کا مطلب؟‘‘ عبیر نے تیکھی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا : ’’تمہارا اِس سے مطلب؟ مگر ولددہ نے بیٹی کو ڈپٹا اور اُن سے مخاطب ہوئی۔ ‘‘ ’’یہ عربی زبان کا لفظ ہے زعفران کی خوشبو اور کیسر کا رنگ مل جائے تواُسے عبیر کہتے ہیں۔ ‘‘ قدرے عمر رسیدہ کالا امریکی ہنسا اور بولا : ’’تمہاری بیٹی اپنے نام کا عکس ہے۔ ‘‘
یہ چھٹی چیک پوسٹ تھی۔ کیمو فلاج یونیفارم میں آہنی ٹوپیوں کی پیشانیوں پر جڑی سپاٹ لائٹوں سے سروں کو ڈھانپے چار ایک جیسی قدو قامت والے لڑکے گاڑی کے گرد کھڑے ہو گئے تھے۔
ڈِگی چیک ہوئی۔ ولددہ، عبیر اور نباء کو نکال باہر کھڑا کیا۔ عبیر نے سیاہ عبایا پہن رکھا تھا۔ ہُڈ میں سے صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ جھیل جیسی آنکھیں جو حُزن ویاس کے پانیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک نے رعونت سے کہا، چہرہ دکھاؤ، نقاب نیچے کرو۔ ’’کیوں کروں، کیوں کروں ؟‘‘ اُس نے ترشی سے کہا۔ ولددہ نے ہاتھ دبایا اور نوجوان کی طرف متوجہ ہوئی، لڑکیاں پردہ کرتی ہیں ہماری سوسائٹی میں۔ ’’دراصل ہمیں احکامات کی پیروی کرنا ہوتی ہے۔ تلاشی کا حکم ہے۔ ‘‘
اُس نے ایک جھٹکے سے چہرہ ننگا کرتے ہوئے مغلظّات کا طوفان اٹھا دیا۔ چاروں گُم سُم اُسے دیکھتے اور اُس کی گالیاں سُنتے تھے۔ ایسا چاند چہرہ کہ جس نے انھیں بٹر بٹر تکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کارروائی ضرور ہوئی مگر نرم انداز میں۔ گاڑی کا نمبر نوٹ ہوا۔ جہاں سے آئے تھے اور جہاں جانا تھا درج ہوا۔ ’’کاش میرے پاس ہینڈ گرینیڈ بم ہوتے تو میں اِن کے چیتھڑے اڑا دیتی۔ ‘‘ اُس نے دوبارہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ مصطفیٰ البرزانی کی نگاہیں کب سے عبیر پر جمی تھیں۔ اُس کی شکستگی اور دل گرفتگی پر انھوں نے پھاہا رکھنا چاہا تھا۔
’’عبیر ہم امید کر سکتے ہیں کہ شاید عراق کے ساتھ جاپان والی پالیسی اپنائی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ عراق کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ ‘‘ وہ چند لمحوں تک اپنے دادا کو دیکھتی رہی۔ پھر بولی ’’جدّی ایسا نہیں ہو گا۔ کِسی خوش فہمی میں مت رہیے۔ دونوں کے درمیان اب طویل خاموشی تھی۔
٭٭
اُس نے ٹی وی آن کیا۔ منظر نے اُسے ٹھٹھرا کر کھڑے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ صدام کا نیا عالی شان محل گورے کالے امریکی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندا جا رہا تھا۔ پہلے مرکزی گیٹ سے اندر کمروں کی آرایش و زیبایش فرنیچر، زینوں کی ریلنگ تک شاہانہ کروّفر کے پٹارے کھلے پڑے تھے۔ ’’اُف‘‘ پل بھر کے لیے اُس نے آنکھیں بند کیں۔ کھولیں اور کہا ’’کاش تم نے یہ سب غریبوں پر خرچ کیا ہوتا۔ ‘‘
صدام کی دوسرے نمبر کی بیٹی راغدہ، اس کی چچی زُخرف کی سکول میں کلاس فیلو اور دوست تھی۔ رعنا سے بھی اُس کا پیار تھا۔ دونوں بیٹیوں کو اپنے بھانجوں حسین کمال اور صدام کمال سے طلاق دلوا کر دامادوں کو موت کے گھاٹ اُتروا کر صدام نے عجیب بربریت کا ثبوت دیا تھا۔ اُن دنوں چچی فلوریڈا سے بغداد آئی ہوئی تھیں۔ تعزیت کے لیے وہ اِسی نئے محل گئی تھیں۔ انھوں نے تو عبیر سے بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا۔
’’توبہ کریں۔ ‘‘عبیر نے کہا۔ اُس کے ہاں کسی شوق کا اظہار نہیں تھا۔ واپسی پر محل کی شان و شوکت کا جو بیان تھا، اُسے سُنتے ہوئے عبیر کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔ ’’جب قارون کے جیسے محلوں میں رہنے کا شوق ہو اور زر کثیر سے کھدائیاں کروا کے نمونے حاصل کیے جائیں تو پھر محل منارے شاندار تو ہونے ہی ہیں۔ ‘‘ اُس نے ٹی وی بند کر دیا۔ کھڑکی سے باہر دیکھا، آسمان ابر آلود اور ہواؤں میں تیزی تھی۔ درختوں کا جھُلار شور مچاتا تھا۔ اُس نے تپائی پر پانی کا خالی گلاس رکھا تھا۔ جدی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ انھیں سُوپ پلا کر کمبل سے ڈھانپ کر وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے کمرے میں آئی تھی۔
اُس کے سرہانے سعدی یوسف کی منتخب نظموں کی کتاب پڑی تھی۔ اُس نے صفحے کھولے اور یونہی پھولا پھرولی کرتی رہی۔ پھر نظّار قبانی کی نظم یاد آ گئی: صبح خبریں سُننا بہت مشکل ہے دشمن نے ہماری سرحد نہیں پھلانگی وہ تو چیونٹی کی طرح ہماری کمزوری کے راستے آیا ہے قاسم الرحیم البرزانی کی آمد آج کل متوقع تھی۔ ’’کاش کوئی اچھی خبر ہو‘‘۔ اپنے آپ سے کہتی وہ لیٹ گئی تھی۔ دماغ میں کِسی انگریزی شاعر کا ایک سٹینزا شور مچانے لگا جس میں لوگوں کی جگہ اُس نے عراق کو جوڑ لیا تھا۔
Oh, God of mercy! When? اگلی لائنوں کو چھوڑ کر کتنی دیر تک وہ When Whenکی گردان کرتی رہی۔ آنکھوں کے کونوں سے بہتے آنسوؤں کو پونچھتی رہی۔ پھر ایسے ہی گُچھو مُچھو سی نیم دراز ہو گئی۔ جانے کب آنکھ لگی تھی۔
٭٭
اُس شام آسمان ابر آلود سا تھا۔ مغرب سے ذرا پہلے ہلکی سی بوندا باندی بھی ہوئی۔ آخری چیک پوسٹ کے چاروں نوجوان اپنے خیمے میں سیریا کی شہد کی آمیزش سے تیار کردہ خاص شراب رساطون پی رہے تھے جو آج ہی کسی عراقی نے اُن کی فرمایش پر انھیں لا کر دی تھی۔ پیتے ہوئے انھوں نے ’’نبیذ‘‘ کے بارے میں رائے دی ’’یہ تو نہایت فضول ہے۔ ایسے ہی اِس کا گڈا باندھ رکھا ہے۔ ‘‘ نشے میں مخمور ہوئے تواپنی اپنی محبوباؤں اور اپنے بیوی بچے کی یاد میں آہیں بھرتے ہوئے عراقیوں کو گالیاں نکالنی شروع کیں کہ اِن جاہل اجڈ کم بختوں کو ڈکٹیٹر صدام سے نجات دلانے اور ان کے اسلامی فاشزم کو جمہوریت کا مزہ چکھانے کے لیے انھیں اپنے خوبصورت وطن اور آسایشوں سے بھری زندگی کو چھوڑ کر اِن کالے پانیوں میں آنا پڑا۔
بس ایسے ہی لمحوں میں وہ بھونرا سی آنکھوں اور زعفران کی خوشبو والی عبیر انھیں یاد آئی تھی۔ فلک شگاف سا نعرہ لگایا۔ رجسٹر کھول کر پتا نکالا، جیپ میں بیٹھے اور چل پڑے۔ ایک نے یہ شاندار سی حویلی دن کی روشنی میں پٹرولنگ کرتے ہوئے دیکھی تھی۔ بلند و بالا چوبی دروازہ بند تھا۔ دستک پر ملازم نے چوبی کھڑکی کھول دی کہ بغداد سے قاسم الرحیم البرزانی کی آمد متوقع تھی۔ پہلا نشانہ ادھیڑ عمر ملازم تھا۔ چیتے جیسی پھرتی سے انھوں نے سب کمروں کو اپنے حصار میں لیا۔
مصطفیٰ البرزانی کو پَل نہیں لگایا،بیڈ پر غنودگی میں ہی سُلا دیا۔ دفعتاً وہ ہڑبڑا کر اُٹھی۔ کمرا اُس کی ماں اور بہن کی چیخوں سے گونج رہا تھا۔ چند لمحوں کیلئے اُسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے یا بغداد کی گلیوں بازاروں میں ناچتا تھرکتا منظر اُس کے گھر آگیا ہے۔
کمرے میں 4 فوجی رائفلیں تانے کھڑے تھے۔ اُس کی ماں گھبرائی ہوئی خوفزدہ اونچے اونچے انگریزی میں کہتی تھی کہ وہ کیوں اُن کے گھر آئے ہیں ؟ اُن کا یہاں کیا کام؟
ابھی تو بمشکل اُس کی آنکھوں نے اس منظر کی حقیقت کو قبول کیا ہی تھا کہ اس سے بھی کہیں ظالمانہ، سفاکانہ اگلا منظر سامنے آگیا۔ 2 ہاتھوں نے آگے بڑھ کر دونوں کو نشانے پر رکھا اور پَل بھر میں وہاں خون کے فوارے تھے، چیخیں تھیں۔ دھڑام سے گرتے وجود تھے۔ وہ تو کسی کو سنبھالنے آگے بھی نہ بڑھ سکی تھی۔ اب قیامت کبریٰ برپا ہوئی تھی۔ زعفران کی خوشبو اُڑی اورکیسر کا رنگ بے رنگ ہوا۔ پر سامرہ کا آسمان ویسے ہی کھڑا تھا، ٹوٹ کر نہیں گرا۔ وہ جو تین تھے مستی میں تھے اور چوتھا جو اِس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو سکا تھا، اُول فول بکتا تھا۔ اُونچے اُونچے لینڈن اور ولسن کو کُتیا کے پلّے کہتے ڈکراتا تھا۔ آخراِس لینڈن حرامزادے کو ایسی دلیری دکھانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
جانتا ہوں اس سورمے کو۔ ذرا سا کھٹکا ہوا اور یہ سب سے پہلے بنکر میں کودتا ہے۔ عورت دلاویز بھی تھی اور بھری بھری بھی۔ لڑکی بھی کوئی چُوچی سی نہ تھی۔ گلاب کا پھول نہ سہی پر موسم بہار کی بند کلی تو تھی۔ لینڈن نے خباثت بھری آنکھوں سے اُسے دیکھا اور کہا،رونا کِس بات کا؟ پڑی ہے وہ۔ لاش ہے تو کیا ہوا؟جاؤ جُت جاؤ۔ اُس نے نفرت سے اُس کی طرف تھُوکا اور غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جسم کی بھوک مٹی تو پیٹ کی بھوک چمکی۔ 2 کچن میں گئے۔ فریج میں سینتی ہوئی مرغیاں باہر نکلیں اور آگ پر بھُننے لگیں۔
وہ تینوں کچن میں بیٹھے روسٹ ٹانگیں کھاتے تھے۔ صحن میں زعفران کی خوشبو میں بسا اور دودھ میں ٹپکے کیسر کے قطرے میں گھُلے رنگ جیسا وجود مٹی کے تیل اور آگ کے شعلوں میں جلتا تھا۔ ہواؤں کی چنگھاڑ اور وحشت حویلی کے درو دیوار سے ٹکراتی، بین کرتی اور اونچے اونچے کر لاتی تھی چوتھا وزنی بوٹوں کے ساتھ صحن میں چکر کاٹتا اُنھیں گالیاں بکتا اور موبائل پرسارے منظروں کو محفوظ کرتا پھرتا تھا۔ اُن میں سے ایک نے بوٹی کے بڑے سے ٹکڑے کو دانتوں سے نوچتے کھسوٹتے کہا :
مجھے جوفیالز پر ترس آ رہا ہے۔ بیچارہ پیاسا رہ گیا نا۔ اُس نے سنا اور چنگھاڑا پر اس کی چنگھاڑ اُن کیلئے مطلقاََ تشویش انگیز نہ تھی۔ ’’ پور فیلو‘‘۔ انھوں نے اٹھتے ہوئے ہاتھ جھاڑے اور باہر صحن میں آئے۔ قدرے سرخ آگ کچھ مدھم پڑ گئی تھی اور وہاں بہت خوفناک منظر تھا کہ جیسے کسی مصور نے سیاہ اور قدرے سُرخ گرینائٹ سے ایک مجسمہ تراش کر وہاں لٹا دیا ہو۔ وہ تینوں اس کے گرد کھڑے تھوڑی دیر دیکھتے رہے۔ پھر انھوں نے ہوائی فائر کیے اور رقص کرتے ہوئے ملٹری ٹریننگ کیمپوں میں گایا جانے والا بڑا پاپولر گیت گایا:
This is my Rifle
This is my Gun
This is for Killing
This is for fun
فتح کے پھریرے لہراتے وہ ٹھکانے پہنچے۔ جب اُن کے خراٹے گونجنے لگے۔ تب وہ جوفیالز گاڑی میں بیٹھا اور بغداد کے لیے روانہ ہوا۔ گرین زون صدام کا محل امریکی ہیڈکوارٹر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ کھڑی رکاوٹوں سے گزرتا، تعارف اور شناخت کرواتا انچارج سیکورٹی کے پاس پہنچا۔ اس وقت وہاں موجود کرنل رینک کا عراقی فوجی افسرتھا۔ اُسے روکنے کی ہلکی پھلکی سی کوشش ضرور ہوئی۔ وہ جنرل کیلئے ضروری پیغام کا کہتے ہوئے آگے بڑھ سکتا تھا۔ مگر وہ رُکا تھا اوراس نے اِس کیس کا سارا کچا چٹھا اُسے سُنا دیا اور تصویر یں بھی دکھا دیں۔ کرنل ابراہیم سعد خلیلی دم بخود تھا۔ عراق کی ممتاز اور سر کردہ فیملی وحشت اور ننگی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔
اب امریکن فوجی افسر ہر صورت اِس گینگ ریپ اور قتل کی لرزہ خیز واردات کو غیر موثر بنانے پر تُلے تھے۔ احمدشیلابی کی طفیلی حکومت کا ٹولہ مجرموں کے کورٹ مارشل پر مُصر تھا۔ گرینڈ جیوری نے کیمپ لبرٹی میں کیس کی سماعت میں کہا کہ آخری فیصلہ امریکی جنرل کرے گا کہ کورٹ مارشل ہونا چاہیے یا نہیں۔
صفائی کے وکیلوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کیس مضبوط کر دیا تھا کہ بے چارے ملزمان دہشت گردی کی مریضانہ حالت میں تھے۔ ان کی بٹالین کے 17 ساتھی عراقی مزاحمت کاروں کے خود کش حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ تو نارمل اخلاق باختہ جنسی مجرموں کی فہرست میں ہی نہیں آتے ہیں۔ اب قاسم الرحیم البرزانی مسعود بار زنجی، مشعل البرزانی اور عبیر کے ماموؤں کے پاس اپنی ساری توانائیاں القاعدہ کی جھولی میں جھونکنے کے سوا کیا چارۂ کار تھا؟
٭٭٭
ماخذ: اردو ڈائجیسٹ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید