فہرست مضامین
تسخیر عالم کا یہودی منصوبہ
ابو الحسن
پیشکش: محمد آصف مغل، ابو عبیدہ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ماخذ: اردو مجلس فورم
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
یہودیوں کی مختصر تاریخ
سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا نوحؑ تک انبیاء کرام کا سلسلہ جاری رہا۔ سیدنا نوحؑ کے بعد سیدنا ابراہیمؑ پہلے نبی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لئے مقرر کیا۔ سیدنا ابراہیمؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں۔ ایک سیدنا اسماعیلؑ کی اولاد جو عرب میں رہی۔ دوسری سیدنا اسحاقؑ کی اولاد، جن میں سیدنا یعقوب، سیدنا یوسف، سیدنا موسیٰ، سیدنا سلیمان، سیدنا یحییٰ، سیدنا عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے بہت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ سیدنا یعقوبؑ کا لقب چونکہ اسرائیل تھا اس لئے ان کی نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔
دوسرے تمام انبیائے کرام کی طرح سیدنا ابراہیم ؑ بھی اسلام کی دعوت لے کر آئے تھے اور اسی خدمت کے لئے وہ دنیا کے امام اور پیشوا بنائے گئے تھے۔ جب آپ کو تمام بنی نوع انسان کا امام بنایا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ کیا میری اولاد کو بھی امام بنایا جائے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے‘‘۔ یعنی میرا وعدہ تمہاری اولاد کے اس حصے سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہو۔ ان میں جو ظالم ہوں گے ان کے لئے یہ وعدہ نہیں ہے۔
چنانچہ سیدنا ابراہیم ؑ کے بعد یہ امامت کا منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو ملا جو سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب علیہما السلام سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ صراطِ مستقیم کی طرف بنی نوع انسان کی رہنمائی کرے۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی اس شاخ نے سیدنا سلیمان ؑ کے زمانے میں بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیا۔
انبیائے بنی اسرائیل کا دین سیدنا ابراہیم ؑ کی طرح اسلام ہی تھا۔ اور انبیائے بنی اسرائیل یا ان کی قوم نے کبھی بھی اپنے آپ کو یہودی نہیں کہا۔ لیکن بعد کے دور میں جب اس خاندان نے جو سیدنا یعقوبؑ کے چوتھے بیٹے یہوداہ کی نسل سے تھا، اپنے آپ کو یہوداہ سے منسوب کر کے یہودی کہنا شروع کر دیا تو یہودیت کی بنیاد پڑی۔ سیدنا سلیمان ؑ کے بعد جب سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو جس حصے پر یہوداہ کے خاندان کے لوگ قابض ہوئے وہ یہودیہ کہلائی اور دوسری سلطنت جس پر بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلے قابض ہوئے سامریہ کہلائی۔ لیکن جب اشوریوں نے سامرہ کو تاراج کر دیا تو صرف یہوداہ اور بن یامین کی نسل باقی رہ گئی جس پر یہوداہ کے غلبے کی وجہ سے پوری قوم پر یہودی کا اطلاق ہونے لگا۔
اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربائیوں نے صدیوں تک اپنے بدعتی خیالات اور خدا فراموشی اور دنیا پرستی پر مبنی رجحانات کے مطابق عقائد، رسومات اور ظاہری مذہبی روایات کا جو بے رُوح ڈھانچہ مرتب کیا وہ یہودیت کہلایا۔
تواتر کے ساتھ بے شمار انبیائے کرام کے مبعوث ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کی اکثریت شیطان کی پیروی کرتے ہوئے انتہائی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتی رہی۔ انہوں نے اپنی جنسی بے راہ روی کا جواز پیدا کرنے کے لئے اپنے انبیاء پر شرمناک بہتان لگائے۔ مادی اور نفسانی فوائد کے حصول میں انبیاء کی تعلیمات کو سد راہ پا کر ان کی تعلیمات کا مذاق اڑایا اور اکثر کو قتل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا لیکن ان لوگوں نے کفرانِ نعمت کیا۔ بد کاریوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ نے تنبیہ کے طور پر ان پر عذاب نازل کئے لیکن یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں ائے۔ اور باوجود اللہ کے احسانِ عظیم کے جو اللہ تعالیٰ نے اس مردود گروہ پر کئے، یہ بار بار احسان فراموشیوں، نافرمانیوں اور غداریوں کا ارتکاب کرتے رہے
سیدنا موسیٰ ؑ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مشرکین آباد تھے۔ تورات میں سیدنا موسیٰ ؑ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان لوگوں سے جنگ کر کے ان سے فلسطین کی زمین چھین لینا اور ان کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا مت ہو جانا۔ لیکن جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہ واضح ہدایات فراموش کر دیں اور بجائے اپنی ایک مرکزی حکومت قائم کرنے کے، اپنے مختلف قبیلوں کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کر لیں۔ ساتھ ہی ان مشرکین کی بھی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم رہیں اور یہودی قبیلے ان میں ایسے گھل مل گئے کہ اپنا دین چھوڑ کر دنیاوی فوائد اور نفسانی لذتوں کے حصول کی خاطر ان کے مشرکانہ عقائد اپنا بیٹھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ان مشرکوں نے آپس میں اتحاد کر کے یہودیوں کو فلسطین کے ایک بہت بڑے علاقے سے بے دخل کر دیا۔ انہیں جب اپنی حماقت کا احساس ہوا تو پھر انہیں اپنے لئے ایک بادشاہ کی ضرورت محسوس ہوئی اور ۱۰۲۰ قبل مسیح میں سیدنا سموئیلؑ کے کہنے پر انہوں نے طالوت کو اپنا بادشاہ مان لیا۔ طالوت نے ۱۰۲۰ قبل مسیح سے ۱۰۰۴ قبل مسیح تک حکومت کی۔ اس کے بعد ۱۰۰۴ قبل مسیح سے ۹۶۵ قبل مسیح تک سیدنا داؤدؑ کی حکومت رہی اور آخر میں ۹۶۵ قبل مسیح سے ۹۲۶ قبل مسیح تک سیدنا سلیمان ؑ نے حکومت کی اور اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ ؑ کی وفات کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔
سیدنا سلیمان ؑ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل پھر شرک، بداعمالیوں اور نفس پرستی میں مصروف ہو گئے، بعد میں مبعوث ہونے والے انبیاء بنی اسرائیل نے انہیں راہ راست پر لانے اور صراطِ مستقیم دکھانے کی بے حد کوشش کی لیکن یہ لوگ باز نہ آئے ا ور ان کی اخلاقی اور اعتقادی حالت خراب تر ہوتی چلی گئی۔
یہودیوں کی گمراہی اور شیطان کی پیروی کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق اور تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی تو ان ا ہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں اور ان چیزوں کی پیروی کرنے لگے جو شیاطین، سلیمان ؑ کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان ؑ نے کبھی کفر نہیں کیا۔ کفر کے مرتکب تو وہ شیطان تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۰۱ تا ۱۰۲)
سیدنا سلیمان ؑ کے بعد کے زمانے میں جب یہودیوں پر اخلاقی اور مادی انحطاط کا دور آیا تو ان کی ساری توجہ جادو ٹونوں اور عملیات کی طرف مبذول ہو گئی اور انہیں شیاطین نے بہکایا کہ سیدنا سلیمان ؑ کی عظیم طاقت ان نقوش اور منتروں کی وجہ سے تھی۔ لہٰذا جادو ٹونا اس زمانے میں عام ہو گیا اور بجائے اس کے کہ یہ جادو کو قبیح فعل سمجھتے، منجملہ اور تحریفوں کے جو یہودیوں نے تورات میں کیں، نہ صرف یہ کہ سیدنا سلیمان ؑ پر نعوذ باللہ جادوگر ہونے کی تہمت لگائی، ساتھ ہی اپنے لئے بھی یہ جواز پیدا کر لیا کہ جادو کر کے شیطان کو قابو میں لانا درست ہے۔ شیطان تو ظاہر ہے کہ ان کے قابو میں کیا آتا، اس نے ان کی خواہشاتِ نفس کے حصول کے لئے جو ترغیبات پیش کیں، ان سے دھوکہ کھا کر یہ خود ہی اس کے جال میں پھنستے چلے گئے اور اس طرح اپنی مخصوص چال کے مطابق شیطان نے ان پر قابو پا لیا اور انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ انہیں اپنے جائز حقوق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنے چاہئیں اور ان کے حصول کے لئے قبیح سے قبیح فعل اور اللہ کے حکم سے صریح بغاوت بھی کرنی پڑے تو وہ درست ہے۔
اپنی ان بداعمالیوں کی وجہ سے وہ عظیم سلطنت جو سیدنا سلیمان ؑ چھوڑ گئے تھے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ شمالی ریاست یہودیہ کہلائے اور جنوبی ریاست سامرہ۔ نویں صدی قبل مسیح میں اشوری فرمانروا سناخریب نے سامرہ پر فوج کشی کی اور ہزاروں یہودیوں کو قتل کر کے باقی ماندہ کو جلا وطن کر دیا۔ دوسری ریاست یہودیہ کی دینی اور اخلاقی حالت شروع میں بہتر رہی لیکن بعد میں وہاں بھی نفس پرستی اور مشرکانہ عقائد رواج پا گئے اور وہ بداعمالیوں میں مصروف ہو گئے۔ اس اخلاقی انحطاط کا انجام یہ ہوا کہ ۵۹۸ قبل مسیح میں کلدانی حکمران بخت نصر نے یہودیہ پر قبضہ کر لیا اور گیارہ سال بعد ۵۸۷ قبل مسیح میں پوری ریاست کو تاراج کر کے یروشلم اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یہودیوں کو وہاں سے نکال کر تتر بتر کر دیا۔
ان تمام اجتماعی مشرکانہ اعتقادات اور بداعمالیوں کے باوجود، اللہ کے ماننے والوں کی بھی کچھ تعداد اس قوم میں باقی تھی۔ ۵۳۹ قبل مسیح میں جب کلدانیوں پر زوال آیا اور ایران کے فرمانروا سائرس اعظم نے بابل کو فتح کیا تو فلسطین بھی جو کلدانیوں کی عملداری میں تھا، اس کے قبضے میں آگیا۔ سائرس اعظم نے فلسطین کو اپنی قلمرو میں شامل کرنے کے بعد یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے اور ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ اور ۵۲۲ قبل مسیح میں دارا اول کے دور میں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ ۴۵۸ قبل مسیح میں سیدنا عزیر ؑ بھی یہودیہ آ گئے اور انہوں نے دین موسوی کی تبلیغ کر کے یہودیوں کی اعتقادی اور اخلاقی اصلاح کرنی شروع کی۔ ۴۴۵ قبل مسیح میں کچھ اور یہودی قبیلے بھی فلسطین واپس آ کر آباد ہو گئے تو شا ہ ایران نے انہیں شہر پناہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی اور بیت المقدس پھر سے آباد ہو گیا۔ یہودیوں کی دوسری ریاست سامرہ کے یہودیوں پر سیدنا عزیر ؑ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے بیت المقدس کے مقابلے میں اپنا ایک علیحدہ دینی مرکز قائم کر لیا اور اس طرح دونوں یہودی ریاستوں میں رقابت شروع ہو گئی۔
سکندر اعظم کے عروج کے ساتھ ہی ایرانیوں پر زوال آگیا اور فلسطین جو ایرانی حکومت کے زیرِ نگیں تھا اب یونانیوں کے زیر اثر آگیا۔ یونانی عقیدتاً مشرک اور دیویوں، دیوتاؤں کے پجاری تھے۔ ان کی حکمرانی کا یہ اثر ہوا کہ یہودیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد، دین موسوی چھوڑ کر حکمرانوں کی ہم عقیدہ ہو گئی۔ لیکن چونکہ ابھی تک سیدنا عزیر ؑ کی تعلیمات کا اثر باقی تھا، ان کے معتقدین نے متحد ہو کر یونانیوں کے خلاف تلوار اٹھائی اور پھر دوبارہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ حکومت ۶۷ قبل مسیح تک قائم رہی۔
اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد یہودیوں میں پھر وہی نفس پرستی اور اعتقادی اور اخلاقی برائیاں عود کر آئیں اور آپس میں جنگ و جدال شروع ہو گیا۔ انتہا یہ ہوئی کہ خود ان ہی میں سے ایک گروہ نے رومن فاتح پومپائی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ ۶۳ قبل مسیح میں اس نے فلسطین کو فتح کر کے یہودی حکومت کا خاتمہ کر دیا لیکن براہ راست حکومت کرنے کی بجائے یہودیوں میں سے اپنا ایک نمائندہ حاکم مقرر کر دیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور ۰۴۰ء قبل مسیح میں جب ہیروڈ فلسطین کا حاکم بنا تو اس نے ایک طرف تو یہودی علماء کی سرپرستی کی لیکن دوسری طرف رومی تہذیب کو بھی فروغ دیا جس سے یہودیوں میں پھر وہی مشرکانہ عقائد عام ہو گئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اخلاقی اور روحانی پستی کی انتہا کو پہنچ گئے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد سیدنا عیسیٰؑ مبعوث ہوئے اور بجائے اس کے کہ یہودی ان کی تعلیمات پر عمل کرتے انہیں سازش کر کے بظاہر مصلوب کروا دیا۔ یہودیوں کی نفس پرستی، اخلاقی پستی اور سازشی فطرت کا انجام یہ ہوا کہ ۷۰ء عیسوی میں رومیوں نے یروشلم کو بزورِ شمشیر فتح کر کے یروشلم کو تاراج اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا۔ یہودی یا تو قتل کر دئیے گئے یا انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔
یہودیوں کی اللہ سے نافرمانیوں، غداریوں اور سازشوں کی تاریخ میں جو رومیوں کی ہاتھوں یروشلم کی تاراجی پر ختم ہوتی ہے، ان میں بے شمار انبیاء پیدا ہوئے جنہوں نے یہودیوں و شیطانی ترغیبات اور گمراہی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ اپنے نفس کی غلامی میں اس قدر آگے جا چکے تھے کہ بجائے فلاح پانے کے سرکشی اختیار کی اور بجائے انبیاء کے احکامات پر عمل کرنے کے ان کی ایسی تاویلات کیں تاکہ اللہ کا دین ان کی اپنی خواہشات کے مطابق ہو جائے اور جب یہ بھی ممکن نہ ہو سکے تو اللہ کی کتابوں میں اپنی حسبِ منشاء تحریف کر دی جائے۔
غرض یہ کہ وہ قوم جو اللہ کی اطاعت کی شرط کے ساتھ عظمت کی بلندیوں کو چھونے کے لئے بنائی گئی تھی شیطان کے تیار کردہ مادی فوائد اور نفسانی خواہشات کی ترغیبات کے سراب کا تعاقب کرتی ہوئی، اپنی جہالت، گمراہی اور اللہ کے احکامات سے بغاوت کی پاداش میں اللہ کے عذاب کی مستحق ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ’’میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے‘‘ پورا ہو کر رہا اور بنی اسرائیل کو اس منصب سے معزول کر کے امامت بنی اسماعیل ؑ میں نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو سپرد کر دی گئی اور ساتھ ہی بیت المقدس جو سیدنا سلیمان ؑ کے زمانے سے مرکز دعوت چلا آ رہا تھا، اسے تبدیل کر کے دوبارہ اسی مکہ مکرمہ کو مرکز دعوت بنا دیا گیا جو سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے زمانے میں تھا۔
انبیائے بنی اسرائیل کے زمانے سے لے کر آج تک یہ اعزاز یہودیوں کو ہی حاصل رہا ہے کہ وہ شیطانی لشکر کے نیزہ بردار بن کی بنی نوع انسان کو دنیا پرستی، خواہشات، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور ارتکازِ دولت کے لئے طرح طرح کے خوشنما الفاظ استعمال کر کے ان بدعنوانیوں کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہودیوں کے لئے نفس پرستی کے تقاضوں کی تکمیل ہی زندگی کا واحد مقصد ہے۔ ان بداعمالیوں کو جائز کرنے کے لئے کتب مقدسہ میں تحریفات کی گئیں اور بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاء سے ایسے ایسے شرمناک گناہ منسوب کئے گئے جو کسی عام آدمی کے لئے بھی باعث ننگ ہوتے۔ تورات میں غیر یہود سے سود لینا حلال کر کے اور ان کی املاک پر ناجائز تصرف کو جائز قرار دے کر معیشت کا وہ بھیانک نظام عالمی پیمانے پر رائج کر دیا گیا جس کے ذریعہ دنیا کی ساری دولت سمٹ کر یہودی تجوریوں میں بھری جا رہی ہے اور پوری بنی نوع انسان معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر ایک نامعلوم یہودی ٹولے کی گرفت میں آ چکی ہے۔
یہودیوں نے اپنے مکروہ شیطانی مقاصد کے حصول کے لئے صرف اپنے ہی مذہب میں تاویلات اور تحریفات کرنے پر اکتفا نہیں کیا، دنیا کے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی شیطان کی فوج میں بھرتی کرنے کے لئے انہوں نے وہی ترغیبات دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اگر کسی قوم پر ان کی یہ ترغیبات اثر نہیں کرتیں تو ان کا دوسرا حربہ جو غالباً پہلے حربے سے زیادہ پرکار ہوتا ہے، یہ ہے کہ اپنے گماشتوں کو اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل کروا کے ان لوگوں یعنی اپنے گماشتوں کو، اپنے لامحدود ذرائع استعمال کر کے اہلِ ایمان کے گروہ میں ممتاز کرواتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے اللہ کے دین میں تاویلات کروا کے دین میں ایسے شبہات پیدا کرتے ہیں کہ اصل دین ہی مسخ ہو جائے۔ اور اللہ کے احکامات سے صریح بغاوت کو ایسے خوشنما انداز میں پیش کرواتے ہیں کہ الفاظ کی بھول بھلیوں اور منطق کی موشگافیوں میں الجھ کر بنی نوع انسان صراطِ مستقیم سے بھٹک کر گمراہی کے شیطانی راستے پر لگ جائے۔
اگلے صفحات میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور پرکار سازشوں کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ یہودیوں کی ایجاد کردہ بظاہر بے ضرر اصطلاحات اور احکامِ الٰہی کی گمراہ کن تاویلات، بنی نوع انسان کو اس شیطانی راستے پر لے جانے میں کتنی کامیاب ثابت ہوئیں جس کی ترغیب دینے کی اجازت شیطان نے مانگی تھی اور اسے دی گئی تھی۔
نصرانیت اور یہودی
قرآن کریم شاہد ہے اور نہ صرف یہ کہ تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے بلکہ خود اس کے معترف ہیں کہ یہودی وہ قوم ہیں جو ازمنہ قدیم سے ہی کبھی اللہ کے واضح احکامات کی نافرمانی کر کے اور کبھی اللہ کے دین میں مین میخ نکال کر، منطقی موشگافیاں کر کے اور صریحی احکامات کو باطنی معنی پہنا کر اللہ کے دین سے انحراف کرتے رہے ہیں۔ یہ کام انہوں نے احکاماتِ الٰہی کی اس طرح تاویلات کر کے انجام دیا کہ نام تو اللہ کے دین کا ہی رہے لیکن اس کی تشریح اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق کی جائے۔
سیدنا عیسیٰ ؑ (جو نبی اسرائیل کے آخری جلیل القدر نبی تھے) نے جب اپنے آپ کو بنی اسرائیل کے سامنے اللہ کے نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور اللہ کے حکم سے وہ معجزات بھی آپ سے ظاہر ہوئے تو سب سے پہلے یہودی علماء نے اور ان کے ا تباع میں ان کی پوری قوم نے آپ کو جھوٹا مدعی نبوت کہا اور مروجہ یہودی شریعت کے مطابق انہیں واجب القتل قرار دیا اور آخرکار ان پر اپنی مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا کر سزائے موت تجویز کی اور برسرِ اقتدار رومی قانون کے مطابق رومی حاکم سے اس کی توثیق کر اکے انہیں بظاہر مصلوب کروا دیا۔
سیدنا عیسیٰ ؑ کے بعد، باوجود یہودیوں کی شدید مخالفت کے، ان کے حواریوں نے سیدنا عیسیٰ ؑ کی دعوت اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جسے قبولیت عام حاصل ہونے لگی۔ چونکہ اس کو روکنا یہودیوں کے بس کی بات نہ تھی لہٰذا انتہائی عیاری اور پرکاری سے یہ سازش کی گئی کہ بجائے اس دعوت کی مخالفت کرنے کے اس میں تحریف کر کے اس تحریک کا رخ اس طرح موڑ دیا جائے کہ اس کی اصل روح یعنی ایمان بالتوحید اور جزا اور سزا کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ یہ کام ایک مشہور یہودی عالم سینٹ پال سے لیا گیا۔ یہ شخص سیدنا عیسیٰؑ کی حیات میں ان کا شدید مخالف تھا۔ لیکن سیدنا عیسیٰؑ کے اٹھائے جانے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کے حواری ان کی تعلیمات کو قبول عام حاصل کروانے میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں تو اس نے ایک ڈھونگ رچایا اور یہ مشہور کیا کہ دمشق جاتے ہوئے اسے آسمان سے زمین تک ایک نور نظر آیا اور سیدنا عیسیٰ ؑ کی آواز آئی کہ ’’اے پال! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟‘‘ اور یہ ہدایت کی کہ میں ایمان لے آؤں اور دین کی خدمت کروں۔ لہٰذا اب میں دینِ عیسوی کے لئے کام کروں گا۔ سینٹ پال کی مفسدانہ طبعیت کی وجہ سے سیدنا عیسیٰ ؑ کے اکثر حواری اس کے اس ذہنی انقلاب پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہوئے لیکن وہ اپنی غیر معمولی فطانت کی وجہ سے انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا اور یہودیوں کی پرکار سازش کے ذریعہ رفتہ رفتہ اسے مسیحی مذہب کا پیشوائے اعظم تسلیم کیا جانے لگا۔ اس کے بعد کے واقعات شاہد ہیں کہ اس نے نہ صرف یہ کہ اللہ کے بندے اور نبی سیدنا عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا تسلیم کروایا بلکہ انہی کی عظمت کے نام پر توحید خالص کا عقیدہ ختم کروایا اور ساتھ ہی کفارے کا عقیدہ بھی دین عیسوی میں شامل کروا دیا۔ یہ بات آج عیسائیوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ دین عیسوی وہ نہیں ہے جو سیدنا عیسیٰ ؑ نے پیش کیا تھا بلکہ ان کے موجودہ عقیدے کا خالق سینٹ پال ہے۔
بعد کے ادوار میں یہودی اپنی سازشوں کے ذریعہ نصرانی کلیسا کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یروشلم سے اپنی آخری جلا وطنی کے بعد جہاں جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے اپنی منظم اور مربوط سازش کے ذریعہ غیر یہود کے باہمی اختلافات کو ہوا دے کر اور منطقی موشگافیاں کر کے ان کے مستند عقائد کو شبہ کا شکار بنایا۔
یہودی ذہن نے نصرانی عقائد میں ترمیمات کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ اس کی اصل منزل کچھ اور تھی اور وہ یہ کہ نصرانیوں کو نفسانی خواہشات کا طابع بنا کر اور مادی خوشحالی کی جدوجہد میں الجھا کر دنیا میں اس قدر پھنسا دیا جائے کہ وہ مذہب ہی سے متنفر ہو جائیں۔ یہ کام ان یہودیوں سے لیا گیا جو طلوع اسلام کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک سے جلاوطن ہونے کے بعد یورپ میں آباد ہو گئے تھے۔ مشہور مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تاریخ کا مطالعہ‘‘ (A Study Of History) میں یہودی مہاجرین کو نصرانی یورپ کی مادی ترقی اور جدے دیت کا بانی قرار دیتا ہے وہ ’’جدید مغرب اور یہودی‘‘ کے زیر عنوان اپنی ’’روشن خیالی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے یہ تو لکھتا ہے کہ مغرب سے دو بڑے جرائم سرزد ہوئے۔ ایک افریقہ سے حبشیوں کو لے کر امریکہ کے باغات میں کام کروانا اور دوسرا یہودیوں کی منتشر قوم کو یورپ سے جلا وطن کرنا۔ لیکن یہودیوں کی جلا وطنی کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے اس حقیقت سے دانستہ اغماض برتتا ہے کہ یہودی جس ملک میں بھی آباد ہوئے انہوں نے اپنے لئے الگ اور غیر یہودیوں کے لئے الگ اخلاقی اور معاشی معیار اختیار کئے۔ آرنلڈ ٹوائن بی یہودیوں کی جلا وطنی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صرف یہ لکھتا ہے کہ یہ وجوہات معاشی تھیں۔ اس کے بقول یہودی نصرانیوں کے مقابلے میں معاشی میدان میں زیادہ باصلاحیت ثابت ہوئے اور یہی دشمنی کی اصل وجہ تھی۔ اوّل تو نصرانیوں نے یہودیوں کی معاشی خوشحالی سے متاثر ہو کر ان کے طور و طریق اپنائے لیکن جب بعد میں ان میں خود ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا تو انہوں نے یہودیوں کو جلاوطنی پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ یہ دور انگلستان میں تیرہویں صدی میں، ہسپانیہ میں پندرہویں صدی میں اور پولینڈ اور ہنگری میں بیسویں صدی میں آیا لیکن بعد کے ادوار میں جب یورپ کے اکثر ممالک معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے تو انہوں نے یہودیوں کو دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں یہودی دوبارہ آباد ہونے شروع ہو گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام عرصے میں یہودی اتنے ذلیل و خوار کیوں ہوئے اور پھر دوبارہ وہ کیونکر ان سب کے لئے قابل قبول ہو گئے۔ تاریخ کے مطالعہ سے صرف ایک وجہ ابھر کر سامنے آتی ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ یہودی جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے غیر یہودی معاشرے کا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاشی استحصال کیا۔ یورپ میں آباد ہونے کے بعد بھی ان کا یہی طرزِ عمل رہا۔ یہاں ان کا واسطہ ایک ایسے معاشرے سے تھا جس میں دینی اور اخلاقی قدریں ابھی زندہ تھیں کلیسا کو معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ جنسی بے راہ روی ابھی تک معیوب خیال کی جاتی تھی لہٰذا اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے یہودیوں نے ان لوگوں کے اخلاق کو تباہ کرنا ضروری خیال کیا۔ اسی مقصد کے پیش نظر ترقی پسندی اور جدے دیت کی اصطلاحیں وضع کی گئیں اور جنسی آزادی کو ترقی پسندی کے نشان کے طور پر استعمال کیا گیا۔ نصرانی کلیسا کے لئے جو اس زمانے میں یورپ میں کافی با اثر تھا یہ اخلاقی باختگی قابلِ قبول نہیں تھی اور نہ ہی عام معاشرہ اپنا معاشی استحصال ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا تھا۔ لہٰذا اکثر یورپی ممالک نے یہودیوں کو جبراً اپنے ہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن یہودی اپنے جلا وطن ہوتے ہوتے ترقی پسندی کی خوشنما اصطلاح کے نام پر معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور زر پرستی کا بیج بو چکے تھے اور خود غیر یہود میں ایسے طبقے وجود میں آ چکے تھے جو یہودیوں کی مادی خوشحالی سے متاثر ہونے کی وجہ سے دینی اخلاقیات کو فرسودہ سمجھنے لگے تھے۔ رفتہ رفتہ مادی ترقی اور نفس پرستی نے مذہبی جذبے کو سرد اور اخلاقی قدروں کو زنگ آلود کر دیا اور یوں وہی یہودی جو کچھ صدیوں پہلے اس معاشرے کے لئے قطعی ناقابلِ قبول تھے اب خود یہودیوں کے رنگ میں رنگے جانے کے بعد نصرانیوں کے لئے قابلِ قبول ہو گئے۔
پچھلی چند صدیوں میں عالمی صیہونیت نے یورپ اور پوری مغربی دنیا سے نصرانیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مغربی فکر کے مطابق مذہب فرسودہ اور لادینیت ترقی پسندی قرار دی جا چکی ہے۔ نصرانی کلیسا اب مکمل طور پر یہودیت کے زیرِ اثر ہے۔ اب ان کی فکر کا انداز وہی ہے جو یہودیوں نے انہیں بخشا ہے۔
نصرانی عقائد میں ان ترمیمات کے علاوہ جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، جدید ترین ترمیم نصرانیوں کے اس عقیدے میں کی گئی کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کو یہودیوں نے مصلوب کروایا تھا۔ یہودیوں کا مدتوں سے یہ منصوبہ تھا کہ اس عقیدے کو تبدیل کروائیں جو منجملہ اور دوسری باتوں کے نصرانیوں کو یہودیوں سے نفرت پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ انہوں نے برسوں اس کے منصوبے بنائے اور بیشمار یہودی مفکرین کو نصرانی کلیسا کی روایات، ان کی فقہ اور ان کے عقائد کے بارے میں تربیت دلوائی گئی اور سازشیں کر کے ان لوگوں کو نصرانی کلیسا میں اعلیٰ مدارج دلوائے اور پھر وہ وقت آیا کہ نصرانی کلیسا کے اعلیٰ حلقوں میں ان کا اثر و نفوذ اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق نصرانیوں کے اس عقیدے کو تبدیل کروا دیا۔ ۱۹۶۴ء (۱۴ ستمبر سے ۲۱ نومبر) کیتھولک کلیسا کی (oecumenical) کونسل کے جو ویٹیکن (روم) میں منعقد ہوئی، یہودیوں کو سیدنا عیسیٰ ؑ کے مصلوب کروانے کے عمل سے بالکل بری الذمہ قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو ’’یہودیوں کے بارے میں اعلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہودی گماشتوں نے کیتھولک کلیسا کی اعلیٰ ترین کونسل سے یہ اعلان جاری کرنے میں کامیابی حاصل کر لی کہ :
’’نصرانیوں کو چاہئیے کہ وہ یہودیوں کو مقہور اور لعنت زدہ قوم نہ سمجھیں۔ نصرانیوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یہودیوں سے نفرت نہ کریں اور ان کا استیصال نہ کریں‘‘۔
نصرانی عقیدے میں یہ بنیادی تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ قطع نظر اس کے کہ تاریخ کو کس طرح توڑ مروڑ کر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ تبدیلی واقعہ گزرنے کے دو ہزار سال کے بعد کروائی گئی ہے۔ اس وقت جو بات زیادہ توجہ کی مستحق ہے وہ یہودیوں کی فطانت ہے کہ وہ کس طرح اپنے منصوبے ترتیب دیتے ہیں اور کس طرح ا ن پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان کی تنظیمی صلاحیت کس قدر زبردست ہے۔
منجملہ دوسرے طریقوں کے جو یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں، دولت کا کردار بہت اہم ہے۔ یہودیوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ ساری دنیا پر اپنا اقتدار قائم کرنے کے لئے صدیوں سے اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں آج دنیا کے بیشتر مالی ادارے ان کی زیرِ تحویل ہیں۔ اپنی دولت کی طاقت استعمال کر کے ہی انہوں نے نصرانی کلیسا کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
صیہونی بزرگوں کی دستاویز میں بار بار دولت کے ارتکاز کا ذکر کیا گیا ہے اور مندرجہ بالا واقعہ سے اس کا پورا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہودیوں نے اپنی ریشہ دوانیوں اور دولت کے استعمال سے نصرانی کلیسا کا وہ الزام جو دو ہزار سال سے یہودیوں پر لگایا جا رہا تھا کس طرح صاف کروا لیا۔
اسلام اور یہودی
جیسا کہ پچھلے صفحات میں بتایا گیا ہے، یہودی، شیطانی گروہ کے نیزہ برادر بن کر ہمیشہ دینِ حق کے خلاف کمر بستہ رہے ہیں اور دین حق کی کھلم کھلا مخالفت سے بھی کام نہیں چلتا تو اپنے گرگوں کو اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل کروا کے اور ان لوگوں سے دین میں تاویلات اور احکاماتِ الٰہی میں تحریفات کرا کے اللہ کے دین کی روح یعنی ایمان بالتوحید کو شرک کی غلاظت سے آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انبیائے بنی اسرائیل کی تعلیمات کو اس طرح مسخ کرنے کے بعد یہی عمل انہوں نے سیدنا عیسیٰ ؑ کی شریعت کے ساتھ کیا اور سینٹ پال کے ذریعہ تثلیث اور کفارہ جیسے عقائد کو ایجاد کروا کے دین حق کو یکسر تبدیل کروا دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کے بعد دین حق سے یہودیوں کی مخالفت دوچند ہو گئی۔ اوّل تو وہ بنیادی مخالفت جو اس شیطانی گروہ کی سرشت میں داخل ہے، دوسرے یہ احساس کہ اللہ نے بنی نوع انسان کی امامت بنی اسرائیل سے چھین کر بنی اسماعیل ؑ کے ایک فرد کے حوالے کیوں کی۔
لہٰذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں نے آپ ا کی شدید ترین مخالفت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت یہودیوں کی بستیاں وادی القریٰ، مدینہ اور خیبر میں تھیں اور ان علاقوں کی تمام تر معاشیات، تجارت اور زراعت ان کے ہاتھوں میں تھی۔ اور اوس و خزرج دو قبیلے ایسے تھے جو یمن سے آ کر مدینہ میں آباد ہو گئے تھے۔ یہودیوں نے ان کی مخالفت کی تھی لیکن چونکہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے، انہوں نے ان دونوں قبیلوں سے رسم و راہ بڑھائی اور سازشیں اور ریشہ دوانیاں کر کے ان میں نفاق کا بیج بو دیا اور انہیں آپس میں لڑوا کر اپنا مقصد حاصل کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ ہجرت کے بعد جب ان دونوں قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان یہودیوں نے مصلحتاً مسلمانوں سے صلح کر لی لیکن اپنی بد باطنی کی وجہ سے جب بھی موقعہ ملا اس معاہدے کو توڑتے رہے۔ قریش سے جنگ ہوئی تو مدینہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف ان سے ساز باز کر لی۔ اُحد اور بدر کی جنگوں میں بھی ان کی تمام تر ہمدردیاں دشمنانِ اسلام کے ساتھ رہیں۔ آخر کار ۴ ہجری میں یہودی، عرب کے مختلف قبائل پر مشتمل بارہ ہزار فوج اکٹھی کر کے مسلمانوں کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار مجاہدین اکٹھے کر سکے لیکن مسلمانوں نے انہیں شکست فاش دی۔ بہت سے مارے گئے اور باقی ماندہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔ مدینہ میں شکست سے دوچار ہو جانے کے باوجود انہوں نے خیبر اور وادی القریٰ میں اپنی طاقت پھر مجتمع کرنی شروع کر دی اور جب ان کی سرگرمیاں حد سے تجاوز کرنے لگیں تو سات ہجری میں مسلمانوں کو جنگ خیبر میں انہیں پھر سزا دینی پڑی۔ یہاں بھی ان کا مکمل استیصال کرنے کی بجائے شکست دینے کے بعد معاف کر دیا گیا لیکن یہ اتنے احسان فراموش تھے کہ اس کے بعد پھر انہیں سازشوں میں مصروف ہو گئے اور بالآخر سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں انہیں ہمیشہ کے لئے جزیرہ نمائے عرب سے باہر دھکیل دیا گیا۔
اس کے بعد جب یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ دین اسلام کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کا مقابلہ طاقت سے کرنا ممکن نہیں تو انہوں نے اسی سازش کو دہرایا جو سیدنا عیسیٰ ؑ کے ساتھ کی تھی۔ یہاں یہ کام سینٹ پال کی جگہ عبداللہ بن سبا کے ذریعہ کروایا گیا۔ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے میں انہیں تھوڑی سی دشواری پیش آئی۔ قرآن مجید چونکہ نبی کریم ا کی حیاتِ طیّبہ ہی میں نہ صرف ضبطِ تحریر میں لایا جا چکا تھا بلکہ ہزاروں حفاظ کو زبانی یاد بھی تھا۔ لہٰذا اس دشواری کے پیشِ نظر قرآن ہی کو مشتبہ بنانے کی سازش کی گئی اور اس کتاب کے بارے میں جس کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی حفاظت اس نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے، اس عقیدے کو شامل کروانے کی سازش کی گئی کہ یہ اصل کتاب نہیں ہے اور اس میں ردّ و بدل ہوئی ہے۔ ساتھ ہی عقائد میں بھی تحریف و تاویل کا وہی نسخہ آزمایا گیا کہ نام تو اللہ ہی کا لیا جاتا رہے لیکن توحید خالص کی بجائے وسیلہ کے نام پر اصنام تراشے جائیں۔ اللہ کے حکم سے صریح بغاوت کر کے اللہ سے مدد مانگنے کی بجائے ان خود ساختہ بزرگوں سے مدد مانگ کر شرک کیا جائے جس کی قرآن واضح ممانعت کرتا ہے۔ نبی کریم کو ظاہر بظاہر آخری نبی مانا جائے لیکن وحی کا سلسلہ قائم رکھ کر دین میں آئندہ کے لئے تحریف کا راستہ کھول دیا جائے اور اللہ کے بتائے ہوئے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کروایا جا سکے۔ جھوٹ، زنا اور بد کاری جیسے قبیح جرائم کو تقیہ اور متعہ کی اصطلاحوں کے پردے میں نہ صرف حلال و مباح بلکہ کار ثواب کا درجہ دلوایا جا سکے۔
اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر عبداللہ بن سبا نے سیدنا عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں اپنی سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا اور امت مسلمہ کو تقسیم کر کے وہ فتنہ اٹھایا جو سیدنا عثمانؓ کی شہادت پر منتج ہوا۔ سیدنا علیؓ کو جمل اور صفین میں مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرایا اور بالآخر خلافتِ راشدہ سیدنا علیؓ کی شہادت کے ساتھ ختم ہو گئی۔
یہودیوں کا انتقام یہاں ختم نہیں ہوا۔ سیدنا علیؓ کی شہادت کے کچھ عرصے بعد وہ یزید جیسے شخص کو حکومت دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہودی سازشیوں کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ ان کے اکثر ذی علم اور تربیت یافتہ لوگوں نے ظاہر بظاہر اسلام قبول کر لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد، دین میں ان بدترین بدعتوں کو فروغ دینا شروع کر دیا جن کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ یہ کام کمال فطانت اور عیاری سے کیا گیا۔ یہودیوں کی ان سازشوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم آج تک ان بے مقصد بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں جو ان مردودوں نے اس وقت شروع کی تھیں۔ بے شمار مسلمان اہلِ علم و دانش کو ان شیطانی وسوسوں، بدعات اور بد عقیدگیوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے اپنی عمریں گزرانی پڑیں جنہیں عبداللہ ابن سبا اور اس کے یہودی ٹولے نے اسلام میں رواج دینے کی کوشش کی تھی۔
ان بد طینتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو بھی مشتبہ بنانے کی زبردست کوشش کی لیکن الحمدللہ خلفائے راشدین اور بعد کے مسلمانوں نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ کے متعلق کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے اور جتنا جتنا ان مردودوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف غلط احادیث گھڑنے کی کوشش کی، اس سے زیادہ شدت کے ساتھ مسلمانوں کے جیّد محدثین حدیثوں کے بارے میں محتاط سے محتاط تر ہوتے چلے گئے اور اس طرح احادیث صحیحہ کا تمام ذخیرہ محفوظ و مامون کر لیا گیا۔
بدقسمتی سے اسلامی تاریخ یہودی سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں اور جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہے اس کے پس پردہ یہودی یا مسلمانوں میں ان کے گماشتے رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی یہ سازشیں کرتے رہے اور گو اس میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں، خواہ وہ بنی امیہ کا زوال ہو یا بنی عباس کا، ہندوستان میں میر جعفر یا میر صادق کی غداری ہو یا ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ منتشر ہونا۔ مصر میں مسلمان علماء کا قتل عام ہو یا پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش ہر ہر جگہ یہودی ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔
صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات
اس کے باوجود کہ نبوت اور امامت کا منصب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے چھین کر سیدنا اسماعیل ؑ کی اولاد (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم) کو عطا فرما دیا، یہودی بزعم خود بنی اسرائیل کی وراثت کے دعویدار بن کر ابھی تک اپنے آپ کو اللہ کی منتخب کردہ قوم ہی سمجھے جا رہے ہیں اور اس بات سے دانستہ اغماض برتتے ہوئے کہ دنیا کی امامت کا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں تھا، اپنے آپ کو دنیا پر حکمرانی کا حقدار سمجھتے ہیں۔ اللہ کے واضح اور روشن احکامات سے بغاوت کی پاداش میں یہ قوم تقریباً دو ہزار سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے لیکن بجائے اپنے اعمال میں اصلاح کرنے کے، اپنے احساسِ محرومی اور ناامیدی کے ردِ عمل میں انسانیت کے خلاف قبیح ترین سازشوں میں مصروف ہے۔ یہودیوں کی تمام تر تاریخ دھوکہ دہی، جرائم، عیاری اور تخریب کاری سے عبارت ہے۔ پچھلی بیس صدیوں میں فلسطین نکالے جانے کے بعد جس ملک نے بھی انہیں پناہ دی انہوں نے اس قوم کے خلاف سازشیں اور غداریاں کیں۔
جیسا کہ پچھلے صفحات میں ذکر ہو چکا ہے کہ رومیوں نے ا نہیں ۷۰ ء میں یروشلم سے ملک بدر کر کے تتر بتر کر دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد حالانکہ مسلمانوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہا تھا لیکن ان کی سفلہ فطرت نے ان سے سازشیں کرائیں اور آخر کار مجبور ہو کر سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں انہیں عرب کی سر زمین سے نکال دیا گیا بعد کے ادوار میں ان کی اکثریت یورپ کے ملکوں میں آباد ہو گئی۔ لیکن وہاں بھی یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے ہسپانیہ اور پرتگال سے نکالے گئے۔ اس کے بعد ۱۲۹۰ء میں انگلستان سے نکالے گئے مگر وہاں سے نکلنے کے بعد ان کے کچھ قبیلے رفتہ رفتہ پھر ہسپانیہ میں آباد ہو گئے لیکن چودھویں صدی میں انہیں پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ یہی عمل ان کی ساتھ ۱۳۷۰ء میں بلجیم کی حکومت نے کیا۔ بعد میں ۱۳۸۰ء میں چیکو سلاویہ سے ۱۴۴۴ء میں ہالینڈ سے، ۱۵۱۰ء میں روس سے، ۱۵۴۰ء میں اٹلی سے اور ۱۵۵۱ء میں جرمنی سے جلا وطن کئے گئے۔ بعد میں نازی جرمنی نے بیسویں صدی عیسوی کی تیسری اور چوتھائی دہائی میں، یہ یقین کر لینے کے بعد کہ یہ اپنی کمینہ فطرت سے باز آ ہی نہیں سکتے، ان کا مکمل استیصال کرنا چاہا۔ لاکھوں گیس چیمبر کی نذر ہو گئے اور باقی لاکھوں کی تعداد میں بھاگ کر یورپ کے دوسرے ممالک اور امریکہ میں آباد ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلی بیس صدیوں سے یہ قوم اپنی اس گم گشتہ عالمی حکومت اور اقتدار کے حصول کے لئے سازشیں کر رہی ہے جس کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا۔ وہ ابھی تک اس بادشاہ کو لانے کی تیاری کر رہے ہیں جس کی مرکزی حکومت یروشلم میں ہو گی اس ’’اعلیٰ‘‘ مقصد کے حصول کے لئے یہ قوم پوری بنی نوع انسان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
اسی منصوبے کے پیش نظر تھیوڈور ہرٹزل (Theodore Herzel) نامی ایک آسٹرو ہنگیرین یہودی نے ۱۸۹۵ء میں فرانس میں ایک رسالہ لکھا جس میں ایک آزاد یہودی ریاست کی تجویز پیش کی گئی اور اس کے بعد ۱۸۹۸ء میں اس نے سوئٹزر لینڈ کے شہر باسل (Basle) میں پہلی عالمی یہودی کانگریس منعقد کی جس میں دنیا بھر کے بہترین یہودی دماغوں نے شرکت کی۔ اس کانگریس میں یہودی مفادات کے لئے ساری دنیا میں تخریب کاری، انقلابات، ارتکازِ دولت اور اسی قسم کے دوسرے منصوبے ترتیب دئیے گئے۔
اس منصوبے کے رہنما خطوط کی تفصیلات مرتب کر کے ضبط تحریر میں لائی گئیں اور اس پر ان نمائندوں نے دستخط ثبت کئے۔ اس کی نقول صرف یہودیوں کی سر بر آوردہ شخصیات کو محدود تعداد میں تقسیم کی گئی تھیں لیکن خوش قسمتی سے ان دستاویزات کی ایک نقل ایک گھریلو ملازمہ نے یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن کی ا یک اعلیٰ رہنما خاتون کے ہاں سے چوری کر کے ایک روسی پادری سرجی نائلس (Sergei A. Nilus) کے حوالے کر دی۔ یہ مسودہ غالباً عبرانی زبان سے روسی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ پروفیسر سرجی نائلس نے جب اسے پڑھا تو اس بھیانک سازش کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد اس کے ہوش اڑ گئے اور اس سازش کو طشت از بام کرنے کے لئے اس نے ضروری سمجھا کہ اسے کتاب کی شکل میں چھپوا کر تقسیم کیا جائے۔
اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کا ایک نسخہ ۱۹۰۵ء میں برٹش میوزیم میں پہنچا۔ روس میں مارننگ پوسٹ کا نمائندہ وکٹر۔ ای۔ مارسڈن روس میں سزا بھگتنے کے بعد لندن پہنچا تو اس نے برٹش میوزیم والے نسخے کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اگلے صفحات میں جو اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے یہ اسی انگریزی کتاب کا ہے۔
اس کتاب کے سلسلے میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جوں ہی یہ شائع ہوتی ہے بازار سے غائب ہو جاتی ہے۔ روس میں بالشویک انقلاب آنے کے بعد اس کتاب کی مانگ بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر نے بھی اسے کئی زبانوں میں شائع کرایا لیکن یہودیوں نے کبھی بھی اسے زیادہ عرصہ بازار میں نہیں رہنے دیا۔
پروفیسر سرجی نائلس کی رائے میں یہ دستاویزات کسی جلسے کی روئداد نہیں ہیں بلکہ یہ یہودیوں کے کسی سر بر آوردہ شخص کی یادداشتیں ہیں اور ان یادداشتوں کے کچھ حصے یا تو اتفاقاً ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئے ہیں یا عملاً حذف کر دئیے گئے ہیں۔ جنوری ۱۹۱۷ء میں نائلس نے اس کتاب کا ایک اور ایڈیشن شائع کرنا چاہا تھا لیکن قبل اس کے کہ یہ بازار میں آتا مارچ ۱۹۱۷ء میں بالشویک انقلاب آگیا اور بالشویک حکومت نے اس کی ساری جلدیں جلوا دیں۔ نائلس کو گرفتار کر کے اوّل حوالہ زنداں کیا گیا اور بعد میں اسے جلاوطن کر دیا گیا جہاں ولاڈیمیر میں وہ ۱۳ جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پا گیا۔
طبع شدہ کتابی شکل کے علاوہ ان دستاویزات کی ٹائپ شدہ نقول بھی تقسیم ہوتی رہیں اور خفیہ طور پر پڑھی جاتی رہیں۔ ان ہی نقول میں سے باریک کاغذ پر چھپی ہوئی ایک نقل روسی بندرگاہ ولاڈی وسٹک کے راستے اگست ۱۹۱۹ء میں امریکہ پہنچی۔
نائلس کے خیال میں یہ منصوبہ نصرانیت کے خلاف ایک سازش تھا لیکن ان دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہو گا کہ یہ سازش صرف نصرانی مذہب اور تہذیب کے خلاف ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب اور تہذیبوں کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے۔
بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دنیا میں جو بڑے بڑے واقعات رو نما ہوئے وہ اسی نہج پر ہوئے جس کا راستہ خفیہ یہودی تنظیم نے پہلے سے متعین کر دیا تھا۔ وہ عالمی جنگیں ہوں یا معاشی بحران، انقلابات ہوں یا قیمتوں میں اضافہ یا وہ عالمگیر بے چینی جس کا شکار اس وقت دنیا کے سارے ممالک ہیں، ان سب باتوں کی پیشگوئی ان دستاویزات میں کر دی گئی ہیں۔
یہ دستاویزات جو تعداد میں چوبیس ہیں، ان منصوبوں کا خلاصہ ہیں جو برسوں کی کاوش کے بعد یہودیوں کے بہترین دماغوں نے ترتیب دئیے ہیں۔
یہ دستاویزات عام کتابوں کی طرح نہیں پڑھی جانی چاہئیں۔ ان کے مندرجات بہت غور و فکر اور تجزیہ کے متقاضی ہیں۔ ان کے پڑھنے کے بعد اندازہ ہو گا کہ بہت سی باتیں عام قاری کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ لہٰذا ان دستاویزات کے مضمرات سمجھنے کے لئے انہیں نہ صرف بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ جب تک پوری دستاویزات کا بغور مطالعہ نہ کر لیا جائے انہیں سمجھنا مشکل ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دستاویزات یہودیوں کے بہترین دماغوں کی مرتب کی ہوئی ہیں اور جن لوگوں کے لئے انہیں یادداشت کے طور پر قلمبند کیا گیا ہے وہ خود بھی یہودی قوم کے اہل علم و دانش ہیں جنہیں سمجھانے کے لئے صرف اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے اور تفصیلات میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کہیں کوئی ضمنی حوالہ دے دیا گیا ہے اور کہیں صرف ایک آدھ لفظ کا استعمال کافی سمجھا گیا ہے جو کسی غیر یہودی کے لئے معمہ معلوم ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عام یہودیوں کے لئے بھی جنہیں اس خفیہ سازش میں شریک نہیں کیا گیا، اس منصوبے کے مضمرات ناقابلِ فہم ہی ہوں گے۔
ان دستاویزات کو یادداشت یا حوالہ کے طور پر ضبط تحریر میں لایا گیا تھا تاکہ یہ یہودی اہل دانش کے فکر و عمل کی معینہ خطوط پر رہنمائی کر سکیں۔ لہٰذا انہیں بار بار اور غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
ان دستاویزات میں مذکورہ منصوبے کے عین مطابق پچھلی ایک صدی میں نہ صرف نصرانی مذہب کی قوت اور تہذیب کا مکمل استیصال کر دیا گیا ہے بلکہ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ جو امت مسلمہ کے لئے مرکزی کردار ادا کر رہی تھی اسے بھی پارہ پارہ کیا جا چکا ہے اور اس کے بعد جہاں جہاں سے اسلام کی آواز اٹھ سکتی تھی اسے نام نہاد مسلمان ترقی پسند احمقوں کے ذریعہ تہ تیغ کروا دیا گیا۔ کہیں چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں عصبیت کا زہر داخل کر کے ایک دوسرے کا خون کروایا گیا، کہیں مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹ کر انہیں انتشار کا شکار بنایا گیا اور کہیں ترقی پسندی اور مغربی تہذیب کی فرزندی کروا کے مسلمانوں کے جذبۂ حریت کو کند کیا گیا اور کہیں آزادیِ نسواں کی تحریک چلوا کر عورت کی عریانی فحاشی اور بد کاری کو سند جواز عطا کی گئی۔ ان تمام مختلف طریقہ ہائے کار کا ذکر ان دستاویزات میں موجود ہے۔
عام مسلمان خواہ وہ ترکی میں ہو یا مصر میں، پاکستان میں ہوں یا انڈونیشیا میں یا دنیا کے کسی اور ملک میں، اسلامی اقدار کے خواہشمند ہیں لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہودی، مسلمان ملکوں کی اکثریت میں اپنے گماشتوں کے ذریعہ ان ملکوں کے اقتدار پر قابض ہو چکے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان، یہودیوں کے ایجاد کردہ قومیت کی عصبیتوں اور نام نہاد فرقوں کے اختلافات کو اللہ کے احکامات کی روشنی میں دیکھیں اور محسوس کریں کہ کیا اللہ کے واضح اور روشن احکامات سے بغاوت کر کے بھی مسلمان رہ سکتے ہیں۔ کیا اللہ کا واضح حکم یہ نہیں ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں، کیا یہ حکم نہیں دیا گیا کہ فرقوں میں مت بٹ جانا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو قومیت کے نعرے بلند کر رہے ہیں یا امت مسلمہ کو فرقوں میں تقسیم کر رہے ہیں، اللہ کے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں یا یہودیوں کے شیطانی ٹولے کی ا ور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کو ماننے والے یہودیوں کی شیطانی ہدایات کا اتباع کریں اور پھر بھی مسلمان کہلائیں؟
صرف پچھلی ایک صدی کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ہم نے اللہ کے حکم سے روگردانی کر کے اور یہودیوں کے طاغوتی نعروں اور اصطلاحوں کو قبول کر کے کیا کھویا اور کیا پایا۔
آئندہ صفحات میں چند بڑے بڑے سانحے اختصار سے بیان کئے جا رہے ہیں تاکہ مسلمان خود اندازہ کر سکیں کہ یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کیا ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں …..