ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
مالکن
قاضی عبد الستار
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتا پور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کر دیا۔ صدیوں کا بنا بنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہو گئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آ جاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جا سکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نو سکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتا کر آدھی رات کو رخصت کر دیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہو گئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔
لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیا نکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گئے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اتر گئے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھا لاؤں اگر سرکار کی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلا دینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی،
’’تم کیسی باتیں کرنے لگے ہو چودھری گلاب۔ خدا نہ کرے میں اپنی زندگی میں حویلی کے باہر پاؤں نکالوں اور مرنے والے کے نام پر سیاہی لگاؤں۔ کوئی سو برس پہلے، یہیں جہاں اب حویلی کھڑی ہے۔ یہاں رونق پور کا قلعہ تھا۔ اسی گھاگھرا کی موجوں کی طرح انگریزوں کی توپیں آئی تھیں۔ ان سے آگ برسی تھی اور قلعہ جل کر خاک ہو گیا تھا تو کیا ہم بھاگ گئے تھے؟ ہم مٹ گئے تھے۔ سو ہم آج پھر مٹ جائیں گے۔‘‘ چودھری گلاب کھڑے رہے۔ مالکن کے پیچوان کی کڑکڑاہٹ سنتے رہے۔
ہندوستان تقسیم ہو چکا تھا۔ میر محمد علی بیگ مر چکے تھے۔ میر محمد علی بیگ کی بیوہ پر، رونق پور کی ’’مالکن‘‘ پر کسٹوڈین کی مصیبت نازل ہو چکی تھی۔ میر محمد علی بیگ نے نقدی میں چھوڑا ہی کیا تھا؟ اور انھیں کچھ چھوڑنے کو پڑی ہی کیا تھی! نہ آل نہ اولاد ایک میاں بیوی اور اتنی بڑی جائداد۔ مالکن نے گہنے پاتے بیچ کر حکومت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میر محمد علی بیگ پاکستان نہیں قبرستان گئے ہیں۔ برسوں کی مسلسل اور لکھ لٹ یقین دہانی کے بعد ایک رات چودھری گلاب الہ آباد سے یہ پروانہ لائے کہ حکومت نے مان لیا ہے کہ واقعی میر محمد علی بیگ پاکستان نہیں قبرستان ہی گئے ہیں۔ وہ رات عجیب رات تھی۔ مالکن ساری رات جائے نماز پر بیٹھی رہیں۔ ساری رات شکرانے کی نمازیں پڑھتی رہیں۔ عورتیں ساری رات حقے کی چلمیں بھرتی رہیں اور چلمیں سلگ سلگ کر جلتی رہیں اور صبح ہوتے ہی حویلی کے سامنے پٹواری نے ڈگی پیٹ کر زمینداری کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
پھر تو جیسے لٹس مچ گئی۔ دور دور تک پھیلی ہوئی زمینیں اور باغ درخت سب کھٹیا بتاشے کی طرح بٹ گئے جیسے بندوق کا فائر ہوتے ہی پرندوں کے غول اڑ جائیں۔ مگر مالکن نے ہمت نہ ہاری۔ چودھری گلاب کو ہدایتیں دے دے کر ان گنت مقدمے لڑاتی رہیں۔ جیسے حضرت محل نے غدر میں فوجیں لڑائی تھیں۔ شکست تو حضرت محل کی طرح رونق پور کی مالکن کو بھی ہوئی۔ لیکن حضرت محل کی طرح رونق پور کی مالکن نے شکست مانی نہیں۔ مگر کب تک؟ ایک ایک کر کے آدمی بکھرنے لگے۔ عورتیں نکلنے لگیں۔ آخر آخر چودھری گلاب نے بھی آنا جانا کم کر دیا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے تیرے میرے مقدمے لڑانے لگے۔ ہولی دیوالی پر آتے۔ پاؤ آدھ سیر مٹھائی کا دونا نذر میں بھیجتے اور اس طرح وضعداری کو نبھائے جاتے۔ مقدمے جونک کی طرح لگ گئے اور مالکن کا ایک ایک قطرہ چوس لیا۔ اندر سے باہر تک سب اجڑ گیا۔ گائے، بیل، شامیانے، چھولداریاں، جاجمیں، قالین، دیغ، پتیلے، کرسی، میزیں، پلنگ پیڑھی سب باورچی خانے کو زندہ رکھنے کے لیے جل کر مر گئے۔
پھر ایک دن جب وہ نماز پڑھ کر اٹھیں، مونج کی پٹاری کے پاندان سے کھجور کی گٹھلیوں کے دو ڈلے اور پتی کی تمباکو کا پھنکا لگایا اور کھنڈر کے اس حصے کی طرف چلیں جو کسی زمانے میں باورچی خانہ کہلاتا تھا۔ بغیر دروازوں کے لمبے چوڑے کمرے کے کونے میں لڑھکی ہوئی مٹی کی ہانڈیوں کے منھ دیکھے جو ان کے پیٹ کی طرح خالی تھے۔ گھٹنوں پر ہتھیلیاں جما کر آہستہ آہستہ جھکتی ہوئی وہیں زمین پر بیٹھ گئیں، جیسے جواری سب کچھ ہار کر بیٹھ رہے۔ ان کی لنگڑاتی ہوئی نگاہیں اس سنسان ویران لق و دق کھنڈر میں رینگتی رہیں، جس کی چھتیں گھر چکی تھیں، دھنیاں جل چکی تھیں دروازے بک چکے تھے اور جس کے در و دیوار خدمت گزار انسانوں کی مودب پرچھائیوں کے رتجگوں کو ترستے تھے اور شاید ترستے ترستے بھول چکے تھے۔ ان کی بھوکی آنکھوں سے دو میلے میلے آنسو گرے اور پیوند لگے موٹی تنزیب کے کسمیلے دوپٹے میں کھو گئے۔ پھر انہوں نے ایک انجانی آہٹ محسوس کی اور کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ کانپنے لگیں لیکن کانوں سے ٹکراتی ہوئی اس مقدس آواز کو سنتی رہیں جس سے مامتا کا رس ٹپک رہا تھا۔
’’زیب النساء بیگم۔۔۔ تم ان اشراف زادوں کی اولاد ہو جن کی تلوار نے سلطنتوں کی تقدیریں لکھی ہیں اور تخت و تاج کے فیصلے کیے ہیں۔ تم ان درویشوں کی بیٹی ہو جن کے قل نے قرآن شریف نقل کیے ہیں اور پیٹ بھرا ہے۔ تم تلوار نہیں ہلا سکتیں۔۔۔ تم قلم نہیں اٹھا سکتیں۔۔۔ لیکن تم سوئی تو چلا سکتی ہو۔ تمہارے ہاتھ کے انگرکھے پہن کر میں نے ’’چھتر منزل کلب‘‘ کی میموں کے ساتھ ڈنر اڑائے ہیں اور لنچ کھائے ہیں۔۔۔ کیا کہا تم نے؟ اب انگرکھے کون پہنتا ہے۔۔۔؟ اب اگر انگرکھے نہیں پہنتا تو کوئی نہ کوئی کرتے ضرور پہنتا ہو گا۔ تم کو یاد ہے؟ میں نے لکھنو سے کٹاؤ کے جو کرتے سلوائے تھے ان کی سلائی اس سستے زمانے میں کیا تھی۔۔۔؟ پانچ روپیہ فی کرتا۔۔۔ تم ویسا کرتا دو دن میں سل سکتی ہو۔‘‘
جب وہ اٹھیں تو ان کی بے پناہ بے قراری کو قرار آ چکا تھا۔ جیسے ایک بھیانک خواب دیکھ کر جاگ اٹھی ہوں۔ جیسے سارے دن کی سخت محنت کے بعد ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے خوب دیر تک نہا کر نکلی ہوں۔ وہ بڑے حوصلے سے قدم اٹھا رہی تھیں کہ اس طرف سے آواز آئی، جہاں کبھی ڈیوڑھی ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے دوپٹے کو اس طرح بنا کر اوڑھا کہ تمام پیوند ادھر ادھر ہو گئے اور چٹیاں کچے آنگن میں آہستہ آہستہ رکھتی ہوئی اس ویران پکھے کے پاس آ کر کھڑی ہوئیں جو کبھی ڈیوڑھی کے گرانڈیل منقش دروازے کا سہارا تھا۔
’’میں ہوں مالکن۔۔۔ گلاب لال۔‘‘
’’اچھے ہو۔۔۔ چودھری گلاب؟‘‘
’’مالکن کی کرپا ہے۔۔۔‘‘
’’کیسے آ گئے؟‘‘
’’ایک سندیسہ آیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پاکستان سے خاں صاحب آئے ہیں۔ وہ جو بڑی مسجد کے پچھواڑے میں رہتے تھے۔‘‘
’’ہاں ہاں منے خاں۔۔۔ جن کا بھتیجہ ہمارے یہاں سپاہیوں میں تھا۔‘‘
’’جی ہاں۔ جی ہاں وہی۔ ان کے تو بڑے رتبے ہیں پاکستان میں۔ سب لڑکے ان کے بڑی بڑی جگہوں پر ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ موٹر پر آئے ہیں وہ لکھنو سے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بھائی افضل مرزا صاحب جو آج کل کراچی میں بڑے کمشنر ہیں انھوں نے کہلا بھیجا ہے کہ آپ چلی آویں۔‘‘
’’افضل مرزا میرا بھائی تھوڑی ہے موا۔۔۔ میرے ایک رشتے کے چچا کا بیٹا ہے۔‘‘
’’تو انہوں نے آپ کو بلایا ہے۔۔۔ بلکہ خاں صاحب تو کہتے تھے کہ ان کو پاسپورٹ بھی انہوں نے اس لیے بڑی دوڑ دھوپ کر کے دلایا ہے کہ وہ آپ کو اپنے ساتھ لے آویں۔‘‘
’’مجھ کم بختی کی ماری پر اب ایسے پیمبری وقت پڑ گئے ہیں کہ موئے ایروں غیروں کے ساتھ دوسرے ملک سدھار جاؤں گی۔ اس سے کہنا کہ اپنے ہو توں سوتوں کو سمیٹ لے جائیے اپنے ساتھ پاکستان کو۔۔۔ مجھے تو اب ایک ہی جگہ جانا لکھا ہے جب تک حکم نہیں آتا تبھی تک بیٹھی ہوں۔۔۔‘‘
’’وہ کہہ رہے تھے۔‘‘
’’گولی مارو چودھری گلاب۔۔۔ کہنا سننا کا ہے کا۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔ بہتر ہے۔‘‘
’’ہاں میں تم سے ایک بات کہنے والی تھی۔‘‘
’’حکم۔‘‘
’’یہاں رونق پور میں یا۔۔ کسی اور گاؤں میں کوئی۔۔۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’میں نے کہا سرکار میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’کوئی کرتے پہنتا ہے؟‘‘
مالکن نے ایسی بھرائی ہوئی۔۔۔ چیخ مارتی ہوئی آواز میں کہا جیسے کوئی ماں اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کی خبر سن کر پھٹ پڑی ہو۔ بوڑھا چودھری گلاب اس عجیب و غریب سوال کی تہ تک پہنچ چکا تھا۔
’’کرتے؟‘‘
’’ہاں تم سے کیا چھپانا چودھری گلاب۔۔۔ تم تو اس حویلی کے تنکے تنکے سے واقف ہو، تم تو حویلی کے دائی گیری کر چکے ہو اور دائی سے کیا پیٹ چرانا۔ آدمی حق سب چلے گئے۔۔۔ عورتیں ادھر ادھر ہو گئیں۔ اتنے بڑے گھر میں اکیلی بیٹھی کوے ہنکایا کرتی ہوں۔ رات تو روتے گزر جاتی ہے مگر یہ پہاڑ ایسے دن چھاتی پر سوار رہتے ہیں۔ ٹالے نہیں ٹلتے ہیں۔ کوئی کرتا ارتا ہوتا تو سینے پرونے میں دل اٹک جاتا۔‘‘
حویلی کے بوڑھے راز دار کے تخیل کی آنکھیں بھوکی مالکن کو بلکتا ہوا دیکھ رہی تھیں اور اس کے کانوں میں بے آواز سسکیاں زہر کی بوندیں ٹپکا رہی تھیں۔
’’تم کھڑے کھڑے تھک گئے ہو گے چودھری گلاب۔‘‘
’’نہیں مالکن۔۔۔ میں شام تک آ جاؤں گا۔‘‘
’’مگر دیکھو۔ کسی ایسے ویسے کا کرتا نہ لے آنا میرے پاس۔‘‘
’’نہیں مالکن۔‘‘
’’میرا نام نہ لینا کسی سے۔‘‘
’’یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے مالکن؟ میں کوئی آج حویلی میں نوکر ہوا ہوں۔‘‘
سڑک کے کنارے املی کے پیڑ کی جڑ سے چودھری گلاب نے اپنا ٹٹو کھولا اور سوار ہو کر بغیر خاں صاحب سے ملے ہوئے تھان گاؤں چلے گئے۔ گھر پہنچ کر دیر تک بیٹھک کے تخت پر بیٹھے سلفہ گڑگڑاتے رہے۔ جب سورج سرپر آ گیا تب چودھرائن نے دروازے سے جھانک کر ’’چوکے‘‘ کے تیار ہونے کی خبر دی۔ وہ اونگھتے ہوئے اٹھے۔ آنگن میں نیم کے پیڑ کے نیچے بنے ہوئے پکے کنویں کی چبوترا پر کھڑے ہو کر جھوٹ موٹ نہائے اور سر جھکائے چوکے پر بیٹھ گئے۔ چودھرائن روٹی سینک سینک کر رکھتی جا رہی تھیں۔ مگر وہاں پہلا نوالہ ہی ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔
’’کا تمرا کچھ جی ماندہ ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تو تھوڑا بہت تو کھائے لیو۔‘‘
’’تمرے پاس کتنے روپے ہیں۔‘‘
’’روپے؟ مورے پاس اپنی ایک چھدام نائیں ہے بڑے بھیا کے کچھ دام دھرے ہیں۔‘‘
’’کتنے ہیں بھلا۔‘‘
’’ہیں کوئی دس گھاٹ پچاس۔‘‘
’’لے آؤ۔‘‘
’’ابھیں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پہلے روٹی تو کھائے لیو۔‘‘
’’پہلے لے آؤ۔‘‘
چودھری گلاب نے مارکین کی تھیلی سے چالیس روپے کے کاغذ نکال کر گنے اور تھالی چوم کر کھڑے ہو گئے۔ چودھرائن پہلے آنکھیں پھاڑے دیکھا کیں پھر بکنے جھکنے لگیں۔ لیکن چودھری گلاب نے ان کی بکواس پر کان نہ دھرے۔ الگنی سے اپنا کرتا اتار کر پہنا۔ دھوتی بنا کر باندھی، ٹوپی سر پر اور انگوچھا کندھے پر رکھ کر چلے آئے۔ گھاس کھاتے ہوئے ٹٹو کے منہ میں لگام چڑھا دی۔ گھسیٹتے ہوئے تھان کے باہر لائے اور سوار ہو گئے۔ بھوکا ٹٹو اپنی چال بھر چل رہا تھا لیکن چودھری گلاب کے ذہن میں آٹا پیسنے والے کئی انجن دھڑ دھڑا رہے تھے۔ چودھری گلاب میر محمد علی بیگ کے زمانے میں منشی تھے۔ لیکن ان کے مرتے ہی جب حویلی اجڑنے لگی اور بڑے چھوٹے مختار شہد کی مکھیوں کی طرح دوسرے باغوں کی تلاش میں حویلی سے اڑ گئے تب مالکن نے اپنے ایک ایک تنکے کی باقاعدہ دیکھ بھال چودھری گلاب کے سپرد کر دی تھی۔ چودھری ان لوگوں میں تھے جو حال کی جیب سے آنے والے برے دنوں کا منہ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کاٹ کر رکھ لیتے تھے۔ لیکن لڑکوں کی پڑھائی لکھائی اور شادی بیاہ کے جھمیلوں میں سب جمع جتھا پر لگا کر اڑ گیا۔
ان کا بڑا لڑکا تحصیل میں اور دوسرا نہر میں چپراسی تھا۔ دونوں خود تنگی ترشی سے بسر کرتے تھے۔ دونوں مڈل پاس تھے لیکن چودھری کی لاکھ دوڑ دھوپ کے باوجود نہ کوئی پٹواری ہو سکا اور نہ پترول۔ مجبوراً انھوں نے چپراسیوں میں بھرتی کرا دیا۔ اب وہ آئے دن منھ کھولے ہاتھ لپارے ان کے سامنے کھڑے رہتے۔ لیکن چودھری خود ہی کھکھ بیٹھے تھے ان کا بھرنا کہاں سے بھرتے۔ اس وقت گھر والی کی بات سے وہ چکر میں پڑ گئے۔ بڑکو اتنا گرہست اور سگھڑ کب سے ہو گیا۔ یہ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ وہ یہی سب کچھ الا بلا سوچتے ہوئے رونق پور کے گنج میں آ گئے۔ بزازے کی دوکان پر انہوں نے اپنا ٹٹو روکا اور اتر کر بہت بڑھیا والی تنزیب کے تھان پرکھنے لگے۔ دو کرتوں کا کپڑا بغل میں مارکر وہ سیدھے حویلی پہنچے۔
دل ہی دل میں اپنے باپ منشی چھمن لال کی پڑھائی ہوئی ساری فارسی کا آموختہ پڑھ کر مالکن سے مخاطب ہوئے اور ان کو یقین دلایا کہ پوری راز داری کے ساتھ وہ چیت پور کے ٹھاکر گھنشیام سنگھ سے کرتوں کا کپڑا لے آئے ہیں۔ یہ کہتے کہتے ان کا حلق سوکھ گیا۔ کانٹے سے پڑنے لگے۔ ساری جان پسینے میں نہا گئی۔ ان کی مٹھی میں دبے ہوئے پچیس روپوں کی پڑیا بھیگ گئی۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ کر کیا بہانہ بنا کر یہ پچیس روپے مالکن کے ہاتھ میں پکڑا دیں۔ آخر وہ ہار کر اپنے لکڑی کے پیروں پر اپنے وجود کا منوں بار گھسیٹتے ہوئے رونق پور کے بنئے کی دوکان پر آ گئے۔ رام پرشاد گدی پر بیٹھا گاہکوں کو پڑیاں بانٹ رہا تا۔ سلام دُعا کے بعد انہوں نے مالکن کا حساب مانگا تو پتہ چلا کہ وہ سو سے اوپر ہے۔ اسی لیے تو رام پرشاد نے ان کا سودا بند کر دیا تھا۔ اسی لیے تو مالکن کا باورچی خانہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ وہ رام پرشاد کی دوکان کے تختے پر بیٹھے ہوئے اپنے پچیس روپوں کی پڑیا کو نہارتے رہے۔ بیٹھے رہے۔ پھر اٹھ کر اپنے ٹٹو پر سوار ہو گئے جیسے لڑائی میں ہار مان لی ہو۔
مالکن دیر تک کپڑا لیے جھنگا کھٹولے پر پڑی رہیں۔ انھیں پہلی بار عرفان ہوا تھا کہ کرتا سینے کے لیے صرف ہاتھ کے فن اور آنکھوں کی روشنی ہی کی نہیں سوئی اور تاگے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جتنے میں سوئی تاگا آتا ہے اتنے میں ایک وقت کے آلو اور دو وقت کے چنے بھی آتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد خدا نے ان کی سن لی اور ان کی ناؤن ناخن کاٹنے آ گئی۔ وہ ہڑبڑا کر اپنے خیالوں کی کچی نیند سے چونک پڑیں اور ناؤن سے ایسے لہجے میں مخاطب ہوئیں جیسے لہجے میں اگر وہ اپنے سنہرے دنوں میں مخاطب ہوتیں تو وہ سارے رونق پور میں اپنی خوش نصیبی کا ڈھنڈھورا پیٹ آتی۔
’’ارے اے قادر کی دھِی۔‘‘
’’جی، بی بی۔‘‘
’’میرا ایک کام کرو گی اتنے وقت۔‘‘
’’بتائیے۔‘‘
’’ذرا لپکی ہوئی رام پرشاد کی دوکان چلی جاؤ اور ایک مہین سوئی اور چھوٹی پیچک لے آؤ۔ لیکن اس حرام زادے سے میرا نام نہ لینا۔ نہیں تو ٹکا سا جواب دے دے گا۔ کل میں نے دو پیسے کا نمک، خیر چھوڑ۔۔۔ تم ذرا چلی جاؤ۔‘‘
وہ اپنی داہنی کنپٹی پر لیکھ ٹٹولتی ہوئی آنگن پار کرنے لگی۔ مالکن بیٹھی سوچتی رہیں، معلوم نہیں کیا سوچتی رہیں۔ جب ناؤن سوئی تاگے لے آئی تو اسی سے اس کی قینچی منگوائی اور کرتے بیونتنے بیٹھ گئیں۔ قینچی چلاتے چلاتے انھیں خیال آیا کہ چودھری چیت پور کے ٹھاکر کی ناپ تو لائے ہی نہیں کرتا کیسے کاٹا جائے۔ وہ بجھ کر رہ گئیں۔ تھان گاؤں اچھا خاصہ تین چار میل دور تھا۔ اب ایسا آدمی اس وقت کہاں جڑتا جو اسی وقت چودھری کو بلا کر کہتا۔ پھر انہوں نے دیوار پر چڑھتی ہوئی دھوپ دیکھی اور یاد کیا کہ آج منگل ہے اور منگل کو رونق پور کی بازار ہوتی ہے۔ ممکن ہے ٹھاکر آ جائیں بازار کرنے۔ اپنے اس وہم پر ایمان لا کر وہ ایک بار پھر بڑے حوصلے سے اٹھیں، وضو کے بدھنے میں گھڑے سے پانی انڈیلا، وضو کیا اور نماز کے لیے وہ چٹائی بچھائی جس پر کپڑے کے پیوند لگے تھے جیسے تیسے نماز کا فرض ادا کیا۔ چھوٹا سا وظیفہ پڑھ کر لمبی سی دعا مانگی کہ اے پروردگار عالم اپنی رحمت کے صدقے میں چیت پور کے ٹھاکر گھنشیام سنگھ کے دل میں یہ نیکی ڈال دے کہ وہ آ کر اپنے کرتے کی ناپ دے جائیں اور میری خوشامد کریں کہ میں کل تک کرتا سی دوں اور مجھے اتنی طاقت دے کہ میں ساری رات لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر کرتا سی سکوں۔ وہ گڑگڑاتے گڑ گڑاتے نڈھال ہو گئیں۔ اسی جانماز پر دوہری ہو کر پڑ رہیں۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی چاپ ہوئی۔ مہترانی ہمیشہ کی طرح دو وقتی کمانے آئی تھی۔ وہ نئی امید سے تازہ دم ہو کر اٹھ بیٹھیں۔
’’بانکے کی بہو۔‘‘
’’بی بی۔‘‘
’’بانکے ہیں گھر پر؟‘‘
’’ہیں بی بی۔‘‘
’’ذرا جلدی سے جا کے بلا لا۔۔۔ کوئی کام نہیں ہے۔ بس ایک بات پوچھنا ہے۔‘‘
وہ الٹے پیروں چلی گئی۔ پھر دروازے پر صدا بلند ہوئی۔
’’سرکار کی بڑھتی ہو۔۔۔ راج پاٹ بنا رہے۔‘‘
’’بانکے۔‘‘
’’سرکار۔‘‘
’’چیت پور تمہاری حجمانی میں ہے؟‘‘
’’ہاں حجور۔‘‘
’’ٹھاکر گھنشیام کو پہچانتے ہو؟‘‘
’’ان کا سرکار کون نائیں پہچانت ہے۔۔۔ دور دور تک ان کا نام باجت ہے۔‘‘
’’بازار تو آتے ہوں گے۔‘‘
’’برابر مالک۔۔۔ برابر۔‘‘
’’تو تم ذرا خیال کر کے ان کو میرے پاس بلا لانا۔ مجھے ایک کام ہے ان سے۔‘‘
’’بہت نیک مالک۔ ابہیں لیو آپ۔۔۔ کا کچھ دور تھوڑے ہے۔‘‘
بانکے تو اپنا چمرو دھا جوتا بجاتا اور رٹی ہوئی دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ لیکن اپنی زبان کی درّا کی پر مالکن پچھتاتی رہیں۔ شرماتی رہیں اور بیٹھی دعا مانگتی رہیں کہ خدا کرے ٹھاکر دروازے پر نہ آئیں بلکہ کسی نوکر کے ہاتھ اپنا کرتا بھجوا دیں۔ ورنہ میں ان سے کس طرح بات کروں گی۔ میں کیا کہوں گی۔ وہ کیا کہیں گے۔ یا اللہ کچھ ایسا کیجو کہ مرنے والے کے سامنے میری آنکھ نہ نیچی ہوں۔
بانکے نے اپنی بکری کے سوپ پیٹھ پر باندھے اور بازار کے ایک نکڑ پر بیٹھ رہا۔ جہاں ادھے کھولے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بیلوں کے گھنگھرو بجاتا اور دھول اڑاتا ٹھاکر کا ادھا آ گیا۔ وہ اپنے سوپ سنبھال کر اٹھا ہی تھا کہ ایک گاہک پھاند پڑا۔ اس نے گاہک کو ٹالنے کے لیے بڑی ٹرّی زبان میں بات کی لیکن اس نے پیچھا نہ چھوڑا۔ آخر پیسے گنتا ہوا وہ ٹھاکر کے پیچھے بھاگا۔ ٹھاکر آدمیوں کو چیرتے ہوئے رام پرشاد کی دوکان پر پہنچے۔ رام پرشاد نے جلدی سے کھڑے ہو کر سلام کیا اور دو ایک گاہکوں کو ہٹا کر دوکان کے باہری پٹری پر دری ڈال دی۔ ٹھاکر نے بیٹھ کر تولیے سے اپنا منہ پوچھا، پھر اسی سے پیروں کی گرد جھاڑی، نگاہ اٹھائی تو سامنے بانکے جھکا ہوا ڈنڈوت کر رہا تھا۔
’’کا ہے رے۔‘‘
’’ایک اُجر (عذر) ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مالکن آپ کا بلائن ہیں۔‘‘
’’مالکن؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ یہاں کے سرکار کی مالکن۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ کا ہے بلائن ہیں۔۔۔ کچھ اتا پتا ہے بھلا۔‘‘
’’یو سرکار آپ جان سکت ہو۔۔۔ ہم کا نائیں معلوم۔‘‘
ٹھاکر چیت پور کے نمبری زمیندار تھے اور میر محمد علی بیگ مرحوم کے ہوا خواہوں میں تھے۔ مرحوم کے ایک ایک فاتحے میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد ادھر بھول کر بھی نہ گزرے تھے۔ اب آج اس اچانک پیام سے گھبرا گئے تھے۔ پھر کچھ سوچ کر فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ چودھری گلاب سے مڈبھیڑ ہوئی۔ چودھری گلاب نے کترا کر نکل جانا چاہا، لیکن ٹھاکر نے دبوچ لیا۔
’’ارے چودھری۔ ای مالکن کا ہے بلائن ہیں ہم کا۔‘‘
چودھری کا خون خشک ہو گیا۔ لیکن ننگے بازوؤں پر انگوچھا پھیلا کر بولے، ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ در اصل ٹھاکر صاحب مالکن نے آپ کو اس لیے تکلیف دی تھی کہ ایک کام کے سلسلے میں انھیں میری ضرورت تھی اور آپ کی سواری تو تھان گاؤں سے نکلتی ہی ہے۔ اسی لیے آپ کو۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ میں کہوں کہ ایسی کیا بات آپڑی۔ پھر ٹھیک ہے۔۔ تو مطلب یہ کہ اب وہاں جانے کی چنتا تو ہے نہیں۔‘‘
’’اب آپ کیوں تکلیف کریں گے۔ میں تو آ ہی گیا۔‘‘
ٹھاکر کے ذہن سے بوجھ ہٹ گیا۔
مالکن چودھری گلاب کا دیا ہوا کرتا دیکھتی رہیں۔ جو سن لائٹ صابن سے پھینچا گیا تھا اور سن لائٹ صابن کی خوشبو میں بسا ہوا تھا۔ شکنیں تک برابر نہیں ہوئی تھیں۔ پھر یہ سوچ کر چپ ہو رہیں کہ جب رونق پور پر یہ بیتی ہے تو چیت پور پر بھی کچھ نہ کچھ تو گزری ہی ہو گی۔ پھر وہ اسی وقت کرتا کاٹنے بیٹھ گئیں۔ جب تک اندھیرا نہ ہو گیا اور ان کو سوئی نظر آتی رہی وہ اسی طرح پرنم آنکھیں جھکائے اپنی تقدیر کا لکھا پورا کرتی رہیں اور روٹی دال کے خواب دیکھتی رہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد انہوں نے پیتل کی وہ لالٹین جلائی جس کی چمنی جگہ جگہ سے ٹوٹی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بھبک اٹھتی تھی، جیسے مالکن کے دکھ پر روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ہوں۔ دکھتے ہوئے سرپر چیتھڑے کی پٹی باندھے رنجور آنکھوں سے کپڑا بڑھائے وہ سلتی رہیں۔ اپنے دسترخوان کے چاک کو بھرتی رہیں، اپنی تار تار جیب کو رفو کرتی رہیں۔ جھاگ ایسی سفید تنزیب کے ویرانے میں لکڑیاں بنتی رہیں، ارہر کی دال چنتی رہیں، اور موتی ایسے صاف صاف گیہوں کے اجلے اجلے آٹے کو گوندھنے کا سامان کرتی رہیں۔ پھر سر چکرانے لگا، آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور وہ بے سدھ ہو کر بانس کے جھنگلے پر دہری ہو گئیں۔
جیسے جیسے چودھری گلاب کے ٹین کے بکس میں مہین سلائی کے پھول ایسے سبک سجل کرتوں کی تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کے چہرے پر جھریوں کا حال اور گہرا ہو گیا۔ کھچڑی بال ایک دم سے پک گئے جیسے پلاؤ کے چاول دودھ میں اُبال کر تھالی میں ڈال دیے گئے ہوں۔ گھر پر سوگ سا چھا گیا۔ گھر والی نے پہلے خود چودھری کو سمجھایا پھر لڑکوں کو ان کے حلقوں سے بلا کر اس مورچے پر لگا دیا۔ پھر تینوں نے مل کر ایک دوپہر کو گھر کے آنگن میں مہابھارت چھیڑ دی۔ جیسے جیسے بات بڑھتی گئی، خون گرم ہوتا گیا۔ چھوٹے نے جو تاڑی کی ایک ہی کھجی میں بولایا تھا کڑک کر کہا،
’’ارے اماں تم کا جانو۔۔۔ یو بڈھا اس بڑھیا مالکن سے پھنسا ہے۔‘‘
بوڑھے چودھری گلاب نرائن جن کی جوانی ان کے اپنے سر کی طرح بے داغ تھی، اس الزام، اس بھیانک الزام کو سن کر دیوانے سے ہو گئے۔ وہ جہاں کھڑے ہوئے چومکھی لڑ رہے تھے وہیں زمین پر دھب سے بیٹھ گئے، یا اس طرح گرے کہ بکھر نہ سکے۔ چھوٹا لڑکا ثبوت دے رہا تھا۔
’’جب بہیا (سیلاب) آئی ہے اوئی سال تو ای جان پر کھیل کے اوکا بدمعاش کا بچاوے گئے رہیں۔۔۔ گئے رہیں کہ نائیں گئے رہیں؟ تم اپنے منہ سے بتاؤ اماں۔‘‘
چودھری گلاب نرائن کی بے نور آنکھوں نے گھر والی کے چہرے پر یقین کی پرچھائیں دیکھ لی۔ گویا شکاری نے زخمی جانور پر دوسرا فیر کر دیا ہو۔ وہ اپنی کانپتی ہوئی ٹانگوں پر اپنے وجود کی لاش اٹھا کر اٹھے اور کڑھتے ہوئے دروازے سے نکلے۔ اپنی چوکھٹ۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر میں ڈالی ہوئی چوکھٹ کو دونوں ہاتھوں سے چوما اور بغیر منہ سے ایک لفظ نکالے، بغیر آنکھوں سے ایک آنسو بہائے اس پختہ کنویں پر چڑھ گئے جس کی جگت آدمی بھر اونچی تھی اور اس طرح ٹوٹ کر گرے جیسے گراری تک آ کر جہازی گھڑے کی رسی ٹوٹ جائے۔ اتنے زور کا دھماکہ ہوا کہ سارا تھان گاؤں ہل گیا۔ گاؤں کا گاؤں الٹ پڑا۔ آدمی کنویں کے اندر اتر گئے۔ چودھری گلاب نرائن نکال بھی لیے گئے۔ لیکن وہ تو اسی وقت مر گئے تھے جب اپنے بیٹے کے منہ سے اپنی مالکن کے ساتھ اپنے تعلق کی بات سنی تھی۔
کہانیوں سے۔۔۔ چٹ پٹی کہانیوں سے انسانوں کو۔۔۔ گاؤں کے ان انسانوں کو جن کے حواس ہر طرح کی بھوک سے بلبلاتے رہتے ہیں۔۔۔ جو پیدائشی محبت ہوتی ہے۔۔۔ جو قاتل محبت ہوتی ہے اس محبت نے چودھری گلاب نرائن کی خودکشی کے خانے میں رنگ بھر لیا اور مشہور ہو گیا کہ مالکن۔۔۔ تو چودھری گلاب نرائن پر میر محمد علی بیگ کی زندگی ہی میں مرتی تھیں۔ ان کے مرنے کے بعد تو اور کھل کھیلیں۔ منے خاں نے کتنا کتنا کہا لیکن وہ چودھری کو چھوڑ کر پاکستان جانے پر رضامند نہ ہوئیں۔ پاکستان جانے پر جہاں لوگ اپنی آل اولاد اپنے محل دو محلے اپنے گاؤں گرام تک چھوڑ کر چلے گئے۔
پھر مالکن کو علاقے کی وہ آوارہ عورتیں ناک پر انگلی رکھ کر گھورنے لگیں جن کی جوانی کی کالی راتیں عاشقوں کے بوسوں کے چراغوں سے جگمگا چکی تھیں۔ وہ مالکن کو گھور رہی تھی۔ ادھیڑ مالکن کی کمر سیدھی تھی۔ ایک سفید لٹ چاندی کے جھومر کی زنجیر کی طرح ان کی پیشانی پر جھولتی رہتی۔ نازک خدوخال کے سفید چہرے پر بھوک نے سائے ڈال دیے تھے لیکن برسوں کی حکومت اور امارت کی بخشی ہوئی تاب ابھی مر نہیں پائی تھی۔ ان گنت جاگتی راتوں نے ان کی آنکھوں کا نشہ سکھا دیا تھا لیکن اب بھی جب وہ پلکیں اٹھا کر آنکھیں پوری کھول دیتیں تو مخاطب کی نظریں چوروں کی طرح راستہ ڈھونڈنے لگتیں۔ نوکرانیوں کے سے پھٹے پرانے کپڑوں میں بھی وہ بیگموں کی طرح جگمگایا کرتیں۔ ان کو دیکھ کر تو ایسی جھوٹی کہانی بھی سچی معلوم ہوتی۔ دور دور تک پھیلی ہوئی بکھری ہوئی ٹوٹی ہوئی عمارت کی یادگار میں وہ محرم کی ایک ’’روشن چوکی‘‘ کی طرح جھلملایا کرتیں۔ دل ہلا دینے والی یادوں کے مؤدّب قافلے ان کی کم نور آنکھوں کے سامنے سے دبے پاؤں گزرتے رہتے۔ چیت، بیساکھ کے جلتے تپتے دن، ساون بھادوں کی روتی ہوئی کلموہی راتیں۔۔۔ سب کھوٹے سکوں کی طرح ان کے وجود کی ’’گولک‘‘ میں کھنکھنایا کرتیں اور وہ ان کی بے فیض ’’جھناجھن‘‘ سے بے نیاز چھوٹی چھوٹی مادی کلفتوں کے ناقابل بیان بوجھ میں دبی کراہا کرتیں۔
ایک دن جب وہ چودھری گلاب نرائن کا انتظار کرتے کرتے سوکھ چکی تھی اور ان دنوں کا، ان بھیانک دنوں کا انتظار کرنے لگی تھیں جو ان کے لیے فاقوں کی سوغات لے کر آنے والے تھے کہ چودھری گلاب نرائن کی خودکشی کی کہانی ٹوٹی دیواروں کو پھلانگ کر ان کے کچے آنگن میں چڑیل کی طرح ناچنے لگی۔ قہقہے لگانے لگی۔ ان کے منہ پر تھوکنے لگی۔ رونق پور کی مالکن کے اس منہ پر تھوکنے لگی جس منہ کے سامنے رونق پور کا سارا علاقہ آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ وہ اٹھ کر بغیر دروازوں کی کوٹھری میں گر پڑیں۔ ننگی زمین کے ٹھنڈے فرش پر دو زانو ہو کر اس خدائے قہار کے سامنے گڑگڑاتی رہیں تو اپنے بندوں پر اپنے پیارے بندوں پر اس لیے مصیبتیں نازل کرتا ہے تاکہ ان کے نفس کا تزکیہ ہو سکے۔ ان کے ایمان پر صیقل ہو سکے۔
پھر اسی دن رونق پور کی پینتیس سال کی زندگی میں پہلی بار انھوں نے چودھری گلاب نرائن کو مرد کے روپ میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا، حویلی کے اندرونی حصے کے دوسرے درجے کے سیاہ ستونوں والے دالان کے پیچھے لانبے کمرے میں جوٹ کی موٹی موٹی چٹائیوں پر فرشی قالین پڑے ہیں۔ ایک طرف چوکے کی مسند پر گاؤ سے لگے ہوئے میر محمد علی بیگ مرحوم بیٹھے ہوئے ہیں۔ دور کونے میں سلگتی ہوئی مہکتی ہوئی سٹک کی کامدار نَے ان کے زانو پر پڑی ہے جس کی گنگا جمنی منہال سے ان کی انگلیاں کھیل رہی اور نگاہیں دیوار گیری پر جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے سامنے ہاتھی دانت کے نازک کام کی بھاری سی میز ناشتے کی پلیٹوں کا بوجھ اٹھائے خوبصورت کنیز کی طرح دو زانو ہے۔ وہ اپنی مسہری سے اٹھیں۔ ایک ہاتھ میں فرشی پائجامے کے بھاری پائینچے لیے دوسرے ہاتھ سے استنبولی بیل سے جھولتے ہوئے دوپٹے کا پلو سنبھالا۔ موٹے موٹے زیوروں سے ہلکی ہلکی زرّیں جھنکار پیدا کرتی ہوئی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور ان کے ململ کے کرتے کی ملی دلی آستین پر انگشتانوں اور انگوٹھیوں سے مرصع ہاتھ رکھ کر بولیں۔
’’تم اتنے اداس کیوں ہو۔۔۔‘‘
’’اداس۔۔۔ نہیں تو۔‘‘
’’نہ تو تم نے غسل کیا۔۔۔ نہ ناشتہ کیا۔۔۔ کتنی دیر سے اسی طرح بیٹھے ہو۔۔۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’غصہ تو نہ کرو گے۔‘‘
’’اُہ۔ ہوں۔‘‘
’’حکیم ڈاکٹر دوائیں کرتے ہیں۔ نصیبے نہیں بناتے۔۔۔ مجھ کوکھ جلی کے مقدر ہی میں اولاد نہیں ہے تو حکیم ڈاکٹر کیا کر لیں گے۔۔۔ میری مانو تو۔۔۔ دوسری شادی۔‘‘
’’چپ رہو۔‘‘
وہ اتنے زور سے گرجے کہ باورچی خانے میں کام کرتی ہوئی عورتوں کے ہاتھ سوکھ گئے۔ کتنی ہی دیر تک ویسی ہی بھیانک خاموشی مسلط رہی۔ پھر ایک عورت سائے کی طرح چلتی ہوئی آ کر تخت کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ مالکن نے اشارے سے پوچھا، ’’کیا ہے۔‘‘
’’تھان گاؤں والا گلاب نرائن ڈیوڑھی پر کھڑا ہے۔‘‘
’’بلاؤ۔‘‘
دالان کے پردے بندھے تھے۔ کمرے کے دروازوں پر چلمنیں پڑی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک اوسط قد کا سوکھا ساکھا سا آدمی آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے کرتے کے ایک مونڈھے پر پیوند لگا تھا۔ نسبتاً اجلی دھوتی پر گھٹنے کے پاس پھانک سلی ہوئی تھی۔ دھوتی سے نکلی ہوئی سوکھی ماری پنڈلیاں گرد میں اٹی ہوئی تھیں، پنجے جوتے میں بند ہونے کی وجہ سے صاف تھے۔ اس کا سر گھٹا ہوا تھا۔ ٹوپی میں بیل کی گوٹ لگی تھی۔ وہ سہما ہوا کھڑا تھا۔ اور دونوں ہاتھوں سے ایک جھولا سنبھالے ہوئے تھا۔
’’دوا لے آئے۔‘‘
’’ہاں سرکار۔‘‘
اس آدمی نے گڑ گڑا کر کہا۔
’’دے دو۔‘‘
اس نے دروازے پر کھڑی ہوئی عورت کو اس طرح جھولا پکڑا دیا جیسے وہ جھولا نہیں شیشے کا پیالہ ہے اور اس میں لبالب عطر بھرا ہوا ہے۔۔۔ پھر آواز آئی
’’اس کو گلاب کو دو آنے پیسے اور خوراک دلوا دو۔‘‘
اب ان کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور وہ یادوں کے میلے میں کھو گئی تھیں۔ جب وہ اپنے آپ کو ملیں تو دھوپ آنگن میں اترنے لگی تھی۔ اور ذہن میں آئے ہوئے جان دینے کے سارے منصوبے دیوالی کے چراغوں کی طرح بجھ چکے تھے۔ وہ باہر نکلی ہی تھیں کہ کمر پر ٹوکرا رکھے اور آدھ بھر کا گھونگھٹ نکالے بانکے کی بہو کمانے آ گئی۔
’’ارے تم چیت پور جاؤ گی۔‘‘
’’ ہاں بی بی۔‘‘
’’ تو ذرا ٹھاکر سے کہہ دینا کہ شام کو اگر بازار آئیں تو مجھ سے مل لیں۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘
مالکن اتنا کہہ کر باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھیں کہ دروازے پر کچھ تند تیز آوازیں شریر لڑکوں کی طرح اچھلنے پھاندنے لگیں۔ مالکن کی نگاہوں کا اشارہ پا کر مہترانی گئی اور تھوڑی دیر بعد ایک لانبی دبلی عورت کے ساتھ واپس آئی جو لعل کنارے کی سفید دھوتی پہنے تھی۔ مہترانی نے اس عورت کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا، ’’ای تھان گاؤں والے چودھری گلاب کیری چھوٹی بہو ہیں۔۔۔ لیلا دھَر کی دولہن۔‘‘
مالکن چونک پڑیں۔ پھر اپنے اعصاب کو سنبھال کر یہ سوچنے لگیں کہ اسے کس طرح مخاطب کریں اور کیا مدارات کریں کہ اس نے اپنی بغل سے مڑے ہوئے کرتے نکالے اور مالکن کے ہاتھ میں پکڑا کر ہر جذبے سے خالی آواز میں منمنائی۔
’’ای کرتے آپے دھر لیو۔‘‘
جملہ پورا کرتے ہوئے وہ تیر کی طرح آنگن ختم کر کے ٹیڑھی میڑھی اونچی نیچی راستوں کے پیچ و خم میں غائب ہو گئی۔ ذرا دیر تک مہترانی نے ان کا جائزہ لیا اور دوسرا گھر کمانے چلی گئی۔ مالکن پھول سے کورے کرتے داہنے ہاتھ میں اٹھائے آنگن میں کھڑی رہیں۔ جیسے زندگی کی لڑائی میں ہار مان لی ہو اور مصیبتوں کے فاتح لشکر کے سامنے سفید جھنڈا کھول دیا ہو۔
شام کو ڈیوڑھی پر کھڑے ہوئے چیت پور کے ٹھاکر گھنشیام سنگھ سے مالکن کہہ رہی تھیں۔
’’اپنے کرتوں کی تنزیب تو آپ بھیجتے رہیے گا لیکن پہلے میرے یہ چاروں کرتے بکوا دیجیے۔‘‘
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/maalkin.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں