گھیراؤ
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی
پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔
تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔
ممی چلا رہی تھیں: "جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔”
ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ "ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” ہما نے کہا۔
"امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔” ڈولی بولی۔
شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: "سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔”
ڈولی بولی: "بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔”
شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کیا؟”
"ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔”
"ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔” ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔
"آئی ایم سوری۔” ڈولی غلطی مان گئی۔
ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: "ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔”
شہیر نے مشورہ دیا: "کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔”
"گھیراؤ!” ڈولی نے پوچھا: "یہ کیا چیز ہوتی ہے؟”
"ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔”
ہما نے کہا: "ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔”
ڈولی بیچ میں بول پڑی: "پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔”
"بالکل۔” شہیر نے کہا۔
ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔”
"اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔” ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔
ڈولی تلملا کر بولی: "چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔”
ہما نے اسے چڑایا: ” رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”
"اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔”
اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: "شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔”
"مت جاؤ بھیا۔” ڈولی نے کہا۔
"نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔” شہیر کانپتے ہوئے بولا۔
ڈولی ہنس کر بولی: "لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔”
"تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔” یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔
ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔
"ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔” اس نے بتایا۔
ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: "آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔”
ڈولی بولی: "یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔”
شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: "کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟”
"بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آگئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” ڈولی بولی۔
شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: "ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔۔۔ ۔۔”
اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: "ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔۔۔ ۔” گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔
ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔
ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: "ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔”
ہما نے کہا: "آ جائیں گے۔”
ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: "کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟”
ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔”
اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔
ڈولی ہما کے کان میں بولی: "گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔”
"لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔” ہما بولی۔ "کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔” ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: "بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔”
"تیس ہزار!” ممی کھل اٹھیں۔
"ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔”
ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: "ہپ ہپ۔”
چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: "ہرا!”
ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔
"ارے تم دال لینے نہیں گئے؟” ممی نے پوچھا۔
"ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔” شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔
٭٭٭
٭٭٭
ٹائپنگ:مقدس
پروف ریڈنگ : اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید